امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 175199
ڈاؤنلوڈ: 4309

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175199 / ڈاؤنلوڈ: 4309
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زیارت میں وارد ہوا ہے:

''السلام علی یا ابا الامام المنتظر، الظاهرة للعاقل حجّته،الثابتة فی الیقین معرفته، والمحتجب عن اعین الظالمین،والمغیّب عن دولة الفاسقین،  والمعید ربّنا به الاسلام جدیداََ  بعد الانطماس والقرآن غضّاََبعد الاندراس'' (1)

اے امام زمانہ علیہ السلام کے پدر آپ پر سلام ہو کہ عاقل شخص کے لئے ان کی حجت وبرہان ظاہر ہے ان کی معرفت مخزن یقین میں ثابت ہے۔وہ امام ظالموں کی آنکھوں سے پردہ ٔ غیب میں ہیں، وہ  فاسقوں کی حکومت سے پنہاں ہیں ۔ خدا وند کریم ان کے وسیلہ سے اسلام کو تغییر کے بعد تازہ حیات بخشے گا اور قرآن کو پژمردہ ہونے کے بعد طراوت بخشے گا۔

لغت میں کلمہ'' انطماس '' نابود ہونے کے معنی میں آیا ہے۔اس روایت میں حضرت امام حسن عسکری  علیہ السلام نے دونوں معنی مراد لئے ہیں۔غیبت کے زمانے میں اسلام پر ہونے والے بدلاؤ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے قیام کے بعد ختم ہو جائیں گے اور اسلام اپنی اصلی حالت میں آجائے گا۔اگرچہ بہت سے ایسے اسلامی ممالک ہیں کہ جو اسلامی حکومت کے نام سے تو مشہور ہیں، لیکن ان میں دین کے احکامات پر عمل نہیں ہوتا ۔اگرچہ ان میں ظاہراََ اسلام کانام موجود ہے لیکن جب تک

وہاں اسلام کے احکامات پر عمل نہ ہو تو گویا ان ممالک میں اسلام نابود ہو چکا ہے۔

--------------

[1]۔ مصباح الزائر:410،الصحیفة المہدیة:614

۱۶۱

  امر عظیم

حضرت بقیة اللہ الاعظم  علیہ السلام دنیا والوں کے لئے جو کچھ ظاہر فرمائیں گے روایات میں کبھی اسے امر عظیم اور کبھی امر جدید کے عنوان سے مطرح کیا گیا ہے۔

ابی سعد خراسانی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کی :

'' المهدی والقائم واحد؟فقال:نعم فقلت:لاّ شیء سمّی  المهدی:

قال:لانّه یهدی الیٰ کلّ امر خف و سمّی القائم لانّه یقوم بعد ما یموت،انه یقوم بامر عظیم ''(1)

کیا مہدی علیہ السلام اور قائم ایک ہی فردکے نام ہیں؟

امام  نے فرمایا :جی ہاں ۔

میں نے عرض کیا کہ انہیں مہدی علیہ السلام کیوں کہا جاتا ہے؟

فرمایا:کیونکہ وہ ہر مخفی امر کی طرف ہدایت کریں گے۔لہذا انہیں قائم کا نام دیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے نام کے مرنے کے بعد قیام کریں گے۔یقیناََ وہ امر عظیم کے ساتھ قیام کریں گے۔

آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس روایت میں بھی تصریح ہوئی ہے کہ حضرت قائم  علیہ السلام عظیم امر اور بزرگی کے لئے قیام کریں گے۔حضرت قائم علیہ السلام جس امر کو قائم کرنے کے لئے قیام کریں گے وہ اس قدر بزرگ ہے کہ کس کی عظمت کی وجہ سے آنحضرت کو قائم علیہ السلام  کا نام دیا گیا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۵۱ص۳۰

۱۶۲

امام عصر علیہ السلام جس امر کے لئے قیام کریں گے کیا یہ وہیمنشور ہے کہ جو رسول اکرم(ص)اور آئمہ اطہار  عل یہم السلام کے توسط سے لوگوں کے لئے قرار یا گیااور پھر مقام خلافت کے غصب ہونے،بدعتوں کے ظہور اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ فراموشی کے سپرد ہو گیا یا ان کے علاوہ کوئی اور عظیم آئین و منشورہے کہ جسے خاندانِ وحی علیہم السلام نے بیان نہیں فرمایا اور اب اسے امام زمانہ علیہ السلام سب لوگوں کے لئے ظاہر فرمائیں گے؟

اس سوال کے جواب سے پہلے امام صادق  علیہ السلام سے نقل شدہ اس روایت پر توجہ کریں۔

امام صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''اذا قام القائم جاء بأمر جدید کما دعی رسول اللّه ف بدو الاسلام الٰی امر جدید'' (1)

جب قائم  علیہ السلام قیام کریں گے تو وہ نیا اورجدید امر لائیں گے جس طرح ابتدائے اسلام میں رسول اکرم نے لوگوں کو جدید امر کی طرف دعوت دی۔اس روایت میں امام صادق نے امام زمانہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایسی چیز لائیں گے کہ جو صدر اسلام میں رسول اکرم (ص)لائے تھے۔اگرچہ یہ روایت اس سلسلہ میں صریح نہیں ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام پہلے بیان نہ ہونے والا کوئی جدید امر لائیں گے ۔  لیکن کم از کم یہ اس بارے میں  صراحت رکھتی ہے ۔ممکن ہے کہ بعض لوگ حضرت امام صادق علیہ السلام سے بیان ہونے والی روایت میں موجود تشبیہ پر توجہ نہ کریں اور کہیں:

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۵۲ص۳۳۸

۱۶۳

چونکہ اسلام کے بہت سے احکامات لوگوں تک نہیں پہنچے پس انہیں  بیان کرنا ان کے لئے جدید امر ہے۔ لہذا اسے جدید امر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

اس کے جواب میں کہتے ہیں :اگر ہم اس روایت کے ظہور یا صراحت سے دستبردار ہو جائیں تو بھی ہم ایک دوسرا نکتہ بیان کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کیا رسول اکرم(ص)نے نہ یں فرمایا تھا!

''اِنّا معاشر الانبیاء نکلّم الناس علٰی قدر عقولهم '' (1)

ہم پیغمبر لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کرتے ہیں۔

اس روایت اورظہور کے زمانے میں عقلی تکامل پر توجہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) لوگوں کے عقلی رشد کی وجہ سے ان کے لئے جدید مطالب بیان کریں گے کہ جن سے انسانی معاشرہ اس سے پہلے بالکل آگاہ نہیں تھا۔ البتہ یہ یاد رہے کہ ہر جدید امر اور نیا دستور اسلام کے حیات  بخش آئین ہی میں سے ہو گا نہ کہ امام زمانہ لوگوں کے لئے ایک نیا آئین اور دین ایجاد کریں گے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۲ص۲۴۲

۱۶۴

  امر عظیم کیا ہے؟

اب یہ سوال پیداہوتا ہے کہ اس روایت میں بیان ہونے والے امرِجدید  سے مراد وہی امر عظیم ہے کہ جس کی گزشتہ روایت میں تصریح ہوئی ہے؟

اگردونوں (امر جدید اور امر عظیم) سے ایک ہی چیز مراد ہو تو پھر وہ امر

جدید اور امر عظیم کیا ہے کہ جس کی خاطر حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) قیام فرمائیں گے؟

اسرار سے آگاہ ہی ا س سوال کے جواب سے آگاہ ہیں۔ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی روایات میں اس  بارے میں چند اشارات اور کچھ سرسری نکات ملتے ہیں۔ان کے معنی و تفسیر سے فقط چند خواص ہی آگاہ ہیں  کہ جواہلبیت عصمت وطہارت علیہم السلام کے کلمات کے اسرار ورموز سے واقف ہیں اور جو ان کے فرمودات میں موجود کنایات و اشارات سے عظیم علمی مطالب اخذ کرتے ہیں۔

حضرت امام صادق  علیہ السلام  ایک  روایت میں فرماتے ہیں:

'' حدیث تدریه خیر من الف ترویه، ولا یکون الرجل منکم فقیهاََ حتّی یعرف  معاریض کلامنا، وانّ الکلمة من کلامنا لتصرف علی سبعین وجهاََلنا من جمیعها المخرج '' (1)

ایک رویات کے معنی کوسمجھنا ہزار روایتیں نقل کرنے سے بہتر ہے۔تم میں سے کوئی شخص بھی فقیہ نہیں ہو سکتا کہ جب تک وہ ہمارے فرمودات میں اشارہ نہ سمجھ لے۔یقیناََ ہمارے کلام کے ہر ایک کلمہ سے ستّر معنی نکلتے ہیں کہ ہمارے لئے ان سب کے تکمیل معنی کے لئے راہ موجود ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۸۴

۱۶۵

مکتب اہلبیت علیہم السلام میں ایسے افراد کو فقیہ کہا جاتا ہے کہ جو ان کلمات کودرک کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔پس فقیہ وہ ہے کہ جو فرمودات آئمہ علیہم السلام کے معنی اور ان میں موجود اشارات سمجھ سکے۔امر عظیم کی وضاحت اور اس

کا اجمالی جواب ذکر کرنے سے پہلے اس روح افزاء نکتہ پر غور کریں۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جو خانہ کعبہ میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی ملکوتی آواز سن کر لبیک کہیں گے اور اس مہربان امام کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے قیام کریں گے۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جن کو ظہور کا بابرکت زمانہ نصیب ہوگا ۔ جو دین میں ہر قسم کی خرافات سے دستبردار ہوجائیں گے اور حضرت مہدی  علیہ السلام کی زیر سرپرستی ان کی عادلانہ حکومت کے شاہد ہوں گے۔    اس زمانے کے لوگ حضرت صاحب العصر والزمان (عج) کی حکومت کے سائے میں حیاتِ قلب ، تکامل عقل  اوراعلی معارف کی طرف پرواز کریں گے اور پھر وہ امر عظیم کی خلقت کے سرّ و راز سے آگاہ ہوجائیں گے ۔

اس زمانے کے لوگ سمجھ جائیں گے کہ جس خدا نے انسان کی خلقت سے خود کواحسن الخالقین کا خطاب دیا ہے اس نے انسان کے وجود میں کوئی قدرت و توانائی پوشیدہ کی ہے۔لیکن غیبت کے تاریک زمانے میں زندگی گزارنے والوں کے دلوں پرخاندان وحی  علیھم السلام کے تابناک انوار کی کرنیں پڑ رہیں تھیں مگر وہ اس سے بے خبر تھے۔

حضرت مہدی علیہ السلام کے شفا بخش ہاتھوں سے اس زمانے کے لوگوں کی عقل و خرد کامل ہوگی اسی طرح وہ ان کے دلوں کو معنوی حیات بخشیں گے جس کے ذریعہ وہ عالم ملکوت کا نظارہ کر سکیں گے۔

اب امر عظیم کے بارے میں  پیدا ہونے والے سوال کا جواب دیتے ہیں

۱۶۶

کہ امر عظیم اہلبیت کی ولایت کے سلسلہ میں مہم نکتہ ہے، ظہور  کے زمانے میں امر عظیم آشکار ہو گا۔

غیبت کے زمانے کی تاریکی کی وجہ سے لوگوں میں ولایت کے رمز اور اہلبیت علیھم السلام کے رموز و اسرار کو سمجھنے  کا میزان اور انسا ن کی عقل کی حدیں محدود ہیں، جس میں ولایت کی مکمل معرفت اور خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام سے متعلق مہم امور کو مکمل طور پرپہچان نہیں ہے، جب ان کے دست مبارک سے انسان کی عقل کامل ہو جائے گی تو اس میں عظیم معنوی مسائل کو سمجھنے کی قدرت پیدا ہو جائے گی۔اس زمانے میں عقل تکامل کی منزل تک پہنچ جائے گی اور آشفتگی سے نجات حاصل کرے گی ۔ امام مہدی علیہ السلام لوگوں  کے لئے معارف کے عظیم نکات بیان فرمائیں گے اور قرآن اس کی گواہی دے گا ۔یہی بات جناب محمد بن عمرو بن الحسن سے روایت ہوئی ہے۔

'' ان امر آل محمد علیهم السلام أمر جسیم مقنّع لا یستطاع ذکر ولو قد قام قائمنا لتکلّم به وَ صدقه القرآن '' (1)

امر اہلبیت علیہم السلام  ایک ایسا عظیم امر ہے کہ پردے میں چھپا ہوا ہے جسے ذکر کرنے کا امکان نہیں ہے اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا وہ اسے بیان کرے گا اور قرآن اس کی تصدیق کرے گا۔

اس بیان سے واضح ہو گیا کہ ولایت کے باعظمت امر کو غیبت کی تاریکیوں میں عام لوگوں کے لئے بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جب عقل  کے تکامل کی راہ میں مانع ایجاد کرنے والے ستمگر اور ظالم ختم ہو جائیں گے تو امام زمانہ  علیہ السلام کے ظہور اور ان کی عنایات سے انسانوں کی عقل و فہم کی تکمیل ہو جائے گی،اس وقت خدا وند بزرگ و برترحکم دے گا کہ امام عصرعلیہ السلام حق کو ظاہر کریں۔اس زمانے میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے لبوں کی جنبش سے ہی حق و حقیقت آشکار ہوجائیں گے پھر لوگوں کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا۔

--------------

[1]۔ بصائر الدرجات:28،بحار الانوار:ج۲ص۱۹۲

۱۶۷

وہ بزرگوار اپنے ایک مکتوب میں یوں بیان فرما تے ہیں :

'' اذا أذن اللّه لنافی القول ظهرالحق واضمحل الباطل، وانحسرعنکم '' (1)

جب خدا  مجھے بولنے کا اذن دے گا تو حق ظاہر ہو جائے گا ، باطل نابود ہ ہوجائے گا اور تم لوگوں  کے لئے یہ سب آشکار ہو جائے گا۔

  معارف الٰہی

خاندان نبوت  علیہم السلام نے روایات میں جہان زمانۂ غیبت کی سختیوں کو بیان کیاہے وہاں ظہور کے  بابرکت زمانے کی سعادتوں اور برکتوں کو بھی بیان کیا ہے اور اس زمانے کی سعادتوں کو ہلاکت سے نجات پانے والوں کے ذریعہ توصیف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اس زمانے کو درک کرنے والے خوش نصیب ہیں۔

امام صادق علیہ السلام حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے بارے میں فرماتے ہیں۔

''هو المفرّج للکرب عن شیعته بعد ضنک شدید و بلاء طویل و جور فطوبی لمن ادرک ذالک الزمان '' (1)

وہ اپنے شیعوں سے ہر طرح کی سختی کوبرطرف کریں گے اور یہ سخت مصائب، طویل بلاؤں اور ظلم و ستم کے بعد ہو گا۔پس اس زمانے کو درک کرنے والے خوش نصیب ہیں۔

--------------

[1]۔ الغیبة شیخ طوسی: 176

[2]۔ کمال الدین :647

۱۶۸

جی ہاں ؛ خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، جو اس زمانے کو دیکھیں گے ۔ اس روزدنیا کو خلق کرنے کا مقصد پورا ہو جائے گا ۔ وہ عقلی تکامل کا زمانہ ہو گا اور ہر طرف نور ہی نور ہو گا اس زمانے میں لوگ خضوع وخشوع  اور کمال بندگی سے خدا کی عبادت کریں گے وہ نفس کو شکست دے کر شیطان کو نابود کرکے عقلی تکامل سے خدا کی بندگی کریں گے اور خاندان وحی کے نورانی مقام کی معرفت پیداکریں گے۔خدا  فرماتا ہے:

''وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ ِلاَّ لِیَعْبُدُونِ '' (1)

میں نے جن و انس کوخلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

اس  بناء پر صدیاں گزرنے کے بعد علم و معرفت سے سرشار دن کی آمد پر خلقت کامقصد پورا ہو جائے گا۔اس مبارک زمانے میں دنیا کے تمام انسان تکامل کی راہ پر گامزن ہوں گے اور عالم بشریت کے مسیحا کے شفا بخش ہاتھوں کے لمس سے  خدا کے عبد تکامل ِعقل تک پہنچ جائیں گے اور انسان شیطانی ا فکار اور وسوسوں سے نجات پا کر معرفت کی منزل تک پہنچ جائے گا۔

 زبان رسول اکرم (ص)سے زمانہ ظہور کے لوگ

اس زمانے میں لوگ خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور اہلبیت  علیہم السلام کے نورانی مقام سے آگاہ ہو کر اس کی معرفت حاصل کریں گے،اسی لئے وہ نورانیّت سے سرشار پاک سیرت ہوں گے۔رسول اکرم زمانہ ظہور کے لوگوں کو چودہویں کے چاند اور مشک و عنبر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ایک طولانی روایت میں حضرت امام جواد علیہ السلام  اپنے پدر بزرگوار اور وہ رسول اکرم (ص)سے آل محمد علیہم  السلام کے قائم   کے قیام کا واقعہ نقل فرماتے ہیں۔

--------------

[1]۔ سورۂ الذاریات،آیت: 56

۱۶۹

"یخرج جبرئیل عن یمینه و میکائیل عن یسرته و سوف تذکرون ما اقول لکم و لو بعد حین و افوّض امر الی اللّٰه عزّوجلّ

یا ابیّ طوبی لمن لقیه و طوبی لمن احبه و طوبی لمن قال ینجّیهم من الهلکة وبالاقرار باللّٰه و برسوله و بجمیع الآئمّة یفتح اللّٰه لهم الجنّة مثلهم ف الارض کمثل المسک الّذ یسطع ریحه فلا یتعیّر ابداََ و مثلهم ف السماء کمثل القمر المنیر الّذی لا لطفأ نوره ابداً ''(1)

مہدی  علیہ السلام  اس حال میںقیام کریں گے کہ ان کے دائیں طرف جبرئیل اور بائیں طرف میکائیل ہوں گے میں  تمہارے لئے جو کچھ بیان کر رہا ہوں تم اسے ایک دن ضرور یاد کرو گے۔ اگرچہ یہ طولانی  مدّت کے بعد رونما ہو گااور اپنامعاملہ خدائے پاک پر چھوڑتاہوں۔

اے ابی :خوش نصیب ہے وہ جو ان سے ملاقات کرے اور ان سے محبت کرنے والا، خوش نصیب ہے اورخوش نصیب ہے وہ کہ جو معتقد ہو کہ وہ ہلاکت سے نجات دیں گے۔خدا،رسول اور آئمہ کا اقرار کرنے کی وجہ سے خد اان کے لئے جنت کے در وازے کھول دے گا۔زمین میں اس کی مثال مشک کی مانند ہے کہ جس کہ خوشبو تو پھیلتی ہے لیکن وہ خود کبھی متغیر نہیں ہوتا۔آسمان میں اس کے نور کی مثال چاند کے نور کی مانند ہے کہ جس کا نور کبھی ختم نہیں ہوتا۔

ظہور کے زمانے کے لوگوں کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح نورانی ہو گا۔جس سے معلوم ہو گاکہ انہیں ملکوت کا جلوہ بخشا گیا ہے۔ان کے سینوں میں معارف الٰہی کے تابناک انوارسے ان کے چہرے منوّ ر ہو جائیں گے۔وہ عالم ملکوت کا نظارہ کر سکیں گے جو کہ کتناخوبصورت نظارہ ہو گا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۵۲ ص۳۱۱

۱۷۰

امام جواد علیہ السلام امام صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے حضرت الیاس علیہ السلام(1) سے فرمایا:

'' فوددت انّ عینیک تکون مع مهدی هذه الامّة والملائکة بسیوف آل داؤد بین السماء والارض تعذّب أرواح الکفرة من الاموات و تلحق بهم ارواح اشباههم من الاحیاء ثم اخرج سیفاً ثم قال ها:انّ هذا منها '' (2)

مجھے پسند ہے کہ تمہاری آنکھیں اس امت کے مہدی علیہ السلام  کو دیکھیں کہ ملائکہ آل داؤد کی تلواروں سے آسمان اور زمین کے درمیان  دنیا سے جانے والے کافروں کو عذاب دیتے ہیں اور زندہ کفار کو ان سے ملحق کرتے ہیں۔پھر امام صادق  علیہ السلام نے اپنی تلوار نکالی اور فرمایا :

ہاں یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔

ملائکہ کا یہ نظارہ بھی کتنا خوبصورت ہو گا کہ جو اپنی تلواروں سے کافروں کو جہنم کی راہ دکھائیں گے۔

  محسوس اور غیر محسوس دنیا میں حکومت

خاندان اہلبیت علیہم السلام  کے معارف کے باب میں علم امام کامسئلہ ایک اہم اعتقادی مسئلہ ہے۔ بہت سی روایات کی دلالت کی رو سے آئمہ اطہار  علیھم السلام کے علم کا مسئلہ اعتقادی بحثوں سے متعلق ہے۔ ہم امام عصر علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں:

--------------

[1] ۔ حضرت الیاس علیہ السلام  ان چار پیغمبروں میں سے ہیں کہ جو اب بھی باحیات ہیں۔ وہ زمانہ ظہور اور زمانہ غیبت میں امام زمانہ علیہ السلام  کے ناصر ومددگار وںمیں سے ہیں ۔

[2] ۔ بحار الانوار:ج۴6ص۳6۴

۱۷۱

'' قد اتاکم اللّٰه یا آل یاسین خلافته وعلم مجاری امره فیما قضاهو دبّره ورتّبه  واراده فی ملکوته '' (1)

اے آل یاسین!خداوند کریم نے آپ کو اپنی  خلافت وجانشینی بخشی ہے اوروہ ملکوت میں اپنے امر کے مجاری سے جو امر،تدبیر و نظم اور ارادہ کرتا ہے،اس سے آپ کو علم و آگاہی عطا کی ہے۔

اس مقدمہ کو بیان کرنے کے بعد اس امر پر ضرور غور کریں کہ ظہور کے زمانے اور امام زمانہ کی حکومت میں علم وحکمت کے در وازے کھل جائیں گے اور اس با عظمت دن میں حضرت مہدی علیہ السلام اپنے علم کی بنیاد پر پوری کائنات میں عدالت قائم کریں گے  اور یوں وہ محسوس و غیر محسوس دنیا کو نئی حیات بخشیں گے۔

ظہور کے زمانے کے بارے میں وارد ہونے والی بہت سی روایات سے استفادہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت امام عصر علیہ السلام  نہ صرف محسوس دنیا کی تکمیل و پاک سازی کریں گے بلکہ غیر محسوس دنیا سے پلیدگی کے وجود کو پاک کریں گے۔

اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام زمانہ  علیہ السلام کے ظہور کا صرف محسوس پہلو ہی نہیں ہے بلکہ وہ عالم ظاہر کے علاوہ غیر محسوس دنیا کی بھی تکمیل کریں گے۔غیر محسوس عالم کی موجودات بھی آنحضرت کی حکومت الٰہی سے فیضیاب ہوں گی۔

پس امام عصر  علیہ السلام کا قیام ہر لحاظ اور ہر پہلو سے کامل ہے امام زمانہ (عج) اپنے قیام سے محسوس اور غیر محسوس عالم کو تکامل بخشیں گے۔اس بناء پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ آنحضرت کا قیام فقط مادّی و ظاہری لحاظ سے انقلاب برپا کرے گا۔جس میں صرف محسوس و ظاہری دنیا ہی شامل ہو گی۔بلکہ یہ یاد رکھیں کہ غیر محسوس موجودات (جنّات و شیاطین) پر بھی امام مہدی  علیہ السلام کی حکومت ہو گی  اور وہ بھی پاکسازی کے عمل سے گزر کر تکامل کی منزل تک پہنچ جائیں گے۔

--------------

[1] ۔ صحیفہ مہدیہ:571

۱۷۲

  عالم ملک و عالم ملکوت

باطنی قوّت اور اندرونی حواس کے ذریعہ عالم غیب اور عالم ملکوت تک پہنچنا چاہئے۔زمانہ ظہور عالمِ ملک اور ملکوت کے عظیم عالم تک پہنچنے کازمانہ ہے۔ اگرچہ غیبت کے زمانے میں بھی انسان عالم غیب تک پہنچنے کا اسرار اور اس کی کلید حاصل کر سکتا ہے اور انسان کی باطنی قوّت اسے عالم ملکوت تک پہنچا  سکتی ہے۔لیکن زمانہ غیبت میں بہت کم افرد عالم ملکوت تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔ لیکن زمانہ ظہور میں عالم ملکوت کی آشنائی ایک عام بات ہو گی۔اس بابرکت زمانے کے عام افراد بھی وہاں تک رسائی حاصل کر  سکیں گے۔

اگر کوئی پیدائشی اندھا یا بہرا  ہو توایسا شخص دیکھنے اور سننے والی اشیاء کو ویسے درک نہیں کر سکتا جیسی وہ ہیں اور اگر وہ ان کا انکار کرے تو یہ خود اس کے نقص و عیب کی دلیل ہے نہ کہ اس سے اس چیز کی نفی ہو جائے گی۔اسی طرح اگر کوئی عالم ملکوت کا منکر ہو تو یہ خود اس کے نقص و عجز کی دلیل ہے کہ جو عالم ملکوت کو درک کرنے کی قدرت نہیں رکھتا نہ کہ اس سے عالم ملکوت کی نفی ہوجائے گی۔جیسے اگر کوئی معجزہ رونما ہوجائے اور نابینا شخص دیکھنے کی صلاحیت حاصل کرلے تو وہ دکھائی دینے والی چیزوں کو عادی حالت میں دیکھ سکے گا۔اسی طرح ظہور کے پُر نور زمانے میں بھی باطنی حواس اور اندرونی طاقتوں سے اس زمانے کے لوگ نہ صرف عالم ملکوت سے آشنا ہو جائیں گے بلکہ اسے دیکھ سکیں گے یہ ان کے لئے عادی اور معمولی حالت ہو گی۔

ملائکہ کو دیکھنا، ان کے ہمراہ بیٹھنا اور ملائکہ کے ساتھ سیر ایسے امور ہیں کہ جن کی روایات اہلبیت میں تصریح ہوئی ہے۔نعمتوں سے سرشار اس زمانے میں لوگوں کو معلوم ہو گا کہ وہ کس طرح عالم ملک اور مادی دنیا سے دل لگا بیٹھے ہیں؟

۱۷۳

  وہ کس طرح عالم ملکوت سے غافل تھے؟

وہ اپنی زندگی کے کئی سال گزارنے کے باوجود بھی حضرت مہدی علیہ السلام کے بابرکت  وجود سے کیوں استفادہ نہیں کر سکے اگرچہ ظاہراََ آنحضرت پردہ غیب میں تھے؟

جب وہ اپنے بہت سے گزرے ہوئے عزیزوں اور رشتہ داروں کے بارے میں سوچیں گے تو ان کی حسرت ویأس میں اضافہ ہوجائے گا اور وہ سوچیں گے کہ وہ لوگ عالم ملکوت کا نظارہ کئے بغیرہی  دنیا سے چلے گئے۔وہ ایسے نابینا شخص کی مانند تھے کہ جو دنیامیں نابینا پید اہوئے اور دنیا کی کسی چیز کو دیکھے بغیر ہی دنیا سے چلے گئے۔اسی طرح ان کے عزیز ورشتہ دار بھی عالم ملکوت کو دیکھے بغیر ہی دنیا کو الوداع کہہ گئے۔اسی لئے وہ خواہش کریں گے کہ کاش ان کے عزیز بھی زندہ ہوتے اور ظہور کے بابرکت زمانے میں تکامل تک پہنچ کر عالم ملکوت کودیکھتے اور اس سے مستفید ہوتے۔

آئمہ اطہار علیہم السلام نے بار ہا یہ حقیقت بیان فرمائی ہے تاکہ سب اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں لیکن افسوس کہ عالم مادہ نے ہمیں مادی دنیا میں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ ہم عالم ملکوت کے عظیم حقائق  سے بھی غافل ہو چکے ہیں۔

  عالم ملکوت تک رسائی یا زمانہ ملکوت کی خصوصیات

جیسا کہ ہم نے کہا کہ زمانہ ظہور میں دنیا کے تمام لوگ پاک سیرت ہوں گے اس وقت سب مرد اور خواتین نیک و صالح ہوں گے کیونکہ جب صالحین کی حکومت ہو تو سب کی اصلاح کی طرف رہنمائی کرتی ہے اس بارے میں خدا وند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

۱۷۴

''اِنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ '' (1)

امام مہدی  علیہ السلام  کی آفاقی، کریمانہ او ر عادلانہ حکومت کی اہم خصوصیات میں سے ایک بشریت کی رہنمائی کرنا ہے کیونکہ فساد اور تباہی کے اسباب کی نابودی اور ہدایت کے وسائل کی فراہمی کے بعد فساد کی کوئی راہ باقی نہیں بچتی ہے۔دنیا کے تمام لوگ اپنے اندربنیادی تبدیلی پیدا ہونے کی وجہ سے گمراہی سے دور ہو کر تکامل کا رخ کریں گے گمراہی سے دور ہونے اور ہدایت کا رخ کرنے کی وجہ سے اس روز ایک مکمل  نیک و صالح انسانی معاشرہ وجود میںآئے  گا ۔اس روز انسانی معاشرہ کے لئے عالم ملکوت کے در وازے کھول دیئے جائیں گے۔انسان غیر محسوس ملکوتی دنیا کا نظارہ کر سکے

گااور یہ  نیک وصالح اعمال کا نتیجہ ہوگا صالح اعمال انسان کے وجود میں  تبدیلی ایجاد کریں گے حضرت ادریس کے صحیفۂ نجات میں ذکر ہوا ہے:

'' وبالعمل الصالح ینال ملکوت السماء '' (2)صالح اعمال کی وجہ سے انسان ملکو ت آسمانی تک پہنچ سکتا ہے۔

اب تک دنیا جہاں تک پہونچ سکی ہے وہ کائنات کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے دنیا اب تک صرف اس کے مادی پہلو تک رسائی حاصل کر سکی ہے نہ کہ اس کے ملکوتی پہلو تک ۔زمانہ ظہور میں نیک اعمال انجام پانے سے برے اعمال کا قلع و قمع ہو جائے گا جس کی وجہ سے انسان ملکوت آسمانی تک پہنچ جائے گا ۔پس اس با برکت زمانہ میں معاشرہ ملکوتی دنیا تک رسائی حاصل کرے گا جو بہت عظیم خصوصیات سے آراستہ ہو گا۔ہم امید کرتے ہیں کہ پروردگار عالم جلد از جلد رہائی و نجات کا وہ دن پہونچا دے اور بشریت کو امام زمانہ (عج) کی عادلانہ حکومت کے زیر سایہ کمال و تمدن کی اوج تک پہونچا دے ۔

--------------

[1]۔ سورہ انبیاء،آیت: 105

[2]۔ بحارالانوار:ج۹۵ص۴6۵

۱۷۵

حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی الٰہی حکومت میں انسان کے لئے خلقت کائنات کے لئے راز واضح ہو جائیںگے اور سب ایسی چیزیں دیکھ پائیں گے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی کیونکہ اس وقت سب پاک سیرت ہوں گے لہذا وہ کائنات کے اسرار و رموز بھی دیکھ پائیں گے۔ حضرت محمد مصطفٰی(ص) فرماتے ہ یں :

'' غضوا ابصارکم ترون العجائب'' (1)

اپنی آنکھوں کو (حرام اور دنیا کی محبت سے) بند کروتو دنیاکے عجائب دیکھ پائو گے ۔

کیونکہ عالم وجود کے زیادہ تر عجائب عالم غیب میں پوشیدہ ہیں اگر چہ محسوس دنیا میں بھی بہت سے عجائب ہیں لیکن غیر محسوس عجائب کی دنیا کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔محسوس و غیر محسوس دنیا ،عالم خلقت  کے اسرار و رموز اور ان کے عجائب دیکھنے کے لئے اپنی آنکھوں کو نا صرف حرام بلکہ ہر اس چیز سے بچائیں جو دنیا سے انسان کی دل لگی کا سبب بنے اگر کوئی انسان دنیا کے ساتھ دل نہ لگائے تو اس کا دل گناہوں کی آلودگی سے پاک ہو جائے گا پھر وہ کائنات کے اسرا ر اور عالم خلقت کے عجائبات کو دیکھ سکے گا۔اس بارے میں رسول اکرم (ص) فرماتے ہ یں :

''لولا ان شیاطین یحومون علیٰ قلوب بنی آدم لنظروا الیٰ  الملکوت '' (2)

اگر انسان کے دل  میں  شیاطین جگہ نہ بنائیں تو وہ عالم ملکوت کا نظارہ کر سکتا ہے۔

اس بنا پر جس دن ابلیس اور شیاطین نابود ہوں گے اور جب ان کے گمراہ کن وسوسوں میں کوئی اثر نہ ہو گا تو پھر انسان کا دل نورانیت و پاکیزگی سے سرشار ہوگااور عالم ملکوت کی نورانی دنیا کو دیکھ سکے گا۔

--------------

[3]۔ مصباح الشریعہ :9

[4]۔ بحارالانوار:ج70 ص59

۱۷۶

  اہم نکتہ یا احساس ظہور

اب اس اہم نکتہ پر توجہ کریں کہ کیا  ظہور  کے زمانے کے دوران عالم ملک و ملکوت میں کوئی وجود حضرت بقیہ اللہ الاعظم (عج)کے وجود سے زیادہ ملکوتی ہو سکتا ہے ؟پس اس زمانہ میں آپ کائنات کے جس گوشہ میں بھی ہوں حضرت مہدی   علیہ السلام  کے با برکت وجود کو دیکھ سکیں گے اور خود کو آنحضرت کے حضور میں پیش کر سکیں گے۔ احساس ظہور کی مزید وضاحت کے لئے ابو بصیر کی احساس ظہور کی بہترین روایت کی طرف رجوع کریں ۔(1)

یا درکھیں کہ غیبت کے زمانے میں دو اہم عامل احساس ظہور اور انسانوں کے عالم ملکوت تک پہونچنے اور اسے دیکھنے کی راہ میں رکاوٹ ہے ان دو موانع میں سے ایک شیطان اور دوسرا نفس امارہ ہے۔ لیکن ظہور کے پر نور اور با برکت زمانہ میں شیطان نابود ہو جائے گا اور انسانوں کا نفس امارہ تبدیلی  ایجاد ہونے کی وجہ سے معنوی بلندی تک رسائی حاصل کر لے گا ۔اسی وجہ سے زمانۂ ظہور کے نیک و صالح معاشرہ میں عالم ملکوت تک رسائی کی راہ میں کوئی مانع نہیں ہو گا ۔

لیکن موجود  دور میں شیطان اپنی سازشوں اور نفس امارہ کے ذریعہ انسان کو فریب دیتا ہے اور نفس کی مدد سے وہ عالم ملکوت تک پہونچنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وہ انسان کو مادی دنیا ہی میں مگن کردیتا ہے اور انسان بھی اس کے فریب میں آکر دنیا ہی سے دل لگا لیتا ہے۔ اس بنا ء پر غیبت کے زمانے میں معاشرہ نہ صرف عالم ملکو ت کو نہیں دیکھ سکتا بلکہ انسان اس کا انکار بھی کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے معاشرہ کی اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں زمانہ میں فرق کو ملاحظہ کرے شاید اسی فرق کو پہچان لینے سے نجات کا کوئی ذریعہ پیدا ہو جائے ۔

--------------

[1] ۔ صحیفہ مہدیہ :93

۱۷۷

  غیرت مندوں سے خطاب

زمانۂ ظہور اور زمانۂ غیبت کے درمیان فرق کے بہت سے بنیادی نکات موجود ہیں جن کی رو سے معلوم ہوجاتا ہے کہ  ظہور کا زمانہ غیبت کے تاریک زمانے سے برترہے ۔لیکن افسوس کہ ہمارا معاشرہ ان خصوصیات سے آگا ہ نہیں ہے اسی وجہ سے ہم مکتب اہلبیت  علیہم السلام  کے معارف کے عظیم باب کی آشنائی سے محروم ہیں۔ ہر غیرت مند شیعہ پر ایسے امور کو جاننا لازم ہے کہ جو اس کے ٹھہرائو کا سبب بنیں، اسی طرح اسے رشد و تکامل کے عوامل سے بھی آگاہ ہونا چاہیئے، ہر شیعہ کو یہ جاننا چایئے کہ اس کے بال و پر کیوں بندھے ہوئے ہیں وہ انہیں کس طرح سے کھول سکتا ہے ؟ اس کے ٹھہراؤ کا سبب کیا ہے اور اس کے کیا عوامل ہیں؟

ان سوالات کو مطرح کرنے کی یہ وجہ ہے کہ اگر ہمارا معاشرہ ان سوالات کے جوابات سے آگاہ ہو جائے تو انہیں جاننے اور ان پر عمل پیراں ہونے سے امام زمانہ (عج) کی کریمانہ حکومت کے لئے زمینہ فراہم ہوگا ۔

اے غیور شیعہ جوانو!

اے مکتب اہلبیت  کے پاک سیرت پیروکارو !

صدیوں سے امیرالمومنین علیہ السلام  کی غصب شدہ خلافت پر اشک بہانے والو اور اس زمانہ کے مسلمانوں کے سکوت پر آہ بھرنے والو!

کیا تم بھی ان لوگوں کی طرح آرام سے بیٹھے رہو گے؟

کیا اب بھی اہلبیت  علیہم السلام  کا مقام غصب رہے گا ؟

کیا امام زمانہ  علیہ السلام  سے ہماری جدائی اور زمانۂ غیبت کی بارہ صدیاں کافی نہیں ہیں ؟

۱۷۸

کیوں اہلبیت علیہ السلام کی مظلومیت صدیوں سے جاری ہے؟

لیکن شیعہ ابھی تک اس اہم امر سے غافل کیوں ہیں ؟آخر ایسا کیوں ہے؟

ہم ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے کہیں گے کہ ٹوٹ جائیں وہ ہاتھ کہ جنہوں نے دنیا کوصدیوں سے اصل دین سے غافل کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے لوگ ولایت کے در سے دور ہو گئے اور اسے بھلا دیا۔نیست و نابودہو جائیں وہ ہاتھ کہ جو امریکہ اور برطانیہ کی آستینوں سے نکل کر ابلیس کی پیروی کرتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔البتہ ا س میں خود امت کی بھی غلطی و کوتاہی ہے۔

اب ایسے منحوس ہاتھوں کو کاٹنے اور انہیں شکست دینے کی امید کرتے ہوئے ا صل مطلب کی طرف واپس آتے ہیںاور حضرت ولی عصر صاحب الزمان (عج) کی آفاقی اورعادلانہ حکومت کی ایک اور خصوصیت بیان کرتے ہیں۔

  زمانہ ٔ ظہور اطمینان کا زمانہ

زمانہ  ٔ غیبت کی بنسبت ظہور کے با برکت زمانہ کے خصوصیات اور امتیازات بہت زیادہ ہیں ہم نے اس کتاب میں ان میں سے چند نمونہ ذکر کئے ہیں ،ان میں سے ایک ہماری بحث سے بھی متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ ظہور کا زمانہ اطمینان اور آرام کا زمانہ ہو گاظہور کے زمانہ میں دل سے شک و شبہ اور  گمان زائل ہو جائے گااسی طرح زمانہ ظہور اور زمانہ نجات میں دل سے سیاہ افکار ،افسردگی اور فرسودگی بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ اس روز شیطان کی نابودی سے انسان کی عقل میں تکامل اور نفس میںتبدیلی ایجاد ہو گا پھرانسان خدا اور امام زمانہ کا ذکر کرے گا جو کہ خود اطمینان کا باعث ہے کیونکہ ذکر خدا اور یاد خدا دلوں کو سکون اور اطمینان عطا کرتی ہے۔

۱۷۹

خدا وند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

''ا َلاَبِذِکْرِاﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب '' (1)

آگاہ ہو جاؤ دلوں  کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

یادِ خدا انسان کے لئے یقین میں اضافہ کا باعث بھی ہے یقین کی وجہ سے انسان میں اطمینان اور آسودگی کی حالت پیدا ہوتی ہے یعنی اس دل کو آرام ملتا ہے کہ جس سے شک و شبھہ کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ہے یوں انسان اپنے نفس پر مسلط ہو گا اور شیطانی وسوسوں سے بھی محفوظ رہے گا کیونکہ  شیطانی وسوسے اس صورت میںاثر انداز ہوتے ہیں کہ جب وہ انسان کو کسی کام کے لئے اکسائے یا اس میں کسی کام کو کرنے کے لئے ابھارے۔ لیکن جو صاحب یقین ہو اور اطمینان و سکون کی حالت میں ہو اس پر کسی قسم کا وسوسہ اثر انداز نہیں ہوتا ہے مگر یہ وہ اپنا اطمینان کھو دے اس بناء پر جب تک انسان کا دل مطمئن ہو اور وہ آرام و سکون کی حالت پر باقی رہے تو شیطان اور نفس پر غالب رہے گا پھر وہ حضور کو بھی محسوس کر سکے گا جس طرح حالت حضور انسان کو اطمینان بخشتی ہے اور اس کو گناہ سے دور رکھتی ہے اب اس روایت پر غور کریں۔ حضرت امیرالمومینن  علیہ السلام  سے پوچھا گیا گناہوں سے بچنے کے لئے کس چیز سے مدد لے سکتے ہیں۔

حضرت امیرالمومنین علی  علیہ السلام  نے اس کے جواب میں فرمایا :

'' بالجمود تحت السلطان المطلع علی سرّک'' (2)

خود کو اپنے رازوں سے آگاہ سلطان کے حضور میں قرار دے کر۔

--------------

[1]۔ سور ہ  رعد ،آیت:28

[2]۔ مصباح الشریعة:9

۱۸۰