امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت13%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180625 / ڈاؤنلوڈ: 4527
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اگر انسان کو معلوم ہو کہ خدا اور اس کے جانشین انسان کے ظاہر وباطن سے آگاہ ہیں اور وہ ہر لمحہ ان کے حضور میں ہے اور اس حقیقت سے غفلت نہ برتے تو وہ ہر اس چیز سے آنکھیں بند کر لے گا کہ جو بھی دنیا سے دل لگانے کا باعث بنے۔اسی وجہ سے بعض اولیاء خدا اغیار سے منہ موڑنے اور معنوی مقام و منزلت تک پہنچنے کے لئے حالت حضور کی رعایت کرتے اور خود کو امام زمانہ علیہ السلام کے محضر میں دیکھتے۔ حالتِ حضور جتنی زیادہ ہو جائے وہ خود کو امام عصر   علیہ السلام کے محضر میں محسوس کرے گا۔پھر وہ ایسے کام انجام دینے سے باز آ جائے گا، جو امام  علیہ السلام  کی مرضی کے خلاف ہو۔پھر ان میں دھیرے دھیرے حالت حضور پیدا ہو جائے گی۔کیونکہ نیک اعمال کی طرف مائل ہونے کے لئے حالت حضور بہترین ذریعہ ہے۔

  عصر ظہور،عصر حضور

حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام  سے مذکورہ حدیث پرغور کرنے سے معلوم ہو گا کہ انسان خود کو اپنے باطن اور اپنے اسرار سے آگاہ شخص کے محضر میں قرار دے کر حرام کاموں سے بچ سکتا ہے۔ وہ بھی غیبت کے زمانے میں کہ جو شیاطین اور نفسانی خواہشات کا زمانہ ہے۔اس دور میں انسان اپنی آنکھوں کا مالک بن کر انہیں کنٹرول کرے ۔ اس بناء پر انسان ظہور کے زمانے میں بھی کامل اطمینان حاصل کر سکتاہے۔ کیونکہ وہ زمانہ شیطانِ رجیم کے شرّ اور نفس امّارہ سے نجات کازمانہ ہو گا۔ جیسا کہ ہم نے کہا تھا کہ دل پاک اور مطمئن ہونے سے انسان عالم ملکوت کا نظارہ کر سکتا ہے، پھر یوں وہ حالت حضور کو محسوس کرے گا۔ابھی تک حالتِ حضور اور زمانۂ ظہور میں انسان کی معنوی قوّت اور اسی طرح حضور کے معنی بھی واضح نہیں ہو سکے۔لہذا ہم اس اہم ترین حیاتی پہلو کی مزید وضاحت کرنا لازم سمجھتے ہیں۔اس بارے میں روایات نقل کرنے سے پہلے ہم کہتے ہیں:

۱۸۱

ظہورکے باعظمت اور بابرکت زمانے میں انسان کی توانائی اپنے اوج پر ہو گی۔گویا وہ نئی شخصیت کے مالک بن جائیں گے۔ انسان ظہور کے پیشرفتہ زمانے میں نہ صرف مہم روحانی و معنوی مسائل اور عقلی قوّت میں حیرت انگیز ترقی کرے گا بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی حدّ کمال تک پہنچ جائے گا۔جس سے کائنات کے صفحات پر ایک نئی تاریخ رقم کی جائے گی۔کیونکہ ہمیں تاریخ میں کہیں بھی ظہور کے زمانے جیسا تکامل نظر نہیں آتا۔

ظہور کے زمانے میں انسان حضرت حجت ابن الحسن علیہ السلام کی امامت و رہبری میں اپنے وجود کی تمام قوّتوں کو ظاہر کرے گا اور وہ زمانہ نعمتوں سے سرشار ہو گا۔جس طرح اس زمانے میں زمین اپنے تمام خزانوں کو آشکار کرے گی اور زمین کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہر چیز ظاہر ہو جائے گی ۔ اسی طرح اس زمانے میں انسان کے وجود میں قدرت و توانائی بھی ظاہر ہو گی اور وہ آسانی سے اپنے وجود کی غیر معمولی صلاحیتوں سے استفادہ کر سکے گا۔

اگرچہ انسان مادی و جسمانی لحاظ سے چھوٹا ہے لیکن اس میں اسرارو رموز اور مخفی طاقتوں کی ایک دنیا ہے کہ جو ظہور کے زمانے میںا شکار ہو گی۔یوں کائنات کاایک نیا چہرا نمودار ہو گا۔

ظہور کے پُر نور،  باعظمت اور بابرکت زمانے میں کائنات میں مختلف تبدیلیاں رونما ہو ں گی کہ ان میں سے کچھ کو ہم خاندان عصمت و طہارت   علیھم السلام کے ارشادات سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔

۱۸۲

 ساتواں باب

تکامل علم و فرہنگ

    عصر ظہور یا عصر تکامل علم و فرہنگ

    خاندان نبوت علیہم السلام کی نظر میں مستقبل میں علمی ترقی

    روایت کے اہم نکات

    روایت کی تحلیل

    پیغمبروں کے زمانے سے اب تک مشترکہ پہلو

    حصول علم کے دیگر ذرائع   ۱ ۔ حس شامہ    ۲ ۔ حس لامسہ    ۳ ۔ حس ذائقہ

    ۴۔ حواس کے علاوہ دیگر ذرائع سے علوم سیکھنا

    زمانہ ظہور میں حیرت انگیز تحوّلات

    خاندانِ اہلبیت علیہم السلام کا علم

    علوم کے حصول میں امام مہدی علیہ السلام کی راہنمائی

    حصولِ علم میں حضورِ امام مہدی علیہ السلام کے اثرات

    زمانۂ ظہور کی ایجادات

    اس بارے میں زیارت آل یٰس کے بعد دعا سے درس

    واحد عالمی حکومت

    ظہور یا نقطہ آغاز

۱۸۳

    دین یعنی حیات اور صحیح ترقی یافتہ تمدّن

    صحیح اور جدید ٹیکنالوجی فقط دین کے زیر سایہ ممکن ہے

    موجود ایجادات میں نقص

    عصر ِ ظہور میں قدرت کے حصول کی تحلیل

    روایت میں تفکر

    موجودہ صنعت پر ایک نظر

    زمانۂ ظہور اور موجودہ ایجادات کا انجام

    مضر ایجادات کی نابودی

    علم دنیا کی رہبری نہیں کر سکتا

    دنیا کا مستقبل اور عالمی جنگ

    ایٹم کے علاوہ دوسری منفی اور مضر ایجادات

    پہلی قسم کی ایجادات

    آئن اسٹائن کا ایک اور واقعہ

    آئن اسٹائن کا دوسرااشتباہ

    آئن اسٹائن کی خطا

    ادینگتون کی غلطی

    ارسطو، کپرنیک اور بطلمیوس کی خطائیں

    ارشمیدس کا اشتباہ

۱۸۴

    تیسری قسم کی ایجادات

    جنگی آلات سے بے نیازی

    دوسری قسم کی ایجادات

    علم دنیا مشکلات حل نہیں کر سکتا

    علم ودانش سوداگروں کا آلہ کار

    علم کی محدویت

    مغرب کی تبلیغات

    پوزیدونیوس کا اشتباہ

    کس کی پیروی کریں؟

۱۸۵

 عصر ظہور یا عصر تکامل علم و فرہنگ

دنیا  تیزی سے ترقی و پیشرفت اور علم و دانش کے عظیم اسرار و رموز کے حصول کی آرزو کر رہی ہے اور وہ اس روز کا انتظار کر رہی ہے کہ جن میں عظیم تحوّلات و تغییرات سے دنیا کا چہرہ چمک اٹھے اور کائنات بہشت بریں کا روپ دھارلے۔

یہ خواہش اس وقت پوری ہوگی کہ جب کائنات میں ہر طرف دنیا کے مصلح کی حیات بخش صدا گونجے گی۔اور تمام لوگ حضرت مہدی   علیہ السلام کی آواز سنیں گی۔

اس وقت دنیا میں عظیم تحوّلات کا آغاز ہوجائے گا ۔ حضرت ولی عصر  علیہ السلام  قیام فرمائیں گے وہ غیر معمولی اور حیرت انگیز قوّت سے سرشار پاک انسانوں اور نامرئی اور غیبی طاقتوں کی مدد سے دنیا کی تقدیر بدلنے کے لئے قیام کریں گے۔کچھ ہی مدت میں وہ پوری کائنات کو ظالموں اور ستمگروں کے وجود سے پاک کردیں گے۔پھر انسانی معاشرہ تکامل کی طرف گامزن ہوگا کہ جو ہماری سوچ سے بھی بالاتر ہے۔

ظہور کے زمانے میں عقلی تکامل سے عظیم تمدن وجود میں آئے گا کہ جوہماری قوّت درک سے بڑھ کرہے ۔ ہم حضرت ولی عصر  کی جاودانی حکومت کی عظمت کو کس طرح اپنے ذہن میں تصور کریں؟

کمپیوٹر سسٹم میں ترقی اور کمپیوٹر کے ذریعے اس حقیقت کو ذہن سے نزدیک کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ  کمپیوٹر ہمیں جو سہولیات اور حیرت انگیز چیزیں مہیا کررہا ہے۔آج سے کچھ سال پہلے تک ہم ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

یہ ترقی و پیشرفت ، اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ انسان تکامل کی وجہ سے ایسے عظیم رموز سے پردہ اٹھا سکتا ہے کہ جو ہمارے تصور سے بھی کہیں زیادہ  ہیں۔

۱۸۶

اس بناء پر ہم ایسے دن کے منتظر ہیں کہ جب امام عصر علیہ السلام کی راہنمائی سے انسان اپنے ذہن کی تمام صلاحیتوں کو اجاگر کرکے،ان سے استفادہ کرسکے گااور ظہور کی بہشت بریں میں آخرت کی بہشت کی طرح فقط نیکیوں اور اچھائیوں کو ہی طلب کرے گا اور انہیں ہی انجام دے گا۔

  خاندان نبوت علیہم السلام کی نظر میں مستقبل میں علمی ترقی

اب ہم ایسی روایت بیان کرتے ہیں کہ جو متعدد طرق سے نقل ہوئی ہے ۔ جو اس زمانے میں پوری کائنات کے لوگوں اور تمام شیعوں میں علم و دانش کی وسعت کی گواہ ہے ۔ اما م صادق علیہ السلام  فرماتے ہیں:

'' العلم سبعة و عشرون حرفاً، فجمیع ما جاء ت به الرسل حرفان، فلم یعرف الناس حتی الیوم غیر الحرفین، فاذا قام قائمنا اخرج الخمسة والعشرون حرفاً،فبثها فی الناس، و ضمّ الیها الحرفین،حتی یبثها سبعة و عشرین حرفا '' (۱)

علم کے ستائیس(۲۷) حروف ہیں، جو تمام پیغمبر لائے وہ دو حروف ہیں۔آج تک لوگ ان دو حروف کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ،جب قائم علیہ السلام  قیام کریں گے تو وہ بقیہ پچیس (۲۵) حروف خارج کرکے لوگوں میں پھیلائیں گے اور وہ دیگر دو حرف کا بھی اضافہ کریں گے تاکہ پورے ستائیس (۲۷) حروف لوگوں کے درمیان پھیل جائیں۔

--------------

 [۱] ۔ بحارالانوار: ج۵۲ ص۳۳۶، مختصر البصائر: ۳۲۵، نوادرالاخبار:۲۷۸، الخرائج:۸۴۲

۱۸۷

  روایت کے اہم نکات

اس روایت میں دقت طلب اورقابل توجہ نکات موجود ہیں کہ جو آئندہ کی درخشاں اور علم و دانش سے سرشار دنیا کی حکایت کرتے ہیں۔اب ان میں سے اہم نکات پر غور کریں:

۱ ۔امام صادق عل یہ السلام کا اس حدیث میں یہ فرمانا کہ''فبثها فی الناس''   یہ ایک انتہائی اہم مطلب کی دلیل ہے اور وہ معاشرے کے تمام افراد میں علم کے عام ہونے اور علم کی وسعت سے عبارت ہے۔اس کی دلیل کلمہ ''الناس'' میں موجود الف و لام ہے۔

اس بناء پر اس زمانے میں تمام لوگ علم کے بلند مقام تک پہنچ جائیں گے ۔علم و دانش معاشرے کے بعض مخصوص افراد سے مختص نہیں ہوگا۔اس زمانےمیں دنیا کے تمام لوگ علم کی نعمت سے مستفیض ہوں گے ۔

۲ ۔ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے قیام سے پہلے معاشرے  کے تمام افراد میں علم و دانش عام نہیں ہوگا ۔ بلکہ یہ چند مخصوص افراد سے مختص ہوگا، اور وہ بھی تمام علوم  سے آشنا نہیں ہوں گے۔ بلکہ بعض علوم سے آشنائی رکھتے ہوں گے۔

۳ ۔ تکامل  کے زمانے م یں علم، آج کے زمانے میں علم و دانش کی طرح نہیں ہے ۔ کیونکہ اس زمانے میں علم و دانش کا دامن بہت وسیع ہوگا اور اس زمانے میں معاشرے کے افراد علم ودانش کی تمام انواع واقسام سے آگاہ ہوں گے۔

کلمہ ''العلم'' میں'' الف و لام ''سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے علم کی تمام انواع  و اقسام مراد ہیں۔یعنی جو بھی علم شمار ہو،ان سب کا مجموعہ( ماضی،حال اور قیام سے پہلے اور ظہور کے بعد تک) ستائیس حروف ہیں ۔

۱۸۸

پیغمبروں کے زمانے سے زمانۂ غیبت کے اختتام تک علم و دانش جتنی بھی ترقی کرلے وہ دو حروف سے زیادہ تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ لیکن عصرِ ظہور میں ان کے ساتھ علم کے دوسرے پچیس حروف بھی ضمیمہ ہوں گے۔ پھر لوگ تکامل کی منزل پرپہنچ جائیں  گے ۔(۱)

پیغمبروں کے زمانے سے امام صاددق  علیہ السلام کے زمانے تک اور پھر امام عصر علیہ السلام کے قیام کے زمانے سے پہلے تک جو کچھ بھی ہوگا، وہ علم کے دو حروف ہیں۔

پیغمبروں کے زمانے سے امام صادق  علیہ السلام کے زمانے تک ہونے والی تمام علمی پیشرفت اور امام صادق  علیہ السلام کے وجود سے نکلنے والے علوم کے چشمے اور اس کے علاوہ دیگر علوم کہ جو انہوں نے جابر ا ور اپنے دوسرے خاص اصحاب کو تعلیم فرمائے اور اس کے علاوہ امام زمانہ  کے قیام سے پہلے تک ہونے والی تمام علمی ترقی کے باوجود سب دوحروف سے زیادہ نہیں جانتے۔یہ نکتہ اس وقت حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ جب امام صادق  علیہ السلام  کے وجود سے ظاہر ہونے والے علوم کے  سمندر سے دانشور ابھی تک تعجب میں مبتلا ہیں۔لیکن اس کے باوجود وہ فقط دو حرف ہیں۔

۴۔ اس وقت لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ علم کیا ہے؟اور دانشور کون ہے؟کیونکہ اس زمانے میں علم و دانش کا سرچشمہ وحی ہوگی کہ جو حضرت بقیة اللہ الاعظم(عج) کی عنایات سے لوگوں کو تعلیم دی جائے گی۔

اس زمانے میں لوگوں کے درمیان حقیقی و واقعی علم رائج ہوگا نہ کہ وہ علوم کہ جن کی بنیاد فرض اور تھیوری پر قائم ہوتی ہے۔

--------------

[۱] ۔ اگر ہم ظاہر روایت پر عمل کریں تو علمی ترقی کی حد یہاںتک ہوگی ۔ لیکن اگر روایت کی توجیہ کریں تو عصرِ غیبت کے اختتام تک علم کا مجموعہ ظہور  کے زمانے میں علمی ترقی کے ساتھ قابلِ مقائسہ نہیں ہے ۔

۱۸۹

۵ ۔اس زمانے م یں جھوٹے علم کی کوئی خبر نہیں ہوگی اور دانشوروں کی فریب کاریوں سے معاشرے گمراہ نہیں ہوں گے۔اس زمانے میں علم و دانش لوگوں کی راہنمائی کا ذریعہ ہوگا اور پھر کوئی ''ارشمیدس'' کی طرح ایک ہزار چھ سو سال تک لوگوں کو گمراہ نہیں کرسکے گا۔

اس زمانے میں استعمار کی طرف ضعیف ممالک کے لئے بنائی گئی گمراہ کن اور وقت برباد کرنے والی کتابوں کا وجود نہیں ہوگا اور نہ ہی ڈالر کی طاقت سے لئے گئے نمبر اور سفارش کے زور سے حاصل کی گئی اسناد  اور جعلی ڈگریوں کی کوئی اہمیت ہو گی۔

اس زمانے کے سب لوگ دانشور ہوں گے ۔ تمام دانشورحقیقی علم اور ترقی یافتہ کلچر کے مالک ہوں گے۔جعلی ڈگریوں کے ذریعہ ان کاشمار دانشوروں میں نہیں ہوگا۔

۶ ۔ تمام علوم مکمل ہو کر لوگوں م یں منتشر ہوجائیں گے ۔یعنی لوگوں کے درمیان علم کا ہر شعبہ اپنی اوج میں رائج ہوگا اور لوگ اس سے مستفید ہورہے ہوں گے۔

جس طرح ظہور کے درخشاں ،پُر نور اور بابرکت زمانے میں لوگ اقتصادی ، زراعتی اور امن و امان کے لحاظ سے ترقی یافتہ ہوں گے اسی طرح لوگ علم و دانش سے بھی مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔ ان میںکسی طرح کا علمی فقد ان نہیں ہوگا۔

  روایت کی تحلیل

روایت میں  قابل غور نکتہ یہ ہے کہ پیغمبروںکے زمانے سے معصومین  علیہم السلام کے زمانے تک اور زمانہ ظہور سے پہلے تک علم و دانش یکساں تھا اور ان تمام زمانوں میں علم دو جزء سے  نہ بڑھ سکا اور نہ بڑھ سکے گا۔

کیونکہ امام صادق  علیہ السلام کے فرمان کے مطابق:

۱ ۔ تمام پیغمبر جو علوم لائے وہ فقط دو حروف ہیں۔

۲۔ امام صادق  علیہ السلام کے زمانے تک لوگ علوم کے دو حرف کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے۔

۱۹۰

۳ ۔ جب حضرت قائم  عل یہ السلام قیام کریں گے تو پچیس دیگر حروف خارج کریں گے اور انہیں ان دو حرف کے ساتھ لوگوں میں پھیلائیں گے۔

امام صادق  علیہ السلام کے زمانے میںاور حضرت قائمعلیہ السلام کے ظہور سے پہلے تک علم و دانش، پیغمبروں کے زمانے کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہوگا۔

اب روایت کے ظاہر سے قطع نظرکرتے ہوئے یہ کہنا پڑے گا کہ امام  کی مراد و مقصود کچھ اور تھی کہ جسے راوی نے واضح طور پر بیان نہیں کیا ہے۔

کیونکہ یہ واضح ہے کہ رسول اکرم (ص) اور آئمہ اطہار عل یھم السلام نے  ایسے علوم و معارف تعلیم  فرمائے ہیں کہ جو اس سے پہلے پیغمبروں میں سے کسی نے بیان نہیں کئے تھے۔

رسول اکرم (ص) اور ان کے اوص یاء جو علوم معارف لے کر آئے،کیا یہ وہی علوم تھے کہ جنہیں گزشتہ انبیاء بھی لائے اور خاندانِ نبوت  علیھم السلام نے ان میں کسی قسم کا تحوّل ایجاد نہ کیا اور ان علوم میں کسی چیز کا اضافہ نہ کیا۔

اگر ایسا ہو تو پھر اسلام ،دیگر ادیان پر کیا برتری رکھتاہے؟

کوئی اس بات کا معتقد نہیں ہوسکتا کہ رسول اکرم(ص) کا علم و دانش گزشتہ نب یوں کا ہی علم ہے۔ اس بناء پریہ کہنا پڑے گا کہ اس روایت میں ایک ایسا نکتہ موجود ہے کہ جسے جاننے کے لئے تفکر وتدبر کی ضرورت ہے۔

کیونکہ ظاہر روایت سے علمی ترقی میں ٹھہراؤکا استفادہ ہوتا ہے۔ یعنی پیغمبروں کے زمانے سے آئمہ اطہار علیھم السلام کے زمانے تک اور اس زمانے سے امام عصر علیہ السلام کے قیام سے پہلے تک ایک ہی حالت اور فضا قائم تھی اور امام زمانہ (عج) کے قیام سے یہ انجماد ٹوٹے گا۔

۱۹۱

اگراب  پیغمبروں اور آئمہ اطہار علیھم السلام کے زمانے ( امام عصر کے قیام سے پہلے کے زمانے) میں علم کو ایک ہی طرح کا تصور کریں تو یقینا یہ بہت بڑا اور واضح اشتباہ ہے۔کیونکہ امام صادق  علیہ السلام  اور اسی طرح تمام آئمہ اطہار  علیھم السلام نے بہت سے ایسے علوم بیان فرمائے ہیں کہ جو گزشتہ پیغمبروں کی زبان سے نقل نہیںہوئے تھے۔

اس بناء پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یکساں ہونے کا مطلب علمی مقدار کے لحاظ یکساں ہونا ہے۔لیکن ہم یہ کہہ  سکتے ہیں کہ حصول علم کے لئے جن حواس کی ضرورت ہوتی ہے (یعنی دیکھنے اور سننے کی قوت) ان سے استفادہ کرنے میں اب بھی یکسانیت باقی ہے۔

  پیغمبروں کے زمانے سے اب تک مشترکہ پہلو

انبیاء الہٰی کے ذریعہ ابتدائے خلقت سے اخذ کئے گئے علوم و معارف ان کی تعلیم کا طریقہ اور اسی طرح اب تک خاندانِ عصمت علیھم السلام کے علوم و معارف کی تمام ترقی  پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ سب ایک نقطہ میں مشترک ہیں کہ ان میں کسی قسم کی افزائش اور تغییر وجود میں نہیں آئی۔

کیونکہ تمام انبیاء الہٰی نے لوگوں کو جو علوم و معارف تعلیم دیئے اور اسی طرح رسول اکرم(ص) اور ان کے بعد خاندانِ وح ی  علیھم السلام اور اس کے بعد دانشوروں نے عام لوگوں کی تعلیم دیئے وہ دو حالتوںمیں سے ایک سے خالی نہیں ہے۔

وہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو ان کے مکتب سے بہرہ مند ہوتے ہیں،وہ  یا سمعی طور پر مستفید ہوتے ہیںیا بصری طور پر ۔ یعنی پیغمبروں کے زمانے سے اب تک علم سیکھنے والوں نے یا کتابوں پر لکھنے یا پیغمبروں یا دوسروں سے سن کر علم حاصل کیا۔

البتہ علم حاصل کرنے کی دوسرے راستے بھی ہے کہ جس سے عام لوگ استفادہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔لیکن  بعض افراد  اس طریقہ سے بھی استفادہ کرتے تھے اور کرتے ہیں۔

۱۹۲

پس پیغمبروں کے زمانے سے اب تک ہونے والی علمی ترقی آنکھوں یا کانوں سے استفادہ کرنے سے حاصل ہوئی۔

اس بناء پر ممکن ہے کہ ان دو جزء سے یہ مراد ہو کہ اب تک حصول علم کے یہ ہی دو طریقے تھے اور  حضرت قائم  علیہ السلام  کے قیام سے پہلے تک بھی ایسا ہی ہوگا کہ علم سننے یادیکھنے کے ذریعے حاصل ہوگا ۔ یعنی حصول علم یا سمعی طریقے سے ہو گا یا بصریطریقہ سے ہو گا ۔

تمام لوگ عموماً انہی دو طریقوں سے علم حاصل کرتے ہیں۔لیکن عقلوں کے تکامل سے تحصیل علم کے دیگر ذرائع بھی وجود میں آئیںگے۔جو مذکورہ دو طریقوں کے علاوہ ہوں گے۔

جیسے ملائکہ کے توسط سے دلوں میں القاء ہونے کے ذریعہ،یہ نہ تو سمعی ہے نہ بصری۔بعض  روایات میں اس کی وضاحت بھی ہوئی ہے۔

اگر اس توجیہ کو قبول کریں تو اس زمانے میں ہونے والی علم و دانش کی عجیب پیشرفت سے آگاہ ہوجائیں گے۔کیونکہ روایت کے معنی کی رو سے تحصیل علم کے ذرائع تیرہ گنا زیادہ ہو جائیں گے، نہ کہ مجموعاً علوم تیرہ گنا ہوں گے۔

اب تک علم نے جو ترقی کی ہے۔اگر یہ ظہور کے زمانے میں تیرہ برابر ہوتو انسانوں کے عقلی تکامل کے لحاظ سے یہ بہت کم ترقی ہوگی۔

روایت میں دلائل،یا کم از کم ایسے قرائن موجود ہیں کہ جن سے معلوم ہوگا کہ اما م صادق  علیہ السلام  کی علم کے ستائیس  حرف سے علم کی ستائیس قسمیں مراد نہیں ہیں ۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں پیغمبروں کے زمانے سے حضرت قائم علیہ السلام کے قیام تک علم کے دو حرف ہیں۔

۱۹۳

اگر آنحضرت کی علم کے دو حرف سے مراد علم کے دو جزء ہوں تو پھر پیغمبروں کے زمانے سے لے کر امام زمانہ  علیہ السلام کے قیام سے پہلے تک کسی بھی طرح کی علمی پیشرفت نہیں ہونی چاہیئے اور اس زمانے سے قیام امام عصر علیہ السلام تک لوگوں کو علم کے دو جزء سے بہرہ مند ہونا چاہیئے۔علمی ترقی میںتوقف اور اس میںٹھراؤہونا چاہیئے۔ حالانکہ یہ واضح ہے کہ پیغمبروں کے زمانے سے اب تک اور پھر ظہور کے زمانے تک علم میںہزار گنازیادہ ترقی ہوئی ہے اور دینی اور غیر دینی مسائل میں انسانوں کے علم میں ہزار برابر اضافہ ہوا ہے۔اس بناء پر معلوم ہوا کہ اس سے مراد تحصیل علم کے ذرائع ہیں۔

اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ پیغمبروں کے زمانے سے ظہور  کے زمانے تک انسانوں کے لئے سمعی اور بصری طریقے کے علاوہ کوئی اور ذریعہ موجود نہیں ہے۔البتہ یہ انسانوں کے لئے ہے نہ کہ اولیاء خدا کے لئے۔

کیونکہ انسان پڑھنے،لکھنے یا دروس وتقاریر سننے یا کمپیوٹر ،ٹی وی،ریڈیو اور دیگر وسائل سے استفادہ کرکے علم حاصل کرتا ہے اور یہ سب سمعی یا بصری طریقوں سے خارج نہیں ہیں۔

اگر امام صادق علیہ السلام  اس زمانے میں فرماتے کہ تحصیل علم کے ستائیس طریقے ہیں اسے کتنے لوگ قبول کرتے حتی کہ اس موجودہ زمانے میں بھی کتنے لوگ اس مطلب کو پوری طرح قبول کرتے ہیں؟

ایک دوسرا بہترین نکتہ جس پر دقت کرنا ضروری ہے،وہ یہ ہے کہ اکثر کتابیں کہ جس میں اس روایت کو نقل کیا گیا ہے، وہاں حرفاً یا حرفین کی تعبیرذکر کی گئی ہے اور حرف و حروف خود علم سیکھنے کا وسیلہ ہیں۔

ممکن ہے کہ حرف سے تعبیر کرنے سے امام کی مراد علم سیکھنے کا وسیلہ ہو نہ کہ حروف اور حرفین سے ایسا معنی مراد ہو کہ جو ابتداء ًہمارے ذہن میں آتاہے۔

۱۹۴

جس طرح کبھی آیات و روایات میں کلمہ وکلمات کے دو لفظ ہمارے ذہن میں  پہلے سے موجود معنی کے علاوہ دوسرے معنی میں استعمال ہوتے ہیں  اور اس سے مراد وہ الفاظ و حروف ہیں کہ زبان کے ذریعہ جن سے تکلم کیا جاتا ہے۔ پس اگر رسول اکرم(ص)اور اہلب یت اطہار علیہم السلام اور اسی طرح حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کے بارے میں ''کلمة اللہ''سے تعبیر ہو تو اس کلمہ سے مراد الفاظ و حروف نہیں ہیں۔

اگر ہم کلمہ و کلمات کے ذریعے اپنا ارادہ ظاہر کرتے ہیں اور کلمہ و کلام ہمارے ارادے کا مظہر ہے تو کلمة اللہ بھی ایسی چیز ہے کہ جن کے ذریعہ خدا وند تعالیٰ کا ارادہ خارج میں ظاہر ہوتا ہے۔اسی وجہ سے اہل بیت اطہار علیہم السلام کے بارے میں ''کلمات اللہ'' سے تعبیر ہوئی ہے۔(۱)

اگرچہ حروف کا بھی اوّلی معنی کچھ اور ہے کہ جو الفاظ کو تشکیل دیتے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں یہ دوسروں کو علم و دانش سکھانے کا ذریعہ ہیں۔حضرت امام ہادی علیہ السلام اس آیت'' وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَام وَالْبَحْرُ یَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّهِ ِنَّ اللَّهَ عَزِیْز حَکِیْم '' (۲) کے بارے میں  فرماتے ہیں:

'' نحن الکلمات التی لا تدرک فضائلنا ولا تستقصی '' (۳) ہم کلمات خداوند ہیں کہ ہماری فضیلتیںدرک نہیں ہوسکتیں اور ان کی کوئی انتہانہیں ہے۔

اس توضیح کی بناء پر علم کے ستائیس حرف،یعنی علم و دانش کے حصول کے ستائیس ذرائع ہیں ۔ اگرچہ انسان ظہور سے پہلے دو طریقوں سے علم حاصل کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔لیکن عصرِ ظہورمیں حصول علم کے ستائیس ذرائع مہیّا ہوں گے۔

--------------

[۱]۔ شرح دعا ء سمات:۴۱ از مرحوم آیت اللہ سید علی قاضی

[۲]۔ سورہ لقمان، آیت:۲۷

[۳]۔ بحارالانوار:ج۵۰ ص ۱۶۶

۱۹۵

حصول علم کے دیگر ذرائع

۱۔ حس شامہ

حواس میں سے ایک دحس شامہ یا سونگھنے کی حس ہے۔جس کے تکامل کی صورت میں انسان اس کے ذریعے افراد سے بہت زیادہ علم و آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔

بعض افراد سامعہ اور باصرہ حس کے علاوہ حس شامّہ کے ذریعہ بھی بہت سے مطالب درک کرکے اپنے علم میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

اگر آپ نے غور کیا ہو تو روایات میں وارد ہوا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

''تعطّروا بالاستغفار ولا تفضحکم روائح الذنوب '' (۱)

استغفار کے ذریعہ خود کو معطر کرو تاکہ گناہوں کی بو تمہیں رسوا نہ کرے۔

بعض افراد بعض لوگوں کی سانسوں کی بوسونگھ کر اس کے انجام دیئے گئے اعمال سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔اسی لئے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا کہ استغفار کرو تاکہ تم نے جو گندے اعمال انجام  دیئے ہیں ،ان سے دوسرے آگاہ نہ ہوں۔

--------------

[۱] ۔ بحارالانوار: ج۶ص۲۲

۱۹۶

۲۔ حس لامسہ

ہمیں معلوم ہے کہ انسان کے بدن کے اطراف کو کچھ دائروں نے احاطہ کیا ہوا ہے کہ جن کے رنگ اور کیفیت سے کسی شخص کے اعمال و رفتار سے آگاہ ہوا جاسکتا ہے۔

جو انسان کے گرد ان دائروں اور ان کی انواع و اقسام کی پہچان رکھتا ہو،وہ مدمقابل کی شخصیت سے آگاہ ہوسکتا ہے اور وہ اس کے بارے میں جان سکتا ہے کہ وہ کیسا شخص ہے۔

انسان کے اطراف ِ بدن میںان دائروں کا مرکز زیادہ تر ہاتھ ہوتا ہے۔اسی وجہ سے بعض افراددوسرے سے ہاتھ ملاکر اور اس سے لمس کر کے اس کے افکار بتا سکتے ہیں اور اس کے حالات سے بھی باخبر ہوجاتے ہیں۔اس بناء پر حس شامہ بھی علم و آگاہی کے بہت مؤثر اسباب ہیں۔بعض افراد دوسرے کا لباس اور اس کی زیرِ استعمال کسی چیز کو پکڑ کر اس کی شخصیت اور اس کی نفسیات و حالات کی خبر د سکتے ہیں۔مختلف کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات لکھے گئے ہیں۔

۳۔ حس ذائقہ

حس ذائقہ بھی حصول علم کے لئے مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔اولیاء خدا سے نقل ہونے والے واقعات میں تصریح ہوئی ہے کہ وہ کھانا کھانے سے، اس کے پکانے والے کے حالات سے آگاہ ہو جاتے اور اس کی خبر دیتے تھے۔

اس بناء پر حواس خمسہ کے قدرت مند ہونے اور( نہ صرف آنکھوں اور کانوں سے)  ان سب کی حقیقی و واقعی حیات حاصل ہونے سے انسان ان سب کو علم کے حصول کا ذریعہ قرار دے سکتا ہے۔ اسی طرح انسان باطنی حواس کے ذریعے سے بھی علم حاصل کرسکتا ہے۔

۱۹۷

۴۔ حواس کے علاوہ دیگر ذرائع سے علوم سیکھنا

ایک بہترین اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ سمع و بصر کے ذریعہ علم حاصل کرنا،انسان کی حسی قوّت  سے استفادہ کرناہے اوریہ دونوں انسان کے ظاہری حواس خمسہ میں سے ہیں۔لیکن ظہور کے زمانے میں (جو دلوں کی حیات،عقلوں کے تکامل کا زمانہ ہوگا)انسان حواسِ خمسہ سے بڑھ کر دیگر ذرائع سے بھی علم حاصل کرسکے گا۔

ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس میںغور کرنے سے معلوم ہوگا کہ دل کی حیات اور تکامل عقل علم و دانش کے حصول کی راہوں کو کھول دیتی ہے۔لہذا اس زمانے میں جب (جب اکثر افراد  قلبیحیات اور عقلی تکامل کے مالک ہوں گے) علم فقط دیکھنے اور سننے میں ہی منحصر نہیں ہوگا۔بلکہ انسان حس سے بڑھ کر دیگر ذرائع سے اپنے علم میں اضافہ کرے گا۔قلبی مشاہدات جو کہ حیات قلبی سے حاصل ہوتے ہیں ، ماوراء حس سے علم حاصل کرنے کا بہترین نمونہ ہے۔ ظہور کے درخشاں،منوّراور علم و دانش سے سرشار زمانے میں انسانی حیات قلب کی وجہ سے حس سے بڑھ کر دیگر قدرت تک رسائی حاصل کرے گا ۔ یوں وہ اپنے علم ،دانش اور فرہنگ میں اضافہ کرے گا۔

ظہور کے بابرکت زمانے میں انسان نہ صرف آنکھ اور بصارت کے ذریعہ بلکہ قلب و بصیرت کے ذریعہ بھی علوم و معارف حاصل کرسکے گا۔زمانہ ظہور میں دیگر حواس کے فعّال ہونے اور حس سے بڑھ کر حصولِ علم کے دوسرے دروازے کھلنے سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ حصولِ علم کے ذرائع صرف آنکھ اور کان ہی میں منحصر نہیں ہیں۔

اس زمانے میں دیگر ذرائع جیسے القاء بھی سب کو میسر ہوں گے۔سب اس سے استفادہ کریں گے ۔ جیسا کہ روایت میںوارد ہوا ہے۔آج اپنے شعبہ میں ماہر ،متخصص دانشور دیگر علوم درک کرنے سے ناتواں ہے۔

۱۹۸

کیونکہ حصولِ علم کے فقط دو ذرائع ہیں،سمع و بصر۔ جو تمام لوگوں میں علم کے فروغ اور اسی طرح دانشوروں میںبھی حصول ِ علم کے لئے محدودیت ایجاد کرتا ہے لیکن دلوں کے پاک ہونے، تہذیب واصلاحِ نفس،شیطان کی موت اور عقلوں کے تکامل سے عام لوگوں کے لئے بھی حصولِ علم کی دوسری راہیں بھی فراہم ہوں گی۔ پھر لوگ سمع و بصر کے علاوہ دوسری راہوں سے بھی علم حاصل کرسکیں  گے۔

  زمانہ ظہور میں حیرت انگیز تحوّلات

خدا ہی جانتا ہے کہ علمی ترقی اور عقل و خرد کے تکامل سے دنیا میں کیسی عظیم تبدیلیاں رونما ہوں گی ۔ عالمِ خلقت اور کائنات کے کون کون سے اسرار و رموز آشکار ہوں گے۔

غیبت کے تاریک زمانے میں کبھی ایک چھوٹی سی اختراع  و ایجادسے عصرِ غیبت کے لوگوں کے افکارمیں عجیب تحولات ایجاد ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر دوربین اور خود بین کی ایجاد انسانوں پر کس قدر اثر انداز ہوئی؟اس سے ستاروں اور زمین کی کیفیت کے بارے میں دانشوروں اور فلاسفہ کے افکار و نظریات میں کتنی تبدیلی آئی؟

اس سے انسان کے علم و آگاہی میں کتنا اضافہ ہوا؟

اسی طرح ظہور کے پُر نور زمانے میں علم و تمدن کے تکامل کی وجہ سے رونما ہونے والی ایجادات سے عالم خلقت اور کائنات کے اسرار کے بارے میں انسان کے علم میں کتنا اضافہ ہوگا۔ہم غیبت کے تاریک زمانے میں اسے تصور کرنے کی توانائی نہیں رکھتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس زمانے میں کیسی اختراعات وجود میں آئیں گی اور اس کے آثار کس حد تک ہوں گے؟

سائنس دان اب بھی ''ماوراء طبیعت ، وقت کی سرحدوں سے عبور اور عالم غیب تک رسائی '' جیسے مسئلوں کو حل نہیں کر پائے ہیں؟

۱۹۹

کیا آپ جانتے ہیں یہ راز حل ہونے اور اس اسرار کے فاش ہونے سے عالم خلقت میں کیسی عجیب تبدیلیاں رونما ہوں گی؟ کیا ہم زمانہ غیبت کی ناچیز آگاہی سے اس کی عظمت سے آگاہ ہوسکتے ہیں؟

  خاندانِ اہلبیت علیہم السلام کا علم

مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کے اعتقادکی بناء پر ہر دور کے انبیاء ،اس دور کے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ علم ودانش کے مالک ہوتے ہیں۔کوئی دانشور اور عالم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔بحث و مناظرہ  میں  انبیاء انہیں مغلوب کردیتے ہیں۔

اسی طرح آئمہ اطہار علیہم السلام  کا علم بھی ہر دور کے علماء سے زیادہ ہوتا ہے۔کسی بھی بڑے عالم کا علم ، ان کے علم سے قابل مقائسہ نہیں ہے۔

دوسرے لوگوں پر انبیاء اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے علم کی برتری کہ یہ وجہ  ہے کہ ان کاعلم اکتسابی نہیں  ہے۔انہیں علم تحصیل کے ذریعہ حاصل نہیں ہوا۔بلکہ ان کا علم لدنّی ہے ۔ جو انہیں خدا وند مہربان کی طرف سے عطاہو اہے۔

اس بناء پر وہ بزرگ ہستیاں علم مخزوں اور عالم غیب کے عالِم ہیں، اسی وجہ سے ان کا علم ، دوسروں کے علم سے برتر ہے۔

اگر چہ آئمہ اطہا رکے علم اور اس کی حدود کے بارے میں روایات مختلف ہیں ۔ جن کے بارے میں بحث اور تجزیہ و تحلیل بہت طولانی ہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں: آئمہ علیھم السلام کے مخاطبین ان کی سطح علمی و ظرفیت اور اسے قبول کرنے کی طاقت میں اختلاف کی وجہ سے اس بارے میں روایات بھی مختلف ہیں۔

۲۰۰

ہم کہتے ہیں: حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کا علم دنیاکے تمام لوگوں کے علم سے برترہے۔ آنحضرت  تمام علوم کے مالک گے۔ آنحضرت کی زیارت میں وارد ہوا ہے:

'' انک حائز کلّ علم '' (1)

آپ ہر علم کے مالک ہیں۔

زیارت ندبہ میں پڑھتے ہیں:

'' قد أتاکم اللّه یا آل یاسین خلافته، وعلم مجاری أمره فیما قضاه،و دبّره ورتّبه و اراده فی ملکوته '' (2)

اے آل یٰسین!خدا وند نے اپنی جانشینی کا مقام آپ کو دیا ہے۔عالم ملکوت میں اپنے حکم اور اس کے جاری ہونے کی جگہ اور تدبیر و تنظیم کا علم آپ کو دے دیا ہے۔اس زیارت شریف میں آنے والے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اہلبیت علیھم السلام کے علممیںنہ صرف عالم ملک بلکہ عالم ملکوت بھی شامل ہیں۔عصرِ ظہور کی برکتوں کے بارے میںوارد ہونے والی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) عالم ملکوت کی بھی تکمیل فرمائیں گے۔اس بناء پر آنحضرت  کے قیام کا صرف ملکی و مادی پہلو نہیں ہے۔بلکہ وہ عالم ظاہر کے علاوہ باطن و نامرئی عالم کی تکمیل فرمائیںگے۔جس میں غیر مرئی عالم کی موجودات بھی آپ  کے پرچم تلے آجائیں گے۔علمِ امام کا مسئلہ معارفِ اہلبیت علیہم السلام کے باب میں بہت اہم مسئلہ ہے۔اس کی حدود و کیفیت کے بارے میں بہت سے ابحاث مطرح ہوئے ہیں کہ جن کا تجزیہ و تحلیل اس کتاب کے موضوع سے خارج ہے ۔ اس بناء پر ہر دور کا اما م  اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے اعلم ہوتا ہے۔

--------------

[1]۔ مصباح الزائر:437، صحیفہ مہدیہ:630

[2]۔ بحارالانوار: ج۹۴ص۳۷، صحیفہ مہدیہ: 571

۲۰۱

اس زمانے کے تمام دانشوروں کو چاہیئے کہ وہ علوم وصنایع کے ہر شعبے میں اپنی مشکلات ائمہ اطہار علیھم السلام کے توسط سے برطرف کریں۔کیونکہ مقامِ امامت اور رہبری الہٰی کا لازمہ یہ ہے کہ وہ ہر علم میں سب لوگوں سے زیادہ اعلم ہوں۔یہ خود امام  علیہ السلام کے فضائل میں سے ایک ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس مفضول کو فاضل پر مقدم کرنا لازم آتا ہے۔

اس بیان سے واضح  ہوجاتا ہے کہ ظہور سے پہلے تک جتنی بھی علمی ترقی و پیشرفت ہوجائے،پھر بھی امام  کا علم اس سے زیادہ ہوگا۔اب ہم جو روایت ذکر کررہے  ہیں۔اس میں یہ مطلب صراحت سے بیان ہوا ہے۔حضرت امام رضا  علیہ السلام فرماتے ہیں:'' انّ الانبیاء والائمّة علیھم السلام یوفّقھم اللّٰہ و یؤتیھم من مخزون علمہ و حکمتہ مالایؤتیہ غیرھم، فیکون علمھم فوق علم اھل زمانھم فی قولہ عزّوجلّ:

''أَفَمَن یَهْدِیْ ِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَن یُتَّبَعَ أَمَّنْ لاَّ یَهِدِّیْ ِلاّٰ أَنْ یُهْدٰی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ'' (1)

یقینا خدا وند انبیاء و آئمہ کوتوفیق عنایت کرتا ہے اور اپنے علم و حکمت کے خزانے سے انہیں علم عطا کرتا ہے کہ جو اس نے ان کے علاو ہ کسی کو عنایت نہیں کیا۔اسی وجہ سے ان کا علم ہر دور کے لوگوں کے علم سے زیادہ ہوگا۔

یہ آیت اس حقیقت پردلالت کرتی ہے:

کیا جو شخص لوگوں کو راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ ہدایت کازیادہ حقدار ہے یا وہ جو سیدھے راستے پر نہیں آتا ہے ،مگر یہ کہ کوئی اس کی راہنمائی کرے؟اس بناء پرکسی بھی شعبے میں علوم جتنی بھی ترقی کرلیں،وہ سب امام کے وسیع علم کے دامن میں شامل ہوں گے۔جس طرح دریابارش کے قطروں کو اپنے اندر جگہ سمو لیتا ہے اور خود قطرے کا وجود مٹ جاتا ہے۔اسی طرح تمام علوم و فنون بھی امام کے بحر علم میں فناہوجائیں  گے۔

--------------

[1]۔ سورہ یونس آیت:35، کمال الدین 689، اصول کافی:ج۱ص۲۰۲

۲۰۲

جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ ظہور کے پُر نور زمانے میں پوری دنیا میں برہان و استدلال عام ہوگا۔پوری کائنات میں سب انسان منطق و استدلال سے صحیح علم و دانش سے سرشار ہوں گے ۔ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے یاور اپنے بیان و گفتار سے اپنے مخالفین کو راہ راست پر لائیں گے اور حقیقت کی طرف ان کی راہنمائی کریں گے۔

آنحضرت  بھی اپنی گفتار سے لوگوں کی مکتب اہلبیت  علیہم السلام کی طرف ہدایت فرماکردنیا کو جدید علم ودانش سے سرشار فرمائیں گے۔یوں وہ حق کو ظاہر اور باطل کونابود کریں گے اور انسانوں کے دلوں کو ہر قسم کے شک  و شبہ سے پاک کریں گے۔یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کی امام نے تصریح فرمائی  ہے اور اسے اپنی توقیعات میں بیان فرمایا ہے:

حضرت بقیة اللہ الاعظم  (عج) نے اپنی ولادت کے پہلے گھنٹے میں فرمایا:

''زعمت الظلمة انّ حجّة اللّه داحضة ولو اُذن لنا فی الکلام لزال الشکّ '' (1)

ظالم گمان کرتے ہیں کہ حجت خدا باطل ہوگئی ہے۔اگر ہمیں بولنے کی اجازت دی جائے تو شکوک  برطرف ہوجائیں گے۔

یہ واضح ہے کہ شک کے برطرف ہونے سے دل ایمان و یقین سے سرشار ہوجائے گا۔قلب کے یقین سے سرشار ہونے سے اہم حیاتی اکسیر تمام لوگوں کے اختیار میں ہوگی، جو انسان کی شخصیت کو تکامل بخشے گی۔

  علوم کے حصول میں امام مہدی علیہ السلام کی راہنمائی

ظہور کے پُر نور ، درخشاں، بابرکت، عقلوں کے تکامل،دلوں کی پاکیزگی تلاش وکوشش،علم و دانش اور تمام خوبیوںسے سرشار زمانے کی آشنائی اور اس زمانے میں رونما ہونے والے عظیم تحوّلات و تغیّرات کی آگاہی کے لئے ان سوالوں پر توجہ کریں۔

--------------

[1]۔ الغیبة شیخ طوسی:147

۲۰۳

دنیا کے سر بہ فلک چوٹیوں اور بلند وبالا پہاڑوں ،وسیع و عریض صحرائوں ،دریائوں کی طغیانیوں اور سمندر کی گہرائیوں میں کون کون سی اور کیسی کیسی عجیب مخلوقات زندگی گزاررہی ہیں؟

ان میں کیسے حیرت انگیز اور عجیب حیوانات موجود ہیں؟

کیا عالم خلقت کے رموز کی شناخت ممکن ہے؟

ان تمام موجودات کے اسرار خلقت سے کس طرح آگاہ ہوسکتے ہیں؟

کیا جن کے سامنے خلقت ہوئی ہے ان کے علاوہ کوئی ان سب سے آگاہ ہوسکتا ہے؟

کیا اس زمانے میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے علاوہ کو ئی ان تمام سوالوں کے جواب دینے کی قدرت رکھتا ہے؟

جی ہاں!ظہور کے بابرکت زمانے میں امام زمانہ  علیہ السلام دنیا کو برہان و استدلال کے ذریعہ علم و آگاہی سے سرشار کردیں گے۔پوری کائنات میں دنیا کے لوگوں کو دلیل و برہان کے ساتھ علم وآگاہی اور دانش و فہم سے آرستہ فرمائیں گے۔

حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ، حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے اس اہم مطلب کے بارے میں فرماتے ہیں:

'' یملأ الارض عدلاً وقسطاً و برهاناً '' (1)

آنحضرت  دنیا کو عدل و انصاف اور برہان سے بھردیں گے۔

اس زمانے میں دنیا کے لوگ ایک رات میں سو سال کا سفر طے کریں گے اور جو نکات پوری زندگی میں نہیں سیکھ سکتے، چند کلمات کے ذریعہ ان نکات سے باخبر ہوجائیں گے۔

علم و آگاہی کے زمانے میں علم و فہم کی ترقی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہم ایک سوال مطرح کرتے ہیں:

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج۴۴ص۲۱، ج۵۲ ص۲۸۰

۲۰۴

اگر کوئی شخص کسی وسیع موضوع کے بارے میں تحقیق اور اس کے تمام اہم نکات سے آگاہ ہونا چاہے لیکن اگر وہ ا س موضوع  کے ماہر، شفیق استاد جیسی نعمت سے محروم ہو اور مددگار کتب بھی دستیاب نہ ہوں تو اسے کتنی طولانی تحقیق و جستجو کرنا ہو گی اور کس قدر ناکام تجربات سے گزرنا ہو گا۔تب شاید کہیں وہ کسی حد تک اپنے مقصد کے نزدیک  پہنچ سکے؟

لیکن اگر یہی شخص کسی دانا اور ماہر استاد سے استفادہ کرتا تو وہ بہت کم مدت میں اس موضوع کے بارے میں سیر حاصل مطالب سے آگاہ ہوسکتا تھا۔

بالفاظ دیگر انسان دو طرح سے علم و دانش سیکھ سکتا ہے۔

1 ۔ اس علم کے ماہر اور متخصص استاد سے علم حاصل کرسکتا ہے۔

2 ۔اگر اسے اس علم کے بارے م یں استاد یا کتب مہیا نہ ہوں تو پھر جستجو اور تجزیہ و تحلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔پھر تلاش و کوشش کے ذریعہ تحقیق کرنی چاہیئے تاکہ اگر ممکن ہو تو انسان اپنے ہدف  اور نتیجہ تک پہنچ سکے۔

حصول علم کی راہ میں تجزیہ و تحلیل اور تعلیم (استاد کے ذریعہ علم حاصل کرنا) کا فرق واضح ہے۔ہم یہاں ان کے دو اہم ترین فرق بیان کرتے ہیں:

1 ۔آگاہ اور ماہر استاد سے استفادہ کرنے کی صورت میں طولانی اور زیادہ وقت صرف کرنے والی تحقیق کے بغیر سرعت سے علوم کو حاصل کریا جا سکتا ہے۔

2۔ وقت تلف کرنے والی بے نتیجہ تحقیق کے بغیر ماہر استاد سے علم و دانش کا قطعی نتیجہ حاصل کرنا۔

۲۰۵

  حصولِ علم میں حضورِ امام مہدی علیہ السلام کے اثرات

ظہور کے زمانے کے انسانوں کو بے نتیجہ اور وقت ضائع کرنے والی تحقیق کی ضرورت نہیں ہوگی۔کیونکہ امام حسن مجتبیٰ  علیہ السلام  کے فرمان کے مطابق ،اس روز دنیا دلیل کے ساتھ علم و دانش اور معارف سے سرشار ہوگی۔

جی ہاں! اگر لوگ معاشرے میں ظہور و حضور امام  کی نعمت سے بہرہ مند ہوں تو وہ بہت جلد عظیم علمی منابع تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔وہ علم لدنّی کے ذریعہ علم برہانی حاصل کریں گے اور یوں وہ قطعی نتائج تک پہنچ جائیں گے۔

اب اس مطلب کو کاملاً واضح کرنے کے لئے حیوانات کی مختلف انواع کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔پھر ایک روایت نقل کرنے کے بعد بحث سے نتیجہ اخذ کریں گے۔

جیساکہ ہم نے کہا کہ دریائوں کی گہرائی پہاڑوں کی بلندی اور صحرائوں کی وسعت میں  بہت سی  عجیب مخلوقات موجود ہیں ۔ یہ مخلوقات اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں کہ ہمارے لئے ان کی زندگی گزارنے کی راہ و روش ، خصوصیات اور ان کی تولید نسل کی شناخت کرنا ممکن نہیں ہے۔اب تک کی تحقیق کے مطابق ہماری دنیا میں86000 پرندے زندگ ی گزار رہے ہیں۔(1)

حشرات الارض میں سے اب تک چار لاکھ کی شناخت ہوچکی ہے کہ جن میں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ اقسام ایران میں بھی موجود ہیں۔حیوانات کی اتنی کثیر انواع و اقسام ہیں کہ اگرکوئی حیوان شناسی کے علم میں دنیا میں موجود لاکھوں اقسام کے حیوانات میں افزائشِ نسل کے عمل کو جاننا چاہے کہ ان میں افزائشِ نسل کا عمل کیسے ہوتا ہے؟

--------------

[1] ۔ ان پرندوں میں سب سے بڑا پرندہ افریقی شتر مرغ ہے۔ لیکن یہ پرواز نہیں کرسکتا۔کیونکہ متوسط لحاظ سے اس کا وزن 135 کلو اس کا قد 40/2ہے دقیق اطلاعات کے مطابق زمین پر سب سے زیادہ عمر گزارنے والا پرندہ کوّا ہے اور اس کے بعد دریائی کوّا ہے۔ دائرة المعارف 1001 جذاب نکات:263

۲۰۶

ان میں سے کون سے حیوانات انڈے دیتے ہیں اور کون سے بچے۔

تو اس کے لئے  لاکھوںبرس کی تحقیق و جستجو کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ دریائوں، صحرائوں، سمندروں اور پہاڑوں میں زندگی گزارنے والے لاکھوں حیوانات کی کس طرح آشنائی حاصل کرسکتے ہیں؟

لیکن اگر یہ ہی شخص یہ مطالب تحقیق و جستجو اور تجربہ سے نہیں بلکہ کسی ایسے سے سیکھے کہ جو اسرارِ خلقت سے آگاہ اور مخلوقات کی خلقت کاشاہد ہو تو یہ چند لاکھ سالوں کی نا ممکن تحقیق سے حاصل ہونے والے مطالب دو منٹ میں جان سکتا ہے؟اس حقیقت کی مزیدوضاحت کے لئے اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

مرحوم حاجی معتمد الدولہ فرہاد میرزا اپنے مجموعہ میں امیر کمال الدین حسین فنائی کی مجالس سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے ام جابر سے پوچھا کس چیز کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟

اس نے عرض کی میں چرندوں اور پرندوں کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے کون انڈے دیتے ہیں اور کون بچے؟امام  نے فرمایا: اس کے بارے میں اتنا سوچنے کی ضرورت نہیں۔

لکھو! جن حیوانات کے کان باہر کی طرف ہوں، وہ بچے دیتے ہیں اور جن کے کان اندر کی طرف ہوں اورسر سے چپکے ہوں ،وہ انڈے دیتے ہیں۔''ذلک تقدیر العزیز العلیم ''

باز اگرچہ پرندہ ہے اور اس کے کان اندر کی طرف ہیں ۔ لہٰذا وہ انڈے دیتا ہے۔ کچھواچرندہ ہے ۔ چونکہ وہ بھی اسی طرح ہے لہٰذا وہ بھی انڈے دیتا  ہے۔ چمگادڑکے کان باہر کی طرف ہیں اور سر سے بھی چپکے ہوئے نہیں ہیں ۔ لہٰذا وہ بچہ دیتی ہے۔(2)

--------------

[2]۔ گلزار اکبری:626

۲۰۷

اس عمومی قانون کی رو سے حیوان کا پرندہ ہونا، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ،چونکہ وہ پرندہ ہے ۔ لہٰذا وہ انڈے دے گا۔اسی طرح حیوان کا چرندہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ بچے دے گا۔کیونکہ ممکن ہے کہ اگرچہ اس کے پستان ہوں۔

لیکن اس کی افزائش نسل انڈے دینے کے ذریعے ہوتی ہو نہ کہ بچے دینے سے۔

حیوانات میں سے ایک بہت عجیب قسم کا حیوان ہے۔ اس کی مرغابی کی طرح چونچ ہے ۔  لہٰذا وہ ''اردکی'' کے نام سے معروف ہے۔اگرچہ اس حیوان کے پستان ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پرندوں کی مانند انڈے دیتا ہے۔ اب اس بیان پر توجہ کریں۔

ممکن ہے کہ ''اردکی ''حیوانات میں  سب سے زیادہ عجیب نہ ہو لیکن عجیب ضرور ہے یہ ایک پستان دار جانور ہے اور تمام پستان والے حیوانات کی طرح اس کی کھال  ہے اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔لیکن اس کی مرغابی کی طرح چونچ  اور اس کاپرہ دار پنجہ بھی ہے۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ ہے کہ یہ حیوان تمام پرندوں کی مانند انڈے دیتا ہے۔یہ حیوان آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے۔جس کی لمبائیتقریباً50 سینٹی میٹر ہے۔ اس کی چونچ بہت نوکیلی اور تیز ہے ۔ نہاتے وقت یہ اپنی چونچ پانی سے باہر رکھتا ہے اور اسی کے ذریعہ سانس لیتا ہے۔یہ نہروں میں رہتا ہے۔اس کی مادہ وہاں انڈے دیتی ہے اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔ (1) ہم نے گزشتہ ابحاث میں ظہور کے زمانے کی ایک اہم خصوصیات بیان کی ۔ جو اس زمانے کے تمام معاشروں میں علم کا عام ہونا ہے اور ہم نے جو مطالب یہاںذکر کئے ہیں، ان سے عصر ظہور کی دو دیگر خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے ۔

1 ۔ زیادہ وقت لینے والی تحقیق و جستجوکے بغیر سرعت سے علوم کا حصول۔

2 ۔ بے حاصل اور بے نت یجہ تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے بغیرتعلیم کا قطعی نتیجہ حاصل کرنا۔

یہ واضح سی بات  ہے کہ زمانۂ ظہور کی ان دو خصوصیات سے انسان کو کس قدر علمی ترقی اور معاشرہ کو بلندی حاصل ہو گی۔

--------------

[1]۔ شگفتی ہای آفرینش:20

۲۰۸

  زمانۂ ظہور کی ایجادات

ہم نے عرض کیا کہ ظہور کے زمانے کی خصوصیات میں سے ایک سرعت سے علم و دانش کا حصول ہے ۔ اس بابرکت زمانے میں لوگ آسانی سے دقیق علمی مطالب تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔

اس زمانے میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی ہدایت و راہنمائی حصولِ علم کی سرعت کا اصلی عامل ہوگا ۔ اس کے علاوہ رشد اور علمی ترقی ایک اور اہم سبب بھی ہوگا اور وہ بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام  کے بابرکت وجود مبارک کے طفیل سے ہوگا جو کہ تکامل عقل اور فکری رشد ہے۔

حضرت ولی عصر کی کریمانہ وعادلانہ حکومت میں لوگ عقلی اور فکری رشد کے مالک ہوں گے۔

عقلی تکامل کی بحث میں ہم نے اس نکتہ کی تصریح کی ہے کہ زمانہ ظہور و تکامل میں انسان کو حاصل ہونے والی مہم آزادی میں سے ایک عقلی آزادی ہے کہ اس زمانہ میں عقل اسارت کی زنجیر سے نجات حاصل کرلے گی۔

اس منور زمانے میں سپاہِ نفس،قوہ عقل کی زنجیروں میں قید ہوجائے گی ۔ اس وقت عقل،نفس پر حاکم ہوگی۔ عقلی آزادی سے انسان بزرگ افکار تک رسائی اور بچگانہ افکار سے رہائی حاصل کرلے گا۔

اسی وجہ سے ہم معتقد ہیں کہ اور تفکر معاشرے کے افراد کے لئے زمانہ ظہور کی اہم خصوصیات اور   خصلتوں میں سے گہری نظر اور بزرگ افکار ہیں۔

یہ بھی  واضحات میں سے ہے کہ جب معاشرے کے افراد میں بزرگ افکار اور دقیق سوچ و فکر کی صلاحیت پیدا ہوجائے تو پھر نہ صرف دینی معارف بلکہ ٹیکنالوجی ، صنعت اور دیگر علوم و فنون میں کیسے حیرت انگیزبدلاؤ ایجاد ہوں گے۔

غیبت کے زمانے کے دوران لاکھوں افرادنئے نکات اور نئی ایجادات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر کچھ محدود افراد ہی اپنے ارادے اور کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں۔

۲۰۹

لیکن عقلی  تکامل کے زمانے میں انسان کمال کے اعلی ٰ ترین درجات پر فائز ہوگا۔ زمانۂ ظہور کے لوگوں کی فکر مؤثر ثابت ہوگی اور وہ جس چیز کے لئے کوشش کریں، جلد ہی اس تک رسائی حاصل کرلیں گے ۔

  اس بارے میں زیارت آل یٰس کے بعد دعا سے درس

حضرت امام  مہدی علیہ السلام کی بہت اہم زیارات میں سے ایک زیارت آل یٰس اور اسی طرح اس کے بعد پڑھی جانے والی دعا ہے جس میں معارف اور اعتقادی مسائل کا بہت بڑا خزانہ مخفی ہے۔اس کے علاوہ اس میں تکامل یافتہ انسانوں کی قدرت کے بارے میں بہت اہم نکات موجود ہیں۔

جو بھی اس زیارت اور اس کے بعد والی دعا پڑھے،وہ خدا وند متعال سے چاہتا ہے کہ اسے بلند مراحل و مقام پرپہنچا دے ۔ اگرچہ ممکن ہے کہ دعا پڑھنے والا کچھ پڑھ رہا ہو وہ اس کی اہمیت و عظمت کی طرف متوجہ نہ ہو۔

یہاں ہم اپنی بحث سے مربوط اس کا ایک نمونہ بیان کرتے ہیں؛

زیارت آل یٰس کے بعد پڑھی جانے والی دعا میں ہم خدا کے حضور عرض کرتے ہیں:

'' و فکری نور النیّات، وعزمی نور العلم '' (1)

میری فکر کو تصمیم و ارادوں کا نور اور میرے عزم و ارادے کو علم کا نور عنایت فرما۔

ممکن ہے کہ اب تک سیکڑوں یا ہزاروں بار یہ دعا پڑھی ہو۔لیکن ابھی تک ہم نے اپنی درخواست اور اس کی عظمت پر غور نہیں کیا ہے ۔

--------------

[1] ۔ صحیفہ مہدیہ:567

۲۱۰

اس دعا سے لیا جانے والا درس یہ ہے :

روشن فکر وہ ہے کہ جو تاریک سوچ و فکر سے نجات پاکرقوّتِ ارادہ کامالک ہواور اس کانفس ارادے کی شکست کا باعث نہ ہو۔اور صاحبانِ عزم و ارادہ وہ  ہیں کہ جن میں علم و دانش کانور روشن ہو اور اس کا وجود علم و آگاہی کے نور سے منوّر ہوا ہو۔

زمانہ ظہور انسان کی بزرگ و درینہ خواہشات کی تکمیل اور بشر کے اعلٰی مقام تک رسائی کا زمانہ ہے۔انسانوں میں روشن افکار اور نورانی ارادوں کی پرورش تکامل کا سبب ہے۔

اس بابرکت زمانے میں افکار میں ارادے کی قدرت و نورانیت ایجاد ہوگی اور لوگوں کے عزم وارادے میں نور اور علم و دانش کے حصول کی توانائی ایجاد ہوگی۔

اس زمانے میں انسانی تفکر کی طاقت کے نہ ہونے اور عزم و ارادے میں سستی سے نجات پاکر علم و آگاہی کی طرف گامزن ہوگا۔

اب یہ واضح سی بات ہے کہ فکری حیات اور ارادوں کی آزادی سے معاشرے میں کیسی علمی ترقی  وجود میں آئے گی۔

  واحد عالمی حکومت

یہاںہم ایک ایسا مطلب بیان کرتے ہیں کہ جو ظہور کے زمانے کے منتظرین کے لئے بہت دلچسپ ہے ۔ وہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے عالمی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس وقت پوری کائنات میں حضرت حجت بن الحسن العسکری علیہ السلام کی حکومت کے علاوہ کوئی حکومت نہیں ہوگی ۔ ساری دنیا کی واحد حکومت آنحضرت کی حکومت ہوگی۔

یہ کہنا ضروری ہے کہ حضرت ولی عصر (عج) کی حکومت کے مقابل میںکوئی اور قدرت نہیں ہوگی پوری دنیا پر امام عصرعلیہ السلام کی واحد حکومت حاکم ہوگی۔

۲۱۱

اس کے علاوہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی حکومت دنیا والوں کے لئے ایسی نعمتیں فراہم کرے گی ۔ مادّی و معنوی لحاظ سے حیرت انگیز ترقی اور اس کے علاوہ پوری دنیا میں علم و دانش کی نعمت فراوان ہوگی۔دنیا کے بڑے بڑے شہروں سے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں تک ہر کوئی ان نعمتوں سے مستفیض ہوگا۔پوری دنیا میں علم و دانش عام ہوگا۔زمین کے ہر خطے میں علمی فقدان ختم ہوجائے گا۔

سب کو آرام ، سکون، راحت اورتمام سہولتیں فراہم ہوں گی ۔ سب لوگوں میں ثروت مساوی طور پر تقسیم ہوگی۔

ان سہولتوں کا عام ہونا اور معاشرے کے تمام افراد کا ان نعمتوں اور سہولیات سے استفادہ کرنا ظہور کے زمانے کی خصوصیات میں سے ہے۔اس مہم مسئلہ کے روشن ہونے کے لئے ہم اس کی مزید وضاحت کئے دیتے ہیں۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ غیبت کے زمانے میں دنیا کے تمام ممالک کے تمام لوگوں کو مال ودولت ، علم و دانش ،قدرت اور ظاہری سہولیات میسر نہیں ہیں ۔ بلکہ دنیا کے ہر ملک کے بعض لوگوں  کے پاس مال و دولت تھا اور اب بھی ہے۔اکثر لوگ مال کے نہ ہونے یا اس کی کمی کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔

پوری دنیا میں طبقاتی نظام موجود ہے ۔ خاص طبقہ سہولیات سے استفادہ کر رہا ہے۔ لیکن معاشرے کے اکثر افراد بنیادی حقوق اور سہولیات سے بھی محروم ہیں ۔ لیکن ظہور کے پُر نور زمانے میں ایسا نہیں ہوگا۔

اس زمانے میں طبقاتی نظام اور قومی تبعیضات ختم ہوجائیںگی ۔ علم وحکمت عام ہوگی ۔ طبیعی  دولت معاشرے کے تمام افراد کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوگی ۔ دنیا کے تمام خطوں میں عدالت اور تقویٰ کا بول بالا ہوگا۔دنیا کے سب لوگ عادل اور تقوی ٰ دار ہوں گے۔

ہم نے جو کچھ عرض کیا ۔ اب اس کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت میں پوری دنیا کے لوگ علم و دانش و حکمت، اچھائیوں اور نیکیوں کے مالک ہوں گے۔ہر کوئی ان سے مستفیض ہوگا۔

۲۱۲

اس دن غیبت کے زمانے کی طرح نہیں ہوگا کہ ایک طبقہ زندگی کی ہر سہولت اور ہر جدید صنعتی وسائل سے مستفید ہورہاہولیکن دوسرے افراد زندگی کی بنیادی سہولیات کو بھی ترستے ہوں۔

اس بناء پر ظہور کے زمانے کی علمی ترقی لوگوں کو ہرجدید اور اہم وسیلہ فراہم کرے گی ۔ جوظہور سے پہلے والے وسائل کی جگہ لے لیں گے۔پوری دنیا میں سابقہ وسائل ناکارہ ہوجائیں گے اور لوگ ظہور  کے زمانے کی جدید ایجادات سے استفادہ کریں گے۔

اگر فرض کریں کہ اس بابرکت اور نعمتوں سے بھرپور زمانے  میں کچھ صنائع اپنی خصوصیات برقرار رکھ سکیں تو ان سے استفادہ کرناواضح ہے۔کیونکہ وہ زمانہ دنیا کی تمام اقوام کے لئے خوبیوں کا زمانہ ہوگا۔ اس بناء پر ہم جدید صنعت کو کلی طور پر محکوم نہیں سمجھتے۔لیکن موجودہ صنعت غیبت کے زمانے سے مناسب ہے نہ کہ یہ ظہور کے پیشرفتہ زمانے کے مطابق  ہے۔

اب تک جو کچھ کہا وہ ان کا نظریہ ہے کہ جو  ظہور کے بارے میں خاندانِ اہلبیت علیہم السلام کے فرامین سے آگاہ ہوکر عقلی تکامل اور روشن زمانے کے اسرار و رموز کو جانتے ہیں۔

ممکن ہے کہ ان کے مقابل میں محدودسوچ کے مالک افراد بھی ہوں کہ جو گمان کرتے ہوں کہ وہ دنیا کی تمام ایجادات سے واقف ہیں ۔ ایسے افراد نہ صرف آج بلکہ گزشتہ زمانے میں بھی موجود تھے۔ڈیڑھ صدی پہلے کچھ افراد کا گمان تھا کہ جن چیزوں کو ایجاد کرنا ممکن تھا، انسان نے  وہ سب ایجاد کر لی ہیں ۔ یہاں ہم ایسے ہی کچھ افکار سے آشنا ئی کرواتے ہیں۔

1865ء میں امریکہ میں  نئی ایجادات کرنے والوں کا نام اندراج کرنے والے دفتر کے سربراہ نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ اب یہاں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ اب ایجاد کرنے کے لئے کوئی چیز باقی نہیں رہی۔

۲۱۳

امریکہ کے ماہر فلکیات نے ریاضی کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ جو چیز ہوا سے وزنی ہو وہ پرواز نہیں کرسکتی ۔ لیکن جہاز کی پہلی پرواز کے باوجود بھی وہ اپنی غلطی ماننے کو  تیار نہیں تھا۔بلکہ اپنی غلطی کی غلط توجیہات کرنے لگا کہ جہاز سے کوئی مفید کام نہیں لیا جا سکتا۔

1887 ء م یں ''مارسلن برتولو'' نے اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا:

''اب کے بعد دنیا کا کوئی راز باقی نہیں رہا''

جو زمانۂ ظہور کو غیر معمولی ترقی کا زمانہ نہیں سمجھتے ہیں ۔ وہ ایسے افراد کی طرح ہی سوچتے ہیں۔

ہم نے یہ جو ذکر کیا ہے وہ ایسے لوگوں کا ایک نمونہ تھا۔جو یہ سمجھتے ہیں کہ علم و صنعت کے لحاظ سے دنیا اپنے عروج پر ہے۔یعنی دنیا ترقی کی آخری سیڑھی پر قدم رکھے ہوئے ہے۔

جی ہاں! یہ توہمات گزشتہ صدیوں میں موجود تھے اور اب بھی بعض گروہ انہی میں مبتلا ہیں ۔ ان باطل نظریات میں مزید اضافہ ہو نا بھی ممکن ہے۔

  ظہور یا نقطہ آغاز

اگر ہم کہیں کہ ابتداء ظہور تکامل کا آغاز ہے تو ایسے افراد کے لئے اس کا یقین کرنا مشکل ہو گا ۔ کیونکہ وہ یہ قبول نہیں کرسکتے کہ ظہور کا آغاز ترقی کی ابتداء ہے؟

اس سوال کا جواب بیان کرنے کے لئے اس مطلب کی تشریح کرنا ضروری ہے۔لہٰذا ہم ایسے غلط نظریات کی پیدائش کے علل و اسباب بیان کرتے ہیںتاکہ قارئین محترم جان لیں کہ بعض لوگ یہ نہیں جانتے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے ظہور کے ہمراہ ترقی و پیشرفت اور تکامل کی ابتدا ہوجائے گی؟

۲۱۴

کیونکہ وہ موجودہ دور کو اس قدر ترقی یافتہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس سے بھی ترقی یافتہ دنیا کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں؟

ہم یہاں دو مختصر نکات بیان کرنے کے بعد اس بارے میں تفصیلاً گفتگو کریں گے۔

1 ۔ ایسے افرادموجودہ دنیاکو قدیم دنیا اور گزشتہ زمانے سے مقائسہ کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ موجودہ دور کو ہی پیشرفتہ ترین  دورسمجھتے ہیں۔

2 ۔ ا یسے افراد آئندہ کی دنیا کے بارے میں کسی قسم کی اطلاع و آگاہی نہیں رکھتے ۔ اسی لئے ان کا کہنا ہے کہ اب ایجاد کرنے کے لئے کوئی اور چیز موجود نہیں ہے۔

 دین یعنی حیات اور صحیح ترقی یافتہ تمدّن

دنیا کے  بہت سے لوگ دین کے حیات بخش اور زندگی ساز منشور سے آگاہ نہیں ہیں۔وہ نہیں جانتے کہ مکتب اہلبیت علیہم السلام نے معاشرے کے تمام پہلوئوں کو مد نظر رکھا ہے اور وہ لوگوں کی تمام ضروریات سے آگاہ ہے ۔ لہٰذا وہ دین کو صرف چند احکامات کا مجموعہ سمجھتے ہیں کہ جس کا تمدّن  اور صنعت کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے۔

ایسے بعض افراد خود ساختہ اور استعماری مکتب کے پیروکار ہوتے ہیں اور وہ تحریف شدہ ادیان کے تابع ہوتے ہیں۔لہذاوہ جس چیز کو قبول کریں ،اسے ہی دین سمجھتے ہیں۔

اگر مکتب اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں میں سے کسی گروہ کے ایسے اعتقادات ہوں تو یہ دین کے آئین اور اصولوں  کے بارے میںمکمل آگاہی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔

۲۱۵

کیونکہ دین کا یہ معنی نہیں ہے کہ انسان ترقی اور صحیح تمدن اور صنعت سے دور ہو۔بلکہ تمدّن اور صنعتی ترقی دین کے زیرِ سایہ وجود میں آتی ہے ۔ پس دین اور دینداری صنعت و تمدّن کی نفی کا نام نہیں ہے۔بلکہ دین کا آئین ہی صنعتی ترقی اور تمدنی ترقی کا ذریعہ ہے۔

تاریخ میں نہ صرف آئندہ بلکہ ماضی میں بھی ایسے دور گزرے ہیں کہ جب بزرگ دینی تمدن نے لوگوں کو اپنے دامن میں جگہ دی۔اس وقت کے لوگ علم و صنعتی ترقی کے مالک تھے کہ ہمارا آج کا متمدّن دور جسے لانے سے عاجز ہے۔

یہ نہ صرف تاریخ کے صفحات میں بلکہ بعض امکانات میں ایسے ترقی یافتہ تمدن کے آثار موجود ہیں کہ اب بھی انسان جن کی عظمت کو درک کرنے سے قاصر ہے۔

ہم آپ کے لئے اس کا ایک نمونہ ذکر کرتے ہیں تاکہ یہ بخوبی واضح ہوسکے کہ دین کبھی بھی ترقی اور تمدن کا مخالف نہیں تھا۔بلکہ مذہبی حکومت خود صحیح تمدّن لانے کا عامل ہے۔

آپ حضرت سلیمان علیہ السلام  کی دینی حکومت کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

کیا حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو معبد بنایا تھا اور اب بھی اس کے ایسے آثار موجود ہیں کہ جنہیں اب تک پہچانا گیا۔کیا آپ اس سے آگاہ ہیں؟

اب اس بارے میں مزید جاننے کے لئے یہ واقعہ ملاحظہ کریں۔

تقریباً دو صدیاں پہلے ''بنیامین فرینکلن ''نے برق گیر ایجاد کیا۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

یہ امر بھی مسلم ہے کہ تقریباًتین ہزار سال پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کا معبد چوبیس بر ق گیر سے تیار کیا گیا تھا۔معبد کوہرگز شارٹ سرکٹ کاخطرہ نہیں تھا۔ ''فرانسوا آراگو ''نے اٹھارویں صدی میں اس بارے میں یوں وضاحت کی۔

۲۱۶

معبد کی چھت کو انتہائی ظرافت سے تعمیر کیا گیا تھا،جسے ضخیم ورق سے ڈھانپا گیا تھا اور پوری چھت کو فولاد سے تیار کیا گیا تھا۔لوگ کہتے ہیںکہ چھت کی تیاری میں ان سب چیزوں کا استعمال صرف اس وجہ سے تھا کہ اس پر پرندے نہ بیٹھیں۔

معبد کے سامنے ایک حوض تھا کہ جو ہمیشہ پانی سے لبریز ہوتا۔اب ہمارے پاس ایسے شواہد و قرائن موجود ہیں کہ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ برق گیر کسی ہدایت کرنے والی کی ہدایت کا نتیجہ ہیں ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہم اب تک ایسے مسائل سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔

اسی طرح معبد بیت المقدس کو بھی گزشتہ صدیوں کا کامل نمونہ قرار دے سکتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے تھا اور اب بھی اسی طرح باقی ہے۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام  اور ان کی آرٹیٹکٹ برق گیر کے راز سے آگاہ تھے۔ لیکن انہوں نے یہ راز دوسروں کو کیوں نہیں بتایا؟کسی سے اس بارے میں بات کیوں نہیں کی؟

اب تحقیق و جستجو کرنے والے دانشور کہ جنہوں نے وادی علم میں قدم رکھے ہیں ۔ جو بہت سے مجہولات کو معلومات میں تبدیل کرتے ہیں، اب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کو سلجھائیں اور اس کا صحیح جواب معلوم کریں۔(1)

جیسا کہ آپ نے غور کیا کہ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ہم اب تک ایسے امکانات اور وسائل میں سے کسی ایک سے مستفیض نہیں  ہو سکے۔

یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں علمی اور صنعتی ترقی کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔یہ اس بات کی  دلیل ہے کہ دین اورالہٰی حکومت صنعت اور ٹیکنالوجی کی نفی نہیں کرتے۔بلکہ وہ خود انہیں وجود میں لاتے ہیں۔

--------------

[1]۔ تاریخ نا شناختہ بشر:11

۲۱۷

اس کی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت میں ایسی سہولتوں سے استفادہ ہوتا تھا ۔ لیکن آج کا متمدن معاشرہ اور ترقی یافتہ انسان ان سے مستفید ہونے سے عاجز ہے۔ قرآن کریم کی آیات اور اہلبیت علیھم السلام کی روایات میں ان کی تصریح ہوئی ہے۔

آج کی دنیا ترقی و پیشرفت اور علم و تمدن کے دعوں کے با وجود فزیکل وسائل کے بغیر ایک قلم کو دنیا کے ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک منتقل کرنے سے عاجز ہے۔لیکن حضرت سلیمان  علیہ السلام    کا شاگر ایک بار آنکھ جھپکنے کے ذریعہ بلقیس کے تخت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی قدرت رکھتا تھا ۔ اس نے یہ کام عملی طور پربھی انجام دیا۔

یہ واضح دلیل ہے کہ انسان کو عظیم قوت و طاقت کے حصول کے لئے مابعد مادّہ قدرت کی ضرورت ہے۔ جب تک اسے یہ قدرت حاصل نہ ہو تب تک وہ مادہ کی قید ہی میں رہے گا یعنی زمان ومکان کے تابع رہے گا ۔ مابعد مادہ قدرت کا حصول دین کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔

اس بناء پردین نہ صرف علم و دانش کی ترقی کے لئے  مانع نہیں ہے بلکہ دین خود ترقی و پیشرفت اور جدید ٹیکنالوجی اور صحیح صنعت وجود میں لانے کا اصلی سبب ہے۔

دنیا حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی الہٰی حکومت میں ایسی اہم ترقی کی شاہد ہوگی۔اس وقت انسان نہ صرف معنوی مسائل کی اوج پر ہوگا بلکہ جدیدترین ٹیکنالوجی و صنعت کا بھی مالک ہوگا۔

ہمیں  چاہیئے کہ ہم اپنے پورے وجود اور خلوص سے خداوند متعال سے اس بابرکت دن کی جلد آمد کی دعا کریں اور خود کو اس با عظمت زمانے  کے لئے تیار کریں۔ یہ بھی جان لیں  کہ انسان کی خلقت کا مقصد قتل غارت،ظلم و ستم، فساد اور ظالم و جابر حکومت  تشکیل دینا نہیں تھا ۔ بلکہ الہٰی حکومت کی تشکیل اور اسے استقرار و دوام دینے کے لئے کوشش کرنا  ہے۔لیکن اب تک ظالم اس راہ میں مانع  ہیں۔

۲۱۸

ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ظہور کے تمام موانع برطرف کرکے جلد از جلد حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی حکومت قائم فرمائے اور ہمیں حضرت ولی عصرعلیہ السلام کے خادموں میں شمار فرمائے۔

 صحیح اور جدید ٹیکنالوجی فقط دین کے زیر سایہ ممکن ہے

اب ایک اہم حیاتی نکتہ کی تشریح کرتے ہیں۔یہ نکتہ پڑھنے کے بعد قارئین محترم کا دین کے پیشرفتہ آئین کے بارے میں نظریہ تبدیل ہوجائے گا۔

اس نکتہ کو بیان کرنے سے پہلے ایک مختصر مقدمہ بیان کرتے ہیں ۔ وہ یہ ہے کہ انسان فقط ایک مادّی موجود و مخلوق نہیں ہے۔ کیونکہ انسان روح بھی رکھتا ہے۔ لیکن کیا انسان صرف جسم اور روح سے مرکب ہوا ہے؟ یا نفس اور جسم سے مرکب ہوا ہے؟ یا انسان روح ،عقل، نفس اور جسم کے مجموعہ کا نام ہے؟

یہ بہت اہم سوال ہیں کہ انسان کا وجود کن چیزوں سے تشکیل پایا ہے؟ گزشتہ زمانے سے ادیان کے پیروکاروں نے اس بارے میں بحث کی اور انہوں نے اپنی فہم کے مطابق جو چیزیں درک کیں، انہیں ہی بیان کیا۔ ان تمام نظریات کے کچھ طرفدار ہیں اور ہر کوئی اپنا نظریہ ثابت کرنے کے لئے کچھ دلائل پیش کرتے  ہیں۔

ہمیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان روح اور جسم سے مرکب ہے اور وہ مستقلاً عقل و نفس کا مالک ہے، یا یہ دونوں روح اور جسم کے تابع ہیںیا یہ ان دونوں سے ایجاد ہوئے ہیں؟

کیونکہ ان عقائد و نظریات میں سے ہر ایک میں روح مستقل وجود رکھتی ہے نہ کہ یہ انسان کے جسم کے تابع ہے۔

ہم نے مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کی پیروی سے یہ مطلب سیکھا کہ روح مستقل وجود رکھتی ہے۔ لیکن بعض مادّی مکاتب اس کے بر خلاف روح کو جسم کے تابع سمجھتے ہیں۔

۲۱۹

  موجود ایجادات میں نقص

روح کے آثار اور روحانی قوّت کے نتیجہ کی بحث میں اس اہم نکتہ کا اضافہ کرتے ہیں کہ دنیا نے اب تک صنعت اور ٹیکنالوجی کے عنوان سے لوگوں کو جوکچھ عطا کیا ہے ۔ وہ ایسی ایجادات تھیں کہ جنہوں نے انسان کی روح کو جسم کا اسیربنا کر رکھ دیاتھا اور اسے جسم کا محتاج بنادیاتھا۔ان میں کوئی ایسی روحانی قوّت موجود نہیں ہے کہ جو انسان کے جسم کو روح کے تابع قرار دے۔

یہ موجودہ ٹیکن الوجی کابہت بڑا نقص ہے ۔ افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ غیبت  کے زمانے کے دانشور اس بارے میں کوئی صحیح پروگرام حاصل نہیںکرسکے۔

البتہ یاد رکھیں کہ ہمارا یہ کہنا کہ زمانۂ غیبت کی ٹیکنالوجی میں نقص و عیب پایا جاتاہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم اس زمانے کے برق رفتار وسائل کا بگھی اور تانگہ وغیرہ سے مقائسہ نہیں کررہے۔ لیکن خدا نے انسان کے وجود میںبے شمار قوّتیں قرار دی ہیں ۔ انہیں کی تخلیق کی وجہ سے وہ خود کو''احسن الخالقین'' قرار دیتے ہوئے فرماتاہے:

'' فَتَبَارَکَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْن '' (1)

اس عظیم مخلوق پر توجہ کریں تومعلوم ہوگا کہ انسان نے اپنے وجود کے ایک پہلو سے ا ستفادہ کیا ہے۔ لیکن دوسرے پہلوؤں کو فراموش کردیا ہے۔

ہمارا یہ کہنا ہے کہ انسان میں روح بھی ہے۔ لہذاہ میشہ روح کو جسم کے تابع قرار نہ دیں۔انسان کو یہ سوچنا چاہیئے کہ انسان اپنے وجود کے دوسرے پہلوؤںسے استفادہ کرکے جسم کو روح کے تابع قرار دے۔ یوں وہ خود کو مادّہ اور زمانہ کی قید سے آزادکرے۔ لیکن زمانۂ غیبت کی تمام ایجادات مادّی  تقیّدات سے مقید ہیں۔

--------------

[1]۔ سورہ مؤمنون، آیت: 14

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300