امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت13%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180639 / ڈاؤنلوڈ: 4528
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ما اشبه ذلك او لايكلم امه'' (١) كوئي شخص يہ قسم كھائے كہ اپنے بھائي سے كلام نہيں كرے گا يا اسى طرح كچھ اوركہے يا پھر يہ كہ اپنى والدہ سے كلام نہيں كرے گا_

احكام: ١، ٤، ١٢

اسماء و صفات: سميع ٧، ٨ ; عليم ٧، ٨

اصلاح: آپس ميں اصلاح ٢، ٥; اصلاح كى اہميت ٥

تقوي: تقوي كے موانع ٢

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا متنبہ كرنا ١٠ ; اللہ تعالى كا نام ٣

روايت: ١١ ،١٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٩; زمانہ جاہليت ميں قسم ٩

عمل: نيك عمل ٢، ١٢

قسم: بيہودہ قسم ٤;جھوٹى قسم ١١; خدا كى قسم ٢،١٠،١١; قسم كے احكام ١،٤،١٢

كفر: عملى كفر ١١

گناہ: ناہ كے موارد ١١

محرمات: ١، ١٢

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ٦

____________________

١) تفسير_ عياشى ص١١٢ح٣٣٩، نورالثقلين ج١ص ٢١٨ ، ح ٨٣٦_

۱۲۱

لاَّ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِيَ أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (٢٢٥)

خدا تمھارى لغو اور غير ارادى قسموں كا مواخذہ نہيں كرتا ہے ليكن جس كو تمھارے دلوں نے حاصل كيا ہے اس كا ضرور مواخذہ كرے گا_ وہ بخشنے والا بھى ہے اور برداشت كرنے والا بھى ہے _

١_ خدا تعالى كسى كو اس كى بيہودہ قسم پرمواخذہ نہيں كرتا_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن

لغو قسم سے وہ قسميں مراد ہيں جو عموما عادت كى وجہ سے منہ سے نكل جاتى ہيں بغير اس كے كہ قسم كھانے والے نے دلى طور پر اس كا قصد كيا ہو،''باللغو'' كا يہ معنى اس كے''بما كسبت قلوبكم''كے ساتھ تقابل كو ديكھ كر سمجھ ميں آتا ہے_

٢_ بيہودہ اور لغو قسموں سے انسان پر كوئي ذمہ دارى عائد نہيں ہوتى _لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم

٣_ جو قسميں سنجيدگى اور دلى قصد كے ساتھ ہوں خداوند عالم ان پر مواخذہ كرے گا_و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٤_ جو قسميں دلى قصد و ارادہ كے ساتھ اٹھائي جائيں ان كى پابندى اور وفادارى ضرورى ہے_و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٥_ لغو اور فضول قسميں ناپسنديدہ ہيں _*لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و الله غفور حليم

مذكورہ بالا آيت سے استفادہ ہوتا ہے كہ لغو اور فضول قسميں كھانے والا عذاب كا استحقاق ركھتا ہے ليكن خداوند عالم اپنے فضل و كرم سے اس كو عذاب نہيں كرتا، يہ استفادہ بالخصوص آيت كے ذيل ميں ''غفور''كى صفت كے

۱۲۲

ذكرسے ہوتاہے_

٦_ كسى عمل پر ثواب و عقاب كا معيار نيت ہے_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٧_لغو اور بيہودہ كام كرنے سے انسان كى روحانى اور معنوى شخصيت پر برُے اثرات مرتب ہوتے ہيں _*

لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم شايد مذكورہ بالا آيت قسم كو دو قسموں ميں تقسيم كرنے كے بارے ميں نہيں ہے جيسے لغو و بيہودہ قسم اور سنجيدہ قسم اور نہ ہى يہ بيان كررہى ہے كہ ان ميں سے ايك قسم پر كفارہ ہے اور دوسرى پر كفارہ نہيں _ بلكہ آيت اس حقيقت كو بيان كرناچاہتى ہے كہ اگرچہ خداوند عالم نے لغو قسم پر كوئي سزا تجويز نہيں كى ليكن يہ عمل ايك قلبى بيمارى كى حكايت كرتا ہے يا يہ حقيقت بيان كرتا ہے كہ اس عمل سے بتدريج دل بيمارى كى طرف بڑھتا ہے اور خدا تعالى اس بيمارى كى صورت ميں عقاب فرماتا ہے_

٨_ لغو قسميں كھانے پر خدا وند عالم كا عذاب نہ كرنا پروردگار كى مغفرت اور حلم كا ايك جلوہ ہے_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و الله غفور حليم ظاہراً خدا كى مغفرت اور حلم''لايواخذ''كے ساتھ مربوط ہے نہ''يؤاخذكم''كے ساتھ كيونكہ مغفرت عدم مواخذہ كے ساتھ مناسبت ركھتى ہے نہ مؤاخذہ كے ساتھ _

٩_ خدا غفور اور حليم ہے_و الله غفور حليم

١٠_ خدا ايسا غفور ہے جو حليم ہے _و الله غفور حليم يہ اس صورت ميں ہے كہ''حليم''، ''غفور'' كى صفت ہو _

اجر: اجر كا معيار ٦

احكام: ٢، ٤

اسماء و صفات: حليم ٩، ١٠ ;غفور ٩، ١٠

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا حلم ٨; اللہ تعالى كى جانب سے حساب لينا ١، ٣; اللہ تعالى كى جانب سے مغفرت٨

۱۲۳

انحطاط: انحطاط كے عوامل ٧

انسان: انسان كى شخصيت ٧

سزا: سزاكا معيار ٦

عمل: عمل كا اجر; ناپسنديدہ عمل كے اثرات ٧ ٦; ناپسنديدہ عمل ٥

قسم: قسم كے احكام ٢، ٤;لغو قسم ١، ٢، ٥، ٨

گناہ: گناہ كے اثرات ٧

نيت: نيت كى اہميت ٣، ٤، ٦

لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (٢٢٦)

جو لوگ اپنى بيويوں سے ترك جماع كى قسم كھا ليتے ہيں انھيں چار مہينے كى مہلت ہے _ اس كے بعد واپس آگئے تو خدا غفور رحيم ہے _

١_ مرد چار مہينے تك اپنى بيوى كے ساتھ ہمبسترى ترك كرنے كى قسم (ايلاء) پر باقى رہ سكتا ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ''يؤلون''كا مصدر''ايلائ''ہے جو لغت ميں قسم كے معنى ميں ہے ليكن اصطلاح ميں ايلاء كا مطلب يہ ہے كہ شوہر اپنى بيوى كے ساتھ چار مہينے سے زيادہ مدت تك ہمبسترى چھوڑنے كى قسم كھائے_ آيت ميں بھى يہى اصطلاحى معنى مراد ہے_

٢_ بيوى كے ساتھ مباشرت چھوڑنے پر قسم كھانا جائز ہے اور قسم منعقد بھى ہوجاتى ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

٣_ ايلاء كے وقوع پذير ہونے اور اس كے خاص

۱۲۴

احكام كے جارى ہونے كى شرط يہ ہے كہ چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے ہمبسترى چھوڑنے پرقسم كھائي گئي ہ_

للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر يہ جو خدا وند عالم فرما رہاہے كہ ايلاء كرنے والا چار مہينے تك انتظار كرسكتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ايلاء اور اس كے خاص احكام اس صورت ميں جارى ہوں گے جب ہمبسترى چھوڑنے پر قسم يا ہميشہ كيلئے ہو يا چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے ہو_

٤_ ايلاء كرنے والا چار مہينے سے زيادہ اپنى بيوى كو دودلى كى كيفيت ميں يوں ہى نہيں چھوڑ سكتا_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

٥_ ايلاء كے بعد عورت چار مہينے تك اپنے شوہر سے ہمبسترى كرنے كى درخواست كا حق نہيں ركھتي_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ''للذين''كے لفظ سے معلوم ہوتا ہے كہ چار مہينے كى مدت تك مرد ہمبسترى ترك كرنے كا حق ركھتا ہے لہذا عورت كو اس مدت ميں ہمبسترى كرنے كى درخواست كا حق حاصل نہيں ہوگا_

٦_ شوہروں كا اپنى بيويوں كے ساتھ چار مہينے ميں ايك بار مباشرت كرنا ضرورى ہے_*للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ايسا معلوم ہوتا ہے كہ اگر چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے بيوى سے دورى جائز ہوتى تو ايلاء كے حكم ميں بھى اس مدت كے مطابق وقت كے لحاظ سے اضافہ ہوجاتا_

٧_ ايلاء سے، چار مہينے گزرنے كے بعد ايلاء كرنے والے پر يا بيوى كے ساتھ ہمبسترى كرنا يا اسے طلاق دينا واجب ہے_للذين يؤلون فان فاؤ ..._ و ان عزموا الطلاق يہ كہ''تربص'' (انتظار كرنا) چار مہينے تك ہے معلوم ہوتا ہے اس مدت كے بعد شخص پر مذكورہ بالا ان دو كاموں ميں سے ايك ضرورى ہے_

٨_ ايلاء ميں چار مہينے گذرنے سے پہلے قسم توڑنا جائز ہے _للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

''للذين''كا لام جو كہ جواز كے لئے ہے اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ چاہے تو چار مہينے تك مباشرت ترك كرے اور چاہے تو چار مہينے گذرنے سے پہلے ہمبسترى كرے_

٩_ جو لوگ ہمبسترى چھوڑنے كى قسم توڑ كر شادى شدہ

۱۲۵

زندگى كى طرف لوٹ آتے ہيں رحمت اور مغفرت الہى ان كے شامل حال ہوجاتى ہے_

للذين يؤلون فان فاؤ فان الله غفور رحيم

١٠_ ايلاء كے بعد شادى شدہ زندگى كى طرف لوٹنا طلاق سے بہتر ہے_فان فاؤ فان الله غفور رحيم _ و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم ازدواجى زندگى كى طرف لوٹنے (فان فاؤ) كو ذكر ميں مقدم كرنا اس كے رتبہ كے لحاظ سے مقدم ہونے كى علامت ہے، نيز ازدواجى زندگى كى طرف لوٹنے اور بيوى كے حقوق كى رعايت كى صورت ميں رحمت اور مغفرت كا وعدہ دينے سے بھى اس كى اولويت و رجحان كا پتہ چلتا ہے_

١١_ خداوند عالم غفور اور رحيم ہےفان الله غفور رحيم

١٢_ خداوند عالم ايسا غفور ہے جو رحيم بھى ہے_فان الله غفور رحيم

١٣_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع كرتاہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر فان فاؤ فان الله غفور رحيم

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩

اسماء و صفات: رحيم ١١،١٢; غفور ١١، ١٢

ايلاء: ايلاء كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠

خدا تعالى: خدا تعالى كى رحمت ٩; خدا تعالى كى مغفرت٩

رحمت: رحمت جن كے شامل حال ہے ٩

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق٤، ٦

طلاق: احكام طلاق ٧; طلاق كى ناپسنديدگى ١٠

عورت: عورت كے حقوق١٣

قسم: قسم كے احكام ١، ٢، ٣، ٨، ٩; قسم توڑنا ٨، ٩

مرد:

۱۲۶

مرد كى ذمہ دارى ٦

واجبات :٦، ٧

ہمبستري: ہمبسترى كے احكام ١، ٢، ٣، ٥، ٦، ٧

وَإِنْ عَزَمُواْ الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٢٧)

اور طلاق كا ارادہ كريں تو خدا سن بھى رہا ہے اور ديكھ بھى رہا ہے_

١_ طلاق كا فيصلہ كرنا مرد كے اختيار ميں ہے _و ان عزموا الطلاق

٢_ طلاق ميں ارادہ اور لفظ معتبر ہے _و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم

ايسالگتا ہے كہ دو صفات يعني''سميع''(سننے والا) اور''عليم''(جاننے والا) كا لانا طلاق ميں قصد اور لفظ كے معتبر ہونے كى طرف اشارہ ہے_

٣_ اگر عقد دائمى ہو تو ا يلاء ہوسكتا ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر و ان عزموا الطلاق

ايك تو يہ كہ مرد كو چار مہينے كى مہلت دى گئي ہے

(جو كہ دائمى نكاح ميں معتبر ہے) اور دوسرا طلاق كا ذكر ہوا ہے جو كہ نكاح دائمى ميں ہوتى ہے لہذا ان دو امور كے پيش نظر كہا جاسكتا ہے كہ ايلاء كا حكم غير دائمى نكاح ميں جارى نہيں ہے_

٤_ مياں بيوى كے درميان نا اتفاقى كى صورت ميں ،طلاق آخرى راہ حل ہے_للذين يؤلون ...و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم طلاق كو آخر ميں ذكر كرنے سے اس بات كى طرف اشارہ كرنا مقصود ہوسكتا ہے كہ مشكل كے حل كيلئے طلاق سب سے آخرى مرحلہ ہے_

٥_ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے _فان الله سميع عليم

۱۲۷

٦_ خداوند عالم ايسا سننے والا ہے جو عليم ہے_فان الله سميع عليم

٧_ خداوند متعال كے نزديك طلاق ناپسنديدہ ہے_*و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم

يہ اس بات كے پيش نظر ہے كہ ازدواجى زندگى كى طرف پلٹنے كى صورت ميں مغفرت اور رحمت كا وعدہ ديا گيا ہے جبكہ طلاق كى صورت ميں دو صفات ''سميع'' اور ''عليم''پر اكتفاكيا گيا ہے جو كسى حد تك ڈرانے دھمكانے اور توجہ دلانے پر دلالت كرتى ہيں _

احكام: ١، ٢، ٣ فلسفہ احكام ٤

اختلاف: گھريلو اختلاف ٤

اسماء و صفات: سميع ٥، ٦; عليم ٥، ٦

ايلاء: ايلاء كے احكام ٣

طلاق: احكام طلاق١، ٢; طلاق كى ناپسنديدگى ٧; طلاق ميں نيت٢; فلسفہ طلاق٤

مرد: مرد كے حقوق ١

۱۲۸

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكُيمٌ (٢٢٨)

مطلقہ عورتيں تين حيض تك انتظار كريں گى اور انھيں حق نہيں ہے كہ جو كچھ خدا نے ان كے رحم ميں پيدا كيا ہے اس كى پردہ پوشى كريں اگر ان كا ايمان الله او رآخرت پر ہے _ اور پھر ان كے شوہر اس مدت ميں انھيں واپس كرلينے كے زيادہ حقدار ہيں اگر اصلاح چاہتے ہيں _ اور عورتوں كے لئے ويسے ہى حقوق بھى ہيں جيسى ذمہ دارياں ہيں اور مردوں كو ان پرايك امتياز حاصل ہے او رخدا صاحب عزت و حكمت ہے _

١_ طلاق يافتہ عورت سے تين طُھر (عدت) مكمل ہونے سے پہلے نكاح كرنا حرام ہے_و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء اس صورت ميں كہ''قرئ''كے معنى طہر ہوں _

٢_ تين طُہر يا تين حيض صرف اس عورت كى عدت ہے جسے حيض آتا ہو _و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء

ظاہراً آيت ميں وہ عورتيں فرض كى گئي ہيں جنہيں حيض آتا ہو كيونكہ عدت كى مدت تين طہر يا تين حيض قرار دى گئي ہے لہذا يہ حكم چھوٹى عمر كي، يائسہ يا ان جيسى عورتوں كو شامل نہيں ہوگا_

۱۲۹

٣_ مطلقہ عورت كى عدت تين حيض ہے _و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء يہ اس صورت ميں ہے كہ''قرئ''كے معنى حيض ہوں _

٤_ مطلقہ عورتيں اپنى عدت كى مدت كم يا زيادہ كرنے كى خاطر اپنے حمل ياحيض كو نہ چھپائيں _و لايحل لهن ان يكتمن ما خلق الله فى ارحامهن ''ما خلق''كا معنى وسيع ہے يہ ہر اس مخلوق كو شامل ہے جو عدت كى مدت ميں مؤثر واقع ہوسكے جيسے حمل، طہر اور حيض _

٥_ خدا تعالى اور روز قيامت پر ايمان احكام الہى كے انجام دينے كا ضامن ہے_و لايحل لهن ان كن يؤمن بالله و اليوم الآخر

٦_ خداوند متعال اور روز قيامت پر ايمان كا لازمہ فرائض الہى پر عمل ہے_و لايحل لهن ان كن يؤمن بالله و اليوم الآخر

٧_ اپنے حمل، طہر يا حيض كے بارے ميں عورتوں كا قول قبول كيا جائے گا_و لايحل لهن ان يكتمن ما خلق الله فى ارحامهن اگر عورتوں كى بات اپنے طہر، حيض، حمل يا ہر اس چيز كے بارے ميں كہ جو عدت كى مدت ميں دخالت ركھتى ہے، قابل قبول نہ ہو تو ان پر چھپانے كى حرمت لغو ہوگي_

٨_ہر اس چيز كاخالق خدا ہے جو رحم ميں موجود ہے (خون، جنين ...)ما خلق الله فى ارحامهن يہ لفظ''ما''كو مدنظر ركھتے ہوئے ہے جو خون، جنين ...كو شامل ہوجاتا ہے _

٩_ عدت كے اندر شوہر كو اپنى مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق حاصل ہے_و بعولتهن احق بردهن فى ذلك

''ذلك''، ''تربص''كى طرف اشارہ ہے يعنى ان تين طہر ميں جو كہ عورت كى عدت كا زمانہ ہے _

١٠_ شوہر كا اپنى مطلقہ بيوى كى طرف حق رجوع اس بات سے مشروط ہے كہ وہ گھريلو زندگى ميں اصلاح چاہتا ہو_

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا يعنى اگر شوہر عدت كے اندر رجوع كرنے سے يہ ارادہ ركھتا ہے كہ رجوع كرنے كے

بعد عورت كو دوبارہ طلاق دے كر تكليف پہنچائے گا_ تو آيت كے ظاہرى حكم كے لحاظ سے اس قصد كے ساتھ رجوع جائز نہيں ہے_

۱۳۰

١١_ عدت گھر كى تعمير نو كيلئے ايك مہلت ہے _*و المطلقات يتربصن و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا اس بات كے پيش نظر كہ عدت كے ايام كے تذكرہ كے بعد ان ايام ميں اصلاح كى خاطر رجوع كرنے كا ذكركيا گيا ہے_

١٢_ مرد اور مطلقہ عورت كو عدت كے زمانہ ميں پہلى زندگى كى طرف پلٹنے كيلئے تو دوبارہ نكاح كى ضرورت نہيں ہے _*

و بعولتهن احق بردهن كيونكہ لفظ ''بعولة''(شوہر) اور اس كا ''ھن'' كى ضمير كى طرف مضاف ہونا اس معني كو بيان كررہاہے كہ عدت طلاق كے زمانہ ميں زوجيت والا تعلق اور رشتہ باقى ہے لہذا رجوع كيلئے نكاح كى ضرورت نہيں ہے_

١٣_ مرد كيلئے اپنى مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق عدت كے ختم ہوتے ہى ختم ہوجاتا ہے_و بعولتهن احق بردهن فى ذلك كلمہ''فى ذلك''كے مفہوم سے يہ مطلب سمجھا جاسكتا ہے _

١٤_ اگر شوہر كا رجوع مطلقہ بيوى كو تكليف اور اذيت پہنچانے كى خاطر ہو تو بے اثر اور غير معتبر ہے _

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا آيت ميں حق رجوع كو اصلاح كے ساتھ مشروط كيا گيا ہے_ پس اس جملہ شرطيہ كا مفہوم يہ نكلے گا كہ اگر رجوع اصلاح كيلئے نہ ہو بلكہ اذيت پہنچانے كى خاطر ہو تو ايسے رجوع كا اعتبار و حقانيت مسلوب ہے_

١٥_عورت اور مرد دونوں ايك دوسرے كے مقابلے ميں ( عقلى اور شرعى بنياد پر) برابر كے حقوق ركھتے ہيں _

و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

١٦_ عورت اور مرد دونوں پر لازم ہے ايك دوسرے كے برابر كے حقوق كى رعايت كا مظاہرہ كريں _

و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

١٧_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع كرتاہے_

و بعولتھن احق بردھن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا و لھن مثل الذى عليہن بالمعروف

زندگى كى اصلاح كى غرض كے بغير مرد كا رجوع غير معتبر ہے نيز عورتوں كے حقوق كو مردوں كے حقوق جيسا سمجھنا خصوصاً زمانہ جاہليت كے ماحول كو مدنظر ركھتے ہوئے، يہ اسلام ميں

۱۳۱

عورتوں كے حقوق كے دفاع كى دليل ہے_

١٨_ مرد اپنى بيويوں سے افضل ہيں _و للرجال عليهن درجة

١٩_ شوہر اپنى بيويوں پر حقوق كے اعتبار سے امتيازى حيثيت ركھتے ہيں _*و للرجال عليهن درجة

'' للرجال ...'' كا جملہ'' لصہُنّ ...'' كے لئے قيد ہے اور اس كے معنى كو مشخص كررہاہے

٢٠_ ازدواجى زندگى كے قوانين بنانے ميں عدل و انصاف كو بنياد قرار ديا گياہے_و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف و للرجال عليهن درجة

'' للرجال ...''كا جملہ''لہن ...'' كيلئے قيد ہے اور اسكے معنى كو مشخص كررہاہے_يعنى شوہر اور بيوى كے ايك جيسے حقوق كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ بطور مطلق مساوى ہيں كيونكہ مرد خلقت كے لحاظ سے كچھ خصوصيات كے حامل ہيں كہ جن كى وجہ سے انہيں مخصوص حقوق بھى حاصل ہوں گے_ اس بنياد پر دونوں كے درميان عدل و انصاف كى رعايت كى گئي ہے_

٢١_ شوہر كو تب مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق حاصل ہے جب وہ عورت كے حسب معمول حقوق پورے كرنے كا ارادہ ركھتا ہو_ان ارادوا اصلاحا و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

حق رجوع كو اصلاح كے ساتھ مقيد كرنے كے بعد عورتوں كے مردوں پر حقوق بيان كرنے كا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ مرد كا اپنى مطلقہ بيوى كے حقوق كى رعايت كا قصد ارادہ اصلاح (ان ارادوا اصلاحا) كے مصاديق ميں سے ہے_

٢٢_ زمانہ بعثت كا جاہل معاشرہ عورتوں كيلئے كسى قسم كے حقوق كا قائل نہيں تھا_و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

اس لحاظ سے كہ اس آيت ميں مردوں كے عورتوں پر حقوق كو ( عليہن) مسلّم ليا گيا ہے جبكہ عورتوں كے مردوں پر حقوق كے اثبات كو (لھن) سے بيان كيا گيا ہے يعنى عورتوں كے حقوق ثابت كرنے كے در پے ہے_

٢٣_ مياں بيوى كا باہمى حقوق كى رعايت نہ كرنا طلاق كے عوامل و اسباب ميں سے ہے _

و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء و لهن مثل الذى عليهن

٢٤_ خداوند متعال كے جملہ احكام و قوانين كہ جن ميں ازدواجى زندگى كے قوانين بھى ہيں سب

۱۳۲

كے سب حكيمانہ اور حكمت الہى كى بنياد پر ہيں _و المطلقات يتربصن و الله عزيز حكيم

٢٥_ خدا تعالى كى ناقابل شكست قدرت اور عزت احكام و قوانين الہى كى مخالفت كرنے والوں كو سزا دينے كے لئے كافى ہے_و المطلقات يتربصن و لايحل لهن و الله عزيز حكيم

٢٦_ خداوند عالم عزيز اور حكيم ہے _و الله عزيز حكيم

٢٧_ خدا ايسا عزيز ہے جو حكيم ہے _و الله عزيز حكيم

يہ اس صورت ميں ہے كہ''حكيم''''عزيز'' كى صفت ہو _

٢٨_ مردوں كا اپنى مطلقہ بيويوں كى طرف رجوع كرنا پسنديدہ امر ہے اور خداوند متعال نے اس كى ترغيب دلائي ہے_

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك

٢٩_خدا تعالى نے ايسے مياں بيوى كو ڈرايا دھمكاياہے جو ايك دوسرے كے حقوق كا خيال نہيں ركھتے_

و المطلقات و لهن مثل الذى و الله عزيز حكيم

احكام كے بيان كرنے كے بعد خدا كے ''عزيز'' (غلبے والا) ہونے كى يادآورى اس كے احكام كى مخالفت كرنے والوں كيلئے ڈرانے دھمكانے كى غرض سے ہوسكتى ہے_

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٧، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٤، ٢١ احكام كا فلسفہ ١١،٢٤ ; احكام كا معيار ٢٠ ; احكام كى تشريع ٢٤

اختلاف: گھريلو اختلاف٢٣

اسماء و صفات: حكيم ٢٦، ٢٧; عزيز٢٦، ٢٧

انسان: انسان كى خلقت ٨

ايمان: ايمان اور عمل كا رابطہ ٦; ايمان كے اثرات ٦; خدا پر ايمان ٥، ٦، قيامت پر ايمان ٥، ٦

حقوق: حقوق كى بنياديں ١٥، ٢٠

حمل: حمل ميں گواہى ٧

حيض: حيض ميں گواہى ٤، ٧

۱۳۳

خداوند متعال: خداوند متعال كا تشويق دلانا ٢٨; خداوند متعال كا ڈرانا دھمكانا ٢٩; خداوند متعال كى تنبيہات ٢٩: خداوند متعال كى حكمت ٢٤; خداوند متعال كى خالقيت ٨; خداوند متعال كى عزت (غلبہ) ٢٥; خداوند متعال كى قدرت ٢٥ زمانہ بعثت كى تاريخ: ٢٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٢٢; زمانہ جاہليت ميں عورت ٢٢

شادي: حرام شادى ١; شادى كے احكام ١

شريك حيات: شريك حيات كے باہمى حقوق١٥، ١٦، ٢٠، ٢٣، ٢٩

طلاق: احكام طلاق ٢، ٣، ٩، ١٠،١٢، ١٣، ١٤; طلاق رجعى ٩، ١٠، ١٢، ١٣،١٤، ٢١، ٢٨; طلاق كے عوامل ٢٣

عدت: طلاق كى عدت ٢، ٣، ٤; عدت كا فلسفہ ١١ ;عدت كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٧، ٩، ١٣

عدل: عدل كى اہميت ٢٠

عرفى معيار: ١٥

عورت: عورت زمانہ جاہليت ميں ٢٢;عورت كے حقوق ١٤، ١٧، ٢١; عورت كے فضائل ١٨، ١٩

گناہ: گناہ كى سزا ٢٥

گواہي: گواہى چھپانا ٤

گھرانہ: گھرانہ ميں اصلاح ١٠، ١١،٢١

مرد: مرد كے حقوق ٩، ١٠،١٣، ١٨، ١٩; مرد كے فضائل ١٨، ١٩

محرمات: ١

مطلقہ: مطلقہ كے ساتھ ازدواج ١

نبرد : آزار و اذيت كے خلاف نبرد١٤

۱۳۴

الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (٢٢٩)

طلاق دو مرتبہ دى جائے گى _ اس كے بعد يا نيكى كے ساتھ روك ليا جائے گا يا حسن سلوك كے ساتھ آزاد كرديا جائے گااور تمھارے لئے جائز نہيں ہے كہ جو كچھ انھيں دے ديا ہے اس ميں سے كچھ واپس لو مگر يہ كہ يہ انديشہ ہو كہ دونوں حدود الہى كو قائم نہ ركھ سكيں گے تو جب تمھيں يہ خوف پيدا ہو جائے كہ وہ دونوں حدود الہى كو قائم نہ ركھ سكيں گے تو دونوں كے لئے آزادى ہے اس فديہ كے بارے ميں جو عورت مرد كو دے _ ليكن يہ حدود الہيہ ہيں ان سے تجاوز نہ كرنا اور جو حدود الہى سے تجاوز كرے گا وہ ظالمين ميں شمار ہوگا _

١_ مردوں كو صرف پہلى اور دوسرى طلاق ميں رجوع كرنے كا حق حاصل ہے _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

''الطلاق''ميں الف و لام عہد ذكرى ہے يعنى وہ طلاق كہ جس ميں شوہر كو حق رجوع تھا_''و بعولتھن احق ...'' دو مرتبہ سے زيادہ نہيں ہے_

٢_ زمانہ جاہليت ميں طلاق رجعى غيرمحدود تھى ليكن اسلام نے اس كى تعداد كو محدود كرديا _الطلاق مرتان

اس آيت كا شان نزول يوں بيان ہوا ہے كہ زمانہ جاہليت ميں شوہر بيوى كو طلاق ديتا اور دوبارہ عدت مكمل ہونے سے پہلے اس كى

۱۳۵

طرف رجوع كر ليتا تھا اسى طرح رجوع كرسكتا تھا اگرچہ ہزار مرتبہ طلاق ديدے اور جب طلاق كى اس نوعيت كا تذكرہ نبى اكرم(ص) كے سامنے ہوا تو يہ آيت نازل ہوئي''الطلاق مرتان ...'' (مجمع البيان ، اس آيت كے ذيل ميں )

٣_ ايك دفعہ يا چند مرتبہ صيغہ طلاق پڑھنے سے متعدد طلاقيں متحقق نہيں ہوتيں اگر ان كے درميان رجوع ( امساك)نہ كيا جائے_الطلاق مرتان پہلى بات تو يہ ہے كہ ايك دفعہ ''طلقتك ثلاثا''(ميں نے تجھے تين طلاقيں ديں ) كہنے پر دو مرتبہ يا تين مرتبہ صدق نہيں كرتا_ دوسرى بات يہ كہ دوسرى طلاق اس وقت تك صدق نہيں كرسكتى جب تك رجوع نہ كرے_ تيسرى بات يہ ہے كہ زندگى كى طرف رجوع اور بازگشت نيكى كے ساتھ ٹھہرانے كے ذريعہ ہونى چاہيئے_ اور ايك ہى محفل و مجلس ميں پہلے اور دوسرے صيغہ كے درميان مثلاً ''راجعت ''(ميں نے رجوع كيا) كہنا نيكى كے ساتھ امساك (روكنا) نہيں ہے_

٤_ شوہر كے لئے ضرورى ہے كہ بيوى كے مسلّم حقوق ادا كرنے كى ذمہ دارى لے_فامساك بمعروف

''معروف''(پہچانا ہوا) سے مراد وہ حقوق ہيں جو عقل، فطرت اور شريعت كى بنيادوں پر دين دار اور صحيح و سالم فطرت لوگوں كے درميان مشہورو معروف ہيں _ اگرچہ آيت اس مطلقہ عورت كے بارے ميں ہے جس كے شوہر نے اس كى طرف رجوع كر ليا ہے ليكن آيت حقوق كو عمومى طور پر سب عورتوں كيلئے بيان كر رہى ہے_

٥_ طلاق اور رجوع كا حق شوہر كو حاصل ہے_فامساك بمعروف

٦_ ضرورى ہے كہ رجوع كے بعد شوہر كا بيوى كے ساتھ رويہ اور سلوك ،عقل اور شريعت كے مسلم معيار كے مطابق ہو _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

٧_ مرد كا عدت كے دنوں ميں رجوع كرنا، عورت كو نقصان پہنچانے كى خاطر نہ ہو_الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان

٨_ دوسرى طلاق كے بعد رجوع كى صورت ميں يا تو ''معروف'' (مسلم حقوق) كى بنياد پر زندگى گزارے يا پھر طلاق ديدے جس كے بعد حق رجوع نہيں ركھتا_فامساك بمعروف او تسريح باحسان

۱۳۶

يہ اس صورت ميں ہے كہ''تسريح باحسان'' سے مراد تيسرى طلاق ہو كيونكہ صرف پہلى اور دوسرى طلاق ميں رجوع كا حق حاصل ہے ''الطلاق مرتان''اور تيسرى طلاق ميں حق رجوع نہيں ہوگا_

٩_عورت كو چھوڑنا ( طلاق )، نيكى اور احسان كے ساتھ اس كے حقوق كى رعايت كرتے ہوئے انجام پائے نہ كہ اسے ضررو نقصان پہنچانے كى غرض سے _او تسريح باحسان گويا لفظ ''احسان''كے معنى ''معروف'' سے بڑھ كر ہيں يعنى عورتوں كے مسلّم حقوق سے بڑھ كر ان كے ساتھ نيكى كى جائے_

١٠_ طلاق رجعى كے باوجود عدت كے ايام ميں رشتہ ازدواج باقى رہتا ہے _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

''امساك'' كے لفظ سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ شوہر عورت كو اسى سابقہ نكاح كے ساتھ ركھ سكتا ہے اس كا مطلب يہ ہوا كہ زوجيت كا رشتہ باقى ہے_

١١_ اسلام كے فقہى احكام اور اخلاقى مسائل كے درميان گہرا تعلق و ارتباط ہے_فامساك بمعروف او تسريح باحسان

١٢_ طلاق كے وقت شوہر پر حرام ہے كہ عورت سے وہ مال ( حق مہر اور ...) واپس لے جو اس نے اسے ديا ہو _

و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن شيئا

١٣_ اگر انسان كو خوف ہو كہ اپنى زندگى ميں احكام الہى كو عملى جامہ نہيں پہنا سكتا تو مرد عورت كو ديا ہوا مال واپس لے كر اسے طلاق دے سكتا ہے_و لايحل لكم ان تاخذوا الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

اگر حق مہر واپس كرنے كى حرمت ان دونوں كے درميان طلاق كے لئے ركاوٹ ہوجائے اور ان كا ايك ساتھ زندگى بسر كرنا حدود الہى كے پامال ہونے كا موجب ہو تو اس صورت ميں حق مہر واپس لينا جائز كيا گيا ہے تاكہ طلاق واقع ہوسكے_

١٤_ عورت كا اپنے مال (حق مہر) سے چشم پوشى كر كے طلاق لے لينا اس ازدواجى زندگى سے بہتر ہے كہ جس ميں حدود الہى كى رعايت نہ ہوسكے_و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن شيئا الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

۱۳۷

١٥_ زندگى ميں حدود الہى كى مخالفت كا ڈر اس بات كا جواز فراہم كرتاہے كہ عورت اپنا كچھ مال شوہر كو بخش دے اور دونوں طلاق پر باہمى موافقت كرليں _فان خفتم الا يقيما حدود الله فلاجناح عليهما فيما افتدت به

١٦_ گھريلو زندگى ميں حدود الہى كى عدم رعايت كا احتمال اور معقول و متعارف خوف طلاق خلع كے جواز كا موجب بنتا ہے_*فان خفتم الا يقيما حدود الله ''فان خفتم''كا خطاب چونكہ سب لوگوں كيلئےہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ عورت اور شوہر كى پريشانى اس طرح كى ہو كہ اگر عام لوگ بھى اس سے باخبر ہوں تو وہ بھى اس پريشانى اور مشكل كو محسوس كريں _

١٧_ خاندان كو محفوظ كرنے كى قدر و قيمت اس وقت تك ہے كہ جب تك حدود الہى كى مخالفت كا خطرہ لاحق نہ ہو_

الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

١٨_ ازدواجى زندگى ميں حدود الہى كى مراعات اہم اور لازمى امر ہے_فان خفتم الا يقيماحدود الله فلاجناح تلك حدود الله فلاتعتدوها

١٩_ عورت كا طلاق كيلئے شوہر كو مال دينا طلاق خلع كے علاوہ ديگر طلاقوں ميں جائز نہيں ہے_

و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن فان خفتم فلاجناح عليهما اگرچہ ابتداء ميں مردوں پر ( حق مہر ) واپس لينے كى حرمت ذكر ہوئي ہے ليكن خوف كى صورت ميں ''فلا جناح عليہما'' كى تعبير كے ذريعے دونوں (مياں بيوي) سے حرمت كو اٹھا ليا گيا ہے پس اس سے معلوم ہوتا ہے كہ پہلے عورت كے لئے بھى حرمت ثابت تھي_

٢٠_ طلاق خلع كے قوانين كے اجرا پر حاكم شرع (قاضي) كى نظارت ضرورى ہے_*فان خفتم الا يقيما حدود الله فلاجناح عليهما اس صورت ميں كہ''فان خفتم''كا خطاب حكّام (قاضيوں ) كو ہو جيساكہ آلوسى كى يہى نظر ہے_

٢١_ طلاق كے احكام حدود الہى ميں سے ہيں اور ان سے تجاوز حرام ہے_المطلقات يتربصن الطلاق مرتان تلك حدود الله فلاتعتدوها

٢٢_ خدا وند متعال كے احكام و حدود سے تجاوز ظلم

۱۳۸

ہے_و من يتعد حدود الله فاولئك هم الظالمون

٢٣_ ظالم فقط وہ لوگ ہيں جو الہى حدود سے تجاوز كرتے ہيں _و من يتعد حدود الله فاولئك هم الظالمون

''ھم''ضمير فصل، حصر كو بيان كر رہى ہے_

٢٤_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع اور انكى حمايت كرتا ہے_الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان ولايحل لكم ...فاولئك هم الظالمون

٢٥_ گھريلو زندگى اور اسكى حفاظت كى اہميت _المطلقات يتربصن بانفسهن الطلاق مرتان فاولئك هم الظالمون

٢٦_ گھر كى سرپرستى اورانتظامى ذمہ دارى مرد كے ہاتھ ميں ہے_ *الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان و لايحل لكم فاولئك هم الظالمون كيونكہ گھريلو زندگى كى بنيادى طور پر حفاظت يا گھريلو زندگى كو ختم كردينا مرد كے ہاتھ ميں ہے لہذا گھرانے كى سرپرستى اور ذمہ دارى بھى مرد كے ہاتھ ميں ہوگي_

احكام: ١، ٣، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠ احكام اور اخلاق ١١، احكام كا فلسفہ٢، احكام كى خصوصيت ١١

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى حدود ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨ ; اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز ٢١، ٢٢، ٢٣ اہم و مہم١٧

حق مہر: حق مہر كے احكام ١٢، ١٣

خوف: پسنديدہ خوف١٦; خوف كے اثرات١٣، ١٥

دينى نظام تعليم: ١١

زمانہ بعثت كى تاريخ: ٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٢; زمانہ جاہليت ميں طلاق ٢

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق ٤، ٦

طلاق: طلاق خلع ١٤، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠; طلاق رجعى ١، ٢، ٥، ٦، ٧، ٨، ١٠ ; طلاق كے احكام ١،٣، ٥، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠، ٢١

۱۳۹

ظالم لوگ: ٢٣

ظلم: ظلم كے موارد٢٢

عرفى معيارات: ٤، ٦، ٨

عورت: عورت كو ضرر پہچانا ٧، ٩; عورت كے حقوق ٢، ٤، ٦، ٧، ٩، ١٢، ١٤، ٢٤; عورت كے ساتھ نيكي كرنا ٩

قاضي: قاضى كى ذمہ دارى ٢٠ گھرانہ: ١٥ گھرانے كى ذمہ دارى اور سرپرستى ٢٦; گھرانے كى قدر و قيمت ١٧، ٢٥; گھرانے كے حقوق ١٦; گھريلو روابط ١٨

محرمات: ١٢، ٢١

مرد: مردكى ذمہ دارى ٢٦;مرد كے حقوق ٥

فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (٢٣٠)

پھر اگر تيسرى مرتبہ طلاق دے دى تو عورت مرد كے لئے حلال نہ ہو گى يہاں تك كہ دوسرا شوہر كرے پھر اگر وہ طلاق ديدے تو دونوں كے لئے كوئي حرج نہيں ہے كہ آپس ميں ميل كرليں اگر يہ خيال ہے كہ حدود الہيہ كو قائم ركھ سكيں گے _ يہ حدود الہيہ ہيں جنھيں خدا صاحبان علم و اطلاع كے لئے واضح طور سے بيان كررہا ہے _

١_ تيسرى طلاق كے بعد شوہر كا اپنى بيوى كے ساتھ دوبارہ ازدواجى زندگى برقرار كرنا ممكن نہيں ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کیا انسان کو کسی ایسے رہبر کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جس کے سامنے کائنات کے تمام اسرار آشکار ہوں اور جسے دنیا کی تمام موجودات کا علم ہو یا کسی ایسے دانشور کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جو خود اپنے جہل و عجزکا اعتراف کرے اور اپنے علم کو اپنے مجہولات کے سامنے بہت کم سمجھے؟مثال کے طور پر'' اسحاق نیوٹن ''کہ جسے دنیا کے بزرگ دانشوروں میںشمار کیا جاتا ہے ، وہ اس بارے میں کہتا ہے :

مجھے نہیں  معلوم کہ میں دنیا کی نظروں میں کیا ہوں؟لیکن جب میں آنکھوں سے خود کو دیکھوں تو میں ایک ایسے بچے کی مانند ہوں کہ جو ساحل سمندر پر کھیل کود میں مشغول ہو اور خوبصورت سنگریزوں کو دوسرے سنگریزوںاور صدف کو دوسرے گوہرسے تمیز دینے میں مصروف ہو لیکن حقیقت کے اقیانوس میںہر طرف بے کرانی و طغیانی ہے  ۔(۱)

یہ اعتراف ایک حقیقت ہے ۔جو نہ صرف نیوٹن بلکہ اس جیسے ہر فرد پر صادق آتا ہے ۔ البتہ بہت سے افراد بہت سعی و کوشش اور جستجو سے خوبصوت  اور نایاب صدف کے حصول میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے:

کیاانسان کو کھیل کود میں مصروف بچے کی پیروی کرنی چاہیئے یا کسی ایسے کو تلاش کو کرنا چاہیئے کہ جو دنیا کی خلقت کے اسرار سے آشنا ہو؟ یہ واضحات میں سے ہے کہ راہ سے بھٹک جانا گمراہی کا سبب  بنتا ہے اور گمراہی کا نتیجہ تباہی وبربادی ہے۔(۲)

--------------

[۱]۔ فکر، نظم ، عمل:۹۳

[۲] ۔ مغز متفکر جھان شیعہ :۳۰۲

۲۶۱

 آٹھواں باب

خلائی سفر

    خلائی سفر

    کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت

    کہکشاں    سو بیلین دم دار ستارے    دو سو پچاس بیلین سورج    کھربوں کہکشاں

    دنیا میں تمدّن

    کہکشاؤں میں تمدّن

    دور حاضر میں خلائی سفر

    دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات

    خلائی سفر کا امکان

    اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر

    آسمانوں تک رسائی

    ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر

    روایت میں موجود نکات

    آسمانی مخلوقات سے آشنائی

    مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ

۲۶۲

خلائی سفر

ظہور کے ترقی یافتہ زمانے میں خلائی سفر کے بارے میں بہت بہترین اور دلچسپ بحث ہے ۔ قرآن اور خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین میں خلائی سفر کے بارے میں بہت اہم نکات اوراشارات موجود ہیں ۔ ظہورکے زمانے میں آسمانوں اور عامل ہستی کی فضاؤں میں اوج لینے سے پہلے زمانۂ ظہور میں خلائی سفر کی اہمیت کو آشکار کرنے کے لئے کہکشاؤں، سحاب اور آسمان کی وسیع فضا کے بارے میںاہم نکات بیان کرنا ضروری ہے تاکہ ظہور کے زمانے میں خلائی سفر کی اہمیت سے آگاہ ہو سکیںاور یہ جان سکیں کہ علمی تکامل اور پیشرفت کے زمانے میں انسان کو نصیب ہونے والا خلائی سفر بہت عجیب ہو گا۔

یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ آج استعماری ممالک عصر خلاء یا تسخیرخلاء کے عنوان سے جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ دنیا کی عظمت کو اَن دیکھا کرنے کے مترادف ہے۔میرے خیال میں ستمگر ممالک چاند پر ہوٹل میں کمرہ بک کروانے کے سلسلہ میں جو تبلیغات کر رہے ہیں یا جو خلاء کو تسخیر کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں،ان میں سے زیادہ تر دنیا والوں کے دماغ پر اپنی برتری ثابت کرنے ، خود نمائی اور دنیا کے لوگوں کے افکار پر تسلط جمانے کے لئے ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ دنیا اس قدرعظیم اور وسیع ہے کہ مادّہ سے بڑھ کر کوئی اور قدرت ہی اس تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔کیا چاند پر پہنچنا خلاء کو تسخیر کرنا ہے؟

  کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت

ہم نے جو کچھ ذکر کیااس سے ممکن ہے کہ بعض قارئین کرام حیران ہوں اور اس بات کا یقین نہ کریں۔لہذا ہم اس مطلب کی وضاحت کے لئے اس نکتہ کا اضافہ کرتے ہیں: غیبت کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام کے غیبی جلوے اس قدر ہیں کہ بڑے بڑے ممالک بخوبی جانتے ہیں کہ مافوق طبیعت کوئی قدرت موجود ہے ، جو ان کے رفتار و کردار کی مراقب ہے۔ دنیا میں جاسوس ایجنسیاں جیسے مافیا سیا اور اسی طرح بڑے ممالک کی ایجنسیاں جانتی ہیں کہ ایک بزرگ مادی قدرت ان کے اعمال کو دیکھ رہی ہے۔

۲۶۳

ان میں سے بہت سے افراد نے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے۔اب آپ اس مطلب پر توجہ کریں:

حیرت انگیز طور پر وجود میں آنے والی اشیاء کے بارے میں تحقیق کرنے والے دانشوروں اور محققین کو یقین ہے کہ زمین کا نظام کسی قدرت کے زیر نگرانی اور ایک منظم سسٹم کے تحت چل رہا ہے ۔ وہ ایسی قوّت ہے کہ جس کی ماہیت اب تک ہم پر واضح نہیں ہے ۔ یہ دنیا اسی کے زیر نظر ہے ۔ بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری دانشوروں نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱)

یہ جاننابھی ضروری ہے کہ بڑے بڑے ممالک یہجان چکے ہیں کہ نہ صرف تمدّنی ترقی اور پیشرفتہ علم تک پہنچنے کے لئے بلکہ کہکشاؤں اور فضاؤں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے  بھی مافوق طبیعت اور مادّہ سے بڑھ کر کسی اور قدرت کی ضرورت ہے۔صرف اسی صورت میں پہنچ سے دور ستاروں ،نورانی خلاء اور کہکشاؤں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اسی صورت میں زمین پر علم و تمدن کی پیشرفت اور تکامل ممکن ہو سکتا ہے۔اسی لئے انہوں نے عالم غیب تک پہنچنے کی کوششیں کیں اور اس کے لئے انہوں نے اپنے معروف ترین ماہریں جیسے آئن اسٹائن اور ڈاکٹر جساپ سے مدد طلب کی۔لیکن چونکہ وہ شہر علم میں داخل ہونے کے لئے بھٹکے اور راہ سے گمراہ لوگوں سے مدد مانگ رہے تھے لہذاآ ئن اسٹائن اور ڈاکٹر جساپ نے انہیں جو برنامہ فراہم کیا ،انہیں اس میں شکست کا سامناکرنا پڑا۔اس برنامہ میں جن افراد کو مأمور کیاگیا ، وہ یا تو پاگل ہو گئے یا پھر چل بسے۔آئن اسٹائن نے اس کام سے ہاتھ کھینچ لیا اور ''ڈاکٹر جساپ''کسی کے ہاتھوں پراسرار طور پر مارا گیا۔ظہور کے پیشرفتہ زمانے میں آسمانوں تک رسائی کے عظیم مسئلہ کے لئے خلاء اور آسمانوں کی وسعت اور کائنات کی عظمت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ عجیب تر از رؤیا:۳۵۶

۲۶۴

  کہکشاں

زمین ایک سیارہ ہے کہ جو دوسرے سیاروں کی طرح سورج کے گرد گھومتی ہے۔اس کا قطر۱۲۷۵۰ کلو م یٹر ہے اور یہ سورج سے۱۵۰ مل ین کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اب تک نو سیاروں کی شناخت ہو چکی ہے۔سورج اور اس کے سیارات مل کر منظومہ شمسی تشکیل دیتے ہیں ۔منظومہ شمسی میں  تمام سیاروں کی حرکت کو اپنے تحت قرار دیتا ہے اور وہ مختلف سرعت سے اپنے اپنے مدار مین گردش کرتے ہیں۔مدار ایسے خط کا نام ہے کہ جس میں ہر سیارہ سورج کے گرد گھومتا ہے ۔ منظومہ شمسی میں سیارات سورج سے روشنی اور حرارت لیتے ہیں سورج زمین سے ایک ملین گنا بڑا ہے۔ منظومہ شمسی کہکشاں کا چھوٹا سا حصہ ہے کہ جو۸۰۰ ہزار کلو م یٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ سے۲۳۰ مل ین سال میں ایک بار اس کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتا ہے ۔منظومہ شمسی کا سورج سے کہکشاں کے مرکز تک کا فاصلہ۲۸ ہزار نور ی  سال ہے ۔ کہکشاں کئی ارب ستاروں سے تشکیل  پاتاہے جن میں سے ایک سورج ہے ۔ جو زرد ستارے میں شمار ہوتا ہے۔(۱)

یہ کہکشاں دیگر کروڑوں،اربوں کہکشاؤں کے مقابلے  میں بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکرے  کی مانند ہے۔ ان کہکشاؤں کا مجموعہ ہماری دنیا تشکیل دیتا ہے ۔ اس دنیا کے کامل تصور کے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ کہکشاؤں کی تعداد زمین پر موجود ساحلوں پر ریت کے ذرّات کے مجموعہ سے زیادہ ہے۔(۲)

--------------

[۱]۔ شگفتی ھای کاوش جھان:۲۳۰

[۲]۔ دوہزار دانشمند در جستجوی خدا:۱۳

۲۶۵

  سو بیلین دم دار ستارے

منظومہ شمسی کے گرد سو بیلین دم دار ستاروں سے تشکیل پانے والا وسیع ابر پھیلا ہوا ہے۔ جسے اس کے دریافت کرنے والے ، یان آئو رٹ، کے نام سے ابر آؤرٹ کانام دیا گیاہے ۔خوش قسمتی سے ستاروں کا یہ جھرمٹ ہم سے بہت فاصلے پر واقع ہے۔سورج سے ان کی دوری تین ٹریلین کلومیٹر ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا سورج سے فاصلہ زمین کا سورج کے فاصلہ سے بیس ہزار گنا زیادہ ہے۔(۱)

  دو سو پچاس بیلین سورج

کہکشاں  کے نطام میں دو سو پچاس بیلین سورج موجود ہیں اگر اسے طے کرنا چاہیں تو اس کی لمبائی کو ایک بیلین کلو میٹر فی گھنٹہ کی سرعت سے طے کرنے کی صورت میںبھی ایک لاکھ سال درکار ہوں گے۔(۲)

--------------

[۱]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۴۹۴

[۲]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۵۲۰

۲۶۶

  کھربوں کہکشاں

کائنات میں کھربوں کہکشاں پھیلے ہوئے ہیں ایک کہکشاں کا قطر ایک لاکھ نوری سال کے برابر ہے جس میں سوکھرب سے زائد ستارے ہوتے ہیں ۔ کائنات کی خلاء اس قدر وسیع ہے کہ  اگر ستاروں، منظومہ اور کہکشاؤں کو تشکیل دینے والے عناصر کو اس خلاء سے مقائسہ کریں کہ جس میں کہکشاں ہیں تو یہ اس قدر ناچیز ہے کہ جن سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔

اس ناقابل یقین وسعت کے مقابلہ میں ہمارے کہکشاں ، منظومہ زمین کہ جس پر ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، خود ہم اور ہمارے متعلق دوسری چیزیں ۔غالباََ یہ سب ایمان میں اہمیت کی حامل ہیں جو بہت اضطراب کا باعث ہے ۔ انہیں دیکھ کر خود  پر طنز کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اقیانوس کے سامنے ایک قطرے کی کیا اہمیت ہے۔(۱)

  دنیا میں تمدّن

''ڈاکٹر شپلی'' کا کہنا ہے کہ کائنات میں کم از کم سو بیلین مسکون سیارے موجود ہیں ۔ان میں سے اکثر کے رہائشی ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ان کے علاوہ دیگر ماہرین فلکیات جیسے داکٹر اتزاسٹرو،کارل ساگان،فرنیک اور کچھ دیگر دانشوروں نے  ۱۹۶۱ ء میں مغربی ورجینیا میں گرین بنک کے مقام پر ایک دوسرے سے ملاقات کی اور دہلا دینے والانظریہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس وسیع و عریض کائنات میں چالیس سے پچاس ملین کرّات موجود ہیں کہ جن کے رہائشی کسی طریقہ سے ہم سے رابطہ کرنے یا زمین سے پیغام سننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

--------------

[۱]۔ نگاہی بہ سر نوشت جھان، انسان تاریخ:۲۷

۲۶۷

فرانس کے ایک دانشور ''موریس شاتلن''(جو پہلے امریکہ میں خلائی امور کا ماہر تھا )نے تین بار ریڈیو علائم موصول کئے ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ احتمالاََ یہ علائم خلاء سے عاقل موجودات کی جانب سے بھیجی گئی ہیں۔ایسا لگتاہے کہ دوسری دنیابھی یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس ذریعہ سے دوسرے سیاروں میں علم فلکیات کے دانشوروں کو اپنی موجودگی کا پتہ دے۔

دو روسی خلائی ماہرین'' تروتسکی اور کارداشف'' نے چند سال کی کوششوں سے چار ریڈیو مراکز  میں خلاء سے بھیجی گئی یہ پراسرار علائم موصول کیں۔یہ علائم کسی خلائی شٹل کے ذریعہ حاصل نہیںہوئے ۔کیونکہ یہ پیغام خلاء میں پہلی شٹل بھیجنے سے پہلے کشف ہوئے تھے۔(۱)

اب تک اسی طرح سے ۱۱۳ پیغام اور ارتباطی وسائل کے ذریعہ دو ہزار سے زائد پیغام موصول ہو چکے ہیں۔اس میں  سے کسی طرح کا شک وشبہ  نہیں ہے کہ خلاء دیگر کرّات اور دوسری دنیا سے پیغامات ارسال ہوئے ہیں۔لیکن ابھی تک دقیق معلومات نہیں ہیں  کہ ان پیغامات میں کیاکہا گیا ہے اورو ہ کہاں سے بھیجے گئے ہیں ۔  لیکن ممکن ہے کہ حکومتی ادارے ان اسرار سے واقف ہوں لیکن ان  سے پردا نہ اٹھانا چاہتے ہوں۔ (۲)

  کہکشاؤں میں تمدّن

اس بناء پر آج کسی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ کائنات میں زمین کے علاوہ دوسری دنیا میں بھی زندگی موجود ہے۔جب گیارہ ماہر دانشور۱۹۶۱ ء میں مغربی ورجینیا میں گرین بنک کے مقام پر منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے بعد ایک دوسرے سے جدا

--------------

[۱]۔ گمشدگان مثلث برمودا:۱۹۲

[۲] ۔ بشقاب پرندہ:۲۱۲

۲۶۸

ہونے لگے تو انہوں نے متفقہ طور پر قرار داد پیش کی کہ کچھ فارمولوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاں میں پچاس ملین سے زائد تمدّن اور ثقافتیںموجود ہیں۔

ناسا  کے ایک شعبہ کے سربراہ راجرآمک گوان نے ان نظریات کے مطابق جدید ترین خلائی پیشرفت کی ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاں میں فرہنگ و ثقافت کی تعداد ۱۳۵ سے زائد ہوچک ی  ہے۔(۱)

  دور حاضر میں خلائی سفر

کائنات کی کشادگی اور خلاء کی وسعت پر غور کرنے سے کیا چاند اور مریخ کے سفر کو خلاء تسخیر کرنے کا نام دے سکتے ہیں؟

دنیا کی استعماری طاقتیں اپنی ظالمانہ حکومتوں کو استحکام ودوام دینے کے لئے اور ان کی بقاء اور لوگوں پر اپنا منحوس سایہ برقرار کرنے اور دنیا کے لوگوں کا دل جیتنے کے لئے ان کے سامنے اپنے خلائی سفر کو ایسے پیش کرتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہویا کوئی غیر معمولی کام انجام دے دیا ہو۔یوں وہ اپنے منفی اور استعمارانہ اہداف دنیا پرلاگو کرتے ہیں اور دنیا والوں کے دلوں میں رعب و وحشت ایجاد کرتے ہیں تا کہ ان کے منفی برناموں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا جائے۔

حلانکہ ا یسی صورت  حال میں بھی وہ جانتے ہیں کہ خلائی سفر اور دور دراز ستاروں تک پہنچنے کے لئے ایسی قدرت سے بہرہ مند ہونا ضروری ہے کہ جو زمانے کی قید سے خارج ہو اور نور کی سرعت سے بھی زیادہ تیز ہو۔وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جب پوری کائنات پر علم و حکمت کا غلبہ ہو گا اور بشر حقیقی و واقعی تکامل اور فرہنگ  وتمدّن تک پہنچ جائے گا تو وہ دورِ حاضر کی روش پر ہنسیں گے۔

--------------

[۱]۔ بازگشت بہ ستارگان:۴۰ 

۲۶۹

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اب نہ صرف دنیا کی استعماری طاقتیںاس حقیقت سے باخبر ہیں ۔بلکہ وہ خود بھی صراحتاََ یہ نکتہ بیان کرتے اور اس کا اعتراف کر تے ہیں ۔اب ہم جو بیان کرنے جا رہے ہیں ،اس سے یہ مطلب بخوبی واضح ہو جائے گا۔

آج کا خلائی سفر بہت مہنگاہے امریکہ کی خلائی شٹل اور روس کا خلائی اسٹیشن میر کا مصرف بہت زیادہ ہے۔کیونکہ خلاباروں کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو مثلاََکھانا پینا،آب و ہوا وغیرہ، انہیں یہ سب کچھ زمین سے اپنے ہمراہ لے جانا پڑتاہے۔ اب ایک کلو گرام کو زمین سے خلاء میں منتقل کرنے کا خرچہ دس ہزار ڈالر ہے مثلاََ۱۹۹۳ ء م یں خلائی ٹیلی اسکوپ ہابل (  Hubble) کو تعمیر کرنے میں پانچ سو ملین ڈالر کی لاگت آئی ۔یہ ان اخراجات کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔آئندہ آنے والے ہماری  مدیریت کے ان برناموں پر ہنسیں گے۔(۱)

وہ بخوبی جانتے ہیں کہ خلائی سفر پر مصرف ہونے والے اتنے اخراجات کو دیکھ کر آئندہ نسلیں تعجب کریں گی۔اب خلائی سفر کے اخراجات کے بارے میں دو اور بیانات ملاحظہ کریں  اور اس کے بعد ہم ایک اہم نکتہ بیان کریں گے:امریکی حکومت نے ''آپولو۱۱ '' کو چاند پر پہنچانے کے لئے پانچ مل ین سے زیادہ خرچ کئے یہ اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے۔

''آپولو''کے سفر کا خرچہ۱۹۹۱ ء کی خلیج فارس کی جنگ سے زیادہ تھا۔کیونکہ اس وقت چاند کا اس سے زیادہ سستا سفر دریافت نہیں ہوا تھا۔تقریباََتمام صاضب نظر شدّت سے ،آپولو، کے سفر کے نتائج کی امید کر رہے تھے ۔ میں نے  خود بھی چاند پر پہنچنے کی خبر سننے کے بعد ڈیلی ٹیلی گراف میں بہت مقالات شائع کئے اور ان تمام میں چاند پر اسٹیشن ایجاد ہونے کے قریب الوقوع ہونے کی پیشگوئی کرتا حتی کہ چاند کے ہوٹل میں دو تختوں کے ایک کمرے میں رہائش کے لئے بھی نام درج کروایا۔ (۲)

--------------

[۱]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۴۲۶

[۲]۔ شگفتی ھای کاوش جھان:۲۷۹

۲۷۰

یہ جلد بازی میں اخذ کیاگیا نتیجہ تھا چاند کی سطح پر خلا بازوں نے جو امور انجام دئے ہمیں ان کا بھی علم نہیں تھا۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ چاند سے واپسی پر وہ خصوصی صنایع میں وارد ہو جائیں گے۔میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ امریکہ کی ہر خلائی شٹل کی پرواز کا خرچہ کئی سو ملین ڈالر ہے اور خلاء میں ایک کلو گرام کو منتقل کرنے کا خرچہ دس ہزار ڈالر ہے۔(۳)

  دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات

اب تک ہم نے استعماری حکومتوں کے بے نتیجہ اخراجات کے بارے میں جو کچھ نقل کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کی ناتوانی پر آئندہ نسلیں حیران ہوں گی اوربے ساختہ ہنسیں گی۔اب اس اہم ترین نکتہ پر

توجہ کریں:

اس زمانے میں چاند تک نہ کہ کہکشاؤں اور ستاروں تک پہنچنے کے لئے خلائی سفر کے اخراجات استعماری حکومتوں کی ناکامی کے عوامل میں سے ایک ہے۔ کیونکہ کچھ دیگر امور بھی ہیں کہ جو خلائی سفر میں ان کی شکست کے عامل ہیں۔ان میں ایک دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات ہیں۔ظالم اور استعماری حکومتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کروڑوں انسانوںکی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔خلائی سفر میں انجام دیئے جانے والے خطرناک امور اس چیز کے گواہ ہیںکہ وہ دنیاکے لوگوں کی زندگی کو بے معنی سمجھتے  اور کروڑوں لوگوں کی زندگی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ اس کی مزید وضاحت کے لئے اس بیان پر غور کریں؛

--------------

[۳]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۲۷۹

۲۷۱

ناسا نے۱۹۹۷ ء م یں کاسینی نامی شٹل بتّیس کلو گرام پلاٹینیم خلاء میں بھیجی ۔ناسا نے اس کے احتمالی خطرات کی بھی تصدیق کی تھی۔اگر کاسینی سفر کے دوران پھٹ جاتی تو دنیا میں  پانچ ارب افراد  انشعاعوں سے متأثر ہوتے۔ پلاٹینیم سرطان کی افزائش کا ایک عامل سمجھا جاتا ہے حتی اگر انسان اس مادہ کے ایٹم کی کچھ مقدار سونگھے تو آنکھ جھپکنے ہی سے اس کی افزائش ہو جاتی ہے۔

''بروس گاگون''خلاء میں تسلیحات اور ایٹمی توانائی سے مقابلہ کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ فن غیر ضروری ہے اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو یہ بہت بڑی تباہی کا باعث بن سکتاہے ۔کیا ایسے برناموں کو انجام دینا انسانی معاشرے کی خدمت ہے یا خیانت؟

یہ بہت بڑا جرم ہے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اگر فرضاََ ان میں کامیابی ہوجائے تو ہم کہکشاں میں مشکل سے کئی ملین ستاروں میں

سے صرف دس یا بارہ ستاروں کا سفر کر سکتے ہیں۔

  خلائی سفر کا امکان

کائنات کی کشادگی اور خلاء کی وسعت پر غور کرنے سے کہکشاؤں کے سفر کے امکان کا انکار نہیں کر سکتے۔اگرچہ وہ ہم سے کئی نوری سال کی دوری پر ہیں۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے ایک مقدمہ ذکر کرکے اصل بحث کی طرف آئیں گے۔

کیا علمی روش کے نقطہ نگاہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اب تک جس انسان کو بھی دیکھا ہے وہ موجودہ صورت میں ہی تھا۔پس اب تک انسان جس صورت کا مشاہدہ کر رہا ہے اس کے علاوہ کسی اور صورت کا آنا محال ہے؟

البتہ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ جب ہمارے مشاہدات اور تجربات دنیا کے ایک حصہ یاایک زمانے تک منحصر ہوں تو کسی صورت میں بھی ایسا حکم صادر نہیں کر سکتے ۔ جابر بن حیان کہتا ہے؛

۲۷۲

دنیا میں کسی ایسی موجود ومخلوق کا ہونا ممکن ہے کہ جس کا حکم ان چیزوں سے مختلف ہو کہ جنہیں ہم نے اب تک دیکھا ہے یا جن سے اب تک ہم آگاہ ہیں۔ کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کے وجود کی بناوٹ ایسی ہے کہ جو تمام موجودات کی شناخت اور ان تک رسائی کی قدرت نہیں رکھتے۔جابر بن حیان نے مذکورہ نمونہ لا کر اس کلی صورت کی طرف ہماری رہنمائی کر دی ۔ کوئی یقین سے یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ غیر مشہور مخلوق بالکل مشہور موجودات و مخلوقات کی مانند ہیں یا جو کچھ ماضی میں موجود تھا یا جو مستقبل میں وجودمیں آئے گا ،وہ بالکل دورِ حاضر میں موجود اشیاء کی مانند ہوگا۔کیونکہ انسان وقت اوراحساس کے لحاظ سے ناتوں اور محدود مخلوق ہے۔

اسی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ دنیا کے آغاز ِ پیدائش کے بارے میں علم نہیں ہے پس دنیا ازلی اور بے آغاز ہے۔میرے خیال میں جابربن حیان نے ان عبارات میں تجربی روش کو دقیق ترین ممکن وجہ سے مشخص کیا ہے۔کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اگرچہ مشہور موجودات کا حکم غیر مشہور موجودات پر کاگو کرنا درست نہیں ہے ۔ لیکن اس چیز کا انکار نہیں کرنا چاہیئے ۔کیونکہ ممکن ہے کہ غیر مشہور اشیاء ہمارےتجربہ و مشاہدہ میں نہ ہوں۔پس ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

کیونکہ اس سے انسان حسّ کے محصور میں محدود ہو کر رہ جائے گا کہ جس سے بہت سی ایسی اشیاء کا انکار لازم آئے گا کہ جو  یقیناََ موجود ہیں۔ایسے لوگ بھی ہیںکہ جنہوں نے ابھی تک مگرمچھ نہیں دیکھا ۔ پس اگر کوئی ان سے کہے کہ دنیا میں ایک ایسا جانور ہے کہ جو کھاتے وقت اپنا اوپر والا جبڑا ہلاتا ہے ، کیا وہ صرف اس بنیاد پر اس حیوان کا انکار کر سکتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے ایسا حیوان نہیں دیکھا ، لہذا وہ موجود نہیں ہے ۔ پس کوئی بھی نہ دیکھنے کی بنیاد پر کسی موجود کا انکار نہ کرے بلکہ جب تک اسے اس کے وجود یا عدم پر کوئی دلیل نہ مل جائے تب تک  اپنی رائے کے اظہار سے پرہیز کرے۔

۲۷۳

اس بناء پر کسی چیز کے نہ ہونے کا حکم اس کے مورد مشاہدہ نہ ہونے یا اس بارے میں کسی خبر کے نہ ہونے کی بناء پر نہیں کرنا چاہیئے اسی طرح جس چیز کے بارے میں دوسروں کی خبروں سے اطلاع حاصل ہو اور اسے خود مستقیماََ مشاہدہ نہ کیاہو ،ایسی چیز کا انکار بھی استدالی روش میں لا علمی کو بیان کرتا ہے۔(۱)

اس بناء پر اگرچہ چاند اور مریخ کے سفر کو خلاء تسخیر کرنے کا نام نہیں دے سکتے کیونکہ خلاء اور آسمان کی کشادگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے خلاء کو تسخیر کرنا قرار نہیں دے سکتے ۔ جابر بن حیان کے استدلال کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس طرح معاصر انسان کسی ایسی چیز تک رسائی حاصل نہیں کر سکا پس کوئی اور مخلوق بھی اس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی ۔ جیسا کہ جابر بن حیان نے بھی کہا کہ ایسا استدلال باطل ہے۔

  اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر

جب لوگ بطلمیوس کی ہیئت اور اس کے نظرئے کے معتقد تھے کہ آسمانوں کا سفر محال ہے ،اس زمانے میں بارہا اہلبیت  کا خلائی سفر واقع ہوا ۔ حضرت امیر المؤمنین علی  علیہ السلام ، امام سجاد علیہ السلام  اور دوسرے آئمہ اطہارعلیہم السلام کے سفر کے کچھ نمونے کئی روایات میں نقل ہوئے ہیں۔رسول اکرم کی معراج خود ایک خلائی سفرہے۔ آنحضرت کی معراج پر ہم سب کا عقیدہ ہے۔لوگوں کے لئے یہ سفر اس زمانے میں نقل ہوئے ہیں کہ جب دنیا پربطلمیوس کا نظریہ حاکم تھا۔اس زمانے میں موجود جہالت پر غور کریں تو معلوم ہو گا اس زمانے میں  ایسے بہت سے سفر مخفی رکھے گئے۔ اگر اس زمانے میں اہلبیت کے لئے مطلب کو ظاہر کرنا ممکن ہوتا تو ہم تک ایسے اور بہت سے نمونے پہنچتے۔

--------------

[۱]۔ تحلیلی از آرای جابر بن حیان :۵۹

۲۷۴

فرض کریں کہ اگر کسی کو اہلبیت علیہم السلام کے خلائی سفر میں شک ہو تو وہ اس نکتہ پر توجہ کرے کہ خدا کی مشیت یہ ہے کہ ہر زمانے میں اپنی حجت کواس زمانے میں معمول او ر موجود قدرت سے زیادہ قدرت دے۔اس مشیت کی رو سے یہ واضح ہے کہ جب پوری کائنات میں اصلاح و تکمیل کا زمانہ ہو تو پھر اس کی زیادہ ضرورت کا احساس ہو گا ۔ یعنی اگر کوئی تمام دنیا کو تسخیر کرنا چاہے تو وہ دنیا میںموجود اور رائج قدرت سے زیادہ قدرتمند ہونا چاہیئے۔ تاریخ میںکہیں بھی یہ موجود نہیں ہے کہ دنیا میں کسی دانشور نے کسی پیغمبر کو علمی مطالب میں مغلوب کیا ہو۔اگر خدانے اپنے رسول اکرم(ص) کو شمش یر اور قرآن کے ساتھ بھیجا تووہ اپنی آخری حجت کو بھی قرآن ، برہان اور آنحضرت کے قیام کے زمانے میں رائج قوّت سے زیادہ قدرت کے ساتھ بھیجے گا۔وہ ایسی قوّت وقدرت ہو گی کہ جو اس زمانے کی  تمام قوّتوں کو مغلوب کر دے گی۔اب اس روایت پر غور کریں۔

'' قال المتوکل لابن السکیت :سل ابن الرضا مسألة عوصاء بحضرت ، فسأله فقال: لِمَ بعث اللّه موسی بالعصا و بعث عیسی بابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی،و بعث محمداَََ بالقرآن والسیف ؟

فقال ابو الحسن  : بعث اللّه موسی  بالعصا والید البیضاء فزمان الغالب علی اهله السحر ، فاتاهم من ذالک ماقهر بسحرهم و بهرهم و اثبت الحجّة علیهم

بعث عیسی بابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی باذن اللّه تعالٰی  فزمان الغالب علی اهله الطبّ، فاتاهم من ابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی باذن اللّه فقهرهم و بهرهم و بعث محمداََ(ص) بالقرآن والس یف فزمان الغالب علی ا ھ ل ہ السیف والشعر فاتا ھ م من القرآن الزا ھ ر والسیف القا ھ ر ما ب ھ ر ب ہ شعر ھ م عو ب ھ ر سیف ھ م ۔۔۔۔ '' (۱)

--------------

[۱]۔ بحارالانوار:۵۰ ص۱۶۵

۲۷۵

متوکل نے ابن سکّیت (جو اس زمانے کا بزرگ دانشور تھا) سے کہا کہ میرے سامنے حضرت امام ہادی علیہ السلام سے ایک مشکل مسئلہ پوچھو۔ابن سکّیت نے

امام رضا علیہ السلام سے کہا:

خدا نے کیوں موسیٰ  علیہ السلام  کو عصا، عیسیٰ  علیہ السلام  کو اندھوں کو بینائی دینے، برص کے مریضوں کو شفا اور مردوں کو زندہ کرنے اور محمد(ص)  کو قرآن کے ساتھ رسول بنا کر بھ یجا؟

امام ہادی علیہ السلام  نے جواب میں فرمایا :

خدا نے موسی علیہ السلام کو عصا اور سفید ہاتھ کے ساتھ مبعوث کیا کہ جس سے سفید نور طالع ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے  کے لوگ سحر میں ماہر تھے ،م وسی علیہ السلام اس قدرت کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ ان ے سحر کو نابود کریں ، ان پر غالب آئیں اور ان پر دلیل کو ثابت کریں۔عیسیٰ علیہ السلام  کو اندھوں کو بینائی دینے، برص کے مریضوں کو شفا دینے اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کرنے کے ساتھ مبعوث کیا کیونکہ اس زمانے کے لوگ طبّ میں غالب تھے۔ پس وہ اندھوں اور برص کے مریضوں کو شفا یاب کرنے اور مردوں کوخدا کے اذن سے زندہ کرنے کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ انہیں مقہور کرکے ان پر غالب آئیں ۔ حضرت محمد(ص) کو قرآن اور شمش یر کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا گیا جب کہ اس   زمانے کے لوگ شمشیر و شعر میں ماہر تھے۔ پس وہ نورانی قرآن اور قاہر شمشیر کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ ان کے ذریعہ ان کے شعر پر غالب آئے اور اور ان کی شمشیر پر کامیاب ہو۔

اس روایت پر توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اگر موجودہ زمانہ خلاء اور خلاء کو تسخیر کرنے کا زمانہ کہلاتاہے تو حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے پاس جدید خلائی وسائل ہوں گے کہ جن کے سامنے دور حاضر کی خلائی شٹل بے ارزش ہو گی۔

۲۷۶

  آسمانوں تک رسائی

اہلبیت اطہار علیہم السلام کی حکومت کا تشکیل پانا اور آنحضرت کی عظیم قدرت کا ظہور نہ صرف دنیا کے تمام پاک سیرت لوگوں کو اپنی طرف جلب کرتا ہے بلکہ اس بابرکت باعظمت اور درخشاں دن کے بارے میں بات کرنا بھی انسانوں کے دلوں میں شوق و ولولہ پیداکرتا ہے کہ جلد از جلد وہ بابرکت زمانہ آئے ۔ ظہور کے زمانے کے حیرت انگیز واقعات میں سے ایک انسان کا آسمانوں تک رسائی خلاء میں پرواز اور دوسرے کرّات پر جانا ہے ۔ آسمان کی بلندیوں میں پرواز ، آسمانی کرّات میں نشست انسان کی دیرینہ خواہش ہے ۔ جس کے حصول کی متعدد بار کوشش کی گئی اور اس کے لئے بہت سرمایہ بھی خرچ کیاگیا ۔ آسمانوں تک رسائی ملکی و مادی لحاظ سے تھی اس سے بھی اہم نکتہ تو یہ ہے کہ اس روز انسان نہ صرف ملکی و مادّی لحاظ سے پرواز کرے گا بلکہ ملکوتی اعتبار سے بھی آسمانوں تک دسترس  حاصل کرے گا اور ملکوت آسمان کا نظارہ کرے گا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کیفیت و اہمیت کے لحاظ سے عالم ملک و ملکوت ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفاوت ہیں ۔ یعنی عالم ملک کاعالم ملکوت سے مقائسہ نہیں کر سکتے ۔عالم ملکوت کی عالم ملک پر برتری اور صالحین کی حکومت میں انسانوں کا عالم ملکوت تک رسائی پر توجہ کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان ظہور کے بابرکت زمانے میں کس ظاہری و معنوی عظمت کا مالک ہو گا ۔ وہ خوش نصیب  ہیں کہ جو زمانہ ظہور کو درک کریں گے اور اس مبارک دن میں زندگی گزاریں گے۔اسی طرح تاریک زمانے سے پُر نور زمانے میں جانے والے اور شادابی و شادمانی سے سرشار دنیا کا نظارہکرنے والے بھی خوش نصیب ہیں۔

۲۷۷

  ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر

شب معراج رسول اکرم(ص) آسمانو ں ک ی بلندیوں میں گئے اور عرش پر خدا سے ہم کلام ہوئے ۔خدا وندکریم نے حضرت مہدی علیہ السلام  کے خلائی سفر کے بارے میںرسول اکرم(ص)سے کلام ک یا ۔نہ صرف آنحضرت کے خلائی سفر بلکہ واحد عالمی حکومت ، قیامت تک اس کے تداوم پوری کائنات میں رونماہونے والے عظیم تحوّلات اور دشمنوں کے وجود سے دنیا کے پاک ہونے کی خبر دی ۔ہم یہاں ایسی ہی کچھ روایات پیش کرنے کے بعد اس بارے میں اہم ترین نکتہ بیان کرتے ہیں۔رسول اکرم (ص) نے فرما یا:''فقلت :یا ربّ هئولاء اوصیائ بعد ؟ فنودیت یا محمد؛ هئولاء اولیائ و احبّا ئ و اسفیاء،و حجج بعدک علی بریّت،وهم اوصیائک و خلفاوک و خیر خلق بعدک و عزّت و جلال لأظهرنّ بهم دین،ولأعلینّ بهم کلمت ولأطهرنّ الارض بآخرهم من اعدائ،وللاُملّکنّه مشارق الارض و مغاربها،ولاسخرنّ له الرّیاح ، ولاذلّلنّ له السحاب الصعاب ،ولا رقینّه ف الاسباب،ولانصرنّه بجند،ولا مدّنّه بملائکت،حتی یعلن دعوت،ویجمع الخلق علی توحیدی،ثمّ لادیمنّ ملکه ،ولأداولنّ الایّام بین أولیائ الی یوم القیامة '' (۱)

میں نے کہا!اے پروردگار وہ میرے بعد میرے اوصیاء ہیں؟

پس میں نے ندا سنی:اے محمد!وہ میرے اولیاء میرے دوست میرا  برگزیدہ اور آپ اور آپ کی امت پرمیری حجت ہیں اور وہ تمہارے اوصیاء تمہارے جانشین اور تمہارے بعد میری بہترین مخلوق ہیں۔ میری عزّت اور میرے جلال کی قسم ،یقیناََ میں اپنے دین کو ان کے وسیلہ سے ظاہر کروں گا اور اپنے کلمہ کو ان کے  وسیلہ سے برتر کروں گا۔یقیناََ ان میں سے آخری کے ذریعہ زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا۔حتماََ اسے زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بناؤں گا۔ہواؤں کو اس کے لئے مسخر کروں گا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۵۲ص۳۱۲

۲۷۸

سخت بادلوں کو اس کے تابع کروں گا۔اسے وسائل میںاوپر لے جاؤں گا۔  یقیناََ اپنے لشکر سے اس کی نصرت کروں گا۔اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مدد کروں گا تا کہ وہ میری دعوت کو آشکار کرے۔سب لوگوں کو توحید و یکتا پرستی پر جمع کرے گا۔پھر اس کے ملک کو پائیدار بنا کر ایّام کو قیامت تک کے لئے اپنے دوستوں میں قرار دوں گا۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس روایت میں مہم مطالب کے بارے میں بات ہوئی ہے۔اس روایت میں آئمہ اطہار علیہم السلام کی عظمت ،ان کی فضیلت و برتری ،ان کے ذریعہ دین اسلام کے ظاہر ہونے ، ان میں سے آخری کے ذریعہ زمین کو دشمنوں سے پاک کرنے ،خدا کے لشکر،ہواؤں کی تسخیر تمام مخلوق کا خدا کی توحید و یکتا پرست کے معتقد ہونے، واحد عالمی حکومت اور قیامت تک اس کے قائم رہنے کے بارے میں بیان ہوا ہے۔

  روایت میں موجود نکات

اس روایت میں ایسے نکات موجود ہیں کہ جن پر دقت و تأمل  سے بعض اہم نکات حاصل کر سکتے ہیں۔

۱ ۔ روا یت میں یہ جملہ کہ خدا نے فرمایا:''لاسخّرنّ له الریاح ولذ لّلنّ له السحاب الصعاب ، ولا رقّینّه ف الاسباب''

یہ اس نکتہ کی دلیل ہے کہ آنحضرت(ص) کا آسمانوں کی طرف صعود کرنا جسمانی ہے جیسا کہ حضرت محمد  مصطفٰی (ص)کی معراج جسمانی تھی۔یعنی آنحضرت(ص) کا آسمانوں پر جانا قالب مثالی سے نہیں ہے۔جیسا کہ آسمانوں کی بلندیوں میں صعود سے مقصودبھی روحانی صعود نہیں ہے کیونکہ اگر آنحضرت کا آسمانوں پر جاناروحانی صعود ہوتا یا قالب مثالی کی صورت میں ہوتا تو پھر سحاب صعاب یا اسباب کی ضرورت نہ  ہوتی۔کیونکہ روح یا قالب مثالی کے آسمانوں کی طرف جانے کے لئے کسی خلائی وسیلہ سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۲۷۹

۲ ۔ اس روایت سے دوسرا حاصل ہونے والا نکتہ یہ ہے کہ اگر آنحضرت  آسمانوں کی طرف جسمانی صعود کا اراسہ کریں تو اس کے لئے بھی خلائی اسباب و وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ وہ ظاہری وسیلہ یا برّاق(جو رسول اکرم(ص)سے مخصوص تھا) سے استفادہ کئے بغیر بھی جا سکتے ہیں ۔ روایت میں اسباب و وسائل سے تعبیر ہونا اس چیز کی دلیل ہے کہ آنحضرت  کا آسمانوں میں جانا کسی انحصاری  یا  ظاہری وسیلہ (جیسے برّاق) میں منحصر نہیں ہے۔ اس بناء پر وسیلہ کے تعدد اور لفظ اسباب کے جمع ہونے سے اسباب اور وسائل اس چیز میںظہور رکھتے ہیں کہ آنحضرت کسی انحصاری وسیلہ (جیسے برّاق) سے استفادہ نہیں کریں گے ۔مورد توجہ یہ ہے کہ سحاب صعاب اور سخت بادل بھی جمع کی صورت میں  بیان کئے  گئے ہیں۔

۳ ۔ اس روا یت سے یہ نکتہ بھی استفادہ کرتے ہیں کہ ظہور کے زمانے میں خلاء اور آسمان پر جانے کے لئے مختلف ذرائع ہوں گے کہ جن سے استفادہ کیا جائے گا۔اس روایت میں تین طرح سے تصریح ہوئی ہے۔

الف:  لاسخّرنّ لہ الریاح

ہواؤں کو یقیناََ اس سے تسخیر کریں گے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی عظیم بساط کے بارے میں بھی بیان ہوا ہے کہ ہوائیں ان کی بساط کو آسمان پر لے جاتیں ۔ ہواؤں اور شدید طوفان کی قدرت بہت حیرت انگیز ہے ان کی تسخیر سے مراد انہیں اپنے اختیار میں رکھنا اور ان پر مکمل  قابو ہوناہے۔ہمارے زمانے میں دانشور نہ تو طوفان کو روک سکے ہیں لیکن قرآن کریم کی آیات کی بناء پرحضرت سلیمان علیہ السلام ایسے کام کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔حضرت مہدی علیہ السلام (جو کہ ہر چیز پر ولایت رکھتے ہیں) ان پر قابو پا کر ان کے منفی آثار کو برطرف کرنے کے علاوہ انہیں تسخیر کرنے اور ان پر تسلط پا کران  سے مثبت استفادہ بھی کریں گے۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300