امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت13%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180620 / ڈاؤنلوڈ: 4527
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

عقل  کے تکامل سے معاشرے میں خلوص و محبت کی ایسی فضا قائم ہوجائے گی کہ سب عقل کامل ہونے کی وجہ سے پیار،محبت،یگانگت اور اتحاد ایجاد کرنے کی کوشش کریں گے۔اس زمانے میں اجتماعی زندگی میں مہر و محبت ہوگی کہ سب اپنے مال میں دوسروں اور دوسروںکے مال میں خود کو شریک سمجھ کر اس سے استفادہ کریں گے اور یہ سب امام عصر علیہ السلام کے عادلانہ نظام اور حکومت الہٰی کے حاکم ہونے کی وجہ سے ہوگا۔پھر انسان تکامل عقل سے بہرہ مند ہوکر پیار،محبت،اخوت اور بھائی چارے کی دنیا کی طرف گامزن ہوجائیں  گے۔

اب ہم جو روایت پیش کر رہے ہیں۔اس پر توجہ کریں:

امام محمد باقر  علیہ السلام نے سعید بن حسن سے فرمایا:

'' أیجیء احدکم الی اخیه فیدخل یده فی کیسه ،فیأخذ حاجتة فلا یدفعه؟فقلت:ما أعرف ذلک فینا

فقال ابو جعفر:فلا شیء اذاً قلت:فالهلاک اذاً،فقال:ان القوم لم یعطوا احلامهم بعد''(۱)

کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو اپنے دینی بھائی کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس سے حسبِ ضرورت لے لے اور صاحبِ مال بھی اسے منع نہ کرے؟

میں نے جواب میں کہا!ہم نے اپنوں میں ایسا نہیں دیکھا۔

امام  نے فرمایا:اس بناء پر ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔

میں نے کہا!پس کیا اب ہم ہلاک و گمراہ ہوجائیں گے؟

--------------

[۱]۔ اصول کافی :ج۱ص۱۷۳،بحارالانوار: ج۷۴ص ۲۵۴

۱۲۱

امام نے اس احتمال کی نفی کرتے ہوئے فرمایا!ابھی تک لوگوں کو ان کی عقلیں عطا نہیں ہوئیں۔

اس روایت کی بناء پر جب تک معاشرہ ایسی اعلیٰ صفات کا مالک نہ بن جائے،تب تک وہ کامل عقل سے بہرہ مند نہیں ہے۔امام محمد باقر  علیہ السلام کے فرمان کے مطابق ابھی تک ان کو عقلیںنہیں دی گئی ہیں۔

گویا معاشرے کے لئے تمام عقلی قوّتوں سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔جس طرح لوگ سونے کے خزانوں کو خاک تلے پنہاں کردیتے ہیں،اسی طرح لوگوں نے اپنی فکری قدرت و طاقت کو بھی زیرِ خاک دفن کر رکھا ہے۔

لیکن اس وقت انسان کی عقلیں کامل ہوجائیں گی ۔جس کے نتیجے میں نہ صرف بخل بلکہ تمام صفات رذیلہ بھی زائل ہوجائیں گی،بری اور نا پسندیدہ عادات ختم ہوجائیں گی۔پھر سب اعلیٰ انسانی خصوصیات و صفات سے سرشار ہوں گے۔کیونکہ یہ کامل عقل کا لازمہ ہے۔

  عصر ظہور میں تکامل عقل کی وجہ سے ناپسندیدہ صفات پر غلبہ

خاندانِ عصمت و طہارت علیہم السلام کے خاص اصحاب اور اولیاء خدا نے ایسے اعمال انجام دیئے کہ جن کے نتیجہ میں وہ ناپسندیدہ صفات و عادات پر غالب آگئے اور انہوں نے اپنی عقلائی قوت سے طبائع سوء کو مغلوب و مقہور کرکے کمال کے درجہ تک رسائی حاصل کی۔

۱۲۲

یہ ایک فطری و طبیعی موضوع ہے کہ جب عقل کامل ہوجائے تو وہ نہ صرف برے اعمال و کردار بلکہ بری عادتوںپر بھی غالب آجاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

''والعقل الکامل قاهر الطبع السوء '' (۱)

عقلِ کامل ، بری طبیعت پر غالب آجاتی ہے۔

اس بناء پر کامل عاقل اپنی تمام بری صفات حتی کہ ایسی صفات پر بھی قاہر و غالب آجاتا ہے کہ جو اس کی ذات کا حصہ بن چکی ہوں۔پھر وہ انہیں عقلی قوّت کے ذریعے مقہور و مغلوب کرے گا۔

حضرت مولا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے فرمان سے یہ اہم نکتہ حاصل ہوتا ہے کہ اولیاء خدا اور صاحبانِ عقل کامل میں اعلیٰ و بلند مقامات پر فائز ہونے سے پہلے بری عادتوںکا ہونا ممکن ہے۔

یہ ایسے لوگوں کے لئے بشارت ہے کہ جو خود کو طبیعت و صفات بد کا مالک سمجھتے  ہیں۔وہ ناامید نہ ہوں بلکہ خود کو دعا و کوشش کے ذریعے کمال تک پہنچائیں۔حتی حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اسی روایت میں کمال تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں افراد کو عملی راہ بھی دکھا دی اور ایک وظیفہ کے عنوان سے فرمایا۔

''وعلی العاقل ان یحصی علی نفسه مساویها فی الدین والرأی والاخلاق والادب فی  جمع ذلک فی صدره او فی کتاب و یعمل فی ازالتها '' (۲)عاقل کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی تمام برائیوں کو دین، رائے اوراخلاق و ادب میں شمار کرے اور انہیں اپنے حافظے میں یا لکھ کر جمع کرے اور انہیں ختم کرنے کے لئے کوشش کرے۔

--------------

[۱]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۶

[۲]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۶

۱۲۳

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے تمام عقل مندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غلطیوں کو یاد کرکے انہیں زائل و برطرف کرنے کی کوشش کریں۔یہ ایک ایسا بہترین آئین  و اصول ہے کہ اگر اس کے مطابق عمل کریںتو یہ آپ کو اعلی ٰ مقامات تک پہنچا کر معنویت کے طولانی راستے کو نزدیک کردے گا۔

کیونکہ اس کام سے آپ کے تجربات میں اضافہ ہوگا اور جس کا تجربہ زیادہ ہو،اس کی عقل زیادہ ہوتی ہے جس کی عقل زیادہ ہو وہ سو سالہ راستہ جلد ہی طے کرلیتا ہے۔

تجربہ کی وجہ سے عقل کی زیادتی،ایسا نکتہ ہے کہ جس کی حضرت امیرالمؤمنین  نے اسی روایت کے آغاز میں تصریح فرمائی ہے:

''العقل عقلان:عقل الطبع و عقل التجربة و کلاهما یؤدی الی المنفعة '' (۱)

عقل دو طرح کی ہے۔ عقل طبیعی اور عقل تجربی ۔یہ دونوں انسان کو منفعت تک پہنچاتی ہیں۔

اس بناء پر افراد کی ذاتی و فطری عقل کے علاوہ تجربی عقل بھی وجود رکھتی ہے۔جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام نے فرمایا کہ دونوں عقلیں منافع پر منتہی ہوتی ہیں۔

ان تمام مطالب سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں۔

۱ ۔ عقل دو طرح کی ہے،ذاتی و تجربی

۲۔ جس طرح ذاتی عقل انسان کو منافع اور خوبیوں تک پہنچاتی ہے تجربی عقل بھی اسی طرح ہے۔

--------------

[۱]۔ بحارالانوار: ج۷۸ص۶

۱۲۴

۳ ۔عاقل پر واجب ہے کہ وہ اپن ی اخلاقی و دینی برائیوں کویاد کرکے انہیں ختم کرنے کی کوشش کرے۔

۴۔ انسان کو ماضی میں سرزد ہونے والی غلطیوں کی وجہ عالی و بلند مقامات تک پہنچنے سے ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہئے۔بلکہ اسے حضرت امیر المؤمنین علی  علیہ السلام کے فرمان سے درس لے کر اپنے مستقبل کے لئے پُر امید ہونا چاہئے۔

۵ ۔ خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے خاص اصحاب اور تمام اولیاء خدا ابتداء ہی سے عظیم ذات اورنیک طبیعت کے مالک نہیں تھے۔بلکہ انہوں نے زحمت و کوشش سے وہ مقام حاصل کیا۔

۶۔ کامل عقل یا اولیاء خدا اپنی بری صفات پر قوّہ عقل کے ذریعہ غلبہ حاصل کرتے ہیں۔

۷ ۔ ہر کامل عقل کا مالک اعل ی مقامات کا مالک ہوتا ہے کیونکہ جو عقلِ کامل اورسالم طبیعت  رکھتا ہو وہ عالمِ ملکوت کے ساتھ ارتباط پیدا کرکے ملکوتی ہو جاتا ہے۔

ایسے افرادشرح صدر پیدا  کرتے ہوئے نور الٰہی کے مالک بن جاتے ہیں  اور اسی نور الٰہی کی وجہ سے حقائق کو دیکھتے ہیں۔

خدا وند متعال کا قرآن میں ارشاد  ہے:

''أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلِْسْلَامِ فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِّن رَّبِّهِ فَوَیْْل لِّلْقَاسِیَة ِقُلُوبُهُم مِن ذِکْرِ اللَّهِ أُوْلٰئِکَ فِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ '' (۱)

کیا وہ شخص جس کے سینے کو خد انے اسلام کے لئے کشادہ کر دیا ہے تو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نورانیت کا حامل ہے، گمراہوں جیسا ہوسکتا ہے !افسوس ان لوگوں کے حال پر جن کے دل ذکر خدا کے لئے سخت ہو گئے ہیں تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔

--------------

[۱]۔ سورہ زمر ،آیت:۲۲

۱۲۵

جی ہاں !کمال عقل کے ذریعہ راستہ پانے والے افراد ایسے ہیں کہ جن کے قلب بینا ہیں اور جنہوں نے دل کے اندھے پن سے نجات حاصل کرلی جو کہ بدترین اندھا پن ہے۔

حضرت محمد مصطفیٰ(ص) نے فرمایا:

''  شرّ العمی عمی القلب '' (۱)

بدترین اندھا پن، دل کا اندھا پن ہے۔

  عالم غیب سے ارتباط

یہ واضح ہے کہ جب کوئی دل کے اندھے پن سے نجات حاصل کرے اور اس کا دل روشن ہوجائے تو وہ درخشاں انوار کا واضح مشاہدہ کر سکتا ہے۔ایسا دل حضرت امام آخرالزمان (عج) کے مبارک نور سے منوّر ہو جائے گا۔جس طرح حضرت '' ھالو "(۲) امام عصر علیہ السلام کی آواز سن کر سمجھ جاتے تھے کہ امام آخرالزمان (عج) انہیں دنیا کے کس حصے سے آواز دے رہے ہیں۔وہ آواز سن کر خود کو امام کے محضر میں پہنچاتے،وہ بھی دل کی آنکھوں سے آنحضرت کودیکھتے تھے۔حضرت امام سجاد علیہ السلام  ایک طولانی روایت میں  ارشاد فرماتے ہیں:

--------------

[۵]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۵۱

[۲] ۔ حضرت ھالو ظاہراََ ایک عادی فرد تھے وہ اصفہان میں کام کرتے تھے لیکن حقیقت میں امام عصر کے مأمورین میں سے ایک تھے۔ آنحضرت بعض کام انجام دینے کے لئے انہیں مأمور فرماتے تھے ۔

۱۲۶

'' اَلا انّ للعبد اربع أعین:عینان یبصربهما امر دینه و دنیاه و عینان یبصربهما امر آخرته، فاذااراد اللّه بعبد خیراََ فتح له العینین الّتین ف قلبه فابصر بهما الغیب وامر آخرته و اذا اراد به غیر ذالک ترک القلب بما فیه '' (۱)

آگاہ ہو جاؤ !  بندے کی چار آنکھیں ہیں ۔ دو آنکھیں ایسی ہیں کہ جن سے اپنے دین و دنیا کے امر دیکھتا ہے اور دو ایسی آنکھیں ہیں کہ جن سے اپنی آخرت کے معاملات کو دیکھتا ہے۔ جب بھی خد ا کسی بندے کے لئے خیر کا ارادہ کرے تو اس کے دل میں پنہاں اس کی دو آنکھیں کھول دیتا ہے۔پس وہ ان کے ذریعہ غیب اور اپنی آخرت کے معاملات کو دیکھے گا۔اگر کوئی اپنے بندے سے اس کے غیر کا ارادہ کرے تو وہ اس کے دل کو جیسا ہے ویسا چھوڑ دیتاہے۔

  غیب کا مظہر کامل

غیب کے امور میں سے ایک بلکہ اس کا اہم ترین مورد حضرت امام مہدی علیہ السلام کامقد س وجود ہے۔ کچھ مومنین باطنی آنکھوں سے آنحضرت کودیکھیں گے۔ قرآن مجید کی اس آیہ شریفہ''الذین یؤمنون بالغیب ،، (۲) میں آنحضرت  کوغیب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جیساکہ اہلبیت علیھم السلام سے وارد ہونے والی تفاسیر میں اس موضوع کی تصریح ہوئی ہے۔

گزشتہ روایت کوقرآن کی آیت سے ضمیمہ کرنے سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ خدا وند متعال نے جن کی باطنی آنکھوں کو کھول دیا ہے۔وہ یقیناََزمانہ غیبت میں حضرت ولی عصر(عج) سے ارتباط پید اکرکے دل کی آنکھوں سے ان کی زیارت سے شرفیاب ہوں گے۔حلانکہ آنحضرت غیب کے کامل مظہر ہیں۔

--------------

[۱]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۵۳

[۲]۔، سورہ بقرہ آیت :۳

۱۲۷

مرحوم سید بحر العلوم کی زندگی کے کچھ اہم واقعات

مرحوم سید بحر العلوم ایسے افراد میںسے تھے کہ جن کے دل کی آنکھیں روشن ہونے کی وجہ سے وہ ایسے امور دیکھتے کہ جنہیں دیکھنے سے دوسرے  عاجزتھے۔اس بحث کو ثابت کرنے کے لئے اس بزرگ کی زندگی کے کچھ اہم واقعات نقل کرتے ہیں۔مرحوم محدث نوری کتاب دارالسلام میں مرحوم شیح تقی ملّا سے حکایت کرتے ہیںکہ جومرحوم آیت اللہ سید بحر العلوم  کے شاگردوں میں سے بھی ہیں۔

میں ایک سفر میں مرحوم سید بحر العلوم  کے ہمراہ تھا میں اور سید جس قافلہ میں تھے  اس میں ہم منزل بہ منزل سفر کر رہے تھے۔سفر میں ایک ایسا شخص بھی تھا ،جو کسی اور منزل کی طرف سفر کر رہا تھا لیکن وہ بھی قافلہ کے ہمراہ تھا۔ایک بارراستہ  میں  سید نے اسے دیکھا اور اس کی طرف اشارہ کرکے اسے اپنی طرف بلایا۔

وہ سید کے قریب آیا اور اس نے سید کی دست بوسی کی۔پھر سید نے اس سے تمام افراد کی خیریت دریافت کی کہ جن میں بہت سے مرد اور خواتین شامل تھے۔اس شخص نے جواب دیا کہ سب خیریت سے ہیں۔جب وہ شخص چلاگیا تو میں نے سیّد  سے پوچھا کہ اس مرد کے لباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق عراق سے نہیں ہے۔سیّد نے فرمایا ؛ہاں وہ یمن کا باشندہ تھا۔

میں نے کہا ؛آپ تو یمن تشریف نہیں لے گئے،لیکنآپ کو اس گرو ہ کانام کیسے معلوم ہوا کہ جن کے بارے میں آپ نے سوال کیا اور آپ جن کے مرد و خواتین سے بھی آگا ہ ہیں؟

سیّد نے جواب میں کچھ تأمل فرمایا اور کہا؛سبحان اللہ،اس میں تعجب کی کیا بات ہے،اگر مجھ سے تمام روئے زمین میں سے چپے چپے کے بارے میں سوال کرو تو میں سب کو جانتا اور پہچانتا ہوں۔

۱۲۸

محدث نوری کہتے ہیں کہ اس  بزرگ کے اس فرمان کا مؤید یہ ہے کہ نجف اشرف میں تمام مقامات مقدسہ جیسے مسجد کوفہ،مسجد حنّانہ، قبر مطہرکمیل بن زیاد ، حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام  کا گھر ، حضرت ہود علیہ السلام اور صالح   علیہ السلام کی قبر مبارک کومرحوم سید بحر العلوم نے معین کیااور تعمیر کروایاورنہ اسے زمانے سے مرحوم سیّد کے زمانے تک ان کے آثار باقی نہ تھے۔مرحوم سید بحر العلوم  کے زمانے کے تمام علماء   مرحوم سیدکے فرمودات کو اپنا فریضہ سمجھتے اور انہیں قبول کرتے اور کوئی بھی ان پراعتراض نہ کرتا۔حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح  علیہ السلام کی قبریں واد ی السلام میں باقی ہیں۔ لیکن سید نے فرمایا کہ یہاں ان کی قبریں نہیںہیں۔پھر انہوں نے دوسری جگہ کو معین فرمایا کہ جو اب ان بزرگ ہستیوں کا مزار اور لوگوں کے لئے زیارت گاہ ہیں۔(۱) کتاب تاریخ کوفی میں  لکھتے ہیں:بزرگ علّامہ سید محمد مہدی نجفی  کہ جو بحر العلوم کے نام سے مشہور ہیں۔ان کے جاویدانی آثار ہیں۔ان میں سے ایک مقدس مقام مسجد کوفہ ہے کہ جسے گزشتہ زمانے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے اور دین میں بصیرت رکھنے والے بہت کم افراد کے  علاوہ کوئی انہیں نہیں جانتا تھا۔ اس رو سے مرحوم سید بحر العلوم نے ان مقدس مقامات کو معین کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔اس میں کچھ نشانات اور محراب تعمیر کئے اور محراب النبی میں قبلہ کو تعیین کرنے کے لئے پتھروں کا ایک ستون بنایا۔یہ ایک ایساشاخص ہے کہ جو آج بھی ،،رخامہ،،کے نام سے جانا جاتا ہے  ۔(۲)

--------------

[۱]۔ گلزاراکبری:۳۵۸

[۲]۔ تاریخ کوفہ:۷۲

۱۲۹

مرحوم سید بحر العلوم کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد سہلہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام   کے لئے ایک مقام موجو تھا ۔لیکن لوگ اس مقام کو نہیں جانتے تھے ۔  سید بحر العلوم نے حکم دیا کہ فلاں مقام پر ایک گنبد تعمیر کیا جائے تاکہ وہ مقام مشخص ہو جائے۔(۱)

بزرگ علّامہ شیخ عراقین (کوفہ و بصرہ)شیخ عبد الحسین تہرانی جب مقامات عالیہ کی زیارت کےقصد سے عراق گئے تو انہوں نے ان مقامات کو دوبارہ تعم یر کروانے کا اقدام کیا۔مسجد کوفہ کے گوشہ میں جناب مختار کی آرامگاہ کے بارے میں جستجو کی تا کہ اس کو بھی دوبارہ سے تعمیر کیا جا سکے۔ان کے پاس قبر کی فقط ایک نشانی تھی کہ وہ جامع مسجد سے متصل صحن مسلم بن عقیل میں ہانی بن عروہ کے حرم کے سامنے واقع ہے۔

لہذا انہوں نے اسے کھودا تو وہاں حمام کے آثار ملے جس سے واضح تھا کہ یہان مختار کی قبر نہیں ہے اور اس کے آثار ختم ہو چکے ہیں۔لیکن ابھی تک شیخ اس کی جستجو میں تھے کہ آیت اللہ بحر العلوم  طباطبائی کے فرزند علّامہ شیخ سید رضا نے ان سے کہا؛جب بھی ان کے والد بزرگوار مسجد کوفہ کے سامنے سے مشرقی دیوار کے ساتھ سے گزرتے کہ جو اب جناب مختار کی زیارت گاہ ہے تو کہتے؛ جناب مختار کے لئے سورہ فاتحہ پڑھ لیں اور پھر وہ سورہ فاتحہ پڑھتے۔ شیخ نے حکم دیا کہ اس جگہ کو کھودا جائے ۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس جگہ کو کھودا گیا تو وہاں سے پتھر نمودار ہوا جس پر لکھا ہوا تھا کہ یہ مختار بن ابی عبیدہ   ثقفی کی قبرہے۔ لہذا مشخص ہو گیا کہ وہاں جناب مختار کی آرامگاہ ہے۔(۲)

--------------

[۱]۔ تاریخ کوفہ:۷۳

[۲]۔ تاریخ کوفہ:۷۳

۱۳۰

  علامات و نشانیاں

خاندان وحی علیہم السلام کے فرمودات میں ظہور کے باعظمت زمانے کے بارے میں مہم نکات موجود ہیں کہ بعض لوگ انہیں برداشت کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ جیسا کہ انہوں نے دوسرے مسئلوں  کے بارے میں فرمایا کہ جنہیں سب قبول کرنے کی قوّت نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے خاندان عصمت وطہارت علیھم السلام نے اصحاب کواپنے اسرار سے آگاہ کیا ہے۔جس طرح وہ نااہل لوگوں سے ایسی باتیں پوشیدہ رکھتے۔

انہوں نے اسرار آمیز نکات کے علاوہ دیگر نکات بھی ارشاد فرمائے کہ جنہیں وہ وجود خارجی کی وجہ سے قبول کر سکیں ۔ لہذا خدا ئے بزرگ و برتر نے اتمام حجت اور لوگوں کے ذہنوں میں حقائق قریب کرنے کے لئے خارج میں ایسے واقعات کو وجود دیا کہ جس کے ذریعہ اہلبیت نبوت  علیہم السلام  کے فرمان لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہو جائیں۔

غیبت کے زمانے میں زندگی گزارنے والے کہ جنہوں نے ظہور کے زمانے کی نورانیّت کو دیکھا ہی نہیں ہے تو وہ کس طرح ایسے مبارک زمانے کا تصور کر سکتے ہیں؟

غیبت کے زمانے کی تلخیوں اور سختیوں میں زندگی گزارنے والے کہ جنہوں نے نجات کے زمانے کی آزادی کو دیکھا ہی نہیں وہ کس طرح ظہور کے زمانے کے لوگوں کی ترقی و کامیابی کا یقین کرسکتے ہیں؟ خود کو زمین کا مالک سمجھنے والے دنیا کے کوتاہ فکر سیاستدان اور کس طرح ناشناختہ ہاتھوں کے ذریعہ اپنے مال و دولت کی تباہی کا یقین کر سکتے ہیں؟ جو لوگ کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھے  بغیر قبول نہیں کر سکتے خداوند متعال کس طرح ان پر اپنی حجت تمام کرے گا؟

۱۳۱

  ایک عام انسان اور حیرت انگیز دماغ

تاریخ کے صفحات کی طرف رجوع کرنے سے اس سوال کا جواب دینا بہت آسان ہو جائے گا کہ غیبی امداد،طول تاریخ میں رونماہونے والے حیرت انگیز اور غیر معمولی واقعات ،ایسے لوگوں کے لئے محکم جواب ہیں۔

تاریخ کے ستمگروں کوحیرت  زدہ کرنے والے تعجب خیز اور حیرت انگیز واقعات بہت زیادہ ہیں۔لہذا ہم اصل بحث کی طرف واپس آتے ہیں کہ جو ظہور کے بابرکت زمانے میں انسانوں کے عقلی تکامل سے تعبیر کیا  ہے۔

ہم اس بارے میں یہ کہیں گے انسان محدود دماغ کے ساتھ کس طرح اتنی حیرت انگیز قدرت کامالک بن سکتاہے؟

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہم ایک مرد کے حیرت انگیزواقعہ کو نقل کرتے ہیں،جو اپنے دماغ میں تحوّلات کے ایجاد ہونے کی وجہ سے عجیب انجانی قدرت کا مالک بن گیا۔البتہ ہمیں ایسے واقعات کو نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہم ایسے واقعات پر جاں نثار کرنے والے افراد کے تقریبِ ذہن کے لئے نقل کرتے ہیں۔

ہالینڈ کے ''پیٹر ہارکس ''کودنیا کا عجیب ترین انسان کہا گیا ہے اور اسے ریڈار کا نام لقب دیا گیا ہے۔کیونکہ اس میں تمام انسانوں میں حوّاس خمسہ کے علاوہ ایک چھٹی حسّ بھی تھی۔ وہ لوگوں کے افکار پڑھتا اور انہیں بتا دیتا کہ وہ کس چیز کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔اس شخص کے ساتھ دنیا کی بے  زبان اور جامد مخلوق بھی گفتگو کرتیں اور وہ اپنی چھٹی حسّ کے ذریعہ گزرے واقعات اور اشخاص کی زندگی کے واقعات کوکشف کرتا۔وہ دنیا اور اشخاص کے مستقبل کے بارے میں حیران کن پیشن گوئیاں کرتا کہ جو ہمیشہ صحیح ثابت ہوتیں۔

''پیٹر ہارکس '' کو مورد تجربہ قرار دینے والے تمام ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے اس کی  تصدیق بھی کی ۔اب تک دنیاکے سولہ مختلف ممالک کی پولیس اس کی مدد سے جرائم کے مختلف واقعات کا پتہ لگا چکی ہے اور اب اس کے پاس بین الاقوامی پولیس کا قانونی کارڈ ہے۔

۱۳۲

  اسے یہ قدرت کیسے حاصل ہوئی؟

پیٹر کی زندگی میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اسے یہ چھٹی حس (ریڈار) شکم مارد سے نہیں ملی۔وہ بتیس سال تک ایک عام اور معمولی انسان کی طرح ہی تھا۔جس کے پاس پانچ حسوں کے علاوہ کوئی حس نہیں تھی ۔ لیکن۱۹۴۳ ئم یں ایک دن جب وہ آشیانہ ہوا پیما (ہوائی جال) سے دس میٹر کی بلندی سے زمین پر گرا اور بیہوش ہو گیا۔وہ خود کہتاہے کہ زمین سے ٹکرانے سے پہلے میرے ذہن میں میری زندگی کے تمام واقعات آگئے۔حتی کہ مجھے یہ بھی یاد آ گیا کہ ایک بار کتّے نے میرے پاؤں پر کاٹا تھا ۔ جب میںزمین اور آسمان کے درمیان تھا تو میں صرف ایک ہی چیز کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں مرنانہیں چاہتا۔

اس واقعہ کے چار دن بعد جب اسے ہسپتال کے بستر پر ہوش آیا تو وہ سر میں شدید درد محسوس کررہا تھا اور وہ شدّت ِ درد سے چیخ رہا تھا۔نرس نے اسے بتایا کہ گرنے کی وجہ سے اس کا سر پھٹ گیا ہے اور اسے بہت گہری چوٹ آئی ہے۔ جب پیٹر نے یہ پریشان کن خبر سنی تو وہ اس کا جواب نہ دے سکا ۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا۔لیکن وہ خود کو ایک عجیب حالت میں محسوس کررہا تھا۔جب نرس کمرے سے باہر نکل گئی تو پیٹر نے بیماری کی حالت میں ہی ساتھ والے بستر پرسوئے ہوئے مریض کی طرف بڑھا، یہ وہ لمحہ تھاکہ جب اس میں معجزانہ طور پریہ قوّت پیدا ہوگئی۔

پیٹر میں الہام جیسی کیفیت پیدا ہوئی ۔اس نے اپنے ساتھ دیگر مریضوں کو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔اور اس نے اس سے پہلے کبھی ان سے بات نہیں کی تھی ۔ لیکن ایک ہی لمحہ میں اس نے یہ محسوس کیا کہ وہ ان بیماروں کے ماضی اور مستقبل کو جانتا ہے۔ یہ الہام اس قدر عجیب تھا کہ وہ اپنے ذہن میں پید اہونے والے الہام کے اظہار سے پرہیز نہ کر سکا اور اس نے کہا کہ تم لوگ حق شناس انسان نہیں ہو۔بیمار غصے میں بولا؛جی ہاں، مگر تم یہ بات کیسے جانتے ہو؟

۱۳۳

پیٹر نے کہا کہ اس لئے کہ تمہارا باپ ایک ہفتہ پہلے مر گیا تھا اور اس نے تمھیںیاد گار کے طور پر ایک قیمتی گھڑی دی تھی۔لیکن تم نے اپنے باپ کی یاد گار گھڑی کو فروخت کر دیا۔ساتھ بستر پر لیٹے ہوئے مریض نے حیرت میں کہا کہ تمھیں یہ کیسے معلوم ہوا؟

اس دن کے بعد وہ شخص پیٹر کو شیطان یا جنّ بھوت سمجھتا تھا اور اس سے ڈرتا تھا۔یوں پیٹر نے پہلی بار اپنی عجیب قوّت کو استعمال کیا کہ جس نے اس کی زندگی کو  یکسر بدل دیا۔

  کسی انجان چیز کا اس کے دماغ میں بدلاؤ ایجاد کرنا

وہ خود کہتاہے کہ میں نہیں جانتا کہ آخر کیاہوا لیکن اتناضرورجانتاہوں کہ ایک بجلی کی طرح کی لہر نے میرے دماغ کو صاف کر دیا اور اس میں دیگر افکار ڈال دیئے۔ بعض اوقات سوچتا ہوں کہ میں پاگل ہو گیا ہوںکبھی دل سے یہ خواہش کرتا ہوں کہ کہ واقعاََ پاگل ہو جاؤں تاکہ اس چھٹی حسّ سے نجات پاجاؤں کیونکہ جو کوئی بھی میرے کمرے میں داخل ہوتا ،میں ایک ہی لمحہ میں اس کا چہرہ دیکھ کر اس کے ماضی کو جان جاتا ۔اس کی تمام خواہشات اور غموں کو بھی جان جاتا۔ایک ہی لمحہ میں اپنے دل میں کہتا : یہ چور ہے،آج اس نے اپنی بیوی پر تشدد کیا ہے ،اس نے آج فلاں کام کیا ہے.....

لیکن یہ سب کچھ جان کر مجھے دکھ ہوتا ہے۔میں لوگوں کے راز کی باتیں نہیں جاننا چاہتا لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔کسی سے اس بارے میں بات کرنے سے پہلے ہی میرا دماغ مجھے اس کے بارے میں سب کچھ بتا دیتا ہے۔ ہوش میں آنے کے چار یا پانچ دن کے بعد پیٹر نے ایک بیمار کو دیکھا کہ جو ہسپتال سے جارہا تھا پیٹر اس سے ہاتھ ملا رہا تھا کہ یہ اسے الوداع کہتے ہوئے اچانک سے سمجھ گیاکہ شخص اپنے ادعا کے برخلاف ہالینڈ کا باشندہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق انگلینڈسے ہے جو ایک خفیہ انٹیلی جنٹ ایجنسی کا جاسوس ہے اور جاسوسی کی غرض سے ہالینڈ آیا ہے۔

۱۳۴

پیٹر اسی وقت سمجھ گیا کہ گشتاپو(جاسوسی کے خلاف جرمنی کی بنائی جانے والی فورس) کو اس جاسوس کے بارے میں پتہ چل چکا ہے اور وہ جلدہی اسے گرفتار کرکے قتل کر دیں گے۔وہ اپنے ذہن میں جاسوس کے ٹھہرنے کی جگہ سے بھی واقف ہو گیاکہ وہ کالور اسٹریٹ میں رہتا ہے۔وہ اس جاسوس کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتاتھا ،لیکن وہ جلدی میں وہاں سے نکل چکا تھا۔

پیٹر نے یہ سار اماجرا ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ ہر قیمت میں جاسوس کو اس واقعہ سے آگاہ کر دے۔دو دن کے بعد جرمن اہل کاروں نے اس جاسوس کاکالور اسٹریٹ  پرپیچھا کیا اور اسے قتل کر دیا۔پیٹر کی پیشن گوئی کا نہ صرف اس جاسوس کو کوئی فائدہ ہوا بلکہ اس کی وجہ سے ہالینڈ کے اہل کار اس پر بھی شک کرنے لگے اور اسے کہنے لگے کہ جب تمھیں پہلے ہی سے علم تھاوہ انگلینڈ کے جاسوس کا پیچھاکریں گے تو یقیناََ تم بھی گشتاپو کے جاسوس ہو۔اس گمان میں اتنا اضافہ ہوگیا کہ دو دن کے بعددو افراد تکیہ کے ذریعہ پیٹر کی سانس بند کرکے اسے مارنے کے لئے ہسپتال میں آئے۔لیکن اس بار بھی پیٹر کی چھٹی حسّ نے اس کی مدد کی اور اسے موت کے منہ سے بچا لیا۔

  دوسری زبان میں کلام

اسے قتل کرنے والوں میں سے ایک ہسپانوی تھا۔جب وہ شخص پیٹر کے منہ اور ناک پرتکیہ رکھ کر دبا رہا تھا تو پیٹر نے اسے ہسپانوی زبان میں کہا کہ،،کومو آبودورو دا لا موئرنہ،،حلانکہ پیٹر ہسپانوی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا تھا۔ ہسپانوی شخص نے تکیہ  ہٹا کر کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ یہ مجھے کہہ رہا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے سے ڈر رہے ہو اور میں اس وقت اسی بارے میں سوچ رہا تھا۔کچھ دیر سکوت کے بعد ہسپانوی شخص نے  اس کے ہاتھ کو دبا کر کہا کہ میں تمہاری بات پر یقین کرتا ہوں لیکن تم مجھے برا بھلا مت کہنا۔آخر ایسی عجیب قوّت کوکس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟

۱۳۵

اس مدت کے دوران پورے ہسپتال میں پیٹر کا واقعہ مشہور ہو گیا۔اب وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ جلد ہی ایک استثنائی انسان بن جائے گا۔اب وہ اپنی چھٹی حس سے خوفزدہ نہیںتھا ۔ بلکہ وہ اس کے ذریعہ اپنی زندگی کے اخراجات مہیا کرنا چاہتا تھا ۔ جب وہ اپنے گھر واپس گیا تو تقریباََ سب گھر والوں نے اسے نہ پہچانااس کی ماں کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا خیالاتی ہو گیا ہے۔پیٹر خود بھی کہتا تھا کہ میں پہلے جن مشکلات کا سامنا کر رہا تھا اب بھی انہیں مشکلات کا سامنا کر رہا ہوں۔جب کوئی ہمسایہ میری چاپلوسی  یا خوشامدکرتا تو میں اس کے دماغ کو پڑ ھ کر بتا دیتا کہ  وہ  جھوٹ بول رہا ہے۔میں یہ بھی سمجھ چکا تھا کہ میر ی ماں ،بہنیں اور بھائی بھی مجھ سے بہت سی باتیں چھپاتے ہیں۔لیکن اب کوئی مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔لیکن جب میں لوگوں کے جھوٹ کو جان جاتا تو مجھے بہت دکھ ہوتاہے۔

  کسی انجان قوّت کا اس کے دماغ کو مطلع کرنا

کیا یہ چھٹی حس کوئی ہدیہ و تحفہ تھی یا کوئی تکلیف؟

اس بارے میں پیٹر کا کہنا تھا کہ میںاس بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ کوئی دوسری  قوّت ذہنی اطلاعات اور پیشن گوئیاں میرے دماغ میں داخل کر دیتی ہے۔ اب میں سب انسان سے پہلے خدا سے نزدیک ہو جاناچاہتا ہوں ۔ کیونکہ خدا نے کروڑوں انسانوں میں سے فقط مجھے اس حسّ سے نوازا ہے۔ لہذا میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اس ریڈار جیسی حس کو لوگوں کے فائدے کے لئے استعمال کروں۔ اب مجھے ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے کیونکہ اب میں اپنے سابقہ کام انجام نہیں دے سکتا تھا۔اس نئی اور غیر معمولی حسّ کے آنے سے میں نے اپنی معمولی حسّ کھو دی ہے۔ میں کسی بھی موضوع کے بارے میںدس یا پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں سوچ سکتا تھا ۔ کیونکہ ہر لمحہ میرے دماغ میں ہزاروں مطالب گردش کرتے تھے۔

۱۳۶

 اگر میں خود کو کسی موضوع کے بارے میں مجبور کرکے فکر کروں مثلاََ اگر ایک کیل ٹھونکنے کے لئے فکر کروں تو اچانک میرا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے میری سانس بند ہونے لگتی اور میرے نیچے کرسی بھی لرزنے لگتی۔

  بے زبانوں سے گفتگو

جب بھی میرے کمرے میں کوئی داخل ہوتا تو میرا دماغ اس کے بارے میں فکر کرنا شروع کر دیتا اور مجھے اس کے گزشتہ اور آئندہ  سے آگاہ کر دیتا۔یہ صرف اشخاص کی حد تک محدود نہیں تھا بلکہ ان کے زیر استعمال اشیاء سے بھی آگاہ ہو جاتا۔جیسے بیگ،کتاب،اشیائ،تصاویر،رومال وغیرہ۔حتی کہ صحرا میں تنہائی کے دوران بھی  مجھے راحت اور آرام نصیب نہیں تھا۔پتھر،درخت بھی مجھے اپنی کہانی سناتے۔اس آفت سے نجات کا راہ حل یہ تھا کہ میں کسی ایسے خالی کمرے  میںبیٹھا رہوں کہ جہاں کوئی چیز بھی موجود نہ ہو اور اس کمرے سے بالکل باہر نہ نکلوں۔ لیکن میری طرح کا۳۴ سالہ شخص بالکل راہبوں ک ی طرح زندگی نہیں گزار سکتا تھا ۔

میرے پاس صرف ایک راستہ تھا کہ میں  ایسی راہ کا انتخاب کرتا کہ جن میں ایسی چھٹی حس سے استفادہ کرتے ہوئے میں اپنی زندگی کی ضروریات کو مہیا کرتا۔اب جب کہ مجھے اس حس سے ایک منٹ کی بھی چین و سکون نہیں تھا۔لہذا میں اس کے اوامر کی اطاعت کرنے کے لئے مجبور تھا۔اس دن سے پیٹر کی زندگی،اسی چھٹی حس کے ساتھ جڑ چکی تھی۔میں نے ملّی جشن کے دوران لوگوں کے سامنے اپنی چھٹی حس کو ثابت کیا ۔میں نے  ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے حالاتِ زندگی ایک یا دو گھنٹے تک مسلسل بیان کیے۔

۱۳۷

  ریڈار کے نام سے پروگرام

پیٹر بہت جلد ہی ہالینڈ، فرانس اور پورے یورپ میں مشہور ہوگیا ۔آج پیٹر امریکہ کا باشندہے جو ٹیلی ویژن پر ریڈار کے نام سے ایک پروگرام کررہا ہے۔

اس پروگرام میں وہ ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھا ہوتا ہے اور دیکھنے والے سینکڑوں کلو میٹر  کے فاصلے سے ٹیلی ویژن کے ذریعے اس سے سوال پوچھتے ہیں ۔وہ ان لوگوں کو دیکھے اور پہچانے بغیر سینکڑوں کلو میٹر کی دوری سے ان کے سوالات کے جواب دیتا ہے۔اور ان کی موجودہ زندگی اور مستقبل سے آگاہ کرتا ہے۔

وہ خود بھی کہتا ہے کہ میرا حقیقی ہدف ایسے انسانوں کی مدد کرنا ہے کہ جنہیں میری ضرورت ہو۔مثلاً میں چاہتا ہوں کہ لوگوں  کے کاموں میں ان کی مدد کروں یا گمشدہ بچوں کو تلاش کروں ۔

پیٹر نے ہزاروں گمشدہ کو تلاش کیا ۔پولیس کو چوری کے سینکڑوں واقعات کی پیشگی اطلاع دی ، سینکڑوں معدن کشف کئے۔کئی بار مجرموں اور قاتلوں کو پہچاننے کے لئے پولیس کی مدد کی ۔ لیکن وہ اپنے شخصی منافع اور جوئے میں اپنی چھٹی حس سے استفادہ نہیں کرتاکیونکہ کہ اگر وہ جواکھیلے تو وہ ہر ایک سے دنیا کی ساری ثروت حاصل کرلے۔

وہ خود بھی کہتا ہے کہ میںاچھی طرح جانتا ہوں کہ خدا نے لوگوں کی مدد کے لئے مجھے چھٹی حس عطا کی ہے نہ کہ مال و دولت جمع کرنے کے لئے۔

ایک دن ونیکوتن سٹی میں آتش زدگی کے واقعہ کے بعد ہالینڈ پولیس نے پیٹر سے اس واقعے کے اسباب کے بارے میں مدد طلب کی۔کیونکہ پولیس چار مہینے کی تحقیق کے با وجود اس کے اسباب سے آگاہ نہ ہوسکی تھی۔

پیٹر نے فوراً انہیں بتایا کہ میں ایک عورت کو دیکھ رہا ہوں کہ جس نے اپنا ایک دستانہ حادثہ رونما ہونے والی جگہ  پر رکھا ہے اور وہ افیون اور دوسری منشیات میں ملوث ہے۔

۱۳۸

اس وقت تک پولیس نے وہاں کوئی دستانہ نہیں دیکھا تھا ۔ لیکن جب وہ دوبارہ وہاں گئے تو انہیں دستانہ مل گیا۔یہ دستانہ پیرس کی ایک دکان سے خریدا گیا تھا، اس کے مالک کو ڈھونڈنا بہت مشکل تھا۔ لیکن پیٹر نے اس عورت کے دوسرے مشخصات بھی بیان کئے کہ اس عورت کا شوہر نہیں ہے اور وہ افیونی بھی ہے۔

جب پیٹر کی اطلاعات کے ذریعے اس عورت کوگرفتار کیا گیا تو اس نے اعتراف کیا کہ افیونی ہے اور اس نے منشیات کے اڈے کے لئے ایک جگہ بھی کرائے پر لی ہے۔یوں پولیس نے پیٹر کی مدد سے منشیات کی اسمگلنگ کا منصوبہ بھی ناکام بنادیا ۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے باقاعدہ طور پر پیٹر کا شکریہ ادا کیا۔

ہم سب چھٹی حس رکھتے ہیں ۔ امریکہ کے مشہور اور بزرگ استاد پروفیسر ''پوہاریس'' ایک سال سے پیٹر کے بارے میں مطالعہ کر رہے ہیں ۔انہوں نے اعلان کیا کہ پیٹر کی چھٹی حس میں کوئی شک نہیں کہ جو ریڈار کی طرح ہر چیز کو دور سے تشخیص دیتی ہے ۔ لیکن علمی لحاظ سے میں ابھی تک اس مسئلہ کی توجیہ نہیں کرسکا ۔میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اس کی چھٹی حس دیگر حواس خمسہ کی بہ نسبت حسّاس ہے جب وہ مریض ،تھکا ہوا یا غصے میں ہو تو اس کی چھٹی حس دیگر حواس سے جلد متاثر ہوجاتی ہے۔

طولِ تاریخ  میں  دو یا تین دیگر پیشن گوئی کرنے والے بھی تھے کہ جن کے پاس بھی یہی حس تھی ۔ لیکن پیٹر وہ واحد شخص ہے کہ یہ حس پیدائشی طور پرنہیں بلکہ۳۲ سال کی عمر میںحادثے کے بعد حاصل ہوئی۔وہ خود بھی کہتا ہے کہ سب لوگوں کے پاس کم و بیش چھٹی حس ہوتی ہے۔

۱۳۹

کبھی آپ کو بھی یہ اتفاق ہواہوگا کہ حادثہ سے پہلے اس کے بارے میں جان لیں۔مثلاً کبھی کسی دیہات میں داخل ہوں تو آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ اسے ایک مرتبہ پہلے بھی کہیں دیکھ چکے ہوں۔میرے خیال میں انسان کے دماغ حواس خمسہ کی طرح چھٹی حس کی بھی ایک مخصوص جگہ ہے۔ میرے ساتھ ہونے والے حادثے نے اس حس کو بیدا ر کردیا۔(۱)

اس بناء پر حادثے میںگرنے اور دماغ پر چوٹ لگنے کی وجہ سے پیٹر میں مخفی قدرت بیدار ہوگئی ۔ اسے ایسی قدرت نصیب ہوئی کہ جو دوسروں کو حاصل نہیں تھی انسان عقل کے تکامل کی وجہ سے  مخفی قوتوں کو حاصل کرسکتا ہے۔

  عقل کی آزادی

جب انسان اپنے اندرپوشیدہ طاقتوں تک رسائی حاصل کرلے اور تکامل عقلی کی منزل تک پہنچ جائے تو اس کی عقل اسارت سے آزاد ہوجاتی ہے۔یہ آزادی کی عظیم ترین اقسام میں سے ایک ہے ۔ جوظہور کے تکامل بخشیں زمانے میں تمام انسانوں کو حاصل ہوگی۔عقل کے شیطانی و نفسانی قید سے آزاد ہونے کے بعد انسان آسانی سے اپنی عقلی قوت سے استفادہ کرسکتا ہے۔ ہر انسان کی عقل میں کچھ قوتیں اور طاقتیں کار فرما ہوتی ہیں کہ جو ایک سپاہ کی حکمِ عقل کے تابع  ہوتی ہیں ۔ خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین میں اس کی وضاحت ہوئی ہے۔جو کہ وجودِ بشر کے تمام پہلوؤںسے آگاہ ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام ایک عظیم روایت میں عقل و خرد کی سپاہ کے تمام افراد کو بیان فرماتے ہیں۔(۲)

--------------

[۱] ۔ ہفت روزہ خبر ۲۵ اردیبہشت سال ۱۳۷۶

[۲]۔ البتہ اس میں جہل سے مراد نفس ہے نہ کہ لاعلمی ،کیونکہ جہل بمعنی لاعلمی،خود جہل بمعنی نفس کی فوج میں سے ایک ہے کہ جو اس روایت میں بیان ہوئی ہے۔

۱۴۰

اس روایت میں ستّر عالی و برجستہ صفات کو ''عقل کی فوج'' کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔اس کے مقابل جہل کے لئے ستر رذیلہ صفات بھی بیان  ہوئی ہیں۔(1)

غیبت کے تاریک زمانے میں نفس کا بہت بڑا لشکر ہے۔اکثر افراد سپاہ نفس کے ہاتھوں گرفتار ہیں۔نفس ان سے جو کہے وہ وہی کرتے ہیں۔لیکن ظہور کے پر مسرت اور با برکت زمانے میں عقل کے تکامل کی وجہ سے انسانوں کا نفس بھی پاک و پاکیزہ ہوجائے گا ،پھر وہ عقل و خرد کے حکم کا مطیع ہوگا۔

انسانوں میں عقلی تکامل سے مراد انسان میں سپاہ عقل کی قدرت کا کامل ہونا ہے۔اس بناء پرانسانوں میں علم ،قدرت۔فہم اور ارادہ کامل ہوجائے گا ۔پھر نفس کے لشکر جیسے ضعف، جہل اور عجز کو شکست ہوگی۔

سالم فطرت کی طرف لوٹنا

یہ بات بالکل واضح ہے کہ نفس کے لشکر کی شکست اور عقل کی ستر قوتوں کے تکامل سے انسانوں کو ایک نئی زندگی ملے گی ۔پھر ہر انسان اپنی اصل فطرت کی طرف لوٹ آئے گا ۔ فطرت اوّلیہ کے حصول کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو ایسی قدرت حاصل ہوجائے کہ جیسے وہ پہلے جہل اور نفس و شیطان کی پیروی کی وجہ سے بروئے کار نہیں لاسکا ۔ لیکن اب فطرت اولیہ کی وجہ سے ان سے فائدہ اٹھائے ۔

--------------

[1]۔ اصول کافی : 1  20

۱۴۱

اگر ہم اصول کافی کی عقل و جہل کے سپاہیوں کے بارے میں روایت ذکر کرتے اور پھر اس کا ترجمہ و تشریح بھی کرتے تو بحث بہت طولانی ہوجاتی ۔لہٰذا ہم نے اس روایت کو ذکر کرنے سے گریز کیا اور انہی مطالب کو بیان کرنے پر اکتفا کیا۔

مذکورہ روایت اور عقل و جہل (نفس) کے لشکر کے ستر ستر سپاہیوں پر دقت کرنے سے اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ انسانی معاشرہ  ہوا و ہوس کے گرداب میں غرق  اور نفس کے تابع ہے۔بہت کم لوگوں  کے علاوہ کسی کا عقل  سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں تھا۔اس روایت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ کامل عقل کا مالک وہ ہے کہ جو مکمل طور پر لشکرِ عقل سے منسلک ہو اور جس نے لشکرِ جہل کو شکست دے کر نابود کر دیا ہو۔

حضرت امام مہدی علیہ السلا م کاقیام بشریت اور عقل  کے سپاہیوں کو حیات بخشنے اور انہیں تکامل عطا کرنے کے لئے ہو گا۔سپاہِ عقل کے تکامل سے سپاہِ جہل کی نابودی لازمی ہے کہ پھر جہل کا کوئی اثر بھی باقی نہیں رہے گا ۔ لشکرِ جہل و نفس کی نابودی اور سپاہِ عقل کے تکامل سے بشریت میں حیرت انگیز تبدیلیاں ایجاد ہوں گی۔ان تبدیلیوںسے کائنات کا نقشہ بدل جائے گا۔برائیو ںکی جگہ نیکیاں لے لیں گی۔انسانیت و بشریت کے تکامل اور برائیوں کی جگہ نیکیوں کے آنے سے حیرت انگیزتبدیلیوں کا وجود میں آنا یقینی ہے۔ روایات کی رو سے اس وقت دوسری اشیاء بھی تکامل کی طرف گامزن ہوں گی۔

  کیا ظہور سے پہلے عقلی تکامل کا حصول ممکن ہے؟

بعض لوگ  معتقد ہیں کہ اہل دنیا عقلی رشد اور فکری تکامل پیدا کریں تا کہ حضرت  بقیة اللہ الاعظم  عجل اللہ فرجہ  کا ظہور متحقق ہو اور جب تک ایسا تکامل حاصل نہ ہو تب تک ظہور بھی متحقق نہیں ہو گا۔

۱۴۲

  کیا یہ عقیدہ صحیح ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اہل دنیا کے عقلی و فکری رشد  و تکامل سے حضرت امام مہدی  علیہ السلام کے ظہور اور حکومت کے لئے زمینہ فراہم ہو گا۔لیکن یہ  بات یاد رہے کہ حضرت ولی عصر (عج) کا ظہور تمام دنیا والوں کے عقلی رشدو تکامل سے وابستہ نہیں ہے۔ حضرت بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام کے ظہور کے متعلق کثیر روایات کی روشنی میں مذکورہ عقیدے کا بطلان واضح ہے۔

اگر حضرت ولی عصر (عج) کا ظہور تمام دنیا والوں کے عقلی رشدو تکامل کے بعد واقع ہو تو پھر ایسی بہت سی روایات کو نکال باہر پھینکنا ہو گا کہ جن میں امام زمانہ علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی جنگوں کا تذکرہ ہے۔ مخالفین کا موجود ہونا اور ان کا حضرت امام مہدی علیہ السلام سے جنگ کرنا فکری رشد اور عقلی تکامل کے نہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔پس کس طرح یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ظہور سے پہلے سب لوگ عقلی تکامل کی منزل تک پہنچ چکے ہوں گے تا کہ ان میں امام زمانہ علیہ السلام  کی حکومت کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔

علاوہ ازیں اس مطلب پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں کہ ظہور سے پہلے لوگوں کو عقلی و فکری تکامل حاصل نہیں ہو گا۔روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح علم و دانش کے مراحل کی تکمیل امام عصر علیہ السلام کی ظہور سے وابستہ ہے اسی طرح معاشرے کا فکری رشد  اور عقلی تکامل بھی  حضرت ولی عصر (عج) کے ظہورسے وابستہ ہے۔

۱۴۳

  دماغ کی قوّت و طاقت

اب ہم دماغ کی عظیم قوّ ت و طاقت کے بارے میں بحث کرتے ہیں ۔ لہذا ہم کہتے ہیں کہ ابھی تک انسان اپنے دماغ سے مکمل طور پر فائدہ حاصل نہیں کر سکا۔

 بہت سے مصنفین نے دماغ کی قدرت سے فائدہ نہ اٹھانے  اور اپنے عجزوناتوانی کا اعتراف کیا ہے یہاں ہم ایسے ہی اقوال کے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں۔عام طور پرہمارے دماغ کی قدرت کے بہت کم حصے سے کام لیا جاتا ہے۔حلانکہ اس کی قدرت ہر شخص کے اختیار میں قرار دی گئی ہے۔لیکن افسوس کہ ہم کبھی کبھار ہی اس قدرت سے کسی حدتک استفادہ کرتے ہیں۔(1)

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ انسان اپنی تمام تر استعداد اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے باوجود بھی اپنے دماغ کے کروڑویں حصہ سے بھی  کم کوکام میں نہیں لاتا۔(2)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ابھی تک نہیں جان سکے کہ خلاقیت  و تفکر کے وقت ہمارا دماغ کیا کام کرتا ہے۔حالانکہ تحقیق میں تجرباتی روش  سے استفادہ کرتے ہوئے بہت سے تجربات  کے ذریعہ دماغ کی ساخت اور تفکّر کے عمل کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کی گئی ہیں۔(3)

یہ مطلب انسان کے وجود میں فکر کی قدرت اور اس سے مکمل طور پر استفادہ نہ کئے جانے کو بیان کر رہا ہے ۔ لیکن جس روز دستِ الٰہی کا لوگوں کے سروں پر سایہ ہو گا اس روز انسان کے دماغ میں پوشیدہ قوّتیں  ظاہر ہو جائیں گی اور انسان کی عقل کامل ہو جائے گی۔

--------------

[1]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:14

[2]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:32

[3]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:17

۱۴۴

انسان کے تمام افکار کی فعالیت اور تمام مرام و قیود کی پناہ گاہ دماغ کے پردے ہیں۔جو چھوٹے چھوٹے خلیوںسے تشکیل پاتے ہیں۔جس کی تعداد دس سے تیرہ ارب سے بھی زیادہ ہے۔ان میں  سے ہر ایک درخت کے پتوں کی رگوں کی مانند ہوتی ہیںاور ایک دوسرے تک الیکٹرک پیغام منتقل کرتی ہیں ۔

 عملی تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسانوں میں سے ذہین ترین فرد بھی ان ذخائر کے تھوڑے سے حصہ کو مصرف میں لاتا ہے۔(1)

انسان کا دماغ چودہ ارب عصبی خلیوں سے تشکیل پاتا ہے اور ہر خلیہ کے دوسرے خلیوں سے پانچ ہزار ارتباط ہیں۔اسی طرح ان میں دیگر مختلف قسم کے ارتباط بھی پائے جاتے ہیں ۔ دماغ میں خلیوں اور مختلف حالتوں کی بالقوة تعداد انسان کے تصور سے بھی زیادہ ہے۔

ایک عام اور اسی طرح ذہین انسان بھی اپنی تمام زندگی میں ایک ارب میں سے ایک حصے کو بھی استعمال میں نہیں لاتا۔اگر دماغ کی ظرفیت ،توانائی اور ارب میں سے ایک حصہ ہی استعمال میں لایا جائے تو ان کے درمیان دکھائی دینے والا  تفاوت کیفی ہو گا نہ کہ کمّی۔(2)

اب جب کہ آپ نے یہ جان لیا کہ تمام افراد اپنے دماغ کی تھوڑی سی مقدار کو استعمال میں لاتے ہیں تو ا ب اس بیان پر غور کریں۔

--------------

[1]۔ نسخہ عطار:134

[2]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:347

۱۴۵

آج کی دنیا میں ایک کمپیوٹر کا حافظہ ایک لاکھ اطلاعاتی ذرائع سے کام کرتا ہے کہ جسے کمپیوٹر کی زبان میں بائٹ کا نام دیا  جاتا ہے۔انسان کا دماغ بھی اسی طرح کام کرتا ہے مالیکیول حافظہ اور عصبی اطلاعات کے بٹن کو ذخیرہ سازی کے لئے آمادہ کرتے  ہیں۔گہوارے میں پڑا بچہ بھی یہی عمل انجام دیتا ہے۔ اگرچہ یہ انجان طور پر یہ کام انجام دیتا ہے ۔ ہم پوری زندگی اطلاعات و معلومات کوجمع کرتے ہیں تاکہ جس دن ہمیں ان کی ضرورت ہو ،ہم ان سے استفادہ کر سکیں ۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارا دماغ علم ودانش کو ذخیرہ کرنے کے لئے قابلِ اطمینان نہیں ہے۔کیونکہ انسانی دماغ پندرہ ارب بٹنوں سے کام کرتا ہے اور  جدید ترین کمپیوٹر میں اس کی تعداد صرف ایک کروڑ ہے۔پس ایک کمپیوٹر پر  انسان سے زیادہ اعتماد کیوں کیا جاتا ہے؟حالانکہ دماغ کے نو حصوں سے کام نہیں لیا جاتا ۔ لیکن کمپیوٹر کے تمام سسٹم فعّال ہوتے ہیں۔(1)

آپ شاید اس بات کا یقین نہ کریں کہ دماغ کے پندرہ ارب بٹن ہیں اور شاید اس بات کا بھی یقین نہ کریں کہ انسانی دماغ زندگی کے آغاز سے موت تک ہونے والے تمام تر واقعات و سانحات  اور حادثات کو اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔انسان کا دماغ ہر اس چیز کو ذخیرہ کر لیتا ہے کہ جو اس نے دیکھی،سنی یاانجام دی ہو۔(2)

انسان اپنی زندگی میں جو کچھ انجام دیتا ہے وہ اس کی زندگی کے آخری لمحات میں اس کے سامنے جلوہ گر ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہمیں خاندانِ وحی علیہم السلام نے سکھائی ہے کہ جو ہماری خلقت کے شاہد ہیں۔

اسی لئے ہمیں ظہور کے پر نور اور بابرکت زمانے میں دماغ کی ناشناختہ قوّتوں اور طاقتوں کے ظاہر ہونے میں ذرّہ برابر بھی شک نہیں ہے اور ہم معصومین علیہم السلام کے ہر فرمان کو کمی و بیشی کے بغیر قبول کرتے ہیں۔

--------------

[1]۔ بازگشت بہ ستارگان:76

[2]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:121

۱۴۶

  غیر معمولی حافظہ دماغ کی عظیم قدرت کی دلیل

ہمارے پاس اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے فرامین ور اعتقادی مسائل کا ایسا ذخیرہ موجود ہے کہ ہمیں دوسروں کے واقعات اور ان کی باتوں کو نقل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔لیکن اپنی بات سب پرثابت کرنے کے لئے ایسے افراد کے واقعات کو ذکر کرنا بھی لازمی ہے کہ جو غیر معمولی حافظہ کے مالک تھے کہ جس سے یہ معلوم ہو جاتاہے کہ انسانی دماغ میں بہت سی مخفی طاقتیں  موجود ہیں اگائون نامی شخص نے اپنی زندگی میں2500 کتب کا مطالعہ ک یا اور اسے یہ تمام کتابیں حفظ تھیں۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ ایک لمحہ سوچے بغیر ان کتابو ں  کے کسی بھی حصے کو پڑھ سکتا تھا۔(1)

حال ہی میں دنیا بھر کے خبر رساں ادارے حسین قدری کے استثنائی حافظہ کے بارے میں خبریں نشر کر رہے تھے کہ جو تاریخ،واقعات،تاریخی شخصیات اور ان کی زندگی کے واقعات کے بارے میں بغیر سوچے ہر سوال کا جواب دے سکتا تھا۔حسین قدری کے حافظہ میں بہت سے بزرگوں کے یومِ تولّداور یوم وفات کی تاریخیںمحفوظ تھیں۔اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ اس نے ہجری برسوںکی ایک جنتری بنائی تھی کہ جو دو حصوں پر مشتمل تھی۔ایک حصے کو سو سالہ دور کی صورت میں مرتّب کیا گیا تھا۔جس میں ہفتے کے ایّام اور1901 ءسے 2000 ء تک تمام دنوں کو بیان کیا گیا تھا اور جس میں ہر ماہ کے اہم واقعات کو بھی جمع کیا گیا تھا ۔ دوسرے حصے میں 1501 ء سے 2070ء سال تک کے ایّام کو بیان کیا گیا تھا۔اس حصے میں ہر دن ،ایّام ہفتہ و ماہ اور بزرگ شخصیات کے یومِ تولّداور یوم وفات کی تاریخوں کو بھی مرتب کیا گیا تھا۔اس میں مذکورہ دو حصوں کے علاوہ ایک اضافی حصہ بھی تھا  کہ جس میں دورِ مسیحیت کے آغاز  سے 3000ء  تک کے ایّام کو بیان کیا گیا تھا۔ (2)

--------------

[1]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:45

[2]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:46

۱۴۷

موجودہ رائج مسائل میں سے ایک تقویمی محاسبات کی بناء پر مطرح ہونے والا مسئلہ ہے۔ریاضی کے بعض عجوبے اپنے ذہن میں ایک ہی لمحہ میں صدیوں اور ہزاروں سال طے کرلیتے ہیں۔مثلاََ وہ ریاضی کی بنیاد پر حساب کرتے ہیں کہ ایک ہفتہ میںسات دن،ایک دن میں چوبیس گھنٹے،ہر گھنٹے میں ساٹھ منٹ اور ہر منٹ میں ساٹھ سیکنڈ ہوتے ہیں۔اسی ترتیب سے وہ چند سیکنڈ میں کئی صدیوں کے عملیات اپنے ذہن میں انجام دیتے ہیں اور آخر میں یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ  مثلاًیکم جنوری1880 ء کو جمعہ کا دن تھا۔اس طرح وہ بہت س ی ذہنی پیچیدگیاں حل کرتے ہیں ۔مثلاَ وہ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ روم کے شہنشاہ نرون کی موت سے سقوط قسطنطنیہ تک کتنے سیکنڈ گزر چکے ہیں؟ایک بار ایسے ہی دو حساب کرنے والے'' ایناودی  اور داگیر ''سے ایک پروگرام میں ایسے ہی کچھ سوالات کئے جا رہے تھے کہ13 ،اکتوبر 284444 ء کو ک یا دن ہو گا؟(3)

انسان کے دماغ کی قدرت کو ثابت کرنے کے لئے  دیگر ممالک میں بھی ایسے افراد کا وجود اس کی واضح دلیل ہے۔اسی طرح یہ غیبت کے تاریک زمانے میںانسان کے عقلی تکامل کو بھی بیان کر رہا ہے ۔ ریاضی کے یہ ماہر ترین افرد چند سیکنڈ میں بعض ایسے مسائل حل کر دیتے ہیں کہ جنہیں ماہر ریاضی دان چند ماہ کی کوششوں کے بعد انجام دے سکتے ہیں اور پھر اس کے نتائج کی تائید کے لئے بھی طولانی مدّت درکار ہوتی ہے کہ جس کے لئے کمپیوٹر سے بھی مدد لی جاتی ہے۔

--------------

[3]۔ تونائی ھای خود را بشناسید53

۱۴۸

  دماغ کا ما فوق فطرت، قدرت سے رابطہ

ریاضی کے یہ عجوبہ کس چیز سے مدد لیتے ہیں ؟

کیا ان کو بچپن سے یہ خاص استعداد حاصل ہوتی ہے یا نوجوانی کے عالم میں  انہیں ایک عرصہ تک مشق کرنے اور تکامل کے  ذریعہ یہ استعداد وصلاحیت حاصل ہوتی ہے؟

محصول حافظہ کے عنوان سے اس توانائی کو بیان کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ماہرینِ نفسیات اسے ''حدّت حافظہ'' کا نام دیتے ہیں۔اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ اس خاص مقام میں یقیناََ ہمارے سامنے ایک قوی حافظہ ہے لیکن ہم اس کی ماہیت کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔(1)

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ریاضی کے ایسے عجوبہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کس طرح سے اپنے ذہن  میں یہ محاسبات انجام دیتے ہیں ۔  ان کا کہنا ہے کہ ہم صرف گنتے اور شمار کرتے ہیں اور پھر یہ سب کس طرح ہو جاتا ہے ،یہ خدا ہی جانتا ہے۔

اس جواب پر بالکل حیران نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ ان افراد میں سے بعض افراد کاملاََ ان پڑھ تھے۔ ایسے بااستعداد افراد ہمیشہ سے ماہرین نفسیات اور ریاضی دانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں تاکہ وہ ان میں پائی جانے والی پوشیدہ طاقت و قوت اور صلاحیت کو کشف کر سکیں۔ اس سے بھی بڑھ کر بعض ایسے افراد میں موجود قدرت کے اسرار معلوم کرنے کی کوشش کر نے کے علاوہ عقلی تکامل تک رسائی کے لئے بھی کوشاں ہیں۔

--------------

[1]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:54

۱۴۹

  جدید علم کی نظر میں عقلی تکامل

عقل کے تکامل اور اس کے لزوم و کیفیت کی بحث نے بہت سے مغربی دانشوروں کو اپنی جانب مائل کیا ہے۔ وہ اپنی علمی ترقی کا ادعا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ معتقد ہیں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب آج کی بنسبت انسان کی عقل کھربوں گنا زیادہ ہو گی۔

مغربی دانشوروں میں سے ایک'' کرزویل'' ہے۔جس کا کہنا ہے کہ آپ دماغ میں فقط سو  کھرب اتصالات برقرار کر سکتے ہیں۔ممکن ہے کہ آپ کی نظر میں یہ بہت بڑا  عددہو۔ لیکن دماغ میں اطلاعات ذخیرہ کرنے کی روش اب بھی غیر فعّال ہے۔ کیونکہ آئندہ زمانے میں انسان کا دماغ موجودہ دور سے کھربو ں گنا زیادہ ہو گا۔

اس میں اہم اور مورد توجہ نکتہ یہ ہے کہ وہ حقائق عالم سے ناآشنا ہونے اور مکتب اہلبیت علیہم السلام سے دور ہونے کے باوجود اگرچہ عقلی تکامل کو تسلیم کرتے ہیں لیکن انہیں اس کی کیفیت اور اس کے حصول کی آگاہی نہیں ہے۔ اسی لئے وہ اپنی توجیہات میں غلطیاں کرتے  ہیں۔

خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے جاودانی اور حیات بخش مکتب سے دوری کے باعث یہ   لوگ ہر چیز حتی کہ عقلی تکامل جیسے اہم ترین مسئلہ کو بھی مادّی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ الیکٹرک سسٹم کے ذریعہ اپنے خیالات و افکار کو تکامل دیا جا سکتا ہے۔

۱۵۰

  عقلی تکامل اور ارادہ

یہاں تک ہم دماغ کی قدرت و توانائی سے آگاہ ہوئے اور ہم نے یہ درک کیا کہ انسان اب تک اپنے وجود کی عظیم قدرت  سے بے خبر تھا ۔ اب ہم قوّت ارادہ اور تکاملِ عقل کے بارے میں بحث کا آغاز کرتے ہیں ۔ انسان کی عقل کے تکامل کالازمہ اس کے ارادہ کا قوی ہونا ہے ۔ کیونکہ جس طرح حدیث جنودِ عقل میں نقل ہوا ہے کہ عقل کی سپاہ میں سے ایک ارادہ بھی ہے۔ عقل کے تکامل سے ارادے کی قدرت میں اضافہ ہوتا ہے، ارادے کے حرکت میں آنے اور فعّال ہونے سے انسان میں اساسی و حیاتی تحوّل کا ایجاد ہونا بالکل واضح ہے۔

اگر قوّت ارادی کامل ہو تو انسان غیر معمولی اور حیرت انگیز کام انجام دے سکتا ہے ۔ کیونکہ جب قوّت اردی اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو انسان کسی فرد یا کسی چیز میں کوئی حالت یا خصوصیت ایجاد کر سکتا ہے۔اسی طرح یہ اسے نابود یا اس میں اضافہ بھی کر سکتا ہے۔اعمالِ ارادہ سے انسان کسی ایسی چیز سے بھی آگاہ ہو سکتا ہے کہ جس کے بارے میں اسے کوئی اطلاع نہیں ہوتی۔جیسا کہ ہم نے عرض کیاہے کہ ارادہ عقل کی قدرت کا ایک حصہ  ہے۔عقلی تکامل سے قوّت ارادی اور عقلی قدرت بھی تکامل تک پہنچ کر فعّال ہو جاتی ہیں۔اس بناء پر ظہور کے زمانے میں انسانوں کی عقل کے تکامل کے نتیجہ میں ان کی قوّت ارادہ میں بھی اضافہ ہو گا او وہ مزید قدرت مند ہو جائے گا۔ ظہور  کے زمانے میں انسان کی عقل شیطان کی قید اور نفس کی غلامی سے آزادہو جائے گی ۔ سپاہ عقل بھی ضعف و ناتوانی سے نجات پائے گی اور ان میں پوشیدہ اور مخفی طاقتیں ظاہر ہو کر فعّال ہو جائیں گی۔

غیبت کے تاریک اور سیاہ زمانے میں بہت سے انسان اپنی خواہشات اور آرزؤں کوحاصل  نہیں کر سکے ۔ لیکن ظہور کے بابرکت زمانے میں ایسا نہیں ہو گا۔اس وقت اگر کوئی کسی نامعلوم چیز سے آگاہ ہونا چاہے تو اس  سے پردے اٹھا لئے جائیں گے اوراس وقت  وہ جس چیز کے بارے میں چاہے آگاہ ہوسکتا ہے۔ ہم نے یہ حقائق خاندان نبوت علیہم  السلام سے سیکھیں ہیں ۔

۱۵۱

ہم دل و جان سے ان معصوم ہستیوں کے ارشادات و فرمودات قبول کرتے ہیں تا کہ ظہور کے پُر نور زمانے میں ہم پورے وجود سے اس حقیقت کو محسوس کر سکیں ۔اس بناء پر عصرِ تکامل میں پہلے ارادہ انجام پائے گا اور اس کے بعد آگاہی متحقق ہو گی۔اس کی دلیل کے طور پر ہم خاندانِ وحی علیہم السلام کے فرامین میں سے سید الشہداء حضرت امام حسین  علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں۔'' اِن اللّه لیهب لشیعتنا ترامة لا یخفی علیهم شیء فی الارض وما کان فیها حتّی اَنّ الرجل منهم یرید ان یعلم علم اهل بیتیه فیخبرهم بعلم ما یعلمون '' (1) خدا وند متعال یقیناََ ہمارے شیعوں (زمانہ ظہور میںد نیا کے تمام لوگ خاندان نبوت علیہم السلام کے پیرو ہوں گے)کو ایسی کرامات بخشے گا کہ ان سے زمین اور اس میں موجود کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں رہے گی۔ حتی کہ اگر کوئی مرد اپنے اہل خانہ کے حال سے آگاہ ہونا چاہے تو پس وہ آگاہ ہو جائے گا کہ وہ جو کام بھی انجام دے رہے ہوں یہ ان سے باخبر ہو گا۔اگر  انشاء اللہ ہم اس بابرکت زمانے کو درک کریں تو ان تمام حقائق کو دیکھ سکیں گے۔کیونکہ ہم نے یہ مطالب مکتب اہلبیت  علیہم السلام  کی تعلیمات سیکھے ہیں اور ہم انہیں شک و تردید کے بغیر قبول کرتے  ہیں۔ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان معصوم ہستیوں کے لئے ماضی حا ل اور مستقبل میں کوئی فرق نہیں ہوتا وہ تمام واقعات سے ایسے ہی آگاہ ہوتے ہیں کہ جیسے کسی نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ہم نے یہ چیزیں خاندان عصمت  علیہم السلام   سے قبول کی ہیں اور عالم ذر سے ان کے ساتھ یہ عہد وپیمان کیاہے کہ جس طرح ہم اب ان پر پابند ہیں آئندہ بھی ایسے ہی ان کے پابند رہیں گے۔البتہ یہ بات ضرور جان لیں کہ زمانہ غیبت میں  کچھ ایسے استثنائی افراد بھی تھے کہ اگر وہ کسی چیز سے آگاہ ہونا چاہتے تو وہ اپنی قوّت ارادی سے اس سے آگاہ ہو جاتے۔ایسے افراد وہ تھے کہ جو غیبت کی تاریکی میں بھی نور تک پہنچ گئے۔ہم نے اس بحث میں نمونہ کے طور پر مرحوم سید بحر العلوم  کی زندگی کے واقعات نقل کئے تا کہ بعض افراد ظہور کے زمانے کے بعض واقعات کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار :ج۵۳ص6۳

۱۵۲

چھٹا باب

معنوی تکامل

    معنوی تکامل          انسان کا معنوی و مادّی پہلو

    ہماری ذمہ داریاں

    تکامل کی دعوتِ عام

    امر عظیم

    امر عظیم کیا ہے؟

    معارف الٰہی

    زبان رسول اکرم(ص)سے زمانہ ظہور کے لوگ

    محسوس اور غیر محسوس دنیا میں حکومت

    عالم ملک و عالم ملکوت

    وہ کس طرح عالم ملکوت سے غافل تھے؟

    عالم ملکوت تک رسائی یا زمانہ ملکوت کی خصوصیات

    اہم نکتہ یا احساس ظہور

    غیرت مندوں سے خطاب

    زمانہ ٔ ظہور اطمینان کا زمانہ

    عصر ظہور،عصر حضور

۱۵۳

معنوی تکامل

مادّی مسائل میں غرق اور طبیعی علوم کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے انسان معنوی امور ،غیبی امداد اور عالمِ غیب کے حقائق پر توجہ کرنے سے دور ہو چکا ہے۔

انسان مادّی امور کے جال میں پھنس چکا ہے جسے معنوی امور پر غور کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ بہت سے افراد مادّی دنیا کے پوجا ریوں کی صحبت میں رہ کر انہیں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور ان کے غلط افکار و عقائد سے متأثر ہو جاتے ہیں۔ کائنات کے حقائق سے دوری کی وجہ سے انہیں معنوی امور  اور خاندان عصمت علیھم السلام کی غیبی امداد کا علم نہیں ہے۔

ان حقائق کے روشن ہونے ، معنوی امور پر ایمان و اعتقاد پیدا کرنے اور غیبی امدد کے لئے عالمِ مادہ پر فریفتہ ہونے سے ہاتھ اٹھانا ہو گا۔کیونکہ جس نے اپنی آنکھوں پر مادّیت کی پٹی باندھی ہواور جس پرمادیت کے حصول کا بھوت سوار ہو وہ کس طرح مادّی دنیا سے بھی زیادہ خوبصورت دنیا کو دیکھ سکتا ہے؟

اگر کوئی کسی رنگین عینک کے ذریعہ اطراف کی اشیاء کو دیکھے توکیا وہ اشیاء کا حقیقی و واقعی رنگ  دیکھ سکتا ہے؟ جس نے اپنے ارد گرد مادّیت کی دیوار کھڑی کر رکھی ہو وہ کس طرح اس حصار سے باہر کی د نیا کا مشاہدہ کر سکتا ہے؟

جس نے خود کو کسی بند مکان میں قید کر رکھا ہو کیا وہ ہاہر کی خوشیوں، مسرتوں اور شادابیوں کا نظارہ کر سکتا ہے؟

غیبت  کے زمانہ میں جنم لینے والا انسان زندان میں قید کسی ایسے شخص کی طرح ہے کہ جسے وہاں سے رہائی کاکوئی راستہ بھی میسر نہ ہو۔بلکہ غیبت کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کا حال تو ایسے قیدی سے بھی زیادہ بدتر ہے۔کیونکہ قیدی کم از کم یہ تو جانتے ہیں کہ وہ قید میں ہیں اور وہ قید سے نجات پانے کی آرزو میں زندگی گزاررہے ہوتیہیں اور ہمیشہ قید خانے سے رہائی پانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔لیکن افسوس کہ غیبت کے زمانے میں جنم لینے والے اور اس میں پرورش پانے والے اس زمانے کے علاوہ کسی اور زمانے سے آگاہ نہیں ہیں۔ان کی مثال کنویں کے مینڈک جیسی ہے جو کنویں کو ہی پوری کائنات سمجھتاہے۔

۱۵۴

 انہوں نے ظہور  کے زمانے کا مزہ ہی نہیں چکھا اور نہ ہی کسی نے انہیں ظہور کے زمانے کی حلاوت  و شیرینی سے آگاہ کیا ہے۔اسی وجہ سے وہ زمانۂ غیبت کے زندان، ظلمتوں اور سختیوں میں ہی گھرے ہوئے ہیں۔وہ نہ تو پہلے اس وحشتناک زمانے سے نجات اور اس طولانی قید سے رہائی پانے کی فکر میں  تھے اور نہ ہی اب اس کی فکر میں ہیں۔

ہم اور زندانِ غیبت کے تمام قیدی ظہور کے درخشاں زمانے سے غافل ہونے کی وجہ سے اپنی قید میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ہم غیبت کے زندان میں گرفتار ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہو رہے ہیں۔ غیبت کے زمانے کی موجودہ اسیری معاشرے کی غفلت اور معنوی قدروں کو فراموش کرنے کا نتیجہ ہے۔

  انسان کا معنوی و مادّی پہلو

انسان روح اور جسم سے مل کر خلق ہوا ہے ۔لہذا اسے فقط مادّی ، دنیوی اور جسمانی پہلو پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیئے۔ بلکہ اسے چاہیئے کہ وہ معنوی پہلو پر بھی غور کرے ورنہ اگر ایک ہی پہلو کو مدنظر رکھیں اور دوسرے پہلو کو نظر انداز کر دیں تو یہ اپنے وجوداور اپنی زندگی کے اہم ترین پہلو کو فراموش  کرنے کے مترادف ہو گا۔زمانہ ٔ غیبت میں اکثر انسان معنوی پہلو سے اس طرح مستفیدنہیں ہو سکے جس طرح اس سے بہرہ مندہونے کا حق تھا۔لیکن ظہور کے زمانے میں کہ جوانسانوں کی شخصیت کے تکامل کا دن ہے، تمام انسانی معاشرہ مادّی اور معنوی دونوں پہلوؤں میں تکامل تک پہنچ جائے گا۔اس روز انسان کے عملی و نظری افکارپلیدگی سے پاک ہو کر مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کے افکار و رفتار کاپیرو ہو گا اور انسان کا وجود علم ودانش اور نورانیّت سے سرشار ہو گا۔اسی لئے اس دن انسان کے احساسات وادراکات ناپاکی اور غلاظت سے پاک ہو جائیں گے اور انسان شیطان کی چال بازیوں سے غلطیوں میں گرفتار نہیں ہو گا۔

۱۵۵

پس اس زمانے کودرک کرنے والے خوش نصیب ہوں گے اور جس طرح وہ ظہور کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام  کے فرمانبردار ہوں گے اسی طرح وہ غیبت کے زمانے میں بھی آنحضرت  کی پیروی کرتے ہوں گے۔ اہلبیت  علیہم السلام نے اس حقیقت کی  وضاحت فرمائی ہے۔اس حقیقت کو بیان کرنے والی روایات میں ظہور کے نورانی زمانے کے اہم نکات بیان ہوئے ہیں ۔ جن میں  غیت کے زمانے میں انسانوں کے وظائف اور عملی برنامہ بیان ہوا ہے۔اسی طرح ان روایات میں مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کی شادمانی و سرور کی حالت کا بھی بیان ہے۔

امام صادق علیہ السلام ،رسولِ اکرم (ص)سے نقل فرما تے ہیں۔

'' طوبٰی لمن ادرک قائم اهل بیتوهو مقتدبه قبل قیامه یتولّٰی ولیّه و یتبرّأ من عدوّه و یتولّٰی الآئمة الهادیة من قبله اؤلئک رفقاء و ذوو ودّ ومودّتواکرم امٰتی علیّ ''  (1)

خوش نصیب ہے وہ شخص جو میرے اہلبیت  علیہم السلام کے قائم  کو درک کرے وہ ان کے قیام سے پہلے ان کی پیروی کرتا ہو ان کے دوست کو دوست رکھتا ہو اور ان کے دشمن سے بیزار ہو اور ان سے پہلے آئمہ ھدیٰ   علیہم السلام کی ولایت پر یقین رکھتا ہو۔وہ میرے رفقاء اور میری محبت و مودّت کے ہمراہ ہوگاور وہ میرے لئے میری امت کے معزز ترین افرادمیں سے ہوگا۔اس بناء پر انسان کے فہم و ادراک کی شناحت کا معیار و میزان اس حد تک ہو کہ وہ آنحضرت کی دوستی کا ادّعا کرنے والوں میں سے ان کے دوستوں کو پہچان سکے اور قاطعانِ طریق کو امام زمانہ (عج) کے دوستوں اور غلاموں کے عنوان سے نہ پہچانے۔

اگرچہ مذکورہ روایت ظہور کے مبارک زمانے سے متعلق ہے لیکن اس میں غیبت کے زمانے کے دوران ہماری ذمہ داریوں اور بہت سے وظائف کو بھی بیان کیا گیا ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ تو ہم انہیں زمانۂ غیبت کی ذمہ داریاں شمار کرتے ہیں اور نہ ہی صحیح طرح سے ان پر توجہ کرتے ہیں۔

--------------

[1] ۔ الغیبة شیخ طوسی:275

۱۵۶

  ہماری ذمہ داریاں

ظہور کے زمانے میں وہی سرفراز ہو گا کہ جس نے غیبت  کے زمانے میں اپنے وظائف پر عمل کیا ہواور اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہوں ۔ ہم یہاں چند ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہیں۔

۱۔زمانۂ غیبت میں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے دستورات و احکامات سے آگاہ ہو کر انہیں انجام دیناچاہیئے۔ امام عصر سے محبت و دوستی ،ان کے ظہور کا انتظار اور ان کے ظہور کو درک کرنا اسی صورت میں مکمل ہو گا کہ جب انسان زمانۂ غیبت میں امام زمانہ  علیہ السلام کاتابع و مطیع ہو۔

2 ۔غیبت کے زمانے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حضرت امام مہدی علیہ السلام سے محبت کرنے والوں کو دوست رکھیں اور ان سے محبت کریں۔

3 ۔انہ یں دوست رکھنا ان کی شناخت پرمنحصرہے ۔ کیونکہ جب تک انسان کو یہی معلوم نہ ہو کہ آنحضرت کے چاہنے والے کون ہیں، تو کس طرح انہیں دوست رکھا جا سکتا ہے۔

4۔ ہمیں امام زمانہ (عج) کے دشمنوں سے متنفر ہونا چاہئے اور ان سے بیزاری کا اظہار کرنا چاہیئے۔

5 ۔ حضرت امام مہد ی علیہ السلام کے دشمنوں سے اظہار نفرت بھی ان کی شناخت پر موقوف ہے۔

لہذا امام زمانہ علیہ السلام کے دشمنوں سے متنفر ہونے کے لئے بھی امام کے دشمنوں کو پہچاننا ضروری ہے۔

ان ذمہ  داریوں کے علاوہ اور بھی ذمہ داریاں ہیں۔امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کو درک کرنے کی صورت میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مکمل طور پر آنحضرت کے اطاعت گزار اور ان کے دستورات کے مطیع ہوں ۔

۱۵۷

امام صادق علیہ السلام یہ حقیقت ابو بصیر کو یوں بیان فرماتے ہیں:

'' یا ابا بصیر: طوبی لمحّب قائمنا المنتظرین لظهوره ف غیبة والمطیعین له ف ظهوره اولیاء اللّه لاخوف علیهم ولاهم یحزنون '' (1)

اے ابو بصیر:ہمارے قائم  کے چاہنے والے خوش نصیب ہیں کہ جو زمانہ غیبت میں ان کے ظہور کے منتظر ہوں اور ظہور کے زمانے میں ان کے فرمانبردار ہوں، ان کے اولیائ، خدا کے اولیاء ہیں ۔ انہیں نہ تو کوئی رنج و غم  ہے اور نہ ہی مغموم ہوں گے۔

اس روایت کی بناء پر خدا اور امام زمانہ (عج) کے اولیاء وہ ہیں کی جو آنحضرت  کے انتظار اور دوستی کے علاوہ ظہور کو درک کرنے کی صورت میں ان کے مطیع  و فرمانبردار ہوں اور ایسے گروہ میں سے نہ ہوں کہ جوظہور کی ابتداء ہی میں آنحضرت کے لشکر سے جدا ہوکر دشمنوںکی صف میں جا کھڑے ہوں۔

ایسے افراد حقیقت میں آنحضرت کے ظہور کے منتظر نہیں تھے ۔ بلکہ وہ خود کسی مقام و مرتبہ تک پہنچنے کے منتظر تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے مقاصدپانی پر بنائے گئے قدموں کے نشانات کی مانند ہیں اورجب انہیں کسی مقام کے ملنے کی کوئی امیدنہ ہو تو وہ امام زمانہ (عج) کے لشکر سے جدا ہوجائیں گے۔

--------------

[1]، احقاق الحق:ج۱۳ص۳۴۹، ینابیع المودّة:422

۱۵۸

  تکامل کی دعوتِ عام

حضرت امام مہدی  علیہ السلام کے اہم پروگراموں میں سے ایک تمام لوگوں کو آئینِ اسلام کی طرف   عام دعوت دینا ہے۔اس وقت دنیا کے ہر مذہب و مکتب سے تعلق رکھنے والوں کو اسلام کی دعوت دی جائے گی اور سب سے کہا جائے گا کہ وہ باطل سے دست بردار ہو جائیں  اور خدا کے پسندیدہ و حقیقی دین یعنی اسلام  اور حقیقی اسلام یعنی تشیع کو اختیار کریں۔ اس عمومی دعوت کے ساتھ کچھ ایسے  واقعات بھی ہوں گے کہ جس سے پوری دنیا والوں کے دلوں کو سکوں ملے گا۔اس دوران ایسے واقعات رونما ہوں گے کہ جس سے یہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لے گا اور لوگ جوق درجوق اسلام قبول کریں گے۔

اس بارے میں قرآن میں ارشادِ قدرت ہے:

''ا ِذَا جَاء نَصْرُ اﷲِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِی دِینِ اﷲِ افْوَاجًا '' (1)

جب خدا کی مدد اور فتح کی منزل آئے گی اور آپ دیکھیں گے کہ لوگ دین خدا میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔

اس بناء پر اس زمانے میں لوگ گروہ کی صورت میں اسلام پر ایمان لائیں گے اور گروہ در گروہ اسلام قبول کریں گے۔

دنیا کے لوگوں کا اسلام کی طرف مائل ہونا حضرت امام مہدی  علیہ السلام کی لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت کے بعد ہو گا۔یہ کچھ حیرت انگیز واقعات کی وجہ سے ہو گا کہ جسے وہ ابتدائے ظہور میں آنحضرت اور ان کے اصحاب میں دیکھیں گے۔جس سے لوگوں پر ان کی حقّانیت ثابت ہو گی اور یوں گروہ کی صورت میں خدا کے دین کا رخ کریں گے۔

--------------

[1]۔ سورہ نصر،آیت: 1،2

۱۵۹

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اذا قام القائم دعا النّاس الی الاسلام جدیداََ و هداهم الی امر قد دثر و ضل عنه الجمهور اِنّما سمّ القائم مهدیاََ،لانّه یهد الیٰ امر مضلول عنه و سمّ القائم لقیامه بالحقّ'' (1)

جب قائم  علیہ السلام  قیام کریں گے تو وہ لوگوں کو دوبارہ اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور ان کی ایسے امر کی طرف ہدایت و راہنمائی کریں گے کہ جو پرانا ہے اور جسے چھوڑ کر اکثر لوگ گمراہ ہو چکے ہیں۔ اسی لئے قائم  علیہ السلام  کا نام مہدی   علیہ السلام  ہو گا ۔کیونکہ وہ گمشدہ امر کی طرف ہدایت کرے گا اور اسے قائم کا نام دیا گیا کیونکہ وہ حق کے لئے قیام کرے گا۔

اس روایت سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ حضرت ولی العصر(عج) قیام کے بعد لوگوں کو اسلام کی طرف ایک جدید دعوت دیں گے اور انہیں گمشدہ امر کی ہدایت کریں گے کہ جس سے وہ لوگ گمراہ ہوئے ہیں ۔ اس روایت میں قتل و غارت کاتذکرہ نہیں ہے۔ بلکہ قیام کے بعد اسلام کی طرف دعوت دی جائے گی اور ہدایت و راہنمائی کا عمل شروع ہوگا۔ انسانوں کو اسلام کی طرف دعوت اور راہ حق کی طرف راہنمائی کے لئے دلیل و برہان کی ضرورت ہے۔ روایات کے مطابق یہ وہی پروگرام ہے کہ جسے حضرت بقیة اللہ الاعظم  علیہ السلام انجام دیں گے۔

دلیل و برہان اور اعجاز کے ہمراہ اس دعوت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ اسلام پر ایمان لائیں گے اور ہدایت کی طرف گامزن ہوں گے۔اس وقت قرآن کی طراوت و شادابی بحال ہو جائے گی ۔ فرسودگی کے بعد اسلام کو نئی حیات ملے گی۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار :3051،الارشاد: 344، نوادرالاخبار:272

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300