امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 175100
ڈاؤنلوڈ: 4309

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175100 / ڈاؤنلوڈ: 4309
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پہلاباب

عدالت

    عدالت پیغمبروں کا ارمان

    معاشرے میں عدالت یا عادلانہ معاشرہ؟

    عصرِ ظہوراور عدالت

    عدالت کی وسعت

    دنیا کی واحد عادلانہ حکومت

    عدالت کا ایک نمونہ

    ہر طرف عدالت کا بول بالا

    عدالت کا نفاذ اور حیوانات میں بدلاؤ

    حیوانات کا رام ہونا

    حیوانات پر مکمل اختیار

    الیکٹرک پاور سے بڑی قوّت

    ایک اہم سوال اور اس کا جواب

    حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کا تابناک نور

    حیوانات کی زندگی پر تحقیق

۲۱

 عدالت پیغمبروں کا ارمان

عدالت کا مسئلہ اور انسانی معاشرے میں اس کی اہمیت اتنی ضروری ہے کہ خداوند متعال  نے تمام نبیوں  اور آسمانی کتابوں کو امتوں کے درمیان عدل قائم کرنے اور ظلم و ستم کو ختم کرنے کے لئے مبعوث کیا۔  خداوندکریم کا سورہ ٔحدید میں ارشاد ہے:

''لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط '' (1)

بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔

اس بناء پر پیغمبروں کی رسالت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد معاشرے میں عدل قائم کرنا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر دور کے قابیل کی سازشوں اور عدل کی راہ میں  کانٹے بچھانے والوں کی وجہ سے ابتداء سے لے کر آج تک اور حضرت  بقیة اللہ الاعظم (عج) کے قیام اور حکومت سے پہلے تک کسی بھی انسانی معاشرے میں عادل حکومت قائم نہیں ہو سکی ۔ کسی بھی معاشرے میں عادلانہ نظام قائم نہ ہوسکا  ۔(2)

--------------

[1]۔ سورہ حدید  آیت: 25

[2]۔  حضرت امیرالمؤمنین علی  کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں بھی دشمنوں نے حکومت  کے خلاف ہر طرح کی سازشیں رچائیں  اور اس دور میں بھی فدک غاصبوں کے قبضہ میں باقی رہا۔

۲۲

  معاشرے میں عدالت یا عادلانہ معاشرہ؟

قرآن کی آیت شریفہ میں پیغمبروں کی رسالت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا  ہدف ومقصد عادلانہ نظام اور عادلانہ معاشرہ تشکیل دینا قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح وہ خود بھی عدل پر عمل کریں نہ کہ حکومتِ الٰہی ان کے درمیان عدل کے حکم کو جاری کرے  ۔

لوگوں میں عدالت کو رواج دینا اور امتوں میں عدل قائم کرنا بزرگ پیغمبران الٰہی کا وظیفہ ہے کہ جسے حضرت  بقیة اللہ الاعظم(عج) کی الٰہی حکومت عملی جامہ پہنائے گی۔ان کی عادلانہ حکومت پوری دنیا اور تمام اقوامِ عالم پر قائم ہو گی۔

خدا کے تمام پیغمبروں نے  لوگوں کے درمیان عدل  قائم کرنے اور عدل کی حاکمیت کے لئے جو  زحمتیں ،تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کیں ،ان سب کا نتیجہ امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت ہے۔ اس وقت ظالموں اور ستمگروں کی فائل ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گی اور اس مبارک دن میں کفر و گمراہی  کے پرچم ہمیشہ کے لئے سرنگوں ہو جائیں گے۔اس زمانے میں دنیا کے تمام مظلوم ستمگروں اور ظالموں کے شر سے نجات پا جائیں گے۔تب انسانوں کا نظامِ زندگی بدل جائے گا اور انہیں ایک نئی حیات ملے گی۔    اس طرح خدا کے پیغمبروں اور خاندانِ  نبوت علیہم السلام کا دیرینہ ارمان پوراہو جائے گا اور صدیاں گزرنے کے بعد عدل دنیا میں عملی طور پر نافذ ہو گا۔اسی وجہ سے حضرت  بقیة اللہ الاعظم (عج) سب امتوں کے لئے موعود ہیں۔لہذا امام زمانہعلیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں:

''السلام علی  المهدی الّذی وعد اللّٰه عزّوجل به الامم '' (1)

حضرت مہدی  علیہ السلام   پر سلام ہو کہ خداوند کریم نے تمام امتوںسے جن کے ظہور و حکومت کا وعدہ کیا ہے۔

--------------

[1]۔ صحیفہ مہدیہ: 636

۲۳

عصرِ ظہوراور عدالت

حضرت ولی عصر  علیہ السلام کی عادلانہ حکومت میں ایسے عظیم اور مہم بدلاؤوجود میں آئیں  گے کہ ستمگروں اور بدعت گزاروں کی دنیا اجڑ جائے گی۔بلکہ ان کے ظلم اور رائج بدعتوں کے آثار بھی ختم ہوجائیں گے۔اس اہم نکتہ کو درک کرنے کے لئے تفکر و تعقل کی  ضرورت ہے کہ اب تک ستمگروں اور بدعت گزاروں نے دنیا میں کیسے پلید اور نقصان دہ نتائج پیش  کئے ہیں؟انہوں نے کس طرح لوگوں کو اقتصادی  مسائل اور فکری و معنوی  فقر میں مبتلا کر رکھا ہے؟

 نجات اور رہائی کے دن ،دنیا اتنی  خوبصورت  ہوگی کہ اس وقت نہ صرف ستمگروں اور ظالموں بلکہ ان کے ظلم و ستم کے نشان بھی مٹ جائیں گے۔

 ہم اس حیات بخش اور کامل زمانے کی تصویر کشی کرنے کے لئے توانا فکر کے نیاز مند ہیں تاکہ عصر ظہور کی نورانیت و درخشندگی کو ذہن میں تصور کرسکیں۔

 یہاں ہم نے جوانتہائی اہم نکتہ اخذکیاہے  وہ یہ ہے کہ حضرت  بقیة اللہ الاعظم (عج)عادلانہ حکومت میں حتی کہ مظالم و بدعتوں کے آثار بھی نہیں ملیں گے یہ

ایسی حقیقت ہے کہ جو ہم نے مکتب اہلبیت علیہم  السلام سے سیکھی۔

۲۴

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''هذه الآیة ''اَلَّذِینَ اِن مَکَّنَّا هُم (1) '' نزلت فی المهدی و اصحابه یملکهم مشارق الارض و مغاربها، و یظهر اللّه بهم الدین حتی لا یری اثر من الظلم و البدع '' (2)

یہ آیہ شریفہ''یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا''حضرت مہدی علیہ السلام  اور ان کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔خدا انہیں زمین پر مشرق و مغرب کا مالک بنائے گا ،ان کے  ذریعے دین کو ظاہر کرے گا ۔یہاں تک کہ ظلم اور بدعت کے آثار بھی د کھائی نہیں دیں گے۔

کیا اس حیات بخش زمانہ کو نہ دیکھیں؟کیا اس زمانہ کو درک کر سکتے ہیں؟

عدالت کی وسعت

آپ کو معلوم ہے کہ عصرِ ظہور ،عدل و عدالت سے سرشار زمانہ ہے۔جیسا کہ ہم نے خاندانِ عصمت و طہارت  کے فرامین سے نقل کیا کہ اس زمانے میں ظلم و ستم کے آثار باقی نہیں رہیں گے۔

اس وقت ستمگروں کی طرف سے لوگوں پر لادے گئے ہر قسم کے مسائل اور فقر و نیاز نہ صرف برطرف ہوجائیں گے بلکہ ان کا جبران بھی ہوگا۔

--------------

[1]۔ سورہ حج، آیت:41

[2]۔ احقاق الحق:ج۱۳ص۳۴۱

۲۵

پوری دنیا میں عدل کا بول بالا ہوگا عدل کا پرچم بلند اور ظلم کا پرچم سرنگوں ہوگا۔تمام مظلومان ِ عالم ظالموںکے شر سے نجات پائیں گے ۔حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی عدلانہ حکومت پوری دنیا کے لوگوں کے سروں پر رحمت و عدالت کا سایہ کرے گی۔

 اس وقت صرف حکومتی اداروں میں ہی نہیں بلکہ بازاروں ،شاہرائوں ،تجارتی مراکز بلکہ گھروں کے اندر بھی عدل و عدالت قائم ہوگی اور ظلم و ستم کا نام و  نشان مٹ جائے گا۔

عدالت ایک قوی انرجی کی طرح ہر جگہ حتی ہر گھر میں سرایت کرجائے گی ۔ جس طرح سردی اور گرمی ہر جگہ کواپنے احصارمیں لے لیتی ہے۔اسی طرح آنحضرت کی عدالت بھی ایک عظیم  طاقت کی طرح ہرجگہ پھیل جائے گی۔اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اما واللّه لیدخلن علیهم عد له جوف بیوتهم کما یدخل الحرّ و القرّ  '' (1)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عدالت حتمی اور قطعی طور پر گھروں میں داخل ہوجائے گی جس طرح گرمی و سردی داخل ہوتی ہیں۔

اب ممکن ہے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ عدالت ،پوری دنیا کواپنی  آغوش میں لے لے کہ جس طرح انرجی و حرارت ہر جگہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے؟یہ کس طرح ممکن ہے کہ پوری دنیا میں عدالت قائم ہوجائے کہ پھر ظالموں کا زور اور ظلم و ستم صفحہ ہستی سے مٹ  جا ئے؟ اگر اس زمانے  کے لوگ بھی ہمارے زمانے والوں کی طرح ہوں تو کیا ہر جگہ عدالت کا حاکم ہونا ممکن ہے؟کیا ممکن ہے کہ ظالموں اور ستمگروں کا زور اور دہشت دوسروں کو اپنی زنجیروں میں نہ جکڑے؟

--------------

[1]۔ الغیبة مرحوم نعمانی :297

۲۶

اس کے جواب میں یوں کہیں کہ جب تک بشریت اپنی اوّلی اور سالم فطرت کی طرف نہ لوٹے اور اس کی عقل و فکر تکامل کی حدوں تک نہ پہنچے،تب تک یہ ممکن نہیں کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں اور دنیا میں ظلم و ستم کی جگہ عدل و انصاف قائم ہونے دیں۔

 اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) حکومتِ عدلِ الٰہی کو استقراردینے کے لئے تمام انسانوں کے وجود میں اساسی تحول ایجاد کریں گے جس سے بشریت تکامل کی طرف گامزن ہوکر عدل و انصاف کا رخ کرے گی اور ظالموں کے وجود اور ان کے مظالم سے متنفر ہوجائے گی۔

یہ اساسی تحوّلات فقط اس صورت میں متحقق ہوسکتے ہیں کہ جب انسانوں کے وجود میں تکامل ایجاد ہو اور تکامل کے ایجاد ہونے سے ان کی روحانی و فکری اور عقلی قدرت میں اضافہ ہوگا۔پھر وہ نفس امّارہ  اور نفسانی خواہشات کی مخالفت سے تکامل کی طرف گامزن ہوں گے۔

   دنیا کی واحد عادلانہ حکومت

جیسا ہم نے کہا تھا کہ حضرت امام مہدی  علیہ السلام کی عادلانہ الٰہی حکومت عالمی ہوگی،جو پوری دنیا پر حکومت کرے گی۔زمین کے کسی خطے حتی کہ بیابانوں ،پہاڑوں میں بھی ان کی قدرت و حکومت کے علاوہ کوئی حکومت نہیں ہوگی ۔پوری دنیا ان کی عادلانہ و شریفانہ حکومت سے سر شار و مستفید ہوگی۔

ہم حضرت  بقیة اللہ الاعظم (عج)  کی زیارت میں یوں پڑھتے ہیں:

۲۷

''و تجمع به الممالک کلّها ،قریبها و بعیدها ،عزیزهاوذلیلها شرقها وغربها،سهلها و جبلها صبا حا و دبورها،شمالها و جنوبها ،برّها و بحرها ،خزونها و وعورها ،یملاها قسطا و عدلاََ کما ملئت ظلماََ وجوراََ '' (1)

ان کے ذریعہ تمام حکومتوں کو ایک حکومت میں تبدیل کردیا جائے گا۔وہ ان میں سے نزدیک اور دور باعزت و ذلیل، مشرق و مغرب کی حکومتوں کو اور ان کے صحرا ؤں اور پہاڑوں ،چراگاہوںاور بیابانوں کو شمال و جنوب ،خشکی و تری اور ان میں سے ذرخیز و بنجر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہو گی۔

  اس بناء پر  حضرت  بقیة اللہ الاعظم (عج) سب حکومتوں کو ایک عادلانہ حکومت میں تبدیل کر یں گے وہ دنیا کی تمام حکومتوں کو اپنی حکومت کے زیر تسلط  لے آئیں گے۔چاہے وہ حکومت مشرق میں ہو یا مغرب میں ،چاہے وہ قدرت کے لحاظ سے طاقتور ہو یا کمزور ۔وہ پوری دنیا پر فتح و نصرت کے ذریعہ واحد عادلانہ حکومت قائم کریںگے ۔ دنیا کی تمام حکومتیں ان کی حکومت میںمل جائیں گی۔

رسول اکرم(ص)فرماتے ہ یں:

''الآئمة من بعدی اثنا عشر اوّلهم انت یا علی و آخرهم القائم الذی یفتح اللّٰه تعالٰی ذکره علٰی یدیه مشارق الارض و مغاربها '' (2)

میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں سے پہلے امام یا علی آپ ہیں اور آخری امام قائم  ہیں کہ  خدا اس کے ہاتھوں سے زمین کے مشرق و مغرب کو فتح کرے گا۔

--------------

[1]۔ صحیفہ مہدیہ: 618

[2]۔ بحارالانوار:ج52ص378

۲۸

ساری دنیا پر فتح پانے سے دنیا کے ہر خطے میںخدا کی عادلانا حکومت حاکم ہو گی۔کہیں بھی ظلم و ستم کا چھوٹا سا نمونہ بھی دکھائی نہیں دے گااسی وجہ سے دنیا کے سب مظلوم حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عادل حکومت کے منتظر ہیں وہ اسی حکومت کے انتظار میں ہیں کہ جب پوری دنیا میں عدل و انصاف حاکم ہوگا۔

 ہم آنحضرت کی زیارت میں  پڑھتے ہیں:

  '' السلام علیک ایّها المومّل لِاحیاء الدّولة الشریفة '' (1)

سلام ہو تجھ پر کہ جس کی شریف(عادلانہ)حکومت کو زندہ رکھنے کے لئے آرزو کی جاتی ہے۔

حضرت امام باقر علیہ السلام،ان کی درخشاں حکومت اور عصرِ ظہور کے بارے میں میں فرماتے ہیں:

''یظهر کالشهاب ، یتوقد فی اللیلة الظلمائ، فان ادرکت زمانه قرّت عینک'' (2)

جس طرح رات کی تاریکی میں شہاب شعلہ ور ہوتا ہے،اگر ان کے زمانہ کو دیکھو گے تو تمہاری آنکھیں روشن ہوجائیں گی۔

جس طرح سیاہ رات میں اگر کوئی روشن ستارہ نمودار ہو تو وہ سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلیتا ہے۔حضرت مہدی  علیہ السلام  کے ظہور کا زمانہ بھی ایسا ہی ہو گا۔

جب سب انسان گمراہی ،تاریکی اور فساد میں مبتلا ہوں گے ،تو لوگوں کے لئے امام زمانہ علیہ السلام کاظہور اس قدر درخشاں و منور ہوگا کہ سب لوگ اسی کی جانب متوجہ ہو جائیں گے تاکہ ضلالت و گمراہی کی تاریکی سے نکل کر ہدایت و نجات کی طرف آسکیں۔

--------------

[1]۔ صحیفہ  مہدیہ:620

[2]۔ الغیبة مرحوم نعمانی:150

۲۹

اس وقت منتظرین اور انتظار کرنے والوںکی آنکھیں روشن ہوجائیں گی ۔ان کی تھکاوٹ و خستگی ختم ہوجائے گی اور ان میں خوشی و مسرّت کی لہر دوڑ جائے گی۔جب لوگوں میں رات کے گھپ اندھیرے کی طرح اختلافات ،جنگ و جدال ،ظلم و ستم، خونریزی و فساد اپنے عروج پر ہوگا تو آنحضرت  کی عادلانہ حکومت ان مظلوم اور بے آسرا لوگوں کو وحشت و اضطراب سے نکالے گی۔ایسے دن کے بارے میں رسول اکرم (ص)نے فرما یا:

''ابشروا با المهدی ،ابشر وا باالمهدی،ابشروا باالمهدی یخرج علی حین  اختلاف  من الناس و زلزال شدید،یملأ الارض قسطا و عدلا،کما ملئت ظلما وجوراً،یملأ قلوب عباده عبادة و یسعهم عدله '' (1)

 تمہیں مہدی علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتا ہوں  مہدی علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتا ہوں، مہدی  علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتا ہوں،جب لوگوں میں شدید اختلافات ہوں گے تو اس وقت امام زمانہ  علیہ السلام   ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کریں گے جس طرح سے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔وہ خدا کے بندوں کے قلوب کو حالت عبادت و بندگی سے سرشارکریں گے سب پر ان کی عدالت کا سایہ ہوگا۔

رسول اکرم(ص)نے فرما یا:

 '' یحل بامتی فی آخر الزمان بلاء شدید من سلاطینهم لم یسمع بلاء اشد منه حتی لا یجد لارجل ملجائ، فیبعث اللّٰه رجلا من عترتی اهل بیتی یملأ الارض قسطاً و عدلاً کما ملئت ظلما و جورایحبه ساکن الارض و ساکن السماء ، وترسل السماء قطرهاو تخرج الارض نباتها لاتمسک فیها شیئا……. یتمنی الاحیاء الاموات مما صنع اللّه بأهل الارض من خیره ''   (2)

--------------

[1]۔ الغیبة نعمانی: 111

[2]۔ احقاق الحق :ج۱۳ص۱۵۲

۳۰

آخری زمانے میں میری امت کو اپنے بادشاہوں و حکمرانوں کی طرف سے سخت مشکلات کا سامنا ہوگاکہ کسی نے بھی اس سے زیادہ سختی کا نہیں سنا ہوگا۔انسان کو کوئی پناہگاہ اور ان سے فرار کی جگہ میسر نہیں ہو گی۔

 پس خدا وند متعال میری عترت و اہلبیت علیہم السلام سے  ایک شخص کو ان کی طرف بھیجے گا ۔جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی۔

 زمین و آسمان کے مکین اسے دوست رکھتے ہیں ۔آسمان بارش برسائے گا زمین نباتات اُگائے گی اوراس میں سے کوئی چیز بھی اپنے اندر نہیں رکھے گی ،اس وقت زندہ افراد آرزو کریں گے کہ کاش ان کے مردے بھی ان کے ساتھ ہوتے ۔ان کی اس آرزو کی وجہ  اس زمانے میں اہل زمین پر کی جانے والی خوبیاں ہیں۔

ہم حضرت مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت کے جلد آنے کی امید کرتے ہیں اور ہم

ان بزرگوار کی عالمی حکومت کے قائم ہونے کے شاہد ہوں۔

عدالت کا ایک نمونہ

 ابتدائے تاریخ سے آج تک ہمیشہ طاقتوروں اور دولتمندوں نے اپنی طاقت اور دولت کے زور پرفقیر ، مستضعف اور کمزور لوگوں کے حقوق کو پامال کیا۔

اب تک ثروت مند نہ صرف دنیاوی امور بلکہ ایسے عبادی امور میں بھی پیش قدم ہوتے ہیں کہ جن میں دولت و ثروت کا اہم کردار ہوتا ہے اور ضعیف و ناتواں افراد فقط ان کا منہ دیکھتے رہتے۔

امام عصرعلیہ السلام کی عادل حکومت میں دولت و ثروت کایہ حال نہیں ہوگا۔ بعض افراد کی دولت ، دوسرے افراد کی محرومیت کا باعث نہیں ہوگی۔

۳۱

اس زمانے میں ہر انسان کے لئے بغیر کسی امتیاز کے عدالت بہترین طریقے سے نافذ ہوگی۔

 اب ہم جو روایت ذکر کرنے جارہے ہیں،وہ  عالمی عدالت  کے ایک نمونے کو بیان کرتی ہے:

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اوّل مایظهر القائم من العدل ان ینادی منادیه:

''ان یسلم صاحب النافلة لصاحب الفریضة الحجر الاسود و الطواف''(1)

حضرت قائم علیہ السلام سب سے پہلے جس عدالت کا قیام  کریں گے وہ یہ ہے کہ آنحضرت  کا منادی  ندادے گا کہ جو افراد مستحب حج انجام دے رہے ہیں وہ محل طواف اور

حجر اسود ان لوگوں کے اختیار میں دے دیں کہ جن پر حج واجب ہے۔

اگر آج کے زمانے میں کچھ ثروتمندمقدس مقامات کی زیارت کی قیمت و اخراجات اتنے بڑھا دیتے ہیں کہ بہت سے لوگ اس سعادت سے محروم ہوجاتے ہیں لیکن اس درخشاں زمانے میں محرومیت کا نام و نشان نہیں ملے گا ۔سب لوگ خانۂ خدا اور مقدس مقامات کی زیارت کرسکیں گے۔اسی لئے عبادی امور میں بھی لوگوں کی شرکت بہت زیادہ ہوگی۔

اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)  کا پیغام خانۂ خدا کے تمام زائرین تک پہنچے گا کہ جنہوں نے اپنے واجب اعمال انجام دے دیئے ہیں وہ دوسروں کے لئے زحمت و محرومیت کا باعث نہ بنیں۔

یہ اس  عالمی عدالت کا اوّلین کارنامہ ہے کہ جس پر ابتدائے ظہور میں عمل ہوگا۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار :ج۵۲ ص۳۷۴

۳۲

 ہر طرف عدالت کا بول بالا

جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے کہ ظہور کے زمانے میں دنیا سے ظلم و ستم کا نام و نشان مٹ جائے گا اور پوری دنیا عدل و انصاف سے بھر جائے گی ۔اس دن ظلم و ستم،جنگ و جدال اور خونریزی کا نشان باقی نہیں رہے گا۔حضرت ولی عصرعلیہ السلام کی حکومت کے زیر سایہ انسانیت و بشریت سکون کا سانس لے گی ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہزاروں سال پہلے لوگوں کو اس دن کے آنے کی خبر دی گئیاور آخرکار دنیا خود اس دن کی گواہ ہوگی۔

اس مسئلہ میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔کیونکہ عقلوں کے تکامل کا لازمہ اصلی انسانی فطرت  کی طرف لوٹنا اور طبیعتوں کا پاک ہونا ہے اور یہ فقط ظہور کے درخشاںزمانے میں  ہی متحقق ہوگا۔

  عدالت کا نفاذ اور حیوانات میں  بدلاؤ

یہاں ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دن حیوانات کی کیا کیفیت و حالت ہوگی ؟

کیا درندے اس وقت کے مظلوم انسانوں کی زندگی کا اپنی درندگی سے اختتام کریں گے؟

اگر ایسا ہو تو پھر کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں انسانی معاشرے میں ظلم نہیں ہوگا اور خونریزی و غارت گیری کا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا؟اس حقیقت پر توجہ کریں کہ ظہور کا زمانہ ،یوم اللہ ہے۔اس دن زمین پر حکومت الٰہی ہوگی تو پھر یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ حیوانات میں کسی قسم کا تحول نہ آئے اور درندے اپنی درندگی کو جاری رکھیں؟

جی ہاں! حضرت بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام کی عادلانہ ،اور عالمی حکومت کا لازمہ یہ ہے کہ دنیا میں امن و امان ہو اور اہل دنیا ہر قسم کے شر و طغیان اور ظلم و بربریت سے محفوظ رہیں۔

۳۳

اس دن دنیا میں امن اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب درندوں سے ان کی درندگی ختم ہو جائے۔ موذی اور درندہ صفت حیوانات کی زندگی بدل جائے اور ان میں اساسیتبدیلیاں ایجادہوںگی۔ورنہ درندہ صفت حیوانات میں پائی جانے والی درندگی کے ہوتے ہوئے انسان اور کمزور حیوانات کس طرح سے ان کے شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟

  حیوانات کا رام ہونا

اب ہم اس بارے میں وارد ہونے والی بعض روایات پر توجہ کریں ۔

 رسول  اکرم(ص)نے امام عصرعلیہ السلام کی بشارت دی ہے اور عصر ظہوراور ان کی حکومت کی خصوصیات کو متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا ہے اور اس وقت دنیا اور اہل دنیا حتی کہ حیوانات میں ہونے والے مہم تحوّلات و تغیّرات کی خبر دی ہے۔رسول اکرم  (ص) اپنے ایک خطبے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:''و تنزع حُمة کلّ دابّة حتی یدخل الولید یده  ف فم الحنش فلایضره،وتلقی الولیدة الاسد فلا یضرها،و یکون ف الابل کأنّه کلبها و یکون الذئب فالغنم کانّه کلبها وتملأ الارض من الاسلام و یسلب الکفّار ملکهم ولا یکون الملک الاّ للّه و للاسلام وتکون الارض کفاثورالفضة تنبت نباتها کما کانت علی عهد آدم؛یجتمع النفر علی القثاء فتشبعهم و یجتمع النفر علی الرّمّانة فتشبعهم ویکون الفرس بدُرَیهمات '' (1) ہر حیوان سے گزند و ضرر سلب کر لیا جائے گا ۔حتی کہ چھوٹا بچہ زہریلے سانپ کے منہ میں اپنا ہاتھ ڈال دے تو وہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا ۔اگر بچہ شیر کے آمنے سامنے ہو تو شیر اسے نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ اونٹوں کے درمیان شیر ایسے ہوگا جیسے ان کا کتا ہو۔بھیڑوں کے درمیان بھیڑیابھی ان کے کتے کی طرح ہوگا۔پوری روئے زمین پر اسلام کا چرچا ہوگا۔کفّار سے ان کی  ثروت و جائیداد  سلب ہو جائے گی۔کوئی حکومت نہیں ہوگی

--------------

[1]۔ التشریف باالمنن: 299

۳۴

مگر خدا اور اسلام کی حکومت۔  زمین چاندی کے دسترخوان کی طرح ہے ،جو اپنے نباتات اسی طرح اگائے گی جس طرح وہ آدم   کے زمانے میں اگاتی تھی۔

 کچھ لوگ مل کر ایک خیار( کھیرا) کھائیں تو وہ سب سیر ہوجائیں گے۔ اگر کچھ مل کر ایک انار کھائیں تو وہ ان سب کو سیر کردے گا۔ایک گھوڑے کی قیمت چند درہم ہوگی۔

اس روایت میں ظہور کے منوّر و درخشاں زمانے میں دنیا میں ہونے والی اہم تبدیلیوں پر توجہ کریں:

1 ۔درندہ ح یوانات سے ان کی درندگی لے لی جائے گی۔

 ۲۔شیر اور بھیڑیئے  جیسے وحشی اور درندہ حیوانات پالتو جانوروں کی طرح ہوجائیں گے اور وہ اونٹ اور بھیڑوں کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔

 3 ۔جو کفار اپنے کفر پر باق ی رہیں گے ان سے ان کاتمام مال و دولت لے لیا جائے گا ۔

 4۔اس زمانے میں دنیا پر فقط اسلام کی حکمرانی ہوگی ۔خدا اور رسول(ص) ک ی حکومت ہوگی اور اس کے علاوہ کسی حکومت کا وجود نہیں ہوگا۔

 5 ۔اس زمانے م یں خیر و برکت اس قدر زیادہ ہوجائے گی کہ آج کی بہ نسبت پھلوں کی مقدار بہت زیادہ ہوجائے گی کہ کھیرا اور انار جیسا ایک پھل چند لوگوں کو سیر کرے گا۔

 6 ۔اش یاء بہت سستی وکم قیمت ہوجائیں گی کہ ایک گھوڑا چند درہم میں خریدا اور فروخت کیا جا ئے گا۔

 اس بناء پر اسلام عالمی حکومت،آسمانی برکات ،اقتصادی ترقی،زراعت میں اضافہ اوردرندوں سے وحشت و درندگی کا خاتمہ  اس زمانے کی اہم تبدیلیوں میں سے چند ہیں

 یہ تمام عصرِ ظہور کی خصوصیات میں سے ہیں کہ روایت میں پیغمبر اکرم (ص) نے اہل زم ین کو اس کی نوید سنائی ہے۔

۳۵

 وحشی حیوانات کا تابعہوجانا اور درندوں سے امان اس زمانے کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ حیوانات میں تحوّل و تبدّل اور بدلاؤ ،حضرت بقیة اللہ الاعظم  (عج) کی قدرتِ ولایت اور اس زمانے کی موجودات پر ان کے  اختیار کی دلیلہے۔

 اس زمانے میں نہ صرف درندے حیوانات سے درندگی ختم ہوجائے گی ،بلکہ اس زمانے میں لوگوںپر زمینی و آسمانی برکات نازل ہوں گی۔اسی طرح مختلف اشیاء میں ہر قسم کا تکامل،تحوّل،تبدّل اور ترقی بھی امامِ عصرکے ظہور اور ان کی قدرت ِ ولایت کی وجہ سے ہوگا۔ کیونکہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں  کہ مسئلہ ظہور فقط حضرت حجة بن الحسن العسکری (عج)کامادی و جسمانی ظہور نہیں ہے،بلکہ آنحضرت کے ظہور کا مقصد دنیا میں قدرت ِ ولایت و تصرّف سے استفادہ کرنا ہے اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ الاعظم(عج) کے ظہور سے عالمِ تکوین میں آنحضرت کے تصرفات ظاہر ہوں گے اور سب لوگ پوری دنیا میں ان عجیب  تبدیلیوں کے گواہ ہوں گے۔

 حضرت امام جعفر صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں:

 '' ینتج اللّه تعالی فی هذه الامة رجلا منی و انا منه یسوق اللّه تعالٰی به برکات  السمٰوات و الارض، فینزل السماء قطرها و یخرج الارض بذرها و تأمن وحوشها و سبأها و یملأ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا،و یقتل حتی یقول الجاهل لو کان هذا من ذریة محمدلرحم '' (1)

 خدا وند متعال اس امت میں سے ایک مرد کو بھیجے گا کہ جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، خداوند اس کے ذریعہ آسمان و زمین کی برکات جاری کرے گا ۔پس آسمان بارش برسائے گا اور زمین زراعت و نباتات پیدا کرے گی ۔وحشی اور درندے حیوانات پر امن ہوجائیں گے۔وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی وہ خاندانِ اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں کو قتل کرے گا ،یہاں تک کہ جاہل کہیں گے اگر یہ محمد(ص) کی ذریت سے ہوتا تو یقینا رحم کرتا۔

--------------

[1]۔ الغیبة شیخ طوسی: 115

۳۶

 ہم  نے جو روایتذکرکی ،اس میں امام جعفر صادقعلیہ السلام سے امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں بہترین تعبیر نقل ہوئی ہے۔اس روایت میں امام جعفر صادق  علیہ السلام  نے فرمایا: رجلا منی و انا منہ ایسا مرد کہ جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔

 یہ ایک ایسی تعبیر ہے کہ جو امام جعفر صادقعلیہ السلام سے امام عصر کی تجلیل و تعریف کو بیان کرتی ہے۔یہ وہی تعبیر ہے کہ جو  رسول اکرم (ص)نے امام حسن  عل یہ السلام اور امام حسین  علیہ السلام کے بارے میں فرمائی۔

 اس روایت میں موجود دیگر نکات یہ ہیں:

1۔ زمینی و آسمانی برکات کا نازل ہونا۔

2 ۔ بارانِ رحمت کا برسنا۔

3 ۔ زراعت و نباتات ک ی پیداوار میں اضافہ کہ جو زراعت اور اقتصاد کی ترقی کا باعث ہے۔

4۔ وحشی حیوانات سے درندگی کا ختم ہوجانا۔

5 ۔ دنیا کا عدل و انصاف سے سرشار ہونا۔

6۔ روایت کے آخر میں  امام صادق علیہ السلام  کا یہ ارشاد ،و یقتل حتی یقول الجاهل ،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مخالفین میں سے اعتراض کرنے والے موجود ہوں گے۔کیونکہ وہ کہیں گے کہ اگر یہ محمد (ص) کی نسل و ذریّت سے ہوتے تو حتماً رحم کرتے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت رسول خدا(ص) اور ان کے رحیم ہونے کے معتقد ہوں گے۔لیکن امام زمانہعلیہ السلام کی امامت کے قائل نہیں ہوںگے۔اسی وجہ سے وہ امام  زمانہعلیہ السلام پر اعتراض کریں گے۔یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ ان میں قتل و غارترونما ہوگا۔

۳۷

اب اصل مطلب کی طرف آتے ہیں اور حیوانات کے رام ہونے کی بحث کوجاری رکھتے  ہیں کہ جس کے بارے میں خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام کی روایات میں تصریح ہوئی ہے۔

 روایات کی بناء پر درندے حیوانات میں ایسی تبدیلی آئے گی کہ وہ گوشت خوری کو چھوڑ کر چارہ کھانے و الے جانور بن جائیں گے۔

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ درندوں سے درندگی اور خونریزی کی صفت سلب  ہوجائے گی اور وہ چارہ کھاکر اپنی غذائی ضروریات کو پورا کریں گے۔

  حضرت امام حسن مجتبی  علیہ السلام فرماتے ہیں:

 '' تصلح فی ملکه السباح '' (1)

حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت میں درندے ایک دوسرے کے ساتھ صلح و امن سے رہیں گے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''اصطلحت السباع و البهائم '' (2)

درندے اور چارپائے آرام اور صلح سے رہیں گے۔

--------------

[1]۔ بحارالاانوار:ج۵۲ص۲۸۰

[2]۔ بحارالاانوار:ج۵۲ص۳۱6

۳۸

یہ چیزیں ایسے افراد کے لئے دیکھنا مشکل ہوگا کہ جنہوں نے اپنے دلوں پر مہر لگا دی ہو اور وہ  موجود ہ اشیاء سے بڑھ کر کسی چیز کو دیکھ نہیں سکتے ۔لیکن جو آنے والی دنیا اور دنیا کے آئندہ  حالات اور مسائل کے بارے میں گہری نظر رکھتے ہوں،ان کے لئے یہ مسائل دیکھنا آسان ہے ۔کیونکہ وہ جانتے ہیں  کہ زمین و زمان میں رونما ہونے والے عجیب واقعات و تبدیلی ،کرہ زمین کے موجودات پر اچھے اثرات چھوڑیں  گے اور تمام  موجودات کوکامیابی و کامرانی کی طرف لے جائیں گے۔

اس حقیقت پر توجہ کرنے کے بعد اب یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ انسان تقویت ِ ارادہ  اور یقین ِ محکم کے ذریعہ حتی حیوانات کو بھی  اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لے؟

جس طرح شیخ بہائی اور ان جیسے افراد کی با قدرت نگاہ تانبے کو سونے میں تبدیل کردیتی تھی ، عقلوں کے تکامل کے دن انسان اپنے ارادے کو حیوانات پر القاء کرسکتاہے کہ جو عقلاً مشکل ہے۔

اگر ہم اس دن کو موجودہ دور کے لوگوں کی طرح مانیں تو پھر اس حقیقت و واقعیت کو قبول کرنا مشکل ہوگا۔لیکن جیسا کہ ہم نے کہا کہ وہ دن ،عقلوں کے تکامل، اور انسانی قدرت کے قوی ہونے کا دن ہے۔اس بیان پر توجہ کرنے سے ایسے واقعات کو قبول کرنا بہت سہل و آسان ہوجائے گا۔

۳۹

  حیوانات پر مکمل اختیار

اب اس مطلب کے بیان  کے لئے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ جو حیوانات میں تصرف و تحوّل کے امکان کی واضح دلیل ہے تاکہ یہ واضح ہے ہوجائے کہ ہر طرف اور ہر جگہ عدالت کے نفاذ کے لئے حیوانات کے وجود میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔حیوانات کے دماغ و اعصاب میں تصرّف سے یہ کام بڑی آسانی سے انجام پاسکتاہے۔

البتہ یہ بات مد نظر رہے کہ ہم عصرِ ظہور کی حیرت انگیز تبدیلیوں کو بیان کرنے کے لئے کسی ایسے واقعہ کو نقل کرنے کے لئے مجبور نہیں ہیں کہ جو غیبت کے دوران پیش آیا ہو۔ہم یہ واقعہ صرف اس کے  لئے بطور ایک دلیل  ذکر کر رہے ہیں۔بلکہ یہ مطلب بعض افرادکے ذہن کے نزدیک کرنے کے لئے ہے شاید غیبت کے دوران حکومتِ الہٰی کے غاصبوں کی زرق و برق اور نمائشی زندگی ان پر اثر انداز ہوئی ہو۔

مذکورہ نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس واقعہ پر توجہ کریں۔

 ''ڈل گاڈو''نامی ایک شخص بُل فائٹر تھا۔ہم اس کے بُل فائٹنگ کے ایک مقابلہ کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:

بُل فائٹنگ کے ایک مقابلے میں لوہے کا دروازہ کھلا اور ایک انتہائی طاقتور بیل وہاں سے نکل کر میدان کی طرف بھاگا وہ بھاگتا ہوا سیدھا ''ڈل گاڈو''کی طرف آرہا تھا۔وہ ''ڈل گاڈو'' کے بدن کے حساس ترین حصے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ہزاروں تماشائی،فوٹو گرافر اور اخباری نمائندے اس منظر کو دیکھ رہے تھے اور ان کے دل بہت تیزی سے دھڑک رہے تھے۔سب اس خوفناک منظر کو دیکھ رہے تھے۔کوئی بھی انہیں اس خوفناک منظر سے نکالنے والا نہیں تھا۔

 میدان میں صرف ایک غضبناک بیل کے دوڑنے کی آواز گونج رہی تھی۔ہر کوئی اس لمحے کا منتظر تھا کہ کب بیل اپنے سینگوں سے ''ڈل گاڈو''کو اٹھا کر آسمان کی طرف پھنیکے یا اپنے تیز اور نوکیلے سینگوں سے اس کے سینہ کو پھاڑ دے!

۴۰