امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت20%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180616 / ڈاؤنلوڈ: 4527
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

٢۔ وضو کو قصد قربت کے ساتھ انجام دینا چاہئے یعنی خدائے تعالیٰ کے حکم کو بجالانے کے لئے وضو انجام دے۔(١)

٣۔ضروری نہیں کہ نیت کو زبان پر لا ئے ،یا اپنے دل ہی دل میں (کلمات نیت) دہرائے،بلکہ اسی قدر کافی ہے کہ جانتاہو کہ وضو انجام دے رہا ہے، اس طرح کہ اگر اس سے پوچھا جائے کہ کیا کررہا ہے؟ تو جواب میں کہے کہ وضو کررہا ہوں ۔(٢)

مسئلہ: اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہوچکا ہوکہ و ضو کرنے کی صورت میں پوری نماز یا نماز کا ایک حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھا جائے گا تو اس صورت میں تیمم کرنا چاہئے(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل،ص ٣١شرط ہشتم.

(٢)توضیح المسائل،م ٢٨٢.

(٣) توضیح المسائل، م ٠ ٢٨.

۶۱

سبق: ٨ کا خلاصہ

١۔وضو کاپانی پاک ، مطلق اور مباح ہونا چاہئے ، لہٰذا نجس ومضاف پانی سے وضو کرنا ہر حالت میں باطل ہے، چاہے پانی کے مضاف یا نجس ہونے کے بارے میں علم رکھتا ہویانہیں۔

٢۔ غصبی پانی سے وضو کرنا باطل ہے، البتہ اگر جانتا ہو کہ پانی غصبی ہے۔

٣۔ اگر وضو کے اعضا نجس ہوں تو وضو باطل ہے ،اسی طرح اگر وضو کے اعضاپر کوئی مانع ہوکہ پانی اعضا تک نہ پہنچ پائے تو وضو باطل ہے۔

٤۔ اگر وضو میں ترتیب وموالات کا لحاظ نہ رکھا جائے تو وضو باطل ہے۔

٥۔ جو خود وضو کرسکتا ہو اسے دھونے یا مسح کرنے میں کسی دوسرے کی مدد نہیں لینی چاہئے

٦۔ وضو کو خدائے تعالیٰ کا حکم بجالانے کی نیت سے انجام دینا چاہئے۔

٧۔ اگر انسان وضو کرنے کی صورت میں اسکی پوری نماز یا نماز کا ایک حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھا جائے گا تو اس صورت میں تیمم کرنا چاہئے۔

۶۲

سوالات:

١۔ مختلف اداروں کے وضوخانوں میں وہاں کے ملازموں کے علاوہ دوسرے لوگوں کا وضو کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟

٢۔ پانی کے ان منابع یا پانی سرد کرنے کی مشینوںسے جو پینے کے پانی کے لئے مخصوص ہوں، وضو کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟

٣۔ جوخود وضو انجام دینے سے معذور ہو، اس کا فرض کیا ہے؟

٤۔ وضو میں قصد قربت کی وضاحت کیجئے۔

٥۔ وضوکی ترتیب وموالات میں کیا فرق ہے؟

۶۳

سبق نمبر٩

وضوء جبیرہ

'' جبیرہ'' کی تعریف:جودوائی زخم پر لگائی جاتی ہے یا جوچیز مرہم پٹی کے عنوان سے زخم پر باندھی جاتی ہے، اسے'' جبیرہ'' کہتے ہیں ۔

١۔ اگر کسی کے اعضائے وضو پر زخم یا شکستگی ہو اور معمول کے مطابق وضو کرسکتاہو، تواسے معمول کے مطابق وضو کرنا چاہئے،(١)

مثلاً:

الف۔ زخم کھلاہے اور پانی اس کے لئے مضرنہیں ہے۔

ب۔ زخم پر مرہم پٹی لگی ہے لیکن کھولنا ممکن ہے اور پانی مضر نہیں ہے ۔

٢*خم چہرے پر یا ہاتھوں میں ہواور کھلا ہو تو اس پر پانی ڈالنا مضر ہو*، اگر اس کے اطراف کو دھویا جائے تو کافی ہے۔(٢)

____________________

(١)توضیح المسائل م ٣٢٤۔ ٣٢٥

(٢) توضیح المسائل م ٤ ٣٢۔ ٥ ٣٢.

*(اراکی) اگر تر ہاتھ اس پر کھینچنا مضر نہ ہوتو ہاتھ اس پر کھینچ لیں اور اگر ممکن نہ ہو تو ایک پاک کپڑا اس پر رکھ کر ترہاتھ اس پر کھنچ لیں اور اگر اس قدربھی مضر ہو یازخم نجس ہو اور پانی نہیں ڈال سکتا ہو تو اس صورت میں زخم کے اطراف کو اوپرسے نیچے کی طرف دھولیں اور احتیاط کے طور پر ایک تیمم بھی انجام دے (گلپائیگانی) تر ہاتھ کو اس پر کھینچ لے اور اگر یہ بھی مضر ہوتو یا زخم نجس ہواور پانی ڈال نہ سکتے ہوں تو اس صورت میں زخم کے ا طراف کو اوپرسے نیچے کی طرف دھولیں تو کافی ہے. (مسئلہ ٣٣١)

۶۴

٣۔ اگر زخم یا شکستگی سرکے اگلے حصے یا پائوں کے اوپروالے حصہ (مسح کی جگہ) میں ہو، اور زخم کھلا ہو، اگر مسح نہ کرسکے ، تو ایک کپڑا اس پر رکھ کر ہاتھ میں موجود وضو کی باقی ماندہ رطوبت سے کپڑے پر مسح کریںز۔(١)

وضوء جبیرہ انجام دینے کا طریقہ:

وضوء جبیرہ میں وضو کی وہ جگہیں جن کو دھونا یا مسح کرنا ممکن ہو، معمول کے مطابق دھویا یامسح کیا جائے، اور جن مواقع پر یہ ممکن نہ ہو، تو ترہاتھ کو جبیرہ پر کھنچ لیں۔

چندمسائل:

١۔ اگر جبیرہ نے حد معمول سے بیشتر زخم کے اطراف کو ڈھانپ لیا ہو اور اسے ہٹانا ممکن نہ ہو٭٭ تو وضو جبیرہ کرنے کے بعد ایک تیمم بھی انجام دینا چاہئے۔(٢)

٢۔ جو شخص یہ نہ جانتاہوکہ اس کا فریضہ وضوء جبیرہ ہے یا تیمم احتیاط واجب کی بناپر اسے دونوں (یعنی وضوء جبیرہ وتیمم)انجام دینا چاہئے۔(٣)

٣۔ اگر جبیرہ نے پورے چہرے یا ایک ہاتھ کو پورے طور پرڈھانپ لیا ہوتو وضوء جبیرہ کافی ہے۔٭٭٭

____________________

(١) توضیح المسائل ، م ٣٢٦

(٢)توضیح المسائل۔م ٣٣٥.

(٣) توضیح المسائل۔م ٣٤٣

*(گلپائیگانی) احتیاط کی بناپر لازم ہے کہ تیمم بھی کریں ( خوئی) تیمم کرنا چاہئے، اور احتیاط کے طور پر وضوجبیرہ بھی کرے. (مسئلہ ٣٣٢)

٭٭(خوئی) تیمم کرنا چاہئے، مگریہ کہ جبیرہ تیمم کے مواقع پر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو کرے اور پھر تیمم بھی کرے (مسئلہ ٣٤١).

٭٭٭ (خوئی) احتیاط کی بناء پر تیمم کرے اور وضوء جبیرہ بھی کرے، (گلپائیگانی) وضوء جبیرہ کرے اور احتیاط واجب کی بناء پر اگرتمام یا بعض تیمم کے مواقع پوشیدہ نہ ہوں تو تیمم بھی کرے.(مسئلہ ٣٣٦)

۶۵

٤۔ جس شخص کی ہتھیلی اور انگلیوں پر جبیرہ (مرہم پٹی)ہو اور وضو کے وقت اس پر ترہاتھ کھینچاہو، تو سراور پا ئوں کو بھی اسی رطوبت سے مسح کرسکتا ہے (ز)یا وضو کی دوسری جگہوں سے رطوبت لے سکتا ہے۔(١)

٥۔اگر چہرہ اور ہاتھ پر چند جبیرہ ہوں،تو ان کی درمیان والی جگہ کو دھونا چاہئے، یا اگر (چند) جبیرہ سر اور پائوں کے اوپر والے حصے میں ہوں تو ان کے درمیان والی جگہوں پر مسح کرنا چاہئے، اور جن جگہوں پرجبیرہ ہے ان پر جبیرہ کے حکم پر عمل کرے۔(٢)

جن چیزوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے

١۔ نماز پڑھنے کے لئے(نماز میت کے علاوہ)

٢۔ طواف خانہ کعبہ کے لئے ۔

٣۔بدن کے کسی بھی حصے کی کسی جگہ سے قرآن مجید کی لکھائی اور خدا کے نام کو مس کرنے کے لئے۔(٣) ٭٭

چند مسائل:

١۔اگر نماز اور طواف وضو کے بغیر انجام دے جائیں تو باطل ہیں۔

٢۔ بے وضو شخص، اپنے بدن کے کسی حصے کو درج ذیل تحریروں سے مس نہیں کرسکتاہے:

* قرآن مجید کی تحریر، لیکن اس کے ترجمہ کے بارے میں کوئی حرج نہیں ۔

*خدا کا نام، جس زبان میں بھی لکھا گیا، جیسے: اللہ، '' خدا'' '' God ''۔

*پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا اسم گرامی(احتیاط واجب کی بناء پر)

*ائمہ اطہار علیہم السلام کے اسماء گرامی (احتیاط واجب کی بناء پر)

____________________

(١)توضیح المسائل م٣٣٢.

(٢)توضیح المسائل م٣٣٤.

(٣)توضیح المسائل م٣١٦.

*(خوئی ، گلپائیگانی) سر اور پائوں کو اسی رطوبت سے مسح کرے (مسئلہ ٣٣٨)

٭٭اس مسئلہ کی تفصیل ٤٤ویں سبق میں آئے گی۔

۶۶

*حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اسم گرامی(١) (احتیاط واجب کی بناء پر)

درج ذیل کاموں کے لئے وضو کرنا مستحب ہے:

*مسجد اور ائمہ (ع) کے حرم جانے کے لئے۔

*قرآن پڑھنے کے لئے۔

*قرآن مجید کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے۔

*قرآن مجید کی جلد یا حاشیہ کو بدن کے کسی حصے سے مس کرنے کے لئے۔

*اہل قبور کی زیارت کے لئے(٢)

وضو کیسے باطل ہوتا ہے؟

١۔انسان سے پیشاب،یا پاخانہ یا ریح خارج ہونا۔

٢۔نیند،جب کان نہ سن سکیں اور آنکھیں نہ دیکھ سکیں۔

٣۔وہ چیزیں جو عقل کو ختم کردیتی ہیں،جیسے:دیوانگی،مستی اور بیہوشی۔

٤۔عورتوں کا استحاضہ وغیرہ۔*

٥۔جوچیز غسل کا سبب بن جاتی ہے،جیسے جنابت،حیض، مس میت وغیرہ۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل م٣١٧، ٣١٩.

(٢)توضیح المسائل م٣٢٢.

(٣)توضیح المسائل م ٢٢٣

*یہ مسئلہ خواتین سے مربوط ہے، اس کی تفصیلات کے لئے توضیح المسائل مسئلہ ٣٣٩ تا ٥٢٠ دیکھئے.

۶۷

سبق ٩ کا خلاصہ

١۔جس شخص کے اعضائے وضو پر زخم،پھوڑا یا شکستگی ہو لیکن معمول کے مطابق وضو کرسکتا ہے تو اسے معمول کے مطابق وضو کرنا چاہئے۔

٢۔جو شخص اعضائے وضو کو نہ دھو سکے یا پانی کو ان پر نہ ڈال سکتا ہو تو اس کے لئے زخم کے اطراف کو دھونا ہی کافی ہے ، اور تیمم ضروری نہیں ہے۔

٣۔اگر زخم یا چوٹ پر پٹی بندھی ہو،لیکن اس کو کھولنا ممکن ہو(مشکل نہ ہو)تو جبیرہ کو کھول کر معمول کے مطابق وضو کرے۔

٤۔جب زخم بندھا ہو اور پانی اس کے لئے مضر ہو تو اسے کھولنے کی ضرورت نہیں اگر چہ کھولنا ممکن بھی ہو۔

٥۔نماز،طواف کعبہ،بدن کے کسی حصہ کو قرآن مجید کے خطوط اور خدا کے نام سے مس کرنے کے لئے وضو کرنا ضروری ہے۔

٦۔بدن کے کسی حصے کو وضو کے بغیر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ اطہار اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی سے مس کرنا احتیاط واجب کی بناء پر جائز نہیں ہے۔

٧۔پیشاب اور پاخانہ کا نکلنا وضو کو باطل کردیتا ہے۔

٨۔نیند،دیوانگی،بیہوشی،مستی،جنابت،حیض اور مس میت وضو کو باطل کردیتے ہیں۔

۶۸

سوالات:

١۔جس شخص کے پائوں کی تین انگلیوں پر جبیرہ (مرہم پٹی)ہو تو وضو کے سلسلے میں اس کا کیا فریضہ ہے؟

٢۔وضوء جبیرہ انجام دینے کا طریقہ مثال کے ساتھ بیان کیجئے؟

٤۔کیا جبیرہ پر موجود رطوبت سے مسح کیا جاسکتا ہے؟

٤۔اگر جبیرہ نجس ہو اور اسے ہٹانا بھی ممکن نہ ہو تو فریضہ کیا ہے؟

٥۔کیا اونگھنا وضو کو باطل کردیتا ہے؟

٦۔ایک شخص نے میت کو ہاتھ لگادیا تو کیا اس کا وضو باطل ہوجائے گا؟

۶۹

سبق نمبر١٠

غسل

بعض اوقات نماز (اور ہر وہ کام،جس کے لئے وضو لازمی ہے)کے لئے غسل کرنا چاہئے، یعنی حکم خدا کو بجالانے کے لئے تمام بدن کو دھونا، اب ہم غسل کے مواقع اور اس کے طریقے کو بیان کرتے ہیں:

واجب غسلوں کی قسمیں:

مردوںاور عورتوں کے درمیان مشترک

١۔جنابت

٢۔مس میت

٣۔میت

عورتوں سے مخصوص

١۔حیض

٢۔استحاضہ

٣۔نفاس

غسل کی تعریف وتقسیم کے بعد ذیل میں واجب غسل کے مسائل بیان کریں گے:

غسل جنابت:

١۔انسان کیسے مجنب ہوتا ہے؟

جنابت کے اسباب:

١۔منی کا نکلنا

کم ہو یا زیادہ

سوتے میں ہو یا جاگتے میں

۷۰

٢۔جماع

حلال طریقہ سے ہو یا حرام منی نکل آئے یا نہ نکلے(١)

٢۔اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن باہر نہ آئے تو جنابت کا سبب نہیں ہوتا۔(٢)

٣۔جو شخص یہ جانتا ہو کہ منی اس سے نکلی ہے یا یہ جانتا ہو کہ جو چیز باہر آئی ہے وہ منی ہے، تو وہ مجنب سمجھا جائے گااور اسے ایسی صورت میں غسل کرنا چاہئے۔(٣)

٤۔جو شخص یہ نہیں جانتا کہ جو چیز اس سے نکلی ہے،وہ منی ہے یا نہیں، تومنی کی علامت ہونے کی صورت میں مجنب ہے ورنہ حکم جنابت نہیں ہے۔(٤)

٥۔منی کی علامتیں:(٥)

*شہوت کے ساتھ نکلے ۔

*دبائو اور اچھل کر نکلے۔

____________________

(١)تحریر الوسیلہج١ص٣٦.

(٢)تحریر الوسیلہ ج١ص٣٦ ، م ١.

(٣)تحریر الوسیلہ ج١ص١٣٦۔العروة الوثقیٰ ج١ص٣٧٨.

(٤)تحریر الوسیلہ ج١ص١٣٦۔ العروة الوثقیٰ ج١ص٣٧٨.

(٥)تحریر الوسیلہ ج١ص١٣٦۔العروة الوثقیٰ ج١ص٣٧٨.

۷۱

*باہر آنے کے بعد بدن سست پڑے۔ *

اس لحاظ سے اگر کسی سے کوئی رطوبت نکلے اور نہ جانتا ہو کہ یہ منی ہے یا نہ،تو مذکورہ تما م علامتوں کے موجود ہونے کی صورت میں وہ مجنب مانا جائے گا، ورنہ مجنب نہیں ہے، چنانچہ اگر ان علامتوںمیں سے کوئی ایک علامت نہ پائی جاتی ہو اور بقیہ تمام علامتیں موجود ہوں تب بھی وہ مجنب نہیں مانا جائے گا،غیر از عورت اور بیمار کے،ان کے لئے صرف شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا کافی ہے۔ ٭٭

٦۔مستحب ہے انسان منی کے نکلنے کے بعد پیشاب کرے اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد کوئی رطوبت اس سے نکلے،اور نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا نہیں تو وہ منی کے حکم میں ہے۔(١)

وہ کام جو مجنب پر حرام ہیں:(٢)

*قرآن مجید کی لکھائی،خداوندعالم کے نام،احتیاط واجب کے طور پر پیغمبروں،ائمہ اطہار اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی کو بدن کے کسی حصہ سے چھونا ۔ ٭٭٭

مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں داخل ہونا،اگر چہ ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل بھی جائے۔

*مسجد میں ٹھہرنا۔

*مسجد میں کسی چیز کو رکھنا اگر چہ باہر سے ہی ہو۔ ٭٭٭*

____________________

(١)توضیح المسائل م٣٤٨.

(٢)تحریر الوسیلہ ج١ص٣٩٣٨.

*گلپائیگانی:اگر شہوت کے ساتھ اچھل کر باہر آئے یا اچھل کر باہر آنے کے بعد بدن سست پڑے،تو یہ رطوبت حکم منی میں ہے۔

٭٭خوئی اگر شہوت کے ساتھ باہر آئے اور بدن سست پڑے، تو منی کے حکم میں ہے(مسئلہ٣٥٢)

٭٭٭(خوئی)پیغمبروں اور ائمہ علیہم السلام کے نام کو چھونا بھی حرام ہے۔

٭٭٭*(اراکی)اگر توقف نہ ہو تو کوئی چیز مسجد میں رکھنے میں حرج نہیں ہے۔(خوئی)کسی چیز کو اٹھانے کے لئے داخل ہونا بھی حرام ہے۔(مسئلہ٣٥٢)۔

۷۲

*قرآن مجید کے ان سوروں کا پڑھنا،جن میں واجب سجدہ ہے،حتی ایک کلمہ بھی پڑھنا حرام ہے۔ *

*ائمہ علیہم السلام کے حرم میں توقف کرنا۔(احتیاط واجب کی بنا پر)۔ ٭٭

قرآن مجید کے وہ سورے جن میں واجب سجدہ ہیں:

(١)٣٢واں سورہ۔سجدہ۔

(٢)٤١واں سورہ۔فصلت۔

(٣)٥٣واں سورہ۔نجم۔

(٤)٩٦واں سورہ۔ علق۔

چند مسائل:

*اگر شخص مجنب مسجد کے ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے سے خارج ہوجائے(عبور توقف کے بغیر)تو کوئی حرج نہیں ہے، البتہ مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کیونکہ ان کے درمیان سے گزرنا بھی جائز نہیں(١)

اگر کسی کے گھر میں نماز کے لئے ایک کمرہ یا جگہ معین ہو(اسی طرح دفتروں اور اداروں میں)تو وہ جگہ حکم مسجد میں شمار نہیں ہوگی۔(٢)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ ج ١ص٣٩٣٨.

(٢)العروة الوثقیٰ ج١ص٢٨٨م٣.

*گلپائیگانی،خوئی)صرف آیات سجدہ کا پڑھنا حرام ہے (مسئلہ٣٦١).

٭٭(اراکی)اماموں کے حرم میں بھی جنابت کی حالت میں توقف کرنا حرام ہے. (مسئلہ ٣٥٢)

۷۳

سبق ١٠ کا خلاصہ:

١۔ واجب غسل دو قسم کے ہیں:

الف:مر د اور عورتوں میں مشترک ۔

ب:عورتوں سے مخصوص

٢۔اگر انسان کی منی نکل آئے یا ہمبستری کرے تو مجنب ہوجاتا ہے۔

٣۔جو شخص جانتا ہوکہ مجنب ہوگیا ہے تو اس کو چاہئے کہ غسل بجالائے ،اور جو نہیں جانتا کہ مجنب ہوا ہے یا نہیں؟تواس پر غسل واجب نہیں ہے۔

٤۔منی کے علامتیں حسب ذیل ہیں:

*شہوت کے ساتھ نکلتی ہے۔

*دبائو اور اچھل کر نکلتی ہے۔

*اس کے بعد بدن سست پڑجاتا ہے ۔

٥۔مجنب پر حسب ذیل امور حرام ہیں:

*قرآن کی لکھائی،خدا، پیغمبروں،اور ائمہ اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہم اجمعین کے ناموں کو مس کرنا۔

*مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں داخل ہونا نیز دیگر مساجد میں توقف۔

*کوئی چیز مسجد میں رکھنا۔

*قرآن مجید کے ان سوروں کا پڑھنا جن میں واجب سجدے ہیں ۔

٦۔مساجد سے عبور کرنا،اگر توقف نہ کریں بلکہ ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل آئیں تو کوئی حرج نہیں ،صرف مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں عبور بھی جائز نہیں ہے۔

۷۴

سوالات:

١۔ مرد اور عورتوں کے درمیان مشترک غسلوں کو بیان کیجئے؟

٢۔ایک شخص نیند سے بیدار ہونے کے بعد اپنے لباس میں ایک رطوبت مشاہدہ کرتا ہے لیکن جتنی بھی فکر کی، منی کی علامتیں نہیں پاتا ہے، تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٣۔شخص مجنب کا امام زادوں کے حرم میں داخل ہونے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

٤۔کیا شخص مجنب،فوجی چھاؤنیوں، دفتروں اور اداروں کے نماز خانوں میں توقف کرسکتا ہے؟

۷۵

سبق نمبر١١

غسل کرنے کا طریقہ

غسل میں پورا بدن اور سروگردن دھونا چاہئے،خواہ غسل واجب ہو مثل جنابت یا مستحب مثل غسل جمعہ،دوسرے لفظوں میں تمام غسل کرنے میں آپس میں کسی قسم کا فرق نہیں رکھتے، صرف نیت میں فرق ہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل م٣٦٨٣٦٧٣٦١.

۷۶

وضاحت:

غسل دوطریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے:

''ترتیبی''اور ''ارتماسی''۔

غسل ترتیبی میں پہلے سروگردن کو دھویاجاتا ہے،پھر بدن کا دایاں نصف حصہ اور اس کے بعد بدن کا بایاں نصف حصہ دھویا جاتا ہے۔

ارتماسی غسل میں،پورے بدن کو ایک دفعہ پانی میں ڈبو دیا جاتا ہے، لہٰذا غسل ارتماسی اسی صورت میں ممکن ہے جب اتنا پانی موجود ہو جس میں پورا بدن پانی کے نیچے ڈوب سکے۔

غسل صحیح ہونے کے شرائط:

١۔موالات کے علاوہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے بارے میں بیان ہوئے،غسل کے صحیح ہونے میں بھی شرط ہیں،اور ضروری نہیں ہے کہ بدن کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے۔(١)

٢۔جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں تو وہ تمام غسلوں کی نیت سے صرف ایک غسل بجالاسکتا ہے۔(٢)

٣۔جو شخص غسل جنابت بجالائے،اسے نماز کے لئے وضو نہیں کرنا چاہئے، لیکن دوسرے غسلوں سے نماز نہیں پڑھی جاسکتی بلکہ وضو کرنا ضروری ہے۔(٣) *

____________________

(١)توضیح المسائلم٣٨٠.

(٢)توضیح المسائلم٣٨٩.

(٣)توضیح المسائلم٣٩١.

*(خوئی)غسل استحاضۂ متوسطہ اور مستحب غسلوں کے علاوہ دوسرے واجب غسلوں کے بعد بھی وضو کے بغیر نماز پڑھی جاسکتی ہے،اگر چہ احتیاط مستحب ہے کہ وضو بھی کیا جائے(مسئلہ٣٩٧)۔

۷۷

٤۔غسل ارتماسی میں پورا بدن پاک ہونا چاہئے،لیکن غسل ترتیبی میں پورے بدن کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے،اور اگر ہر حصہ کو غسل سے پہلے پاک کیا جائے تو کافی ہے۔(١) *

٥۔غسل جبیرہ،وضو ء جبیرہ کی مانند ہے،لیکن احتیاط واجب کی بناء پر اسے ترتیبی صورت میں بجالانا چاہئے۔(٢) ٭٭

٦۔واجب روزے رکھنے والے،روزے کی حالت میں غسل ارتماسی نہیں کرسکتا،کیونکہ روزہ دار کو پورا سر پانی کے نیچے نہیں ڈبوناچاہئے،لیکن بھولے سے غسل ارتماسی انجام دیدے تو صحیح ہے۔(٣)

٧۔غسل میں ضروری نہیں کہ پورے بدن کو ہاتھ سے دھویا جائے،بلکہ غسل کی نیت سے پورے بدن تک پانی پہنچ جائے تو کافی ہے۔(٤)

غسل مس میت :

١۔اگر کوئی شخص اپنے بدن کے کسی ایکحصہ کو ایسے مردہ انسان سے مس کرے جو سرد ہوچکا ہو اور اسے ابھی غسل نہ دیا گیا ہو،تو اسے غسل مس میت کرنا چاہئے۔(٥)

٢۔درج ذیل مواقع پر مردہ انسان کے بدن کو مس کرنا غسل مس میت کا سبب نہیں بنتا:

*انسان میدان جہاد میں درجہ شہادت پر فائز ہوچکاہو اور میدان جہاد میں ہی جان دے چکا ہو۔* * *

____________________

(١)توضیح المسائلم٢٧٢.(٢)توضیح المسائل م٣٣٩.

(٣)توضیح المسائل م٣٧١. (٤)استفتاآت ج١ص٥٦س١١٧.(٥)توضیح المسائلم٥٢١.

*(خوئی)غسل ارتماسی یا ترتیبی میں قبل از غسل تمام بدن کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر پانی میں ڈبکی لگانے یا غسل کی نیت سے پانی ڈالنے سے بدن پاک ہوجائے تو غسل انجام پاجائے گا۔

* *(اراکی) احتیاط مستحب ہے کہ ترتیبی بجالائیں نہ ارتماسی، (خوئی) اسے ترتیبی بجالائیں (مسئلہ ٣٣٧) (گلپائیگانی) ترتیبی انجام دیں تو بہتر ہے، اگر چہ ارتماسی بھی صحیح ہے۔ (مسئلہ ٣٤٥)

* * * (خوئی)شہید کے بدن سے مس کرنے کی صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر غسل لازم ہے (العروة الوثقیٰ ج١، ص٣٩٠، م١١)

۷۸

*وہ مردہ انسان جس کا بدن گرم ہو اور ابھی سرد نہ ہوا ہو۔

*وہ مردہ انسان جسے غسل دیا گیا ہو۔(١)

٣۔غسل مس میت کو غسل جنابت کی طرح انجام دینا چاہئے،لیکن جس نے غسل مس میت کیا ہو،اور نماز پڑھنا چاہے تو اسے وضو بھی کرنا چاہئے۔(٢)

غسل میت:

١۔اگر کوئی مومن زاس دنیا سے چلا جائے،تو تمام مکلفین پر واجب ہے کہ اسے غسل دیں،کفن دیں،اس پر نماز پڑھیں اور پھر اسے دفن کریں، لیکن اگر اس کام کو بعض افراد انجام دے دیں تو دوسروں سے ساقط ہوجاتا ہے۔(٣)

٢۔میت کو درج ذیل تین غسل دینا واجب ہیں:

اول:سدر (بیری ) کے پانی سے۔

دوم:کافور کے پانی سے۔

سوم:خالص پانی سے۔(٤)

٣۔غسل میت،غسل جنابت کی طرح ہے،احتیاط واجب ہے کہ جب تک غسل ترتیبی ممکن ہو،میت کو غسل ارتماسی نہ دیں۔(٥)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ ج١ ص٦٣۔ توضیح المسائل م٥٢٢ و ٥٢٦۔ استفتاآتص٧٩. العروة الوثقیٰج١ص٣٩٠م١١.

(٢)توضیح المسائلم٥٣٠.

(٣)توضیح المسائلم٥٤٢.

(٤)توضیح المسائلم٥٥٠.

(٥)توضیح المسائلم٥٦٥.

*(تمام مراجع)کوئی مسلمان (مسئلہ٥٤٨).

۷۹

عورتوں کے مخصوص غسل:(حیض،نفاس و استحاضہ):

١۔عورت،بچے کی پیدائش پر جو خون دیکھتی ہے،اسے خون نفاس کہتے ہیں۔(١)

٢۔عورت،اپنی ماہانہ عادت کے دنوں میں جو خون دیکھتی ہے،اسے خون حیض کہتے ہیں۔(٢)

٣۔جب عورت خون حیض اور نفاس سے پاک ہوجائے تو نماز اور جن امور میں طہارت شرط ہے ان کے لئے غسل کرے۔(٣)

٤۔ایک اور خون جسے عورتیں دیکھتی ہیں،استحاضہ ہے اور بعض مواقع پر اس کے لئے بھی نماز اور جن امور میں طہارت شرط ہے اُن کے لئے غسل کرنا چاہئے۔(٤)

____________________

(١)توضیح المسائلم٥٠٨.

(٢)توضیح المسائلم٥٥.

(٣)توضیح المسائلم٤٤٦٥١٥.

(٤)توضیح المسائلم٣٩٦٣٩٥.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زیارت میں وارد ہوا ہے:

''السلام علی یا ابا الامام المنتظر، الظاهرة للعاقل حجّته،الثابتة فی الیقین معرفته، والمحتجب عن اعین الظالمین،والمغیّب عن دولة الفاسقین،  والمعید ربّنا به الاسلام جدیداََ  بعد الانطماس والقرآن غضّاََبعد الاندراس'' (۱)

اے امام زمانہ علیہ السلام کے پدر آپ پر سلام ہو کہ عاقل شخص کے لئے ان کی حجت وبرہان ظاہر ہے ان کی معرفت مخزن یقین میں ثابت ہے۔وہ امام ظالموں کی آنکھوں سے پردہ ٔ غیب میں ہیں، وہ  فاسقوں کی حکومت سے پنہاں ہیں ۔ خدا وند کریم ان کے وسیلہ سے اسلام کو تغییر کے بعد تازہ حیات بخشے گا اور قرآن کو پژمردہ ہونے کے بعد طراوت بخشے گا۔

لغت میں کلمہ'' انطماس '' نابود ہونے کے معنی میں آیا ہے۔اس روایت میں حضرت امام حسن عسکری  علیہ السلام نے دونوں معنی مراد لئے ہیں۔غیبت کے زمانے میں اسلام پر ہونے والے بدلاؤ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے قیام کے بعد ختم ہو جائیں گے اور اسلام اپنی اصلی حالت میں آجائے گا۔اگرچہ بہت سے ایسے اسلامی ممالک ہیں کہ جو اسلامی حکومت کے نام سے تو مشہور ہیں، لیکن ان میں دین کے احکامات پر عمل نہیں ہوتا ۔اگرچہ ان میں ظاہراََ اسلام کانام موجود ہے لیکن جب تک

وہاں اسلام کے احکامات پر عمل نہ ہو تو گویا ان ممالک میں اسلام نابود ہو چکا ہے۔

--------------

[۱]۔ مصباح الزائر:۴۱۰،الصحیفة المہدیة:۶۱۴

۱۶۱

  امر عظیم

حضرت بقیة اللہ الاعظم  علیہ السلام دنیا والوں کے لئے جو کچھ ظاہر فرمائیں گے روایات میں کبھی اسے امر عظیم اور کبھی امر جدید کے عنوان سے مطرح کیا گیا ہے۔

ابی سعد خراسانی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کی :

'' المهدی والقائم واحد؟فقال:نعم فقلت:لاّ شیء سمّی  المهدی:

قال:لانّه یهدی الیٰ کلّ امر خف و سمّی القائم لانّه یقوم بعد ما یموت،انه یقوم بامر عظیم ''(۱)

کیا مہدی علیہ السلام اور قائم ایک ہی فردکے نام ہیں؟

امام  نے فرمایا :جی ہاں ۔

میں نے عرض کیا کہ انہیں مہدی علیہ السلام کیوں کہا جاتا ہے؟

فرمایا:کیونکہ وہ ہر مخفی امر کی طرف ہدایت کریں گے۔لہذا انہیں قائم کا نام دیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے نام کے مرنے کے بعد قیام کریں گے۔یقیناََ وہ امر عظیم کے ساتھ قیام کریں گے۔

آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس روایت میں بھی تصریح ہوئی ہے کہ حضرت قائم  علیہ السلام عظیم امر اور بزرگی کے لئے قیام کریں گے۔حضرت قائم علیہ السلام جس امر کو قائم کرنے کے لئے قیام کریں گے وہ اس قدر بزرگ ہے کہ کس کی عظمت کی وجہ سے آنحضرت کو قائم علیہ السلام  کا نام دیا گیا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۵۱ص۳۰

۱۶۲

امام عصر علیہ السلام جس امر کے لئے قیام کریں گے کیا یہ وہیمنشور ہے کہ جو رسول اکرم(ص)اور آئمہ اطہار  عل یہم السلام کے توسط سے لوگوں کے لئے قرار یا گیااور پھر مقام خلافت کے غصب ہونے،بدعتوں کے ظہور اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ فراموشی کے سپرد ہو گیا یا ان کے علاوہ کوئی اور عظیم آئین و منشورہے کہ جسے خاندانِ وحی علیہم السلام نے بیان نہیں فرمایا اور اب اسے امام زمانہ علیہ السلام سب لوگوں کے لئے ظاہر فرمائیں گے؟

اس سوال کے جواب سے پہلے امام صادق  علیہ السلام سے نقل شدہ اس روایت پر توجہ کریں۔

امام صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''اذا قام القائم جاء بأمر جدید کما دعی رسول اللّه ف بدو الاسلام الٰی امر جدید'' (۱)

جب قائم  علیہ السلام قیام کریں گے تو وہ نیا اورجدید امر لائیں گے جس طرح ابتدائے اسلام میں رسول اکرم نے لوگوں کو جدید امر کی طرف دعوت دی۔اس روایت میں امام صادق نے امام زمانہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایسی چیز لائیں گے کہ جو صدر اسلام میں رسول اکرم (ص)لائے تھے۔اگرچہ یہ روایت اس سلسلہ میں صریح نہیں ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام پہلے بیان نہ ہونے والا کوئی جدید امر لائیں گے ۔  لیکن کم از کم یہ اس بارے میں  صراحت رکھتی ہے ۔ممکن ہے کہ بعض لوگ حضرت امام صادق علیہ السلام سے بیان ہونے والی روایت میں موجود تشبیہ پر توجہ نہ کریں اور کہیں:

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۵۲ص۳۳۸

۱۶۳

چونکہ اسلام کے بہت سے احکامات لوگوں تک نہیں پہنچے پس انہیں  بیان کرنا ان کے لئے جدید امر ہے۔ لہذا اسے جدید امر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

اس کے جواب میں کہتے ہیں :اگر ہم اس روایت کے ظہور یا صراحت سے دستبردار ہو جائیں تو بھی ہم ایک دوسرا نکتہ بیان کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کیا رسول اکرم(ص)نے نہ یں فرمایا تھا!

''اِنّا معاشر الانبیاء نکلّم الناس علٰی قدر عقولهم '' (۱)

ہم پیغمبر لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کرتے ہیں۔

اس روایت اورظہور کے زمانے میں عقلی تکامل پر توجہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) لوگوں کے عقلی رشد کی وجہ سے ان کے لئے جدید مطالب بیان کریں گے کہ جن سے انسانی معاشرہ اس سے پہلے بالکل آگاہ نہیں تھا۔ البتہ یہ یاد رہے کہ ہر جدید امر اور نیا دستور اسلام کے حیات  بخش آئین ہی میں سے ہو گا نہ کہ امام زمانہ لوگوں کے لئے ایک نیا آئین اور دین ایجاد کریں گے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۲ص۲۴۲

۱۶۴

  امر عظیم کیا ہے؟

اب یہ سوال پیداہوتا ہے کہ اس روایت میں بیان ہونے والے امرِجدید  سے مراد وہی امر عظیم ہے کہ جس کی گزشتہ روایت میں تصریح ہوئی ہے؟

اگردونوں (امر جدید اور امر عظیم) سے ایک ہی چیز مراد ہو تو پھر وہ امر

جدید اور امر عظیم کیا ہے کہ جس کی خاطر حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) قیام فرمائیں گے؟

اسرار سے آگاہ ہی ا س سوال کے جواب سے آگاہ ہیں۔ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی روایات میں اس  بارے میں چند اشارات اور کچھ سرسری نکات ملتے ہیں۔ان کے معنی و تفسیر سے فقط چند خواص ہی آگاہ ہیں  کہ جواہلبیت عصمت وطہارت علیہم السلام کے کلمات کے اسرار ورموز سے واقف ہیں اور جو ان کے فرمودات میں موجود کنایات و اشارات سے عظیم علمی مطالب اخذ کرتے ہیں۔

حضرت امام صادق  علیہ السلام  ایک  روایت میں فرماتے ہیں:

'' حدیث تدریه خیر من الف ترویه، ولا یکون الرجل منکم فقیهاََ حتّی یعرف  معاریض کلامنا، وانّ الکلمة من کلامنا لتصرف علی سبعین وجهاََلنا من جمیعها المخرج '' (۱)

ایک رویات کے معنی کوسمجھنا ہزار روایتیں نقل کرنے سے بہتر ہے۔تم میں سے کوئی شخص بھی فقیہ نہیں ہو سکتا کہ جب تک وہ ہمارے فرمودات میں اشارہ نہ سمجھ لے۔یقیناََ ہمارے کلام کے ہر ایک کلمہ سے ستّر معنی نکلتے ہیں کہ ہمارے لئے ان سب کے تکمیل معنی کے لئے راہ موجود ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۸۴

۱۶۵

مکتب اہلبیت علیہم السلام میں ایسے افراد کو فقیہ کہا جاتا ہے کہ جو ان کلمات کودرک کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔پس فقیہ وہ ہے کہ جو فرمودات آئمہ علیہم السلام کے معنی اور ان میں موجود اشارات سمجھ سکے۔امر عظیم کی وضاحت اور اس

کا اجمالی جواب ذکر کرنے سے پہلے اس روح افزاء نکتہ پر غور کریں۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جو خانہ کعبہ میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی ملکوتی آواز سن کر لبیک کہیں گے اور اس مہربان امام کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے قیام کریں گے۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جن کو ظہور کا بابرکت زمانہ نصیب ہوگا ۔ جو دین میں ہر قسم کی خرافات سے دستبردار ہوجائیں گے اور حضرت مہدی  علیہ السلام کی زیر سرپرستی ان کی عادلانہ حکومت کے شاہد ہوں گے۔    اس زمانے کے لوگ حضرت صاحب العصر والزمان (عج) کی حکومت کے سائے میں حیاتِ قلب ، تکامل عقل  اوراعلی معارف کی طرف پرواز کریں گے اور پھر وہ امر عظیم کی خلقت کے سرّ و راز سے آگاہ ہوجائیں گے ۔

اس زمانے کے لوگ سمجھ جائیں گے کہ جس خدا نے انسان کی خلقت سے خود کواحسن الخالقین کا خطاب دیا ہے اس نے انسان کے وجود میں کوئی قدرت و توانائی پوشیدہ کی ہے۔لیکن غیبت کے تاریک زمانے میں زندگی گزارنے والوں کے دلوں پرخاندان وحی  علیھم السلام کے تابناک انوار کی کرنیں پڑ رہیں تھیں مگر وہ اس سے بے خبر تھے۔

حضرت مہدی علیہ السلام کے شفا بخش ہاتھوں سے اس زمانے کے لوگوں کی عقل و خرد کامل ہوگی اسی طرح وہ ان کے دلوں کو معنوی حیات بخشیں گے جس کے ذریعہ وہ عالم ملکوت کا نظارہ کر سکیں گے۔

اب امر عظیم کے بارے میں  پیدا ہونے والے سوال کا جواب دیتے ہیں

۱۶۶

کہ امر عظیم اہلبیت کی ولایت کے سلسلہ میں مہم نکتہ ہے، ظہور  کے زمانے میں امر عظیم آشکار ہو گا۔

غیبت کے زمانے کی تاریکی کی وجہ سے لوگوں میں ولایت کے رمز اور اہلبیت علیھم السلام کے رموز و اسرار کو سمجھنے  کا میزان اور انسا ن کی عقل کی حدیں محدود ہیں، جس میں ولایت کی مکمل معرفت اور خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام سے متعلق مہم امور کو مکمل طور پرپہچان نہیں ہے، جب ان کے دست مبارک سے انسان کی عقل کامل ہو جائے گی تو اس میں عظیم معنوی مسائل کو سمجھنے کی قدرت پیدا ہو جائے گی۔اس زمانے میں عقل تکامل کی منزل تک پہنچ جائے گی اور آشفتگی سے نجات حاصل کرے گی ۔ امام مہدی علیہ السلام لوگوں  کے لئے معارف کے عظیم نکات بیان فرمائیں گے اور قرآن اس کی گواہی دے گا ۔یہی بات جناب محمد بن عمرو بن الحسن سے روایت ہوئی ہے۔

'' ان امر آل محمد علیهم السلام أمر جسیم مقنّع لا یستطاع ذکر ولو قد قام قائمنا لتکلّم به وَ صدقه القرآن '' (۱)

امر اہلبیت علیہم السلام  ایک ایسا عظیم امر ہے کہ پردے میں چھپا ہوا ہے جسے ذکر کرنے کا امکان نہیں ہے اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا وہ اسے بیان کرے گا اور قرآن اس کی تصدیق کرے گا۔

اس بیان سے واضح ہو گیا کہ ولایت کے باعظمت امر کو غیبت کی تاریکیوں میں عام لوگوں کے لئے بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جب عقل  کے تکامل کی راہ میں مانع ایجاد کرنے والے ستمگر اور ظالم ختم ہو جائیں گے تو امام زمانہ  علیہ السلام کے ظہور اور ان کی عنایات سے انسانوں کی عقل و فہم کی تکمیل ہو جائے گی،اس وقت خدا وند بزرگ و برترحکم دے گا کہ امام عصرعلیہ السلام حق کو ظاہر کریں۔اس زمانے میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے لبوں کی جنبش سے ہی حق و حقیقت آشکار ہوجائیں گے پھر لوگوں کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا۔

--------------

[۱]۔ بصائر الدرجات:۲۸،بحار الانوار:ج۲ص۱۹۲

۱۶۷

وہ بزرگوار اپنے ایک مکتوب میں یوں بیان فرما تے ہیں :

'' اذا أذن اللّه لنافی القول ظهرالحق واضمحل الباطل، وانحسرعنکم '' (۱)

جب خدا  مجھے بولنے کا اذن دے گا تو حق ظاہر ہو جائے گا ، باطل نابود ہ ہوجائے گا اور تم لوگوں  کے لئے یہ سب آشکار ہو جائے گا۔

  معارف الٰہی

خاندان نبوت  علیہم السلام نے روایات میں جہان زمانۂ غیبت کی سختیوں کو بیان کیاہے وہاں ظہور کے  بابرکت زمانے کی سعادتوں اور برکتوں کو بھی بیان کیا ہے اور اس زمانے کی سعادتوں کو ہلاکت سے نجات پانے والوں کے ذریعہ توصیف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اس زمانے کو درک کرنے والے خوش نصیب ہیں۔

امام صادق علیہ السلام حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے بارے میں فرماتے ہیں۔

''هو المفرّج للکرب عن شیعته بعد ضنک شدید و بلاء طویل و جور فطوبی لمن ادرک ذالک الزمان '' (۱)

وہ اپنے شیعوں سے ہر طرح کی سختی کوبرطرف کریں گے اور یہ سخت مصائب، طویل بلاؤں اور ظلم و ستم کے بعد ہو گا۔پس اس زمانے کو درک کرنے والے خوش نصیب ہیں۔

--------------

[۱]۔ الغیبة شیخ طوسی: ۱۷۶

[۲]۔ کمال الدین :۶۴۷

۱۶۸

جی ہاں ؛ خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، جو اس زمانے کو دیکھیں گے ۔ اس روزدنیا کو خلق کرنے کا مقصد پورا ہو جائے گا ۔ وہ عقلی تکامل کا زمانہ ہو گا اور ہر طرف نور ہی نور ہو گا اس زمانے میں لوگ خضوع وخشوع  اور کمال بندگی سے خدا کی عبادت کریں گے وہ نفس کو شکست دے کر شیطان کو نابود کرکے عقلی تکامل سے خدا کی بندگی کریں گے اور خاندان وحی کے نورانی مقام کی معرفت پیداکریں گے۔خدا  فرماتا ہے:

''وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ ِلاَّ لِیَعْبُدُونِ '' (۱)

میں نے جن و انس کوخلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

اس  بناء پر صدیاں گزرنے کے بعد علم و معرفت سے سرشار دن کی آمد پر خلقت کامقصد پورا ہو جائے گا۔اس مبارک زمانے میں دنیا کے تمام انسان تکامل کی راہ پر گامزن ہوں گے اور عالم بشریت کے مسیحا کے شفا بخش ہاتھوں کے لمس سے  خدا کے عبد تکامل ِعقل تک پہنچ جائیں گے اور انسان شیطانی ا فکار اور وسوسوں سے نجات پا کر معرفت کی منزل تک پہنچ جائے گا۔

 زبان رسول اکرم (ص)سے زمانہ ظہور کے لوگ

اس زمانے میں لوگ خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور اہلبیت  علیہم السلام کے نورانی مقام سے آگاہ ہو کر اس کی معرفت حاصل کریں گے،اسی لئے وہ نورانیّت سے سرشار پاک سیرت ہوں گے۔رسول اکرم زمانہ ظہور کے لوگوں کو چودہویں کے چاند اور مشک و عنبر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ایک طولانی روایت میں حضرت امام جواد علیہ السلام  اپنے پدر بزرگوار اور وہ رسول اکرم (ص)سے آل محمد علیہم  السلام کے قائم   کے قیام کا واقعہ نقل فرماتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ سورۂ الذاریات،آیت: ۵۶

۱۶۹

"یخرج جبرئیل عن یمینه و میکائیل عن یسرته و سوف تذکرون ما اقول لکم و لو بعد حین و افوّض امر الی اللّٰه عزّوجلّ

یا ابیّ طوبی لمن لقیه و طوبی لمن احبه و طوبی لمن قال ینجّیهم من الهلکة وبالاقرار باللّٰه و برسوله و بجمیع الآئمّة یفتح اللّٰه لهم الجنّة مثلهم ف الارض کمثل المسک الّذ یسطع ریحه فلا یتعیّر ابداََ و مثلهم ف السماء کمثل القمر المنیر الّذی لا لطفأ نوره ابداً ''(۱)

مہدی  علیہ السلام  اس حال میںقیام کریں گے کہ ان کے دائیں طرف جبرئیل اور بائیں طرف میکائیل ہوں گے میں  تمہارے لئے جو کچھ بیان کر رہا ہوں تم اسے ایک دن ضرور یاد کرو گے۔ اگرچہ یہ طولانی  مدّت کے بعد رونما ہو گااور اپنامعاملہ خدائے پاک پر چھوڑتاہوں۔

اے ابی :خوش نصیب ہے وہ جو ان سے ملاقات کرے اور ان سے محبت کرنے والا، خوش نصیب ہے اورخوش نصیب ہے وہ کہ جو معتقد ہو کہ وہ ہلاکت سے نجات دیں گے۔خدا،رسول اور آئمہ کا اقرار کرنے کی وجہ سے خد اان کے لئے جنت کے در وازے کھول دے گا۔زمین میں اس کی مثال مشک کی مانند ہے کہ جس کہ خوشبو تو پھیلتی ہے لیکن وہ خود کبھی متغیر نہیں ہوتا۔آسمان میں اس کے نور کی مثال چاند کے نور کی مانند ہے کہ جس کا نور کبھی ختم نہیں ہوتا۔

ظہور کے زمانے کے لوگوں کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح نورانی ہو گا۔جس سے معلوم ہو گاکہ انہیں ملکوت کا جلوہ بخشا گیا ہے۔ان کے سینوں میں معارف الٰہی کے تابناک انوارسے ان کے چہرے منوّ ر ہو جائیں گے۔وہ عالم ملکوت کا نظارہ کر سکیں گے جو کہ کتناخوبصورت نظارہ ہو گا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۵۲ ص۳۱۱

۱۷۰

امام جواد علیہ السلام امام صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے حضرت الیاس علیہ السلام(۱) سے فرمایا:

'' فوددت انّ عینیک تکون مع مهدی هذه الامّة والملائکة بسیوف آل داؤد بین السماء والارض تعذّب أرواح الکفرة من الاموات و تلحق بهم ارواح اشباههم من الاحیاء ثم اخرج سیفاً ثم قال ها:انّ هذا منها '' (۲)

مجھے پسند ہے کہ تمہاری آنکھیں اس امت کے مہدی علیہ السلام  کو دیکھیں کہ ملائکہ آل داؤد کی تلواروں سے آسمان اور زمین کے درمیان  دنیا سے جانے والے کافروں کو عذاب دیتے ہیں اور زندہ کفار کو ان سے ملحق کرتے ہیں۔پھر امام صادق  علیہ السلام نے اپنی تلوار نکالی اور فرمایا :

ہاں یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔

ملائکہ کا یہ نظارہ بھی کتنا خوبصورت ہو گا کہ جو اپنی تلواروں سے کافروں کو جہنم کی راہ دکھائیں گے۔

  محسوس اور غیر محسوس دنیا میں حکومت

خاندان اہلبیت علیہم السلام  کے معارف کے باب میں علم امام کامسئلہ ایک اہم اعتقادی مسئلہ ہے۔ بہت سی روایات کی دلالت کی رو سے آئمہ اطہار  علیھم السلام کے علم کا مسئلہ اعتقادی بحثوں سے متعلق ہے۔ ہم امام عصر علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں:

--------------

[۱] ۔ حضرت الیاس علیہ السلام  ان چار پیغمبروں میں سے ہیں کہ جو اب بھی باحیات ہیں۔ وہ زمانہ ظہور اور زمانہ غیبت میں امام زمانہ علیہ السلام  کے ناصر ومددگار وںمیں سے ہیں ۔

[۲] ۔ بحار الانوار:ج۴۶ص۳۶۴

۱۷۱

'' قد اتاکم اللّٰه یا آل یاسین خلافته وعلم مجاری امره فیما قضاهو دبّره ورتّبه  واراده فی ملکوته '' (۱)

اے آل یاسین!خداوند کریم نے آپ کو اپنی  خلافت وجانشینی بخشی ہے اوروہ ملکوت میں اپنے امر کے مجاری سے جو امر،تدبیر و نظم اور ارادہ کرتا ہے،اس سے آپ کو علم و آگاہی عطا کی ہے۔

اس مقدمہ کو بیان کرنے کے بعد اس امر پر ضرور غور کریں کہ ظہور کے زمانے اور امام زمانہ کی حکومت میں علم وحکمت کے در وازے کھل جائیں گے اور اس با عظمت دن میں حضرت مہدی علیہ السلام اپنے علم کی بنیاد پر پوری کائنات میں عدالت قائم کریں گے  اور یوں وہ محسوس و غیر محسوس دنیا کو نئی حیات بخشیں گے۔

ظہور کے زمانے کے بارے میں وارد ہونے والی بہت سی روایات سے استفادہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت امام عصر علیہ السلام  نہ صرف محسوس دنیا کی تکمیل و پاک سازی کریں گے بلکہ غیر محسوس دنیا سے پلیدگی کے وجود کو پاک کریں گے۔

اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام زمانہ  علیہ السلام کے ظہور کا صرف محسوس پہلو ہی نہیں ہے بلکہ وہ عالم ظاہر کے علاوہ غیر محسوس دنیا کی بھی تکمیل کریں گے۔غیر محسوس عالم کی موجودات بھی آنحضرت کی حکومت الٰہی سے فیضیاب ہوں گی۔

پس امام عصر  علیہ السلام کا قیام ہر لحاظ اور ہر پہلو سے کامل ہے امام زمانہ (عج) اپنے قیام سے محسوس اور غیر محسوس عالم کو تکامل بخشیں گے۔اس بناء پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ آنحضرت کا قیام فقط مادّی و ظاہری لحاظ سے انقلاب برپا کرے گا۔جس میں صرف محسوس و ظاہری دنیا ہی شامل ہو گی۔بلکہ یہ یاد رکھیں کہ غیر محسوس موجودات (جنّات و شیاطین) پر بھی امام مہدی  علیہ السلام کی حکومت ہو گی  اور وہ بھی پاکسازی کے عمل سے گزر کر تکامل کی منزل تک پہنچ جائیں گے۔

--------------

[۱] ۔ صحیفہ مہدیہ:۵۷۱

۱۷۲

  عالم ملک و عالم ملکوت

باطنی قوّت اور اندرونی حواس کے ذریعہ عالم غیب اور عالم ملکوت تک پہنچنا چاہئے۔زمانہ ظہور عالمِ ملک اور ملکوت کے عظیم عالم تک پہنچنے کازمانہ ہے۔ اگرچہ غیبت کے زمانے میں بھی انسان عالم غیب تک پہنچنے کا اسرار اور اس کی کلید حاصل کر سکتا ہے اور انسان کی باطنی قوّت اسے عالم ملکوت تک پہنچا  سکتی ہے۔لیکن زمانہ غیبت میں بہت کم افرد عالم ملکوت تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔ لیکن زمانہ ظہور میں عالم ملکوت کی آشنائی ایک عام بات ہو گی۔اس بابرکت زمانے کے عام افراد بھی وہاں تک رسائی حاصل کر  سکیں گے۔

اگر کوئی پیدائشی اندھا یا بہرا  ہو توایسا شخص دیکھنے اور سننے والی اشیاء کو ویسے درک نہیں کر سکتا جیسی وہ ہیں اور اگر وہ ان کا انکار کرے تو یہ خود اس کے نقص و عیب کی دلیل ہے نہ کہ اس سے اس چیز کی نفی ہو جائے گی۔اسی طرح اگر کوئی عالم ملکوت کا منکر ہو تو یہ خود اس کے نقص و عجز کی دلیل ہے کہ جو عالم ملکوت کو درک کرنے کی قدرت نہیں رکھتا نہ کہ اس سے عالم ملکوت کی نفی ہوجائے گی۔جیسے اگر کوئی معجزہ رونما ہوجائے اور نابینا شخص دیکھنے کی صلاحیت حاصل کرلے تو وہ دکھائی دینے والی چیزوں کو عادی حالت میں دیکھ سکے گا۔اسی طرح ظہور کے پُر نور زمانے میں بھی باطنی حواس اور اندرونی طاقتوں سے اس زمانے کے لوگ نہ صرف عالم ملکوت سے آشنا ہو جائیں گے بلکہ اسے دیکھ سکیں گے یہ ان کے لئے عادی اور معمولی حالت ہو گی۔

ملائکہ کو دیکھنا، ان کے ہمراہ بیٹھنا اور ملائکہ کے ساتھ سیر ایسے امور ہیں کہ جن کی روایات اہلبیت میں تصریح ہوئی ہے۔نعمتوں سے سرشار اس زمانے میں لوگوں کو معلوم ہو گا کہ وہ کس طرح عالم ملک اور مادی دنیا سے دل لگا بیٹھے ہیں؟

۱۷۳

  وہ کس طرح عالم ملکوت سے غافل تھے؟

وہ اپنی زندگی کے کئی سال گزارنے کے باوجود بھی حضرت مہدی علیہ السلام کے بابرکت  وجود سے کیوں استفادہ نہیں کر سکے اگرچہ ظاہراََ آنحضرت پردہ غیب میں تھے؟

جب وہ اپنے بہت سے گزرے ہوئے عزیزوں اور رشتہ داروں کے بارے میں سوچیں گے تو ان کی حسرت ویأس میں اضافہ ہوجائے گا اور وہ سوچیں گے کہ وہ لوگ عالم ملکوت کا نظارہ کئے بغیرہی  دنیا سے چلے گئے۔وہ ایسے نابینا شخص کی مانند تھے کہ جو دنیامیں نابینا پید اہوئے اور دنیا کی کسی چیز کو دیکھے بغیر ہی دنیا سے چلے گئے۔اسی طرح ان کے عزیز ورشتہ دار بھی عالم ملکوت کو دیکھے بغیر ہی دنیا کو الوداع کہہ گئے۔اسی لئے وہ خواہش کریں گے کہ کاش ان کے عزیز بھی زندہ ہوتے اور ظہور کے بابرکت زمانے میں تکامل تک پہنچ کر عالم ملکوت کودیکھتے اور اس سے مستفید ہوتے۔

آئمہ اطہار علیہم السلام نے بار ہا یہ حقیقت بیان فرمائی ہے تاکہ سب اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں لیکن افسوس کہ عالم مادہ نے ہمیں مادی دنیا میں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ ہم عالم ملکوت کے عظیم حقائق  سے بھی غافل ہو چکے ہیں۔

  عالم ملکوت تک رسائی یا زمانہ ملکوت کی خصوصیات

جیسا کہ ہم نے کہا کہ زمانہ ظہور میں دنیا کے تمام لوگ پاک سیرت ہوں گے اس وقت سب مرد اور خواتین نیک و صالح ہوں گے کیونکہ جب صالحین کی حکومت ہو تو سب کی اصلاح کی طرف رہنمائی کرتی ہے اس بارے میں خدا وند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

۱۷۴

''اِنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ '' (۱)

امام مہدی  علیہ السلام  کی آفاقی، کریمانہ او ر عادلانہ حکومت کی اہم خصوصیات میں سے ایک بشریت کی رہنمائی کرنا ہے کیونکہ فساد اور تباہی کے اسباب کی نابودی اور ہدایت کے وسائل کی فراہمی کے بعد فساد کی کوئی راہ باقی نہیں بچتی ہے۔دنیا کے تمام لوگ اپنے اندربنیادی تبدیلی پیدا ہونے کی وجہ سے گمراہی سے دور ہو کر تکامل کا رخ کریں گے گمراہی سے دور ہونے اور ہدایت کا رخ کرنے کی وجہ سے اس روز ایک مکمل  نیک و صالح انسانی معاشرہ وجود میںآئے  گا ۔اس روز انسانی معاشرہ کے لئے عالم ملکوت کے در وازے کھول دیئے جائیں گے۔انسان غیر محسوس ملکوتی دنیا کا نظارہ کر سکے

گااور یہ  نیک وصالح اعمال کا نتیجہ ہوگا صالح اعمال انسان کے وجود میں  تبدیلی ایجاد کریں گے حضرت ادریس کے صحیفۂ نجات میں ذکر ہوا ہے:

'' وبالعمل الصالح ینال ملکوت السماء '' (۲)صالح اعمال کی وجہ سے انسان ملکو ت آسمانی تک پہنچ سکتا ہے۔

اب تک دنیا جہاں تک پہونچ سکی ہے وہ کائنات کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے دنیا اب تک صرف اس کے مادی پہلو تک رسائی حاصل کر سکی ہے نہ کہ اس کے ملکوتی پہلو تک ۔زمانہ ظہور میں نیک اعمال انجام پانے سے برے اعمال کا قلع و قمع ہو جائے گا جس کی وجہ سے انسان ملکوت آسمانی تک پہنچ جائے گا ۔پس اس با برکت زمانہ میں معاشرہ ملکوتی دنیا تک رسائی حاصل کرے گا جو بہت عظیم خصوصیات سے آراستہ ہو گا۔ہم امید کرتے ہیں کہ پروردگار عالم جلد از جلد رہائی و نجات کا وہ دن پہونچا دے اور بشریت کو امام زمانہ (عج) کی عادلانہ حکومت کے زیر سایہ کمال و تمدن کی اوج تک پہونچا دے ۔

--------------

[۱]۔ سورہ انبیاء،آیت: ۱۰۵

[۲]۔ بحارالانوار:ج۹۵ص۴۶۵

۱۷۵

حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی الٰہی حکومت میں انسان کے لئے خلقت کائنات کے لئے راز واضح ہو جائیںگے اور سب ایسی چیزیں دیکھ پائیں گے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی کیونکہ اس وقت سب پاک سیرت ہوں گے لہذا وہ کائنات کے اسرار و رموز بھی دیکھ پائیں گے۔ حضرت محمد مصطفٰی(ص) فرماتے ہ یں :

'' غضوا ابصارکم ترون العجائب'' (۱)

اپنی آنکھوں کو (حرام اور دنیا کی محبت سے) بند کروتو دنیاکے عجائب دیکھ پائو گے ۔

کیونکہ عالم وجود کے زیادہ تر عجائب عالم غیب میں پوشیدہ ہیں اگر چہ محسوس دنیا میں بھی بہت سے عجائب ہیں لیکن غیر محسوس عجائب کی دنیا کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔محسوس و غیر محسوس دنیا ،عالم خلقت  کے اسرار و رموز اور ان کے عجائب دیکھنے کے لئے اپنی آنکھوں کو نا صرف حرام بلکہ ہر اس چیز سے بچائیں جو دنیا سے انسان کی دل لگی کا سبب بنے اگر کوئی انسان دنیا کے ساتھ دل نہ لگائے تو اس کا دل گناہوں کی آلودگی سے پاک ہو جائے گا پھر وہ کائنات کے اسرا ر اور عالم خلقت کے عجائبات کو دیکھ سکے گا۔اس بارے میں رسول اکرم (ص) فرماتے ہ یں :

''لولا ان شیاطین یحومون علیٰ قلوب بنی آدم لنظروا الیٰ  الملکوت '' (۲)

اگر انسان کے دل  میں  شیاطین جگہ نہ بنائیں تو وہ عالم ملکوت کا نظارہ کر سکتا ہے۔

اس بنا پر جس دن ابلیس اور شیاطین نابود ہوں گے اور جب ان کے گمراہ کن وسوسوں میں کوئی اثر نہ ہو گا تو پھر انسان کا دل نورانیت و پاکیزگی سے سرشار ہوگااور عالم ملکوت کی نورانی دنیا کو دیکھ سکے گا۔

--------------

[۳]۔ مصباح الشریعہ :۹

[۴]۔ بحارالانوار:ج۷۰ ص۵۹

۱۷۶

  اہم نکتہ یا احساس ظہور

اب اس اہم نکتہ پر توجہ کریں کہ کیا  ظہور  کے زمانے کے دوران عالم ملک و ملکوت میں کوئی وجود حضرت بقیہ اللہ الاعظم (عج)کے وجود سے زیادہ ملکوتی ہو سکتا ہے ؟پس اس زمانہ میں آپ کائنات کے جس گوشہ میں بھی ہوں حضرت مہدی   علیہ السلام  کے با برکت وجود کو دیکھ سکیں گے اور خود کو آنحضرت کے حضور میں پیش کر سکیں گے۔ احساس ظہور کی مزید وضاحت کے لئے ابو بصیر کی احساس ظہور کی بہترین روایت کی طرف رجوع کریں ۔(۱)

یا درکھیں کہ غیبت کے زمانے میں دو اہم عامل احساس ظہور اور انسانوں کے عالم ملکوت تک پہونچنے اور اسے دیکھنے کی راہ میں رکاوٹ ہے ان دو موانع میں سے ایک شیطان اور دوسرا نفس امارہ ہے۔ لیکن ظہور کے پر نور اور با برکت زمانہ میں شیطان نابود ہو جائے گا اور انسانوں کا نفس امارہ تبدیلی  ایجاد ہونے کی وجہ سے معنوی بلندی تک رسائی حاصل کر لے گا ۔اسی وجہ سے زمانۂ ظہور کے نیک و صالح معاشرہ میں عالم ملکوت تک رسائی کی راہ میں کوئی مانع نہیں ہو گا ۔

لیکن موجود  دور میں شیطان اپنی سازشوں اور نفس امارہ کے ذریعہ انسان کو فریب دیتا ہے اور نفس کی مدد سے وہ عالم ملکوت تک پہونچنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وہ انسان کو مادی دنیا ہی میں مگن کردیتا ہے اور انسان بھی اس کے فریب میں آکر دنیا ہی سے دل لگا لیتا ہے۔ اس بنا ء پر غیبت کے زمانے میں معاشرہ نہ صرف عالم ملکو ت کو نہیں دیکھ سکتا بلکہ انسان اس کا انکار بھی کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے معاشرہ کی اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں زمانہ میں فرق کو ملاحظہ کرے شاید اسی فرق کو پہچان لینے سے نجات کا کوئی ذریعہ پیدا ہو جائے ۔

--------------

[۱] ۔ صحیفہ مہدیہ :۹۳

۱۷۷

  غیرت مندوں سے خطاب

زمانۂ ظہور اور زمانۂ غیبت کے درمیان فرق کے بہت سے بنیادی نکات موجود ہیں جن کی رو سے معلوم ہوجاتا ہے کہ  ظہور کا زمانہ غیبت کے تاریک زمانے سے برترہے ۔لیکن افسوس کہ ہمارا معاشرہ ان خصوصیات سے آگا ہ نہیں ہے اسی وجہ سے ہم مکتب اہلبیت  علیہم السلام  کے معارف کے عظیم باب کی آشنائی سے محروم ہیں۔ ہر غیرت مند شیعہ پر ایسے امور کو جاننا لازم ہے کہ جو اس کے ٹھہرائو کا سبب بنیں، اسی طرح اسے رشد و تکامل کے عوامل سے بھی آگاہ ہونا چاہیئے، ہر شیعہ کو یہ جاننا چایئے کہ اس کے بال و پر کیوں بندھے ہوئے ہیں وہ انہیں کس طرح سے کھول سکتا ہے ؟ اس کے ٹھہراؤ کا سبب کیا ہے اور اس کے کیا عوامل ہیں؟

ان سوالات کو مطرح کرنے کی یہ وجہ ہے کہ اگر ہمارا معاشرہ ان سوالات کے جوابات سے آگاہ ہو جائے تو انہیں جاننے اور ان پر عمل پیراں ہونے سے امام زمانہ (عج) کی کریمانہ حکومت کے لئے زمینہ فراہم ہوگا ۔

اے غیور شیعہ جوانو!

اے مکتب اہلبیت  کے پاک سیرت پیروکارو !

صدیوں سے امیرالمومنین علیہ السلام  کی غصب شدہ خلافت پر اشک بہانے والو اور اس زمانہ کے مسلمانوں کے سکوت پر آہ بھرنے والو!

کیا تم بھی ان لوگوں کی طرح آرام سے بیٹھے رہو گے؟

کیا اب بھی اہلبیت  علیہم السلام  کا مقام غصب رہے گا ؟

کیا امام زمانہ  علیہ السلام  سے ہماری جدائی اور زمانۂ غیبت کی بارہ صدیاں کافی نہیں ہیں ؟

۱۷۸

کیوں اہلبیت علیہ السلام کی مظلومیت صدیوں سے جاری ہے؟

لیکن شیعہ ابھی تک اس اہم امر سے غافل کیوں ہیں ؟آخر ایسا کیوں ہے؟

ہم ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے کہیں گے کہ ٹوٹ جائیں وہ ہاتھ کہ جنہوں نے دنیا کوصدیوں سے اصل دین سے غافل کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے لوگ ولایت کے در سے دور ہو گئے اور اسے بھلا دیا۔نیست و نابودہو جائیں وہ ہاتھ کہ جو امریکہ اور برطانیہ کی آستینوں سے نکل کر ابلیس کی پیروی کرتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔البتہ ا س میں خود امت کی بھی غلطی و کوتاہی ہے۔

اب ایسے منحوس ہاتھوں کو کاٹنے اور انہیں شکست دینے کی امید کرتے ہوئے ا صل مطلب کی طرف واپس آتے ہیںاور حضرت ولی عصر صاحب الزمان (عج) کی آفاقی اورعادلانہ حکومت کی ایک اور خصوصیت بیان کرتے ہیں۔

  زمانہ ٔ ظہور اطمینان کا زمانہ

زمانہ  ٔ غیبت کی بنسبت ظہور کے با برکت زمانہ کے خصوصیات اور امتیازات بہت زیادہ ہیں ہم نے اس کتاب میں ان میں سے چند نمونہ ذکر کئے ہیں ،ان میں سے ایک ہماری بحث سے بھی متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ ظہور کا زمانہ اطمینان اور آرام کا زمانہ ہو گاظہور کے زمانہ میں دل سے شک و شبہ اور  گمان زائل ہو جائے گااسی طرح زمانہ ظہور اور زمانہ نجات میں دل سے سیاہ افکار ،افسردگی اور فرسودگی بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ اس روز شیطان کی نابودی سے انسان کی عقل میں تکامل اور نفس میںتبدیلی ایجاد ہو گا پھرانسان خدا اور امام زمانہ کا ذکر کرے گا جو کہ خود اطمینان کا باعث ہے کیونکہ ذکر خدا اور یاد خدا دلوں کو سکون اور اطمینان عطا کرتی ہے۔

۱۷۹

خدا وند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

''ا َلاَبِذِکْرِاﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب '' (۱)

آگاہ ہو جاؤ دلوں  کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

یادِ خدا انسان کے لئے یقین میں اضافہ کا باعث بھی ہے یقین کی وجہ سے انسان میں اطمینان اور آسودگی کی حالت پیدا ہوتی ہے یعنی اس دل کو آرام ملتا ہے کہ جس سے شک و شبھہ کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ہے یوں انسان اپنے نفس پر مسلط ہو گا اور شیطانی وسوسوں سے بھی محفوظ رہے گا کیونکہ  شیطانی وسوسے اس صورت میںاثر انداز ہوتے ہیں کہ جب وہ انسان کو کسی کام کے لئے اکسائے یا اس میں کسی کام کو کرنے کے لئے ابھارے۔ لیکن جو صاحب یقین ہو اور اطمینان و سکون کی حالت میں ہو اس پر کسی قسم کا وسوسہ اثر انداز نہیں ہوتا ہے مگر یہ وہ اپنا اطمینان کھو دے اس بناء پر جب تک انسان کا دل مطمئن ہو اور وہ آرام و سکون کی حالت پر باقی رہے تو شیطان اور نفس پر غالب رہے گا پھر وہ حضور کو بھی محسوس کر سکے گا جس طرح حالت حضور انسان کو اطمینان بخشتی ہے اور اس کو گناہ سے دور رکھتی ہے اب اس روایت پر غور کریں۔ حضرت امیرالمومینن  علیہ السلام  سے پوچھا گیا گناہوں سے بچنے کے لئے کس چیز سے مدد لے سکتے ہیں۔

حضرت امیرالمومنین علی  علیہ السلام  نے اس کے جواب میں فرمایا :

'' بالجمود تحت السلطان المطلع علی سرّک'' (۲)

خود کو اپنے رازوں سے آگاہ سلطان کے حضور میں قرار دے کر۔

--------------

[۱]۔ سور ہ  رعد ،آیت:۲۸

[۲]۔ مصباح الشریعة:۹

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300