امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت13%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180665 / ڈاؤنلوڈ: 4528
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

''برتراند راسل'' علم کے بارے میں یہ سخت تلخ اور مایوس بیان دیتے ہوئے کہا:

شاید ہم ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیںکہ جوبنی نوع انسان کے فناہونے کا زمانہ ہے۔اگر ایسا ہوا تو اس کا گناہ علم پر ہوگا۔(۱)

۱۹۶۰ ء  ک ی دھائی میں نوجوانوں اور بالخصوص پڑھے لکھے اور یونیورسٹییوں کے نوجوانوں  میں علم دشمنی رواج پائی کیونکہ انسان کے یہ تمام مصائب و مسائل علم وفنون کی ترقی سے وجود میں آئیں ہیں ۔(۱)

مغربی تمدن نے جس طرح علم کو غیر انسانی اور حقیرانہ منافع سے آلودہ کیااسی طرح انہوں نے ڈیموکریسی کو بھی اپنے اہداف کے حصول کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔

اب وہ وقت آ گیا ہے کہ جب اس تمدن کی تقدیر اس کی پیدائش اور اس کے مصرف کے بارے میں سوچیں اور انسان کی بے بسی، درماندگی ،بے اعتدالی اور خود بیگانگی کے موجبات کو پہچانیں اور ان کا راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔ البتہ علم کو چھوڑ کر، توہمات کی بناء پر نہیں بلکہ عقل مندی سے ان کے لئے چارہ جائی کریں اور ایک دوسری دنیا اور نیا انسان بنائیں۔(۳)

۱۹۴۵ء کے بعد سے دنیا تباہی،بربادی اور موت کے منہ میں کھڑی ہے۔کئی بار اس تو اس کے انجام تک بات جا پہنچی ۔ایٹمی اسلحوں کی وجہ سے ہمیشہ سب جاندار وں کے سروں پر موت کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے۔فوج اور اسلحہ کی دوڑ میں ہر کوئی دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگا ہے۔

--------------

[۱]۔ علم،قدرت،خشونت:۸۷

[۲]۔ روان شناسی ضمیر ناخود آگاہ:۷۳

[۳]۔ روان شناسی ضمیر ناخود آگاہ:۸۹

۲۴۱

اس مقابلہ سے زمین اور اس کی فرہنگ و ثقافت کی بربادی کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔جو فوج اور سیاست دانوں کی قدرت سے کچھ سال پہلے تک طرف مقابل کو ایٹم بم سے ڈراتے اور دھمکاتے تھے ان میں سے دانشوروں نے ایٹمی اسلحہ کے خلاف آواز اٹھائی۔حلانکہ اسے بنانے اور ایجاد کرنے میں البرٹ آئن اسٹائن اور   لئو اسزیلارد  کا اہم کردار تھا۔

۱۹۶۲ ء  م یں ایٹمی ماہرین طبعیات نے ایٹمی تجربات کے بارے میں خبردار کیا اور باقاعدہ اعلان کیا کہ ایٹمی تجربات کی وجہ سے ایک سال میں دولاکھ معذور اور ناقص الخلقت بچے پیدا ہوئے ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے وجود میں آنے والا'' سزیوم۱۳۷ ''مستق یم حمل پر اثر انداز ہوتا ہے،جس سے بچے معذور پیدا ہوتے ہیں۔جن کی چھ انگلیاں ہوتی ہیں یا وہ بدشکل  اور لنگڑے پیداہوتے ہیں۔

ژان روستان ،ڈاکٹر دلونی اور زیست شناسی میں انعام پانے والے امریکی پروفیسر مولر نے رسمی طور پر اپنی پریشانی کا اعلان کرتے ہوئے خبردا رکیا کہ ایٹمی دھماکوں کو بارہا تکرار کرنے سے زندگی کو اور بہت سنگین مشکلات لاحق ہو سکتی ہیں۔اس کے بعد دنیا کے بے شمار دانشور  ان کے ہمراہ ہوگئے۔

۱۹۶۲ ء  م یں دنیا میں زیست شناسی کے سینکڑوں مشہور ماہرین نے ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس کا  عنوان تھا''ہم سب ایٹمی تجربات سے مر جائیں گے اگر.....''اس اجلاس میں فرانس کے مشہور ماہر طبیعات'' ژان روستان'' نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یوں خبردار کیا :رادیو آکٹیو کے مواد سے جانداروں کے سرو ںپر ہمیشہ موت کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے۔جو نابودی کا پیغام ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آئندہ نسل اندھی، بہری، گونگی، معذور اور پاگل پیدا ہو گی۔(۱)

دنیا میں ایٹمی دھماکوں اور ایٹمی جنگ کے بعد وجود میں آنے والی نسل ہاتھ کی ہتھیلی سے زیادہ بڑی نہیں ہوگی۔

--------------

[۱]۔ تاریخ ناشناختہ بشر:۱۶۹

۲۴۲

  ایٹم کے علاوہ دوسری منفی اور مضر ایجادات

دوسرا درپیش مسئلہ یہ ہے کہ نہ صرف ایٹمی صنایع بلکہ کیمیائی صنایع بھی موت کے اس مقابلے میں برابر شریک ہیں۔جیسا کہ امریکی دانشوروں نے اس بات کی تائید کی ہے کہ صرف ایکس نامی شعاعیں ایٹم کی شعاعوں سے بیس گنا زیادہ نقصان دہ ہیں۔  اسی طرح کیمیائی صنعت سے وجود میں آنے والی ادویات کہ جنہیں ہم بڑی آسانی سے میڈیکل اسٹور سے خریدتے ہیں،وہ ہمیں کن خطرات میں مبتلا نہیں کرتیں؟ان شعاعوں میں جو بھی میزان ہو البتہ یہ بات مسلّم ہے کہ وہ نسل اور نطفہ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔آسان الفاظ میں یوں کہوں کہ اگر کسی نے ایک بار ہی ریڈیو گرافی کروائی تو اس کو یہ جان لینا چاہیئے کہ یہ اس کی افزائش نسل اور جنسی قوّت پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔ٹیلیویژن اور ریڈیالوجی کی مشین میں یہ شعاعیں ہوتی ہیں۔اگرچہ مختصر مدت میں اس کے اثرات ظاہر نہ ہوںلیکن  کچھ سالوں یا آئندہ صدیوں میں ان کے مضر اثرات کوظاہرہو جائیں گے۔

''ڈاکٹر رابرٹ ویلسن ''امریکہ کی ایٹمی انرجی کمیشن کے ممبران میں سے ایک ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ٹی وی اسکرین سے نکلنے والی اکثر مضر شعاعیں ایٹمی تجربات کی وجہ سے زیادہ منتشر ہوتی ہیں۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ایٹمی کارخانوں کے زائد اور فاضل مواد کو کسی طرح بھی ختم نہیں کیا جا سکتا، حتی کہ اسے زمین کی گہرائی میں دفن کرنے سے بھی ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔(۱)

اب ہم اپنے جواب کی مزید وضاحت کے لئے موجودہ ایجادات کو تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔

۱ ۔ مضر، منفی اور تباہی وبربادی کا باعث بننے والی ایجادات

۲۔ منفی اثرات نہ رکھنے والی ایجادات ۔ لیکن انہیں استعمال کرنے کا وقت گزر چکا ہو۔

۳۔ جو ایجادات منفی اور مضراثرات نہیں رکھتی، لیکن معاشرہ اب بھی ان سے استفادہ کر رہا ہے۔

--------------

[۱]۔ تاریخ ناشناختہ بشر:۱۷۱

۲۴۳

  پہلی قسم کی ایجادات

یہ واضح ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام  کی آفاقی حکومت اور عادلانہ نظام میں نہ صرف مضر ، منفی اور تمام جنگی آلات بلکہ فساد، تباہی اور انسان کے جسم و جان کی بربادی کا باعث بننے والے ہر طرح کے وسائل بھی نیست و نابود ہو جائیں گے۔اس بناء پر گزشتہ مطالب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت میں صرف تباہی کا باعث بننے والے جنگی آلات کو ہی نہیں بلکہ معاشرے کے لئے مضر، منفی، شوم اور انسان کو نابود کرنے والے تمام تر آلات کو ختم کر دیا جائے گا۔

آنحضرت ان آلات و وسائل کو نابود کرکے انسانیت کو ان کے منفی اثرات سے نجات دلائیں گے ۔  پس حضرت ولی عصر (عج) کی حکومت میں بربادی کا باعث بننے والی ہر ایجاد کو نیست ونابود کر دیا جائے گا۔

  آئن اسٹائن کا ایک اور واقعہ

کلمبیا کی یونیورسٹی کے فزکس کے دو پروفیسروں نے روز ولٹ کو خط لکھا جس کا خلاصہ یوں تھا:

ایک ایسی چیز موجود ہے کہ جس کا نام ایٹمی توانائی ہے جرمن سائنسدان بھی اس پر کام کر رہے ہیں یہ ایک طاقتور اسلحہ ہے ۔صدر کو اس بارے میں سوچنا چاہیئے کہ اس بارے میںکیا کیا جائے؟

فزکس کے ان دونوںپروفیسروں کو معلوم تھا کہ صدر مملکت ایٹمی توانائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن وہاں کوئی ایسا بھی موجود تھا کہ جو ایٹمی توانائی سے بخوبی واقف تھا اورصدر بھی اس کی بات مانتا تھا ۔

۲۴۴

 روزولٹ پہلے اس کی تلاش میں گئے ۔ آئن اسٹائن کے لئے یہ بہت دکھ کی بات تھی کہ ایک مدّت تک صلح کا طرفدار ہونے کے باوجود ایسا کام کرنے کے لئے دستخط کرے لیکن اس نے یہ کام کیا اور جب تک زندہ رہا اسی بات پر پشیمان رہاکہ اس نے صرف ایک بٹن دبا دیا۔(۱)

آئن اسٹائن کے اعتراف اور اس کا اپنے ماضی پر پشیمان ہونے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگرچہ دنیا کاایک بہترین اور نامور دانشور تھا ، لیکن وہ علم کی راہ میں اپنی ملت سے کی گئی خیانت سے بھی آگاہ تھا۔

آئن اسٹائن کا دوسرااشتباہ

آئن اسٹائن کانظریہ تھا کہ دنیا اس قدر وسیع ہے کہ اس کی چوڑائی تین ارب نوری سالوں میں بھی طے نہیں کر سکتے۔ حلانکہ ۱۹۶۳ ء میں ''کوآزر''کشف ہوا کہ جسے دیکھ کر ماہرین فلکیات متزلزل ہو گئے ۔جب ٹیلی اسکوپ کے ذریعہ ایک ''کوآزر'' کو دیکھا  تو انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر پکڑ لئے کہ کہیں ان کا بھیجا ان کے سر سے نہ گر پڑے اور وہ پاگل نہ ہوجائیں ۔ اس''کوآزر ''کا زمین سے فاصلہ نو ارب نوری سال تھا ۔ حلانکہ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ دنیا کی وسعت اور اس کی چوڑائی تینارب نوری سال  سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔خلاء کی وسعت کا حساب لگانے کے لئے (جسے طے کرنے کے لئے نور کو نو ہزار ملین سال درکا ہوں)یہ فکر کرنا کافی ہے کہ نور ہرسال  ۹۵۰۰  ارب  کلومیٹر طے کرتا ہے اور ۹۵۰۰ کلومیٹر کونو  ارب سال سے ضرب دیں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ کوآزر اور زمین کے درمیان کتنافاصلہ تھا۔

--------------

[۱] ۔ آئن اسٹائن:۲۵

۲۴۵

اس فاصلہ کو تو چھوڑیں کہ جس کے تجسّم پر عقل قادر نہیں ہے۔جس نے علماء نجوم اور ماہرین فلکیات کی عقل کو ہلا کر رکھ دیا۔وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ کوآزر میں کس قسم کی انرجی موجود ہے کہ جس سے ایسا نور وجود میں آتاہے ۔(۱)

ان مطالب پر توجہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ زمین کی چوڑائی کے بارے میں آئن اسٹائن کا نظریہ غلط تھا۔اب جب کہ آئن اسٹائن کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ لہذا یہ کہنا مناسب ہے کہ وہ ایک جرمن یہودی تھا کہ جس نے اپنی ملّت کے ساتھ ایسی خیانت کی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اس نے امریکہ کو پیشکش کی کہ وہ ایٹم بم بنانے میں جرمنی سے پہل کرے۔

۱۹۳۲ ء  م یں ہٹلر کو اقتدار و قدرت ملی اس وقت آئن اسٹائن امریکہ میں تھا اور اس نے اعلان کیا کہ وہ جرمنی واپس نہیں جانا چاہتا ۔لہذا جرمن فوجیوں نے اس کے گھر کو توڑ دیا اور اس کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیئے۔برلین کے ایک اخبار میں یہ مقا لہ لکھا گیا جس کاعنوان تھا :

'' ایک اچھی خبر! آئن اسٹائن  واپس نہیں آئے گا''

آئن اسٹائن نے اس خوف سے کہ کہیں جرمن سائنس دان ایٹم بم نہ بنا لیں۔ لہذا اس نے  امریکہ کو پیشکش کی کہ وہ ایٹم بم بنانے میں جرمنی سے سبقت لے حلانکہ پہلے بم دھماکے سے پہلے وہ لوگوں کو اس بم کے خطرات سے آگاہ کرتا تھا۔اس نے اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں پر قابو پانے کی کوشش کرے۔(۲)

شاید وہ اپنے ملک اور ملّت سے کی گئی خیانت کی وجہ سے اپنی زندگی پر پشیمان تھا ۔اپنھائمر، آئن اسٹائن کے قریبی دوستوں میں سے تھا۔یونیسکو کی جانب سے آئن اسٹائن کی دسویں  برسی کی  مناسبت سے منعقدہ اجلاس میں'' اپنھائمر'' نے کہا:

--------------

[۱]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:۳۶۲

[۲]۔ ماہنامہ اطلاعات علمی سال۱۹ شمارہ ۳ دی ماہ ۱۳۸۳

۲۴۶

آئن اسٹائن اپنی زندگی کے آخری ایّام میں مأیوس اور جنگوں سے پریشان تھا اور اس نے کہا تھا کہ اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں ایک معمولی الیکٹرک میکینک بننے کو ترجیح دوں گا  ۔(۱)

دوسرے قول کے مطابق وہ ایک موچی ہونے کو ترجیح دیتا۔لوگ جاپان کے شہر ہیروشیما میں ہونے والے جاپانیوں کے قتل کو فراموش نہیں کر سکتے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس واقعہ میں ایک ماہر فزکس دان کا فارمولا کارفرما تھا۔ان کے لئے یہ مہم نہیں تھا کہ یہ خبر سننے کے بعد اس فزکس دان نے آٹھ دن تک خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا اور گریہ کرتا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ اگر وہ دوبارہ جنم لے تو یہ تھیوری اور فارمولا نہیں بناؤں گا اور ایک موچی بننے کو ترجیح دوںگا۔

  آئن اسٹائن کی خطا

اس کا نظریہ تھا کہ دنیا میں کسی چیزکی سرعت نور سے زیادہ نہیں ہو سکتی یعنی کائنات میں سب سے تیز چیز نور ہے۔اب یہ ثابت ہوا ہے کہ ایک ایسی چیز بھی موجود ہے کہ جس کا نام'' تاخنون'' ہے اور جس کی سرعت نور سے بھی زیادہ ہے ۔اگر آئن اسٹائن کا نظریہ صحیح ہوتا تو انسان کو آئندہ زمانے میں بہت سے خلائی سفر سے ناامید ہو ناپڑے گا۔

علاوہ ازیں: روایات اور خاندان نبوت علیہم السلام کے فرمودات کے مطابق ملائکہ جیسے جبرئیل عرش اور کہکشاؤں سے آگے زمین تک ایک لمحہ سے بھی کم مدّت میں سیر کرتے ہیں۔آئن اسٹائن اور اس جیسے دوسرے افرادخاندان نبوت علیھم السلام کے علمی معارف سے دوری کی وجہ سے ان حقائق سے آگاہ نہیں ہیں ۔

--------------

[۱]۔ مقدمہ روانشناسی ضمیر ناخود آگاہ:۷۸،علم و ترکیب سے نقل:۲۹

۲۴۷

''زومر فلد''نے تھیوری بنائی کہ ایسے ذرات بھی موجود ہیں کہ جن کی سرعت نور سے بھی زیادہ ہے کہ جس میں یہ خصوصیت ہے کہ ان کی انرجی جتنی کم ہوتی چلی جائے ،اس کی سرعت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔آئن اسٹائن کی تھیوری زومز فلڈ کے اس حیران کن مفروضہ کے برخلاف تھی ۔ حیرت انگیز اوراثبات نہ ہونے والی تھیوری اگر ایک بار علمی میدان میں آ جائے تو وہ اپنی کشش نہیں  کھوتی بلکہ مدّتوں مورد توجہ رہتی ہے ۔ موجودہ صدی کے آغاز میں زومر فلد نے جس دن سے اپنی تھیوری پیش کی ،اسی دن سے اب تک فزکس کے متعدد دانشوروں نے نور سے بھی زیادی تیز ذرّات کے بارے میں مطالعہ و تحقیق شروع کی۔لیکن۱۹۶۷ ء م یں بالآخر امریکہ کی کلمبیا یونیورسٹی  کے فزکس کے پروفیسر''جرالڈ فینبرگ'' نے ایک رسالہ کے ذریعہ نور سے بھی زیادہ تیز حرکت کرنے والے ذرّات کے بارے میں بحث کا نیا باب کھولا۔جرالڈ فینبرگ نے ان ذرّات کے لئے ایک نام کا بھی انتخاب کیا اور اسے'' تاخنون'' ( Tachionen)کا نام دیا۔

یہ یونانی زبان کے لفظ تاخیس  ( TACHYS) سے مأخوذ ہے کہ جس کے معنی تیز اور سریع کے ہیں ۔ ایک بار پھر فزکس کے ماہرین نے آواز اٹھائی کہ آئن اسٹائن کی تھیوری کی بنیاد پر کوئی چیز نور سے زیادہ تیز حرکت نہیں کرسکتی ۔ لیکن فزکس میں ایٹم کے بارے میں تحقیق کرنے والے بعض ماہرین اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نور سے بھی زیادہ تیز ذرّات موجود ہیں ۔ لیکن آئن اسٹائن کے بعض طرفداروں نے ان کی توجیہات پر اعتراض کئے ہیں۔

  ادینگتون کی غلطی

یہ برطانیہ کا مشہور ماہرطبعیات تھا ۔جو ۱۹۴۴ء میں فوت ہوا ۔ اس نے گزشتہ صدی کے آغاز اور اپنے جوانی کے عالم میں کہا تھا کہ اسّی بار اسی عدد کو خود اس سے ضرب دینے سے دنیا میں موجود ایٹم کی تعداد حاصل ہو جائے گی۔

۲۴۸

جس دن اس نے ریاضی کے اس فارمولا کی مدد سے دنیا میں موجودایٹم کی تعداد کا حساب لگایا ،اس وقت منجّمین کا عقیدہ تھا کہ کہکشاؤں کی تعداد تقریباََ ایک ملین کے قریب ہے۔(۱)

ارسطو، کپرنیک اور بطلمیوس کی خطائیں

اب ہم علم میں وارد ہونے والے اشتباہات کانمونہ پیش کرتے ہیں۔

ارسطو کا نظریہ تھا کہ سورج مکمل دائرے کی صورت میں زمین کے گرد گھومتا ہے۔کپرنیک کا خیال تھا کہ زمین ایک مکمل مدار کی صورت میں سورج کے گرد گھومتی ہے۔ان دونوں میں تضاد ہے لہذا یہ نہیں ہو سکتاکہ دونوں کے نظریات ٹھیک ہوں ۔بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں کے نظریات غلط تھے کیونکہ زمین کا مدار گول نہیں بیضوی ہے۔(۲)

اب یہ حقیقت جاننا ضروری ہے کہ'' ارسطو ''مشہور مشّائی حکیم اور اس کے پانچ صدیوں بعد آنے والے بطلمیوس نے تین سو سال قبل مسیح پندرہ صدیاں بعد تک مجموعاَ اٹھارہ سوسال علم نجوم کوپیچھے دھکیل ڈالا۔ارسطو نے بشریت کو اٹھارہ صدیاںجہالت کے اندھرے میں رکھا انسان خود کو تو اس ظلمت کدہ سے نجات نہ دے سکا لہذا یہ کہہ سکتے ہیں کہ بشر کی علمی ترقی ارسطو کی وجہ سے اٹھارہ صدیاں رکی رہی۔

--------------

[۱] ۔ مغز متفکر جھان شیعہ:۳۶۷

[۲]۔ علم نابخردی:۱۰۳

۲۴۹

علوم زنجیر کی کڑیوں کی طرح ہیں  جن کی ایک کڑی دوسرے سے ملی ہوتی  ہے۔ ایک علم دوسرے علم کی پیدائش کا سبب ہوتا ہے۔زمین اور دوسرے سیاروں کا سورج کے گرد گردش کرنے میںانسان کے جہل کی وجہ سے اٹھارہ صدیوں تک علم کے دروازے بند ہو گئے جس کا سبب ارسطو تھا اس وقت ارسطو لوگوں میں  اس حد تک مقبول ہو چکا تھا کہ کوئی اس کے نظرئے کو رد نہیں کرتا تھا۔کوئی اس کے بطلان کو ثابت نہیں کرتا تھا۔اقوام عالم کے ذہن میں دو چیزوں نے ارسطو کے نظرئے کو تقویت دی ۔ ایک یہ کہ ارسطو کے پانچ صدیاں بعد آنے والے مصر کے مشہور جغرافیہ دان بطلمیوس نے بھی اس کے  نظریہ کی تائید کی اور ستاروں کی حرکت کے لئے ایک رائے قائم کی کہ سیارے کچھ چیزوں کے گرد گردش کرتے ہیں کہ جو خود بھی متحرک ہیں اور وہ چیزیں زمین کے گرد گردش کرتی ہیں۔لیکن زمین متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے۔یعنی بطلمیوس نے سیاروں کی گردش کو زمین کے گرد دو طرح سے ثابت کیا اور کہا کہ وہ کچھ چیزوں کے گرد گھومتے ہیں کہ جو زمین کے اطراف میں ہیں۔ارسطو کے نظرئے کو تقویت دینے کا دوسرا سبب یہ تھا کہ یورپ کے مسیحی کلیسا، ارسطو کے نظریات کو صحیح تسلیم کرتے تھے اور انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین کی حرکت کے بارے میں ارسطو نے جو کچھ کہا وہ سب صحیح ہے۔کیونکہ اگر کائنات کا مرکز یعنی زمین ساکن نہ ہوتی تو خدا کا بیٹا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) اس میں ہر گز ظہور نہ کرتا ۔(۱)

--------------

[۱]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:۳۰۳

۲۵۰

  ارشمیدس کا اشتباہ

ارشمیدس کہتا تھا کہ دس کے عدد کوتریسٹھ بارخود اس سے ضرب دیں تو اس سے دنیامیں موجود ذرّات کی تعداد حاصل ہو جائے گی ۔ذرّات کے بارے میں ارشمیدد س کا نظریہ تھا کہ ذرّہ، مادہ کا سب سے چھوٹا جزء ہے کہ جو دو حصوں میں تقسیم کے قابل نہیں ہے ۔ اس لئے وہ اسے جزء لایتجزّی کہتا تھا ۔(۱)

  تیسری قسم کی ایجادات

ایجادات کی یہ  قسم غیبت کے زمانے میں لوگوں کے زیر استعمال ہیں ۔  جن کا کوئی منفی پہلو نہیں ہے ۔ اب ایسے آلات کا مستقبل کیا ہو گا؟

ایسی ایجادات کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔ لہذا ان کے بارے میں کہیں گے :

علم ودانش کی ترقی،عقلی تکامل ، عقل کی قدرت میں اضافہ اور فکری قوّت کے تکامل سے اہم پیشرفتہ اور جدید وسائل کا ایجاد ہونا واضح سی بات  ہے۔ جن کے ہوتے ہوئے عقب ماندہ اور قدیم وسائل کی ضرورت ختم ہوجائے گی ۔ اس مطلب کی وضاحت کئے دیتے ہیں  کہ موجودہ زمانے میں جن وسائل سے استفادہ کیاجاتا ہے اگر انہیںایک صدی قبل کے وسائل اور ا لات سے مقائسہ کریں کہ جن سے اُس زمانے میں استفادہ کیا جاتاتھا مثلاَ کیارسّی اور ڈول کا پانی کے پمپ سے موازنہ کرسکتے ہیں؟

--------------

[۱]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:۳۶۷

۲۵۱

کیا کنویں اور نہر سے پانی نکالنے والی جدید موٹرکے ہوتے ہوئے رسی اور ڈول سے استفادہ کرنے کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟

البتہ اب بھی دنیا کے محروم مستضعف اورغربت کی چکی میں پسے ہوئے بہت سے علاقوں کے لوگ رسی اور ڈول ہی سے استفادہ کرتے ہیں۔یہ متمدن ممالک کی کمزوری ہے کہ جس کی وجہ سے یہ صنعت دنیا کے ہر خطہ کو فراہم نہیں کی جا سکی۔لیکن ظہور کے بابرکت اور نعمتوں سے سرشار زمانے میں ایسا نہیں ہو گا۔

ہم نے  امام زمانہ علیہ السلام کی آفاقی حکومت کی خصوصیات میںبیان کیا کہ ان کی حکومت کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آنحضرت کی حکومت، عادل حکومت ہو گی۔اس کا  یہ معنی ہے کہ اس دن دنیا کے تمام لوگوں کو  ہر سہولت میسر ہو گی۔

  جنگی آلات سے بے نیازی

ہمیشہ سے جنگ اور خونریزی کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔جن کی وجہ سے ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کرکے ایک دوسرے کا خون بہاتی ہے ۔ قتل و غارت کے دو بنیادی اسباب ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے طول تاریخ میں زمین کو لوگوں کے خون سے رنگین کیا گیا۔

۱ ۔ ضعف اور کمبودی

۲ ۔ حرص

تاریخ کے صفحات پر دقیق نگاہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ تاریخ کی اہم جنگوں کے اسباب مذکورہ دونوں موارد ہیں۔کیونکہ ذرخیز زمین،پانی سے لبریز نہریں، تیل اور گیس کے ذخائر اور اسی طرح سونے اور دوسری معدنیات کے ذخائرتک رسائی کے لئے ظالم حکومتیں دوسرے ممالک پر حملہ کر دیتی ہیں تا کہ وہ ان نعمتوں پر قبضہ کر سکیں۔

۲۵۲

تاریخ میں بہت سی جنگوں کا دوسراسبب ظالم حکومتوں کا اپنے وسائل میں اضافہ کرنے کی  خواہش ہے یعنی جنگ کی آگ بھڑکانے اور دوقوموں اور ملتوں کو آپس میں لڑانے والے ممالک  کے پاس نہ تو کسی چیز کی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں کوئی اقتصادی مسئلہ درپیش ہوتاہے۔بلکہ تمام وسائل اور سہولتیں ہونے کے باوجود وہ ان میں اضافہ کے لالچ میں دوسروں کے مال پر نظریں جمائے ہوتے ہیں۔لہذایہ اپنے ملک کو مزید ترقی دینے اور اس کی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لئے دوسرے ممالک پر حملہ کر دیتے ہیں۔

اگر تاریخ کی طولانی جنگوں اور لشکر کشی پر نگاہ ڈالیں تو واضح ہو جائے گا کہ اکثر جنگوں کا سبب مال ودولت اور زیادہ مال کا لالچ تھا۔جیسی کہ ہم نے ذکر کیا کہ مذکورہ دونوں موارد کے علاوہ تاریخ میں ہونے والی جنگوں، قتل و غارت اور خونریزی کے دوسرے عامل بھی ہیں کہ جن کی وجہ سے جنگ کے شعلے بھڑکائے گئے اور زمین پر بے گناہ لوگوں کا خون بہایا گیا ۔ مذکورہ دونوں موارد پر غور کریں ۔ ضعف و کمبودی اور اسی طرح حرص ۔ یہ دونوں بیرونی اسباب تھے ۔ بہت سی جنگوں کی بنیاد بیرونی اسباب نہیں بلکہ حکّام کے اندرونی عوامل ہوتے ہیں۔اندرونی اسباب میں سے ایک اہم سبب  نفسیاتی گرہیں  ہیں ۔ جس کی وجہ سے بہت بار مختلف علاقوں میں جنگ چھڑ گئی اور تاریخ کے اوراق کو معصوم لوگوں کے خون سے رنگین کیا گیا۔

انسان کے عقلی تکامل سے ایسے مسائل سے رہائی یقینی ہے ۔ جنگ کے اندرونی و بیرونی اسباب نابود ہوجائیں گے ۔ پھر ساری دنیا میں  امن، صلح اور پیار و محبت کی فضا حاکم ہو گی ۔ لہذا اس وقت ایٹمی و غیر ایٹمی بم دھماکوں کی کیا ضرورت ہو گی؟

۲۵۳

  دوسری قسم کی ایجادات

موجودہ ایجادات میں سے دوسری قسم کی ایجادات ایسی ہیں کہ جو منفی اثرات تو نہیں رکھتیں لیکن زمانہ ظہور میں ان سے استفادہ کرنے کا وقت گزر چکا ہوگا ۔ جیسے طبّی آلات اور بعض جنگی سامان کہ جن سے عادلانہ جہاد میں استفادہ کیا جاتا ہے ۔ ایسے وسائل بھی ختم ہو جائیں گے کیونکہ معاشرے کو ان کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ کیونکہ جب معاشرے کے سب افراد صحت مند اور جسمانی و روحانی لحاظ سے سالم ہوں تو پھر تباہ و برباد کرنے والے کسی جنگی سامان اور اسی طرح کسی طبی آلات کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ کیونکہ یہ استفادہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے ۔ پس جب کوئی بیماری ہی موجود نہ ہو تو تو پھر طبی آلات کی بھی ضرورت نہیں ہو گی ۔ لہذا  انہیں بھی ختم کر دیا جائے گا۔

علم دنیا مشکلات حل نہیں کر سکتا

۲ ۔ مختلف قوانین کوحاصل کرنے کے لئے عالم مادّہ میں حاکم مقیاس اور پیمانے (جیسے سیکنڈ، سینٹی میٹر، گرام وغیرہ) حقیقت روح ، جاذبہ، نفس، روح، عقل اور ان جیسے دوسرے اسباب کو درک کرنے کے لئے استعمال نہیں کئے جا سکتے ۔ اس بناء پر ماہرین طبعیات کے نزدیک قوّت جاذبہ کی حقیقت مجہول ہے۔ اسی طرح الیکٹریسٹی ، مقناطیس یا توانائی (چاہے وہ ایٹمی ہو یا حرکتی یا الیکٹرک) کی حقیقت بھی مجہول ہے۔فزکس کے ماہرین اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ہر غیر عادی امر کی حقیقت کو سمجھنے  سے عاجز ہیں حتی کہ وہ حقیقت مادہ کو نہ سمجھنے کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔کیونکہ مادہ کی اصل ایٹم کی طرف ہے اور ایٹم پروٹان ،نیو ٹران اور ایک دوسری قوّت کے مجموعہ کا نام ہے کہ جدید علم ہمیشہ اس کی شناخت سے عاجز رہا ہے۔ (۱)

--------------

[۱]۔ راہ تکامل:۸۹۵

۲۵۴

۳۔علم طبعیات اب تک اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کہ ہمارے چراغ کا نور جو کہ انرجی ہے ،وہ کس طرح مادّہ میں تبدیل ہو جاتی ہے؟اگر فزکس کے علم کو اس سوال کا جواب مل جائے تو ایک ہی لمحہ میں کئی سال کا علمی سفر طے ہو جائے۔ چونکہ فزکس میں سر الاسرار یہی چیز ہے ۔ خلقت کا عظیم راز بھی اس سوال کے جواب میں مخفی ہے کہ توانائی کس طرح مادّہ میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔ مادّہ کا توانائی  میں تبدیل ہونا ہماری نظر میں عادی ہے ۔ ہم روز وشب کارخانوں ،جہازوں، کشتیوں،  گاڑیوں، گھروں حتی کہ اپنے بدن میں بھی مادہ کو توانائی میں تبدیل کرتے ہیںلیکن آج تک کوئی مادہ کو انرجی میں تبدیل نہیں کر سکا ۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ دنیا میں توانائی کس طرح مادہ میں تبدیل ہوتی ہے۔(۱)

۴۔ہم چھبیس صدیوں کے بعد ''علم  طبعیات  اورما بعد طبعیات'' کی تمام ترقی کے باوجود فزیکل اور جسمانی لحاظ سے مبداء ِ دنیا کے بارے میں چھ سو سال قبل مسیح میں یونان کے فلسفی کے نظرئے کی حدود سے باہر نہیں نکل سکے ۔ہائیڈروجن ایٹم کے عناصر میں سب سے ہلکا عنصر ہے۔ جس میںایک الیکٹران اور دوسرا  پروٹان ہے۔الیکٹران ، پروٹان کے گرد گردش کرتے ہیں لیکن اب تک فزکس کے کسی بھی نظرئے نے اس کے علمی قانون کو کشف نہیں کیا۔یہ بھی معلوم نہیں کہ کیا پہلے پروٹان وجود میں آیا تھا یا الیکٹران ،یا یہ دونوں ایک ساتھ وجود میں آئے تھے کہ جن میں سے ایک بجلی کی مثبت اور دوسرا منفی توانائی رکھتا تھا؟

اکیسویں صدی سے آج تک اس بارے میں جو کچھ کہا گیا ، وہ صرف ایک تھیوری ہے۔ہم مبدأ دنیا کی شناسائی کے لحاظ سے ''آناگزیمانسر''کے دور کے یونانی لوگوں سے زیادہ نہیں جانتے۔(۲)

--------------

[۱]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:۳۴۴

[۲]۔ مغز متفکر جھان شیعہ:۱۱۲

۲۵۵

گز شتہ مطالب پر توجہ کرنے کے بعد اب ہم چند اہم نکات بیان کرتے ہیں۔

۱۔ مختلف علوم ایک دوسرے سے بے ربط نہیں ہیں۔علم کے کسی ایک شعبہ میں  غلطی  نہ صرف علمی ترقی میں ٹھراؤکا سبب بنتی ہے بلکہ علوم کے دیگر شعبوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے کہ جو اس علم سے مربوط ہیں۔

۲ ۔ غیبت کے زمانے میں بعض دانشور اور اسی طرح اس زمانے سے قبل بھی بعض دانشور اپنے شاگردوں اور عوام کے درمیان نفوز کر چکے تھے ان کے شاگرد  ان کی عظمت اور شخصیت کی وجہ سے ان کے نظریات کودل و جان سے قبول کرتے تھے۔نسل در نسل ایسا ہی ہوتا رہا ۔شخصیت کا لحاظ کرتے ہوئے شاگرد پہلے شخص کے نظریات کو قبول کرتے اور اسی کو ادامہ دیتے۔کبھی استاد کی شخصیت کا لحاظ اس قدر زیادہ ہوتا کہ اگر کسی کو استاد کی غلطی کا علم بھی ہوتا تو اس میں اظہار کی جرأت نہ ہوتی کہ کہیں دوسرے اس کی مخالفت و سرزنش نہ کریں اور کہیں بے جا جنجال کھڑا نہ ہو جائے کہ جس سے اس کی آبرو ریزی ہو ۔ یوں وہ اپنے صحیح افکار کا اظہار کرنے سے ڈرتے اور اس کا اظہار نہ کرتے ۔ طول تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں۔

۳ ۔ کبھ ی بعض تحریف شدہ مذاہب بے بنیاد نظریات اور علوم کی طرفداری اور پشتبانی کرتے اور لوگوں میں اپنے نفوذکی وجہ سے دوسروں سے غلط عقائد کی مخالفت کرنے کی جرأت سلب کر لیتے۔  جیسے کلیسا کی ارسطو کے نظریہ کی حمایت کرنا۔ایسے موارد میں تحریف شدہ  دین اور دانش خیالی نسل در نسل چلتی رہتی ہے جو معاشرے کو ترقی و حقیقت سے دور کرنے کا سبب بنتی ہے۔

۴۔ دانشوروں کی غلطیاں، اشتباہات اور ظالموں کا علم سے سوء استفادہ کرنا اورعلم کی محدودیت جیسے موانع کی وجہ سے علم دنیا کو آئیڈیل معاشرہ اور مدینہ فاضلہ نہیں بنا سکا۔

۲۵۶

۵ ۔ ظہور کے بابرکت زمانے م یں کہ جب تمام دنیا میں علم وحکمت اور دانش کا چرچاہو گا۔سب صحیح علم کے چشمہ سے سیراب ہوں گے تب نہ صرف دانش خیالی کے اظہار کی کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی بلکہ دنیا کے واحد دین اور حکومت سے دنیا کے تمام لوگ حقیقی، سچے مکتب اور تشیع کی تعلیمات کے زیر سایہ زندگی گزاریں گے ۔پھر باطل اور تحریف شدہ مکتب کا نام ونشان مٹ جائے گا۔اس وقت سب لوگ گزشتہ لوگوں کی غلطیوںسے آگاہ ہوجائیں گے۔ اس بابرکت اور مبارک دن کی آمد پر صحیح علم و دانش کے تابناک انوار کی وجہ سے نور سے فرار کرنے والے چمگادڑوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں بچے گی۔

  علم ودانش سوداگروں کا آلہ کار

شک وشبہ کے بغیر علم و دانش ایک ایسا چراغ ہے کہ جس کا نور انسانوں پر پڑنا چاہیئے تاکہ یہ ان کے لئے راہ روشن کر سکے نہ کہ یہ دنیا کے ظالموں اور ستمگروں  کے لئے آلہ کار بنے اور کوئی گروہ اس کے ذریعہ خیانت کرے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تاریخ اس چیز کی گواہ ہے کہ مختلف شعبوں میں علم و حکمت سے سوء استفادہ کیا گیا  اور ا سے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

دانشور اور دانشوروں کی مانند لگنے والے افرد نے دانستہ اور نادانستہ طور پرعلم سے غلط استفادہ کیا یا جہل کی تاریکی کو لوگوں کے سامنے علم کے نور سے متعارف کروایا۔اس کام سے لوگوں کا علم ودانش سے ناامید ہونا واضح تھا ۔ انہوں نے یہ یقین کرلیا کہ دانشور دنیا میں آئیڈیل حکومت قائم نہیں کر سکتے اور اسی طرح دنیا کو مدینہ فاضلہ میں تبدیل نہیں کر سکتے ۔

۲۵۷

  علم کی محدویت

لوگوں کا علم سے ناامید ہونے کا دوسرا سبب علم کی محدودیت ہے۔

اس بارے میں ارشاد خدا وندی ہے:

''  وَمَا ُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ ِلاقَلِیلاََ'' (۱)

جب تک انسان کا دماغ مکمل طور پر فعال نہ ہواور ذہین ترین فرد بھی دماغ کے کچھ حصہ سے  استفادہ کرے تو انسان کس طرح دنیا کے اسرار و رموز کو سمجھ سکتا ہے؟خاندان نبو ت علیھم السلام  کے فرمودات  میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے ۔لیکن مغرب اب کہیں جا کر اس سے آگاہ ہوا ہے۔ جب تک زمانۂ غیبت جاری رہے اور بشر عقلی تکامل تک نہ پہنچے اور دماغ مکمل طور پر فعّال نہ ہو ، تب تک علم کی محدودیت بھی باقی رہے گی۔اس بیان کی روشنی میں محدود علم کس طرح مجہول مطالب اور مشکلات کا جواب دے سکتا ہے ؟ وہ کس طرح تاریک دنیا کو مدینہ فاضلہ میں تبدیل کر سکتا ہے؟

اگر علم مشکلات اور مجہول مطالب کا جواب دینے ہی سے قاصر ہو تو پھر معاشرے میں بہت سے سوال بغیر جواب کے باقی رہ جائیں گے۔لیکن لوگ اس امر کو جان گئے ہیں کہ علم مشکلات کا حل نہیں ہے ۔ بہت سے دانشوروں نے اس حقیقت کا

اعتراف کیا ہے ۔ہم یہاں ان میں سے چند ایک کے اقوال نقل کرتے ہیں۔

۱۔ علم کی حدودمشخص ہیں ۔ یہ ہمیں اشیاء کی کیفیت کے بارے میں نہیں بتا سکتا ۔علم ہم سے کہتا ہے کہ زمین کس طرح سورج کے گرد گردش کرتی ہے انسان کس طرح پیدا ہوتے اور مرتے ہیں ۔ لیکن یہ کیوں کا جواب نہیں دے سکتا۔(۲)

--------------

[۱]۔ سورۂ اسراء، آیت:۸۵

[۲]۔ علم شبہ علم و علم دروغین: ۴۵

۲۵۸

  مغرب کی تبلیغات

مغرب خود نمائی اور دنیا کے لوگوں کواپنا فریفتہ بنانے کے لئے مختلف علوم کے بارے میں تبلیغات کر رہا ہے ان کا ایک نمونہ نفسیات ہے۔دنیا کے بڑے ممالک میں نفسیاتی مسائل کو اس حد تک بیان کیا جاتاہے کہ جس سے  وہ  خیال کرتے ہیں کہ انہیں نے اتنی ترقی کی ہے اور اس قدر جدید نکات  حاصل کئے ہیں کہ وہ نفسیات شناسی سے بڑھ کر فرارواں شناسی تک پہنچ گئے ہیں ۔ جو لوگ اب تک اپنے نفس اور وجوس کے اعتبار سے انسان کو نہیں پہچان سکے وہ کس طرح اپنی نفسیات اور اس سے بڑھ کر فراروان شناسی کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟

جی ہاں!موجودہ دنیا ایسی ہی ہے کہ جو مقام ولایت اور نظام کائنات کے سرپرست سے منہ موڑ کر اپنی ایجادات اور حاصل شدہ معلومات کی بناہ پر یہ گمان کرتی ہے کہ انہیں حقیقی راہ مل گئی ہے۔

دنیا کے طاقتور لوگ نہ صرف اب بلکہ قدیم زمانے سے اپنی قوم اور ملت کو جھوٹی تبلیغات کے ذریعہ فریب دیتے رہے ہیں۔انہوں نے چال بازی اور دھوکے سے لوگوں کو سرگرم کیا اور اپنے گندے افکار سے پاک فکر لوگوں کو گمراہ کیا۔انہوں نے انسانوں کو اپنی پاک فطرت کے ذریعہ نجات حاصل کرنے کے لئے بھی نہ چھوڑا۔انہوں نے بہت زیادہ تبلیغات سے دنیا کے لوگوں کے افکار تبدیل کئے ۔حلانکہ وہ اپنی غلطییوں سے آگاہ تھے ۔ ماضی سے حال تک تاریخ ایسے بہت سے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ زمانۂ غیبت کے بزرگترین دانشور بہت سی علمی غلطییوںمیں مبتلا تھے ۔ ارسطواور ارسطو سے پہلے اور بعد میں آج تک بہت سے دانشوروں نے  تاریخ کے صفحات میںنہ بھولنے والی غلطیاں رقم کی ہیں۔

۲۵۹

  پوزیدونیوس کا اشتباہ

پوزیدونیوس ایک فلسفی تھا جو سو سال قبل مسیح میں مغربی اسپین میں ایک گروہ کی قیادت کرتا تھا ۔ وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ غروب کے وقت جب بھی سورج بحر اوقیانوس میں غروب ہوتا ہے تو کیا اس میں ''فیش'' کی آواز پیدا ہوتی ہے۔(۱)

  کس کی پیروی کریں؟

کیا انسان ایسے دانشوروں کی پیروی کرسکتا ہے کہ جو خیانت کار ہوں اور  جودنیا کے ستمگروں اور ظالموں کے خدمتگار ہوں؟

کیا مغرب کی تبلیغات سے دھوکا کھا کر ان کی مشینی زندگی پر فریفتہ ہونا صحیح ہے؟

قدیم الایّام سے دنیا کے جابروں، ظالموں اور ستمگروں نے خدا کے پیغمبروں کی مخالفت کی اور لوگوںکو ان کی پیروی سے منع کیا۔رسول اکرم کے زمانۂ رسالت اور خاندان اہلبیت  علیہم السلام کے زمانہ  امامت میں کائنات اور تاریخ کے شریر ترین گروہ خاندان نبوت علیہم السلام کی مخالفت کے لئے اٹھا ۔ جس نے لوگوں کو خاندان عصمت علیہم السلام  سے دور کیا اور لوگوں کو رسول اکرم(ص)کے فرمودات لکھنے سے منع کرکے باب علم کو بند کرنے سے جاہلیت کے زمانے کو تداوم دیا۔

انہوں نے لوگوں کو علم نبوت کے چشمہ سے سیراب نہ ہونے دیا ااور اس چیز کی بھی اجازت نہ دی کہ دنیا میں علم ودانش فروغ پائے لیکن پھر بھی ان بزرگوںہستیوں نے علم ودانش کے اسرار اپنے خاص اصحاب کوتعلیم فرمائے۔

--------------

[۱] ۔ جھان در  ۵۰۰سال آیندہ:۲۴۰

۲۶۰

کیا انسان کو کسی ایسے رہبر کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جس کے سامنے کائنات کے تمام اسرار آشکار ہوں اور جسے دنیا کی تمام موجودات کا علم ہو یا کسی ایسے دانشور کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جو خود اپنے جہل و عجزکا اعتراف کرے اور اپنے علم کو اپنے مجہولات کے سامنے بہت کم سمجھے؟مثال کے طور پر'' اسحاق نیوٹن ''کہ جسے دنیا کے بزرگ دانشوروں میںشمار کیا جاتا ہے ، وہ اس بارے میں کہتا ہے :

مجھے نہیں  معلوم کہ میں دنیا کی نظروں میں کیا ہوں؟لیکن جب میں آنکھوں سے خود کو دیکھوں تو میں ایک ایسے بچے کی مانند ہوں کہ جو ساحل سمندر پر کھیل کود میں مشغول ہو اور خوبصورت سنگریزوں کو دوسرے سنگریزوںاور صدف کو دوسرے گوہرسے تمیز دینے میں مصروف ہو لیکن حقیقت کے اقیانوس میںہر طرف بے کرانی و طغیانی ہے  ۔(1)

یہ اعتراف ایک حقیقت ہے ۔جو نہ صرف نیوٹن بلکہ اس جیسے ہر فرد پر صادق آتا ہے ۔ البتہ بہت سے افراد بہت سعی و کوشش اور جستجو سے خوبصوت  اور نایاب صدف کے حصول میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے:

کیاانسان کو کھیل کود میں مصروف بچے کی پیروی کرنی چاہیئے یا کسی ایسے کو تلاش کو کرنا چاہیئے کہ جو دنیا کی خلقت کے اسرار سے آشنا ہو؟ یہ واضحات میں سے ہے کہ راہ سے بھٹک جانا گمراہی کا سبب  بنتا ہے اور گمراہی کا نتیجہ تباہی وبربادی ہے۔(2)

--------------

[1]۔ فکر، نظم ، عمل:93

[2] ۔ مغز متفکر جھان شیعہ :302

۲۶۱

 آٹھواں باب

خلائی سفر

    خلائی سفر

    کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت

    کہکشاں    سو بیلین دم دار ستارے    دو سو پچاس بیلین سورج    کھربوں کہکشاں

    دنیا میں تمدّن

    کہکشاؤں میں تمدّن

    دور حاضر میں خلائی سفر

    دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات

    خلائی سفر کا امکان

    اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر

    آسمانوں تک رسائی

    ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر

    روایت میں موجود نکات

    آسمانی مخلوقات سے آشنائی

    مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ

۲۶۲

خلائی سفر

ظہور کے ترقی یافتہ زمانے میں خلائی سفر کے بارے میں بہت بہترین اور دلچسپ بحث ہے ۔ قرآن اور خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین میں خلائی سفر کے بارے میں بہت اہم نکات اوراشارات موجود ہیں ۔ ظہورکے زمانے میں آسمانوں اور عامل ہستی کی فضاؤں میں اوج لینے سے پہلے زمانۂ ظہور میں خلائی سفر کی اہمیت کو آشکار کرنے کے لئے کہکشاؤں، سحاب اور آسمان کی وسیع فضا کے بارے میںاہم نکات بیان کرنا ضروری ہے تاکہ ظہور کے زمانے میں خلائی سفر کی اہمیت سے آگاہ ہو سکیںاور یہ جان سکیں کہ علمی تکامل اور پیشرفت کے زمانے میں انسان کو نصیب ہونے والا خلائی سفر بہت عجیب ہو گا۔

یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ آج استعماری ممالک عصر خلاء یا تسخیرخلاء کے عنوان سے جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ دنیا کی عظمت کو اَن دیکھا کرنے کے مترادف ہے۔میرے خیال میں ستمگر ممالک چاند پر ہوٹل میں کمرہ بک کروانے کے سلسلہ میں جو تبلیغات کر رہے ہیں یا جو خلاء کو تسخیر کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں،ان میں سے زیادہ تر دنیا والوں کے دماغ پر اپنی برتری ثابت کرنے ، خود نمائی اور دنیا کے لوگوں کے افکار پر تسلط جمانے کے لئے ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ دنیا اس قدرعظیم اور وسیع ہے کہ مادّہ سے بڑھ کر کوئی اور قدرت ہی اس تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔کیا چاند پر پہنچنا خلاء کو تسخیر کرنا ہے؟

  کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت

ہم نے جو کچھ ذکر کیااس سے ممکن ہے کہ بعض قارئین کرام حیران ہوں اور اس بات کا یقین نہ کریں۔لہذا ہم اس مطلب کی وضاحت کے لئے اس نکتہ کا اضافہ کرتے ہیں: غیبت کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام کے غیبی جلوے اس قدر ہیں کہ بڑے بڑے ممالک بخوبی جانتے ہیں کہ مافوق طبیعت کوئی قدرت موجود ہے ، جو ان کے رفتار و کردار کی مراقب ہے۔ دنیا میں جاسوس ایجنسیاں جیسے مافیا سیا اور اسی طرح بڑے ممالک کی ایجنسیاں جانتی ہیں کہ ایک بزرگ مادی قدرت ان کے اعمال کو دیکھ رہی ہے۔

۲۶۳

ان میں سے بہت سے افراد نے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے۔اب آپ اس مطلب پر توجہ کریں:

حیرت انگیز طور پر وجود میں آنے والی اشیاء کے بارے میں تحقیق کرنے والے دانشوروں اور محققین کو یقین ہے کہ زمین کا نظام کسی قدرت کے زیر نگرانی اور ایک منظم سسٹم کے تحت چل رہا ہے ۔ وہ ایسی قوّت ہے کہ جس کی ماہیت اب تک ہم پر واضح نہیں ہے ۔ یہ دنیا اسی کے زیر نظر ہے ۔ بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری دانشوروں نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔(1)

یہ جاننابھی ضروری ہے کہ بڑے بڑے ممالک یہجان چکے ہیں کہ نہ صرف تمدّنی ترقی اور پیشرفتہ علم تک پہنچنے کے لئے بلکہ کہکشاؤں اور فضاؤں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے  بھی مافوق طبیعت اور مادّہ سے بڑھ کر کسی اور قدرت کی ضرورت ہے۔صرف اسی صورت میں پہنچ سے دور ستاروں ،نورانی خلاء اور کہکشاؤں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اسی صورت میں زمین پر علم و تمدن کی پیشرفت اور تکامل ممکن ہو سکتا ہے۔اسی لئے انہوں نے عالم غیب تک پہنچنے کی کوششیں کیں اور اس کے لئے انہوں نے اپنے معروف ترین ماہریں جیسے آئن اسٹائن اور ڈاکٹر جساپ سے مدد طلب کی۔لیکن چونکہ وہ شہر علم میں داخل ہونے کے لئے بھٹکے اور راہ سے گمراہ لوگوں سے مدد مانگ رہے تھے لہذاآ ئن اسٹائن اور ڈاکٹر جساپ نے انہیں جو برنامہ فراہم کیا ،انہیں اس میں شکست کا سامناکرنا پڑا۔اس برنامہ میں جن افراد کو مأمور کیاگیا ، وہ یا تو پاگل ہو گئے یا پھر چل بسے۔آئن اسٹائن نے اس کام سے ہاتھ کھینچ لیا اور ''ڈاکٹر جساپ''کسی کے ہاتھوں پراسرار طور پر مارا گیا۔ظہور کے پیشرفتہ زمانے میں آسمانوں تک رسائی کے عظیم مسئلہ کے لئے خلاء اور آسمانوں کی وسعت اور کائنات کی عظمت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

--------------

[1]۔ عجیب تر از رؤیا:356

۲۶۴

  کہکشاں

زمین ایک سیارہ ہے کہ جو دوسرے سیاروں کی طرح سورج کے گرد گھومتی ہے۔اس کا قطر12750 کلو م یٹر ہے اور یہ سورج سے150 مل ین کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اب تک نو سیاروں کی شناخت ہو چکی ہے۔سورج اور اس کے سیارات مل کر منظومہ شمسی تشکیل دیتے ہیں ۔منظومہ شمسی میں  تمام سیاروں کی حرکت کو اپنے تحت قرار دیتا ہے اور وہ مختلف سرعت سے اپنے اپنے مدار مین گردش کرتے ہیں۔مدار ایسے خط کا نام ہے کہ جس میں ہر سیارہ سورج کے گرد گھومتا ہے ۔ منظومہ شمسی میں سیارات سورج سے روشنی اور حرارت لیتے ہیں سورج زمین سے ایک ملین گنا بڑا ہے۔ منظومہ شمسی کہکشاں کا چھوٹا سا حصہ ہے کہ جو800 ہزار کلو م یٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ سے230 مل ین سال میں ایک بار اس کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتا ہے ۔منظومہ شمسی کا سورج سے کہکشاں کے مرکز تک کا فاصلہ28 ہزار نور ی  سال ہے ۔ کہکشاں کئی ارب ستاروں سے تشکیل  پاتاہے جن میں سے ایک سورج ہے ۔ جو زرد ستارے میں شمار ہوتا ہے۔(1)

یہ کہکشاں دیگر کروڑوں،اربوں کہکشاؤں کے مقابلے  میں بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکرے  کی مانند ہے۔ ان کہکشاؤں کا مجموعہ ہماری دنیا تشکیل دیتا ہے ۔ اس دنیا کے کامل تصور کے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ کہکشاؤں کی تعداد زمین پر موجود ساحلوں پر ریت کے ذرّات کے مجموعہ سے زیادہ ہے۔(2)

--------------

[1]۔ شگفتی ھای کاوش جھان:۲۳۰

[2]۔ دوہزار دانشمند در جستجوی خدا:13

۲۶۵

  سو بیلین دم دار ستارے

منظومہ شمسی کے گرد سو بیلین دم دار ستاروں سے تشکیل پانے والا وسیع ابر پھیلا ہوا ہے۔ جسے اس کے دریافت کرنے والے ، یان آئو رٹ، کے نام سے ابر آؤرٹ کانام دیا گیاہے ۔خوش قسمتی سے ستاروں کا یہ جھرمٹ ہم سے بہت فاصلے پر واقع ہے۔سورج سے ان کی دوری تین ٹریلین کلومیٹر ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا سورج سے فاصلہ زمین کا سورج کے فاصلہ سے بیس ہزار گنا زیادہ ہے۔(1)

  دو سو پچاس بیلین سورج

کہکشاں  کے نطام میں دو سو پچاس بیلین سورج موجود ہیں اگر اسے طے کرنا چاہیں تو اس کی لمبائی کو ایک بیلین کلو میٹر فی گھنٹہ کی سرعت سے طے کرنے کی صورت میںبھی ایک لاکھ سال درکار ہوں گے۔(2)

--------------

[1]۔ جہان در 500 سال آئندہ:494

[2]۔ جہان در 500 سال آئندہ:520

۲۶۶

  کھربوں کہکشاں

کائنات میں کھربوں کہکشاں پھیلے ہوئے ہیں ایک کہکشاں کا قطر ایک لاکھ نوری سال کے برابر ہے جس میں سوکھرب سے زائد ستارے ہوتے ہیں ۔ کائنات کی خلاء اس قدر وسیع ہے کہ  اگر ستاروں، منظومہ اور کہکشاؤں کو تشکیل دینے والے عناصر کو اس خلاء سے مقائسہ کریں کہ جس میں کہکشاں ہیں تو یہ اس قدر ناچیز ہے کہ جن سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔

اس ناقابل یقین وسعت کے مقابلہ میں ہمارے کہکشاں ، منظومہ زمین کہ جس پر ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، خود ہم اور ہمارے متعلق دوسری چیزیں ۔غالباََ یہ سب ایمان میں اہمیت کی حامل ہیں جو بہت اضطراب کا باعث ہے ۔ انہیں دیکھ کر خود  پر طنز کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اقیانوس کے سامنے ایک قطرے کی کیا اہمیت ہے۔(1)

  دنیا میں تمدّن

''ڈاکٹر شپلی'' کا کہنا ہے کہ کائنات میں کم از کم سو بیلین مسکون سیارے موجود ہیں ۔ان میں سے اکثر کے رہائشی ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ان کے علاوہ دیگر ماہرین فلکیات جیسے داکٹر اتزاسٹرو،کارل ساگان،فرنیک اور کچھ دیگر دانشوروں نے  1961 ء میں مغربی ورجینیا میں گرین بنک کے مقام پر ایک دوسرے سے ملاقات کی اور دہلا دینے والانظریہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس وسیع و عریض کائنات میں چالیس سے پچاس ملین کرّات موجود ہیں کہ جن کے رہائشی کسی طریقہ سے ہم سے رابطہ کرنے یا زمین سے پیغام سننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

--------------

[1]۔ نگاہی بہ سر نوشت جھان، انسان تاریخ:27

۲۶۷

فرانس کے ایک دانشور ''موریس شاتلن''(جو پہلے امریکہ میں خلائی امور کا ماہر تھا )نے تین بار ریڈیو علائم موصول کئے ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ احتمالاََ یہ علائم خلاء سے عاقل موجودات کی جانب سے بھیجی گئی ہیں۔ایسا لگتاہے کہ دوسری دنیابھی یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس ذریعہ سے دوسرے سیاروں میں علم فلکیات کے دانشوروں کو اپنی موجودگی کا پتہ دے۔

دو روسی خلائی ماہرین'' تروتسکی اور کارداشف'' نے چند سال کی کوششوں سے چار ریڈیو مراکز  میں خلاء سے بھیجی گئی یہ پراسرار علائم موصول کیں۔یہ علائم کسی خلائی شٹل کے ذریعہ حاصل نہیںہوئے ۔کیونکہ یہ پیغام خلاء میں پہلی شٹل بھیجنے سے پہلے کشف ہوئے تھے۔(1)

اب تک اسی طرح سے 113 پیغام اور ارتباطی وسائل کے ذریعہ دو ہزار سے زائد پیغام موصول ہو چکے ہیں۔اس میں  سے کسی طرح کا شک وشبہ  نہیں ہے کہ خلاء دیگر کرّات اور دوسری دنیا سے پیغامات ارسال ہوئے ہیں۔لیکن ابھی تک دقیق معلومات نہیں ہیں  کہ ان پیغامات میں کیاکہا گیا ہے اورو ہ کہاں سے بھیجے گئے ہیں ۔  لیکن ممکن ہے کہ حکومتی ادارے ان اسرار سے واقف ہوں لیکن ان  سے پردا نہ اٹھانا چاہتے ہوں۔ (2)

  کہکشاؤں میں تمدّن

اس بناء پر آج کسی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ کائنات میں زمین کے علاوہ دوسری دنیا میں بھی زندگی موجود ہے۔جب گیارہ ماہر دانشور1961 ء میں مغربی ورجینیا میں گرین بنک کے مقام پر منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے بعد ایک دوسرے سے جدا

--------------

[1]۔ گمشدگان مثلث برمودا:192

[2] ۔ بشقاب پرندہ:212

۲۶۸

ہونے لگے تو انہوں نے متفقہ طور پر قرار داد پیش کی کہ کچھ فارمولوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاں میں پچاس ملین سے زائد تمدّن اور ثقافتیںموجود ہیں۔

ناسا  کے ایک شعبہ کے سربراہ راجرآمک گوان نے ان نظریات کے مطابق جدید ترین خلائی پیشرفت کی ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاں میں فرہنگ و ثقافت کی تعداد 135 سے زائد ہوچک ی  ہے۔(1)

  دور حاضر میں خلائی سفر

کائنات کی کشادگی اور خلاء کی وسعت پر غور کرنے سے کیا چاند اور مریخ کے سفر کو خلاء تسخیر کرنے کا نام دے سکتے ہیں؟

دنیا کی استعماری طاقتیں اپنی ظالمانہ حکومتوں کو استحکام ودوام دینے کے لئے اور ان کی بقاء اور لوگوں پر اپنا منحوس سایہ برقرار کرنے اور دنیا کے لوگوں کا دل جیتنے کے لئے ان کے سامنے اپنے خلائی سفر کو ایسے پیش کرتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہویا کوئی غیر معمولی کام انجام دے دیا ہو۔یوں وہ اپنے منفی اور استعمارانہ اہداف دنیا پرلاگو کرتے ہیں اور دنیا والوں کے دلوں میں رعب و وحشت ایجاد کرتے ہیں تا کہ ان کے منفی برناموں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا جائے۔

حلانکہ ا یسی صورت  حال میں بھی وہ جانتے ہیں کہ خلائی سفر اور دور دراز ستاروں تک پہنچنے کے لئے ایسی قدرت سے بہرہ مند ہونا ضروری ہے کہ جو زمانے کی قید سے خارج ہو اور نور کی سرعت سے بھی زیادہ تیز ہو۔وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جب پوری کائنات پر علم و حکمت کا غلبہ ہو گا اور بشر حقیقی و واقعی تکامل اور فرہنگ  وتمدّن تک پہنچ جائے گا تو وہ دورِ حاضر کی روش پر ہنسیں گے۔

--------------

[1]۔ بازگشت بہ ستارگان:40 

۲۶۹

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اب نہ صرف دنیا کی استعماری طاقتیںاس حقیقت سے باخبر ہیں ۔بلکہ وہ خود بھی صراحتاََ یہ نکتہ بیان کرتے اور اس کا اعتراف کر تے ہیں ۔اب ہم جو بیان کرنے جا رہے ہیں ،اس سے یہ مطلب بخوبی واضح ہو جائے گا۔

آج کا خلائی سفر بہت مہنگاہے امریکہ کی خلائی شٹل اور روس کا خلائی اسٹیشن میر کا مصرف بہت زیادہ ہے۔کیونکہ خلاباروں کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو مثلاََکھانا پینا،آب و ہوا وغیرہ، انہیں یہ سب کچھ زمین سے اپنے ہمراہ لے جانا پڑتاہے۔ اب ایک کلو گرام کو زمین سے خلاء میں منتقل کرنے کا خرچہ دس ہزار ڈالر ہے مثلاََ1993 ء م یں خلائی ٹیلی اسکوپ ہابل (  Hubble) کو تعمیر کرنے میں پانچ سو ملین ڈالر کی لاگت آئی ۔یہ ان اخراجات کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔آئندہ آنے والے ہماری  مدیریت کے ان برناموں پر ہنسیں گے۔(1)

وہ بخوبی جانتے ہیں کہ خلائی سفر پر مصرف ہونے والے اتنے اخراجات کو دیکھ کر آئندہ نسلیں تعجب کریں گی۔اب خلائی سفر کے اخراجات کے بارے میں دو اور بیانات ملاحظہ کریں  اور اس کے بعد ہم ایک اہم نکتہ بیان کریں گے:امریکی حکومت نے ''آپولو11 '' کو چاند پر پہنچانے کے لئے پانچ مل ین سے زیادہ خرچ کئے یہ اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے۔

''آپولو''کے سفر کا خرچہ1991 ء کی خلیج فارس کی جنگ سے زیادہ تھا۔کیونکہ اس وقت چاند کا اس سے زیادہ سستا سفر دریافت نہیں ہوا تھا۔تقریباََتمام صاضب نظر شدّت سے ،آپولو، کے سفر کے نتائج کی امید کر رہے تھے ۔ میں نے  خود بھی چاند پر پہنچنے کی خبر سننے کے بعد ڈیلی ٹیلی گراف میں بہت مقالات شائع کئے اور ان تمام میں چاند پر اسٹیشن ایجاد ہونے کے قریب الوقوع ہونے کی پیشگوئی کرتا حتی کہ چاند کے ہوٹل میں دو تختوں کے ایک کمرے میں رہائش کے لئے بھی نام درج کروایا۔ (2)

--------------

[1]۔ جہان در 500 سال آئندہ:426

[2]۔ شگفتی ھای کاوش جھان:279

۲۷۰

یہ جلد بازی میں اخذ کیاگیا نتیجہ تھا چاند کی سطح پر خلا بازوں نے جو امور انجام دئے ہمیں ان کا بھی علم نہیں تھا۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ چاند سے واپسی پر وہ خصوصی صنایع میں وارد ہو جائیں گے۔میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ امریکہ کی ہر خلائی شٹل کی پرواز کا خرچہ کئی سو ملین ڈالر ہے اور خلاء میں ایک کلو گرام کو منتقل کرنے کا خرچہ دس ہزار ڈالر ہے۔(3)

  دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات

اب تک ہم نے استعماری حکومتوں کے بے نتیجہ اخراجات کے بارے میں جو کچھ نقل کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کی ناتوانی پر آئندہ نسلیں حیران ہوں گی اوربے ساختہ ہنسیں گی۔اب اس اہم ترین نکتہ پر

توجہ کریں:

اس زمانے میں چاند تک نہ کہ کہکشاؤں اور ستاروں تک پہنچنے کے لئے خلائی سفر کے اخراجات استعماری حکومتوں کی ناکامی کے عوامل میں سے ایک ہے۔ کیونکہ کچھ دیگر امور بھی ہیں کہ جو خلائی سفر میں ان کی شکست کے عامل ہیں۔ان میں ایک دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات ہیں۔ظالم اور استعماری حکومتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کروڑوں انسانوںکی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔خلائی سفر میں انجام دیئے جانے والے خطرناک امور اس چیز کے گواہ ہیںکہ وہ دنیاکے لوگوں کی زندگی کو بے معنی سمجھتے  اور کروڑوں لوگوں کی زندگی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ اس کی مزید وضاحت کے لئے اس بیان پر غور کریں؛

--------------

[3]۔ جہان در 500 سال آئندہ:279

۲۷۱

ناسا نے1997 ء م یں کاسینی نامی شٹل بتّیس کلو گرام پلاٹینیم خلاء میں بھیجی ۔ناسا نے اس کے احتمالی خطرات کی بھی تصدیق کی تھی۔اگر کاسینی سفر کے دوران پھٹ جاتی تو دنیا میں  پانچ ارب افراد  انشعاعوں سے متأثر ہوتے۔ پلاٹینیم سرطان کی افزائش کا ایک عامل سمجھا جاتا ہے حتی اگر انسان اس مادہ کے ایٹم کی کچھ مقدار سونگھے تو آنکھ جھپکنے ہی سے اس کی افزائش ہو جاتی ہے۔

''بروس گاگون''خلاء میں تسلیحات اور ایٹمی توانائی سے مقابلہ کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ فن غیر ضروری ہے اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو یہ بہت بڑی تباہی کا باعث بن سکتاہے ۔کیا ایسے برناموں کو انجام دینا انسانی معاشرے کی خدمت ہے یا خیانت؟

یہ بہت بڑا جرم ہے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اگر فرضاََ ان میں کامیابی ہوجائے تو ہم کہکشاں میں مشکل سے کئی ملین ستاروں میں

سے صرف دس یا بارہ ستاروں کا سفر کر سکتے ہیں۔

  خلائی سفر کا امکان

کائنات کی کشادگی اور خلاء کی وسعت پر غور کرنے سے کہکشاؤں کے سفر کے امکان کا انکار نہیں کر سکتے۔اگرچہ وہ ہم سے کئی نوری سال کی دوری پر ہیں۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے ایک مقدمہ ذکر کرکے اصل بحث کی طرف آئیں گے۔

کیا علمی روش کے نقطہ نگاہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اب تک جس انسان کو بھی دیکھا ہے وہ موجودہ صورت میں ہی تھا۔پس اب تک انسان جس صورت کا مشاہدہ کر رہا ہے اس کے علاوہ کسی اور صورت کا آنا محال ہے؟

البتہ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ جب ہمارے مشاہدات اور تجربات دنیا کے ایک حصہ یاایک زمانے تک منحصر ہوں تو کسی صورت میں بھی ایسا حکم صادر نہیں کر سکتے ۔ جابر بن حیان کہتا ہے؛

۲۷۲

دنیا میں کسی ایسی موجود ومخلوق کا ہونا ممکن ہے کہ جس کا حکم ان چیزوں سے مختلف ہو کہ جنہیں ہم نے اب تک دیکھا ہے یا جن سے اب تک ہم آگاہ ہیں۔ کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کے وجود کی بناوٹ ایسی ہے کہ جو تمام موجودات کی شناخت اور ان تک رسائی کی قدرت نہیں رکھتے۔جابر بن حیان نے مذکورہ نمونہ لا کر اس کلی صورت کی طرف ہماری رہنمائی کر دی ۔ کوئی یقین سے یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ غیر مشہور مخلوق بالکل مشہور موجودات و مخلوقات کی مانند ہیں یا جو کچھ ماضی میں موجود تھا یا جو مستقبل میں وجودمیں آئے گا ،وہ بالکل دورِ حاضر میں موجود اشیاء کی مانند ہوگا۔کیونکہ انسان وقت اوراحساس کے لحاظ سے ناتوں اور محدود مخلوق ہے۔

اسی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ دنیا کے آغاز ِ پیدائش کے بارے میں علم نہیں ہے پس دنیا ازلی اور بے آغاز ہے۔میرے خیال میں جابربن حیان نے ان عبارات میں تجربی روش کو دقیق ترین ممکن وجہ سے مشخص کیا ہے۔کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اگرچہ مشہور موجودات کا حکم غیر مشہور موجودات پر کاگو کرنا درست نہیں ہے ۔ لیکن اس چیز کا انکار نہیں کرنا چاہیئے ۔کیونکہ ممکن ہے کہ غیر مشہور اشیاء ہمارےتجربہ و مشاہدہ میں نہ ہوں۔پس ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

کیونکہ اس سے انسان حسّ کے محصور میں محدود ہو کر رہ جائے گا کہ جس سے بہت سی ایسی اشیاء کا انکار لازم آئے گا کہ جو  یقیناََ موجود ہیں۔ایسے لوگ بھی ہیںکہ جنہوں نے ابھی تک مگرمچھ نہیں دیکھا ۔ پس اگر کوئی ان سے کہے کہ دنیا میں ایک ایسا جانور ہے کہ جو کھاتے وقت اپنا اوپر والا جبڑا ہلاتا ہے ، کیا وہ صرف اس بنیاد پر اس حیوان کا انکار کر سکتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے ایسا حیوان نہیں دیکھا ، لہذا وہ موجود نہیں ہے ۔ پس کوئی بھی نہ دیکھنے کی بنیاد پر کسی موجود کا انکار نہ کرے بلکہ جب تک اسے اس کے وجود یا عدم پر کوئی دلیل نہ مل جائے تب تک  اپنی رائے کے اظہار سے پرہیز کرے۔

۲۷۳

اس بناء پر کسی چیز کے نہ ہونے کا حکم اس کے مورد مشاہدہ نہ ہونے یا اس بارے میں کسی خبر کے نہ ہونے کی بناء پر نہیں کرنا چاہیئے اسی طرح جس چیز کے بارے میں دوسروں کی خبروں سے اطلاع حاصل ہو اور اسے خود مستقیماََ مشاہدہ نہ کیاہو ،ایسی چیز کا انکار بھی استدالی روش میں لا علمی کو بیان کرتا ہے۔(1)

اس بناء پر اگرچہ چاند اور مریخ کے سفر کو خلاء تسخیر کرنے کا نام نہیں دے سکتے کیونکہ خلاء اور آسمان کی کشادگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے خلاء کو تسخیر کرنا قرار نہیں دے سکتے ۔ جابر بن حیان کے استدلال کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس طرح معاصر انسان کسی ایسی چیز تک رسائی حاصل نہیں کر سکا پس کوئی اور مخلوق بھی اس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی ۔ جیسا کہ جابر بن حیان نے بھی کہا کہ ایسا استدلال باطل ہے۔

  اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر

جب لوگ بطلمیوس کی ہیئت اور اس کے نظرئے کے معتقد تھے کہ آسمانوں کا سفر محال ہے ،اس زمانے میں بارہا اہلبیت  کا خلائی سفر واقع ہوا ۔ حضرت امیر المؤمنین علی  علیہ السلام ، امام سجاد علیہ السلام  اور دوسرے آئمہ اطہارعلیہم السلام کے سفر کے کچھ نمونے کئی روایات میں نقل ہوئے ہیں۔رسول اکرم کی معراج خود ایک خلائی سفرہے۔ آنحضرت کی معراج پر ہم سب کا عقیدہ ہے۔لوگوں کے لئے یہ سفر اس زمانے میں نقل ہوئے ہیں کہ جب دنیا پربطلمیوس کا نظریہ حاکم تھا۔اس زمانے میں موجود جہالت پر غور کریں تو معلوم ہو گا اس زمانے میں  ایسے بہت سے سفر مخفی رکھے گئے۔ اگر اس زمانے میں اہلبیت کے لئے مطلب کو ظاہر کرنا ممکن ہوتا تو ہم تک ایسے اور بہت سے نمونے پہنچتے۔

--------------

[1]۔ تحلیلی از آرای جابر بن حیان :59

۲۷۴

فرض کریں کہ اگر کسی کو اہلبیت علیہم السلام کے خلائی سفر میں شک ہو تو وہ اس نکتہ پر توجہ کرے کہ خدا کی مشیت یہ ہے کہ ہر زمانے میں اپنی حجت کواس زمانے میں معمول او ر موجود قدرت سے زیادہ قدرت دے۔اس مشیت کی رو سے یہ واضح ہے کہ جب پوری کائنات میں اصلاح و تکمیل کا زمانہ ہو تو پھر اس کی زیادہ ضرورت کا احساس ہو گا ۔ یعنی اگر کوئی تمام دنیا کو تسخیر کرنا چاہے تو وہ دنیا میںموجود اور رائج قدرت سے زیادہ قدرتمند ہونا چاہیئے۔ تاریخ میںکہیں بھی یہ موجود نہیں ہے کہ دنیا میں کسی دانشور نے کسی پیغمبر کو علمی مطالب میں مغلوب کیا ہو۔اگر خدانے اپنے رسول اکرم(ص) کو شمش یر اور قرآن کے ساتھ بھیجا تووہ اپنی آخری حجت کو بھی قرآن ، برہان اور آنحضرت کے قیام کے زمانے میں رائج قوّت سے زیادہ قدرت کے ساتھ بھیجے گا۔وہ ایسی قوّت وقدرت ہو گی کہ جو اس زمانے کی  تمام قوّتوں کو مغلوب کر دے گی۔اب اس روایت پر غور کریں۔

'' قال المتوکل لابن السکیت :سل ابن الرضا مسألة عوصاء بحضرت ، فسأله فقال: لِمَ بعث اللّه موسی بالعصا و بعث عیسی بابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی،و بعث محمداَََ بالقرآن والسیف ؟

فقال ابو الحسن  : بعث اللّه موسی  بالعصا والید البیضاء فزمان الغالب علی اهله السحر ، فاتاهم من ذالک ماقهر بسحرهم و بهرهم و اثبت الحجّة علیهم

بعث عیسی بابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی باذن اللّه تعالٰی  فزمان الغالب علی اهله الطبّ، فاتاهم من ابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی باذن اللّه فقهرهم و بهرهم و بعث محمداََ(ص) بالقرآن والس یف فزمان الغالب علی ا ھ ل ہ السیف والشعر فاتا ھ م من القرآن الزا ھ ر والسیف القا ھ ر ما ب ھ ر ب ہ شعر ھ م عو ب ھ ر سیف ھ م ۔۔۔۔ '' (1)

--------------

[1]۔ بحارالانوار:۵۰ ص۱6۵

۲۷۵

متوکل نے ابن سکّیت (جو اس زمانے کا بزرگ دانشور تھا) سے کہا کہ میرے سامنے حضرت امام ہادی علیہ السلام سے ایک مشکل مسئلہ پوچھو۔ابن سکّیت نے

امام رضا علیہ السلام سے کہا:

خدا نے کیوں موسیٰ  علیہ السلام  کو عصا، عیسیٰ  علیہ السلام  کو اندھوں کو بینائی دینے، برص کے مریضوں کو شفا اور مردوں کو زندہ کرنے اور محمد(ص)  کو قرآن کے ساتھ رسول بنا کر بھ یجا؟

امام ہادی علیہ السلام  نے جواب میں فرمایا :

خدا نے موسی علیہ السلام کو عصا اور سفید ہاتھ کے ساتھ مبعوث کیا کہ جس سے سفید نور طالع ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے  کے لوگ سحر میں ماہر تھے ،م وسی علیہ السلام اس قدرت کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ ان ے سحر کو نابود کریں ، ان پر غالب آئیں اور ان پر دلیل کو ثابت کریں۔عیسیٰ علیہ السلام  کو اندھوں کو بینائی دینے، برص کے مریضوں کو شفا دینے اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کرنے کے ساتھ مبعوث کیا کیونکہ اس زمانے کے لوگ طبّ میں غالب تھے۔ پس وہ اندھوں اور برص کے مریضوں کو شفا یاب کرنے اور مردوں کوخدا کے اذن سے زندہ کرنے کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ انہیں مقہور کرکے ان پر غالب آئیں ۔ حضرت محمد(ص) کو قرآن اور شمش یر کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا گیا جب کہ اس   زمانے کے لوگ شمشیر و شعر میں ماہر تھے۔ پس وہ نورانی قرآن اور قاہر شمشیر کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ ان کے ذریعہ ان کے شعر پر غالب آئے اور اور ان کی شمشیر پر کامیاب ہو۔

اس روایت پر توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اگر موجودہ زمانہ خلاء اور خلاء کو تسخیر کرنے کا زمانہ کہلاتاہے تو حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے پاس جدید خلائی وسائل ہوں گے کہ جن کے سامنے دور حاضر کی خلائی شٹل بے ارزش ہو گی۔

۲۷۶

  آسمانوں تک رسائی

اہلبیت اطہار علیہم السلام کی حکومت کا تشکیل پانا اور آنحضرت کی عظیم قدرت کا ظہور نہ صرف دنیا کے تمام پاک سیرت لوگوں کو اپنی طرف جلب کرتا ہے بلکہ اس بابرکت باعظمت اور درخشاں دن کے بارے میں بات کرنا بھی انسانوں کے دلوں میں شوق و ولولہ پیداکرتا ہے کہ جلد از جلد وہ بابرکت زمانہ آئے ۔ ظہور کے زمانے کے حیرت انگیز واقعات میں سے ایک انسان کا آسمانوں تک رسائی خلاء میں پرواز اور دوسرے کرّات پر جانا ہے ۔ آسمان کی بلندیوں میں پرواز ، آسمانی کرّات میں نشست انسان کی دیرینہ خواہش ہے ۔ جس کے حصول کی متعدد بار کوشش کی گئی اور اس کے لئے بہت سرمایہ بھی خرچ کیاگیا ۔ آسمانوں تک رسائی ملکی و مادی لحاظ سے تھی اس سے بھی اہم نکتہ تو یہ ہے کہ اس روز انسان نہ صرف ملکی و مادّی لحاظ سے پرواز کرے گا بلکہ ملکوتی اعتبار سے بھی آسمانوں تک دسترس  حاصل کرے گا اور ملکوت آسمان کا نظارہ کرے گا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کیفیت و اہمیت کے لحاظ سے عالم ملک و ملکوت ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفاوت ہیں ۔ یعنی عالم ملک کاعالم ملکوت سے مقائسہ نہیں کر سکتے ۔عالم ملکوت کی عالم ملک پر برتری اور صالحین کی حکومت میں انسانوں کا عالم ملکوت تک رسائی پر توجہ کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان ظہور کے بابرکت زمانے میں کس ظاہری و معنوی عظمت کا مالک ہو گا ۔ وہ خوش نصیب  ہیں کہ جو زمانہ ظہور کو درک کریں گے اور اس مبارک دن میں زندگی گزاریں گے۔اسی طرح تاریک زمانے سے پُر نور زمانے میں جانے والے اور شادابی و شادمانی سے سرشار دنیا کا نظارہکرنے والے بھی خوش نصیب ہیں۔

۲۷۷

  ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر

شب معراج رسول اکرم(ص) آسمانو ں ک ی بلندیوں میں گئے اور عرش پر خدا سے ہم کلام ہوئے ۔خدا وندکریم نے حضرت مہدی علیہ السلام  کے خلائی سفر کے بارے میںرسول اکرم(ص)سے کلام ک یا ۔نہ صرف آنحضرت کے خلائی سفر بلکہ واحد عالمی حکومت ، قیامت تک اس کے تداوم پوری کائنات میں رونماہونے والے عظیم تحوّلات اور دشمنوں کے وجود سے دنیا کے پاک ہونے کی خبر دی ۔ہم یہاں ایسی ہی کچھ روایات پیش کرنے کے بعد اس بارے میں اہم ترین نکتہ بیان کرتے ہیں۔رسول اکرم (ص) نے فرما یا:''فقلت :یا ربّ هئولاء اوصیائ بعد ؟ فنودیت یا محمد؛ هئولاء اولیائ و احبّا ئ و اسفیاء،و حجج بعدک علی بریّت،وهم اوصیائک و خلفاوک و خیر خلق بعدک و عزّت و جلال لأظهرنّ بهم دین،ولأعلینّ بهم کلمت ولأطهرنّ الارض بآخرهم من اعدائ،وللاُملّکنّه مشارق الارض و مغاربها،ولاسخرنّ له الرّیاح ، ولاذلّلنّ له السحاب الصعاب ،ولا رقینّه ف الاسباب،ولانصرنّه بجند،ولا مدّنّه بملائکت،حتی یعلن دعوت،ویجمع الخلق علی توحیدی،ثمّ لادیمنّ ملکه ،ولأداولنّ الایّام بین أولیائ الی یوم القیامة '' (1)

میں نے کہا!اے پروردگار وہ میرے بعد میرے اوصیاء ہیں؟

پس میں نے ندا سنی:اے محمد!وہ میرے اولیاء میرے دوست میرا  برگزیدہ اور آپ اور آپ کی امت پرمیری حجت ہیں اور وہ تمہارے اوصیاء تمہارے جانشین اور تمہارے بعد میری بہترین مخلوق ہیں۔ میری عزّت اور میرے جلال کی قسم ،یقیناََ میں اپنے دین کو ان کے وسیلہ سے ظاہر کروں گا اور اپنے کلمہ کو ان کے  وسیلہ سے برتر کروں گا۔یقیناََ ان میں سے آخری کے ذریعہ زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا۔حتماََ اسے زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بناؤں گا۔ہواؤں کو اس کے لئے مسخر کروں گا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۵۲ص۳۱۲

۲۷۸

سخت بادلوں کو اس کے تابع کروں گا۔اسے وسائل میںاوپر لے جاؤں گا۔  یقیناََ اپنے لشکر سے اس کی نصرت کروں گا۔اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مدد کروں گا تا کہ وہ میری دعوت کو آشکار کرے۔سب لوگوں کو توحید و یکتا پرستی پر جمع کرے گا۔پھر اس کے ملک کو پائیدار بنا کر ایّام کو قیامت تک کے لئے اپنے دوستوں میں قرار دوں گا۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس روایت میں مہم مطالب کے بارے میں بات ہوئی ہے۔اس روایت میں آئمہ اطہار علیہم السلام کی عظمت ،ان کی فضیلت و برتری ،ان کے ذریعہ دین اسلام کے ظاہر ہونے ، ان میں سے آخری کے ذریعہ زمین کو دشمنوں سے پاک کرنے ،خدا کے لشکر،ہواؤں کی تسخیر تمام مخلوق کا خدا کی توحید و یکتا پرست کے معتقد ہونے، واحد عالمی حکومت اور قیامت تک اس کے قائم رہنے کے بارے میں بیان ہوا ہے۔

  روایت میں موجود نکات

اس روایت میں ایسے نکات موجود ہیں کہ جن پر دقت و تأمل  سے بعض اہم نکات حاصل کر سکتے ہیں۔

1 ۔ روا یت میں یہ جملہ کہ خدا نے فرمایا:''لاسخّرنّ له الریاح ولذ لّلنّ له السحاب الصعاب ، ولا رقّینّه ف الاسباب''

یہ اس نکتہ کی دلیل ہے کہ آنحضرت(ص) کا آسمانوں کی طرف صعود کرنا جسمانی ہے جیسا کہ حضرت محمد  مصطفٰی (ص)کی معراج جسمانی تھی۔یعنی آنحضرت(ص) کا آسمانوں پر جانا قالب مثالی سے نہیں ہے۔جیسا کہ آسمانوں کی بلندیوں میں صعود سے مقصودبھی روحانی صعود نہیں ہے کیونکہ اگر آنحضرت کا آسمانوں پر جاناروحانی صعود ہوتا یا قالب مثالی کی صورت میں ہوتا تو پھر سحاب صعاب یا اسباب کی ضرورت نہ  ہوتی۔کیونکہ روح یا قالب مثالی کے آسمانوں کی طرف جانے کے لئے کسی خلائی وسیلہ سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۲۷۹

2 ۔ اس روایت سے دوسرا حاصل ہونے والا نکتہ یہ ہے کہ اگر آنحضرت  آسمانوں کی طرف جسمانی صعود کا اراسہ کریں تو اس کے لئے بھی خلائی اسباب و وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ وہ ظاہری وسیلہ یا برّاق(جو رسول اکرم(ص)سے مخصوص تھا) سے استفادہ کئے بغیر بھی جا سکتے ہیں ۔ روایت میں اسباب و وسائل سے تعبیر ہونا اس چیز کی دلیل ہے کہ آنحضرت  کا آسمانوں میں جانا کسی انحصاری  یا  ظاہری وسیلہ (جیسے برّاق) میں منحصر نہیں ہے۔ اس بناء پر وسیلہ کے تعدد اور لفظ اسباب کے جمع ہونے سے اسباب اور وسائل اس چیز میںظہور رکھتے ہیں کہ آنحضرت کسی انحصاری وسیلہ (جیسے برّاق) سے استفادہ نہیں کریں گے ۔مورد توجہ یہ ہے کہ سحاب صعاب اور سخت بادل بھی جمع کی صورت میں  بیان کئے  گئے ہیں۔

3 ۔ اس روا یت سے یہ نکتہ بھی استفادہ کرتے ہیں کہ ظہور کے زمانے میں خلاء اور آسمان پر جانے کے لئے مختلف ذرائع ہوں گے کہ جن سے استفادہ کیا جائے گا۔اس روایت میں تین طرح سے تصریح ہوئی ہے۔

الف:  لاسخّرنّ لہ الریاح

ہواؤں کو یقیناََ اس سے تسخیر کریں گے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی عظیم بساط کے بارے میں بھی بیان ہوا ہے کہ ہوائیں ان کی بساط کو آسمان پر لے جاتیں ۔ ہواؤں اور شدید طوفان کی قدرت بہت حیرت انگیز ہے ان کی تسخیر سے مراد انہیں اپنے اختیار میں رکھنا اور ان پر مکمل  قابو ہوناہے۔ہمارے زمانے میں دانشور نہ تو طوفان کو روک سکے ہیں لیکن قرآن کریم کی آیات کی بناء پرحضرت سلیمان علیہ السلام ایسے کام کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔حضرت مہدی علیہ السلام (جو کہ ہر چیز پر ولایت رکھتے ہیں) ان پر قابو پا کر ان کے منفی آثار کو برطرف کرنے کے علاوہ انہیں تسخیر کرنے اور ان پر تسلط پا کران  سے مثبت استفادہ بھی کریں گے۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300