صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں0%

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 79

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیۃ اللہ کریمی جہرمی
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 79
مشاہدے: 36780
ڈاؤنلوڈ: 4617

تبصرے:

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36780 / ڈاؤنلوڈ: 4617
سائز سائز سائز
صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں

     

مصنّف

آیۃ اللہ کریمی جہرمی

مترجم

سیّد حیدر علی زیدی مظفر نگری

۱

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم

ہدیہ     

                خود تجسس میں چلی آتی صراط مستقیم

                گر سمجھ لیتا زمانہ کاش کیا ہیں فاطمہ سلام اللہ علیہا

میں اپنی اس ناچیز کوشش کو ہدیہ کرتا ہوں مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور بنت پیغمبرﷺ حضرت فاطمہ زہرا صلواۃ اللہ علیہا کی خدمت میں کہ جنہوں نے نہ صرف محافظ اسلام و انسانیت  بلکہ صراط مستقیم کے حقیقی مصداق بچے اس دنیا کہ حوالہ کئے ۔اور کربلا کے ان تمام والدین کے نام کہ جنہوں نے ایسے بچے پال کر اس دنیا کو دے دیئے کہ جوامام برحق کے حکم سے اسلام اور انسانیت کو بچانے کیلئے صراط مستقیم پر  قربان ہو گئے اور  آج تک حق و باطل کے درمیان حد فاصل کا کام کر رہے ہیں ۔

اس التجا کے ساتھ کہ خدا وند عالم ان تمام والدین اور شہداء کے صدقہ میں اس زمانہ کے تمام والدین کو اپنے بچوں کی ایسی ہی تربیّت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم کو صراط مستقیم پر چلنے اور اپنے والدین کیلئے باعث عزت و سربلندی بننےکی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا ربّ العالمین

۲

انتساب

میں اپنی اس ناچیز کوشش کو اپنے مرحوم والدین سید اشفاق حسین زیدی  مرحوم ابن سید ذوالفقار حسین زیدی مرحوم اور سیدہ سردار فاطمہ زیدی مرحومہ بنت سید حامد حسین زیدی مرحوم اور برادر بزرگ سید محمد وصی مرحوم کے نام کرتا ہوں ۔

        جن کی دعائیں آج بھی میرے لئے سپر کا کام کر رہی اور جنکی ربوبیّت و شفقت آج بھی میرے لئے سائبان بنی ہوئی ہیں۔اور جن کی پاک پاکیزہ تربیت نے مجھکو محب اہلبیت علیہم السلام اور صراط مستقیم پر چلنے کے لائق اور قم جیسی مقدس سرزمین پر علوم آل محمد ﷺحاصل کرنے کا اہل بنایا ۔

۳

مقدمہ

قرٓن مجید میں کثرت سے استعمال ہونے والے الفاظ میں سے  ایک  صراط مستقیم  ہے۔ اور اس  کا قرآن مجید میں کثرت سے استمال ہونا ایک خاص اہمیت کی جانب اشارہ  کرتا ہے ۔

قرآنمجید میں صراط مستقیم کبھی سیدھے راستہ  کی ہدایت کی دعا، کبھی  اہم ترین سنگر {کہ جسکو شیطان منہدم کرنے کی تاک میں بیٹھا ہوا ہے } کے معنی میں استعمال ہواہے۔اور بعض مقامات پر قرآن مجید  میں صراط مستقیم کے ارکان اور مصادیق کو  بیان کیا گیا ہے  ۔جیسا کہ بعض ایسے لوگوں کے اسماء کا تذکرہ  کیا گیاہےکہ جن کی، اپنی لطف و مہر بانی سے،صراط مستقیم کی جانب ہدایت کی ہے ۔

اسی وجہ سے ہرسلیم الطبع اور پاک  و پاکیزہ فطرت رکھنے والاانسان صراط مسقیما پر رہنا پسند کرتا ہے ۔اس کے تذکرہ سے لطف اندوز اور اس راہ سے بھٹکنے پر اپنی ناراضگی اور پریشانی کا اظہار کرتا ہے اور اس گمراہی کو   اپنے لئے   ننگ و عار سمجھتا ہے ۔حقیقت میں اگر انسان  کبھی بھی اس راہ سے منراف ہواہوگا،  تو  وہ اپنے گذرے ہوئے کل کو یاد کرکے  بہت  نادم وپشیمان ہوگا ۔اور شاید جب تک وہ زندہ رہے گا گزرے دنوں کی یادیں اسکو  غمگین وپریشان کرتی رہیں گی ۔کہ اے کاش :میری زندگی میں اس طرح کے حالات  پیدا نہ ہوئے ہوتےاور میں اس راہ پر نہ چلا ہوتا اور ان برائیوں میں ملوّث اور غلط کام انجام نہ دئے ہوتے ۔

یہ دونوں باتیں اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ تمام  ادیان کے ماننے والےبالخصوص اسلام کے پیروکار صراط مستقیم کے متعلّق دقیق و عمیق مطالعہ کریں  اور مفہوم و مصداق کے اعتبار سے اس کی تحقیق کریں ۔بعض  اوقات  یہ کام ضروری اور مفید کاموں میں شمارہوتا ہے۔

۴

بیشک:قرآن کریم کے واضح ، زندہ ترین اورحیات بخش الفاظ میں سے ایک  صراط مستقیم بھی  ہے۔

صراط مستقیم ،ہر روشن ضمیر انسان کی آواز ہے ۔

صراط مستقیم ،ہر بیدار ضمیر اور حساس آدمی کا  کھویا ہوا سرمایہ ہے ۔

صراط مستقیم ، ہر روشن ضمیر مسلمان کی دلی خواہش اور آرزو ہے ۔

صراط مستقیم ،وہ ریسمان ہے کہ جس سے کروڑوںمسلمان  صبح و شام متمسک ہوتےاور خداوند عالم سے اس راستہ  کی درخواست کرتے ہیں ۔

صراط مستقیم ،وہ آرزو ہے جس کا مطالبہ { مادی ہویا  معنوی }خدا وند عالم کی بارگاہ میں سب سے زیادہ  کیا جاتا ہے صراط مستقیم ،تمام خوبیوں، اچھائیوں اور انسانی کمالات و ہدایت کا نچوڑ ہے ۔

صراط مستقیم ،ایک ایسا گران بہاموتی ہے کہ جس کو  انسانیت کے دشمن ، شیطان نے اپنا ہدف قرار دیا اوراعلان کیا کہ:

( لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقيمَ ) (16)(1)

میں تیرے سیدھے راستہ پر بیٹھ جائوں گا ۔اور تمام انسانوں کو  بہکا ئوں گا۔

شیطان کی حساسیّت صراط مستقیم سے ہے اور  وہ کوشش کرتا ہے کہ کسی بھی طرح بندگان خدا کو  اس راستے سے منحرف کردے ۔اس کتاب کے مباحث صراط مستقیم سے متعلّق ہیں اور اس آسمانی لفظ کے مختلف پہلووں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔

یہ کتاب ماہ رجب المرجب ۱۴۲۴ ھ  میں لکھی گئی  اور اب اسکو کئی سالوں کے بعدنظر ثانی کرکے  قارئین محترم کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

--------------

(1):- سورہ اعراف ،آیت

۵

اور مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے ہماری زندگی پر  ایک خاص اثر مترتب ہوگا اور قرآن کریم کی جانب  ایک نیاباب کھلے گا ۔اورہم ایک نئے زاویہ سےاس آسمانی کتاب کے بلند و بالا مفاہیم اور معارف الٰہی  سے آشنا  ہوں گے، ہم صراط مستقیم کے متعلّق  قرآن کریم کے واضح بیانات  کو دیکھیں گے ۔کہ کبھی انسان  گمراہی اور دوزخ کے راستہ کو  صراط مستقیم اور سیدھے راستہ کی شکل میں دیکھتا ہے یا یہ کہ شیطان اور اسکے عوامل اس طرح لوگوں کیلئے  اسکی جلوہ نمائی کرتے ہیں ۔

بہر حال ہم صراط مستقیم کے متعلّق قرآن مجید کے واضح اور روشن بیان کو مد نظر رکھ کر اور مصمّم ارادہ کے ساتھ اس راہ کی جانب حرکت کریں اور اِدھر اُدھرنہ بھٹکیں ۔  اورنتیجہ میں ابدی سعادت اور کمال انسانی تک پہونچ جائیں اور  خدا وند عالم کی رحمت  ورضا کو حاصل کر لیں ۔

والحمد لله اولا و آخرا و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین 

فروردین/ ۱۳۸۵

مطابق : ربیع الاول/ ۱۴۲۷

حوزہ علمیہ ،قم

علی کریمی جھرمی

۶

صراط مستقیم کی برتری وجدانی ہے

سلیم الطبع اور صحیح فطرت کا مالک انسان اس بات کا بہترین گواہ ہے کہ صراط مستقیم کو دوسری راہوں سے مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ، یہ راہ ،انسان کی نجات اور سعادت کی راہ ہے اور اسکے علاوہ جو کچھ بھی ہے اسکی ہلاکت اور انحطاط کا راستہ ہے قرآن کریم ضمیر کی یقینی آواز کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔

(وَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ وَ هُوَ كَلٌّ عَلى‏ مَوْلاهُ أَيْنَما يُوَجِّهْهُ لا يَأْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوي هُوَ وَ مَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ هُوَ عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(76)(1)

اور اللہ نے ایک مثال ان دو انسانوں کی بیان کی ہے ۔جن میں سے ایک گونگا ہے اور اس کے بس میں کچھ نہیں ہے ۔ بلکہ وہ خود اپنے مولا کے سر پر بوجھ ہے کہ جس طرف بھی بھیج دے کوئی خیر لیکر نہیں آئیگا ۔ تو کیا اس کے برابر ہو سکتا ہے جو عدل کا حکم دیتا ہے اور سیدھے راستہ پر گامزن ہے۔

(أَ فَمَنْ يَمْشي‏ مُكِبًّا عَلى‏ وَجْهِهِ أَهْدى‏ أَمَّنْ يَمْشي‏ سَوِيًّا عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(22)(2)

کیا وہ شخص جو منھ کے بل چلتا ہے وہ زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا جو سیدھے سیدھے صراط مستقیم پر چل رہا ہے ،

        آپ نے غور کیا کہ دونوں مقامات پر مطلب کو استفہام کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔اگرچہ اسکا استفہام انکاری صورت میں ہے ،ہر حال میں اس بیان کو خبر کی صورت میں بیان نہیں کیا گیا ہے ۔گویا فیصلہ کو پاک فطرت اور وجدان سلیم رکھنے والے اور بیدار مخاطبین کے حوالہ کر دیا گیا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ نحل آیۃ ۷۶:

(2):-سورہ ملک آیۃ ۲۲

۷

بیشک قرآن کریم کتاب فطرت ،کتاب دل، پاک و کاکیزہ ضمیر اورکتاب سلیم الطبع ہے۔ اور ہر وہ چیز کہ جوپاک سرشت انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں پنہاں و پوشیدہ ہے (یعنی وہ انسان کہ جو خواب غفلت میں نہیں پڑے ہوئے ہیں )کو بیان کرتا ہے  وجدان اور فطرت سالم اور ان کی خدا جوئی سے ہم آواز اور ھماھنگ ہے ۔اور کون سا روشن ضمیر اور حقیقت شناس انسان ہے کہ جو ایک گمراہ انسان کو ہدایت یافتہ اور با بصیرت انسان کی مانند قرار دے۔اور دونوں کو ایک دوسرے کے برابر و مساوی سمجھے؟

نہیں ؛ ہر گز وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔کیونکہ ان میں ایک باطل پر گامزن ہے اور نہ جانتے ہوئے بھی اسی پر آگے بڑھا چلا جا رہا ہے ۔اور دوسرا وہ ہے کہ جوحق اور انسانیت کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے ۔یعنی پہلاانسان ظلمت وگمراہی میں پڑا ہوا ہے اور دوسرا نور و ہدایت میں غرق، اور اطمینان و سکون اور کھلے ذہن کےساتھ اپنی نورانی ہدایت کو آگے بڑھاتا ہے ۔لہٰذا یہ دونوں ایک دوسرے کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟

صراط مستقیم کا آغاز کرنے والے

        صراط مستقیم اس سے پہلے کہ راہ کے خواہاں ،پاک و پاکیزہ اورخود یافتہ انسانوں کی راہ ہو۔خدا وند عالم ،افضل المرسلین  ﷺاور اولیاء الہی کی راہ ہے۔ قرآن کریم اس گفتگو کے ضمن میں (کہ جو حضرت ہودعلیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان ہوئی )ارشاد فرماتا ہے ، حضرت ہود  علیہ السلامنے ان سے کہا ۔

(إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَ رَبِّكُمْ ما مِنْ دَابَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِناصِيَتِها إِنَّ رَبِّي عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(56)(1)

میرا اعتماد پروردگار پر ہے جو میرا اور تمہارا سب کا خدا ہے اور کوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں ہے جسکی پیشانی اسکے قبضہ میں نہ ہو ۔میرے پروردگار کا راستہ بالکل سیدھا ہے ،

--------------

(1):- سورہ ھود اآیۃ ۵۶

۸

بیشک حضرت ہود علیہ السلام نے اپنے پروردگار کی کہ جوتمام عالمین کا پالنے والا ہے ؛ اسطرح تعریف کرتے ہیں کہ میرا پروردگار صراط مستقیم پر ہے یعنی اسکی راہ میں اور اسکے لئے کجی اور انحراف و لغزش نہیں ہے ۔اسی بنیاد پر آنحضرت  ﷺنے اپنے کاموں کو خدا کے سپرد کر دیااور اس پر توکل و اعتماد کرتے ہیں ۔ اور لوگوں کے درمیان معارف الٰہی کی تبلیغ و ترویج کیلئے کوشش کرتے ہیں اور اسی وجہ سے خدا وند متعال ہی موجودات اور کل کائنات کا حاکم علٰی الاطلاق ہو سکتا ہے کہ جو تمام چیزوں کے امور کو بہترین شکل میں چلا سکے۔قرآن کریم کے بیان کے مطابق پیمبرں اسلام ﷺصراط مستقیم پر ہیں ۔خدا وند عالم ان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے(يس (1)وَ الْقُرْآنِ الْحَكيمِ (2)إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلينَ (3)عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(4) (1)

یسین  [ای پیغمبر ] قرآن حکیم کی قسم ۔: آپ مرسلین میں سے ہیں اور صراط مستقیم پر ثابت اور استوار ہے ۔

چنانچہ آنحضرت(ص) کے دوسرے افتخار آمیز خطاب میں ارشاد فرماتا ہے(فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(43) (2)

لہذا آپ حکم کو مضبوطی سے پکڑے رہیں کہ جسکی وحی کی گئی ہے [قرآن کریم] کہ یقینا آپ بالکل سیدھے راستہ پر ہیں ۔

یہ افتخار صرف اس انسان کیلئے ہے کہ جو صراط مستقیم اور بالکل سیدھے راستہ پر ہو۔اور جس نے انحراف اور لغزش کے راستے پر قدم بھی نہ رکھا ہو ۔اور خطرناک اور حیرت آور راستوں کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو ۔وہ افراد کہ جنہوں نے صراط مستقیم پر قدم رکھا اور اسی راہ پر گامزن ہیں تو انہوں نے راہخدا کو انتخاب کیا اور پیمبر  اسلام ﷺ کی راہ کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔اور ان کی یہ حرکت خدا و رسولﷺکی جانب اور اور ان کی راہ پر گامزن  ہے ۔

--------------

(1):- سورہ یس آیۃ ۱،۲،۳،۴

(2):- سورہ زخرف ۴۳

۹

صراط مستقیم کی جانب ہدایت کرنے والے

        انسان اپنی پاکیزہ فطرت کی بنیاد پر صراط مستقیم کی تلاش میں اور اسکا خواہاں ہوتا ہے۔ لیکن اس کیمیائے سعادت تک پہونچنا بہت مشکل ہے۔ اسلئے کہ خطا کا امکان پایا جاتا ہے ۔اور غلط راہ اسکی نظر میں صراط مستقیم کی حیثیت سے جلوہ گر ہو سکتی ہے ۔اسی بنیاد پر وہ ہادی اور راہنما کا محتاج ہے ۔اور پہلے مرحلہ میں  اس طرح کی ہدایت کرنے والا خدا وند عالم اور اسکے پیمبرا ہیں ۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ۔

(وَ إِنَّ اللَّهَ لَهادِ الَّذينَ آمَنُوا إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ) (54)(1)

اور یقینا اللہ ایمان لانے والوں کو سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والا ہے ۔

یہ آیت صریحی طور پر بیان کرتی ہے کہصراط مستقیم کی جانب انسانوں کی ہدایت کی ذمہ داری خدا وند عالم کی ذات پر ہے ۔

لیکن یہاں پر صاحبان ایمان کیلئے صراط مستقیم کی جانب الٰہی ہدایت کو انہیں کا  خاصہ قرار دیا گیا ہے ۔اور اسکی دلیل شاید ان چیزوں میں سے کوئی ایک ہو۔

(1 ) وہ افراد کہ جو ہدا یت الٰہی سے بہرہ مند ہیں ،وہ مومنین ہیں کہ جو صراط مستقیم کی جانب ہدایت خدا وندی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور خدا وند عالم کی اس عظیم عطا کی مٹھاس کو محسوس کرتے ہیں ۔

(2 ) اہل ا یمان اگرچہ ہدایت یافتہ ہیں لیکنصراط مستقیم  کی جانب ہدایت کرنے کے مختلف مراتب ہیں ۔اور خدا وند عالم اپنے خاص لطف کے ذریعہ ابتدا سے آخری مرحلہ تک عروج عطا کرتا ہے ۔ اور اس طرح ہمیشہ صراط مستقیم  کی جانب انوار الٰہی سے استفادہ کرتے ہیں اور زیادہ ترقی حاصل کرتے ہیں ۔

--------------

(1):- سورہ حج آیۃ ۵۴

۱۰

اور قرآن کریم میں بھی ارشاد ہوتا ہے ۔

(وَ إِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(73)(1)

اور آپ انہیں سیدھے راستہ کی دعوت دینے والے ہیں۔

بیشک پیمبری اسلامﷺکہ جو رحمت اور لطف الٰہی کا عظیم الشان مظہر ہیں لوگوں کو صراط مستقیم کی جانب دعوت دیتے ہیں اور اسکی جانب ان کو لے جاتے ہیں ۔

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے ۔

(وَ إِنَّكَ لَتَهْدي إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ (52)صِراطِ اللَّهِ الَّذي لَهُ مافِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ أَلا إِلَى اللَّهِ تَصيرُ الْأُمُورُ) (53)(2)

اور بیشک آپ لوگوں کو راستہ کی طرف ہدایت کر رہے ہیں[۵۲]اس خدا کا راستہ جسکے اختیار میں زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہیں ۔

اگر پہلے والی آیت میں کلمہ(دعوت) استعمال کیا گیا تھا تو اس آیت میں لفظ اور عنوان دونوں ہی (ہدایت) کو قرار دیا گیا ہے ۔ اگرچہ پیمبر  اسلامﷺکی دعوت بھی اسکی ہدایت ہی ہے اور لوگوں کوصراط مستقیم کی جانب بلانا گویا ان کو اس راہ کی جانب ہدایت کرنا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ مومنون آیۃ ۷۳

(2):- سورہ شوری آیۃ ۵۲،۵۳

۱۱

صراط مستقیم کی جانب ہدایت کرنے کے لایق افراد

        اگرچہ خدا وند عالم کی جانب سےلوگوں کی طرف اسکا فیض جاری و ساری ہے ۔ اور صراط مستقیم کی جانب ہدایت منقطع نہیں ہوتی ہے ۔لیکن اس کے درمیان لوگوں کی قابلیب (قبول کرنے کی صلاحیّت) کی بھی شرط ہے اور اگر محل ہدایت (انسان کا دل)قابل(قبول کرنے کی صلاحیت ) نہ رکھتا ہوگا تو طبعی طور پر صراط مستقیم کی جانب ہدایت حاصل  نہیں کر سکتے ہیں اسکی وضاحت کیلئےان آیات پر غور و فکر کریں۔

( قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ يَهْدي مَنْ يَشاءُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(142)(1)

اے پیغمبر آپ کہدیجئے کہ مشرق و مغرب خدا کے ہیں وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کیہدایت دیتا ہے ۔

( وَ اللَّهُ يَهْدي مَنْ يَشاءُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(213)(2)

اور وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت کر دیتا ہے ۔

( مَنْ يَشَأِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَ مَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ) (39)(3)

اور خدا جسے چاہتا ہے یونہی گمراہی میں رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم پر لگا دیتا ہے ۔

(وَ اللَّهُ يَدْعُوا إِلى‏ دارِ السَّلامِ وَ يَهْدي مَنْ يَشاءُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ) (25)(4)

اللہ ہر ایک کو سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتاہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی ہدایت دے دیتا ہے۔

--------------

(1):- سورہ بقرہ، آیہ ۱۴۲

(2):- سورہ بقرہ،آیہ ۲۱۳

(3):- سورہ انعام ،آیہ،۳۹

(4):- سورہ یونس ،آیہ ،۲۵

۱۲

 (وَ اللَّهُ يَهْدي مَنْ يَشاءُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ) (46)(1)

اور اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے ۔

اب قابل غوربات یہ ہے کہ خدا وندمتعال جن افراد کو ہدایت دینا چاہتا ہے وہ افراد شائتہ ہدایت  ہوتے ہیں ۔اور خود چاہتے ہیں کہ صراط مستقیم پر چلیں اور راہنمائی حاصل کریں۔انہوں نے ہدایت کی متلاشی  فطرت کو ظالموں کے ہاتھوں فروخت کرکے خاموش نہیں کر دیا ہے ۔اور انہیں کے مقابل میںوہ افرادبھی ہیں کہ جنہوں نے اپنے ضمیر اور وجدان کو پامال کر دیا ہے ۔اور اپنے کانوں میں انگلیاں دے دی ہیں ۔تاکہ حق کی آواز کو نہ سنیں ۔اور حق و حقیقت سے رو گردانی کریں ۔ انکی آخری آرزو حیوانی غرائز کی تسکین ہے۔اوروہ اسکے علاوہ کچھ بھی نہیں سوچتے ہیں ۔خدا وند عالم اس طرح کے انسانوں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ۔ اور ان کو گرااہی میں ہی چھوڑ دیتا ہے ۔اور یہ بالکل اسی طرح صحیح ہے جیسے ایک کھیل کود میں زندگی بسر کرنے والا اور درس نہ پڑھنے والا طالب علم بالکل اسی بیکار طالب علم کی مانند کہ جس کو نہ پڑھنے اور درس کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے مدرسہ اور اسکول سے نکال دیا گیا ہو ۔ اور امتحان سے محروم کر دیا گیا ہو ۔ یہ کام اس سے بغض و عناد کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اسلئے ہے کہ اسنے اپنی طاقت و قوت اور صلاحیت کو کاہلی اور تباہکاری میں خرچ کر دیا ہے ۔طالب علموں اور اساتذہ کی نصیحتوں اور ہمدردیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے بلکہ ان کی مخالفت کو اپنا شعار بنا لیا ہے ۔ اس حقیقت کو نہ تنہا ان آیات سے جو بندوں کے تئیں ظلم کی نفی کرتی ہیں سمجھا جا سکتا ہے ۔بلکہ بہت سی آیات میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔اور خدا وند متعال بطور نمونہ ارشاد فرماتا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ نور ،آیہ ، ۴۶

۱۳

(قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَ كِتابٌ مُبينٌ (15)يَهْدي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ وَ يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَ يَهْديهِمْ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(16)(1)

تمہارے پاس خدا کی طرف نور اور کتاب آچکی ہے [۱۵] جسکے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے ہدایت کرتا ہے اور انہیں تارکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے [۱۶]

توجہ کریں کہ خدا فرماتا ہے

(يَهْدي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ )(2)

یعنی خدا وند عالم قرآن کی برکت اور اسکی روشنی میں ان لوگوں کی ہدایت کرتا ہے کہ جو رضوان الٰہی کی پیروی کرتے ہیں اور خدا وند متعال کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے در پے ہوتے ہیں ۔

        اگر اس آیئہ کریمہ کو پہلے والی آیتوں کے ساتھ ملائیں تو اس نتیجہ پر پہونچے گے کہ خداوند متعال جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی جانب ہدایتکردیتا ہے ۔اور یہ وہ افراد ہوتے ہیں۔ جورضائے خداوندی اور ذات لایزال کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔

1 س ی بنا پر ہوا و ہوس اور خواہشات کے پجاری کہ جنکی آرزو و حسرت خواہشات نفسانی کے حصول میں سمٹی ہوئی ہے اور وہ عناصر کہ جو حق اور خدا کے مخالف ہیں ہدایت الہی کے لیے شائستہ وہ لائق نہیں ہو سکتے ۔

دوسرے مقام پر خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے

--------------

(1):- سورہ مائدہ ، آیہ، ۱۶،۱۵

(2):-سورہ مائدہ، آیہ ،۱۶

۱۴

(وَ لَوْ أَنَّا كَتَبْنا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيارِكُمْ ما فَعَلُوهُ إِلاَّ قَليلٌ مِنْهُمْ وَ لَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا ما يُوعَظُونَ بِهِ لَكانَخَيْراً لَهُمْ وَ أَشَدَّ تَثْبيتاً (66)وَ إِذاً لَآتَيْناهُمْ مِنْ لَدُنَّا أَجْراً عَظيماً)(67)(1)

حالانکہ اگر یہ اس نصیحت پر عمل کرتے تو انکے حق میں بہتر ہوتا  اور انکو زیادہ  ثبات حاصل ہوتا اور ہم انہیں اپنی طرف سے اجر عظیم عطا کرتے  اور انہیں سیدھے راستے کی ہدایت بھی کردیتے ۔

  اس مقام ایمان اور کتاب آسمانی سے تمسک کو ہدایت کا مقدمہ قرار دیا گیا ہے ۔کتاب خدا کو مضبوطی سے تھامنا ہدایت کاسبب ہے اسی بنیاد پر اگر کسی نے کتاب خدا کو پس پشت ڈال دیا تو وہ ہر گز ھدایت الہی کے لائق نہیں ہے  ۔

صراط مستقیم کیلئے مشکلات

اس کائنات میںپائی جانے والی ہرچیزکے لئے کوئی نہ کوئی مشکل ہوتی ہے ۔بلکہ جتنی وہ فائدہ مند،قمیتی اور مئوثر  ہو۔ اسکیمشکلات اتنی ہی عظیم اور خترناک ہوتی ہیں۔لیکن کیا کوئی چیز صراط مستقیم سے زیادہ فائدہ مند اور قیمتی ہے ۔

ہر گز نہیں ؛ اسی بنیاد پر اسکی راہ میں مشکلات ہیں بلکہ اسکی مشکلات عظیم اور اعلیٰ درجہ کی خطرناک اور متحرک ہیں ۔اور اتنی آسانی سے دور ہونے والی نہیں ہیں ۔

صراط مستقیم کی رکاوٹ اور اسکی مشکل قرآن کریم کے بیان کے مطابق شیطان ہے کہ جو فعّال ،نہ تھکنے والا عامل اور تمام انسانیت کا دشمن ہے ۔اور ایک قسم خوردہ اور با ارادہ دشمن ہے کہ جس نے یہ ارادہ کر رکھا ہے کہ ہر صورت میں انسان کی راہ میں بیٹھ جائیگا اور اس کو صراط مستقیم پر چلنے سے روکے گا ۔   قرآن کریم نے اس مقام پر کہ جہان خدا اور شیطان کے درمیان گفتگو ہوئی ہے ارشاد فرماتا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ نساء ،آیہ، ۶۸،۶۷،۶۸

۱۵

(قالَ فَبِما أَغْوَيْتَني‏ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقيمَ (16)ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْديهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ أَيْمانِهِمْ وَ عَنْ شَمائِلِهِمْ وَ لا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شاكِرينَ) (17)(1)

اس نے کہا کہ پس جس طرح تونے مجھے گمراہ کیا ہے میں تیرے سیدھے راستہ پر بیٹھ جائونگا [۱۶] اسکے بعد سامنے پیچھے اور داہنے اور بائیں سے آئو نگا اور تو اکثریت کو شکر گذار نہ پائیگا ہے ۔

بیشک شیطان نے وعدہ کیا ہے کہ اور یہ دھمکی دی ہے کہ بندگان خدا کی راہ پر بیٹھ جائیگا ۔اور ان کو صراط مستقیم ،ہدایت پانے اور اس راہ پر چلنے سے روکے گا اوروہ صاف صاف کہتا ہے کہ ہر سمت اور ہر جانب سے انکو بہکانے آئونگا اور اوپر ،نیچے اور داہنے ،بائیں میں کوئی فرق نہیں کرتا ہے ۔

اور اس سے مراد یہ ہے کہ ہر جہت سے جیسے بھی ممکن ہوگا انکو صراط مستقیم سے دور رکھے گا اورہر طریقے سے انکو گمراہ کریگا ۔

     لیکن لوگوں کی زندگی ایک جیسی نہیں ہے بلکہ ان کی سطح فکر اور ثقافت مختلف ہوتی ہے۔ اور ہر ایک کے امکانات ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں ۔لہٰذا ان جھات و ابعاد کے اعتبار سے ہر ایک کے انحراف کیلئے مخصوص راہ کو اپناتا ہے۔ علماء کا شیطان عالم شیاطین ہیں  وہ جو ان کو ایک راہ کے ذریعہ اور بوڑھوں کو دوسری راہ کے ذریعہ اپنا اسیر بناتا ہے ۔ اور صاحبان دولت و حشمت کو مال و دالت کے ذریعہ سے اور فقیر و غریب کو فقر و تنگدستی کے ذریعہ سے بہکاتا ہے ۔ اور ان وسیلوں کے ذریعہ ان لوگوں کو صراط مستقیم ، تقوا اور ایمان سے دور کرتا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ اعراف ، ۱۷،۱۶

۱۶

صراط مستقیم کی ہدایت پانے والے

        اس حصہ میں ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہدایت یافتہ اور صراط مستقیم پر چلنے والے گروہ کو پہچانیں ۔تاکہ انکو اپنے لئے نمونئہ عمل اور آئیڈیل قرار دیں اور مطمئن ہو جائیں کہ ہم صراط مستقیم پر گامزن ہیں ۔

     جسوقت خدا وند عالم حضرت ابراہیم علیہ السلامکی خلت اور انکی شان و رفعت کے متعلق گفتگو کرتا ہے ۔اور انکے بیٹوں اور انکی ہدایت کے متعلق اشارہ کرتا ہے ۔مثلا نوح  علیہ السلام اور انکی ہدایت کو بیان کیا ہے ۔اور ان کی بعض ذریت مثلا حضرت دائود ، سلیمان،ایوب  ، یوسف  ، موسیٰ  ، ھارون  ،زکریا ، یحیٰی  ،عیسیٰ ، الیاس  ، اسماعیل  ، الیسع ، یونس   اور لوط   علیہم السلام کو شمار کرتا ہے اور انکے لئے فضائل اور امتیازات کو ذکر کرتا ہےاور اسکے بعدارشاد فرماتا ہے۔

(وَ مِنْ آبائِهِمْ وَ ذُرِّيَّاتِهِمْ وَ إِخْوانِهِمْ وَ اجْتَبَيْناهُمْ وَ هَدَيْناهُمْ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(1)

اور پھر باپ ،دادا، اولاد اور برادری میں اور خود انہیں بھی منتخب کیا اور سب کو سیدھے راستہ کی ہدایت کر دی ۔

چناچہ یہ بات واضح اور آشکار ہے کہ صراط مستقیم کے ہدایت یافتہ ابراہیم ،اسحاق ، یعقوب  ،اور نوح   اور دوسرے پیغمبر  ہیں جنکا نام لیا گیا ہے ۔اور خدا وند عالم نے صراط مستقیم کی جانب انکی ہدایت کی ضمانت لی اور تائید کی ہے ۔

    اور دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔

-------------

(1):- سورہ انعام، ۸۷

۱۷

(إِنَّ إِبْراهيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ حَنيفاً وَ لَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكينَ) (120)(شاكِراً لِأَنْعُمِهِ اجْتَباهُ وَ هَداهُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(121)(1)

ابراہیم ایک مستقل امت اور اللہ کے اطاعت گذار اور باطل سے کترا کر چلنے والےتھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے [۱۲۰] اور وہ اللہ کی نعمتوں کےشکر گذار تھے خدا نے انہیں منتخب کیا تھا اور سیدھے راستہ کی ہدایت دی تھی ۔

اس آیئہ کریمہ میں حضرت ابراہیم   ؑکا نام لیا گیا ہے ۔اور صراط مستقیم کی جانب ان کی ہدایت کے متعلق گفتگو کی گئی ہے ،گویا کہ ان کا نام استعمال کرنا اور ہدایت کے عظیم ترین نمونہاور مصداق کے عنوان سے ہے۔

تیسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔

(وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلى‏ مُوسى‏ وَ هارُونَ (114)وَ نَجَّيْناهُما وَ قَوْمَهُما مِنَ الْكَرْبِ الْعَظيمِ (115)وَ نَصَرْناهُمْ فَكانُوا هُمُ الْغالِبينَ (116)وَ آتَيْناهُمَا الْكِتابَ الْمُسْتَبينَ (117)وَ هَدَيْناهُمَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ) (118)(2)

اور ہم نے موسی اور ھارون پر بھی احسان کیا ہے [۱۱۴] اور انہیں اور ان کی قوم کو عظیم کرب سے نجات دلائی ہے [۱۱۵] اور ان کی مدد کی ہے تو وہ غلبہ حاصل کرنےوالوں میں ہو گئے ہیں [۱۱۶] اور ہم نے انہیں مطالب والی کتاب عطا کی ہے [۱۱۷] اور دونوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت بھی دی ہے [۱۱۸]

--------------

(1):- سورہ نحل ،آیہ، ۱۲۱،۱۲۰

(2):- سورہ صافات ،آیہ ۱۱۴تا ۱۱۸

۱۸

   یہاں پر جناب موسیٰ و ھارونعلیہما السلام کا نام لیا گیا ہے اور ان کو جو چیزیں عطا کی گئیں ہیں ان میں سے ایک صراط مستقیم بھی شمار کی گئی ہے ۔اور سیدھے راستہ کی جانب ہدایت کی گئی ہے ۔بیشک صراط مستقیم کی جانب ہدایت پائے جانے والے حضرت ابراہیم ،حضرت موسیٰ اور جناب ھارون ہیںجو کہ امر نبوت اور لوگوں کو خدا کی جانب دعوت دینے میں حضرت موسیٰ  کے معاون اور شریک کار ہیں ۔

اس بیان سے ہم اس نتیجہ تک پہونچتے ہیں کہ صراط مستقیم پر قدم رکھنا گویا اسی راہ پر قدم رکھنا ہے کہ جس پر حضرت ابراہیم  ، موسیٰ  ، عیسیٰ  ، زکریا  ،یحیی  ، یوسف ، یعقوب و دیگر اولیاءعلیہم السلام اور بزرگان انسانیت نے قدم رکھا ہے ۔اور صراط مستقیم پر چلنا گویا انبیاء اور پیامبران الٰہی کی پیروی اور انکی راہ کو آگے بڑھانا ہے اور جو اس راہ پر چل رہے ہیں اور انبیاء اور پیامبران الٰہی کے قدم بقدم اور ہمراہ ہیں ۔ان لوگوں کے   مقابلہمیںکہ جو صراط مستقیمسے بہت دور ہیں ۔اور اس سے الگ ہو کر نمرود اور نمرودیوں ،فرعون اور فرعونیوں اور دیگر کفر، ضلالت ،انحراف،بدی ،ستمگری،ناپاکی و فسادکے راہنمائوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔فساد کے عناصر اور بدی و شرارت کے جراسیم کے ہماہنگ ہو جاتے ہیں اور ان کی راہ کو آگے بڑھاتے ہیں ۔اور نتیجہ میں جابروں اور خائنوں کے گروہ میں شامل ہو کر شرک و کفر، ظلم و خیانت کا مصداق بن جاتے ہیں ۔اور یہ لوگ بھی انہیں کے ساتھ محشور کئے جائیں گے۔

سب کی دائمی دعا ،صراط مستقیم کی ہدایت

        قرآن کریم میں بہت سی دعائیں ذکر ہوئی ہیں اور اسلام کے پیرو کاروں کو تعلیم دی گئی ہے کہ ان کے وسیلہ سے خدا وند متعال سے مناجات کریں ۔ اور اسکی بارگاہ میں اپنی مناجات اور ضروریات کو پیش کریں اور ان پر برکت دعائوں میں سے یہ جملہ بھی ہے ۔

۱۹

(ادنا الصراط المستقیم)(1)

خدا یا :ہم کو سیدھے راستہ کی ہدایت فرما۔

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن کریم کی دوسری دعائوں کا پڑھنا لازم نہیں ہے ۔ اس دعائے مقدس کے بر خلاف کہ جس میں صراط مستقیم کی جانب ہدایت طلب کرنے کی دعا کو لازم قرار دیا گیا ہے ۔اور بندگان خدا کو چاہئے کہ وہ خدا وند عالم کی بارگاہ میں ہدایت کی درخواصت کریں ۔بیشک:یہ جملئہ مبارک ،سورہ حمد کی آیات میں سے ہے کہ جو نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں پڑھا جاتا ہے اور عمدا اسکا ترک کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے ۔اس ترتیب سے ہر مسلمان دن و رات چوبیس گھنٹے میں کم از کم دس(10 ) مرتبہ اس جملہکواپن ی زبان پر جاری کرتا ۔اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب چار رکعتی نماز کی تیسر اور چوتھی رکعت میں اور تین رکعتی نماز کی تیسری رکعت میں تسبیحات کی جگہ سورئہ حمد نہ پڑھی جائے(2) وگرنہ اس سے زیادہ ہو جائے گی۔

صراط مستقیم کی جانب ہدایت کی عظمت و اہمیت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر مسلمان دن و رات میں خدا وند عالم سے ہدایت کی درخواصت کرتا ہے ۔اور خضوع و خشوع کے ساتھ نماز کی حالت میں خدا کی باگاہ میں دعا کرتا ہے کہ صراط مستقیم کی جانب ہدایت فرما ۔اگرچہ تمام ہدایت یافتہ ہیں ۔اور اسی بنیاد پر نماز پڑھ رہے ہیں ۔اور خدا کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں۔لیکن انسان ہر حالت میں ہدایت الٰہی کا محتاج ہے کہ اگر یہ عظیم نعمت اس سے چھین لی جائے تو ہلاک ہو جائے گا ۔

--------------

(1):- سورہ فاتحۃ ،آیہ ۶

(2):- یہ عمل فقہی اعتبار سے صحیح ہے۔

۲۰