صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں0%

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 79

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیۃ اللہ کریمی جہرمی
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 79
مشاہدے: 36794
ڈاؤنلوڈ: 4620

تبصرے:

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36794 / ڈاؤنلوڈ: 4620
سائز سائز سائز
صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں

صراط مستقیم قرآن کی روشنی میں

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خدا وند متعال صحیح ناپ تول کے لئے محل بحث آیت میں ارشاد فرماتاہے ۔

(وَ أَوْفُوا الْكَيْلَ وَ الْميزانَ بِالْقِسْط )

اور سورہ اسراء میں ارشاد فرماتا ہے(وَ أَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ وَ زِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقيمِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ تَأْويلاً) (35) (1)

اور جب ناپو تو پورا ناپو اور جب تولو  تو صحیح ترازو سے پورا پورا تولو کہ یہی بہتری اور بہرین انجام کا ذریعہ ہے ۔

اور حضرت شعیب علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کی داستان میں بھی فرماتا ہے ۔

(وَ إِلى‏ مَدْيَنَ أَخاهُمْ شُعَيْباً قالَ يا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ ما لَكُمْ مِنْ إِلهٍ غَيْرُهُ وَ لا تَنْقُصُوا الْمِكْيالَ وَ الْميزانَ إِنِّي أَراكُمْ بِخَيْرٍ وَ إِنِّي أَخافُ عَلَيْكُمْ عَذابَ يَوْمٍ مُحيطٍ (84)وَ يا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيالَ وَ الْميزانَ بِالْقِسْطِ وَ لا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ وَ لا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدينَ) (85) (2)

اور ہم نے مدین کی طرف انکے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نےکہا کہ اے  قوم اللہ کی عبادت کر کہ  اسکے علاوہ تیرا کوئی خدا نہیں ہے اور خبردار ناپ تول میں کمی نہ کرنہ  کہ میں تمہیں بھلائی میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے بارے اس دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب کو احاطہ کریگا ۔{۸۴}اے قوم ناپ تول میں انصاف سے کام لو اور لوگوں کو کم  چیزیں مت دو اور روی زمین میں فساد مت پھیلا تے پھرو ۔{۸۵}

--------------

(1):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۵

(2):- سورہ ھود ،آیۃ ۸۵،۸۴

۶۱

ان آیات سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ شھر مدین کے لوگ دو گناہوں کر مرتکب ہوئے  تھے ۔ایک اللہ تعالی کا شرک اور دوسرے کم فروشی ۔ حضرت شعیبؑ انکے شرک سے مبارزہ کے ساتھ ساتھ انکے درمیان رائج کم فروشی سے جنگ کرتے ہیں ۔ ہم قرآن کے اس نکتہ سے ناپ  تول میں گناہ کی اہمیت کو پہچان سکتے ہیں ۔

 اور دوسرے یہ کہ حضرت شعیبؑ ان دو بڑے گناہوں کی وجہ سے اس دنیا میں سب کو گھیر لینے والی بلا کے نزول کے دن سےبے چین تھے ۔اور آخر کار چونکہ قوم نے اس مرد الہی کی خیر خواہی اور ارشادات پر کوئی توجہ نہیں دی {یا قبول نہیں کیا } عذاب الہی ان پر نازل ہوا۔ یا دوسری صریحی آیات کے مطابق آسمانی عذاب {بجلی} نے ان کو گھیر لیا اور زمین کے زلزلوں سے دوچار ہو ئے۔ اور بھی بہت سی دوسری آسمانی بلائیں ان پر نازل ہوئیں ۔

ایک کم فروش کی جان کنی کا ہولناک قصہ

        مر حو م برغا نی نقل کر تے ہیں کہ مالک دینا ر کہتے ہیں کہ :میرا پڑو سی بیما ر ہو ا اور میں اس کی عیا دت کے لئے گیا تووہ حا لت احتضا ر میں تھا اور فر یا د کر رہا تھا {دو آگ کے پہا ڑ میری جان لینا چا ہتے ہیں }میں نے کہا :یہ فقط وہم و گما ن ہے ۔اس نے سنا اور کہا :{نہیں بلکہ عین حق ہے۔ کیو نکہ میں دو پیما نے {ترا زو }رکھتا تھا ۔ایک سے کم دیتا تھا۔ اوردوسرے سےزیادہ لیتا تھا اوریہ اسی کا نتیجہ ہے }(1)

اختتا م بحث میں اس موضو ع سے متعلق دوبا توں کو بیان کر نا ضروری ہے ۔جس طرح نا پ ،تو ل میں عدا لت کی رعا یت کرنا چا ہئے اور جنس و متا ع کو مکمل اور بغیر کمی کے دینا چا ہئے۔ اسی طرح متا ع کو بھی معمو لی قیمت سے زیادہ خریدا ر کونہیں دینا چاہئے ۔

--------------

(1):- مجالس المتقین ،ص ۱۰۵

۶۲

اگر چہ وہ انسا ن کہ جو مالک ہے اس کو یہ حق ہے کہ اپنی چیزکو نہ بیچے یا اپنی چیز کو بہت زیا دہ مہنگی بیچے۔ لیکن انصاف اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس طرح نہ کرے۔ اور اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جنس کی ایک ایسی قسم کو کہ جس کی قیمت کم ہو اس کو نفیس تر اور بہتر چیز کے بدلے بیچے ۔ اوریہ کام خریدار پر مال کا چھپانا ہے ۔

ایک ذمہ دار لباس فروش کا واقعہ

        مصر کے مشہور مصنفقطب نقل کرتا ہے کہ یونس ابن عبید ایک معمولی انسان اور لباس فروش تھا وہ لباس کہ جن کو وہ بیچتا تھا وہ دوقسم کے لباس تھے۔ ایک دو سو درہم والا،دوسرا چار سو درہم والا ۔ایک دن اس نے اپنے بھتیجے کو اپنی جگہ بٹھا دیا ۔اور نماز پڑھنے کے لیے مسجد چلاگیا۔

اسی دوران ایک عربی آیا اور اس نے ایک لباس کہ{ جس کی قیمت تقریبا چار سو درہم ہوتی تھی }کو منگایا ۔توبچہ نے ایک دوسودرہم والا کپڑا اس کو دیکھایاتو مرد عرب نے اس کو پسند کرلیا اور چار سو درہم اس کو ادا کیا ۔

یونس کہ جو مسجد سے پلٹ رہاتھا راستے میں اس شخص سے ملاقات ہوگئی اورجیسے ہی اس نے کپڑے کو دیکھا سمجھ گیا کہ اس کی دوکان سے خریدا گیا ہے ۔سامنے آیا اور اس عرب سے پوچھا ؛یہ کپڑا کتنے کا خریدا ہے ؟

عرب نے جواب دیا :چارسو  درہم کا ۔یونس نے کہا :اس کی قیمت تو دو سو درہم سے زیادہ نہیں ہے کیسے چارسو درہم کا تمکو بیچا ہے؟ واپس چلوتاکہ بقیہ درہم تم کوواپس دیدوں۔

عرب نے کہا : اتفاقا ٹھیک ہی قیمت ہے ۔اورہمارے قصبہ میں تو اس کو پانچ سو درہم میں بیچتے ہیں۔ آخر کا ر یونس اس کو دوکان واپس لایا اور دو سو درہم اس کو واپس دیئے ۔ اس کے بعد اپنے بھتیجے سے غصہ میں کہا:خدا سے شرم و حیا کیوں نہیں کرتے ہو ؟

۶۳

نوجوان نے جواب دیا :میں کیا کروں وہ خود اس قیمت پر راضی ہوگیا اور خرید لیا ۔یونس نے تعجب سے اپنے سر کو ہلایا۔اور کہا :افوس اگر وہ اس قیمت پر راضی ہوگیا تھا تو تم کیوں خود اساہم نکتہ کی جانب متوجہ نہ تھےکہ منافع اس سے قبول کرلیا ؟(1)

۲ : جس طرح لوگوں کی چیزوں میں کم تولنا اور ناپنا  گناہ و نافرمانی اور حکم الہی کی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح لوگوں کی شخصیت کو بے توجہی اور ان کے مقام ومراتب کو چھوٹا سجھنا بھی گناہ عظیم ہے ۔

اور انسانو ں کے لیے بھی علم ،فضیلت اور کمالات نفسانی کی شخصیت کا بھی ایک میزان پایا جا تا ہے اور اس میزان کو کم اور زیادہ  کرنا      معاشرہ کے نظم و نسق میں خلل ایجاد کرنا ہے اور فضیلت کے معیاروں کو ختم کردینا ہے ۔

اور وہ افرادکی جوبڑے بڑے  القاب کے لائق  نہیں ہیں اگر ان القاب کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں اور اسکو رائج کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے بھی اپنا سماجی مرتبہ ضایع و برباد کر دیا ہے  ۔

اور وہ افراد کہ جو بے وجہ اپنی مدح و ثنا کرنے والے افراد کو تریج دے رہیں ہیں خدا وند متعا ل کی بارگاہ میں مسئول ہوں  گے اور وہ آخرت کے دن اپنے آپ کو پروردگار کی عدالت کے لیے آمادہ رکھیں ۔  ان لوگوں کے مقابل میں کہ جو علم و عمل کے اعتبار سے بلند و بالا مقام کے حامل ہیں۔ اگر لوگ ان کی شائستگی کے بیا ن کرنے میں کوتاہی کریں گے اور ان کو نچلی سطح کے افراد سے پہچنوائیں گے تو یہ جان لیں کہ انھوں نے برائی کی وادی میں قدم رکھ لیا ہے ۔اور اپنے اس ناجائز عمل کے ذریعہ سے دوزخ کے دروازہ کو اپنے اوپر کھول لیا ہے۔ اور خدا وند متعال کے عذاب اور غضب کی جانب جارہے ہیں۔             

--------------

(1):- انسان بین مادّیگری و اسلام، محمد قطب، ترجمھ سید خلیل خلیلیان چاپ دوم ص ۱۳۸

۶۴

 اور وہ افرادکہ جنھوں نے معاویہ ،ولید ،ہشام ،ہارون اور منصور جیسے کو   امیرالمومنین کہاہے اور اسی نام کے ذریعہ ان کو نماز جمعہ کے خطبوں میں یاد کرتے ہیں اور دوسری جانب امام حسین علیہ السلام اور مسلم ابن عقیل علیہ السلام کو فساد،تفرقہ اور خروج کا سبب جانتےہیں  ۔ اور لوگوں کے معیار و میزان کو توڑ ڈالا اور جابجا کردیا ہے تو وہ عذاب خدا کے منتظر رہیں ۔

عدل کے ساتھ گفتگو

محل بحث آیات میں دسواں  امر یہ ہے ۔کہ

(وَ إِذا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَ لَوْ كانَ ذا قُرْبى‏  ) (انعام ۱۵۲)

اورجب بات کرو تو انصاف کے ساتھ چاہے اپنے اقرباء ہی کے خلاف کیوں نہ ہو ۔

اور یہ حقیقتا الہی تعلیمات میں سے عالی ترین تعلیم اور آسمانی آیین نامہ میں سے نورانی اور روشن آیین کا کام ہےاور کس قدر مشکل ہے کہ انسان گفتگو کرتے وقت حدود عدالت سے باہر نہ جائے اور اس کی تمام باتیں عدل کے صراط مستقیم پر ہوں ۔

امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام اپنی عمر کے آخری لمحات میں قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اپنے بیٹوں حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السلام کو اسی موضوع کے متعلق وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔

وقولا بالحق(1)

ہمیشہ حرف حق کہنا ۔یہ بات اس وقت اور بلند مرتبہ اور عظمت کی آخری بلندی تک پہونچ جاتی ہے کہ جب خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

(وَ لَوْ كانَ ذا قُرْبى)

حق بات کہوحق و عدل کے ساتھ گواہی دو اگرچہ اعزا و اقربا کے ہی خلاف کیوں نہ ہو ۔

--------------

(1):- :نہج البلاغہ،بخش نامہ ھا  ،ش ۴۷

۶۵

لہذا تمہاری ذمہ داری ہے کہ فقط دوسروں کے متعلق حق با ت کہنے یا دوسروں کے خلاف گواہی دینے ہی میں منحصر نہیں ہوتی ہے ۔

بیشک : انسان کے قدم لڑکھڑا نے کا خطرناک مقام وہ جگہ ہوتی ہے کہ جہاں وہ اپنے کسی ایک عزیز اور رشتہ دار کے خلاف گواہی دینا چاہے اور وہ یہ  جبکہ جانتا ہے کہ بھائی یا بھتیجہ ،بہن یا بھانجہ ،باپ یا سالہ اصلی قصور وار ہیں۔اور  کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ ممکن ہے اس کے درمیان ایک بے گناہ انسان پھنس جائے اور جرم ایک پاک و بے گناہ انسان کی گردن پر ڈال دیا جائے اور اس انسان کی گواہی سے قضیہ کا فیصلہ ہو سکتا ہے ۔ تو اس طرح کے موقع پر ایک شیر دل انسان اور سلمان و ابوذر جیسے ایمان کا مالک انسان ہو کہ جو اپنے اعزاو اقربا  سے اپنی آنکھوں کو بند کر لے ۔اور فقط خدا کو نگاہوں کے سامنے رکھے ۔اور حق کو ضایع و برباد نہ کرے اور عدالت کو اقرباء پر قربان نہ کرے ۔ عدل کی ارزش و قیمت ہر چیز اور ہر شخص سے زیادہ اوربزرگ شمار کرے۔اور علم و یقین کے ساتھ گفتگو کرے ۔

کسی چیز کی گواہی دینا {کہ جو ایسے لوگوں کیلئے نقصان کا سبب ہو کہ جنکا گواہی دینے والے سے کوئی تعلق نہیں ہے }کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔اور ایسے انسان کیلئے کوئی کمال نہیں ہے ۔ اسلئے کہ وہ گواہی دینے والے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہے ۔ کہ ان کی جانب سے کسی خطرہ کا احساس یا تعلقات کے ختم ہو جانے کا خوف اور رشتہ داروں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کا ڈر پایا جاتا ۔در حالیکہ عزیزوں اور رشتہ داروں کے متعلق ان نا مساعد و ناخوشگوار حالات کا احتمال پایا جاتاہے ۔حقیقتا ایسے مقام پر آزاد اور آزاد فکر انسان ہی ہو سکتا ہے جو شہامت و جراٗت کے ساتھ واقعہ کی حقیقت کو بیان کرے ۔اور اپنے رشتہ داروں کو اصل قصور وار ،گناہگار اور مجرم ٹہرائے ۔اور تمام ناخشگوار حالات اور مشکلات کے سامنے ثبات قدم کا مظاہرہ کرے ۔

اور قابل غور مسئلہ یہ ہے یہاں پر موضوع عدل کو "قول" قرار دیا گیا ہے ۔

۶۶

(وَ إِذا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا)

در حالیکہ ہم کو  اپنے "فعل " اور کاموں میں عدل کی رعایت کرنا چاہئے۔

        عظیم الشان مفسر ،مرحوم طبرسیرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ یہ اس اعتبار سے ہے کہ اگر گفتار میں عدالت کسی کی عادت ہو جائے تو یہ خود عمل میں بھی عدالت کا سبب ہو جائے گا ۔گفتار میں عدالت افعال میں عملی عدالت کی جانب بڑھنے کیلئے اہم ترین قدم ہے ۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے لیکن اسکے متعلق دوسرے نکتہ کو بھی بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کا بات کرنے میں مبتلا ہونا عمل کے مرحلہ سے بہت زیادہ ہے ۔کہ گفتگو کرنا ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے ۔اور منازعات و مشاجرات میں بھی انسان حکم اور فیصلہ میں شاہد و مئوید کے عنوان سے یا دوسرے عناوین سے گفتگو کرتا ہے  کہ جسکی وجہ سے خلاف واقع زبان کھولنے کا امکان رہتا ہے ۔اس مرحلہ پر فرماتے ہیں "یہ امر الہی ان اوامر بلیغہ میں سے ہے کہ جو کم الفاظکے ساتھ زیادہ مفاہیم جیسے اقرار ،گواہیاں ،وصیتیں ،فتوے ،فیصلہ ،احکام ،مذاہب اورامربالمعروف اور نہی از منکر کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے "(1)

بیشک: یہ وہ موارد ہیں کہ جو انسان کے حق و عدل سے انحراف کا سبب ہوتے ہیں اور اس بات کا ڈرپا یا جاتاہے کہ آدمی عدل کے خلاف کلام کرے ۔اور بالخصوص اگر رشتہ داروں کے متعلق ہو ۔

محمد ابن ابی حذیفہ کا معاویہ کے ساتھ سخت رویہ

        اس وقت ہم ایک عظیم الشان انسان کی داستان کو نقل کرتے ہیں کہ جنہوں نے بالکل صحیح اس آیت پر عمل کیا ۔ محمد ابن ابی حذیفہ معاویہ کی دایہ کے بیٹے تھے ۔

--------------

(1):- مجمع البیان ج۲ ، ص۳۸۴

۶۷

اور امیر المومنین علی ابن طالب علیہما السلام کے اصحاب و انصار میں سے تھے ۔ وہ ایک مدت تک معاویہ کے زندان میں قید تھے ۔جس وقت ان کو زندان سے باہر لایا گیا تو معاویہ نے ان سے کہا : کیا اسکا وقت نہیں آیا ہے کہ تم ہوشیار ہو جائو اور گمراہی سے نجات حاصل کر لو ؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ عثمان مظلوم قتل کردئیے گئے اور عائشہ اور طلحہ و زبیر نے ان کے خون کے قصاص کیلئے خروج کیا ۔اور علی ؑنےحکم دیا تھا کہ عثمان کو قتل کردو ۔ اور آج ہم انکے خون کا مطالبہ کر رہے ہیں ؟ محمد ابن ابی حذیفہ نے جواب دیا : تم جانتے ہو کہ تمام لوگوں کی بنسبت  میرا تعلق تم سے سب سے زیادہ ہے اور سب سےزیادہ میں تمہیں جانتا ہوں ؟ معاویہ نے کہا : بیشک : محمد ابن ابی حذیفہ نے کہا :خدا کی قسم تیرے علاوہ کسی نے بھی قتل عثمان میں شرکت نہیں کی ۔ اسلئے کہ جب عثمان نے تجھ کو والی مقرر کیا تو مہاجر و انصار نے اس سے چاہا کہ تم کو معزول کرے اور اس نے ایسا نہیں کیا ۔ مجبورا  : انہوں نے ہجوم کیا  اور اس کو قتل کر دیا ۔ اور خدا کی قسم یہی طلحہ و زبیر و عائشہ تھیں کہ جنہوں نے لوگوں کو  قتل پر ابھارا اور عبد الرحمن ابن عوف ،عبد اللہ ابن مسعود اور عمار اور انصار بھی ان کی مدد کر رہے تھے ۔

اسکےبعد فرما یا : خدا کی قسم : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں جب سے تم کو پہچانتا ہوں۔ تمہارے رفتار و کردار زمانئہ جاہلیت اور اسلام کے زمانے میں مساوی ہے اور اسلام نے تمہارے اندر کوئی بھی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے نہ کم نہ زیادہ ۔

اسکی علامت یہ ہے کہ تم مجھ کو علی ؑکی دوستی کی وجہ سے سر زنش کر تے ہو ۔ حالانکہ وہ افراد کہ جنہوں نے علی ؑکے ساتھ قیام کیا اور جنگ میں ان کی مدد کی یہ وہ فراد تھے کہ جو مسلسل روزہ رکھتے تھے اور راتوں کو ،کھڑے ہو کر عبادت میں بصر کرتے ہیں وہ یا مہاجر تھے یا انصار ۔

لیکن جن افراد نے تیری مددکی ہے وہ منافقوں ،طلقاء اور آزاد شدہ گان کی اولادیں تھیں ۔انکو تونے اپنی مکاری سےان کے دین سے خارج کر دیا ۔اور انہوں نے بھی تیری بات سے دھوکا کھایا ہے ۔ اے معاویہ خدا کی قسم : جو کچھ تونےکیاہےوہ تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہےوہ ان سے بھی پوشید ہ نہیں ہوگا ۔

۶۸

اگر وہ تنہائی میں اپنے بارے میں سوچیں اور حقیقت تک پہونچ جائیں تو جان لیں گے کہ خدا وند عالم کا قہر و غضب تیری اطاعت میں ہے۔اور خدا کی قسم میں ہمیشہ علی ؑ کو خدا و پیغمبرﷺکی وجہ سے دوست رکھتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں تجھ کو خدا و رسول(ص) کی راہ میں اپنا دشمن سمجھتا رہوں گا ۔ معاویہ نے حکم دیا اس کو زندان میں ڈال دیا جائے۔یہاں تک کہ زندان ہی میں دنیا سے رخصت  ہو گئے۔(1)

اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ وہ عامل کہ جو انسان  کوحق بات کہنے سے روکتا ہے ۔عاجزی ،احساس حقارت اور روحی اضطراب ہے لیکن ان تمام چیزوں کا سر انجام خدا سے ایک طرح کی غفلت ہے ۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنین  ؑعمر و عاص کے متلق ارشاد فرماتے ہیں ۔

(و انه لیمنعه من قول الحق نسیان الآخرة)(2)

یہ آخرت سے فراموشی کا نتیجہ ہے کہ جس نےاسے حرف حق کہنے سے روک رکھاہے ۔

--------------

(1):- سفینۃ البحار، محدث قمّی ج ۱  ص ۳۱۳ ،مادہ حمد

(2):- نھج البلاغہ ،خطبہ ۸۳

۶۹

    خدا وند کے عہد کی وفا

        آیات کریمہ میں خدا وند عالم سے کئے گئے عہد وپیمان کے وفا کرنے کو بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے ۔(وَ بِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ) اور عہد خدا کو پورا کرو ۔

        اب ہم یہ دیکھیں گے کہ اس عہد سے مراد کیا ہے ؟ یہاں پر چند احتمالات پائے جاتے ہیں ۔

۱: ممکن ہے کہ اس سے انسان کا لوگوں سے کیا گیا ہوا عہد و پیمان مراد ہو ۔ چونکہ خدا وند عالم نے لوگوں کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرنے کا حکمدیا ہے ۔ لہذا اسکوعہد خدا کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہو ۔

۲: احتمال پایا جاتا ہے کہ اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہو کہ جو انسان خدا سے کرتاہے اور کہتا ہے(عاھدت اللہ) م یں خدا سے عہد کرتا ہوں کہ فلاں کام کو انجام دونگا اور یہ نذر کے مشابہ ایک چیز ہے لہذا مباحث فقہی میں باب عہد،نذر و قسم کے ابواب کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے البتہ اسکا پورا کرنا واجب ہے اسکی دلیل یہ آیت ہے ۔

(وَ أَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذا عاهَدْتُم‏)(1)

 اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو ۔

        ۳: ممکن ہے اس سے مراد قوانین الہی اور احکام اسلامی ہوں ۔چونکہ خدا وند عالم نے دینی تکالیف کو لوگوں کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ اور ان سے چاہا ہے کہ ان کے پابند ہوں اور ان کی خلاف ورزی نہ  کریں ۔ارشادہوتا ہے ۔

(إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَيْنَ أَنْيَحْمِلْنَها وَ أَشْفَقْنَ مِنْها وَ حَمَلَهَا الْإِنْسانُ إِنَّهُ كانَ ظَلُوماً جَهُولاً) (72)(2)

--------------

(1):- سورہ نحل ،آیۃ ۹۱

(2):- سورہ احزاب ،آیہ ۷۲

۷۰

بیشک ہم نے امانت کو آسمان ، زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے

اسکے اٹھانے سے انکار اور خوف ظاہر کیا ۔ بس انسان نے اس بوجھ کو اٹھا لیا کہ انسان اپنےحق میں  ظالم اور نادان ہے ۔

ہو سکتا ہے کہ یہ اس معنی پر شاہد ہو ۔اسلئے کہ امانت کو تاسلیف الہی اور مقررات دینی کے معنی کئے گئے ہیں ۔

۴: یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ اس  سے مرادخدا وند عالم کاوہ عہد و پیمان ہے کہ جو خدا وند عالم نے اپنے بندوں سے خصوصا شیطان کے بارے میں لیا اور لوگوں سے شیطان کی دشمنی  اور اس سے بچنے کو کہا ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ۔

(أَ لَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يا بَني‏ آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبينٌ (60)وَ أَنِ اعْبُدُوني‏ هذا صِراطٌ مُسْتَقيمٌ) (61)(1)        

اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس با ت کا عہد و پیمان نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے [۶۰] اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم اور سیدھا راستہ ہے [۶۱]

        فی الحال محل بحث آیت میں اس عہد و پیمان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور لوگوں سے چاہا ہے کہ تا ابد اسکے پابند رہیں ۔ شیطان سے دوستی کیلئے ہاتھ نہ بڑھائیں  اور اسکی اطاعت و پیروی کا عہد نہ کریں ۔ اور یہ احتمال محل بحث آیت میں پائے جانے والے ان تمام احتمالا ت میں ظاہر اور نزدیک ترین ہے ۔ عہد الہی کی وفا یہ ہے کہ انسان شیطان کو اپنا دشمن شمار کرے اور اس بات کو اپنے دل و دماغ میں بٹھا لے کہ شیطان اسکا کھلا ہوا دشمن ہے ۔اور اس سے دشمنی کرنے میں کچھ بھی کمی اور کوتاہی نہیں کرتا ہے ۔کیا بہتر ہے کہ جو اس کی بھلائی چاہے اور اس کی نجات اور خوشبختی کے بارے میں سوچے اس تک پہونچے ۔

--------------

(1):- سورہ یس ، آیۃ ۶۱،۶۰

۷۱

اس بحث کے آخر میں یہ یاد  دلانا  ضروری ہے کہ ان نکات اور احتمالات میں سے ہر ایک اپنی جگہ  اہمیت کا حامل ہے ۔ اور ہر ایک احتمال اپنی جگہ کے قابل ہے ۔

مسلمان اور قرآن  کریم کےتابع افراد کو چاہئے کے ہر اس عہد و پیمان کیلئے کہ جو ایک  دوسرے سے کرتاہے ۔اہمیت و ارزش کا قائل ہو ۔

اور دوسروں سے کئے گئے عہد و پیمان  سے نہ  پھرے تاکہ دوسروں کے اعتماد کو حاصل کر سکے۔اور اپنی انسانی اور اسلامی شرافت کی حرمت کو محفوظ رکھ سکے ۔اور اگر خدا سے کوئی  عہد کرے کہ میں فلاں کام انجام دوںگا اور فلاں برے عمل سے پرہیز کروں گا تو خدا سے کئے گئے اپنے اس معاہدہ پر سختی سے پابند رہے۔ یا اگر کوئی نذر کرے یا ان دو [نذر وقسم} کھائے تو قسم کو محترم شمار کرے اور اس کو پورا کرے ۔

ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ احکام الہی اور قوانین اسلامی کو انجام دینے میں بہت زیادہ کوشش کرے ۔اور اپنے تعہد اور پابندی کو بیان کرے ۔جیسا کہ پیغمبر اکرم ﷺ کے حالات زندگی میں وارد ہوا ہے ۔ انکی بعض ازواج کا کہنا ہے کہ ہم ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جیسے ہی وقت نماز ہوا اور مئو ذن نے اذان کہی پیغمبر اکرمﷺ اس طرح سے پھرے کہ گویا ہم کو پہچانتے ہی نہیں ہیں ۔یعنی نماز کو انجام دینے کیلئے اس قدر بے چین تھے۔

اور ان مقامات پر بھی کہ جہاں شیطان کے گمراہ کرنے کا احساس کرو ۔یا وسوسئہ شیطانی پیدا ہو تو اپنے تمام وجود سے اس سےمقابلے کیلئے آمادہ ہو جائو۔

 اور اپنے وعدہ کو یاد کرو اور اسکو فراموش نہ کرو کہ خدا وند عالم کے قول کےمطابق شیطان اسکا دشمن ہے ۔لہذاابلیس کو ایک ٹھیس پہونچائواور اس کو چھوڑ دو ۔  

۷۲

۱۰:صراط مستقیم کی پیروی

        اس آیت میں آخری نکتہ صراط مستقیم کی پیروی کرنا اور مختلف راہوں پر نہ چلنا ہے بیشک : وہ مطالب کے جو ان آیات میں بیان کئے گئے ہیں صراط مستقیم ہیں جیسا کہ تصریح فرماتا ہے ۔

(وَ أَنَّ هذا صِراطي‏ مُسْتَقيما)

اور بیشک یہی میرا سیدھا راستہ ہے ۔

مجبورا  اور عقل سلیم کی بنیاد پر اس راہ پر چلنا چاہئے ۔لہذا  ارشاد فرماتا ہے۔

(فَاتَّبِعُوه‏)

پس اس صراط مستقیم کی اتباع کرو ۔اور اس سیدھے راستہ سے کہ جسکی انتہا خدا ہے۔اور انسان کو اس سےمتصل کر دیتا ہے۔منحرف نہیں ہونا چاہئے اور مختلف مذاہب و مسالک کی جانب متوجہ نہیں ہونا چاہئے ۔اور یہود، نصار ی ،مجوس ،مذہب الحاد ،اور ما وراء طبیعت کا انکار کرنے والے یا دوسرے لا ابالی مذاہب و مسالک اور سیکڑوں اور ہزاروں بدترین مقاصد رکھنے والوں کی جانب  متوجہ نہ ہونا چاہئے۔اسلئے کہ یہ انسان کو صراط مستقیم پر چلنے سے روکتے ہیں ۔اور انسان کے بلند و بالا مقاصد میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اسکو تباہی اور فساد کے راستہ پر لگا دیتے ہیں ۔

اور وہ انسان کہ جو صراط مستقیم کی ہدایت حاصل کر چکا ہے ۔اور آسمانی ہدایت کے ذریعہ صحیح ،عادلانہ اور حق کے راستہ کو پا چکا ہے ۔کیوں کہ ان مختلف راہوں کے  زریعہ سے کہ جو  انسان کو ہلاکت  ونا بودی کی جانب ڈھکیل دیتے ہیں دل لگی کرتا ہے ۔اور کیوں مختلف اور پراکندہ راہوں کی جانب کہ جو اسکو گمراہ کرتی ہیں متوجہ ہوتا ہے ؟ 

۷۳

آخر: کس طرح سے ممکن ہے کہ وہ ترقی بخش برنامے  اوروہ دس امور پر مشتمل ہدایات [ کہ جو ابن عباس کی تعبیر کے مطابق قرآن کریم کی آیات محکمات میں سے ہیں۔

 نا دیدہ شمار کریں اور ان کو چھوڑ دیں اور منحرف کنندہ و بغیر سوچے سمجھے بنائے ہوئے راستوں کی طرف ادھر ادھر ٹھوکریں کھائیں ؟ کیا وجدان سلیم اس طرح کے رویہ کو قبول کرتاہے۔ اور اس بات  کو پسند کرتا ہے کہ انسان ان عالی مطالب کو کہ جو اسکے بیدار ضمیر کی آواز ہے چھوڑ دے اور شیطانی منادیوں کی آواز کے پیچھے کہ جو ان میں سے ہر ایک مکاری کرتا ہے اور وہ مخصوص دعوی ٰکہ جو وہ رکھتا ہے اس پر چل پڑے ]اور کیا ایسے کام کا انجام ایک جاہلانہ عمل کے ساتھ جہنم کی پستی اور دوزخ کے دردناک عذاب کے علاوہ اور کچھ ہو سکتا ہے؟ کیا طلحہ و زبیر کا انجام سعادتمندانہ تھا ؟اور کیا ان لوگوں کا فائدہ کہ جنہوں نے امام بر حق کو چھوڑ دیا اور چند روزہ دنیوی حکومت کی خاطر ولی خدا کو بھلا دیا اور صراط مستقیم سے دوری اختیار کر لی تھی ۔مشکلات ،نقصان ،ندامت اور پریشانی کے علاوہ کچھ اور تھا ؟

کیا زیاد ابن ربیہ [کہ جو راہ حق کو اختیار کرنے یعنی امام علی ؑاور مدتوں خدا کے ولی اعظم کی خدمت کرنے کے بعد معاویہ کی جانب چلا  گیا اور اس فساد کی جڑ سے جا ملا] کا آخری انجام اچھا تھا ؟یا اپنے اس غلط عمل کے ذریعہ وہ ظلمت کا اسیر اور فساد میں غرق ہوگیا اور ذلت و رسوائی کا قیدی ہو گیا تھا؟

اور دور حاضر میں انقلاب اسلامی سے دشمنی رکھنے والے منافقین کہ جنہوں نے راہ خدا کو ترک کیا اور مقدسات الہی کو پس پشت ڈال دیا اور اپنے نصیحت کرنے والے اور دلسوز علماء کی ہتک حرمت کی ۔اور بہکانے والے شیاطین کی آواز پر لبیک کہی۔ کیا انہوں نے شرف و بلندی حاصل کی اور معاشرہ میں کوئی بلند و بالا مقام حاصل کیا ؟

نہیں :بلکہ انکے کاموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شرف و انسانیت سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اوریہ نوبت آگئی کہ یہ لوگ اپنے مخالفوں کے لئےبد ترین کلمات استعمال کرتے ہیں۔

۷۴

اور زندگی کی بھیک لینے کیلئے اپنے دین و ملت  اور مملکت کے دشمن کو پناہ دیتے ہیں اور ذلت و رسوائی کو برداشت کرتے ہیں   اور کیسے کیسے بدترین اعمال انجام دینے پر مجبور ہیں ۔

آخر کار ذلت و رسوائی کو خود اپنے لئےاور اپنے بیوی بچوں کیلئےخریدلیا اور انسانیت کے دشمن افراد کی غلامی پر ذلت و خواری سے راضی ہیں  ۔

بیشک خدا سے منحرف ہونے اور صراط مستقیم سے دوری کانتیجہ یہ ہے کہ وہ  انسان کو پستی اور ذلت و رسوائی کی طرف ڈھکیل دیتا ہے ، اور وہ برنامے کہ جو کوئی بھی شریف انسان برداشت نہیں کرتا ہے اسکے اوپر لاد دئیےجاتے ہیں ۔

آوارگی و بے چارگی ،گھر اور خاندانی تعلقات سے دوری اور غیر اسلامی پست فرہنگ کے کو اپنانا اور بے بنیاد عناصر کے مقابلے میں چاپلوسی کرنا اور دین کی بے حرمتی کا تلخ نتیجہ اور شیطان رجیم کی پیروی ہے ۔

خدایا ؛صراط مستقیم تیری اور تیرے تمام مطلوب و محبوب انبیاء و اولیاء کی آرزو ہے۔ لذ ا ہماری حیات کو اس نورانی راہ پر قرار دے ۔اور ہم کو ایک لمحہ کیلئے بھی اس سے جدا نہ کرنا ۔

                                                آمین

                               

۷۵

فہرست

ہدیہ 2

انتساب. 3

مقدمہ 4

صراط مستقیم کی برتری وجدانی ہے.. 7

صراط مستقیم کا آغاز کرنے والے 8

صراط مستقیم کی جانب ہدایت کرنے والے 10

صراط مستقیم کی جانب ہدایت کرنے کے لایق افراد 12

صراط مستقیم کیلئے مشکلات. 15

صراط مستقیم کی ہدایت پانے والے 17

سب کی دائمی دعا ،صراط مستقیم کی ہدایت. 19

صراط مستقیم کا اجمالی تعارف.. 24

۷۶

صراط مستقیم کا تفصیلی بیان. 27

شرک سے پاک رہنا اور اس سے دوری اختیا ر کرنا 29

ماں باپ کے ساتھ احسان. 36

اولاد کے قتل سے اجتناب. 40

۴: عفت کے منافی اعمال سے دوری. 46

۱:نامحرم کے ساتھ خلوت : 48

۲:لڑکے اور لڑکیوں کی  دوستی: 48

۳ :  نا محرم کو دیکھنا : 49

۴: لڑکے اور لڑکیوں کے لئے بعض کپڑوں کا پہننا : 50

۵:جسمانی اتصال مثلا ہا تھ ملانا : 50

آدم کشی سے اجتناب. 51

۱: باب قصاص: 53

۷۷

۲ : باب حدود:۔ 54

۳:باب ارتداد: 55

۶ :یتیم کے مال کی رعایت  کرنا 55

حا کم اور یتیم بچہ اور آیا ت قر آنی کی تا ثیر 57

سا ت سالہ یتیم بچہاورحجا ج. 58

۷:ناپ اور تول میں عدل اور انصاف سے کام لینا 60

ایک کم فروش کی جان کنی کا ہولناک قصہ 62

ایک ذمہ دار لباس فروش کا واقعہ 63

عدل کے ساتھ گفتگو 65

محمد ابن ابی حذیفہ کا معاویہ کے ساتھ سخت رویہ 67

خدا وند کے عہد کی وفا 70

۷۸

۱۰:صراط مستقیم کی پیروی. 73

۷۹