امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 175086
ڈاؤنلوڈ: 4309

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175086 / ڈاؤنلوڈ: 4309
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عقل  کے تکامل سے معاشرے میں خلوص و محبت کی ایسی فضا قائم ہوجائے گی کہ سب عقل کامل ہونے کی وجہ سے پیار،محبت،یگانگت اور اتحاد ایجاد کرنے کی کوشش کریں گے۔اس زمانے میں اجتماعی زندگی میں مہر و محبت ہوگی کہ سب اپنے مال میں دوسروں اور دوسروںکے مال میں خود کو شریک سمجھ کر اس سے استفادہ کریں گے اور یہ سب امام عصر علیہ السلام کے عادلانہ نظام اور حکومت الہٰی کے حاکم ہونے کی وجہ سے ہوگا۔پھر انسان تکامل عقل سے بہرہ مند ہوکر پیار،محبت،اخوت اور بھائی چارے کی دنیا کی طرف گامزن ہوجائیں  گے۔

اب ہم جو روایت پیش کر رہے ہیں۔اس پر توجہ کریں:

امام محمد باقر  علیہ السلام نے سعید بن حسن سے فرمایا:

'' أیجیء احدکم الی اخیه فیدخل یده فی کیسه ،فیأخذ حاجتة فلا یدفعه؟فقلت:ما أعرف ذلک فینا

فقال ابو جعفر:فلا شیء اذاً قلت:فالهلاک اذاً،فقال:ان القوم لم یعطوا احلامهم بعد''(1)

کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو اپنے دینی بھائی کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس سے حسبِ ضرورت لے لے اور صاحبِ مال بھی اسے منع نہ کرے؟

میں نے جواب میں کہا!ہم نے اپنوں میں ایسا نہیں دیکھا۔

امام  نے فرمایا:اس بناء پر ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔

میں نے کہا!پس کیا اب ہم ہلاک و گمراہ ہوجائیں گے؟

--------------

[1]۔ اصول کافی :ج۱ص۱۷۳،بحارالانوار: ج74ص 254

۱۲۱

امام نے اس احتمال کی نفی کرتے ہوئے فرمایا!ابھی تک لوگوں کو ان کی عقلیں عطا نہیں ہوئیں۔

اس روایت کی بناء پر جب تک معاشرہ ایسی اعلیٰ صفات کا مالک نہ بن جائے،تب تک وہ کامل عقل سے بہرہ مند نہیں ہے۔امام محمد باقر  علیہ السلام کے فرمان کے مطابق ابھی تک ان کو عقلیںنہیں دی گئی ہیں۔

گویا معاشرے کے لئے تمام عقلی قوّتوں سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔جس طرح لوگ سونے کے خزانوں کو خاک تلے پنہاں کردیتے ہیں،اسی طرح لوگوں نے اپنی فکری قدرت و طاقت کو بھی زیرِ خاک دفن کر رکھا ہے۔

لیکن اس وقت انسان کی عقلیں کامل ہوجائیں گی ۔جس کے نتیجے میں نہ صرف بخل بلکہ تمام صفات رذیلہ بھی زائل ہوجائیں گی،بری اور نا پسندیدہ عادات ختم ہوجائیں گی۔پھر سب اعلیٰ انسانی خصوصیات و صفات سے سرشار ہوں گے۔کیونکہ یہ کامل عقل کا لازمہ ہے۔

  عصر ظہور میں تکامل عقل کی وجہ سے ناپسندیدہ صفات پر غلبہ

خاندانِ عصمت و طہارت علیہم السلام کے خاص اصحاب اور اولیاء خدا نے ایسے اعمال انجام دیئے کہ جن کے نتیجہ میں وہ ناپسندیدہ صفات و عادات پر غالب آگئے اور انہوں نے اپنی عقلائی قوت سے طبائع سوء کو مغلوب و مقہور کرکے کمال کے درجہ تک رسائی حاصل کی۔

۱۲۲

یہ ایک فطری و طبیعی موضوع ہے کہ جب عقل کامل ہوجائے تو وہ نہ صرف برے اعمال و کردار بلکہ بری عادتوںپر بھی غالب آجاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

''والعقل الکامل قاهر الطبع السوء '' (1)

عقلِ کامل ، بری طبیعت پر غالب آجاتی ہے۔

اس بناء پر کامل عاقل اپنی تمام بری صفات حتی کہ ایسی صفات پر بھی قاہر و غالب آجاتا ہے کہ جو اس کی ذات کا حصہ بن چکی ہوں۔پھر وہ انہیں عقلی قوّت کے ذریعے مقہور و مغلوب کرے گا۔

حضرت مولا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے فرمان سے یہ اہم نکتہ حاصل ہوتا ہے کہ اولیاء خدا اور صاحبانِ عقل کامل میں اعلیٰ و بلند مقامات پر فائز ہونے سے پہلے بری عادتوںکا ہونا ممکن ہے۔

یہ ایسے لوگوں کے لئے بشارت ہے کہ جو خود کو طبیعت و صفات بد کا مالک سمجھتے  ہیں۔وہ ناامید نہ ہوں بلکہ خود کو دعا و کوشش کے ذریعے کمال تک پہنچائیں۔حتی حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اسی روایت میں کمال تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں افراد کو عملی راہ بھی دکھا دی اور ایک وظیفہ کے عنوان سے فرمایا۔

''وعلی العاقل ان یحصی علی نفسه مساویها فی الدین والرأی والاخلاق والادب فی  جمع ذلک فی صدره او فی کتاب و یعمل فی ازالتها '' (2)عاقل کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی تمام برائیوں کو دین، رائے اوراخلاق و ادب میں شمار کرے اور انہیں اپنے حافظے میں یا لکھ کر جمع کرے اور انہیں ختم کرنے کے لئے کوشش کرے۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص6

[2]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص6

۱۲۳

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے تمام عقل مندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غلطیوں کو یاد کرکے انہیں زائل و برطرف کرنے کی کوشش کریں۔یہ ایک ایسا بہترین آئین  و اصول ہے کہ اگر اس کے مطابق عمل کریںتو یہ آپ کو اعلی ٰ مقامات تک پہنچا کر معنویت کے طولانی راستے کو نزدیک کردے گا۔

کیونکہ اس کام سے آپ کے تجربات میں اضافہ ہوگا اور جس کا تجربہ زیادہ ہو،اس کی عقل زیادہ ہوتی ہے جس کی عقل زیادہ ہو وہ سو سالہ راستہ جلد ہی طے کرلیتا ہے۔

تجربہ کی وجہ سے عقل کی زیادتی،ایسا نکتہ ہے کہ جس کی حضرت امیرالمؤمنین  نے اسی روایت کے آغاز میں تصریح فرمائی ہے:

''العقل عقلان:عقل الطبع و عقل التجربة و کلاهما یؤدی الی المنفعة '' (1)

عقل دو طرح کی ہے۔ عقل طبیعی اور عقل تجربی ۔یہ دونوں انسان کو منفعت تک پہنچاتی ہیں۔

اس بناء پر افراد کی ذاتی و فطری عقل کے علاوہ تجربی عقل بھی وجود رکھتی ہے۔جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام نے فرمایا کہ دونوں عقلیں منافع پر منتہی ہوتی ہیں۔

ان تمام مطالب سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں۔

1 ۔ عقل دو طرح کی ہے،ذاتی و تجربی

2۔ جس طرح ذاتی عقل انسان کو منافع اور خوبیوں تک پہنچاتی ہے تجربی عقل بھی اسی طرح ہے۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار: ج۷۸ص6

۱۲۴

3 ۔عاقل پر واجب ہے کہ وہ اپن ی اخلاقی و دینی برائیوں کویاد کرکے انہیں ختم کرنے کی کوشش کرے۔

4۔ انسان کو ماضی میں سرزد ہونے والی غلطیوں کی وجہ عالی و بلند مقامات تک پہنچنے سے ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہئے۔بلکہ اسے حضرت امیر المؤمنین علی  علیہ السلام کے فرمان سے درس لے کر اپنے مستقبل کے لئے پُر امید ہونا چاہئے۔

5 ۔ خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے خاص اصحاب اور تمام اولیاء خدا ابتداء ہی سے عظیم ذات اورنیک طبیعت کے مالک نہیں تھے۔بلکہ انہوں نے زحمت و کوشش سے وہ مقام حاصل کیا۔

6۔ کامل عقل یا اولیاء خدا اپنی بری صفات پر قوّہ عقل کے ذریعہ غلبہ حاصل کرتے ہیں۔

7 ۔ ہر کامل عقل کا مالک اعل ی مقامات کا مالک ہوتا ہے کیونکہ جو عقلِ کامل اورسالم طبیعت  رکھتا ہو وہ عالمِ ملکوت کے ساتھ ارتباط پیدا کرکے ملکوتی ہو جاتا ہے۔

ایسے افرادشرح صدر پیدا  کرتے ہوئے نور الٰہی کے مالک بن جاتے ہیں  اور اسی نور الٰہی کی وجہ سے حقائق کو دیکھتے ہیں۔

خدا وند متعال کا قرآن میں ارشاد  ہے:

''أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلِْسْلَامِ فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِّن رَّبِّهِ فَوَیْْل لِّلْقَاسِیَة ِقُلُوبُهُم مِن ذِکْرِ اللَّهِ أُوْلٰئِکَ فِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ '' (1)

کیا وہ شخص جس کے سینے کو خد انے اسلام کے لئے کشادہ کر دیا ہے تو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نورانیت کا حامل ہے، گمراہوں جیسا ہوسکتا ہے !افسوس ان لوگوں کے حال پر جن کے دل ذکر خدا کے لئے سخت ہو گئے ہیں تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔

--------------

[1]۔ سورہ زمر ،آیت:22

۱۲۵

جی ہاں !کمال عقل کے ذریعہ راستہ پانے والے افراد ایسے ہیں کہ جن کے قلب بینا ہیں اور جنہوں نے دل کے اندھے پن سے نجات حاصل کرلی جو کہ بدترین اندھا پن ہے۔

حضرت محمد مصطفیٰ(ص) نے فرمایا:

''  شرّ العمی عمی القلب '' (1)

بدترین اندھا پن، دل کا اندھا پن ہے۔

  عالم غیب سے ارتباط

یہ واضح ہے کہ جب کوئی دل کے اندھے پن سے نجات حاصل کرے اور اس کا دل روشن ہوجائے تو وہ درخشاں انوار کا واضح مشاہدہ کر سکتا ہے۔ایسا دل حضرت امام آخرالزمان (عج) کے مبارک نور سے منوّر ہو جائے گا۔جس طرح حضرت '' ھالو "(2) امام عصر علیہ السلام کی آواز سن کر سمجھ جاتے تھے کہ امام آخرالزمان (عج) انہیں دنیا کے کس حصے سے آواز دے رہے ہیں۔وہ آواز سن کر خود کو امام کے محضر میں پہنچاتے،وہ بھی دل کی آنکھوں سے آنحضرت کودیکھتے تھے۔حضرت امام سجاد علیہ السلام  ایک طولانی روایت میں  ارشاد فرماتے ہیں:

--------------

[5]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۵۱

[2] ۔ حضرت ھالو ظاہراََ ایک عادی فرد تھے وہ اصفہان میں کام کرتے تھے لیکن حقیقت میں امام عصر کے مأمورین میں سے ایک تھے۔ آنحضرت بعض کام انجام دینے کے لئے انہیں مأمور فرماتے تھے ۔

۱۲۶

'' اَلا انّ للعبد اربع أعین:عینان یبصربهما امر دینه و دنیاه و عینان یبصربهما امر آخرته، فاذااراد اللّه بعبد خیراََ فتح له العینین الّتین ف قلبه فابصر بهما الغیب وامر آخرته و اذا اراد به غیر ذالک ترک القلب بما فیه '' (1)

آگاہ ہو جاؤ !  بندے کی چار آنکھیں ہیں ۔ دو آنکھیں ایسی ہیں کہ جن سے اپنے دین و دنیا کے امر دیکھتا ہے اور دو ایسی آنکھیں ہیں کہ جن سے اپنی آخرت کے معاملات کو دیکھتا ہے۔ جب بھی خد ا کسی بندے کے لئے خیر کا ارادہ کرے تو اس کے دل میں پنہاں اس کی دو آنکھیں کھول دیتا ہے۔پس وہ ان کے ذریعہ غیب اور اپنی آخرت کے معاملات کو دیکھے گا۔اگر کوئی اپنے بندے سے اس کے غیر کا ارادہ کرے تو وہ اس کے دل کو جیسا ہے ویسا چھوڑ دیتاہے۔

  غیب کا مظہر کامل

غیب کے امور میں سے ایک بلکہ اس کا اہم ترین مورد حضرت امام مہدی علیہ السلام کامقد س وجود ہے۔ کچھ مومنین باطنی آنکھوں سے آنحضرت کودیکھیں گے۔ قرآن مجید کی اس آیہ شریفہ''الذین یؤمنون بالغیب ،، (2) میں آنحضرت  کوغیب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جیساکہ اہلبیت علیھم السلام سے وارد ہونے والی تفاسیر میں اس موضوع کی تصریح ہوئی ہے۔

گزشتہ روایت کوقرآن کی آیت سے ضمیمہ کرنے سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ خدا وند متعال نے جن کی باطنی آنکھوں کو کھول دیا ہے۔وہ یقیناََزمانہ غیبت میں حضرت ولی عصر(عج) سے ارتباط پید اکرکے دل کی آنکھوں سے ان کی زیارت سے شرفیاب ہوں گے۔حلانکہ آنحضرت غیب کے کامل مظہر ہیں۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۵۳

[2]۔، سورہ بقرہ آیت :3

۱۲۷

مرحوم سید بحر العلوم کی زندگی کے کچھ اہم واقعات

مرحوم سید بحر العلوم ایسے افراد میںسے تھے کہ جن کے دل کی آنکھیں روشن ہونے کی وجہ سے وہ ایسے امور دیکھتے کہ جنہیں دیکھنے سے دوسرے  عاجزتھے۔اس بحث کو ثابت کرنے کے لئے اس بزرگ کی زندگی کے کچھ اہم واقعات نقل کرتے ہیں۔مرحوم محدث نوری کتاب دارالسلام میں مرحوم شیح تقی ملّا سے حکایت کرتے ہیںکہ جومرحوم آیت اللہ سید بحر العلوم  کے شاگردوں میں سے بھی ہیں۔

میں ایک سفر میں مرحوم سید بحر العلوم  کے ہمراہ تھا میں اور سید جس قافلہ میں تھے  اس میں ہم منزل بہ منزل سفر کر رہے تھے۔سفر میں ایک ایسا شخص بھی تھا ،جو کسی اور منزل کی طرف سفر کر رہا تھا لیکن وہ بھی قافلہ کے ہمراہ تھا۔ایک بارراستہ  میں  سید نے اسے دیکھا اور اس کی طرف اشارہ کرکے اسے اپنی طرف بلایا۔

وہ سید کے قریب آیا اور اس نے سید کی دست بوسی کی۔پھر سید نے اس سے تمام افراد کی خیریت دریافت کی کہ جن میں بہت سے مرد اور خواتین شامل تھے۔اس شخص نے جواب دیا کہ سب خیریت سے ہیں۔جب وہ شخص چلاگیا تو میں نے سیّد  سے پوچھا کہ اس مرد کے لباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق عراق سے نہیں ہے۔سیّد نے فرمایا ؛ہاں وہ یمن کا باشندہ تھا۔

میں نے کہا ؛آپ تو یمن تشریف نہیں لے گئے،لیکنآپ کو اس گرو ہ کانام کیسے معلوم ہوا کہ جن کے بارے میں آپ نے سوال کیا اور آپ جن کے مرد و خواتین سے بھی آگا ہ ہیں؟

سیّد نے جواب میں کچھ تأمل فرمایا اور کہا؛سبحان اللہ،اس میں تعجب کی کیا بات ہے،اگر مجھ سے تمام روئے زمین میں سے چپے چپے کے بارے میں سوال کرو تو میں سب کو جانتا اور پہچانتا ہوں۔

۱۲۸

محدث نوری کہتے ہیں کہ اس  بزرگ کے اس فرمان کا مؤید یہ ہے کہ نجف اشرف میں تمام مقامات مقدسہ جیسے مسجد کوفہ،مسجد حنّانہ، قبر مطہرکمیل بن زیاد ، حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام  کا گھر ، حضرت ہود علیہ السلام اور صالح   علیہ السلام کی قبر مبارک کومرحوم سید بحر العلوم نے معین کیااور تعمیر کروایاورنہ اسے زمانے سے مرحوم سیّد کے زمانے تک ان کے آثار باقی نہ تھے۔مرحوم سید بحر العلوم  کے زمانے کے تمام علماء   مرحوم سیدکے فرمودات کو اپنا فریضہ سمجھتے اور انہیں قبول کرتے اور کوئی بھی ان پراعتراض نہ کرتا۔حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح  علیہ السلام کی قبریں واد ی السلام میں باقی ہیں۔ لیکن سید نے فرمایا کہ یہاں ان کی قبریں نہیںہیں۔پھر انہوں نے دوسری جگہ کو معین فرمایا کہ جو اب ان بزرگ ہستیوں کا مزار اور لوگوں کے لئے زیارت گاہ ہیں۔(1) کتاب تاریخ کوفی میں  لکھتے ہیں:بزرگ علّامہ سید محمد مہدی نجفی  کہ جو بحر العلوم کے نام سے مشہور ہیں۔ان کے جاویدانی آثار ہیں۔ان میں سے ایک مقدس مقام مسجد کوفہ ہے کہ جسے گزشتہ زمانے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے اور دین میں بصیرت رکھنے والے بہت کم افراد کے  علاوہ کوئی انہیں نہیں جانتا تھا۔ اس رو سے مرحوم سید بحر العلوم نے ان مقدس مقامات کو معین کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔اس میں کچھ نشانات اور محراب تعمیر کئے اور محراب النبی میں قبلہ کو تعیین کرنے کے لئے پتھروں کا ایک ستون بنایا۔یہ ایک ایساشاخص ہے کہ جو آج بھی ،،رخامہ،،کے نام سے جانا جاتا ہے  ۔(2)

--------------

[1]۔ گلزاراکبری:358

[2]۔ تاریخ کوفہ:72

۱۲۹

مرحوم سید بحر العلوم کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد سہلہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام   کے لئے ایک مقام موجو تھا ۔لیکن لوگ اس مقام کو نہیں جانتے تھے ۔  سید بحر العلوم نے حکم دیا کہ فلاں مقام پر ایک گنبد تعمیر کیا جائے تاکہ وہ مقام مشخص ہو جائے۔(1)

بزرگ علّامہ شیخ عراقین (کوفہ و بصرہ)شیخ عبد الحسین تہرانی جب مقامات عالیہ کی زیارت کےقصد سے عراق گئے تو انہوں نے ان مقامات کو دوبارہ تعم یر کروانے کا اقدام کیا۔مسجد کوفہ کے گوشہ میں جناب مختار کی آرامگاہ کے بارے میں جستجو کی تا کہ اس کو بھی دوبارہ سے تعمیر کیا جا سکے۔ان کے پاس قبر کی فقط ایک نشانی تھی کہ وہ جامع مسجد سے متصل صحن مسلم بن عقیل میں ہانی بن عروہ کے حرم کے سامنے واقع ہے۔

لہذا انہوں نے اسے کھودا تو وہاں حمام کے آثار ملے جس سے واضح تھا کہ یہان مختار کی قبر نہیں ہے اور اس کے آثار ختم ہو چکے ہیں۔لیکن ابھی تک شیخ اس کی جستجو میں تھے کہ آیت اللہ بحر العلوم  طباطبائی کے فرزند علّامہ شیخ سید رضا نے ان سے کہا؛جب بھی ان کے والد بزرگوار مسجد کوفہ کے سامنے سے مشرقی دیوار کے ساتھ سے گزرتے کہ جو اب جناب مختار کی زیارت گاہ ہے تو کہتے؛ جناب مختار کے لئے سورہ فاتحہ پڑھ لیں اور پھر وہ سورہ فاتحہ پڑھتے۔ شیخ نے حکم دیا کہ اس جگہ کو کھودا جائے ۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس جگہ کو کھودا گیا تو وہاں سے پتھر نمودار ہوا جس پر لکھا ہوا تھا کہ یہ مختار بن ابی عبیدہ   ثقفی کی قبرہے۔ لہذا مشخص ہو گیا کہ وہاں جناب مختار کی آرامگاہ ہے۔(2)

--------------

[1]۔ تاریخ کوفہ:7۳

[2]۔ تاریخ کوفہ:7۳

۱۳۰

  علامات و نشانیاں

خاندان وحی علیہم السلام کے فرمودات میں ظہور کے باعظمت زمانے کے بارے میں مہم نکات موجود ہیں کہ بعض لوگ انہیں برداشت کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ جیسا کہ انہوں نے دوسرے مسئلوں  کے بارے میں فرمایا کہ جنہیں سب قبول کرنے کی قوّت نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے خاندان عصمت وطہارت علیھم السلام نے اصحاب کواپنے اسرار سے آگاہ کیا ہے۔جس طرح وہ نااہل لوگوں سے ایسی باتیں پوشیدہ رکھتے۔

انہوں نے اسرار آمیز نکات کے علاوہ دیگر نکات بھی ارشاد فرمائے کہ جنہیں وہ وجود خارجی کی وجہ سے قبول کر سکیں ۔ لہذا خدا ئے بزرگ و برتر نے اتمام حجت اور لوگوں کے ذہنوں میں حقائق قریب کرنے کے لئے خارج میں ایسے واقعات کو وجود دیا کہ جس کے ذریعہ اہلبیت نبوت  علیہم السلام  کے فرمان لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہو جائیں۔

غیبت کے زمانے میں زندگی گزارنے والے کہ جنہوں نے ظہور کے زمانے کی نورانیّت کو دیکھا ہی نہیں ہے تو وہ کس طرح ایسے مبارک زمانے کا تصور کر سکتے ہیں؟

غیبت کے زمانے کی تلخیوں اور سختیوں میں زندگی گزارنے والے کہ جنہوں نے نجات کے زمانے کی آزادی کو دیکھا ہی نہیں وہ کس طرح ظہور کے زمانے کے لوگوں کی ترقی و کامیابی کا یقین کرسکتے ہیں؟ خود کو زمین کا مالک سمجھنے والے دنیا کے کوتاہ فکر سیاستدان اور کس طرح ناشناختہ ہاتھوں کے ذریعہ اپنے مال و دولت کی تباہی کا یقین کر سکتے ہیں؟ جو لوگ کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھے  بغیر قبول نہیں کر سکتے خداوند متعال کس طرح ان پر اپنی حجت تمام کرے گا؟

۱۳۱

  ایک عام انسان اور حیرت انگیز دماغ

تاریخ کے صفحات کی طرف رجوع کرنے سے اس سوال کا جواب دینا بہت آسان ہو جائے گا کہ غیبی امداد،طول تاریخ میں رونماہونے والے حیرت انگیز اور غیر معمولی واقعات ،ایسے لوگوں کے لئے محکم جواب ہیں۔

تاریخ کے ستمگروں کوحیرت  زدہ کرنے والے تعجب خیز اور حیرت انگیز واقعات بہت زیادہ ہیں۔لہذا ہم اصل بحث کی طرف واپس آتے ہیں کہ جو ظہور کے بابرکت زمانے میں انسانوں کے عقلی تکامل سے تعبیر کیا  ہے۔

ہم اس بارے میں یہ کہیں گے انسان محدود دماغ کے ساتھ کس طرح اتنی حیرت انگیز قدرت کامالک بن سکتاہے؟

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہم ایک مرد کے حیرت انگیزواقعہ کو نقل کرتے ہیں،جو اپنے دماغ میں تحوّلات کے ایجاد ہونے کی وجہ سے عجیب انجانی قدرت کا مالک بن گیا۔البتہ ہمیں ایسے واقعات کو نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہم ایسے واقعات پر جاں نثار کرنے والے افراد کے تقریبِ ذہن کے لئے نقل کرتے ہیں۔

ہالینڈ کے ''پیٹر ہارکس ''کودنیا کا عجیب ترین انسان کہا گیا ہے اور اسے ریڈار کا نام لقب دیا گیا ہے۔کیونکہ اس میں تمام انسانوں میں حوّاس خمسہ کے علاوہ ایک چھٹی حسّ بھی تھی۔ وہ لوگوں کے افکار پڑھتا اور انہیں بتا دیتا کہ وہ کس چیز کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔اس شخص کے ساتھ دنیا کی بے  زبان اور جامد مخلوق بھی گفتگو کرتیں اور وہ اپنی چھٹی حسّ کے ذریعہ گزرے واقعات اور اشخاص کی زندگی کے واقعات کوکشف کرتا۔وہ دنیا اور اشخاص کے مستقبل کے بارے میں حیران کن پیشن گوئیاں کرتا کہ جو ہمیشہ صحیح ثابت ہوتیں۔

''پیٹر ہارکس '' کو مورد تجربہ قرار دینے والے تمام ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے اس کی  تصدیق بھی کی ۔اب تک دنیاکے سولہ مختلف ممالک کی پولیس اس کی مدد سے جرائم کے مختلف واقعات کا پتہ لگا چکی ہے اور اب اس کے پاس بین الاقوامی پولیس کا قانونی کارڈ ہے۔

۱۳۲

  اسے یہ قدرت کیسے حاصل ہوئی؟

پیٹر کی زندگی میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اسے یہ چھٹی حس (ریڈار) شکم مارد سے نہیں ملی۔وہ بتیس سال تک ایک عام اور معمولی انسان کی طرح ہی تھا۔جس کے پاس پانچ حسوں کے علاوہ کوئی حس نہیں تھی ۔ لیکن1943 ئم یں ایک دن جب وہ آشیانہ ہوا پیما (ہوائی جال) سے دس میٹر کی بلندی سے زمین پر گرا اور بیہوش ہو گیا۔وہ خود کہتاہے کہ زمین سے ٹکرانے سے پہلے میرے ذہن میں میری زندگی کے تمام واقعات آگئے۔حتی کہ مجھے یہ بھی یاد آ گیا کہ ایک بار کتّے نے میرے پاؤں پر کاٹا تھا ۔ جب میںزمین اور آسمان کے درمیان تھا تو میں صرف ایک ہی چیز کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں مرنانہیں چاہتا۔

اس واقعہ کے چار دن بعد جب اسے ہسپتال کے بستر پر ہوش آیا تو وہ سر میں شدید درد محسوس کررہا تھا اور وہ شدّت ِ درد سے چیخ رہا تھا۔نرس نے اسے بتایا کہ گرنے کی وجہ سے اس کا سر پھٹ گیا ہے اور اسے بہت گہری چوٹ آئی ہے۔ جب پیٹر نے یہ پریشان کن خبر سنی تو وہ اس کا جواب نہ دے سکا ۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا۔لیکن وہ خود کو ایک عجیب حالت میں محسوس کررہا تھا۔جب نرس کمرے سے باہر نکل گئی تو پیٹر نے بیماری کی حالت میں ہی ساتھ والے بستر پرسوئے ہوئے مریض کی طرف بڑھا، یہ وہ لمحہ تھاکہ جب اس میں معجزانہ طور پریہ قوّت پیدا ہوگئی۔

پیٹر میں الہام جیسی کیفیت پیدا ہوئی ۔اس نے اپنے ساتھ دیگر مریضوں کو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔اور اس نے اس سے پہلے کبھی ان سے بات نہیں کی تھی ۔ لیکن ایک ہی لمحہ میں اس نے یہ محسوس کیا کہ وہ ان بیماروں کے ماضی اور مستقبل کو جانتا ہے۔ یہ الہام اس قدر عجیب تھا کہ وہ اپنے ذہن میں پید اہونے والے الہام کے اظہار سے پرہیز نہ کر سکا اور اس نے کہا کہ تم لوگ حق شناس انسان نہیں ہو۔بیمار غصے میں بولا؛جی ہاں، مگر تم یہ بات کیسے جانتے ہو؟

۱۳۳

پیٹر نے کہا کہ اس لئے کہ تمہارا باپ ایک ہفتہ پہلے مر گیا تھا اور اس نے تمھیںیاد گار کے طور پر ایک قیمتی گھڑی دی تھی۔لیکن تم نے اپنے باپ کی یاد گار گھڑی کو فروخت کر دیا۔ساتھ بستر پر لیٹے ہوئے مریض نے حیرت میں کہا کہ تمھیں یہ کیسے معلوم ہوا؟

اس دن کے بعد وہ شخص پیٹر کو شیطان یا جنّ بھوت سمجھتا تھا اور اس سے ڈرتا تھا۔یوں پیٹر نے پہلی بار اپنی عجیب قوّت کو استعمال کیا کہ جس نے اس کی زندگی کو  یکسر بدل دیا۔

  کسی انجان چیز کا اس کے دماغ میں بدلاؤ ایجاد کرنا

وہ خود کہتاہے کہ میں نہیں جانتا کہ آخر کیاہوا لیکن اتناضرورجانتاہوں کہ ایک بجلی کی طرح کی لہر نے میرے دماغ کو صاف کر دیا اور اس میں دیگر افکار ڈال دیئے۔ بعض اوقات سوچتا ہوں کہ میں پاگل ہو گیا ہوںکبھی دل سے یہ خواہش کرتا ہوں کہ کہ واقعاََ پاگل ہو جاؤں تاکہ اس چھٹی حسّ سے نجات پاجاؤں کیونکہ جو کوئی بھی میرے کمرے میں داخل ہوتا ،میں ایک ہی لمحہ میں اس کا چہرہ دیکھ کر اس کے ماضی کو جان جاتا ۔اس کی تمام خواہشات اور غموں کو بھی جان جاتا۔ایک ہی لمحہ میں اپنے دل میں کہتا : یہ چور ہے،آج اس نے اپنی بیوی پر تشدد کیا ہے ،اس نے آج فلاں کام کیا ہے.....

لیکن یہ سب کچھ جان کر مجھے دکھ ہوتا ہے۔میں لوگوں کے راز کی باتیں نہیں جاننا چاہتا لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔کسی سے اس بارے میں بات کرنے سے پہلے ہی میرا دماغ مجھے اس کے بارے میں سب کچھ بتا دیتا ہے۔ ہوش میں آنے کے چار یا پانچ دن کے بعد پیٹر نے ایک بیمار کو دیکھا کہ جو ہسپتال سے جارہا تھا پیٹر اس سے ہاتھ ملا رہا تھا کہ یہ اسے الوداع کہتے ہوئے اچانک سے سمجھ گیاکہ شخص اپنے ادعا کے برخلاف ہالینڈ کا باشندہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق انگلینڈسے ہے جو ایک خفیہ انٹیلی جنٹ ایجنسی کا جاسوس ہے اور جاسوسی کی غرض سے ہالینڈ آیا ہے۔

۱۳۴

پیٹر اسی وقت سمجھ گیا کہ گشتاپو(جاسوسی کے خلاف جرمنی کی بنائی جانے والی فورس) کو اس جاسوس کے بارے میں پتہ چل چکا ہے اور وہ جلدہی اسے گرفتار کرکے قتل کر دیں گے۔وہ اپنے ذہن میں جاسوس کے ٹھہرنے کی جگہ سے بھی واقف ہو گیاکہ وہ کالور اسٹریٹ میں رہتا ہے۔وہ اس جاسوس کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتاتھا ،لیکن وہ جلدی میں وہاں سے نکل چکا تھا۔

پیٹر نے یہ سار اماجرا ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ ہر قیمت میں جاسوس کو اس واقعہ سے آگاہ کر دے۔دو دن کے بعد جرمن اہل کاروں نے اس جاسوس کاکالور اسٹریٹ  پرپیچھا کیا اور اسے قتل کر دیا۔پیٹر کی پیشن گوئی کا نہ صرف اس جاسوس کو کوئی فائدہ ہوا بلکہ اس کی وجہ سے ہالینڈ کے اہل کار اس پر بھی شک کرنے لگے اور اسے کہنے لگے کہ جب تمھیں پہلے ہی سے علم تھاوہ انگلینڈ کے جاسوس کا پیچھاکریں گے تو یقیناََ تم بھی گشتاپو کے جاسوس ہو۔اس گمان میں اتنا اضافہ ہوگیا کہ دو دن کے بعددو افراد تکیہ کے ذریعہ پیٹر کی سانس بند کرکے اسے مارنے کے لئے ہسپتال میں آئے۔لیکن اس بار بھی پیٹر کی چھٹی حسّ نے اس کی مدد کی اور اسے موت کے منہ سے بچا لیا۔

  دوسری زبان میں کلام

اسے قتل کرنے والوں میں سے ایک ہسپانوی تھا۔جب وہ شخص پیٹر کے منہ اور ناک پرتکیہ رکھ کر دبا رہا تھا تو پیٹر نے اسے ہسپانوی زبان میں کہا کہ،،کومو آبودورو دا لا موئرنہ،،حلانکہ پیٹر ہسپانوی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا تھا۔ ہسپانوی شخص نے تکیہ  ہٹا کر کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ یہ مجھے کہہ رہا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے سے ڈر رہے ہو اور میں اس وقت اسی بارے میں سوچ رہا تھا۔کچھ دیر سکوت کے بعد ہسپانوی شخص نے  اس کے ہاتھ کو دبا کر کہا کہ میں تمہاری بات پر یقین کرتا ہوں لیکن تم مجھے برا بھلا مت کہنا۔آخر ایسی عجیب قوّت کوکس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟

۱۳۵

اس مدت کے دوران پورے ہسپتال میں پیٹر کا واقعہ مشہور ہو گیا۔اب وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ جلد ہی ایک استثنائی انسان بن جائے گا۔اب وہ اپنی چھٹی حس سے خوفزدہ نہیںتھا ۔ بلکہ وہ اس کے ذریعہ اپنی زندگی کے اخراجات مہیا کرنا چاہتا تھا ۔ جب وہ اپنے گھر واپس گیا تو تقریباََ سب گھر والوں نے اسے نہ پہچانااس کی ماں کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا خیالاتی ہو گیا ہے۔پیٹر خود بھی کہتا تھا کہ میں پہلے جن مشکلات کا سامنا کر رہا تھا اب بھی انہیں مشکلات کا سامنا کر رہا ہوں۔جب کوئی ہمسایہ میری چاپلوسی  یا خوشامدکرتا تو میں اس کے دماغ کو پڑ ھ کر بتا دیتا کہ  وہ  جھوٹ بول رہا ہے۔میں یہ بھی سمجھ چکا تھا کہ میر ی ماں ،بہنیں اور بھائی بھی مجھ سے بہت سی باتیں چھپاتے ہیں۔لیکن اب کوئی مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔لیکن جب میں لوگوں کے جھوٹ کو جان جاتا تو مجھے بہت دکھ ہوتاہے۔

  کسی انجان قوّت کا اس کے دماغ کو مطلع کرنا

کیا یہ چھٹی حس کوئی ہدیہ و تحفہ تھی یا کوئی تکلیف؟

اس بارے میں پیٹر کا کہنا تھا کہ میںاس بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ کوئی دوسری  قوّت ذہنی اطلاعات اور پیشن گوئیاں میرے دماغ میں داخل کر دیتی ہے۔ اب میں سب انسان سے پہلے خدا سے نزدیک ہو جاناچاہتا ہوں ۔ کیونکہ خدا نے کروڑوں انسانوں میں سے فقط مجھے اس حسّ سے نوازا ہے۔ لہذا میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اس ریڈار جیسی حس کو لوگوں کے فائدے کے لئے استعمال کروں۔ اب مجھے ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے کیونکہ اب میں اپنے سابقہ کام انجام نہیں دے سکتا تھا۔اس نئی اور غیر معمولی حسّ کے آنے سے میں نے اپنی معمولی حسّ کھو دی ہے۔ میں کسی بھی موضوع کے بارے میںدس یا پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں سوچ سکتا تھا ۔ کیونکہ ہر لمحہ میرے دماغ میں ہزاروں مطالب گردش کرتے تھے۔

۱۳۶

 اگر میں خود کو کسی موضوع کے بارے میں مجبور کرکے فکر کروں مثلاََ اگر ایک کیل ٹھونکنے کے لئے فکر کروں تو اچانک میرا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے میری سانس بند ہونے لگتی اور میرے نیچے کرسی بھی لرزنے لگتی۔

  بے زبانوں سے گفتگو

جب بھی میرے کمرے میں کوئی داخل ہوتا تو میرا دماغ اس کے بارے میں فکر کرنا شروع کر دیتا اور مجھے اس کے گزشتہ اور آئندہ  سے آگاہ کر دیتا۔یہ صرف اشخاص کی حد تک محدود نہیں تھا بلکہ ان کے زیر استعمال اشیاء سے بھی آگاہ ہو جاتا۔جیسے بیگ،کتاب،اشیائ،تصاویر،رومال وغیرہ۔حتی کہ صحرا میں تنہائی کے دوران بھی  مجھے راحت اور آرام نصیب نہیں تھا۔پتھر،درخت بھی مجھے اپنی کہانی سناتے۔اس آفت سے نجات کا راہ حل یہ تھا کہ میں کسی ایسے خالی کمرے  میںبیٹھا رہوں کہ جہاں کوئی چیز بھی موجود نہ ہو اور اس کمرے سے بالکل باہر نہ نکلوں۔ لیکن میری طرح کا34 سالہ شخص بالکل راہبوں ک ی طرح زندگی نہیں گزار سکتا تھا ۔

میرے پاس صرف ایک راستہ تھا کہ میں  ایسی راہ کا انتخاب کرتا کہ جن میں ایسی چھٹی حس سے استفادہ کرتے ہوئے میں اپنی زندگی کی ضروریات کو مہیا کرتا۔اب جب کہ مجھے اس حس سے ایک منٹ کی بھی چین و سکون نہیں تھا۔لہذا میں اس کے اوامر کی اطاعت کرنے کے لئے مجبور تھا۔اس دن سے پیٹر کی زندگی،اسی چھٹی حس کے ساتھ جڑ چکی تھی۔میں نے ملّی جشن کے دوران لوگوں کے سامنے اپنی چھٹی حس کو ثابت کیا ۔میں نے  ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے حالاتِ زندگی ایک یا دو گھنٹے تک مسلسل بیان کیے۔

۱۳۷

  ریڈار کے نام سے پروگرام

پیٹر بہت جلد ہی ہالینڈ، فرانس اور پورے یورپ میں مشہور ہوگیا ۔آج پیٹر امریکہ کا باشندہے جو ٹیلی ویژن پر ریڈار کے نام سے ایک پروگرام کررہا ہے۔

اس پروگرام میں وہ ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھا ہوتا ہے اور دیکھنے والے سینکڑوں کلو میٹر  کے فاصلے سے ٹیلی ویژن کے ذریعے اس سے سوال پوچھتے ہیں ۔وہ ان لوگوں کو دیکھے اور پہچانے بغیر سینکڑوں کلو میٹر کی دوری سے ان کے سوالات کے جواب دیتا ہے۔اور ان کی موجودہ زندگی اور مستقبل سے آگاہ کرتا ہے۔

وہ خود بھی کہتا ہے کہ میرا حقیقی ہدف ایسے انسانوں کی مدد کرنا ہے کہ جنہیں میری ضرورت ہو۔مثلاً میں چاہتا ہوں کہ لوگوں  کے کاموں میں ان کی مدد کروں یا گمشدہ بچوں کو تلاش کروں ۔

پیٹر نے ہزاروں گمشدہ کو تلاش کیا ۔پولیس کو چوری کے سینکڑوں واقعات کی پیشگی اطلاع دی ، سینکڑوں معدن کشف کئے۔کئی بار مجرموں اور قاتلوں کو پہچاننے کے لئے پولیس کی مدد کی ۔ لیکن وہ اپنے شخصی منافع اور جوئے میں اپنی چھٹی حس سے استفادہ نہیں کرتاکیونکہ کہ اگر وہ جواکھیلے تو وہ ہر ایک سے دنیا کی ساری ثروت حاصل کرلے۔

وہ خود بھی کہتا ہے کہ میںاچھی طرح جانتا ہوں کہ خدا نے لوگوں کی مدد کے لئے مجھے چھٹی حس عطا کی ہے نہ کہ مال و دولت جمع کرنے کے لئے۔

ایک دن ونیکوتن سٹی میں آتش زدگی کے واقعہ کے بعد ہالینڈ پولیس نے پیٹر سے اس واقعے کے اسباب کے بارے میں مدد طلب کی۔کیونکہ پولیس چار مہینے کی تحقیق کے با وجود اس کے اسباب سے آگاہ نہ ہوسکی تھی۔

پیٹر نے فوراً انہیں بتایا کہ میں ایک عورت کو دیکھ رہا ہوں کہ جس نے اپنا ایک دستانہ حادثہ رونما ہونے والی جگہ  پر رکھا ہے اور وہ افیون اور دوسری منشیات میں ملوث ہے۔

۱۳۸

اس وقت تک پولیس نے وہاں کوئی دستانہ نہیں دیکھا تھا ۔ لیکن جب وہ دوبارہ وہاں گئے تو انہیں دستانہ مل گیا۔یہ دستانہ پیرس کی ایک دکان سے خریدا گیا تھا، اس کے مالک کو ڈھونڈنا بہت مشکل تھا۔ لیکن پیٹر نے اس عورت کے دوسرے مشخصات بھی بیان کئے کہ اس عورت کا شوہر نہیں ہے اور وہ افیونی بھی ہے۔

جب پیٹر کی اطلاعات کے ذریعے اس عورت کوگرفتار کیا گیا تو اس نے اعتراف کیا کہ افیونی ہے اور اس نے منشیات کے اڈے کے لئے ایک جگہ بھی کرائے پر لی ہے۔یوں پولیس نے پیٹر کی مدد سے منشیات کی اسمگلنگ کا منصوبہ بھی ناکام بنادیا ۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے باقاعدہ طور پر پیٹر کا شکریہ ادا کیا۔

ہم سب چھٹی حس رکھتے ہیں ۔ امریکہ کے مشہور اور بزرگ استاد پروفیسر ''پوہاریس'' ایک سال سے پیٹر کے بارے میں مطالعہ کر رہے ہیں ۔انہوں نے اعلان کیا کہ پیٹر کی چھٹی حس میں کوئی شک نہیں کہ جو ریڈار کی طرح ہر چیز کو دور سے تشخیص دیتی ہے ۔ لیکن علمی لحاظ سے میں ابھی تک اس مسئلہ کی توجیہ نہیں کرسکا ۔میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اس کی چھٹی حس دیگر حواس خمسہ کی بہ نسبت حسّاس ہے جب وہ مریض ،تھکا ہوا یا غصے میں ہو تو اس کی چھٹی حس دیگر حواس سے جلد متاثر ہوجاتی ہے۔

طولِ تاریخ  میں  دو یا تین دیگر پیشن گوئی کرنے والے بھی تھے کہ جن کے پاس بھی یہی حس تھی ۔ لیکن پیٹر وہ واحد شخص ہے کہ یہ حس پیدائشی طور پرنہیں بلکہ32 سال کی عمر میںحادثے کے بعد حاصل ہوئی۔وہ خود بھی کہتا ہے کہ سب لوگوں کے پاس کم و بیش چھٹی حس ہوتی ہے۔

۱۳۹

کبھی آپ کو بھی یہ اتفاق ہواہوگا کہ حادثہ سے پہلے اس کے بارے میں جان لیں۔مثلاً کبھی کسی دیہات میں داخل ہوں تو آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ اسے ایک مرتبہ پہلے بھی کہیں دیکھ چکے ہوں۔میرے خیال میں انسان کے دماغ حواس خمسہ کی طرح چھٹی حس کی بھی ایک مخصوص جگہ ہے۔ میرے ساتھ ہونے والے حادثے نے اس حس کو بیدا ر کردیا۔(1)

اس بناء پر حادثے میںگرنے اور دماغ پر چوٹ لگنے کی وجہ سے پیٹر میں مخفی قدرت بیدار ہوگئی ۔ اسے ایسی قدرت نصیب ہوئی کہ جو دوسروں کو حاصل نہیں تھی انسان عقل کے تکامل کی وجہ سے  مخفی قوتوں کو حاصل کرسکتا ہے۔

  عقل کی آزادی

جب انسان اپنے اندرپوشیدہ طاقتوں تک رسائی حاصل کرلے اور تکامل عقلی کی منزل تک پہنچ جائے تو اس کی عقل اسارت سے آزاد ہوجاتی ہے۔یہ آزادی کی عظیم ترین اقسام میں سے ایک ہے ۔ جوظہور کے تکامل بخشیں زمانے میں تمام انسانوں کو حاصل ہوگی۔عقل کے شیطانی و نفسانی قید سے آزاد ہونے کے بعد انسان آسانی سے اپنی عقلی قوت سے استفادہ کرسکتا ہے۔ ہر انسان کی عقل میں کچھ قوتیں اور طاقتیں کار فرما ہوتی ہیں کہ جو ایک سپاہ کی حکمِ عقل کے تابع  ہوتی ہیں ۔ خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین میں اس کی وضاحت ہوئی ہے۔جو کہ وجودِ بشر کے تمام پہلوؤںسے آگاہ ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام ایک عظیم روایت میں عقل و خرد کی سپاہ کے تمام افراد کو بیان فرماتے ہیں۔(2)

--------------

[1] ۔ ہفت روزہ خبر 25 اردیبہشت سال 1376

[2]۔ البتہ اس میں جہل سے مراد نفس ہے نہ کہ لاعلمی ،کیونکہ جہل بمعنی لاعلمی،خود جہل بمعنی نفس کی فوج میں سے ایک ہے کہ جو اس روایت میں بیان ہوئی ہے۔

۱۴۰