امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 175068
ڈاؤنلوڈ: 4309

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175068 / ڈاؤنلوڈ: 4309
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

''برتراند راسل'' علم کے بارے میں یہ سخت تلخ اور مایوس بیان دیتے ہوئے کہا:

شاید ہم ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیںکہ جوبنی نوع انسان کے فناہونے کا زمانہ ہے۔اگر ایسا ہوا تو اس کا گناہ علم پر ہوگا۔(1)

1960 ء  ک ی دھائی میں نوجوانوں اور بالخصوص پڑھے لکھے اور یونیورسٹییوں کے نوجوانوں  میں علم دشمنی رواج پائی کیونکہ انسان کے یہ تمام مصائب و مسائل علم وفنون کی ترقی سے وجود میں آئیں ہیں ۔(1)

مغربی تمدن نے جس طرح علم کو غیر انسانی اور حقیرانہ منافع سے آلودہ کیااسی طرح انہوں نے ڈیموکریسی کو بھی اپنے اہداف کے حصول کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔

اب وہ وقت آ گیا ہے کہ جب اس تمدن کی تقدیر اس کی پیدائش اور اس کے مصرف کے بارے میں سوچیں اور انسان کی بے بسی، درماندگی ،بے اعتدالی اور خود بیگانگی کے موجبات کو پہچانیں اور ان کا راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔ البتہ علم کو چھوڑ کر، توہمات کی بناء پر نہیں بلکہ عقل مندی سے ان کے لئے چارہ جائی کریں اور ایک دوسری دنیا اور نیا انسان بنائیں۔(3)

1945ء کے بعد سے دنیا تباہی،بربادی اور موت کے منہ میں کھڑی ہے۔کئی بار اس تو اس کے انجام تک بات جا پہنچی ۔ایٹمی اسلحوں کی وجہ سے ہمیشہ سب جاندار وں کے سروں پر موت کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے۔فوج اور اسلحہ کی دوڑ میں ہر کوئی دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگا ہے۔

--------------

[1]۔ علم،قدرت،خشونت:87

[2]۔ روان شناسی ضمیر ناخود آگاہ:73

[3]۔ روان شناسی ضمیر ناخود آگاہ:89

۲۴۱

اس مقابلہ سے زمین اور اس کی فرہنگ و ثقافت کی بربادی کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔جو فوج اور سیاست دانوں کی قدرت سے کچھ سال پہلے تک طرف مقابل کو ایٹم بم سے ڈراتے اور دھمکاتے تھے ان میں سے دانشوروں نے ایٹمی اسلحہ کے خلاف آواز اٹھائی۔حلانکہ اسے بنانے اور ایجاد کرنے میں البرٹ آئن اسٹائن اور   لئو اسزیلارد  کا اہم کردار تھا۔

1962 ء  م یں ایٹمی ماہرین طبعیات نے ایٹمی تجربات کے بارے میں خبردار کیا اور باقاعدہ اعلان کیا کہ ایٹمی تجربات کی وجہ سے ایک سال میں دولاکھ معذور اور ناقص الخلقت بچے پیدا ہوئے ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے وجود میں آنے والا'' سزیوم137 ''مستق یم حمل پر اثر انداز ہوتا ہے،جس سے بچے معذور پیدا ہوتے ہیں۔جن کی چھ انگلیاں ہوتی ہیں یا وہ بدشکل  اور لنگڑے پیداہوتے ہیں۔

ژان روستان ،ڈاکٹر دلونی اور زیست شناسی میں انعام پانے والے امریکی پروفیسر مولر نے رسمی طور پر اپنی پریشانی کا اعلان کرتے ہوئے خبردا رکیا کہ ایٹمی دھماکوں کو بارہا تکرار کرنے سے زندگی کو اور بہت سنگین مشکلات لاحق ہو سکتی ہیں۔اس کے بعد دنیا کے بے شمار دانشور  ان کے ہمراہ ہوگئے۔

1962 ء  م یں دنیا میں زیست شناسی کے سینکڑوں مشہور ماہرین نے ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس کا  عنوان تھا''ہم سب ایٹمی تجربات سے مر جائیں گے اگر.....''اس اجلاس میں فرانس کے مشہور ماہر طبیعات'' ژان روستان'' نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یوں خبردار کیا :رادیو آکٹیو کے مواد سے جانداروں کے سرو ںپر ہمیشہ موت کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے۔جو نابودی کا پیغام ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آئندہ نسل اندھی، بہری، گونگی، معذور اور پاگل پیدا ہو گی۔(1)

دنیا میں ایٹمی دھماکوں اور ایٹمی جنگ کے بعد وجود میں آنے والی نسل ہاتھ کی ہتھیلی سے زیادہ بڑی نہیں ہوگی۔

--------------

[1]۔ تاریخ ناشناختہ بشر:169

۲۴۲

  ایٹم کے علاوہ دوسری منفی اور مضر ایجادات

دوسرا درپیش مسئلہ یہ ہے کہ نہ صرف ایٹمی صنایع بلکہ کیمیائی صنایع بھی موت کے اس مقابلے میں برابر شریک ہیں۔جیسا کہ امریکی دانشوروں نے اس بات کی تائید کی ہے کہ صرف ایکس نامی شعاعیں ایٹم کی شعاعوں سے بیس گنا زیادہ نقصان دہ ہیں۔  اسی طرح کیمیائی صنعت سے وجود میں آنے والی ادویات کہ جنہیں ہم بڑی آسانی سے میڈیکل اسٹور سے خریدتے ہیں،وہ ہمیں کن خطرات میں مبتلا نہیں کرتیں؟ان شعاعوں میں جو بھی میزان ہو البتہ یہ بات مسلّم ہے کہ وہ نسل اور نطفہ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔آسان الفاظ میں یوں کہوں کہ اگر کسی نے ایک بار ہی ریڈیو گرافی کروائی تو اس کو یہ جان لینا چاہیئے کہ یہ اس کی افزائش نسل اور جنسی قوّت پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔ٹیلیویژن اور ریڈیالوجی کی مشین میں یہ شعاعیں ہوتی ہیں۔اگرچہ مختصر مدت میں اس کے اثرات ظاہر نہ ہوںلیکن  کچھ سالوں یا آئندہ صدیوں میں ان کے مضر اثرات کوظاہرہو جائیں گے۔

''ڈاکٹر رابرٹ ویلسن ''امریکہ کی ایٹمی انرجی کمیشن کے ممبران میں سے ایک ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ٹی وی اسکرین سے نکلنے والی اکثر مضر شعاعیں ایٹمی تجربات کی وجہ سے زیادہ منتشر ہوتی ہیں۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ایٹمی کارخانوں کے زائد اور فاضل مواد کو کسی طرح بھی ختم نہیں کیا جا سکتا، حتی کہ اسے زمین کی گہرائی میں دفن کرنے سے بھی ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔(1)

اب ہم اپنے جواب کی مزید وضاحت کے لئے موجودہ ایجادات کو تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔

1 ۔ مضر، منفی اور تباہی وبربادی کا باعث بننے والی ایجادات

2۔ منفی اثرات نہ رکھنے والی ایجادات ۔ لیکن انہیں استعمال کرنے کا وقت گزر چکا ہو۔

3۔ جو ایجادات منفی اور مضراثرات نہیں رکھتی، لیکن معاشرہ اب بھی ان سے استفادہ کر رہا ہے۔

--------------

[1]۔ تاریخ ناشناختہ بشر:171

۲۴۳

  پہلی قسم کی ایجادات

یہ واضح ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام  کی آفاقی حکومت اور عادلانہ نظام میں نہ صرف مضر ، منفی اور تمام جنگی آلات بلکہ فساد، تباہی اور انسان کے جسم و جان کی بربادی کا باعث بننے والے ہر طرح کے وسائل بھی نیست و نابود ہو جائیں گے۔اس بناء پر گزشتہ مطالب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت میں صرف تباہی کا باعث بننے والے جنگی آلات کو ہی نہیں بلکہ معاشرے کے لئے مضر، منفی، شوم اور انسان کو نابود کرنے والے تمام تر آلات کو ختم کر دیا جائے گا۔

آنحضرت ان آلات و وسائل کو نابود کرکے انسانیت کو ان کے منفی اثرات سے نجات دلائیں گے ۔  پس حضرت ولی عصر (عج) کی حکومت میں بربادی کا باعث بننے والی ہر ایجاد کو نیست ونابود کر دیا جائے گا۔

  آئن اسٹائن کا ایک اور واقعہ

کلمبیا کی یونیورسٹی کے فزکس کے دو پروفیسروں نے روز ولٹ کو خط لکھا جس کا خلاصہ یوں تھا:

ایک ایسی چیز موجود ہے کہ جس کا نام ایٹمی توانائی ہے جرمن سائنسدان بھی اس پر کام کر رہے ہیں یہ ایک طاقتور اسلحہ ہے ۔صدر کو اس بارے میں سوچنا چاہیئے کہ اس بارے میںکیا کیا جائے؟

فزکس کے ان دونوںپروفیسروں کو معلوم تھا کہ صدر مملکت ایٹمی توانائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن وہاں کوئی ایسا بھی موجود تھا کہ جو ایٹمی توانائی سے بخوبی واقف تھا اورصدر بھی اس کی بات مانتا تھا ۔

۲۴۴

 روزولٹ پہلے اس کی تلاش میں گئے ۔ آئن اسٹائن کے لئے یہ بہت دکھ کی بات تھی کہ ایک مدّت تک صلح کا طرفدار ہونے کے باوجود ایسا کام کرنے کے لئے دستخط کرے لیکن اس نے یہ کام کیا اور جب تک زندہ رہا اسی بات پر پشیمان رہاکہ اس نے صرف ایک بٹن دبا دیا۔(1)

آئن اسٹائن کے اعتراف اور اس کا اپنے ماضی پر پشیمان ہونے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگرچہ دنیا کاایک بہترین اور نامور دانشور تھا ، لیکن وہ علم کی راہ میں اپنی ملت سے کی گئی خیانت سے بھی آگاہ تھا۔

آئن اسٹائن کا دوسرااشتباہ

آئن اسٹائن کانظریہ تھا کہ دنیا اس قدر وسیع ہے کہ اس کی چوڑائی تین ارب نوری سالوں میں بھی طے نہیں کر سکتے۔ حلانکہ 1963 ء میں ''کوآزر''کشف ہوا کہ جسے دیکھ کر ماہرین فلکیات متزلزل ہو گئے ۔جب ٹیلی اسکوپ کے ذریعہ ایک ''کوآزر'' کو دیکھا  تو انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر پکڑ لئے کہ کہیں ان کا بھیجا ان کے سر سے نہ گر پڑے اور وہ پاگل نہ ہوجائیں ۔ اس''کوآزر ''کا زمین سے فاصلہ نو ارب نوری سال تھا ۔ حلانکہ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ دنیا کی وسعت اور اس کی چوڑائی تینارب نوری سال  سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔خلاء کی وسعت کا حساب لگانے کے لئے (جسے طے کرنے کے لئے نور کو نو ہزار ملین سال درکا ہوں)یہ فکر کرنا کافی ہے کہ نور ہرسال  9500  ارب  کلومیٹر طے کرتا ہے اور 9500 کلومیٹر کونو  ارب سال سے ضرب دیں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ کوآزر اور زمین کے درمیان کتنافاصلہ تھا۔

--------------

[1] ۔ آئن اسٹائن:25

۲۴۵

اس فاصلہ کو تو چھوڑیں کہ جس کے تجسّم پر عقل قادر نہیں ہے۔جس نے علماء نجوم اور ماہرین فلکیات کی عقل کو ہلا کر رکھ دیا۔وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ کوآزر میں کس قسم کی انرجی موجود ہے کہ جس سے ایسا نور وجود میں آتاہے ۔(1)

ان مطالب پر توجہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ زمین کی چوڑائی کے بارے میں آئن اسٹائن کا نظریہ غلط تھا۔اب جب کہ آئن اسٹائن کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ لہذا یہ کہنا مناسب ہے کہ وہ ایک جرمن یہودی تھا کہ جس نے اپنی ملّت کے ساتھ ایسی خیانت کی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اس نے امریکہ کو پیشکش کی کہ وہ ایٹم بم بنانے میں جرمنی سے پہل کرے۔

1932 ء  م یں ہٹلر کو اقتدار و قدرت ملی اس وقت آئن اسٹائن امریکہ میں تھا اور اس نے اعلان کیا کہ وہ جرمنی واپس نہیں جانا چاہتا ۔لہذا جرمن فوجیوں نے اس کے گھر کو توڑ دیا اور اس کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیئے۔برلین کے ایک اخبار میں یہ مقا لہ لکھا گیا جس کاعنوان تھا :

'' ایک اچھی خبر! آئن اسٹائن  واپس نہیں آئے گا''

آئن اسٹائن نے اس خوف سے کہ کہیں جرمن سائنس دان ایٹم بم نہ بنا لیں۔ لہذا اس نے  امریکہ کو پیشکش کی کہ وہ ایٹم بم بنانے میں جرمنی سے سبقت لے حلانکہ پہلے بم دھماکے سے پہلے وہ لوگوں کو اس بم کے خطرات سے آگاہ کرتا تھا۔اس نے اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں پر قابو پانے کی کوشش کرے۔(2)

شاید وہ اپنے ملک اور ملّت سے کی گئی خیانت کی وجہ سے اپنی زندگی پر پشیمان تھا ۔اپنھائمر، آئن اسٹائن کے قریبی دوستوں میں سے تھا۔یونیسکو کی جانب سے آئن اسٹائن کی دسویں  برسی کی  مناسبت سے منعقدہ اجلاس میں'' اپنھائمر'' نے کہا:

--------------

[1]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:362

[2]۔ ماہنامہ اطلاعات علمی سال19 شمارہ 3 دی ماہ 1383

۲۴۶

آئن اسٹائن اپنی زندگی کے آخری ایّام میں مأیوس اور جنگوں سے پریشان تھا اور اس نے کہا تھا کہ اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں ایک معمولی الیکٹرک میکینک بننے کو ترجیح دوں گا  ۔(1)

دوسرے قول کے مطابق وہ ایک موچی ہونے کو ترجیح دیتا۔لوگ جاپان کے شہر ہیروشیما میں ہونے والے جاپانیوں کے قتل کو فراموش نہیں کر سکتے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس واقعہ میں ایک ماہر فزکس دان کا فارمولا کارفرما تھا۔ان کے لئے یہ مہم نہیں تھا کہ یہ خبر سننے کے بعد اس فزکس دان نے آٹھ دن تک خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا اور گریہ کرتا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ اگر وہ دوبارہ جنم لے تو یہ تھیوری اور فارمولا نہیں بناؤں گا اور ایک موچی بننے کو ترجیح دوںگا۔

  آئن اسٹائن کی خطا

اس کا نظریہ تھا کہ دنیا میں کسی چیزکی سرعت نور سے زیادہ نہیں ہو سکتی یعنی کائنات میں سب سے تیز چیز نور ہے۔اب یہ ثابت ہوا ہے کہ ایک ایسی چیز بھی موجود ہے کہ جس کا نام'' تاخنون'' ہے اور جس کی سرعت نور سے بھی زیادہ ہے ۔اگر آئن اسٹائن کا نظریہ صحیح ہوتا تو انسان کو آئندہ زمانے میں بہت سے خلائی سفر سے ناامید ہو ناپڑے گا۔

علاوہ ازیں: روایات اور خاندان نبوت علیہم السلام کے فرمودات کے مطابق ملائکہ جیسے جبرئیل عرش اور کہکشاؤں سے آگے زمین تک ایک لمحہ سے بھی کم مدّت میں سیر کرتے ہیں۔آئن اسٹائن اور اس جیسے دوسرے افرادخاندان نبوت علیھم السلام کے علمی معارف سے دوری کی وجہ سے ان حقائق سے آگاہ نہیں ہیں ۔

--------------

[1]۔ مقدمہ روانشناسی ضمیر ناخود آگاہ:78،علم و ترکیب سے نقل:29

۲۴۷

''زومر فلد''نے تھیوری بنائی کہ ایسے ذرات بھی موجود ہیں کہ جن کی سرعت نور سے بھی زیادہ ہے کہ جس میں یہ خصوصیت ہے کہ ان کی انرجی جتنی کم ہوتی چلی جائے ،اس کی سرعت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔آئن اسٹائن کی تھیوری زومز فلڈ کے اس حیران کن مفروضہ کے برخلاف تھی ۔ حیرت انگیز اوراثبات نہ ہونے والی تھیوری اگر ایک بار علمی میدان میں آ جائے تو وہ اپنی کشش نہیں  کھوتی بلکہ مدّتوں مورد توجہ رہتی ہے ۔ موجودہ صدی کے آغاز میں زومر فلد نے جس دن سے اپنی تھیوری پیش کی ،اسی دن سے اب تک فزکس کے متعدد دانشوروں نے نور سے بھی زیادی تیز ذرّات کے بارے میں مطالعہ و تحقیق شروع کی۔لیکن1967 ء م یں بالآخر امریکہ کی کلمبیا یونیورسٹی  کے فزکس کے پروفیسر''جرالڈ فینبرگ'' نے ایک رسالہ کے ذریعہ نور سے بھی زیادہ تیز حرکت کرنے والے ذرّات کے بارے میں بحث کا نیا باب کھولا۔جرالڈ فینبرگ نے ان ذرّات کے لئے ایک نام کا بھی انتخاب کیا اور اسے'' تاخنون'' ( Tachionen)کا نام دیا۔

یہ یونانی زبان کے لفظ تاخیس  ( TACHYS) سے مأخوذ ہے کہ جس کے معنی تیز اور سریع کے ہیں ۔ ایک بار پھر فزکس کے ماہرین نے آواز اٹھائی کہ آئن اسٹائن کی تھیوری کی بنیاد پر کوئی چیز نور سے زیادہ تیز حرکت نہیں کرسکتی ۔ لیکن فزکس میں ایٹم کے بارے میں تحقیق کرنے والے بعض ماہرین اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نور سے بھی زیادہ تیز ذرّات موجود ہیں ۔ لیکن آئن اسٹائن کے بعض طرفداروں نے ان کی توجیہات پر اعتراض کئے ہیں۔

  ادینگتون کی غلطی

یہ برطانیہ کا مشہور ماہرطبعیات تھا ۔جو 1944ء میں فوت ہوا ۔ اس نے گزشتہ صدی کے آغاز اور اپنے جوانی کے عالم میں کہا تھا کہ اسّی بار اسی عدد کو خود اس سے ضرب دینے سے دنیا میں موجود ایٹم کی تعداد حاصل ہو جائے گی۔

۲۴۸

جس دن اس نے ریاضی کے اس فارمولا کی مدد سے دنیا میں موجودایٹم کی تعداد کا حساب لگایا ،اس وقت منجّمین کا عقیدہ تھا کہ کہکشاؤں کی تعداد تقریباََ ایک ملین کے قریب ہے۔(1)

ارسطو، کپرنیک اور بطلمیوس کی خطائیں

اب ہم علم میں وارد ہونے والے اشتباہات کانمونہ پیش کرتے ہیں۔

ارسطو کا نظریہ تھا کہ سورج مکمل دائرے کی صورت میں زمین کے گرد گھومتا ہے۔کپرنیک کا خیال تھا کہ زمین ایک مکمل مدار کی صورت میں سورج کے گرد گھومتی ہے۔ان دونوں میں تضاد ہے لہذا یہ نہیں ہو سکتاکہ دونوں کے نظریات ٹھیک ہوں ۔بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں کے نظریات غلط تھے کیونکہ زمین کا مدار گول نہیں بیضوی ہے۔(2)

اب یہ حقیقت جاننا ضروری ہے کہ'' ارسطو ''مشہور مشّائی حکیم اور اس کے پانچ صدیوں بعد آنے والے بطلمیوس نے تین سو سال قبل مسیح پندرہ صدیاں بعد تک مجموعاَ اٹھارہ سوسال علم نجوم کوپیچھے دھکیل ڈالا۔ارسطو نے بشریت کو اٹھارہ صدیاںجہالت کے اندھرے میں رکھا انسان خود کو تو اس ظلمت کدہ سے نجات نہ دے سکا لہذا یہ کہہ سکتے ہیں کہ بشر کی علمی ترقی ارسطو کی وجہ سے اٹھارہ صدیاں رکی رہی۔

--------------

[1] ۔ مغز متفکر جھان شیعہ:367

[2]۔ علم نابخردی:103

۲۴۹

علوم زنجیر کی کڑیوں کی طرح ہیں  جن کی ایک کڑی دوسرے سے ملی ہوتی  ہے۔ ایک علم دوسرے علم کی پیدائش کا سبب ہوتا ہے۔زمین اور دوسرے سیاروں کا سورج کے گرد گردش کرنے میںانسان کے جہل کی وجہ سے اٹھارہ صدیوں تک علم کے دروازے بند ہو گئے جس کا سبب ارسطو تھا اس وقت ارسطو لوگوں میں  اس حد تک مقبول ہو چکا تھا کہ کوئی اس کے نظرئے کو رد نہیں کرتا تھا۔کوئی اس کے بطلان کو ثابت نہیں کرتا تھا۔اقوام عالم کے ذہن میں دو چیزوں نے ارسطو کے نظرئے کو تقویت دی ۔ ایک یہ کہ ارسطو کے پانچ صدیاں بعد آنے والے مصر کے مشہور جغرافیہ دان بطلمیوس نے بھی اس کے  نظریہ کی تائید کی اور ستاروں کی حرکت کے لئے ایک رائے قائم کی کہ سیارے کچھ چیزوں کے گرد گردش کرتے ہیں کہ جو خود بھی متحرک ہیں اور وہ چیزیں زمین کے گرد گردش کرتی ہیں۔لیکن زمین متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے۔یعنی بطلمیوس نے سیاروں کی گردش کو زمین کے گرد دو طرح سے ثابت کیا اور کہا کہ وہ کچھ چیزوں کے گرد گھومتے ہیں کہ جو زمین کے اطراف میں ہیں۔ارسطو کے نظرئے کو تقویت دینے کا دوسرا سبب یہ تھا کہ یورپ کے مسیحی کلیسا، ارسطو کے نظریات کو صحیح تسلیم کرتے تھے اور انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین کی حرکت کے بارے میں ارسطو نے جو کچھ کہا وہ سب صحیح ہے۔کیونکہ اگر کائنات کا مرکز یعنی زمین ساکن نہ ہوتی تو خدا کا بیٹا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) اس میں ہر گز ظہور نہ کرتا ۔(1)

--------------

[1]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:303

۲۵۰

  ارشمیدس کا اشتباہ

ارشمیدس کہتا تھا کہ دس کے عدد کوتریسٹھ بارخود اس سے ضرب دیں تو اس سے دنیامیں موجود ذرّات کی تعداد حاصل ہو جائے گی ۔ذرّات کے بارے میں ارشمیدد س کا نظریہ تھا کہ ذرّہ، مادہ کا سب سے چھوٹا جزء ہے کہ جو دو حصوں میں تقسیم کے قابل نہیں ہے ۔ اس لئے وہ اسے جزء لایتجزّی کہتا تھا ۔(1)

  تیسری قسم کی ایجادات

ایجادات کی یہ  قسم غیبت کے زمانے میں لوگوں کے زیر استعمال ہیں ۔  جن کا کوئی منفی پہلو نہیں ہے ۔ اب ایسے آلات کا مستقبل کیا ہو گا؟

ایسی ایجادات کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔ لہذا ان کے بارے میں کہیں گے :

علم ودانش کی ترقی،عقلی تکامل ، عقل کی قدرت میں اضافہ اور فکری قوّت کے تکامل سے اہم پیشرفتہ اور جدید وسائل کا ایجاد ہونا واضح سی بات  ہے۔ جن کے ہوتے ہوئے عقب ماندہ اور قدیم وسائل کی ضرورت ختم ہوجائے گی ۔ اس مطلب کی وضاحت کئے دیتے ہیں  کہ موجودہ زمانے میں جن وسائل سے استفادہ کیاجاتا ہے اگر انہیںایک صدی قبل کے وسائل اور ا لات سے مقائسہ کریں کہ جن سے اُس زمانے میں استفادہ کیا جاتاتھا مثلاَ کیارسّی اور ڈول کا پانی کے پمپ سے موازنہ کرسکتے ہیں؟

--------------

[1]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:367

۲۵۱

کیا کنویں اور نہر سے پانی نکالنے والی جدید موٹرکے ہوتے ہوئے رسی اور ڈول سے استفادہ کرنے کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟

البتہ اب بھی دنیا کے محروم مستضعف اورغربت کی چکی میں پسے ہوئے بہت سے علاقوں کے لوگ رسی اور ڈول ہی سے استفادہ کرتے ہیں۔یہ متمدن ممالک کی کمزوری ہے کہ جس کی وجہ سے یہ صنعت دنیا کے ہر خطہ کو فراہم نہیں کی جا سکی۔لیکن ظہور کے بابرکت اور نعمتوں سے سرشار زمانے میں ایسا نہیں ہو گا۔

ہم نے  امام زمانہ علیہ السلام کی آفاقی حکومت کی خصوصیات میںبیان کیا کہ ان کی حکومت کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آنحضرت کی حکومت، عادل حکومت ہو گی۔اس کا  یہ معنی ہے کہ اس دن دنیا کے تمام لوگوں کو  ہر سہولت میسر ہو گی۔

  جنگی آلات سے بے نیازی

ہمیشہ سے جنگ اور خونریزی کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔جن کی وجہ سے ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کرکے ایک دوسرے کا خون بہاتی ہے ۔ قتل و غارت کے دو بنیادی اسباب ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے طول تاریخ میں زمین کو لوگوں کے خون سے رنگین کیا گیا۔

1 ۔ ضعف اور کمبودی

2 ۔ حرص

تاریخ کے صفحات پر دقیق نگاہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ تاریخ کی اہم جنگوں کے اسباب مذکورہ دونوں موارد ہیں۔کیونکہ ذرخیز زمین،پانی سے لبریز نہریں، تیل اور گیس کے ذخائر اور اسی طرح سونے اور دوسری معدنیات کے ذخائرتک رسائی کے لئے ظالم حکومتیں دوسرے ممالک پر حملہ کر دیتی ہیں تا کہ وہ ان نعمتوں پر قبضہ کر سکیں۔

۲۵۲

تاریخ میں بہت سی جنگوں کا دوسراسبب ظالم حکومتوں کا اپنے وسائل میں اضافہ کرنے کی  خواہش ہے یعنی جنگ کی آگ بھڑکانے اور دوقوموں اور ملتوں کو آپس میں لڑانے والے ممالک  کے پاس نہ تو کسی چیز کی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں کوئی اقتصادی مسئلہ درپیش ہوتاہے۔بلکہ تمام وسائل اور سہولتیں ہونے کے باوجود وہ ان میں اضافہ کے لالچ میں دوسروں کے مال پر نظریں جمائے ہوتے ہیں۔لہذایہ اپنے ملک کو مزید ترقی دینے اور اس کی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لئے دوسرے ممالک پر حملہ کر دیتے ہیں۔

اگر تاریخ کی طولانی جنگوں اور لشکر کشی پر نگاہ ڈالیں تو واضح ہو جائے گا کہ اکثر جنگوں کا سبب مال ودولت اور زیادہ مال کا لالچ تھا۔جیسی کہ ہم نے ذکر کیا کہ مذکورہ دونوں موارد کے علاوہ تاریخ میں ہونے والی جنگوں، قتل و غارت اور خونریزی کے دوسرے عامل بھی ہیں کہ جن کی وجہ سے جنگ کے شعلے بھڑکائے گئے اور زمین پر بے گناہ لوگوں کا خون بہایا گیا ۔ مذکورہ دونوں موارد پر غور کریں ۔ ضعف و کمبودی اور اسی طرح حرص ۔ یہ دونوں بیرونی اسباب تھے ۔ بہت سی جنگوں کی بنیاد بیرونی اسباب نہیں بلکہ حکّام کے اندرونی عوامل ہوتے ہیں۔اندرونی اسباب میں سے ایک اہم سبب  نفسیاتی گرہیں  ہیں ۔ جس کی وجہ سے بہت بار مختلف علاقوں میں جنگ چھڑ گئی اور تاریخ کے اوراق کو معصوم لوگوں کے خون سے رنگین کیا گیا۔

انسان کے عقلی تکامل سے ایسے مسائل سے رہائی یقینی ہے ۔ جنگ کے اندرونی و بیرونی اسباب نابود ہوجائیں گے ۔ پھر ساری دنیا میں  امن، صلح اور پیار و محبت کی فضا حاکم ہو گی ۔ لہذا اس وقت ایٹمی و غیر ایٹمی بم دھماکوں کی کیا ضرورت ہو گی؟

۲۵۳

  دوسری قسم کی ایجادات

موجودہ ایجادات میں سے دوسری قسم کی ایجادات ایسی ہیں کہ جو منفی اثرات تو نہیں رکھتیں لیکن زمانہ ظہور میں ان سے استفادہ کرنے کا وقت گزر چکا ہوگا ۔ جیسے طبّی آلات اور بعض جنگی سامان کہ جن سے عادلانہ جہاد میں استفادہ کیا جاتا ہے ۔ ایسے وسائل بھی ختم ہو جائیں گے کیونکہ معاشرے کو ان کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ کیونکہ جب معاشرے کے سب افراد صحت مند اور جسمانی و روحانی لحاظ سے سالم ہوں تو پھر تباہ و برباد کرنے والے کسی جنگی سامان اور اسی طرح کسی طبی آلات کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ کیونکہ یہ استفادہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے ۔ پس جب کوئی بیماری ہی موجود نہ ہو تو تو پھر طبی آلات کی بھی ضرورت نہیں ہو گی ۔ لہذا  انہیں بھی ختم کر دیا جائے گا۔

علم دنیا مشکلات حل نہیں کر سکتا

2 ۔ مختلف قوانین کوحاصل کرنے کے لئے عالم مادّہ میں حاکم مقیاس اور پیمانے (جیسے سیکنڈ، سینٹی میٹر، گرام وغیرہ) حقیقت روح ، جاذبہ، نفس، روح، عقل اور ان جیسے دوسرے اسباب کو درک کرنے کے لئے استعمال نہیں کئے جا سکتے ۔ اس بناء پر ماہرین طبعیات کے نزدیک قوّت جاذبہ کی حقیقت مجہول ہے۔ اسی طرح الیکٹریسٹی ، مقناطیس یا توانائی (چاہے وہ ایٹمی ہو یا حرکتی یا الیکٹرک) کی حقیقت بھی مجہول ہے۔فزکس کے ماہرین اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ہر غیر عادی امر کی حقیقت کو سمجھنے  سے عاجز ہیں حتی کہ وہ حقیقت مادہ کو نہ سمجھنے کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔کیونکہ مادہ کی اصل ایٹم کی طرف ہے اور ایٹم پروٹان ،نیو ٹران اور ایک دوسری قوّت کے مجموعہ کا نام ہے کہ جدید علم ہمیشہ اس کی شناخت سے عاجز رہا ہے۔ (1)

--------------

[1]۔ راہ تکامل:895

۲۵۴

۳۔علم طبعیات اب تک اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کہ ہمارے چراغ کا نور جو کہ انرجی ہے ،وہ کس طرح مادّہ میں تبدیل ہو جاتی ہے؟اگر فزکس کے علم کو اس سوال کا جواب مل جائے تو ایک ہی لمحہ میں کئی سال کا علمی سفر طے ہو جائے۔ چونکہ فزکس میں سر الاسرار یہی چیز ہے ۔ خلقت کا عظیم راز بھی اس سوال کے جواب میں مخفی ہے کہ توانائی کس طرح مادّہ میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔ مادّہ کا توانائی  میں تبدیل ہونا ہماری نظر میں عادی ہے ۔ ہم روز وشب کارخانوں ،جہازوں، کشتیوں،  گاڑیوں، گھروں حتی کہ اپنے بدن میں بھی مادہ کو توانائی میں تبدیل کرتے ہیںلیکن آج تک کوئی مادہ کو انرجی میں تبدیل نہیں کر سکا ۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ دنیا میں توانائی کس طرح مادہ میں تبدیل ہوتی ہے۔(1)

4۔ہم چھبیس صدیوں کے بعد ''علم  طبعیات  اورما بعد طبعیات'' کی تمام ترقی کے باوجود فزیکل اور جسمانی لحاظ سے مبداء ِ دنیا کے بارے میں چھ سو سال قبل مسیح میں یونان کے فلسفی کے نظرئے کی حدود سے باہر نہیں نکل سکے ۔ہائیڈروجن ایٹم کے عناصر میں سب سے ہلکا عنصر ہے۔ جس میںایک الیکٹران اور دوسرا  پروٹان ہے۔الیکٹران ، پروٹان کے گرد گردش کرتے ہیں لیکن اب تک فزکس کے کسی بھی نظرئے نے اس کے علمی قانون کو کشف نہیں کیا۔یہ بھی معلوم نہیں کہ کیا پہلے پروٹان وجود میں آیا تھا یا الیکٹران ،یا یہ دونوں ایک ساتھ وجود میں آئے تھے کہ جن میں سے ایک بجلی کی مثبت اور دوسرا منفی توانائی رکھتا تھا؟

اکیسویں صدی سے آج تک اس بارے میں جو کچھ کہا گیا ، وہ صرف ایک تھیوری ہے۔ہم مبدأ دنیا کی شناسائی کے لحاظ سے ''آناگزیمانسر''کے دور کے یونانی لوگوں سے زیادہ نہیں جانتے۔(2)

--------------

[1]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:344

[2]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:112

۲۵۵

گز شتہ مطالب پر توجہ کرنے کے بعد اب ہم چند اہم نکات بیان کرتے ہیں۔

۱۔ مختلف علوم ایک دوسرے سے بے ربط نہیں ہیں۔علم کے کسی ایک شعبہ میں  غلطی  نہ صرف علمی ترقی میں ٹھراؤکا سبب بنتی ہے بلکہ علوم کے دیگر شعبوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے کہ جو اس علم سے مربوط ہیں۔

2 ۔ غیبت کے زمانے میں بعض دانشور اور اسی طرح اس زمانے سے قبل بھی بعض دانشور اپنے شاگردوں اور عوام کے درمیان نفوز کر چکے تھے ان کے شاگرد  ان کی عظمت اور شخصیت کی وجہ سے ان کے نظریات کودل و جان سے قبول کرتے تھے۔نسل در نسل ایسا ہی ہوتا رہا ۔شخصیت کا لحاظ کرتے ہوئے شاگرد پہلے شخص کے نظریات کو قبول کرتے اور اسی کو ادامہ دیتے۔کبھی استاد کی شخصیت کا لحاظ اس قدر زیادہ ہوتا کہ اگر کسی کو استاد کی غلطی کا علم بھی ہوتا تو اس میں اظہار کی جرأت نہ ہوتی کہ کہیں دوسرے اس کی مخالفت و سرزنش نہ کریں اور کہیں بے جا جنجال کھڑا نہ ہو جائے کہ جس سے اس کی آبرو ریزی ہو ۔ یوں وہ اپنے صحیح افکار کا اظہار کرنے سے ڈرتے اور اس کا اظہار نہ کرتے ۔ طول تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں۔

3 ۔ کبھ ی بعض تحریف شدہ مذاہب بے بنیاد نظریات اور علوم کی طرفداری اور پشتبانی کرتے اور لوگوں میں اپنے نفوذکی وجہ سے دوسروں سے غلط عقائد کی مخالفت کرنے کی جرأت سلب کر لیتے۔  جیسے کلیسا کی ارسطو کے نظریہ کی حمایت کرنا۔ایسے موارد میں تحریف شدہ  دین اور دانش خیالی نسل در نسل چلتی رہتی ہے جو معاشرے کو ترقی و حقیقت سے دور کرنے کا سبب بنتی ہے۔

4۔ دانشوروں کی غلطیاں، اشتباہات اور ظالموں کا علم سے سوء استفادہ کرنا اورعلم کی محدودیت جیسے موانع کی وجہ سے علم دنیا کو آئیڈیل معاشرہ اور مدینہ فاضلہ نہیں بنا سکا۔

۲۵۶

5 ۔ ظہور کے بابرکت زمانے م یں کہ جب تمام دنیا میں علم وحکمت اور دانش کا چرچاہو گا۔سب صحیح علم کے چشمہ سے سیراب ہوں گے تب نہ صرف دانش خیالی کے اظہار کی کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی بلکہ دنیا کے واحد دین اور حکومت سے دنیا کے تمام لوگ حقیقی، سچے مکتب اور تشیع کی تعلیمات کے زیر سایہ زندگی گزاریں گے ۔پھر باطل اور تحریف شدہ مکتب کا نام ونشان مٹ جائے گا۔اس وقت سب لوگ گزشتہ لوگوں کی غلطیوںسے آگاہ ہوجائیں گے۔ اس بابرکت اور مبارک دن کی آمد پر صحیح علم و دانش کے تابناک انوار کی وجہ سے نور سے فرار کرنے والے چمگادڑوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں بچے گی۔

  علم ودانش سوداگروں کا آلہ کار

شک وشبہ کے بغیر علم و دانش ایک ایسا چراغ ہے کہ جس کا نور انسانوں پر پڑنا چاہیئے تاکہ یہ ان کے لئے راہ روشن کر سکے نہ کہ یہ دنیا کے ظالموں اور ستمگروں  کے لئے آلہ کار بنے اور کوئی گروہ اس کے ذریعہ خیانت کرے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تاریخ اس چیز کی گواہ ہے کہ مختلف شعبوں میں علم و حکمت سے سوء استفادہ کیا گیا  اور ا سے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

دانشور اور دانشوروں کی مانند لگنے والے افرد نے دانستہ اور نادانستہ طور پرعلم سے غلط استفادہ کیا یا جہل کی تاریکی کو لوگوں کے سامنے علم کے نور سے متعارف کروایا۔اس کام سے لوگوں کا علم ودانش سے ناامید ہونا واضح تھا ۔ انہوں نے یہ یقین کرلیا کہ دانشور دنیا میں آئیڈیل حکومت قائم نہیں کر سکتے اور اسی طرح دنیا کو مدینہ فاضلہ میں تبدیل نہیں کر سکتے ۔

۲۵۷

  علم کی محدویت

لوگوں کا علم سے ناامید ہونے کا دوسرا سبب علم کی محدودیت ہے۔

اس بارے میں ارشاد خدا وندی ہے:

''  وَمَا ُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ ِلاقَلِیلاََ'' (1)

جب تک انسان کا دماغ مکمل طور پر فعال نہ ہواور ذہین ترین فرد بھی دماغ کے کچھ حصہ سے  استفادہ کرے تو انسان کس طرح دنیا کے اسرار و رموز کو سمجھ سکتا ہے؟خاندان نبو ت علیھم السلام  کے فرمودات  میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے ۔لیکن مغرب اب کہیں جا کر اس سے آگاہ ہوا ہے۔ جب تک زمانۂ غیبت جاری رہے اور بشر عقلی تکامل تک نہ پہنچے اور دماغ مکمل طور پر فعّال نہ ہو ، تب تک علم کی محدودیت بھی باقی رہے گی۔اس بیان کی روشنی میں محدود علم کس طرح مجہول مطالب اور مشکلات کا جواب دے سکتا ہے ؟ وہ کس طرح تاریک دنیا کو مدینہ فاضلہ میں تبدیل کر سکتا ہے؟

اگر علم مشکلات اور مجہول مطالب کا جواب دینے ہی سے قاصر ہو تو پھر معاشرے میں بہت سے سوال بغیر جواب کے باقی رہ جائیں گے۔لیکن لوگ اس امر کو جان گئے ہیں کہ علم مشکلات کا حل نہیں ہے ۔ بہت سے دانشوروں نے اس حقیقت کا

اعتراف کیا ہے ۔ہم یہاں ان میں سے چند ایک کے اقوال نقل کرتے ہیں۔

۱۔ علم کی حدودمشخص ہیں ۔ یہ ہمیں اشیاء کی کیفیت کے بارے میں نہیں بتا سکتا ۔علم ہم سے کہتا ہے کہ زمین کس طرح سورج کے گرد گردش کرتی ہے انسان کس طرح پیدا ہوتے اور مرتے ہیں ۔ لیکن یہ کیوں کا جواب نہیں دے سکتا۔(2)

--------------

[1]۔ سورۂ اسراء، آیت:85

[2]۔ علم شبہ علم و علم دروغین: 45

۲۵۸

  مغرب کی تبلیغات

مغرب خود نمائی اور دنیا کے لوگوں کواپنا فریفتہ بنانے کے لئے مختلف علوم کے بارے میں تبلیغات کر رہا ہے ان کا ایک نمونہ نفسیات ہے۔دنیا کے بڑے ممالک میں نفسیاتی مسائل کو اس حد تک بیان کیا جاتاہے کہ جس سے  وہ  خیال کرتے ہیں کہ انہیں نے اتنی ترقی کی ہے اور اس قدر جدید نکات  حاصل کئے ہیں کہ وہ نفسیات شناسی سے بڑھ کر فرارواں شناسی تک پہنچ گئے ہیں ۔ جو لوگ اب تک اپنے نفس اور وجوس کے اعتبار سے انسان کو نہیں پہچان سکے وہ کس طرح اپنی نفسیات اور اس سے بڑھ کر فراروان شناسی کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟

جی ہاں!موجودہ دنیا ایسی ہی ہے کہ جو مقام ولایت اور نظام کائنات کے سرپرست سے منہ موڑ کر اپنی ایجادات اور حاصل شدہ معلومات کی بناہ پر یہ گمان کرتی ہے کہ انہیں حقیقی راہ مل گئی ہے۔

دنیا کے طاقتور لوگ نہ صرف اب بلکہ قدیم زمانے سے اپنی قوم اور ملت کو جھوٹی تبلیغات کے ذریعہ فریب دیتے رہے ہیں۔انہوں نے چال بازی اور دھوکے سے لوگوں کو سرگرم کیا اور اپنے گندے افکار سے پاک فکر لوگوں کو گمراہ کیا۔انہوں نے انسانوں کو اپنی پاک فطرت کے ذریعہ نجات حاصل کرنے کے لئے بھی نہ چھوڑا۔انہوں نے بہت زیادہ تبلیغات سے دنیا کے لوگوں کے افکار تبدیل کئے ۔حلانکہ وہ اپنی غلطییوں سے آگاہ تھے ۔ ماضی سے حال تک تاریخ ایسے بہت سے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ زمانۂ غیبت کے بزرگترین دانشور بہت سی علمی غلطییوںمیں مبتلا تھے ۔ ارسطواور ارسطو سے پہلے اور بعد میں آج تک بہت سے دانشوروں نے  تاریخ کے صفحات میںنہ بھولنے والی غلطیاں رقم کی ہیں۔

۲۵۹

  پوزیدونیوس کا اشتباہ

پوزیدونیوس ایک فلسفی تھا جو سو سال قبل مسیح میں مغربی اسپین میں ایک گروہ کی قیادت کرتا تھا ۔ وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ غروب کے وقت جب بھی سورج بحر اوقیانوس میں غروب ہوتا ہے تو کیا اس میں ''فیش'' کی آواز پیدا ہوتی ہے۔(1)

  کس کی پیروی کریں؟

کیا انسان ایسے دانشوروں کی پیروی کرسکتا ہے کہ جو خیانت کار ہوں اور  جودنیا کے ستمگروں اور ظالموں کے خدمتگار ہوں؟

کیا مغرب کی تبلیغات سے دھوکا کھا کر ان کی مشینی زندگی پر فریفتہ ہونا صحیح ہے؟

قدیم الایّام سے دنیا کے جابروں، ظالموں اور ستمگروں نے خدا کے پیغمبروں کی مخالفت کی اور لوگوںکو ان کی پیروی سے منع کیا۔رسول اکرم کے زمانۂ رسالت اور خاندان اہلبیت  علیہم السلام کے زمانہ  امامت میں کائنات اور تاریخ کے شریر ترین گروہ خاندان نبوت علیہم السلام کی مخالفت کے لئے اٹھا ۔ جس نے لوگوں کو خاندان عصمت علیہم السلام  سے دور کیا اور لوگوں کو رسول اکرم(ص)کے فرمودات لکھنے سے منع کرکے باب علم کو بند کرنے سے جاہلیت کے زمانے کو تداوم دیا۔

انہوں نے لوگوں کو علم نبوت کے چشمہ سے سیراب نہ ہونے دیا ااور اس چیز کی بھی اجازت نہ دی کہ دنیا میں علم ودانش فروغ پائے لیکن پھر بھی ان بزرگوںہستیوں نے علم ودانش کے اسرار اپنے خاص اصحاب کوتعلیم فرمائے۔

--------------

[1] ۔ جھان در  500سال آیندہ:240

۲۶۰