امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت20%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180603 / ڈاؤنلوڈ: 4525
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

پہلاباب

عدالت

    عدالت پیغمبروں کا ارمان

    معاشرے میں عدالت یا عادلانہ معاشرہ؟

    عصرِ ظہوراور عدالت

    عدالت کی وسعت

    دنیا کی واحد عادلانہ حکومت

    عدالت کا ایک نمونہ

    ہر طرف عدالت کا بول بالا

    عدالت کا نفاذ اور حیوانات میں بدلاؤ

    حیوانات کا رام ہونا

    حیوانات پر مکمل اختیار

    الیکٹرک پاور سے بڑی قوّت

    ایک اہم سوال اور اس کا جواب

    حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کا تابناک نور

    حیوانات کی زندگی پر تحقیق

۲۱

 عدالت پیغمبروں کا ارمان

عدالت کا مسئلہ اور انسانی معاشرے میں اس کی اہمیت اتنی ضروری ہے کہ خداوند متعال  نے تمام نبیوں  اور آسمانی کتابوں کو امتوں کے درمیان عدل قائم کرنے اور ظلم و ستم کو ختم کرنے کے لئے مبعوث کیا۔  خداوندکریم کا سورہ ٔحدید میں ارشاد ہے:

''لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط '' (۱)

بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔

اس بناء پر پیغمبروں کی رسالت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد معاشرے میں عدل قائم کرنا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر دور کے قابیل کی سازشوں اور عدل کی راہ میں  کانٹے بچھانے والوں کی وجہ سے ابتداء سے لے کر آج تک اور حضرت  بقیة اللہ الاعظم (عج) کے قیام اور حکومت سے پہلے تک کسی بھی انسانی معاشرے میں عادل حکومت قائم نہیں ہو سکی ۔ کسی بھی معاشرے میں عادلانہ نظام قائم نہ ہوسکا  ۔(۲)

--------------

[۱]۔ سورہ حدید  آیت: ۲۵

[۲]۔  حضرت امیرالمؤمنین علی  کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں بھی دشمنوں نے حکومت  کے خلاف ہر طرح کی سازشیں رچائیں  اور اس دور میں بھی فدک غاصبوں کے قبضہ میں باقی رہا۔

۲۲

  معاشرے میں عدالت یا عادلانہ معاشرہ؟

قرآن کی آیت شریفہ میں پیغمبروں کی رسالت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا  ہدف ومقصد عادلانہ نظام اور عادلانہ معاشرہ تشکیل دینا قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح وہ خود بھی عدل پر عمل کریں نہ کہ حکومتِ الٰہی ان کے درمیان عدل کے حکم کو جاری کرے  ۔

لوگوں میں عدالت کو رواج دینا اور امتوں میں عدل قائم کرنا بزرگ پیغمبران الٰہی کا وظیفہ ہے کہ جسے حضرت  بقیة اللہ الاعظم(عج) کی الٰہی حکومت عملی جامہ پہنائے گی۔ان کی عادلانہ حکومت پوری دنیا اور تمام اقوامِ عالم پر قائم ہو گی۔

خدا کے تمام پیغمبروں نے  لوگوں کے درمیان عدل  قائم کرنے اور عدل کی حاکمیت کے لئے جو  زحمتیں ،تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کیں ،ان سب کا نتیجہ امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت ہے۔ اس وقت ظالموں اور ستمگروں کی فائل ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گی اور اس مبارک دن میں کفر و گمراہی  کے پرچم ہمیشہ کے لئے سرنگوں ہو جائیں گے۔اس زمانے میں دنیا کے تمام مظلوم ستمگروں اور ظالموں کے شر سے نجات پا جائیں گے۔تب انسانوں کا نظامِ زندگی بدل جائے گا اور انہیں ایک نئی حیات ملے گی۔    اس طرح خدا کے پیغمبروں اور خاندانِ  نبوت علیہم السلام کا دیرینہ ارمان پوراہو جائے گا اور صدیاں گزرنے کے بعد عدل دنیا میں عملی طور پر نافذ ہو گا۔اسی وجہ سے حضرت  بقیة اللہ الاعظم (عج) سب امتوں کے لئے موعود ہیں۔لہذا امام زمانہعلیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں:

''السلام علی  المهدی الّذی وعد اللّٰه عزّوجل به الامم '' (۱)

حضرت مہدی  علیہ السلام   پر سلام ہو کہ خداوند کریم نے تمام امتوںسے جن کے ظہور و حکومت کا وعدہ کیا ہے۔

--------------

[۱]۔ صحیفہ مہدیہ: ۶۳۶

۲۳

عصرِ ظہوراور عدالت

حضرت ولی عصر  علیہ السلام کی عادلانہ حکومت میں ایسے عظیم اور مہم بدلاؤوجود میں آئیں  گے کہ ستمگروں اور بدعت گزاروں کی دنیا اجڑ جائے گی۔بلکہ ان کے ظلم اور رائج بدعتوں کے آثار بھی ختم ہوجائیں گے۔اس اہم نکتہ کو درک کرنے کے لئے تفکر و تعقل کی  ضرورت ہے کہ اب تک ستمگروں اور بدعت گزاروں نے دنیا میں کیسے پلید اور نقصان دہ نتائج پیش  کئے ہیں؟انہوں نے کس طرح لوگوں کو اقتصادی  مسائل اور فکری و معنوی  فقر میں مبتلا کر رکھا ہے؟

 نجات اور رہائی کے دن ،دنیا اتنی  خوبصورت  ہوگی کہ اس وقت نہ صرف ستمگروں اور ظالموں بلکہ ان کے ظلم و ستم کے نشان بھی مٹ جائیں گے۔

 ہم اس حیات بخش اور کامل زمانے کی تصویر کشی کرنے کے لئے توانا فکر کے نیاز مند ہیں تاکہ عصر ظہور کی نورانیت و درخشندگی کو ذہن میں تصور کرسکیں۔

 یہاں ہم نے جوانتہائی اہم نکتہ اخذکیاہے  وہ یہ ہے کہ حضرت  بقیة اللہ الاعظم (عج)عادلانہ حکومت میں حتی کہ مظالم و بدعتوں کے آثار بھی نہیں ملیں گے یہ

ایسی حقیقت ہے کہ جو ہم نے مکتب اہلبیت علیہم  السلام سے سیکھی۔

۲۴

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''هذه الآیة ''اَلَّذِینَ اِن مَکَّنَّا هُم (۱) '' نزلت فی المهدی و اصحابه یملکهم مشارق الارض و مغاربها، و یظهر اللّه بهم الدین حتی لا یری اثر من الظلم و البدع '' (۲)

یہ آیہ شریفہ''یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا''حضرت مہدی علیہ السلام  اور ان کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔خدا انہیں زمین پر مشرق و مغرب کا مالک بنائے گا ،ان کے  ذریعے دین کو ظاہر کرے گا ۔یہاں تک کہ ظلم اور بدعت کے آثار بھی د کھائی نہیں دیں گے۔

کیا اس حیات بخش زمانہ کو نہ دیکھیں؟کیا اس زمانہ کو درک کر سکتے ہیں؟

عدالت کی وسعت

آپ کو معلوم ہے کہ عصرِ ظہور ،عدل و عدالت سے سرشار زمانہ ہے۔جیسا کہ ہم نے خاندانِ عصمت و طہارت  کے فرامین سے نقل کیا کہ اس زمانے میں ظلم و ستم کے آثار باقی نہیں رہیں گے۔

اس وقت ستمگروں کی طرف سے لوگوں پر لادے گئے ہر قسم کے مسائل اور فقر و نیاز نہ صرف برطرف ہوجائیں گے بلکہ ان کا جبران بھی ہوگا۔

--------------

[۱]۔ سورہ حج، آیت:۴۱

[۲]۔ احقاق الحق:ج۱۳ص۳۴۱

۲۵

پوری دنیا میں عدل کا بول بالا ہوگا عدل کا پرچم بلند اور ظلم کا پرچم سرنگوں ہوگا۔تمام مظلومان ِ عالم ظالموںکے شر سے نجات پائیں گے ۔حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی عدلانہ حکومت پوری دنیا کے لوگوں کے سروں پر رحمت و عدالت کا سایہ کرے گی۔

 اس وقت صرف حکومتی اداروں میں ہی نہیں بلکہ بازاروں ،شاہرائوں ،تجارتی مراکز بلکہ گھروں کے اندر بھی عدل و عدالت قائم ہوگی اور ظلم و ستم کا نام و  نشان مٹ جائے گا۔

عدالت ایک قوی انرجی کی طرح ہر جگہ حتی ہر گھر میں سرایت کرجائے گی ۔ جس طرح سردی اور گرمی ہر جگہ کواپنے احصارمیں لے لیتی ہے۔اسی طرح آنحضرت کی عدالت بھی ایک عظیم  طاقت کی طرح ہرجگہ پھیل جائے گی۔اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اما واللّه لیدخلن علیهم عد له جوف بیوتهم کما یدخل الحرّ و القرّ  '' (۱)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عدالت حتمی اور قطعی طور پر گھروں میں داخل ہوجائے گی جس طرح گرمی و سردی داخل ہوتی ہیں۔

اب ممکن ہے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ عدالت ،پوری دنیا کواپنی  آغوش میں لے لے کہ جس طرح انرجی و حرارت ہر جگہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے؟یہ کس طرح ممکن ہے کہ پوری دنیا میں عدالت قائم ہوجائے کہ پھر ظالموں کا زور اور ظلم و ستم صفحہ ہستی سے مٹ  جا ئے؟ اگر اس زمانے  کے لوگ بھی ہمارے زمانے والوں کی طرح ہوں تو کیا ہر جگہ عدالت کا حاکم ہونا ممکن ہے؟کیا ممکن ہے کہ ظالموں اور ستمگروں کا زور اور دہشت دوسروں کو اپنی زنجیروں میں نہ جکڑے؟

--------------

[۱]۔ الغیبة مرحوم نعمانی :۲۹۷

۲۶

اس کے جواب میں یوں کہیں کہ جب تک بشریت اپنی اوّلی اور سالم فطرت کی طرف نہ لوٹے اور اس کی عقل و فکر تکامل کی حدوں تک نہ پہنچے،تب تک یہ ممکن نہیں کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں اور دنیا میں ظلم و ستم کی جگہ عدل و انصاف قائم ہونے دیں۔

 اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) حکومتِ عدلِ الٰہی کو استقراردینے کے لئے تمام انسانوں کے وجود میں اساسی تحول ایجاد کریں گے جس سے بشریت تکامل کی طرف گامزن ہوکر عدل و انصاف کا رخ کرے گی اور ظالموں کے وجود اور ان کے مظالم سے متنفر ہوجائے گی۔

یہ اساسی تحوّلات فقط اس صورت میں متحقق ہوسکتے ہیں کہ جب انسانوں کے وجود میں تکامل ایجاد ہو اور تکامل کے ایجاد ہونے سے ان کی روحانی و فکری اور عقلی قدرت میں اضافہ ہوگا۔پھر وہ نفس امّارہ  اور نفسانی خواہشات کی مخالفت سے تکامل کی طرف گامزن ہوں گے۔

   دنیا کی واحد عادلانہ حکومت

جیسا ہم نے کہا تھا کہ حضرت امام مہدی  علیہ السلام کی عادلانہ الٰہی حکومت عالمی ہوگی،جو پوری دنیا پر حکومت کرے گی۔زمین کے کسی خطے حتی کہ بیابانوں ،پہاڑوں میں بھی ان کی قدرت و حکومت کے علاوہ کوئی حکومت نہیں ہوگی ۔پوری دنیا ان کی عادلانہ و شریفانہ حکومت سے سر شار و مستفید ہوگی۔

ہم حضرت  بقیة اللہ الاعظم (عج)  کی زیارت میں یوں پڑھتے ہیں:

۲۷

''و تجمع به الممالک کلّها ،قریبها و بعیدها ،عزیزهاوذلیلها شرقها وغربها،سهلها و جبلها صبا حا و دبورها،شمالها و جنوبها ،برّها و بحرها ،خزونها و وعورها ،یملاها قسطا و عدلاََ کما ملئت ظلماََ وجوراََ '' (۱)

ان کے ذریعہ تمام حکومتوں کو ایک حکومت میں تبدیل کردیا جائے گا۔وہ ان میں سے نزدیک اور دور باعزت و ذلیل، مشرق و مغرب کی حکومتوں کو اور ان کے صحرا ؤں اور پہاڑوں ،چراگاہوںاور بیابانوں کو شمال و جنوب ،خشکی و تری اور ان میں سے ذرخیز و بنجر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہو گی۔

  اس بناء پر  حضرت  بقیة اللہ الاعظم (عج) سب حکومتوں کو ایک عادلانہ حکومت میں تبدیل کر یں گے وہ دنیا کی تمام حکومتوں کو اپنی حکومت کے زیر تسلط  لے آئیں گے۔چاہے وہ حکومت مشرق میں ہو یا مغرب میں ،چاہے وہ قدرت کے لحاظ سے طاقتور ہو یا کمزور ۔وہ پوری دنیا پر فتح و نصرت کے ذریعہ واحد عادلانہ حکومت قائم کریںگے ۔ دنیا کی تمام حکومتیں ان کی حکومت میںمل جائیں گی۔

رسول اکرم(ص)فرماتے ہ یں:

''الآئمة من بعدی اثنا عشر اوّلهم انت یا علی و آخرهم القائم الذی یفتح اللّٰه تعالٰی ذکره علٰی یدیه مشارق الارض و مغاربها '' (۲)

میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں سے پہلے امام یا علی آپ ہیں اور آخری امام قائم  ہیں کہ  خدا اس کے ہاتھوں سے زمین کے مشرق و مغرب کو فتح کرے گا۔

--------------

[۱]۔ صحیفہ مہدیہ: ۶۱۸

[۲]۔ بحارالانوار:ج۵۲ص۳۷۸

۲۸

ساری دنیا پر فتح پانے سے دنیا کے ہر خطے میںخدا کی عادلانا حکومت حاکم ہو گی۔کہیں بھی ظلم و ستم کا چھوٹا سا نمونہ بھی دکھائی نہیں دے گااسی وجہ سے دنیا کے سب مظلوم حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عادل حکومت کے منتظر ہیں وہ اسی حکومت کے انتظار میں ہیں کہ جب پوری دنیا میں عدل و انصاف حاکم ہوگا۔

 ہم آنحضرت کی زیارت میں  پڑھتے ہیں:

  '' السلام علیک ایّها المومّل لِاحیاء الدّولة الشریفة '' (۱)

سلام ہو تجھ پر کہ جس کی شریف(عادلانہ)حکومت کو زندہ رکھنے کے لئے آرزو کی جاتی ہے۔

حضرت امام باقر علیہ السلام،ان کی درخشاں حکومت اور عصرِ ظہور کے بارے میں میں فرماتے ہیں:

''یظهر کالشهاب ، یتوقد فی اللیلة الظلمائ، فان ادرکت زمانه قرّت عینک'' (۲)

جس طرح رات کی تاریکی میں شہاب شعلہ ور ہوتا ہے،اگر ان کے زمانہ کو دیکھو گے تو تمہاری آنکھیں روشن ہوجائیں گی۔

جس طرح سیاہ رات میں اگر کوئی روشن ستارہ نمودار ہو تو وہ سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلیتا ہے۔حضرت مہدی  علیہ السلام  کے ظہور کا زمانہ بھی ایسا ہی ہو گا۔

جب سب انسان گمراہی ،تاریکی اور فساد میں مبتلا ہوں گے ،تو لوگوں کے لئے امام زمانہ علیہ السلام کاظہور اس قدر درخشاں و منور ہوگا کہ سب لوگ اسی کی جانب متوجہ ہو جائیں گے تاکہ ضلالت و گمراہی کی تاریکی سے نکل کر ہدایت و نجات کی طرف آسکیں۔

--------------

[۱]۔ صحیفہ  مہدیہ:۶۲۰

[۲]۔ الغیبة مرحوم نعمانی:۱۵۰

۲۹

اس وقت منتظرین اور انتظار کرنے والوںکی آنکھیں روشن ہوجائیں گی ۔ان کی تھکاوٹ و خستگی ختم ہوجائے گی اور ان میں خوشی و مسرّت کی لہر دوڑ جائے گی۔جب لوگوں میں رات کے گھپ اندھیرے کی طرح اختلافات ،جنگ و جدال ،ظلم و ستم، خونریزی و فساد اپنے عروج پر ہوگا تو آنحضرت  کی عادلانہ حکومت ان مظلوم اور بے آسرا لوگوں کو وحشت و اضطراب سے نکالے گی۔ایسے دن کے بارے میں رسول اکرم (ص)نے فرما یا:

''ابشروا با المهدی ،ابشر وا باالمهدی،ابشروا باالمهدی یخرج علی حین  اختلاف  من الناس و زلزال شدید،یملأ الارض قسطا و عدلا،کما ملئت ظلما وجوراً،یملأ قلوب عباده عبادة و یسعهم عدله '' (۱)

 تمہیں مہدی علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتا ہوں  مہدی علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتا ہوں، مہدی  علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتا ہوں،جب لوگوں میں شدید اختلافات ہوں گے تو اس وقت امام زمانہ  علیہ السلام   ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کریں گے جس طرح سے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔وہ خدا کے بندوں کے قلوب کو حالت عبادت و بندگی سے سرشارکریں گے سب پر ان کی عدالت کا سایہ ہوگا۔

رسول اکرم(ص)نے فرما یا:

 '' یحل بامتی فی آخر الزمان بلاء شدید من سلاطینهم لم یسمع بلاء اشد منه حتی لا یجد لارجل ملجائ، فیبعث اللّٰه رجلا من عترتی اهل بیتی یملأ الارض قسطاً و عدلاً کما ملئت ظلما و جورایحبه ساکن الارض و ساکن السماء ، وترسل السماء قطرهاو تخرج الارض نباتها لاتمسک فیها شیئا……. یتمنی الاحیاء الاموات مما صنع اللّه بأهل الارض من خیره ''   (۲)

--------------

[۱]۔ الغیبة نعمانی: ۱۱۱

[۲]۔ احقاق الحق :ج۱۳ص۱۵۲

۳۰

آخری زمانے میں میری امت کو اپنے بادشاہوں و حکمرانوں کی طرف سے سخت مشکلات کا سامنا ہوگاکہ کسی نے بھی اس سے زیادہ سختی کا نہیں سنا ہوگا۔انسان کو کوئی پناہگاہ اور ان سے فرار کی جگہ میسر نہیں ہو گی۔

 پس خدا وند متعال میری عترت و اہلبیت علیہم السلام سے  ایک شخص کو ان کی طرف بھیجے گا ۔جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی۔

 زمین و آسمان کے مکین اسے دوست رکھتے ہیں ۔آسمان بارش برسائے گا زمین نباتات اُگائے گی اوراس میں سے کوئی چیز بھی اپنے اندر نہیں رکھے گی ،اس وقت زندہ افراد آرزو کریں گے کہ کاش ان کے مردے بھی ان کے ساتھ ہوتے ۔ان کی اس آرزو کی وجہ  اس زمانے میں اہل زمین پر کی جانے والی خوبیاں ہیں۔

ہم حضرت مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت کے جلد آنے کی امید کرتے ہیں اور ہم

ان بزرگوار کی عالمی حکومت کے قائم ہونے کے شاہد ہوں۔

عدالت کا ایک نمونہ

 ابتدائے تاریخ سے آج تک ہمیشہ طاقتوروں اور دولتمندوں نے اپنی طاقت اور دولت کے زور پرفقیر ، مستضعف اور کمزور لوگوں کے حقوق کو پامال کیا۔

اب تک ثروت مند نہ صرف دنیاوی امور بلکہ ایسے عبادی امور میں بھی پیش قدم ہوتے ہیں کہ جن میں دولت و ثروت کا اہم کردار ہوتا ہے اور ضعیف و ناتواں افراد فقط ان کا منہ دیکھتے رہتے۔

امام عصرعلیہ السلام کی عادل حکومت میں دولت و ثروت کایہ حال نہیں ہوگا۔ بعض افراد کی دولت ، دوسرے افراد کی محرومیت کا باعث نہیں ہوگی۔

۳۱

اس زمانے میں ہر انسان کے لئے بغیر کسی امتیاز کے عدالت بہترین طریقے سے نافذ ہوگی۔

 اب ہم جو روایت ذکر کرنے جارہے ہیں،وہ  عالمی عدالت  کے ایک نمونے کو بیان کرتی ہے:

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اوّل مایظهر القائم من العدل ان ینادی منادیه:

''ان یسلم صاحب النافلة لصاحب الفریضة الحجر الاسود و الطواف''(۱)

حضرت قائم علیہ السلام سب سے پہلے جس عدالت کا قیام  کریں گے وہ یہ ہے کہ آنحضرت  کا منادی  ندادے گا کہ جو افراد مستحب حج انجام دے رہے ہیں وہ محل طواف اور

حجر اسود ان لوگوں کے اختیار میں دے دیں کہ جن پر حج واجب ہے۔

اگر آج کے زمانے میں کچھ ثروتمندمقدس مقامات کی زیارت کی قیمت و اخراجات اتنے بڑھا دیتے ہیں کہ بہت سے لوگ اس سعادت سے محروم ہوجاتے ہیں لیکن اس درخشاں زمانے میں محرومیت کا نام و نشان نہیں ملے گا ۔سب لوگ خانۂ خدا اور مقدس مقامات کی زیارت کرسکیں گے۔اسی لئے عبادی امور میں بھی لوگوں کی شرکت بہت زیادہ ہوگی۔

اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)  کا پیغام خانۂ خدا کے تمام زائرین تک پہنچے گا کہ جنہوں نے اپنے واجب اعمال انجام دے دیئے ہیں وہ دوسروں کے لئے زحمت و محرومیت کا باعث نہ بنیں۔

یہ اس  عالمی عدالت کا اوّلین کارنامہ ہے کہ جس پر ابتدائے ظہور میں عمل ہوگا۔

--------------

[۱]۔ بحارالانوار :ج۵۲ ص۳۷۴

۳۲

 ہر طرف عدالت کا بول بالا

جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے کہ ظہور کے زمانے میں دنیا سے ظلم و ستم کا نام و نشان مٹ جائے گا اور پوری دنیا عدل و انصاف سے بھر جائے گی ۔اس دن ظلم و ستم،جنگ و جدال اور خونریزی کا نشان باقی نہیں رہے گا۔حضرت ولی عصرعلیہ السلام کی حکومت کے زیر سایہ انسانیت و بشریت سکون کا سانس لے گی ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہزاروں سال پہلے لوگوں کو اس دن کے آنے کی خبر دی گئیاور آخرکار دنیا خود اس دن کی گواہ ہوگی۔

اس مسئلہ میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔کیونکہ عقلوں کے تکامل کا لازمہ اصلی انسانی فطرت  کی طرف لوٹنا اور طبیعتوں کا پاک ہونا ہے اور یہ فقط ظہور کے درخشاںزمانے میں  ہی متحقق ہوگا۔

  عدالت کا نفاذ اور حیوانات میں  بدلاؤ

یہاں ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دن حیوانات کی کیا کیفیت و حالت ہوگی ؟

کیا درندے اس وقت کے مظلوم انسانوں کی زندگی کا اپنی درندگی سے اختتام کریں گے؟

اگر ایسا ہو تو پھر کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں انسانی معاشرے میں ظلم نہیں ہوگا اور خونریزی و غارت گیری کا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا؟اس حقیقت پر توجہ کریں کہ ظہور کا زمانہ ،یوم اللہ ہے۔اس دن زمین پر حکومت الٰہی ہوگی تو پھر یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ حیوانات میں کسی قسم کا تحول نہ آئے اور درندے اپنی درندگی کو جاری رکھیں؟

جی ہاں! حضرت بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام کی عادلانہ ،اور عالمی حکومت کا لازمہ یہ ہے کہ دنیا میں امن و امان ہو اور اہل دنیا ہر قسم کے شر و طغیان اور ظلم و بربریت سے محفوظ رہیں۔

۳۳

اس دن دنیا میں امن اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب درندوں سے ان کی درندگی ختم ہو جائے۔ موذی اور درندہ صفت حیوانات کی زندگی بدل جائے اور ان میں اساسیتبدیلیاں ایجادہوںگی۔ورنہ درندہ صفت حیوانات میں پائی جانے والی درندگی کے ہوتے ہوئے انسان اور کمزور حیوانات کس طرح سے ان کے شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟

  حیوانات کا رام ہونا

اب ہم اس بارے میں وارد ہونے والی بعض روایات پر توجہ کریں ۔

 رسول  اکرم(ص)نے امام عصرعلیہ السلام کی بشارت دی ہے اور عصر ظہوراور ان کی حکومت کی خصوصیات کو متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا ہے اور اس وقت دنیا اور اہل دنیا حتی کہ حیوانات میں ہونے والے مہم تحوّلات و تغیّرات کی خبر دی ہے۔رسول اکرم  (ص) اپنے ایک خطبے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:''و تنزع حُمة کلّ دابّة حتی یدخل الولید یده  ف فم الحنش فلایضره،وتلقی الولیدة الاسد فلا یضرها،و یکون ف الابل کأنّه کلبها و یکون الذئب فالغنم کانّه کلبها وتملأ الارض من الاسلام و یسلب الکفّار ملکهم ولا یکون الملک الاّ للّه و للاسلام وتکون الارض کفاثورالفضة تنبت نباتها کما کانت علی عهد آدم؛یجتمع النفر علی القثاء فتشبعهم و یجتمع النفر علی الرّمّانة فتشبعهم ویکون الفرس بدُرَیهمات '' (۱) ہر حیوان سے گزند و ضرر سلب کر لیا جائے گا ۔حتی کہ چھوٹا بچہ زہریلے سانپ کے منہ میں اپنا ہاتھ ڈال دے تو وہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا ۔اگر بچہ شیر کے آمنے سامنے ہو تو شیر اسے نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ اونٹوں کے درمیان شیر ایسے ہوگا جیسے ان کا کتا ہو۔بھیڑوں کے درمیان بھیڑیابھی ان کے کتے کی طرح ہوگا۔پوری روئے زمین پر اسلام کا چرچا ہوگا۔کفّار سے ان کی  ثروت و جائیداد  سلب ہو جائے گی۔کوئی حکومت نہیں ہوگی

--------------

[۱]۔ التشریف باالمنن: ۲۹۹

۳۴

مگر خدا اور اسلام کی حکومت۔  زمین چاندی کے دسترخوان کی طرح ہے ،جو اپنے نباتات اسی طرح اگائے گی جس طرح وہ آدم   کے زمانے میں اگاتی تھی۔

 کچھ لوگ مل کر ایک خیار( کھیرا) کھائیں تو وہ سب سیر ہوجائیں گے۔ اگر کچھ مل کر ایک انار کھائیں تو وہ ان سب کو سیر کردے گا۔ایک گھوڑے کی قیمت چند درہم ہوگی۔

اس روایت میں ظہور کے منوّر و درخشاں زمانے میں دنیا میں ہونے والی اہم تبدیلیوں پر توجہ کریں:

۱ ۔درندہ ح یوانات سے ان کی درندگی لے لی جائے گی۔

 ۲۔شیر اور بھیڑیئے  جیسے وحشی اور درندہ حیوانات پالتو جانوروں کی طرح ہوجائیں گے اور وہ اونٹ اور بھیڑوں کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔

 ۳ ۔جو کفار اپنے کفر پر باق ی رہیں گے ان سے ان کاتمام مال و دولت لے لیا جائے گا ۔

 ۴۔اس زمانے میں دنیا پر فقط اسلام کی حکمرانی ہوگی ۔خدا اور رسول(ص) ک ی حکومت ہوگی اور اس کے علاوہ کسی حکومت کا وجود نہیں ہوگا۔

 ۵ ۔اس زمانے م یں خیر و برکت اس قدر زیادہ ہوجائے گی کہ آج کی بہ نسبت پھلوں کی مقدار بہت زیادہ ہوجائے گی کہ کھیرا اور انار جیسا ایک پھل چند لوگوں کو سیر کرے گا۔

 ۶ ۔اش یاء بہت سستی وکم قیمت ہوجائیں گی کہ ایک گھوڑا چند درہم میں خریدا اور فروخت کیا جا ئے گا۔

 اس بناء پر اسلام عالمی حکومت،آسمانی برکات ،اقتصادی ترقی،زراعت میں اضافہ اوردرندوں سے وحشت و درندگی کا خاتمہ  اس زمانے کی اہم تبدیلیوں میں سے چند ہیں

 یہ تمام عصرِ ظہور کی خصوصیات میں سے ہیں کہ روایت میں پیغمبر اکرم (ص) نے اہل زم ین کو اس کی نوید سنائی ہے۔

۳۵

 وحشی حیوانات کا تابعہوجانا اور درندوں سے امان اس زمانے کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ حیوانات میں تحوّل و تبدّل اور بدلاؤ ،حضرت بقیة اللہ الاعظم  (عج) کی قدرتِ ولایت اور اس زمانے کی موجودات پر ان کے  اختیار کی دلیلہے۔

 اس زمانے میں نہ صرف درندے حیوانات سے درندگی ختم ہوجائے گی ،بلکہ اس زمانے میں لوگوںپر زمینی و آسمانی برکات نازل ہوں گی۔اسی طرح مختلف اشیاء میں ہر قسم کا تکامل،تحوّل،تبدّل اور ترقی بھی امامِ عصرکے ظہور اور ان کی قدرت ِ ولایت کی وجہ سے ہوگا۔ کیونکہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں  کہ مسئلہ ظہور فقط حضرت حجة بن الحسن العسکری (عج)کامادی و جسمانی ظہور نہیں ہے،بلکہ آنحضرت کے ظہور کا مقصد دنیا میں قدرت ِ ولایت و تصرّف سے استفادہ کرنا ہے اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ الاعظم(عج) کے ظہور سے عالمِ تکوین میں آنحضرت کے تصرفات ظاہر ہوں گے اور سب لوگ پوری دنیا میں ان عجیب  تبدیلیوں کے گواہ ہوں گے۔

 حضرت امام جعفر صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں:

 '' ینتج اللّه تعالی فی هذه الامة رجلا منی و انا منه یسوق اللّه تعالٰی به برکات  السمٰوات و الارض، فینزل السماء قطرها و یخرج الارض بذرها و تأمن وحوشها و سبأها و یملأ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا،و یقتل حتی یقول الجاهل لو کان هذا من ذریة محمدلرحم '' (۱)

 خدا وند متعال اس امت میں سے ایک مرد کو بھیجے گا کہ جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، خداوند اس کے ذریعہ آسمان و زمین کی برکات جاری کرے گا ۔پس آسمان بارش برسائے گا اور زمین زراعت و نباتات پیدا کرے گی ۔وحشی اور درندے حیوانات پر امن ہوجائیں گے۔وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی وہ خاندانِ اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں کو قتل کرے گا ،یہاں تک کہ جاہل کہیں گے اگر یہ محمد(ص) کی ذریت سے ہوتا تو یقینا رحم کرتا۔

--------------

[۱]۔ الغیبة شیخ طوسی: ۱۱۵

۳۶

 ہم  نے جو روایتذکرکی ،اس میں امام جعفر صادقعلیہ السلام سے امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں بہترین تعبیر نقل ہوئی ہے۔اس روایت میں امام جعفر صادق  علیہ السلام  نے فرمایا: رجلا منی و انا منہ ایسا مرد کہ جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔

 یہ ایک ایسی تعبیر ہے کہ جو امام جعفر صادقعلیہ السلام سے امام عصر کی تجلیل و تعریف کو بیان کرتی ہے۔یہ وہی تعبیر ہے کہ جو  رسول اکرم (ص)نے امام حسن  عل یہ السلام اور امام حسین  علیہ السلام کے بارے میں فرمائی۔

 اس روایت میں موجود دیگر نکات یہ ہیں:

۱۔ زمینی و آسمانی برکات کا نازل ہونا۔

۲ ۔ بارانِ رحمت کا برسنا۔

۳ ۔ زراعت و نباتات ک ی پیداوار میں اضافہ کہ جو زراعت اور اقتصاد کی ترقی کا باعث ہے۔

۴۔ وحشی حیوانات سے درندگی کا ختم ہوجانا۔

۵ ۔ دنیا کا عدل و انصاف سے سرشار ہونا۔

۶۔ روایت کے آخر میں  امام صادق علیہ السلام  کا یہ ارشاد ،و یقتل حتی یقول الجاهل ،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مخالفین میں سے اعتراض کرنے والے موجود ہوں گے۔کیونکہ وہ کہیں گے کہ اگر یہ محمد (ص) کی نسل و ذریّت سے ہوتے تو حتماً رحم کرتے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت رسول خدا(ص) اور ان کے رحیم ہونے کے معتقد ہوں گے۔لیکن امام زمانہعلیہ السلام کی امامت کے قائل نہیں ہوںگے۔اسی وجہ سے وہ امام  زمانہعلیہ السلام پر اعتراض کریں گے۔یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ ان میں قتل و غارترونما ہوگا۔

۳۷

اب اصل مطلب کی طرف آتے ہیں اور حیوانات کے رام ہونے کی بحث کوجاری رکھتے  ہیں کہ جس کے بارے میں خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام کی روایات میں تصریح ہوئی ہے۔

 روایات کی بناء پر درندے حیوانات میں ایسی تبدیلی آئے گی کہ وہ گوشت خوری کو چھوڑ کر چارہ کھانے و الے جانور بن جائیں گے۔

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ درندوں سے درندگی اور خونریزی کی صفت سلب  ہوجائے گی اور وہ چارہ کھاکر اپنی غذائی ضروریات کو پورا کریں گے۔

  حضرت امام حسن مجتبی  علیہ السلام فرماتے ہیں:

 '' تصلح فی ملکه السباح '' (۱)

حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت میں درندے ایک دوسرے کے ساتھ صلح و امن سے رہیں گے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''اصطلحت السباع و البهائم '' (۲)

درندے اور چارپائے آرام اور صلح سے رہیں گے۔

--------------

[۱]۔ بحارالاانوار:ج۵۲ص۲۸۰

[۲]۔ بحارالاانوار:ج۵۲ص۳۱۶

۳۸

یہ چیزیں ایسے افراد کے لئے دیکھنا مشکل ہوگا کہ جنہوں نے اپنے دلوں پر مہر لگا دی ہو اور وہ  موجود ہ اشیاء سے بڑھ کر کسی چیز کو دیکھ نہیں سکتے ۔لیکن جو آنے والی دنیا اور دنیا کے آئندہ  حالات اور مسائل کے بارے میں گہری نظر رکھتے ہوں،ان کے لئے یہ مسائل دیکھنا آسان ہے ۔کیونکہ وہ جانتے ہیں  کہ زمین و زمان میں رونما ہونے والے عجیب واقعات و تبدیلی ،کرہ زمین کے موجودات پر اچھے اثرات چھوڑیں  گے اور تمام  موجودات کوکامیابی و کامرانی کی طرف لے جائیں گے۔

اس حقیقت پر توجہ کرنے کے بعد اب یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ انسان تقویت ِ ارادہ  اور یقین ِ محکم کے ذریعہ حتی حیوانات کو بھی  اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لے؟

جس طرح شیخ بہائی اور ان جیسے افراد کی با قدرت نگاہ تانبے کو سونے میں تبدیل کردیتی تھی ، عقلوں کے تکامل کے دن انسان اپنے ارادے کو حیوانات پر القاء کرسکتاہے کہ جو عقلاً مشکل ہے۔

اگر ہم اس دن کو موجودہ دور کے لوگوں کی طرح مانیں تو پھر اس حقیقت و واقعیت کو قبول کرنا مشکل ہوگا۔لیکن جیسا کہ ہم نے کہا کہ وہ دن ،عقلوں کے تکامل، اور انسانی قدرت کے قوی ہونے کا دن ہے۔اس بیان پر توجہ کرنے سے ایسے واقعات کو قبول کرنا بہت سہل و آسان ہوجائے گا۔

۳۹

  حیوانات پر مکمل اختیار

اب اس مطلب کے بیان  کے لئے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ جو حیوانات میں تصرف و تحوّل کے امکان کی واضح دلیل ہے تاکہ یہ واضح ہے ہوجائے کہ ہر طرف اور ہر جگہ عدالت کے نفاذ کے لئے حیوانات کے وجود میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔حیوانات کے دماغ و اعصاب میں تصرّف سے یہ کام بڑی آسانی سے انجام پاسکتاہے۔

البتہ یہ بات مد نظر رہے کہ ہم عصرِ ظہور کی حیرت انگیز تبدیلیوں کو بیان کرنے کے لئے کسی ایسے واقعہ کو نقل کرنے کے لئے مجبور نہیں ہیں کہ جو غیبت کے دوران پیش آیا ہو۔ہم یہ واقعہ صرف اس کے  لئے بطور ایک دلیل  ذکر کر رہے ہیں۔بلکہ یہ مطلب بعض افرادکے ذہن کے نزدیک کرنے کے لئے ہے شاید غیبت کے دوران حکومتِ الہٰی کے غاصبوں کی زرق و برق اور نمائشی زندگی ان پر اثر انداز ہوئی ہو۔

مذکورہ نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس واقعہ پر توجہ کریں۔

 ''ڈل گاڈو''نامی ایک شخص بُل فائٹر تھا۔ہم اس کے بُل فائٹنگ کے ایک مقابلہ کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:

بُل فائٹنگ کے ایک مقابلے میں لوہے کا دروازہ کھلا اور ایک انتہائی طاقتور بیل وہاں سے نکل کر میدان کی طرف بھاگا وہ بھاگتا ہوا سیدھا ''ڈل گاڈو''کی طرف آرہا تھا۔وہ ''ڈل گاڈو'' کے بدن کے حساس ترین حصے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ہزاروں تماشائی،فوٹو گرافر اور اخباری نمائندے اس منظر کو دیکھ رہے تھے اور ان کے دل بہت تیزی سے دھڑک رہے تھے۔سب اس خوفناک منظر کو دیکھ رہے تھے۔کوئی بھی انہیں اس خوفناک منظر سے نکالنے والا نہیں تھا۔

 میدان میں صرف ایک غضبناک بیل کے دوڑنے کی آواز گونج رہی تھی۔ہر کوئی اس لمحے کا منتظر تھا کہ کب بیل اپنے سینگوں سے ''ڈل گاڈو''کو اٹھا کر آسمان کی طرف پھنیکے یا اپنے تیز اور نوکیلے سینگوں سے اس کے سینہ کو پھاڑ دے!

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300