ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں0%

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: گوشہ خواتین
صفحے: 77

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سید حیدر علی زیدی ،مظفر نگری
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 77
مشاہدے: 66492
ڈاؤنلوڈ: 4213

تبصرے:

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 77 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66492 / ڈاؤنلوڈ: 4213
سائز سائز سائز
ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

(24)ماں کا حق باپ سے تین گُنازیادہ

حضرت امام صادق ؑارشادفرماتے ہیں:

 عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَال‏ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أَبَاكَ.(1)

        ایک شخص رسول خدا ﷺکی خدمت میں آکر سوال کرتا ہے یا رسول اللہ !

کس کے ساتھ نیکی کروں؟ آپ ﷺنے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ۔ پوچھا : پھر کس کے ساتھ؟ آپ ﷺنے جواب دیا :اپنی ماں کے ساتھ ۔ اُس کے بعدپوچھا: پھر کس کے ساتھ ؟ آپ ﷺنے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ ۔ اس نے پوچھا پھر کس کے ساتھ؟ آپ ﷺنے فرمایا اپنے والد کے ساتھ۔

(25)ماں کے ساتھ نیکی دو برابر ہے

حضرت امام محمد باقرؑنے ارشاد فرمایا:

 إِنَّ لِلْأُمِّ ثُلُثَيِ الْبِرِّ وَ لِلْأَبِ الثُّلُثَ.(2)

        اگر اپنی نیکی کو تین حصوں میں تقسیم کرو تو دو حصے ماں سے مخصوص ہیں اور ایک حصہ باپ سے۔

--------------

(1):- کافی،ج/2،ص/159،رقم: 9

(2):- امالیصدوق،ص/511،رقم: 5

۴۱

(26)ماں کے ساتھ احسان بخشش کا ذریعہ

حضرت امام سجادؑنے ارشاد فرمایا:

 فَضَالَةُ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ حَكَمِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا مِنْ عَمَلٍ قَبِيحٍ إِلَّا قَدْ عَمِلْتُهُ فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص فَهَلْ مِنْ وَالِدَيْكَ أَحَدٌ حَيٌّ؟ قَالَ أَبِي قَالَ فَاذْهَبْ فَبَرَّهُ قَالَ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لَوْ كَانَتْ أُمُّه‏(1)

        ایک شخص پیغمبر اکرم(ص)کی خدمت میں آیا اور عرض کی:یارسول اللہ(ص)! کوئی ایسا گناہ نہیں ہے کہ جس کو میں نے انجام نہ دیا ہو کیا میرے لئے توبہ و بخشش کی کوئی راہ ہے ؟ رسول خدا(ص)نے اس سے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے ؟ اس نے کہا ہاں میرا باپ زندہ ہے ۔ تو آپ (ص)نے فرمایا : جائو اور جا کر اس کے ساتھ نیکی کرو ۔ راوی کہتا ہے جب وہ مرد چلا گیا تو رسول خدا(ص)نے فرمایا: اے کاش ! اس کی ماں زندہ ہوتی ۔

(27)ماں کے ساتھ نیکی کرنے کا نتیجہ

پیغمبر اکرم(ص)نے ارشاد فرمایا:

بَیْنَا اَنَا فِی الْجَنَّةِ اِذْ سَمِعْتُ قَارِئًا، فَقُلْتُ: مَنْ هٰذَا؟ قَالُوْا: حَارثَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ: کَذَالِکَ الْبرُّ کَذٰلِکَ الْبرُّ، وَکَانَ أبَرُّ النَّاسِ بِاُمِّه(2)

        شب معراج جس وقت میں جنت میں تھا تو میں نے کسی کے قرآنپڑھنےکی آواز کو سنا۔ پوچھا : یہ کون شخص ہے ؟ جواب ملا یہ حارث ابن نعمان ہے۔اس کے بعد بیساختہ زبان رسولﷺ پر یہ کلمات جاری ہوئے : یہ ہے ماں کے ساتھ نیکی کرنے کی جزا، یہ ہے ماں کے ساتھ نیکی کرنے کی جزاکہ وہ (حارث)اپنی ماںکے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کے ساتھ پیش آتا تھا۔

--------------

(1):- الزہد،ص/35،رقم: 92

(2):- کنزالعمال،ج/16،ص/580،رقم: 45935

۴۲

(28)ماں کا حق

حضرت امام سجاد ؑنے ارشاد فرمایا:و أما حق الرحم‏ فَحَقُّ أُمِّكَ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّهَا حَمَلَتْكَ حَيْثُ لَا يَحْمِلُ أَحَدٌ أَحَداً وَ أَطْعَمَتْكَ مِنْ ثَمَرَةِ قَلْبِهَا مَا لَا يُطْعِمُ أَحَدٌ أَحَداً وَ أَنَّهَا وَقَتْكَ بِسَمْعِهَا وَ بَصَرِهَا وَ يَدِهَا وَ رِجْلِهَا وَ شَعْرِهَا وَ بَشَرِهَا وَ جَمِيعِ جَوَارِحِهَا مُسْتَبْشِرَةً بِذَلِكَ فَرِحَةً مُوَابِلَةً  مُحْتَمِلَةً لِمَا فِيهِ مَكْرُوهُهَا وَ أَلَمُهَا وَ ثِقْلُهَا وَ غَمُّهَا حَتَّى دَفَعَتْهَا عَنْكَ يَدُ الْقُدْرَةِ وَ أَخْرَجَتْكَ إِلَى الْأَرْضِ فَرَضِيَتْ أَنْ تَشْبَعَ وَ تَجُوعَ هِيَ وَ تَكْسُوَكَ وَ تَعْرَى وَ تُرْوِيَكَ وَ تَظْمَأَ وَ تُظِلَّكَ وَ تَضْحَى وَ تُنَعِّمَكَ بِبُؤْسِهَا وَ تُلَذِّذَكَ بِالنَّوْمِ بِأَرَقِهَا وَ كَانَ بَطْنُهَا لَكَ وِعَاءً وَ حَجْرُهَالَكَ حِوَاءً  وَ ثَدْيُهَا لَكَ سِقَاءً وَ نَفْسُهَا لَكَ وِقَاءً تُبَاشِرُ حَرَّ الدُّنْيَا وَ بَرْدَهَا لَكَ وَ دُونَكَ فَتَشْكُرُهَا عَلَى قَدْرِ ذَلِكَ وَ لَا تَقْدِرُ عَلَيْهِ إِلَّا بِعَوْنِ اللَّهِ وَ تَوْفِيقِه‏  (1)        ماں کا حق یہ ہے کہ تم یاد رکھو کہ اس نے تمہارے بوجھ کو (اپنے شکم میں) اتنے دن تک اٹھایا ہے جس کو کوئی دوسرا نہیں اٹھا سکتا اور اس نے تم کو خون دل پلایا ہے اور ایسی غذا دی ہے جو دنیا میں کوئی دوسرا نہیں دے سکتا(اس نے اپنا خون دل پلا کر ایسے پروان چڑھایا ہے کہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا) اور اس نے اپنے کان، آنکھ، ہاتھ، پیر، بال اور کھال بلکہ اپنے وجود کی تمام توانائیوں کے ساتھ بخوبی ہنستے اور مسکراتے ہوئے تمہاری حفاظت کی اور اپنی تمام ناگواریوں اور مشکلات کے ہر بوجھ کو باآسانی برداشت کیا۔ یہاں تک کہ دست قدرت نے تم کو اس کے وجود سے جدا کردیا اور تمہارے قدم زمین پر پہنچ گئے (تم پیدا ہوگئے) پھر بھی وہ اس پر خوش اور راضی رہی کہ خود بھوکی رہی مگر تم کو سیر کرتی رہی ، تم کو لباس پہنایا خود بے لباس رہی ، تمہیں سیراب کیا خود پیاسی رہی، خود دھوپ میں جھلستی رہی مگر تم کو اپنی آغوش کے سائے میں پروان چڑھایا۔ خود زحمتیں برداشت کرکے تمہیں نعمتوں سے سرشار کرتی رہی اور خود بیدار رہ کر تمہیں خواب شیریں کے مواقع فراہم کرتی رہی، اس کا شکم تمہاری خلقت کا ظرف ، اس کی گود تمہارا گہوارہ، اس کا سینہ تمہیں سیراب کرنے والا چشمہ اور اس کا پورا وجود تمہارا پورا محافظ تھا ، اس نے تمہارے لئے دنیا کی ہر سردی اور گرمی کوبرداشت کیا، لہٰذا تم اسی مقدار میں اس کا شکریہ ادا کرو البتہ یہ تمہار ے لئے ناممکن ہے مگر یہ کہ خدا وند عالم کی توفیق اور امداد کا سہارا مل جائے۔

--------------

(1):- تحف العقول،ص/263

۴۳

(29)ماں کی برتری

ایک شخص نے رسول خدا(ص)سے پوچھا:

أَنَّ رَجُلًاقَالَ لِلنَّبِيِّ يَارَسُول َاللَّهِ أَيُّ الْوَالِدَيْنِ أَعْظَمُ‏قَال َالَّتِي حَمَلَتْهُ بَيْنَ

الْجَنْبَيْنِ وَأَرْضَعَتْهُ بَيْنَالثَّدْيَيْنِ وَحَضَنَتْهُ عَلَى الْفَخِذَيْنِ وَفَدَتْهُ بِالْوَالِدَيْن(1)

ایک شخص نے رسول خداﷺسے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! والدین میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''(اس ماں کہ)جس نے اپنے بیٹے کو اپنے دو پہلوئوں کے درمیان رکھا، اپنے سینہ سے دودھ پلایا اور ا س کو اپنے زانوئوں پر بٹھا یا اور اپنے ماں باپ کو اس پر قربان کردیا۔ ''

(30)حق کا ادا کرنا

ایک شخص نے رسول خدا ﷺسے پوچھا:

وَفِي الْحَدِيثِ عَنْهُ ‏قِيلَ يَارَسُولَاللَّهِ مَاحَقُّ الْوَالِدِقَالَ أَنْ تُطِيعَهُ مَاعَاشَ قِيلَ وَمَاحَقُّ الْوَالِدَةِفَقَالَ هَيْ هَاتَ هَيْ هَاتَلَوْأَنَّهُ عَدَدَرَمْلِ عَالِجٍ وَقَطْرِالْمَطَرِأَيَّامَ الدُّنْيَاقَام َبَيْنَ يَدَيْهَامَاعَدَلَذَلِكَ يَوْمَ حَمَلَتْهُ فِيبَطْنِهَا(2)

ایک شخص نے رسول خداﷺسے پوچھا: یا رسول اللہ(ص)! باپ کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جب تک وہ زندہ رہے اس کی اطاعت و پیروی کرو ۔'' پھر سوال کیا: یا رسول اللہﷺ! ماں کا حق کیا ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا: ''ھیئات ھیئات اے کا ش حق مادر ادا کرنا ممکن ہوتا۔ اگر بارش کے قطروں اور ریگستان کے ذروں کے برابر بھی ماں کی خدمت میں زندگی گذار دو اور اس کی اطاعت کرتے رہو تب بھی ایام حمل کے ایک دن کے برابر بھی تم نے اس کا حق ادا نہیں کیاہے۔

--------------

(1):- مستدرک الوسائل،ج/15،ص/182،رقم: 17939

(2):- عوالی اللآلی،ج/1،ص/269،رقم: 77

۴۴

(31)ماں اور بیٹے کی محبت کا فرق

ایک شخص نے رسول خدا ﷺسے عرض کیا:

أَبُوالْقَاسِمِ الْكُوفِيُّ فِي كِتَابِالْأَخْلَاقِ،قَالَ: قَالَرَجُلٌ لِرَسُول ِاللَّهِ إِنّ َوَالِدَتِي بَلَغَهَاالْكِبَرُوَهِيَ عِنْدِي الْآنَ أ َحْمِلُهَاعَلَى ظَهْرِي وأُطْعِمُهَامِنْ كَسْبِي وَأُمِي طُعَنْهَاالْأَذَىَ بِيَدِي وَأَصْرِفُ عَنْهَامَع َذَلِكَ وَجْهِيَ اسْتِحْيَاءً مِنْهَاوَإِعْظَاماً لَهَا فَهَلْ كَافَأْتُهَا قَالَ لَالِأَنَّ بَطْنَهَاكَانَ لكَ وِعَاءًوَثَدْيَهَاكَانَ لَكَ سِقَاءً وَقَدَمَهَالَك َحِذَاءًوَيَدَهَالَكَ وِقَاءًوَحِجْرَهَالَكَ حِوَاءًوَكَانَتْ تَصْنَعُ ذَلِكَ لَكَ وَهِي َتَمَنَّى حَيَاتَكَ وَأَنْتَ تَصْنَعُ هَذَابِهَاوَتُحِبُّ مَمَاتَهَا(1)

 میری ماں بہت بوڑھی ہوچکی ہے اور اب وہ میرے ساتھ رہتی ہے ۔ میں اس کو اپنی پیٹھ پر حمل کرتا ہوں اور اپنی آمدنی سے اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہوں اور اس کو اپنے ہاتھوں سے نہلاتا ہوں یہاں تک کہ بعض وظائف کو انجام دیتے وقت اس کے چہرہ کے طرف بھی نہیں دیکھتا کہ مبادا شرم کرے۔ کیا میں نے اس کا حق ادا کردیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''نہیں ، ٹھیک ہے تم نے یہ تمام کام انجام دئیے ہیں لیکن اس بات پر بھی غور کروکہ اس کا شکم تمہارے لئے بہترین پناہ گاہ تھا، ا س نے اپنا خون دل تم کو پلایا اور اس کی آغوش تمہارے لئے بہترین گہوارہ تھی۔ وہ تمام ناگواریوں اور مشکلات کو برداشت کرتی رہی مگر تمہاری زندگی کی آرزو اور دعا کرتی رہی ، لیکن جب تم اس کی خدمت کررہے ہو تو اس کی موت کے خواہاں ہو۔ ''

--------------

(1):- مستدرکالوسائل،ج/15،ص/180،رقم: 17932

۴۵

(32)بڑھاپے میں ماں کی خدمت

حضرت امام محمد باقر ؑنے فرمایا:عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ‏ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ ص رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّ أَبَوَيَّ عُمِّرَا وَ إِنَّ أَبِي مَضَى وَ بَقِيَتْ أُمِّي فَبَلَغَ بِهَا الْكِبَرُ حَتَّى صِرْتُ أَمْضَغُ لَهَا كَمَا يُمْضَغُ لِلصَّبِيِّ وَ أُوَسِّدُهَا كَمَا يُوَسَّدُ لِلصَّبِيِّ وَ عَلَّقْتُهَا فِي مِكْتَلٍ أُحَرِّكُهَا فِيهِ لِتَنَامَ ثُمَّ بَلَغَ مِنْ أَمْرِهَا إِلَى أَنْ كَانَتْ تُرِيدُ مِنِّي الْحَاجَةَ فَلَا أَدْرِي أَيُّ شَيْ‏ءٍ هُوَ وَ أُرِيدُ مِنْهَا الْحَاجَةَ فَلَا تَدْرِي أَيُّ شَيْ‏ءٍ هُوَ فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ يُنْبِتَ عَلَيَّ ثَدْياً يَجْرِي فِيهِ اللَّبَنُ حَتَّى أُرْضِعَهَا قَالَ ثُمَّ كَشَفَ عَنْ صَدْرِهِ فَإِذَا ثَدْيٌ ثُمَّ عَصَرَهُ فَخَرَجَ مِنْهُ اللَّبَنُ ثُمَّ قَالَ هُوَ ذَا أَرْضَعْتُهَا كَمَا كَانَتْ تُرْضِعُنِي قَالَ فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ ص ثُمَّ قَالَ أُصِبْتَ خَيْراً سَأَلْتَ رَبَّكَ وَ أَنْتَ تَنْوِي قُرْبَتَهُ قَالَ فَكَافَيْتُهَا قَالَ لَا وَ لَا بِزَفْرَةٍ مِنْ زَفَرَاتِهَا (1) ایک شخص رسول خدا ﷺکی خدمت میں آکر عرض کرتا ہے: ''میرے ماں باپ بہت بوڑھے اور کمزور ہوگئے ہیں، باپ کا انتقال ہوگیا ہے لیکن میری ماں اتنی لاغر و مجبور ہوگئی ہے کہ ایک چھوٹے بچہ کی طرح کھانے کو نرم کرکے اس کو کھلاتا ہوں اور اس کو ایک چادر میں بچہ کی مانند لپیٹتا ہوں اور گہوارہ میں لٹاتا اور جھلاتا ہوں تاکہ اس کو نیند آجائے ۔ اور اب وہ اس منزل پر پہنچ گئی ہے کہ وہ کوئی چیز چاہتی ہے مگر میں نہیں سمجھ پاتا کہ وہ کیا چاہتی ہے اس لئے میں نے خدا سے دعا کی کہ مجھے شیردار پستان عطا کرے تاکہ میں ا س کو دودھ پلائوں اسی طرح جیسے اس نے مجھ کو بچپنے میں دودھ پلایا ہے ۔ اس وقت اس نے اپنے سینہ کو کھولا تو پستان دکھائی دئیے ان کو تھوڑا دبایا تو ان سے دودھ نکلا۔رسول خدا(ص)نے جیسے ہی اس کو دیکھا فوراً آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے اور فرمایا: تم نے اپنی شان کے مطابق کامیابی حاصل کی ہے اس لئے کہ تم نے سچی اور نیک نیت کے ساتھ اس سے دعا کی تھی تو خدا وند عالم نے بھی تمہاری دعا کوقبول کرلیا ہے ۔ اس نے کہا :یا رسول اللہ(ص)! کیا میں نے اس کا حق ادا کردیا ہے ؟ آپ(ص)نے فرمایا: ''ہر گز نہیں،ارے تم نے تو اس ایک آہ کے برابر بھی حق ادا نہیں کیا ہے کہ جو تمہاری ولادت کے وقت اس کی زبان سے نکلی تھی۔ ''

--------------

(1):- مشکوٰةالانوار،ص/161

۴۶

 (33)ماں سے اجازت

حضرت امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہماالسّلام نے ارشا د فرمایا:الْجَعْفَرِيَّاتُ،أَخْبَرَنَاعَبْدُاللَّهِ أَخْبَرَنَامُحَمَّدٌحَدَّثَنِي مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَاأَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ جَعْفَرِبْنِ مُحَمَّدٍعَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْأَبِيهِ عَنْعَلِي ٍّ: أَنّ َرَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ فَقَالَ يَارَسُولَاللَّه ِأُمِّي‏أَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَافَقَالَ نَعَمْ قَالَ وَلِمَ يَارَسُولَاللَّهِ قَالَ أَيَسُرُّكَأَنْ تَرَاهَاعُرْيَانَةًقَالَ لَاقَالَ فَاسْتَأْذِنْ عَلَيْهَاالْخَبَر (1)

ایک شخص پیغمبر اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: جس وقت میں اپنی ماں کے کمرہ میں داخل ہونا چاہوں تو کیا اس سے اجازت لوں؟ آپ ﷺنے فرمایا: بیشک ، اس نے عرض کی: کیوں؟ آپﷺ نے فرمایا: کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنی ماں کو اچانک برہنہ دیکھو؟ اس نے کہا نہیں۔ تو آپ(ص)نے فرمایا : بس اس سے اجازت لو۔

(34)ماں کے ساتھ تند لہجہ اختیار نہ کرو

ابراہیم ابن مہزم کہتا ہے :حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ الْمِيثَمِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مِهْزَمٍ قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع لَيْلَةً مُمْسِياً فَأَتَيْتُ مَنْزِلِي بِالْمَدِينَةِ وَ كَانَتْ أُمِّي مَعِي فَوَقَعَ بَيْنِي وَ بَيْنَهَا كَلَامٌ فَأَغْلَظْتُ لَهَا فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ صَلَّيْتُ الْغَدَاةَ وَ أَتَيْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع فَلَمَّا دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ لِي مُبْتَدِئاً يَا أَبَا مِهْزَمٍ مَا لَكَ وَ لِلْوَالِدَةِ أَغْلَظْتَ فِي كَلَامِهَا الْبَارِحَةَ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ بَطْنَهَا مَنْزِلٌ قَدْ سَكَنْتَهُ وَ أَنَّ حِجْرَهَا مَهْدٌ قَدْ غَمَزْتَهُ وَ ثَدْيَهَا وِعَاءٌ قَدْ شَرِبْتَهُ قَالَ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَلَا تُغْلِظْ لَهَا. (2)

رات کا وقت تھا میں امام صادقؑسے رخصت ہو کر اپنی ماں کے ہمراہ گھر پہنچا ، راستہ میں کسی بات پر میرے اور میری ماں کے درمیان بحث ہوگئی، جس پر میں نے سخت لہجہ اختیار کیا۔

--------------

(1):- مستدرکالوسائل،ج/14،ص/28۲،رقم: 16724

(2)- بصائرالدرجات،ص/244،رقم: 3

۴۷

دوسرے دن نماز صبح پڑھ کر جب میں امام کی خدمت میں پہنچا تو اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا امام نے فرمایا: اے ابا مہزم !کل رات تم اپنی ماں کے ساتھ سخت لہجہ میں کیوںپیش آئے؟ کیا تم کو نہیں معلوم کہ اس کا شکم تمہارے لئے بہترین گھر تھا کہ جس میں تم آرام سے رہتے تھے؟ کیا تم بھول گئے ہو کہ اس کی آغوش تمہارے لئے بہترین گہوارہ تھی؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ اس کا سینہ تمہارے لئے غذا کا بہترین سرچشمہ تھاکہ جس سے تم سیراب ہوتے تھے؟ ابراہیم نے جواب دیا: ہاں ایسا ہی ہے ۔ تو آپ نے فرمایا:آج کے بعد سے اپنی ماں سے سخت لہجہ میں بات نہ کرنا ۔

(35)ماں کو مارنا

حضرت امام صادق ؑنے فرمایا:

مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ ضَرَبَ وَالِدَهُ أَوْ وَالِدَتَه(1)

ملعون ہے ملعون ہے (یعنی رحمت خدا سے دور ہے) وہ شخص کہ جو اپنی ماں یا اپنے باپ کو مارے۔

(36)ماں کو گالی دینا

رسول خدا(ص)نے ارشاد فرمایا:

''مَلْعُوْن مَنْ سَبَّ اُمَّهُ''(2)

ملعون ہے (رحمت خدا سے دور ہے ) ہر وہ شخص کہ جو اپنی ماں کو گالی دے  ( یا کوئی ایسا کام کرے کہ دوسرے اس کی ماں کو گالی دیں)

--------------

(1):- کنزالفوائد،ج/1،ص/150

(2):- کنزالعمال،ج/16،ص/88

۴۸

(37)ماں کی لعنت

پیغمبر اکرم(ص)نے ارشاد فرمایا:''اِیَّاکُمْ وَدَعْوَةَ الْوَالِدَةِ فَاِنَّهَا اَحَدُّ مِنَ السَّیْفِ'' (1) ماں کی بد دعا سے بچوکیونکہ ماں کی بددعا شمشیرسے زیادہ تیز ہوتی ہے

 (38)ماں کا احترام

اسماء بنت عمیس نے رسول خدا(ص)سے سوال کیا:

أَبُوالْفَتْحِ الْكَرَاجُكِيُّ فِي كِتَابِ التَّعْرِيفِ،بِوُجُوبِ حَقِّ الْوَالِدَيْنِ،رُوِيَ: أَنَّ أَسْمَاءَزَوْجَةَأَبِي بَكْرٍسَأَلَتْ رَسُولَاللَّهِ فَقَالَتْ قَدِمْتُ عَلَى أُمِّي رَاغِبَةًفِي دِينِهَاتَعْنِي مَاكَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ الشِّرْكِ فَأَصِلُهَاقَالَ نَعَمْ صِلِي أُمَّك‏(2)

اسماء بنت عمیس نے رسول خدا ﷺسے سوال کیا: چونکہ میری ماں مشرک تھی اس لئے میں نے ہجرت کی اور اس سے جدا ہوگئی اور ابھی تک اس سے ملنے نہیں گئی۔ کیا میں اس کی عیادت کے لئے جائوں اور اس کے ساتھ صلۂ رحم کروں؟رسول اکرم  ﷺنے جواب دیا: ''بیشک تمہاری ماں مشرک ہے لیکن تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم اس کا احترام کرو اور اس کے دیدار کے لئے جائو۔ ''

(39)دائی (ماں )کا احترام

حضرت امام سجاد ؑسے سوال کیا گیا :وَ قِيلَ لِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع أَنْتَ أَبَرُّ النَّاسِ بِأُمِّكَ وَ لَا نَرَاكَ تَأْكُلُ مَعَهَا قَالَ أَخَافُ أَنْ تَسْبِقَ يَدِي إِلَى مَا سَبَقَتْ عَيْنُهَا إِلَيْهِ فَأَكُونَ قَدْ عَقَقْتُهَا (3)

--------------

(1):- مجموعةورام،ج/1،ص/12

(2):- مستدرکالوسائل،ج/15،ص/179،رقم: 17929

(3):- مکارمالاخلاق،ص/221

۴۹

        حضرت امام سجاد ؑسے سوال کیا گیا : آپ(اہلبیت) اپنی مائوں کی نسبت بہترین لوگ ہیں، پس یہ کس طرح ہے کہ میں نے آج تک آپ کو اپنی ماں کے ساتھ ایک دسترخوان پر نہیں دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایاکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں دسترخوان پر میں کسی ایسی چیز کی طرف ہاتھ نہ بڑھا دوں کہ جس پر پہلے میری ماں کی نظر پڑ چکی ہو یعنی جس کو وہ کھانا چاہتی ہو) اور اس طرح نافرمانی کے اسباب کو فراہم کردوں۔

(40)ماں کی موت

رسول خدا(ص)نے ارشاد فرمایا:

 قَالَ النُّفَسَاءُ إِذَا مَاتَتْ مِنْ نِفَاسِهَا قَامَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِغَيْرِ حِسَابٍ لِأَنَّهَا تَمُوتُ بِغَمِّهِا.(1)

اگر کوئی ماں بچہ کو جنم دینے کے بعد اس دنیا سے گذر جائے تو قیامت کے دن بغیر حساب و کتاب کے اٹھائی جائے گی اس لئے کہ وہ مشکلوں کو برداشت کرتے ہوئے اس دنیا سے گئی ہے ۔

--------------

(1):- دعائمالاسلام،ج/2،ص/191،رقم: 690

۵۰

واقعات

    ماں کی دعا کا اثر

ایک دن جناب موسیٰ ؑنے خدا وند عالم سے درخواست کی کہ خدایا بہشت میں میراپڑوسی کون ہوگا؟ اس کا پتہ و نشان بتا ۔ آواز پروردگار آئی۔ موسیٰ! فلاں وادی میں جائو اور فلاں محلہ میں ایک جوان لوہار ہے وہ بہشت میں تمہارا پڑوسی ہوگا۔ جناب موسیٰ ؑاس آبادی میں آئے اور اس جوان کو تلاش کیا۔ اور بیٹھ کر ا س کی حرکت و سکنات پر نظر رکھنے لگےلیکن جب جناب موسیٰ ؑنے اس سے کسی بھی غیر عادی حرکت و عمل یا دعا کو نہ دیکھاتو تعجب کیا کہ آخر یہ جوان کس عمل کی بنیاد پر اس بلندی پر پہنچا ۔ بہرکیف ظہر کے وقت اس نے اپنے کام کو بند کیا اور اپنے ہاتھوں کو دھویا اور چاہتا تھا کہ دوکان سے باہر نکلے ۔ حضرت موسیٰ ؑنے فرمایا: کیا تم کسی کومہمان رکھنا پسند نہیں کروگے؟ اس نے جواب دیا۔ کیوں نہیں مہمان تو حبیب خدا ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰؑکا مقصد اس کے داخلی حالات کو معلوم کرنا تھا۔ جناب موسیٰ  علیہ السلام نے دیکھا کہ اس جوان نے راستے سے دو طرح کا کھانا لیا اور جیسے ہی گھر میں پہنچا تو اس نے جناب موسیٰ ؑسے کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں اس ایک کمرہ میں جا کر اپنا ایک ضروری کام انجام دے کر آئوں۔ جناب موسیٰ ؑنے دیکھا کہ اس کمرہ میں چھت میں ایک گہوارہ لٹکا ہوا ہے ۔یہ جوان گیا اور اس گہوارہ کے پاس کھڑا ہوگیا اور اس میں ایک لاغر و مجبورضعیفہ لیٹی ہوئی تھی ۔ اس کو گود میں اٹھایا ور باہر لایا اور نہلایا اور اس کے بعد اس کی مخصوص غذا کو اسے لقمہ بنا بنا کر اس کو کھلایا اور پانی پلایا۔ اس کے بعد کہا اماں ایک مہمان آیا ہوا ہے اگر آپ اجازتدیں تو میں اس کی بھی پذیرائی کروں ؟ اس نے آنکھوں کے اشاروں سے اجازت دی لیکن جوان کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی اور لبوں کو ہلا رہی تھی ۔ جناب موسیٰ ؑنے اس جوان سے پوچھا: وہ کون ہے کہ جس کی تم اس طرح خدمت کررہے تھے؟ اس نے کہا: میری ماں۔

۵۱

 جناب موسیٰ ؑنے کہا: جب تم پلٹ رہے تھے تو وہ تم کو دیکھ کر کیا کہہ رہی تھی؟ جوان مسکرایا اور جواب دیا۔ اے مہمان! میری ماں پرانے زمانے کی ایک سادہ لوح اور پاک دل خاتون ہے میں جب بھی اس کی خدمت کرتا ہوں اور چاہتاہوں کہ اس سے جدا ہوں تووہ یہ دعا دیتی ہے کہ جائو میرے لال۔

خدا وند عالم تم کو بہشت میں موسیٰ ؑکا پڑوسی قرار دے۔ میں بھی اس کے دل کو توڑنا نہیں چاہتا کہ کہوں کہ اماں کہاں میں اور کہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام ۔ وہ اولواالعزم ،صاحب شریعت پیغمبر اور خدا وند عالم کے ممتاز پیغمبروں میں سے ہیں اور میں ایک لوہار ۔ وہ کہاں اور میں کہاں۔ مہمان نے کہا: اے جوان خدا وند عالم نے تمہاری ماں کی دعا سن لی ہے۔ جوان نے تعجب سے کہا: اے مہمان تم بھی میری ماں کی طرح سادہ لوح اور نیک دل انسان معلوم ہوتے ہو۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ایک معمولی انسان بہشت میں موسیٰ ؑکے ساتھ رہے ۔ آپ نے فرمایا: بیشک ہوسکتا ہے جانتے ہو میں کون ہوں ؟ اس نے کہا نہیں ! آپ نے فرمایا: میں ہی موسیٰ بن عمران ہوں۔ میں نے خود اللہ سے درخواست کی تھی کہ خدایا! مجھے بہشت میں ہونے والے پڑوسی کا نشان اور پتہ بتا تو خدا نے تمہارا پتہ بتایا۔ میں صبح سے لے کر اب تک تمہارے ہر کام کو دیکھ رہا تھا۔لیکن تم سے کسی بھی ایک عمل کو نہیں دیکھا کہ جو تم کو اس مقام تک پہنچا دے سوائے تمہاری ماں کی دعا کے۔

والدین کی خدمت کا صلہ

ایک جوان عرب جب بھی امام حسین ؑکے حرم میں داخل ہوتا تھا اور سلام کرتا تھا تو امام حسین ؑاس کے سلام کا جواب دیتے تھے اور وہ امام حسین ؑکے بے پناہ فضل و کرم کا محور قرار پاتا تھا تو اس سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ مقام و مرتبہ کیسے حاصل کیا؟ تو اس نے جواب دیا میں نے یہ مقام اپنے والدین کی خدمت کرکے حاصل کیا ہے۔ میں ہر ہفتہ اپنے والدین میں سے کسی ایک کو اپنی پشت پر بٹھا کر پیدل امام حسینؑکی زیارت کے لئے کربلا لے جایاکرتا تھا۔

حضرت امام کاظم ؑنے ارشاد فرمایا: معرفت پروردگار اور نماز کے بعد قربت الٰہی کا بہترین سبب والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور حسد و خود خواہی نیز تکبر کو ترک کرنا ہے ۔

۵۲

جریح کا واقعہ

        حضرت اما م محمد باقرؑفرماتے ہیں: بنی اسرائیل کے درمیان جریح نام کا ایک عابد تھا کہ جو صومعہ( بنی اسرائیل کی عبادت گاہ)میں عبادت کرتا تھا۔ ایک دن اس کی ماں آئی درحالیکہ جریح مستحبی نماز پڑھنے میں مشغول تھا اس کو آواز دی لیکن جریح نے اَن سنی کی اور اس کا جواب نہ دیا۔ ماں گئی اور دوبارہ پلٹ کر آئی اور اس کو آواز دی لیکن دوبارہ بھی اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ ماں واپس چلی گئی اور تیسری بار پھر پلٹ کر آئی اور اپنے بیٹے کو آواز دی لیکن اس بار بھی جریح نے کوئی جواب نہ دیا اور اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اس مرتبہ ماں جب ناامید ی کے عالم مین پلٹی تو کہا میں بنی اسرائیلکے خدا سے چاہتی ہوں کہ تجھ کو ذلیل و رسوا کرے۔

        اگلے دن ایک بدکار عورت آئی اور صومعہ کے پاس بیٹھ گئی اور وہیں پر ایک بچے کو جنم دیا اور پھر دعویٰ کیا کہ یہ بچہ جریح کا ہے ۔ یہ خبر شہر میں پھیل گئی کہ جو گناہوں سے روکا کرتا تھا وہ خود گناہوں سے آلودہ ہوگیا ہے۔

        یہ خبر بادشاہ تک پہنچی تو جریح کے اعدام کا حکم دے دیا۔ جریح کی ماں کو جیسے ہی خبر ملی تو آہ و فریاد اور گریہ کرتی ہوئی جریح کے پاس پہنچی ۔ جریح نے اس سے کہا: اطمینان رکھو یہ میرے حق میں تمہاری ہی نفرین کا نتیجہ ہے ۔ جس وقت لوگوں نے یہ بات سنی تو کہنے لگے اب کیا کریں؟ جریح نے کہا بچہ کو لائو۔ جس وقت نومولود کو لائے جریح نے اس کو لیا اور پوچھا: بتائو تمہارا باپ کون ہے ؟ بچہ حکم خدا سے گویا ہوا اور کہا : فلاں قبیلہ کا فلاں چرواہا۔ اور اس طرح وہ افراد کہ جنہوں نے جریح پر تہمت لگائی تھی الٹے ذلیل ورسوا ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد جریح نے قسم کھائی کہ آج کے بعد سے ہرگز اپنی ماں کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

        پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

        ''والدین کی دعا اپنے بچہ کے حق میں اس دعا کی مانند ہے جو ایک نبی اپنی امت کے بارے میں کرتا ہے۔''

۵۳

ماں

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں

تب کہیں جاکر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں

شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا

مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں

زندگی بھر بینتی ہے خار ،راہ زیست سے

جاتے جاتے نعمت فردوس دے جاتی ہے ماں

یوں ٹپکتی ہیں در و دیوار سے ویرانیاں        

جیسے ساری رونقیں ہمراہ لے جاتی ہے ماں

جز غم شبیرممکن ہی نہیں جس کا علاج     

اپنی فرقت کا اک ایسا غم دے جاتی ہے ماں

اپنے غم کو بھول کر روتے ہیں جو شبیر کو   

ان کے اشکوں کے لئے جنت سے آجاتی ہے ماں

تذکرہ جب بھی کہیں ہوتا ہے اُس کے لال کا

رونے والوں کو دعائیں دینے آجاتی ہے ماں

روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھئے

چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں

۵۴

کھا کے ٹھوکر جب کبھی آغوش کا پالا گرا

        یا علی مولا مدد کہتی ہوئی آتی ہے ماں

جانے کیسا ربط ہے ماں اور علی کے درمیاں

''یا علی''بچہ پکارے ، اور آجاتی ہے ماں

زندگانی کے سفرمیں گردشوں کی دھوپ میں  

جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں

اپنے بچوں کیبہارزندگیکے واسطے      

آنسوئوں کے پھول ہر موسم میں برساتی ہے ماں

خالی ہوتا ہی نہیں بچوں کا دامانِ مراد        

جتنی آجائیں دعائیں اتنی بھر جاتی ہے ماں

ہاتھ اٹھا کرجب بھی میں کہتا ہوں  رب ارحمھما

اشک غم بن کر مری آنکھوں میں آجاتی ہے ماں

کب ضرورت ہو مرے بچے کو اتنا سوچ کر   

جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں

ہر عبادت ، ہر محبت میں نہاں ہے اک غرض      

بے غرض ،بے لوث ہر خدمت کو کر جاتی ہے ماں

       

۵۵

فلسفی حیران رہ جاتے ہیں دا نشور خموش     

زندگی کی گتھیاں کچھ ایسے سلجھاتی ہے ماں

اپنی اک انگلی اٹھا کر عرش اعظم کی طرف

ایک ہے اللہ یہ بچے کو بتلاتی ہے ماں

دل پہ رکھ کرہاتھ کہتی ہے یہاں پر ہیں علی

بعد میں اسمائے معصومین رٹواتی ہے ماں

گھر سے جب پردیسجاتا ہے کوئی نور نظر

آتھمیںقرآن لے کر در پہ آجاتی ہے ماں

دے کے بچے کو ضمانت میں رضائے پاک کی

پیچھے پیچھے سر جھکائے دور تک جاتی ہے ماں

کانپتی آواز سے کہتیہے بیٹاالوداع     

سامنے جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں

دوسرے ہی دن سے پھر رہتی ہے خط کی منتظر

در پہ آہٹ ہو ہوا سے بھی تو آجاتی ہے ماں

ہم بلائوں میں کہیں گھرتے ہیں تو بے اختیار

خیر ہو بچے کی کہہ کر در پہ آجاتی ہے ماں

۵۶

جب پریشانی میں گھر جاتے ہیں ہم پردیس میں

آنسوئوں کھو پونچھنے خوابوں میں آجاتی ہے ماں

حال دل جا کر سنا دیتا ہے معصومہ کو وہ

جب کسی بچے کو اپنی قم میں یاد آتی ہے ماں

جب لپٹ کر روضے کی جالی سے روتا ہے کوئی

ایسا لگتا ہے کہ جیسے سر کو سہلاتی ہے ماں

ایسا لگتا ہے کہ جیسے آگئے فردوس میں      

بھینچ کر باہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں

شمر کے خنجر سے یا سوکھے گلے سے پوچھئے          

''ماں''ادھر منھ سے نکلتا ہے اُدھر آتی ہے ماں

گر سکونِ زندگی گھر جائے فوجِ ظلم میں

چھوڑ کر فردوس کو مقتل میں آجاتی ہے ماں

چودہ صدیوں بعد مجھ کو آج بھی ہنگامِ عصر

ایسا لگتا ہے کٹے سر سے صدا آتی ہے ماں

ایسا لگتا ہے کسی مقتل سے اب بھی وقتِ عصر       

اِک بریدہ سر سے''پیاسا ہوں ''صدا  آتی ہے ماں

        موت کی آغوش میں بھی کب سکوں پاتی ہے ماں     

        جب بھی بچے ہوں پریشانی میں آجاتی ہے ماں

۵۷

بیٹی

بڑھ کے بیٹے سے سزاوار یقیں ہے بیٹی        اپنے ماں باپ کے خوابوں کی امیں ہے بیٹی

دل سے پوچھو تو رگ دل سے قریں ہے بیٹی کتنا سناٹا ہے جس گھر میں نہیں ہے بیٹی

        یہ متاع دل و جاں جس کے بھی ہاتھ آتی ہے       

اس کے دروازے پہ خوشیوں کی برات آتی ہے

بیٹا ہو سکتا نہیں بیٹی سے خدمت میں سوا             ہے یہ تاریخ کے صفحات پہ اب تک لکھا

بیٹوں نے زر کے لئے باپ کا کاٹا ہے گلا            ہاتھ سے بیٹی کے چھوٹا نہیں دامان وفا

پھوڑ دیں بیٹوں نے جب شاہجہاں کی آنکھیں

بیٹی ہی بن گئی اس سوختہ جاں کی آنکھیں

اس سے جاگ اٹھتی ہے صحرا کی ہو یا بن کی فضا      رنگ بیکار ہے مہکے جو نہ گلشن کی فضا

مسکرا دیتی ہے ماں باپ کے دامن کی فضا    اسی غنچے سے مہکتی ہے ہر آنگن کی فضا

ہوئی سو بار جہاں میں یہ حقیقت روشن

بیٹی کر دیتی ہے ماں باپ کی تربت روشن

کون کہتا ہے کہ بے وزن و بہا ہے بیٹی             آدمیت کے لئے حق کی عطا ہے بیٹی

        کیا خبر کتنے نبیوں کی دعا ہے بیٹی             شمع آغوش رسول دوسرا ہے بیٹی

قتل کرتا تھا جو بیٹی کو کہاں ہے باقی

نسل محبوب خدائے دوجہاں ہے باقی

۵۸

جس کے دامن میں یہ غنچہ ہو اسی سے پوچھو  قیمت اس گل کی رسول عربیﷺسے پوچھو

بیٹی کیا چیز ہے یہ قلب نبیﷺسے پوچھو   جذبہ الفت شاہ مدنی سے پوچھو

فاطمہ اور نہ خاتون جناں کہتے ہیں

اپنی بیٹی کو نبی پیار سے ماں کہتے ہیں

دیکھ لو شام میں آکے بیٹی کی الفت کا اثر     جس کے کاندھوں پہ ڈوپٹہ تھا نہ کانوں میںگہر

کانپتے ہاتھوں کو پھیلا کے اٹھائی جو نظر       طشت سے ہو کے بلند آگیا خود باپ کا سر

پیار بیٹے کا شہ جن و بشرسے پوچھو

باپ کا درد سکینہ کے جگر سے پوچھو

****

۵۹

بہن

کعبہ الفت و اخلاص و محبت ہے بہن                قبلہ عزت و توقیر و شرافت ہے بہن

حرم عصمت و تطہیر و طہارت ہے بہن             بھائیوں کے لئے اللہ کی رحمت ہے بہن

وہی جذبہ وہی الفت کی نظر رکھتی ہے

اپنے پہلو میں بہن ماں کا جگر رکھتی ہے

کوئی بدلہ نہ محبت کا صلہ مانگتی ہے  زندگی بھائی کیہرصبح و مسا مانگتی ہے

اپنی خاموش نمازوں میں دعا مانگتی ہے بھائی کے حق میں یہ شوہر سے سوا مانگتی ہے

اپنے بیٹوں سے چمن اپنا بھرا رہتا ہے

دل مگر بھائی میں بہنوں کا لگا رہتا ہے

گھر میں کچھ دن نہیں پاتی ہے جو بھائی کی خبر                پھرتی ہے ماہیٔ بے آب سی ہر شام و سحر

مائکہ رہتا ہے ایک ایک گھڑی پیش نظر                خدمت شوہر و اولاد سے فرصت پاکر

بھائی آجائے مرا دل میں یہی کہتی ہے

اوٹ میں آکے کواڑوں کے کھڑی رہتی ہے

رہتی ہے بھائی کے ہر رنج و مصیبت میں شریکمنزل غم میں سہارا ہے مسرت میں شریک

اپنا گھر چھوڑ کے ہو جاتی ہے آفت میں شریکجیسے کوئی نہ ہو بھائی کی محبت میں شریک

لاکھ اندھیر ہو گمنام نہیں ہوسکتا

ہو بہن جس کے وہ ناکام نہیں ہوسکتا

۶۰