امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 175194
ڈاؤنلوڈ: 4309

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175194 / ڈاؤنلوڈ: 4309
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عورت نے کہا کہ اس کا نام ''مات الدین'' ہے۔

دائود علیہ السلام نے عورت سے کہا کہ اس کا یہ نام کس نے رکھا ہے؟

عورت نے جواب دیا کہ اس کے باپ نے۔

دائود علیہ السلام نے کہا کہ اس کا یہ نام کیوں رکھا گیا؟

عورت نے کہا! وہ سفر کے لئے گھر سے نکلا اور اس کے ہمراہ کچھ لوگ تھے اور میں حاملہ تھی۔میرے شکم میں یہ بیٹا تھا۔وہ سب لوگ تو سفر سے واپس آگئے لیکن میرا شوہر واپس نہیں آیا۔میں نے ان سے اپنے شوہر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ مرگیا ہے۔جب میں نے اس کے مال کے بارے میں پوچھا۔تو انہوں نے کہا کہ اس نے کوئی مال نہیں چھوڑا۔

انہوں نے کہا کہ تمہارا شوہر کہہ رہا تھا کہ تم حاملہ ہو ۔چاہے بیٹا پیدا ہو یا بیٹی،اس کا نام '' مات الدین''  رکھنا ۔پس میں نے اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام ''مات الدین ''رکھ دیا۔

دائودعلیہ السلام نے کہاکہ کیا تم ان لوگوں کو جانتی ہو؟

عورت نے کہا ! جی ہاں۔

دائود علیہ السلام نے کہا ،ان کے گھر جائو اور انہیں  یہاں لے آئو۔

وہ دائود علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے تو دائود علیہ السلام نے ایسا فیصلہ کیا کہ جس سے ان پر مرد کا خون ثابت ہوگیا اور ان سے مال لے لیا۔پھر عورت سے فرمایا!اے کنیزِ خدا ،اپنے فرزند کا نام ''عاش الدین''   رکھو  ۔(1) اس رویات سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ شریح کا منکرین کی قسم پر تکیہ کرنا اشتباہ تھا۔ان کی جھوٹی قسم ناحق قضاوت کا سبب بنی۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار: ج40ص 259

۶۱

حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام

عدلِ الہٰی کی حکومت کے زمانے میں قضاوت میں غیبی امداد بھی کارفرما ہوگی تاکہ کوئی جھوٹی قسم اور جھوٹے گواہوں کے ذریعے حقیقت کے چہرے کو مسخ کرکے کسی پر ظلم و ستم نہ کرے۔

اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)  کو قضاوت میں کسی گواہ  اور قسم  کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ حضرت ولی عصرعلیہ السلام    بھی حضرت دائودعلیہ السلام    کی طرح اپنے علم کے مطابق عمل کریں گے۔

ہم اس بارے میں روایت نقل کرنے سے پہلے،حضرت دائودعلیہ السلام اور حضرت سلیمان  علیہ السلام      کے بارے میں  خدا کے پیغمبروں میں سے بعض ممتاز صفات کے مالک تھے جیسے حضرت دائود  اور حضرت سلیمان  علیہ السلام۔اس حقیقت کو قرآن نے بھی بیان فرمایا ہے۔اس بارے میں قرآن کی سورۂ نمل میں سے ایک نکتہ بیان کرنا چاہیں گے۔

ارشاد خداوندی ہے:

'' وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْماً وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ '' (1)

اور ہم نے دائود اور سلیمان کو علم عطا کیا تو دونوں نے کہاکہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بہت سے بندوں پر فضیلت عطا کی ہے۔

--------------

[1] ۔ سورہ نمل، آیت:15

۶۲

سورہ انبیاء میں ان دو پیغمبروں کے بارے میں ارشاد ہے:

'' وَکُلّاً آتَیْنَا حُکْماً وَعِلْما '' (1) اور ہم نے سب کوقوّت فیصلہ اور علم عطا کیاتھا۔

سورۂ ''ص'' میں حضرت دائود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

'' یَا دَاوُودُ اِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ '' (2)

اے دائود ہم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنادیا ہے،لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔

حضرت دائود علیہ السلام  اور سلیمان علیہ السلام خدا کے فضل و عنایت سے ایسے واقعات سے آگاہ ہوتے تھے کہ جن کے بارے میں دوسروں کو علم نہیں ہوتا تھا۔لہٰذا ان کی حکومت و قضاوت میں کچھ خاص خصوصیات تھیں کہ جن کی وجہ سے انہیں قضاوت کرنے کے لئے گواہوں اور قسموں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

  بحث روائی

بعض معتقد ہیں کہ حضرت دائودعلیہ السلام کا  بینہ و شاہد کے بغیر قضاوت کرنا ،صرف چندموارد میں واقع ہوا ہے۔ان روایات پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود  علیہ السلام کا حقیقت کے مطابق گواہوں  کے بغیر قضاوت کرنا صرف ایک مورد میں منحصر نہیں ہے۔کیونکہ لوگوں میں اختلاف کا باعث بننے والی ایک چیز نہیں تھی کہ جس میں انہوں نے حضرت دائود علیہ السلام کی طرف رجوع کیا۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے ان روایات پرغور فرمائیں۔

--------------

[1]۔ سورہ انبیاء،آیت:79

[2]۔ سورہ ص، آیت: 26

۶۳

امام صادق  علیہ السلام سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

حضرت دائو د  علیہ السلام   نے خدا سے عرض کیا ۔خدایا!میرے نزدیک حق کو اس طرح سے نمایاں و آشکار کردے ،جیسے وہ تمہارے سامنے آشکار ہے تاکہ میں اس کے مطابق قضاوت کروں۔

خدا وندِ کریم نے ان پر وحی کی اور فرمایا کہ تم میں اس کام کی طاقت نہیں حضرت دائود علیہ السلام    نے پھر اس بارے میں اصرار کیا۔ایک مرد ان کے پاس مدد مانگنے آیا کہ جو دوسرے شخص کی شکایت کررہا تھا کہ اس شخص نے میرا مال لے لیا ہے۔

خدا وند نے حضرت دائود  علیہ السلام پر وحی کی کہ جو شخص مدد مانگنے آیا ہے ،اس نے دوسرے شخص کے باپ کو قتل کرکے اس کا مال لے لیا ہے۔

حضرت دائود  علیہ السلام نے مدد مانگنے ولاے شخص کو قتل کرنے اور اس کا مال دوسرے شخص کو دینے کا حکم دیا لوگ آپس میں اس حیرت انگیز واقعہ پر چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ حضرت دائود علیہ السلام کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے خدا سے چاہا کہ وہ ان سے امور کے حقائق کا علم  واپس لے لے۔خداوند کریم نے ایسا ہی کیا اور پھر وحی کی!

لوگوں میں بیّنہ اور گواہوں کے ذریعہ حکم کرو اور اس کے علاوہ انہیں میرے نام کی قسم کھانے کو کہو۔(1)

اس روایت کو علامہ مجلسی  محمد بن یحیٰی سے، اس نے احمدبن محمد سے،اس نے حسین بن سعید سے، اس نے فضالہ ابن ایوب سے ،اس نے ابان بن عثمان سے،اور ابان نے اس سے روایت کی ہے کہ جس نے اسے خبر دی ہے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ابان بن عثمان نے روایت کی سند کو نا مکمل نقل کیا ہے۔علاوہ از این وہ خود بھی بعض بزرگان جیسے علامہ حلی کے نزدیک موردِ قبول نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار :ج4ص 10،وسائل الشیعہ: ج18 ص 167

۶۴

اس روایت میں موردِ اختلاف مال و ثروت بیان ہو اہے۔دوسری روایت میں جس شخص کے بارے میں شکایت کی جاتی ہے،وہ شکایت کرنے والے کے ادّعا کو قبول کرتا ہے۔شکایت کرنے والا معتقد ہوتا ہے کہ ایک جو ان،اس کی اجازت کے بغیر باغ میں داخل ہوا اور اس نے انگور کے درختوں کو خراب کیا۔جوان نے بھی یہ شکایت قبول کی ۔حضرت دائود  علیہ السلام    نے حکمِ واقع کی بناء پر جوان کے حق میں حکم کیا اور باغ جوان کی تحویل دے دیا۔

ایک دیگر روایت ہے کہ جس میں تصریح ہوئی ہے کہ حضرت دائودعلیہ السلام نے ایک بار بیّنہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقیقت کی بناء پر قضاوت کی۔ اختلاف ایک گائے کی مالکیت کے بارے میں تھا کہ طرفین میں سے ہر ایک نے اپنے لئے گواہ پیش کئے تھے۔

 قضاوتِ اہلبیت علیہم السلام اور حضرت دائود علیہ السلام

ہم نے کچھ روایات بیان کیں،جن میں حضرت دائود علیہ السلام  کی حکومت کا تذکرہ کیا گیا۔جو اس  بات کی دلیل ہے کہ حضرت دائودعلیہ السلام کی قضاوت میں بعض ایسی خصوصیات تھیں کہ جن میں سے ایک گواہوں سے بے نیازی تھی۔

یہ روایات کس طرح آئمہ اطہارعلیھم السلام   کی قضاوت کو بھی بیان کرتی ہیں۔

اس روایت توجہ کریں:

'' عن الساباطی قال، قلت لابی عبداللّٰه :بما تحکمون اذا حکمتم ؟ فقال: بحکم اللّٰه و حکم داؤد ،فاذا ورد علینا شء لیس عندنا تلقّانا به روح القدس؟ '' (1)

ساباطی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق  علیہ السلام سےعرض کی!  قضاوت کرتے وقت آپ کس چیز سے حکم کرتے ہیں؟

--------------

[1]- بحارالانوار:  ج52 ص 56

۶۵

حضرت امام صادق علیہ السلام  نے فرمایا!حکم خدا اور حکم دائود سے۔  جب بھی ہم تک کوئی ایسی چیز پہنچے کہ جس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی چیز نہ ہو تو روح القدس اسے ہم پر القاء کرتے ہیں۔

اس روایت پر بھی غور فرمائیں:

'' عن جعید الهمدانی (و کان جعید ممن خرج الحسین  بکربلا قال:فقلت للحسین جعلت فداک: بای شء تحکمون؟ قال :یا جعید نحکم بحکم آل داؤد،فاذا عیینا عن شء تلقّانا به روح القدس؟ ''(1)

جعید ہمدانی (جو امام حسین  علیہ السلام  کے ساتھ کربلا گیا تھا) کہتا ہے کہ میں نے امام حسین  علیہ السلام سے عرض کیا! میں آپ قربان جائوں ،آپ کس چیز سے حکم کرتے ہیں؟حضرت امام حسین  علیہ السلام نے فرمایا!اے جعید ہم آل دائود کے حکم سے حکم کرتے ہیں،اور جب بھی کسی چیز سے رہ جائیں تو روح القدس اسے ہم پر القاء کردیتے ہیں۔

اس روایت کو مرحوم مجلسی نے جعید اور انہوں نے امام سجادعلیہ السلام سے نقل کیا ہے۔(2)

اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا لازم ہے کہ ایسے جوابات اہل مجلس کی ذہنی ظرفیت کے مطابق ہوتے ہیںورنہ روح القدس مکتب اہلبیت کا طفل مکتب ہے۔ جیسا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرمان ہے:

روح القدس نے ہاتھ نہ لگے ہو ئے ہمارے باغ سے علم سیکھا۔ (3)

--------------

[1] ۔۔ بحارالانوار:  ج52 ص 5۷

[2]۔بحارالانوار : ج25 ص 56

[3]۔بحار الانوار:ج26ص265

۶۶

امام صادق علیہ السلام  سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے:

''عن حمران بن اعین قال:قلت لابی عبداللّه علیه السلام انبیاء  انتم؟قال:لا،قلت فقد حدّثنی من لا اتهم انک قلت :انکم انبیائ؟قال من هو ابو الخطاب؟قال :قلت:نعم قال:کنت اذا اهجر؟قال قلت بما تحکمون؟ قال نحکم بحکم آل داؤد؟ '' (1)

حمران ابن اعین کہتا ہے کہ :میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا:کیا آپ انبیاء ہیں؟ انہوں نے فرمایا !نہیں۔

میں نے کہا!جس کی طرف کوئی جھوٹ کی نسبت نہیں دیتا ،اس نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ سب  انبیاء ہیں۔

امام  نے فرمایا!کون ہے،کیا وہ ابوالخطاب ہے؟

میں نے کہا ! جی ہاں۔

آنحضرت  نے فرمایا!اس بناء پر کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟

میں نے کہا !آپ کس چیز سے حکم کرتے ہیں؟

امام نے فرمایا!ہم حکمِ آل دائود سے فیصلہ کرتے ہیں۔

ایک روایت میں امام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں:

''انه اتهم زوجته بغیره فنقر رأسها و اراد ان یلا عنها عندی،فقال لها:بینی وبینک من یحکم بحکم داؤد و آل داؤد و یعرف منطق الطیر و لا یحتاج الی الشهودفاخبرته ان الذی ظنّ بها لم یکن کما ظنّ،فانصرفا علی صلح'' (2)

--------------

[1]۔بحارالانوار:ج25 ص320

[2]۔بحارالانوار :ج 46ص 256

۶۷

اس نے اپنی زوجہ پر الزام لگایا  تھا کہ وہ کسی اور کے ساتھ بھی ملوث ہے۔پس وہ اس پرٹوٹ پڑا،وہ اسے میرے سامنے لعان کرنا چاہتا تھا۔اس کی زوجہ نے کہا!میرے اور تمہارے درمیان وہ فیصلہ کرے کہ جو حکم دائود اور آل دائود سے فیصلہ کرتا ہو جو پرندوں کی باتوں کو سمجھتا ہو اور جو کسی شاہد و گواہ کا محتاج نہ ہو۔پس میں نے اس سے کہا!تم اپنی زوجہ کے بارے میں جیسا سوچتے ہو ویسا نہیں ہے۔لہٰذا وہ دونوں صلح کے ساتھ واپس چلے گئے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاوت کیلئے آئمہ اطہار  علیہم السلام بھی حضرت دائودعلیہ السلام  کی طرح دلیل و گواہ  کے محتاج نہیں تھے۔اس بناء پر ان تمام روایات سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ حضرت دائود  اپنے علم کی بنیاد پر عمل کرتے اور بینہ کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے۔کبھی آئمہ اطہار علیہم السلام  بھی ایسی ہی قضاوت کرتے تھے۔

حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) بھی اپنے علم کی بنیاد پر قضاوت فرمائیں گے اور انہیں بھی گواہوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔

امام مہدی علیہ السلام کے فیصلے

اب ہم امام عصرعلیہ السلام کی قضاوت پر دلالت کرنے والی روایت کو نقل کریں گے کہ قضاوت کے لئے امام عصرعلیہ السلام کودلیل  و گواہوںکی ضرورت نہیں ہوگی۔جس طرح حضرت دائودعلیہ السلام بھی گواہوں  کے محتاج نہیں ہوتے تھے۔اب اس روایت پر توجہ کریں۔

حسن بن ظریف نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو خط لکھا، جس میں اس نے امام عصرعلیہ السلام  کی  کیفیت قضاوت کے بارے میں سوال کیا اور کہتا ہے :

۶۸

'' اختلج فی صدری مسألتان و اردتُ الکتاب بهما الی ابی محمد،کتبت اسأله عن القائم بمَ یقضی؟فجاء الجواب:سألت عن القائم ،اذا قام یقضی بین الناس بعلمه کقضاء داؤد،ولا یسأل البیّنة '' (1)

میرے سینے میں دو مسئلے پیدا ہوئے تو میں نے ارادہ کیا کہ دونوں مسئلے امام حسن عسکری   علیہ السلام کو لکھوں ، پس میں نے انہیں خط لکھا جس میں ان سے سوال کیا۔

قائم آل محمد  علیہ السلام کس چیز سے قضاوت کریں گے؟

امام  کی طرف سے جواب آیا ! تم نے قائم علیہ السلام   سے سوال کیا ۔جب وہ قیام کریں گے تو وہ لوگوں کے درمیان اپنے علم سے قضاوت کریں گے ۔ جس طرح دائود علیہ السلام   کی قضاوت کہ جو گواہ طلب نہیں کرتے تھے۔

امام صادق علیہ السلام نے ایک روایت میں ابو عبیدہ سے فرمایا:'' یاابا عبیده ؛ انه اذا قام قائم آل محمد ، حکم بحکم داؤد و سلیمان لایسأل الناس بیّنة '' (2) وسائل الشیعہ میں یہ روایت امام محمد باقرعلیہ السلام  سےنقل ہوئی ہےاے ابا عبیدہ ؛جب بھی قائم آل محمد قیام کریں گے تو وہ حکم دائود و سلیمان سے حکم کریں گے اور لوگوں سے گواہ طلب نہیں کریں گے۔ابان کہتا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام   سے سنا کہ انہوں نے فرمایا:'' لا یذهب الدنیا حتی یخرج رجل منّی یحکم بحکومة آل داؤد لا یسأل عن بیّنة،یعطی کل نفس حکمها '' (3)

--------------

[1]۔ بحارالانوار :ج 5ص264،ج52ص320،ج95ص31،مستدرک الوسائل :ج17 ص364 

[2] ۔ بحارالانوار :ج23 ص 86،ج26 ص177،ج52ص320،مستدرک الوسائل :ج17 ص 364

[3]۔ بحارالانوار : ج52 ص 320،وسائل الشیعہ :ج18 ص 168،مستدرک الوسائل :ج17 ص 364  

۶۹

دنیا تب تک تمام نہیں ہوگی،جب تک ہم میں سے ایک مرد حکومت آل دائود کی مانند حکومت  نہ کر ے، وہ گواہ کا سوال نہیں کرے گا بلکہ ہر شخص پر واقعی حکم جاری ہوگا۔

یہ روایت ابان ابن تغلب سے یو ں بھی نقل ہوئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''سیأتی فی مسجد کم ثلاث مأة و ثلاثة عشر رجلایعنی مسجد مکة.یعلم اهل مکة انه لم یلد(هم) آبائهم و لا اجدادهم،علیهم السیوف،مکتوب علی کل سیف کلمة تفتح الف کلمة،فیبعث اللّه تبارک و تعالی ریحاً فتنادی بکل وادِِ: هذا المهدی یقضی بقضائِ داؤد و سلیمان، لا یرید علیه بینة '' (1)

آپ کی مسجد (مسجد مکہ) میں تین سو تیرہ افراد آئیں گے کہ مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ اہل مکہ کے آباء و اجداد کی نسل سے نہیں ہیں۔ان پر کچھ تلواریں ہوں گی کہ ہر تلوار پر کلمہ لکھا ہوگا،جس سے ہزار کلمہ نکلیں گے۔خدا وند تبارک و تعالی کے حکم سے ایسی ہوا چلے گی کہ جو ہر وادی میں نداء دے گی! یہ مہدی  علیہ السلام ہیں ، جو دائودعلیہ السلام   اور سلیمان  علیہ السلام کی قضاوت سے قضاوت کریں گے اور بیّنہ و گواہوں کوطلب نہیں کریں گے۔

اسی طرح حریز کہتا ہے کہ میں نے امام صادق  علیہ السلام   سے سنا کہ انہوں نے فرمایا:

'' لن تذهب الدنیا حتی یخرج رجل منا اهل البیت یحکم بحکم داؤد و آل داؤد ؛لا یسأل الناس بیّنة ''  (2)

دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی کہ جب تک ہم اہلبیت  علیہم السلام میں سے ایک مرد خروج نہ کرے گا ،وہ حکم دائود و آل دائود سے حکم کرے گا اور وہ لوگوں سے گواہ طلب نہیں کرے گا۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار: ج52 ص286  اور 369

[2]۔ بحارالانوار:  ج52 ص 319

۷۰

عبداللہ ابن عجلان نے روایت کی ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) جو نہ صرف مقامِ حکومت   میں گواہوں کی ضرورت نہیں ہوگی ،بلکہ وہ دیگر پنہاں و مخفی امور سے آگاہ ہوں گے وہ ہر قوم کو ان کے دل میں پوشیدہ بات کی خبر دیں گے۔

امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں:

'' اذا قام قائم آل محمد حکم بین الناس بحکم دائود لا یحتاج الی بیّنة یلهمه اللّٰه تعالی فیحکم بعلمه،و یخبر کلّ قوم بما استبطنوه،و یعرف ولیّه من عدوّه باالتّوسم قال اللّه سبحانه'' اِنّ فِیْ ذَلِکَ لآیَةً لِّلْمتَُوَسِّمِیْن،وَِنَّهَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقیْم''  (1]،[2)

جب قائم آل محمدعلیہ السلام قیام کریں گے تو وہ حکم دائود سے لوگوں کے درمیان  حکومت کریں گے  انہیںگواہوں کی ضرورت نہ  ہوگی۔خداوند کریم ان پر الہام کرے گا اور وہ اپنے علم سے فیصلہ کریں گے ۔ہر قوم نے اپنے دل میں جو کچھ چھپایا ہو وہ اسے اس کی خبر دیں گے۔وہ دوست اور دشمن کو دیکھ کر ہی پہچان جائیں گے۔

خدا وند عالم فرماتا ہے:

ان باتوں میں صاحبانِ بصیرت کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں اور یہ بستی ایک مستقل چلنے والے راستہ پر ہے۔

ہم جو دوسری روایت نقل کرنے لگے ہیں کہ جس میں صراحت سے بیان ہوا ہے کہ حضرت مہدی  علیہ السلام  قضاوت دائود سے حکومت کریںگے۔لیکن اس میں گواہوں کی ضرورت ہونے یا نہ ہونے  کا  ذکر نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ سورہ حجر: آیت:75، 76

[2]۔ بحارالانوار :ج52 ص 339

۷۱

پیغمبر اکرم  (ص) فرماتے ہ یں:'' و یخرج اللّه من صلب الحسن قائمنا اهل البیت علیهم السلام یملا ها قسطاًوعدلاً کما ملئت جوراً و ظلماًله هیبة موسی و حکم داؤد و بهاء عیسی،ثمّ تلا: '' ذُرِّیَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِیْع عَلِیْم '' (1)،(2)

خداوند عالم حسن علیہ السلام    کے صلب سے ہم اہلبیت علیھم السلام کے قائم کو خارج کرے گا ،جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا،جس طرح وہ ظلم وجور سے پر ہوچکی ہوگی۔وہ ہیبت موسیٰ،حکم دائود اور بہاء عیسیٰ کا مالک ہوگا۔پھر رسول اکرم  (ص)نے اس آ یت کی تلاوت فرمائی:یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور اللہ سب کو سننے اور جاننے والا ہے۔

ہم ایک اور روایت نقل کرتے ہیں۔لیکن اس میں حضرت دائود علیہ السلام   کی کیفیت ِ قضاوت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔لیکن اس میں تصریح ہوئی ہے کہ امام عصر  علیہ السلام  اپنی قضاوت کے دوران گواہ کے بارے میں سوال نہیں کریں گے۔

امام صادق علیہ السلام  فرماتے ہیں:''دمان فی الاسلام حلال من اللّه عزوجل لا یقضی فیهما احد بحکم اللّه حتی یبعث اللّه عزوجل القائم من اهل البیت علیهم السلام،فیحکم فیهما ، بحکم اللّه عزوجل لا یرید علی ذالک بیّنة  الزانی المحصن یرجمه و مانع الزکاة یضرب رقبته '' (3) اسلام میں خدا کی طرف سے دو خون مباح ہیں۔ان میں کوئی ایک بھی حکم الہٰی سے فیصلہ نہیں کرتا،یہاں تک کہ خدا وند عالم ہم اہلبیت علیہم السلام میں قائم کو بھیجے گا ۔وہ ان دو خون میں حکم الہٰی سے فیصلہ کرے گا اور وہ اس کام کے لئے گواہ طلب نہیں کرے گا۔

--------------

[1]۔ سورہ آل عمران،آیت: 34

[2]۔ بحارالانوار :ج36 ص 313

[3]۔ کمال الدین: 671

۷۲

1 ۔ وہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرے گا

2 ۔ جو زکات نہ دے وہ اس ک ی گردن مار دے گا۔

ہم نے جو روایت ذکر کی،وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حضرت  مہدی علیہ السلام قضاوت کے دوران دلیل اور گواہ کے محتاج نہیں ہوںگے اور وہ اپنے علم کے مطابق عمل کریں گے۔جیساکہ حضرت  قضاوت میں گواہ طلب نہیں کرتے تھے۔

مرحوم علامہ مجلسی بھی اسی عقیدہ کو قبول کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

روایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب حضرت قائم  علیہ السلام    ظہور فرمائیں گے تو وہ واقعیت کے مطابق اپنے علم کے ذریعے فیصلہ کریں گے نہ کہ گواہوں کے ذریعہ۔لیکن دوسرے آئمہ اطہار   علیہم السلام ظاہر سے فیصلہ کرتے تھے اور کبھی وہ اس کے باطن کو کسی وسیلہ کے ذریعے بیان کرتے۔جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام     نے بہت سے موارد میں یہ کام انجام دیا ہے۔

شیخ مفید  کتاب ''المسائل''میںفرماتے ہیں کہ امام  اپنے علم سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔جس طرح وہ گواہوں کے ذریعے فیصلہ کرتے ہیں۔لیکن جب انہیں معلوم ہو کہ گواہی واقعیت و حقیقت کے خلاف ہے تو وہ گواہ کی گواہی کے باطل ہونے کا حکم کرتے ہیں اور خدا وند ِ متعال کے دیئے ہوئے علم کے ذریعے فیصلہ کرتے ہیں۔(1)

--------------

[1]۔ بحارالانوار :ج 26ص177

۷۳

  زمانِ ظہور میں امام عصر علیہ السلام کے قاضیوں کے فیصلے

دنیا میں عدالت کا رواج اور ظلم وستم کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب ظہور کے پر نور زمانے میں قاضیوں کی قضاوت بھی حقیقت اور واقعیت کی بناء پر ہو نہ کہ ظاہر کی بناء پر ۔یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب حقیقت و واقعیت کو درک کرنے کے لئے قاضیوں کے پاس دلیل و گواہ  کے علاوہ اور راستہ بھی ہو۔

روایات سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)   کی حکومت میں نہ صرف امام زمانہ علیہ السلام کو گواہوں اور دلائل کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ان کی طرف سے بنائے گئے اور معین قاضیوں کو بھی غیبی امداد حاصل ہوگی۔وہ بھی دلیل و گواہ سے بڑھ کر دوسرے امور سے سرشار ہوںگے۔جو کبھی بھی جھوٹی قسم اور جھوٹے گواہوں  کی چال بازیوں اور مکاریوںمیں گرفتار نہیں ہوں گے۔کیونکہ وہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کے قیام  اور ظلم و جور کا قلع قمع کرنے پر مأمور ہوں گے۔

روایات میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے کہ ظہور کے درخشاں زمانے میں قاضیوںکی کیفیت قضاوت کیا ہوگی؟اس بارے میں امام صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں:'' اذا قام القائم بعث فی اقالیم الارض فی کل اقلیم رجلاً،یقول:  عهدک فی کفک، فاذا ورد علیک امر لا تفهمه ولا تعرف القضاء فیه فانظر الی کفّک واعمل بما فیهما '''' قال!و یبعث جندا الی القسطنطینیّة، فاذا بلغوا الخلیج کتبوا علی اقدامهم شیئاً ومشوا علی الماء فاذا نظر الیهم الرّوم یمشون علی الماء قال: هؤلاء اصحابه یمشون علی الماء فکیف هو؟فعند ذلک یفتحون لهم ابواب المدینة فیدخلونها، فیحکمون فیها مایشاؤون''  (1)

جس زمانے میں قائم قیام کریں گے تو زمین کے ہر خطے میں ایک مرد بھیجیں گے اور اس سے فرمائیں گے کہ تمہارا عہد و پیمان  (یعنی جو تمہارا وظیفہ ہے اسے انجام دو)تمہارے ہاتھ کی ہتھیلیوں میں ہے۔

--------------

[1]۔ الغیبة مرحوم نعمانی : 319

۷۴

پس جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے کہ جسے تم نہ سمجھ سکو کہ اس کے بارے میں کس طرح قضاوت و فیصلہ کرو تو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھو اور جو کچھ اس میں موجود ہو،اس کی بناء پر فیصلہ کرو۔

امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں:

وہ اپنی فوج کے ایک لشکر کو قسطنطینیہ کی طرف بھیجیں گے ۔جب وہ خلیج میں پہنچے گے تو ان کے پائوں پر کچھ لکھا جائے گا ۔جس کی وجہ سے وہ پانی پر چلتے ہوئے دیکھیں گے تو کہیں گے۔یہ پانی پر چلنے والے اس کے یاور و انصار ہیں تو پھر وہ کس طرح ہوگا؟

پھر ان کے لئے شہر کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور شہر میں داخل ہوجائیں گے اور وہاں وہ جس چیز کا چاہیں ،حکم کریں گے۔

اگر چہ بعض مؤلفین اس روایت میں ایک دوسرے معنی کا بھی احتمال دیتے ہیں کہ جو ظاہر روایت کے خلاف ہے۔کیونکہ ظاہر ِ روایت یہ ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) جس شخص کو دنیا کے کسی خطے میں قضاوت کے لئے بھیجیں گے ،اسے غیبی امداد بھی حاصل ہوگی۔اس کے علاوہ امام زمانہ  علیہ السلام کی فوج میں شامل ہر سپاہی میں  بھی ایسی خصوصیات ہوں گی۔ جیسا کہ روایت کے آخر میں اس کی وضاحت ہوئی ہے کہ وہ کسی ظاہری وسیلہ کے بغیر پائوں پر کچھ لکھنے سے پانی پر چلیں گے۔

اس بیان کے رو سے ہم کیوں غیبی امداد کی موبائل جیسی چیز سے توجیہ کریں۔

قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ روایت میں  بیان ہوا  ہے کہ ظہور کے درخشاں زمانے میں قاضیوں کو غیبی امداد حاصل ہوگی ۔اسی طرح وہ اپنے علم و فہم کے ذریعہ  دوسروں کے فہم و بصیرت سے بھی فائدہ حا صل کریں گے۔

 امام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں:

۷۵

'' ثم یرجع الی الکوفة فیبعث الثلاث مأئة والبضعة عشر رجلاً الی الآفاق کلها فیمسح بین اکتافهم و علی صدورهم ،فلا یتعایون فی قضاء....'' (2) پھر کوفہ لوٹ جائیں گے اور تین سو تیرہ افراد کو آفاق کی طرف بھیج دیں گے۔وہ ان کے کندھوں  اور سینوں پر ہاتھ پھیریں گے کہ جس کی وجہ سے وہ فیصلہ کرنے میں غلطیاں نہیں کریں  گے۔اس روایت سے کچھ نکات حاصل ہوتے   ہیں:

1 ۔امام عصر علیہ السلام کے تین سو تیرہ افراد دنیا کے حاکم ہوں گے اور دنیا کے تمام خطے حضرت امام مہدی  علیہ السلام   کے یا ور و انصار کے ہاتھ میں ہوں گے۔

2۔ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) (جو ید اللہ ہیں)ان کے سینوں اور کندھوں پر ہاتھ پھیریں گے ۔ جس  کی وجہ سے انہیں غیبی امداد حاصل ہوگی اور وہ کبھی بھی قضاوت اور حق کا حکم صادر کرنے میں عاجز وکمزور نہیں ہوں گے۔

3۔دنیا کے مختلف خطوں میں بھیجے جانے والے تین سو تیرہ افراد مرد ہوں گے۔جیسا کہ اس روایت میں بھی اس کی وضاحت ہوئی ہے ۔(3)

--------------

[2]۔ بحارالانوار:ج52 ص345

[3]۔ بعض کا نظریہ یہ ہے کہ اما م  کے اصحاب و انصار میں مرد اور خواتین کی مجموعی تعداد تین سو تیرہ ہوگی۔لیکن یہ نطریہ صحیح نہیں ہے۔کیونکہ اصحاب ِ و یاورانِ امام مہدیمیں چند عورتیں بھی ہوں گی لیکن وہ ان تین سو تیرہ افراد میں سے نہیں ہوںگی کہ جو دنیا میں عدلِ الہٰی کی حکومت کو قائم کرنے کے لئے دنیا کے مختلف حصوں میں بھیجے جائیں گے۔ اس نظریہ کی وجہ یہ ہے کہ تین سو تیرہ افراد کے بارے میں وارد ہونے والی اکثر روایات لفظ''رجلاً'' سے تعبیر نہیں ہوئیں۔لیکن دوسری روایات پر توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سو تیرہ افراد سب مرد ہوں گے۔اگرچہ معنوی شان و مرتبت کے لحاظ سے کچھ خواتین بھی ان تین سو تیرہ افرادکی طرح ہوں گی۔

۷۶

بحث کے اہم نکات

اب چند نکات پرتوجہ کریں ۔

1 ۔ متعدد  روایات میں تصریح ہوئی ہے کہ امام عصر  کو قضاوت کرنے کے لئے گواہوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔

2 ۔ بعض دوسر ی روایات کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو گواہوں کی ضرورت ہو گی۔

لیکن ان روایات میں دوسری روایات سے تعارض کی توانائی نہیں ہے۔

3 ۔ اگر فرض کر یں کہ یہ روایات دوسری روایات کے متعارض ہیں تو پھر روایات کے مابین   طریقہ جمع سے استفادہ کرنا ہوگا جس میں  مخالف روایات کو حکومت ِ امام زمانہ  کے ابتدائی دور پر  حمل کرسکتے کہ جب حکومت پوری طرح مستقر نہ ہوئی ہو۔کیونکہ حکومت کے استقرار کے بعد روئے زمین پر امام عصرعلیہ السلام کے یاور و انصار میں تین سو تیرہ افراد کو غیبی امداد حاصل ہوگی۔جس کی وجہ سے وہ جھوٹے گواہوں کی گواہی سے غلطی میں مبتلانہیں ہوں  گے اور دوسری قسم کی روایات کو امام کی مستقر حکومت سے منسلک کر سکتے ہیں۔

4۔ جن کا یہ کہنا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام  نے فقط ایک بارحقیقت کی بناء پر قضاوت کی،ہم ان سے کہیں گے کہ :کیا یہ معقول ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام  نے فقط ایک بار واقع کی بناء پر قضاوت کی ہو اور ان کی قضاوت اتنی مشہور ہوجائے؟

5۔اگر فرض کریں کہ حضرت دائود علیہ السلام  نے ایک ہی بار علمِ واقعی کے مطابق عمل کیا اور ان کی قضاوت اس قدر شہرت کی حاملبنگئی،تو اما م مہدی  علیہ السلام  کی قضاوت کو حضرت دائودعلیہ السلام  کی قضاوت سے تشبیہ دینا ،فقط اسی قضاوت کی وجہ سے ہے کہ جو مشہور ہوگئی۔

۷۷

6 ۔ اگر ہم یہ قبول بھی کرلیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام  نے ایک بار اپنے علم واقعی کے مطابق قضاوت کی تو پھر ان روایات کا کیا جواب دیں گے کہ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام  اور آل دائودگواہ کا سوال کئے بغیر قضاوت کرتے تھے۔

7۔ جیسا کہ ہم نے رسول اکرم(ص)کے فرمان سے نقل کیا کہ گواہوں  کی بنیاد پر قضاوت کا خلافِ واقع ہونا ممکن ہے کہ جو ایک قسم کا ظلم ہے۔اگر ایسا ہو تو پھر یہ کس طرح حضرت مہدی  علیہ السلام   کی حکومت سے سازگار ہوسکتا ہے؟

8۔ ان سب کے علاوہ بھی اس روایت کے مطابق کہ جس میں حضرت دائودعلیہ السلام   نے خدا سے گواہی کی بنیاد پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پیروکار حکم واقعی کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔لیکن ظہور امام زمانہ علیہ السلام کے وقت لوگوں کی عقلی اعتبار سے تکامل کی منزل پر فائز ہوں گی۔لہٰذا اس وقت واقع کے مطابق قضاوت سے دستبردارہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

۷۸

 تیسراباب

اقتصادی ترقی

    ظہور کے زمانے میں اقتصادی ترقی

    کنٹرول کی قدرت

    دنیا میں ،800 مل ین سے زائد بھوکے

    نعمتوں سے سرشار دنیا

    زمانۂ ظہور میں برکت

    دنیا کے روشن مستقبل کے بارے میں رسول اکرم(ص)ک ی بشارت

    دنیا میں خوشیاں ہی خوشیاں

    شرمساری

۷۹

 ظہور کے زمانے میں اقتصادی ترقی

ظہور کے زمانے میں اقتصادی ترقی و پیشرفت کو بیان کرنے سے پہلے غربت اور تنگدستی کے بارے میں ایک اہم نکتہ بیان کرتے ہیں کہ جو اقتصادی نظام کی ناکامی کی دلیل ہے۔ غیبت  کے زمانے میں پوری دنیا میں بہت سے جرائم مالی پریشانی، غربت اور اقتصادی فقر کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں اور آئندہ بھی رونما ہوتے رہیں گے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو قتل و غارت ،خونریزی،چوری اور راہزنی کے بہت سے واقعات کی بنیاد ہے۔

جو اپنے عقیدے کے مطابق قتل،خونریزی،چوری اور دوسرے جرائم کے خلاف مبارزہ آرائی کررہے ہیں اور معاشرے کوان جرائم سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔انہیں ان جرائم کے علل و اسباب (جس میں سے ایک مہم علت غربت اور فقر ہے) کو ختم کرنا چاہیئے تاکہ معاشرے میں کسی حد تک جرائم کو ختم کیا جاسکے۔

جرائم کے وقوع کادوسرا اہم سبب زیادہ مال کی ہوس اور لالچ ہے۔پہلے سبب کی بنسبت یہ دوسرا سبب زیادہ اہم ہے۔کیونکہ اگر کوئی فقیر اور غریب غربت کی وجہ سے کسی گھر میں چوری کرتا ہے یا کسی کو قتل کرتا ہے تو قدرت مند اور حریص مال و دولت میں اضافے کی غرض سے معاشرے کو غارت کرتا ہے اور قوم و ملت کا خون بہاتا ہے۔

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جس طرح امیر، ثروتمند اور صاحبِ قدرت شخص کے پاس فقیر وضعیف انسان کی بنسبت خدمت کے زیادہ وسائل ہوتے ہیں ۔اسی طرح اس کے پاس خیانت کے وسائل بھی فقیر و محتاج سے زیادہ ہوتے ہیں۔

اس بنا پر غریبوں اور ضرورتمندوں کی غربت اور اس سے بڑھ کر دولت مندوں اور قدرت مندوں کے مال و دولت میں اضافے کی خواہش غیبت  کے زمانے میں جرائم کے رونما ہونے کی دو اہم وجوہات ہیں۔

۸۰