امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت26%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180586 / ڈاؤنلوڈ: 4525
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

عورت نے کہا کہ اس کا نام ''مات الدین'' ہے۔

دائود علیہ السلام نے عورت سے کہا کہ اس کا یہ نام کس نے رکھا ہے؟

عورت نے جواب دیا کہ اس کے باپ نے۔

دائود علیہ السلام نے کہا کہ اس کا یہ نام کیوں رکھا گیا؟

عورت نے کہا! وہ سفر کے لئے گھر سے نکلا اور اس کے ہمراہ کچھ لوگ تھے اور میں حاملہ تھی۔میرے شکم میں یہ بیٹا تھا۔وہ سب لوگ تو سفر سے واپس آگئے لیکن میرا شوہر واپس نہیں آیا۔میں نے ان سے اپنے شوہر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ مرگیا ہے۔جب میں نے اس کے مال کے بارے میں پوچھا۔تو انہوں نے کہا کہ اس نے کوئی مال نہیں چھوڑا۔

انہوں نے کہا کہ تمہارا شوہر کہہ رہا تھا کہ تم حاملہ ہو ۔چاہے بیٹا پیدا ہو یا بیٹی،اس کا نام '' مات الدین''  رکھنا ۔پس میں نے اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام ''مات الدین ''رکھ دیا۔

دائودعلیہ السلام نے کہاکہ کیا تم ان لوگوں کو جانتی ہو؟

عورت نے کہا ! جی ہاں۔

دائود علیہ السلام نے کہا ،ان کے گھر جائو اور انہیں  یہاں لے آئو۔

وہ دائود علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے تو دائود علیہ السلام نے ایسا فیصلہ کیا کہ جس سے ان پر مرد کا خون ثابت ہوگیا اور ان سے مال لے لیا۔پھر عورت سے فرمایا!اے کنیزِ خدا ،اپنے فرزند کا نام ''عاش الدین''   رکھو  ۔(۱) اس رویات سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ شریح کا منکرین کی قسم پر تکیہ کرنا اشتباہ تھا۔ان کی جھوٹی قسم ناحق قضاوت کا سبب بنی۔

--------------

[۱] ۔ بحارالانوار: ج۴۰ص ۲۵۹

۶۱

حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام

عدلِ الہٰی کی حکومت کے زمانے میں قضاوت میں غیبی امداد بھی کارفرما ہوگی تاکہ کوئی جھوٹی قسم اور جھوٹے گواہوں کے ذریعے حقیقت کے چہرے کو مسخ کرکے کسی پر ظلم و ستم نہ کرے۔

اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)  کو قضاوت میں کسی گواہ  اور قسم  کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ حضرت ولی عصرعلیہ السلام    بھی حضرت دائودعلیہ السلام    کی طرح اپنے علم کے مطابق عمل کریں گے۔

ہم اس بارے میں روایت نقل کرنے سے پہلے،حضرت دائودعلیہ السلام اور حضرت سلیمان  علیہ السلام      کے بارے میں  خدا کے پیغمبروں میں سے بعض ممتاز صفات کے مالک تھے جیسے حضرت دائود  اور حضرت سلیمان  علیہ السلام۔اس حقیقت کو قرآن نے بھی بیان فرمایا ہے۔اس بارے میں قرآن کی سورۂ نمل میں سے ایک نکتہ بیان کرنا چاہیں گے۔

ارشاد خداوندی ہے:

'' وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْماً وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ '' (۱)

اور ہم نے دائود اور سلیمان کو علم عطا کیا تو دونوں نے کہاکہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بہت سے بندوں پر فضیلت عطا کی ہے۔

--------------

[۱] ۔ سورہ نمل، آیت:۱۵

۶۲

سورہ انبیاء میں ان دو پیغمبروں کے بارے میں ارشاد ہے:

'' وَکُلّاً آتَیْنَا حُکْماً وَعِلْما '' (۱) اور ہم نے سب کوقوّت فیصلہ اور علم عطا کیاتھا۔

سورۂ ''ص'' میں حضرت دائود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

'' یَا دَاوُودُ اِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ '' (۲)

اے دائود ہم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنادیا ہے،لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔

حضرت دائود علیہ السلام  اور سلیمان علیہ السلام خدا کے فضل و عنایت سے ایسے واقعات سے آگاہ ہوتے تھے کہ جن کے بارے میں دوسروں کو علم نہیں ہوتا تھا۔لہٰذا ان کی حکومت و قضاوت میں کچھ خاص خصوصیات تھیں کہ جن کی وجہ سے انہیں قضاوت کرنے کے لئے گواہوں اور قسموں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

  بحث روائی

بعض معتقد ہیں کہ حضرت دائودعلیہ السلام کا  بینہ و شاہد کے بغیر قضاوت کرنا ،صرف چندموارد میں واقع ہوا ہے۔ان روایات پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود  علیہ السلام کا حقیقت کے مطابق گواہوں  کے بغیر قضاوت کرنا صرف ایک مورد میں منحصر نہیں ہے۔کیونکہ لوگوں میں اختلاف کا باعث بننے والی ایک چیز نہیں تھی کہ جس میں انہوں نے حضرت دائود علیہ السلام کی طرف رجوع کیا۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے ان روایات پرغور فرمائیں۔

--------------

[۱]۔ سورہ انبیاء،آیت:۷۹

[۲]۔ سورہ ص، آیت: ۲۶

۶۳

امام صادق  علیہ السلام سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

حضرت دائو د  علیہ السلام   نے خدا سے عرض کیا ۔خدایا!میرے نزدیک حق کو اس طرح سے نمایاں و آشکار کردے ،جیسے وہ تمہارے سامنے آشکار ہے تاکہ میں اس کے مطابق قضاوت کروں۔

خدا وندِ کریم نے ان پر وحی کی اور فرمایا کہ تم میں اس کام کی طاقت نہیں حضرت دائود علیہ السلام    نے پھر اس بارے میں اصرار کیا۔ایک مرد ان کے پاس مدد مانگنے آیا کہ جو دوسرے شخص کی شکایت کررہا تھا کہ اس شخص نے میرا مال لے لیا ہے۔

خدا وند نے حضرت دائود  علیہ السلام پر وحی کی کہ جو شخص مدد مانگنے آیا ہے ،اس نے دوسرے شخص کے باپ کو قتل کرکے اس کا مال لے لیا ہے۔

حضرت دائود  علیہ السلام نے مدد مانگنے ولاے شخص کو قتل کرنے اور اس کا مال دوسرے شخص کو دینے کا حکم دیا لوگ آپس میں اس حیرت انگیز واقعہ پر چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ حضرت دائود علیہ السلام کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے خدا سے چاہا کہ وہ ان سے امور کے حقائق کا علم  واپس لے لے۔خداوند کریم نے ایسا ہی کیا اور پھر وحی کی!

لوگوں میں بیّنہ اور گواہوں کے ذریعہ حکم کرو اور اس کے علاوہ انہیں میرے نام کی قسم کھانے کو کہو۔(۱)

اس روایت کو علامہ مجلسی  محمد بن یحیٰی سے، اس نے احمدبن محمد سے،اس نے حسین بن سعید سے، اس نے فضالہ ابن ایوب سے ،اس نے ابان بن عثمان سے،اور ابان نے اس سے روایت کی ہے کہ جس نے اسے خبر دی ہے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ابان بن عثمان نے روایت کی سند کو نا مکمل نقل کیا ہے۔علاوہ از این وہ خود بھی بعض بزرگان جیسے علامہ حلی کے نزدیک موردِ قبول نہیں ہے۔

--------------

[۱]۔ بحارالانوار :ج۴ص ۱۰،وسائل الشیعہ: ج۱۸ ص ۱۶۷

۶۴

اس روایت میں موردِ اختلاف مال و ثروت بیان ہو اہے۔دوسری روایت میں جس شخص کے بارے میں شکایت کی جاتی ہے،وہ شکایت کرنے والے کے ادّعا کو قبول کرتا ہے۔شکایت کرنے والا معتقد ہوتا ہے کہ ایک جو ان،اس کی اجازت کے بغیر باغ میں داخل ہوا اور اس نے انگور کے درختوں کو خراب کیا۔جوان نے بھی یہ شکایت قبول کی ۔حضرت دائود  علیہ السلام    نے حکمِ واقع کی بناء پر جوان کے حق میں حکم کیا اور باغ جوان کی تحویل دے دیا۔

ایک دیگر روایت ہے کہ جس میں تصریح ہوئی ہے کہ حضرت دائودعلیہ السلام نے ایک بار بیّنہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقیقت کی بناء پر قضاوت کی۔ اختلاف ایک گائے کی مالکیت کے بارے میں تھا کہ طرفین میں سے ہر ایک نے اپنے لئے گواہ پیش کئے تھے۔

 قضاوتِ اہلبیت علیہم السلام اور حضرت دائود علیہ السلام

ہم نے کچھ روایات بیان کیں،جن میں حضرت دائود علیہ السلام  کی حکومت کا تذکرہ کیا گیا۔جو اس  بات کی دلیل ہے کہ حضرت دائودعلیہ السلام کی قضاوت میں بعض ایسی خصوصیات تھیں کہ جن میں سے ایک گواہوں سے بے نیازی تھی۔

یہ روایات کس طرح آئمہ اطہارعلیھم السلام   کی قضاوت کو بھی بیان کرتی ہیں۔

اس روایت توجہ کریں:

'' عن الساباطی قال، قلت لابی عبداللّٰه :بما تحکمون اذا حکمتم ؟ فقال: بحکم اللّٰه و حکم داؤد ،فاذا ورد علینا شء لیس عندنا تلقّانا به روح القدس؟ '' (۱)

ساباطی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق  علیہ السلام سےعرض کی!  قضاوت کرتے وقت آپ کس چیز سے حکم کرتے ہیں؟

--------------

[۱]- بحارالانوار:  ج۵۲ ص ۵۶

۶۵

حضرت امام صادق علیہ السلام  نے فرمایا!حکم خدا اور حکم دائود سے۔  جب بھی ہم تک کوئی ایسی چیز پہنچے کہ جس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی چیز نہ ہو تو روح القدس اسے ہم پر القاء کرتے ہیں۔

اس روایت پر بھی غور فرمائیں:

'' عن جعید الهمدانی (و کان جعید ممن خرج الحسین  بکربلا قال:فقلت للحسین جعلت فداک: بای شء تحکمون؟ قال :یا جعید نحکم بحکم آل داؤد،فاذا عیینا عن شء تلقّانا به روح القدس؟ ''(۱)

جعید ہمدانی (جو امام حسین  علیہ السلام  کے ساتھ کربلا گیا تھا) کہتا ہے کہ میں نے امام حسین  علیہ السلام سے عرض کیا! میں آپ قربان جائوں ،آپ کس چیز سے حکم کرتے ہیں؟حضرت امام حسین  علیہ السلام نے فرمایا!اے جعید ہم آل دائود کے حکم سے حکم کرتے ہیں،اور جب بھی کسی چیز سے رہ جائیں تو روح القدس اسے ہم پر القاء کردیتے ہیں۔

اس روایت کو مرحوم مجلسی نے جعید اور انہوں نے امام سجادعلیہ السلام سے نقل کیا ہے۔(۲)

اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا لازم ہے کہ ایسے جوابات اہل مجلس کی ذہنی ظرفیت کے مطابق ہوتے ہیںورنہ روح القدس مکتب اہلبیت کا طفل مکتب ہے۔ جیسا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرمان ہے:

روح القدس نے ہاتھ نہ لگے ہو ئے ہمارے باغ سے علم سیکھا۔ (۳)

--------------

[۱] ۔۔ بحارالانوار:  ج۵۲ ص ۵۷

[۲]۔بحارالانوار : ج۲۵ ص ۵۶

[۳]۔بحار الانوار:ج۲۶ص۲۶۵

۶۶

امام صادق علیہ السلام  سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے:

''عن حمران بن اعین قال:قلت لابی عبداللّه علیه السلام انبیاء  انتم؟قال:لا،قلت فقد حدّثنی من لا اتهم انک قلت :انکم انبیائ؟قال من هو ابو الخطاب؟قال :قلت:نعم قال:کنت اذا اهجر؟قال قلت بما تحکمون؟ قال نحکم بحکم آل داؤد؟ '' (۱)

حمران ابن اعین کہتا ہے کہ :میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا:کیا آپ انبیاء ہیں؟ انہوں نے فرمایا !نہیں۔

میں نے کہا!جس کی طرف کوئی جھوٹ کی نسبت نہیں دیتا ،اس نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ سب  انبیاء ہیں۔

امام  نے فرمایا!کون ہے،کیا وہ ابوالخطاب ہے؟

میں نے کہا ! جی ہاں۔

آنحضرت  نے فرمایا!اس بناء پر کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟

میں نے کہا !آپ کس چیز سے حکم کرتے ہیں؟

امام نے فرمایا!ہم حکمِ آل دائود سے فیصلہ کرتے ہیں۔

ایک روایت میں امام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں:

''انه اتهم زوجته بغیره فنقر رأسها و اراد ان یلا عنها عندی،فقال لها:بینی وبینک من یحکم بحکم داؤد و آل داؤد و یعرف منطق الطیر و لا یحتاج الی الشهودفاخبرته ان الذی ظنّ بها لم یکن کما ظنّ،فانصرفا علی صلح'' (۲)

--------------

[۱]۔بحارالانوار:ج۲۵ ص۳۲۰

[۲]۔بحارالانوار :ج ۴۶ص ۲۵۶

۶۷

اس نے اپنی زوجہ پر الزام لگایا  تھا کہ وہ کسی اور کے ساتھ بھی ملوث ہے۔پس وہ اس پرٹوٹ پڑا،وہ اسے میرے سامنے لعان کرنا چاہتا تھا۔اس کی زوجہ نے کہا!میرے اور تمہارے درمیان وہ فیصلہ کرے کہ جو حکم دائود اور آل دائود سے فیصلہ کرتا ہو جو پرندوں کی باتوں کو سمجھتا ہو اور جو کسی شاہد و گواہ کا محتاج نہ ہو۔پس میں نے اس سے کہا!تم اپنی زوجہ کے بارے میں جیسا سوچتے ہو ویسا نہیں ہے۔لہٰذا وہ دونوں صلح کے ساتھ واپس چلے گئے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاوت کیلئے آئمہ اطہار  علیہم السلام بھی حضرت دائودعلیہ السلام  کی طرح دلیل و گواہ  کے محتاج نہیں تھے۔اس بناء پر ان تمام روایات سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ حضرت دائود  اپنے علم کی بنیاد پر عمل کرتے اور بینہ کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے۔کبھی آئمہ اطہار علیہم السلام  بھی ایسی ہی قضاوت کرتے تھے۔

حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) بھی اپنے علم کی بنیاد پر قضاوت فرمائیں گے اور انہیں بھی گواہوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔

امام مہدی علیہ السلام کے فیصلے

اب ہم امام عصرعلیہ السلام کی قضاوت پر دلالت کرنے والی روایت کو نقل کریں گے کہ قضاوت کے لئے امام عصرعلیہ السلام کودلیل  و گواہوںکی ضرورت نہیں ہوگی۔جس طرح حضرت دائودعلیہ السلام بھی گواہوں  کے محتاج نہیں ہوتے تھے۔اب اس روایت پر توجہ کریں۔

حسن بن ظریف نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو خط لکھا، جس میں اس نے امام عصرعلیہ السلام  کی  کیفیت قضاوت کے بارے میں سوال کیا اور کہتا ہے :

۶۸

'' اختلج فی صدری مسألتان و اردتُ الکتاب بهما الی ابی محمد،کتبت اسأله عن القائم بمَ یقضی؟فجاء الجواب:سألت عن القائم ،اذا قام یقضی بین الناس بعلمه کقضاء داؤد،ولا یسأل البیّنة '' (۱)

میرے سینے میں دو مسئلے پیدا ہوئے تو میں نے ارادہ کیا کہ دونوں مسئلے امام حسن عسکری   علیہ السلام کو لکھوں ، پس میں نے انہیں خط لکھا جس میں ان سے سوال کیا۔

قائم آل محمد  علیہ السلام کس چیز سے قضاوت کریں گے؟

امام  کی طرف سے جواب آیا ! تم نے قائم علیہ السلام   سے سوال کیا ۔جب وہ قیام کریں گے تو وہ لوگوں کے درمیان اپنے علم سے قضاوت کریں گے ۔ جس طرح دائود علیہ السلام   کی قضاوت کہ جو گواہ طلب نہیں کرتے تھے۔

امام صادق علیہ السلام نے ایک روایت میں ابو عبیدہ سے فرمایا:'' یاابا عبیده ؛ انه اذا قام قائم آل محمد ، حکم بحکم داؤد و سلیمان لایسأل الناس بیّنة '' (۲) وسائل الشیعہ میں یہ روایت امام محمد باقرعلیہ السلام  سےنقل ہوئی ہےاے ابا عبیدہ ؛جب بھی قائم آل محمد قیام کریں گے تو وہ حکم دائود و سلیمان سے حکم کریں گے اور لوگوں سے گواہ طلب نہیں کریں گے۔ابان کہتا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام   سے سنا کہ انہوں نے فرمایا:'' لا یذهب الدنیا حتی یخرج رجل منّی یحکم بحکومة آل داؤد لا یسأل عن بیّنة،یعطی کل نفس حکمها '' (۳)

--------------

[۱]۔ بحارالانوار :ج ۵ص۲۶۴،ج۵۲ص۳۲۰،ج۹۵ص۳۱،مستدرک الوسائل :ج۱۷ ص۳۶۴ 

[۲] ۔ بحارالانوار :ج۲۳ ص ۸۶،ج۲۶ ص۱۷۷،ج۵۲ص۳۲۰،مستدرک الوسائل :ج۱۷ ص ۳۶۴

[۳]۔ بحارالانوار : ج۵۲ ص ۳۲۰،وسائل الشیعہ :ج۱۸ ص ۱۶۸،مستدرک الوسائل :ج۱۷ ص ۳۶۴  

۶۹

دنیا تب تک تمام نہیں ہوگی،جب تک ہم میں سے ایک مرد حکومت آل دائود کی مانند حکومت  نہ کر ے، وہ گواہ کا سوال نہیں کرے گا بلکہ ہر شخص پر واقعی حکم جاری ہوگا۔

یہ روایت ابان ابن تغلب سے یو ں بھی نقل ہوئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''سیأتی فی مسجد کم ثلاث مأة و ثلاثة عشر رجلایعنی مسجد مکة.یعلم اهل مکة انه لم یلد(هم) آبائهم و لا اجدادهم،علیهم السیوف،مکتوب علی کل سیف کلمة تفتح الف کلمة،فیبعث اللّه تبارک و تعالی ریحاً فتنادی بکل وادِِ: هذا المهدی یقضی بقضائِ داؤد و سلیمان، لا یرید علیه بینة '' (۱)

آپ کی مسجد (مسجد مکہ) میں تین سو تیرہ افراد آئیں گے کہ مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ اہل مکہ کے آباء و اجداد کی نسل سے نہیں ہیں۔ان پر کچھ تلواریں ہوں گی کہ ہر تلوار پر کلمہ لکھا ہوگا،جس سے ہزار کلمہ نکلیں گے۔خدا وند تبارک و تعالی کے حکم سے ایسی ہوا چلے گی کہ جو ہر وادی میں نداء دے گی! یہ مہدی  علیہ السلام ہیں ، جو دائودعلیہ السلام   اور سلیمان  علیہ السلام کی قضاوت سے قضاوت کریں گے اور بیّنہ و گواہوں کوطلب نہیں کریں گے۔

اسی طرح حریز کہتا ہے کہ میں نے امام صادق  علیہ السلام   سے سنا کہ انہوں نے فرمایا:

'' لن تذهب الدنیا حتی یخرج رجل منا اهل البیت یحکم بحکم داؤد و آل داؤد ؛لا یسأل الناس بیّنة ''  (۲)

دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی کہ جب تک ہم اہلبیت  علیہم السلام میں سے ایک مرد خروج نہ کرے گا ،وہ حکم دائود و آل دائود سے حکم کرے گا اور وہ لوگوں سے گواہ طلب نہیں کرے گا۔

--------------

[۱]۔ بحارالانوار: ج۵۲ ص۲۸۶  اور ۳۶۹

[۲]۔ بحارالانوار:  ج۵۲ ص ۳۱۹

۷۰

عبداللہ ابن عجلان نے روایت کی ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) جو نہ صرف مقامِ حکومت   میں گواہوں کی ضرورت نہیں ہوگی ،بلکہ وہ دیگر پنہاں و مخفی امور سے آگاہ ہوں گے وہ ہر قوم کو ان کے دل میں پوشیدہ بات کی خبر دیں گے۔

امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں:

'' اذا قام قائم آل محمد حکم بین الناس بحکم دائود لا یحتاج الی بیّنة یلهمه اللّٰه تعالی فیحکم بعلمه،و یخبر کلّ قوم بما استبطنوه،و یعرف ولیّه من عدوّه باالتّوسم قال اللّه سبحانه'' اِنّ فِیْ ذَلِکَ لآیَةً لِّلْمتَُوَسِّمِیْن،وَِنَّهَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقیْم''  (۱]،[۲)

جب قائم آل محمدعلیہ السلام قیام کریں گے تو وہ حکم دائود سے لوگوں کے درمیان  حکومت کریں گے  انہیںگواہوں کی ضرورت نہ  ہوگی۔خداوند کریم ان پر الہام کرے گا اور وہ اپنے علم سے فیصلہ کریں گے ۔ہر قوم نے اپنے دل میں جو کچھ چھپایا ہو وہ اسے اس کی خبر دیں گے۔وہ دوست اور دشمن کو دیکھ کر ہی پہچان جائیں گے۔

خدا وند عالم فرماتا ہے:

ان باتوں میں صاحبانِ بصیرت کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں اور یہ بستی ایک مستقل چلنے والے راستہ پر ہے۔

ہم جو دوسری روایت نقل کرنے لگے ہیں کہ جس میں صراحت سے بیان ہوا ہے کہ حضرت مہدی  علیہ السلام  قضاوت دائود سے حکومت کریںگے۔لیکن اس میں گواہوں کی ضرورت ہونے یا نہ ہونے  کا  ذکر نہیں ہے۔

--------------

[۱]۔ سورہ حجر: آیت:۷۵، ۷۶

[۲]۔ بحارالانوار :ج۵۲ ص ۳۳۹

۷۱

پیغمبر اکرم  (ص) فرماتے ہ یں:'' و یخرج اللّه من صلب الحسن قائمنا اهل البیت علیهم السلام یملا ها قسطاًوعدلاً کما ملئت جوراً و ظلماًله هیبة موسی و حکم داؤد و بهاء عیسی،ثمّ تلا: '' ذُرِّیَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِیْع عَلِیْم '' (۱)،(۲)

خداوند عالم حسن علیہ السلام    کے صلب سے ہم اہلبیت علیھم السلام کے قائم کو خارج کرے گا ،جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا،جس طرح وہ ظلم وجور سے پر ہوچکی ہوگی۔وہ ہیبت موسیٰ،حکم دائود اور بہاء عیسیٰ کا مالک ہوگا۔پھر رسول اکرم  (ص)نے اس آ یت کی تلاوت فرمائی:یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور اللہ سب کو سننے اور جاننے والا ہے۔

ہم ایک اور روایت نقل کرتے ہیں۔لیکن اس میں حضرت دائود علیہ السلام   کی کیفیت ِ قضاوت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔لیکن اس میں تصریح ہوئی ہے کہ امام عصر  علیہ السلام  اپنی قضاوت کے دوران گواہ کے بارے میں سوال نہیں کریں گے۔

امام صادق علیہ السلام  فرماتے ہیں:''دمان فی الاسلام حلال من اللّه عزوجل لا یقضی فیهما احد بحکم اللّه حتی یبعث اللّه عزوجل القائم من اهل البیت علیهم السلام،فیحکم فیهما ، بحکم اللّه عزوجل لا یرید علی ذالک بیّنة  الزانی المحصن یرجمه و مانع الزکاة یضرب رقبته '' (۳) اسلام میں خدا کی طرف سے دو خون مباح ہیں۔ان میں کوئی ایک بھی حکم الہٰی سے فیصلہ نہیں کرتا،یہاں تک کہ خدا وند عالم ہم اہلبیت علیہم السلام میں قائم کو بھیجے گا ۔وہ ان دو خون میں حکم الہٰی سے فیصلہ کرے گا اور وہ اس کام کے لئے گواہ طلب نہیں کرے گا۔

--------------

[۱]۔ سورہ آل عمران،آیت: ۳۴

[۲]۔ بحارالانوار :ج۳۶ ص ۳۱۳

[۳]۔ کمال الدین: ۶۷۱

۷۲

۱ ۔ وہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرے گا

۲ ۔ جو زکات نہ دے وہ اس ک ی گردن مار دے گا۔

ہم نے جو روایت ذکر کی،وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حضرت  مہدی علیہ السلام قضاوت کے دوران دلیل اور گواہ کے محتاج نہیں ہوںگے اور وہ اپنے علم کے مطابق عمل کریں گے۔جیساکہ حضرت  قضاوت میں گواہ طلب نہیں کرتے تھے۔

مرحوم علامہ مجلسی بھی اسی عقیدہ کو قبول کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

روایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب حضرت قائم  علیہ السلام    ظہور فرمائیں گے تو وہ واقعیت کے مطابق اپنے علم کے ذریعے فیصلہ کریں گے نہ کہ گواہوں کے ذریعہ۔لیکن دوسرے آئمہ اطہار   علیہم السلام ظاہر سے فیصلہ کرتے تھے اور کبھی وہ اس کے باطن کو کسی وسیلہ کے ذریعے بیان کرتے۔جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام     نے بہت سے موارد میں یہ کام انجام دیا ہے۔

شیخ مفید  کتاب ''المسائل''میںفرماتے ہیں کہ امام  اپنے علم سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔جس طرح وہ گواہوں کے ذریعے فیصلہ کرتے ہیں۔لیکن جب انہیں معلوم ہو کہ گواہی واقعیت و حقیقت کے خلاف ہے تو وہ گواہ کی گواہی کے باطل ہونے کا حکم کرتے ہیں اور خدا وند ِ متعال کے دیئے ہوئے علم کے ذریعے فیصلہ کرتے ہیں۔(۱)

--------------

[۱]۔ بحارالانوار :ج ۲۶ص۱۷۷

۷۳

  زمانِ ظہور میں امام عصر علیہ السلام کے قاضیوں کے فیصلے

دنیا میں عدالت کا رواج اور ظلم وستم کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب ظہور کے پر نور زمانے میں قاضیوں کی قضاوت بھی حقیقت اور واقعیت کی بناء پر ہو نہ کہ ظاہر کی بناء پر ۔یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب حقیقت و واقعیت کو درک کرنے کے لئے قاضیوں کے پاس دلیل و گواہ  کے علاوہ اور راستہ بھی ہو۔

روایات سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)   کی حکومت میں نہ صرف امام زمانہ علیہ السلام کو گواہوں اور دلائل کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ان کی طرف سے بنائے گئے اور معین قاضیوں کو بھی غیبی امداد حاصل ہوگی۔وہ بھی دلیل و گواہ سے بڑھ کر دوسرے امور سے سرشار ہوںگے۔جو کبھی بھی جھوٹی قسم اور جھوٹے گواہوں  کی چال بازیوں اور مکاریوںمیں گرفتار نہیں ہوں گے۔کیونکہ وہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کے قیام  اور ظلم و جور کا قلع قمع کرنے پر مأمور ہوں گے۔

روایات میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے کہ ظہور کے درخشاں زمانے میں قاضیوںکی کیفیت قضاوت کیا ہوگی؟اس بارے میں امام صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں:'' اذا قام القائم بعث فی اقالیم الارض فی کل اقلیم رجلاً،یقول:  عهدک فی کفک، فاذا ورد علیک امر لا تفهمه ولا تعرف القضاء فیه فانظر الی کفّک واعمل بما فیهما '''' قال!و یبعث جندا الی القسطنطینیّة، فاذا بلغوا الخلیج کتبوا علی اقدامهم شیئاً ومشوا علی الماء فاذا نظر الیهم الرّوم یمشون علی الماء قال: هؤلاء اصحابه یمشون علی الماء فکیف هو؟فعند ذلک یفتحون لهم ابواب المدینة فیدخلونها، فیحکمون فیها مایشاؤون''  (۱)

جس زمانے میں قائم قیام کریں گے تو زمین کے ہر خطے میں ایک مرد بھیجیں گے اور اس سے فرمائیں گے کہ تمہارا عہد و پیمان  (یعنی جو تمہارا وظیفہ ہے اسے انجام دو)تمہارے ہاتھ کی ہتھیلیوں میں ہے۔

--------------

[۱]۔ الغیبة مرحوم نعمانی : ۳۱۹

۷۴

پس جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے کہ جسے تم نہ سمجھ سکو کہ اس کے بارے میں کس طرح قضاوت و فیصلہ کرو تو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھو اور جو کچھ اس میں موجود ہو،اس کی بناء پر فیصلہ کرو۔

امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں:

وہ اپنی فوج کے ایک لشکر کو قسطنطینیہ کی طرف بھیجیں گے ۔جب وہ خلیج میں پہنچے گے تو ان کے پائوں پر کچھ لکھا جائے گا ۔جس کی وجہ سے وہ پانی پر چلتے ہوئے دیکھیں گے تو کہیں گے۔یہ پانی پر چلنے والے اس کے یاور و انصار ہیں تو پھر وہ کس طرح ہوگا؟

پھر ان کے لئے شہر کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور شہر میں داخل ہوجائیں گے اور وہاں وہ جس چیز کا چاہیں ،حکم کریں گے۔

اگر چہ بعض مؤلفین اس روایت میں ایک دوسرے معنی کا بھی احتمال دیتے ہیں کہ جو ظاہر روایت کے خلاف ہے۔کیونکہ ظاہر ِ روایت یہ ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) جس شخص کو دنیا کے کسی خطے میں قضاوت کے لئے بھیجیں گے ،اسے غیبی امداد بھی حاصل ہوگی۔اس کے علاوہ امام زمانہ  علیہ السلام کی فوج میں شامل ہر سپاہی میں  بھی ایسی خصوصیات ہوں گی۔ جیسا کہ روایت کے آخر میں اس کی وضاحت ہوئی ہے کہ وہ کسی ظاہری وسیلہ کے بغیر پائوں پر کچھ لکھنے سے پانی پر چلیں گے۔

اس بیان کے رو سے ہم کیوں غیبی امداد کی موبائل جیسی چیز سے توجیہ کریں۔

قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ روایت میں  بیان ہوا  ہے کہ ظہور کے درخشاں زمانے میں قاضیوں کو غیبی امداد حاصل ہوگی ۔اسی طرح وہ اپنے علم و فہم کے ذریعہ  دوسروں کے فہم و بصیرت سے بھی فائدہ حا صل کریں گے۔

 امام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں:

۷۵

'' ثم یرجع الی الکوفة فیبعث الثلاث مأئة والبضعة عشر رجلاً الی الآفاق کلها فیمسح بین اکتافهم و علی صدورهم ،فلا یتعایون فی قضاء....'' (۲) پھر کوفہ لوٹ جائیں گے اور تین سو تیرہ افراد کو آفاق کی طرف بھیج دیں گے۔وہ ان کے کندھوں  اور سینوں پر ہاتھ پھیریں گے کہ جس کی وجہ سے وہ فیصلہ کرنے میں غلطیاں نہیں کریں  گے۔اس روایت سے کچھ نکات حاصل ہوتے   ہیں:

۱ ۔امام عصر علیہ السلام کے تین سو تیرہ افراد دنیا کے حاکم ہوں گے اور دنیا کے تمام خطے حضرت امام مہدی  علیہ السلام   کے یا ور و انصار کے ہاتھ میں ہوں گے۔

۲۔ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) (جو ید اللہ ہیں)ان کے سینوں اور کندھوں پر ہاتھ پھیریں گے ۔ جس  کی وجہ سے انہیں غیبی امداد حاصل ہوگی اور وہ کبھی بھی قضاوت اور حق کا حکم صادر کرنے میں عاجز وکمزور نہیں ہوں گے۔

۳۔دنیا کے مختلف خطوں میں بھیجے جانے والے تین سو تیرہ افراد مرد ہوں گے۔جیسا کہ اس روایت میں بھی اس کی وضاحت ہوئی ہے ۔(۳)

--------------

[۲]۔ بحارالانوار:ج۵۲ ص۳۴۵

[۳]۔ بعض کا نظریہ یہ ہے کہ اما م  کے اصحاب و انصار میں مرد اور خواتین کی مجموعی تعداد تین سو تیرہ ہوگی۔لیکن یہ نطریہ صحیح نہیں ہے۔کیونکہ اصحاب ِ و یاورانِ امام مہدیمیں چند عورتیں بھی ہوں گی لیکن وہ ان تین سو تیرہ افراد میں سے نہیں ہوںگی کہ جو دنیا میں عدلِ الہٰی کی حکومت کو قائم کرنے کے لئے دنیا کے مختلف حصوں میں بھیجے جائیں گے۔ اس نظریہ کی وجہ یہ ہے کہ تین سو تیرہ افراد کے بارے میں وارد ہونے والی اکثر روایات لفظ''رجلاً'' سے تعبیر نہیں ہوئیں۔لیکن دوسری روایات پر توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سو تیرہ افراد سب مرد ہوں گے۔اگرچہ معنوی شان و مرتبت کے لحاظ سے کچھ خواتین بھی ان تین سو تیرہ افرادکی طرح ہوں گی۔

۷۶

بحث کے اہم نکات

اب چند نکات پرتوجہ کریں ۔

۱ ۔ متعدد  روایات میں تصریح ہوئی ہے کہ امام عصر  کو قضاوت کرنے کے لئے گواہوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔

۲ ۔ بعض دوسر ی روایات کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو گواہوں کی ضرورت ہو گی۔

لیکن ان روایات میں دوسری روایات سے تعارض کی توانائی نہیں ہے۔

۳ ۔ اگر فرض کر یں کہ یہ روایات دوسری روایات کے متعارض ہیں تو پھر روایات کے مابین   طریقہ جمع سے استفادہ کرنا ہوگا جس میں  مخالف روایات کو حکومت ِ امام زمانہ  کے ابتدائی دور پر  حمل کرسکتے کہ جب حکومت پوری طرح مستقر نہ ہوئی ہو۔کیونکہ حکومت کے استقرار کے بعد روئے زمین پر امام عصرعلیہ السلام کے یاور و انصار میں تین سو تیرہ افراد کو غیبی امداد حاصل ہوگی۔جس کی وجہ سے وہ جھوٹے گواہوں کی گواہی سے غلطی میں مبتلانہیں ہوں  گے اور دوسری قسم کی روایات کو امام کی مستقر حکومت سے منسلک کر سکتے ہیں۔

۴۔ جن کا یہ کہنا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام  نے فقط ایک بارحقیقت کی بناء پر قضاوت کی،ہم ان سے کہیں گے کہ :کیا یہ معقول ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام  نے فقط ایک بار واقع کی بناء پر قضاوت کی ہو اور ان کی قضاوت اتنی مشہور ہوجائے؟

۵۔اگر فرض کریں کہ حضرت دائود علیہ السلام  نے ایک ہی بار علمِ واقعی کے مطابق عمل کیا اور ان کی قضاوت اس قدر شہرت کی حاملبنگئی،تو اما م مہدی  علیہ السلام  کی قضاوت کو حضرت دائودعلیہ السلام  کی قضاوت سے تشبیہ دینا ،فقط اسی قضاوت کی وجہ سے ہے کہ جو مشہور ہوگئی۔

۷۷

۶ ۔ اگر ہم یہ قبول بھی کرلیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام  نے ایک بار اپنے علم واقعی کے مطابق قضاوت کی تو پھر ان روایات کا کیا جواب دیں گے کہ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام  اور آل دائودگواہ کا سوال کئے بغیر قضاوت کرتے تھے۔

۷۔ جیسا کہ ہم نے رسول اکرم(ص)کے فرمان سے نقل کیا کہ گواہوں  کی بنیاد پر قضاوت کا خلافِ واقع ہونا ممکن ہے کہ جو ایک قسم کا ظلم ہے۔اگر ایسا ہو تو پھر یہ کس طرح حضرت مہدی  علیہ السلام   کی حکومت سے سازگار ہوسکتا ہے؟

۸۔ ان سب کے علاوہ بھی اس روایت کے مطابق کہ جس میں حضرت دائودعلیہ السلام   نے خدا سے گواہی کی بنیاد پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پیروکار حکم واقعی کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔لیکن ظہور امام زمانہ علیہ السلام کے وقت لوگوں کی عقلی اعتبار سے تکامل کی منزل پر فائز ہوں گی۔لہٰذا اس وقت واقع کے مطابق قضاوت سے دستبردارہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

۷۸

 تیسراباب

اقتصادی ترقی

    ظہور کے زمانے میں اقتصادی ترقی

    کنٹرول کی قدرت

    دنیا میں ،۸۰۰ مل ین سے زائد بھوکے

    نعمتوں سے سرشار دنیا

    زمانۂ ظہور میں برکت

    دنیا کے روشن مستقبل کے بارے میں رسول اکرم(ص)ک ی بشارت

    دنیا میں خوشیاں ہی خوشیاں

    شرمساری

۷۹

 ظہور کے زمانے میں اقتصادی ترقی

ظہور کے زمانے میں اقتصادی ترقی و پیشرفت کو بیان کرنے سے پہلے غربت اور تنگدستی کے بارے میں ایک اہم نکتہ بیان کرتے ہیں کہ جو اقتصادی نظام کی ناکامی کی دلیل ہے۔ غیبت  کے زمانے میں پوری دنیا میں بہت سے جرائم مالی پریشانی، غربت اور اقتصادی فقر کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں اور آئندہ بھی رونما ہوتے رہیں گے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو قتل و غارت ،خونریزی،چوری اور راہزنی کے بہت سے واقعات کی بنیاد ہے۔

جو اپنے عقیدے کے مطابق قتل،خونریزی،چوری اور دوسرے جرائم کے خلاف مبارزہ آرائی کررہے ہیں اور معاشرے کوان جرائم سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔انہیں ان جرائم کے علل و اسباب (جس میں سے ایک مہم علت غربت اور فقر ہے) کو ختم کرنا چاہیئے تاکہ معاشرے میں کسی حد تک جرائم کو ختم کیا جاسکے۔

جرائم کے وقوع کادوسرا اہم سبب زیادہ مال کی ہوس اور لالچ ہے۔پہلے سبب کی بنسبت یہ دوسرا سبب زیادہ اہم ہے۔کیونکہ اگر کوئی فقیر اور غریب غربت کی وجہ سے کسی گھر میں چوری کرتا ہے یا کسی کو قتل کرتا ہے تو قدرت مند اور حریص مال و دولت میں اضافے کی غرض سے معاشرے کو غارت کرتا ہے اور قوم و ملت کا خون بہاتا ہے۔

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جس طرح امیر، ثروتمند اور صاحبِ قدرت شخص کے پاس فقیر وضعیف انسان کی بنسبت خدمت کے زیادہ وسائل ہوتے ہیں ۔اسی طرح اس کے پاس خیانت کے وسائل بھی فقیر و محتاج سے زیادہ ہوتے ہیں۔

اس بنا پر غریبوں اور ضرورتمندوں کی غربت اور اس سے بڑھ کر دولت مندوں اور قدرت مندوں کے مال و دولت میں اضافے کی خواہش غیبت  کے زمانے میں جرائم کے رونما ہونے کی دو اہم وجوہات ہیں۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

مراد حضرت يعقوب كے پوتے و نواسے ہيں _ البتہ بعض مفسرين كے مطابق اسباط سے مراد اسحاقعليه‌السلام كے بيٹے ہيں _ واضح ر ہے كہ ''يعقوب'' كے بعد كلمہ ''الاسباط'' لانے سے پہلے نكتہ كى تائيد ہوتى ہے_

۶_ وحى اور انبياءعليه‌السلام كا مبعوث كياجانا تاريخ ميں مداوم اور مسلسل رہا ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده و آتينا داود زبوراً

۷_ وحي، پيغمبرى كے دعوے ميں حقانيت انبياءعليه‌السلام كى ضامن ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الي نوح والنبينمن بعده

۸_ ديگر انبيائے خداعليه‌السلام پر ايمان لانے كا لازمہ يہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لايا جائے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الي نوح و النبين خداوند متعال يہ نكتہ بيان كركے كہ وحى كے لحاظ سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے انبياء ميں كوئي فرق نہيں ، انبياءعليه‌السلام پر ايمان كے دعويداروں كو يہ ياد دہانى كرا دينا چاہتا ہے كہ اگر ان كى نبوت پر ايمان ركھتے ہو تو پھر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھى ايمان لانا پڑے گا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكار كرو گے تو در حقيقت تمام انبياءعليه‌السلام كا انكار كرر ہے ہو_

۹_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كے نزول كا انكار در اصل ديگر انبياءعليه‌السلام پر وحى كے نزول كا انكار ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده و اوحينا

۱۰_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى الہى ان تمام خصوصيات كى حامل ہے جو گذشتہ انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى ميں پائي جاتى تھيں _انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و النبين من بعده

چونكہ وحى كو گذشتہ تمام انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى سے تشبيہ دى گئي ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى ميں گذشتہ تمام انبياءعليه‌السلام كى وحى والى خصوصيات پائي جاتى تھيں _

۱۱_ حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے پيغمبر ہيں جنہيں كتاب اور شريعت سے نوازا گيا_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده چونكہ حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے بھى پيغمبر موجود تھے لہذا ان سے پہلے كسى پيغمبرعليه‌السلام كا نام لئے بغير ان كا ذكر كرنے كى وجہ يہ ہوسكتى ہے كہ وہ پہلے پيغمبر تھے جنہيں شريعت عطا كى گئي_

۱۲_ حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے نبى ہيں جن پر خدا نے وحى نازل فرمائي_

۲۰۱

كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده چونكہ مورد بحث آيت نے نہ تفصيلى اور نہ اجمالى كسى بھى لحاظ سے حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے كسى پيغمبر پر وحى كے نزول كے بارے ميں كچھ نہيں كہا لہذا كہا جا سكتا ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے كوئي ايسا نبى موجود نہيں تھا جس پر وحى نازل ہوئي ہو_ بنابريں حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے نبى ہيں جن پر وحى نازل ہوئي_

۱۳_ خدا وند عالم كى بارگاہ ميں حضرت عيسيعليه‌السلام كو خاص عظمت و احترام حاصل ہے_و اوحينا الى عيسي و ايوب و يونس و هارون و سليمان حضرت عيسيعليه‌السلام كے بعد ذكر شدہ انبياء زمانےعليه‌السلام كے لحاظ سے ان پر مقدم ہيں اور ان سے پہلے گذرے ہيں ليكن خدا وند متعال نے انہيں سب سے پہلے ذكر كيا ہے تا كہ ان كى خاص عظمت كى طرف اشارہ كرے_

۱۴_ حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد آنے والے انبياءعليه‌السلام ميں سے ايك حضرت داؤدعليه‌السلام ہيں _ جنہيں خدا وند عالم كى جانب سے زبور نامى كتاب عطا كى گئي_و آتينا داود زبوراً

۱۵_ زبور گراں بہا اور خاص اہميت كى حامل كتاب ہے_و آتينا داود زبوراً

۱۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى الہى ميں وہ تمام خصوصيات موجود تھيں جو دوسرے انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى ميں جدا طور پر پائي جاتى تھيں _انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح حضرت امام باقرعليه‌السلام اور امام صادقعليه‌السلام مذكورہ آيت كے مضمون كى طرف اشارہ كرنے كے بعد فرماتے ہيں ( فجمع لہ كل وحي)(۱) يعنى اس ميں تمام وحى كى خصوصيات اكٹھى كى گئي تھيں _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كا نزول ۱، ۹، ۱۰، ۱۶; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا برگزيدہ ہونا ۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت ۱

ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نبوت ۴

اديان: اديان كى تاريخ ۳، ۱۱، ۱۴

اسحاقعليه‌السلام : حضرت اسحاقعليه‌السلام كى نبوت ۴

اسماعيل: حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نبوت ۴

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۲۸۵ ح ۳۰۵; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۳ ح ۶۷۰_

۲۰۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام پر وحى كا نزول ۳، ۴، ۵، ۹، ۱۰، ۱۶;انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۳; انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا تداوم ۶; انبياءعليه‌السلام كى حقانيت ۷;انبياءعليه‌السلام كى ہم آہنگى ۱۰;انبياءعليه‌السلام كے قصے ۳

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۸ ;انبياءعليه‌السلام پر ايمان ۸ ; ايمان كا متعلق ۸

ايوبعليه‌السلام : حضرت ايوبعليه‌السلام كى نبوت ۴ برگزيدہ لوگ: ۱، ۲، ۵

عيسيعليه‌السلام : حضرت عيسيعليه‌السلام كا احترام ۱۳;حضرت عيسيعليه‌السلام كى عظمت ۳; حضرت عيسي كى نبوت ۴;حضرت عيسيعليه‌السلام كے فضائل ۱۳

داؤدعليه‌السلام : حضرت داؤدعليه‌السلام كى كتاب ۱۴;حضرت داؤدعليه‌السلام كى نبوت ۱۴

دين: پہلا دين ۱۱

روايت: ۱۶

زبور: زبور كاآسمانى كتاب ہونا ۱۴ ;زبور كى اہميت ۱۵;زبور كى قدر و قيمت ۱۵

سليمانعليه‌السلام : حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت ۴

مقربين: ۱۳

نوحعليه‌السلام : حضرت نوحعليه‌السلام پر وحى كا نزول ۲، ۱۲ ;حضرت نوحعليه‌السلام كا چنا جانا ۲;حضرت نوحعليه‌السلام كا دين ۱۱ ; حضرت نوحعليه‌السلام كى كتاب ۱۱;حضرت نوحعليه‌السلام كى نبوت ۲، ۴

وحي: وحى كا تداوم ۶; وحى كا كردار ۷;وحى كو جھٹلانا ۹;وحى كى تاريخ ۱۲

وحى كے مخاطبين: ۴

ہارونعليه‌السلام : حضرت ہارونعليه‌السلام كى نبوت ۴

يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نبوت ۴

يعقوبعليه‌السلام كى اولاد: حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد كا چنا جانا ۵;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد كى نبوت ۵

يونسعليه‌السلام : حضرت يونس كى نبوت ۴

۲۰۳

آیت ۱۶۴

( وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسَى تَكْلِيماً )

كچھ رسول ہيں جن كے قصے ہم آپ سے بيان كرچكے ہيں او ركچھ رسول ہيں جن كا تذكرہ ہم نے نہيں كيا ہے او رالله نے موسي سے باقاعدہ گفتگو كى ہے _

۱_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ديگر انبياءعليه‌السلام اور خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبروں كى مانند رسول اور خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبر ہيں _

و رسلاً قد قصصنا هم عليك من قبل و رسلا لم نقصصهم عليك ''رسلاً'' فعل محذوف ''ارسلنا'' كيلئے مفعول ہے يعنى و ارسلنا رسلا اور يہ جملہ ''اوحينا الى ...'' پر عطف ہے_ بنابرايں يہ بھى تشبيہ ميں اس كے ساتھ شريك ہے_ البتہ اس فرق كے ساتھ كہ مشبہ (انا اوحينا اليك)كے معنى كا لازمہ رسالت ہے اور اسى كا ارادہ كيا گيا ہے_ يعنى اے پيغمبر آپ ہمارے رسول ہيں جيسا كہ گذشتہ انبياءعليه‌السلام بھى ہمارے رسول تھے_

۲_ پيغمبر اكرمعليه‌السلام كى رسالت كا انكار دوسرے تمام انبياءعليه‌السلام كى رسالت كا انكار ہے_اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و رسلا قد قصصناهم عليك مذكورہ بالا مطلب ميں گذشتہ مطلب كے بارے ميں دى گئي توضيح سے استفادہ كيا گيا ہے_

۳_ خداوند متعال نے صرف اپنے چند انبياءعليه‌السلام كے حالات كوپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے بيان كيا ہے_

رسلا قد قصصنا هم عليك من قبل و رسلاً لم نقصصهم عليك

۴_ خداوند متعال نے قرآن كريم ميں بعض انبياء كے حالات بيان نہيں كئے_و رسلا لم نقصصهم عليك

۵_ خداوند متعال نے كسى واسطے كے بغير حضرت موسيعليه‌السلام سے گفتگو كي_و كلم الله موسي تكليماً

گذشتہ جملات ميں خدا وند عالم نے اپنے اسم ''الله '' كا ذكر نہيں فرمايابلكہ صرف (اوحينا)

۲۰۴

جيسے افعال استعمال كيے ہيں _ جبكہ اس جملہ ''كلم اللہ موسي'' ميں اسم جلالہ ''اللہ'' استعمال كيا ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ خداوند متعال نے بذات خود حضرت موسيعليه‌السلام سے بات كى اور ان كے درميان كوئي واسطہ نہيں تھا_

۶_ خداوند متعال كا حضرت موسيعليه‌السلام سے كلام كرنا وحى كى ايك قسم ہے_اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و كلم الله موسي تكليماً اگر ''كلم اللہ'' ''اوحينا الى نوح'' پر عطف ہو تو جملہ يوں ہوگا ''اوحينا اليك كما كلم اللہ موسي تكليماً'' يعنى پيغمبر پر نازل ہونے والى وحى الہى كى مثال اس كلام كى سى ہے جو خدا نے حضرت موسيعليه‌السلام سے كيا_ بنابريں خدا كا كلام كرنا بھى ايك قسم كى وحى ہے_

۷_ بارگاہ خداوندى ميں حضرت موسيعليه‌السلام كو خاص عظمت حاصل ہے_و كلم الله موسي تكليماً حضرت موسيعليه‌السلام كا دوسرے انبياءعليه‌السلام سے جدا طور پر نام لينا اور انہيں ''كليم اللہ'' كہنا ان كے بلند و بالا مقام پر دلالت كرتا ہے_

۸_ حضرت موسيعليه‌السلام پر حقيقى ايمان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے كا باعث بنتا ہے_اوحينا اليك كما كلم الله موسي تكليماً مذكورہ مطلب اس مبنى پر استوار ہے كہ جب جملہ ''كلم اللہ ...'' گذشتہ آيت ميں جملہ ''اوحينا الى نوح'' پر عطف ہو_ يعنى اے رسول جس طرح ہم نے آپ پر وحى نازل كى اور موسي سے كلام كيا اور چونكہ يہ ان لوگوں سے خطاب كيا جارہا ہے جو حضرت موسيعليه‌السلام كى نبوت كا اقرار كرتے ہيں لہذا انہيں اس مشابہت كو مدنظر ركھتے ہوئے رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كا بھى اقرار كرنا چاہيئے_

۹_ حضرت آدمعليه‌السلام اور حضرت نوحعليه‌السلام كے درميان والى مدت ميں گذرنے والے بعض انبياءعليه‌السلام كا نام قرآن كريم ميں ذكر نہ كرنے كى وجہ ان كى رسالت كا مخفى ہونا ہے_و رسلا لم نقصصهم عليك

حضرت امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں :كان ما بين آدم و بين نوح من الانبياء مستخفين و مستعلنين و لذلك خفى ذكرهم فى القرآن فلم يسموا كما سمى من استعلن من الانبياء و هو قول الله_ ''رسلا لم نقصصهم عليك'' يعنى لم اسم المستخفين كما سميت المستعلنين من الانبياء (۱) يعنى حضرت آدمعليه‌السلام اور حضرت نوحعليه‌السلام كے درميان والے زمانے ميں بعض انبياءعليه‌السلام ايسے

__________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۲۸۵ ح۳۰۶; تفسير برھان ج۱ ص ۴۲۷ ح۴_

۲۰۵

بھى ہيں جنہيں پنہاں ركھا گيا اور اسى وجہ سے قرآن كريم ميں بھى ان كا ذكر نہيں آيا_ چنانچہ جس طرح بعض انبياءعليه‌السلام كا على الاعلان نام ليا گيا ہے اسى طرح بعض كا نام نہيں ليا گيا اور خدا وند عالم نے اسى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہا ہے: ''اے رسول: ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بعض انبياءعليه‌السلام كے حالاتنہيں سنائے'' يعنى جس طرح بعض ظاہر شدہ انبياءعليه‌السلام كا نام ليا ہے اسى طرح بعض پنہاں انبياءعليه‌السلام كا نام نہيں ليا_

۱۰_ خداوند متعال نے حضرت موسي سے تين دن اور رات ميں ايك لاكھ چوبيس ہزار كلمات كى تعداد ميں كلام كيا_

و كلم الله موسي تكليماً رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہيں :ان الله ناجي موسي بن عمران بمائة الف كلمة و اربعة و عشرين الف كلمة فى ثلاثة ايام و لياليهن .(۱) يعنى خداوند متعال نے حضرت موسيعليه‌السلام بن عمران كے ساتھ تين شب و روز ميں ايك لاكھ چوبيس ہزار كلمات كى تعداد ميں گفتگو كي_

۱۱_ خداوند متعال نے حضرت موسيعليه‌السلام سے طور سينا ميں درخت سے ايسى آواز پيدا كركے گفتگو كى جسے ہر طرف سے ان كے تمام ہمراہى سن سكتے تھے_و كلم الله موسي تكليماً امام رضاعليه‌السلام ، حضرت موسيعليه‌السلام سے خدا وند عالم كى گفتگو كے بارے ميں فرماتے ہيں :فخرج بهم الى طور سيناء فكلمه الله تعالى ذكره و سمعوا كلامه لان الله عزوجل احدثه فى الشجرة ثم جعله منبعثاً منها حتى سمعوه من جميع الوجوه (۲) يعنى وہ اپنے تمام ساتھيوں كے ہمراہ طور سينا كى طرف روانہ ہوئے ...پھر خداوند متعال نے ان سے كلام كيا جسے ان كے تمام ساتھيوں نے سنا كيونكہ خدائے عزوجل نے درخت ميں آواز ايجاد كى اور اسے چاروں طرف پھيلا ديا جس كى وجہ سے وہ تمام ساتھيوں كو سنائي دي_

۱۲_ خداوند متعال نے زبان اور دہن سے استفادہ كيے بغير كلام ايجاد كركے حضرت موسيعليه‌السلام سے گفتگو كي_

و كلم الله موسي تكليماً حضرت امام رضاعليه‌السلام ، حضرت موسيعليه‌السلام سے خدا كے كلام كے بارے ميں فرماتے ہيں :... كلام الخالق للمخلوق ليس ككلام المخلوق لمخلوق و لا يلفظ بشق فم و لسان و لكن يقول له ''كن'' فكان بمشيته ما خاطب به موسي من الامر والنهى من غير تردد فى نفس (۳) يعنى خالق كى مخلوق

_________________

۱) خصال صدوق ص ۶۴۱ ح۲۰ باب ما بعد الالف: نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۴ ح ۶۷۵_

۲) توحيد صدوق ص ۱۲۱ ح ۲۴ ب ۸:نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۴ ح ۶۷۶_

۳) احتجاج طبرسى ج۲ ص ۱۸۵; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۵، ح۶۸۱_

۲۰۶

كے ساتھ كلام كى كيفيت ايسى نہيں ہے جيسے مخلوق كے كلام كى مخلوق كے ساتھ اور نہ ہى خالق كا كلام مخلوق كے كلام كى مانند منہ كے كھلنے اور زبان كے مخصوص انداز ميں ہلنے كى وجہ سے الفاظ كى صورت ميں ايجاد ہوتا ہے بلكہ وہ اسے ہوجانے كا حكم ديتا ہے تو وہ اس كى مشيئت سے ہوجاتا ہے

۱۳_ خداوند متعال كا كلام حادث ہے_و كلم الله موسي تكليماً حضرت امام صادقعليه‌السلام كلام خدا كے حادث يا قديم ہونے كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں :ان الكلام صفة محدثة ليس بازلية كان الله عزوجل و لا متكلم (۱) يعنى كلام ايك ازلى نہيں بلكہ محدث صفت ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا حضرت موسيعليه‌السلام سے كلام ۵، ۶، ۱۰، ۱۱، ۱۲; اللہ تعالى كے كلام كا حادث ہونا ۱۳; اللہ تعالى كے كلام كى كيفيت ۱۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى مخفى رسالت ۹;انبياءعليه‌السلام كى نبوت ۱;انبياءعليه‌السلام كى نبوت كو جھٹلانا ۲; انبياءعليه‌السلام كے درميان ہم آہنگى ۸ ; انبياءعليه‌السلام كے قصے ۳، ۴، ۹

ايك لاكھ چوبيس ہزار كا عدد: ۱۰

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۸;ايمان كا متعلق ۸;حضرت موسيعليه‌السلام پر ايمان ۸

درخت: درخت كا كلام كرنا ۱۱

روايت: ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳

قرآن كريم: قرآن كريم كے قصے ۴

كوہ سينا: ۱۱

مقربين: ۷ موسيعليه‌السلام : حضرت موسيعليه‌السلام كا قصہ ۱۰، ۱۱;حضرت موسيعليه‌السلام كا مقام و مرتبہ۵، ۷، ۱۰;حضرت موسيعليه‌السلام كى عظمت ۷

وحي: وحى كى اقسام ۶

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۱۰۷ ح۱; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۵ ح ۶۸۲_

۲۰۷

آیت ۱۶۵

( رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزاً حَكِيماً )

يہ سارے رسول بشارت دينے والے اورڈرا نے والے اس لئے بھيجے گئے تا كہ رسولوں كے آنے كے بعد انسانوں كى حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے او رخدا سب پر غالب او رصاحب حكمت ہے _

۱_ انبياءعليه‌السلام رسالت كى تبليغ اور انسانوں كى تربيت كيلئے بشارت اور انذار جيسى روشوں سے استفادہ كرتے تھے_

رسلا مبشرين و منذرين

۲_ انسانوں كى ہدايت اور تربيت كيلئے تشويق كو تہديدپر مقدم كرناضرورى ہے_رسلا مبشرين و منذرين

۳_ انسانوں كى ہدايت اور تربيت كيلئے بشارت كى روش انذار سے زيادہ مؤثر ہوتى ہے_رسلاً مبشرين و منذرين

بشارت كو انذار پر مقدم كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ بشارت كانقش انسانوں كى ہدايت ميں زيادہ مؤثر ہوتا ہے_

۴_ ا نبياءعليه‌السلام روش ہدايت كے انتخاب ميں انسان ميں موجود منفعت طلبى اور خطرات سے بچنے كى خصلت كو مد نظر ركھتے تھے_رسلاً مبشرين و منذرين

۵_ انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا مقصد لوگوں پر خدا وند متعال كى حجت تمام كرنا ہے_رسلاً مبشرين و منذرين لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۶_ انبياءعليه‌السلام لوگوں پر خدا وند متعال كى حجت تمام كرنے كا وسيلہ ہيں _رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۷_ انسان كو ہدايت اور ہدف تك پہنچنے كيلئے ہميشہ انبياءعليه‌السلام كى ضرورت ہوتى ہے_

۲۰۸

رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۸_ خداوند عالم كسى كو اتمام حجت كے بغير عذاب نہيں ديتا_رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۹_ خداوند متعال ہميشہ عزيز (ناقابل شكست فاتح) اور حكيم (دانا) ہے_و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۰_ انبياءعليه‌السلام كا بھيجا جانا، خداوند عالم كى عزت و حكمت كا تقاضا ہے_رسلاً مبشرين و منذرين و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۱_ خداوندعالم، دليل و استدلال ميں قاہر اور غالب ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة و كان الله عزيزاً

اللہ تعالى كى عزت اور ناقابل شكست ہونے كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك مصداق وہى ہے جو جملہ ''لئلا يكون ...'' ميں بيان ہوا ہے_

۱۲_ خداوند عالم كے دليل و استدلال پر غلبہ اور تسلط كا منبع اس كى بے كراں حكمت ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۳_ خدا وند عالم كے سامنے لوگوں كے پاس كسى حجت كا نہ ہونا اس كى عزت كا ايك مصداق ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل و كان الله عزيزاً حكيماً عزيز اور اتمام حجت ميں پائے جانے والے ارتباط كو سامنے ركھنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر خداوند عالم اتمام حجت نہ كرتا تو لوگ اس كے سامنے دليل پيش كرتے اور يہ اس كى عزت كے ساتھ سازگار نہيں ہے_

اتمام حجت: ۵، ۶، ۸، ۱۳

اسماء و صفات: حكيم ۹;عزيز ۹

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا استدلال ۱۱، ۱۲;اللہ تعالى كى حكمت ۱۰، ۱۲;اللہ تعالى كى عزت ۱۰، ۱۳;اللہ تعالى كى قدرت ۱۱، ۱۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا انذار ۱; انبياءعليه‌السلام كا كردار ۶، ۷;انبياءعليه‌السلام كا ہدايت كرنا ۴; انبياءعليه‌السلام كى بشارت ۱;انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا

۲۰۹

فلسفہ ۵; انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱;انبياءعليه‌السلام كى نبوت ۱۰

انذار : انذار كى اہميت ۲

انسان: انسان كى معنوى ضروريات ۷;انسان كى منفعت طلبى ۴

تبليغ: تبليغ كى روش۱

تربيت: تربيت كى روش ۱، ۲، ۳; تربيت ميں انذار ۱، ۲، ۳; تربيت ميں بشارت ۳; تربيت ميں تشويق ۲

تشويق: تشويق كى اہميت ۲

سزا: بيانكيے بغير سزا دينا ۸

فقہى قواعد: ۸

نبوت: نبوت كى اہميت ۷

ہدايت: ہدايت كا طريقہ ۴;ہدايت ميں انذار ۲; ہدايت ميں تشويق ۲

آیت ۱۶۶

( لَّـكِنِ اللّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلآئِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيداً )

(يہ مانيں يانہ مانيں ) ليكن خدا نے جو كچھ آپ پر نازل كيا ہے وہ خود اس كى گواہى ديتا ہے كہ اس نے اسے اپنے علم سے نازل كيا ہے او رملائكہ بھى گواہى ديتے ہيں او رخدا خود بھى شہادت كے لئے كافى ہے _

۱_ خدا وند متعال اور اس كے فرشتے قرآن كى حقانيت اور رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر گواہ ہيں _

لكن الله يشهد بما انزل اليك و الملائكة يشهدون

۲۱۰

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ''و الملائكة يشهدون'' كو''الله يشهد'' پر عطف كيا گيا ہے اور اس كا نتيجہ يہ ہے كہ ''يشھدون'' كا متعلق بھى''بما انزل اليك'' ہوگا_

۲_ قرآن كريم كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر خداوند عالم نے نازل كيا ہے_يشهد بما انزل اليك انزله

۳_ خداوند متعال نے اہل كتاب كے انكار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دل ميں پيدا ہونے والى رنجيدگى اور افسردگى دور كرنے كيلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دى ہے_فلا يؤمنون الا قليلا لكن الله يشهد بما انزل اليك اكثر اہل كتاب كى جانب سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے انكار كا ذكر كرنے كے بعد خداوند متعال كا استدراك كے ساتھ حقانيت قرآن پر گواہى دينے كا مقصد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دينا ہے_

۴_ قرآن كريم ;خدا وند عالم كے علم و دانش كا جلوہ ہے_انزله بعلمه مذكورہ بالا مطلب ميں ''بعلمہ'' كو ضمير مفعولى كيلئے حال قرار ديا گيا ہے اور اس ميں موجود ''بائ'' معيت كے معنى ميں ہے: يعنى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والے قرآن كريم كے ہمراہ علم الہى بھى تھا_

۵_ قرآن كريم ميں علم الہى كى تجلي، قرآن و پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر خداوند متعال كى گواہى ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه جملہ ''انزلہ بعلمہ'' ''يشھد'' كيلئے تفسير ہوسكتا ہے_ يعنى خود نزول قرآن جو علم الہى كا ايك مظہر ہے قرآن كريم كى اور اس كے نتيجے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر خدا وند متعال كى گواہى ہے_

۶_ قرآن كا نزول خدا وند متعال كى نظارت ميں ہے اور شياطين كى دخالت سے محفوظ ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه بعض مفسرين كا كہنا ہے كہ چونكہ يہاں پر علم خدا ، حفاظت و نگہبانى سے كنايہ ہے، لہذا جملہ ''انزلہ بعلمہ'' كا معنى يہ بنتا ہے كہ خداوند متعال نے قرآن كريم اس طرح سے نازل كيا كہ خود اس كى حفاظت اور نگہبانى فرمائي ہے تا كہ شياطين دخالت اور كمى بيشى نہ كرسكيں _

۷_ حقانيت قرآن كريم پر خداوند متعال كى گواہى كا منبع اس كا علم و آگاہى ہے_لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه

۸_ خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اہليت سے آگاہ

۲۱۱

ہونے كى وجہ سے قرآن كريم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمايا ہے_لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه مذكورہ بالا مطلب ميں ''بعلمہ'' كو ''انزلہ'' كے فاعل كيلئے حال قرار ديا گيا ہے اور علم كا متعلق پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اہليت ہے_ جس كى وجہ سے قرآن كريم ان پر نازل ہوا يعنى''انزله عالماً بانك اهل لذلك'' خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرقرآن كريم نازل فرمايا كيونكہ وہ جانتا تھا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كى اہليت ركھتے ہيں _

۹_ ضرورى ہے كہ علم و آگاہى كى اساس پر گواہى دى جائے_و لكن الله يشهد انزله بعلمه

۱۰_ رسالت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر يقين كرنے كيلئے قرآن كريم بحيثيت دليل كافى ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمہ ممكن ہے ''بما انزل اليك'' ميں موجود ''بائ'' سببيت كيلئے ہو_ اس صورت ميں گذشتہ آيات كے قرينہ كى بناپر شہادت و گواہى كا متعلق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ہوگي_ اس مبنا كے مطابق جملہ ''يشھد بما انزل ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت پر خدا كى گواہى كا سبب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن كا نزول ہے يعنى جو بھى قرآن كريم كو ملاحظہ كرے وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى حقانيت پر گواہى ديگا_

۱۱_ خدا كے فرشتے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزول قرآن كے شاہد اور ناظر تھے_والملائكة يشهدون

جملہ ''و الملائكة يشھدون'' ميں ''واو'' حاليہ ہے اور ''يشھدون'' كا معنى ''وہ نظارت كرتے ہيں ''كيا گيا ہے_

۱۲_ مختلف امور كے اثبات و نفى پر خدا وند عالم كى شہادت كافى و مكمل ہے_و كفى بالله شهيداً

۱۳_ حقانيت قرآن كريم كے اثبات كيلئے خدا وند عالم كى گواہى كافى ہے_لكن الله يشهد بما انزل و كفي بالله شهيداً

۱۴_ قرآن كريم لوگوں پر خدا وند عالم كى طرف سے اتمام حجت ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل لكن الله يشهد بما انزل اليك

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا غم و اندوہ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت ۵; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كى حقاينت ۱، ۱۰; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فضائل ۸

اتمام حجت: ۱۴

۲۱۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا علم ۷، ۸; اللہ تعالى كى گواہى ۱، ۵، ۷، ۱۲، ۱۳;اللہ تعالى كے افعال ۲; اللہ تعالى كے علم كى تجلى ۴، ۵

اہل كتاب: اہل كتاب اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳

قرآن كريم: قرآن كريم كا كردار ۱۰، ۱۴ ;قرآن كريم كا محفوظ

ہونا۶;قرآن كريم كا نزول ۲، ۶، ۸، ۱۱;قرآن كريم كى حقانيت ۱، ۵، ۷، ۱۳;قرآن كريم كى فضيلت ۴

گواہي: گواہى كى شرائط ۹; گواہى ميں علم ۹

ملائكہ: ملائكہ كى گواہى ۱،۱۱

آیت ۱۶۷

( إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ قَدْ ضَلُّواْ ضَلاَلاً بَعِيداً )

بيشك جن لوگوں نے كفراختيار كيا او رراہ خداسے منع كرديا وہ گمراہى ميں بہت دور تك چلے گئے ہيں _

۱_ راہ خدا سے روكنے والے كفار ، ايسے بھٹكے ہوئے لوگ ہيں جو سخت گمراہ ہيں _ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً كلمہ ''الذين'' كے تكرار كے بغير ''صدوا ...'' كو ''كفروا'' پر عطف كرنا اس پر دلالت كرتا ہے كہ كفر اختيار كرنا اور راہ خدا سے روكنا دونوں صفات مجموعى طور پر ضلالت بعيد ہے_

۲_ اہل كتاب; قرآن كريم اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے انكار اور لوگوں كو اسلام كى طرف آنے سے روكنے كى وجہ سے ايسے منحرف لوگ ہيں جو سخت بھٹكے ہوئے ہيں _ان الذين كفروا و صد وا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً گذشتہ (۱۵۳ سے بعد والي) آيات كے قرينہ كى بناپر''الذين كفروا ...'' كے مورد نظر

۲۱۳

مصاديق ميں سے اہل كتاب كا وہ گروہ ہے جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار اور قرآن كريم كو وحى كے طور پر قبول نہيں كرتا تھا اور گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''سبيل اللہ'' سے مراد دين اسلام ہے_

۳_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت اور قرآن كريم كے بارے ميں كفراور دوسروں كو راہ خدا پر گامزن ہونے سے روكنا بہت بڑى گمراہى ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً

گذشتہ آيات كے قرينہ كى بناپر ''كفروا'' كا متعلق قرآن كريم و پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _

۴_ لوگوں كو راہ خدا كى طرف آنے سے روكنا كفر كى علامت ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ''و صد وا'' كو جملہ ''كفروا'' كيلئے مفسر و مبين كے طور پر اخذ كيا گيا ہے يعنى راہ خدا سے روكنا كفر ہے_

۵_ انسان كے طرز عمل كا سرچشمہ اس كى آراء و افكار اور اعتقادات ہيں _ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

مذكورہ مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جب ''صدوا'' كا ''كفروا'' پر عطف از باب عطف سبب بر مسبب ہو _

۶_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان راہ خدا ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

اس چيز كو سامنے ركھتے ہوئے كہ ''كفروا'' كا متعلق قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں يہ كہا جا سكتا ہے كہ ''سبيل اللہ'' سے مراد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان لانا ہے_

۷_ گمراہى كے متعدد مراتب ہيں _قد ضلوا ضلالاً بعيداً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۲; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۳

اہل كتاب: اہل كتاب كى گمراہى ۲

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۶;ايمان كا متعلق ۶;ايمان كے اثرات ۵;قرآن كريم پر ايمان ۶

راہ خدا: ۶

راہ خدا سے روكنا ۱، ۲، ۳، ۴

طرز عمل:

۲۱۴

طرز عمل كى بنياديں ۵

علم: علم كے اثرات ۵

كفار: كفار كى گمراہى ۱

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۲،۳;كفر كي

علامت ۴;كفر كے اثرات ۲

گمراہ لوگ: ۱

گمراہي: گمراہى كے مراتب ۱، ۲، ۳، ۷;گمراہى كے موارد ۳

منحرف لوگ: ۱، ۲

نظريہ كائنات: نظريہ كائنات اور آئيڈيا لوجى ۵

آیت ۱۶۸

( إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَظَلَمُواْ لَمْ يَكُنِ اللّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَ لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيقاً )

او رجن لوگوں نے كفراختيار كرنے كے بعد ظلم كيا ہے خدا انہيں ہرگز معاف نہيں كرسكتا او رنہ انہيں كسى راستہ كى ہدايت كرسكتا ہے _

۱_ ظالم كفار; خدا وند متعال كى مغفرت و ہدايت سے محروم ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً جملہ ''و ظلموا'' ميں ''الذين'' كا تكرار نہ ہونا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ ''كفر اور ظلم'' دونوں صفات مجموعاً خدا وند عالم كى مغفرت اور ہدايت سے محروم ہونے كا باعث بنتى ہيں _

۲_ رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كا انكار اور دوسروں كو راہ خدا وند عالم سے روكنا خداوند عالم كى مغفرت اور ہدايت سے محروم ہونے كا سبب بنتا ہے_ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''كفر'' سے مراد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كا انكار اور ظلم سے مراد دوسروں كو راہ خدا سے روكنا ہے_

۲۱۵

۳_ ظالم كفار اور راہ خدا سے روكنے والوں كو ايمان لانے اور توبہ كرنے كى توفيق نہيں ہوگي_

ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم بديہى ہے كہ كفار، كفر كے جس مرتبہ پر بھى ہوں اگر ايمان لے آئيں تو وہ مغفرت و ہدايت الہى كے حقدار و مستحق ہوتے ہيں : بنابريں جملہ ''لم يكن ...'' سے مراد يہ ہے كہ انہيں ايمان لانے كى توفيق نصيب نہيں ہوگى جس كے نتيجے ميں وہ بخشے نہيں جائيں گے_

۴_ لوگوں كو راہ خدا پر گامزن ہونے سے روكنا ظلم ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله ان الذين كفروا و ظلموا گذشتہ آيت شريفہ كے قرينہ كى بناپر ظلم سے مراد دوسروں كو راہ خدا سے روكنا ہے_

۵_ سعادت و خوشبختى كى تمام راہيں ظالم كفار پر بند ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا و لا ليهديهم طريقاً

۶_ بعض اہل كتاب كا كفر اور ظلم ان كيلئے خدا كى مغفرت و ہدايت سے محروم ہونے كا باعث بنا_

ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''الذين كفروا و ظلموا'' كا مورد نظر مصداق بعض اہل كتاب ہيں _

۷_ بعض اہل كتاب كافر اور ستمگر لوگ ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۸_ ستمگر كفار كا مغفرت و ہدايت سے محروم ہونا، خدا وند عالم كى سنتوں ميں سے ہے_ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۹_ انسان كى مغفرت اور ہدايت خدا كے ہاتھ ميں ہے_لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۱۰_ انسان كے گناہوں كى بخشش اس كيلئے ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ ہے_لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى سے مختص امور ۹; اللہ تعالى كى بخشش ۹;اللہ تعالى كى سنتيں ۸; اللہ تعالى كى مغفرت سے

۲۱۶

محروم ہونا ۲;اللہ تعالى كى ہدايت ۹، ۱۰; اللہ تعالى كى ہدايت سے محروم ہونا۲

انسان: انسان كى مغفرت ۹;انسان كى ہدايت ۹

اہل كتاب: اہل كتاب كا ظلم ۶ ،۸; اہل كتاب كے گروہ ۷; كافر اہل كتاب ۶، ۷

ايمان: ايمان سے محروميت۳

توبہ: توبہ سے محروميت۳

راہ خدا: راہ خدا سے روكنا ۲، ۳;راہ خدا سے روكنے كا ظلم ۴

سعادت: سعادت سے محروم ہونا ۵

ظلم: ظلم كے اثرات ۶;ظلم كے موارد ۴

كفار: ظالم كفار كا محروم ہونا ۳، ۸; كفار كا ظلم۱، ۵;كفار كى شقاوت۵; كفار كى محروميت ۱

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۲;كفر كے اثرات ۶

گناہ: گناہ كى بخشش كے اثرات۱۰

مغفرت: مغفرت سے محروم ہونا ۱، ۶، ۸

ہدايت: ہدايت سے محروم ہونا ۱، ۶، ۸;ہدايت كا پيش خيمہ۱۰

آیت ۱۶۹

( إِلاَّ طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيراً ) .

سوائے جہنم كے راستے كے جہاں ان كو ہميشہ ہميشہ رہنا ہے او ريہ خدا كے لئے بہت آسان ہے _

۱_ خداوند متعال، قيامت كے دن ظالم كفار كو صرف راہ جہنم كى طرف ہدايت كرے گا_

۲۱۷

و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم

مذكورہ بالامطلب ميں جملہ ''و لا ليھديھم ...'' ميں مذكور ہدايت كا زمانہ اور وقت قيامت كو قرار ديا گيا ہے يعنى خداوند عالم اس دن كفار كو صرف جہنم كى طرف راہنمائي كرے گا_

۲_ كفر، باطل اديان كى طرف رجحان اور ناروا اعمال دوزخ كى جانب جانے والا راستہ ہے_

و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جملہ ''و لا ليھديھم ...'' ميں مذكور ہدايت كا زمان اور وقت دنيا كى زندگى ہو اس مبني كے مطابق كفار كو راہ جہنم كى طرف ہدايت كرنے سے مراد ان كيلئے كفر كے ارتكاب اور ناروا اعمال كا پيش خيمہ فراہم كرنا ہے كہ جس كا انجام دوزخ ہوگا_

۳_ خداوندمتعال نے ظالم كفار كا تمسخر اڑايا ہے_و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم

ممكن ہے كہ كفار كو جہنم كى طرف لے جانےكيلئے ہدايت كا كلمہ ان كا تمسخر اڑانے كيلئے استعمال كيا گيا ہو_

۴_ بعض اہل كتاب اپنے كفر اور ظلم كى وجہ سے ہميشہ جہنم ميں رہيں گے_ان الذين كفروا و ظلموا و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم خالدين فيها گذشتہ آيات كى روشنى ميں مذكورہ آيت كا مورد نظر مصداق كافر اہل كتاب ہيں _

۵_ قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار اور لوگوں كو دائرہ اسلام ميں آنے سے روكنا ہميشہ جہنم ميں رہنے كا سبب بنے گا_ان الذين كفروا و ظلموا خالدين فيها ابداً

۶_ ہميشہ جہنم ميں رہنا ظالم كفار كى سزا ہے_ان الذين كفروا و ظلموا خالدين فيها ابداً

۷_ جہنم ابدى اور ہميشگى ہے_الا طريق جهنم خالدين فيها ابداً

۸_ خداوند متعال كيلئے دوزخ اور دوزخيوں كو جاويدان اور ابدى بنانا بہت آسان كام ہے_الا طريق جهنم خالدين فيها ابداً_ و كان ذلك على الله يسيراً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۵

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى جانب سے تمسخر اڑانا۳;اللہ تعالى

۲۱۸

كے افعال ۱، ۸

اہل كتاب: اہل كتاب كا ظلم ۴;اہل كتاب كا كفر ۴

جہنم: جہنم كا ہميشگى و ابدى ہونا ۷، ۸;جہنم كے موجبات ۲ ، ۴،۵; جہنم ميں ہميشہ كيلئے رہنا ۴، ۵، ۶

جہنمي: جہنميوں كا ہميشہ جہنم ميں رہنا ۸

رجحان: ناپسنديدہ رجحان۲

ظالمين: ۶

ظلم: ظلم كے اثرات ۴

عمل: ناپسنديدہ عمل ۲;

كفار: ظالم كفار ۳، ۶;كفار جہنم ميں ۱،۶; كفار قيامت ميں ۱;كفار كا مذاق اڑانا ۳;كفار كى سزا ۶

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۵;كفر كے اثرات ۲، ۴،۵

آیت ۱۷۰

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُواْ خَيْراً لَّكُمْ وَإِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَكَانَ اللّهُ عَلِيماً حَكِيماً )

اے انسانو تمہارے پاس پروردگار كى طرف سے حق لے كر رسول آگيا ہے لہذا اس پر ايمان لے آؤ اسى ميں تمہارى بھلائي ہے اور اگر تم نے كفراختيار كيا تو ياد ركھو كہ زمين و آسمان كى كل كائنات خداكے لئے ہے او روہى علم والا بھى ہے اور حكمت والابھى ہے _

۱_ پيغمبر اكرم، رسالت اور سراسر حق پر مبنى معارف كے ساتھ خدا وند عالم كى جانب سے بھيجے گئے _

۲۱۹

قد جاء كم الرسول بالحق مذكورہ بالا مطلب ميں ''بالحق'' ميں موجود ''بائ'' كو معيت كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ہو سكتا ہے كہ اس سے مراد تعليمات اور معارف الہى ہوں كہ يہ وہى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ہے_

۲_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت سے پہلے اہل كتاب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے منتظر تھے_

يايها الناس قد جاء كم الرسول ''قد جاء كم'' ميں ''قد'' توقع كے معنى ميں اور ''الرسول'' ميں ال عہد ذہنى كيلئے ہے جو يہ مطلب ادا كررہا ہے كہ مخاطبين آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت كے منتظر تھے_

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت عالمگير اور سب لوگوں كيلئے ہے_يا ايها الناس قد جاء كم الرسول

۴_ قرآن كريم خدا وند متعال كى جانب سے بھيجى گئي اور سراسر حق پر مبنى كتاب ہے_

قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم مذكورہ بالا مطلب ميں كلمہ ''الحق'' سے مراد قرآن كريم اور ''من ربكم'' كو اس كيلئے حال قرار ديا گيا ہے_

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت اور قرآن كريم كا نزول ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم

۶_ انبياءعليه‌السلام كى بعثت اور آسمانى كتب كے نزول كا مقصد تمام انسانوں كى ہدايت اور تربيت ہے_

يا ايها الناس قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم

۷_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان بشريت كيلئے خير و سعادت كا باعث ہے_

يا ايها الناس قد جائكم الرسول بالحق فامنوا خيراً لكم مذكورہ مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جب ''خيرا'' محذوف فعل ''يكن'' كيلئے خبر ہو_ يعنى پورا كلام يوں ہے ''فامنوا ان تؤمنوا يكن خيراً لكم''_

۸_ انسان ايك ايسى مخلوق ہے جو خير كى طالب اور كمال كى متلاشى ہے_يا ايها الناس فامنوا خيراً لكم

جملہ ''خيراً لكم'' انسان ميں خير طلبى اور سعادت كى جستجو كى صفت كو طبيعى اور فطرى امر بتلارہا ہے اور اسے صرف حقيقى خيرو سعادت كے مصداق يعنى قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان كى طرف ہدايت و راہنمائي كررہا ہے_

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300