امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات0%

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 109

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: فداحسین حلیمی
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 109
مشاہدے: 86529
ڈاؤنلوڈ: 5217

تبصرے:

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86529 / ڈاؤنلوڈ: 5217
سائز سائز سائز
امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام زمانہ

کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

مولف : فدا حسین حلیمی

سنہ : 1434      

۱

بسم الله الرحمن الرحیم

مقدمہ

جیساکہ کہا جاتا ہے(فإنّ‏ السؤال‏ مفتاح‏ لأبواب الكمالات و شفاء لأسقام الجهالات (1) سوال ترقی کی کنجی اور جہالت کی بیماریوں کے لیے شفا ہے چونکہ انسان فطری طور پر ایک ایسا موجود ہے کہ جسکی  سرشت میں جستجو اور پوچ گھچ رکھی گئی ہے  اور اسی راہ سے ہی جھل ونادانی کے پردے انسان کے آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیں اور علم ومعرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں ؛ اور کمال کی منازل طے کر جاتے ہیں ۔ دنیا  میں بہت سارے علوم اور اہم نظریات ایک چھوٹے سوال سے شروع ہوے ہیں اور آہستہ آ ہستہ یہی ایک چھوٹا سا سوال رشد کرتا ہوا  ایک مکمل علم اور نظریہ کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔

اور چونکہ مھدویت اور مصلح اعظم ؛ منجی عالم بشریت جو کہ آخری زمانہ میں ظاہر ہو کر ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا میں عدل وانصاف قائم کرئے گا اور ہر قسم کے ظلم وستم اور بربریت کا خاتمہ کرئے گا یہ ایک ایسا عالمی طرز فکر اور نظریہ ہے جس پر دنیا کے الھی ادیان والے اربوں افراد بھر پور عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر غیر دینی  اور فلسفی مکابت فکر بھی اس نظریہ کا قائل ہیں علاوہ بر این یہ ایک ایسا نظر یہ ہے جسکا انسان کے حال اور مستقبل کے ساتھ مکمل مرتبط ہے'  اسیلے علماء اسلام  نے حضرت حجت  کی ولات سے پہلے ہی اس موضوع پر اہل بیت اطہار  کی فرمائشات پر مشتمل جامع تالیفات تحریر کی ہیں یوں تو تاریخ اسلام میں آپکی   شخصیت کے اُپرسب سے زیادہ مضامین'  تالیفات ' اور تحقیقات لکھے گئیں ہیںکہ جنکی تعدار کئی ہزارتک پہونچتی ہے ۔

--------------

(1):- شرح الکاف ی-ال اصول و الروضة (للمول یصالح المازندرانی) / ج 2 /  ص : 6

۲

اسکے باوجود اگر چہ خاندان نبوّت کا ہر فرد مظلوم ہیں کسی کو زہرا جفا سے تو کسی کو نوک نیرہ سے شھید کردیا گیا لیکن امام زمانہ   ان سب سے زیادہ  مظلوم اور غیریب ہیں چونکہ آپ  زندہ ہیں اور لوگوں کے درمیان زندگی کرتے ہیں لیکن لوگ آپ کو پہچانتے  نہیں ' ساری دنیا آپ  کی برکت سے  آباد  ہے لیکن انکے ساتھ غیروں جیسا  سلوک رکھتا ہے'  جن وانس  انکی طفیل سے رزق کھاتے ہیں لیکن انکے مقام ومنزلت کی کوئی پروا نہیں کرتا ۔

اس حالت ایک مؤمن کے لیے اس  طرح نالہ وفغان کرنا چاہے :  یا بن فاطمہ الکبری بابی انت وامّی لک  الوقاء والحمی :اے فاطمہ کبری  کا فرزند مھدی  آپ پر قربان ہو میرے ماں باپ اور میری جان آپکے لیے فدا  ہے :عزیز  علیّ َ ان  ابکیک ویخذلک الوری : مجھ پر گراں ہے کہ میں آپ کیلے روؤں اور لوگ آپکو چھوڑے رہیں ۔ عزیز علیّ َ ان یجریَ علیک دونھم ما جری فھل من معینٍ فاطیل معہ العویل  والبکاء  ھل من جزوعٍ فاساعد جزعہ  اذا خلا  گراں ہے مجھ پر کہ لوگوں کی طرف سے آپ  پر گزرے جو گزرے کیا کوئی یاتھی ہے جسکے ساتھ مل کر آپ کے لیے گریہ وزاری کروں کیا کوئی بے تاب ہے کہ تنھائی میں اسکے ہمراہ نالہ وفریاد کروں ۔

خلاصہ یہ کہ ایک طرف امام مھدی عجل ﷲ فرحہ الشریف حتی کہ اپنے چاہنے والے دوستوں کے محفلوں میں بھی بے کس و تنہا ہیں؛  دن رات گزر جاتی ہے لیکن یک لمحے کے لیے ا نکو یاد کرنے کی زحمت نہیں کرتا ' زندگی ختم ہوتی ہے لیکن انکی معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا جبکہ وہ دن رات ہمارے ساتھ ہیں اور ہمیں ایک لحظے کے لیے بھی فراموش نہیں کرتے اور ہمیں  ہر گٹھن مراحل میں اکیلا نہیں چھوڑتے : انا غیر مہملین لمراعاتکم و لا ناسین لذکرکم(1) : ہم نے تمھارے بارے کبھی کوتا ہی نہیں کی اور نہ ہی تمھیں ایک لحظے کے لیے اکیلا چھوڑے

--------------

(1):- بحار الانوار (ط - ب یروت) / ج 53 / 175  ص : 150

۳

تو دوسری جانب استعماری طاقتیں اور دشمن انسانیت اپنی نام ونہاد اور انسانی اقدار سے متصادم تہذیب وثقافت کو بچانے اور لوگوں کی ذہنوں کو نظریہ مھدویت اور حضرت امام زمانہ  ارواحنا لہ الفدا ء کی ارمانی عدل جھانی حکومت سے دوررکھنے کے خام خیال کے تحت شب وروز  بڑے پیمانے پر شبہ افکنی میں مصروف ہیں ۔

 تو اس گریہ کنان حالت کو سامنے رکھتے ہوے اس چھٹی سی کتابچے میں حتی الامکان مستدل انداز میں حضرت مھدی کے متعلق اہم تریں شبہات اور سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے امید ہے مولی کے صدقے میں یہ  ناچیز کا وش نسل جدید کے لیے مفید ثابت ہو جاے اور پروردگار عالم  اس بندہ عاصی کو عفو درگزر فرماے ۔ آمین ! 

۴

مہدویت اور امام مہدی

سوال نمبر 1: مہدویت کیا ہے اور کہاں سے شروع ہوئی ہے ؟

جواب : مہدویت سے مراد  مصلح  اعظم ؛ منجی عالم بشریت ؛ سلالہ پاک ختم نبوّت (ص)؛ فرزند صدیقہ کبری ؛ قائم آل محمدؐ حضرت مھدی         موعود کا آخری زمانہ میں حتمی طور پر ظہور کرنے اور تمام بشریت کو ظلم وجور سے نجات دلا کر پورے زمین کو عدل وانصاف سے بھر دینے پر عقیدہ رکھنا  اور انکے ظھور کی انتظار میں زندگی بسر کرنا ہے۔اور یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جسکے تمام اسلامی  فکری اور فقہی مذاہب پابند ہیں اور قرآنی آیات اور متواتر آحادیث کی روشنی میں مہدویت پر عقیدہ رکھنے کو ضروریات اسلام میں سے سمجھا جاتا ہے اور اس عقیدے کے انکار  کرنے والے کو منکر اسلام اور کافر جاننا جاتا ہے ۔

اسی طرح مھدویت پر عقیدہ اسلام اور آسمانی ادیان   کے ساتھ مختص نہیں ہے  بلکہ جس طرح بعض مشہور غربی مفکریں اور فلاسفر جیسے   برٹرینڈراسل ؛ اینشٹائن ؛ برنادڑشو ؛ ولیام لوکااریسون؛ کانت  اور  دیگر افراد کے کہنے کی مطابق  حتی کہ غیر دینی اور مادی مکاتب فکر بھی آخری زمانہ میں ایک  مصلح اعظم قیام کر کے  عالم بشریت کو نجات دلانے اور  زمین پر عدل وانصاف پھیلا کر  تمام انسانوں کے لیے ایک سعادت مند زندگی کا زمینہ فراہم کرنے پر عقیدہ رکھتے ہیں (1)

لیکن دین مبین اسلام نے اس آفاقی  اور فطری نظرے کی تائید کرنے کے ساتھ ساتھ اسکی اہمیت ؛ ضرورت اور حتمی طور پر تحقق پانے پر زور دیا ہے اور اس عقیدے کی تفصیلات  اور جز ئیات تک بتا دی ہے ۔لہذا یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس عقیدے کا اصل منشاء انسانی فطرت ہے چنانچہ تمام امتوں نے اس عقیدے کو اپنے زندگی میں تجربہ کیا ہے ۔

--------------

(1):-   اسد اللہ ہاشم ی: ظ ہور مہد یاز نگا ہاسلام ومذا ہب وملل جھان : ص 413 ۔415 ؛چھاپ اول ؛ ناشر؛ مسجد جمکران؛ 1380 ہش ۔

۵

سوال  نمبر 2:   عقیدہ مھدویت  اور امام مہدی کے درمیان کیا رابطہ ہے ؟

جواب: پہلے بھی اشارہ ہوا کہ کوئی بھی اسلامی مذاہب امام مہدی         کے وجود کی ضرورت کوانکار نہیں کرتا  لیکن مکتب آھلبیتؑ کے مانے والے اور دوسرے اسلامی فرقوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اہل سنت برادران کا عقیدہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک مھدی نامی شخص نسل پیغمبر اکرم (ص) اور فاطمہ زہرا ؑ کی اولاد میں پیدا ہوگا  اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح طلم وجور سے بھر چکی ہوگی  لیکن وہ شخص کون ہوگا اب تک نہیں معلوم۔   جسے عام اصطلاح میں مہدویت نوعی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

لیکن مکتب اہل بیتؑ کے مانے والوں کا عقیدہ ہے کہ  امام مہدی         ایک معین شخص کا نام ہے جو پیدا ہوچکے ہیں اور پیغمبر اکرم(ص)  کے ارشاد کے مطابق وہ شخص فرزند  حضرت حسن العسکری ابن ھادی النقی  ابن تقی الجوادؑ  ابن علی الرضاءؑ ابن موسی الکاظم ؑ ابن جعفر الصادق ؑابن محمد الباقرؑ ابن علی ؑابن حسینؑ ابن علی ابن ابی طالب فرزند فاطمہ  زہرا ؑ  بنت محمد(ص) بن عبداللہ ہے اور اب تک پردہ غیبت میں زندہ ہیں۔جسے عام اصطلاح میں مہدویت شخصی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

لہذا آخری زمانہ میں امام مہدی منتظر قائم آل محمد ؐکے ظہور کا حتمی اور ناقابل تغیر  ہونا تمام مسلمانون کا مشترکہ عقیدہ  اور ضروریات اسلام میں شمار ہوتا ہے  لیکن شیعون اور دیگر مذاہب کے درمیان اختلاف صرف مصداق  کے معین ہونے میں ہے ۔

۶

سوال نمبر 3: کیا اہل سنت علماء امام مہدی کے متعلق احادیث کے صحیح اورمتواتر ہونے کا قائل ہیں ؟

جواب :جی ہاں ہر دور میں بڑے بڑے علماء ؛ محدثیں اور حفاظ نے امام مہدی کے متعلق احادیث کی صحیح اور متواتر  ہونے کا اعتراف کیا ہے  ہم چند اہم شخصیات کو انکے بیانات کے ہمراہ یہاں تذکرہ کرتے ہیں ۔

1:امام  الحافظ ابوالحسن الآبری السنجری متوفی363 ہجری اپنی کتاب مناقب شافعی میں لکھتے ہیں:قد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرة رواتها عن المصطفی(ص) بخروجه وانه من اهل بیته وانه یملا الارض عدلاً  (1) امام مھدی ؑسے متعلق مروی روایتیں اپنے راویوں کی کثرت کی بنا پر تواتر اور شہرت عام کے درجہ پر پہنچ گئی ہیں کہ وہ اہل بیت رسول(ص) سے ہونگے  اور وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے (2)

2: ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب فتح الباریمیں لکھتے ہیں :روایتی درجہ تواتر کو پہنچ گئی ہیں کہ امام مہدیاسامت سے ہیں اور حضرت عیسی آسمان سے اتریں گئے اور انکے پیچھے نماز پڑیں گئے  (3)

3:شیخ ناصر الدین البانی اس بارے میں کہتا ہے :انّ عقیدة خروج المهدی ثابته متواترة عنه یجب الایمان بها (4)

--------------

(1):- ابن حجر ہیثم ی: الصواعق المحرق ہ:ج 2 ؛ص 480

(2):- حافظ آبریکے اس قول کو ابن ق یم نے؛المنا ر المنیف اور سفار ین ینے؛ لوائح الانوار الب ہیہاور مراعیبن یوسف للکرم یک یکتاب فوئد الفکر کے حوالے سے اور ابن حجر ھثم یمک ینے؛الصواعق المحرق ہج 2 ص 480  م یں نقل ک یا ہے ۔

(3):-    ابن حجر عسقلانی: فتح البار ی؛ ج 7 ؛ ص 169 

(4):-  مجلہالتمدن الاسلام ی؛ شمار ہنمبر 2 2 ؛ ص 643 ؛ چھاپ دمشق ۔

۷

4 : شیخ محمد البرنجی المدنی متوفی 1103ہجری اپنی کتاب ؛ الاشراط الساعۃ   میں لکھتے ہیں : محقق طور پر معلوم ہے کہ مھدی سے متعلق احادیث کہ آخری زمانہ میں انکا ظہور اور وہ آنحضرت ؐ کی نسل اور فاطمہ زہراء ؑ کی اولاد میں سے ہونگے تواتر معنوی کی حد ک پہنچی ہوئی ہے لہذا انکے انکار کی کوئی وجہ اور بنیاد ہیں ہے (1)

امام مھدی کے ظہور پر عقیدہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو حضور (ص) سے متواتر احادیث کے ذریعے سے ثابت ہے جس پر ایمان رکھنا واجب ہے ۔

5  : محمد نواب صدیق خان قونجی ہندی اپنی کتاب ؛ الازاعۃ  میں لکھتے ہیں : امام مھدی کے متعلق احادیث مختلف روایتوں کے ساتھ بہت زیادہ ہیں جو حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں(2) پھر اسی کتاب کے کسی اور صفحے میں لکھتے ہیں : اس بات میں ادنیشک نہیں ہےکہ آخری زمانہ میں امام مھدی ظہور کریں گے کیونکہ اس بارے میں احادیث متواتر ہیں اور سلف سے خلف تک جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے  (3)

6: اسی طرح مسلک دیوبند کے مستند عالم شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی نے جو کتابچہ عربی میں امام مہدی کے متعلق صحیح احادیث کی جمع آوری کی ہیں اس میں فرماتے ہیں : ان احادیث کو جمع کرنے کا ایک غرض یہ بھی ہے کہ بعض مصنفین کے کلام سے لوگ دھوکہ نہ کھاجائیں جنہیں علم حدیث سے لگاو نہیں ہے جیسے علامہ ابن خلدون وغیرہ یہ حضرات اگر چہ فن تاریخ میں معتمد ومستند ہیں ؛ لیکن علم حدیث میں ان کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے (4)

--------------

(1):-محمد البرنجیالمدن ی؛ الاشارد لالشراط الساع ۃ ؛ ص 112 ۔

(2):-محمد نواب صدیق خان قونج ی ہند ی: الازاعۃ لما کان ویکون ب ین ید یالساع ہ:ص53 ۔

(3):-محمد نواب صدیق خان قونج ی ہند ی: الازاعۃ لما کان ویکون ب ین ید یالساع ہ:ص126 ۔

(4):-سیّد افتخار حس ین نقو ی:عصر ظ ہور کا اردو ترجمہ؛ ص 25 ۔ 31 ناشر؛ادار ہمن ہاج الصالح ین ؛ چھاپ اول2002 ۔

۸

7 : وہابی مسلک کے  اہم دینی مرکز ؛رابطة العالم الاسلامی ؛ نے اہل کینیا کے رہنے والے کسی سائل کے جواب میں جوبیانیہ دیا ہے وہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں :و هوآخر الخلفاء الراشدین الاثنی عشر الّذین اخبر عنهم النبىّ (ص) فی الصحاح ؛واحادیث المهدی واردة عن الکثیر من الصحابه یرفعونها  الی رسول الله (ص) وقدنصّ علی انّ احادیث المهدی انها  متواترة جمع من الاعلام قدیما ً وحدیثاِونصّ الحفّاظ والمحدّثون علی انّ احادیث فیها الصحیح والحسن ومجموعها متواتر مقطوع بتواتره وصحته ؛وانّ الاعتقاد بخروج المهدی واجب وانه من عقائد اهل السنه  والجماعه ولا ینکرها الاّ جا هل بالسنه ؛ والمبدع فی العقیدة (1)   امام مھدی ان 12 خلفاے راشدیں میں سے آخری ہیں جنکے بارے میں نبی اکرم(ص)  نے خبر دی  ہے  جس طرح کتب صحاح میں آیا ہے ؛ اور  امام مھدی  سے متعلق  احادیث کو  20 سے اوپر اکابر صحابہ اور دیگر اصحاب رسول نے رسول اللہ (ص) سے نقل کیا ہے ۔اسی طرح  سلف اور خلف کے بعض بڑے بڑے بزرگوں نے اپنے تالیفات میں ان احادیث کے متواتر ہونے کا اقرار کیا ہے ۔۔۔

اسی طرح علم حدیث کے  ماہرین ؛حفاظ ؛ محدثین  امام مھدی  سے متعلق احادیث  کے بارےمیں فرماتے ہیں  اگر چہ بعض احادیث ضعیف اور بعض دیگر حسن ہیں لیکن مجموعی طور پر درجہ تواتر تک پہنچی ہیں انکے صحیح اور متواتر ہونے میں کو شک نہیں ہے ۔اور امام مھدی کا ظہور پر اعتقاد رکھنا واجب ہے اور یہ اہل سنت جماعت کی عقائدی مسائل میں شامل ہے جسکا کوئی انکار نہیں کرتا سوائے سنت رسول (ص) سے جاہل اور عقیدے میں بدعت گزار شخص کے۔

 پس معلوم ہوتا ہے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء اور محدثیں نہ صرف ان  احادیث کے متواتر ہونے کاقائل ہیں بلکہ  پوری امت اسلامیہ کے اس عقیدہ پر متفق ہونے کو کہا ہے ۔

--------------

(1):- گنجیشافع ی: الب یان : چھاپ پنجم ؛ناشر؛موسس ہنشر اسلامیقم 1415ھ ق اس کتاب کے آخر م یں اس فتوے کو مکمل طور پر نقل ک یا  گ یا ہے ۔

۹

سوال  نمبر 4: کیا مہدویت  پر اسلام کے علاوہ دوسرے دینی اور مادی ادیان اور مکاتب فکر بھی عقیدہ رکھتے ہیں کیا دلیل ہے ؟

جواب : علمی تحقیقات کے مطابق یہ بات ماننا پڑتا ہے مہدویت اور  آخری زمانہ میں منجی اور مصلح اعظم   کے ظہور کرنے   کا انتظار اور موجودہ حالت سے عالم بشریت کو نجات دلانا  اسلام اور آسمانی مکاتب فکر کے ساتھ  مختص  نہیں ہے بلکہ غیر آسمانی اور مادی وفلسفی مکاتب فکر بھی اس نظریۃ  پر عقیدۃ رکہتے ہیں  لیکن ہم         انہی؟ن دو گروہوں میں تقسم کرتے ہیں ۔

پہلا گروہ : ان مکاتب فکر کا ہےجو حقیقت میں فلسفی اور مادیّ توجھات کے حامل ہیں اور انھیں علمی اصطلاح میں غیر دینی اور مادی مکاتب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ راسل کہتا ہے : آخری زمانے میں منجی کا انتظار اور اسکا آخری زمانہ میں ظہور کرنا عالم بشریت کو نجات دینا یہ آسمانی ادیان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ غیر دینی اور مادی مکاتب فکر بھی تمام عالم بشریت کو نجات دلانے والے اور عدل وانصاف پھلانے والے کے ظھور کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں:

1: ھندو  اور مہدویت پرعقیدہ

1 : ھندوں  کی مقدس کتاب اونیشاد :

 ھندو مذہب کی  مقدس کتاب اونیشاد میں آیا ہے : یہ ویشینو (مظہر دھم ) کا مظہر عصر آہنی میں سفید گوڑے پر سوار ہو کر ننگے شمشیر ہاتھ میں لیے  ظہور کریں گے اور تمام ظالموں کو ہلاک کریں گے اور خلقت پھر سےدوبارہ اپنی اصلی حالت میں پلٹا دیں گے اور وہ زمانہ دنیا کا  آخری زمانہ ہو گا (1)

--------------

(1):- محمد دادا شکوہ:ترجم ہ  اوپان یشا : ج 2 ص 637 ۔ 

۱۰

2:  ھندوں کی کتاب باسک :

 اس کتاب میں آیا ہے : دنیا کے آخری زمانہ میں ایک عادل بادشاہ ظہور کرے گا اور وہ تمام انسانوں ؛ ملائکہ اور جنّوں سب  کا آقا اور رہنما ہو گا  حق اسکے ساتھ ہوگا اور زمین ؛ دریا ؛ پہاڑ سب اپنے اپنے خزانوں کو اُگل دے گا اسے افضل اس روئے زمین پر نہ کوئی گزرا ہے اور نہ کوئی آے گا اور وہ زمین سے آسمان سے غیبی خبر دے گا(1)

ان عبارات میں منجی کی جو خصوصیات۔ مثال کے طور پر۔1: آخری زمانہ میں ظہور کرنا  ۔2:ظالموں اور اشرار سے زمیں کو پاک کرنا ۔3: ظلم وجور کی بساط جمع کرکے اسکی جگہ عدل و انصاف کوفروغ دینا  ۔4: زمیں وآسمان اپنی مخفی خزانوں کو اُگل دینا ۔ 6:غیب سے  خبر دینا 7: زمین کا آباد ہونا ۔اسی طرح اور بعض دیگر  خصوصیات بھی  مثلا ً ۔ ناموس آخرالزمان (یعنی پیغمبر اعظم (ص) ) کا بیٹا ہونا ۔ رہنما ؛ استوا (قائم ) جسکے القاب میں سے ہونا ۔ پیشن (علی ابن ابی طالب ؑ )کے اولاد میں سے ہونا(2) ۔  وارد ہوئی ہیں یہ وہی خصوصیات اور صفات ہیں جو امام مھدی ؑ کے بارے  میں ہماری دینی نصوص میں آئی ہیں ۔

2:  زرادشت اور مہدویت پر عقیدہ 

 مکتب زرادشت کی دینی کتابوں میں مہدویت کے بارے میں بہت ساری گفتگو ہوئی ہے اور مختلف مقامات  پر  منجی عالم کے ظہور کرنے کی بشارت دی ہے یہاں تک انکے بعض کتابوں میں پیغمبر اعظم(ص)  کی خاتم نبی ہونے اور انکے فرزند  امام مہدی  کے ہاتھوں انکے لائے ہوے دین کا پورے ادیان پر غالب آنے اور  مؤمنین کے ایک گروہ کا آخری زمانہ میں رجعت کرنے کی خبر دی ہے۔

--------------

(1):- بشارات عھدین ص  246 اور لمعات النوار فی کیفیۃ الظہور: ج 1 ص 19 ۔  .3.

(2):-کرمان ی: علائم الظ ہورص 17 ۔ 20۔

۱۱

جاما سب اپنی کتاب (جاماسب نامہ )میں لکھتا ہے عربی پیغمبر ؐجو کہ آخری پیغمبر ہونگے مکہ کے سنگلاخ خوشک چٹانوں کے درمیان مبعوث ہونگے سادگی کی یہ حالت ہوگی وہ شتر سوار ہونگے جس طرح اسکی قوم شترسواری کے لیے استفادہ کرتی ہے ؛اپنے غلاموں کے ساتھ ملکر ایک دستخوان پر کھانا تناول کریں گے کبھی غلاموں کو سواری کے طور پر استفادہ نہیں کریں گے ۔پیچھے اسی طرح دیکھ سکھیں گے جس طرح آگے کو دیکھ سکھتے ہیں انکا لایا ہوا دین پورے ادیان کی نسبت بہترین  اور کامل ترین دین ہوگا اور کتاب دوسرے تمام کتابوں کو منسوخ کرگی اسکی حکومت حکومت عجم کو نابوت کرئے گی اور دین مجوس کو ختم  ؛ آتشکدوں کو خاموش اور خراب کریں گے  اس پیغمبر کی بیٹی خورشید عالم اور سیدہ نساء انکا نام ہوگا جسکا فرزند اس پیغمبر کا آخری جانشین مکہ میں قیام کرے گا اور پوری دنیا پر قیامت تک حکومت کرے گا   ۔۔۔اور وہ وقت دنیا کا آخری زمانہ ہو گا ۔(1)

اسی طرح بعض مادی اور الحادی افکار کے حامل افراد نے بھی اس عقیدے کا ایک عالمی نظریہ ہو نےاور اسلام کے ساتھ مختص نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے :

 جیسا کہ راسل کہتا ہے : آخری زمانے میں منجی کا انتظار اور اسکا آخری زمانہ میں ظہور کرنا عالم بشریت کو نجات دینا یہ آسمانی ادیان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ غیر دینی اور مادی مکاتب فکر بھی تمام عالم بشریت کو نجات دلانے والے اور عدل وانصاف پھلانے والے کے ظھور کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

 دوسرا گروہ : ان مکاتب فکر کا ہے جنہیں عام اصطلاح میں آسمانی ادیان  سے  تعبیر کیا جاتا ہے مثال کےطور پر:

--------------

(1):-  لمارت الانوار : ج 1 ؛ ص 23۔۔25 ۔

۱۲

1:عہد عتیق اور عقیدہ مہدویت

کتاب مقدس عھد عتیق (توریت ) میں بہت ساری نصوص اسیے ہیں جو عقیدۃ  مہدویت  پر پوری طرح روشنی ڈالتی ہیں اور آخری  زمانہ میں مسیحا  یا منجی بشریت کی آمد اور اس کائنات کو عدل و انصاف سے بھر دینے اور بشریت کو ظلم وجور سے نجات دینے کی بشارت دی ہے(1) چناچہ تورات میں ہم مطالعہ کرتے ہیں :اشرار اور ظالمون کے وجود سے کبھی نا امید نہ ہو اس لیۓ کہ ظالموں کی نسل زمین سے مٹادی جاۓگا،اور عدل الہی کا انتظار کرنے والے زمین کا وارث بنین گۓ جو افراد جن پر خدا نے لعنت کی ہے ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گا اور صالح افراد وہ ہونگے جو زمیں کے وارث بن چکے ہونگۓ اور تاریخ کے اختتام تک زمین پر زندگی بسر کریں گے(2) اسی طرح  اشعیا  نے ایک آرام اور تسلی بخش مسیحا کی قوم یہود کے درمیان اس کی پیشنگوئیوں میں سے ایک کی تصور کشی کی گئی ہے وہ ایک آرزومندانہ اور عادلانہ  حکومت کو پھیلا دے گا اور زمانہ میں  کائنات معرفت الہی  سے پر ہو جائے گی جیسے پانی دریا کو ڈھانپ لیتا ہے "(3) اسی لیے امریکا کا مسیحی شہرت یافہ مؤلف اپنی کتاب قاموس المقدس  میں یہودیوں کی مہدویت  پر عقیدے کے متعلق یوںلکھتا ہے : یھودی نسل در نسل عہد قدیم  تورات  - کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی پر مشقت طویل تاریخ میں ہر قسم کی ذلتوں؛  اذیتوں؛   رسوایوں اورشکنجوں کو صرف اس اُمید کے ساتھ تحمل کیا کہ ایک دن مسیحا منجی یہودیت ۔ آینگے  اور انہیں ذلت وخورای و  رنج و مصیبت کے گرداب سے نجات دلائیں گے ، اور انھیں پورے کائنات کا حاکم بنایں گے(4) لیکن اس انتظار سوزان کے بعد جب جناب مسیح اس دنیا میں آۓ تو انھون نے  ان میں کچھ وہ صفتیں نہیں پایے جنکے مسیحا میں ہونا ضروری سمجھتے  تھے چنانچہ انھوں انکی مخالفت شروع کی یہان تک انکو سولی پر چڑایا اور قتل کیا۔

--------------

(1):- اسد اللہ ہاشم ی: ظ ہور مہد یاز نگا ہاسلام ومذا ہب وملل جھان : ص 413 ۔415 ؛چھاپ اول ؛ ناشر؛ مسجد جمکران؛ 1380 ہش ۔

(2):- کتاب مقدس: سفر مزامیر داود، نمبر ۳۷

(3):-   اشعیا ؛ 11 : 10 صفنیاء ؛ 3 ؛  9 ۔

(4):- قاموس مقدس : مسٹر ہاکس ، ص ۸۰۶ 

۱۳

2:عہد جدید اور عقیدہ مہدویت

      انجیل یوحنا میں حضرت عیسیؑ مسیح  کا قول نقل ہوا ہے ”اور عنقریب جنگون اور اسکی افواہون کو سنیں تو کبھی ایسا نہ ہو کہ اسکی وجہ سے بے صبری کا اظہار کریں،اس لیے کہ اسکے علاوہ کو اور چارہ نہیں ہے، لیکن وہ دن وقت تاریخ کا  اختتامی زمانہ نہیں ہے(1)

اسی طرح یوحنّا اپنے مکاشفہ بیان کرتے ہوے کہتا ہے : اچانک آسمان کے دروازے کھولے گے  ایک سفید گھوڑے کو دیکھا جسکے سواری کا نام امین اور حق تھا  وہ عدل کے ساتھ قضاوت اور جنگ کرے گا  اور سورج کے دروازے پر ایک فرشتے کو دیکھا جو تمام مرغابیوں کو بلا رہا تھا آجاو پروردگار عالم کے اس عظیم مہمانی میں شرکت کرو  تاکہ بادشاہوں ؛  ظالموں  اور انکے فوجی کمانڈروں کے گوشت کھایا جائے ۔(2)

لیکن انجیل کے مفسریں ان آیات کے متعلق لکھتے ہیں : جس شخص کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے وہ ابھی وجود میں نہیں آیا ہے بلکہ یہ کہہ سکتا ہے کہ  اکثر خصویات اس مسیحا کے عہدین میں ذکر ہوئی ہیں وہ حضرت مسیح پر صدیق نہیں آتی بلکہ امام مہدی        پر صدق آتی ہے چنانچہ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے  قاموس المقدس کا مؤلف کہتا ہے :انجیل میں منجی عالم بشریت کو فرزند انسان کے نام سے ۸۰ جگہون پر پکارا ہے ان میں سے صفر ۳۰ مورد حضرت مسیح       پر صدق آتا ہے باقی ۵۰ مورد ان پر صدق نہیں آتا بلکہ یہاں ایک ایسے مصلح اور منجی جہانی کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جو آخری زمانہ میں ظھور کریں گے-(3)

--------------

(1):- کتاب مقدس :یوحنا اصحاح ۲۴ نمبر ۶

(2):- کتاب مقدس :یوحنا اصحاح  ۲۴  بابب نمبر 19 ؛11 ۔

(3):- قاموس مقدس :ص ۲۱۹ :وہ  آجاے گا ،وال ی کتاب سے نقل کیا ہے ،ص ۳۳

۱۴

سوال نمبر 5: کیا اہل سنت علماء میں سے کوئی امام مہدی کے امام حسن العسکری ؑ کے بیٹا ہونے اور انکی ولادت کے قائل ہیں ؟

جواب : اگر چہ  اہل سنت کے اکثر علما ء کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی         سلالہ پاک نبی اعظم (ص) فرزند فاطمہؑ  اور امام حسین         کے نسل سے ہونگے اور آخری زمانہ میں پیدا ہونگے  لیکن ان میں سے بعض علماء  جن میں بڑے بڑے محققیں ؛  مورخیں  اور حفاظ بھی شامل ہیں انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے اور صریح الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے  کہ امام مہدی ؑ  وہی شخص ہیں جو 255 ہجری قمری کو امام حسن العسکری        کے بیت السرا میں دنیا میں آے  ہیں جسکے بارے میں شیعہ انکے بارہویں امام ہونے کا  عقیدہ رکھتے ہیں  یہ اسلیے  کہ امام مھدی کے متعلق مجموعہ احادیث جسے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء نے نقل کیا سوائے اس شخص کے کسی اور پر صدق نہیں آتی ہیں انھی علماء اور مؤرخین میں سے بعض کا قول مختصر انداز میں ہم یہاں نقل کرتے ہیں ۔

1: ابن ابی ثلج بغدادی  متوفی 326 ہجری ۔

ابن ابی ثلج بغدادی امام عصر         کے نوّاب خاصّہ کے ہم عصر ابوالحسن دار القطنی کے استاد؛ امام حسن العسکری        کے اولاد کا تذکرہ کرتے ہوے لکھتا ہے : ۔۔۔ جب محمد بن حسن الحجہ ؑ  ( امام مھدی ؑ ) دنیا میں آے تو امام حسن العسکری         نے  اپنی گفتگو کے ضمن میں فرما یا : ظالم دشمنوں نے  میرے قتل کا منصوبہ بنایا تاکہ اس نومولود   کا خاتمہ ہو جاے لیکن انھوں نے قدردت خدا کو دیکھ لیا اور اسکا نام مومّل رکھا   ۔۔۔۔ اورامام حسن العسکری ؑ کی بہن  حکیمہ خاتون وہ شخص ہے جس نے  حضرت حجت کی ولات کا واقعہ نقل کیا ہے(1)

--------------

(1):- موالید الائم ہ: ص 9 ۔ 10 ۔

۱۵

2: علی ابن حسین مسعودی ؛ متوفی 346 ہجری۔

جناب مسعودی اپنی مشہور تاریخی کتاب مروج الذھب میں لکھتا ہے  :ابو محمد حسن ؑ بن علی ؑ ۔۔۔۔۔۔بن حسین ؑ بن علی ؑ بن ابی طالب نے 29 سالہ عمر میں سنہ 260 ہجری کو وفات پائی  اور آپ شیعوں کا بارورہوین امام ؛ حضرت مہدی کا والد گرامی تھے(1)

اسی طرح اپنی زندگی کی آخری کتاب ( التنبیہ والاشراف ) میں لکھتا ہے :شیعوں کا باروین اما جسکے ظہور کے انتظار میں ہیں وہ محمد بن حسن العسکری   ۔۔۔۔۔  ابن علی        ابن ابی طالب ہیں ۔(2)

3: احمد بن حسین بیھقی شافعی متوفی 458 ہجری ۔

 جناب بیھقی اپنی کتاب( شعب الایمان )میں لکھتا ہے :لوگ امام مہدی  کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں ؛ ایک گروہ  اس بارے میں تردد کا شکار ہے اور اسکا علم خدا پر چھوڑتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مھدی  پیغمبر خدا کی اکلوتی بیٹی حضرت زہرا کی نسل سے ہیں اور پرودگار عالم اپنے دین کی نصرت کے لیے اسے پیدا  کرے گا اور وہ قیام کریں گے ۔

جبکہ دوسرا گروہ کا کہنا ہے مہدی موعود          255 ہجری  15 شعبان معظم کو جمعہ کے دن دنیا میں آے ہیں اور وہی امام حجت ؛ قائم ؛منتظر محمد بن الحسن العسکری  ؑ ہیں شہر سامرا میں غائب ہوے ہیں  آیند ظہور کریں گے اور جھان  کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح ظلم وجور سے بھر چکا ہو گا ۔۔۔ انکے طول عمر کے متعلق بھی کوئی عقلی مانع  موجود نہیں ہے جس طرح حضرت عیسی اور خضر  دونتوں زندہ ہیں  اور یہ شیعہ امامیہ اور اہل کشف والوں کا عقیدہ ہے(3)

--------------

(1):- مسعودی: مروج الذ ہب :ج 4 ص 112۔

(2):- مسعودی: التنب یہوالاشراف : ص 198 ۔ ۔ 199 ۔

(3):- المہد یالمنتظر :ج 1 ص 182 اور کشف الاستار : ص 98 ۔

۱۶

4: فخر الدین رازی متوفی 606 ہجری ۔

علامہ فخر رازیاپنی کتاب (الفرق ) میں شیعہ مختلف فرقوں  کا تذکرہ کرتے ہوے لکھتا ہے : تیرویں قسم  منتظریں کی ہے  جو کہتے ہیں امامت امام حسن العسکری        کے  بعد انکے فرزند کی ہے جو ابھی غیبت میں ہیں اور ایک دن ظہور کریں گے ہمارے زمانے میں شیعہ امامیہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں(1)

5 : محی الدین عربی متوفی 638 ہجری ۔

عالم اسلام کے مشہور عارف محی الدین عربی   امام مہدی ؑ بارے میں لکھتا ہے : مھدی ؑ رسول اکرم (ص) کی عترت فاطمہ کے نسل سے ہیں انکا جد امام حسین ؑ اور والد گرامی امام حسن العسکری ؑ بن امام علی نقی ۔۔۔۔۔۔۔۔امام علی ؑ بن ابی طالب ہیں(2)

6: شیخ عبد الرحمن صوفی ۔

شیخ عبد الرحمن صوفی ؛ صوفی مسلک کے مشہور شیوخ میں ہیں امام مہدی کے بارے میں اپنی کتب (مرآت  الاسرار ) میں لکھتا ہے : وہ دین ودولت کے آفتاب وہ تمام امتوں اور حکومتوں کو راہ دیکھانے والا  وہ قائم مقام پاک احمدی وہ امام برحق ابولاقاسم محمد بن حسن  اہلبیت عصمت کے امامت کی بارویں کڑی 255 ہجری 15 شعبان جمعہ کی رات کو سِر من ری کے مقام پر دنیا میں آے جب انکے والد مکرم امام حسن العسکری اس دنیا سے رخصت ہوے اس وقت انکی عمر 5 سال کی تھی  ۔۔۔حشرت محی الدین عربی نے (فتوحات) میں ؛مولانا  عبد الرحمان  جامی نے (شواہد النبوّہ ) میں ؛سعد الدین حموی نے اپنی کتاب میں انکے حالات ؛کمالات ؛ غیبت اور ولادت کے بارے میں مفصل بحث کی ہے(3)

--------------

(1):- فخر الدین راز ی: الفرق ص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(2):- عبد الرحمن صوفی:  کشف الاستار: ص 49 ۔۔۔50 ۔

(3): عبد الرحمن صوفی: کشف الاستار :ص 49 ۔ ااورالم ہد یالموعود المنتظر :ج 1 ص 205 ۔

۱۷

7: کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی متوفی 650 ہجری ۔

اہل سنت کے مشہور عالم اور نامور فقیہ اپنی کتاب (مطالب السؤول) میں امام حجتؑ کے بارے میں لکھتا ہے : ابو محمد حسن عسکری 231  ہجری میں دنیا میں آے انکی سب سے بڑی منقبت اور خصوصیت جسے پرودگار عالم نےانکے ساتھ مختص کیا وہ یہ تھی کہ امام مہدی ؑ انکے نسل سے اور انکے فرزند ہیں(1)

8: حافظ محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی 658 ہجری ۔

جناب گنجی شافعی اپنی کتاب (کفایہ الطالب )میں لکھتا ہے : ابو محمد حسن العسکری ؑ سامراء  کے مقام پر اپنے گھر کے اندر مدفون ہوے انکا ایک بیٹا تھا وہ امام منتظر ہیں ہم اپنی اس کتاب کا اختتام  انکے نام پرکریں گے اور انکے متعلق بحث کریں گے(2)

9: شمس الدین محمد ذہبی متوفی 748 ہجری ۔

ذہبی اپنی کتاب(دول الاسلام ) میں لکھتا ہے : حسن بن علی بن ---اثنا عشریہ کے اماموں میں ایک ہیں 260 ہجری میں وفات پائی اور آپ منتظر محمد بن حسن کے والد ہیں ۔(3) اسی طرح تاریخ الاسلام میں لکھتا ہے : محمد بن حسن العسکری ابو القاسم علوی حسینی شیعوں کا آخری امام ہیں اور انکا عقیدہ ہے آپ  امام مہدی اور احبالزمان ہیں(4) اسی طرح دوسرے بہت سارے علماء جیسے : قاض جواد ساباطی حنفی متوفی 1250 ہجری(5) : شمس الدین بن طولوں دمشقی متوفی  953  ہجری(6) : شیخ عبد اللہ شبراوی شافعی متوفی 1172(7) : شبلنجی مصری(8) : قندوزی(9) اور بھی بہت سارے اہل سنت  علما ء نے امام مہدی ؑ کی ولادت کا اعتراف اور فرزند امام حسن عسکری  ہونے کا تصدیق کیا ہے ۔

---------------

(1):- ابن طلحہشافع ی: مطالب الؤول ف یمناقب آل رسول: ص 309 311 (2):- گنجیشافع ی: کفا یۃ الطالب: ص 458 (3):- ذہب ی: تار یخ الاسلام: ج 19 ص 113 حوادثنمبر 51- 60 ہجر ی (4):- ذہب ی: تار یخ الاسلام : ج 19 ص 113 حوادثنمبر 51 60 ہجر ی۔ (5):- عبد الرحمن صوفی:کشف الاستار: ص 49 ۔50 (6) ابن طولوں دمشقی:الائم ہالاثن یعشر ص 117 (7):- شبراوی:الاتحاف بحب الاشراف ص 179 (8):-شبلنجی: نور الابصار:ص 185 چھاپ دار الفکر 1399 ہق (9):- قندوزی: یناب یع المود ۃ:ج 3 ص 206

۱۸

سوال نمبر  6 :کیا قرآن کریم میں مھدویت اور امام مھدی ؑ کے متعلق کوئی صریح  گفتگو ہوئی ؟

جواب : قرآن کریم ہر دور اور ہر نسل کے لئے پیغمبر اکرم (ص)کا  تا ابد زندہ معجزہ ہے جس میں انسانیت؛ اسلام اور مسلمانوں کی زندگی اور متقبل کے متعلق گفتگو ہوئی ہے چنانچہ امام مہدی   کا نام گرامی  کسی مصلحت کی بنا پر صریح الفاظ کے ساتھ قرآن کریم میں نہیں آیا ہے لیکن انکی ؛ انکے یاران کی صفات اور انکی آفاقی  حکومت کی خصوصیات  قرآن کریم میں وارد ہوئی ہے  جس کی معرفت کے بعد ایک بیدار اور آگاہ شخص  حقیقی مہدی  ؑ اور جھوٹے مہدویت کے دعوا کرنے والوں میں تشخیص دے سکتا ہے  مزید یہ کہ علماء اسلام اور مفسریں کرام  نے احادیث اور ارشادات  اہل بیت اطہار ؑ کی روشنی میں  سو{ 1000 }سے اُپر قرانی آیات کو نظریہ مہدویت اور امام مھدی ؑ کے متعلق جانتے ہیں  اور مجموعی طور پر ان آیات کی تفسیر اور تاویل  میں 5000 سو سے اوپر احادیث رسول اکرم(ص) اور ائمہ طاہریں  سے نقل کی ہے تاہم یہاں چند قرآنی آیات کے ساتھ بعض روایات  نقل کرتے ہیں ۔

1 : وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ  (1) اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔امام مخمد باقر  سے روایت ہے کہ اس آیت میں بندگاں صالح سے مراد حضرت امام مہدی   اور انکے یاران ہیں(2)

--------------

(1):- انبیاء : 105 ۔

(2):- قندوذی: ینابیع المودۃ :ص 425 ۔ اور طبرسی : مجمع البیان : ج 7 ص 66 ۔

۱۹

2: وَ نُریدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوارِثینَ &(1)

اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جو لوگ  زمین پر مظلوم واقع ہوے ہیں وہ خاندان پیغمبر ہیں سختیاں جھلنے کے بعد  پروردگار عالم  انکے مہدیؑ کو مبعوث کرے گا تاکہ انھیں عزت اور انکے دشمنوں کو ذلیل وخوار کیا جائے ۔(2) اسی  علامہ قندوزی کسی روایت کے  ضمن نقل کرتا ہے : ابو محمد حسی العسکری  اپنے بیٹے مہدی کی ولادت کے ساتویں دین  اسے کہا   اے میرے چھوٹا بیٹا بولنا شروع کرو  اس وقت امام مہدی نے شھادتیں کوزبان پر جاری کیا اور اپنے آبا واجداد پر ایک کر کے درود بیجھا پھر اسی آیت کی تلاوت کی  ۔ونرید ان نمنّ --- (3)

3 : هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون ‏ * (4) وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو ۔  عبایہ ربعی روایت کرتا ہے امیرالمؤمنین         نے اس آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا : خدا کی قسم مھدی ؑ کے ظہور کے بعد زمین کا کوئی تکڑا ایسا نہیں رہے گا مگر  جہاں سے صبح وشام  کلمہ لا الہ الا  اللہ   محمد رسول اللہ کی صدا بلند نہ ہو ۔ اسی طرح ابن عباس اسی آیت کی تفسیر میں کہتا ہے اس دن کوئی یہود  ؛ نصاری اور دیگر  ادیان کے مانے والے  باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ  دین حنیف اسلام سے مشرف ہوگا

--------------

(1):- قصص: 5 ۔

(2):- طوسی: الغ یب ہ:ص 113 ۔اور قندوز ی: یناب یع المود ۃ : ص 496 ۔

(3):- قندوزی: یناب یع المود ۃ: ص 302 ؛ باب نمبر 79 ۔

(4):- توبہ: 33 ۔

۲۰