ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں0%

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: گوشہ خواتین
صفحے: 77

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سید حیدر علی زیدی ،مظفر نگری
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 77
مشاہدے: 66548
ڈاؤنلوڈ: 4229

تبصرے:

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 77 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66548 / ڈاؤنلوڈ: 4229
سائز سائز سائز
ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ماں کی عظمت

قرآن و حدیث کی روشنی میں

مصنف

سید حیدر علی زیدی ،مظفر نگری

۱

ہدیہ

میں اپنی اس نا چیز کوشش کو ہدیہ کرتا ہوں

        بنت پیمبراﷺ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں کہ جو مرکز تعارف نبوّت و امامت ،مرکز مئودت اورمعدن عصمت ہیں ۔

        جو اللہ کا وہ راز ہیں کہ جو افشا نہیں ہو سکتا ۔

        جو اللہ کا وہ روپ ہیں کہ جو علی ؑکے سوا کسی پر نہ کھلا ۔

        جو ایسی مظلومہ ہیں کہ جن کو اس امّت نے دکھوں اور آنسئوں کے سوا کچھ نہ دیا۔

        اس التجا کے ساتھ کہ وہ قیامت تک تمام مومن و مومنات خصوصا والدہ محترمہ سیدہ سردار فاطمہ زیدیمرحومہ بنت سید حامد حسین مرحوم پر اپنی چادر رحمت کا سایہ قائم رکھیں اور بروز محشر ہم سب کو اپنے مظلوم بیٹے کے ماتم داروں اور عزاداروں کے ساتھ اٹھائیں ۔وہ ماتم دار اورعزادار  جن میں تمام انبیاء و اولیاء اور آئمہ معصومین علیہم السلام شامل ہیں ۔

۲

انتساب

        میں اپنی اس ناچیز کوشش کو اپنے مرحوم والدین سید اشفاق حسین زیدی  مرحوم ابن سید ذوالفقار حسین زیدی مرحوم اور سیدہ سردار فاطمہ زیدی مرحومہبنت سید حامد حسین زیدی مرحوم کے نام کرتا ہوں ۔

        جن کی دعائیں آج بھی میرے لئے سپر کا کام کر رہی ہیں ۔اور جنکی ربوبیّت و شفقت آج بھی میرے لئے سائبان بنی ہوئی ہیں ۔اور جن کی پاک پاکیزہ تربیت نے مجھکو محب اہلبیت علیہم السلام بنایااور قم جیسی مقدس سرزمین پر علوم آل محمد ﷺحاصل کرنے کا اہل بنایا ۔

۳

    عرض حال

أَيْنَما تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ في‏ بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ (78)(1)

تم جہا ں بھی رہو موت تمہیں پا لے گی چاہے مستحکم قلعوں میں کیوں نہ بند ہو جاؤ.

{سورہ نساء آیت: ۷۸}

        کس کو اب ہوگا وطن میں، آہ میرا انتظار      کون میرا خط نہ آنے پر رہے گا بے قرار

     خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا    اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا

     موت ایک ایسی اٹل حقیقت کا نام ہے  جس سے فرار ممکن نہیں ۔اس کائنا ت میں فقط ایک ہی ایسی چیز ہے  جس کا آج تک کوئی منکر پیدا نہیں ہوا ہے ۔اور اس شئی کا نام ہے موت۔ ہاں خالق موت کا انکار کرنے والے پیدا ہوگئے لیکن موت کا انکار کرنے والے پیدا نہ ہو سکے اور اگر کوئی انکار کرنے والا پیدا بھی ہوا تو جب موت اسکے سامنے آئی تو ہتھیار ڈال کر موت کا اقرار کرنے لگا ۔جیساکہ معصومین   علیہمالسّلام نے ارشاد فرمایا ہے :کہ موت اس مصلح کا نام ہے جس کی اصلاح کے بعد انسان  کبھی  گمراہ نہیں ہوتا ''یا فرمایا : موت کو ہر پل یاد کرو کیونکہ وہ تم کو بگڑنے نہ دےگی ۔" لہٰذا ہم کو یہ سوچنا چاہئے کہ جب موت سے فرار ممکن نہیں ،اور سب سے کامیاب مصلح کا نام موت ہے تو پھر انسان موت کا  نام سن کر خوف زدہ  اورگھبرا  کیوں جاتا ہے  ؟  یقینا اسکی وجہ ہماری سمجھ میں نہ آتی اگرخالق موت و حیات  نے ہماری راہنمائی نہ کی  ہوتی۔ پروردگار عالم اسکی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

--------------

(1):- سورہ نساء آیت: ۷۸

۴

﴿وَ لا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً بِما قَدَّمَتْ أَيْديهِمْ وَ اللَّهُ عَليمٌ بِالظَّالِمينَ﴾  (7)(1)

        وہ اپنے گذشتہ اعمال کی بنا پر موت کی تمنّا نہ کریں گے۔

        حضرت ابو عبد اللہ حضرت امام جعفر صادقؑ نےفرمایا:کہ  ایک شخص حضرت ابو ذر کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ ہم لوگ موت سے کیوں گھبراتے ہیں ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا:

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ وَاصِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي ذَرٍّ فَقَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَا لَنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ فَقَالَ لِأَنَّكُمْ عَمَرْتُمُ الدُّنْيَا وَ أَخْرَبْتُمُ الْآخِرَةَ فَتَكْرَهُونَ أَنْ تُنْقَلُوا مِنْ عُمْرَانٍ إِلَى خَرَابٍ فَقَالَ لَهُ فَكَيْفَ تَرَى قُدُومَنَا عَلَى اللَّهِ فَقَالَ أَمَّا الْمُحْسِنُ مِنْكُمْ فَكَالْغَائِبِ يَقْدَمُ عَلَى أَهْلِهِ وَ أَمَّا الْمُسِي‏ءُ مِنْكُمْ فَكَالْآبِقِ يَرِدُ عَلَى مَوْلَاهُ (2)

حضرت ابو عبد اللہ امام جعفر صادق ؑ نےفرمایا:کہ  ایک شخص ابوذر کے پاس آیا اور کہنے لگا ایسا کیوں ہے کہ ہم موت کو برا سمجھتے ہیں۔ ؟آپ نے فرمایا :تم نے دنیا کو آباد سمجھا ہے اور آخرت کو خراب  ۔پس تم آباد سے خرابے کی طرف جانا برا جانتے ہو ۔ اس نے کہا :تم خدا کے سامنے ہمارا آنا کیسا سمجھتے ہو ؟ فرما یا :جو تم میں نیک ہیں ایسے آئیں گے جیسے مسافر اپنے گھر کی طرف ،اور جو گنہگا ر ہیں وہ اس طرح آئیں گے جیسے بھاگا ہوا غلام اپنے آقا کے سامنے آتا ہے ۔

        لہٰذا جن لوگوں  نے اپنی دنیا کو آباد اور آخرت کوبرباد کر رکھا ہے ۔کیا ایسا شخص اپنی آباد جگہ کو چھوڑ کر خرابے کی طرف جا نا پسند کرے گا ۔ 

--------------

(1):- سورہ جمعہ ۔آیت ۷

(2):- اصول کافی ج ۲ ،باب محا سبہ عمل ۔رقم ۲۰

۵

        یہ آیت تو یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی ہے لیکن جسکا بھی نامہ اعمال سیاہ  ، دامن کردار گناہوں سے ملوّث ہوگااورجس نے  آخرت کو چھوڑ کر دنیا کو آباد کیا ہوگا ۔وہی موت سے گھبرائے گا ۔لہٰذا ہم نے تاریخ میں دیکھا کہ جن لوگوں کے دل یاد خدا سے پر  اور  دامن کردار بالکل پاک و صاف تھا "یا آیندہ ہوگا "وہی لوگ اعلان کرتے ہوئے نظر آ رہے  تھے کہ موت ہم پر آ پڑے یا ہم موت پر جا پڑیں ۔ہمیں کوئی پرواہ نہیں ، فقط ایک ہی بات کی فکر ہے کہ اگر زندگی تمام ہو تو حق پر ہو نہ کہ باطل پر ۔ لہٰذا ہم   اس زمانہ میں بھی دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دل ان عظیم شخصیتوں کی محبّتسے لبریز ہیں وہ آج بھی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے اور دناں پر حکومت کرنے والی سامراجی طاقتوں کو للکار رہے ہیں اور دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ ہم انہیں عظیم شخصیتوں کے ماننے والے ہیں  جو موت سے گھبراتے نہیں تھے بلکہ ہنسی خوشی حق پر موت کو قبول کر لیتے تھے اور فقط یہی وہ شخصیتیں تھیں جن سے اجازت لئے بغیرموت  بھی ان  کے گھر میں داخل نہیں ہوتی تھی۔

مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام نے ارشاد فرمایا:

فَإِنَّ الْمَوْتَ هَادِمُ لَذَّاتِكُمْ وَ مُكَدِّرُ شَهَوَاتِكُمْ وَ مُبَاعِدُ طِيَّاتِكُمْ زَائِرٌ غَيْرُ مَحْبُوب‏(1)

موت انسان کی لذتوں کو فنا کرنے والی ،ان کی خواہشات کو بد مزہ کردینے والی اور انکی منزلوں کو دورکر دینے والی ہے ۔

        لہٰذا وہ افراد  جو اپنی طاقت اور جوانی کےنشے میں چور، لہو لعب کی محفلوں میں مصروف اور  لمبی عمر  کے خواہاں، موت و فنا سے بے خبر،بہترین گھروں میں رہنے والے ، جن کاہر دن سکون اور رات شب برات ہوتی تھی مگر اب مجبور ہو کر دنیا کو چھوڑ چکے ہیں ۔

--------------

(1):- نہج البلاغہ ۔خطبہ ۲۳۰ ۔فضل العمل

۶

 عمدہ کھانا کھانے والے زمین کے کیڑے مکوڑوں کی غذا بن گئے ہیں ۔دوستوں کی محفلوں کے بجائے قبرکی تنہائی اور وحشت میں، آرام دہ بستروں پر لیٹنے والے آج خاک پرلیٹے، اپنے عزیزوں کی محفلوں میں بیٹھ کر قہقہے لگا نے والے آج خاموش پڑے ہوئے ہیں اور موت کو بھلانے والے آج خود اسکا شکار ہو گئے اور انکے چاہنے والوں نے انکو کفن میں لپیٹ کر دور ویران جنگل میں لے جا کر سیکڑوں من مٹی کے نیچے دبادیا اور آج تک  کسی نے انکی خبر تک نہ لی کہ وہ کون تھے ؟ اور کیا ہوئے ؟

        حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرما یا :

وَ قِرْنٌ غَيْرُ مَغْلُوبٍ وَ وَاتِرٌ غَيْرُ مَطْلُوبٍ قَدْ أَعْلَقَتْكُمْ حَبَائِلُهُ وَ تَكَنَّفَتْكُمْ غَوَائِلُهُ وَ أَقْصَدَتْكُمْ مَعَابِلُهُ وَ عَظُمَتْ فِيكُمْ سَطْوَتُهُ وَ تَتَابَعَتْ عَلَيْكُمْ عَدْوَتُه‏(1)

اور وہ {موت}ایک ایسی مقابل ہے جو مغلوب نہیں ہوتی ہے ۔اور ایسی قاتل ہے جس سے خون بہا کا مطالبہ نہیں ہوتا ہے ۔اس نے اپنے پھندے تمہارے گلے میں ڈال رکھیں ہیں۔ اور اس کی ہلاکتوں نے تمہیں گھیرے میں لے رکھا ہے ۔اور اسکے تیروں نے تمہیں نشانہ بنا لیا ہے ۔

        لہٰذا ہم نے دیکھا کہموت نے بڑے بڑے ظالم و جابر لوگوں کی گردنیں مروڑ دیں،بادشاہوں کی کمریں توڑ دیں ،اونچے اور شاندار محلوں میں رہنے والوں کو موت نے گڑھے میں ڈھکیل اور قبر کے اندھیرے میں پہونچا دیا ۔

        لہٰذا ہم کو ہر وقت موت کو یاد رکھنا چاہئے اور معصومین علیہم السلام کی ان فرمائشات پر عمل کرنا چاہئے کہ جن میں آپ نے ارشاد فرمایا :

وَ قَالَ ‏ أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِنْ قُلْتُمْ سَمِعَ وَ إِنْ أَضْمَرْتُمْ عَلِمَ وَ بَادِرُوا الْمَوْتَ الَّذِي إِنْ هَرَبْتُمْ مِنْهُ أَدْرَكَكُمْ وَ إِنْ أَقَمْتُمْ أَخَذَكُمْ وَ إِنْ نَسِيتُمُوهُ ذَكَرَكُم‏(2)

--------------

(1):- نہج البلاغہ ۔خطبہ ۲۳۰ ۔فضل العمل

(2):- حکمت نمبر ۲۰۳

۷

        حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: لوگو:خدا سے ڈروجو تمہاری ہر بات کو سنتا ہے اور ہر راز دل کو جاننے والا ہے اور اس موت کی طرف سبقت کرو جس سےبھاگنا بھی چاہوتو وہ تمہیں پا لے گی اور تھہر جائو تو گرفت میں لے لے گی اور تم اسے بھول بھی جائو تو وہ تمہیں یاد رکھے گی ۔

        اور ہم کو اس موت کو اسلئے بھی یا د رکھنا چاہئے کہ جو خود ہمارے لئے بہترین سپر ہے ۔حضرت علی نے ارشاد فرما یا :

وَ قَالَ ع‏ إِنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ مَلَكَيْنِ يَحْفَظَانِهِ فَإِذَا جَاءَ الْقَدَرُ خَلَّيَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَهُ وَ إِنَّ الْأَجَلَ جُنَّةٌ حَصِينَة (1)

 ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے رہتے ہیں لیکن جب موت کا وقت آجا تا ہے تو دونوں ساتھ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ گویا کہ موت ہی بہترین سپر ہے ۔       حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

74وَ قَالَ ع‏ نَفَسُ الْمَرْءِ خُطَاهُ إِلَى أَجَلِه‏(2)

ہماری ایک ایک  سانس موت کی طرف ایک قدم ہے ۔

        لہٰذا موت وہ شئہےکہ جو  والدین  سے انکے بچوں ،بہنوں سےانکےبھائیوں کوچھین لیتی ہے اور بھائیوں کو بھائیوں سے جدا کر دیتی ،بیویوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنا دیتی ہے ۔

        میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا تو اپنی زندگی میں ان حالات کا مشاہدہ کیا۔جب کمسن تھا تو باپ کا سایہ سر سے اٹھتے ہوئے دیکھا ۔اورجب نوجوانی میں قدم رکھا تو اپنے ۳۸ سالہ پشت پناہ بھائی کو موت کی آغوش میں سوتے ہوئےاور انکے کمسن بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے بلکتے اور ماں اور بہن کو جیسے {بچھو کا کاٹا تڑپتا ہے }بیٹے اور بھائی کی یاد میں  تڑپتے ہوئے دیکھا

--------------

(1):- حکمت نمبر ۲۰۱

(2):- حکمت نمبر ۔۷۴

۸

اور جب جوانی میں قدم رکھا اور سرزمینعلم و اجتہاد {قم المقدسہ}پر علوم آل محمدعلیہم السلام حاصل کرنے کے لئے آیا ہی تھا کہ موت نے مجھ سے  اس ذات کو جو اپنے بیٹوں کیلئے  کعبۂ عشق و ولا ،حرم صبرو رضا،پیکر ایثار و وفاہوتی ہےاور جس کے بعد ہی انسان کو اصل میں یتیمی کا احساس ہوتا ہے ۔

موت نے ان کو بھی مجھ سے جدا کر دیا اور وہ احساس یتیمی کہ جو والد کی وفات کے بعد آج تک نہ ہوا تھاہونے لگا۔اور کیوں نہ ہو جب افضل المرسلین ،خاتم النبیّین اور رحمۃ اللعالمین حضرت محمدمصطفیٰ(ص)کو خود ماں کی وفات کے بعد احساس یتیمی ہوا تو کبھی جناب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا کو ماں کہا۔ اور جب انکا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا اور اپنی بیٹی کی جانب سے وہ اظہار محبت دیکھی کہ جو ایک ماں اپنے بیٹے سے کرتی ہے تو اپنی ہی بیٹی کو یہ کہہ کرمخاطب کیا''فاطمة ْامّْ ابیها ''

        خدا نہ کرے کوئی بیٹا پردیس اور غریب الوطنی میں اپنی ماں کی خبر وفات سنے۔خصوصا ایسے مقام پر کہ جہاں سے وہ اپنی ماں کی آخری رسومات میں شرکت اور اس کا آخری دیدا ربھی نہ کرسکے۔ کیوں کہ اس کا درد بیٹے ہی کو زندگی بھر نہیں رہتا بلکہ ماں بھی تڑپتی رہتی ہے۔

مرتے دم بیٹا نہ آ پائے اگر پردیس سے       اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں

        میں نےبھی اپنی والدہ ماجدہ کی وفات حسرت آیات کی خبر سر زمین قم پر سنی کہ جہاں سے اپنی ماں کی تشییع جنازہ میں نہیں پہونچ سکتا تھا ۔اور میں بن پانی کے تڑپنے والی مچھلی کی طرح تڑپ کر رہ گیا ۔اور  یہ احساس ہوا کہ زمانے کی تیز دھوپ مجھے جلا ڈالے گی۔

کیونکہ اب وہ گھنا درخت ٹوٹ گیا جو مصائب و آلام کی دھوپ میں سایہ فگن تھا ،وہ ذات جو شب کے سنّاٹوں میں ہمارے لئے دعائیں کرتی تھی اب نہ رہی، وہ ذات کہ جس نے خون دل پلا کر ہمیں پروان چڑھایا،

۹

 وہ ذات کہ جس نے تمام مصائب وآلام کو ہماری حفاظت کے لئے برداشت کیا، وہ ذات کہ جوخود بیدار رہ کر ہمیں میٹھی نیند کے مواقع فراہم کرتی تھی گویا اس کا پورا وجود ہمارے لئے محافظ تھا، نہ رہا۔ بقول جناب رضا سرسوی ۔

اپنے بچوں کی بہار زندگی کے واسطے          آنسوؤں کے پھول ہر موسم میں برساتی ہے ماں

        موت کے بے رحم ہاتھوں نے جو کاری زخم ہمارے دل و جگرپر لگایا تھا وہ کبھی مندمل نہ ہوتا اگر دنیا کا سب سے المناک واقعہ واقعہٗ کربلا نہ ہوتا ۔

جز غم شبیرممکن ہی نہیں جس کا علاج      اپنی فرقت کا اک ایسا غم دے جاتی ہے ماں

        اے بنت پیربم  ﷺ! جب بھی کوئی ماں اس دنیا سے اٹھے گی آپ کا غم اس کے بیٹوں کا سہارا بنے گا، جب بھی کوئی بہن اس دنیا سے جائے گی تو آپ کی بیٹیوں کا غم اس کے بھائیوں کے لئے مداوا ہوگا، اور جب بھی کوئی کڑیل جوان اپنے گھر والوں کو داغ مفارقت دے گا تو آپ کے کڑیل جوان علی اکبر علیہ السلامکا غم اس کے گھروالوں کو دلاسہ دے گا۔

        اے بنت پیربا ﷺ! ہمارے لئے دعا کریں کہ ہم اس غم کو اپنا فرض اور ذمہ داری سمجھ کر اپنائیں نہ کہ رسم و رواج سمجھ کر۔

        انہیں فرائض میں سے ایک فرض علوم آل محمدعلیہم اسلامکی تحصیل اور اس کی ترویج ہے۔ اور اصل علم آل محمد علیہم اسلامہمیں قرآن و حدیث میں ہی مل سکتا ہے ۔

        لہٰذا میں نے اپنی والدۂ مرحومہ کی خبر وفات سنتے ہی سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ بفضل خدا ایک کتابچہ ضابطۂ تحریر میں لاؤں جس میں (ماں کی عظمت قرآن واحادیث کی روشنی) میں بیان کروں ۔ اور بفضل خدا وند متعال میں نے یہ کام چند ہی دنوں میں پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ میں نے اس کتابچہ میں کوشش کی ہے کہ وہ آیات جو والدین کی عظمت ومنزلت سے متعلق ہیں چند آیتوں کی تفسیر کے ساتھ بیان کر دی جائیں  ۔ ساتھ ہی ساتھ چالیس حدیثیں اس قول پیربوبﷺکو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جس میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:

۱۰

مَنْ حَفِظَ مِنْ اُمَّتِیْ اَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا مِمَّا یُحْتَاجُوْنَ اِلَیْهِ مِنْ اَمْرِ دِیْنِهِمْ بَعَثَهُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَالِمًا فَقِیْهًا''

میری امت میں سےجو شخص چالیس حدیثیں حفظ کرے گا خدا وند عالم اس کو روز قیامت عالم و فقیہ اٹھائے گا''ترجمہ کے ساتھ پیش کر دی جائیں  تاکہ ماں کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔ چونکہ بغیر ائمہ کے اقوال کا سہارا لئے ہوئے ماں کی عظمت کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

        آخر میں خدا وند عالم سے دعا گو ہوں کہ خدایا! ہرشخص کو والدین کی عظمت و منزلت سمجھنے اور ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ اورجن کے مائیں سلامت ہیں ان کا سایہ ان کے بیٹوں کے سروں پر قائم رکھ، جن کی مائیں دنیا سے گذر چکی ہیں ان کی مغفرت فرما ۔اور انہیں جوار معصومین علیہم السلاممیں جگہ عنایت فرما۔

        پروردگارا! اس غم نصیب کی ماں کوبھی اس مظلومہ بی بی کے جوار میں جگہ مرحمت فرما۔ جس کی شہادت سن کر ان  کا زار زار گریہ آج بھی عشق فاطمی سلام اللہ علیہا کی جانب ہم سب کی توجہات مبذول کراتا ہے ۔سیدہ کونین ،بی بی دوعالم سلام اللہ علیہاسے عشق ومحبت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری والدہ کا انتقال اسی تاریخ میں ہوا جس میں فخر مریم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا امیر المومنین حضرت علی ؑکو تنہا چھوڑ گئی تھیں اور اسی شب کے سناٹے میں تدفین ہوئی جس شب میں آغوش رسالت ﷺکی پروردہ سیدہ زہراسلام اللہ علیہا  کو انکے شوہر نام دار حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور انکی  آغوش میں پروان چڑھنے امام حسن و حسین علیہما السلام نے دفن کیا  ۔ اور بالاآخر کنیز سیدۃ  سلام اللہ علیہا،سیدہ سلام اللہ علیہاسے جا ملی۔

پروردگارا: محمد و  آل محمد علیہم اسلام کے صدقہ میں  اس کتابچہ کا ثواب اس غم نصیب کی ماں کو مرحمت فرما۔ آمین

                                        وفات مادر گرامی :26 اپریل / 201۱                                             مطابق:۳/ جمادی الثانی ۱۴۳۳ ھ

                                        بروز جمعہ :بوقت  2 /بجے دن

                                        تدفین: ۱۱/ بجے شب      

۱۱

مقدمہ

نمونہ عمل

        جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنی مختصر سی زندگی میں ایسے نمایاں کارنامے انجام دئیے ہیں اور زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنے کردار کے ایسے اثرات چھوڑے ہیں جن پر ہر مسلمان  بالخصوص مسلمان خواتین کے لئے عمل کرنا فخر اور دنیا و آخرت میں نجات کا سبب ہے۔ اس مضمون میں ہم جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے مختلف پہلووں کو پیش کررہے ہیں۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکا اخلاق و کردار

        حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہااپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہاکی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں ۔جود و سخا، اعلی فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوہر حضرت علی ؑکے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر ﷺکی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نے شادی سے پہلے زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اورچار سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوہر بزرگوار علی مرتضی ؑکے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت ،گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس خاتون کا نام ہے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی  اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔

۱۲

        فاطمہ زہراسلام اللہ علیہانے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الٰہی کوسر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر میں عملی جامہ پہنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون{ کہ جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ہوں} کی طرح اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رہتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوہر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکا نظام عمل

        حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہانے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقئہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہسلام اللہ علیہا لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی ؑسے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا  ﷺسے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسولﷺ نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے نام سے مشہور ہے   34مرتبہ اللہ اکبر، 33مرتبہ الحمد اللہ اور 33مرتبہ سبحان اللہ ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عل یہااس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئیں کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول اکرم ﷺنے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہااپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتا ئو نہیں کرتی تھیں بلکہ ان سے ایک برابر کے سہیلی جیسا سلوک کرتی تھیں۔وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔

۱۳

 اسلام کی تعلیم یقینا یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں۔بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے۔اس تقسیم کار کو علیؑاور فاطمہ سلام اللہ علیہانے مکمل طریقہ پر دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی ؑکے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا انجام دیتی تھیں۔

حضرت زہراسلام اللہ علیہاکا پردہ

        سیدہ عالمسلام اللہ علیہا نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتیتھیں۔آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھیاپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت  پڑھنے یا آپ کا وعظ و نصیحت سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں۔ایک مرتبہ پیغمبر ﷺنے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے؟ یہ بات سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا :عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے ۔ رسول اکرم ﷺکے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت ﷺنے فرمایا :

''کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔''

حضرت زہرسلام اللہ علیہااور جہاد

         اسلام میں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے۔ لہٰذا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہانے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں  رکھا ۔ لیکن جب کبھی پیغمبرﷺ میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم سلام اللہ علیہاان کے زخموں کو دھوتیں تھیں اور جب علی علیہ السلام خون آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہ سلام اللہ علیہااسے دھو کر پاک کرتی تھیں۔

۱۴

 وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ ان کا جہاد یہی ہے جسے وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کے کرتی ہیں۔ہاں صرف ایک موقع پر حضرت زہرا سلام اللہعلیہا نصرت اسلام کے لئے گھر سے باہر آئیں اور وہ تھا مباہلے کا موقع۔ کیونکہ یہ ایک پرامن مقابلہ تھا اور اس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔

یعنی صرف مباہلہ کا میدان ہی ایک ایسامیدان  تھا جہاں سیدہ عالم سلام اللہ علیہاخدا کے حکم سے برقع و چادر میں نہاں ہو کر اپنے پدر بزگوارﷺ اور شوہر نامدار حضرت علی  ؑکے ساتھ گھر سے باہر نکلیں۔

ماںکیسی ہوتی ہے؟

        ایک اچھی ماں میں بہت سی خوبیاں اور اچھائیاں ہوتی ہیں جو اسے دوسروں سے بالکل الگ بنا دیتی ہیں۔ یہاں پر ہم ان میں سے کچھ کو پیش کررہے ہیں:۱  

۱:بچوں سے بے انتہا محبت:

        ماں کی محبت بے مثال ہوتی ہے۔ بچہ چاہے نوجوان ہو یا جوان، صحتمند ہو یا جسمانی اعتبار سے اسمیں کوئیکمی ہو، شرارتی ہو یا بات ماننے والا؛ ماں اس سے بہرحال محبت کرتی ہے۔ وہ اپنی محبت کا اظہار بہت سے راستوں سے کرتی ہے۔ کبھی کبھی بچہ ماں کے ڈانٹنے یا مارنے کو محبت کم ہونے کی نشانی سمجھتا ہے ۔ حالانکہ بچہ کو یہ بات پوری طرح سمجھلینی چاہئے کہ جس وقت وہ نظم و ضبط اور ڈسپلن کے خلاف کوئی کام کرتا ہے اس وقت بھی وہ اپنی ماں کا چہیتا ہوتا ہے۔ ایسا بچہ ہمیشہ مطمئن اور خوش رہتا ہے اور وہ محبت اور ذہنی سکون کی تلاش میں کسی دوسری جگہ نہیں جاتا ہے۔ ماں کی محبت کی وجہ سے اسے اپنی ساری خوشیاں اور سکون گھر پر ہی مل جاتا ہے۔ماں کی وجہ سے ہی بچہ کا اپنے گھر میں دل لگتا ہے۔

۱۵

۲:۔ایثار اور قربانی

        ماں اپنے بچوں کیلئے بہت سی قربانیاں دیتی ہے۔ وہ اپنا وقت، اپنی نیند، خوشیوں اور بہت ساری چیزوں کو صرف اس لئے چھوڑ دیتی ہے کہ اسکے بچوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ جیسا کہ امام زین العابدین  اپنے ''رسالة الحقوق'' میں فرماتے ہیں: ''ماں اپنے بچے کیلئے جو کچھ کرتی ہے کوئی دوسرا اسکا ایک حصہ بھی نہیں کرسکتا ہے۔''

یہی وجہ ہے امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : صرف خدا کی مدد کے ذریعہ سے ہی ماں کی قربانیوں اور زحمتوں کا شکریہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ایک ماں اپنے بچوں کی جسمانی اور نفسیاتی؛ دونوں ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ خاص طور پر آج کے ماڈرن دور میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئےکہ  آج کے دور میں مائیں سماج کے بہکاوے میں آکر اپنے کیریر اور جاب کو گھر سے زیادہ اہمیت دے رہی ہیں۔ گھر عورت کی ہمیشہ سب سے بڑی ذمہ داری رہے گا جسکے لئے ہر طرح کی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ یہ قربانی نہیں بلکہ انوسٹمنٹ ہے جس کا فائدہ بعد میں ملے گا۔

3۔حفاظت

     ماں کی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو مشکلوں اور خطروں سے بچائے۔ اگرچہ کچھ مائیں اس بارے میں تھوڑا زیادہ ہی Sensitive ہوتی ہیں۔ بچے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عمر اور حالات کے لحاظ سے زندگی میں سختیوں اور مشکلوں کا مقابلہ کرنا سیکھے۔ جس بچے کو ہمیشہ مشکلوں سے بچایا جاتا رہے گا بڑا ہو کر وہ زندگی کی سچائیوں کا سامنا نہیں کرپائے گا کیونکہ ساری دنیا اسکی ماں جیسا اسکا خیال نہیں رکھے گی۔

4۔ ماں کا رول ''بچے کیلئے آئینہ ''

        جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ باہر کی دنیا سے بالکل انجان ہوتا ہے۔ ماں اسے باہر کی دنیا پہچنوانے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ بچہ اپنی زندگی کے بارے میں اپنے ذہن میں جو تصویریں بناتا ہے انکے بننے میں ماں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔

۱۶

وہ دنیا ، مذہب اپنی زندگی اور زندگی کے مقصد کے بارے میں سوچنے کا انداز ماں سے ہی لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جب وہ بڑا ہو تو اسکی سوچ بدل جائے لیکن بچپن کی زندگی اور اس زندگی میں جو کچھ وہ سیکھتا ہے اسکے ذہن پر گہرا اور انمٹ اثر چھوڑ جاتی ہیں۔

''بچہ کا آئیڈئیل ''

        بچہ کیلئے اپنی زندگی میں سب سے اہم شخصیت اسکی ماں ہوتی ہے جسے وہ سب سے زیادہ چاہتا ہے اور سب سے زیادہ اسکا احترام کرتا ہے ۔ اس لئے اسکا ہر کام اور ہر عادت بچے کیلئے آئیڈئیل ہوتا ہے۔ اسکے رہن سہن، ملنے جلنے اور بول چال کا انداز، گھر کا کام کرنے کا طریقہ، پیسہ خرچ کرنے کا سلیقہ بلکہ اسکی پوری زندگی بغیر کسی شک و شبہ کے بچہ کی زندگی اور اسکے کیرکٹر پر اثرڈالتی ہے۔ ماں سیکڑوں ٹیچروں سے ہزار گنا اچھی ہوتی ہے۔ اسکی نفسیاتی مضبوطی اورجذباتی کمزوریاں بچے کے لئے آئیڈئیل ہوتی ہیں، وہ انہیں اپنا لیتا ہے اور سالوں تک وہ اسی طرح کا ردعمل اور ری ایکشن دکھاتا ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ بہت سے ایسے لوگ دیکھے گئے ہیں جو اپنی ماں کا لائف اسٹائل اپناتے ہیں اگر چہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انکی ماں غلطی پر تھیں۔ یہ ری ایکشن انجانے طور پر ہوتا ہے جس سے بچنے کیلئے کافی محنت کی ضرورت ہے۔ اس لئے ماں کی یہ بہت اہم ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو بچوں کے سامنے مثال اور آئیڈئیل بنا کر پیش کرے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دے۔ بہت سی مائیں اسے اپنے لئے بہت بڑا بوجھ سمجھتی ہیں کہ وہ ہر وقت صحیح اور مناسب کام کریں۔لیکن جو کچھ بھی ہو یہ ایک بہت اچھی ٹریننگ ہے۔ اپنے بچوں کی وجہ سے مائیں اپنے اندر جو بدلائو لائیں گی وہ انکی عادت بن جائے گی جسکے نتیجہ میں انکے اندر ایک سچی تبدیلی آجائیگی جو انہیں بوجھ نہیں لگے گی۔ماں کے کردار کے بارے میں اتنی تاکید کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ اچھے کیرکٹر کے ذریعہ آئیڈئیل اور رول ماڈل بننے کی ذمہ داری قبول کریں۔

۱۷

قرآن

قرآنی آیات

بڑھاپے میں والدین کے ساتھ محبت اور نیکی کا حکم

﴿وَ قَضى‏ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَ لا تَنْهَرْهُما وَ قُلْ لَهُما قَوْلاً كَريماً (23)وَ اخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُما كَما رَبَّياني‏ صَغيراً﴾ (24)

        اور آپ کے پرودگار کا فیصلہ ہے کہ تم اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچّھا برتائو کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو جائیں تو خبردار ان سے اف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا۔(23)اور ان ک یلئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینااور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پرودگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما کہ جس طرح انہوںنے بچپنے مجھے پالا ہے۔ (24 (1)

        تفسیر عیاشی میں ابی ولاد خیاط سے روایت نقل کی گئی ہے کہ امام صادق ؑسے اس آیت﴿وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً﴾ کے معن ی پوچھے گئے؟ تو آپ نے فرمایا: {احسان یہ

ہے کہ ان کی اچھی خدمت کی جائے اور ان کی حاجتیں طلب کرنے سے پہلے پوری کردی جائیں ۔ کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ خدا وند عالم نے ارشاد فرمایا ہے :

﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾

        تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے ہو جب تک کہ اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو۔ ''

--------------

(1):- سورۂ اسراء/23و 24

۱۸

آگے چل کر آپ ؑنے فرمایا :لیکن یہ جو خدا نے فرمایاہے:

﴿إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ﴾

         اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ان کی طویل خدمت میں تھکان پیدا ہو جائے تو اُف تک بھی نہ کہو اور اگر وہ تم کو مارنے لگیں تو﴿وَ لا تَنْهَرْهُما﴾ یعنی ان کے سامنے آواز بلند نہ کرو اور﴿قُلْ لَهُما قَوْلاً كَريماً﴾ ان کے حق م یں اچھی ہی بات منھ سے نکالو۔ مثلاًیہ کہ خدا آپ لوگوں کو بخشے اور یہی تمہارا قول کریم ہے﴿وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾ اور ماں باپ ک ی طرف شوخی سے بھی گھور کر نہ دیکھوبلکہ نظریں جھکا کے انکساری کے ساتھ ان کی طرف دیکھو۔ اور اپنی آواز کو ان کی آواز پر بلند نہ کرو اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ سے اونچا نہ کرو اور نہ ان کے آگے چلو۔(1) ﴿قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُما... ﴾

        یعنی والدین کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان کے لئے دعا کرو ۔ حدیث نبوی میں وارد ہوا ہے کہ بنی سلمہ میں سے ایک شخص نے حضرت رسالت مآب ﷺسے دریافت کیا کہ والدین کے مرنے کے بعد کون سی نیکی ہے جو میں ان کے لئے انجام دے سکتا ہوں ؟ تو آپﷺنے فرمایا کہ ان کے لئے دعا کرو اور اللہ سے ان کے لئے استغفار کرواس کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرو ، ان کے دوستوں کی عزت اور ان کے عزیزوں کے ساتھ صلۂ رحم کرو۔   (2)

﴿فَلاٰ تَقُلْ لَّهُمَا اُفٍّ﴾

        تفسیر مجمع البیان میں امام صادق ؑسے منقول ہے کہ اگر اُف سے مختصر کوئی لفظ ہوتا تو والدین کی نافرمانی سے بچنے کے لئے خدا اس سے بھی منع فرماتا ۔اور دوسری روایت میں ہے کہ کم از کم وہلفظ کہ جو انسان کو عاق والدین بنا دیتا ہے وہ لفظ اُف ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو عاق والدین ہو وہ جس قدر بھی عمل کرے جنت میں داخل نہ ہوگا۔

--------------

(1):- تفسیر المیزان، ج/13،ص/166، فارسی ترجمہ

(2):- تفسیر انوار النجف، ج/9، تفسیر المیزان، ج/13

۱۹

آیت کے پیغامات

        (1) توح ید ,تمام الٰہی احکامات کی بنیاد ہے:﴿وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلاّٰ تَعْبُدُوا اِلاَّ اِیَّاهُ﴾

        (2) والد ین کی خدمت اور ان کے ساتھ نیکی کرنا حقیقی مومن اور سچے مسلمان ہونے کی دلیل ہے :﴿اَلاّٰ تَعْبُدُوا اِلاَّ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾

        (3)والد ین کے ساتھ نیکی کا حکم ،توحید کے حکم کی مانند قطعی اور منسوخ نہ ہونے والا حکم ہے:﴿وَقَضٰی رَبُّکَ﴾

        (4)اس آ یت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ توحید کے بعد اہم ترین واجبات میں سے والدین کے ساتھ نیکی کرنا ہے

(5)والد ین کے ساتھ نیکی توحید اور اطاعت خداکے حکم کے ساتھ بیان ہوئی ہے تاکہ اس بات کی علامت قرار پائے کہ یہ کام واجب عقلی ہے اورواجب شرعی بھی﴿وَقَضى‏رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواإِلاَّ إِيَّاهُوَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً﴾       ( 6)احسان انفاق سے بڑھ کر ہے اور محبت ،ادب ،تعلیم ، مشورت، اطاعت،  تشکر اور مراقبت وغیرہ تمام چیزوںکو شامل ہے۔﴿وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾

        (7) والد ین کے ساتھ احسان کرنے کی کوئی حد معین نہیں ہے ۔﴿وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾

        (8) احسان کرنے کا تقاضااولادسے ہے نہ کہ وا لدین سے۔﴿وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾ چونکہ یہ فطری طور پر احسان کرتے ہیں ۔

        (9)جتن ی ان کی روحانی اور جسمانی ضرورت بڑھتی جائے گی اتنا ہی احسان بھی ضروری ہوتا جائے گا۔﴿یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ﴾

        (10) جب قرآن ب یگانے سائلوں کو جھڑکنے سے منع کرتا ہے۔﴿وَاَمَّا السَّائِلَ فَلاٰ تَنْهَرْ﴾ تو ماں باپ کوجھڑکنےک ی کیسے اجازت دے گا؟﴿فَلاٰ تَنْهَرْهُمَا﴾                              

۲۰