امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت13%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180652 / ڈاؤنلوڈ: 4528
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

چراغ الفت

ظہور کا وقت آ گیا ہے امامؑ سے ''لو'' لگائے رکھنا

ظہور کا وقت آ گیا ہے حرم پہ نظریں جمائے رکھنا

ظہور کا وقت آ گیا ہے چراغ الفت جلائے رکھنا

نہ نیند آئے، نہ اونگھ آئے رکھو ہر ایک پر نظر جمائے!

دل و نظرسے کہ سامرہ سے نہ جانے کس راستے سے آئے

ظہور کا وقت آ گیا ہے ہر ایک رستہ سجائے رکھنا

نہ حبّ دنیا سے کچھ لانا ، نہ غیر سے راہ و رسم رکھنا!

تمہاری دولت ہے علم و تقویٰ ،کرے گا دجال اس پہ حملہ

ظہور کا وقت آ گیا ہے تم اپنی پونجھی بچائے رکھنا

یہیں کہیں ، آس پاس ہو گا، وہ آنے ولا آ چکا ہے

حواری عیسیٰ کے ساتھ ہونگے ،موالی مولا کے ساتھ ہونگے

ظہور کا وقت آ گیا ہےموالیوں سے بنائے رکھنا

ہے انتقام ِحسینؑ باقی وہ آنے والا حساب ہو گا

عقیدہ اپنا درست رکھناجو ان کے نصرت کی ہے تمنا

ظہور کا وقت آ گیا ہے عمل کو بھی آزمائے رکھنا

سوائے چند دن ظہور کی سب علامتیں پوری ہو چکی ہیں

بصیرت و معرفت تمہاری عدوئے حق کو کٹک رہی ہے

ظہور کا وقت آ گیا ہے دل و نظر کو بچائے رکھنا

نئے نئے نغمھائے الفت جو روز کہہ کہہ کے لا رہے ہو

پڑھے ذیارت جو سبطہ جعفر ؔ امام ؑ کے در پَرا پڑے ہو

ظہور کا وقت آ گیا ہے تم اپنا بستر لگائے رکھنا(۱)

____________________

(۱) پروفیسر سبط جعفر زیدیؔ

۱۲۱

نور فروزان

اے شمع دل و دیدۀ احرار کہاں ہو

اے نور فروزانِ شبِ تار کہاں ہو

اے باغ رسالت کے حسین پھولوں کا دستہ

اے وارث پیغمبر مختار ؐ کہا ں ہو

مظلوم و ستم دیدہ و بے چارہ ہوئے ہم

اے حامی و اے مونس وغمخوار کہاں ہو

اس دور میں ہے جان ہتھیلی پہ ہماری

مشکل میں ہے جینا میرے دلدار کہاں ہو

ہے عشق کے ہونٹوں پہ سدا نام تمہارا

ہم سب ہیں تیرے طالب دیدار کہاں ہو

چھائی ہے گھٹا ظلم کے تاریک ہے دنیا

اے شمع عدالت کے نگہدار کہاں ہو

آمادۀ حرکت ہے تیرے قافلہ والے

بس یہ ہے صدا قافلہ سالار کہاں ہو

اے منتقم خون شہیدان رۀ حق

اے نوحہ گر زینب ؑ غمخوار کہاں ہو

اے مہدی موعود ؑ امم ، حاکم برحق

اے زمزمۀ عالمِ افکار کہاں ہو

مرجاؤں تو رجعت کی ہے امید اے آقا

اطہرؔ کو عطا ہو تیرا دیدار کہاں ہو؟(۱)

____________________

(۱) از کلام سید سجاد اطہرؔ موسوی

۱۲۲

مہدیؑ کا انقلاب

ظلم و ستم مٹائے گا مہدیؑ کا ا نقلاب

امن و امان لائے گامہدیؑ کا انقلاب

خوشبو دہر میں پھیلے گی نرگس کے پھول کی

بن کر بہار آئے گا مہدیؑ کا انقلاب

طوفاں ہیں ظلم و جور کے اپنے عروج پر

طوفاں میں مسکرائے گامہدیؑ کا انقلاب

ہر داغدیدہ ہے ابھی شدت سے منتظر

داغ جگر مٹائے گا مہدیؑ کا انقلاب

جو آتش سقیفہ سے روشن ہوئے دئے

ان سب کو آبجھائے گا مہدیؑ کا انقلاب

جتنی عمارتیں ہیں بقیع کے نواح میں

سب خاک میں ملائے گا مہدیؑ کا انقلاب

عدل و صفا کی ہو گی حکومت جہان پر

مظلوم کو بسائے گا مہدیؑ کا انقلاب

۱۲۳

گردن کشو نہ بھولنا تم انتقام کو

یہ گردنیں جھکائے گا مہدیؑ کا انقلاب

آمادہ رہنا شیعو! تم نصرت کے واسطے

شیعوں کو آزمائے گا مہدیؑ کا انقلاب

مکہ سے ا بتداء ہے اسی انقلاب کی

سارے جہاں پہ چھائے گا مہدیؑ کا انقلاب

خوش ہو کے سیدهؑ تجھے نقویؔ کریں دعا

محفل میں جب سنائے گا مہدیؑ کا انقلاب(۱)

____________________

(۱) حجۃ الاسلام سید تحریر علی نقوی صاحب

۱۲۴

میرا امامؑ

میری بےچارگی کا تیری ماتم مدام ہے

اظہار عشق کیا کروں عشق خام ہے

اس نے تو اپنے حسن کا جادو دکھا دیا

میری طرف سے اس کو درود و سلام ہے

وہ توچلے گئے ہیں بڑی خاموشی کے ساتھ

دل میں میرے جدائی کا ماتم مدام ہے

کتنی حسین شمع کی محفل تھی جب وہ تھے

جب وہ گئے تو اپ نہ سحر ہے نہ شام ہے

جانے سے اس کے گھر کا نقشہ ہی بدل گیا

ایک لحظہ مجھ کو آنکھ جھپکنا حرام ہے

اس کے ہی دم سے ہے یہ چراغوں میں روشنی

جب وہ نہ ہو تو زندگی کا کیا نظام ہے

شام و سحر ہے میری نگاہوں میں سامرا

میں جس کا منتظر ہوں وہ میرا امامؑ ہے(۱)

____________________

(۱) شیخ محمد حسین بہشتیؔ (٢٨رمضان المبارک ١٤٣١ھ مشہد مقدس)

۱۲۵

کون و مکاں

امام عصر مہدیٔ جہاں ہے

انہیں کے نام یہ کون و مکاں ہے

انہیں کے دم سے ہے تابندہ عالم

انہیں کے نام یہ ارض و سماں ہے

یہی تو باب رحمت باب حق ہے

یہی تو رحمتوں کا آستاں ہے

نہیں پوشیدہ کوئی راز ان سے

یہی ارض و سماء کا رازداں ہے

درِ مہدی ؑ بھی جنت ہی کا در ہے

فرشتوں کا بھی تو یہ ہی مکاں ہے

ہے جب تک دم تیرا ہی ذکر ہو گا

تیرے ہی نام بس وردِ زباں ہے

زمانہ اب بدلتا جا رہا ہے

نہ گلشن ہے نہ کوئی باغباں ہے

ہے عالم منتظر مہدیؑ زماں کا

ظہور اپنا دکھا آ ! تو کہاں ہے

منافق پھر سے سر گرم عمل ہے

مسلماں وقتِ شمشیر و سناں ہے

۱۲۶

دھماکے ہو رہے ہیں ہر جگہ پر

مسلماں ڈھوب مرنے کا مکاں ہے

کبھی ان کو نہ تو ا پنا سمجھنا

لگانا مت گلے آتش فشاں ہے

مٹانے کو تُلے ہیں تجھ کو یہ سب

تیری جرأ ت تیری غیرت کہاں ہے

اٹھا یا سر ہے پھر سے کوفیوں نے

تیرا آنا ضروری اب یہاں ہے

عجب منظر فقط میری نظر میں

اگر ہے تو تیرا ہی آستاں ہے

میرے مولا میری جان تمنا

بہ جز تیرے مجھے جانا کہاں ہے

میری کشتی میرا طوفاں ہے تو

تو ہی تو میرا بحرِ بیکراں ہے

بیاں ان کا کریں کیا ہم بہشتیؔ

بہت رنگین ان کی داستاں ہے

ذرا فریاد کر دل سے بہشتیؔ

بدلتا کیوں نہیں طرزِ فغاں ہے(۱)

____________________

(۱) نتیجہ فکر: شیخ محمد حسین بہشتیؔ (١٩رمضان المبارک ١٤٣١ھ مشہد مقدس)

۱۲۷

میر کارواں

سلگتا ہوں میں ایسے جس طرح آتش فشاں اے دوست

رہا ہوں میں ہمیشہ غم کا تیرے پاسباں اے دوست

تیرے ہی نام سے وابستہ ہے یہ زندگی میری

تجھے میں چھوڑ کر جاؤں بھی تو جاؤں کہاں اے دوست

بڑی مدت سے تیری کھوج میں سرگرداں ہے یہ دل

تیرا ہی فکر ہے دل میں تجھے پاؤں کہاں اے دوست

کہاں تو اور کہاں میں در بدر ، آوارہ، بےچارہ

میں ہوں خار مغیلا تو ہی ہے گل ستاں اے دوست

بہشتی ؔ چھوڑ کر چوکھٹ تیری جائیں کہاں بتلا

کہاں پیدا کرے گا تیرے جیسا مہرباں اے دوست

میں ایک بھٹکا ہوا راہی ہوں رستہ سے ہوں بیگانہ

۱۲۸

نمایاں کر میری آنکھوں کو منزل کے نشاں اے دوست

کرم کرنا تیری خُو ہے تو ہی تو باب ِ رحمت ہے

مجھے بھی ساتھ لے لے تو ہے میر کارواں اے دوست

میرا مقصدہے تو تیرا ہی ہر دم نام ہے لب پر

تو ہی ہے زندگی میری تو ہے روح رواں اے دوست

تیرے دامن سے میں لپٹا ر ہوں گا تو بتا کیسے؟

گریں گی کس طرح آکر کہ مجھ پر بجلیاں اے دوست

تیرے قدموں میں رہنے سے مجھے مل جائے گا رتبہ

میں ہوں شبنم کا قطرہ تو ہے بحر بیکراں اے دوست

ہزاروں داغ دل میں یوں چھپائے ہیں بہشتیؔ نے

تڑپتا ہی رہا پھر بھی نہ کی آہ و فغاں اے دوست(۱)

____________________

(۱) نتیجہ فکر: شیخ محمد حسین بہشتیؔ (١٤شعبان المعظم ١٤٣١ھ مشہد مقدس)

۱۲۹

اے گل نرجس

''صدف غیبت کا کھل جائے ہویدا ہو رخ ِ انور''

بڑی مدّت سے ہیں بیتاب نظر آ ا ب تو اے اختر

کہاں شمس و قمر او ر تو کہاں اے نور یزدانی

تیرے ہی نام کےچرچے ہیں اس عالم میں سرتا سر

تیرا آنا زمانے کے لئے ایک ابر رحمت ہے

تو ہی رحمت کا سر چشمہ تو ہی ہے مخزن گوہر

تیر ا آنا خدا کی رحمتوں کا سا تھ لانا ہے

خلائق کو دکھا دیں اب ذ را آ کر تیرے جوھر

یہ بارش ہو رہی ہے ہر طرف تیری محبت کی

تیرا ہی جلو ۀ عالم میں نظر آتا ہے سر تا سر

ترستے پھر رہے ہیں عالم کون ومکاں میں سب

تیری ہی جستجو ، تیرا تصوّر ساتھ میں لے کر

تیرا ہو نا یہا ں پر اے شہ والا ضروری ہے

عجب حالت ہے اب اس خاک داں کی اے میرے دلبر

تیرے ہی منتظر ہیں سب تو ہی تو مظہر حق ہے

تو ہی شمشیرِ یزداں ہے تو ہی ہے نعرۀ حیدر

سبھی تشنہ لبوں کو جا م دے خود اپنے ہا تھوں سے

شرابِ ناب سے سیراب کر اے سا قیئ کوثر

فقط چہرہ دکھا دیں آپؑ اپنا اے گل ِ نرجس

شمع گل ہو ہی نہ جائے بہشتی ؔ کو یہی ہے ڈر(۱)

____________________

(۱) نتیجہ فکر: شیخ محمد حسین بہشتیؔ (٠٩شعبان المعظم ١٤٣١ھ مشہد مقدس)

۱۳۰

فہرست منابع مآخذ

۱. قرآن مجید

۲. کمال الدین وتمام النعمۃ محمد ابن علی ابن بابویہ

۳. کلمۃ الامام المہدیؑ سید حسین شیرازی

۴. اثبات الرجعۃ فضل ابن شاذان

۵. دارالسلام شیخ محمود میثمی عراقی

۶. نجم الثاقب نوری طبرسی

۷. عصر غیبت مسعود پوسید آقائی

۸. مکیال المکارم موسوی اصفہانی

۹. مہدی موعود باقر مجلسی ؒ

۱۰. اثبات ھداۃ حر عاملی

۱۱. ارشاد العوام کریم خان کرمانی

۱۲. اصالۃ المہدویۃ فی الاسلام مہدی فقیہ ایمانی

۱۳. الامام المہدی عند اہل السنۃ مہدی فقیہ ایمانی

۱۴. تاریخ غیبت کبریٰ شہید سید محمد صدر

۱۵. بحار الانوار علامہ مجلسی

۱۶. منتخب الاثر فی الامام الثانی عشر صافی گلپائیگانی

۱۷. حیاۃ الامام محمد المہدی باقر شریف قرشی

۱۸. الامام المہدی علی محمد دخیل

۱۹. خورشید مغرب محمد رضا حکیمی

۲۰. صحیفۃ المہدی جواد قیومی اصفہانی

۲۱. شیعہ در اسلام علامہ محمد حسین طباطبائی

۲۲. ملل ونحل علامہ جعفر سبحانی

۱۳۱

۲۳. امام مھدی ؑو آئینہ زنگی مہدی حکیمی

۲۴. امام زمان ؑ(سورہ ولعصر) عباس راسخی نجفی

۲۵. آشنائی با امام زمان ؑ علامہ سید محسن امین

۲۶. انتظار در آئینہ شعری محمد علی سفری

۲۷. یوسف زہرا مہدی صاحب زمان ؑ حبیب اللہ کاظمی

۲۸. پاسدار اسلام (مجلہ ) دفتر تبلیغات اسلامی

۲۹. چہل حدیث در شناخت امام زمان ؑ

۳۰. حکومت مہدی ؑ نجم الدین طبسی

۳۱. فروغ تابان ولایت محمد محمدی اشتہاردی

۳۲. خور شید تابناک جواد عقیلی پور

۳۳. در انتظار مہدی موعود ؑ ابراہیم شفیعی سروستانی

۳۴. داغ شقائق علی مہدوی

۳۵. سیمائے امام زمان ؑ محمد مہدی تاج لنگرودی

۳۶. سفیران امامؑ عباس راسخی نجفی

۳۷. علامات ظہور مہدی ؑ علامہ طالب جوہری

۳۸. ظہور نور سید محمد جواد وزیری فرد

۳۹. بعثت ،غدیر ، عاشورہ ، مہدیؑ محمد رضا حکیمی

۴۰. مہدی منتظر اور اسلامی فکر محمد تقی

۴۱. موعود ادیان آیت اللہ منتظری

۴۲. مہدی ترح برائے فرداہ حسن پور ازغدی

۴۳. نقش امام زمان ؑدر زندگیئ من شیخ مہدی محقق

۴۴. مہدویت و دانشمندان عامہ بیان معرفت

۴۵. مجلهٔ ظہور (۲۰۰۷، ۲۰۰۸) شیخ محمد حسین بہشتی

۱۳۲

فہرست

مقدمہ: ۴

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں ۴

امام مہدی ؑکا مختصر تعارف ۸

ولادت کیسے ہوئی؟ ۸

دعائے تعجیل ظہور امام مہدی ؑکے فوائد ۱۱

وظائف منتظران ۱۳

معصومین کے اسماء او ر القاب تشریفاتی اورتعارفی نہیں ہیں: ۱۵

لقب اور کنیت میں فرق: ۱۶

کنیت: ۱۶

لقب : ۱۶

امام عصر علیہ السلام کے لقب مہدی کیوں ہیں؟ ۱۶

لوگ امام مہدی علیہ السلام کے مقابل ہوگا یا ساتھ ہونگے؟ ۱۹

بقیۃ اللہ خیر لکم سے مراد کون ہے؟ ۲۰

آلودگیوں کی وجہ سے دعا کا مستجاب نہ ہونا : ۲۰

دنیا کی آخرین حکومت: ۲۳

امام مہدی ؑ کےکنیت اور القاب: ۲۵

موعود: ۲۶

قائم: ۲۶

منتقم: ۲۶

۱۳۳

منتظر: ۲۶

امام غائب: ۲۷

صاحب الامر: ۲۷

صفات و خصوصیات: ۲۷

مہدی ؑفرزند فاطمہ سلام اللہ علیہا ہيں ۲۷

حضرت امام مہدی (عج) قرآن میں : ۳۱

حضرت امام مھدی (عج) حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑکی نگاہ میں : ۳۳

حضرت امام مھدی (عج) حضرت امام سجاد ؑکی نظر میں : ۳۴

حضرت امام مہدی(عج) امام محمد باقر ؑکی نظر میں ۳۵

حضرت امام مہدی(عج) امام موسیٰ کاظم ؑکی نظر میں : ۳۶

حضرت امام مہدی(عج)امام رضا ؑکی نظرمیں : ۳۷

حضرت امام مہدی (عج) امام حسن عسکری ؑکی نظر میں : ۳۸

حضرت امام مہدی(عج) شیعوں کی نظر میں ۳۹

حضرت امام مہدی(عج) اہل سنّت کی نظر میں ۴۰

ابن ابی الحدید ۴۱

علاّمہ خیرین آلوسی ۴۲

حذیفہ ۴۳

حضرت امام مہدی ؑکے بارے میں اہل سنّت کی لکھی ہوئی کتابیں : ۴۴

امام زمان ؑ کی ابتدائی دنوں کے مشکلات ۴۵

نور خدا کفر کے حرکت پر خندہ زن پھونکوں سے یہ نور بجھایا نہ جائے گا ۴۷

۱۳۴

غیبت کا آغاز ، غیبت صغریٰ ، غیبت کبریٰ ۴۷

الف۔ غیبت کا آغاز ۴۷

ب۔ غیبت صغریٰ و غیبت کبریٰ ۴۸

غیبت صغریٰ ۴۹

نوّاب امام مھدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا تعارف: ۵۳

١۔ عثمان بن سعید عَمری ۵۳

٢۔ محمد بن عثمان ۵۴

٣۔ حسین بن روح نوبختی ۵۴

٤۔ علی بن محمد سمری ۵۴

غیبت کبریٰ کے ظاہری اسباب ۵۵

حضرت امام زمان علیہ السلام کے طول عمر ۶۱

حضرت امام مھدی ؑکے بارے میں ذکر شدہ احادیث کی تعداد ۶۴

حضرت امام زمان علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر ۶۵

امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ظہور ۶۷

حضرت امام مہدی ؑکے ظہور کی جگہ: ۶۸

ظہور امام مہدی ؑکی حتمی علامات ۶۹

١۔ خروج سفیانی ۷۱

٢۔ لشکر سفیانی کا سرزمین بیداء میں دھنس جان ۷۲

٣۔ صیحۀ آسمانی ۷۲

٤۔ نفس ذکیہ ۷۴

۱۳۵

۵. خروج یمانی ۷۵

خروج سید حسنی ۷۶

حضرت امام مھدی ؑکے ظہور کی غیر حتمی علامتیں ۷۸

حضرت امام رضا ؑکے کلام میں علائم ظہور ۷۹

حضرت ولی اللہ الاعظم امام مہدی ؑکے وفادار ۸۰

حضرت امام مہدی ؑکے پیاروں اور یاروں کو خوش خبری ۸۱

غیبت کے زمانے میں منتظرین امام ؑکی ذمہ داریاں ۸۱

حجت خدا اور امام مہدی ؑکی معرفت ۸۲

تزکیہ نفس اور اخلاقی تربیت ۸۳

امام ؑسے قلبی محبت رکھنا ۸۴

ظہور پُرنور حضرت حجت ؑکے لئے تیاری ۸۷

حضرت امام مہدی ؑکے انتظار کی جزاء ۸۷

حضرت امام مہدی ؑکے ظہور کی تعجیل کے لئے دعا: ۸۸

دعا کے لئے مناسب مقامات: ۸۸

حضرت امام مہدی ؑکیسے قیام فرمائیں گے؟ ۸۹

سب سے پہلے حضرت ؑ کے ہاتھ بیعت کرنے والے ۹۰

حضرت ؑکے پروگرام تلوار کے سایہ میں : ۹۱

مساوات و برابری ۹۳

مستضعفین کی حکومت ۹۴

انسانوں کی ذہنی اور فکری تربیت ۹۴

۱۳۶

بیس احادیث امام زمان ؑکے بارے میں : ۹۵

حدیث نمبر ١: ۹۵

حدیث نمبر ٢: ۹۶

حدیث نمبر ٣: ۹۷

حدیث نمبر ٤: ۹۸

حدیث نمبر ٥: ۹۹

حدیث نمبر ٦: ۱۰۰

حدیث نمبر ٧: ۱۰۱

حدیث نمبر ٨: ۱۰۲

حدیث نمبر ٩: ۱۰۳

حدیث نمبر ١٠: ۱۰۴

حدیث نمبر ١١: ۱۰۵

٢۔ غیبت کبریٰ ۱۰۵

حدیث نمبر ١٢: ۱۰۶

حدیث نمبر ١٣: ۱۰۷

حدیث نمبر١٤: ۱۰۹

حدیث نمبر١٥: ۱۱۰

حدیث نمبر١٦: ۱۱۱

حدیث نمبر١٧: ۱۱۲

حدیث نمبر١٨: ۱۱۳

۱۳۷

حدیث نمبر١٩: ۱۱۴

حدیث نمبر٢٠: ۱۱۵

امام مہدی ؑکے بارے میں کچھ اشعار ۱۱۶

آثار انقلاب ۱۱۷

چراغ الفت ۱۲۱

نور فروزان ۱۲۲

مہدیؑ کا انقلاب ۱۲۳

میرا امامؑ ۱۲۵

کون و مکاں ۱۲۶

میر کارواں ۱۲۸

اے گل نرجس ۱۳۰

فہرست منابع مآخذ ۱۳۱

۱۳۸

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کیا انسان کو کسی ایسے رہبر کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جس کے سامنے کائنات کے تمام اسرار آشکار ہوں اور جسے دنیا کی تمام موجودات کا علم ہو یا کسی ایسے دانشور کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جو خود اپنے جہل و عجزکا اعتراف کرے اور اپنے علم کو اپنے مجہولات کے سامنے بہت کم سمجھے؟مثال کے طور پر'' اسحاق نیوٹن ''کہ جسے دنیا کے بزرگ دانشوروں میںشمار کیا جاتا ہے ، وہ اس بارے میں کہتا ہے :

مجھے نہیں  معلوم کہ میں دنیا کی نظروں میں کیا ہوں؟لیکن جب میں آنکھوں سے خود کو دیکھوں تو میں ایک ایسے بچے کی مانند ہوں کہ جو ساحل سمندر پر کھیل کود میں مشغول ہو اور خوبصورت سنگریزوں کو دوسرے سنگریزوںاور صدف کو دوسرے گوہرسے تمیز دینے میں مصروف ہو لیکن حقیقت کے اقیانوس میںہر طرف بے کرانی و طغیانی ہے  ۔(۱)

یہ اعتراف ایک حقیقت ہے ۔جو نہ صرف نیوٹن بلکہ اس جیسے ہر فرد پر صادق آتا ہے ۔ البتہ بہت سے افراد بہت سعی و کوشش اور جستجو سے خوبصوت  اور نایاب صدف کے حصول میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے:

کیاانسان کو کھیل کود میں مصروف بچے کی پیروی کرنی چاہیئے یا کسی ایسے کو تلاش کو کرنا چاہیئے کہ جو دنیا کی خلقت کے اسرار سے آشنا ہو؟ یہ واضحات میں سے ہے کہ راہ سے بھٹک جانا گمراہی کا سبب  بنتا ہے اور گمراہی کا نتیجہ تباہی وبربادی ہے۔(۲)

--------------

[۱]۔ فکر، نظم ، عمل:۹۳

[۲] ۔ مغز متفکر جھان شیعہ :۳۰۲

۲۶۱

 آٹھواں باب

خلائی سفر

    خلائی سفر

    کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت

    کہکشاں    سو بیلین دم دار ستارے    دو سو پچاس بیلین سورج    کھربوں کہکشاں

    دنیا میں تمدّن

    کہکشاؤں میں تمدّن

    دور حاضر میں خلائی سفر

    دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات

    خلائی سفر کا امکان

    اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر

    آسمانوں تک رسائی

    ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر

    روایت میں موجود نکات

    آسمانی مخلوقات سے آشنائی

    مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ

۲۶۲

خلائی سفر

ظہور کے ترقی یافتہ زمانے میں خلائی سفر کے بارے میں بہت بہترین اور دلچسپ بحث ہے ۔ قرآن اور خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین میں خلائی سفر کے بارے میں بہت اہم نکات اوراشارات موجود ہیں ۔ ظہورکے زمانے میں آسمانوں اور عامل ہستی کی فضاؤں میں اوج لینے سے پہلے زمانۂ ظہور میں خلائی سفر کی اہمیت کو آشکار کرنے کے لئے کہکشاؤں، سحاب اور آسمان کی وسیع فضا کے بارے میںاہم نکات بیان کرنا ضروری ہے تاکہ ظہور کے زمانے میں خلائی سفر کی اہمیت سے آگاہ ہو سکیںاور یہ جان سکیں کہ علمی تکامل اور پیشرفت کے زمانے میں انسان کو نصیب ہونے والا خلائی سفر بہت عجیب ہو گا۔

یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ آج استعماری ممالک عصر خلاء یا تسخیرخلاء کے عنوان سے جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ دنیا کی عظمت کو اَن دیکھا کرنے کے مترادف ہے۔میرے خیال میں ستمگر ممالک چاند پر ہوٹل میں کمرہ بک کروانے کے سلسلہ میں جو تبلیغات کر رہے ہیں یا جو خلاء کو تسخیر کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں،ان میں سے زیادہ تر دنیا والوں کے دماغ پر اپنی برتری ثابت کرنے ، خود نمائی اور دنیا کے لوگوں کے افکار پر تسلط جمانے کے لئے ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ دنیا اس قدرعظیم اور وسیع ہے کہ مادّہ سے بڑھ کر کوئی اور قدرت ہی اس تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔کیا چاند پر پہنچنا خلاء کو تسخیر کرنا ہے؟

  کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت

ہم نے جو کچھ ذکر کیااس سے ممکن ہے کہ بعض قارئین کرام حیران ہوں اور اس بات کا یقین نہ کریں۔لہذا ہم اس مطلب کی وضاحت کے لئے اس نکتہ کا اضافہ کرتے ہیں: غیبت کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام کے غیبی جلوے اس قدر ہیں کہ بڑے بڑے ممالک بخوبی جانتے ہیں کہ مافوق طبیعت کوئی قدرت موجود ہے ، جو ان کے رفتار و کردار کی مراقب ہے۔ دنیا میں جاسوس ایجنسیاں جیسے مافیا سیا اور اسی طرح بڑے ممالک کی ایجنسیاں جانتی ہیں کہ ایک بزرگ مادی قدرت ان کے اعمال کو دیکھ رہی ہے۔

۲۶۳

ان میں سے بہت سے افراد نے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے۔اب آپ اس مطلب پر توجہ کریں:

حیرت انگیز طور پر وجود میں آنے والی اشیاء کے بارے میں تحقیق کرنے والے دانشوروں اور محققین کو یقین ہے کہ زمین کا نظام کسی قدرت کے زیر نگرانی اور ایک منظم سسٹم کے تحت چل رہا ہے ۔ وہ ایسی قوّت ہے کہ جس کی ماہیت اب تک ہم پر واضح نہیں ہے ۔ یہ دنیا اسی کے زیر نظر ہے ۔ بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری دانشوروں نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱)

یہ جاننابھی ضروری ہے کہ بڑے بڑے ممالک یہجان چکے ہیں کہ نہ صرف تمدّنی ترقی اور پیشرفتہ علم تک پہنچنے کے لئے بلکہ کہکشاؤں اور فضاؤں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے  بھی مافوق طبیعت اور مادّہ سے بڑھ کر کسی اور قدرت کی ضرورت ہے۔صرف اسی صورت میں پہنچ سے دور ستاروں ،نورانی خلاء اور کہکشاؤں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اسی صورت میں زمین پر علم و تمدن کی پیشرفت اور تکامل ممکن ہو سکتا ہے۔اسی لئے انہوں نے عالم غیب تک پہنچنے کی کوششیں کیں اور اس کے لئے انہوں نے اپنے معروف ترین ماہریں جیسے آئن اسٹائن اور ڈاکٹر جساپ سے مدد طلب کی۔لیکن چونکہ وہ شہر علم میں داخل ہونے کے لئے بھٹکے اور راہ سے گمراہ لوگوں سے مدد مانگ رہے تھے لہذاآ ئن اسٹائن اور ڈاکٹر جساپ نے انہیں جو برنامہ فراہم کیا ،انہیں اس میں شکست کا سامناکرنا پڑا۔اس برنامہ میں جن افراد کو مأمور کیاگیا ، وہ یا تو پاگل ہو گئے یا پھر چل بسے۔آئن اسٹائن نے اس کام سے ہاتھ کھینچ لیا اور ''ڈاکٹر جساپ''کسی کے ہاتھوں پراسرار طور پر مارا گیا۔ظہور کے پیشرفتہ زمانے میں آسمانوں تک رسائی کے عظیم مسئلہ کے لئے خلاء اور آسمانوں کی وسعت اور کائنات کی عظمت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ عجیب تر از رؤیا:۳۵۶

۲۶۴

  کہکشاں

زمین ایک سیارہ ہے کہ جو دوسرے سیاروں کی طرح سورج کے گرد گھومتی ہے۔اس کا قطر۱۲۷۵۰ کلو م یٹر ہے اور یہ سورج سے۱۵۰ مل ین کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اب تک نو سیاروں کی شناخت ہو چکی ہے۔سورج اور اس کے سیارات مل کر منظومہ شمسی تشکیل دیتے ہیں ۔منظومہ شمسی میں  تمام سیاروں کی حرکت کو اپنے تحت قرار دیتا ہے اور وہ مختلف سرعت سے اپنے اپنے مدار مین گردش کرتے ہیں۔مدار ایسے خط کا نام ہے کہ جس میں ہر سیارہ سورج کے گرد گھومتا ہے ۔ منظومہ شمسی میں سیارات سورج سے روشنی اور حرارت لیتے ہیں سورج زمین سے ایک ملین گنا بڑا ہے۔ منظومہ شمسی کہکشاں کا چھوٹا سا حصہ ہے کہ جو۸۰۰ ہزار کلو م یٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ سے۲۳۰ مل ین سال میں ایک بار اس کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتا ہے ۔منظومہ شمسی کا سورج سے کہکشاں کے مرکز تک کا فاصلہ۲۸ ہزار نور ی  سال ہے ۔ کہکشاں کئی ارب ستاروں سے تشکیل  پاتاہے جن میں سے ایک سورج ہے ۔ جو زرد ستارے میں شمار ہوتا ہے۔(۱)

یہ کہکشاں دیگر کروڑوں،اربوں کہکشاؤں کے مقابلے  میں بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکرے  کی مانند ہے۔ ان کہکشاؤں کا مجموعہ ہماری دنیا تشکیل دیتا ہے ۔ اس دنیا کے کامل تصور کے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ کہکشاؤں کی تعداد زمین پر موجود ساحلوں پر ریت کے ذرّات کے مجموعہ سے زیادہ ہے۔(۲)

--------------

[۱]۔ شگفتی ھای کاوش جھان:۲۳۰

[۲]۔ دوہزار دانشمند در جستجوی خدا:۱۳

۲۶۵

  سو بیلین دم دار ستارے

منظومہ شمسی کے گرد سو بیلین دم دار ستاروں سے تشکیل پانے والا وسیع ابر پھیلا ہوا ہے۔ جسے اس کے دریافت کرنے والے ، یان آئو رٹ، کے نام سے ابر آؤرٹ کانام دیا گیاہے ۔خوش قسمتی سے ستاروں کا یہ جھرمٹ ہم سے بہت فاصلے پر واقع ہے۔سورج سے ان کی دوری تین ٹریلین کلومیٹر ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا سورج سے فاصلہ زمین کا سورج کے فاصلہ سے بیس ہزار گنا زیادہ ہے۔(۱)

  دو سو پچاس بیلین سورج

کہکشاں  کے نطام میں دو سو پچاس بیلین سورج موجود ہیں اگر اسے طے کرنا چاہیں تو اس کی لمبائی کو ایک بیلین کلو میٹر فی گھنٹہ کی سرعت سے طے کرنے کی صورت میںبھی ایک لاکھ سال درکار ہوں گے۔(۲)

--------------

[۱]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۴۹۴

[۲]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۵۲۰

۲۶۶

  کھربوں کہکشاں

کائنات میں کھربوں کہکشاں پھیلے ہوئے ہیں ایک کہکشاں کا قطر ایک لاکھ نوری سال کے برابر ہے جس میں سوکھرب سے زائد ستارے ہوتے ہیں ۔ کائنات کی خلاء اس قدر وسیع ہے کہ  اگر ستاروں، منظومہ اور کہکشاؤں کو تشکیل دینے والے عناصر کو اس خلاء سے مقائسہ کریں کہ جس میں کہکشاں ہیں تو یہ اس قدر ناچیز ہے کہ جن سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔

اس ناقابل یقین وسعت کے مقابلہ میں ہمارے کہکشاں ، منظومہ زمین کہ جس پر ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، خود ہم اور ہمارے متعلق دوسری چیزیں ۔غالباََ یہ سب ایمان میں اہمیت کی حامل ہیں جو بہت اضطراب کا باعث ہے ۔ انہیں دیکھ کر خود  پر طنز کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اقیانوس کے سامنے ایک قطرے کی کیا اہمیت ہے۔(۱)

  دنیا میں تمدّن

''ڈاکٹر شپلی'' کا کہنا ہے کہ کائنات میں کم از کم سو بیلین مسکون سیارے موجود ہیں ۔ان میں سے اکثر کے رہائشی ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ان کے علاوہ دیگر ماہرین فلکیات جیسے داکٹر اتزاسٹرو،کارل ساگان،فرنیک اور کچھ دیگر دانشوروں نے  ۱۹۶۱ ء میں مغربی ورجینیا میں گرین بنک کے مقام پر ایک دوسرے سے ملاقات کی اور دہلا دینے والانظریہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس وسیع و عریض کائنات میں چالیس سے پچاس ملین کرّات موجود ہیں کہ جن کے رہائشی کسی طریقہ سے ہم سے رابطہ کرنے یا زمین سے پیغام سننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

--------------

[۱]۔ نگاہی بہ سر نوشت جھان، انسان تاریخ:۲۷

۲۶۷

فرانس کے ایک دانشور ''موریس شاتلن''(جو پہلے امریکہ میں خلائی امور کا ماہر تھا )نے تین بار ریڈیو علائم موصول کئے ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ احتمالاََ یہ علائم خلاء سے عاقل موجودات کی جانب سے بھیجی گئی ہیں۔ایسا لگتاہے کہ دوسری دنیابھی یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس ذریعہ سے دوسرے سیاروں میں علم فلکیات کے دانشوروں کو اپنی موجودگی کا پتہ دے۔

دو روسی خلائی ماہرین'' تروتسکی اور کارداشف'' نے چند سال کی کوششوں سے چار ریڈیو مراکز  میں خلاء سے بھیجی گئی یہ پراسرار علائم موصول کیں۔یہ علائم کسی خلائی شٹل کے ذریعہ حاصل نہیںہوئے ۔کیونکہ یہ پیغام خلاء میں پہلی شٹل بھیجنے سے پہلے کشف ہوئے تھے۔(۱)

اب تک اسی طرح سے ۱۱۳ پیغام اور ارتباطی وسائل کے ذریعہ دو ہزار سے زائد پیغام موصول ہو چکے ہیں۔اس میں  سے کسی طرح کا شک وشبہ  نہیں ہے کہ خلاء دیگر کرّات اور دوسری دنیا سے پیغامات ارسال ہوئے ہیں۔لیکن ابھی تک دقیق معلومات نہیں ہیں  کہ ان پیغامات میں کیاکہا گیا ہے اورو ہ کہاں سے بھیجے گئے ہیں ۔  لیکن ممکن ہے کہ حکومتی ادارے ان اسرار سے واقف ہوں لیکن ان  سے پردا نہ اٹھانا چاہتے ہوں۔ (۲)

  کہکشاؤں میں تمدّن

اس بناء پر آج کسی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ کائنات میں زمین کے علاوہ دوسری دنیا میں بھی زندگی موجود ہے۔جب گیارہ ماہر دانشور۱۹۶۱ ء میں مغربی ورجینیا میں گرین بنک کے مقام پر منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے بعد ایک دوسرے سے جدا

--------------

[۱]۔ گمشدگان مثلث برمودا:۱۹۲

[۲] ۔ بشقاب پرندہ:۲۱۲

۲۶۸

ہونے لگے تو انہوں نے متفقہ طور پر قرار داد پیش کی کہ کچھ فارمولوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاں میں پچاس ملین سے زائد تمدّن اور ثقافتیںموجود ہیں۔

ناسا  کے ایک شعبہ کے سربراہ راجرآمک گوان نے ان نظریات کے مطابق جدید ترین خلائی پیشرفت کی ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاں میں فرہنگ و ثقافت کی تعداد ۱۳۵ سے زائد ہوچک ی  ہے۔(۱)

  دور حاضر میں خلائی سفر

کائنات کی کشادگی اور خلاء کی وسعت پر غور کرنے سے کیا چاند اور مریخ کے سفر کو خلاء تسخیر کرنے کا نام دے سکتے ہیں؟

دنیا کی استعماری طاقتیں اپنی ظالمانہ حکومتوں کو استحکام ودوام دینے کے لئے اور ان کی بقاء اور لوگوں پر اپنا منحوس سایہ برقرار کرنے اور دنیا کے لوگوں کا دل جیتنے کے لئے ان کے سامنے اپنے خلائی سفر کو ایسے پیش کرتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہویا کوئی غیر معمولی کام انجام دے دیا ہو۔یوں وہ اپنے منفی اور استعمارانہ اہداف دنیا پرلاگو کرتے ہیں اور دنیا والوں کے دلوں میں رعب و وحشت ایجاد کرتے ہیں تا کہ ان کے منفی برناموں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا جائے۔

حلانکہ ا یسی صورت  حال میں بھی وہ جانتے ہیں کہ خلائی سفر اور دور دراز ستاروں تک پہنچنے کے لئے ایسی قدرت سے بہرہ مند ہونا ضروری ہے کہ جو زمانے کی قید سے خارج ہو اور نور کی سرعت سے بھی زیادہ تیز ہو۔وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جب پوری کائنات پر علم و حکمت کا غلبہ ہو گا اور بشر حقیقی و واقعی تکامل اور فرہنگ  وتمدّن تک پہنچ جائے گا تو وہ دورِ حاضر کی روش پر ہنسیں گے۔

--------------

[۱]۔ بازگشت بہ ستارگان:۴۰ 

۲۶۹

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اب نہ صرف دنیا کی استعماری طاقتیںاس حقیقت سے باخبر ہیں ۔بلکہ وہ خود بھی صراحتاََ یہ نکتہ بیان کرتے اور اس کا اعتراف کر تے ہیں ۔اب ہم جو بیان کرنے جا رہے ہیں ،اس سے یہ مطلب بخوبی واضح ہو جائے گا۔

آج کا خلائی سفر بہت مہنگاہے امریکہ کی خلائی شٹل اور روس کا خلائی اسٹیشن میر کا مصرف بہت زیادہ ہے۔کیونکہ خلاباروں کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو مثلاََکھانا پینا،آب و ہوا وغیرہ، انہیں یہ سب کچھ زمین سے اپنے ہمراہ لے جانا پڑتاہے۔ اب ایک کلو گرام کو زمین سے خلاء میں منتقل کرنے کا خرچہ دس ہزار ڈالر ہے مثلاََ۱۹۹۳ ء م یں خلائی ٹیلی اسکوپ ہابل (  Hubble) کو تعمیر کرنے میں پانچ سو ملین ڈالر کی لاگت آئی ۔یہ ان اخراجات کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔آئندہ آنے والے ہماری  مدیریت کے ان برناموں پر ہنسیں گے۔(۱)

وہ بخوبی جانتے ہیں کہ خلائی سفر پر مصرف ہونے والے اتنے اخراجات کو دیکھ کر آئندہ نسلیں تعجب کریں گی۔اب خلائی سفر کے اخراجات کے بارے میں دو اور بیانات ملاحظہ کریں  اور اس کے بعد ہم ایک اہم نکتہ بیان کریں گے:امریکی حکومت نے ''آپولو۱۱ '' کو چاند پر پہنچانے کے لئے پانچ مل ین سے زیادہ خرچ کئے یہ اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے۔

''آپولو''کے سفر کا خرچہ۱۹۹۱ ء کی خلیج فارس کی جنگ سے زیادہ تھا۔کیونکہ اس وقت چاند کا اس سے زیادہ سستا سفر دریافت نہیں ہوا تھا۔تقریباََتمام صاضب نظر شدّت سے ،آپولو، کے سفر کے نتائج کی امید کر رہے تھے ۔ میں نے  خود بھی چاند پر پہنچنے کی خبر سننے کے بعد ڈیلی ٹیلی گراف میں بہت مقالات شائع کئے اور ان تمام میں چاند پر اسٹیشن ایجاد ہونے کے قریب الوقوع ہونے کی پیشگوئی کرتا حتی کہ چاند کے ہوٹل میں دو تختوں کے ایک کمرے میں رہائش کے لئے بھی نام درج کروایا۔ (۲)

--------------

[۱]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۴۲۶

[۲]۔ شگفتی ھای کاوش جھان:۲۷۹

۲۷۰

یہ جلد بازی میں اخذ کیاگیا نتیجہ تھا چاند کی سطح پر خلا بازوں نے جو امور انجام دئے ہمیں ان کا بھی علم نہیں تھا۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ چاند سے واپسی پر وہ خصوصی صنایع میں وارد ہو جائیں گے۔میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ امریکہ کی ہر خلائی شٹل کی پرواز کا خرچہ کئی سو ملین ڈالر ہے اور خلاء میں ایک کلو گرام کو منتقل کرنے کا خرچہ دس ہزار ڈالر ہے۔(۳)

  دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات

اب تک ہم نے استعماری حکومتوں کے بے نتیجہ اخراجات کے بارے میں جو کچھ نقل کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کی ناتوانی پر آئندہ نسلیں حیران ہوں گی اوربے ساختہ ہنسیں گی۔اب اس اہم ترین نکتہ پر

توجہ کریں:

اس زمانے میں چاند تک نہ کہ کہکشاؤں اور ستاروں تک پہنچنے کے لئے خلائی سفر کے اخراجات استعماری حکومتوں کی ناکامی کے عوامل میں سے ایک ہے۔ کیونکہ کچھ دیگر امور بھی ہیں کہ جو خلائی سفر میں ان کی شکست کے عامل ہیں۔ان میں ایک دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات ہیں۔ظالم اور استعماری حکومتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کروڑوں انسانوںکی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔خلائی سفر میں انجام دیئے جانے والے خطرناک امور اس چیز کے گواہ ہیںکہ وہ دنیاکے لوگوں کی زندگی کو بے معنی سمجھتے  اور کروڑوں لوگوں کی زندگی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ اس کی مزید وضاحت کے لئے اس بیان پر غور کریں؛

--------------

[۳]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۲۷۹

۲۷۱

ناسا نے۱۹۹۷ ء م یں کاسینی نامی شٹل بتّیس کلو گرام پلاٹینیم خلاء میں بھیجی ۔ناسا نے اس کے احتمالی خطرات کی بھی تصدیق کی تھی۔اگر کاسینی سفر کے دوران پھٹ جاتی تو دنیا میں  پانچ ارب افراد  انشعاعوں سے متأثر ہوتے۔ پلاٹینیم سرطان کی افزائش کا ایک عامل سمجھا جاتا ہے حتی اگر انسان اس مادہ کے ایٹم کی کچھ مقدار سونگھے تو آنکھ جھپکنے ہی سے اس کی افزائش ہو جاتی ہے۔

''بروس گاگون''خلاء میں تسلیحات اور ایٹمی توانائی سے مقابلہ کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ فن غیر ضروری ہے اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو یہ بہت بڑی تباہی کا باعث بن سکتاہے ۔کیا ایسے برناموں کو انجام دینا انسانی معاشرے کی خدمت ہے یا خیانت؟

یہ بہت بڑا جرم ہے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اگر فرضاََ ان میں کامیابی ہوجائے تو ہم کہکشاں میں مشکل سے کئی ملین ستاروں میں

سے صرف دس یا بارہ ستاروں کا سفر کر سکتے ہیں۔

  خلائی سفر کا امکان

کائنات کی کشادگی اور خلاء کی وسعت پر غور کرنے سے کہکشاؤں کے سفر کے امکان کا انکار نہیں کر سکتے۔اگرچہ وہ ہم سے کئی نوری سال کی دوری پر ہیں۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے ایک مقدمہ ذکر کرکے اصل بحث کی طرف آئیں گے۔

کیا علمی روش کے نقطہ نگاہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اب تک جس انسان کو بھی دیکھا ہے وہ موجودہ صورت میں ہی تھا۔پس اب تک انسان جس صورت کا مشاہدہ کر رہا ہے اس کے علاوہ کسی اور صورت کا آنا محال ہے؟

البتہ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ جب ہمارے مشاہدات اور تجربات دنیا کے ایک حصہ یاایک زمانے تک منحصر ہوں تو کسی صورت میں بھی ایسا حکم صادر نہیں کر سکتے ۔ جابر بن حیان کہتا ہے؛

۲۷۲

دنیا میں کسی ایسی موجود ومخلوق کا ہونا ممکن ہے کہ جس کا حکم ان چیزوں سے مختلف ہو کہ جنہیں ہم نے اب تک دیکھا ہے یا جن سے اب تک ہم آگاہ ہیں۔ کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کے وجود کی بناوٹ ایسی ہے کہ جو تمام موجودات کی شناخت اور ان تک رسائی کی قدرت نہیں رکھتے۔جابر بن حیان نے مذکورہ نمونہ لا کر اس کلی صورت کی طرف ہماری رہنمائی کر دی ۔ کوئی یقین سے یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ غیر مشہور مخلوق بالکل مشہور موجودات و مخلوقات کی مانند ہیں یا جو کچھ ماضی میں موجود تھا یا جو مستقبل میں وجودمیں آئے گا ،وہ بالکل دورِ حاضر میں موجود اشیاء کی مانند ہوگا۔کیونکہ انسان وقت اوراحساس کے لحاظ سے ناتوں اور محدود مخلوق ہے۔

اسی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ دنیا کے آغاز ِ پیدائش کے بارے میں علم نہیں ہے پس دنیا ازلی اور بے آغاز ہے۔میرے خیال میں جابربن حیان نے ان عبارات میں تجربی روش کو دقیق ترین ممکن وجہ سے مشخص کیا ہے۔کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اگرچہ مشہور موجودات کا حکم غیر مشہور موجودات پر کاگو کرنا درست نہیں ہے ۔ لیکن اس چیز کا انکار نہیں کرنا چاہیئے ۔کیونکہ ممکن ہے کہ غیر مشہور اشیاء ہمارےتجربہ و مشاہدہ میں نہ ہوں۔پس ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

کیونکہ اس سے انسان حسّ کے محصور میں محدود ہو کر رہ جائے گا کہ جس سے بہت سی ایسی اشیاء کا انکار لازم آئے گا کہ جو  یقیناََ موجود ہیں۔ایسے لوگ بھی ہیںکہ جنہوں نے ابھی تک مگرمچھ نہیں دیکھا ۔ پس اگر کوئی ان سے کہے کہ دنیا میں ایک ایسا جانور ہے کہ جو کھاتے وقت اپنا اوپر والا جبڑا ہلاتا ہے ، کیا وہ صرف اس بنیاد پر اس حیوان کا انکار کر سکتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے ایسا حیوان نہیں دیکھا ، لہذا وہ موجود نہیں ہے ۔ پس کوئی بھی نہ دیکھنے کی بنیاد پر کسی موجود کا انکار نہ کرے بلکہ جب تک اسے اس کے وجود یا عدم پر کوئی دلیل نہ مل جائے تب تک  اپنی رائے کے اظہار سے پرہیز کرے۔

۲۷۳

اس بناء پر کسی چیز کے نہ ہونے کا حکم اس کے مورد مشاہدہ نہ ہونے یا اس بارے میں کسی خبر کے نہ ہونے کی بناء پر نہیں کرنا چاہیئے اسی طرح جس چیز کے بارے میں دوسروں کی خبروں سے اطلاع حاصل ہو اور اسے خود مستقیماََ مشاہدہ نہ کیاہو ،ایسی چیز کا انکار بھی استدالی روش میں لا علمی کو بیان کرتا ہے۔(۱)

اس بناء پر اگرچہ چاند اور مریخ کے سفر کو خلاء تسخیر کرنے کا نام نہیں دے سکتے کیونکہ خلاء اور آسمان کی کشادگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے خلاء کو تسخیر کرنا قرار نہیں دے سکتے ۔ جابر بن حیان کے استدلال کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس طرح معاصر انسان کسی ایسی چیز تک رسائی حاصل نہیں کر سکا پس کوئی اور مخلوق بھی اس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی ۔ جیسا کہ جابر بن حیان نے بھی کہا کہ ایسا استدلال باطل ہے۔

  اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر

جب لوگ بطلمیوس کی ہیئت اور اس کے نظرئے کے معتقد تھے کہ آسمانوں کا سفر محال ہے ،اس زمانے میں بارہا اہلبیت  کا خلائی سفر واقع ہوا ۔ حضرت امیر المؤمنین علی  علیہ السلام ، امام سجاد علیہ السلام  اور دوسرے آئمہ اطہارعلیہم السلام کے سفر کے کچھ نمونے کئی روایات میں نقل ہوئے ہیں۔رسول اکرم کی معراج خود ایک خلائی سفرہے۔ آنحضرت کی معراج پر ہم سب کا عقیدہ ہے۔لوگوں کے لئے یہ سفر اس زمانے میں نقل ہوئے ہیں کہ جب دنیا پربطلمیوس کا نظریہ حاکم تھا۔اس زمانے میں موجود جہالت پر غور کریں تو معلوم ہو گا اس زمانے میں  ایسے بہت سے سفر مخفی رکھے گئے۔ اگر اس زمانے میں اہلبیت کے لئے مطلب کو ظاہر کرنا ممکن ہوتا تو ہم تک ایسے اور بہت سے نمونے پہنچتے۔

--------------

[۱]۔ تحلیلی از آرای جابر بن حیان :۵۹

۲۷۴

فرض کریں کہ اگر کسی کو اہلبیت علیہم السلام کے خلائی سفر میں شک ہو تو وہ اس نکتہ پر توجہ کرے کہ خدا کی مشیت یہ ہے کہ ہر زمانے میں اپنی حجت کواس زمانے میں معمول او ر موجود قدرت سے زیادہ قدرت دے۔اس مشیت کی رو سے یہ واضح ہے کہ جب پوری کائنات میں اصلاح و تکمیل کا زمانہ ہو تو پھر اس کی زیادہ ضرورت کا احساس ہو گا ۔ یعنی اگر کوئی تمام دنیا کو تسخیر کرنا چاہے تو وہ دنیا میںموجود اور رائج قدرت سے زیادہ قدرتمند ہونا چاہیئے۔ تاریخ میںکہیں بھی یہ موجود نہیں ہے کہ دنیا میں کسی دانشور نے کسی پیغمبر کو علمی مطالب میں مغلوب کیا ہو۔اگر خدانے اپنے رسول اکرم(ص) کو شمش یر اور قرآن کے ساتھ بھیجا تووہ اپنی آخری حجت کو بھی قرآن ، برہان اور آنحضرت کے قیام کے زمانے میں رائج قوّت سے زیادہ قدرت کے ساتھ بھیجے گا۔وہ ایسی قوّت وقدرت ہو گی کہ جو اس زمانے کی  تمام قوّتوں کو مغلوب کر دے گی۔اب اس روایت پر غور کریں۔

'' قال المتوکل لابن السکیت :سل ابن الرضا مسألة عوصاء بحضرت ، فسأله فقال: لِمَ بعث اللّه موسی بالعصا و بعث عیسی بابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی،و بعث محمداَََ بالقرآن والسیف ؟

فقال ابو الحسن  : بعث اللّه موسی  بالعصا والید البیضاء فزمان الغالب علی اهله السحر ، فاتاهم من ذالک ماقهر بسحرهم و بهرهم و اثبت الحجّة علیهم

بعث عیسی بابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی باذن اللّه تعالٰی  فزمان الغالب علی اهله الطبّ، فاتاهم من ابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی باذن اللّه فقهرهم و بهرهم و بعث محمداََ(ص) بالقرآن والس یف فزمان الغالب علی ا ھ ل ہ السیف والشعر فاتا ھ م من القرآن الزا ھ ر والسیف القا ھ ر ما ب ھ ر ب ہ شعر ھ م عو ب ھ ر سیف ھ م ۔۔۔۔ '' (۱)

--------------

[۱]۔ بحارالانوار:۵۰ ص۱۶۵

۲۷۵

متوکل نے ابن سکّیت (جو اس زمانے کا بزرگ دانشور تھا) سے کہا کہ میرے سامنے حضرت امام ہادی علیہ السلام سے ایک مشکل مسئلہ پوچھو۔ابن سکّیت نے

امام رضا علیہ السلام سے کہا:

خدا نے کیوں موسیٰ  علیہ السلام  کو عصا، عیسیٰ  علیہ السلام  کو اندھوں کو بینائی دینے، برص کے مریضوں کو شفا اور مردوں کو زندہ کرنے اور محمد(ص)  کو قرآن کے ساتھ رسول بنا کر بھ یجا؟

امام ہادی علیہ السلام  نے جواب میں فرمایا :

خدا نے موسی علیہ السلام کو عصا اور سفید ہاتھ کے ساتھ مبعوث کیا کہ جس سے سفید نور طالع ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے  کے لوگ سحر میں ماہر تھے ،م وسی علیہ السلام اس قدرت کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ ان ے سحر کو نابود کریں ، ان پر غالب آئیں اور ان پر دلیل کو ثابت کریں۔عیسیٰ علیہ السلام  کو اندھوں کو بینائی دینے، برص کے مریضوں کو شفا دینے اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کرنے کے ساتھ مبعوث کیا کیونکہ اس زمانے کے لوگ طبّ میں غالب تھے۔ پس وہ اندھوں اور برص کے مریضوں کو شفا یاب کرنے اور مردوں کوخدا کے اذن سے زندہ کرنے کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ انہیں مقہور کرکے ان پر غالب آئیں ۔ حضرت محمد(ص) کو قرآن اور شمش یر کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا گیا جب کہ اس   زمانے کے لوگ شمشیر و شعر میں ماہر تھے۔ پس وہ نورانی قرآن اور قاہر شمشیر کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ ان کے ذریعہ ان کے شعر پر غالب آئے اور اور ان کی شمشیر پر کامیاب ہو۔

اس روایت پر توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اگر موجودہ زمانہ خلاء اور خلاء کو تسخیر کرنے کا زمانہ کہلاتاہے تو حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے پاس جدید خلائی وسائل ہوں گے کہ جن کے سامنے دور حاضر کی خلائی شٹل بے ارزش ہو گی۔

۲۷۶

  آسمانوں تک رسائی

اہلبیت اطہار علیہم السلام کی حکومت کا تشکیل پانا اور آنحضرت کی عظیم قدرت کا ظہور نہ صرف دنیا کے تمام پاک سیرت لوگوں کو اپنی طرف جلب کرتا ہے بلکہ اس بابرکت باعظمت اور درخشاں دن کے بارے میں بات کرنا بھی انسانوں کے دلوں میں شوق و ولولہ پیداکرتا ہے کہ جلد از جلد وہ بابرکت زمانہ آئے ۔ ظہور کے زمانے کے حیرت انگیز واقعات میں سے ایک انسان کا آسمانوں تک رسائی خلاء میں پرواز اور دوسرے کرّات پر جانا ہے ۔ آسمان کی بلندیوں میں پرواز ، آسمانی کرّات میں نشست انسان کی دیرینہ خواہش ہے ۔ جس کے حصول کی متعدد بار کوشش کی گئی اور اس کے لئے بہت سرمایہ بھی خرچ کیاگیا ۔ آسمانوں تک رسائی ملکی و مادی لحاظ سے تھی اس سے بھی اہم نکتہ تو یہ ہے کہ اس روز انسان نہ صرف ملکی و مادّی لحاظ سے پرواز کرے گا بلکہ ملکوتی اعتبار سے بھی آسمانوں تک دسترس  حاصل کرے گا اور ملکوت آسمان کا نظارہ کرے گا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کیفیت و اہمیت کے لحاظ سے عالم ملک و ملکوت ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفاوت ہیں ۔ یعنی عالم ملک کاعالم ملکوت سے مقائسہ نہیں کر سکتے ۔عالم ملکوت کی عالم ملک پر برتری اور صالحین کی حکومت میں انسانوں کا عالم ملکوت تک رسائی پر توجہ کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان ظہور کے بابرکت زمانے میں کس ظاہری و معنوی عظمت کا مالک ہو گا ۔ وہ خوش نصیب  ہیں کہ جو زمانہ ظہور کو درک کریں گے اور اس مبارک دن میں زندگی گزاریں گے۔اسی طرح تاریک زمانے سے پُر نور زمانے میں جانے والے اور شادابی و شادمانی سے سرشار دنیا کا نظارہکرنے والے بھی خوش نصیب ہیں۔

۲۷۷

  ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر

شب معراج رسول اکرم(ص) آسمانو ں ک ی بلندیوں میں گئے اور عرش پر خدا سے ہم کلام ہوئے ۔خدا وندکریم نے حضرت مہدی علیہ السلام  کے خلائی سفر کے بارے میںرسول اکرم(ص)سے کلام ک یا ۔نہ صرف آنحضرت کے خلائی سفر بلکہ واحد عالمی حکومت ، قیامت تک اس کے تداوم پوری کائنات میں رونماہونے والے عظیم تحوّلات اور دشمنوں کے وجود سے دنیا کے پاک ہونے کی خبر دی ۔ہم یہاں ایسی ہی کچھ روایات پیش کرنے کے بعد اس بارے میں اہم ترین نکتہ بیان کرتے ہیں۔رسول اکرم (ص) نے فرما یا:''فقلت :یا ربّ هئولاء اوصیائ بعد ؟ فنودیت یا محمد؛ هئولاء اولیائ و احبّا ئ و اسفیاء،و حجج بعدک علی بریّت،وهم اوصیائک و خلفاوک و خیر خلق بعدک و عزّت و جلال لأظهرنّ بهم دین،ولأعلینّ بهم کلمت ولأطهرنّ الارض بآخرهم من اعدائ،وللاُملّکنّه مشارق الارض و مغاربها،ولاسخرنّ له الرّیاح ، ولاذلّلنّ له السحاب الصعاب ،ولا رقینّه ف الاسباب،ولانصرنّه بجند،ولا مدّنّه بملائکت،حتی یعلن دعوت،ویجمع الخلق علی توحیدی،ثمّ لادیمنّ ملکه ،ولأداولنّ الایّام بین أولیائ الی یوم القیامة '' (۱)

میں نے کہا!اے پروردگار وہ میرے بعد میرے اوصیاء ہیں؟

پس میں نے ندا سنی:اے محمد!وہ میرے اولیاء میرے دوست میرا  برگزیدہ اور آپ اور آپ کی امت پرمیری حجت ہیں اور وہ تمہارے اوصیاء تمہارے جانشین اور تمہارے بعد میری بہترین مخلوق ہیں۔ میری عزّت اور میرے جلال کی قسم ،یقیناََ میں اپنے دین کو ان کے وسیلہ سے ظاہر کروں گا اور اپنے کلمہ کو ان کے  وسیلہ سے برتر کروں گا۔یقیناََ ان میں سے آخری کے ذریعہ زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا۔حتماََ اسے زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بناؤں گا۔ہواؤں کو اس کے لئے مسخر کروں گا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۵۲ص۳۱۲

۲۷۸

سخت بادلوں کو اس کے تابع کروں گا۔اسے وسائل میںاوپر لے جاؤں گا۔  یقیناََ اپنے لشکر سے اس کی نصرت کروں گا۔اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مدد کروں گا تا کہ وہ میری دعوت کو آشکار کرے۔سب لوگوں کو توحید و یکتا پرستی پر جمع کرے گا۔پھر اس کے ملک کو پائیدار بنا کر ایّام کو قیامت تک کے لئے اپنے دوستوں میں قرار دوں گا۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس روایت میں مہم مطالب کے بارے میں بات ہوئی ہے۔اس روایت میں آئمہ اطہار علیہم السلام کی عظمت ،ان کی فضیلت و برتری ،ان کے ذریعہ دین اسلام کے ظاہر ہونے ، ان میں سے آخری کے ذریعہ زمین کو دشمنوں سے پاک کرنے ،خدا کے لشکر،ہواؤں کی تسخیر تمام مخلوق کا خدا کی توحید و یکتا پرست کے معتقد ہونے، واحد عالمی حکومت اور قیامت تک اس کے قائم رہنے کے بارے میں بیان ہوا ہے۔

  روایت میں موجود نکات

اس روایت میں ایسے نکات موجود ہیں کہ جن پر دقت و تأمل  سے بعض اہم نکات حاصل کر سکتے ہیں۔

۱ ۔ روا یت میں یہ جملہ کہ خدا نے فرمایا:''لاسخّرنّ له الریاح ولذ لّلنّ له السحاب الصعاب ، ولا رقّینّه ف الاسباب''

یہ اس نکتہ کی دلیل ہے کہ آنحضرت(ص) کا آسمانوں کی طرف صعود کرنا جسمانی ہے جیسا کہ حضرت محمد  مصطفٰی (ص)کی معراج جسمانی تھی۔یعنی آنحضرت(ص) کا آسمانوں پر جانا قالب مثالی سے نہیں ہے۔جیسا کہ آسمانوں کی بلندیوں میں صعود سے مقصودبھی روحانی صعود نہیں ہے کیونکہ اگر آنحضرت کا آسمانوں پر جاناروحانی صعود ہوتا یا قالب مثالی کی صورت میں ہوتا تو پھر سحاب صعاب یا اسباب کی ضرورت نہ  ہوتی۔کیونکہ روح یا قالب مثالی کے آسمانوں کی طرف جانے کے لئے کسی خلائی وسیلہ سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۲۷۹

۲ ۔ اس روایت سے دوسرا حاصل ہونے والا نکتہ یہ ہے کہ اگر آنحضرت  آسمانوں کی طرف جسمانی صعود کا اراسہ کریں تو اس کے لئے بھی خلائی اسباب و وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ وہ ظاہری وسیلہ یا برّاق(جو رسول اکرم(ص)سے مخصوص تھا) سے استفادہ کئے بغیر بھی جا سکتے ہیں ۔ روایت میں اسباب و وسائل سے تعبیر ہونا اس چیز کی دلیل ہے کہ آنحضرت  کا آسمانوں میں جانا کسی انحصاری  یا  ظاہری وسیلہ (جیسے برّاق) میں منحصر نہیں ہے۔ اس بناء پر وسیلہ کے تعدد اور لفظ اسباب کے جمع ہونے سے اسباب اور وسائل اس چیز میںظہور رکھتے ہیں کہ آنحضرت کسی انحصاری وسیلہ (جیسے برّاق) سے استفادہ نہیں کریں گے ۔مورد توجہ یہ ہے کہ سحاب صعاب اور سخت بادل بھی جمع کی صورت میں  بیان کئے  گئے ہیں۔

۳ ۔ اس روا یت سے یہ نکتہ بھی استفادہ کرتے ہیں کہ ظہور کے زمانے میں خلاء اور آسمان پر جانے کے لئے مختلف ذرائع ہوں گے کہ جن سے استفادہ کیا جائے گا۔اس روایت میں تین طرح سے تصریح ہوئی ہے۔

الف:  لاسخّرنّ لہ الریاح

ہواؤں کو یقیناََ اس سے تسخیر کریں گے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی عظیم بساط کے بارے میں بھی بیان ہوا ہے کہ ہوائیں ان کی بساط کو آسمان پر لے جاتیں ۔ ہواؤں اور شدید طوفان کی قدرت بہت حیرت انگیز ہے ان کی تسخیر سے مراد انہیں اپنے اختیار میں رکھنا اور ان پر مکمل  قابو ہوناہے۔ہمارے زمانے میں دانشور نہ تو طوفان کو روک سکے ہیں لیکن قرآن کریم کی آیات کی بناء پرحضرت سلیمان علیہ السلام ایسے کام کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔حضرت مہدی علیہ السلام (جو کہ ہر چیز پر ولایت رکھتے ہیں) ان پر قابو پا کر ان کے منفی آثار کو برطرف کرنے کے علاوہ انہیں تسخیر کرنے اور ان پر تسلط پا کران  سے مثبت استفادہ بھی کریں گے۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300