امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت13%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180662 / ڈاؤنلوڈ: 4528
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کیا انسان کو کسی ایسے رہبر کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جس کے سامنے کائنات کے تمام اسرار آشکار ہوں اور جسے دنیا کی تمام موجودات کا علم ہو یا کسی ایسے دانشور کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جو خود اپنے جہل و عجزکا اعتراف کرے اور اپنے علم کو اپنے مجہولات کے سامنے بہت کم سمجھے؟مثال کے طور پر'' اسحاق نیوٹن ''کہ جسے دنیا کے بزرگ دانشوروں میںشمار کیا جاتا ہے ، وہ اس بارے میں کہتا ہے :

مجھے نہیں  معلوم کہ میں دنیا کی نظروں میں کیا ہوں؟لیکن جب میں آنکھوں سے خود کو دیکھوں تو میں ایک ایسے بچے کی مانند ہوں کہ جو ساحل سمندر پر کھیل کود میں مشغول ہو اور خوبصورت سنگریزوں کو دوسرے سنگریزوںاور صدف کو دوسرے گوہرسے تمیز دینے میں مصروف ہو لیکن حقیقت کے اقیانوس میںہر طرف بے کرانی و طغیانی ہے  ۔(۱)

یہ اعتراف ایک حقیقت ہے ۔جو نہ صرف نیوٹن بلکہ اس جیسے ہر فرد پر صادق آتا ہے ۔ البتہ بہت سے افراد بہت سعی و کوشش اور جستجو سے خوبصوت  اور نایاب صدف کے حصول میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے:

کیاانسان کو کھیل کود میں مصروف بچے کی پیروی کرنی چاہیئے یا کسی ایسے کو تلاش کو کرنا چاہیئے کہ جو دنیا کی خلقت کے اسرار سے آشنا ہو؟ یہ واضحات میں سے ہے کہ راہ سے بھٹک جانا گمراہی کا سبب  بنتا ہے اور گمراہی کا نتیجہ تباہی وبربادی ہے۔(۲)

--------------

[۱]۔ فکر، نظم ، عمل:۹۳

[۲] ۔ مغز متفکر جھان شیعہ :۳۰۲

۲۶۱

 آٹھواں باب

خلائی سفر

    خلائی سفر

    کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت

    کہکشاں    سو بیلین دم دار ستارے    دو سو پچاس بیلین سورج    کھربوں کہکشاں

    دنیا میں تمدّن

    کہکشاؤں میں تمدّن

    دور حاضر میں خلائی سفر

    دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات

    خلائی سفر کا امکان

    اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر

    آسمانوں تک رسائی

    ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر

    روایت میں موجود نکات

    آسمانی مخلوقات سے آشنائی

    مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ

۲۶۲

خلائی سفر

ظہور کے ترقی یافتہ زمانے میں خلائی سفر کے بارے میں بہت بہترین اور دلچسپ بحث ہے ۔ قرآن اور خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین میں خلائی سفر کے بارے میں بہت اہم نکات اوراشارات موجود ہیں ۔ ظہورکے زمانے میں آسمانوں اور عامل ہستی کی فضاؤں میں اوج لینے سے پہلے زمانۂ ظہور میں خلائی سفر کی اہمیت کو آشکار کرنے کے لئے کہکشاؤں، سحاب اور آسمان کی وسیع فضا کے بارے میںاہم نکات بیان کرنا ضروری ہے تاکہ ظہور کے زمانے میں خلائی سفر کی اہمیت سے آگاہ ہو سکیںاور یہ جان سکیں کہ علمی تکامل اور پیشرفت کے زمانے میں انسان کو نصیب ہونے والا خلائی سفر بہت عجیب ہو گا۔

یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ آج استعماری ممالک عصر خلاء یا تسخیرخلاء کے عنوان سے جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ دنیا کی عظمت کو اَن دیکھا کرنے کے مترادف ہے۔میرے خیال میں ستمگر ممالک چاند پر ہوٹل میں کمرہ بک کروانے کے سلسلہ میں جو تبلیغات کر رہے ہیں یا جو خلاء کو تسخیر کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں،ان میں سے زیادہ تر دنیا والوں کے دماغ پر اپنی برتری ثابت کرنے ، خود نمائی اور دنیا کے لوگوں کے افکار پر تسلط جمانے کے لئے ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ دنیا اس قدرعظیم اور وسیع ہے کہ مادّہ سے بڑھ کر کوئی اور قدرت ہی اس تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔کیا چاند پر پہنچنا خلاء کو تسخیر کرنا ہے؟

  کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت

ہم نے جو کچھ ذکر کیااس سے ممکن ہے کہ بعض قارئین کرام حیران ہوں اور اس بات کا یقین نہ کریں۔لہذا ہم اس مطلب کی وضاحت کے لئے اس نکتہ کا اضافہ کرتے ہیں: غیبت کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام کے غیبی جلوے اس قدر ہیں کہ بڑے بڑے ممالک بخوبی جانتے ہیں کہ مافوق طبیعت کوئی قدرت موجود ہے ، جو ان کے رفتار و کردار کی مراقب ہے۔ دنیا میں جاسوس ایجنسیاں جیسے مافیا سیا اور اسی طرح بڑے ممالک کی ایجنسیاں جانتی ہیں کہ ایک بزرگ مادی قدرت ان کے اعمال کو دیکھ رہی ہے۔

۲۶۳

ان میں سے بہت سے افراد نے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے۔اب آپ اس مطلب پر توجہ کریں:

حیرت انگیز طور پر وجود میں آنے والی اشیاء کے بارے میں تحقیق کرنے والے دانشوروں اور محققین کو یقین ہے کہ زمین کا نظام کسی قدرت کے زیر نگرانی اور ایک منظم سسٹم کے تحت چل رہا ہے ۔ وہ ایسی قوّت ہے کہ جس کی ماہیت اب تک ہم پر واضح نہیں ہے ۔ یہ دنیا اسی کے زیر نظر ہے ۔ بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری دانشوروں نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱)

یہ جاننابھی ضروری ہے کہ بڑے بڑے ممالک یہجان چکے ہیں کہ نہ صرف تمدّنی ترقی اور پیشرفتہ علم تک پہنچنے کے لئے بلکہ کہکشاؤں اور فضاؤں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے  بھی مافوق طبیعت اور مادّہ سے بڑھ کر کسی اور قدرت کی ضرورت ہے۔صرف اسی صورت میں پہنچ سے دور ستاروں ،نورانی خلاء اور کہکشاؤں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اسی صورت میں زمین پر علم و تمدن کی پیشرفت اور تکامل ممکن ہو سکتا ہے۔اسی لئے انہوں نے عالم غیب تک پہنچنے کی کوششیں کیں اور اس کے لئے انہوں نے اپنے معروف ترین ماہریں جیسے آئن اسٹائن اور ڈاکٹر جساپ سے مدد طلب کی۔لیکن چونکہ وہ شہر علم میں داخل ہونے کے لئے بھٹکے اور راہ سے گمراہ لوگوں سے مدد مانگ رہے تھے لہذاآ ئن اسٹائن اور ڈاکٹر جساپ نے انہیں جو برنامہ فراہم کیا ،انہیں اس میں شکست کا سامناکرنا پڑا۔اس برنامہ میں جن افراد کو مأمور کیاگیا ، وہ یا تو پاگل ہو گئے یا پھر چل بسے۔آئن اسٹائن نے اس کام سے ہاتھ کھینچ لیا اور ''ڈاکٹر جساپ''کسی کے ہاتھوں پراسرار طور پر مارا گیا۔ظہور کے پیشرفتہ زمانے میں آسمانوں تک رسائی کے عظیم مسئلہ کے لئے خلاء اور آسمانوں کی وسعت اور کائنات کی عظمت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ عجیب تر از رؤیا:۳۵۶

۲۶۴

  کہکشاں

زمین ایک سیارہ ہے کہ جو دوسرے سیاروں کی طرح سورج کے گرد گھومتی ہے۔اس کا قطر۱۲۷۵۰ کلو م یٹر ہے اور یہ سورج سے۱۵۰ مل ین کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اب تک نو سیاروں کی شناخت ہو چکی ہے۔سورج اور اس کے سیارات مل کر منظومہ شمسی تشکیل دیتے ہیں ۔منظومہ شمسی میں  تمام سیاروں کی حرکت کو اپنے تحت قرار دیتا ہے اور وہ مختلف سرعت سے اپنے اپنے مدار مین گردش کرتے ہیں۔مدار ایسے خط کا نام ہے کہ جس میں ہر سیارہ سورج کے گرد گھومتا ہے ۔ منظومہ شمسی میں سیارات سورج سے روشنی اور حرارت لیتے ہیں سورج زمین سے ایک ملین گنا بڑا ہے۔ منظومہ شمسی کہکشاں کا چھوٹا سا حصہ ہے کہ جو۸۰۰ ہزار کلو م یٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ سے۲۳۰ مل ین سال میں ایک بار اس کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتا ہے ۔منظومہ شمسی کا سورج سے کہکشاں کے مرکز تک کا فاصلہ۲۸ ہزار نور ی  سال ہے ۔ کہکشاں کئی ارب ستاروں سے تشکیل  پاتاہے جن میں سے ایک سورج ہے ۔ جو زرد ستارے میں شمار ہوتا ہے۔(۱)

یہ کہکشاں دیگر کروڑوں،اربوں کہکشاؤں کے مقابلے  میں بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکرے  کی مانند ہے۔ ان کہکشاؤں کا مجموعہ ہماری دنیا تشکیل دیتا ہے ۔ اس دنیا کے کامل تصور کے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ کہکشاؤں کی تعداد زمین پر موجود ساحلوں پر ریت کے ذرّات کے مجموعہ سے زیادہ ہے۔(۲)

--------------

[۱]۔ شگفتی ھای کاوش جھان:۲۳۰

[۲]۔ دوہزار دانشمند در جستجوی خدا:۱۳

۲۶۵

  سو بیلین دم دار ستارے

منظومہ شمسی کے گرد سو بیلین دم دار ستاروں سے تشکیل پانے والا وسیع ابر پھیلا ہوا ہے۔ جسے اس کے دریافت کرنے والے ، یان آئو رٹ، کے نام سے ابر آؤرٹ کانام دیا گیاہے ۔خوش قسمتی سے ستاروں کا یہ جھرمٹ ہم سے بہت فاصلے پر واقع ہے۔سورج سے ان کی دوری تین ٹریلین کلومیٹر ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا سورج سے فاصلہ زمین کا سورج کے فاصلہ سے بیس ہزار گنا زیادہ ہے۔(۱)

  دو سو پچاس بیلین سورج

کہکشاں  کے نطام میں دو سو پچاس بیلین سورج موجود ہیں اگر اسے طے کرنا چاہیں تو اس کی لمبائی کو ایک بیلین کلو میٹر فی گھنٹہ کی سرعت سے طے کرنے کی صورت میںبھی ایک لاکھ سال درکار ہوں گے۔(۲)

--------------

[۱]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۴۹۴

[۲]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۵۲۰

۲۶۶

  کھربوں کہکشاں

کائنات میں کھربوں کہکشاں پھیلے ہوئے ہیں ایک کہکشاں کا قطر ایک لاکھ نوری سال کے برابر ہے جس میں سوکھرب سے زائد ستارے ہوتے ہیں ۔ کائنات کی خلاء اس قدر وسیع ہے کہ  اگر ستاروں، منظومہ اور کہکشاؤں کو تشکیل دینے والے عناصر کو اس خلاء سے مقائسہ کریں کہ جس میں کہکشاں ہیں تو یہ اس قدر ناچیز ہے کہ جن سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔

اس ناقابل یقین وسعت کے مقابلہ میں ہمارے کہکشاں ، منظومہ زمین کہ جس پر ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، خود ہم اور ہمارے متعلق دوسری چیزیں ۔غالباََ یہ سب ایمان میں اہمیت کی حامل ہیں جو بہت اضطراب کا باعث ہے ۔ انہیں دیکھ کر خود  پر طنز کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اقیانوس کے سامنے ایک قطرے کی کیا اہمیت ہے۔(۱)

  دنیا میں تمدّن

''ڈاکٹر شپلی'' کا کہنا ہے کہ کائنات میں کم از کم سو بیلین مسکون سیارے موجود ہیں ۔ان میں سے اکثر کے رہائشی ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ان کے علاوہ دیگر ماہرین فلکیات جیسے داکٹر اتزاسٹرو،کارل ساگان،فرنیک اور کچھ دیگر دانشوروں نے  ۱۹۶۱ ء میں مغربی ورجینیا میں گرین بنک کے مقام پر ایک دوسرے سے ملاقات کی اور دہلا دینے والانظریہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس وسیع و عریض کائنات میں چالیس سے پچاس ملین کرّات موجود ہیں کہ جن کے رہائشی کسی طریقہ سے ہم سے رابطہ کرنے یا زمین سے پیغام سننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

--------------

[۱]۔ نگاہی بہ سر نوشت جھان، انسان تاریخ:۲۷

۲۶۷

فرانس کے ایک دانشور ''موریس شاتلن''(جو پہلے امریکہ میں خلائی امور کا ماہر تھا )نے تین بار ریڈیو علائم موصول کئے ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ احتمالاََ یہ علائم خلاء سے عاقل موجودات کی جانب سے بھیجی گئی ہیں۔ایسا لگتاہے کہ دوسری دنیابھی یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس ذریعہ سے دوسرے سیاروں میں علم فلکیات کے دانشوروں کو اپنی موجودگی کا پتہ دے۔

دو روسی خلائی ماہرین'' تروتسکی اور کارداشف'' نے چند سال کی کوششوں سے چار ریڈیو مراکز  میں خلاء سے بھیجی گئی یہ پراسرار علائم موصول کیں۔یہ علائم کسی خلائی شٹل کے ذریعہ حاصل نہیںہوئے ۔کیونکہ یہ پیغام خلاء میں پہلی شٹل بھیجنے سے پہلے کشف ہوئے تھے۔(۱)

اب تک اسی طرح سے ۱۱۳ پیغام اور ارتباطی وسائل کے ذریعہ دو ہزار سے زائد پیغام موصول ہو چکے ہیں۔اس میں  سے کسی طرح کا شک وشبہ  نہیں ہے کہ خلاء دیگر کرّات اور دوسری دنیا سے پیغامات ارسال ہوئے ہیں۔لیکن ابھی تک دقیق معلومات نہیں ہیں  کہ ان پیغامات میں کیاکہا گیا ہے اورو ہ کہاں سے بھیجے گئے ہیں ۔  لیکن ممکن ہے کہ حکومتی ادارے ان اسرار سے واقف ہوں لیکن ان  سے پردا نہ اٹھانا چاہتے ہوں۔ (۲)

  کہکشاؤں میں تمدّن

اس بناء پر آج کسی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ کائنات میں زمین کے علاوہ دوسری دنیا میں بھی زندگی موجود ہے۔جب گیارہ ماہر دانشور۱۹۶۱ ء میں مغربی ورجینیا میں گرین بنک کے مقام پر منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے بعد ایک دوسرے سے جدا

--------------

[۱]۔ گمشدگان مثلث برمودا:۱۹۲

[۲] ۔ بشقاب پرندہ:۲۱۲

۲۶۸

ہونے لگے تو انہوں نے متفقہ طور پر قرار داد پیش کی کہ کچھ فارمولوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاں میں پچاس ملین سے زائد تمدّن اور ثقافتیںموجود ہیں۔

ناسا  کے ایک شعبہ کے سربراہ راجرآمک گوان نے ان نظریات کے مطابق جدید ترین خلائی پیشرفت کی ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاں میں فرہنگ و ثقافت کی تعداد ۱۳۵ سے زائد ہوچک ی  ہے۔(۱)

  دور حاضر میں خلائی سفر

کائنات کی کشادگی اور خلاء کی وسعت پر غور کرنے سے کیا چاند اور مریخ کے سفر کو خلاء تسخیر کرنے کا نام دے سکتے ہیں؟

دنیا کی استعماری طاقتیں اپنی ظالمانہ حکومتوں کو استحکام ودوام دینے کے لئے اور ان کی بقاء اور لوگوں پر اپنا منحوس سایہ برقرار کرنے اور دنیا کے لوگوں کا دل جیتنے کے لئے ان کے سامنے اپنے خلائی سفر کو ایسے پیش کرتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہویا کوئی غیر معمولی کام انجام دے دیا ہو۔یوں وہ اپنے منفی اور استعمارانہ اہداف دنیا پرلاگو کرتے ہیں اور دنیا والوں کے دلوں میں رعب و وحشت ایجاد کرتے ہیں تا کہ ان کے منفی برناموں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا جائے۔

حلانکہ ا یسی صورت  حال میں بھی وہ جانتے ہیں کہ خلائی سفر اور دور دراز ستاروں تک پہنچنے کے لئے ایسی قدرت سے بہرہ مند ہونا ضروری ہے کہ جو زمانے کی قید سے خارج ہو اور نور کی سرعت سے بھی زیادہ تیز ہو۔وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جب پوری کائنات پر علم و حکمت کا غلبہ ہو گا اور بشر حقیقی و واقعی تکامل اور فرہنگ  وتمدّن تک پہنچ جائے گا تو وہ دورِ حاضر کی روش پر ہنسیں گے۔

--------------

[۱]۔ بازگشت بہ ستارگان:۴۰ 

۲۶۹

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اب نہ صرف دنیا کی استعماری طاقتیںاس حقیقت سے باخبر ہیں ۔بلکہ وہ خود بھی صراحتاََ یہ نکتہ بیان کرتے اور اس کا اعتراف کر تے ہیں ۔اب ہم جو بیان کرنے جا رہے ہیں ،اس سے یہ مطلب بخوبی واضح ہو جائے گا۔

آج کا خلائی سفر بہت مہنگاہے امریکہ کی خلائی شٹل اور روس کا خلائی اسٹیشن میر کا مصرف بہت زیادہ ہے۔کیونکہ خلاباروں کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو مثلاََکھانا پینا،آب و ہوا وغیرہ، انہیں یہ سب کچھ زمین سے اپنے ہمراہ لے جانا پڑتاہے۔ اب ایک کلو گرام کو زمین سے خلاء میں منتقل کرنے کا خرچہ دس ہزار ڈالر ہے مثلاََ۱۹۹۳ ء م یں خلائی ٹیلی اسکوپ ہابل (  Hubble) کو تعمیر کرنے میں پانچ سو ملین ڈالر کی لاگت آئی ۔یہ ان اخراجات کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔آئندہ آنے والے ہماری  مدیریت کے ان برناموں پر ہنسیں گے۔(۱)

وہ بخوبی جانتے ہیں کہ خلائی سفر پر مصرف ہونے والے اتنے اخراجات کو دیکھ کر آئندہ نسلیں تعجب کریں گی۔اب خلائی سفر کے اخراجات کے بارے میں دو اور بیانات ملاحظہ کریں  اور اس کے بعد ہم ایک اہم نکتہ بیان کریں گے:امریکی حکومت نے ''آپولو۱۱ '' کو چاند پر پہنچانے کے لئے پانچ مل ین سے زیادہ خرچ کئے یہ اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے۔

''آپولو''کے سفر کا خرچہ۱۹۹۱ ء کی خلیج فارس کی جنگ سے زیادہ تھا۔کیونکہ اس وقت چاند کا اس سے زیادہ سستا سفر دریافت نہیں ہوا تھا۔تقریباََتمام صاضب نظر شدّت سے ،آپولو، کے سفر کے نتائج کی امید کر رہے تھے ۔ میں نے  خود بھی چاند پر پہنچنے کی خبر سننے کے بعد ڈیلی ٹیلی گراف میں بہت مقالات شائع کئے اور ان تمام میں چاند پر اسٹیشن ایجاد ہونے کے قریب الوقوع ہونے کی پیشگوئی کرتا حتی کہ چاند کے ہوٹل میں دو تختوں کے ایک کمرے میں رہائش کے لئے بھی نام درج کروایا۔ (۲)

--------------

[۱]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۴۲۶

[۲]۔ شگفتی ھای کاوش جھان:۲۷۹

۲۷۰

یہ جلد بازی میں اخذ کیاگیا نتیجہ تھا چاند کی سطح پر خلا بازوں نے جو امور انجام دئے ہمیں ان کا بھی علم نہیں تھا۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ چاند سے واپسی پر وہ خصوصی صنایع میں وارد ہو جائیں گے۔میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ امریکہ کی ہر خلائی شٹل کی پرواز کا خرچہ کئی سو ملین ڈالر ہے اور خلاء میں ایک کلو گرام کو منتقل کرنے کا خرچہ دس ہزار ڈالر ہے۔(۳)

  دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات

اب تک ہم نے استعماری حکومتوں کے بے نتیجہ اخراجات کے بارے میں جو کچھ نقل کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کی ناتوانی پر آئندہ نسلیں حیران ہوں گی اوربے ساختہ ہنسیں گی۔اب اس اہم ترین نکتہ پر

توجہ کریں:

اس زمانے میں چاند تک نہ کہ کہکشاؤں اور ستاروں تک پہنچنے کے لئے خلائی سفر کے اخراجات استعماری حکومتوں کی ناکامی کے عوامل میں سے ایک ہے۔ کیونکہ کچھ دیگر امور بھی ہیں کہ جو خلائی سفر میں ان کی شکست کے عامل ہیں۔ان میں ایک دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات ہیں۔ظالم اور استعماری حکومتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کروڑوں انسانوںکی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔خلائی سفر میں انجام دیئے جانے والے خطرناک امور اس چیز کے گواہ ہیںکہ وہ دنیاکے لوگوں کی زندگی کو بے معنی سمجھتے  اور کروڑوں لوگوں کی زندگی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ اس کی مزید وضاحت کے لئے اس بیان پر غور کریں؛

--------------

[۳]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۲۷۹

۲۷۱

ناسا نے۱۹۹۷ ء م یں کاسینی نامی شٹل بتّیس کلو گرام پلاٹینیم خلاء میں بھیجی ۔ناسا نے اس کے احتمالی خطرات کی بھی تصدیق کی تھی۔اگر کاسینی سفر کے دوران پھٹ جاتی تو دنیا میں  پانچ ارب افراد  انشعاعوں سے متأثر ہوتے۔ پلاٹینیم سرطان کی افزائش کا ایک عامل سمجھا جاتا ہے حتی اگر انسان اس مادہ کے ایٹم کی کچھ مقدار سونگھے تو آنکھ جھپکنے ہی سے اس کی افزائش ہو جاتی ہے۔

''بروس گاگون''خلاء میں تسلیحات اور ایٹمی توانائی سے مقابلہ کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ فن غیر ضروری ہے اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو یہ بہت بڑی تباہی کا باعث بن سکتاہے ۔کیا ایسے برناموں کو انجام دینا انسانی معاشرے کی خدمت ہے یا خیانت؟

یہ بہت بڑا جرم ہے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اگر فرضاََ ان میں کامیابی ہوجائے تو ہم کہکشاں میں مشکل سے کئی ملین ستاروں میں

سے صرف دس یا بارہ ستاروں کا سفر کر سکتے ہیں۔

  خلائی سفر کا امکان

کائنات کی کشادگی اور خلاء کی وسعت پر غور کرنے سے کہکشاؤں کے سفر کے امکان کا انکار نہیں کر سکتے۔اگرچہ وہ ہم سے کئی نوری سال کی دوری پر ہیں۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے ایک مقدمہ ذکر کرکے اصل بحث کی طرف آئیں گے۔

کیا علمی روش کے نقطہ نگاہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اب تک جس انسان کو بھی دیکھا ہے وہ موجودہ صورت میں ہی تھا۔پس اب تک انسان جس صورت کا مشاہدہ کر رہا ہے اس کے علاوہ کسی اور صورت کا آنا محال ہے؟

البتہ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ جب ہمارے مشاہدات اور تجربات دنیا کے ایک حصہ یاایک زمانے تک منحصر ہوں تو کسی صورت میں بھی ایسا حکم صادر نہیں کر سکتے ۔ جابر بن حیان کہتا ہے؛

۲۷۲

دنیا میں کسی ایسی موجود ومخلوق کا ہونا ممکن ہے کہ جس کا حکم ان چیزوں سے مختلف ہو کہ جنہیں ہم نے اب تک دیکھا ہے یا جن سے اب تک ہم آگاہ ہیں۔ کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کے وجود کی بناوٹ ایسی ہے کہ جو تمام موجودات کی شناخت اور ان تک رسائی کی قدرت نہیں رکھتے۔جابر بن حیان نے مذکورہ نمونہ لا کر اس کلی صورت کی طرف ہماری رہنمائی کر دی ۔ کوئی یقین سے یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ غیر مشہور مخلوق بالکل مشہور موجودات و مخلوقات کی مانند ہیں یا جو کچھ ماضی میں موجود تھا یا جو مستقبل میں وجودمیں آئے گا ،وہ بالکل دورِ حاضر میں موجود اشیاء کی مانند ہوگا۔کیونکہ انسان وقت اوراحساس کے لحاظ سے ناتوں اور محدود مخلوق ہے۔

اسی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ دنیا کے آغاز ِ پیدائش کے بارے میں علم نہیں ہے پس دنیا ازلی اور بے آغاز ہے۔میرے خیال میں جابربن حیان نے ان عبارات میں تجربی روش کو دقیق ترین ممکن وجہ سے مشخص کیا ہے۔کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اگرچہ مشہور موجودات کا حکم غیر مشہور موجودات پر کاگو کرنا درست نہیں ہے ۔ لیکن اس چیز کا انکار نہیں کرنا چاہیئے ۔کیونکہ ممکن ہے کہ غیر مشہور اشیاء ہمارےتجربہ و مشاہدہ میں نہ ہوں۔پس ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

کیونکہ اس سے انسان حسّ کے محصور میں محدود ہو کر رہ جائے گا کہ جس سے بہت سی ایسی اشیاء کا انکار لازم آئے گا کہ جو  یقیناََ موجود ہیں۔ایسے لوگ بھی ہیںکہ جنہوں نے ابھی تک مگرمچھ نہیں دیکھا ۔ پس اگر کوئی ان سے کہے کہ دنیا میں ایک ایسا جانور ہے کہ جو کھاتے وقت اپنا اوپر والا جبڑا ہلاتا ہے ، کیا وہ صرف اس بنیاد پر اس حیوان کا انکار کر سکتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے ایسا حیوان نہیں دیکھا ، لہذا وہ موجود نہیں ہے ۔ پس کوئی بھی نہ دیکھنے کی بنیاد پر کسی موجود کا انکار نہ کرے بلکہ جب تک اسے اس کے وجود یا عدم پر کوئی دلیل نہ مل جائے تب تک  اپنی رائے کے اظہار سے پرہیز کرے۔

۲۷۳

اس بناء پر کسی چیز کے نہ ہونے کا حکم اس کے مورد مشاہدہ نہ ہونے یا اس بارے میں کسی خبر کے نہ ہونے کی بناء پر نہیں کرنا چاہیئے اسی طرح جس چیز کے بارے میں دوسروں کی خبروں سے اطلاع حاصل ہو اور اسے خود مستقیماََ مشاہدہ نہ کیاہو ،ایسی چیز کا انکار بھی استدالی روش میں لا علمی کو بیان کرتا ہے۔(۱)

اس بناء پر اگرچہ چاند اور مریخ کے سفر کو خلاء تسخیر کرنے کا نام نہیں دے سکتے کیونکہ خلاء اور آسمان کی کشادگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے خلاء کو تسخیر کرنا قرار نہیں دے سکتے ۔ جابر بن حیان کے استدلال کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس طرح معاصر انسان کسی ایسی چیز تک رسائی حاصل نہیں کر سکا پس کوئی اور مخلوق بھی اس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی ۔ جیسا کہ جابر بن حیان نے بھی کہا کہ ایسا استدلال باطل ہے۔

  اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر

جب لوگ بطلمیوس کی ہیئت اور اس کے نظرئے کے معتقد تھے کہ آسمانوں کا سفر محال ہے ،اس زمانے میں بارہا اہلبیت  کا خلائی سفر واقع ہوا ۔ حضرت امیر المؤمنین علی  علیہ السلام ، امام سجاد علیہ السلام  اور دوسرے آئمہ اطہارعلیہم السلام کے سفر کے کچھ نمونے کئی روایات میں نقل ہوئے ہیں۔رسول اکرم کی معراج خود ایک خلائی سفرہے۔ آنحضرت کی معراج پر ہم سب کا عقیدہ ہے۔لوگوں کے لئے یہ سفر اس زمانے میں نقل ہوئے ہیں کہ جب دنیا پربطلمیوس کا نظریہ حاکم تھا۔اس زمانے میں موجود جہالت پر غور کریں تو معلوم ہو گا اس زمانے میں  ایسے بہت سے سفر مخفی رکھے گئے۔ اگر اس زمانے میں اہلبیت کے لئے مطلب کو ظاہر کرنا ممکن ہوتا تو ہم تک ایسے اور بہت سے نمونے پہنچتے۔

--------------

[۱]۔ تحلیلی از آرای جابر بن حیان :۵۹

۲۷۴

فرض کریں کہ اگر کسی کو اہلبیت علیہم السلام کے خلائی سفر میں شک ہو تو وہ اس نکتہ پر توجہ کرے کہ خدا کی مشیت یہ ہے کہ ہر زمانے میں اپنی حجت کواس زمانے میں معمول او ر موجود قدرت سے زیادہ قدرت دے۔اس مشیت کی رو سے یہ واضح ہے کہ جب پوری کائنات میں اصلاح و تکمیل کا زمانہ ہو تو پھر اس کی زیادہ ضرورت کا احساس ہو گا ۔ یعنی اگر کوئی تمام دنیا کو تسخیر کرنا چاہے تو وہ دنیا میںموجود اور رائج قدرت سے زیادہ قدرتمند ہونا چاہیئے۔ تاریخ میںکہیں بھی یہ موجود نہیں ہے کہ دنیا میں کسی دانشور نے کسی پیغمبر کو علمی مطالب میں مغلوب کیا ہو۔اگر خدانے اپنے رسول اکرم(ص) کو شمش یر اور قرآن کے ساتھ بھیجا تووہ اپنی آخری حجت کو بھی قرآن ، برہان اور آنحضرت کے قیام کے زمانے میں رائج قوّت سے زیادہ قدرت کے ساتھ بھیجے گا۔وہ ایسی قوّت وقدرت ہو گی کہ جو اس زمانے کی  تمام قوّتوں کو مغلوب کر دے گی۔اب اس روایت پر غور کریں۔

'' قال المتوکل لابن السکیت :سل ابن الرضا مسألة عوصاء بحضرت ، فسأله فقال: لِمَ بعث اللّه موسی بالعصا و بعث عیسی بابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی،و بعث محمداَََ بالقرآن والسیف ؟

فقال ابو الحسن  : بعث اللّه موسی  بالعصا والید البیضاء فزمان الغالب علی اهله السحر ، فاتاهم من ذالک ماقهر بسحرهم و بهرهم و اثبت الحجّة علیهم

بعث عیسی بابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی باذن اللّه تعالٰی  فزمان الغالب علی اهله الطبّ، فاتاهم من ابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی باذن اللّه فقهرهم و بهرهم و بعث محمداََ(ص) بالقرآن والس یف فزمان الغالب علی ا ھ ل ہ السیف والشعر فاتا ھ م من القرآن الزا ھ ر والسیف القا ھ ر ما ب ھ ر ب ہ شعر ھ م عو ب ھ ر سیف ھ م ۔۔۔۔ '' (۱)

--------------

[۱]۔ بحارالانوار:۵۰ ص۱۶۵

۲۷۵

متوکل نے ابن سکّیت (جو اس زمانے کا بزرگ دانشور تھا) سے کہا کہ میرے سامنے حضرت امام ہادی علیہ السلام سے ایک مشکل مسئلہ پوچھو۔ابن سکّیت نے

امام رضا علیہ السلام سے کہا:

خدا نے کیوں موسیٰ  علیہ السلام  کو عصا، عیسیٰ  علیہ السلام  کو اندھوں کو بینائی دینے، برص کے مریضوں کو شفا اور مردوں کو زندہ کرنے اور محمد(ص)  کو قرآن کے ساتھ رسول بنا کر بھ یجا؟

امام ہادی علیہ السلام  نے جواب میں فرمایا :

خدا نے موسی علیہ السلام کو عصا اور سفید ہاتھ کے ساتھ مبعوث کیا کہ جس سے سفید نور طالع ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے  کے لوگ سحر میں ماہر تھے ،م وسی علیہ السلام اس قدرت کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ ان ے سحر کو نابود کریں ، ان پر غالب آئیں اور ان پر دلیل کو ثابت کریں۔عیسیٰ علیہ السلام  کو اندھوں کو بینائی دینے، برص کے مریضوں کو شفا دینے اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کرنے کے ساتھ مبعوث کیا کیونکہ اس زمانے کے لوگ طبّ میں غالب تھے۔ پس وہ اندھوں اور برص کے مریضوں کو شفا یاب کرنے اور مردوں کوخدا کے اذن سے زندہ کرنے کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ انہیں مقہور کرکے ان پر غالب آئیں ۔ حضرت محمد(ص) کو قرآن اور شمش یر کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا گیا جب کہ اس   زمانے کے لوگ شمشیر و شعر میں ماہر تھے۔ پس وہ نورانی قرآن اور قاہر شمشیر کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ ان کے ذریعہ ان کے شعر پر غالب آئے اور اور ان کی شمشیر پر کامیاب ہو۔

اس روایت پر توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اگر موجودہ زمانہ خلاء اور خلاء کو تسخیر کرنے کا زمانہ کہلاتاہے تو حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے پاس جدید خلائی وسائل ہوں گے کہ جن کے سامنے دور حاضر کی خلائی شٹل بے ارزش ہو گی۔

۲۷۶

  آسمانوں تک رسائی

اہلبیت اطہار علیہم السلام کی حکومت کا تشکیل پانا اور آنحضرت کی عظیم قدرت کا ظہور نہ صرف دنیا کے تمام پاک سیرت لوگوں کو اپنی طرف جلب کرتا ہے بلکہ اس بابرکت باعظمت اور درخشاں دن کے بارے میں بات کرنا بھی انسانوں کے دلوں میں شوق و ولولہ پیداکرتا ہے کہ جلد از جلد وہ بابرکت زمانہ آئے ۔ ظہور کے زمانے کے حیرت انگیز واقعات میں سے ایک انسان کا آسمانوں تک رسائی خلاء میں پرواز اور دوسرے کرّات پر جانا ہے ۔ آسمان کی بلندیوں میں پرواز ، آسمانی کرّات میں نشست انسان کی دیرینہ خواہش ہے ۔ جس کے حصول کی متعدد بار کوشش کی گئی اور اس کے لئے بہت سرمایہ بھی خرچ کیاگیا ۔ آسمانوں تک رسائی ملکی و مادی لحاظ سے تھی اس سے بھی اہم نکتہ تو یہ ہے کہ اس روز انسان نہ صرف ملکی و مادّی لحاظ سے پرواز کرے گا بلکہ ملکوتی اعتبار سے بھی آسمانوں تک دسترس  حاصل کرے گا اور ملکوت آسمان کا نظارہ کرے گا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کیفیت و اہمیت کے لحاظ سے عالم ملک و ملکوت ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفاوت ہیں ۔ یعنی عالم ملک کاعالم ملکوت سے مقائسہ نہیں کر سکتے ۔عالم ملکوت کی عالم ملک پر برتری اور صالحین کی حکومت میں انسانوں کا عالم ملکوت تک رسائی پر توجہ کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان ظہور کے بابرکت زمانے میں کس ظاہری و معنوی عظمت کا مالک ہو گا ۔ وہ خوش نصیب  ہیں کہ جو زمانہ ظہور کو درک کریں گے اور اس مبارک دن میں زندگی گزاریں گے۔اسی طرح تاریک زمانے سے پُر نور زمانے میں جانے والے اور شادابی و شادمانی سے سرشار دنیا کا نظارہکرنے والے بھی خوش نصیب ہیں۔

۲۷۷

  ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر

شب معراج رسول اکرم(ص) آسمانو ں ک ی بلندیوں میں گئے اور عرش پر خدا سے ہم کلام ہوئے ۔خدا وندکریم نے حضرت مہدی علیہ السلام  کے خلائی سفر کے بارے میںرسول اکرم(ص)سے کلام ک یا ۔نہ صرف آنحضرت کے خلائی سفر بلکہ واحد عالمی حکومت ، قیامت تک اس کے تداوم پوری کائنات میں رونماہونے والے عظیم تحوّلات اور دشمنوں کے وجود سے دنیا کے پاک ہونے کی خبر دی ۔ہم یہاں ایسی ہی کچھ روایات پیش کرنے کے بعد اس بارے میں اہم ترین نکتہ بیان کرتے ہیں۔رسول اکرم (ص) نے فرما یا:''فقلت :یا ربّ هئولاء اوصیائ بعد ؟ فنودیت یا محمد؛ هئولاء اولیائ و احبّا ئ و اسفیاء،و حجج بعدک علی بریّت،وهم اوصیائک و خلفاوک و خیر خلق بعدک و عزّت و جلال لأظهرنّ بهم دین،ولأعلینّ بهم کلمت ولأطهرنّ الارض بآخرهم من اعدائ،وللاُملّکنّه مشارق الارض و مغاربها،ولاسخرنّ له الرّیاح ، ولاذلّلنّ له السحاب الصعاب ،ولا رقینّه ف الاسباب،ولانصرنّه بجند،ولا مدّنّه بملائکت،حتی یعلن دعوت،ویجمع الخلق علی توحیدی،ثمّ لادیمنّ ملکه ،ولأداولنّ الایّام بین أولیائ الی یوم القیامة '' (۱)

میں نے کہا!اے پروردگار وہ میرے بعد میرے اوصیاء ہیں؟

پس میں نے ندا سنی:اے محمد!وہ میرے اولیاء میرے دوست میرا  برگزیدہ اور آپ اور آپ کی امت پرمیری حجت ہیں اور وہ تمہارے اوصیاء تمہارے جانشین اور تمہارے بعد میری بہترین مخلوق ہیں۔ میری عزّت اور میرے جلال کی قسم ،یقیناََ میں اپنے دین کو ان کے وسیلہ سے ظاہر کروں گا اور اپنے کلمہ کو ان کے  وسیلہ سے برتر کروں گا۔یقیناََ ان میں سے آخری کے ذریعہ زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا۔حتماََ اسے زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بناؤں گا۔ہواؤں کو اس کے لئے مسخر کروں گا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۵۲ص۳۱۲

۲۷۸

سخت بادلوں کو اس کے تابع کروں گا۔اسے وسائل میںاوپر لے جاؤں گا۔  یقیناََ اپنے لشکر سے اس کی نصرت کروں گا۔اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مدد کروں گا تا کہ وہ میری دعوت کو آشکار کرے۔سب لوگوں کو توحید و یکتا پرستی پر جمع کرے گا۔پھر اس کے ملک کو پائیدار بنا کر ایّام کو قیامت تک کے لئے اپنے دوستوں میں قرار دوں گا۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس روایت میں مہم مطالب کے بارے میں بات ہوئی ہے۔اس روایت میں آئمہ اطہار علیہم السلام کی عظمت ،ان کی فضیلت و برتری ،ان کے ذریعہ دین اسلام کے ظاہر ہونے ، ان میں سے آخری کے ذریعہ زمین کو دشمنوں سے پاک کرنے ،خدا کے لشکر،ہواؤں کی تسخیر تمام مخلوق کا خدا کی توحید و یکتا پرست کے معتقد ہونے، واحد عالمی حکومت اور قیامت تک اس کے قائم رہنے کے بارے میں بیان ہوا ہے۔

  روایت میں موجود نکات

اس روایت میں ایسے نکات موجود ہیں کہ جن پر دقت و تأمل  سے بعض اہم نکات حاصل کر سکتے ہیں۔

۱ ۔ روا یت میں یہ جملہ کہ خدا نے فرمایا:''لاسخّرنّ له الریاح ولذ لّلنّ له السحاب الصعاب ، ولا رقّینّه ف الاسباب''

یہ اس نکتہ کی دلیل ہے کہ آنحضرت(ص) کا آسمانوں کی طرف صعود کرنا جسمانی ہے جیسا کہ حضرت محمد  مصطفٰی (ص)کی معراج جسمانی تھی۔یعنی آنحضرت(ص) کا آسمانوں پر جانا قالب مثالی سے نہیں ہے۔جیسا کہ آسمانوں کی بلندیوں میں صعود سے مقصودبھی روحانی صعود نہیں ہے کیونکہ اگر آنحضرت کا آسمانوں پر جاناروحانی صعود ہوتا یا قالب مثالی کی صورت میں ہوتا تو پھر سحاب صعاب یا اسباب کی ضرورت نہ  ہوتی۔کیونکہ روح یا قالب مثالی کے آسمانوں کی طرف جانے کے لئے کسی خلائی وسیلہ سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۲۷۹

۲ ۔ اس روایت سے دوسرا حاصل ہونے والا نکتہ یہ ہے کہ اگر آنحضرت  آسمانوں کی طرف جسمانی صعود کا اراسہ کریں تو اس کے لئے بھی خلائی اسباب و وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ وہ ظاہری وسیلہ یا برّاق(جو رسول اکرم(ص)سے مخصوص تھا) سے استفادہ کئے بغیر بھی جا سکتے ہیں ۔ روایت میں اسباب و وسائل سے تعبیر ہونا اس چیز کی دلیل ہے کہ آنحضرت  کا آسمانوں میں جانا کسی انحصاری  یا  ظاہری وسیلہ (جیسے برّاق) میں منحصر نہیں ہے۔ اس بناء پر وسیلہ کے تعدد اور لفظ اسباب کے جمع ہونے سے اسباب اور وسائل اس چیز میںظہور رکھتے ہیں کہ آنحضرت کسی انحصاری وسیلہ (جیسے برّاق) سے استفادہ نہیں کریں گے ۔مورد توجہ یہ ہے کہ سحاب صعاب اور سخت بادل بھی جمع کی صورت میں  بیان کئے  گئے ہیں۔

۳ ۔ اس روا یت سے یہ نکتہ بھی استفادہ کرتے ہیں کہ ظہور کے زمانے میں خلاء اور آسمان پر جانے کے لئے مختلف ذرائع ہوں گے کہ جن سے استفادہ کیا جائے گا۔اس روایت میں تین طرح سے تصریح ہوئی ہے۔

الف:  لاسخّرنّ لہ الریاح

ہواؤں کو یقیناََ اس سے تسخیر کریں گے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی عظیم بساط کے بارے میں بھی بیان ہوا ہے کہ ہوائیں ان کی بساط کو آسمان پر لے جاتیں ۔ ہواؤں اور شدید طوفان کی قدرت بہت حیرت انگیز ہے ان کی تسخیر سے مراد انہیں اپنے اختیار میں رکھنا اور ان پر مکمل  قابو ہوناہے۔ہمارے زمانے میں دانشور نہ تو طوفان کو روک سکے ہیں لیکن قرآن کریم کی آیات کی بناء پرحضرت سلیمان علیہ السلام ایسے کام کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔حضرت مہدی علیہ السلام (جو کہ ہر چیز پر ولایت رکھتے ہیں) ان پر قابو پا کر ان کے منفی آثار کو برطرف کرنے کے علاوہ انہیں تسخیر کرنے اور ان پر تسلط پا کران  سے مثبت استفادہ بھی کریں گے۔

۲۸۰

ب:  ولذلّلنّ لہ السحاب الصعاب

یقیناَ سحاب صعاب اور سخت بادلوں کو ان کے تابع کروں گا۔ہواؤں کے علاوہ نوری بادلوں اور ان کی حیرت انگیز قدرت کا ہونا واضح ہے۔

ج:  ولا رقینّہ ف الاسباب:

حتماَ وسائل میں اسے اوپر لے جاؤں گا۔قابل توجہ یہ ہے کہ اس جملہ میں ''فی'' سے استفادہ کیا گیا ہے جس کا یہ معنی ہے کہ آنحضرت خلائی وسائل میں جائیں گے اگر اسباب سے مراد سحاب صعاب ہوتا تو بھی کلمہ''علی''استعمال کیا جاتا۔کیونکہ بادلوں پر سواری کی جاتی ہے نہ کہ بادلوں میں۔

4۔ روایت میںموجود دیگر فراوان نکات کے علاوہ اس اہم نکتہ پر بھی غور کریں کہ خداوند کریم اس حدیث قدسی میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھانے کے بعد رسول اکرم(ص)کے لئے ب یان کرنے والے تمام مطالب کو ''لام اور نون '' کے ساتھ تاکید کیا ہے۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں جن واقعات کی تصریح ہوئی ہے جیسے آنحضرت  کا خلائی ذرایع سے آسمانوں پر جانا...

ان تمام واقعات کا ظہور کے زمانے میں واقع ہونا سو فیصد یقینی ہے۔جس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

5۔ روایت سے ایک اور بہتریں نکتہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ تمام صعاب بادلوںکا تسخیر ہونا  اورخلائی وسائل  فقط آنحضرت  کے ذاتی استعمال کے لئے نہیں ہیں۔بلکہ یہ وسائل فراوان ہوں گے جو اس چیز کی دلیل ہے کہ اصحاب و انصار اور آنحضرت  کے محبّ بھی ان سے استفادہ کریں گے۔

۲۸۱

 جیسا  کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے اصحاب جیسے سلمان علیہ السلام  کو آسمانوں پر لے گئے اور آسمانوںپر ان کا صعود اس حد تک تھا کہ جہاں سے زمیں اخروٹ کے برابر دکھائی دے رہی تھی۔(1)

یہ بھی واضح ہے کہ ان کا آسمانوں کی طرف صعود کرنے کا فاصلہ چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ سے زیادہ ہو گا ۔یعنی وہ چاند سے بہت دور آسمانوں میں صعود کریں گے۔کیونکہ چاند زمین سے بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اخروٹ سے بڑا دکھائی دیتا ہے۔پس ان کا زمین تک فاصلہ چاند اور زمین کے مابین  موجود فاصلے سے بہت زیادہ  ہے۔

6 ۔ ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس سے یوں نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی آفاقی حکومت پوری کائنات پر ایک عالمی عادل حکومت ہے۔ کیونکہ خدا وند متعال پہلے یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ زمین کا مشرق و مغرب ظہور کے زمانے میں آنحضرت  کے زیر تسلط اور تحت ولایت قرار دیا جائے گا اور اس کے بعد مختلف ذرائع  سے خلائی سفرکو بیان فرمایا ہے ۔ اس بناء پر ظہور کے زمانے میں ملکوت آسمانی کے علاوہ اس روزمُلک و مادّی لحاظ بھی سب کچھ آنحضرت  کے اختیار میں ہو گا۔

7۔ اس روایت سے استفادہ کیا جانے والا اہم نکتہ یہ ہے کہ آسمانوں اور خلاء کی کشادگی اور کائنات کے نظام خلقت کی عظمت کے لئے روایت میں لفظ اسباب السما وات استعمال کیا گیا ہے یہ اس چیز کی محکم دلیل ہے کہ اس زمانے میں آسمان کی بلندیوں کو طے کرنے والے خلائی وسائل کی سرعت نور سے زیادہ ہونی چاہیئے ۔ پس اسباب السما وات (آسمان کی بلندیوں کو طے کرنے والے وسائل) کی تعبیر ، نور سے زیادہ خلائی ذرائع کے وجود کو ثابت کرتی ہے ۔ یعنی جو مکان جاذبہ مادہ اور زمان کی محدودیت میں مقید نہ ہو،یہ خود خلائی ترقی کا بنیادی اصول ہے۔

--------------

[1] ۔ اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے  افراد بھی  آنحضرت کی بساط پہ بیٹھے اور وہ ہواؤں کو حکم دیتے کہ ان کی بساط کو تمام افراد کے ساتھ  ہوا میں اوپر لے جائے ۔یہ واقعہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔

۲۸۲

  آسمانی مخلوقات سے آشنائی

آسمانی موجودات ومخلوقات سے آشنائی خلائی سفر کا لازمہ ہے ۔ کیونکہ آسمانوں میں بھی مخلوقات زندگی گزار رہی ہیں ۔ آئمہ اطہار علیہم السلام نے اپنے فرامین میں کہکشاؤں میں موجود آسمانی مخلوقات کے بارے میںبتایا ہے ۔ ان رویات میں سے ایک یہ ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' قال امیر المٔو منین : لهذه النجوم الّتی فی السماء مدائن مثل المدائن الّتی  فی  الارض'' (1)

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:آسمانوں میں موجود ستاروں کے لئے شہر ہیں ،جیسا کہ زمین پر شہر موجود ہیں۔

یہ روایت واضح طور پر یہ حقیقت بتا رہی ہے کہ آسمان میں موجود فراوان ستاروں میں بھی آسمانی موجودات و مخلوقات زندگی گزار رہی ہیں۔جس طرح انسان نے زمین پر شہر بنا رکھے ہیں ،اسی طرح وہاں بھی شہر اور عمارتیں ہیں۔

دوسری روایت میں ابو بصیر کہتا ہے:

'' سألته عن السماوات السبع، فقال :سبع سماوات لیس منها سماء الّا و فیها خلق،و بینها و بین الاخری خلق حتی ینتهی الی السابعة ؛ قلت: والارض

قال: سبع منهنّ خمس فیهنّ خلق من خلق الربّ، واثنتان هواء لیس فیهما شء ''(2)

--------------

[1]۔ بحار الانوار :ج۵۸ص۹۱

[2] ۔ بحار الانوار :ج۵۸ص۹۷

۲۸۳

میں نے امام صادق علیہ السلام سے سات آسمانوں کے بارے میں پوچھا  تو امام  نے فرمایا:سات آسمان ہیں کہ جن کے درمیان کوئی آسمان نہیں ہے، مگر یہ کہ اس میں کوئی مخلوق نہ ہواور اس آسمان اور دیگر آسمان کے درمیان مخلوقات موجود ہیں۔یہاں تک کہ یہ ساتویں آسمان پر منتہی ہو۔

میں نے پوچھا کہ زمین کیسی ہے؟

فرمایا:زمین بھی سات ہیں جن میں سے پانچ میں مخلوقات رہتی ہیں ۔ دوسری دو میں ہوا ہے اور ان دونوں میں کوئی چیز موجود نہیں ہے۔

دنیا اپنے وسائل کی بہت تبلیغات کرتی ہے اور ہمیشہ تکامل و ترقی کا دم بھرتی ہے ۔لیکن ابھی تک کوئی ایسا وسیلہ موجود نہیں ہے کہ جس کی رفتار نور سے زیادہ ہو ۔ اگر فرض کریں کہ ایسا کوئی وسیلہ حاصل ہوجائے تو بھی دوسرے کرّات تک پہنچنے کے لئے کیا کرنا ہو گاکہ جو ہم سے کروڑوں نوری سال کی دوری پر واقع ہیں ۔ اس کے لئے کروڑوں سال کی زندگی درکار ہو گی۔یہ خود اس چیز کی واضح دلیل ہے کہ دور دراز کے کرّات اور خلاء میں سفر کرنے کے لئے مافوق مادہ قدرت درکار ہے ۔ یہ سب ایسے نکات ہیں کہ جن کی طرف خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام نے کئی صدیاں پہلے اشارہ کیا تھا۔

  مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ

قرآنی آیات اور خاندان نبوت علیہم السلام سے ہم تک پہنچنے والی روایات میں متعدد موارد میں مافوق مادّہ قدرت کے بارے میں بات کی گئی ہے۔یعنی قرآن و روایات کے اعتبار سے نہ صرف مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ کرنا ممکن ہے ،بلکہ یہ متعدد موارد میں واقع بھی ہواہے۔جو عملی صورت میں انجام پایا ہے۔

۲۸۴

رسول اکرم(ص)اور اہلب یت اطہار علیہم السلام نے لوگوں کے لئے جو غیر معمولی اور پیشرفتہ برنامہ اجراء کئے ہیں ،ان میں صرف مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ کرنے کی بات نہیں کی گئی بلکہ معاشرے  کے لئے اس کے وقوع کو بھی بیان کیا ہے۔

قرآن میں ایسے عالی نکات موجود ہیں کہ جن میں سے ایک مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ بلکہ اس کا وقوع بھی ہے۔گزشتہ زمانے میں مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ کیا جاتا تھا ،قرآن مجید نے اس کے متعدد نمونے پیش کئے ہیں۔

خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام سے ہم تک پہنچنے والی بہت سی روایات میں بھی ان کی تصریح ہوئی ہے ۔ ظہور  کے زمانے میں انسانی معاشرہ فکری و معنوی تکامل سے بہرمند ہو گا ۔ اس زمانے میں مافوق مادّہ قدرت سیفائدہ اٹھانا اپنی اوج پر ہو گا۔ ظہور کا زمانہ مافوق مادّہ قدرتوں سے مستفید ہونے کا زمانہ ہے۔

وَالسَّلام

۲۸۵

فہرست

انتساب. 3

مقدمہ مترجم 4

پیش گفتار 8

پیش گفتار : 9

بہترین فکر ''انتظار'' میں پوشیدہ ہے.. 10

ظہورکے بارے میں سوچنا 11

امام مہدی علیہ السلام کے مقام سے آشنائی 15

ظہور کے درخشاں زمانے سے آشنائی 16

اس کتاب کی تألیف کا مقصد 19

لازم تذکرہ 19

۲۸۶

پہلاباب. 21

عدالت. 21

عدالت پیغمبروں کا ارمان. 22

معاشرے میں عدالت یا عادلانہ معاشرہ؟ 23

عصرِ ظہوراور عدالت. 24

عدالت کی وسعت. 25

دنیا کی واحد عادلانہ حکومت. 27

عدالت کا ایک نمونہ 31

ہر طرف عدالت کا بول بالا 33

عدالت کا نفاذ اور حیوانات میں  بدلاؤ 33

حیوانات کا رام ہونا 34

حیوانات پر مکمل اختیار 40

۲۸۷

الیکٹرک پاور سے بڑی قوّت. 42

ایک اہم سوال اور اس کا جواب. 44

حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کا تابناک نور 45

حیوانات کی زندگی پر تحقیق. 45

دوسراباب. 48

قضاوت. 48

قضاوت کے بارے میں بحث. 49

آغاز ظہور میں قضاوت اپنی اوج پر(1) 50

ظن و گمان کی بنیاد پر قضاوت. 53

قضاوت میں فہم و فراست. 54

قاضی کو حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی قضاوت سے درس لینا 55

قضات، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے قضاوت سیکھیں. 55

۲۸۸

حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام 62

بحث روائی 63

قضاوتِ اہلبیت علیہم السلام اور حضرت دائود علیہ السلام 65

امام مہدی علیہ السلام کے فیصلے 68

قائم آل محمد  علیہ السلام کس چیز سے قضاوت کریں گے؟ 69

زمانِ ظہور میں امام عصر علیہ السلام کے قاضیوں کے فیصلے 74

بحث کے اہم نکات. 77

تیسراباب. 79

اقتصادی ترقی 79

ظہور کے زمانے میں اقتصادی ترقی 80

کنٹرول کی قدرت. 84

دنیا میں ، 800  ملین سے زائد بھوکے 88

۲۸۹

نرخوں  میں  اضافہ 90

نعمتوں سے سرشار دنیا 92

زمانۂ ظہور میں برکت. 94

دنیا کے روشن مستقبل کے بارے میں رسول اکرم (ص)کی بشارت. 97

دنیا میں خوشیاں ہی خوشیاں. 99

شرمساری. 102

چوتھا باب. 104

بیماریوں کا خاتمہ 104

بیماریوں کاخاتمہ 105

قوّت و طاقت کا دوبارہ ملنا 107

انسان بیماریوں کا خاتمہ کرنے سے عاجز 109

پانچواں  باب. 114

۲۹۰

عقلی  تکامل. 114

عقلی تکامل. 115

وجود انسان میں بدلاؤ ضروری ہے.. 116

امام مہدی علیہ السلام اور عقلی تکامل. 118

کون انسان کے وجود میں بدلاؤ پیدا کرسکتا ہے؟ 118

اتحاد و یگانگت سے سرشار دنیا 121

عصر ظہور میں تکامل عقل کی وجہ سے ناپسندیدہ صفات پر غلبہ 123

عالم غیب سے ارتباط 127

غیب کا مظہر کامل. 128

مرحوم سید بحر العلوم کی زندگی کے کچھ اہم واقعات. 129

علامات و نشانیاں. 132

ایک عام انسان اور حیرت انگیز دماغ. 133

۲۹۱

اسے یہ قدرت کیسے حاصل ہوئی؟ 134

کسی انجان چیز کا اس کے دماغ میں بدلاؤ ایجاد کرنا 135

دوسری زبان میں کلام 136

کسی انجان قوّت کا اس کے دماغ کو مطلع کرنا 137

کیا یہ چھٹی حس کوئی ہدیہ و تحفہ تھی یا کوئی تکلیف؟ 137

بے زبانوں سے گفتگو 138

ریڈار کے نام سے پروگرام 139

عقل کی آزادی. 141

سالم فطرت کی طرف لوٹنا 142

کیا ظہور سے پہلے عقلی تکامل کا حصول ممکن ہے؟ 143

کیا یہ عقیدہ صحیح ہے ؟ 144

دماغ کی قوّت و طاقت. 145

۲۹۲

غیر معمولی حافظہ دماغ کی عظیم قدرت کی دلیل. 148

دماغ کا ما فوق فطرت، قدرت سے رابطہ 150

ریاضی کے یہ عجوبہ کس چیز سے مدد لیتے ہیں ؟ 150

جدید علم کی نظر میں عقلی تکامل. 151

عقلی تکامل اور ارادہ 152

چھٹا باب. 154

معنوی تکامل. 154

معنوی تکامل. 155

انسان کا معنوی و مادّی پہلو 156

ہماری ذمہ داریاں. 158

تکامل کی دعوتِ عام 160

امر عظیم 163

۲۹۳

امر عظیم کیا ہے؟ 166

معارف الٰہی 169

زبان رسول اکرم (ص)سے زمانہ ظہور کے لوگ.. 170

محسوس اور غیر محسوس دنیا میں حکومت. 172

عالم ملک و عالم ملکوت. 174

وہ کس طرح عالم ملکوت سے غافل تھے؟ 175

عالم ملکوت تک رسائی یا زمانہ ملکوت کی خصوصیات. 175

اہم نکتہ یا احساس ظہور 178

غیرت مندوں سے خطاب. 179

زمانہ ٔ ظہور اطمینان کا زمانہ 180

عصر ظہور،عصر حضور 182

ساتواں باب. 184

۲۹۴

تکامل علم و فرہنگ. 184

عصر ظہور یا عصر تکامل علم و فرہنگ. 187

خاندان نبوت علیہم السلام کی نظر میں مستقبل میں علمی ترقی 188

روایت کے اہم نکات. 189

روایت کی تحلیل. 191

پیغمبروں کے زمانے سے اب تک مشترکہ پہلو 193

حصول علم کے دیگر ذرائع 197

1۔ حس شامہ 197

2۔ حس لامسہ 198

3۔ حس ذائقہ 198

4۔ حواس کے علاوہ دیگر ذرائع سے علوم سیکھنا 199

زمانہ ظہور میں حیرت انگیز تحوّلات. 200

۲۹۵

خاندانِ اہلبیت علیہم السلام کا علم 201

علوم کے حصول میں امام مہدی علیہ السلام کی راہنمائی 204

حصولِ علم میں حضورِ امام مہدی علیہ السلام کے اثرات. 207

زمانۂ ظہور کی ایجادات. 210

اس بارے میں زیارت آل یٰس کے بعد دعا سے درس. 211

واحد عالمی حکومت. 212

ظہور یا نقطہ آغاز 215

دین یعنی حیات اور صحیح ترقی یافتہ تمدّن. 216

صحیح اور جدید ٹیکنالوجی فقط دین کے زیر سایہ ممکن ہے.. 220

موجود ایجادات میں نقص.. 221

عصر ِ ظہور میں قدرت کے حصول کی تحلیل. 223

روایت میں تفکر 226

۲۹۶

موجودہ صنعت پر ایک نظر 232

زمانۂ ظہور اور موجودہ ایجادات کا انجام 236

مضر ایجادات کی نابودی. 236

علم دنیا کی رہبری نہیں کر سکتا 238

دنیا کا مستقبل اور عالمی جنگ. 240

ایٹم کے علاوہ دوسری منفی اور مضر ایجادات. 244

پہلی قسم کی ایجادات. 245

آئن اسٹائن کا ایک اور واقعہ 245

آئن اسٹائن کا دوسرااشتباہ 246

آئن اسٹائن کی خطا 248

ادینگتون کی غلطی 249

ارسطو، کپرنیک اور بطلمیوس کی خطائیں. 250

۲۹۷

ارشمیدس کا اشتباہ 252

تیسری قسم کی ایجادات. 252

جنگی آلات سے بے نیازی. 253

دوسری قسم کی ایجادات. 255

علم دنیا مشکلات حل نہیں کر سکتا 255

علم ودانش سوداگروں کا آلہ کار 258

علم کی محدویت. 259

مغرب کی تبلیغات. 260

پوزیدونیوس کا اشتباہ 261

کس کی پیروی کریں؟ 261

آٹھواں باب. 263

خلائی سفر 263

۲۹۸

خلائی سفر 264

کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت. 264

کہکشاں. 266

سو بیلین دم دار ستارے.. 267

دو سو پچاس بیلین سورج. 267

کھربوں کہکشاں. 268

دنیا میں تمدّن. 268

کہکشاؤں میں تمدّن. 269

دور حاضر میں خلائی سفر 270

دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات. 272

خلائی سفر کا امکان. 273

اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر 275

۲۹۹

آسمانوں تک رسائی 278

ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر 279

روایت میں موجود نکات. 280

الف:  لاسخّرنّ لہ الریاح. 281

ب:  ولذلّلنّ لہ السحاب الصعاب. 282

ج:  ولا رقینّہ ف الاسباب: 282

آسمانی مخلوقات سے آشنائی 284

مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ 285

۳۰۰