امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت26%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180637 / ڈاؤنلوڈ: 4528
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

عقل  کے تکامل سے معاشرے میں خلوص و محبت کی ایسی فضا قائم ہوجائے گی کہ سب عقل کامل ہونے کی وجہ سے پیار،محبت،یگانگت اور اتحاد ایجاد کرنے کی کوشش کریں گے۔اس زمانے میں اجتماعی زندگی میں مہر و محبت ہوگی کہ سب اپنے مال میں دوسروں اور دوسروںکے مال میں خود کو شریک سمجھ کر اس سے استفادہ کریں گے اور یہ سب امام عصر علیہ السلام کے عادلانہ نظام اور حکومت الہٰی کے حاکم ہونے کی وجہ سے ہوگا۔پھر انسان تکامل عقل سے بہرہ مند ہوکر پیار،محبت،اخوت اور بھائی چارے کی دنیا کی طرف گامزن ہوجائیں  گے۔

اب ہم جو روایت پیش کر رہے ہیں۔اس پر توجہ کریں:

امام محمد باقر  علیہ السلام نے سعید بن حسن سے فرمایا:

'' أیجیء احدکم الی اخیه فیدخل یده فی کیسه ،فیأخذ حاجتة فلا یدفعه؟فقلت:ما أعرف ذلک فینا

فقال ابو جعفر:فلا شیء اذاً قلت:فالهلاک اذاً،فقال:ان القوم لم یعطوا احلامهم بعد''(۱)

کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو اپنے دینی بھائی کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس سے حسبِ ضرورت لے لے اور صاحبِ مال بھی اسے منع نہ کرے؟

میں نے جواب میں کہا!ہم نے اپنوں میں ایسا نہیں دیکھا۔

امام  نے فرمایا:اس بناء پر ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔

میں نے کہا!پس کیا اب ہم ہلاک و گمراہ ہوجائیں گے؟

--------------

[۱]۔ اصول کافی :ج۱ص۱۷۳،بحارالانوار: ج۷۴ص ۲۵۴

۱۲۱

امام نے اس احتمال کی نفی کرتے ہوئے فرمایا!ابھی تک لوگوں کو ان کی عقلیں عطا نہیں ہوئیں۔

اس روایت کی بناء پر جب تک معاشرہ ایسی اعلیٰ صفات کا مالک نہ بن جائے،تب تک وہ کامل عقل سے بہرہ مند نہیں ہے۔امام محمد باقر  علیہ السلام کے فرمان کے مطابق ابھی تک ان کو عقلیںنہیں دی گئی ہیں۔

گویا معاشرے کے لئے تمام عقلی قوّتوں سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔جس طرح لوگ سونے کے خزانوں کو خاک تلے پنہاں کردیتے ہیں،اسی طرح لوگوں نے اپنی فکری قدرت و طاقت کو بھی زیرِ خاک دفن کر رکھا ہے۔

لیکن اس وقت انسان کی عقلیں کامل ہوجائیں گی ۔جس کے نتیجے میں نہ صرف بخل بلکہ تمام صفات رذیلہ بھی زائل ہوجائیں گی،بری اور نا پسندیدہ عادات ختم ہوجائیں گی۔پھر سب اعلیٰ انسانی خصوصیات و صفات سے سرشار ہوں گے۔کیونکہ یہ کامل عقل کا لازمہ ہے۔

  عصر ظہور میں تکامل عقل کی وجہ سے ناپسندیدہ صفات پر غلبہ

خاندانِ عصمت و طہارت علیہم السلام کے خاص اصحاب اور اولیاء خدا نے ایسے اعمال انجام دیئے کہ جن کے نتیجہ میں وہ ناپسندیدہ صفات و عادات پر غالب آگئے اور انہوں نے اپنی عقلائی قوت سے طبائع سوء کو مغلوب و مقہور کرکے کمال کے درجہ تک رسائی حاصل کی۔

۱۲۲

یہ ایک فطری و طبیعی موضوع ہے کہ جب عقل کامل ہوجائے تو وہ نہ صرف برے اعمال و کردار بلکہ بری عادتوںپر بھی غالب آجاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

''والعقل الکامل قاهر الطبع السوء '' (۱)

عقلِ کامل ، بری طبیعت پر غالب آجاتی ہے۔

اس بناء پر کامل عاقل اپنی تمام بری صفات حتی کہ ایسی صفات پر بھی قاہر و غالب آجاتا ہے کہ جو اس کی ذات کا حصہ بن چکی ہوں۔پھر وہ انہیں عقلی قوّت کے ذریعے مقہور و مغلوب کرے گا۔

حضرت مولا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے فرمان سے یہ اہم نکتہ حاصل ہوتا ہے کہ اولیاء خدا اور صاحبانِ عقل کامل میں اعلیٰ و بلند مقامات پر فائز ہونے سے پہلے بری عادتوںکا ہونا ممکن ہے۔

یہ ایسے لوگوں کے لئے بشارت ہے کہ جو خود کو طبیعت و صفات بد کا مالک سمجھتے  ہیں۔وہ ناامید نہ ہوں بلکہ خود کو دعا و کوشش کے ذریعے کمال تک پہنچائیں۔حتی حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اسی روایت میں کمال تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں افراد کو عملی راہ بھی دکھا دی اور ایک وظیفہ کے عنوان سے فرمایا۔

''وعلی العاقل ان یحصی علی نفسه مساویها فی الدین والرأی والاخلاق والادب فی  جمع ذلک فی صدره او فی کتاب و یعمل فی ازالتها '' (۲)عاقل کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی تمام برائیوں کو دین، رائے اوراخلاق و ادب میں شمار کرے اور انہیں اپنے حافظے میں یا لکھ کر جمع کرے اور انہیں ختم کرنے کے لئے کوشش کرے۔

--------------

[۱]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۶

[۲]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۶

۱۲۳

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے تمام عقل مندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غلطیوں کو یاد کرکے انہیں زائل و برطرف کرنے کی کوشش کریں۔یہ ایک ایسا بہترین آئین  و اصول ہے کہ اگر اس کے مطابق عمل کریںتو یہ آپ کو اعلی ٰ مقامات تک پہنچا کر معنویت کے طولانی راستے کو نزدیک کردے گا۔

کیونکہ اس کام سے آپ کے تجربات میں اضافہ ہوگا اور جس کا تجربہ زیادہ ہو،اس کی عقل زیادہ ہوتی ہے جس کی عقل زیادہ ہو وہ سو سالہ راستہ جلد ہی طے کرلیتا ہے۔

تجربہ کی وجہ سے عقل کی زیادتی،ایسا نکتہ ہے کہ جس کی حضرت امیرالمؤمنین  نے اسی روایت کے آغاز میں تصریح فرمائی ہے:

''العقل عقلان:عقل الطبع و عقل التجربة و کلاهما یؤدی الی المنفعة '' (۱)

عقل دو طرح کی ہے۔ عقل طبیعی اور عقل تجربی ۔یہ دونوں انسان کو منفعت تک پہنچاتی ہیں۔

اس بناء پر افراد کی ذاتی و فطری عقل کے علاوہ تجربی عقل بھی وجود رکھتی ہے۔جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام نے فرمایا کہ دونوں عقلیں منافع پر منتہی ہوتی ہیں۔

ان تمام مطالب سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں۔

۱ ۔ عقل دو طرح کی ہے،ذاتی و تجربی

۲۔ جس طرح ذاتی عقل انسان کو منافع اور خوبیوں تک پہنچاتی ہے تجربی عقل بھی اسی طرح ہے۔

--------------

[۱]۔ بحارالانوار: ج۷۸ص۶

۱۲۴

۳ ۔عاقل پر واجب ہے کہ وہ اپن ی اخلاقی و دینی برائیوں کویاد کرکے انہیں ختم کرنے کی کوشش کرے۔

۴۔ انسان کو ماضی میں سرزد ہونے والی غلطیوں کی وجہ عالی و بلند مقامات تک پہنچنے سے ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہئے۔بلکہ اسے حضرت امیر المؤمنین علی  علیہ السلام کے فرمان سے درس لے کر اپنے مستقبل کے لئے پُر امید ہونا چاہئے۔

۵ ۔ خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے خاص اصحاب اور تمام اولیاء خدا ابتداء ہی سے عظیم ذات اورنیک طبیعت کے مالک نہیں تھے۔بلکہ انہوں نے زحمت و کوشش سے وہ مقام حاصل کیا۔

۶۔ کامل عقل یا اولیاء خدا اپنی بری صفات پر قوّہ عقل کے ذریعہ غلبہ حاصل کرتے ہیں۔

۷ ۔ ہر کامل عقل کا مالک اعل ی مقامات کا مالک ہوتا ہے کیونکہ جو عقلِ کامل اورسالم طبیعت  رکھتا ہو وہ عالمِ ملکوت کے ساتھ ارتباط پیدا کرکے ملکوتی ہو جاتا ہے۔

ایسے افرادشرح صدر پیدا  کرتے ہوئے نور الٰہی کے مالک بن جاتے ہیں  اور اسی نور الٰہی کی وجہ سے حقائق کو دیکھتے ہیں۔

خدا وند متعال کا قرآن میں ارشاد  ہے:

''أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلِْسْلَامِ فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِّن رَّبِّهِ فَوَیْْل لِّلْقَاسِیَة ِقُلُوبُهُم مِن ذِکْرِ اللَّهِ أُوْلٰئِکَ فِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ '' (۱)

کیا وہ شخص جس کے سینے کو خد انے اسلام کے لئے کشادہ کر دیا ہے تو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نورانیت کا حامل ہے، گمراہوں جیسا ہوسکتا ہے !افسوس ان لوگوں کے حال پر جن کے دل ذکر خدا کے لئے سخت ہو گئے ہیں تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔

--------------

[۱]۔ سورہ زمر ،آیت:۲۲

۱۲۵

جی ہاں !کمال عقل کے ذریعہ راستہ پانے والے افراد ایسے ہیں کہ جن کے قلب بینا ہیں اور جنہوں نے دل کے اندھے پن سے نجات حاصل کرلی جو کہ بدترین اندھا پن ہے۔

حضرت محمد مصطفیٰ(ص) نے فرمایا:

''  شرّ العمی عمی القلب '' (۱)

بدترین اندھا پن، دل کا اندھا پن ہے۔

  عالم غیب سے ارتباط

یہ واضح ہے کہ جب کوئی دل کے اندھے پن سے نجات حاصل کرے اور اس کا دل روشن ہوجائے تو وہ درخشاں انوار کا واضح مشاہدہ کر سکتا ہے۔ایسا دل حضرت امام آخرالزمان (عج) کے مبارک نور سے منوّر ہو جائے گا۔جس طرح حضرت '' ھالو "(۲) امام عصر علیہ السلام کی آواز سن کر سمجھ جاتے تھے کہ امام آخرالزمان (عج) انہیں دنیا کے کس حصے سے آواز دے رہے ہیں۔وہ آواز سن کر خود کو امام کے محضر میں پہنچاتے،وہ بھی دل کی آنکھوں سے آنحضرت کودیکھتے تھے۔حضرت امام سجاد علیہ السلام  ایک طولانی روایت میں  ارشاد فرماتے ہیں:

--------------

[۵]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۵۱

[۲] ۔ حضرت ھالو ظاہراََ ایک عادی فرد تھے وہ اصفہان میں کام کرتے تھے لیکن حقیقت میں امام عصر کے مأمورین میں سے ایک تھے۔ آنحضرت بعض کام انجام دینے کے لئے انہیں مأمور فرماتے تھے ۔

۱۲۶

'' اَلا انّ للعبد اربع أعین:عینان یبصربهما امر دینه و دنیاه و عینان یبصربهما امر آخرته، فاذااراد اللّه بعبد خیراََ فتح له العینین الّتین ف قلبه فابصر بهما الغیب وامر آخرته و اذا اراد به غیر ذالک ترک القلب بما فیه '' (۱)

آگاہ ہو جاؤ !  بندے کی چار آنکھیں ہیں ۔ دو آنکھیں ایسی ہیں کہ جن سے اپنے دین و دنیا کے امر دیکھتا ہے اور دو ایسی آنکھیں ہیں کہ جن سے اپنی آخرت کے معاملات کو دیکھتا ہے۔ جب بھی خد ا کسی بندے کے لئے خیر کا ارادہ کرے تو اس کے دل میں پنہاں اس کی دو آنکھیں کھول دیتا ہے۔پس وہ ان کے ذریعہ غیب اور اپنی آخرت کے معاملات کو دیکھے گا۔اگر کوئی اپنے بندے سے اس کے غیر کا ارادہ کرے تو وہ اس کے دل کو جیسا ہے ویسا چھوڑ دیتاہے۔

  غیب کا مظہر کامل

غیب کے امور میں سے ایک بلکہ اس کا اہم ترین مورد حضرت امام مہدی علیہ السلام کامقد س وجود ہے۔ کچھ مومنین باطنی آنکھوں سے آنحضرت کودیکھیں گے۔ قرآن مجید کی اس آیہ شریفہ''الذین یؤمنون بالغیب ،، (۲) میں آنحضرت  کوغیب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جیساکہ اہلبیت علیھم السلام سے وارد ہونے والی تفاسیر میں اس موضوع کی تصریح ہوئی ہے۔

گزشتہ روایت کوقرآن کی آیت سے ضمیمہ کرنے سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ خدا وند متعال نے جن کی باطنی آنکھوں کو کھول دیا ہے۔وہ یقیناََزمانہ غیبت میں حضرت ولی عصر(عج) سے ارتباط پید اکرکے دل کی آنکھوں سے ان کی زیارت سے شرفیاب ہوں گے۔حلانکہ آنحضرت غیب کے کامل مظہر ہیں۔

--------------

[۱]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۵۳

[۲]۔، سورہ بقرہ آیت :۳

۱۲۷

مرحوم سید بحر العلوم کی زندگی کے کچھ اہم واقعات

مرحوم سید بحر العلوم ایسے افراد میںسے تھے کہ جن کے دل کی آنکھیں روشن ہونے کی وجہ سے وہ ایسے امور دیکھتے کہ جنہیں دیکھنے سے دوسرے  عاجزتھے۔اس بحث کو ثابت کرنے کے لئے اس بزرگ کی زندگی کے کچھ اہم واقعات نقل کرتے ہیں۔مرحوم محدث نوری کتاب دارالسلام میں مرحوم شیح تقی ملّا سے حکایت کرتے ہیںکہ جومرحوم آیت اللہ سید بحر العلوم  کے شاگردوں میں سے بھی ہیں۔

میں ایک سفر میں مرحوم سید بحر العلوم  کے ہمراہ تھا میں اور سید جس قافلہ میں تھے  اس میں ہم منزل بہ منزل سفر کر رہے تھے۔سفر میں ایک ایسا شخص بھی تھا ،جو کسی اور منزل کی طرف سفر کر رہا تھا لیکن وہ بھی قافلہ کے ہمراہ تھا۔ایک بارراستہ  میں  سید نے اسے دیکھا اور اس کی طرف اشارہ کرکے اسے اپنی طرف بلایا۔

وہ سید کے قریب آیا اور اس نے سید کی دست بوسی کی۔پھر سید نے اس سے تمام افراد کی خیریت دریافت کی کہ جن میں بہت سے مرد اور خواتین شامل تھے۔اس شخص نے جواب دیا کہ سب خیریت سے ہیں۔جب وہ شخص چلاگیا تو میں نے سیّد  سے پوچھا کہ اس مرد کے لباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق عراق سے نہیں ہے۔سیّد نے فرمایا ؛ہاں وہ یمن کا باشندہ تھا۔

میں نے کہا ؛آپ تو یمن تشریف نہیں لے گئے،لیکنآپ کو اس گرو ہ کانام کیسے معلوم ہوا کہ جن کے بارے میں آپ نے سوال کیا اور آپ جن کے مرد و خواتین سے بھی آگا ہ ہیں؟

سیّد نے جواب میں کچھ تأمل فرمایا اور کہا؛سبحان اللہ،اس میں تعجب کی کیا بات ہے،اگر مجھ سے تمام روئے زمین میں سے چپے چپے کے بارے میں سوال کرو تو میں سب کو جانتا اور پہچانتا ہوں۔

۱۲۸

محدث نوری کہتے ہیں کہ اس  بزرگ کے اس فرمان کا مؤید یہ ہے کہ نجف اشرف میں تمام مقامات مقدسہ جیسے مسجد کوفہ،مسجد حنّانہ، قبر مطہرکمیل بن زیاد ، حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام  کا گھر ، حضرت ہود علیہ السلام اور صالح   علیہ السلام کی قبر مبارک کومرحوم سید بحر العلوم نے معین کیااور تعمیر کروایاورنہ اسے زمانے سے مرحوم سیّد کے زمانے تک ان کے آثار باقی نہ تھے۔مرحوم سید بحر العلوم  کے زمانے کے تمام علماء   مرحوم سیدکے فرمودات کو اپنا فریضہ سمجھتے اور انہیں قبول کرتے اور کوئی بھی ان پراعتراض نہ کرتا۔حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح  علیہ السلام کی قبریں واد ی السلام میں باقی ہیں۔ لیکن سید نے فرمایا کہ یہاں ان کی قبریں نہیںہیں۔پھر انہوں نے دوسری جگہ کو معین فرمایا کہ جو اب ان بزرگ ہستیوں کا مزار اور لوگوں کے لئے زیارت گاہ ہیں۔(۱) کتاب تاریخ کوفی میں  لکھتے ہیں:بزرگ علّامہ سید محمد مہدی نجفی  کہ جو بحر العلوم کے نام سے مشہور ہیں۔ان کے جاویدانی آثار ہیں۔ان میں سے ایک مقدس مقام مسجد کوفہ ہے کہ جسے گزشتہ زمانے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے اور دین میں بصیرت رکھنے والے بہت کم افراد کے  علاوہ کوئی انہیں نہیں جانتا تھا۔ اس رو سے مرحوم سید بحر العلوم نے ان مقدس مقامات کو معین کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔اس میں کچھ نشانات اور محراب تعمیر کئے اور محراب النبی میں قبلہ کو تعیین کرنے کے لئے پتھروں کا ایک ستون بنایا۔یہ ایک ایساشاخص ہے کہ جو آج بھی ،،رخامہ،،کے نام سے جانا جاتا ہے  ۔(۲)

--------------

[۱]۔ گلزاراکبری:۳۵۸

[۲]۔ تاریخ کوفہ:۷۲

۱۲۹

مرحوم سید بحر العلوم کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد سہلہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام   کے لئے ایک مقام موجو تھا ۔لیکن لوگ اس مقام کو نہیں جانتے تھے ۔  سید بحر العلوم نے حکم دیا کہ فلاں مقام پر ایک گنبد تعمیر کیا جائے تاکہ وہ مقام مشخص ہو جائے۔(۱)

بزرگ علّامہ شیخ عراقین (کوفہ و بصرہ)شیخ عبد الحسین تہرانی جب مقامات عالیہ کی زیارت کےقصد سے عراق گئے تو انہوں نے ان مقامات کو دوبارہ تعم یر کروانے کا اقدام کیا۔مسجد کوفہ کے گوشہ میں جناب مختار کی آرامگاہ کے بارے میں جستجو کی تا کہ اس کو بھی دوبارہ سے تعمیر کیا جا سکے۔ان کے پاس قبر کی فقط ایک نشانی تھی کہ وہ جامع مسجد سے متصل صحن مسلم بن عقیل میں ہانی بن عروہ کے حرم کے سامنے واقع ہے۔

لہذا انہوں نے اسے کھودا تو وہاں حمام کے آثار ملے جس سے واضح تھا کہ یہان مختار کی قبر نہیں ہے اور اس کے آثار ختم ہو چکے ہیں۔لیکن ابھی تک شیخ اس کی جستجو میں تھے کہ آیت اللہ بحر العلوم  طباطبائی کے فرزند علّامہ شیخ سید رضا نے ان سے کہا؛جب بھی ان کے والد بزرگوار مسجد کوفہ کے سامنے سے مشرقی دیوار کے ساتھ سے گزرتے کہ جو اب جناب مختار کی زیارت گاہ ہے تو کہتے؛ جناب مختار کے لئے سورہ فاتحہ پڑھ لیں اور پھر وہ سورہ فاتحہ پڑھتے۔ شیخ نے حکم دیا کہ اس جگہ کو کھودا جائے ۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس جگہ کو کھودا گیا تو وہاں سے پتھر نمودار ہوا جس پر لکھا ہوا تھا کہ یہ مختار بن ابی عبیدہ   ثقفی کی قبرہے۔ لہذا مشخص ہو گیا کہ وہاں جناب مختار کی آرامگاہ ہے۔(۲)

--------------

[۱]۔ تاریخ کوفہ:۷۳

[۲]۔ تاریخ کوفہ:۷۳

۱۳۰

  علامات و نشانیاں

خاندان وحی علیہم السلام کے فرمودات میں ظہور کے باعظمت زمانے کے بارے میں مہم نکات موجود ہیں کہ بعض لوگ انہیں برداشت کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ جیسا کہ انہوں نے دوسرے مسئلوں  کے بارے میں فرمایا کہ جنہیں سب قبول کرنے کی قوّت نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے خاندان عصمت وطہارت علیھم السلام نے اصحاب کواپنے اسرار سے آگاہ کیا ہے۔جس طرح وہ نااہل لوگوں سے ایسی باتیں پوشیدہ رکھتے۔

انہوں نے اسرار آمیز نکات کے علاوہ دیگر نکات بھی ارشاد فرمائے کہ جنہیں وہ وجود خارجی کی وجہ سے قبول کر سکیں ۔ لہذا خدا ئے بزرگ و برتر نے اتمام حجت اور لوگوں کے ذہنوں میں حقائق قریب کرنے کے لئے خارج میں ایسے واقعات کو وجود دیا کہ جس کے ذریعہ اہلبیت نبوت  علیہم السلام  کے فرمان لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہو جائیں۔

غیبت کے زمانے میں زندگی گزارنے والے کہ جنہوں نے ظہور کے زمانے کی نورانیّت کو دیکھا ہی نہیں ہے تو وہ کس طرح ایسے مبارک زمانے کا تصور کر سکتے ہیں؟

غیبت کے زمانے کی تلخیوں اور سختیوں میں زندگی گزارنے والے کہ جنہوں نے نجات کے زمانے کی آزادی کو دیکھا ہی نہیں وہ کس طرح ظہور کے زمانے کے لوگوں کی ترقی و کامیابی کا یقین کرسکتے ہیں؟ خود کو زمین کا مالک سمجھنے والے دنیا کے کوتاہ فکر سیاستدان اور کس طرح ناشناختہ ہاتھوں کے ذریعہ اپنے مال و دولت کی تباہی کا یقین کر سکتے ہیں؟ جو لوگ کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھے  بغیر قبول نہیں کر سکتے خداوند متعال کس طرح ان پر اپنی حجت تمام کرے گا؟

۱۳۱

  ایک عام انسان اور حیرت انگیز دماغ

تاریخ کے صفحات کی طرف رجوع کرنے سے اس سوال کا جواب دینا بہت آسان ہو جائے گا کہ غیبی امداد،طول تاریخ میں رونماہونے والے حیرت انگیز اور غیر معمولی واقعات ،ایسے لوگوں کے لئے محکم جواب ہیں۔

تاریخ کے ستمگروں کوحیرت  زدہ کرنے والے تعجب خیز اور حیرت انگیز واقعات بہت زیادہ ہیں۔لہذا ہم اصل بحث کی طرف واپس آتے ہیں کہ جو ظہور کے بابرکت زمانے میں انسانوں کے عقلی تکامل سے تعبیر کیا  ہے۔

ہم اس بارے میں یہ کہیں گے انسان محدود دماغ کے ساتھ کس طرح اتنی حیرت انگیز قدرت کامالک بن سکتاہے؟

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہم ایک مرد کے حیرت انگیزواقعہ کو نقل کرتے ہیں،جو اپنے دماغ میں تحوّلات کے ایجاد ہونے کی وجہ سے عجیب انجانی قدرت کا مالک بن گیا۔البتہ ہمیں ایسے واقعات کو نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہم ایسے واقعات پر جاں نثار کرنے والے افراد کے تقریبِ ذہن کے لئے نقل کرتے ہیں۔

ہالینڈ کے ''پیٹر ہارکس ''کودنیا کا عجیب ترین انسان کہا گیا ہے اور اسے ریڈار کا نام لقب دیا گیا ہے۔کیونکہ اس میں تمام انسانوں میں حوّاس خمسہ کے علاوہ ایک چھٹی حسّ بھی تھی۔ وہ لوگوں کے افکار پڑھتا اور انہیں بتا دیتا کہ وہ کس چیز کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔اس شخص کے ساتھ دنیا کی بے  زبان اور جامد مخلوق بھی گفتگو کرتیں اور وہ اپنی چھٹی حسّ کے ذریعہ گزرے واقعات اور اشخاص کی زندگی کے واقعات کوکشف کرتا۔وہ دنیا اور اشخاص کے مستقبل کے بارے میں حیران کن پیشن گوئیاں کرتا کہ جو ہمیشہ صحیح ثابت ہوتیں۔

''پیٹر ہارکس '' کو مورد تجربہ قرار دینے والے تمام ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے اس کی  تصدیق بھی کی ۔اب تک دنیاکے سولہ مختلف ممالک کی پولیس اس کی مدد سے جرائم کے مختلف واقعات کا پتہ لگا چکی ہے اور اب اس کے پاس بین الاقوامی پولیس کا قانونی کارڈ ہے۔

۱۳۲

  اسے یہ قدرت کیسے حاصل ہوئی؟

پیٹر کی زندگی میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اسے یہ چھٹی حس (ریڈار) شکم مارد سے نہیں ملی۔وہ بتیس سال تک ایک عام اور معمولی انسان کی طرح ہی تھا۔جس کے پاس پانچ حسوں کے علاوہ کوئی حس نہیں تھی ۔ لیکن۱۹۴۳ ئم یں ایک دن جب وہ آشیانہ ہوا پیما (ہوائی جال) سے دس میٹر کی بلندی سے زمین پر گرا اور بیہوش ہو گیا۔وہ خود کہتاہے کہ زمین سے ٹکرانے سے پہلے میرے ذہن میں میری زندگی کے تمام واقعات آگئے۔حتی کہ مجھے یہ بھی یاد آ گیا کہ ایک بار کتّے نے میرے پاؤں پر کاٹا تھا ۔ جب میںزمین اور آسمان کے درمیان تھا تو میں صرف ایک ہی چیز کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں مرنانہیں چاہتا۔

اس واقعہ کے چار دن بعد جب اسے ہسپتال کے بستر پر ہوش آیا تو وہ سر میں شدید درد محسوس کررہا تھا اور وہ شدّت ِ درد سے چیخ رہا تھا۔نرس نے اسے بتایا کہ گرنے کی وجہ سے اس کا سر پھٹ گیا ہے اور اسے بہت گہری چوٹ آئی ہے۔ جب پیٹر نے یہ پریشان کن خبر سنی تو وہ اس کا جواب نہ دے سکا ۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا۔لیکن وہ خود کو ایک عجیب حالت میں محسوس کررہا تھا۔جب نرس کمرے سے باہر نکل گئی تو پیٹر نے بیماری کی حالت میں ہی ساتھ والے بستر پرسوئے ہوئے مریض کی طرف بڑھا، یہ وہ لمحہ تھاکہ جب اس میں معجزانہ طور پریہ قوّت پیدا ہوگئی۔

پیٹر میں الہام جیسی کیفیت پیدا ہوئی ۔اس نے اپنے ساتھ دیگر مریضوں کو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔اور اس نے اس سے پہلے کبھی ان سے بات نہیں کی تھی ۔ لیکن ایک ہی لمحہ میں اس نے یہ محسوس کیا کہ وہ ان بیماروں کے ماضی اور مستقبل کو جانتا ہے۔ یہ الہام اس قدر عجیب تھا کہ وہ اپنے ذہن میں پید اہونے والے الہام کے اظہار سے پرہیز نہ کر سکا اور اس نے کہا کہ تم لوگ حق شناس انسان نہیں ہو۔بیمار غصے میں بولا؛جی ہاں، مگر تم یہ بات کیسے جانتے ہو؟

۱۳۳

پیٹر نے کہا کہ اس لئے کہ تمہارا باپ ایک ہفتہ پہلے مر گیا تھا اور اس نے تمھیںیاد گار کے طور پر ایک قیمتی گھڑی دی تھی۔لیکن تم نے اپنے باپ کی یاد گار گھڑی کو فروخت کر دیا۔ساتھ بستر پر لیٹے ہوئے مریض نے حیرت میں کہا کہ تمھیں یہ کیسے معلوم ہوا؟

اس دن کے بعد وہ شخص پیٹر کو شیطان یا جنّ بھوت سمجھتا تھا اور اس سے ڈرتا تھا۔یوں پیٹر نے پہلی بار اپنی عجیب قوّت کو استعمال کیا کہ جس نے اس کی زندگی کو  یکسر بدل دیا۔

  کسی انجان چیز کا اس کے دماغ میں بدلاؤ ایجاد کرنا

وہ خود کہتاہے کہ میں نہیں جانتا کہ آخر کیاہوا لیکن اتناضرورجانتاہوں کہ ایک بجلی کی طرح کی لہر نے میرے دماغ کو صاف کر دیا اور اس میں دیگر افکار ڈال دیئے۔ بعض اوقات سوچتا ہوں کہ میں پاگل ہو گیا ہوںکبھی دل سے یہ خواہش کرتا ہوں کہ کہ واقعاََ پاگل ہو جاؤں تاکہ اس چھٹی حسّ سے نجات پاجاؤں کیونکہ جو کوئی بھی میرے کمرے میں داخل ہوتا ،میں ایک ہی لمحہ میں اس کا چہرہ دیکھ کر اس کے ماضی کو جان جاتا ۔اس کی تمام خواہشات اور غموں کو بھی جان جاتا۔ایک ہی لمحہ میں اپنے دل میں کہتا : یہ چور ہے،آج اس نے اپنی بیوی پر تشدد کیا ہے ،اس نے آج فلاں کام کیا ہے.....

لیکن یہ سب کچھ جان کر مجھے دکھ ہوتا ہے۔میں لوگوں کے راز کی باتیں نہیں جاننا چاہتا لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔کسی سے اس بارے میں بات کرنے سے پہلے ہی میرا دماغ مجھے اس کے بارے میں سب کچھ بتا دیتا ہے۔ ہوش میں آنے کے چار یا پانچ دن کے بعد پیٹر نے ایک بیمار کو دیکھا کہ جو ہسپتال سے جارہا تھا پیٹر اس سے ہاتھ ملا رہا تھا کہ یہ اسے الوداع کہتے ہوئے اچانک سے سمجھ گیاکہ شخص اپنے ادعا کے برخلاف ہالینڈ کا باشندہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق انگلینڈسے ہے جو ایک خفیہ انٹیلی جنٹ ایجنسی کا جاسوس ہے اور جاسوسی کی غرض سے ہالینڈ آیا ہے۔

۱۳۴

پیٹر اسی وقت سمجھ گیا کہ گشتاپو(جاسوسی کے خلاف جرمنی کی بنائی جانے والی فورس) کو اس جاسوس کے بارے میں پتہ چل چکا ہے اور وہ جلدہی اسے گرفتار کرکے قتل کر دیں گے۔وہ اپنے ذہن میں جاسوس کے ٹھہرنے کی جگہ سے بھی واقف ہو گیاکہ وہ کالور اسٹریٹ میں رہتا ہے۔وہ اس جاسوس کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتاتھا ،لیکن وہ جلدی میں وہاں سے نکل چکا تھا۔

پیٹر نے یہ سار اماجرا ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ ہر قیمت میں جاسوس کو اس واقعہ سے آگاہ کر دے۔دو دن کے بعد جرمن اہل کاروں نے اس جاسوس کاکالور اسٹریٹ  پرپیچھا کیا اور اسے قتل کر دیا۔پیٹر کی پیشن گوئی کا نہ صرف اس جاسوس کو کوئی فائدہ ہوا بلکہ اس کی وجہ سے ہالینڈ کے اہل کار اس پر بھی شک کرنے لگے اور اسے کہنے لگے کہ جب تمھیں پہلے ہی سے علم تھاوہ انگلینڈ کے جاسوس کا پیچھاکریں گے تو یقیناََ تم بھی گشتاپو کے جاسوس ہو۔اس گمان میں اتنا اضافہ ہوگیا کہ دو دن کے بعددو افراد تکیہ کے ذریعہ پیٹر کی سانس بند کرکے اسے مارنے کے لئے ہسپتال میں آئے۔لیکن اس بار بھی پیٹر کی چھٹی حسّ نے اس کی مدد کی اور اسے موت کے منہ سے بچا لیا۔

  دوسری زبان میں کلام

اسے قتل کرنے والوں میں سے ایک ہسپانوی تھا۔جب وہ شخص پیٹر کے منہ اور ناک پرتکیہ رکھ کر دبا رہا تھا تو پیٹر نے اسے ہسپانوی زبان میں کہا کہ،،کومو آبودورو دا لا موئرنہ،،حلانکہ پیٹر ہسپانوی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا تھا۔ ہسپانوی شخص نے تکیہ  ہٹا کر کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ یہ مجھے کہہ رہا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے سے ڈر رہے ہو اور میں اس وقت اسی بارے میں سوچ رہا تھا۔کچھ دیر سکوت کے بعد ہسپانوی شخص نے  اس کے ہاتھ کو دبا کر کہا کہ میں تمہاری بات پر یقین کرتا ہوں لیکن تم مجھے برا بھلا مت کہنا۔آخر ایسی عجیب قوّت کوکس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟

۱۳۵

اس مدت کے دوران پورے ہسپتال میں پیٹر کا واقعہ مشہور ہو گیا۔اب وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ جلد ہی ایک استثنائی انسان بن جائے گا۔اب وہ اپنی چھٹی حس سے خوفزدہ نہیںتھا ۔ بلکہ وہ اس کے ذریعہ اپنی زندگی کے اخراجات مہیا کرنا چاہتا تھا ۔ جب وہ اپنے گھر واپس گیا تو تقریباََ سب گھر والوں نے اسے نہ پہچانااس کی ماں کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا خیالاتی ہو گیا ہے۔پیٹر خود بھی کہتا تھا کہ میں پہلے جن مشکلات کا سامنا کر رہا تھا اب بھی انہیں مشکلات کا سامنا کر رہا ہوں۔جب کوئی ہمسایہ میری چاپلوسی  یا خوشامدکرتا تو میں اس کے دماغ کو پڑ ھ کر بتا دیتا کہ  وہ  جھوٹ بول رہا ہے۔میں یہ بھی سمجھ چکا تھا کہ میر ی ماں ،بہنیں اور بھائی بھی مجھ سے بہت سی باتیں چھپاتے ہیں۔لیکن اب کوئی مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔لیکن جب میں لوگوں کے جھوٹ کو جان جاتا تو مجھے بہت دکھ ہوتاہے۔

  کسی انجان قوّت کا اس کے دماغ کو مطلع کرنا

کیا یہ چھٹی حس کوئی ہدیہ و تحفہ تھی یا کوئی تکلیف؟

اس بارے میں پیٹر کا کہنا تھا کہ میںاس بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ کوئی دوسری  قوّت ذہنی اطلاعات اور پیشن گوئیاں میرے دماغ میں داخل کر دیتی ہے۔ اب میں سب انسان سے پہلے خدا سے نزدیک ہو جاناچاہتا ہوں ۔ کیونکہ خدا نے کروڑوں انسانوں میں سے فقط مجھے اس حسّ سے نوازا ہے۔ لہذا میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اس ریڈار جیسی حس کو لوگوں کے فائدے کے لئے استعمال کروں۔ اب مجھے ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے کیونکہ اب میں اپنے سابقہ کام انجام نہیں دے سکتا تھا۔اس نئی اور غیر معمولی حسّ کے آنے سے میں نے اپنی معمولی حسّ کھو دی ہے۔ میں کسی بھی موضوع کے بارے میںدس یا پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں سوچ سکتا تھا ۔ کیونکہ ہر لمحہ میرے دماغ میں ہزاروں مطالب گردش کرتے تھے۔

۱۳۶

 اگر میں خود کو کسی موضوع کے بارے میں مجبور کرکے فکر کروں مثلاََ اگر ایک کیل ٹھونکنے کے لئے فکر کروں تو اچانک میرا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے میری سانس بند ہونے لگتی اور میرے نیچے کرسی بھی لرزنے لگتی۔

  بے زبانوں سے گفتگو

جب بھی میرے کمرے میں کوئی داخل ہوتا تو میرا دماغ اس کے بارے میں فکر کرنا شروع کر دیتا اور مجھے اس کے گزشتہ اور آئندہ  سے آگاہ کر دیتا۔یہ صرف اشخاص کی حد تک محدود نہیں تھا بلکہ ان کے زیر استعمال اشیاء سے بھی آگاہ ہو جاتا۔جیسے بیگ،کتاب،اشیائ،تصاویر،رومال وغیرہ۔حتی کہ صحرا میں تنہائی کے دوران بھی  مجھے راحت اور آرام نصیب نہیں تھا۔پتھر،درخت بھی مجھے اپنی کہانی سناتے۔اس آفت سے نجات کا راہ حل یہ تھا کہ میں کسی ایسے خالی کمرے  میںبیٹھا رہوں کہ جہاں کوئی چیز بھی موجود نہ ہو اور اس کمرے سے بالکل باہر نہ نکلوں۔ لیکن میری طرح کا۳۴ سالہ شخص بالکل راہبوں ک ی طرح زندگی نہیں گزار سکتا تھا ۔

میرے پاس صرف ایک راستہ تھا کہ میں  ایسی راہ کا انتخاب کرتا کہ جن میں ایسی چھٹی حس سے استفادہ کرتے ہوئے میں اپنی زندگی کی ضروریات کو مہیا کرتا۔اب جب کہ مجھے اس حس سے ایک منٹ کی بھی چین و سکون نہیں تھا۔لہذا میں اس کے اوامر کی اطاعت کرنے کے لئے مجبور تھا۔اس دن سے پیٹر کی زندگی،اسی چھٹی حس کے ساتھ جڑ چکی تھی۔میں نے ملّی جشن کے دوران لوگوں کے سامنے اپنی چھٹی حس کو ثابت کیا ۔میں نے  ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے حالاتِ زندگی ایک یا دو گھنٹے تک مسلسل بیان کیے۔

۱۳۷

  ریڈار کے نام سے پروگرام

پیٹر بہت جلد ہی ہالینڈ، فرانس اور پورے یورپ میں مشہور ہوگیا ۔آج پیٹر امریکہ کا باشندہے جو ٹیلی ویژن پر ریڈار کے نام سے ایک پروگرام کررہا ہے۔

اس پروگرام میں وہ ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھا ہوتا ہے اور دیکھنے والے سینکڑوں کلو میٹر  کے فاصلے سے ٹیلی ویژن کے ذریعے اس سے سوال پوچھتے ہیں ۔وہ ان لوگوں کو دیکھے اور پہچانے بغیر سینکڑوں کلو میٹر کی دوری سے ان کے سوالات کے جواب دیتا ہے۔اور ان کی موجودہ زندگی اور مستقبل سے آگاہ کرتا ہے۔

وہ خود بھی کہتا ہے کہ میرا حقیقی ہدف ایسے انسانوں کی مدد کرنا ہے کہ جنہیں میری ضرورت ہو۔مثلاً میں چاہتا ہوں کہ لوگوں  کے کاموں میں ان کی مدد کروں یا گمشدہ بچوں کو تلاش کروں ۔

پیٹر نے ہزاروں گمشدہ کو تلاش کیا ۔پولیس کو چوری کے سینکڑوں واقعات کی پیشگی اطلاع دی ، سینکڑوں معدن کشف کئے۔کئی بار مجرموں اور قاتلوں کو پہچاننے کے لئے پولیس کی مدد کی ۔ لیکن وہ اپنے شخصی منافع اور جوئے میں اپنی چھٹی حس سے استفادہ نہیں کرتاکیونکہ کہ اگر وہ جواکھیلے تو وہ ہر ایک سے دنیا کی ساری ثروت حاصل کرلے۔

وہ خود بھی کہتا ہے کہ میںاچھی طرح جانتا ہوں کہ خدا نے لوگوں کی مدد کے لئے مجھے چھٹی حس عطا کی ہے نہ کہ مال و دولت جمع کرنے کے لئے۔

ایک دن ونیکوتن سٹی میں آتش زدگی کے واقعہ کے بعد ہالینڈ پولیس نے پیٹر سے اس واقعے کے اسباب کے بارے میں مدد طلب کی۔کیونکہ پولیس چار مہینے کی تحقیق کے با وجود اس کے اسباب سے آگاہ نہ ہوسکی تھی۔

پیٹر نے فوراً انہیں بتایا کہ میں ایک عورت کو دیکھ رہا ہوں کہ جس نے اپنا ایک دستانہ حادثہ رونما ہونے والی جگہ  پر رکھا ہے اور وہ افیون اور دوسری منشیات میں ملوث ہے۔

۱۳۸

اس وقت تک پولیس نے وہاں کوئی دستانہ نہیں دیکھا تھا ۔ لیکن جب وہ دوبارہ وہاں گئے تو انہیں دستانہ مل گیا۔یہ دستانہ پیرس کی ایک دکان سے خریدا گیا تھا، اس کے مالک کو ڈھونڈنا بہت مشکل تھا۔ لیکن پیٹر نے اس عورت کے دوسرے مشخصات بھی بیان کئے کہ اس عورت کا شوہر نہیں ہے اور وہ افیونی بھی ہے۔

جب پیٹر کی اطلاعات کے ذریعے اس عورت کوگرفتار کیا گیا تو اس نے اعتراف کیا کہ افیونی ہے اور اس نے منشیات کے اڈے کے لئے ایک جگہ بھی کرائے پر لی ہے۔یوں پولیس نے پیٹر کی مدد سے منشیات کی اسمگلنگ کا منصوبہ بھی ناکام بنادیا ۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے باقاعدہ طور پر پیٹر کا شکریہ ادا کیا۔

ہم سب چھٹی حس رکھتے ہیں ۔ امریکہ کے مشہور اور بزرگ استاد پروفیسر ''پوہاریس'' ایک سال سے پیٹر کے بارے میں مطالعہ کر رہے ہیں ۔انہوں نے اعلان کیا کہ پیٹر کی چھٹی حس میں کوئی شک نہیں کہ جو ریڈار کی طرح ہر چیز کو دور سے تشخیص دیتی ہے ۔ لیکن علمی لحاظ سے میں ابھی تک اس مسئلہ کی توجیہ نہیں کرسکا ۔میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اس کی چھٹی حس دیگر حواس خمسہ کی بہ نسبت حسّاس ہے جب وہ مریض ،تھکا ہوا یا غصے میں ہو تو اس کی چھٹی حس دیگر حواس سے جلد متاثر ہوجاتی ہے۔

طولِ تاریخ  میں  دو یا تین دیگر پیشن گوئی کرنے والے بھی تھے کہ جن کے پاس بھی یہی حس تھی ۔ لیکن پیٹر وہ واحد شخص ہے کہ یہ حس پیدائشی طور پرنہیں بلکہ۳۲ سال کی عمر میںحادثے کے بعد حاصل ہوئی۔وہ خود بھی کہتا ہے کہ سب لوگوں کے پاس کم و بیش چھٹی حس ہوتی ہے۔

۱۳۹

کبھی آپ کو بھی یہ اتفاق ہواہوگا کہ حادثہ سے پہلے اس کے بارے میں جان لیں۔مثلاً کبھی کسی دیہات میں داخل ہوں تو آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ اسے ایک مرتبہ پہلے بھی کہیں دیکھ چکے ہوں۔میرے خیال میں انسان کے دماغ حواس خمسہ کی طرح چھٹی حس کی بھی ایک مخصوص جگہ ہے۔ میرے ساتھ ہونے والے حادثے نے اس حس کو بیدا ر کردیا۔(۱)

اس بناء پر حادثے میںگرنے اور دماغ پر چوٹ لگنے کی وجہ سے پیٹر میں مخفی قدرت بیدار ہوگئی ۔ اسے ایسی قدرت نصیب ہوئی کہ جو دوسروں کو حاصل نہیں تھی انسان عقل کے تکامل کی وجہ سے  مخفی قوتوں کو حاصل کرسکتا ہے۔

  عقل کی آزادی

جب انسان اپنے اندرپوشیدہ طاقتوں تک رسائی حاصل کرلے اور تکامل عقلی کی منزل تک پہنچ جائے تو اس کی عقل اسارت سے آزاد ہوجاتی ہے۔یہ آزادی کی عظیم ترین اقسام میں سے ایک ہے ۔ جوظہور کے تکامل بخشیں زمانے میں تمام انسانوں کو حاصل ہوگی۔عقل کے شیطانی و نفسانی قید سے آزاد ہونے کے بعد انسان آسانی سے اپنی عقلی قوت سے استفادہ کرسکتا ہے۔ ہر انسان کی عقل میں کچھ قوتیں اور طاقتیں کار فرما ہوتی ہیں کہ جو ایک سپاہ کی حکمِ عقل کے تابع  ہوتی ہیں ۔ خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین میں اس کی وضاحت ہوئی ہے۔جو کہ وجودِ بشر کے تمام پہلوؤںسے آگاہ ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام ایک عظیم روایت میں عقل و خرد کی سپاہ کے تمام افراد کو بیان فرماتے ہیں۔(۲)

--------------

[۱] ۔ ہفت روزہ خبر ۲۵ اردیبہشت سال ۱۳۷۶

[۲]۔ البتہ اس میں جہل سے مراد نفس ہے نہ کہ لاعلمی ،کیونکہ جہل بمعنی لاعلمی،خود جہل بمعنی نفس کی فوج میں سے ایک ہے کہ جو اس روایت میں بیان ہوئی ہے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۵_تقوى ،انسانوں ميں بھائي چارے كى روح پيدا كرنے اور دلوں سے كينہ و دشمنى ختم كرنے كا سبب بنتا ہے_

ان المتقين ...ونزعنا مافى صدورهم من غلّ اخونً

۶_متقين بہشت ميں تختوں پر ايك دوسرے كے روبرو بيٹھے ارام كر رہے ہونگے_ان المتقين فى جنت ...على سرر متقبلين

۷_متقين ،بہشت ميں صفا وصميميت كى محفل جمائے ہونگے_

ان المتقين فى جنت ...ونزعنا مافى صدورهم من غلّ اخونًاعلى سرر متقبلين

۸_متقين كے دلوں ميں كينہ اور دشمنى داخل ہونے كاامكان_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ

يہ جو خدا وند متعال نے فرمايا ہے : ''ہم نے متقين كے دل سے كينہ و دشمنى ختم كر دى ہے ''يہ اس نكتے كى جانب اشارہ ہے كہ متقين كے دل ميں بھى كينہ داخل ہو سكتا ہے_

الله تعالى :الله تعالى كے افعال ۱

بدن :بدن كا بہشت ميں ہونا۴

بھائي چارہ :بھائي چارے كے عوامل ۵

بہشت :بہشت كے تخت ۶;بہشت ميں كينہ كا ختم ہو جانا ۱

بہشتى لوگ:اُن كى اسائش ۶;اُن كى محفل ۷;بہشتى اور كينہ ۱

تقوى :تقوى كے اثرات ۵

دشمنى :دشمنى ختم ہونے كا سبب ۵;دشمنى كا مقام ۳

قلب :قلب كا كردار ۳

كينہ :كينے كا مقام ۳;كينہ ختم ہونے كا سبب ۵

متقين :بہشت ميں متقين كى دوستى ۲;بہشت ميں متقين كے تعلقات ۲;متقين اور دشمنى ۱،۸;متقين اور كينہ ۱،۸;متقين بہشت ميں ۱،۶،۷

معاد :جسمانى معاد ۴

۲۴۱

آیت ۴۸

( لاَ يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ )

نہ انھيں كوئي تكليف چھو سكے گى اور نہ وہاں سے نكالے جائيں گے _

۱_بہشت ميں متقين كو كسى قسم كى تكليف اور پريشانى نہيں ہو گي_لايمسّهم فيها نصب

''نصب '' لغت ميں سختى اور تكليف كو كہتے ہيں _

۲_متقين كو بہشت سے نكالا نہيں جائے گا اور وہ اُس ميں ہميشہ رہيں گے_وماهم منهابمخرجين

۳_متقين كى بہشت ،معنوى اور مادى نعمتوں كى حامل ہو گي_

ان المتقين فى جنت وعيون _ادخلوها بسلم ء امنين ...على سرر متقبلين_لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

۴_رنج اور سختى سے دورى اختيار كرنا، دائمى و ابد ى اور امن وسلامتى كى زندگى گذارنا،انسان كے بہت ہى پسنديدہ اُمور ہيں _لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

بہشت ميں متقين كى حالت بيان كرنے كا مقصد انسانوں كو اہل تقوى كى صف ميں داخل ہونے كى تشويق كرنا ہے لہذا طبيعى ہے كہ يہ حالت ايسى ہونى چاہيے كہ جو انسانوں كى پسنديدہ اور مطلوبہ ہو_

۵_متقين كو بہشت ميں مادى رفاہ و اسائش اور مكمل فكرى اسودگى حاصل ہو گي_

ان المتقين فى جنت وعيون _ادخلوها بسلم ء امنين ...على سرر متقبلين_لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

۶_بہشت ميں انسان كى خواہشات كے پورا ہونے كى ياد دلانا ،انسانوں كى ہدايت اور اُنہيں دين كى طرف راغب كرنے كا ايك طريقہ ہے_ان المتقين فى جنت وعيون _ادخلوها بسلم ء امنين_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ

۲۴۲

اخونًاعلى سرر متقبلين_لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

انسان :انسان كے پسنديدہ اُمور۴

بہشت :بہشت كى مادى نعمتيں ۳;بہشت كى معنوى نعمتيں ۳;بہشت ميں ابدى زندگى ۲

بہشتى لوگ:اُن كى اسائش ۱،۵;اُن كى رفاہ ۵

پسنديدہ اُمور :ابديت كو پسند كرنا ۴;امن كو پسند كرنا ۴;سلامتى كو پسند كرنا ۴

ياددہانى :بہشت ميں خواہشات پورا ہونے كى ياد دہانى ۶

دين :دين كى طرف دعوت كا طريقہ ۶

متقين :متقين بہشت ميں ۱،۲،۵;متقين كيبہشت كى خصوصيات ۴

ہدايت :ہدايت كا طريقہ ۶

آیت ۴۹

( نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ )

ميرے بندوں كو خبر كردو كہ ميں بہت بخشنے والا اور مہربان ہو_

۱_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فريضہ ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندوں كو خداوندمتعال كى مغفرت،رحمت اور مہربانى كے بارے ميں خبر ديں _نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم

۲_خطا كار اور گناہگار بندوں كو خداوند متعال كى رحمت اور مغفرت سے اگاہ كرنا ،پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم

''غفران''اور ''مغفرت '' كا استعمال اصولاًوہاں ہوتا ہے كہ جہاں خطا اور لغزش ہواس لئے ممكن ہے كہ ''عبادى '' سے و ہ بندے

۲۴۳

مراد ہوں جو گناہ اور خطا كے مرتكب ہو ئے ہيں _

۳_خداوند متعال غفور (بخشنے والا) اور رحيم (مہربان ) ہے_ا نا الغفور الرحيم

۴_خداوند متعال كى مغفرت ،اُس كى رحمت و مہربانى كے ہمراہ ہے _ا نا الغفور الرحيم

مندرجہ بالا مطلب اس نكتے كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''الرحيم ''،''الغفور '' كے لئے صفت ہو_

۵_بندوں كو خداوند متعال كى مغفرت اور رحمت سے اگاہ كرنا اور اس كے بارے ميں اگاہى ركھنا ، انتہائي اہم ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم

لغت كى كتابوں ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كے مطابق ''نبائ'' فعل ''نبى '' سے اسم مصدر ہے جس كا معنى '' خبر ''ہے _اور يہ لفظ ايسى خبروں كے لئے استعمال ہوتا ہے جو اہميت اور عظيم فائدے كى حامل ہوتى ہيں _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱،۲

اسما و صفات:رحيم ۳;غفور ۳

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت ۴;الله تعالى كى مغفرت كا اعلان ۱;الله تعالى كى رحمت كے اعلان كى اہميت۱،۵;الله تعالى كى رحمت كا اعلان ۱;الله تعالى كى مہربانى كا اعلان ۱;الله تعالى كى مغفرتوں كے اعلان كى اہميت ۱،۵;الله تعالى كى مغفرتوں كى خصوصيات ۴

اُميدواري:رحمت خدا سے اُميد وارى كى اہميت۲;مغفرت خدا سے اُميد وارى كى اہميت ۲

گناہگار لوگ:گناہگاروں كى اُميدوارى كى اہميت ۲،۵

۲۴۴

آیت ۵۰

( وَ أَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمَ )

اور ميرا عذاب بھى بڑا دردناك عذاب ہے _

۱_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فريضہ ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندوں كو خداوند متعال كے درد ناك عذاب كے بارے ميں خبر ديں _

وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

۲_قران كے ہدايت اور تربيت كے طريقوں ميں سے ايك انسان ميں خوف و رجا ء اور اُميد و بيم كى كيفيت پيدا كرنا ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

۳_تربيت اور ہدايت كے سلسلے ميں اُميدواربنانا ، ڈرانے اور خوف دلانے پر مقدم ہونا چاہيے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

مندرجہ بالاايت ميں ''عذاب اليم ''پر خداوند متعال كى دو صفات ''غفور '' اور ''رحيم '' كو مقدم كرنا ہو سكتا ہے مذكورہ نكتے كى جانب اشارہ ہو_

۴_خدا وند متعال كى مہربانى اور رحمت كا اُس كے غضب اور عذاب پر مقدم ہونا _

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

يہ جو خدا وند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نصيحت كرتے ہوئے پہلے اپنى مغفرت اور رحمت كا اور اس كے بعد اپنے عذاب كا ذكر كيا ہے_ہوسكتا ہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ خدا وند متعال كى رحمت اور مغفرت ہميشہ اُس كے غضب اور عذاب پر مقدم ہوتى ہے_

۵_خداوند متعال كى مہربانى اور غضب ،ہر قسم كى مہربانى اور غضب سے بالا تر ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

جملہ ہائے اسميہ''انّى انا___'' اور''ان عذابي__'' كے ساتھ حرف تاكيد اور ضمير فصل اور خبر ميں لام لانے سے بہت زيادہ تاكيد حاصل

۲۴۵

ہوتى ہے اور اس سے يہ نكتہ اخذ ہوتا ہے كہ خداوند متعال كى مغفرت و رحمت (مہرباني)اور عذاب اس طرح وقوع پذير ہوتے ہيں كہ كسى قسم كى ركاوٹ ان كو نہيں روك سكتى اور جس قسم كا بھى لطف و مہربانى اور عذاب و غضب تصور كياجائے اُس كا خدا كے لطف و قہر كے ساتھ موازنہ نہيں كيا جاسكتا_

۶_دردناك الہى عذاب سے اگاہ كرنا اور اس كے بارے ميں باخبر رہنا ، بہت ہى اہم اور فائدہ مند بات ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

''نبائ''اہم اور بہت ہى فائدہ مند چيز كو كہا جاتا ہے_ (مفردات راغب)

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انذار ۱

الله تعالى :الله تعالى كا غضب ۴;الله تعالى كى رحمت كى عظمت ۵;الله تعالى كى رحمت كا مقدم ہونا ۴;الله تعالى كے عذاب۴;الله تعالى كے عذابوں سے اگاہى ۶;الله تعالى كے عذابوں كے اعلان كى اہميت ۱;الله تعالى كے عذابوں كا غلبہ ۵

اُميد وارى :اُميدوارى كى اہميت ۳;اُميد وارى كے پيش خيمہ كى اہميت۲

تربيت :تربيت كا طريقہ ۲،۳

خوف :خوف كے پيش خيمہ كى اہميت ۲

عذاب :دردناك عذاب ۱;عذاب كے مراتب ۱،۶

عمل :پسنديدہ عمل ۶

قران :تعليمات قران كا طريقہ ۲

ہدايت :ہدايت كا طريقہ ۲،۳

۲۴۶

آیت ۵۱

( وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِ بْراَهِيمَ )

اور انھيں ابراہيم كے مہمانوں كے بارے ميں اطلاع ديدو_

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كافريضہ ہے كہ اپ،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندوں كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) كا قصہ سنائيں _

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم

۲_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) كا قصہ اور اُس سے مطلع ہونا ايك بہت ہى اہم اور فائدہ مند بات ہے _

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم

''نبائ'' بہت ہى اہم اور فائدہ مند خبركو كہا جاتا ہے_(مفردات راغب)

۳_ قران كے ہدايت اور تربيت كرنے كے طريقوں ميں سے ايك، لوگوں كو بہت اہم اور فائدہ مند تاريخى حقائق سے اگاہ كرنا بھى ہے_ونبّئهم عن ضيف ابرهيم

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱

ابراہيمعليه‌السلام ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں كى اہميت ۱;ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان ۲;قصہ ابراہيمعليه‌السلام سے اگاہى ۱;قصہ ابراہيمعليه‌السلام كو بيان كرنے كى اہميت۱;قصہ ابراہيمعليه‌السلام كى اہميت۲ ; قصہ ابراہيمعليه‌السلام كے فوائد ۲;

تاريخ :تاريخ نقل كرنے كى اہميت ۳;تاريخ نقل كرنے كے فوائد ۳

تربيت :تربيت كا طريقہ ۳

قران كريم:تعليمات قران كا طريقہ ۳

ہدايت:ہدايت كا طريقہ ۳

۲۴۷

آیت ۵۲

( إِذْ دَخَلُواْ عَلَيْهِ فَقَالُواْ سَلاماً قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ )

جب وہ لوگ ابراہيم كے پاس وارد ہوئے اور سلام كيا تو انھوں نے كہا كہ ہم آپ سے خوفزدہ ہيں _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان (فرشتے) جب اُن كے پاس ائے تو اُنہوں نے اُن پر درودسلام كہا _

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه فقالوا سلمً

۲_ايك دوسرے سے ملاقات كرتے وقت سلام كرنا ، پسنديدہ اداب و اخلا ق ميں سے ہے_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه فقالوا سلمً

۳_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور اُن كے اہل خانہ اپنے پاس مہمان(فرشتوں ) كو ديكھ كر گھبرا گئے تھے_

اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

ملائكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس ائے تھے (دخلوا عليہ) ليكن حضرتعليه‌السلام نے اضطراب اور ڈر كا اظہار جمع ( انا منكم وجلون )كى صورت ميں كيا ہے اور اس سے خود اُن كااور اُن كے اہل خانہ كا خوف وڈر ظاہر ہوتا ہے _ياد رہے كہ ''وجل '' اس خوف كو كہتے ہيں جو انسان كے پورے وجود پر چھا جائے(مفردات راغب)

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے مہمانوں (فرشتوں ) كے انے سے پيدا ہونے والے خوف اور اضطراب كو اُن پر ظاہر كر ديا تھا _اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

۵_مہمان، خواہ اجنبى ہى كيوں نہ ہو ،اُسكى پذيرائي كرنا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى عادت اور اخلاق ميں سے تھا_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

مہمانوں (فرشتوں ) كے انے سے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خوف اور اضطراب (انا منكم وجلون ) ظاہر كرتا ہے كہ وہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے لئے اجنبى تھے _اگر حضرت اُن كو پہچانتے تو پريشان نہ ہوتے _اجنبى مہمان كو قبول كرنے سے ، مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۶_انبياءے الہى پر خوف اور اضطرا ب طارى ہونے كا

۲۴۸

امكان _قال انا منكم وجلون

۷_تمام انبياء حتى اولواالعزم انبياءے كرامعليه‌السلام كا علم بھى محدود امور ميں تھا_اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

۸_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس انے والے فرشتے انسانى شكل ميں تھے اور وہ مہمان كے طور پر اپعليه‌السلام كے پاس ائے تھے_ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه فقالوا سلمًا قال انا منكم وجلون

۹_فرشتوں كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے براہ راست بات چيت كرنا_فقالوا سلمًا قال انا منكم وجلون _قالوا لاتوجل

۱۰_فرشتوں كےلئے جسمانى اور قابل رؤيت شكل ميں ظاہر ہونے كا امكان _

اذ دخلوا عليه فقالوا سلمًا قال انا منكم وجلون

۱۱_'' ...قال ا بو جعفر عليه‌السلام : بعث الله رسلًا الى ابراهيم ...فدخلوا عليه ليلاً ففزع منهم وخاف ا ن يكونوا سُرّاقًا، قال: فلمّا ا ن را ته الرسل فزعاً وجلاً''قالوا سلمًا'' ''قال انا منكم وجلون _قالوا لاتوجل ...'' ;(۱) حضرت امام باقر عليہ السلام سے منقول ہے كہ ...خداوند متعال نے فرشتوں كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى طرف بھيجا __پس وہ رات كے وقت اُن كے پاس ائے اور وہ اُن سے ڈر گئے كہ كہيں وہ چور نہ ہوں ...(پھر ) امامعليه‌السلام نے فرمايا:پس جب فرشتوں نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو خوف زدہ اور مضطرب ديكھا تو اُن كو سلام كيا اورحضرت ابراہيمعليه‌السلام سے كہا:''قال انا منكم وجلون قالوا لاتوجل ...''

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام سے ملائكہ كى گفتگو ۹; ابراہيمعليه‌السلام كا اضطراب ۳ ; ابراہيمعليه‌السلام كا خوف ۳،۱۱;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱،۳، ۴ ، ۸، ۹،۱۱ ;ابراہيمعليه‌السلام كو سلام ۱،۱۱;ابراہيمعليه‌السلام كى صفات ۵ ; ابراہيمعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۵;ابراہيمعليه‌السلام كے اضطراب كا سر چشمہ ۴;ابراہيمعليه‌السلام كے اہل خانہ كا خوف ۳ ; ابراہيمعليه‌السلام كے اہل خانہ كا اضطراب ۳; ابراہيمعليه‌السلام كے پاس ملائكہ كا انا ۸;ابراہيمعليه‌السلام كے خوف كا سر چشمہ ۴ ; ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان ۱،۳،۴ ،۱۱ ; ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں كى خصوصيات ۸

الله تعالى كے رسول :۱۱

انبياءعليه‌السلام :انبياء اور اضطراب ۶;انبياء اور خوف ۶

____________________

۱) تفسيرعياشى ،ج۲،ص۲۴۶،ح۲۶;نور الثقلين ،ج ۳ ،ص ۲۱ ، ح ۷۴_

۲۴۹

اولواالعزم انبياء كے علم كى حدود ۷;علم انبياء كى حدود ۷

روايت :۱۱

سلام :سلام كى اہميت ۲

صفات :پسنديدہ صفات ۲

معاشرت :معاشرت كے اداب ۲

ملائكہ :ملائكہ كا تجسم ۸;ملائكہ كا سلام ۱،۱۱;ملائكہ كى رئويت ۱۰

آیت ۵۳

( قَالُواْ لاَ تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ )

انھوں نے كہا كہ آپ ڈريں نہيں ہم آپ كو ايك فرزند دانا كى بشارت دينے كے لئے آئے ہيں _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) نے اُنہيں تسلى دى اوراپعليه‌السلام سے كہا كہ وہ اُن كے انے سے پريشان اور مضطرب نہ ہوں _قالوا لاتوجل انا نبشّرك بغلم عليم

۲_فرشتوں كى طرف سے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو ايك دانا اور عالم بيٹے كى بشارت _انا نبشّرك بغلم عليم

۳_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو جس بيٹے كى خوشخبرى دى گئي تھى وہ عظمت اور بلند مقام ومنزلت كا حامل تھا_

نبشّرك بغلم عليم ''بغلام''ميں تنوين تنكير ،تفخيم اور تعظيم كے لئے ہے

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام صاحب اولاد ہونے اور اپنى نسل كى بقا كے خواہش مند تھے _نبشّرك بغلم

كلمہ ''بشارت''اُس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں دلى خواہش اور خوشى كا مقام ہو_

۵_عالم ا ور دانا اولاد ركھنا ،نعمات ميں سے ہے اور خوشخبرى وبشارت كے قابل ہے_نبشّرك بغلم عليم

كلمہ ''بشارت''اس جگہ استعمال ہوتا ہے كہ جہاں خير اور نعمت ہو_لہذا يہ بات قابل ذكر ہے كہ فرشتوں نے ايك دانا اور عالم بيٹے كى بشارت دى ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ صاحب فرزند

۲۵۰

ہونا ايك ايسى بات ہے كہ جس كى بشارت دينى اور تبريك كہنى چاہيے_

۶_علم و دانش كا بلند ترين مقام و مرتبہ ہے اور اس كا اہم ترين اقدار ميں شمار ہوتا ہے_انا نبشّرك بغلم عليم

''غلام'' كے ليے كوئي دوسرى صفت لانے كى بجائے ''عليم''كى صفت لانا اس مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہے_

۷_حضرت ابراہيمعليه‌السلام خداوندمتعال كى خصوصى عنايت سے بہرہ مند تھے اور اُن كى نسل كى بقاء كے بارے ميں خدا كى خاص توجہ تھي_قالوا لاتوجل انا نبشّرك بغلم عليم

۸_ حضرت اسحاقعليه‌السلام ايك عالم اور دانشور شخصيت كے مالك تھے_انا نبشّرك بغلم عليم

مندرجہ بالا مطلب اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب مفسرين كے مطابق '' بغلم عليم '' سے مراد حضرت اسحاقعليه‌السلام ہوں _

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام سے مطمئن رہنے كى درخواست ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كو بشارت ۲،۳;ابراہيمعليه‌السلام كو تسلي۱ ; ابراہيمعليه‌السلام كى خواہش ۴;ابراہيمعليه‌السلام كى نسل كى بقا ء ۷ ;ابراہيمعليه‌السلام كے پاس ملائكہ كا انا ۱;ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۷;ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان ۱;فرزند ابراہيمعليه‌السلام كا مقام ومرتبہ ۳; نسل ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۷

اقدار:۶

اسحاقعليه‌السلام :اسحاقعليه‌السلام كا علم ۸;اسحاقعليه‌السلام كے فضائل ۸

الله تعالى :الله تعالى كى نعمتيں ۵

بشارت:عالم بيٹے كى بشارت ۲،۵

خواہشات :صاحب اولاد ہونے كى خواہش ۴;نسل كى بقاء كى خواہش ۴

علم :علم كى اہميت ۶;علم كى قدر ومنزلت ۶

لطف خدا :لطف خدا جن كے شامل حال ہے ۷

ملائكہ :ملائكہ اور ابراہيمعليه‌السلام ۱;ملائكہ كى بشارتيں ۲;ملائكہ كے تقاضے ۱

نعمت :عالم اولاد كى نعمت ۵

۲۵۱

آیت ۵۴

( قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَى أَن مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ )

ابراہيم نے كہا كہ اب جب كہ بڑھاپا چھا گياہے تو مجھے كس چيز كى بشارت دے رہے ہو_

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے كى خبر سن كر بہت ہى حيرت زدہ ہو گئے _

قال ا بشّر تمونى على ا ن مسّنى الكبر فبم تبشّرون

۲_حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فرشتوں سے اُس وقت صاحب اولادہونے كى خبر سنى كہ جب وہ مكمل طور پر بوڑھے اور صاحب اولاد ہونے سے مايوس ہو چكے تھے_قال ا بشّر تمونى على ا ن مسّنى الكبر فبم تبشّرون

۳_بوڑھے اور اولاد كى پيدائش سے مايوس انسان كے لئے خداوند متعال كى قدرت اور مہربانى سے صاحب اولاد ہونے كا امكان _انا نبشّرك بغلم عليم _قال ا بشّر تمونى على ا ن مسّنى الكبر

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام فرشتوں سے اپنے صاحب اولاد ہونے كى خبر سننے كے بعد اُن سے مزيد وضاحت اور اطلاعات كا تقاضا كرنے لگے_فبم تبشّرون

مندرجہ بالا مطلب اس بنا ء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''فبم'' كى ''با''ملابست كے لئے ہو اور جملہ ''فبم تبشرون'' ميں استفہام ،اس قسم كى بشارت (صاحب اولاد ہونے )كے وقوع پذير ہونے كى كيفيت كے بارے ميں ہو_نہ صاحب اولاد ہونے كے بارے ميں شك و ترديد كے لئے سوال_

۵_بڑھاپا اور كہن سالي، انسانوں ميں توليد نسل كى ركاوٹوں ميں سے ايك ہے_على ا ن مسّنى الكبر

يہ كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے اپنے صاحب اولاد

۲۵۲

ہونے كى خوشخبرى پر حيرت زدگى كے اظہار كى وضاحت كے لئے جملہ حاليہ'' على ا ن مسّنى الكبر '' استعمال كيا ہے ہو سكتا ہے يہ مندرجہ بالا نكتے كى وجہ سے ہو_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور ملائكہ ۴;ابراہيمعليه‌السلام كا تعجب ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا سوال ۴;ابراہيمعليه‌السلام كا صاحب اولاد ہونا ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۴ ; ابراہيمعليه‌السلام كى بشارت ۲;ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۴ ;ابراہيمعليه‌السلام كى مايوسى ۲

الله تعالى :الله تعالى كى قدرت كے اثرات ۳;الله تعالى كى مہربانى كے اثرات ۳

بڑھاپا:بڑھاپے كے اثرات ۵;بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونا۲،۳;بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے پر تعجب ۱

توليد نسل -:توليد نسل كے موانع ۵

ملائكہ :بشارت دينے والے ملائكہ ۴;ملائكہ سے سوال ۴;ملائكہ كى بشارتيں ۲

آیت ۵۵

( قَالُواْ بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ )

انھوں نے كہا كہ ہم آپ كو بالكل سچى بشارت دے رہے ہيں خبردار آپ مايوسوں ميں سے نہ ہوجائيں _

۱_فرشتوں كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے بڑھاپے ميں صاحب فرزند ہونے كى بشارت كے وقوع پذير ہونے پر تاكيد كرنا_

قالوا بشرنك بالحق

مندرجہ بالا ايت ميں ''بالحق'' سے ياتو واقعيت كے مطابق خبر مرادہے يا اس معنى ميں ہے كہ ہمارى بشارت حقيقت پر مبنى ہے (مجمعالبيان )_ بہر حال اس سے يہ بات روشن ہوتى ہے كہ جس چيز كى بشارت دى گئي ہے وہ وقوع پذير ہونے والى ہے اور واقع ہو كر رہے گي_

۲_فرشتوں كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو زندگى ميں خداوند متعال كى رحمت اور مہربانى سے مايوس نہ ہونے كى نصيحت كرنا _

۲۵۳

قالوا فلاتكن من القنطين

''قنوط''كا معنى خير اور بھلائي سے نااُميد ہونا ہے_

۳_خداوند متعال كى رحمت اور مہربانى سے مايوسى قابل مذمت اور ناپسنديدہ ہے_فلاتكن من القنطين

۴_بڑھاپا اور كہن سالى ،صاحب اولاد ہونے سے انسان كے مايوس ہوجانے كے اسباب ميں سے ہے_

مسّنى الكبر فبم تبشّرون فلاتكن من القنطين

۵_بے اولادلوگوں كو خداوند متعال كے لطف و عنايت سے صاحب فرزند ہونے كى اُميد دلانا اور بشارت دينا، پسنديدہ اور قابل قدر كام ہے_انا نبشّرك بغلم فلاتكن من القنطين ...من رحمة ربّه

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام كا بڑھاپا۱;ابراہيمعليه‌السلام كاصاحب اولاد ہونا ۱; ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كو بشارت ۱;ابراہيمعليه‌السلام كو نصيحت ۲

اُميد وارى :خدا وند كے لطف سے اُميد وار ہونا ۵;رحمت خدا سے اُميد وار ى كى اہميت ۲;لطف خدا سے اُميدوارى كى اہميت ۲

بشارت :بے اولاد لوگوں كو بشارت ۵

بڑھاپا:بڑھاپے كے اثرات ۴

صاحب اولاد ہونا :صاحب اولاد ہونے سے مايوسى كے اسباب ۴

صفات :ناپسنديدہ صفات ۳

عمل :پسنديدہ عمل ۵

مايوسى :رحمت خدا سے مايوسى كى سرزنش ۳;لطف خدا سے مايوسى كى سرزنش۳

ملائكہ :خوشخبرى دينے والے ملائكہ ۱،۲;ملائكہ كى بشارتيں ۱;ملائكہ كى نصيحتيں ۲

۲۵۴

آیت ۵۶

( قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ )

ابراہيم نے كہا كہ رحمت خدا سے سوائے گمراہوں كے كون مايوس ہو سكتاہے _

۱_ ملائكہ كى طرف سے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو مايوسى سے اجتناب كرنے كے بارے ميں نصيحت كے بعد حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فقط گمراہ لوگوں كو رحمت خدا سے مايوسبتايا _

فلاتكن من القنطين_قال ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

۲_ خداوندمتعال كى رحمت سے مايوسي، گمراہى كى علامت ہے _ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

۳_حضرت ابراہيمعليه‌السلام رحمت خدا سے مايوس ہونے كى وجہ سے صاحب اولاد ہونے پر حيرت زدہ نہيں تھے بلكہ وہ كہن سالى ا و ربڑھاپے ميں صاحب فرزند ہونے كو بعيد جانتے تھے_فبم تبشّرون فلاتكن من القنطين _قال ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے ''صاحب اولاد ہونے سے مايوس نہ ہونے ''پر مبنى فرشتوں كى نصيحت كے جواب ميں فرمايا:فقط گمراہ لوگ ہى رحمت خدا سے مايوس ہوتے ہيں _اس جواب سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كاصاحب فرزند ہونے سے حير ت زدہ اور متعجب ہونا رحمت خدا سے مايوسى كى بناء پر نہيں تھا بلكہ وہ اسے فقط ايك حيرت انگيز چيز جانتے تھے_

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام بڑھاپے ميں خداوند متعال كے لطف و رحمت كے سائے ميں صاحب فرزند ہونے كى اُميد لگائے ہوئے تھے_فبم تبشّرون فلاتكن من القنطين _قال ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

۵_صاحب فرزند ہونا ،ايك الہى رحمت ہے_نبشّرك بغلم ومن يقنط من رحمة ربّه

۶_خدا وند متعال كى رحمت سے مايوسى اور نااُميدي،گناہ كبيرہ اوربہت ہى قابل مذمت فعل ہے_

ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

يہ كہ خدا وند عالم نے اپنى رحمت سے مايوسى كو گمراہوں كا عمل قرار ديا ہے اور مايوس لوگوں كو گمراہوں كى صف ميں شمار كيا ہے اس سے اس كا گناہ كبيرہ ہونامعلوم ہوتا ہے_

۲۵۵

۷_پرورد گار كى معرفت اور ہدايت، اُس كى رحمت سے اُميدوار ہونے اور ہر قسم كى مايوسى و نااُميدى كے ختم ہونے كا باعث بنتى ہے_ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے پرورد گار كى رحمت سے مايوسى كا سبب گمراہى اور خداوند متعال كى عدم معرفت كو قرار ديا ہے ،بنابريں خدا كى معرفت اور ہدايت ، اُس كى رحمت سے اُميدوار ہونے كا اور ياس و نااُميدى كے خاتمے كا موجب بن سكتى ہے _

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام كا تعجب ۳; ابراہيمعليه‌السلام كا صاحب فرزند ہونا ۳ ، ۴;ابراہيمعليه‌السلام كاعقيدہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كى اُميد وارى ۴; ابراہيمعليه‌السلام كے تعجب كا فلسفہ۳

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت ۵;الله تعالى كى رحمت كے اثرات ۴;الله تعالى كى معرفت كے اثرات ۷ ; الله تعالى كے لطف كے اثرات ۴

اُميد وارى :بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے كى اُميد وارى ۴; رحمت سے اُميد وارى كے اسباب۷

بڑھاپا:بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے پر تعجب ۳

رحمت :رحمت سے مايوس لوگ ۱

صفات :ناپسنديدہ صفات ۶

صاحب اولاد ہونا :صاحب اولاد ہونے كارحمت ہونا ۵

گمراہ لوگ :اُن كى مايوسى ۱

گمراہى :گمراہى كى علامتيں ۲

گناہان كبيرہ :۶

مايوسى :رحمت خدا سے مايوسى ۶;رحمت خدا سے مايوسى پر سرزنش ۶;مايوسى كے موانع ۷

ہدايت :ہدايت كے اثرات ۷

۲۵۶

آیت ۵۷

( قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ )

پھر كہا كہ مگر يہ تو بتايئےہ آپ لوگوں كا مقصد كياہے _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے اپنے مہمان (فرشتوں )كو پہچاننے كے بعد اُن كے اصلى كام اور آنے كا سبب دريافت كيا_

قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

''خطب'' كا معنى ہے اہم كام_

۲_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو صاحب فرزند ہونے كى بشارت دينا ايك فرعى كام تھاجبكہ قوم لوط كاعذاب فرشتوں كا اصلى اور اہم كام تھا_انا نبشّرك بغلم ...قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

يہ كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فرشتوں كو پہچاننے اور صاحب فرزند ہونے كى خوشخبرى حاصل كرنے كے بعد اُن كے اصلى كام اور مہم كے بارے ميں پوچھا (فما خطبكم)_بعد والى ايت كے مطابق يہ اصلى كام اور مہم، قوم لوط كا عذاب تھا_

۳_ فرشتوں كے قو م لوط كو عذاب كے بارے ميں اپنى مہم كے اظہار كرنے سے پہلے حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، اُن كے اصلى كام سے اگا ہ نہيں تھے_قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

۴_تمام انبياءے كرامعليه‌السلام حتى اُن ميں سے اولواالعزم انبياءعليه‌السلام كا علم بھى محدود ہے_

قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

۵_بعض ملائكہ، خداوند متعال كے پيام كو پہنچانے اور اُس كے فرمان كو اجراء كرنے والے ہيں _

فما خطبكم ا يّها المرسلون

۶_حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، جسمانى ، روحى اور نفسانى حالات كے لحاظ سے انسانوں كے درميان تعلقات كى حيثيت سے دوسرے لوگوں ہى كى مانند تھے_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم ...قال انا منكم وجلون ...مسّنى الكبر ...قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

ابراہيمعليه‌السلام :

۲۵۷

ابراہيمعليه‌السلام اور ملائكہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا بشر ہونا ۶;ابراہيمعليه‌السلام كاسوال ۱;ابراہيمعليه‌السلام كاصاحب فرزند ہونا۲;ابراہيمعليه‌السلام كاقصہ ۱،۲،۳;ابراہيمعليه‌السلام كوبشارت ۲;ابراہيمعليه‌السلام كى صفات ۶;ابراہيمعليه‌السلام كے علم كى حدود ۳;ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں كى ذمہ دارى ۱

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كے علم كى حدود ۴;اولواالعزم انبياءعليه‌السلام كے علم كى حدود ۴

خدا كے رسول :۵خدا كے كارندے :۵

قوم لوط:قوم لوط كاعذاب ۲

ملائكہ :بشارت دينے والے ملائكہ ۲;ملائكہ كا كردار ۵ ; ملائكہ كى ذمہ دارى ۲،۳;عذاب كے ملائكہ ۲

آیت ۵۸

( قَالُواْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ )

انھوں نے كہا كہ ہم ايك مجرم قوم كى طرف بھيجے گئے ہيں _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى جانب سے الہى نمائندوں (فرشتوں )كے اصلى كام كے بارے ميں پوچھنے پر ،اُنہوں نے مجرم قوم (قوم لوط) كى ہلاكت كواپنا اصلى كام بتايا_قال فما خطبكم ا يّها المرسلون_قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

۲_خداوند متعال كے فرامين كوجارى كرنافرشتوں كى بنيادى ذمہ دارى اور فرائض ميں سے ہے_

قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

۳_ قوم لوط ،مجرم اور جرائم پيشہ لوگوں پر مشتمل تھي_قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين_ الّا آل لوط

بعد والى ايات كے قرينے سے''قوم مجرمين'' سے قوم لوط مراد ہے_

۴_جرم اور جرائم سے انسانى معاشروں كى نابودى اور ہلاكت كے اسباب فراہم ہوتے ہيں _

قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

۵_حضرت ابراہيمعليه‌السلام ،فرشتوں كے ذريعے پہلے سے ہى قوم لوط كے عذاب كے بارے ميں اگاہ ہو گئے تھے_

۲۵۸

قال فما خطبكم ...قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط كا عذاب ۵;ابراہيمعليه‌السلام اور ملائكہ ۱; ابراہيمعليه‌السلام كا سوال ۱;ابراہيمعليه‌السلام كاعلم ۵;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱

الہى كارندے:۲

خدا كے رسول:۲

خرابى :اجتماعى خرابى كے اثرات ۴

قوم لوط:قوم لوط كا عذاب ۱;قوم لوط كا فساد پھيلانا۳;قوم لوط كا گناہ ۳

گناہ :گناہ كے معاشرتى اثرات ۴

گناہگار لوگ:۳

معاشرہ :معاشرتى افات كى شناخت ۴;معاشروں كى ہلاكت كا پيش خيمہ ۴

ملائكہ :ملائكہ كا عذاب ۱;ملائكہ كى ذمہ دارى ۲;ملائكہ كى ذمہ دارى كے بارے ميں سوال ۱

آیت ۵۹

( إِلاَّ آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ )

علاوہ لوط كے گھر والوں كے كہ ان ميں كے ہر ايك كو نجات دينے والے ہيں _

۱_حضرت لوطعليه‌السلام كا خاندان ہر قسم كے جرم اور گناہ سے پاك ومنزہ تھا_انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط

۲_الہى نمائندوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كے خاندان كو اُن كى قوم كے اوپر نازل ہونے والے عذاب سےنجات دالائي _

انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم

۲۵۹

۳_حضرت لوطعليه‌السلام كے خاندان كى پاكيزگى اور ہر قسم كے جرم و گناہ سے دورى ،عذاب الہى سے اُن سب كى نجات كا سبب تھا_انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم ا جمعين

۴_قوم لوط كا جرم اور گناہ اُن كے عذاب اور ہلاكت كا سبب بنا_

قالوانااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم ا جمعين

۵_جرم او ر گناہ سے دورى اور پاكى دنيا ميں عذاب الہى (عذاب استيصال) سے نجات كا سبب ہے_

انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم ا جمعين

۶_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت لوطعليه‌السلام ايك دوسرے كے ہم عصر تھے_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم ...انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط

۷_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضر ت لوطعليه‌السلام دو مختلف قوموں كے درميان اورايك دوسرے سے زمينى فاصلے پررہتے تھے_قال فما خطبكم ...قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط

۸_ہر قوم كا عذاب استيصال فقط اُس قوم كے مجرموں اور گناہگاروں كو شامل ہوتا ہے نہ كہ اس قوم كے پاك و بے گناہ لوگوں كو _انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم

ابراہيمعليه‌السلام :تاريخ ابراہيمعليه‌السلام ۶،۷

الہى كا رندے :۲

انبياءعليه‌السلام :حضرت ابرہيمعليه‌السلام كے ہم عصر انبياء ۶،۷

پاكيزگي:پاكيزگى كے اثرات ۲

خدا كے رسول :۵

خرابى :خرابى سے اجتناب كے اثرات ۵

عذاب :عذاب استيصال سے نجات ۵;عذاب استيصال كے مستحق لوگ ۸;عذاب سے نجات ۲;عذاب سے نجات كے اسباب ۳،۵

قوم ابراہيمعليه‌السلام

قوم لوط :۷

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300