امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت13%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180666 / ڈاؤنلوڈ: 4529
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۸_الله تعالى كى مشيت اور ارادے كے مدمقابل ،پيغمبر (ص) كا كوئي مددگار اور دفاع كرنے والا نہيں ہے_

ثم لا تجدلك به علينا وكيل

۹_حسن بن محمد النوفلى يقول: قال سليمان: إرادته علمه، قال الرضا(ع): ما الدليل على أن إرادته علمه؟ وقد يعلم ما لا يريد ، أبداً وذلك قوله عزّوجلّ : ''أولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك'' قال سليمان: فان الارادة القدرة قال الرضا ( ع ): و هو عزّوجلّ يقدر على ماه يريده أبداً ولا بدّمن ذالك لأنه قال تبارك وتعالى :''ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى اوحينا اليك'' فلو كانت الإرادة هى القدرة كان قد أراد أن يذهب به لقدرته ..._(۱)

حسن بن محمد نوفلى كہتے ہيں : سليمان نے كہا الله تعالى كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے _ امام رضا (ع) نے فرمايا: اس پر كيا دليل ہے كہ اس كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے حالانكہ الله تعالى جس چيز كو جانتاہے اس كا ارادہ ہرگز نہيں كرتا اور يہ الله تعالى كاكلام ہے كہ وہ فرمارہا ہے:''ولئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا اليك'' _ سليمان نے كہا: پس ارادہ وہى قدرت ہے _ تو امام رضا (ع) نے فرمايا : يہ الله تعالى ہے كہ جس چيز پر قادر ہے ہرگز اس كا ارادہ نہيں كرتا _ پس ناچار اس بات كو قبول كرنا چاہئے چونكہ الله تعالى نے فرمايا :'' ولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك '' _ پس اگر ارادہ وہى قدرت ہو تو جو پيغمبر (ص) پر وحى كيا وہ اللہ محو كرديتا چونكہ قادر تھا_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) پر وحى ۱، ۲، ۴;آنحضرت (ص) پر وحى كى محدوديت۵;آنحضرت(ص) كى نبوت۲; آنحضرت(ص) كے علم كى محدوديت ۵; آنحضرت (ص) كے علوم كا محوہونا۱;آنحضرت (ص) كے مقامات ۲; آنحضرت (ص) كے مددگار كا نہ ہونا ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۹;اللہ تعالى كا علم ۵، ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۱، ۹ ;اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۳;اللہ تعالى كى مشيت كا غالب ہونا ۸;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۴;اللہ تعالى كى نعمات ۷;اللہ تعالى كے ارادہ كا حتمى ہونا ۳

انسان :انسانوں كا علم لدنى ۴

خلفت :خلقت كے اسرار۵

ذكر:مادى و سائل كے سرچشمہ كا ذكر ۶

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۱، ص ۱۷۹،۱۸۹ ح۱، ب۱۳_توحید صدوق ص۴۵۱، ، ۴۵۴، ح ۱،ب ۶۶_

۲۴۱

روايت : ۹

شكر :نعمت كا شكر ۷

علم :علم لدنى كا سرچشمہ ۴;علم لدنى كے زوال كا سرچشمہ ۴

مادى وسائل :مادى وسائل كا پائدار نہ ہونا ۶

نعمت :قرآن كا نعمت ہونا ۷

وحي:وحى كا سرچشمہ ۴

آیت ۸۷

( إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيراً )

مگر يہ كہ آپ كے پروردگار كى مہربانى ہوجائے كہ اس كا فضل آپ پر بہت بڑا ہے (۸۷)

۱_الله تعالى كى رحمت ولطف،پيغمبر (ص) سے وحى ( حقائق اور بنيادى معارف) واپس لينے سے مانع ہے_

لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

استثناء ممكن ہے كہ محذوف كلمہ يا كلام سے ہو مثلاً عبارت يوں ہو كہ جو كچھ تمہيں ديا سوائے رحمت كے كچھ نہ تھا _ لہذا ہم محو نہيں كريں گے_ يعنى'' لئن شئنا'' سے استدراك ہو اور عبارت يوں فرض ہوگي''ولكن لانشاء ذلك رحمة'' (ہم نے عطا كئے معارف كو تجھ پر رحمت كى بناء پر زائل نہيں كرنا چاہا )

۲_پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو ثابت اور ہميشہ ركھنا ان پر الہى ربوبيت كا جلوہ ہے_

لئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا إلّا رحمة من ربك

۳_وحى كو ثابت ركھنا اور قرآنى مفاہيم كو باقى ركھنا بندوں پر الہى رحمت كا جلوہ ہے_لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

۴_پيغمبر اكرم(ص) پر الله تعالى كا عظےم و وسيع فضل ورحمت_إن فضله كان عليك كبيرا

۵_الله تعالى كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كى خاص اہميت اور بلند وبالا مقام_أن فضله كان عليك كثيرا

۶_الله تعالى كا پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو استحكام بخشے كے سلسلہ ميں ان پر احسان_

۲۴۲

ولئن شئنا لنذهبن أن فضله كان عليك كبيرا

۷_ پيغمبر اكرم(ص) كے ليے پروردگار عالم كى ربوبيت رحمت سے متصل ہے_الاّ رحمة من ربك

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر احسان ۶;آنحضرت (ص) پر رحمت ۴;آنحضرت (ص) پر فضل ۴،۷;آنحضرت (ص) پر وحي۱، ۲،۶;آنحضرت (ص) كاقرب ۵; آنحضرت (ص) كاقلب ۲، ۶; آنحضرت كا مربى ہونا ۲، ۷; آنحضرت (ص) كے مقامات ۵

الله تعالى :الله تعالى كا احسان ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۲;اللہ تعالى كى رحمت۷;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۳;اللہ تعالى كے لطف كے آثار ۱

الله كا فضل:الله كے فضل كے شامل حال لوگ ۴

رحمت:رحمت كے شامل حال لوگ ۴، ۷

قرآن:قرآن كو ثابت ركھنا ۳

وحي:وحى كو ثابت ركھنا ۲، ۳، ۶;وحى كے محو سے مانع ۱

آیت ۸۸

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا القرآن لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً )

آپ كہہ ديجئے كہ اگر انسان اور جناب سب اس بات پر متفق ہوجائيں كہ اس قرآن كا مثل لے آئيں تو بھى نہيں لاسكتے چاہے سب ايك دوسرے كے مددگار اور پشت پناہ ہى كيوں نہ ہوجائيں (۸۸)

۱_قرآن كى مثل لانے سے جن وانس كى عاجزى كا اعلان كرنے كا پيغمبر (ص) كى ذمہ داري_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲_ تمام مخاطبين قرآن كو (جن وانس) قرآن كے اعجاز كو آزمانے كى دعوت _

قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل

۳_قرآن ايسے حقائق' تعليمات اور معارف پر مشتمل ہے كہ جن پر جن و انس وحى كے بغير كبھى بھى دسترس حاصل نہيں كر سكتے_قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل هذالقرآن لايا تون ظهيرا

انسانوں اور جنوں كى قرآن كى مثل لانے سے عاجزى مطلق ہے يعنى اس كى تعليمات اور معارف كو بھى شامل ہے_

۲۴۳

۴_انسانى اور جنى طاقتيں ايك دوسرے كى پشت پناہى اور مدد كرنے كے باوجود بھى قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہيں _

قل لئن اجتمعت ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

۵_قرآن ،اللہ كا ايسا جاودانى معجزہ ہے جو ہميشہ بے مثل كتاب رہا اور ابد تك بے مثل رہے گا_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

يہ جو آيت تصريح كر رہى ہے كہ كوئي جن وانس قرآن كى مثل لانے كى طاقت نہيں ركھتا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ قرآن ہميشہ بے مثل كتاب كى مانندرہے گا_

۶_ قرآن جيسى بے مثل كتاب كا پيغمبر (ص) كو عطا ہونا ان پر الله تعالى كے عظےم فضل كى نشانى ہے_

أن فضله كان عليك كبيراً _ قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۷_چيلنج او رمقابلہ كى دعوت كے سلسلہ ميں قرآن مجيد كى فتح اس كى بلاشبہ حقانيت كا اعلان ہے _

قل جاء الحق قل لئن اجتمعت الإنس والجن لا يا تون بمثله

۸_انسان كا قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہونا، اس كى الله كے مدّ مقابل كم علمى اور كم طاقت ركھنے پر دلالت كرتا ہے_

وما أوتيتم من العلم إلّا قليلاً قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۹_جن، انسان كى مانند باشعور موجود ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ على يا توا بمثهل

انسان و جن كے مابين، ارتباط اتفاق نظر اور تعاون ممكن ہے_يہ جو الله تعالى نے فرمايا: اگر جن اور انسان ايك دوسرے كا ہاتھ پكڑليں تو بھى قرآن كى مثل نہيں لاسكتے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان اور جن كے درميان رابطہ اور تعاون كا امكان ہے ورنہ يہ چيلنج لغو ہوتا_

۱۱_قرآن كااعجاز تمام جہات اور ابعاد ( لفظي، معنوى ' معرفت وغيرہ كے حوالے سے ...) تھا لہذا يہ چيلنج بھى ان تمام ابعاد ميں ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲۴۴

پورى تاريخ ميں جن وانس كو مخاطب كرنا بتا رہا ہے كہ صرف عرب لوگ اس چيلنج كے مخاطبين نہيں تھے ورنہ يہ چيلنج قرآن كے لفظى اور ادبى بعد ميں ہى رہتا_

۱۲_پيغمبر (ص) كے زمانے كے بعض لوگوں كا قرآن كے بارے ميں يہ عقيدہ كہ وہ سرچشمہ وحى سے نہيں ہے اور خود ساختہ ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

يہ جو قرآن مكمل قاطعيت سے چيلنج كر رہا ہے ہو سكتا ہے اس شبھہ كے جواب ميں ہو كہ قرآن وحى نہيں ہے_

۱۳_قرآن كى مثل كتاب لانے كا ناممكن ہونا خود ہى اس كے الہى ہونے اور بشرى نہ ہونے سے ہے _

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر فضل كى نشانياں ۶;آنحضرت (ص) پر قرآن كا نزول ۶;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كے فضل كى نشانياں ۶

انسان:انسانوں كا عاجز ہونا ۱، ۳، ۴، ۸;انسانوں كو دعوت ۲;انسانوں كے علم كے محدود ہونے كى نشانياں ۸

جن :جن سے روابط ۱۰;جن كا شعور ۹;جن كا عجز ۱، ۳ ، ۴;جن كو دعوت ۲;جن كے ساتھ تعاون ۱۰

قرآن:قرآن پر افتراء ۱۲;قرآن كا اعجاز ۲;قرآن كا چيلنج ۲;قرآن كا وحى سے ہونا ۳; قرآن كى اہميت ۶;قرآن كى جاودانگى ۵;قرآن كى حقانيت كى نشانياں ۷;قرآن كى خصوصيات ۳;قرآن كى مثل بنانا ۱، ۴، ۸، ۱۳;قرآن كے اعجاز كے ابعاد ۱۱;قرآن كے بے نظير ہونا ۳، ۵،۱۳;قرآن كے چيلنج كے آثار ۷; قران كے چيلنج كے ابعاد ۱۱; قرآن كے وحى سے ہونے كے دلائل ۱۳

لوگ:بعثت كے زمانے كے لوگوں كا افتراء ۱۲;بعثت كے زمانے كے لوگوں كا عقيدہ ۱۲

موجودات:باشعور موجودات ۹

۲۴۵

آیت ۸۹

( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا القرآن مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُوراً )

اور ہم نے اس قرآن ميں سارى مثاليں الٹ پلٹ كر بيان كردى ہيں ليكن اس كے بعد پھر اكثر لوگوں نے كفر كے علاوہ ہر بات سے انكار كرديا ہے (۸۹)

۱_مختلف مثالوں اور بيانات سے قرآن ميں الہى حقائق كى وضاحت _ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۲_حقائق اور مفاہيم كى تشريح كے لئے قرآن كے مختلف بيانات اور متنوع انداز ،اس كے ابعاد اعجاز كا ايك جلوہ ہے_

لايا تون بمثله ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۳_قرآن كے مختلف بيانات اور مثاليں ، لوگوں كى فہم اور ان كى ہدايت كے لحاظ سے مناسب ہيں _

ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

''تصريف'' كا لغت ميں معنى ايك چيز كو مختلف جہات سے پھيرنا ہے اور ''تصريف كلام'' سے مراد اس كو مختلف معانى ميں لانا ہے يہ جو قرآن كتاب ہدايت ہے اور وہ فرماتا ہے ہم نے قرآن ميں معانى كو مختلف جہات سے بيان كيا_اس سے معلوم ہوا كہ ان جہات كى رعايت ہوسكتا ہے مندرجہ بالا نكتہ كى بناء پر ہو _

۴_لوگوں كے لئے حقائق كى وضاحت اور ان كى تشريح كے لئے ضرورى تھا كہ مختلف انداز اور بيانات سے فائدہ اٹھايا جائے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل

۵_تمام انسان، مخاطب قرآن ہيں نہ كہ كوئي خاص گروہ_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن

۶_اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا سوائے حق سے دورى كے علاوہ اور كچھ نہيں تھے_

ولقد صرفنا فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۷_قرآن سے منہ پھيرنے كى وجہ اس كا ناقابل فہم ہونا يا اس كے مضامين نہيں ہيں بلكہ اس كى وجہ حق سے

۲۴۶

دورى اختيار كرنا ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۸_قرآن كى حقانيت اور اس كے بے مثل پر دليل ہونے كے باوجود اس كا انكار ايك بہت بڑى اور ناقابل قبول ناشكرى ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس إلّا كفورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''كفور'' سے مراد نعمت كى نا شكرى ہو_

اكثريت:اكثريت كا حق قبول نہ كرنا ۶

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار ۷

حقائق :حقائق كى وضاحت كا انداز ۱، ۴;حقائق كى وضاحت كا متنوع ہونا ۴

قرآن:اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا ۶;قرآن سے منہ پھيرنے كا فلسفہ ۷;قرآن كا انداز بيان ۱، ۲; قرآن كا سارے جہان كے ہونا ۵ ; قرآن كا ہدايت دينا ۳;قرآنى تعليمات كى خصوصيات ۱، ۲;قرآن كى تكذيب ۸; قرآن كى فہم ميں سہولت ۳;قرآن كى مثالوں كا فلسفہ ۱، ۳;قرآن كے اعجاز كى نشانياں ۲; قرآن كے بيان كا متنوع ہونا ۲، ۳;قرآن كے مخاطب ۵

ناشكري:نعمت كى ناشكرى ۸

آیت ۹۰

( وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعاً )

اور ان لوگوں نے كہنا شروع كرديا كہ ہم تم پر ايمان نہ لائيں گے جب تك ہمارے لئے زمين سے چشمہ نہ جارى كردو (۹۰)

۱_مشركين كى طرف سے پيغمبر (ص) پر ايمان لانے سے پہلے مكہ ميں مشركين كے ليے ايك پر جوش پانى كے چشمہ كو ظاہر كرنے كى شرط_وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۲_مكہ ميں مشركين كے لئے چشمہ جارى كرنے كا تقاضا ان كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ ايك معجزہ تھا _و قالوا لن نومن لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۳_مشركين مكہ معجزہ طلب كرنے كے ذريعہ اپنے فوائد حاصل كرنے اور بہانوں كى تلاش ميں تھے نہ كہ وہ پيغمبر (ص) كى حقانيت كشف كرنا چاہتے تھے

۲۴۷

_ولقد صرّفنا للناس فى هذالقرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفوراً_ وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا الأرض ينبوعا چونكہ مشركين، پيغمبراكرم (ص) كى حقانيت كو جاننے كے لئے مختلف راہوں كو نظر انداز كرچكے تھے اور انہوں نے اپنے ايمان كو ايسى چند محدود سى باتوں كے ساتھ مشروط كيا كہ جن سے اكثران كے مادى فائدے پورے ہوتے تھے _ اس سے مذكورہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۴_مشركين نے الله تعالى كى طرح طرح كى نشانياں ديكھنے كے باوجود پيغمبر اكرم (ص) سے معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فابى وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۵_مكہ كے مشركين، قرآن كے بے مثل ہونے كے باوجود اسے معجزہ نہيں مانتے تھے _قل لئن اجتمعت الإنس و الجن وقالوا لن نو من لك

يہ جو الله تعالى قرآن كے بے مثل معجزہ ہونے كى توصيف كرنے كے بعد مشركين كے طلب كردہ جيسى معجزہ كى درخواست نقل كر رہا ہے _ مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے _

۶_پيغمبر (ص) كى بعثت كے آغاز ميں مكہ ميں پانى كى كمى تھى اور اہل مكہ پانى كے دائمى منابع كے محتاج تھے_

تفجر لنا من الأرض ينبوعا

مشركين كى پيغمبر اكرم -(ص) سے چشمہ جارى كرنے كى درخواست ممكن ہے ان كى پانى كے منابع كى شديد ضرورت كے پيش نظر ہو_

۷_انسان كى اجتماعى اور مادى ضروريات، اس كى آراء و نظريات يہاں تك كہ فكرى و معنوى مسائل پر بھى اثر انداز ہوتى ہيں _وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

يہ احتمال كہ مشركين نے منبع آب كى شديد ضرورت كے پيش نظر پيغمبراكرم(ص) سے جارى چشمہ كو بعنوان معجزہ طلب كيا ہو اس مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے پانى كے چشمہ كى درخواست ۱، ۲

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضرورتيں :مادى ضرورتوں كے آثار ۷;پانى كى ضرورت ۶

عقيدہ :عقيدہ ميں مو ثر اسباب ۷

۲۴۸

فكر:فكر كى اساس ۷

قرآن :قرآن كا اعجاز ۵;قرآن كا بے نظير ہونا ۵

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور قرآن ۵;مشركين مكہ كا حسى چيزوں كى طرف پر اعتقاد۴;مشركين مكہ كا نفع پسند ہونا۳;مشركين مكہ كا ہٹ دھرم ہونا ۴;مشركين مكہ كى درخواستيں ۱، ۲، ۴;مشركين مكہ كي

فكر۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱;مشركين مكہ كے بہانے بنانا۳

معجزہ :معجزہ اقتراحى (خود طلب كيا ہوا ) ۱، ۲،۴

معجزہ حسى كى درخواست: ۴

مكہ:اہل مكہ كى ضروريات ۶; مكہ كا جغرافيائي مقام ۶;مكہ كى تاريخ ۶;مكہ ميں پانى كا كم ہونا ۶

آیت ۹۱

( أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيراً )

يا تمھارے پاس كھجنور اور انگور كے باغ ہوں جن كے درميان تم نہريں جارى كردو (۹۱)

۱_مشركين كى پيغمبر اكرم(ص) پر ايمان لانے كے ليے ايك شرط يہ تھى كہ پيغمبراكرم(ص) كے پاس كھجور اور انگور كے درختوں كا ايسا بڑا باغ ہو جس كے درميان بہت سى پانى كى نہريں جارى ہوں _

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

۲_مادى قدرت اور دنياوى وسايل سے سرشار ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں پيغمبرى اور رہبرى كا معيار تھا_

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ مشركين مكہ چاہتے تھے كہ آپ (ص) واقعاً مال ثروت اور باغ كے حامل ہوں نہ كہ معجزہ اقتراحى ان كى خواہش تھى _

۳_مشركين مكہ نے الله كى مختلف آيات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر(ص) سے حسى معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فا بى وقالوا

۲۴۹

لن نومن لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

يہ نكتہ اس آيت ميں اس احتمال كے ساتھ پيدا ہوگا كہ وہ اس قسم كے باغ كو معجزہ كے وسيلہ سے چاہتے تھے_

۴_كھجور اور انگور كا جارى نہروں كے ساتھ بڑا باغ مشركين مكہ كى جانب سے آنحضرت (ص) سے معجزہ اقتراحى (طلب كردہ) تھا_لن نو من لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے باغ كى درخواست ۱، ۴;آنحضرت (ص) سے نخلستان كى درخواست ۱، ۴

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۳، ۴

انبياء :انبياء كا مالدار ہونا ۲

رہبر:رہبروں كا مالدار ہونا ۲

رہبري:رہبرى كا معيار ۲

مشركين مكہ:مشركين كا عقيدہ ۲;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۳;مشركين مكہ كى خواہشات ۳، ۴;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱،۳ ،۴;معجزہ حسى كى درخواست ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۲

آیت ۹۲

( أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفاً أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً )

يا ہمارے اوپر اپنے خيال كے مطابق آسمان كو ٹكڑے ٹكڑے كركے گرادو يا اللہ اور ملائكہ كو ہمارے سامنے لاكر كھڑا كردو (۹۲)

۱_آسمان سے ٹكڑے نازل كروانا،معجزات اقترا حى اور مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواستوں ميں سے ايك ہے_

اوتسقط السماء علينا كسفا

''كسَف'' كسف كى جمع ہے كہ جس سے مرادٹكڑا ہے_ (لسان العرب)

۲_آسمان سے ٹكروں كا نازل ہونا، مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے سے پہلے شرط تھي_

وقالوا لن نومن لك او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۲۵۰

۳_پيغمبر (ص) كا مشركين مكہ كو عذاب نازل ہونے پر آسمان سے ٹكڑوں كے گرنے كے امكان سے خبردار كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۴_مشركين مكہ كا ان پر آسمان سے ستاروں اور ٹكڑوں كے گرنے كے ساتھ عذاب كے نزول پر يقين نہ كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

''الزعم'' سے مراد ايسى بات كى حكايت تھى كہ جہاں جھوٹ كا گمان ہو _(مفردات راغب)

۵_مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) اور ان كى برحق تعليمات كے مدمقابل ھٹ دھرى _

لن نو من لك حتّى تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۶_مشركين مكہ پيغمبر (ص) كى حقانيت پر گواہى كے لئے الله اور ملائكہ كو اپنے آمنے سامنے ديكھنا چاہتے تھے_

اوتا تى باللّه والملئكةقبيلا

''قبيلاً'' سے مراد مقابلہ (آمنے سامنے) ہے _ اس آيت ميں يہ ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرے _

۷_مشركين مكہ نے پيغمبر (ص) پر اپنے ايمان كو الله تعالى اور ملائكہ كو قابل مشاہدہ حالت ميں لانے پر مشروط كرديا _

قالوا لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے مشاہدہ ہو_

۸_الله تعالى اور ملائكہ كو گروہ گروہ كى شكل ميں مشركين مكہ كے پاس لاياجانا، ان كى آنحضرت (ص) سے درخواست (اقتراحي) تھي_لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے ''قبيلاً'' قبيلہ كى جمع ہو_

۹_مشركين مكہ كا الله تعالى اور ملائكہ كے بارے ميں مادى اور جسمانى تصور _تا تى باللّه والملائكة قبيلا

''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے اور مشاہدہ ہے اس ليے اس كا استفادہ ہوتا ہے نكتہ_

۱۰_مشركين مكہ كا اپنے عقائد اور نظريہ كائنات ميں صرف محسوسات اور حسى چيزوں پر اعتماد كرنا_

تا تى باللّه والملائكة قبيلا

آسمان :آسمان كے گرنے كى درخواست ۱، ۲

آنحضرت (ص) :

۲۵۱

آنحضرت (ص) كى حقانيت پر گواہى ۶; آنحضرت (ص) كے ڈراوے ۳;آنحضرت (ص) كے دشمن ۵

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸

الله تعالى :الله تعالى كى گواہى كى درخواست ۶;اللہ كے ديكھنے كى درخواست ۷;اللہ تعالى كے سامنے آنے كى درخواست ۶، ۷، ۸

ڈراوے:عذاب سے ڈراوا ۳

عذاب:عذاب پر يقين نہ ہونا ۴;آسمان كے گرنے كے ساتھ عذاب ۳

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور آنحضرت (ص) ۵;مشركين مكہ كا ايمان نہ لانا ۴;مشركين مكہ كا حسى چيزوں پر يقين ميلان۱۰;مشركين مكہ كا عقيدہ ۱۰ ; مشركين مكہ كا عادى چيزوں پر اعتقاد ۹; مشركين مكہ كى خواہشات ۱، ۶، ۷;مشركين مكہ كى فكر۹;مشركين مكہ كو ڈراوے ۳; مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۷

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱، ۶، ۸

ملائكہ:ملائكہ كى گواہى كى درخواست ۶;ملائكہ كو ديكھنے كى درخواست ۷;ملائكہ كو سامنے لانے كى درخواست ۶، ۷، ۸

آیت ۹۳

( أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً )

يا تمھارے پاس سونے كا كوئي مكان ہو يا تم آسمان كى بلندى پر چڑھ جاؤ اور اس بلندى پر بھى ہم ايمان نہ لائيں گے جب تك كوئي ايسى كتاب نازل نہ كردو جسے ہم پڑھ ليں آپ كہہ ديجئے كہ ہمارا پروردگار بڑا بے نياز ہے اور ميں صرف ايك بشر ہوں جسے رسول بناكر بھيجا گيا ہے (۹۳)

۱_اپنے ليے سونے كا گھربنانا مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواست (معجزہ اقتراحي) _

۲۵۲

ا ويكون لك بيت من زخرف

پچھلى آيات كے سياق وسباق سے معلوم ہوتا ہے كہ جہاں معجزات كى درخواست كى گئي تھي_ يہاں بھى ''اويكون لك بيت من زخرف'' سے مراد سونے كا گھر معجزہ كے ذريعے بنانا ہے_

۲_مشركين مكہ نے آنحضرت (ص) پر اپنے ايمان كو سونے سے بنے گھر كے معجزہ سے مشروط كرديا _

قالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۳_مشركين مكہ قران كے بلند مفاہيم سے غافل تھے اور دنيا كے مال پر آنكھيں لگائے ہوئے تھے_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن من كل مثل فا بى وقالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۴_مشركين مكہ نے الله تعالى كى مختلف نشانيوں كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر (ص) سے معجزہ حسى كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كل مثل فا بى وقالوا لن نومن لك حتّى يكون لك بيت من زخرف أو ترقى فى السماء تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۵_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے پڑھنے كے لائق لكھى ہوئي چيز اور اپنے اوپر جانے كى گواہى لانا مشركين مكہ كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ معجزہ _او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۶_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے اپنى حقانيت پر خط لانا' مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے كى شرط تھي_قالوا لن نو من لك حتّى ...او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۷_الله تعالى كے معجزات كے وجود ميں لانے كے اصلى ارادہ سے مشركين مكہ كى غفلت _

تفجرلنا تسقط السمائ تأتى بالله تنزل علينا كتباً نقرؤه

يہ كہ مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) سے درخواست كہ تمام معجزات ،حتى كہ الله كا آنا مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كر رہا ہے_

۸_الله تعالى كى آيات اور معجزات كى شناخت ميں مشركين مكہ كا صرف مادى اور حسى معياروں پر اعتماد كرنا _

حتى تفجرلنا حتّى تنزل علينا كتباً نقرؤه

۹_مشركين مكہ، قرآن اور آنحضرت (ص) كى رسالت كے آسمانى ہونے پر عقيدہ نہ ركھتے تھے_

او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

يہ كہ وہ پيغمبر (ص) سے ايسے خط اور كتاب كو مانگ رہے تھے كہ جو وہ خود آسمان سے لے كر آئيں _ اس سے واضح ہورہاہے كہ قرآن جو كہ آنحضرت (ص) پر وحى كى صورت ميں نازل ہوا وہ اسے قبول نہيں كرتے تھے_

۲۵۳

۱۰_ پيغمبر (ص) پر مشركين مكہ كے بے جا طلب كردہ معجزات كا جواب دينے اور ان كى ايسى طلب كے پورا كرنے پر الله تعالى كے منزّہ ہونے كو بيان_قالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا ...قل سبحان ربي

۱۱_الله تعالى ، بہانوں كى تلاش ميں پڑے ہوئے لوگوں كى فضول خواہشات كے مطابق اپنے معجزات دينے سے منزہ ہے_

تفجرلنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربي

مشركين مكہ كى اپنے ميلان كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) سے معجزات كى متعدد درخواستوں كے مد مقابل الله تعالى فرما رہا ہے ''ميرا رب منزہ ہے'' اس جواب كا ممكن ہے يہ معنى ہو كہ الله تعالى اسے لوگوں كے ميلان كے مطابق معجزات عطا نہيں كرتا _

۱۲_الله تعالى كسى جگہ محصور ہونے' جسم ركھنے' ديكھے جانے اور دوسرے ايسے مادى اوصاف سے منزہ ہے_اوتاتى بالله قل سبحان ربي چونكہ مشركين كى پيغمبر (ص) سے درخواست :''تا تى باللہ '' الله تعالى كى جسمانيت ' ايك جگہ سے دوسرى جگہ آنا، اور ديكھے جانے كى موجب تھى تو جملہ ''سبحان ربي'' ہوسكتا ہے ايسى غير منطقى درخواست كا جواب ہو_

۱۳_معجزات كا پيش كرنا اور ان كى نوعيت واضح كرنا صرف الله تعالى كا كام ہے نہ كہ انبياء كا_تفجر لنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسول يہ كہ مشركين، پيغمبر (ص) سے معجزات لانے كى درخواست كر رہے تھے اور انہوں نے ان كے جواب ميں فرمايا :''هل كنت الاّ بشراً رسولاً'' اس سے معلوم ہواكہ معجزہ كا سرچشمہ، فقط الله تعالى ہے_ پيغمبر-(ص) كا اس سلسلے ميں كوئي كردار نہيں _

۱۴_پيغمبر(ع) دوسرے انسانوں كى مانند ايك انسان ہے اور اس كى خصوصيت اور امتياز صرف اس كى رسالت اور پيغمبرى ہے_قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسولا

۱۵_پيغمبر(ص) اپنى محدود ذمہ دارى كے اعلان اور مشركين كے طلب كردہ معجزات كو پيش كرنے سے اپنى عاجزى بيان كرنے كے ذمہ دار ہيں _قالوا قل هل كنت الاّ بشراً رسولا

مشركين كى درخواستوں كے مد مقابل ''ہل كنت '' كا جواب ہوسكتا ہے يہ بيان كر رہا ہو كہ ان كى درخواست كا پيغمبر كى رسالت اور ذمہ داريوں سے كوئي ربط نہيں ہے يا يہ اس كى طاقت ميں نہيں ہے_آسمانى خط :آسمانى خط كى درخواست ۵، ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱۵; آنحضرت كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۵آنحضرت (ص) كى رسالت ۱۰;

۲۵۴

آنحضرت (ص) كى نبوت كو جھٹلانے والے ۹; آنحضرت (ص) كے فضائل۱۴; آنحضرت (ص) كى خصوصيات ۱۴;آنحضرت(ص) كابشر ہونا ۱۴; آنحضرت سے آسمان كى طرف جانے كى درخواست ۵، ۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶

اسما ء وصفات:صفات جلال ۱۲

الله تعالى :الله تعالى اور جسمانيت ۱۲; الله تعالى اور مكان ۱۲;اللہ تعالى كى تنزيہ ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲;اللہ تعالى كے اختيارات ۱۳;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۷;اللہ تعالى كے ديكھنے كا ردّ۱۲;اللہ تعالى كے مختصات ۱۳

انبياء :انبياء كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۳

قرآن :قرآن كا وحى ہونا ۹;قرآن كے جھٹلانے والے ۹

گھر:سونے كے گھر كى درخواست ۱، ۲

مشركين مكہ:مشركين مكہ اور الله تعالى كى آيات ۸;مشركين مكہ اور قرآن۳;مشركين مكہ اور معجزہ ۸; مشركين مكہ كا مادى چيزوں پر اعتقاد ۸; مشركين مكہ كا محسوس چيزوں پر اعتقاد۴، ۸; مشركين مكہ كى بے ايماني۹;مشركين مكہ كى دنيا طلبى ۳; مشركين مكہ كى غفلت ۳، ۷;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۴; مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۶ ; مشركين مكہ كے تقاضے درخواستيں ۱، ۴، ۵، ۱۰، ۱۵

معجزہ:حسى معجزہ كى درخواست ۴;معجزہ اقتراحى ۱، ۴، ۵، ۱۵;معجزہ اقتراحى كا رد ہونا ۱۰;معجزہ كا سرچشمہ ۷، ۱۱ ، ۱۳، ۱۵

آیت ۹۴

( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَراً رَّسُولاً )

اور ہدايت كے آجانے كے بعد لوگوں كے لئے ايمان لانے سے كوئي شے مانع نہيں ہوئي مگر يہ كہ كہنے لگے كہ كيا خدا نے كسى بشر كو رسول بنا كر بھيج ديا ہے (۹۴)

۱_مشركين مكہ، نبوت كے لئے نوع بشر كے انتخاب كے منكرتھے اور اسے ناممكن اور محال سمجھتے تھے _

وما منع الناس الاّ أن قالوا ا بعث اللّه بشراً رسولا

''الناس'' ميں الف لام عہدى ہے اور گذشتہ آيات كى طرف توجہ كرتے ہوئے ا س سے مراد، مشركين مكہ ہيں _

۲_الله كے رسولوں كا بشر ہونا، بہانے باز مخالفين يعنى كفار و مشركين كے ايمان نہ لانے كا عمدہ بہانہ تھا_

۲۵۵

وقالوا لن نؤمن لك حتّى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۳_مشركين مكہ كے پاس آنحضرت (ص) پر ايمان نہ لانے كا ايك ہى بہانہ، آپ (ص) كا بشر ہونا تھا_

قالوا أبعث الله بشراً رسولا

۴_زمانہ بعثت كے كفار اور مشركين كے پاس الله كے رسولوں كو پہچاننے كے لئے غلط معيار تھے_

قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۵_پہلے سے ہى غلط معياروں پر كئے گئے فيصلے، انبياء كى صحيح تعليمات كو سمجھنے سے مانع تھے_

ومامنع الناس أن يؤمنوا إذ جاء هم الهدى بشراً رسولا

۶_ انبياء الہى كا پيغام سراسر ہدايت اور راہنمائي ہے_وما منع الناس أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى بشراً رسول

۷_مشركين كا عقيدہ تھا كہ مقام رسالت ،بشر كى شان سے بہت بلند ہے_قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۸_انبياء كا تمام لوگوں كى مانند ہونا ان كى قدرو قيمت اور خصوصى صلاحيتوں كى شناخت سے مانع تھا_

ومامنع الناس الاّ ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

يہ كہ مشركين، بشر كى نبوت كو محال چيز سمجھتے تھے شايد اس لئے ہو كہ وہ پيغمبروں كو اپنے جيسے افراد سمجھتے تھے_ اورانہيں اپنے جيسا ضعيف اور كمزور سمجھتے تھے_

۹_الله كے وجود اور رسالت كى ضرورت كى حقيقت حتّى كہ مشركين كے افكار ميں بھى تسليم شدہ تھى _

ا بعث الله بشراً رسول يہ كہ مشركين اصل رسالت كے انكار كے بجائے بشر كى نبوت كو بعيد شمار كرتے تھے اس سے معلوم ہوا كہ خود رسالت ونبوت جيسى حقيقت ان كى نظر ميں يقينى تھي_

۱۰_وعن أبى عبداللّه (ع) :''قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' قالوا: إن الجن كانوا فى الأرض قبلنا، فبعث الله إليهم ملكاً، فلو اراد الله ان يبعث إلينا لبعث الله ملكاً من الملائكة وهو قول الله ''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى إلّا ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً_'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ: قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً '' وہ(منكرين رسالت محمد (ص) ) كہتے تھے كہ :ہم سے پہلے زمين ميں مخلوق جن موجود تھى الله تعالى نے ان كى طرف ايك فرشتہ

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۳۱۷، ح ۱۶۷ _ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۲۷، ح ۴۴۹_

۲۵۶

مبعوث كيا تو اگر الله نے چاہاہے كہ كسى كو ہمارى طرف بھيجے تو فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ بھيجے_ يہ الله كا كلام كا معنى ہے كہ فرما رہا ہے:''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا بشر ہونا ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷، ۱۰;انبياء كا ہدايت دينا ۶;انبياء كى تعليمات كى خصوصيات ۶;انبياء كى جنس ۱۰;انبياء كى شناخت سے مانع ۸;انبياء كى صلاحيتيں ۸;انبياء كے بشر ہونے كے آثار ۸;جنّات كے انبياء ۱۰;انبياء كے فضائل ۸;انبياء كے مخالفين كا بہانہ كرنا ۲;انبياء كے مخالفين كے كفر كى دليلےں ۲;انبياء كا كے ساتھ برتاؤ۵

پہلے سے فيصلے:پہلے سے فيصلوں كے آثار ۵

تجزيہ:غلط تجزيہ كے آثار ۵

دين :دينى خطرات كى پہچان ۵

روايت :۱۰

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۹

كفار:صدر اسلام كے كفار كى پيغمبر(ص) كے بارے ميں شناخت۴;صدر اسلام كے كفار كے غلط معيار ۴كفار كا بہانے تلاش كرنا ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كى پيغمبر (ص) كے بارے ميں شناخت ۴;صدر اسلام كے مشركين كے غلط معيار ۴; مشركين اور نبوت ۹;مشركين كا بہانے كرنا ۲; مشركين كا عقيدہ ۷;مشركين كا نظريہ ۹;مشركين كى الله كے بارے ميں شناخت ۹

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا بہانے تلاش كرنا ۳;مشركين كا نظريہ ۱;مشركين مكہ كے كفر كے دلائل ۳

نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱;مقام نبوت كى قدروقيمت ۷

۲۵۷

آیت ۹۵

( قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكاً رَّسُولاً )

تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر زمين ميں ملائكہ اطمينان سے ٹہلتے ہوتے تو ہم آسمان سے ملك ہى كو رسول بناكر بھيجتے (۹۵)

۱_پيغمبراكرم(ص) مشركين كے شبھات كا جواب دينے ميں الہى ہدايت پر اعتماد كرتے تھے_

قل لو كان فى الارض

۲_الله تعالى كا انسانوں كى جنس سے ہى ان كى طرف رسول مبعوث كرنے كا طريقہ كار _

قالوا أبعث الله بشراً رسولاً _ قل لو كان لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولاً_

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہ آيت مشركين كے شبھہ كے جواب ميں ہو كہ جو يہ تصور كرتے تھے كہ بشر نبوت كے لائق نہيں ہے_

۳_زمين پر رہنے والے خواہ انسان ہوں يا فرشتے ہم جنس انبياء كے محتاج ہيں _

قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلناعليهم من السماء ملكاً رسولا

۴_مشركين كى نظر ميں صرف ملائكہ ہى رسالت اور نبوت كے لائق تھے_قالوا أبعث الله رسولاً_ قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا مشركين كے تعجب اور ان كى يہ بات ''أبعث الله بشراً رسولاً'' كے جواب الہى سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس انتظار ميں تھے كہ پيغمبر (ص) ملائكہ ميں سے ہو، نہ كہ جنس بشر سے_

۵_زمين پر ھر باشعور موجود مخلوق الہى وحى اور آسمانى ہدايت كى ضرورت مند ہے _

قل لوكان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا

۶_زمين پر رہنے والوں كے لئے نزول وحى اور پيغام الہى كے لانے ميں فرشتے فقط واسطہ ہيں _

لنزلنا عليهم ملكاً رسولا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''ملكاًرسولاً'' سے مراد فرشتہ وحى ہو نہ كہ پيغمبر_

۲۵۸

۷_مشركين كا بشر كو رسول بعيد شمار كرنے كى وجہ ،اللہ اور پيغمبروں ميں فرشتوں كے وسيلہ ہونے كى طرف توجہ نہ كرنا ہے_

قل لو كان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا

مندرجہ بالا آيت ممكن ہے كہ مشركين كے جواب ميں ہو كيوں كہ مشركين بشر ميں سے كسى فرد كے جہان كے مالك الله سے رابطہ كو بعيد شمار كرتے تھے_ آيت جواب دے رہى ہے كہ پيغمبر كسى واسطہ كے بغير وحى نہيں ليتے تھے بلكہ اصولى طور پر الله اور زمين پر رہنے والوں كے درميان فرشتہ وحى كا واسطہ ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين كے اعتراضات ۱; آنحضرت(ص) كى ہدايت ۱

الله تعالى :الله تعالى كى سنتيں ۲;اللہ تعالى كى ہدايتيں ۱

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷;انبياء كا ہم جنس سے ہونا ۲، ۳

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۳;وحى كى ضرورت ۵; ہدايت كى ضرورت ۵

غفلت :ملائكہ كے كردار سے غفلت ۷

مشركين :مشركين كا نظريہ ۴;مشركين كى غفلت كے آثار ۷ ; مشركين كے اعترضات كے جواب كا سرچشمہ ۱

ملائكہ:ملائكہ كا كردار ۶;ملائكہ كى نبوت ۴

موجودات:باشعور موجودات كى معنوى ضروريات ۵ موجودات كى ضروريات ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۴;نبوت كى اہميت ۳

وحي:وحى كا واسطہ ۶

آیت ۹۴

( قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

كہہ ديجئے كہ ہمارے اور تمھارے درميان گواہ بننے كے لئے خدا كافى ہے كہ وہى اپنے بندوں كے حالات سے باخبر ہے اور ان كے كيفيات كا ديكھنے والا ہے (۹۶)

۱_مشركين، اس لائق نہيں ہيں كہ الله تعالى ان سے مخاطبهو_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

مشركين كو پيغام پہنچانے كے لئے پيغمبر(ص) كو مخاطب قرار دينا اگر چہ يہ اعلان بغير ''قل'' كے بھى ممكن ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۲۵۹

۲_پيغمبر (ص) اور مشركين كے درميان الله تعالى كا گواہ اور ناظرہونا كافى ہے _كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۳_پيغمبر (ص) اپنى رسالت كے منكرين كے مد مقابل الله كى ہدايات پر عمل كرتے تھے_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۴_حق كے منكر اور بہانے باز مشركين وكفار كو الله كا خبردار كرنا _

قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً _ قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

الله تعالى كا پيغمبر (ص) اور حق كے منكرين و مشركين كے درميان گواہ ہونے كى تنبيہ، كا تذكرہ ممكن ہے ان كو خبردار كرنے كے لئے ہو_

۵_الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور جو كچھ كہنا تھا وہ كہہ ديا ہے _قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

''كفى باللہ شہيداً'' كى تعبير، مشركين كے شبھات كا جواب دينے كے بعدقول فصل اور اتمام حجت كى جگہ ہے_

۶_بہانے باز اور حق كے منكرين كے ساتھ بحث و گفتگو كے بارے ميں فيصلہ كرنے كى ضرورت ہے_

قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۷_الله تعالى كا بہانے باز مشركين كے مدمقابل پيغمبر (ص) كو حوصلہ دينا_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

يہ آيت جس طرح كہ حق كے دشمن، مشركين كے لئے خبردار ہو پيغمبر (ص) كے لئے ايك قسم كى تسلى اور حوصلہ افزائي بھى ہوسكتى ہے _

۸_الله تعالى ، اپنے بندوں كے امور پر خبير( آگاہ) اور بصير ( نظر ركھنے والا) ہے_إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۹_الله تعالى كى بندوں كے اعمال پر گواہي، اس كے ان كے حالات پر وسيع علم كى بناء پر ہے_

كفى بالله شهيداً بينى وبينكم إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۱۰_الله تعالى كا بندوں پر علمى احاطہ كى طرف توجہ ،ان كے حق كے انكار اور بہانے بازى سے پرہيز كرنے كا پيش خيمہ ہے_

قل كفى بالله شهيداً إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

يہ كہ الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور اس وقت يہ فرمايا : وہ بندوں كے حالات سے آگاہ اور ان پر نظر ركھے ہوئے ہے ' ہوسكتا ہے كہ مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين ۲،۳، ;آنحضرت (ص) كو حوصلہ دينا ۷;آنحضرت (ص) كى ہدايت ۳; آنحضرت (ص) كے گواہ ۲

۲۶۰

کیا انسان کو کسی ایسے رہبر کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جس کے سامنے کائنات کے تمام اسرار آشکار ہوں اور جسے دنیا کی تمام موجودات کا علم ہو یا کسی ایسے دانشور کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جو خود اپنے جہل و عجزکا اعتراف کرے اور اپنے علم کو اپنے مجہولات کے سامنے بہت کم سمجھے؟مثال کے طور پر'' اسحاق نیوٹن ''کہ جسے دنیا کے بزرگ دانشوروں میںشمار کیا جاتا ہے ، وہ اس بارے میں کہتا ہے :

مجھے نہیں  معلوم کہ میں دنیا کی نظروں میں کیا ہوں؟لیکن جب میں آنکھوں سے خود کو دیکھوں تو میں ایک ایسے بچے کی مانند ہوں کہ جو ساحل سمندر پر کھیل کود میں مشغول ہو اور خوبصورت سنگریزوں کو دوسرے سنگریزوںاور صدف کو دوسرے گوہرسے تمیز دینے میں مصروف ہو لیکن حقیقت کے اقیانوس میںہر طرف بے کرانی و طغیانی ہے  ۔(۱)

یہ اعتراف ایک حقیقت ہے ۔جو نہ صرف نیوٹن بلکہ اس جیسے ہر فرد پر صادق آتا ہے ۔ البتہ بہت سے افراد بہت سعی و کوشش اور جستجو سے خوبصوت  اور نایاب صدف کے حصول میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے:

کیاانسان کو کھیل کود میں مصروف بچے کی پیروی کرنی چاہیئے یا کسی ایسے کو تلاش کو کرنا چاہیئے کہ جو دنیا کی خلقت کے اسرار سے آشنا ہو؟ یہ واضحات میں سے ہے کہ راہ سے بھٹک جانا گمراہی کا سبب  بنتا ہے اور گمراہی کا نتیجہ تباہی وبربادی ہے۔(۲)

--------------

[۱]۔ فکر، نظم ، عمل:۹۳

[۲] ۔ مغز متفکر جھان شیعہ :۳۰۲

۲۶۱

 آٹھواں باب

خلائی سفر

    خلائی سفر

    کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت

    کہکشاں    سو بیلین دم دار ستارے    دو سو پچاس بیلین سورج    کھربوں کہکشاں

    دنیا میں تمدّن

    کہکشاؤں میں تمدّن

    دور حاضر میں خلائی سفر

    دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات

    خلائی سفر کا امکان

    اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر

    آسمانوں تک رسائی

    ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر

    روایت میں موجود نکات

    آسمانی مخلوقات سے آشنائی

    مافوق مادّہ قدرت سے استفادہ

۲۶۲

خلائی سفر

ظہور کے ترقی یافتہ زمانے میں خلائی سفر کے بارے میں بہت بہترین اور دلچسپ بحث ہے ۔ قرآن اور خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین میں خلائی سفر کے بارے میں بہت اہم نکات اوراشارات موجود ہیں ۔ ظہورکے زمانے میں آسمانوں اور عامل ہستی کی فضاؤں میں اوج لینے سے پہلے زمانۂ ظہور میں خلائی سفر کی اہمیت کو آشکار کرنے کے لئے کہکشاؤں، سحاب اور آسمان کی وسیع فضا کے بارے میںاہم نکات بیان کرنا ضروری ہے تاکہ ظہور کے زمانے میں خلائی سفر کی اہمیت سے آگاہ ہو سکیںاور یہ جان سکیں کہ علمی تکامل اور پیشرفت کے زمانے میں انسان کو نصیب ہونے والا خلائی سفر بہت عجیب ہو گا۔

یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ آج استعماری ممالک عصر خلاء یا تسخیرخلاء کے عنوان سے جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ دنیا کی عظمت کو اَن دیکھا کرنے کے مترادف ہے۔میرے خیال میں ستمگر ممالک چاند پر ہوٹل میں کمرہ بک کروانے کے سلسلہ میں جو تبلیغات کر رہے ہیں یا جو خلاء کو تسخیر کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں،ان میں سے زیادہ تر دنیا والوں کے دماغ پر اپنی برتری ثابت کرنے ، خود نمائی اور دنیا کے لوگوں کے افکار پر تسلط جمانے کے لئے ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ دنیا اس قدرعظیم اور وسیع ہے کہ مادّہ سے بڑھ کر کوئی اور قدرت ہی اس تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔کیا چاند پر پہنچنا خلاء کو تسخیر کرنا ہے؟

  کرۂ زمین ایک قدرت کے ماتحت

ہم نے جو کچھ ذکر کیااس سے ممکن ہے کہ بعض قارئین کرام حیران ہوں اور اس بات کا یقین نہ کریں۔لہذا ہم اس مطلب کی وضاحت کے لئے اس نکتہ کا اضافہ کرتے ہیں: غیبت کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام کے غیبی جلوے اس قدر ہیں کہ بڑے بڑے ممالک بخوبی جانتے ہیں کہ مافوق طبیعت کوئی قدرت موجود ہے ، جو ان کے رفتار و کردار کی مراقب ہے۔ دنیا میں جاسوس ایجنسیاں جیسے مافیا سیا اور اسی طرح بڑے ممالک کی ایجنسیاں جانتی ہیں کہ ایک بزرگ مادی قدرت ان کے اعمال کو دیکھ رہی ہے۔

۲۶۳

ان میں سے بہت سے افراد نے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے۔اب آپ اس مطلب پر توجہ کریں:

حیرت انگیز طور پر وجود میں آنے والی اشیاء کے بارے میں تحقیق کرنے والے دانشوروں اور محققین کو یقین ہے کہ زمین کا نظام کسی قدرت کے زیر نگرانی اور ایک منظم سسٹم کے تحت چل رہا ہے ۔ وہ ایسی قوّت ہے کہ جس کی ماہیت اب تک ہم پر واضح نہیں ہے ۔ یہ دنیا اسی کے زیر نظر ہے ۔ بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری دانشوروں نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱)

یہ جاننابھی ضروری ہے کہ بڑے بڑے ممالک یہجان چکے ہیں کہ نہ صرف تمدّنی ترقی اور پیشرفتہ علم تک پہنچنے کے لئے بلکہ کہکشاؤں اور فضاؤں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے  بھی مافوق طبیعت اور مادّہ سے بڑھ کر کسی اور قدرت کی ضرورت ہے۔صرف اسی صورت میں پہنچ سے دور ستاروں ،نورانی خلاء اور کہکشاؤں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اسی صورت میں زمین پر علم و تمدن کی پیشرفت اور تکامل ممکن ہو سکتا ہے۔اسی لئے انہوں نے عالم غیب تک پہنچنے کی کوششیں کیں اور اس کے لئے انہوں نے اپنے معروف ترین ماہریں جیسے آئن اسٹائن اور ڈاکٹر جساپ سے مدد طلب کی۔لیکن چونکہ وہ شہر علم میں داخل ہونے کے لئے بھٹکے اور راہ سے گمراہ لوگوں سے مدد مانگ رہے تھے لہذاآ ئن اسٹائن اور ڈاکٹر جساپ نے انہیں جو برنامہ فراہم کیا ،انہیں اس میں شکست کا سامناکرنا پڑا۔اس برنامہ میں جن افراد کو مأمور کیاگیا ، وہ یا تو پاگل ہو گئے یا پھر چل بسے۔آئن اسٹائن نے اس کام سے ہاتھ کھینچ لیا اور ''ڈاکٹر جساپ''کسی کے ہاتھوں پراسرار طور پر مارا گیا۔ظہور کے پیشرفتہ زمانے میں آسمانوں تک رسائی کے عظیم مسئلہ کے لئے خلاء اور آسمانوں کی وسعت اور کائنات کی عظمت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ عجیب تر از رؤیا:۳۵۶

۲۶۴

  کہکشاں

زمین ایک سیارہ ہے کہ جو دوسرے سیاروں کی طرح سورج کے گرد گھومتی ہے۔اس کا قطر۱۲۷۵۰ کلو م یٹر ہے اور یہ سورج سے۱۵۰ مل ین کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اب تک نو سیاروں کی شناخت ہو چکی ہے۔سورج اور اس کے سیارات مل کر منظومہ شمسی تشکیل دیتے ہیں ۔منظومہ شمسی میں  تمام سیاروں کی حرکت کو اپنے تحت قرار دیتا ہے اور وہ مختلف سرعت سے اپنے اپنے مدار مین گردش کرتے ہیں۔مدار ایسے خط کا نام ہے کہ جس میں ہر سیارہ سورج کے گرد گھومتا ہے ۔ منظومہ شمسی میں سیارات سورج سے روشنی اور حرارت لیتے ہیں سورج زمین سے ایک ملین گنا بڑا ہے۔ منظومہ شمسی کہکشاں کا چھوٹا سا حصہ ہے کہ جو۸۰۰ ہزار کلو م یٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ سے۲۳۰ مل ین سال میں ایک بار اس کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتا ہے ۔منظومہ شمسی کا سورج سے کہکشاں کے مرکز تک کا فاصلہ۲۸ ہزار نور ی  سال ہے ۔ کہکشاں کئی ارب ستاروں سے تشکیل  پاتاہے جن میں سے ایک سورج ہے ۔ جو زرد ستارے میں شمار ہوتا ہے۔(۱)

یہ کہکشاں دیگر کروڑوں،اربوں کہکشاؤں کے مقابلے  میں بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکرے  کی مانند ہے۔ ان کہکشاؤں کا مجموعہ ہماری دنیا تشکیل دیتا ہے ۔ اس دنیا کے کامل تصور کے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ کہکشاؤں کی تعداد زمین پر موجود ساحلوں پر ریت کے ذرّات کے مجموعہ سے زیادہ ہے۔(۲)

--------------

[۱]۔ شگفتی ھای کاوش جھان:۲۳۰

[۲]۔ دوہزار دانشمند در جستجوی خدا:۱۳

۲۶۵

  سو بیلین دم دار ستارے

منظومہ شمسی کے گرد سو بیلین دم دار ستاروں سے تشکیل پانے والا وسیع ابر پھیلا ہوا ہے۔ جسے اس کے دریافت کرنے والے ، یان آئو رٹ، کے نام سے ابر آؤرٹ کانام دیا گیاہے ۔خوش قسمتی سے ستاروں کا یہ جھرمٹ ہم سے بہت فاصلے پر واقع ہے۔سورج سے ان کی دوری تین ٹریلین کلومیٹر ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا سورج سے فاصلہ زمین کا سورج کے فاصلہ سے بیس ہزار گنا زیادہ ہے۔(۱)

  دو سو پچاس بیلین سورج

کہکشاں  کے نطام میں دو سو پچاس بیلین سورج موجود ہیں اگر اسے طے کرنا چاہیں تو اس کی لمبائی کو ایک بیلین کلو میٹر فی گھنٹہ کی سرعت سے طے کرنے کی صورت میںبھی ایک لاکھ سال درکار ہوں گے۔(۲)

--------------

[۱]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۴۹۴

[۲]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۵۲۰

۲۶۶

  کھربوں کہکشاں

کائنات میں کھربوں کہکشاں پھیلے ہوئے ہیں ایک کہکشاں کا قطر ایک لاکھ نوری سال کے برابر ہے جس میں سوکھرب سے زائد ستارے ہوتے ہیں ۔ کائنات کی خلاء اس قدر وسیع ہے کہ  اگر ستاروں، منظومہ اور کہکشاؤں کو تشکیل دینے والے عناصر کو اس خلاء سے مقائسہ کریں کہ جس میں کہکشاں ہیں تو یہ اس قدر ناچیز ہے کہ جن سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔

اس ناقابل یقین وسعت کے مقابلہ میں ہمارے کہکشاں ، منظومہ زمین کہ جس پر ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، خود ہم اور ہمارے متعلق دوسری چیزیں ۔غالباََ یہ سب ایمان میں اہمیت کی حامل ہیں جو بہت اضطراب کا باعث ہے ۔ انہیں دیکھ کر خود  پر طنز کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اقیانوس کے سامنے ایک قطرے کی کیا اہمیت ہے۔(۱)

  دنیا میں تمدّن

''ڈاکٹر شپلی'' کا کہنا ہے کہ کائنات میں کم از کم سو بیلین مسکون سیارے موجود ہیں ۔ان میں سے اکثر کے رہائشی ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ان کے علاوہ دیگر ماہرین فلکیات جیسے داکٹر اتزاسٹرو،کارل ساگان،فرنیک اور کچھ دیگر دانشوروں نے  ۱۹۶۱ ء میں مغربی ورجینیا میں گرین بنک کے مقام پر ایک دوسرے سے ملاقات کی اور دہلا دینے والانظریہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس وسیع و عریض کائنات میں چالیس سے پچاس ملین کرّات موجود ہیں کہ جن کے رہائشی کسی طریقہ سے ہم سے رابطہ کرنے یا زمین سے پیغام سننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

--------------

[۱]۔ نگاہی بہ سر نوشت جھان، انسان تاریخ:۲۷

۲۶۷

فرانس کے ایک دانشور ''موریس شاتلن''(جو پہلے امریکہ میں خلائی امور کا ماہر تھا )نے تین بار ریڈیو علائم موصول کئے ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ احتمالاََ یہ علائم خلاء سے عاقل موجودات کی جانب سے بھیجی گئی ہیں۔ایسا لگتاہے کہ دوسری دنیابھی یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس ذریعہ سے دوسرے سیاروں میں علم فلکیات کے دانشوروں کو اپنی موجودگی کا پتہ دے۔

دو روسی خلائی ماہرین'' تروتسکی اور کارداشف'' نے چند سال کی کوششوں سے چار ریڈیو مراکز  میں خلاء سے بھیجی گئی یہ پراسرار علائم موصول کیں۔یہ علائم کسی خلائی شٹل کے ذریعہ حاصل نہیںہوئے ۔کیونکہ یہ پیغام خلاء میں پہلی شٹل بھیجنے سے پہلے کشف ہوئے تھے۔(۱)

اب تک اسی طرح سے ۱۱۳ پیغام اور ارتباطی وسائل کے ذریعہ دو ہزار سے زائد پیغام موصول ہو چکے ہیں۔اس میں  سے کسی طرح کا شک وشبہ  نہیں ہے کہ خلاء دیگر کرّات اور دوسری دنیا سے پیغامات ارسال ہوئے ہیں۔لیکن ابھی تک دقیق معلومات نہیں ہیں  کہ ان پیغامات میں کیاکہا گیا ہے اورو ہ کہاں سے بھیجے گئے ہیں ۔  لیکن ممکن ہے کہ حکومتی ادارے ان اسرار سے واقف ہوں لیکن ان  سے پردا نہ اٹھانا چاہتے ہوں۔ (۲)

  کہکشاؤں میں تمدّن

اس بناء پر آج کسی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ کائنات میں زمین کے علاوہ دوسری دنیا میں بھی زندگی موجود ہے۔جب گیارہ ماہر دانشور۱۹۶۱ ء میں مغربی ورجینیا میں گرین بنک کے مقام پر منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے بعد ایک دوسرے سے جدا

--------------

[۱]۔ گمشدگان مثلث برمودا:۱۹۲

[۲] ۔ بشقاب پرندہ:۲۱۲

۲۶۸

ہونے لگے تو انہوں نے متفقہ طور پر قرار داد پیش کی کہ کچھ فارمولوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاں میں پچاس ملین سے زائد تمدّن اور ثقافتیںموجود ہیں۔

ناسا  کے ایک شعبہ کے سربراہ راجرآمک گوان نے ان نظریات کے مطابق جدید ترین خلائی پیشرفت کی ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاں میں فرہنگ و ثقافت کی تعداد ۱۳۵ سے زائد ہوچک ی  ہے۔(۱)

  دور حاضر میں خلائی سفر

کائنات کی کشادگی اور خلاء کی وسعت پر غور کرنے سے کیا چاند اور مریخ کے سفر کو خلاء تسخیر کرنے کا نام دے سکتے ہیں؟

دنیا کی استعماری طاقتیں اپنی ظالمانہ حکومتوں کو استحکام ودوام دینے کے لئے اور ان کی بقاء اور لوگوں پر اپنا منحوس سایہ برقرار کرنے اور دنیا کے لوگوں کا دل جیتنے کے لئے ان کے سامنے اپنے خلائی سفر کو ایسے پیش کرتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہویا کوئی غیر معمولی کام انجام دے دیا ہو۔یوں وہ اپنے منفی اور استعمارانہ اہداف دنیا پرلاگو کرتے ہیں اور دنیا والوں کے دلوں میں رعب و وحشت ایجاد کرتے ہیں تا کہ ان کے منفی برناموں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا جائے۔

حلانکہ ا یسی صورت  حال میں بھی وہ جانتے ہیں کہ خلائی سفر اور دور دراز ستاروں تک پہنچنے کے لئے ایسی قدرت سے بہرہ مند ہونا ضروری ہے کہ جو زمانے کی قید سے خارج ہو اور نور کی سرعت سے بھی زیادہ تیز ہو۔وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جب پوری کائنات پر علم و حکمت کا غلبہ ہو گا اور بشر حقیقی و واقعی تکامل اور فرہنگ  وتمدّن تک پہنچ جائے گا تو وہ دورِ حاضر کی روش پر ہنسیں گے۔

--------------

[۱]۔ بازگشت بہ ستارگان:۴۰ 

۲۶۹

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اب نہ صرف دنیا کی استعماری طاقتیںاس حقیقت سے باخبر ہیں ۔بلکہ وہ خود بھی صراحتاََ یہ نکتہ بیان کرتے اور اس کا اعتراف کر تے ہیں ۔اب ہم جو بیان کرنے جا رہے ہیں ،اس سے یہ مطلب بخوبی واضح ہو جائے گا۔

آج کا خلائی سفر بہت مہنگاہے امریکہ کی خلائی شٹل اور روس کا خلائی اسٹیشن میر کا مصرف بہت زیادہ ہے۔کیونکہ خلاباروں کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو مثلاََکھانا پینا،آب و ہوا وغیرہ، انہیں یہ سب کچھ زمین سے اپنے ہمراہ لے جانا پڑتاہے۔ اب ایک کلو گرام کو زمین سے خلاء میں منتقل کرنے کا خرچہ دس ہزار ڈالر ہے مثلاََ۱۹۹۳ ء م یں خلائی ٹیلی اسکوپ ہابل (  Hubble) کو تعمیر کرنے میں پانچ سو ملین ڈالر کی لاگت آئی ۔یہ ان اخراجات کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔آئندہ آنے والے ہماری  مدیریت کے ان برناموں پر ہنسیں گے۔(۱)

وہ بخوبی جانتے ہیں کہ خلائی سفر پر مصرف ہونے والے اتنے اخراجات کو دیکھ کر آئندہ نسلیں تعجب کریں گی۔اب خلائی سفر کے اخراجات کے بارے میں دو اور بیانات ملاحظہ کریں  اور اس کے بعد ہم ایک اہم نکتہ بیان کریں گے:امریکی حکومت نے ''آپولو۱۱ '' کو چاند پر پہنچانے کے لئے پانچ مل ین سے زیادہ خرچ کئے یہ اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے۔

''آپولو''کے سفر کا خرچہ۱۹۹۱ ء کی خلیج فارس کی جنگ سے زیادہ تھا۔کیونکہ اس وقت چاند کا اس سے زیادہ سستا سفر دریافت نہیں ہوا تھا۔تقریباََتمام صاضب نظر شدّت سے ،آپولو، کے سفر کے نتائج کی امید کر رہے تھے ۔ میں نے  خود بھی چاند پر پہنچنے کی خبر سننے کے بعد ڈیلی ٹیلی گراف میں بہت مقالات شائع کئے اور ان تمام میں چاند پر اسٹیشن ایجاد ہونے کے قریب الوقوع ہونے کی پیشگوئی کرتا حتی کہ چاند کے ہوٹل میں دو تختوں کے ایک کمرے میں رہائش کے لئے بھی نام درج کروایا۔ (۲)

--------------

[۱]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۴۲۶

[۲]۔ شگفتی ھای کاوش جھان:۲۷۹

۲۷۰

یہ جلد بازی میں اخذ کیاگیا نتیجہ تھا چاند کی سطح پر خلا بازوں نے جو امور انجام دئے ہمیں ان کا بھی علم نہیں تھا۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ چاند سے واپسی پر وہ خصوصی صنایع میں وارد ہو جائیں گے۔میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ امریکہ کی ہر خلائی شٹل کی پرواز کا خرچہ کئی سو ملین ڈالر ہے اور خلاء میں ایک کلو گرام کو منتقل کرنے کا خرچہ دس ہزار ڈالر ہے۔(۳)

  دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات

اب تک ہم نے استعماری حکومتوں کے بے نتیجہ اخراجات کے بارے میں جو کچھ نقل کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کی ناتوانی پر آئندہ نسلیں حیران ہوں گی اوربے ساختہ ہنسیں گی۔اب اس اہم ترین نکتہ پر

توجہ کریں:

اس زمانے میں چاند تک نہ کہ کہکشاؤں اور ستاروں تک پہنچنے کے لئے خلائی سفر کے اخراجات استعماری حکومتوں کی ناکامی کے عوامل میں سے ایک ہے۔ کیونکہ کچھ دیگر امور بھی ہیں کہ جو خلائی سفر میں ان کی شکست کے عامل ہیں۔ان میں ایک دورِ حاضر کے خلائی سفر میں لاحق خطرات ہیں۔ظالم اور استعماری حکومتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کروڑوں انسانوںکی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔خلائی سفر میں انجام دیئے جانے والے خطرناک امور اس چیز کے گواہ ہیںکہ وہ دنیاکے لوگوں کی زندگی کو بے معنی سمجھتے  اور کروڑوں لوگوں کی زندگی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ اس کی مزید وضاحت کے لئے اس بیان پر غور کریں؛

--------------

[۳]۔ جہان در ۵۰۰ سال آئندہ:۲۷۹

۲۷۱

ناسا نے۱۹۹۷ ء م یں کاسینی نامی شٹل بتّیس کلو گرام پلاٹینیم خلاء میں بھیجی ۔ناسا نے اس کے احتمالی خطرات کی بھی تصدیق کی تھی۔اگر کاسینی سفر کے دوران پھٹ جاتی تو دنیا میں  پانچ ارب افراد  انشعاعوں سے متأثر ہوتے۔ پلاٹینیم سرطان کی افزائش کا ایک عامل سمجھا جاتا ہے حتی اگر انسان اس مادہ کے ایٹم کی کچھ مقدار سونگھے تو آنکھ جھپکنے ہی سے اس کی افزائش ہو جاتی ہے۔

''بروس گاگون''خلاء میں تسلیحات اور ایٹمی توانائی سے مقابلہ کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ فن غیر ضروری ہے اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو یہ بہت بڑی تباہی کا باعث بن سکتاہے ۔کیا ایسے برناموں کو انجام دینا انسانی معاشرے کی خدمت ہے یا خیانت؟

یہ بہت بڑا جرم ہے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اگر فرضاََ ان میں کامیابی ہوجائے تو ہم کہکشاں میں مشکل سے کئی ملین ستاروں میں

سے صرف دس یا بارہ ستاروں کا سفر کر سکتے ہیں۔

  خلائی سفر کا امکان

کائنات کی کشادگی اور خلاء کی وسعت پر غور کرنے سے کہکشاؤں کے سفر کے امکان کا انکار نہیں کر سکتے۔اگرچہ وہ ہم سے کئی نوری سال کی دوری پر ہیں۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے ایک مقدمہ ذکر کرکے اصل بحث کی طرف آئیں گے۔

کیا علمی روش کے نقطہ نگاہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اب تک جس انسان کو بھی دیکھا ہے وہ موجودہ صورت میں ہی تھا۔پس اب تک انسان جس صورت کا مشاہدہ کر رہا ہے اس کے علاوہ کسی اور صورت کا آنا محال ہے؟

البتہ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ جب ہمارے مشاہدات اور تجربات دنیا کے ایک حصہ یاایک زمانے تک منحصر ہوں تو کسی صورت میں بھی ایسا حکم صادر نہیں کر سکتے ۔ جابر بن حیان کہتا ہے؛

۲۷۲

دنیا میں کسی ایسی موجود ومخلوق کا ہونا ممکن ہے کہ جس کا حکم ان چیزوں سے مختلف ہو کہ جنہیں ہم نے اب تک دیکھا ہے یا جن سے اب تک ہم آگاہ ہیں۔ کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کے وجود کی بناوٹ ایسی ہے کہ جو تمام موجودات کی شناخت اور ان تک رسائی کی قدرت نہیں رکھتے۔جابر بن حیان نے مذکورہ نمونہ لا کر اس کلی صورت کی طرف ہماری رہنمائی کر دی ۔ کوئی یقین سے یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ غیر مشہور مخلوق بالکل مشہور موجودات و مخلوقات کی مانند ہیں یا جو کچھ ماضی میں موجود تھا یا جو مستقبل میں وجودمیں آئے گا ،وہ بالکل دورِ حاضر میں موجود اشیاء کی مانند ہوگا۔کیونکہ انسان وقت اوراحساس کے لحاظ سے ناتوں اور محدود مخلوق ہے۔

اسی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ دنیا کے آغاز ِ پیدائش کے بارے میں علم نہیں ہے پس دنیا ازلی اور بے آغاز ہے۔میرے خیال میں جابربن حیان نے ان عبارات میں تجربی روش کو دقیق ترین ممکن وجہ سے مشخص کیا ہے۔کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اگرچہ مشہور موجودات کا حکم غیر مشہور موجودات پر کاگو کرنا درست نہیں ہے ۔ لیکن اس چیز کا انکار نہیں کرنا چاہیئے ۔کیونکہ ممکن ہے کہ غیر مشہور اشیاء ہمارےتجربہ و مشاہدہ میں نہ ہوں۔پس ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

کیونکہ اس سے انسان حسّ کے محصور میں محدود ہو کر رہ جائے گا کہ جس سے بہت سی ایسی اشیاء کا انکار لازم آئے گا کہ جو  یقیناََ موجود ہیں۔ایسے لوگ بھی ہیںکہ جنہوں نے ابھی تک مگرمچھ نہیں دیکھا ۔ پس اگر کوئی ان سے کہے کہ دنیا میں ایک ایسا جانور ہے کہ جو کھاتے وقت اپنا اوپر والا جبڑا ہلاتا ہے ، کیا وہ صرف اس بنیاد پر اس حیوان کا انکار کر سکتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے ایسا حیوان نہیں دیکھا ، لہذا وہ موجود نہیں ہے ۔ پس کوئی بھی نہ دیکھنے کی بنیاد پر کسی موجود کا انکار نہ کرے بلکہ جب تک اسے اس کے وجود یا عدم پر کوئی دلیل نہ مل جائے تب تک  اپنی رائے کے اظہار سے پرہیز کرے۔

۲۷۳

اس بناء پر کسی چیز کے نہ ہونے کا حکم اس کے مورد مشاہدہ نہ ہونے یا اس بارے میں کسی خبر کے نہ ہونے کی بناء پر نہیں کرنا چاہیئے اسی طرح جس چیز کے بارے میں دوسروں کی خبروں سے اطلاع حاصل ہو اور اسے خود مستقیماََ مشاہدہ نہ کیاہو ،ایسی چیز کا انکار بھی استدالی روش میں لا علمی کو بیان کرتا ہے۔(۱)

اس بناء پر اگرچہ چاند اور مریخ کے سفر کو خلاء تسخیر کرنے کا نام نہیں دے سکتے کیونکہ خلاء اور آسمان کی کشادگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے خلاء کو تسخیر کرنا قرار نہیں دے سکتے ۔ جابر بن حیان کے استدلال کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس طرح معاصر انسان کسی ایسی چیز تک رسائی حاصل نہیں کر سکا پس کوئی اور مخلوق بھی اس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی ۔ جیسا کہ جابر بن حیان نے بھی کہا کہ ایسا استدلال باطل ہے۔

  اہلبیت اطہار علیہم السلام کاخلائی سفر

جب لوگ بطلمیوس کی ہیئت اور اس کے نظرئے کے معتقد تھے کہ آسمانوں کا سفر محال ہے ،اس زمانے میں بارہا اہلبیت  کا خلائی سفر واقع ہوا ۔ حضرت امیر المؤمنین علی  علیہ السلام ، امام سجاد علیہ السلام  اور دوسرے آئمہ اطہارعلیہم السلام کے سفر کے کچھ نمونے کئی روایات میں نقل ہوئے ہیں۔رسول اکرم کی معراج خود ایک خلائی سفرہے۔ آنحضرت کی معراج پر ہم سب کا عقیدہ ہے۔لوگوں کے لئے یہ سفر اس زمانے میں نقل ہوئے ہیں کہ جب دنیا پربطلمیوس کا نظریہ حاکم تھا۔اس زمانے میں موجود جہالت پر غور کریں تو معلوم ہو گا اس زمانے میں  ایسے بہت سے سفر مخفی رکھے گئے۔ اگر اس زمانے میں اہلبیت کے لئے مطلب کو ظاہر کرنا ممکن ہوتا تو ہم تک ایسے اور بہت سے نمونے پہنچتے۔

--------------

[۱]۔ تحلیلی از آرای جابر بن حیان :۵۹

۲۷۴

فرض کریں کہ اگر کسی کو اہلبیت علیہم السلام کے خلائی سفر میں شک ہو تو وہ اس نکتہ پر توجہ کرے کہ خدا کی مشیت یہ ہے کہ ہر زمانے میں اپنی حجت کواس زمانے میں معمول او ر موجود قدرت سے زیادہ قدرت دے۔اس مشیت کی رو سے یہ واضح ہے کہ جب پوری کائنات میں اصلاح و تکمیل کا زمانہ ہو تو پھر اس کی زیادہ ضرورت کا احساس ہو گا ۔ یعنی اگر کوئی تمام دنیا کو تسخیر کرنا چاہے تو وہ دنیا میںموجود اور رائج قدرت سے زیادہ قدرتمند ہونا چاہیئے۔ تاریخ میںکہیں بھی یہ موجود نہیں ہے کہ دنیا میں کسی دانشور نے کسی پیغمبر کو علمی مطالب میں مغلوب کیا ہو۔اگر خدانے اپنے رسول اکرم(ص) کو شمش یر اور قرآن کے ساتھ بھیجا تووہ اپنی آخری حجت کو بھی قرآن ، برہان اور آنحضرت کے قیام کے زمانے میں رائج قوّت سے زیادہ قدرت کے ساتھ بھیجے گا۔وہ ایسی قوّت وقدرت ہو گی کہ جو اس زمانے کی  تمام قوّتوں کو مغلوب کر دے گی۔اب اس روایت پر غور کریں۔

'' قال المتوکل لابن السکیت :سل ابن الرضا مسألة عوصاء بحضرت ، فسأله فقال: لِمَ بعث اللّه موسی بالعصا و بعث عیسی بابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی،و بعث محمداَََ بالقرآن والسیف ؟

فقال ابو الحسن  : بعث اللّه موسی  بالعصا والید البیضاء فزمان الغالب علی اهله السحر ، فاتاهم من ذالک ماقهر بسحرهم و بهرهم و اثبت الحجّة علیهم

بعث عیسی بابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی باذن اللّه تعالٰی  فزمان الغالب علی اهله الطبّ، فاتاهم من ابراء الأکمه والأبرص و احیاء الموتی باذن اللّه فقهرهم و بهرهم و بعث محمداََ(ص) بالقرآن والس یف فزمان الغالب علی ا ھ ل ہ السیف والشعر فاتا ھ م من القرآن الزا ھ ر والسیف القا ھ ر ما ب ھ ر ب ہ شعر ھ م عو ب ھ ر سیف ھ م ۔۔۔۔ '' (۱)

--------------

[۱]۔ بحارالانوار:۵۰ ص۱۶۵

۲۷۵

متوکل نے ابن سکّیت (جو اس زمانے کا بزرگ دانشور تھا) سے کہا کہ میرے سامنے حضرت امام ہادی علیہ السلام سے ایک مشکل مسئلہ پوچھو۔ابن سکّیت نے

امام رضا علیہ السلام سے کہا:

خدا نے کیوں موسیٰ  علیہ السلام  کو عصا، عیسیٰ  علیہ السلام  کو اندھوں کو بینائی دینے، برص کے مریضوں کو شفا اور مردوں کو زندہ کرنے اور محمد(ص)  کو قرآن کے ساتھ رسول بنا کر بھ یجا؟

امام ہادی علیہ السلام  نے جواب میں فرمایا :

خدا نے موسی علیہ السلام کو عصا اور سفید ہاتھ کے ساتھ مبعوث کیا کہ جس سے سفید نور طالع ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے  کے لوگ سحر میں ماہر تھے ،م وسی علیہ السلام اس قدرت کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ ان ے سحر کو نابود کریں ، ان پر غالب آئیں اور ان پر دلیل کو ثابت کریں۔عیسیٰ علیہ السلام  کو اندھوں کو بینائی دینے، برص کے مریضوں کو شفا دینے اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کرنے کے ساتھ مبعوث کیا کیونکہ اس زمانے کے لوگ طبّ میں غالب تھے۔ پس وہ اندھوں اور برص کے مریضوں کو شفا یاب کرنے اور مردوں کوخدا کے اذن سے زندہ کرنے کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ انہیں مقہور کرکے ان پر غالب آئیں ۔ حضرت محمد(ص) کو قرآن اور شمش یر کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا گیا جب کہ اس   زمانے کے لوگ شمشیر و شعر میں ماہر تھے۔ پس وہ نورانی قرآن اور قاہر شمشیر کے ساتھ ان کی طرف گئے تا کہ ان کے ذریعہ ان کے شعر پر غالب آئے اور اور ان کی شمشیر پر کامیاب ہو۔

اس روایت پر توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اگر موجودہ زمانہ خلاء اور خلاء کو تسخیر کرنے کا زمانہ کہلاتاہے تو حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے پاس جدید خلائی وسائل ہوں گے کہ جن کے سامنے دور حاضر کی خلائی شٹل بے ارزش ہو گی۔

۲۷۶

  آسمانوں تک رسائی

اہلبیت اطہار علیہم السلام کی حکومت کا تشکیل پانا اور آنحضرت کی عظیم قدرت کا ظہور نہ صرف دنیا کے تمام پاک سیرت لوگوں کو اپنی طرف جلب کرتا ہے بلکہ اس بابرکت باعظمت اور درخشاں دن کے بارے میں بات کرنا بھی انسانوں کے دلوں میں شوق و ولولہ پیداکرتا ہے کہ جلد از جلد وہ بابرکت زمانہ آئے ۔ ظہور کے زمانے کے حیرت انگیز واقعات میں سے ایک انسان کا آسمانوں تک رسائی خلاء میں پرواز اور دوسرے کرّات پر جانا ہے ۔ آسمان کی بلندیوں میں پرواز ، آسمانی کرّات میں نشست انسان کی دیرینہ خواہش ہے ۔ جس کے حصول کی متعدد بار کوشش کی گئی اور اس کے لئے بہت سرمایہ بھی خرچ کیاگیا ۔ آسمانوں تک رسائی ملکی و مادی لحاظ سے تھی اس سے بھی اہم نکتہ تو یہ ہے کہ اس روز انسان نہ صرف ملکی و مادّی لحاظ سے پرواز کرے گا بلکہ ملکوتی اعتبار سے بھی آسمانوں تک دسترس  حاصل کرے گا اور ملکوت آسمان کا نظارہ کرے گا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کیفیت و اہمیت کے لحاظ سے عالم ملک و ملکوت ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفاوت ہیں ۔ یعنی عالم ملک کاعالم ملکوت سے مقائسہ نہیں کر سکتے ۔عالم ملکوت کی عالم ملک پر برتری اور صالحین کی حکومت میں انسانوں کا عالم ملکوت تک رسائی پر توجہ کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان ظہور کے بابرکت زمانے میں کس ظاہری و معنوی عظمت کا مالک ہو گا ۔ وہ خوش نصیب  ہیں کہ جو زمانہ ظہور کو درک کریں گے اور اس مبارک دن میں زندگی گزاریں گے۔اسی طرح تاریک زمانے سے پُر نور زمانے میں جانے والے اور شادابی و شادمانی سے سرشار دنیا کا نظارہکرنے والے بھی خوش نصیب ہیں۔

۲۷۷

  ظہور کا زمانہ اورخلائی سفر

شب معراج رسول اکرم(ص) آسمانو ں ک ی بلندیوں میں گئے اور عرش پر خدا سے ہم کلام ہوئے ۔خدا وندکریم نے حضرت مہدی علیہ السلام  کے خلائی سفر کے بارے میںرسول اکرم(ص)سے کلام ک یا ۔نہ صرف آنحضرت کے خلائی سفر بلکہ واحد عالمی حکومت ، قیامت تک اس کے تداوم پوری کائنات میں رونماہونے والے عظیم تحوّلات اور دشمنوں کے وجود سے دنیا کے پاک ہونے کی خبر دی ۔ہم یہاں ایسی ہی کچھ روایات پیش کرنے کے بعد اس بارے میں اہم ترین نکتہ بیان کرتے ہیں۔رسول اکرم (ص) نے فرما یا:''فقلت :یا ربّ هئولاء اوصیائ بعد ؟ فنودیت یا محمد؛ هئولاء اولیائ و احبّا ئ و اسفیاء،و حجج بعدک علی بریّت،وهم اوصیائک و خلفاوک و خیر خلق بعدک و عزّت و جلال لأظهرنّ بهم دین،ولأعلینّ بهم کلمت ولأطهرنّ الارض بآخرهم من اعدائ،وللاُملّکنّه مشارق الارض و مغاربها،ولاسخرنّ له الرّیاح ، ولاذلّلنّ له السحاب الصعاب ،ولا رقینّه ف الاسباب،ولانصرنّه بجند،ولا مدّنّه بملائکت،حتی یعلن دعوت،ویجمع الخلق علی توحیدی،ثمّ لادیمنّ ملکه ،ولأداولنّ الایّام بین أولیائ الی یوم القیامة '' (۱)

میں نے کہا!اے پروردگار وہ میرے بعد میرے اوصیاء ہیں؟

پس میں نے ندا سنی:اے محمد!وہ میرے اولیاء میرے دوست میرا  برگزیدہ اور آپ اور آپ کی امت پرمیری حجت ہیں اور وہ تمہارے اوصیاء تمہارے جانشین اور تمہارے بعد میری بہترین مخلوق ہیں۔ میری عزّت اور میرے جلال کی قسم ،یقیناََ میں اپنے دین کو ان کے وسیلہ سے ظاہر کروں گا اور اپنے کلمہ کو ان کے  وسیلہ سے برتر کروں گا۔یقیناََ ان میں سے آخری کے ذریعہ زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا۔حتماََ اسے زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بناؤں گا۔ہواؤں کو اس کے لئے مسخر کروں گا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۵۲ص۳۱۲

۲۷۸

سخت بادلوں کو اس کے تابع کروں گا۔اسے وسائل میںاوپر لے جاؤں گا۔  یقیناََ اپنے لشکر سے اس کی نصرت کروں گا۔اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مدد کروں گا تا کہ وہ میری دعوت کو آشکار کرے۔سب لوگوں کو توحید و یکتا پرستی پر جمع کرے گا۔پھر اس کے ملک کو پائیدار بنا کر ایّام کو قیامت تک کے لئے اپنے دوستوں میں قرار دوں گا۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس روایت میں مہم مطالب کے بارے میں بات ہوئی ہے۔اس روایت میں آئمہ اطہار علیہم السلام کی عظمت ،ان کی فضیلت و برتری ،ان کے ذریعہ دین اسلام کے ظاہر ہونے ، ان میں سے آخری کے ذریعہ زمین کو دشمنوں سے پاک کرنے ،خدا کے لشکر،ہواؤں کی تسخیر تمام مخلوق کا خدا کی توحید و یکتا پرست کے معتقد ہونے، واحد عالمی حکومت اور قیامت تک اس کے قائم رہنے کے بارے میں بیان ہوا ہے۔

  روایت میں موجود نکات

اس روایت میں ایسے نکات موجود ہیں کہ جن پر دقت و تأمل  سے بعض اہم نکات حاصل کر سکتے ہیں۔

۱ ۔ روا یت میں یہ جملہ کہ خدا نے فرمایا:''لاسخّرنّ له الریاح ولذ لّلنّ له السحاب الصعاب ، ولا رقّینّه ف الاسباب''

یہ اس نکتہ کی دلیل ہے کہ آنحضرت(ص) کا آسمانوں کی طرف صعود کرنا جسمانی ہے جیسا کہ حضرت محمد  مصطفٰی (ص)کی معراج جسمانی تھی۔یعنی آنحضرت(ص) کا آسمانوں پر جانا قالب مثالی سے نہیں ہے۔جیسا کہ آسمانوں کی بلندیوں میں صعود سے مقصودبھی روحانی صعود نہیں ہے کیونکہ اگر آنحضرت کا آسمانوں پر جاناروحانی صعود ہوتا یا قالب مثالی کی صورت میں ہوتا تو پھر سحاب صعاب یا اسباب کی ضرورت نہ  ہوتی۔کیونکہ روح یا قالب مثالی کے آسمانوں کی طرف جانے کے لئے کسی خلائی وسیلہ سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۲۷۹

۲ ۔ اس روایت سے دوسرا حاصل ہونے والا نکتہ یہ ہے کہ اگر آنحضرت  آسمانوں کی طرف جسمانی صعود کا اراسہ کریں تو اس کے لئے بھی خلائی اسباب و وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ وہ ظاہری وسیلہ یا برّاق(جو رسول اکرم(ص)سے مخصوص تھا) سے استفادہ کئے بغیر بھی جا سکتے ہیں ۔ روایت میں اسباب و وسائل سے تعبیر ہونا اس چیز کی دلیل ہے کہ آنحضرت  کا آسمانوں میں جانا کسی انحصاری  یا  ظاہری وسیلہ (جیسے برّاق) میں منحصر نہیں ہے۔ اس بناء پر وسیلہ کے تعدد اور لفظ اسباب کے جمع ہونے سے اسباب اور وسائل اس چیز میںظہور رکھتے ہیں کہ آنحضرت کسی انحصاری وسیلہ (جیسے برّاق) سے استفادہ نہیں کریں گے ۔مورد توجہ یہ ہے کہ سحاب صعاب اور سخت بادل بھی جمع کی صورت میں  بیان کئے  گئے ہیں۔

۳ ۔ اس روا یت سے یہ نکتہ بھی استفادہ کرتے ہیں کہ ظہور کے زمانے میں خلاء اور آسمان پر جانے کے لئے مختلف ذرائع ہوں گے کہ جن سے استفادہ کیا جائے گا۔اس روایت میں تین طرح سے تصریح ہوئی ہے۔

الف:  لاسخّرنّ لہ الریاح

ہواؤں کو یقیناََ اس سے تسخیر کریں گے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی عظیم بساط کے بارے میں بھی بیان ہوا ہے کہ ہوائیں ان کی بساط کو آسمان پر لے جاتیں ۔ ہواؤں اور شدید طوفان کی قدرت بہت حیرت انگیز ہے ان کی تسخیر سے مراد انہیں اپنے اختیار میں رکھنا اور ان پر مکمل  قابو ہوناہے۔ہمارے زمانے میں دانشور نہ تو طوفان کو روک سکے ہیں لیکن قرآن کریم کی آیات کی بناء پرحضرت سلیمان علیہ السلام ایسے کام کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔حضرت مہدی علیہ السلام (جو کہ ہر چیز پر ولایت رکھتے ہیں) ان پر قابو پا کر ان کے منفی آثار کو برطرف کرنے کے علاوہ انہیں تسخیر کرنے اور ان پر تسلط پا کران  سے مثبت استفادہ بھی کریں گے۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300