امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت26%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام مہدی کی آفاقی حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180581 / ڈاؤنلوڈ: 4525
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

آیت ۵

( وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ )

اور اس وقت كو ياد كرو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا كہ تم لوگ اللہ كى اس نعمت كو ياد كرو كہ اس نے تمھيں فرعون والوں سے نجات دلائي جب كہ وہ بدترين عذاب ميں مبتلا كررہے تھے كہ تمھارے لڑكوں كو ذبح كررہے تھے اور تمھارى لڑكيوں كو(كنيزي)كے لئے زندہ ركھتے تھے اور اس ميں تمھارے پروردگار كى طرف سے بڑا سخت امتحان تھا_

۱_موسىعليه‌السلام اوران كى قوم كے واقعات كى ياداورى كرانا اوراسے ذہن نشين كرنا پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى تھي_

واذ قال موسى لقومه

مذكورہ مطلب اس بات پر موقوف ہے كہ ''اذ''سے پہلے فعل ''اذكر''مقدر ہو اس بناء پر ايت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوكر انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى بيان كررہى ہے_

۲_موسىعليه‌السلام اوران كى قوم كے واقعات كا سبق اموز اورياد ركھنے كے قابل ہونا_واذ قال موسى لقومه

خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حضرت موسىعليه‌السلام كے قصے كو ياد كرنے كا حكم ديا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ قصہ بہت ہى اہميت اورفوائد كاحامل ہے اور انسانوں كے لئے بہتر ہے كہ وہ اسے ياد ركھيں _

۳_حضرت موسىعليه‌السلام كا اپنى قوم سے ان نعمتوں كو ياد ركھنے كا تقاضا كرنا كہ جو خداوند متعال نے انھيں عطا كى ہيں _

واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم

۴_بنى اسرائيل ،عظيم نعمت سے بہرہ مند تھے_واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم

ياد اورى كا حكم دينا ،اس بات كا قرينہ ہے كہ ''نعمة الله ''سے مراد ايك خاص اوراہم نعمت ہے_

۵_حضرت موسىعليه‌السلام كا اپنى قوم سے ہميشہ اس با ت كو ذہن نشين كرنے كى تاكيد كرنا كہ ال فرعون كى قتل و غارت اوراذيت سے ان كى نجات كا سب سے بڑا سبب خداوند متعال ہے_

واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون

۲۱

۶_ال فرعون كے قتل وغارت اوراذيت سے بنى اسرائيل كا نجات پانا، خداوند متعال كى طرف سے ان پر ايك واضح نعمت تھى كہ جو ہميشہ ياد ركھنے كے قابل ہے_واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون

۷_ظالمانہ اجتماعى نظام سے نجات حاصل كرنا ،ايك ايسى الہى نعمت ہے كہ جسے ہميشہ ياد ركھنا چاہئے_

اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم

۸_ال فرعون كے ظالمانہ نظام سے بنى اسرائيل كى نجات كادن ''ايام الله '' ميں سے ہے_

و ذكّرهم با يّام الله ...واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب

اس ايت ميں '' اذكروا ''كا كلمہ ہو سكتا ہے ''ايام الله '' كى ياد دہانى كرانے كے مصاديق ميں سے ہو كہ جسے بيان كرنے كا حضرت موسىعليه‌السلام كو حكم ديا گيا تھا_

۹_فرعون كا خاندان اور اسكے ساتھى سب كے سب ظالم اور اذيت وازار پہنچانے والے لوگ تھے_

اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب

۱۰_لوگوں كو ظلم وستم سے نجات دلانے اور انسانى تاريخ كے انقلاب ميں خداوند متعال كا اہم ترين كردار _

اذ ا نجكم من آل فرعون

۱۱_حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم (بنى اسرائيل ) پر بدترين اذيت وازار مسلط كرنا، ال فرعون كا ہميشہ كا وتيرہ تھا_

يسومونكم سوء عذابكم

''يسومون ''، '' سوم '' سے ہے جس كا معنى اذيت اور عذاب مسلط كرنا ہے اسے فعل مضارع كے ساتھ لانااسكے دوام اور استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۱۲_ال فرعون ،قوم موسىعليه‌السلام (بنى اسرائيل ) كے بيٹوں كا تو وسيع پيمانے پر قتل عام كرتے تھے ليكن ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑ ديتے تھے_ويذبّحون ا بناء كم ويستحيون نساء كم

باب تفعيل سے '' يذبّحون'' كا استعمال كہ جس كا معنى تكثير بھى ہے شايد مذكورہ بالا مطلب كو بيان كررہا ہو_

۲۲

۱۳_بنى اسرائيل كے لڑكوں كو قتل كرنا اوران كى عورتوں كو زندہ ركھنا ان پر ال فرعون كى طرف سے اذيت وازار كو مسلط كرنے كى بدترين مثال ہے_يسومونكم سوء العذاب ويذبّحون ا بناء كم ويستحيون نساء كم

'' يسومونكم ''كے بعد''يذبّحون ا بناء كم ويستحيون نساء كم ''كو لانا ہوسكتا ہے اس كے لئے تفسيرى جملہ ہو اس صورت ميں يہى دو مورد ال فرعون كى ظالمانہ اذيتوں كى تفسير اورتوضيح ہيں _

۱۴_معاشرے ميں مردوں كى نسبت عورتوں كى تعداد ميں اضافے اورابادى كے غيرمعتدل ہوجانے كى وجہ سے عورتوں كے لئے تكليف دہ اجتماعى مشكلات كا پيدا ہوجانا_يستحيون نساء كم

خداوندمتعال نے ال فرعون كى طرف سے اذيت وازار كى وضاحت كے لئے لڑكوں كو قتل كرنے اورعورتوں كو زندہ ركھنے كى مثال دى ہے ممكن ہے يہ مثال اس لئے دى گئي ہو كہ اس طرح كے كام ابادى كو غيرمعتدل بنا ديتے ہيں جس كے نتيجے ميں عورتوں كى ابادى بڑھ جاتى ہے جو لوگوں كے لئے اذيت و ازار كا باعث بنتى ہے_

۱۵_فرعون كے استبدادى نظام جيسا اجتماعى ظالمانہ نظام تاريكيوں ميں سے ايك تاريكى شمار ہوتا ہے_

ا خرج قومك من الظلمت الى النور ...اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب

۱۶_ال فرعون كى طرف سے لڑكوں كو قتل كرنے اورعورتوں كو زندہ ركھنے جيسے بدترين اذيت وازار كا مسلط كيا جانا، بنى اسرائيل كے لئے خداوند متعال كى جانب سے ايك بڑا امتحان تھا_

يسومونكم سوء العذاب وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

مذكورہ بالا مطلب اس بات پر موقوف ہے كہ جب ''ذلكم '' كا مشارٌ اليہ ال فرعون كى طرف سے ديئے جانے والا اذيت وازار ہو_

۱۷_بنى اسرائيل كا ال فرعون كے اذيت وازار اور قتل سے نجات حاصل كرنا، ان كے لئے خداوند متعال كا عظيم امتحان تھا_اذ ا نجكم من آل فرعون ...وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

مذكورہ بالا مطلب اس بات پر موقوف ہے كہ جب

۲۳

''ذلكم ''كا مشاراليہ بنى اسرائيل كا خداوند متعال كے ذريعے ال فرعون كے ظالمانہ رويئے سے نجات پانا ہو_

۱۸_بندوں كى ازمائش، ان پر ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

۱۹_ظالمانہ اجتماعى نظاموں سے نجات كى نعمت كا الہى ازمائش كے وسيلوں ميں سے ہونا_

اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون ...وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

۲۰_خداوند كى طرف سے بندوں كى ازمائش كا مراتب و درجات كے مطابق ہونا_وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

ال فرعون:ال فرعون كى تكاليف اوراذيتيں ،۹;ال فرعون كے ظلم،۹

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوربنى اسرائيل كى تاريخ،۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورحضرت موسىعليه‌السلام كا قصہ،۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ داري،۱

الله تعالى :الله تعالى كے امتحانات ۱۶،۱۹،۲۰;الله تعالى كا نجات دينا ۱۰;الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۱۸;الله تعالى كى نعمتيں ۶،۷;الله تعالى كا كردار۱۰

امتحان -:امتحان كے وسائل ۱۹;اذيت كے ذريعے امتحان ۱۶ ; قتل كے ذريعے امتحان ۱۶;نجات كے ذريعے امتحان۱۷،۱۹;عظيم امتحانات۱۶،۱۷ ; امتحان كے مراتب ۲۰

انسان :انسانوں كا امتحان ۱۸

ايام الله : ۸

بنى اسرائيل :بنى اسرائيل كا امتحان ۱۶; بنى اسرائيل كى اذيت ۱۱ ; بنى اسرائيل كى عورتوں كا زندہ رہنا۱۲، ۱۳، ۱۶ ; بنى اسرائيل كا امتحان۱۷، بنى اسرائيل كى تاريخ ۱۲، ۱۳، ۱۶، ۱۷; بنى اسرائيل كا اذيت و ازار ۱۱،۱۳;بنى اسرائيل كى نجات كے اسباب ۵; بنى اسرائيل كے بيٹوں كا قتل۱۲، ۱۳، ۱۶; بنى اسرائيل كى نجات۶،۸، ۱۷; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۳، ۴، ۶

تاريخ:تاريخى تحولات كا سرچشمہ۱۰

۲۴

حكومت:ظالمانہ حكومت۱۵، ۱۹

ذكر:ذكر نعمت كے اثرات۱۵; ذكر نعمت كى اہميت۳; بنى اسرائيل كى تاريخ كا ذكر۱،۲; حضرت موسىعليه‌السلام كے قصے كا ذكر ۱،۲; بنى اسرائيل كى نجات كا ذكر۵;نعمت كا ذكر۶، ۷

ظالمين:۹ظلم:ظلم سے نجات كاسبب ۱۰

عورت:عورتوں كے زيادہ ہونے كے اثرات ۱۴; عورتوں كى اذيت كا پيش خيمہ۱۴

فرعون:فرعون كى استبدادى حكومت ۱۵; فرعون كاظلم ۱۵; فرعون كا سياسى نظام۱۵

فرعونى گروہ:فرعونى گروہ كى اذيتيں ۱۱; فرعونى گروہ كا بدترين ظلم وستم ۱۳; فرعونى گروہ كا اذيت وازار دينا ۹; فرعونى گروہ كے اذيت و ازار ۱۱، ۱۳، ۱۶;فرعونى گروہ كا ظلم ۹، ۱۱; فرعونى گروہ كے قتل ۱۲، ۱۳; فرعونى گروہ كے اذيت وازار سے نجات ۸، ۱۷; فرعونى گروہ كى خصوصيات ۱۱

گمراہي:گمراہى كے موارد ۱۵

مشكلات:اجتماعى مشكلات كا پيش خيمہ ۱۴

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كے تقاضے ۳،۵; قصہ موسىعليه‌السلام سے عبرت ۲; حضرت موسىعليه‌السلام اوربنى اسرائيل ۵

نعمت:ظالموں سے نجات كى نعمت ۷، ۱۹

ياددہاني:تاريخ بنى اسرائيل كى ياددہانى ۱; قصہ موسىعليه‌السلام كى ياددہانى ۱

۲۵

آیت ۷

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ )

اور جب تمھارے پروردگار نے ا علان كيا كہ اگر تم ہمارا شكريہ ادا كرو گے تو ہم نعمتوں ميں اضافہ كر ديں گے اور اگر كفران نعمت كروگے تو ہمارا عذاب بھى بہت سخت ہے_

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں كو اس بات كى ياد دہانى كرانے كے پابند تھے كہ جو بھى شخص شكرگذار ہوگا يقينا اس كى نعمت ميں اضافہ ہو گا اورجو بھى كفران نعمت كرے گا وہ شديد عذاب سے دوچار ہوگا_

و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

''و اذ تا ذّن '' ،''اذ قال'' پر عطف ہے كہ جس ميں '' اذكر''مقدر ہے جس كے مخاطب پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _

۲_حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كو خداوند متعال كے فرمان اورہدايات كو ياد ركھنے كى تاكيد كى كہ جو بھى شكرگذار رہے گا خداوند عالم اس كى نعمتوں ميں اضافہ فرمائے گا اورجو بھى كفران نعمت كرے گا وہ شديد عذاب ميں گرفتار ہوجائے گا_

اذكروانعمة الله عليكم ...و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

يہ مطلب اس نكتہ پر موقوف ہے كہ جب'' اذ تا ذّن''قول موسىعليه‌السلام ہو اور'' اذكروانعمة الله ''پر'' عطف ہو_

۳_ربوبيت الہى كا تقاضا يہ ہے كہ شكر كرنے كى صورت ميں نعمت ميں اضافہ كيا جائے اوركفران نعمت كى صورت ميں عذاب سے ڈرايا جائے_و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۴_خداوند متعال كى نعمتوں كا شكر بجالانا ايك ضرورى امر اورخاص اہميت ومنزلت كا حامل ہے_

و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم

شكر بجالانے كے بارے ميں خداوندمتعال نے خاص فرمان صادر كيا ہے جس سے شكر كى اہميت اورمنزلت كا پتہ چلتا ہے_

۵_ظالمانہ نظام سے نجات پانے كى نعمت پر شكر بجالانا اس نعمت ميں اضافے اوراس كے دوام كا باعث بنتا ہے اوراس كا كفران اس نعمت كے زائل ہوجانے كاانديشہ ہوتا ہے_

اذ ا نجكم من آل فرعون ...و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۲۶

۶_نعمت ميں اضافہ كرنا ،خداوند متعال كا كام ہے_لئن شكرتم لا زيدنّكم

۷_فرعونى گروہ كے ظلم وستم سے بنى اسرائيل كا نجات پانا ان كے لئے ايك بڑى نعمت تھى جس پر انھيں شكر بجالانا چاہئے تھا_اذ ا نجكم من آل فرعون ...و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم

''اذ تا ذّن ربّكم '' كاجملہ كلام موسىعليه‌السلام كا دوام ہے كہ جس كے ذريعے وہ بنى اسرائيل كو فرعونى گروہ كے چنگل سے نجات پانے كى ياددہانى كرا رہے ہيں حضرت موسىعليه‌السلام نے اس كلام كے ذريعے اشارتاً بنى اسرائيل كو ياد دہانى كرائي ہے كہ ان كا نجات پانا، نعمت خداوندى ہے جس پر انھيں شكر بجالانا چاہئے_

۸_قران كے تربيتى طريقوں ميں سے ايك نيك اورپسنديدہ عمل پراجرو ثواب عطا كرنے كى بشارت دينا اوربرے اعمال پر سزا وعذاب سے ڈراناہے_لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۹_نعمتوں كے كم يا زيادہ ہونے ميں انسان خود بنيادى كردار ادا كرتے ہيں _

لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۱۰_خداوند متعال كا عذاب بہت ہى شديد ہے_ان عذابى لشديد

۱۱_''قال ا بو عبدالله عليه‌السلام :ا يّما عبد ا نعم الله عليه بنعمة فعرفها بقلبه وحمدالله عليها بلسانه لم تنفد حتى يا مرالله له بالزيادة وهوقوله:'' لئن شكرتم لا زيدنّكم'' ;(۱) حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ جس بندے كو بھى خداوند عالم كوئي نعمت عطا كرے تو اگر وہ اسے اپنے دل سے پہچانے اوراس نعمت پر خدا كى زبان سے ستائش كرے تو ابھى اس كى حمدو ستائش ختم بھى نہيں ہوگى كہ خداوند اس كى نعمت ميں اضافہ كرنے كاحكم فرمائے گا اوريہ قول خداوند ہے كہ :'' لئن شكرتم لا زيدنّكم'' _

____________________

۱)تفسيرقمى ،ج۱،ص۳۶۸_ نورالثقلين، ج۲،ص۶ ۵۲، ح۱۲، ۱۵_

۲۷

۱۲_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام قال:فيماا وحى الله عزّوجلّ الى موسى عليه‌السلام يا موسى اشكرنى حق شكرى فقال: ياربّ وكيف ا شكرك حق شكرك وليس من شكر: ا شكرك به الّا وا نت ا نعمت به عليّ؟ قال:يا موسى الان شكرتنى حين علمت ا ن ذلك منّي ;(۱) حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ خداوند متعال نے حضرت موسىعليه‌السلام كو وحى كى كہ اے موسىعليه‌السلام جس طرح شكر ادا كرنے كا حق ہے اس طرح ميرا شكر بجا لاو _ حضرت موسىعليه‌السلام نے عرض كي:ميں تيرا شكر كس طرح بجا لاو ں كہ حق شكر ادا ہوجائے اوركوئي بھى ايسا شكر نہيں كہ جس كے ساتھ ميں تيرا شكر كروں سوائے اس كے كہ وہ شكر خود ايك نعمت ہے جو تونے مجھے عطا فرمائي ہے_ خداوند متعال نے فرمايا:اب جبكہ تم نے جان ليا ہے كہ (شكر گذارى كي) يہ نعمت ميرى طرف سے ہے تو پھر ميرا شكر بجا لاو _

۱۳_'' عن ا بى عبدالله عليه‌السلام قال:شكرالنعمة اجتناب المحارم وتمام الشكر قول الرجل الحمدلله ربّ العالمين ;(۲) اما م جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمايا:گناہوں سے پرہيز كرنا نعمت كا شكر ہے اورشكر كامل انسان كا ''الحمدلله ربّ العالمين''كہنا ہے_

۱۴_''عن الصادق عليه‌السلام : ...ان الكبائر كفران النعمة ''ولئن كفرتم ان عذابى لشديد'' ...;(۳) حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے گناہان كبيرہ كے بارے ميں فرمايا ...بتحقيق كفران نعمت گناہان كبيرہ ميں سے ہے(جيسا كہ خداوند كا فرمان ہے) :''ولئن كفرتم ان عذابى لشديد'' _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كا كردار ۶; الله تعالى كى ربوبيت كے اثرات ۳; الله تعالى كے عذاب كى خصوصيات ۱۰

انذار:انذار سزا كى ايم قسم ہے۸

انسان:انسان كا كردار ۹

بشارت:

____________________

۱) كافي،ج۲،ص۹۸،ح۲۷_بحارا لانوار، ج۶۸ ،ص۳۶، ح۲۲ _

۲)اصول كافي،ج۲،ص۹۵،ح۱۰_نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۵۲۹ ،ح۲۴_

۳)مناقب ابن شھراشوب،ج۴،ص۲۵۱، بحار الانوار ج۴۷ ، ص ۲۱۷ ،ح۴_

۲۸

بشارت كا اجروثواب ہونا ۸

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كو نصيحت ۲; بنى اسرائيل كى نجات ۷; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۷

تربيت:تربيت كا طريقہ ۸

حكومت:ظالمانہ حكومت ۵

حمد:حمد خدا كے اثرات ۱۱

ذكر:خدا كى نصيحتوں كا ذكر۲

روايت: ۱۱،۱۲، ۱۳، ۱۴

شاكرين:شاكرين كى نعمت كا زيادہ ہونا ۲۱

شكر:شكر نعمت كے اثرات۱،۲،۳،۵; شكر نعمت كى اہميت ۴; شكر كى حقيقت ۱۲; نعمت كا شكر ۱۲; شكر نعمت كى ضرورت ۴; شكر نعمت كا مطلب ۱۳

عذاب:اھل عذاب۱،۲; شديد عذاب ۱،۲، ۱۰; عذاب كے مراتب ۱، ۲، ۱۰; عذاب كے اسباب۱،۲،۳

عمل:پسنديدہ عمل كااجر ۸; ناپسنديدہ عمل كى سزا ۸

فرعونى گروہ:فرعونى گروہ سے نجات ۷

كفران:كفران نعمت كے اثرات ۱،۲،۳، ۵; كفران نعمت كے موارد ۱۴

گناھان كبيرہ:گناہان كبيرہ كے اثرات ۱۴

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كى ارزوئيں ۲

نعمت:نعمت كے زيادہ ہونے كے اسباب ۱، ۲، ۵، ۹، ۱۱; سلب نعمت كے اسباب ۵; نعمت كے كم ہونے كے اسباب ۹; مراتب نعمت ۷; نعمت كا شكر بجا لانا ۱۲;

ظالموں سے نجات كى نعمت ۵; عظيم نعمتيں

۲۹

آیت ۸

( وَقَالَ مُوسَى إِن تَكْفُرُواْ أَنتُمْ وَمَن فِي الأَرْضِ جَمِيعاً فَإِنَّ اللّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ )

اور موسىعليه‌السلام نے يہ بھى كہہ ديا كہ اگر تم سب اور روئے زمين كے تمام بسنے والے بھى كافر ہوجائيں تو ہمارا اللہ سب سے بے نياز ہے اور وہ قابل حمدو ستايش ہے _

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى رسالت كافريضہ ادا كرتے ہوئے بنى اسرائيل سے كہا كہ ان كا اورپورى زمين پر بسنے والے انسانوں كا كفرخداوند متعال كو كسى قسم كا نقصان نہيں پہنچا سكتا_

وقال موسى ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

'' ان تكفروا'' ميں '' ان''شرطيہ ہے اوراس كا جواب''لم يتضررھو''ہے كہ جو محذوف ہے اورجملہ'' فانَّ الله يَغَني'' محذوف جزائے شرط كى علت بيان كررہا ہے_

۲_بنى اسرائيل كا خيال تھا كہ خداوند متعال كو ان كے ايمان لانے يا كفر اختيار كرنے سے فائدہ ياضرر حاصل ہوتا ہے_

وقال موسى ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

۳_خداوند متعال كى نعمتوں كا كفران، اس كى ذات كو كسى قسم كاضرر ونقصان نہيں پہنچاتا_

ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعا

''ولئن كفرتم''كہ جس كا مطلب كفران (نعمت) تھا ،كے قرينے سے ''ان تكفروا '' سے مراد نعمات خدا كے مقابلے ميں ناشكرى ہوسكتى ہے_

۴_حضرت موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائيل كو نعمات الہى كے كفران سے منع كيا_

واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم ...وقال موسى ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعا

۵_نعمت كے شكر بجالانے كا فائدہ اوراس كے كفران كا نقصان ،خود انسان كو پہنچتاہے_

۳۰

لئن شكرتم لا زيدنّكم و ...ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

۶_خداوندعالم غني(بے نياز)اورحميد(قابل ستائش) ہے_فان الله لغنى حميد

۷_خداوندمتعال كا بے نياز اورقابل ستائش ہونا اس بات كى دليل ہے كہ لوگوں كے كفر اختيار كرنے سے اس كا كوئي نقصان اورضرر نہيں ہوتا_ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

''فان الله لغنى حميد ''محذوف جزائے شرط كى تعليل ہے اس صورت ميں اس كا معنى يہ ہوجاتا ہے:خداوند عالم كے بے نياز ہونے كى وجہ سے تمہاراكفر اسے كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتا_

اسماء وصفات:حميد ۶; غنى ۶

الله تعالى :الله تعالى كى بے نيازى كے اثرات ۷; الله تعالى اورانسانوں كا ايمان ۲; الله تعالى اورانسانوں كا كفر ۲،۷; الله تعالى كونقصان نہ پہنچنے كے دلائل ۷;الله تعالى ضرر سے محفوظ ہونا۱، ۳

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كى غلط سوچ ۲; بنى اسرائيل كا كفر ۱; بنى اسرائيل كونہى ۴

حمد :الله تعالى كى حمد ۷

خود:خود كو ضرر پہنچانا ۵

شكر:شكر نعمت كے فوائد ۵

عمل:عمل كے اثرات ۵

كفر:كفر كے اثرات ۱

كفران:كفران نعمت كے اثرات ۳; كفران نعمت كا نقصان ۵; كفران نعمت سے نہى ۴

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كے نواہى ۴

۳۱

آیت ۹

( أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ لاَ يَعْلَمُهُمْ إِلاَّ اللّهُ جَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّواْ أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُواْ إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ )

كيا تمھارے پاس اپنے سے پہلے والوں قوم نوح اور قوم عاد و ثمود اور جوان كے بعد گذرے ہيں اور جنھيں خدا كے علاوہ كوئي نہيں جانتاہے كى خبر نہيں آئي ہے كہ ان كے پاس اللہ كے رسول معجزات لے كر آئے اور انھوں نے ان كے ہاتھوں كو انھيں كے منھ كى طرف پلٹاديا اور صاف كہہ ديا كہ ہم تمھارے لائے ہوئے پيغام كے منكر ہيں اور ہميں اس بات كے بارے ميں واضح شك ہے جس كى طرف تم ہميں دعوت دے رہے ہو_

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كو نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود كى قوموں اوران كے بعد انے والى اقوام كے واقعات سے اگاہ كيا_الم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

مذكورہ بالا مطلب اس بات پرموقوف ہے كہ جب''ا لم يا تكم''كلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى كا دوام ہوجس ميں خداوند متعال نے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمايا:''ا نزلناه اليك ...واذ قال موسى ''

۳۲

۲_زمانہ بعثت كے لوگوں كاحضرت نوحعليه‌السلام ، عاد اورثمود كى قوم اوران كے بعد انے والى اقوام كى سرگذشت سے اگاہ ہونا_ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

''ا لم يا تكم '' ميں استفھام ،استفھام تقريرى ہے بنابرايں اس جملے ''كيا ان لوگوں كى خبر اپ تك نہيں پہنچي''كا معنى يہ ہوگا:يقينا ان كى خبراپ تك پہنچى ہے_

۳_نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود كى قوم كے بارے ميں خبر ايك انتہائي اہم اورسبق اموز خبر تھي_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

''نبا ''لغت ميں قابل اعتنا، مفيد اوراہم خبر كو كہا جاتا ہے مذكورہ بالا مطلب اس لئے اخذ كيا گيا ہے چونكہ گذشتہ اقوام كے عمومى ذكر''الذين من قبلكم'' كے بعد مذكورہ(تين)اقوام كو ذكر (ياددہاني)سے مختص كيا گيا ہے اوران كے بارے ميں كلمہ'' نبا '' كى تعبير اختيار كى گئي ہے_

۴_حضرت موسى نے اپنى قوم كو حضرت نوحعليه‌السلام ، عاد و ثمود كى قوم اوران كے بعد والى اقوام كى سرگذشت كى طرف متوجہ كيا_ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناء پرہے كہ جب ''ا لم يا تكم ''اس كلام موسىعليه‌السلام كے بعد ہوكہ جس ميں انھوں نے فرماياتھا:'' وقال موسى ان تكفروا ...''

۵_بنى اسرائيل قوم نوحعليه‌السلام ،عاد وثمود كے واقعات سے اگاہ تھے_ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

۶_حضرت موسىعليه‌السلام نے گذشتہ اقوام كى سرگذشت سے عبرت حاصل نہ كرنے پر اپنى قوم كى سرزنش كي_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود

۷_اہم تاريخى واقعات سے استفادہ كرنا، لوگوں كى تربيت كرنے كاايك طريقہ اورانھيں تاريكيوں سے نجات دلانے كاايك وسيلہ شمار ہوتا ہے_ا خرج قومك من الظلمت الى النور ...ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود

۸_گذشتہ اقوام كى تاريخى جزئيات سے مكمل اگاہى ركھنا فقط خداوند متعال ہى كا كام ہے_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم ...لا يعلمهم الّا الله

۹_سابقہ اقوام اورملل كى تاريخ كاكچھ حصہ ابہام كا شكار ہوچكا ہے جس تك رسائي فقط وحى كے ذريعے ہى ممكن ہے_

۳۳

والذين من بعدهم لا يعلمهم الّا الله

۱۰_حضرت نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود كى قوموں كے بعد كچھ ايسى اورملتيں بھى موجود تھيں كہ جن كے بارے ميں كسى قسم كى اطلاعات نہيں ملتيں _قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم لا يعلمهم الّا الله

۱۱_انبياءے الہى مختلف قوموں منجملہ قوم نوح وعاد وثمود كے درميان روشن اورواضح دلائل و براھين لے كر مبعوث ہوئے تھے_جاء تهم رسلهم بالبيّنات

۱۲_قوم حضرت نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود اوران كے بعد انے والى اقوام كے لئے اپنے مخصوص نبى تھے_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح ...جاء تهم رسلهم

۱۳_كافر اقوام ،انبياءے كرام كى طرف سے روشن دلائل ديكھنے كے بعد ان كا استہزا اوران كے سامنے واضح طور پراپنے كفر كا اظہار كرتى تھيں _جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

'' ا يديھم فى ا فوھھم''ميں موجودضمير كا مرجع ايت ميں مذكورہ ''اقوام ''ہے اوريہ عبارت كنايہ كے طور پر اس مطلب كى طرف اشارہ كررہى ہے كہ كافر قوميں اپنے منہ پر ہاتھ ركھ كر يا سيٹياں بجا كر اپنے انبياء كا استہزا كرتى تھيں _

۱۴_كافر قوميں جب انبياءے كرام كى طرف سے روشن دلائل ديكھتيں تو شدت سے غضبناك اورناراض ہو كراپنے كفراميز مو قف كا اظہار كرنے لگتيں _جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

'' ردّوا ا يديھم فى ا فوھھم ''سے مراد ،ان كے غضب وخشم كى طرف اشارہ ہے كہ جس كا دوسرى ايات ميں بھى ذكر كيا گيا ہے:(عضّوا عليكم الا نامل من الغيظ )_

۱۵_كافر قوموں نے انبياءے كرامعليه‌السلام كے روشن دلائل ديكھنے كے بعد انھيں خاموش ركھنے اوران كى تبليغ كو روكنے كے لئے وسيع پيمانے پر كوششيں شروع كرديں _جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

يہ مفہوم اس احتمال پر مبنى ہے كہ ''ردّوا ''كا فاعل مذكورہ اقوام ہوں اور'' ا يديھم '' كا مرجع ضمير انبياء يا اقوام ہوں اور''ا فوھھم '' كى ضمير كا مرجع انبياءعليه‌السلام ہوں اس صورت ميں اس كا مطلب يہ ہوگا كہ ان اقوام نے انبياء كے ہاتھوں يا اپنے ہاتھوں كو انبياءے كرامعليه‌السلام كے منہ پر ركھ ديا_

۱۶_كافر قوموں نے نہ فقط انبياءے كرامعليه‌السلام كى دعوت كا مثبت جواب نہيں ديا اوراس پر خاموش نہيں رہے بلكہ ان كے پيغام كے بارے ميں واضح طور پر اپنے كفر كا اعلان بھى كرديا_جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم

۳۴

فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

روح المعاني(ج۱۳،ص۱۹۴) ميں منقول ابوعبيدہ اوراخفش كے قول كے مطابق ''فردّوا ا يديھم فى ا فوھھم ''كى عبارت ان لوگوں كے لئے ضرب المثل كے طور پر استعمال ہوتى ہے جو كسى تقاضاكامثبت جواب نہيں ديتے اورخاموشى اختيار كرليتے ہيں _

۱۷_حضرت نوحعليه‌السلام ،عاد وثمود كى قوموں اوران كے بعد انے والى اقوام نے اپنے اپنے انبياءعليه‌السلام كى دعوت كے جواب ميں اعلان كيا كہ وہ ان كى تعليمات كے بارے ميں شك وترديد ركھتى ہيں _قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم ...جاء تهم رسلهم بالبيّنات ...وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به و انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

۱۸_قوم حضرت نوحعليه‌السلام ، عاد اورثمود كى اپنے انبياء كى دعوت كے بارے ميں ترديد ، بدبينى پر مبنى تھي_

انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

'' شك'' كے بعد '' مريب'' كا ذكر كرنا اگرچہ تاكيد كے لئے ہے ليكن ان دونوں كے درميان ايك قسم كا فرق بھى موجود ہے وہ يہ كہ ''ريب'' ميں شك بدبينى پرمشتمل ہوتا ہے_

۱۹_انبياءے كرامعليه‌السلام كى تعليمات كے بارے ميں كفر پيشہ اقوام كے شك وترديد كاسرچشمہ ان كا كفر(ہي) تھا_

قالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به و انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

۲۰_حضرت نوحعليه‌السلام ، عاد اورثمود كے زمانے كى كافر اقوام كے پاس اپنے انبياءعليه‌السلام كے روشن دلائل كے مقابلے ميں كوئي بھى دليل اوربرھان موجود نہيں تھي_قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم ...جاء تهم رسلهم بالبيّنات ...وقالوا انا كفرنا ...انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

۲۱_لوگوں كو ظلمت وتاريكى سے نور كى طرف لے جانے كے لئے قرانى تربيت وہدايت ايك طريقہ گذشتہ انبياءعليه‌السلام اوران كى قوموں كى سرگذشت و تاريخ بيان كرنا ہے_اخرج قومك من الظلمت الى النور ...ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمودوالذين من بعدهم ...جاء تهم رسلهم

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ياد دہانياں ۱

الله تعالى :الله تعالى اورتاريخ ۸;الله تعالى كے اختصاصات ۸; الله تعالى كا علم ۸

۳۵

الله تعالى كے رسول: ۱۲

انبياء :انبياء كى تعليمات كے بارے ميں بدبينى كے برے اثرات ۱۹; تعليمات انبياء كے بارے ميں شك كے اثرات ۱۹; انبياء كا استہزاء ۱۳; تاريخ انبياء كى اہميت ۲۱;انبياء كى بعثت ۱۱; انبياء كى روشن دليليں ۱۱، ۱۳، ۱۴، ۲۰; انبياء كى تاريخ ۱۱; انبياء كے دشمن ۱۵; انبياء كى دعوتيں ۱۶; تعليمات انبياء كے بارے ميں بدبينى ۱۸;تعليمات انبياء ميں شك ۱۷، ۱۸; انبياء سے كفر اختيار كرنے والے ۱۳، ۱۴، ۱۶; انبياء كى تبليغ كو روكنا ۱۵

بنى اسرائيل:تاريخ بنى اسرائيل سے اشنائي ۵; بنى اسرائيل اورقوم ثمود كى تاريخ۵; بنى اسرائيل اورقوم عاد ۵; بنى اسرائيل اورقوم نوح ۵; بنى اسرائيل كو ياددہانى ۴;بنى اسرائيل كى سرزنش ۶; بنى اسرائيل كا عبرت قبول نہ كرنا ۶

تاريخ:تاريخ كے فوائد ۷; تاريخ كے نامعلوم ادوار ۹، ۱۰

تربيت:تربيت كا طريقہ۷،۲۱

دين:دينى افات سے اگاہى ۱۹

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كى روشن دليليں ۱۱

عبرت:عبرت كے عوامل ۳

قران:قران كا ہدايت كرنا ۲۱

قوم ثمود:قوم ثمود كا بے منطق ہونا ۲۰; قوم ثمود كا پيغمبر۱۲; قوم ثمود كى بدبينى ۱۸; قوم ثمود كا شك ۱۷، ۱۸; قوم ثمود كى تاريخ سے عبرت ۳; قوم ثمود كا كفر ۲۰

قوم عاد:قوم عاد كى بے منطقى ۲۰; قوم عاد كا نبى ۱۲; قوم عاد كى بدبينى ۱۸; قوم عاد كا شك ۱۷، ۱۸; قوم عاد كى تاريخ سے عبرت ۳; قوم عاد كا كفر ۲۰

قوم نوح:قوم نوح كى بے منطقي۲۰; قوم نوح كا نبى ۱۲; قوم نوح كا بدبين ہونا ۱۸; قوم نوح كا شك ۱۷،۱۸; قوم نوح كى تاريخ سے عبرت ۳; قوم نوح كا كفر ۲۰

۳۶

كفر:كفر پر اصرار ۱۶

گذشتہ اقوام:گذشتہ اقوام كى بدبينى ۱۹;گذشتہ اقوام كے اثرات ۱۹; گذشتہ اقوام كا استہزاء كرنا ۱۳; گذشتہ اقوام كى تاريخ كى اہميت ۳، ۲۱; گذشتہ اقوام كى تاريخ ۱۰; گذشتہ اقوام كى سازش ۱۰; گذشتہ اقوام كى دشمنى ۱۵; گذشتہ اقوام كو دعوت ۱۶; گذشتہ اقوام كا شك ۱۷; گذشتہ اقوام كا غضب ۱۴; گذشتہ اقوام كا كفر ۱۳; گذشتہ اقوام كى ہٹ دھرمى ۱۳، ۱۴، ۱۶; گذشتہ اقوام كے كفر كا سرچشمہ ۱۹

گمراہي:گمراہى سے نجات كا طريقہ ۲۱; گمراہى سے نجات كا پيش خيمہ ۷

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگوں كا تاريخ سے اگاہ ہونا ۲; زمانہ بعثت كے لوگوں كا گذشتہ اقوام كى تاريخ سے اگاہ ہونا ۲; زمانہ بعثت كے لوگوں كا قوم ثمود كى تاريخ سے اگاہ ہونا۲;زمانہ بعثت كے لوگوں

كا قوم عاد كى تاريخ سے اگاہ ہونا ۲; زمانہ بعثت كے لوگوں كا قوم نوح كى تاريخ سے اگاہ ہونا ۲

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كى ياددہانياں ۴; موسىعليه‌السلام كى سرزنشيں ۶

نوحعليه‌السلام :نوحعليه‌السلام كى واضح دليليں ۱۱

وحى :وحى كا كردار ۹

ہدايت:ہدايت كا طريقہ ۲۱

ھودعليه‌السلام :ھودعليه‌السلام كى واضح دليليں ۱۱

ياد دہاني:گذشتہ اقوام كى تاريخ كى ياددہانى ۱،۴; قوم ثمود كى تاريخ كى ياد دہانى ۱،۴; قوم عاد كى تاريخ كى ياد دہانى ۱،۴; قوم نوح كى تاريخ كى ياد دہانى ۱،۴

۳۷

آیت ۱۰

( قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَـمًّى قَالُواْ إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ )

تو رسولوں نے كہا كہ كيا تمھيں اللہ كے بارے ميں بھى شك ہے جو زمين و آسمان كا پيدا كرنے والا ہے اور تمھيں اس لئے بلاتا ہے كہ تمھارے گناہوں كو معاف كردے اور ايك معينّہ مدّت تك زمين ميں چين سے رہنے دے تو ان لوگوں نے جواب ديا كہ تم سب بھى ہمارے ہى جيسے بشر ہواور چاہتے ہو كہ ہميں ان چيزوں سے روك دوجنكى ہمارے باپ دادا عبادت كيا كرتے تھے تو اب كوئي كھلى ہوئي دليل لے آئو_

۱_جب انبياءے الہى كو اپنى دعوت كے بارے ميں اپنى قوموں كى طرف سے شك وترديد كا سامنا كرنا پڑا تو وہ انھيں ايك ناقابل ترديد برھان سے قانع كرنے لگے_انا لّفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب _قالت رسلهم ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۲_ گذ_شتہ اقوام كے انبياءعليه‌السلام نے، خداوند متعال كے بارے ميں اپنى اقوام كے شك وترديد كا جواب دينے كے لئے ايك منفرد طريقہ اپنايا_انا لفى شكّ ممّا تدعوننا ...قالت رسلهم ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۳_روش سؤال قرآن كريم كے تعليمى طريقوں ميں سے ايك طريقہ ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۴_موجودات كائنات كے مخلوق ہونے كى طرف توجہ كرنے سے ، وجود خداوند كے بارے ميں كسى قوم كا شك وشبہ باقى نہيں رہتا_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

ايت ميں استفہام، انكار كے لئے ہے لہذا ايت كا معنى اس طرح ہوگا:''خداوند عالم كے اسمانوں اورزمين كے خالق ہونے كے بارے ميں كسى قسم كا شك نہيں چونكہ يہ مخلوق ہيں لہذا كسى خالق كے محتاج ہيں پس عقلى طور پر خداوند متعال كے وجود كے بارے ميں كوئي شك وشبہ باقى نہيں رہتا_

۳۸

۵_مخلوقات كا اپنى علت اورخالق كا محتاج ہوناايك بديہى اورناقابل ترديد چيز ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

خداوند متعال كا آسمان و زمين كے موجودات كى نسبت اپنى خالقيت سے ہر قسم كے شك كى نفى كرنا ايك (منطقي)قضيے پر مشتمل ہے كہ جس كے كبرى كو واضح اوربديہى ہونے كى وجہ سے (يہاں ) ذكر كرنے كى ضرورت نہيں ہے اور وہ يہ كہ ہر مخلوق (معلول)كو خالق(علت)كى ضرورت ہوتى ہے يہ ايك ايسى بات ہے كہ جس ميں كوئي بھى عاقل خواہ وہ كافر ہى كيوں نہ ہو،شك وترديد نہيں كرسكتا_

۶_ مخلوقات (معلول)كے ذريعے خالق(علت) كا پتہ چلانا(برہان انّ)انبياءے الہىعليه‌السلام كے ان براہين ميں سے ايك ہے كہ جس سے وہ خداوند متعال كے وجود كو ثابت كرتے تھے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

اسمانوں اورزمين كى نسبت خداوند كى خالقيت ميں شك وترديد كى نفى درحقيقت اس لئے كى جاتى ہے تاكہ لوگوں كو اسمانوں اورزمين كے مخلوق ہونے كى طرف متوجہ كيا جائے اوراس طرح وہ خالق كى طرف اپنے محتاج ہونے سے اگاہ ہوجائيں گے اوريہى '' برہان انّ'' سے استفادہ ہے_

۷_خداوند متعال اسمانوں اور زمين( كائنات) كاخالق ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۸_ زمين كا پھٹنا اوراس ميں سے زمينى موجودات كا نكلنا اوراسمان كا پھٹنا اوراس ميں سے اسمانى موجودات كا ظاہر ہونا، ايات خداوندى ميں شمار ہوتا ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

لغت ميں ''فاطر'' كا معنى پھاڑنے والے كے ہيں لہذا احتمال ہے كہ '' ّ فاطرالسموت والا رض'' سے مراد اس كا لغوى معنى ہو يعنى اسمان وزمين كا پھاڑنا اور ان ميں سے اسمانى وزمينى موجودات كو ظاہر كرناہے _

۹_ كائنات ميں متعدد اسمانوں كا موجود ہونا_فاطرالسموت

۱۰_خداوند متعال كا لوگوں كے بعض گناہوں كو بخشنے

۳۹

اوران كى اجل (موت) كو ايك معين مدت تك ٹالنے كى خاطر انھيں ايمان كى طرف دعوت دينا_

يدعوكم ليغفرلكم من ذنوبكم ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

۱۱_ ايمان كا فائدہ خود انسان كو ہوتا ہے_يدعوكم ليغفرلكم من ذنوبكم ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

۱۲_ انبياءے الہى كى دعوت، خداوند عالم ہى كى دعوت ہے_ممّا تدعوننااليه يدعوكم ليغفرلكم

۱۳_ خداوند عالم پرايمان، بعض گناہوں كى مغفرت اورطبيعى موت تك زندگى كے جارى رہنے كا سبب بنتا ہے_

يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

۱۴_ انسانوں كى دنيوى زندگى كے دوام ميں معنويات كا مو ثر كردار ادا كرنا_يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

'' يدعوكم '' سے مراد ايمان كى طرف دعوت بھى ہوسكتى ہے كہ جومعنويات ميں سے ہے اور اس كے نتائج ميں سے ايك ا جل (موت) كا اجل مسمّى تك ٹلنا ہے اس سے دنيوى زندگى پر معنويت كے مو ثر ہونے كا پتہ چلتا ہے_

۱۵_ انسان كى طبيعى موت سے پہلے اس كى موت كے واقع ہونے كاامكان_يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

خداوند متعال كا يہ فرمانا كہ وہ تمہيں دعوت ديتا ہے تاكہ تمہارى زندگى '' اجل مسمّى '' تك باقى رہے اس كا مطلب يہ ہے كہ طبيعى موت سے پہلے بھى موت اسكتى ہے_

۱۶_ ھدايت كرنے كے سلسلے ميں انبياءے الہى كے طريقوں ميں سے ايك مادى و معنوى اجر كے وعدے كے ذريعےلوگوں كى تشويق كرنا تها_يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

طولانى عمر سے مادى اورمغفرت سے معنوى اجر مراد ہے_

۱۷_ گذشتہ اقوام كے كفار اپنے انبياءعليه‌السلام كى منطقى دعوت كا مثبت جواب دينے كى بجائے ان كے بشر ہونے كے بہانے ،ان كى دعوت كو ردّ كر ديتى تھيں _قالت رسلهم ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض ...قالو ان ا نتم الّا بشر مثلنا

۱۸_كفار كا اعتقاد تھا كہ انسان مقام رسالت پر فائز نہيں ہوسكتاہے_قالو ان ا نتم الّا بشر مثلنا

كفار، انبياء كى طرف سے ايمان كى دعوت كے جواب ميں كہتے تھے:' 'ان ا نتم الّا بشر

مثلنا'' اس جواب سے پتہ چلتا ہے كہ ان كے اعتقاد كے مطابق بشر، نبى نہيں ہوسكتا_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

ظہور کے پر نور زمانے میں نہ صرف یہ دو عامل بلکہ جنایت و خیانت اور جرائم کے تمام عوامل نابود ہوجائیں گے اور نجات و سعادت کے عوامل فساد و تباہی کے عوامل کی جگہ لے لیں گے۔

قدرتمندوں اور دولت مندوں کی ایک اہم ذمہ داری فقیر اور ضعیف افراد کی مدد کرنا ہے تاکہ ان کے اقتصادی فقر کا جبران ہوسکے اور خود ان کی سرکشی اور ظلم کے لئے بھی مانع ہو جس کے نتیجہ میں تباہی اور فساد کے دو اہم عوامل برطرف ہوجائیں گے۔لیکن افسوس کہ ہم یہ اہم ترین ذمہ داری بہت سسی دوسری ذمہ داریوں کی طرح بھول چکے ہیں۔لیکن ظہور کے درخشاں زمانے میں اگر کوئی شخص کسی کی دستگیری اور مدد کرنا چاہے تو اسے ڈھونڈنے سے بھی کوئی فقیر نہیں ملے گا۔

ہم نے جو قابل توجہ نکتہ ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا میں جرائم کے عوامل میں سے فقر سے بڑا عامل ثروتمندوں اور قدرتمندوں کی اپنے مال میں اضافہ کی حرص و طمع ہے۔

کیونکہ مال دار افراد مال کو بڑھانے اور قدرت مند اپنی قوّت و طاقت کو بڑھانے کے لئے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔

حقیقت میں دوسرا سبب ،پہلے سے زیادہ وسیع ہے اور یہ پہلے سبب کے ساتھ شریک بھی ہے۔کیونکہ معاشرے میں فقر کے اہم اسباب میں ایک سبب ایسے صاحبِ ثروت افراد ہیں کہ جو اپنے سرمائے کو زیادہ کرنے کے لئے انتہائی پست قسم کے حربے آزماتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں بے تہاشا اضافہ فقر و تنگدستی کا باعث بنتے ہیں۔خاندانِ وحی و عصمت و طہارت علیھم السلام کے کلمات میں بھی اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔

اس امر پر بھی توجہ کریں کہ زمین کا کاروبار کرنے والے خود تو بنگلوں اور محلوں میں زندگی گزارتے ہیں  اور ہزاروں ایکڑاراضی پر قبضہ کرکے زمین کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ضرورتمند زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا خریدنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں۔

۸۱

اس بناپر بہت سے دولت مند اموال کو ذخیرہ کرکے نہ صرف فقر ایجاد کرتے ہیں بلکہ فقر میں اضافہ کا باعث بھی بنتے ہیں،جو بعض ضرورت مند افراد کے لئے جرم و فساد کے ارتکاب کا مقدمہ بنتا ہے۔اسی طرح مال میں اضافے کی خواہش ،اور ہوس ان کے ارتکاب جرم اور شرعی و عقلی اخلاقیات کو ترک کرنے کا بھی باعث ہے۔اب اس واقعہ پر توجہ کریں:

''خان مرد''تہران کے امیر ترین افراد میں سے تھا۔جس نے شہر میں مسجد و مدرسہ بھی تعمیر کروایا۔جو اب تک اسی کے نام سے مشہور ہے۔کہتے ہیں کہ خان مرد کے پرانے دوستوں میں  سے ایک ہر روز اس کے گھر کے سامنے لگے ہوئے چنا رکے درخت کے ساتھ کھڑا خان کے گھر سے نکلنے کا انتظار کرتا کہ شاید گھر سے نکلتے وقت وہ اس کی طرف دیکھے اور اس پر کچھ لطف و مہربانی کرے۔لیکن خان نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔جب خان اپنے منصب سے معزول ہوکر خانہ نشین ہوگیا تو اس کا یہ دوست اس سے ملاقات کرنے گیا۔

خان نے اس سے گلہ و شکوہ کیا کہ تم نے مجھے اتنی مدت تک یاد ہی نہیں کیا اور تم مجھ سے ملنے نہیں آئے۔اس شخص نے ہردن اس کے گھر کے سامنے آنے کا واقعہ بیان کیا تو خان نے کہا!میں اس وقت اپنے گھر کے سامنے لگے ہوئے چنار کے درخت کو نہیں دیکھتا تھا تو پھر تمہیں کیسے دیکھتا کہ جو اس درخت کے نیچے کھڑے ہوتے تھے۔(۱)

جی ہاں ! امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور سے پہلے ایسے بہت سے ثروتمند ہیں کہ جو دائرہ انسانیت سے ہی نکل چکے ہیں۔جو شرعی و عقلی اخلاقیات  کے ذریعہ بھی اپنے سرکشی و گمراہی کو کنٹرول نہیں کرسکے۔

--------------

[۱] ۔ دوازدہ ہزار مثل فارسی : ۴۳۲

۸۲

اس نکتے کو مد نظر رکھتے ہوئے اب یہ سوال پید اہوتا ہے کہ ظہور کے زمانے میں بے تحاشا دولت کس طرح سے ان کی سرکشی و گمراہی کا باعث نہیں بنے گی ۔ حالانکہ اس وقت دنیا بھر کے تمام افراد بے نیاز اور صاحبِ ثروت ہوں  گے؟

یعنی اگر یہ تمام منحوس اور برے آثار زیادہ دولت کی وجہ سے ہیں تو پھر ظہور کے زمانے میں لوگ کیوں اتنے سرمائے اور دولت کے مالک ہوں گے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ حلال طریقے سے حاصل ہونے والی ثروت میں کبھی بھی نحوست اور منفی اثرات نہیں ہوتے۔بلکہ ممکن ہے کہ وہ خیرات کا وسیلہ ہو۔لیکن یہ دولتمند اپنی دولت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ اگردولت خود بری ہوتی تو پھر سب دولتمند وں کو ایسا ہونا چاہیئے تھا ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔بلکہ بعض ثروتمند افراد نے معاشرے کی قابل قدر خدمت کی ہے۔ جنہوں نے بہت سے مستضعف اور غریب افراد کی مدد کی ہے۔خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین میں ایسے افراد کی مدح کی گئی ہے(اگرچہ دورِ حاضر میں ایسے افراد بہت کم ہیں)اور یہ ایسے ثروتمندوں کی کم عقلی کی دلیل ہے کہ جو ہمیشہ اپنی دولت میں اضافہ اور اپنے ورثاء کے لئے مال و دولت چھوڑ جانے کی فکر میں رہتے  ہیں۔ورنہ خود مال و دولت ایسا  ذریعہ ہے کہ جس سے انسان دشمن کو بھی اپنے قریب لاسکتا ہے اور بے گناہ افراد کا خون بھی بہا سکتا ہے۔

علاوہ ازاین !ظہور کے پر نور زمانے میں انسان معنوی تکامل اور فکری و عقلی رشد اور سعادت کی وجہ سے ہلاکت و گمراہی سے محفوظ رہیں گے۔

اس مبارک اور پر نور زمانے میں مال و دولت کی کثرت ہوگی۔لیکن اسے ذخیرہ کرنے اور اس میں اضافے کی خواہش نہیں ہوگی ۔اس وقت مال و دولت،سرمایہ اور کثیر نعمتیں ہوں گی۔لیکن ہلاکت اور گمراہی اور دین کی حدود کی پامالی نہیں ہوگی۔

۸۳

اس زمانے میں دنیا میں موجود تمام دولت (چاہے وہ زمین کے اندر چھپی ہوئی ہویا روئے زمین  پر) آنحضرت کے پاس جمع ہوگی۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ زمین کے سینے میں قیمتی پتھر،سونے چاندی اور دوسری بہت سی قیمتی اشیاء کے خزانے پوشیدہ ہیں؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ زمین نے اپنے اندر سونے کے پہاڑ چھپا رکھے ہیں؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ قدیم بادشاہ اور دولت مند حضرات اپنا بیش بہا سرمایہ زمین میں چھپاتے تھے؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ زلزلوں کی وجہ سے بہت بڑا سرمایہ زمین کیسینہ میں پنہاں ہے؟

ظہور کا زمانہ ، مخفی و پنہاں امور کے آشکار ہونے اور آگاہی کا زمانہ ہے۔ اس وقت زمین میں مخفی ثروت و سرمایہ آشکار ہوجائے گا ،جس سے ظہور  کے زمانے کے افراد استفادہ کریں گے۔

  کنٹرول کی قدرت

ہم نے جو کچھ ذکر کیا ،خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام   میں اس کی تصریح ہوئی ہے۔ ہماری اس بات کی شاہد حضرت باقرالعلوم  علیہ السلام  کی یہ روایت ہے:

'' یقاتلون واللّه حتی یوحّد اللّه ولا یشرک به شء و حتی یخرج العجوز الضعیفة من المشرق تریدالمغرب ولا ینهاها احد و یخرج اللّه من الارض بذرها،  وینزل من السّماء قطرها،و یخرج الناس خراجهم علی رقابهم الی المهدی ویوسع اللّه  علی شیعتنا و لو لا ما یدرکهم من السعادة لبغوا ''  (۱)

--------------

[۱]۔ بحارالانوار :ج ۲۵ص۳۴۵

۸۴

خد اکی قسم وہ جنگ کریں گے حتی کہ سب خدا کو یک و یکتا سمجھیں، اورکسی چیز کو اس کا شریک نہ جانیں ۔ حتی کہ ایک کمزور بوڑھی عورت مشرق سے مغرب کے قصد سے نکلے اور کوئی اسے اس کام سے نہ روکے۔

خدا وند زمین سے بیج کو خارج کرے گا اور آسمان سے بارش برسائے گا۔لوگ اپنے مال سے خراج نکال کر حضرت مہدی  علیہ السلام طرف لے کر جائیں گے ۔خدا ہمارے شیعوں میں اضافہ کرے گا ۔ اگر انہیں یہ سعادت حاصل نہ ہوتی تو وہ یقیناگمراہی و ہلاکت میں مبتلا ہوجاتے۔

جس طرح ثروت و فقر انسان کی سعادت کا سبب واقع ہوسکتے ہیں اسی طرح یہ ظلم و خیانت کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔یعنی فقر اور مال دونوں جرائم کی زیادتی میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔جیسا کہ یہ دونوں انسان کی سعادت کا وسیلہ بھی بن سکتے ہیں۔

مال میں اضافہ کی طمع و حرص سے بھی جرائم وجود میں آتے ہیںاور اس کی اہم وجہ غیبت  کے زمانے میں طمع و حرص کو کنٹرول کرنے کی قدرت کا نہ ہونا ہے۔

معاشرے کا مقام ِ ولایت سے آشنانہ ہونا اور انسان کا خاندانِ وحی علیہم السلام کے عظیم مرتبہ کی طرف توجہ نہ کرنا،اس سے سعادت کے چھن جانے کا باعث بنتا ہے۔ جو اسے مقامِ ولایت سے دور کردیتا ہے جو کہ قدرت و طاقت کو کنٹرول کرنے والا ہے۔

لیکن ظہور کے پر نور اورمبارک زمانے میں بشریت ولایت کی پناہ میں ہوگی اور پوری دنیا کے لوگوں کے سروں پر رحمت الہٰی کا سایہ ہوگا ۔جو انہیں حضرت مہدی  علیہ السلام کی الوہی ولایت کی قدرت سے محفوظ وکنٹرول کرے گا ۔اسی عظیم سعادت کی وجہ سے ظہور کے پر مسرّت زمانہ میں لوگوں کے مال میں چاہے کتنا بھی اضافہ ہوجائے، مگر وہ ان کی گمراہی و سرکشی کا باعث نہیں بنے گا۔

۸۵

جی ہاں!دنیا کے تمام لوگوں پر قدرت ِ ولایت کا سایہ ہونے کی وجہ سے وہ تمام قوّت وطاقت،قدرت و توان اور تمام امکانات و وسائل کواس کے زیر سایہ قرار دے کر خود کو کنٹرول کریں گے اور ظلم و زیادتی اورگمراہی و ضلالت سے دوررہیں گے۔

یہ وہی سعادت و خوش بختی ہے جس کی امام  باقر علیہ السلام نے روایت کے آخر میں  تصریح فرمائی ہے:

''و لو لا ما یدرکهم من السعادة لبغوا ''

زمانۂ ظہورکی خصوصیات میں سے ایک سب کے لئے کنٹرول کا ہونا ہے ۔ عصرِ ظہور میں مال و ثروت، قدرت  وطاقت جتنی بھی زیادہ ہوجائے پھر بھی سب کو ظہورِ ولایت کی وجہ سے سعادت و نیک بختی حاصل ہوگی ۔ سب میں حرص وطمع کو کنٹرول کرنے کی قدرت ہوگی ۔کیونکہ نعمتوں سے سرشار زندگی کے ساتھساتھ عقلی تکامل بھی ہوگا۔

اب امام صادق علیہ السلام  کی اس بہترین روایت پر توجہ کرتے ہیں۔

''  تواصلوا تبارّوا و تراحموا، فوالذی فلق الحبّة و برأ النسمة لیاتینّ علیکم وقت لا یجد احدکم لدیناره و درهمه موضعاً، یعنی لا یجد عند ظهورالقائم موضعاً یصرفه فیه لاستغناء الناس جمیعاً بفضل اللّه و فضل ولیه ''

فقلت:و انّی یکون ذالک؟

'' فقال:عند فقدکم امامکم فلا تزالون کذالک حتی یطلع علیکم کما تطلع الشمس،آیس ما تکونون،فایّاکم والشک والارتیاب،وانفوا عن انفسکم الشکوک و قد حذّرتکم فاحذروا، اسأل اللّه و ارشادکم ''(۲)

--------------

[۲]۔ الغیبةمرحوم نعمانی : ۱۵۰

۸۶

ایک دوسرے کے ساتھ مرتبط رہو اور آپس میں نیکی اور مہربانی کرو، اس کی قسم کہ جو دانے کو اگاتا ہے اور اس میں روح ڈالتا ہے۔یقینا تم لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ تم میں سے کسی کو دینار یا درہم کے  مصرف کرنے کی جگہ نہیں ملے گی یعنی حضرت قائم علیہ السلام کے ظہور کے زمانے میں کوئی ایسی جگہ نہیں ملے گی کہ جہاں اپنا پیسہ خرچ کیا جائے۔کیونکہ خداوند اور اس کے ولی کے فضل سے سب لوگ بے نیاز ہوجائیں گے۔

میں نے عرض کیا یہ کون سا زمانہ ہے؟

امام  نے فرمایا!جب تمہیں تمہارے امام نہیں ملیں گے تو ایسا ہوگا کہ تم پر ایسا زمانہ ظاہر ہوگا کہ جس طرح سورج طلوع کرتا ہے،یہ اس زمانے میں ہوگا کہ جس میں آنحضرت  کے ظہور کے زمانے سے زیادہ نا امیدی ہوگی۔

پس شک کرنے یا خود کو شک میں مبتلا کرنے سے پرہیز کرو،خود سے شک کو دور کرو ۔یقینا میں  نے تمہیں ڈرایا،پس تم اس سے ڈرو اور آگاہ ہوجائو۔ میں خدا سے تمہارے لئے توفیق وہدایت کی دعا کرتا ہوں۔

اس روایت میں دلوں کو یأس و نا امیدی اور شک سے دور رہنے کے بارے میں بہترین نکتہ بیان ہوا ہے کہ جس کی تشریح کیلئے مفصل بحث کی ضرورت ہے۔

اس روایت کا موردِ استدلال حصہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے  ظہور کا وہ نورانی اور مبارک زمانہ ہے کہ جس کے بارے میں امام صادقعلیہ السلام   نے فرمایا:

اس زمانے میں سب لوگوں کے بے نیاز ہونے کی وجہ سے کوئی ایسا نیاز مند نہیں ملے گا کہ ثروت مند اپنے مال سے جس کی مدد کرسکیں۔

۸۷

  دنیا میں ، ۸۰۰  ملین سے زائد بھوکے

اگر ہم اپنے زمانے کو ظہور کے درخشاں و منوّر زمانے سے مقائسہ کریں (کہ جب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کوئی نیازمند اور ضرورتمند نہیں ملے گا)تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارے موجودہ دور میں  پوری دنیا میں کروڑوں بھوکے افراد موجود ہیں جن کی فلاح و نجات کے لئے کوئی بھی مؤثر اقدام نہیں کیا گیااس بارے میں آپ اس رپورٹ پر توجہ کریں۔

عالمی بینک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ دنیا کے ایک ارب افراد دنیا کے اقتصاد کو چلا رہے ہیں ۔ دنیا کی %۸۰ آمدن ی ان سے مختص ہے۔حالانکہ دنیا کی بقیہ آبادی پانچ ارب ہے۔جو دنیا کی %۲۰    آمدن ی پر زندگی گزار رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں بھوکے افراد کی تعداد۱۸   مل ین سے بڑھ کر ،۸۴۲   مل ین تک پہنچ چکی ہے۔

اب پیرس کے ایک اخبار ''ونت مینوت''۱۶ اکتوبر  ۲۰۰۲ ء بروز بدھ ک ی رپورٹ ملاحظہ کریں:

دنیا میں  ہر چار سیکنڈ میں بھوک کی وجہ سے ایک انسان  ہلاک ہوتا ہے۔دنیا میں۸۴۰   مل ین افراد غذا کی وجہ سے پریشان حال ہیںاور ان میں سے۷۹۹ مل ین افراد ترقی پذیرممالک میں زندگی گزار رہے ہیں۔

دنیا کے۳۰ ممالک م یں  اضطراری حالت کا اعلان ہو چکاہے اور صرف افریقا میں۶۷ مل ین افراد کو فوری اور اضطراری مدد کی ضرورت ہے۔ایشیا میں %۲۰ ( ۴۹۶ مل ین)آبادی بھوک کی وجہ سے پریشان ہے۔

اقوام متحدہ کے  ذیلی ادارہ  برائے خوراک و زراعت کے مطابق روزانہ۲۴ ہزار افراد بھوک ک ی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔بھوک کی وجہ سے ہرسال پانچ سال سے کم عمرکے ساٹھ لاکھ بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

یہ تمام پریشانیاں ،بھوک،تنگدستی،بے روزگاری دنیا کے ممالک کی ناقص مدیریّت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

۸۸

اگر دنیا کی سیاسی شخصیات ان نقائص کے اسباب کو جان کر مخلصانہ طریقے سے انہیں ختم کرنے کی کوشش کریں تو دنیا میں اتنی زیادہ تعداد میں بھوکے افراد نہ ہوں۔

بھوک کی ایک بنیادی وجہ کمر توڑ مہنگائی اور قیمتوں میں بے تحاشااضافہ ہے۔بھوک کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے نرخوں میں اضافے کی روک تھام کے لئے مناسب اور فوری اقدام کرنا انتہائی ضروری ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک اس بارے میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی۔

اب ذرا ایران میں مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی یہ رپورٹ ملاحظہ کریں۔

سال

۵۷

۶۲

۶۷

۸۲

ملکی  آبادی

۳۵۰۰۰۰۰۰

۴۰۰۰۰۰۰۰

۴۶ ۰۰۰۰۰۰

۸۶ ۰۰۰۰۰۰

۸۹

نرخوں  میں  اضافہ

سال

یونجہ

جو

جوکھر

کھلی/کھل

دودھ

بچھڑازندہ

گائےزندہ

۵۷

۸۲

شرح  اضافہ

۸۳

۸

۱۲۰۰

۱۵۰گنا

۱۶ ۰۰

۷

۱۲۰۰

۱۷۲گنا

۱۵۰۰

۳

۶ ۲۰

۲۰۶ گنا

۹

۲۰۶

۱۸۰گنا

۲۷

۲۰۰۰

۷۲گنا

۲۱۰

۱۴۰۰۰

۶ ۷گنا

۱۵۰

۱۰۰۰۰

۶ ۷گنا

یہ دنیا کے ایک حصے میں اجناس کی قیمتوں کا چھوٹا سا نمونہ ہے۔ جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیاکہ۲۵ سال م یں ایران کی آبادی میں تقریباً دو گنا اضافہ ہوا ہے اور بعض اجناس کی قیمتوں میں تقریباً دو سو گنا اضافہ ہوا ہے۔اب اس تفاوت سے کم از کم یہ تو معلوم ہوگیا کہ آبادی نرخوں میں اضافے کا باعث نہیں ہے۔

قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ صرف ایران یا کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ مالک جیسے امریکہ،جاپان،کوریا بھی اس مسئلہ سے پریشان ہیں۔دنیا کے ہر ملک میں مہنگائی نے  غریب عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔

اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اس چیز کی دلیل ہے کہ ان کی اقتصادی سیاست نرخوں کو کنٹرول کرنے اور انہیں معتدل  رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔دنیا کے اقتصاد پر قابض ثروت مند افراد کو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے نہ تو کسی قسم کا دکھ ہوتا ہے اور نہ ہی غریب عوام پر رحم آتا ہے۔بلکہ وہ جان بوجھ کر اشیاء کے نرخوں میں اضافہ کرکے اپنے سرمائے میں کئی گنا اضافہ کرتے ہیں۔اب اس رپورٹ پر غور کریں۔

۹۰

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق تینارب سے زائد افراد دن بھر میںایک ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزار رہے ہیںاور ایک ارب افراد کی روزانہ کی آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔دنیا کی نصف آبادی غربت سے بھی نچلی سطح پرزندگی گزار رہی ہے۔اور تین ارب انسانوں کی روزانہ کی آمدنی تین ڈالر سے بھی کم ہے۔

اقوام ِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دھائی میں دنیا کے ۴۵ ممالک اور ز یادہ غریب ہوگئے۔۶ / ۴ ارب انسان یعنی تقریباً۸۰۰ مل ین افراد کو زندگی گزارنے کے لئے مکمل خوراک میسر نہیں ہے۔

یہ دنیا کے پریشان حال افراد کی وضع زندگی کا چھوٹا سا نمونہ تھا۔جسے ہم نے زمانِ غیبت کے مسائل سے آشنائی کے لئے ذکر کیااب ہم اس ذکر کو یہیں ترک کرکے اور ان پریشانیو ں اور غموں کو بھلا کر اس درخشاں زمانے کی توصیف کرتے ہیں کہ جس میں نہ تو کوئی ضرورت ہو گی اور نہ ضرورتمند ۔

۹۱

ایسا دن کہ جوبے تحاشا نعمتوں اور بے انتہا دولت سے سرشار ہو۔جس سے دنیا کے تمام نیازمند،بے نیاز ہوجائیں گے۔اس وقت دنیا میں۸۰۰ مل ین بھوکے افراد نہیں ہوں گے۔اس وقت کو اقتصادی بُحران نہیں ہوگا۔

عصرِ ظہور میں غربت اور تنگدستی کا نام و نشاں نہیں ہوگا۔حضرت بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام  کی حکومت دنیا کوجنت بنادے گی ۔پوری روئے زمین پر مسرت و شادمانی اور خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔

  نعمتوں سے سرشار دنیا

اب جب کہ نعمتوں سے بھرپور اور سرشار اس بے مثال زمانے کا تذکرہ ہوا ہے تو بہتر ہے کہ ہم اس بارے میں رسول اکرم(ص)   ک ی روایت کو نقل کریں:

'' تنعّم امتی فی زمن المهدی نعمة لم ینعموا مثلها قطّ،ترسل السماء علیهم مدراراً، و لا تدع الارض شیئا من النّبات الّا اخرجته،والمال کدوس،یقوم الرجل یقول:یامهدی اعطنی فیقول: خُذ ''  (۱)

میری امت کو مہدی  علیہ السلام  کے زمانے میں اتنی نعمتیں میسر آئیں گی کہ جو اسے پہلے کبھی نہیں ملی ہوں گی۔آسمان سے ان کے لئے مفید بارش برسے گی،زمین اپنے اندر چھپی ہر نباتات کو خارج کرے گی اس زمانے میں مال و دولت فروان ہوگی۔ایک شخص کھڑا ہوگا اور مہدی  علیہ السلام  سے کہے گا : مجھے عطا کرو۔تو کہیں گے :لے لو۔

یہ واضح ہے کہ روزِ نجات ،دنیا کے تمام مکاتب گمراہی سے نجات پا لیں گے۔پوری دنیا میں اسلام کا پرچم لہرائے گا۔جس کی وجہ سے اس زمانے کے تمام افراد رسول اکرم(ص)کی امت شمار ہوںگی۔اسی لئے رسول اکرم (ص)نے اس زمانے کے لوگوں کو ''امتی''یعنی میری امت سے تعبیر کیا ہے۔

--------------

[۱]۔ التشریف باالمنن:۱۴۹

۹۲

رسول اکرم(ص)ک ی امت یعنی ہماری دنیا کے لوگ اس روز خوشحال ہوں گے اور ان میں دوعمومی خصوصیات ہوں گی ۔تقوی و ایمان کہ جو اس زمانے سے پہلے کبھی موجود نہیں تھی۔سب ان دوخصوصیات کے مالک ہوں گے۔جس سے آسمان کے دروازے کھل جائیں گے اور لوگوں پر رحمتِ الہٰی کی بارش برسے گی۔

اس زمانے میں یہ دوعظیم معنوی خصلتیں کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہوں گی بلکہ سب ان سے بہرہ مند ہوںگے۔ان دو خصلتوں کے عام ہونے کی وجہ سے دنیا سے غضبِ الہٰی اٹھا لیا جائے گا اور لوگوں پر نعمتوں اور برکات کا نزول ہوگا۔

اس مطلب کے اثبات کے لئے ہم قرآن و سنت کا رخ کرتے ہیں۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

'' و لینزلنّ البرکة من السماء الی الارض حتی ان الشجرة لتقصف بما یرید اللّٰه فیها مناالثمرة،ولتأکلن ثمرة الشتاء فی الصیف و ثمرة الصیف فی الشتاء ، وذلک قوله تعالی ''وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَی آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَیْهِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالأَرْضِ وَلَکِن کَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُون ''  (۱)

یقیناًآسمان سے زمین کی طرف برکت نازل ہوگی ۔حتی کہ خدا درخت سے جو پھل چاہے،پیدا کرے گا۔گرمیوں کا پھل سردیوں اور سردیوں کا پھل گرمیوں میں کھائیں گے۔اسی لئے ارشاد پروردگار ہے:

اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین و آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ،لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔

اس آیت ا و رروایت میں بہترین نکات موجود ہیں کہ جن میں سے ہم بعض کو بیان کرتے ہیں:

--------------

[۱]۔ سورہ اعراف،آیت:۹۶۔بحاراانوار :ج ۵۳ص ۶۳

۹۳

۱ ۔آ یت کے اس جملے'' فَأَخَذْنَاه ُم بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُون'' میں فاء تفریعہ دلالت کرتا ہے کہ حقائق الہٰی کی تکذیب ،رسول ِ اکرم(ص)کے احکام پرعمل نہ کرنا اور انہ یں ردّ کرنا ،لوگوں کے لئے مؤاخذہ کا سبب بنا۔ان کے عمل کی وجہ سے لوگوں پر آسمانی برکات کا نزول بند ہوجاتا ہے اور بد بختی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

اس بناء پر ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ تمام جنایت و جرائم ،قتل وغارت،فساد اور بد امنی رسول ِ خدا کے فرامین سے روگردانی ان پر ایمان نہ لانے اور تقویٰ نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔

اگر لوگ ابتدا ء ہی سے خدا کے پیغمبروں کی تکذیب نہ کرتے،ان پر ایمان لے آتے اور ایمان کی بنیاد پر تقویٰ اختیار کرلیتے تو وہ کبھی بھی مصیبتوں،غموں اور بلائوں کے گرداب میں مبتلا نہ ہوتے۔

  زمانۂ ظہور میں برکت

۲ ۔ ظہور  کے زم انے میں ایمان و تقویٰ کی وجہ سے ان پر زمین و آسمان سے خدا کی برکات برسیں گی۔خدا کسی بھی درخت سے جس پھل کا بھی ارادہ کرے وہ اسی درخت سے پیدا ہوگا۔اسی طرح کوئی بھی پھل کسی خاص موسم سے مختص نہیں ہوگا۔گرمیوں میں درخت سردیوں کے پھلوں اور سردیوں میں گرمیوں کے پھلوں سے لدے ہوں گے۔

برکت کا مسئلہ ایک ایسی بڑی حقیقت ہے کہ جس کی وجہ سے ظہور کے بابرکت زمانے میں دنیا کا چہرہ ہی بدل جائے گا اور زمانِ ظہور میں برکتوں کے نزول کی وجہ سے لوگ غیبت کے زمانے کے سخت مصائب بھول جائیں گے۔

جیساکہ ہم نے کہا کہ اس وقت دنیا کا نیا روپ سامنے آئے گا۔پوری روئے زمین قدرت،طاقت،ثروت اور نعمتوں سے بھری ہوگی۔فقر و تنگدستی کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔اس منوّر زمانے میں ضعف،ناتوانی اور شکستگی کو شکست ہوجائے گی ان کی جگہ قدرت،توانائی اور خوشیاں آجائیں گی۔

۹۴

اس پُر مسرّت زمانے میں لبوں پر مسکراہٹیں اور دل شادی اور شادمانی سے  لبریز ہوں گے۔

ملائکہ کے توسط سے برکت وجود میں آئے گی ۔مادّی لحاط سے گندم کی پیداوار کے لئے اسے زمین میں بونے اور پھر اسے ہوا و پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن جو غیر محسوس امور سے آشنائی رکھتے  ہوں،ان کے لئے اشیاء کو ایجاد کرنا فقط عادی و طبیعی وسائل میں منحصر نہیں ہے۔بلکہ وہ غیر طبیعی طریقوں سے بھی طبیعی محصول کو ایجاد کر سکتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ خدا وند متعال نے مختلف کاموں کو وسائل و اسباب کی بنا پر قرار دیا ہے ۔لیکن اس وجہ سے ہمیں وسائل و اسباب میں اتنا مشغول نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم مسبب الاسباب کو ہی فراموش کردیںاور یہ گمان کریں کہ خدا وند کریم نے ایجاد  امورکے لئے جو اسباب قرار دیئے ہیں،وہ صرف مادّی یا ایسے امور میں منحصر ہیں کہ جن سے ہم آگاہ ہیں۔

۳ ۔ ظہور کے زمانہ م یں لوگ گمراہی و ضلالت سے نکل کر ہدایت پالیں گے۔یہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)کی عالمی حکومت اور اسلام کے عالمی دین ہونے کی دلیل ہے۔

دورِ حاضر کے برخلاف عصرِ ظہور میں دنیا کے سب لوگ رسولِ اکرم(ص) کے دستورات اور اسلام کے آئ ین پر ایمان لائیں گے اور تقویٰ اختیار کریں گے۔

یہ بدیہی و واضح ہے کہ رسول اکرم(ص) کے دستورات،مکتبِ اہلب یت علیہم السلام اور قرآن کی پیروی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے اور آنحضرت(ص) کا اجرِ رسالت فقط مودّت ذو ی القربیٰ ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے۔

۹۵

'' قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ'' (۱)

آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا ،علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو۔

دنیا کے تمام لوگوں کے عقلی تکامل کی وجہ سے زمانِ نجات میں سب لوگ رسولِ اکرم(ص)کے فرام ین کو قبول کریں گے اور خاندانِ وحی علیھم السلام     کی مودّت کو ادا کریں گے۔ مودّت اہلبیت علیہم السلام  سے ایسی محبت مراد ہے کہ جو ان کے نزدیک انسان کے تقرّب کا باعث بنے۔

''المودة ، قرابة مستفادة '' (۲)

مودّت سے قرب و نزدیکی حاصل ہوتی ہے۔

اس روایت کی بناء پر معاشرے میں ایمان و تقویٰ آسمانی دروازوں کے کھلنے اور برکاتِ الہٰی کے نزول کا سبب ہے۔پس اگر آغاز بعثت سے لوگ پیغمبراکرم(ص)کے احکامات کو قبول کرے اور خاندانِ عصمت و طہارت  عل یھم السلام کی ولایت سے ہاتھ نہ اٹھاتے تو آج دنیا گرانی و ضلالت اور تباہی و بربادی کا منظر پیش نہ کررہی ہوتی اور خداوند کریم آسمانی برکات اور عطائے نعمت سے دریغ نہ کرتا۔

لیکن افسوس کہ جہالت و گمراہی کی آستین سے ستمگروں کے ہاتھ باہر نکلے اور سقیفہ میں خلافت کا ایسا بیج بویا کہ جو بعد میں تن آور درخت کی صورت اختیار کرگیا۔جس کے نتیجہ میں ظلم و ستم اور اختلافات کی آگ بھڑک اٹھی کہ جس کے شعلے آج بھی بلند ہورہے ہیںاور جب تک آستینِ عدالت سے امام عصر کا ظہور نہ ہوجائے،تب تک یہ آگ روشن رہے گی۔اماممہدی علیہ السلام اپنے عدل اور رحمت سے اس آگ کو بجھائیں گے۔

--------------

[۱]۔ سورہ شوریٰ،آیت: ۲۳

[۲] ۔ بحارالانوار :ج۷۴ص۱۶۵

  دنیا کے روشن مستقبل کے بارے میں رسول اکرم (ص)ک ی بشارت

پیغمبر اکرم (ص)اس زمانے م یں آئندہ کے واقعات سے آگاہ تھے اور انہوں نے لوگوں کو فتنہ و فساد اور تباہی و بربادی سے آگاہ کیا تھا اورحضرت مہدی  علیہ السلام  کے ظہور تک اس کے تداوم کی خبر دی تھی۔جیسا کہ انہوں نے اس زمانے میں نعمتوں کی فراوانی اور دنیا کے بہتر اقتصاد کو بھی بیان کیا تھا۔ہم یہاں ظہور قائم آل محمد علیہ السلام  اور اس زمانے کے مستحکم اقتصاد کے بارے میں رسول اکرم(ص) ک ی بشارتوں کے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں۔

پیغمبر مقبول اسلا م(ص)نے فرما یا:

'' ابشّرکم بالمهدی یبعث فی امّتی علٰی اختلاف من الناس وزلازل فیملأ الارض قسطاََ و عدلاََ کما ملئت ظلماََ و جوراََ یرضٰٰی به ساکن السماء یقسّم المال صحاحاََ ''

قلنا:وما الصحاح؟

'' قال بالسویّة بین الناس ،فیملأ اللّه قلوب اُمّة محمد غنیٰ و یسعهم عدله حتّیٰ یأمر منادیاً فینادی:من له فی مال حاجة؟ ''

'' قال:فلا یقوم من الناس الا رجل،فیقول :انا ،فیقول له،انت السادنیعنی الخازنفقل له ،ان المهدی یأمرک ان یعطینی مالاً ''

'' فیقول له:احثیعنی خذ.حتّی اذا جعله فی حجره و ابرزه (ندم) فیقول:کنت اجشع امّة محمد نفساً او عجز عنّی ما وسعهم ؟ ''

'' قال فیردّه فلا یقبل منه،فیقال له،انا لا نأخذ شیئاً اعطیناه ''

میں تمہیں مہدی علیہ السلام   کے بارے میں بشارت دیتا ہوں ،جو میری امت میں بھیجا جائے گا کہ جب لوگوں میں اختلاف ہوگا اور زلزلے رونما ہورہے ہوں۔

پس وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے پُر ہوچکی ہوگی اس کام سے آسمان میں رہنے والے راضی ہوں گے۔

۹۶

مال کو صحیح طور پر تقسیم کرے گا۔

ہم نے کہا صحاح سے کیا مراد ہے؟

فرمایا:لوگوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کرے گا ۔پس خدا وند متعال رسول اکرم (ص) ک ی امت کے دلوں کو بے نیازی سے سرشار فرمائے گا۔اس کی عدالت سب کو احاطہ کرے گی۔یہاں تک کہ وہ منادی کو ندا کا حکم دے گا اور منادی ندا دے گا کہ ہے کوئی جسے مال کی احتیاج و ضرورت ہو؟

پس لوگوں میں  سے کوئی کھڑا نہیں ہوگا مگر ایک شخص اور وہ کہے گا !مجھے ضرورت ہے۔وہ اسے کہے گا کہ خزانہ دار کے پاس جائو اور اسے کہو کہ مہدی علیہ السلام نے حکم دیاہے کہ مجھے مال دو،خزانہ دا ر اسے کہے گا کہ لے لو۔ جب وہ اپنے لباس میں مال ڈالے گا تو وہ پشیمان ہوکر کہے گا۔میرا نفس امت رسول میں حریص ترین ہے اورکیا جس نے ان کو عطا کیا وہ مجھ کو عطا کرنے سے عاجز تھا۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ شخص خزانہ دار کو مال واپس دے دے گا ۔لیکن وہ اس سے مال واپس نہیں لے گا اور کہے گا !ہم جو چیز دے دیں وہ واپس نہیں لیتے۔

اس روایت میں اختلاف ، زلزلے ،پوری دنیا میں ظلم و ستم ،فقر،  تنگدستی اور ضرورت مندی کو امام عصر علیہ السلام  کے ظہور کی نشانیوں کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ حضرت ولی عصر علیہ السلام  کے ظہور کے  بعد ان سب کا خاتمہ ہوجائے گا اور روئے زمین پر عدل کا بول بالا ہوگا۔سب لوگ بے نیاز ہوںگے۔

۹۷

دوسری روایت میں رسول اکرم  (ص)فرماتے ہ یں:

''یحثی المال حثیاً لایعده عداً یملأ الارض عدلا کما ملئت جوراً و ظلماً ''  (۱)

وہ لوگوں کے سامنے مال ڈال دے گا اور اسے شمار نہیںکرے گا۔زمین کو عدالت سے بھر دے گا ۔ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔

  دنیا میں خوشیاں ہی خوشیاں

اسی طرح رسول اکرم (ص)ا س ح یات بخش زمانے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب دنیا میں ہر طرف خوشیاں ہوں گی۔

''یرضی عنه ساکن السماء و ساکن الارض ،ولا ندع السّماء من قطرها شیئاً الّا صبّته،ولا الارض من نباتها شیئاً الّا اخرجته حتیٰ یتمنّی الاحیاء الاموات''  (۲)

زمین وآسمان کے رہنے والے اس راضی ہوں گے۔آسمان بارش کے آخری قطرے تک کو برسا دے گااور زمین آخری دانہ تک کو باہرکر دے گی یہاں تک کہ اس وقت زندہ افراد آرزو کریں گے کہ کاش ان کے مردے بھی زندہ ہوتے۔

--------------

[۱] ۔ التشریف بالمنن:۱۴۷

[۲]۔ التشریف بالمنن: ۱۶۴

۹۸

اس بناء پر مسرت و خوشحالی صرف کرہ زمین پر بسنے ولاوں سے مخصوص نہیں ہے۔بلکہ ساکنینِ آسمان بھی آنحضرتسے راضی و خوشنود ہوں گے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضرت ولی عصر  علیہ السلام کی حکومت ایک عالمی حکومت ہوگی کہ جو آسمان و زمین پر بسنے والے تمام افراد کی رضائیت کو جلب کرے گی۔

قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ رسول اکرم(ص)ا یک دوسری روایت میںزمانِ ظہور کے بارے میں شادمانی و خوشحالی فقط انسانوں سے مخصوص نہیں سمجھتے ۔بلکہ فرماتے ہیں :

فرحت و مسرّت میں اس وقت کے حیوانات بھی شامل ہوں گے۔

رسول مقبول اسلام (ص)فرماتے ہ یں:

'' هو رجل من ولد الحسین کانه من رجال شنسوة،علیه عباء تان قطوا نیّتان اسمه اسمی،فعند ذلک تفرح الطیور فی اوکارها،والحیتان فی بحارها،و تمد الانهار،و تفیض العیون و تنبت الارض ضعف اکلها،تم یسیر مقدمته جبرئیل وساقته اسرافیل فیملأ الارض عدلاً و قسطاً کما ملئت جورا و ظلماَ '' (۱)

وہ حسین  علیہ السلام کے فرزندوں میں سے ایک مرد ہے۔گویا وہ شنسوة مردان میں سے ہے۔اس پر روئی سے بنی ہوئی دو عبائیں ہوں گی۔اس کا اسم میرا اسم ہے۔اس وقت پرندے اپنے آشیانوں میں اور مچھلیاںدریائوںمیںخوش ہوجائیں گی۔ نہریںبڑھ جائیںگئی اور چشمے جاری ہوجائیں گے۔زمین سے بہت زیادہ پھل اور نباتات پیدا ہوں گی۔پھرجبرئیل ان کے لشکر کی ابتداء اور اسرافیل درمیان میں سیر کرے گا۔وہ زمین کو عدل و انصاف سے پُر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے پُر ہوچکی ہوگی۔

--------------

[۱]۔ بحارالانوار:ج ۵۲ص ۳۰۴

۹۹

جی ہاں!جس لشکر میں جبرئیل و اسرافیل جیسے حاملین عرش شامل ہوں،وہ اہل زمین کی نجات کا ذریعہ ہوگا۔دوسری مخلوقات و موجودات کے لئے بھی خوشیوں کا باعث ہوگا۔وہ غاصبوں سے لوگوں کے حقوق لے گا اور مقروضین کے قرض ادا کرے گا۔چاہے وہ کوہ کی مانند بہت زیادہ ہو یا پھر کاہ یعنی تنکے کی مانند بہت کم ہے۔

مفضل نے اما م صادق  علیہ السلام  سے عرض کی:

'' یا مولای، من مات من شیعتکم و علیه دین لاخوانه ولاضداده کیف یکون؟

قال الصادق:اوّل ما یبتدی المهدی ان ینادی فیجمیع العالم ؛الا من له عند احد من شیعتنا دین فلیذکره،حتی یردّ التومة والخردلة فضلاً عن القناطیر المقنطرة من الذّهب والفضة والاملاک فیوفّیه ایّاه '' (۱)

اے میرے آقاو مولی!اگر آپ کے شیعوں میں سے کوئی مرجائے گا کہ جس پر بردرانِ مؤمن اور مخالفین کا قرض ہو تو کیا ہوگا؟

امام صادق  علیہ السلام نے فرمایا:مہدی علیہ السلام  سب سے پہلے جو کام شروع کریں گے،وہ یہ ہوگا کہ پوری دنیا میں منادی ند ادے گا:

آگاہ ہوجائو کہ جس نے بھی میرے شیعوں میں کسی کو قرض دیا ہو تو بتائے تاکہ سونا چاندی کے قناطیر مقنطرہ سے بھی زیادہ اس کے مالک کو دے دیا جائے۔

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۵۳ص۳۴

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300