امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 175072
ڈاؤنلوڈ: 4309

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175072 / ڈاؤنلوڈ: 4309
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ عصرِ غیبت کی تمام ٹیکن الوجی ناقص ہے۔اس میں جو تکامل ہونا چاہیئے تھا، وہ نہیں ہوا اور یہ تکامل سے عاری ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ ظہور کاباعظمت ،بابرکت اور پُر نور زمانہ ہرلحاظ سے تکامل کی اوج پر ہوگا۔وہ زمانہ ما بعد مادہ سے بڑھ کربہت عظیم قدرت سے سرشار ہوگا ۔ جس کی وجہ سے نہ صرف ٹیکن الوجی اور مادّی صنعت میںترقی ہوگی ۔ بلکہ  برتر قدرت ،طاقت سے بھی مستفیض ہوگا۔

ہم اپنے اس دعوے کو خاندانِ عصمت وطہارت علیھم السلام کے حیات بخش فرامین سے ثابت کرتے ہیں ۔ لہذا ہم ایسی روایت نقل کرتے ہیں کہ جس سے بعض لوگ  ظہور کے زمانے کی پیشرفتہ صنعت کے لئے استدلال کرتے ہیں۔اب اصل روایت پر توجہ کریں۔

ابن مسکان کہتے ہیں کہ میں نے اما م صادق علیہ السلام سے سنا کہ کہ آنحضرت نے فرمایا:

''ان المؤمن فی زمان القائم وهو بالمشرق لیری أخاه الّذی فی المغرب وکذا الّذی فی المغرب یری اخاه الّذی فی المشرق'' (2)

یقینا قائم علیہ السلام کے زمانے میں مؤمن شخص مشرق میں ہوگا۔ لیکن وہ مغرب میں موجود اپنے بھائی کو دیکھ سکے گا۔اسی طرح جو مغرب میں ہوگا وہ مشرق میں موجود  اپنے بھائی کو دیکھ سکے گا۔

--------------

[2]۔ بحارالانوار: ۵۲ ص۲۹۱

۲۲۱

  عصر ِ ظہور میں قدرت کے حصول کی تحلیل

روایت سے جو بہترین نکتہ استفادہ کیا جا سکتا ہے،وہ یہ ہے کہ زمانۂ ظہور میں بشریت کے لئے حیرت انگیز تبدیلیاںوجود میں آئیں گی کہ جس کی وجہ سے انسان روئے زمین کے کسی دور دراز   علاقے میں بیٹھے اپنے دوستوں اور عزیزوں کو دیکھ سکے گا۔ہزاروں کلو میٹر کی دوری کے باوجود انہیں  آسانی سے دیکھاجا سکے گا  اور ان کے حالات سے آگاہی حاصل کی جا سکے گی۔

زمانۂ ظہور میں انسان کو حاصل ہونے والی اس قدرت کی چند صورتوں سے تجزیہ و تحلیل کرنا ممکن ہے ۔

1 ۔جس طرح انسان ک ی قوّت فکر کامل ہوجائے گی اور اس کی قوّت ارادہ بھی قوی ہوگی۔ پھر ارادہ اور فکر کے متمرکز ہونے سے وہ دنیا کے ہر حصے کو ملاحظہ کر سکے گا ۔یعنی اس کی ظاہری نظر میں وسعت آجائے گی،یا یہ کہ رؤیت سے مراد رؤیت باطنی

یا دل کی آنکھوں سے دیکھنا مقصود ہے۔گز شتہ ابحاث میں زمانہ ظہور میں تحوّل فکر اور تقویت ارادہ کے بارے میں بیان کئے گئے مطالب کی رو سے یہ تحلیل ایک فطری امر ہے۔

2 ۔ ظہور کے درخشاں اور نعمتوں سے سرشار زمانے م یں صنعت اور ٹیکنالوجی میں ایسی ترقی ہو   گی کہ انسان جدید وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کائنات کے مشرق و مغرب میں دیکھ سکے گا۔

البتہ یہ نکتہ بھی مد نظر رکھنا چاہیئے کہ اب ہمارا ذہن کمپیوٹر،انٹر نیٹ اور ٹیلی وژن سے آشنا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہم انٹر نیٹ کے ذریعہ ایک دوسرے کی تصویردیکھ سکتے ہیں۔ایسے تصویری وسائل کی وجہ سے ممکن ہے کہ ہم آئندہ کی پیشرفتہ ایجادات کو بھی ایک قسم کا تصویری وسیلہ سمجھیں۔حالانکہ ممکن ہے کہ آئندہ انسان کے اختیار میں آنے والے وسائل نہ صرف تصویری ہوں بلکہ ان کے تجسّم کو بھی دکھائیں۔

3 ۔ اس کی دیگر تحلیل بھی کی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آئندہ معنوی اور مادّی لحاظ سے انسان کے لئے جو حیرت انگیز اور بے نظیر پیشرفت میسر آئے گی۔انسان ان دونوں سے استفادہ کرسکے گا کہ جنہیں ہم نے بیان کیا۔

۲۲۲

4۔ ہم نے جو کچھ بیان کیا،اس کے لئے ایک اور تحلیل کرنا بھی ممکن ہے اور وجہ یہ ہے کہ باطنی قوّت میں اضافہ سے انسان اپنے مثالی وجود کو دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے ہوئے اپنے عزیز یا دوست  کے سامنے حاضر کرسکے گا وہ اپنے مثالی وجود کو تجسّم بخشے گا یا تجسّم کے بغیر ہی  اپنے بھائیوں کو دیکھ سکے گا۔

اس رویات کی توضیح میں جس نکتہ کا اضافہ کرنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ چاہے ہم گزشتہ تحلیلات میں سے سب یا کچھ یا کسی ایک تحلیل کو قبول کریں  یا روایت کی توضیح میں کوئی اور تحلیل لائیں۔لیکن اس مطلب کوضرورمدنظر رکھیں کہ اس روایت کے ظاہر سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ قدرت یعنی دنیا کے کسی خطے میں بیٹھے انسان کو دیکھنا،ایک ایسی حالت ہے کہ جو عام لوگوں کے لئے وجود میںآئے گی۔یعنی روایت سے عمومی حالت استفادہ ہوتی ہے۔

اس بناء پر جس روایت سے بھی رؤیت کی وضاحت کریں،لیکن یہ جان لیں کہ ظہور کے زمانے میں دور افتادہ علاقوں سے رؤیت صرف کسی خاص گروہ کی خصوصیات میں سے نہیں  ہے۔بلکہ عام لوگوں میں یہ قدرت پیدا ہوگی۔

5 ۔ رؤ یت اور ایک دوسرے کو دوسری طرح دیکھنا بھی ممکن ہے اور وہ طرف مقابل کا انسان کے پاس حاضر ہونا ہے۔مذکورہ بعض صورتوں کے برعکس ۔ روایات میں اسی طرح کی اور روایات بھی وارد ہوئی ہیں کہ جو بھی حضرت خضر علیہ السلام کو سلام کرے ،وہ ان کے نزدیک حاضر ہوتے ہیں۔ اب اس روایت پرتوجہ کریں۔

ایک روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام ، حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں: ''انہ لیحضر حیث ماذکر، فمن ذکرہ فیکم فلیسلّم علیہ ''(1) انہیں جب یا د کیا جائے وہ حاضر ہوجاتے ہیں۔پس تم میں سے جوبھی انہیں یاد کرے،ان پر سلام بھیجے۔ہم نے جوصورتیں ذکر کی ہیں،ان میں سے بعض کا لازمہ انسان کا دو یا دو سے بیشتر جگہوں پر ہونا ہے۔

--------------

[1]۔ صحیفہ مہدیہ: 98

۲۲۳

6 ۔ظہور کے درخشاں اور با عظمت زمانے کی تبدیلیوںمیں سے ایک تبدیلی انسان کی آنکھوں اور بصارت میں رونما ہوگا۔ اس کی قوّت ِ بصارت میں اس قدر اضافہ ہو گا کہ اس میں دور  دراز کے علاقوں کو دیکھنے کی قدرت فراہم ہوجائے گی۔ (2)

--------------

[2] ۔ اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ ظہور کے زمانے میں انسان کے جسم میں جوتحوّلات وجود میں آئیں گے۔ وہ انسان کی آنکھوں اور قوة باصرہ پر بھی اثر انداز ہوں گے، گزشتہ زمانے میں بھی کچھ ایسے افراد تھے کہ جن کے قوت بصارت بہت  قوی تھی۔ان میں سے ایک ابو علی سینا ہیں ۔ ا ن سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں دن کے وقت ستارہ عطارد کو دیکھا کہ مقار ن وقت میں وہ سورج پر ایسے  تھا جیسے چہرے پر تل ہو ۔اگرچہ عطارد دوسرے آسمان اور سورج چوتھے آسمان پر ہے۔ لیکن چونکہ مقارن تھے۔یعنی ایک برج اور ایک دقیقہ میں جمع ہوئے تھے۔لہذا ایسے لگتا تھا جیسے سورج کے چہرے پرتل ہو(گلزار کبریٰ383)

قصص العلماء میں ان کی قوت باصرہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی بصارت اس حد تک تھی کہ وہ چار فرسخ کے فاصلے سے مکھی کو دیکھ لیتے تھے۔ایک روز وہ سلطان کی مجلس میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس نے دور بین لگائی ہوئی ہے۔

شیخ نے پوچھاکہ یہ دوربین کس لئے لگائی ہے؟سلطان نے کہا:چار فرسخ سے ایک سوارآرہا ہے میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کون ہے؟

شیخ نے کہا چار فرسخ کے لئے دوربین کی کیا ضرورت ہے پھر شیخ نے اس جانب دیکھ کر کہا کہ فلاں شکل اور لباس میں ملبوس ایک سوار آرہا ہے۔اس کا گھوڑافلاں رنگ کا ہے۔وشیرینی کھارہا ہے۔سلطان نے کہا کہ شیرینی مطعومات میں سے ہے نہ کہ مرئیات میں سے ہے ۔ پس آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ شیرینی کھا رہا  ہے؟

ابو علی سینا نے اس کے جواب میں کہا! کیونکہ اس کے منہ کے ارد گرد کچھ مکھیاں اڑ رہی ہیں ۔ یہ اس چیز کی علامت ہے کہ وہ شیرینی کھارہا ہے۔جب وہ سوار آیا تو اس سے اس بارے میں پوچھا گیاتو اس نے وہی کہا۔جو کچھ شیخ نے کہا تھا ۔ اسی طرح اس کی شکل صورت، لباس اور گھوڑے کا رنگ بھی ویسا ہی تھا، جیسے شیخ نے بتایا تھا۔ایک قول کے مطابق شیخ نے کہا کہ وہ روٹی  کھارہا ہے۔ کیونکہروٹی کے ذرات اس کی داڑھی اور مونچھوںمیں گرے ہوئے ہیں ۔ تفحص کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ جیسا شیخ نے کہا تھا ،وہ درست تھا۔

(گلزار کبریٰ:382) ہمارے زمانے میں بھی کچھ ایسے افراد ہیں کہ کاقوّہ باصرہ بہت قوی ہے۔

۲۲۴

 انسان کی بصارت میں ایجاد ہونے والا تحوّل ایسا ہوگا کہ اس میں حیرت انگیز  اضافہ وجود میں آئے گا۔ زمانۂ ظہور میں انسان کی قوّہ باصرہ میں حیران کن اضافہ کے بارے میں اس روایت پر توجہ کریں ۔امام صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''انّ قائمنا اذا قام مدّ اللّٰه لشیعتنا فی أسماعهم و أبصارهم حتی (لا) یکون بینهم و بین القائم برید، یکلّمهم فیسمعون و ینظرون الیه وهو فی مکانه '' (1)

بے شک جب ہمارا قائم  علیہ السلام  قیام کرے گا تو خداوند متعال ہمارے شیعوں کے کانوں اور آنکھوںمیں کشش پیدا فرمائے  گا۔(ان کی قدرت میں اضافہ فرمائے  گا) یہاں تک کہ ان کے اور حضرت قائم علیہ السلام کے درمیان کسی واسطہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔وہ ان کے ساتھ بات کرے گا اور وہ سنیں گے اور وہ  ان کی طرف دیکھیں گے۔حالانکہ وہ اپنی جگہ پر ہوں گے۔

یہ روایت واضح طور پر دلالت کرتی  ہے کہ زمانۂ ظہور میں خدا وند متعال انسان کے دیکھنے اور سننے کی قدرت میں اضافہ فرمائے گا۔سب حضرت بقیةاللہ الاعظم (عج) کو دیکھ سکیں گے۔ چاہے وہ کسی بھی جگہ پر ہوں،اسی طرح وہ آنحضرت  کی آواز بھی سن سکیں گے۔

 روایت میں تفکر

قابل ذکر بات یہ ہے کہ بعض مصنفین ایسی روایا ت کا مصداق ٹیلیویژن کو قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ روایت میں موجود تعبیر کو دیکھ کر کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ روایت میں امام صادق کی مراد و مقصود ٹیلیویژن ہے۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار: ج ۵۲ص۳۳6

۲۲۵

کیونکہ:

1 ۔امام صادق عل یہ السلام  فرماتے ہیں:مؤمن اپنے بھائی کو دیکھے گا ۔اگر آنحضرت  کی مراد ٹیلیویژن ہوتی تو پھر دنیا کے سب لوگ ٹیلیویژن پر دکھائی دینے چاہیئں  تاکہ ان کے بھائی انہیں کرۂ زمین  کے دوسری طرف سے بھی دیکھ سکیں۔کیونکہ''المؤمن'' میں الف و لام جنس کے لئے آیاہے ۔جو کہ مطلق ہے۔جس میں تمام مؤمنین شامل ہیں ۔حالانکہ ٹیلیویژن سے ایسا استفادہ نہیں کیا جاسکتا کہ ہر کوئی اس میں اپنے بھائی کو دیکھ سکے ۔بلکہ صرف انہی کو ہی ٹیلیویژن پردیکھا جاسکتا ہے کہ جو ریکارڈنگ یافلم میں موجود ہوں۔

اب تک دنیا کی کروڑوں اربوں افرادکی آبادی میں سے کتنے افراد نے اپنے بھائیوں کوٹیلی ویژن پر دیکھا ہے۔

روایت میں کچھ دیگر قابل توجہ نکات بھی موجود ہیں کہ جو اس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔یعنی جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے برادرِ مؤمن کو کرۂ زمین کے دوسری طرف دیکھنا یقینی  ہے۔

کیونکہ :

1 ۔ یہ روایت جملہ اسمیہ سے شروع ہوئی ہے۔

2۔ اس کی ابتداء میں کلمہ'' اِنَّ '' ہے۔

3 ۔ ''ل یری اخاہ'' میں  لام لایا گیا ہے ۔یہ سب اصل مطلب کی تاکیدپر دلالت کرتے ہیں ۔

ان نکات پر توجہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ ظہور کے بابرکت زمانے میں ہر مؤمن شخص اپنے بھائی کو بہت دور دراز کے علاقوں سے دیکھ سکے گا۔یہ ایسا مطلب ہے کہ جسے امام صادق علیہ السلام نے روایت میں کئی تاکیدات کے ساتھ بیان کیا ہے۔

2 ۔ ظاہر روایت یہ ہے کہ مشاہدہ میں بھائی کوئی خصوصیت نہیں رکھتا بلکہ امام  نے اسے مثال کے طور پر بیان کیا ہے۔ورنہ اس زمانے میں مؤمن نہ صرف اپنے بھائی بلکہ ماں،باپ،بہن،بیٹی،بیوی اور تمام دیگر رشتہ داروں کو بھی دیکھ سکے گا۔

۲۲۶

لیکن اگراس سے مراد ٹیلیویژن ہو تو پھر کوئی ایسا پروگرام ہونا چاہیئے تاکہ مؤمن انہیں دیکھ سکے۔

3 ۔ ظاہر روا یت یہ ہے کہ اس روایت میں دیکھنے سے مراد طرفینی ہے۔یعنی جس طرح مشرق  میں بیٹھا ہوا شخص ،مغرب میں بیٹھے ہوئے اپنے بھائی کو دیکھ سکے گا۔اسی طرح جو مغرب میں ہوگا وہ مشرق میں بیٹھے ہوئے اپنے بھائی کوبھی دیکھ سکے گا۔یعنی دونوں ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔لیکن ٹیلیویژن میں ایسا نہیں ہے۔کیونکہ ٹیلیوژن دیکھنے والا پروگرام میں حاضر افراد کو تو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن وہ اسے نہیں دیکھ سکتے۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے قوّہ سامعہ  اور قوہ باصرہ کو حضرت  مہدی علیہ السلام  کے  قیام کے زمانے سے مقید کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو......

اس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ آنحضرت  کے قیام سے پہلے قوہ باصرہ اور سامعہ اس قدر قوی نہیں ہوں گے۔

اس بناء پر  یہ نہیں کہ سکتے کہ آنحضرت کی مراد ٹیلیویژن نہیں تھی ،جیسا کہ چند مصنفین نے اس روایت میں امام صادق علیہ السلام کے فرمان کا مصداق ٹیلیویژن کو قرار دیا ہے کہ جو پہلے ایجاد ہوا ہے ۔ کیونکہ  روایت  کا ظاہریہ ہے کہ آنحضرت زمانہ ظہور کی خصوصیات کو بیان کررہے ہیں۔

4۔ اگر اس کلام سے امام  کی مراد ٹیلیوژن ہوتی تو یہ  امام  کے زمانۂ ظہورکے لئے کوئی امتیازنہیں ہے۔کیونکہ ٹیلیوژن آنحضرت  کے قیام سے پہلے ایجاد ہوا ہے۔جس نے غیبت کے زمانے میں بہت سے لوگوں کو مزید تاریکی میں دھکیل دیا ہے۔

5 ۔ اگر ٹیلیوژن دیکھنے سے انسان مختلف افراد کو دنیا کے دور دراز علاقوں سے دیکھ سکتا ہے۔لیکن صنعتی وسائل کے ذریعے دیکھنے سے قوّہ باصرہ اور سامعہ میں اضافہ کا کوئی معنی نہیں بنتا۔

6۔ اس روایت میں ذکر شدہ خصوصیت شیعوں سے مختص ہے ۔کیونکہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں''مدّ اللّٰہ لشیعتنا''حالانکہ ٹیلیوژن سے استفادہ کرنا فقط شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔

۲۲۷

7 ۔ ٹیلیویژن دیکھنے سے نہ صرف قوّت باصرہ قوی نہیں  ہوتی ہے بلکہ دانشوروں کے مطابق ٹیلیویژن دیکھنا آنکھوں کے لئے مضر ہے۔پس معلوم ہوا کہ ٹیلیوژن دیکھنا قوت باصرہ میں اضافہ  کاباعث نہیں ہے۔

8۔ اگر روایت سے مراد ظاہرسے مراد ظاہر ی وسائل ہوں تو ہمارے پاس کیا دلیل ہے کہ وہ وسیلہ ٹیلیویژن ہی ہے۔شایدٹیلیوژن کے علاوہ کوئی اور جدید ترین وسیلہ و ذریعہ ہو۔پس اگر یہ احتمال بھی دیا جائے تو آنحضرت  کی مقصود ٹیلیوژن کے علاوہ کوئی چیز ہے توآپ کس دلیل کی بناء پر امام  کے کلام کو ٹیلیوژن پر حمل کرسکتے ہیں؟

9 ۔ بہت س ی روایات میں یہ بہترین نکتہ موجود ہے کہ جو اس مطلب کی تصریح کرتا ہے کہ دیکھنے اور سننے کی حس میں جو تبدیلیاں رونما ہوںگی  ،وہ زمانہ ظہور اور آنحضرت کے قیام کے بعد واقع ہوں گی۔

اس بناء پر پر ٹیلیوژن ،کمپیوٹر،انٹرنیٹ اور ایسے ہی دوسرے وسائل و آلات کہ جو آنحضرت کے ظہور سے پہلے ہوں،اس سے ان سب کی نفی ہوتی ہے اور اس روایت میں یہ سب شامل نہیں  ہیں۔

امام صادق علیہ السلام نے انسان کے جسم میں رونما ہونے والے تحوّلات کوحضرت مہدی  علیہ السلام کے ظہور اور قیام کے بعد سے مقیّد کیا ہے اور فرمایا ہے (انّ قائمنا اذا قام۔۔) جس میں اس بارے میں تصریح ہوئی ہے کہ انسا ن میں واقع ہونے والی عظیم تبدیلیاں امام  کے قیام کے بعد واقع ہوںگی۔

10 ۔ دوسرا بہترین نکتہ یہ ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام  فرماتے ہیں(مد اللّٰہ لشیعتنا فی أسماعھم و أبصارھم ۔۔۔)خداوند کریم ہمارے شیعوں کی آنکھوں اور کانوں میںکشش ایجاد کرے گا۔جس سے ان کے دیکھنے اور سننے کی قدرت میں اضافہ ہوگا۔اگرآنحضرت کی اس تبدیلی سے مراد ٹیلیوژن و کمپیوٹر جیسا ظاہری وسیلہ ہو تو یہ واضح سی بات ہے کہ ان سے افراد کی بصارت اور سماعت میں کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہیں ہوا اور ان کی قدرت میں بھی کسی قسم کا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

۲۲۸

11 ۔ ایک اور  قابل غور نکتہ یہ ہے کہ امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں(مد اللّٰہ۔۔۔)یعنی وہ اس تبدیلی کو خدا سے نسبت دیتے ہیں اور اسے خدا کا کام سمجھتے ہیں۔یعنی امام مہدی  علیہ السلام کے  قیام کے بعد خدا  لوگوں میں تبدیلی ایجاد فرمائے گا۔جو ایک غیر طبیعی وغیر فطری تبدیلی کی دلیل ہے۔عبارت سے واضح ہے کہ ٹیلیویژن یا دیگر وسائل کی ایجاد کو خدا وند کریم سے نسبت نہیں دیتے۔

12 ۔ حضرت ول ی عصر (عج) اپنی حکومت اور نظام حکومت میں غیر معمولی معنوی قوّت و قدرت سے استفادہ کریں گے ۔اسی طرح وہ دنیا اور دنیا والوں کے تکامل کے لئے لوگوں میں تبدیلی ایجاد کریں گے۔

اس بیان کی رو سے بعض لوگوں کی یہ خام خیالی بھی واضح ہوجاتی ہے۔لہذا انہیں اپنے افکار کی اصلاح کرنی چاہیئے۔یہ چھوٹی سوچ رکھنے والے گمان کرتے ہیں کہ وہ اپنی اس سوچ کے ذریعہ دنیا کا نظام چلا سکتے ہیں۔

13 ۔ زمانہ ظہور ک ی خصوصیات میں سے ایک زمان و مکان کی محدودیت کا ختم ہوجانا ہے۔لیکن افسوس کہ اب تک ایسے ابحاث کے بارے میں تحقیق و جستجو نہیں کی گئی کہ جو ہمارے معاشرے کے لئے انتہائی مفید اور  برکت کاباعث ہیں۔ ظہور کے زمانے کی برکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے برکتوں کا زمانہ کہہ سکتے ہیں۔

ممکن ہے کہ ظہور  کے زمانے میں زمان و مکان کے مسئلہ میں تبدیلی کے بارے میں بحث ہمارے لئے نئی ہو،لیکن روایات اور خاندانِ عصمت و طہارت  علیہم السلام کے فرامین میں جستجو کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان کے بارے میں ابحاث موجود ہیں۔لیکن معاشرے کاایسے مہم مطالب سے آشنانہ ہونا اس چیزکی دلیل نہیں ہے کہ یہ ابحاث اہلبیت علیھم السلام کی روایات میں بیان نہیں ہوئی ہیں۔

ہم نے جو یہاں روایت نقل کی،وہ اس کا چھوٹا سا نمونہ تھا کہ جس میں امام صادق علیہ السلام نے ظہور  کے زمانے میں مکان کی محدودیت کے ختم ہونے سے پردہ اٹھایا اور اسے ایک قطعی و حتمی مطلب کے طور پر بیان کیا۔

۲۲۹

اس بناء پر جیسا کہ روایت کے متن سے واضح ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کے اس فرمان ''مد اللّٰہ لشیعتنا''سے مرادانسان کے وجود میں  تبدیلی ہے نہ کہ ان کے وجود سے باہر کوئی تبدیلی کہ جو ظاہری اسباب و وسائل کے ذریعے ہو۔

طولِ تاریخ میں  اب تک انسان کا زمان و مکان کی قید سے مقید ہونا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے لئے توضیح اور بحث کی ضرور ت ہو۔ بلکہ یہ سب کے لئے واضح ہے کہ انسان زمان و مکان کی قیدمیں اسیر تھا اور اسیر ہے۔اب تک انسان نے اس قید سے نکلنے کی بہت سی کوششیں کیں ۔ لیکن یہ محدودیت فقط ظہور کے زمانے ہی میں ختم ہوگی۔

امام صادق علیہ السلام نے یہ جو جملہ ارشاد فرمایا:(لیریٰ اخاه الذی فی المغرب...) یہ محدودیت مکانی کے برطرف ہونے کی دلیل ہے ۔کیونکہ اس روایت میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے ظہورکے زمانے کو یوں توصیف کیا گیا ا ہے کہ اس زمانے میں یقینا مؤمن دنیا کے مشرق سے مغرب میں بیٹھے ہوئے بھائی کو دیکھے سکے گا۔

یہ نکتہ اس چیز کی دلیل ہے کہ ان دونوں افراد کے درمیان ہزاروں کلومیٹرکا طولانی فاصلہ اور دونوں کا ایک دوسرے سے دور ہونا،اس چیزکی دلیل نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے۔ بلکہ کہ ان کے درمیان اتنے زیادہ فاصلے کے باوجود وہ  ایک دوسرے کودیکھ سکیں گے۔

یہ خود مکان کے مسئلہ کے برطرف ہونے کی دلیل ہے ۔ کیونکہ اتنی مسافت و دوری کے باوجود بھی وہ گویا یا ایک ہی جگہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوں گے۔کیا یہ تمام پیشرفت اس تبدیلی کی وجہ سے ہے کہ جوایک وسیلہ و آلہ کی ایجاد سے انسان کی بصارت میں اضافہ کرے گی؟

علم و دانش کسب کرنے کے لئے عقلی تکامل (سمع و بصر کی قدرت کے علاوہ) اور مادّہ سے بڑھ کر دیگر قدرت کو کسب کرنے کا بہت مہم ذریعہ ہے۔

۲۳۰

مذکورہ تمام احتمالات کے با وجود ممکن ہے کہ زمانہ ظہور میں مشرق و مغرب سے ایک دوسرے کو دیکھنا کسی اور طرح سے ہی ہوگا کہ جہاں تک ہماری فکرنہیں پہنچ سکتی۔

  موجودہ صنعت پر ایک نظر

ہم نے ظہور کے بابرکت اور درخشاں زمانے میں علم و دانش کی حیرت انگیز پیشرفت اور امام زمانہ علیہ السلام کی عالمی حکومت میں عقلی تکامل کے بارے میں جو مطالب ذکر کئے،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دور حاضر میں صنعتی ٹیکنالوجی کے بہت سے وسائل اس وقت بے کار اور ناکارہ ہوجائیں گے ۔ اگرچہ آج انسان ان سے استفادہ کرتا ہے۔اس کی دلیل اس وقت عملی و علمی ترقی اور عقلی تکامل ہے ۔ جیسا کہ آج کل انسان نے جدید اور تیز ترین گاڑیوں کے آنے سے بگھی ،تانگہ وغیرہ کو چھوڑ دیا ہے ۔ اس زمانے میں بھی انسان علم و دانش میں ترقی کی وجہ سے موجودہ دور کے جدید وسائل کو چھوڑ کر علمی وعقلی تکامل کے زمانے کے وسائل سے استفادہ کرے گا۔

کیا یہ صحیح ہے کہ بشریت علم اور زندگی کے ہر شعبے میں بے مثال ترقی کرنے کے باوجود گزشتہ زمانے کے وسائل سے استفادہ کرے؟

کیاجدید وسائل کے ہوتے ہوئے پرانے زمانے کے وسائل سے استفادہ کرنا پسماندگی اور گزشتہ زمانے کی طرف لوٹنا شمار نہیں ہوگا؟

کسی شک و تردید کے بغیرقطعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح انسان سوئی اور دھاگے کو چھوڑ کر جدید سلائی مشینوں سے استفادہ کرتا ہے۔جس طرح تانگہ اور بگھی کو چھوڑ کر جدیدترین اور آرام دہ گاڑیوں پر سفر کر تا ہے۔اسی طرح انسان آج کی علمی و صنعتی ترقی سے دورِ حاضر کے جدیدوسائل سے استفادہ کررہا ہے

۲۳۱

لیکن جب یہ علمی و صنعتی ترقی تکامل کی حد تک پہنچ جائے تو پھر انسان موجودہ دور کے وسائل کو چھوڑ کر اس دور کے جدید ترین وسائل سے استعمال کرے گاکہ آج کے دور کے وسائل کی ان کے سامنے کوئی اہمیت  نہیں ہو گی۔

اس مطلب کی وضاحت کے لئے ایک مثال ذکر کرتے ہیں:

اگر کوئی سورج سے توانائی حاصل کرکے گاڑی چلاسکے تو کیا پیٹرول یا ڈیزل استعمال کرکے  فضاکو آلودہ کرنا صحیح ہے؟

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ اس زمانے میں نہ صرف انسان علم و صنعت میں موجودہ مادی وسائل کی بہترین اور کاملترین انواع سے میں استفادہ کرے گا۔بلکہ معنوی امور میں پیشرفت اور  ملکوت تک رسائی سے بہت سی ناشناختہ  قوتیں حاصل کرے گا کہ جن سے استفادہ کرکے انسان بہت ہی پیشرفتہ اور جدید  وسائل تک رسائی حاصل کرکے ان سے استفادہ کرسکتا ہے۔

اس بناء پر ہم یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے جدید وسائل (سب کے سب یا ان میں سے اکثر)علم و دانش کے اس درخشاں زمانے میں ترک کردیئے جائیں گے۔

یہ واضح ہے کہ اس کام سے گزشتہ زمانے کی طرف لوٹنا لازم نہیں آتا ہے ۔ بلکہ عقل و علم کے تکامل سے انسان زمانۂ ظہور اور امام زمانہعلیہ السلام کی الہٰی حکومت میں علم و صنعت کے تکامل سے جدیدترین وسائل کو استعمال کرے گا۔اگر انسان اس زمانے میں بھی موجودہ دور کے آلات و وسائل سے استفادہ کرے تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے آج ہم برق رفتار اور جدید ماڈل کی آرام دہ گاڑیوں کے باوجود تانگہ اور بگھی سے استفادہ کریں۔

ظہور کے پر نور زمانے کی تبدیلیوں اور اس زمانے کے علمی و عقلی تکامل سے آگاہ افراد کے لئے یہ ایک واضح حقیقت ہے۔

کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس طرح گزشتہ زمانے کی بہ نسبت علمی ترقی نے آخری ایک صدی  کے دوران صنعت و ٹیکنالوجی میں بہت سی تبدیلیاں وجود میں لائی ہیں ۔اسی طرح امام مہدی علیہ السلام کی الہٰی حکومت کے دوران غیر معمولی  علمی ترقی سے بہت سی حیران کن تبدیلیاںوجود میں آئیں گی کہ موجودہ ترقی جن کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں رکھتی۔

۲۳۲

سورج نور ، روشنی اور انرجی کا بہترین منبع ہے۔انسان علمی ترقی کے بڑے بڑے دعوں کے باوجود بھی ابھی تک سورج کی انرجی سے مکمل طور پر استفادہ نہیں کرسکا۔جس طرح انسان پانی کو مختلف  طریقوںسے ذخیرہ کرکے اسے ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔اسی طرح سورج سے انرجی ذخیرہ کرکے اسے بہت سے کاموں کے لئے استعمال میں لاسکتے ہیں۔

اب تک انسان اپنے علم کے ذریعہ یہاں تک آگاہی حاصل کرسکا ہے کہ سورج حیات کے لئے  مہم منبع اور توانائی کاسب سے بڑا ذریعہ ہے۔

لیکن یہ کہ اس سے کس طرح استفادہ کرسکتے ہیں؟کس طرح اس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں؟کس طریقے سے تیل ،پیٹرول اور ڈیزل کی بجائے سورج کی انرجی اور توانائی سے استفادہ کرسکتے ہیں؟

یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر اب بھی ابہام کا  پردہ پڑا ہوا ہے۔ اب تک اس سے بہت کم موارد میں فائدہ لیا گیا ہے۔سورج اور اس کی توانائی کے علاوہ چاند بھی توانائی کامنبع ہے کہ جس کی توانائی زمین پر بہت سی اشیاء پر اثر انداز ہوتی ہے۔

لیکن انسان اپنی علمی ترقی کے تمام تردعوؤں کے باوجود چاندکی توانائی کو ذخیرہ نہیں کرسکا کہ جسے وہ اپنے اختیار میں قرار دے کراس سے استفادہ کرسکے۔

چاند کی روشنی کا زمین کے پانی اور دریاؤںکے مدّ و جزر انسان کے جسم اور نفسیات پر اثرات اور اسی طرح اس کا دوسری اشیاء پر اثرانداز ہونا ایسے مطالب ہیں کہ جن تک انسان کی تحقیق پہنچ سکی ہے۔ لیکن چاند کی روشنی کو ذخیرہ کرکے اس سے ضروری موارد میں استفادہ کرنے کے بارے میں کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔(1)

--------------

[1] ۔ چاند کے نور اور روشنی کے بارے میں جاننے کے لئے قدیم کتب میں سے مرحوم آیت اللہ شیخ علی اکبر نہاوندی کی کتاب گلزار اکبری اور جدید کتب میں سے لیال واٹسن کی فارسی میں ترجمہ شدہ کتا ب فوق طبیعت کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۲۳۳

چاند اور سورج تو درکنارستاروں کی روشنی اور کہکشاؤں میں بھی بہت زیادہ  توانائی ہے۔اب تک   دنیا کی علمی ترقی کے دعویدار اس راز سے بھی پردہ نہیں اٹھا سکے۔وہ انہیں ذخیرہ کر کے انہیں بروئے کار لانے سے عاجز ہیں ۔خداوند کریم نے اہل زمین کے لئے سورج اوربعض ستاروں کے طلوع کرنے میں ایسی حیران کن تأثیر قرار دی ہے کہ بہت سے افراد کو اس کا یقین نہیں ہوتا ۔کیونکہ یہ ان کی سطح فکری اور یقین  کی منزل سے بلند ہے۔

ہم نے اپنا راستہ بہت طولانی کر دیا۔زمین سے چانداور سورج پر چلے  گئے اور وہاں سے کہکشاؤں کے سفر پر نکل گئے ۔ اب ہم اپنے وطن یعنی زمین پر واپس آتے ہیں ۔ کیونکہ ابھی تک اس کے بہت سے اسرار باقی ہیں کہ جنہیں درک کرنے سے ہمارا علم عاجز ہے۔ابھی تک تو خلقتِ زمین کے اسرار سے پردہ اٹھنا بھی باقی ہے۔

جس دن تمام دنیا پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مطلق حکومت ہو گی اور جب زمین و آسمان اور چاند سورج کی خلقت کے شاہد ظاہر ہو کر ان پر حکومت کریں گے تو وہ کائنات کو اپنے علم سے منوّر فرمائیں گے اور معاشرے سے جہالت کی تاریکی دور کریں گے پھر انسان پر خلقتِ کائنات کے اسرار کھل جائیں گے۔

جی ہاں جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اس دن ہر چیز کا علم ہو گا جہالت کے بادل چھٹ جائیں گے اور کوئی پنہان راز باقی نہیں رہے گا۔(1)

اب ہم اس دن کی یاد سے اپنے دل کو شاد کرتے ہیں کہ جب اسرار ِ کائنات سے پردہ اٹھ جائے گا اور کوئی راز مخفی نہیں رہے گا۔اس بابرکت، باعظمت، منوّر اور درخشاں دن کی آمد کے لئے درد بھرے دل اور سرد آہوں کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ شاید ہمارے شکستہ دلوں کی آہوں میں کوئی اثر ہو۔

--------------

[1]۔ یہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی اس روایت کی طرف اشارہ ہے: مامن علم الّا و انا افتحہ والقائم یختمہ۔

۲۳۴

  زمانۂ ظہور اور موجودہ ایجادات کا انجام

ہم دو اہم اور بنیادی اسباب ذکر کرتے ہیں۔

1 ۔ حضرت صاحب العصر والزمان (عج) کا دن یا کو ہ دایت کرنا ۔

2 ۔زمانۂ ظہور کے لوگوں کا فکر ی و عقلی رشد او رتکامل ۔

ان دواسباب کی وجہ سے انسان تیزی سے علم حاصل کر سکے گا ۔ جس سے عظیم تمدّن نصیب ہو گا۔اب ہم ایک اور سوال مطرح کرتے ہیں کہ ظہور کے زمانے کی عجیب علمی ترقی اور تمدن کے بعد موجودہ دور کی ایجادات کا کیا ہوگا؟کیا وہ نابود ہوجائیں گی؟

کیا اس زمانے کے لوگ ان سے استفادہ کریں گے؟اور کیا........

ممکن ہے کہ یہ اور ایسے کئی سوال بعض افراد کے ذہنوں میں پیدا ہوں۔لہذا اس کا تسلّی بخش جواب دینا ضروری ہے۔ہم اس سوال کا مفصل جواب دینے کے لئے موجودہ دور کی ایجادات کو کچھ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں تا کہ قارئین محترم کے لئے بہترین جواب فراہم کیا جا سکے۔

  مضر ایجادات کی نابودی

موجودہ ایجادات میں سے ایسے وسائل بھی ہیں کہ جو نسان کی تباہی و بربادی کا باعث ہیں ۔ جنہیں جنگوں اور قتل و غارت میں ہی بروئے کار لایا جاتا ہے ۔ مثلاََ ایٹم بم......

۲۳۵

یہ واضح ہے کہ ایسی ایجادات نے معاشرے کو تباہی و بربادی ااور خونریزی کے سوا ء کچھ نہیں دیا۔ظلم و ستم اور فسادات کے علاوہ ان کا کوئی اور ثمر نہیں ہے اور ایسی ایجادا ت امام مہدی  علیہ السلام کی عادلانہ و کریمانہ اور آفاقی حکومت سے سازگار نہیں ہیں۔ایسے وسائل کی نابودی ہی میں معاشرے کی بھلائی ہے ۔ انسانوں اور دوسری مخلوقات کی نجات کے لئے ایسے مخرّب وسائل کی نابودی ضروری ہے ۔ یہ فقط حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت میں ہی نہیں بلکہ تاریخ میں بعض اوقات انسانیت سے محبت کرنے والے بادشاہوں نے بھی ایسے وسائل بنانے کی سختی سے ممانعت و مخالفت کی ۔ حلانکہ ان کی حکومت کو ان کی اشد ضرورت تھی ۔ جنہوں نے بربادی کے ایسے ذرائع بنانے کی مخالفت کی ان میں سے ایک''لوئی پانزدہم'' ہے ۔ یہ ایسے بادشاہوں میں سے تھا کہ جس کا علم و حکمت سے قریبی ناطہ تھا۔وہ محققین کو ہر ممکن سہولت مہیا کرتا اور دانشوروں کے لئے غیر معمولی احترام کا قائل تھا۔اس کی حکومت میں ایک ماہر کیمیا دان تھا کہ جس کانام'' دوبرہ'' تھا اس نے ایک ایسا آتش گیر مادہ ایجاد کیا تھا کہ جس کا کوئی توڑ نہ تھا اور نہ ہی اس سے بچنا ممکن تھا۔حتی کہ اس سے لگائی جانے والی آگ کو پانی سے بھی بجھانا ممکن نہیں تھا۔

''دوبرہ ''نے بادشاہ کے سامنے اپنی ایجاد پیش کی اور اس کا تجربہ کیا گیا ۔ بادشاہ بہت حیران ہوا جب اس نے دیکھا کہ یہ مادہ کئی شہروں کو قبرستان بناسکتا ہے ، بڑی بڑی افواج کو ابدی نیند سلا سکتا ہے تو اس نے حکم دیا کہ اس ایجاد کو فوراََ نابود کر دیا جائے اور اسے بنانے کا فارمولا ہمیشہ پوشیدہ رکھا جائے۔ حلانکہ اس زمانے میں وہ برطانیہ کے ساتھ جنگ کر رہا تھا جسے دشمن کی بحری فوج کو ختم کرنے کے لئے ایسے ہی کسی اسلحہ کی ضرورت تھی لیکن اس نے انسانیت کو نجات دلانے کے اسی میں مصلحت جانی کہ اس اسلحہ کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے۔(1)

--------------

[1] ۔ تاریخ ناشناختہ بشر:105

۲۳۶

 علم دنیا کی رہبری نہیں کر سکتا

اگرچہ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں حاصل ہونے والی علمی ترقی کی بدولت بہت سے دانشوریہ گمان کر رہے تھے کہ ایک ایسا دن بھی آئے گا کہ جب علم دنیا کہ رہبری و قیارت کرے گا اور علم سے استفادہ کرکے وضع کئے گئے قوانین کے سائے میں یہ دنیا کو غم والم سے نجات دے گا۔لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت ہو گیا کہ انہوں نے جو کچھ سوچا تھا حقیقت اس کے برعکس ہے ۔

کیونکہ علمی ترقی نہ صرف دنیا کو بے عدالتی اور مصائب سے نجات نہیں دے سکتی بلکہ اس نے معاشرے کی مشکلات و تکالیف اور مصائب میں مزید اضافہ کر دیاہے۔

تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ اب تک کی علمی ترقی سے لاکھوں افرد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لاکھوں افرد بے سروسامانی کے عالم میں پڑے ہیں۔یہ سب صرف اس وجہ سے ہے کہ علم نے ترقی کی ہے۔ اس سیانسان کی انسانیت میں تقویت نہیں آئی۔حلانکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی ہونی چاہئے نہ کہ کسی ایک شعبہ میں۔علم اس صورت میں معاشرے کو تکامل کی طرف لے جا سکتا ہے کہ جب وہ عقل و انسانیت کے ہمراہ  ترقی کرے۔لیکن اگر علم ان کے بغیر ترقی کرے تو تو وہ بشریت کی تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے۔

چودزدی با چراغ آید     گزید ہ تر برد کالا

نظام خلقت صحیح تکامل کی بناء پر قرار دیا گیا ہے۔یعنی جس روز تمام مخلوقات نباتات، حیوانات اور انسان خلق ہوئے، اسی دن سے ان کے تکامل کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی اسی حالت پر باقی رہیں کہ جو خلقت کے پہلے دن تھی تو پھر دنیا کا کیا حال ہو گا؟

۲۳۷

اس بناء پر اس معنی میں تکامل زندگی کی حتمی شرائط میں سے ہے ۔ اس میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جسمانی تکامل ،روحانی و فکری تکامل کے ساتھ ہونا چاہیئے

یعنی جس طرح بچہ جسمانی اعتبار سے رشد پاتاہے اسی طرح انہیں فکری و روحانی اعتبار سے بھی رشد پانا چاہیئے ۔ اگربچہ جسمانی طور پر تو رشد پائے لیکن جسمانی و روحانی طور پر رشد نہ پائے بلکہ اس کے بچپن کے افکار میں کوئی تبدیلی  پیدا  نہ ہوتو معاشرہ کس حال تک پہنچ جائے گا؟

پس انسان کا جسمی تکامل ان کے فکری تکامل اور عقلی رشد کے ساتھ ہونا چاہیئے اور یہ ہمراہی زندگی کے تمام شعبوں میں برقراررہنی چاہیئے ورنہ اگر انسان ایک اعتبار سے تکامل کی منزل تک پہنچ چکا ہو اور دوسری جہت سے تنزلی کی طرف جا رہا ہو یا اسی طرح ہی متوقف رہے تو اس معاشرے سے  تعادل منتفی ہو جائے گاکہ جو معاشرے کی تباہی کا سبب بنے گا۔

اس بناء پر جس طرح معاشرہ علم و صنعت کی راہ میں کوشش کررہا ہے اور علم وصنعت کے تکامل اور مادی امور کی پیشرفت میں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے ۔ وہا ں اسے معنوی و روحانی مسائل میں بھی تکامل کی طرف گامزن رہنا چاہیئے ورنہ روحانی و معنوی مسائل میں توجہ کئے بغیر علمی و صنعتی ترقی خطرناک اور تاریک مستقبل کے علاوہ کچھ نہیں دیتی۔

اگر انسانی معاشرہ اور دنیا کی ترقی کے خواہاں جہاں دنیا کو ترقی و تکامل کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں انہیں فکری و معنوی اور روحانی تکامل کی بھی کوشش کرنی چاہیئے نہ کہ فقط کچھ مادی  آلات و وسائل بنانے ہی میں مگن رہیں ۔ سب سے پہلے انسان کے وجود میں شخصیت، افکار اور نظریات کے اعتبار سے بدلاؤ اور تکامل ایجاد ہونا چاہیئے تاکہ صنعت و تمدن میں واقعی پیشرفت وجود میں آئے ورنہ کسی ایک شعبہ میں ترقی دنیا کو نابودی کے سواء کچھ نہیں دے سکتی۔

۲۳۸

 دنیا کا مستقبل اور عالمی جنگ

ماضی اور حال میں دنیا کی معروف ترین شخصیات دنیا کی نابودی اور تباہی  وبربادی سے خوفزہ تھیں اور اب بھی ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں ہی نے دنیا کو اس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ایسے ہی افرد میں سے ایک'' آئن اسٹائن'' بھی ہے۔

'' رسل '' کہتا ہے کہ ایٹم بم اور اس سے بھی بڑھ کر ہائیڈروجن بم سے انسانی معاشرے کی تباہی کے خوف وہراس میں اور زیادہ اضافہ ہوا ہے  اکثر علمی ترقی انسان کوموت کے منہ میں دھکیلنے کا سبب بنی ہے حتی کہ اس میں بعض جید شخصیات اور صاحب نظر حضرات کہ جن میں سے ایک آئن اسٹائن ہے۔(1)

'' دکنت دونوئی '' کہتا ہے :آج دنیا ایٹمی توانائی کے نتیجہ میں مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑی  ہے۔دنیا اب متوجہ ہوئی ہے کہ ان کی نجات کا واحد راستہ انسان کا اخلاق حسنہ ہے۔انسانی تاریح میں پہلی بار انسان اپنے ہوش وحواس سے کئے گئے کام پر بھی شرمندہ ہے۔(2) جی ہاں!اب بہت سے یورپی سیاست دان انسان اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔ انہیں نہیں معلوم کہ ان اسلحوں سے استفادہ کرنے سے کیا دنیا پوری طرح تباہ ہوجائے گی یانہیں؟دنیا کے مستقبل کے لئے خطرے اور عالمی جنگ کا بہانہ بننے والے اسباب میں سے ایک بعض ممالک کا دوسرے ممالک کو جدید جنگی آلات فروخت کرنا ہے۔سیاست دان زیادہ دولت کمانے اور دوسرے مملک میں نفوذکرنے کے لئے ایسے کام انجام دیتے ہیں ۔ دوسرے ممالک کو جنگی سامان کی فروخت بڑے ممالک کی آمدنی کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔اسی لئے ہر روز بازار میں جدید ترین اسلحہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر دن ایک سے بڑھ کر ایک ہتھیار بنایا جاتا ہے۔ اب آپ  یہ رپورٹ ملاحظہ کریں۔

--------------

[1]۔ آیت الکرسی پیام آسمانی توحید:213

[2]۔ آیت الکرسی پیام آسمانی توحید:213

۲۳۹

دوسری عالمی جنگ کے دوران میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساقی پر گرائے گئے ایٹم بموں نے بہت زیادہ تباہی پھیلائی۔حلانکہ نائیٹروجن بم ،ایٹم بم کی بہ نسبت سوئی کی نوک کے برابر بھی تباہی نہیں پھیلاتا۔اس کے پھٹنے کی قوّت بھی بہت کم ہوتی ہے۔کیونکہ اس کی اسّی فیصد توانائی نائٹروجن کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔یہ شعاعیںجس جنگی میدان یا علاقہ پر پڑیںتو یہ وہاں کی تمام موجودات حتی کہ خوردبین سے دکھائی دینے والے موجودات و مخلوقات کو نابود کردیتی ہیں۔

''ساموئل کوین'' اپنی ایجاد کی خوبیاں اور خامیاں یوں بیان کرتا ہے۔

نائٹروجن بم میں دو بڑی خامیاں ہیں۔ایک یہ کہ وہ شہروں اور عمارتوںکی نقصان نہیں پہنچاتا ، ممکن ہے کہ دشمن ان پر قبضہ کر لیں یا یہ کہ انہیں تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم کا استعمال کریں۔اس بم کی دوسری خامی یہ ہے کہ یہ بم اپنے تھوڑے سے عمل سے تمام موجودات حتی کہ خوردبین سے دکھائی دینےوالے موجودات   و مخلوقات کو نابود کردیتا ہے اور بہت بڑے شہر کو ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصہ سے پہلے خاموش قبرستان میں تبدیل کردیتا ہے۔اس سے تمام مخلوقات فناہو جاتی ہیں ۔ لیکن میرے خیال میں نائٹروجن بم، ایٹم بم کی بہ نسبت قدرے بااخلاق ہے۔ کیونکہ ایٹم بم ایٹم سے بنایا جاتا ہے اور یہ بم ہزاروں لاکھوں اموات کے علاوہ بہت سے لوگوں  کو اندھا،بہرا اور معزور کردیتا ہے۔ حلانکہ نائٹروجن بم اپنی اتنی طاقت کے باوجود کسی کو معزورباقی نہیں چھوڑتا۔(1) نائٹروجن بم بہت سی چیزوں کی حکایت کرتا ہے جیسے کہ آدم کشی ارزشوں میں شمار ہو گی۔اگر کوئی ایسا بم بنایا جائے کہ جس سے دنیا میں کوئی انسان بھی باقی نہ رہے تو یہ بہت زیادہ بااخلاق بم ہوگا۔جی ہاں!جو انسان خداسے دور ہوچکا ہو اور جس نے اخلاقی اقدار کو چھور دیا ہو ۔اس کاانجام ایسا ہی ہو گا۔(2)

--------------

[1]۔ روزنامہ کیہان:5 شھریور:1360 صفحہ 5

[2]۔ سیمای انسان کامل از دیدگاہ مکاتب:465

۲۴۰