امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات66%

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 109

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 89292 / ڈاؤنلوڈ: 5751
سائز سائز سائز
امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام زمانہ

کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

مولف : فدا حسین حلیمی

سنہ : ۱۴۳۴      

۱

بسم الله الرحمن الرحیم

مقدمہ

جیساکہ کہا جاتا ہے(فإنّ‏ السؤال‏ مفتاح‏ لأبواب الكمالات و شفاء لأسقام الجهالات (۱) سوال ترقی کی کنجی اور جہالت کی بیماریوں کے لیے شفا ہے چونکہ انسان فطری طور پر ایک ایسا موجود ہے کہ جسکی  سرشت میں جستجو اور پوچ گھچ رکھی گئی ہے  اور اسی راہ سے ہی جھل ونادانی کے پردے انسان کے آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیں اور علم ومعرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں ؛ اور کمال کی منازل طے کر جاتے ہیں ۔ دنیا  میں بہت سارے علوم اور اہم نظریات ایک چھوٹے سوال سے شروع ہوے ہیں اور آہستہ آ ہستہ یہی ایک چھوٹا سا سوال رشد کرتا ہوا  ایک مکمل علم اور نظریہ کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔

اور چونکہ مھدویت اور مصلح اعظم ؛ منجی عالم بشریت جو کہ آخری زمانہ میں ظاہر ہو کر ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا میں عدل وانصاف قائم کرئے گا اور ہر قسم کے ظلم وستم اور بربریت کا خاتمہ کرئے گا یہ ایک ایسا عالمی طرز فکر اور نظریہ ہے جس پر دنیا کے الھی ادیان والے اربوں افراد بھر پور عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر غیر دینی  اور فلسفی مکابت فکر بھی اس نظریہ کا قائل ہیں علاوہ بر این یہ ایک ایسا نظر یہ ہے جسکا انسان کے حال اور مستقبل کے ساتھ مکمل مرتبط ہے'  اسیلے علماء اسلام  نے حضرت حجت  کی ولات سے پہلے ہی اس موضوع پر اہل بیت اطہار  کی فرمائشات پر مشتمل جامع تالیفات تحریر کی ہیں یوں تو تاریخ اسلام میں آپکی   شخصیت کے اُپرسب سے زیادہ مضامین'  تالیفات ' اور تحقیقات لکھے گئیں ہیںکہ جنکی تعدار کئی ہزارتک پہونچتی ہے ۔

--------------

(۱):- شرح الکاف ی-ال اصول و الروضة (للمول یصالح المازندرانی) / ج ۲ /  ص : ۶

۲

اسکے باوجود اگر چہ خاندان نبوّت کا ہر فرد مظلوم ہیں کسی کو زہرا جفا سے تو کسی کو نوک نیرہ سے شھید کردیا گیا لیکن امام زمانہ   ان سب سے زیادہ  مظلوم اور غیریب ہیں چونکہ آپ  زندہ ہیں اور لوگوں کے درمیان زندگی کرتے ہیں لیکن لوگ آپ کو پہچانتے  نہیں ' ساری دنیا آپ  کی برکت سے  آباد  ہے لیکن انکے ساتھ غیروں جیسا  سلوک رکھتا ہے'  جن وانس  انکی طفیل سے رزق کھاتے ہیں لیکن انکے مقام ومنزلت کی کوئی پروا نہیں کرتا ۔

اس حالت ایک مؤمن کے لیے اس  طرح نالہ وفغان کرنا چاہے :  یا بن فاطمہ الکبری بابی انت وامّی لک  الوقاء والحمی :اے فاطمہ کبری  کا فرزند مھدی  آپ پر قربان ہو میرے ماں باپ اور میری جان آپکے لیے فدا  ہے :عزیز  علیّ َ ان  ابکیک ویخذلک الوری : مجھ پر گراں ہے کہ میں آپ کیلے روؤں اور لوگ آپکو چھوڑے رہیں ۔ عزیز علیّ َ ان یجریَ علیک دونھم ما جری فھل من معینٍ فاطیل معہ العویل  والبکاء  ھل من جزوعٍ فاساعد جزعہ  اذا خلا  گراں ہے مجھ پر کہ لوگوں کی طرف سے آپ  پر گزرے جو گزرے کیا کوئی یاتھی ہے جسکے ساتھ مل کر آپ کے لیے گریہ وزاری کروں کیا کوئی بے تاب ہے کہ تنھائی میں اسکے ہمراہ نالہ وفریاد کروں ۔

خلاصہ یہ کہ ایک طرف امام مھدی عجل ﷲ فرحہ الشریف حتی کہ اپنے چاہنے والے دوستوں کے محفلوں میں بھی بے کس و تنہا ہیں؛  دن رات گزر جاتی ہے لیکن یک لمحے کے لیے ا نکو یاد کرنے کی زحمت نہیں کرتا ' زندگی ختم ہوتی ہے لیکن انکی معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا جبکہ وہ دن رات ہمارے ساتھ ہیں اور ہمیں ایک لحظے کے لیے بھی فراموش نہیں کرتے اور ہمیں  ہر گٹھن مراحل میں اکیلا نہیں چھوڑتے : انا غیر مہملین لمراعاتکم و لا ناسین لذکرکم(۱) : ہم نے تمھارے بارے کبھی کوتا ہی نہیں کی اور نہ ہی تمھیں ایک لحظے کے لیے اکیلا چھوڑے

--------------

(۱):- بحار الانوار (ط - ب یروت) / ج ۵۳ / ۱۷۵  ص : ۱۵۰

۳

تو دوسری جانب استعماری طاقتیں اور دشمن انسانیت اپنی نام ونہاد اور انسانی اقدار سے متصادم تہذیب وثقافت کو بچانے اور لوگوں کی ذہنوں کو نظریہ مھدویت اور حضرت امام زمانہ  ارواحنا لہ الفدا ء کی ارمانی عدل جھانی حکومت سے دوررکھنے کے خام خیال کے تحت شب وروز  بڑے پیمانے پر شبہ افکنی میں مصروف ہیں ۔

 تو اس گریہ کنان حالت کو سامنے رکھتے ہوے اس چھٹی سی کتابچے میں حتی الامکان مستدل انداز میں حضرت مھدی کے متعلق اہم تریں شبہات اور سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے امید ہے مولی کے صدقے میں یہ  ناچیز کا وش نسل جدید کے لیے مفید ثابت ہو جاے اور پروردگار عالم  اس بندہ عاصی کو عفو درگزر فرماے ۔ آمین ! 

۴

مہدویت اور امام مہدی

سوال نمبر ۱: مہدویت کیا ہے اور کہاں سے شروع ہوئی ہے ؟

جواب : مہدویت سے مراد  مصلح  اعظم ؛ منجی عالم بشریت ؛ سلالہ پاک ختم نبوّت (ص)؛ فرزند صدیقہ کبری ؛ قائم آل محمدؐ حضرت مھدی         موعود کا آخری زمانہ میں حتمی طور پر ظہور کرنے اور تمام بشریت کو ظلم وجور سے نجات دلا کر پورے زمین کو عدل وانصاف سے بھر دینے پر عقیدہ رکھنا  اور انکے ظھور کی انتظار میں زندگی بسر کرنا ہے۔اور یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جسکے تمام اسلامی  فکری اور فقہی مذاہب پابند ہیں اور قرآنی آیات اور متواتر آحادیث کی روشنی میں مہدویت پر عقیدہ رکھنے کو ضروریات اسلام میں سے سمجھا جاتا ہے اور اس عقیدے کے انکار  کرنے والے کو منکر اسلام اور کافر جاننا جاتا ہے ۔

اسی طرح مھدویت پر عقیدہ اسلام اور آسمانی ادیان   کے ساتھ مختص نہیں ہے  بلکہ جس طرح بعض مشہور غربی مفکریں اور فلاسفر جیسے   برٹرینڈراسل ؛ اینشٹائن ؛ برنادڑشو ؛ ولیام لوکااریسون؛ کانت  اور  دیگر افراد کے کہنے کی مطابق  حتی کہ غیر دینی اور مادی مکاتب فکر بھی آخری زمانہ میں ایک  مصلح اعظم قیام کر کے  عالم بشریت کو نجات دلانے اور  زمین پر عدل وانصاف پھیلا کر  تمام انسانوں کے لیے ایک سعادت مند زندگی کا زمینہ فراہم کرنے پر عقیدہ رکھتے ہیں (۱)

لیکن دین مبین اسلام نے اس آفاقی  اور فطری نظرے کی تائید کرنے کے ساتھ ساتھ اسکی اہمیت ؛ ضرورت اور حتمی طور پر تحقق پانے پر زور دیا ہے اور اس عقیدے کی تفصیلات  اور جز ئیات تک بتا دی ہے ۔لہذا یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس عقیدے کا اصل منشاء انسانی فطرت ہے چنانچہ تمام امتوں نے اس عقیدے کو اپنے زندگی میں تجربہ کیا ہے ۔

--------------

(۱):-   اسد اللہ ہاشم ی: ظ ہور مہد یاز نگا ہاسلام ومذا ہب وملل جھان : ص ۴۱۳ ۔۴۱۵ ؛چھاپ اول ؛ ناشر؛ مسجد جمکران؛ ۱۳۸۰ ہش ۔

۵

سوال  نمبر ۲:   عقیدہ مھدویت  اور امام مہدی کے درمیان کیا رابطہ ہے ؟

جواب: پہلے بھی اشارہ ہوا کہ کوئی بھی اسلامی مذاہب امام مہدی         کے وجود کی ضرورت کوانکار نہیں کرتا  لیکن مکتب آھلبیتؑ کے مانے والے اور دوسرے اسلامی فرقوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اہل سنت برادران کا عقیدہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک مھدی نامی شخص نسل پیغمبر اکرم (ص) اور فاطمہ زہرا ؑ کی اولاد میں پیدا ہوگا  اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح طلم وجور سے بھر چکی ہوگی  لیکن وہ شخص کون ہوگا اب تک نہیں معلوم۔   جسے عام اصطلاح میں مہدویت نوعی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

لیکن مکتب اہل بیتؑ کے مانے والوں کا عقیدہ ہے کہ  امام مہدی         ایک معین شخص کا نام ہے جو پیدا ہوچکے ہیں اور پیغمبر اکرم(ص)  کے ارشاد کے مطابق وہ شخص فرزند  حضرت حسن العسکری ابن ھادی النقی  ابن تقی الجوادؑ  ابن علی الرضاءؑ ابن موسی الکاظم ؑ ابن جعفر الصادق ؑابن محمد الباقرؑ ابن علی ؑابن حسینؑ ابن علی ابن ابی طالب فرزند فاطمہ  زہرا ؑ  بنت محمد(ص) بن عبداللہ ہے اور اب تک پردہ غیبت میں زندہ ہیں۔جسے عام اصطلاح میں مہدویت شخصی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

لہذا آخری زمانہ میں امام مہدی منتظر قائم آل محمد ؐکے ظہور کا حتمی اور ناقابل تغیر  ہونا تمام مسلمانون کا مشترکہ عقیدہ  اور ضروریات اسلام میں شمار ہوتا ہے  لیکن شیعون اور دیگر مذاہب کے درمیان اختلاف صرف مصداق  کے معین ہونے میں ہے ۔

۶

سوال نمبر ۳: کیا اہل سنت علماء امام مہدی کے متعلق احادیث کے صحیح اورمتواتر ہونے کا قائل ہیں ؟

جواب :جی ہاں ہر دور میں بڑے بڑے علماء ؛ محدثیں اور حفاظ نے امام مہدی کے متعلق احادیث کی صحیح اور متواتر  ہونے کا اعتراف کیا ہے  ہم چند اہم شخصیات کو انکے بیانات کے ہمراہ یہاں تذکرہ کرتے ہیں ۔

۱:امام  الحافظ ابوالحسن الآبری السنجری متوفی۳۶۳ ہجری اپنی کتاب مناقب شافعی میں لکھتے ہیں:قد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرة رواتها عن المصطفی(ص) بخروجه وانه من اهل بیته وانه یملا الارض عدلاً  (۱) امام مھدی ؑسے متعلق مروی روایتیں اپنے راویوں کی کثرت کی بنا پر تواتر اور شہرت عام کے درجہ پر پہنچ گئی ہیں کہ وہ اہل بیت رسول(ص) سے ہونگے  اور وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے (۲)

۲: ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب فتح الباریمیں لکھتے ہیں :روایتی درجہ تواتر کو پہنچ گئی ہیں کہ امام مہدیاسامت سے ہیں اور حضرت عیسی آسمان سے اتریں گئے اور انکے پیچھے نماز پڑیں گئے  (۳)

۳:شیخ ناصر الدین البانی اس بارے میں کہتا ہے :انّ عقیدة خروج المهدی ثابته متواترة عنه یجب الایمان بها (۴)

--------------

(۱):- ابن حجر ہیثم ی: الصواعق المحرق ہ:ج ۲ ؛ص ۴۸۰

(۲):- حافظ آبریکے اس قول کو ابن ق یم نے؛المنا ر المنیف اور سفار ین ینے؛ لوائح الانوار الب ہیہاور مراعیبن یوسف للکرم یک یکتاب فوئد الفکر کے حوالے سے اور ابن حجر ھثم یمک ینے؛الصواعق المحرق ہج ۲ ص ۴۸۰  م یں نقل ک یا ہے ۔

(۳):-    ابن حجر عسقلانی: فتح البار ی؛ ج ۷ ؛ ص ۱۶۹ 

(۴):-  مجلہالتمدن الاسلام ی؛ شمار ہنمبر ۲ ۲ ؛ ص ۶۴۳ ؛ چھاپ دمشق ۔

۷

۴ : شیخ محمد البرنجی المدنی متوفی ۱۱۰۳ہجری اپنی کتاب ؛ الاشراط الساعۃ   میں لکھتے ہیں : محقق طور پر معلوم ہے کہ مھدی سے متعلق احادیث کہ آخری زمانہ میں انکا ظہور اور وہ آنحضرت ؐ کی نسل اور فاطمہ زہراء ؑ کی اولاد میں سے ہونگے تواتر معنوی کی حد ک پہنچی ہوئی ہے لہذا انکے انکار کی کوئی وجہ اور بنیاد ہیں ہے (۱)

امام مھدی کے ظہور پر عقیدہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو حضور (ص) سے متواتر احادیث کے ذریعے سے ثابت ہے جس پر ایمان رکھنا واجب ہے ۔

۵  : محمد نواب صدیق خان قونجی ہندی اپنی کتاب ؛ الازاعۃ  میں لکھتے ہیں : امام مھدی کے متعلق احادیث مختلف روایتوں کے ساتھ بہت زیادہ ہیں جو حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں(۲) پھر اسی کتاب کے کسی اور صفحے میں لکھتے ہیں : اس بات میں ادنیشک نہیں ہےکہ آخری زمانہ میں امام مھدی ظہور کریں گے کیونکہ اس بارے میں احادیث متواتر ہیں اور سلف سے خلف تک جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے  (۳)

۶: اسی طرح مسلک دیوبند کے مستند عالم شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی نے جو کتابچہ عربی میں امام مہدی کے متعلق صحیح احادیث کی جمع آوری کی ہیں اس میں فرماتے ہیں : ان احادیث کو جمع کرنے کا ایک غرض یہ بھی ہے کہ بعض مصنفین کے کلام سے لوگ دھوکہ نہ کھاجائیں جنہیں علم حدیث سے لگاو نہیں ہے جیسے علامہ ابن خلدون وغیرہ یہ حضرات اگر چہ فن تاریخ میں معتمد ومستند ہیں ؛ لیکن علم حدیث میں ان کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے (۴)

--------------

(۱):-محمد البرنجیالمدن ی؛ الاشارد لالشراط الساع ۃ ؛ ص ۱۱۲ ۔

(۲):-محمد نواب صدیق خان قونج ی ہند ی: الازاعۃ لما کان ویکون ب ین ید یالساع ہ:ص۵۳ ۔

(۳):-محمد نواب صدیق خان قونج ی ہند ی: الازاعۃ لما کان ویکون ب ین ید یالساع ہ:ص۱۲۶ ۔

(۴):-سیّد افتخار حس ین نقو ی:عصر ظ ہور کا اردو ترجمہ؛ ص ۲۵ ۔ ۳۱ ناشر؛ادار ہمن ہاج الصالح ین ؛ چھاپ اول۲۰۰۲ ۔

۸

۷ : وہابی مسلک کے  اہم دینی مرکز ؛رابطة العالم الاسلامی ؛ نے اہل کینیا کے رہنے والے کسی سائل کے جواب میں جوبیانیہ دیا ہے وہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں :و هوآخر الخلفاء الراشدین الاثنی عشر الّذین اخبر عنهم النبىّ (ص) فی الصحاح ؛واحادیث المهدی واردة عن الکثیر من الصحابه یرفعونها  الی رسول الله (ص) وقدنصّ علی انّ احادیث المهدی انها  متواترة جمع من الاعلام قدیما ً وحدیثاِونصّ الحفّاظ والمحدّثون علی انّ احادیث فیها الصحیح والحسن ومجموعها متواتر مقطوع بتواتره وصحته ؛وانّ الاعتقاد بخروج المهدی واجب وانه من عقائد اهل السنه  والجماعه ولا ینکرها الاّ جا هل بالسنه ؛ والمبدع فی العقیدة (۱)   امام مھدی ان ۱۲ خلفاے راشدیں میں سے آخری ہیں جنکے بارے میں نبی اکرم(ص)  نے خبر دی  ہے  جس طرح کتب صحاح میں آیا ہے ؛ اور  امام مھدی  سے متعلق  احادیث کو  ۲۰ سے اوپر اکابر صحابہ اور دیگر اصحاب رسول نے رسول اللہ (ص) سے نقل کیا ہے ۔اسی طرح  سلف اور خلف کے بعض بڑے بڑے بزرگوں نے اپنے تالیفات میں ان احادیث کے متواتر ہونے کا اقرار کیا ہے ۔۔۔

اسی طرح علم حدیث کے  ماہرین ؛حفاظ ؛ محدثین  امام مھدی  سے متعلق احادیث  کے بارےمیں فرماتے ہیں  اگر چہ بعض احادیث ضعیف اور بعض دیگر حسن ہیں لیکن مجموعی طور پر درجہ تواتر تک پہنچی ہیں انکے صحیح اور متواتر ہونے میں کو شک نہیں ہے ۔اور امام مھدی کا ظہور پر اعتقاد رکھنا واجب ہے اور یہ اہل سنت جماعت کی عقائدی مسائل میں شامل ہے جسکا کوئی انکار نہیں کرتا سوائے سنت رسول (ص) سے جاہل اور عقیدے میں بدعت گزار شخص کے۔

 پس معلوم ہوتا ہے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء اور محدثیں نہ صرف ان  احادیث کے متواتر ہونے کاقائل ہیں بلکہ  پوری امت اسلامیہ کے اس عقیدہ پر متفق ہونے کو کہا ہے ۔

--------------

(۱):- گنجیشافع ی: الب یان : چھاپ پنجم ؛ناشر؛موسس ہنشر اسلامیقم ۱۴۱۵ھ ق اس کتاب کے آخر م یں اس فتوے کو مکمل طور پر نقل ک یا  گ یا ہے ۔

۹

سوال  نمبر ۴: کیا مہدویت  پر اسلام کے علاوہ دوسرے دینی اور مادی ادیان اور مکاتب فکر بھی عقیدہ رکھتے ہیں کیا دلیل ہے ؟

جواب : علمی تحقیقات کے مطابق یہ بات ماننا پڑتا ہے مہدویت اور  آخری زمانہ میں منجی اور مصلح اعظم   کے ظہور کرنے   کا انتظار اور موجودہ حالت سے عالم بشریت کو نجات دلانا  اسلام اور آسمانی مکاتب فکر کے ساتھ  مختص  نہیں ہے بلکہ غیر آسمانی اور مادی وفلسفی مکاتب فکر بھی اس نظریۃ  پر عقیدۃ رکہتے ہیں  لیکن ہم         انہی؟ن دو گروہوں میں تقسم کرتے ہیں ۔

پہلا گروہ : ان مکاتب فکر کا ہےجو حقیقت میں فلسفی اور مادیّ توجھات کے حامل ہیں اور انھیں علمی اصطلاح میں غیر دینی اور مادی مکاتب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ راسل کہتا ہے : آخری زمانے میں منجی کا انتظار اور اسکا آخری زمانہ میں ظہور کرنا عالم بشریت کو نجات دینا یہ آسمانی ادیان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ غیر دینی اور مادی مکاتب فکر بھی تمام عالم بشریت کو نجات دلانے والے اور عدل وانصاف پھلانے والے کے ظھور کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں:

۱: ھندو  اور مہدویت پرعقیدہ

۱ : ھندوں  کی مقدس کتاب اونیشاد :

 ھندو مذہب کی  مقدس کتاب اونیشاد میں آیا ہے : یہ ویشینو (مظہر دھم ) کا مظہر عصر آہنی میں سفید گوڑے پر سوار ہو کر ننگے شمشیر ہاتھ میں لیے  ظہور کریں گے اور تمام ظالموں کو ہلاک کریں گے اور خلقت پھر سےدوبارہ اپنی اصلی حالت میں پلٹا دیں گے اور وہ زمانہ دنیا کا  آخری زمانہ ہو گا (۱)

--------------

(۱):- محمد دادا شکوہ:ترجم ہ  اوپان یشا : ج ۲ ص ۶۳۷ ۔ 

۱۰

۲:  ھندوں کی کتاب باسک :

 اس کتاب میں آیا ہے : دنیا کے آخری زمانہ میں ایک عادل بادشاہ ظہور کرے گا اور وہ تمام انسانوں ؛ ملائکہ اور جنّوں سب  کا آقا اور رہنما ہو گا  حق اسکے ساتھ ہوگا اور زمین ؛ دریا ؛ پہاڑ سب اپنے اپنے خزانوں کو اُگل دے گا اسے افضل اس روئے زمین پر نہ کوئی گزرا ہے اور نہ کوئی آے گا اور وہ زمین سے آسمان سے غیبی خبر دے گا(۱)

ان عبارات میں منجی کی جو خصوصیات۔ مثال کے طور پر۔۱: آخری زمانہ میں ظہور کرنا  ۔۲:ظالموں اور اشرار سے زمیں کو پاک کرنا ۔۳: ظلم وجور کی بساط جمع کرکے اسکی جگہ عدل و انصاف کوفروغ دینا  ۔۴: زمیں وآسمان اپنی مخفی خزانوں کو اُگل دینا ۔ ۶:غیب سے  خبر دینا ۷: زمین کا آباد ہونا ۔اسی طرح اور بعض دیگر  خصوصیات بھی  مثلا ً ۔ ناموس آخرالزمان (یعنی پیغمبر اعظم (ص) ) کا بیٹا ہونا ۔ رہنما ؛ استوا (قائم ) جسکے القاب میں سے ہونا ۔ پیشن (علی ابن ابی طالب ؑ )کے اولاد میں سے ہونا(۲) ۔  وارد ہوئی ہیں یہ وہی خصوصیات اور صفات ہیں جو امام مھدی ؑ کے بارے  میں ہماری دینی نصوص میں آئی ہیں ۔

۲:  زرادشت اور مہدویت پر عقیدہ 

 مکتب زرادشت کی دینی کتابوں میں مہدویت کے بارے میں بہت ساری گفتگو ہوئی ہے اور مختلف مقامات  پر  منجی عالم کے ظہور کرنے کی بشارت دی ہے یہاں تک انکے بعض کتابوں میں پیغمبر اعظم(ص)  کی خاتم نبی ہونے اور انکے فرزند  امام مہدی  کے ہاتھوں انکے لائے ہوے دین کا پورے ادیان پر غالب آنے اور  مؤمنین کے ایک گروہ کا آخری زمانہ میں رجعت کرنے کی خبر دی ہے۔

--------------

(۱):- بشارات عھدین ص  ۲۴۶ اور لمعات النوار فی کیفیۃ الظہور: ج ۱ ص ۱۹ ۔  .۳.

(۲):-کرمان ی: علائم الظ ہورص ۱۷ ۔ ۲۰۔

۱۱

جاما سب اپنی کتاب (جاماسب نامہ )میں لکھتا ہے عربی پیغمبر ؐجو کہ آخری پیغمبر ہونگے مکہ کے سنگلاخ خوشک چٹانوں کے درمیان مبعوث ہونگے سادگی کی یہ حالت ہوگی وہ شتر سوار ہونگے جس طرح اسکی قوم شترسواری کے لیے استفادہ کرتی ہے ؛اپنے غلاموں کے ساتھ ملکر ایک دستخوان پر کھانا تناول کریں گے کبھی غلاموں کو سواری کے طور پر استفادہ نہیں کریں گے ۔پیچھے اسی طرح دیکھ سکھیں گے جس طرح آگے کو دیکھ سکھتے ہیں انکا لایا ہوا دین پورے ادیان کی نسبت بہترین  اور کامل ترین دین ہوگا اور کتاب دوسرے تمام کتابوں کو منسوخ کرگی اسکی حکومت حکومت عجم کو نابوت کرئے گی اور دین مجوس کو ختم  ؛ آتشکدوں کو خاموش اور خراب کریں گے  اس پیغمبر کی بیٹی خورشید عالم اور سیدہ نساء انکا نام ہوگا جسکا فرزند اس پیغمبر کا آخری جانشین مکہ میں قیام کرے گا اور پوری دنیا پر قیامت تک حکومت کرے گا   ۔۔۔اور وہ وقت دنیا کا آخری زمانہ ہو گا ۔(۱)

اسی طرح بعض مادی اور الحادی افکار کے حامل افراد نے بھی اس عقیدے کا ایک عالمی نظریہ ہو نےاور اسلام کے ساتھ مختص نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے :

 جیسا کہ راسل کہتا ہے : آخری زمانے میں منجی کا انتظار اور اسکا آخری زمانہ میں ظہور کرنا عالم بشریت کو نجات دینا یہ آسمانی ادیان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ غیر دینی اور مادی مکاتب فکر بھی تمام عالم بشریت کو نجات دلانے والے اور عدل وانصاف پھلانے والے کے ظھور کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

 دوسرا گروہ : ان مکاتب فکر کا ہے جنہیں عام اصطلاح میں آسمانی ادیان  سے  تعبیر کیا جاتا ہے مثال کےطور پر:

--------------

(۱):-  لمارت الانوار : ج ۱ ؛ ص ۲۳۔۔۲۵ ۔

۱۲

۱:عہد عتیق اور عقیدہ مہدویت

کتاب مقدس عھد عتیق (توریت ) میں بہت ساری نصوص اسیے ہیں جو عقیدۃ  مہدویت  پر پوری طرح روشنی ڈالتی ہیں اور آخری  زمانہ میں مسیحا  یا منجی بشریت کی آمد اور اس کائنات کو عدل و انصاف سے بھر دینے اور بشریت کو ظلم وجور سے نجات دینے کی بشارت دی ہے(۱) چناچہ تورات میں ہم مطالعہ کرتے ہیں :اشرار اور ظالمون کے وجود سے کبھی نا امید نہ ہو اس لیۓ کہ ظالموں کی نسل زمین سے مٹادی جاۓگا،اور عدل الہی کا انتظار کرنے والے زمین کا وارث بنین گۓ جو افراد جن پر خدا نے لعنت کی ہے ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گا اور صالح افراد وہ ہونگے جو زمیں کے وارث بن چکے ہونگۓ اور تاریخ کے اختتام تک زمین پر زندگی بسر کریں گے(۲) اسی طرح  اشعیا  نے ایک آرام اور تسلی بخش مسیحا کی قوم یہود کے درمیان اس کی پیشنگوئیوں میں سے ایک کی تصور کشی کی گئی ہے وہ ایک آرزومندانہ اور عادلانہ  حکومت کو پھیلا دے گا اور زمانہ میں  کائنات معرفت الہی  سے پر ہو جائے گی جیسے پانی دریا کو ڈھانپ لیتا ہے "(۳) اسی لیے امریکا کا مسیحی شہرت یافہ مؤلف اپنی کتاب قاموس المقدس  میں یہودیوں کی مہدویت  پر عقیدے کے متعلق یوںلکھتا ہے : یھودی نسل در نسل عہد قدیم  تورات  - کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی پر مشقت طویل تاریخ میں ہر قسم کی ذلتوں؛  اذیتوں؛   رسوایوں اورشکنجوں کو صرف اس اُمید کے ساتھ تحمل کیا کہ ایک دن مسیحا منجی یہودیت ۔ آینگے  اور انہیں ذلت وخورای و  رنج و مصیبت کے گرداب سے نجات دلائیں گے ، اور انھیں پورے کائنات کا حاکم بنایں گے(۴) لیکن اس انتظار سوزان کے بعد جب جناب مسیح اس دنیا میں آۓ تو انھون نے  ان میں کچھ وہ صفتیں نہیں پایے جنکے مسیحا میں ہونا ضروری سمجھتے  تھے چنانچہ انھوں انکی مخالفت شروع کی یہان تک انکو سولی پر چڑایا اور قتل کیا۔

--------------

(۱):- اسد اللہ ہاشم ی: ظ ہور مہد یاز نگا ہاسلام ومذا ہب وملل جھان : ص ۴۱۳ ۔۴۱۵ ؛چھاپ اول ؛ ناشر؛ مسجد جمکران؛ ۱۳۸۰ ہش ۔

(۲):- کتاب مقدس: سفر مزامیر داود، نمبر ۳۷

(۳):-   اشعیا ؛ ۱۱ : ۱۰ صفنیاء ؛ ۳ ؛  ۹ ۔

(۴):- قاموس مقدس : مسٹر ہاکس ، ص ۸۰۶ 

۱۳

۲:عہد جدید اور عقیدہ مہدویت

      انجیل یوحنا میں حضرت عیسیؑ مسیح  کا قول نقل ہوا ہے ”اور عنقریب جنگون اور اسکی افواہون کو سنیں تو کبھی ایسا نہ ہو کہ اسکی وجہ سے بے صبری کا اظہار کریں،اس لیے کہ اسکے علاوہ کو اور چارہ نہیں ہے، لیکن وہ دن وقت تاریخ کا  اختتامی زمانہ نہیں ہے(۱)

اسی طرح یوحنّا اپنے مکاشفہ بیان کرتے ہوے کہتا ہے : اچانک آسمان کے دروازے کھولے گے  ایک سفید گھوڑے کو دیکھا جسکے سواری کا نام امین اور حق تھا  وہ عدل کے ساتھ قضاوت اور جنگ کرے گا  اور سورج کے دروازے پر ایک فرشتے کو دیکھا جو تمام مرغابیوں کو بلا رہا تھا آجاو پروردگار عالم کے اس عظیم مہمانی میں شرکت کرو  تاکہ بادشاہوں ؛  ظالموں  اور انکے فوجی کمانڈروں کے گوشت کھایا جائے ۔(۲)

لیکن انجیل کے مفسریں ان آیات کے متعلق لکھتے ہیں : جس شخص کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے وہ ابھی وجود میں نہیں آیا ہے بلکہ یہ کہہ سکتا ہے کہ  اکثر خصویات اس مسیحا کے عہدین میں ذکر ہوئی ہیں وہ حضرت مسیح پر صدیق نہیں آتی بلکہ امام مہدی        پر صدق آتی ہے چنانچہ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے  قاموس المقدس کا مؤلف کہتا ہے :انجیل میں منجی عالم بشریت کو فرزند انسان کے نام سے ۸۰ جگہون پر پکارا ہے ان میں سے صفر ۳۰ مورد حضرت مسیح       پر صدق آتا ہے باقی ۵۰ مورد ان پر صدق نہیں آتا بلکہ یہاں ایک ایسے مصلح اور منجی جہانی کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جو آخری زمانہ میں ظھور کریں گے-(۳)

--------------

(۱):- کتاب مقدس :یوحنا اصحاح ۲۴ نمبر ۶

(۲):- کتاب مقدس :یوحنا اصحاح  ۲۴  بابب نمبر ۱۹ ؛۱۱ ۔

(۳):- قاموس مقدس :ص ۲۱۹ :وہ  آجاے گا ،وال ی کتاب سے نقل کیا ہے ،ص ۳۳

۱۴

سوال نمبر ۵: کیا اہل سنت علماء میں سے کوئی امام مہدی کے امام حسن العسکری ؑ کے بیٹا ہونے اور انکی ولادت کے قائل ہیں ؟

جواب : اگر چہ  اہل سنت کے اکثر علما ء کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی         سلالہ پاک نبی اعظم (ص) فرزند فاطمہؑ  اور امام حسین         کے نسل سے ہونگے اور آخری زمانہ میں پیدا ہونگے  لیکن ان میں سے بعض علماء  جن میں بڑے بڑے محققیں ؛  مورخیں  اور حفاظ بھی شامل ہیں انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے اور صریح الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے  کہ امام مہدی ؑ  وہی شخص ہیں جو ۲۵۵ ہجری قمری کو امام حسن العسکری        کے بیت السرا میں دنیا میں آے  ہیں جسکے بارے میں شیعہ انکے بارہویں امام ہونے کا  عقیدہ رکھتے ہیں  یہ اسلیے  کہ امام مھدی کے متعلق مجموعہ احادیث جسے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء نے نقل کیا سوائے اس شخص کے کسی اور پر صدق نہیں آتی ہیں انھی علماء اور مؤرخین میں سے بعض کا قول مختصر انداز میں ہم یہاں نقل کرتے ہیں ۔

۱: ابن ابی ثلج بغدادی  متوفی ۳۲۶ ہجری ۔

ابن ابی ثلج بغدادی امام عصر         کے نوّاب خاصّہ کے ہم عصر ابوالحسن دار القطنی کے استاد؛ امام حسن العسکری        کے اولاد کا تذکرہ کرتے ہوے لکھتا ہے : ۔۔۔ جب محمد بن حسن الحجہ ؑ  ( امام مھدی ؑ ) دنیا میں آے تو امام حسن العسکری         نے  اپنی گفتگو کے ضمن میں فرما یا : ظالم دشمنوں نے  میرے قتل کا منصوبہ بنایا تاکہ اس نومولود   کا خاتمہ ہو جاے لیکن انھوں نے قدردت خدا کو دیکھ لیا اور اسکا نام مومّل رکھا   ۔۔۔۔ اورامام حسن العسکری ؑ کی بہن  حکیمہ خاتون وہ شخص ہے جس نے  حضرت حجت کی ولات کا واقعہ نقل کیا ہے(۱)

--------------

(۱):- موالید الائم ہ: ص ۹ ۔ ۱۰ ۔

۱۵

۲: علی ابن حسین مسعودی ؛ متوفی ۳۴۶ ہجری۔

جناب مسعودی اپنی مشہور تاریخی کتاب مروج الذھب میں لکھتا ہے  :ابو محمد حسن ؑ بن علی ؑ ۔۔۔۔۔۔بن حسین ؑ بن علی ؑ بن ابی طالب نے ۲۹ سالہ عمر میں سنہ ۲۶۰ ہجری کو وفات پائی  اور آپ شیعوں کا بارورہوین امام ؛ حضرت مہدی کا والد گرامی تھے(۱)

اسی طرح اپنی زندگی کی آخری کتاب ( التنبیہ والاشراف ) میں لکھتا ہے :شیعوں کا باروین اما جسکے ظہور کے انتظار میں ہیں وہ محمد بن حسن العسکری   ۔۔۔۔۔  ابن علی        ابن ابی طالب ہیں ۔(۲)

۳: احمد بن حسین بیھقی شافعی متوفی ۴۵۸ ہجری ۔

 جناب بیھقی اپنی کتاب( شعب الایمان )میں لکھتا ہے :لوگ امام مہدی  کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں ؛ ایک گروہ  اس بارے میں تردد کا شکار ہے اور اسکا علم خدا پر چھوڑتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مھدی  پیغمبر خدا کی اکلوتی بیٹی حضرت زہرا کی نسل سے ہیں اور پرودگار عالم اپنے دین کی نصرت کے لیے اسے پیدا  کرے گا اور وہ قیام کریں گے ۔

جبکہ دوسرا گروہ کا کہنا ہے مہدی موعود          ۲۵۵ ہجری  ۱۵ شعبان معظم کو جمعہ کے دن دنیا میں آے ہیں اور وہی امام حجت ؛ قائم ؛منتظر محمد بن الحسن العسکری  ؑ ہیں شہر سامرا میں غائب ہوے ہیں  آیند ظہور کریں گے اور جھان  کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح ظلم وجور سے بھر چکا ہو گا ۔۔۔ انکے طول عمر کے متعلق بھی کوئی عقلی مانع  موجود نہیں ہے جس طرح حضرت عیسی اور خضر  دونتوں زندہ ہیں  اور یہ شیعہ امامیہ اور اہل کشف والوں کا عقیدہ ہے(۳)

--------------

(۱):- مسعودی: مروج الذ ہب :ج ۴ ص ۱۱۲۔

(۲):- مسعودی: التنب یہوالاشراف : ص ۱۹۸ ۔ ۔ ۱۹۹ ۔

(۳):- المہد یالمنتظر :ج ۱ ص ۱۸۲ اور کشف الاستار : ص ۹۸ ۔

۱۶

۴: فخر الدین رازی متوفی ۶۰۶ ہجری ۔

علامہ فخر رازیاپنی کتاب (الفرق ) میں شیعہ مختلف فرقوں  کا تذکرہ کرتے ہوے لکھتا ہے : تیرویں قسم  منتظریں کی ہے  جو کہتے ہیں امامت امام حسن العسکری        کے  بعد انکے فرزند کی ہے جو ابھی غیبت میں ہیں اور ایک دن ظہور کریں گے ہمارے زمانے میں شیعہ امامیہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں(۱)

۵ : محی الدین عربی متوفی ۶۳۸ ہجری ۔

عالم اسلام کے مشہور عارف محی الدین عربی   امام مہدی ؑ بارے میں لکھتا ہے : مھدی ؑ رسول اکرم (ص) کی عترت فاطمہ کے نسل سے ہیں انکا جد امام حسین ؑ اور والد گرامی امام حسن العسکری ؑ بن امام علی نقی ۔۔۔۔۔۔۔۔امام علی ؑ بن ابی طالب ہیں(۲)

۶: شیخ عبد الرحمن صوفی ۔

شیخ عبد الرحمن صوفی ؛ صوفی مسلک کے مشہور شیوخ میں ہیں امام مہدی کے بارے میں اپنی کتب (مرآت  الاسرار ) میں لکھتا ہے : وہ دین ودولت کے آفتاب وہ تمام امتوں اور حکومتوں کو راہ دیکھانے والا  وہ قائم مقام پاک احمدی وہ امام برحق ابولاقاسم محمد بن حسن  اہلبیت عصمت کے امامت کی بارویں کڑی ۲۵۵ ہجری ۱۵ شعبان جمعہ کی رات کو سِر من ری کے مقام پر دنیا میں آے جب انکے والد مکرم امام حسن العسکری اس دنیا سے رخصت ہوے اس وقت انکی عمر ۵ سال کی تھی  ۔۔۔حشرت محی الدین عربی نے (فتوحات) میں ؛مولانا  عبد الرحمان  جامی نے (شواہد النبوّہ ) میں ؛سعد الدین حموی نے اپنی کتاب میں انکے حالات ؛کمالات ؛ غیبت اور ولادت کے بارے میں مفصل بحث کی ہے(۳)

--------------

(۱):- فخر الدین راز ی: الفرق ص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۲):- عبد الرحمن صوفی:  کشف الاستار: ص ۴۹ ۔۔۔۵۰ ۔

(۳): عبد الرحمن صوفی: کشف الاستار :ص ۴۹ ۔ ااورالم ہد یالموعود المنتظر :ج ۱ ص ۲۰۵ ۔

۱۷

۷: کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی متوفی ۶۵۰ ہجری ۔

اہل سنت کے مشہور عالم اور نامور فقیہ اپنی کتاب (مطالب السؤول) میں امام حجتؑ کے بارے میں لکھتا ہے : ابو محمد حسن عسکری ۲۳۱  ہجری میں دنیا میں آے انکی سب سے بڑی منقبت اور خصوصیت جسے پرودگار عالم نےانکے ساتھ مختص کیا وہ یہ تھی کہ امام مہدی ؑ انکے نسل سے اور انکے فرزند ہیں(۱)

۸: حافظ محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی ۶۵۸ ہجری ۔

جناب گنجی شافعی اپنی کتاب (کفایہ الطالب )میں لکھتا ہے : ابو محمد حسن العسکری ؑ سامراء  کے مقام پر اپنے گھر کے اندر مدفون ہوے انکا ایک بیٹا تھا وہ امام منتظر ہیں ہم اپنی اس کتاب کا اختتام  انکے نام پرکریں گے اور انکے متعلق بحث کریں گے(۲)

۹: شمس الدین محمد ذہبی متوفی ۷۴۸ ہجری ۔

ذہبی اپنی کتاب(دول الاسلام ) میں لکھتا ہے : حسن بن علی بن ---اثنا عشریہ کے اماموں میں ایک ہیں ۲۶۰ ہجری میں وفات پائی اور آپ منتظر محمد بن حسن کے والد ہیں ۔(۳) اسی طرح تاریخ الاسلام میں لکھتا ہے : محمد بن حسن العسکری ابو القاسم علوی حسینی شیعوں کا آخری امام ہیں اور انکا عقیدہ ہے آپ  امام مہدی اور احبالزمان ہیں(۴) اسی طرح دوسرے بہت سارے علماء جیسے : قاض جواد ساباطی حنفی متوفی ۱۲۵۰ ہجری(۵) : شمس الدین بن طولوں دمشقی متوفی  ۹۵۳  ہجری(۶) : شیخ عبد اللہ شبراوی شافعی متوفی ۱۱۷۲(۷) : شبلنجی مصری(۸) : قندوزی(۹) اور بھی بہت سارے اہل سنت  علما ء نے امام مہدی ؑ کی ولادت کا اعتراف اور فرزند امام حسن عسکری  ہونے کا تصدیق کیا ہے ۔

---------------

(۱):- ابن طلحہشافع ی: مطالب الؤول ف یمناقب آل رسول: ص ۳۰۹ ۳۱۱ (۲):- گنجیشافع ی: کفا یۃ الطالب: ص ۴۵۸ (۳):- ذہب ی: تار یخ الاسلام: ج ۱۹ ص ۱۱۳ حوادثنمبر ۵۱- ۶۰ ہجر ی (۴):- ذہب ی: تار یخ الاسلام : ج ۱۹ ص ۱۱۳ حوادثنمبر ۵۱ ۶۰ ہجر ی۔ (۵):- عبد الرحمن صوفی:کشف الاستار: ص ۴۹ ۔۵۰ (۶) ابن طولوں دمشقی:الائم ہالاثن یعشر ص ۱۱۷ (۷):- شبراوی:الاتحاف بحب الاشراف ص ۱۷۹ (۸):-شبلنجی: نور الابصار:ص ۱۸۵ چھاپ دار الفکر ۱۳۹۹ ہق (۹):- قندوزی: یناب یع المود ۃ:ج ۳ ص ۲۰۶

۱۸

سوال نمبر  ۶ :کیا قرآن کریم میں مھدویت اور امام مھدی ؑ کے متعلق کوئی صریح  گفتگو ہوئی ؟

جواب : قرآن کریم ہر دور اور ہر نسل کے لئے پیغمبر اکرم (ص)کا  تا ابد زندہ معجزہ ہے جس میں انسانیت؛ اسلام اور مسلمانوں کی زندگی اور متقبل کے متعلق گفتگو ہوئی ہے چنانچہ امام مہدی   کا نام گرامی  کسی مصلحت کی بنا پر صریح الفاظ کے ساتھ قرآن کریم میں نہیں آیا ہے لیکن انکی ؛ انکے یاران کی صفات اور انکی آفاقی  حکومت کی خصوصیات  قرآن کریم میں وارد ہوئی ہے  جس کی معرفت کے بعد ایک بیدار اور آگاہ شخص  حقیقی مہدی  ؑ اور جھوٹے مہدویت کے دعوا کرنے والوں میں تشخیص دے سکتا ہے  مزید یہ کہ علماء اسلام اور مفسریں کرام  نے احادیث اور ارشادات  اہل بیت اطہار ؑ کی روشنی میں  سو{ ۱۰۰۰ }سے اُپر قرانی آیات کو نظریہ مہدویت اور امام مھدی ؑ کے متعلق جانتے ہیں  اور مجموعی طور پر ان آیات کی تفسیر اور تاویل  میں ۵۰۰۰ سو سے اوپر احادیث رسول اکرم(ص) اور ائمہ طاہریں  سے نقل کی ہے تاہم یہاں چند قرآنی آیات کے ساتھ بعض روایات  نقل کرتے ہیں ۔

۱ : وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ  (۱) اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔امام مخمد باقر  سے روایت ہے کہ اس آیت میں بندگاں صالح سے مراد حضرت امام مہدی   اور انکے یاران ہیں(۲)

--------------

(۱):- انبیاء : ۱۰۵ ۔

(۲):- قندوذی: ینابیع المودۃ :ص ۴۲۵ ۔ اور طبرسی : مجمع البیان : ج ۷ ص ۶۶ ۔

۱۹

۲: وَ نُریدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوارِثینَ &(۱)

اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جو لوگ  زمین پر مظلوم واقع ہوے ہیں وہ خاندان پیغمبر ہیں سختیاں جھلنے کے بعد  پروردگار عالم  انکے مہدیؑ کو مبعوث کرے گا تاکہ انھیں عزت اور انکے دشمنوں کو ذلیل وخوار کیا جائے ۔(۲) اسی  علامہ قندوزی کسی روایت کے  ضمن نقل کرتا ہے : ابو محمد حسی العسکری  اپنے بیٹے مہدی کی ولادت کے ساتویں دین  اسے کہا   اے میرے چھوٹا بیٹا بولنا شروع کرو  اس وقت امام مہدی نے شھادتیں کوزبان پر جاری کیا اور اپنے آبا واجداد پر ایک کر کے درود بیجھا پھر اسی آیت کی تلاوت کی  ۔ونرید ان نمنّ --- (۳)

۳ : هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون ‏ * (۴) وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو ۔  عبایہ ربعی روایت کرتا ہے امیرالمؤمنین         نے اس آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا : خدا کی قسم مھدی ؑ کے ظہور کے بعد زمین کا کوئی تکڑا ایسا نہیں رہے گا مگر  جہاں سے صبح وشام  کلمہ لا الہ الا  اللہ   محمد رسول اللہ کی صدا بلند نہ ہو ۔ اسی طرح ابن عباس اسی آیت کی تفسیر میں کہتا ہے اس دن کوئی یہود  ؛ نصاری اور دیگر  ادیان کے مانے والے  باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ  دین حنیف اسلام سے مشرف ہوگا

--------------

(۱):- قصص: ۵ ۔

(۲):- طوسی: الغ یب ہ:ص ۱۱۳ ۔اور قندوز ی: یناب یع المود ۃ : ص ۴۹۶ ۔

(۳):- قندوزی: یناب یع المود ۃ: ص ۳۰۲ ؛ باب نمبر ۷۹ ۔

(۴):- توبہ: ۳۳ ۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

آیت ۲۹

( وَيَا قَوْمِ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالاً إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللّهِ وَمَا أَنَاْ بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّهُم مُّلاَقُو رَبِّهِمْ وَلَـكِنِّيَ أَرَاكُمْ قَوْماً تَجْهَلُونَ )

اے قوم ميں تم سے كوئي مال تو نہيں چاہتا ہوں _ ميرا اجر تو اللہ كے ذمہ ہے اور ميں صاحبان ايمان كو نكال بھى نہيں سكتا ہوں كہ وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات كرنے والے ہيں البتہ ميں تم كو ايك جاہل قوم تصور كررہا ہوں (۲۹)

۱_حضرت نوحعليه‌السلام نے لوگوں كو بتايا كہ ميں تبليغ رسالت كے بدلے ميں تم سے تھوڑے سے مال كا بھى مطالبہ نہيں كروں گا_يا قوم لا اسئلكم عليه مال

(عليہ) كى ضمير سے مراد پيغمبرى اور تبليغ رسالت ہے _ اور (مالاً) كا لفظ نكرہ ہے جو دلالت كرتاہے كہ اجر رسالت ميں ذرہ برابر مال بھى نہيں لوں گا_ كيونكہ نكرہ نفى (لاا سئلكم) كے بعد ذكر ہوا ہو_

۲_ انبياء كرام، لوگوں كو تبليغ رسالت اور معارف دين كى تبليغ كے بدلے ميں كم ترين مال كى درخواست كرنے سے منزہ ہيں _و يا قوم لا اسئلكم عليه مال

۳_ قوم نوحعليه‌السلام كے رؤسا اور سردار بے جا خيال كرتے تھے كہ حضرت نوحعليه‌السلام كا نبوت و رسالت كا دعوى اس وجہ سے ہے كہ وہ ہمارے مال و متاع كے حصول كا بہانہ بنائيں _و يا قوم لا اسئلكم عليه مال

حضرت نوحعليه‌السلام كا اپنى قوم كے جواب ميں اس بات كو بيان كرنا كہ ميں تم سے كم ترين مال كا بھى مطالبہ نہيں كرتاہوں _ يہ بتاتاہے كہ كافر لوگ ايسى تہمت حضرت نوحعليه‌السلام پر لگاتے تھے_

۴ _ حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنى قوم ميں اعلان كيا كہ اجر رسالت فقط خداوند متعال كے ذمہ ہے_

ان اجرى الا على الله

۵_ انبياءعليه‌السلام دنيا كے مال و متاع اور مادى چيزوں پر فريفتہ ہونے سے منزہ ہيں _لا اسئلكم عليه مالاً أن اجرى الا على الله

(مال) كے مقابلے ميں ( ا جر) كا لفظ استعمال كرنا، يہ بتاتاہے كہ خداوند عالم سے حضرت نوح(ع) كا اجر رسالت كى درخواست دنياوى مال و متاع كے ليے نہيں تھى اور نہ ہى وہ اس پر فريفتہ تھے_

۸۱

۶_ لوگوں كے مال و متاع اور اموال پر نظر نہ ركھنا ، معاشرہ كو نجات دينے والوں اور دين حق كے مبلغين كى صداقت كى نشانى ہے_و يا قوم لا ا سئلكم عليه مالاً ان اجرى الا على الله

۷_ معارف دين كى تبليغ كرنے والے اجر كے مستحق ہيں اور ان كو يہ پاداش فقط ذات خدا دے سكتى ہے_

ان اجرى الا على الله

۸_قوم نوح كے سرداروں اور رؤسا كے ايمان لانے كى شرائط ميں ايك يہ تھا كہ حضرت نوح فقراء مؤمنين كو چھوڑ ديں _

و ما ا نا بطارد الذين آمنو

۹_ حضرت نوحعليه‌السلام نے سرداروں اور رؤسا كى اس شرط (كہ فقراء مؤمنين كو چھوڑ دے) كى شديد مخالفت كى _

و ما أنا بطارد: الذين آمنو

جملہ اسميہ كو (با) زائدہ سے ذكر كرنا ، بہت زيادہ تاكيد پر دلالت كرتاہے_

۱۰_رؤسا كو توحيد اور معارف الہى كى طرف ترغيب دلانے كا ہرگز يہ مطلب نہيں كہ فقير و غريب مؤمنين كو چھوڑ ديا جائے _و ما أنا بطارد: الذين آمنو

۱۱ _ قوم نوحعليه‌السلام كے مؤمنين ،خداوند متعال كى بارگاہ ميں مقرب اور مقام لقاء پروردگار كے حامل ہيں _انهم ملاقوا ربهم

ممكن ہے جملہ(انہم ملاقوا ربہم) حضرت نوح(ع) كے پيروكاروں كى موجودہ حالت كو بيان كررہا ہو يعنى وہ (اسى دنيا) ميں لقاء الله كى منزل پر فائز ہوچكے ہيں اور يہ بھى ممكن ہے كہ ان كى اخروى عاقبت كے بارے ميں خبر دى جارہى ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناء پر ہے_

۱۲ _ا نبياء اور ان كے پيروكاروں كے باہمى ارتباط كا سبب ،خدا پر ايمان اور تقرب الہى ہے_

و ما أنا بطارد الذين امنوأنهم ملاقوا ربهم

۱۳ _ دنيا ميں لقاء الله كى منزل پر فائز ہونا ممكن ہے_انهم ملاقوا ربهم

۱۴_ لوگوں كے صحيح اور سچے ايمان كى تشخيص اور ايمان كے دعوى داروں كو پركھنا خدا كى شان ہے_

بل نظنكم كاذبين _ ما ا نا بطارد الذين ء امنوأنهم ملاقوا ربهم

۸۲

كفار حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكاروں كے ايمان كو نہ صرف معمولى بلكہ ان كے دعوى ايمان كو جھوٹا قرار ديتے تھے ( بل نظنكنم كازبين) حضرت نوح(ع) ن كے جواب ميں يہ جملہ فرماتے ہيں (انہم ملاقوا ربہم) يعنى انسانوں كے ليے آخرت كا دن ہے _ اس دن خداوند سچے اور جھوٹے ايمان كو مشخص كرے گا_

۱۵_ قيامت كا دن، انسانوں كى خداوند عزوجل سے ملاقات كا دن ہے_انهم ملاقوا ربهم

۱۶_ قيامت، جھوٹے دعوى داروں اور سچے مؤمنين كے درميان تفريق كا دن ہے_بل نظنكم كاذبين _ انّهم ملاقوا ربهم

۱۷_انبياء كرام كا وظيفہ ہے كہ وہ اظہار ايمان كرنے والوں كو قبول كريں ليكن سچے اور جھوٹے مومنين كے در ميان تفريق ان كى ذمہ دارى نہيں ہے_ما انا بطارد الذين ا منوأنهم ملاقوا ربهم

۱۸_ قوم نوحعليه‌السلام كے سردار اوررؤسا، مومنين اور حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكاروں كے بلند درجات سے بے خبر تھے_

و لكن ارى كم قوماً تجهلون

جملہ''انّهم ملاقوا ربّهم '' كے قرينہ كى بناء پر يہ كہا جا سكتا ہے كہ'' تجہلون'' كا مفعول حضرت نوح(ع) كے مومنين كا بلند و با عظمت مقام ہے اس پر(ا راكم ...) يعنى ميں جانتا ہوں كہ تم مومنين كے بلند درجات ( جو خداوند متعال كى لقاء ہے ) سے آگاہ نہيں ہو_

۱۹_قوم نوحعليه‌السلام كے رؤسا كى بلند مرتبہ (جو لقاء الله ہے ) اور تقرب الہيسے نا واقفيت_

انهم ملاقوا ربهم و لكنى ارى كم قوماً تجهلون

۲۰_ وحدہ لا شريك كى عبادت اورانبياء پر ايمان، قدر و قيمت كا معيار اور علم و آگاہى كى نشانى ہے_

و ما أنا بطارد الذين آمنوا و لكنّى ارى كم قوماً تجهلون

مذكورہ بالا تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے جب (تجھلون) كو فعل لازم مانيں اور اس كے ليے مفعول كسى كو نہ بنايا جائے_ تو اس صورت ميں (ا راكم ...) كا معنى يہ ہوگا كہ تم كافر نادان اور ناواقف لوگ ہو_

۲۱_ شرك و كفر، نادانى اور بے عقلى كى نشانى ہے_و لكنّى ارى كم قوماً تجهلون

۲۲_طبقہ رؤسا سے ہونا، دانائي اور بااہميت ہونے كا معيار نہيں ہے اور نہ ہى محتاج و فقير ہونا، جہالت اور بے اہميت ہونے كى نشانى ہے_و ما انا بطارد الذين امنوا و لكن ارى كم قوماً تجهلون

۸۳

اقدار:اقداركا معيار ۲۰ ،۲۲

انبياءعليه‌السلام :انبياء اوراجر تبليغ ۲ ; انبياء اواجر رسالت ۲ ; انبياءعليه‌السلام اور دنيا كى طلب ۵ ; انبياء اور ماديات ۵ ;انبياء اور مؤمنين ۱۷ ;انبياء سے دوستى كے اسباب ۱۲ ; انبياء كامنزہ ہونا ۲ ، ۵ ; انبياء كى مسؤليت كا دائرہ كار ۱۷

ايمان:انبياء اور ايمان ۲۰ ;ايمان كے آثار ۱۲ ، ۲۰ ;ايمان ميں صداقت كى تعيين كا سبب۱۴ ; خدا پر ايمان ۱۲ ; قبول ايمان كے شرائط ۱۷ ;

تبليغ:بغير اجرت كے تبليغ ۱

تقرب:تقرب كے آثار ۱۲

توحيد:توحيد كى دعوت ۱۰;توحيد عبادى كے آثار ۲۰

جزاء:جزاء كے مستحقين۷ ; جزاكا سرچشمہ۷

جہالت:جہالت كا معيار ۲۲ ; جہالت كى نشانياں ۲۱

جھوٹ بولنے والے:قيامت كے دن جھوٹ بولنے ۱۶

خدا:خداوند عالم كا اجر ۷ ; خداوند متعال كاحساب و كتاب۱۴ ; خداوند متعال كى خصوصيات۱۴

دين:دين كى دعوت ۱۰

رؤسا:رؤسا كو دعوت دين

شرك :شرك كے آثار ۲۱

عقل:بے عقلى كى نشانياں ۲۱

علم :علم كا معيار۲۲ ; علم كى نشانياں ۲۰

قوم نوح :رؤسا قوم نوح(ع) اور لقا الله ۱۹ ;رؤسا قوم نوح(ع) اور مؤمنين ۸ ; رؤسا قوم نوح(ع) كى تہمتيں ۳ ; رؤسا قوم نوح(ع) كى جہالت ۱۸ ،۱۹ ; رؤسا قوم نوحعليه‌السلام كے ايمان لانے كے شرائط ۸ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا اور تقرب ۱۹ ; قوم نوح(ع) كے ر ؤسا اور حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكار ۱۸ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا اور فقراء ۹ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا كى سوچ ۳ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا كے

۸۴

مطالبات ۸ ; قوم نوح(ع) كے معاشرہ كا طبقاتى نظام۸; قوم نوح(ع) كے مؤمنين كا تقرب ۱۱ ; كفار قوم نوح(ع) ۱۸

مؤمنين قوم نوح(ع) كے درجات ۱۱ ، ۱۸

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۱۵ ، ۱۶;قيامت ميں حقائق كا ظاہر ہونا ۱۶

كفر:كفر كے آثار ۲۱

لقاء الله :دنيا ميں لقاء الله ۱۳ ; قيامت ميں لقاء الله ۱۵ ; لقاء الله كا مقام ۱ ۱، ۱۹ ;لقاء الله كا وقت ۱۵

مؤمنين :قيامت ميں مؤمنين ۱۶; مؤمن فقير كو چھوڑنا ۸،۹ ; مؤمن فقير كوچھوڑنے كى مذمت ۱۶ ;مؤمنين كي شخصيت كى اہميت ۱۰

مبلغين:مبلغين كا اجر ۷ ; مبلغين كا زہد۶ ; مبلغين كى صداقت كى علامتيں ۶

مصلحين :نجات دينے والوں كا زہد ۶ ; نجات دينے والوں كى صداقت كى نشانياں ۶

مقربين :۱۱

نوح : (ع)اجر رسالت۱ ، ۴ ; حضرت نوح(ع) اور اشراف قوم كے مطالبات ۹ ; حضرت نوحعليه‌السلام اور فقير مؤمنين ۹; حضرت نوح(ع) پر دنياطلبى كى تہمت ۳ ; حضرت نوح(ع) كا عقيدہ ۴ ; حضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۹ ; حضرت نوح(ع) كى تبليغ ۱ ، ۴ نوحعليه‌السلام اور قوم نوح(ع) ۴

آیت ۳۰

( وَيَا قَوْمِ مَن يَنصُرُنِي مِنَ اللّهِ إِن طَرَدتُّهُمْ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ )

اے قوم ميں ان لوگوں كو نكال باہر كردوں تو اللہ كى طرف سے ميرا مددگار كون ہوگا كيا تمھيں ہوش نہيں آتا ہے (۳۰)

۱_ خداوند متعال موحدين اور پيغمبروں كى رسالت پر ايمان لانے والوں كا حامى و مددگار ہے _

من ينصر نى من الله ان طردتهم

۲_ مومنين كو چھوڑ دينا ( اہل ايمان كے مجمع سے نكال دينا) گناہ اور عذاب الہى كا موجب ہے_

من ينصر نى من الله ان طردتهم

يہاں (من الله ) كا معنى ( من عذاب الله ) ہے_

۸۵

۳_ تمام لوگ حتى انبياء بھى اگر مؤمنين كو چھوڑ ديں اور گناہ كا ارتكاب كريں تو الہى سزا و مجازات كے مستحق ٹھريں گئے_من ينصر فى من الله ان طردهم

۴_ خداوند متعال كے عذاب كو ٹالنا اور عذاب الہى ميں گرفتارافراد كى مدد كسى كے بس كى بات نہيں ہے_

من ينصر نى من الله

جملہ ( من ينصرني ...) ميں استفہام ، استفہام انكارى ہے _ (نصر) كا معنى مدد كرنا ہے _ كيونكہ آيت ميں يہ (من) سے متعدى ہوا ہے لہذا نجات اورچھٹكارا كا معنى اس ميں متضمن ہے اس بنا ء پر ( من ينصرني ...) كا معنى كچھ يوں ہوگا_ كوئي بھى مجھے عذاب الہى سے نجات نہيں دلواسكتا اگر ميں انہيں باہر نكال دوں _

۵_حضرت نوحعليه‌السلام نے مؤمنين كو ترك كرنے كے نتائج و مشكلات كى طرف توجہ نہ كرنے پر اپنى قوم كے رؤسا و اشراف كى سرزنش كي_أفلا تذكرون

(أفلا تذكرون) ميں استفہام توبيخى ہے_

۶_ مومنين كو چھوڑنے كى خاطر عذاب الہى كا استحقاق، ايك ايسى حقيقت ہے جو سب كے ليے قابل در ك و فہم ہے_

من ينصرنى من الله ان طردتهم أفلا تذكرون

۷_ تمام موجودات كا عذاب الہى كو ٹالنے سے عاجز ہونا، ايك ايسى حقيقت ہے جو سب كے ليے قابل درك و فہم ہے_

من ينصرنى من الله أفلا تذكرون

انبياعليه‌السلام :انبيا(ع) ء اور سزا ۳ ; انبياصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ء كے پيروكاروں كے حامى ۱

انسان:انسانوں كا عجز ۴

خدا:خداوند عزّوجل متعال كى حمايتيں ۱;خداوند عزوجل كى سزائيں ۴; خداوند عزوجل كے عذاب ۷

سزا:سزا كے اسباب ۳

عذاب:اہل عذاب كى مدد۴ ; دفع عذاب سے عاجز ہونا ۴،

۸۶

۷ ;عذاب كے اسباب ۲;عذاب كے اسباب كو درك كرنا ۶

قوم نوحعليه‌السلام :قوم نوحعليه‌السلام كے اشراف كى سرزنش ۵

گناہ:گناہ كى سزا ۳ ; گناہ كے موارد ۲

مؤمنين:مؤمنين كو چھوڑنے كا گناہ ۲;مؤمنين كو چھوڑ نے كے آثار ۲ ،۵; مؤمنين كو نكالنے كى سزا ۳ ، ۶ ; مؤمنين كى شخصيت كى اہميت ۲ ، ۳

موجودات:تمام موجودات كا عاجز ہونا ۷

موحدين:موحدين كا حامى ۱

نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام كا ڈانٹنا۵

آیت ۳۱

( وَلاَ أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَآئِنُ اللّهِ وَلاَ أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلاَ أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلاَ أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللّهُ خَيْراً اللّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ إِنِّي إِذاً لَّمِنَ الظَّالِمِينَ )

اور ميں تم سے يہ بھى نہيں كہتا ہوں كہ ميرے پاس تمام خدائي خزانے موجود ہيں اور نہ ہر غيب كے جاننے كا دعوى كرتا ہوں اور نہ يہ كہتا ہوں كہ ميں فرشتہ ہوں اور نہ جو لوگ تمھارى نگاہوں ميں ذليل ہيں ان كے بارے ميں يہ كہتا ہوں كہ خدا انھيں خير نہ دے گا _ اللہ ان كے دلوں سے خوب باخبر ہے _ ميں ايسا كہہ دوں گا تو ظالموں ميں شمار ہوجائوں گا (۳۱)

۱_ حضرت نوحعليه‌السلام نہ توكائنات كے خزانوں كے مالك اور نہہى غيب علم جانتے تھے اور نہ وہ فرشتوں ميں سے

۸۷

تھے_لا أقول لكم عندى خزائن الله و لا أقول انى ملك

۲_ قوم نوح كے رؤسااور سردار حضرت نوحعليه‌السلام كو فرشتہ ،كائنات كے خزانوں پر اختيار اورعلم غيب نہ جاننے كى وجہ سے مقام پيغمبرى كے لائق نہيں سمجھتے تھے_ولا أقول لكم عندى خزائن الله و لا أقول انّى ملك

(لا أقول لكم .) كا جملہ ممكن ہے _'' ما نرى لكم علينا من فضل :'' پر ناظر ہو_ لہذا يہ اسكى طرف اشارہ ہے جو قوم نوحعليه‌السلام مدعيان نبوت سے بے جا خواہشات ركھتى تھي_

۳_ تمام نعمات الہى اور كائنات كے خزانوں پر تسلط اور علم غيب كا جاننا پيغمبرى كے شرائط اور خصائص ميں سے نہيں ہے_و لا أقول لكم عندى خزائن الله و لا ا علم الغيب

۴_ فرشتہ ہونا ، مقام نبوت اورپيغمبرى كو ثابت كرنے كے شرائط ميں سے نہيں ہے_لا أقول انى ملك

۵_ بشر، مقام رسالت اور پيغمبرى كى صلاحيت ركھتاہے_و لا أقول انّى ملك

۶_ كائنات ہستى ميں خداوند متعال كى ہر نعمت اور عطا اپنے ليے ايك مخصوص خزانہ و مخزن ركھتى ہے _

(خزائن الله )

مذكورہ بالا تفسير كلمہ ( خزائن) كے جمع لانے كى بناء پرہے _

۷_كائنات كى تمام نعمتيں اور اس كےخزانے، خدا كى طرف سے اور اس كے اختيار ميں ہيں _خزائن الله

۸_ كائنات ہستى ميں خدا كى نعمتيں قيمتى اورقابل قدرہيں _خزائن الله

( خزائن ) جمع خزانہ اور مخازن كے معنى ميں ہے كائنات كى نعمتوں اورعطا كى جگہ كے ليے خزانہ كا لفظ استعمال كرنا، اس مطلب كو سمجھا رہا ہے كہ كائنات كى نعمتيں اور عطيّات قابل قدر اور قيمتى ہيں كيونكہ عموماً قيمتى اشياء كى حفاظت كسى خزانے ميں كى جاتى ہے_

۹_قوم نوح(ع) كے رؤساء كى نظر ميں معاشرہ كے مستضعف اور غريب لوگوں كى ظاہرى پستى اور حقارت_

ولا أقول للذين تزدرى أعينكم يؤتيهم الله خير

از دراء ( تزدرى كا مصدر ہے ) جو حقير ، ناقص اور معيوب سمجھنے كے معنى ميں ہے ( لسان العرب)

(تزدري) كامفعول ضميرمحذوف ہے جو الذين كى طرف لوٹتى ہے اور اس سے مراد حضرت نوحعليه‌السلام كے

۸۸

پيروكار ہيں _ يعنى (الذين تزدريهم أعينكم ) يعنى وہ لوگ جنہيں تمھار ى آنكھيں حقير ، ناقص اور معيوب ديكھ رہى ہيں ( تزدري) كا (أعينكم) كى طرف اسناد، رؤساء اور سردار وں كى ظاہرى نگاہ كى طرف اشارہ ہے_

۱۰_ قوم نوحعليه‌السلام كے سردار اوررؤسائ، غريبوں اور محتاجوں كو خير و نيكى تك پہنچنے سے قاصر سمجھتے تھے_

لا أقول للذين تزدرى أعينكم لن يؤتيهم الله خير

جملہ (لن يؤتيهم الله خيراً ) قوم نوحعليه‌السلام كے سرداروں اوررؤساء كى معاشرہ كے غريبوں اور فقراء كے بارے ميں سوچ كو بيان كر رہا ہے_اور كلمہ ''لن'' كو مد نظر ركھے ہوئے يہ جملہ اس بات كى حكايت كررہا ہے كہ رؤسائ، محروم و غريب افراد كے خير و نيكى تك پہنچے كو ناقابل تحمل خيال كرتے تھے_

۱۱_انسان كا دنيا كے مال و متاع سے محروم ہونا اسكى علامت ہے كہ وہ معنوى و الہى خيرات كو حاصل كرنے كے لائق نہيں ہے _لا أقول للذين تزدرى أعينكم لن يؤتيهم الله خير

۱۲_مكتب انبياء ميں انسانوں كى كسوٹى كامحور، اسكا باطنى اور نفسانى پہلوہے _ نہ كہ ظاہرى و مادى خصوصيات

و لا أقول للذين تزدرى أعينكم ...الله ا علم بما فى أنفسهم

حضرت نوحعليه‌السلام نے كفاركى انسانوں كے بارے ميں فكر كو ( أعينكم) كے لفظ سے تعبير كيا ہے _ ليكن اپنى فكر كے ليے لفظ ( أنفسہم ) كو محور قرار دينا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ جو انسان خدا كو مدنظر نہيں ركھتااس كے نزديك قدر و قيمت كا معيارانسان كے ظاہرى و مادى حالات ہوتے ہيں جبكہ پيغمبر وں كا مطمع نظران كى روح و نفسيات ہے_

۱۳_خداوند متعال، انسانوں كو خير و نيكى عطا كرنے اور ان كو روحانى و معنوى مقامات تك پہنچانے والا ہے_

لا أقول ...لن يؤتيهم الله خير

۱۴_ خداوندمتعال، انسان كے روحانى اور نفسانى امور سے آگاہ ہے _الله ا علم بما فى ا نفسم

۱۵_ قوم نوح كے رؤساء اور سرداروں كا غريب اور محتاج لوگوں پر ظلم كرنا_

لا أقول للذين تزدرى أعينكم انّى إذاً لمن الظالمين

جملہ (انّى اذاً لمن الظالمين ...) تعريضى جملہ ہے _ يعنى رؤساء قوم اور سرداروں كى سرزنش كى جارہى ہے كہ تم اپنى اس خام خيالى ميں كہ غريب اور نادار لوگ خير ونيكى كے مستحق نہيں ہيں ان كے حق ميں ظلم كرتے ہو_

۸۹

۱۶_ غريب و نادار لوگوں كو خير اور مقام معنوى سے دور خيال كرنا، گناہ اور ايسا تصو ّر ہے جس كا حقيقت سے كوتى تعلق نہيں ہے _لا أقول للذين تزدرى أعينكم إنى اذاً لمن الظالمين

۱۷_ كسى دليل و برہان كے بغير لوگوں كے بارے ميں حق بات كہنا اور ان كونا اہل سمجھنا، ان پر ظلم ہے_

لا أقول الله ا علم بما فى أنفسهم إنى إذاً لمن الظالمين

اقدار:اقدار كا ملاك ۱۱،۱۲

افتراء:بہتان باندھنأظلم ہے۱۷

امكانات مادى :مادى و سائلكا كردار ۱۱،۱۲

انبياء:انبياء كا بشرہونا۴

انسان :انسان كى استعداد ۵

برہان:برہان كى اہميت۱۷

تحقيق :اديان ميں تحقيق ۱۲،تحقيق كا ملاك ۱۱،۱۲

خدا :خدا كا علم غيب ۱۴ ; خداوند متعال كى نعمتوں كى اہميت ۸;خداوند متعال كى نعمتيں ۶،۷;خداوند متعال كے اختيارات ۷;خداوند متعال كے مختصات ۷; عطاياى خداوندى ۱۳

خير :خير كاسرچشمہ۱۳

ظالمين :۱۵

ظلم :ظلم كے موارد ۱۷

فقراء:فقراء اور خير۱۰،۱۱،۱۶; فقراء اور معنوى درجات ۱۶

فكر :غلط فكر ۹،۱۶

قوم نوح(ع) :اشراف قوم نوح(ع) اور حضرت نوحعليه‌السلام ۲;اشراف قوم نوح(ع) كأظلم ۱۵; اشراف قوم نوح(ع) كى فكر ۲،۹،۱۰;قوم نوح(ع) كے اشراف اور فقراء ۹،۱۰;قوم نوح(ع) كى تاريخ ۱۵; قوم نوحعليه‌السلام كے فقراء پر ظلم۱۵; قوم نوح(ع) كے معاشرتى طبقات ۹،۱۰،۱۵

۹۰

گناہ :گناہ كے موارد ۱۶

معنويات:معنويات پائي جانے كى علامات۱۱

معنوى درجات :معنوى درجات كا سرچشمہ ۱۱

ملائكہ :ملائكہ اور نبوت ۴/نبوت :بشر اور مادى امكانات ۳;شرائط نبوت ۳،۴; مقام نبوت ۵;نبوت اور علم غيب ۳

نعمت :نعمت كا سبب ۶،۷;نعمت كے خزائن كا مالك ۷;نعمت كے ذخيرے۶

نوحعليه‌السلام :حضرت نوح(ع) اور عقائد كے اختيارات كا دائرہ كار ۱; حضرت نوح(ع) كا بشر ہونا۱; حضرت نوح(ع) كے علم كا دائرہ ۱

آیت ۳۲

( قَالُواْ يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتَنِا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ نوح آپ نے ہم سے جھگڑا كيا اور بہت جھگڑا كيا تو اب جس چيز كا وعدہ كررہے تھے اسے لے آئو اگر تم اپنے دعوا ميں سچے ہو(۳۲)

۱_حضرت نوح(ع) ، اپنى قوم كى ہدايت كے سلسلہ ميں ہميشہ كوشاں رہے_قالوا يا نوح قد جادلنا فا كثرت جدالن

إكثار (أكثرت ) كا مصدر ہے_ اسكا معنى كام كو كثرت سے انجام دينا ہے_ پس( ا كثرت جدالنا ) كا معنى يہ ہوا كہ تونے بہت مناظرہ اور كثرت سے ادّلة كو ذكر كيا ہے _ يہ اس معنى كو بتاتا ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام نے تبليغ رسالت كے سلسلہ ميں انتھك كوشش كى ہے _

۲_لوگوں كو شرك سے روكنے اور توحيد كى طرف ترغيب دلانے كے ليے حضرت نوح(ع) نے گفتگو و بحث اور دليل و برہان پيش كرنے كى روش اختيار كي_قالوا يا نوح قد جادلنا فا كثرت جدالن

(جدال ) كا معنى مناظرہ كرنا اور مدّ مقابل كے دعوى فكر اور عقائد كے خلاف دليل و برہان كو لانا ہے_

۳_حضرت نوحعليه‌السلام ، ہميشہ كافروں كو عذاب الہى كے نزول سے ڈراتے تھے_فأتنا بما تعدن

فعل مضارع( تعد) كو فعل ماضى (وعدت) كى جگہ پرلانا، عذاب سے ڈرانے اور حضرت نوح(ع) كى توبيخ كے تكرار كى طرف اشارہ ہے

۹۱

۴_كفارنے حضرت نوحعليه‌السلام سے يہ خواہش كى كہ وہ ان كے ساتھ اپنے مناظرے اور گفتگو كو ختم كركے وعدہ عذاب كو عملى شكل دے_قالوا يا نوح قد جادلنا فا كثرت جادلنا فأتنا بما تعدن

جملہ (فا كثرت جدالنا)(كہ تم نے ہمارے ساتھ بہت زيادہ مناظرہ كيا ) پر جملہ ''فائتنابما تعدنا''كا متفرع ہونا اس بات سے كنايہ ہے كہ دليل و برہان لانا كا فى ہے لہذا اس بات كو ختم كيا جائے_

۵_ قوم نوح كے كفار، حضرت نوحعليه‌السلام كے عذاب كو غير يقينى اور ان كے وعدہ عذاب اورخوف دلانے كو قابل عمل نہيں سمجھتے تھے_فأتنا بما تعدنا ان كنت من الصادقين

۶_حضرت نوح(ع) كى كوشش اور براہين و دلائل، رؤسا كفار پر بے اثر ثابت ہوئے_قد جادلنا فا كثرت جادلنا فأتنا بما تعدن

۷_قوم نوح(ع) كے رؤساء اور سرداروں كى ہميشہ يہ كوشش رہى كہ وہ حضرت نوح(ع) كو توحيدى دعوت قبول كرنے كے سلسلہ ميں مايوس كريں _قد جادلتنا فا كثرت جادلنا فأتنا بما تعدن

۸_ كا فر قوم كے خام خيال ميں حضرت نوح(ع) ايك جھوٹے اور ناروا مطالب پيش كرنے والے شخص تھے_

ان كنت من الصادقين

عذاب:عذاب كى درخواست كرنا۴;نزول عذاب سے ڈرانا ۳

فكر :غلط فكر ۸

قوم نوحعليه‌السلام :اشراف قوم اور نوحعليه‌السلام ۷;اشراف قوم نوح(ع) كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۶; اشراف قوم نوح(ع) كى سازش ۷; قوم نوح(ع) اور حضرت نوحعليه‌السلام ۴; قوم نوح(ع) اور حضرت نوحعليه‌السلام كے عذاب كے وعدے ۵; قوم نوح(ع) كا كفر ۵;قوم نوح(ع) كو ڈرانا ۳; قوم نوح(ع) كى فكر ۸; قوم نوح(ع) كى ہدايت ۱; قوم نوح(ع) كے تقاضے ۴

نوحعليه‌السلام :

حضرت نوحعليه‌السلام پر جھوٹ بولنے كى تہمت ۸; حضرت نوحعليه‌السلام كا شرك كے خلاف جہاد ۲; حضرت نوح(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۷; حضرت نوحعليه‌السلام كا ہدايت كرنا۱ ; نوحعليه‌السلام كا احتجاج۲،۶; حضرت نوحعليه‌السلام كا ڈرانا ۳; حضرت نوحعليه‌السلام كى تبليغ كا طريقہ ۲،۳; حضرت نوحعليه‌السلام كى نااميدى كا سبب ۷

۹۲

آیت ۳۳

( قَالَ إِنَّمَا يَأْتِيكُم بِهِ اللّهُ إِن شَاء وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ )

نوح نے كہا كہ وہ تو خدا لے آئے گا اگر چاہے گا اور تم اسے عاجز بھى نہيں كرسكتے ہو(۳۳)

۱_اہل كفر پر عذاب كا نزول خدا كے اختيار اور اسكى مشيت سے ہے_انما ياتيكم به الله

۲_ كافروں پر عذاب نازل كرنا، پيغمبروں كے اختيار ميں نہيں ہے_فأتنا بما تعدنا ...قال انما ياتيكم به الله ان شائ

كافروں نے حضرت نوحعليه‌السلام كو مخاطب كركے كہا كہ جس عذاب كے بارے ميں ڈراتے ہووہ لے آؤ پھر حضرت نوحعليه‌السلام كا اپنى كلام ميں ( انما ) كا لفظ لے آناجو كے حصر كے ليے ہے اس بات كى دليل ہے كہ عذاب نازل كرنا، خداوند متعال كا كام ہے اور يہ انسان كے اختيار كى بات نہيں ہے_

۳_ حضرت نوح كفار كے عذاب طلب كرنے كے جواب ميں فرماتے ہيں كہ عذاب كا نازل كرنا، خدا كى مشيت كے ساتھ ہے اور اس عذاب سے بچنا ممكن نہيں ہے_قال انما ياتيكم به الله ان شاء و ما انتم بمعجزين

۴_ خداوند متعال كى مشيت ناقابل تخلّف ہے_قال انما ياتيكم به الله ان شائ

۵_ مشيت الہى كے مقابلے ميں استقامت كسى كے بس كاروگ نہيں ہے_انما ياتيكم به الله ان شاء وما انتم بمعجزين

۶_ كوئي شخص اور كوئي شے خداوند متعال پر حاكميت نہيں ركھتى ہے_فأتنا بما تعدنا قال انما ياتيكم به الله ان شاء

۷_ خداوند عالم كا وعدہ عذاب اور اس سے خوف دلانا اگر چہ لوگوں پر اس كا ابلاغ ہى كيوں نہ كرديا گيا ہو خدا كو مجبورنہيں كرسكتاكہ وہ اس كو عملى جامہ پہنائے_

۹۳

فأتنا بما تعدنا قال انما ياتيكم به الله ان شاء

حضرت نوحعليه‌السلام ( انشا الله ) كے جملے سے يہ بتانا چاہتے ہيں كہ عذاب الہي، مشيت خداوندى كے ساتھ مختص ہے_ يہ عذاب كاوعدہ اور خوف دلوانا بھى اگر چہ خدا كى طرف سے ہے ليكن اسكو عملى جامہ پہننانے پراسے مجبور نہيں كيا جاسكتا، خداوند عالم مختار ہے اگر وہ چاہے گا تو ان عذاب كے وعدوں كو پورا اور اگر نہيں چاہے گا تو پورا نہيں كرے گا_

۸_كفار، عذاب الہى كے نزول كو نہيں روك سكتے اورنہ ہى خود كو اس ميں گرفتار ہونے سے بچاسكتے ہيں _

انماياتيكم به الله و ما انتم بمعجزين

اعجاز (معجزين) كا مصدر جو فرار كرنے اور دسترس سے خارج ہونے كے معنى ميں ہے اس بناء پر ''وما انتم بمعجزين''كا معنى ہوں ہوگا (عذاب كے نازل ہونے كے بعد) تم عذاب سے فرار اور اس سے چھٹكارا نہيں پا سكتے ہو_

۹_ كفار كے عذاب طلب كرنے كے سلسلہ ميں حضرت نوحعليه‌السلام كا جو جواب تھا وہ درس توحيد اور شناخت خدا پر مبنى تھا_فأتنا بما تعدنا قال انما ياتيكم به الله ان شاء و ما انتم بمعجزين

انبياء:انبياء كے دائرہ اختيارات ۲

انسان :انسانوں كا عجز ۵

خدا :اختيار خداوندى ۷; خدا پر حاكميت ۶; خداوند متعال كى خصوصيات ۶;خداوند متعال كے عذاب كے وعدوں كا پورا ہونا۷;خدا كى حاكميت ۶; خدا كى مشيت كا حتمى ہونا ۴،۵;خدا كے عذاب سے نجات ۸;مشيت الہى ۱،۳

عذاب:عذاب كا سبب۱،۲،۳; عذاب كى درخواست ۳،۹

قوم نوح:قوم نوح پر عذاب كا حتمى ہونا ۳; قوم نوح كى خواہشات ۳،۹

كائنات كى شناخت :كائنات كى توحيدى شناخت ۶

كفار :كفار كا عجز ۸; كفار كا عذاب ۱،۲;كفار كے عذاب حتمى ہونا ۳

موجودات :موجودات كا عاجز ہونا ۶

حضرت نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام اور قوم نوح كى خواہشات ۹; حضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۹;حضرت نوحعليه‌السلام كا خدا كى معرفت ركھنا ۹; حضرت نوح(ع) كى تعليمات ۹; حضرت نوحعليه‌السلام كى توحيد ۹

۹۴

آیت ۳۴

( وَلاَ يَنفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدتُّ أَنْ أَنصَحَ لَكُمْ إِن كَانَ اللّهُ يُرِيدُ أَن يُغْوِيَكُمْ هُوَ رَبُّكُمْ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ )

اور ميں تمھيں نصيحت بھى كرنا چاہوں تو ميرى نصيحت تمھارے كام نہيں آئے گى اگر خدا ہى تم كو گمراہى ميں چھوڑ دينا چاہے _ وہى تمھارا پروردگار ہے اور اسى كى طرف تم پلٹ كرجانے والے ہو(۳۴)

۱_ حضرت نوحعليه‌السلام اپنى قوم كے ايمان لانے ميں متردد ہوگئے جب انہوں نے عذاب موعود كے متحقق ہونے كے بارے ميں درخواست كى _فأتنا بما تعدنا قال لا ينفعكم نصحى ان ادرت ان انصح لكم

۲_حضرت نوح(ع) كى كوششيں جب ثمر آورنہ ہوئيں تو انہوں نے يہ احتمال ديا كہ خدا كى مشيت يہ ہے كہ ان كے قوم كے رؤساء و سردار ورطہ گمراہى و ضلالت ميں پڑے رہيں _ولاينفعكم نصحي ...ان كان الله يريد ان يغويكم

(ان )ان كان الله ميں شرطيہ ہے اور جملہ (لا ينفعكم ...) اس شرط كے جواب كے قائم مقام ہے_ يہ احتمال بھى بعيد نہيں ہے كہ يہ (ان) مثقلہ سے مخففہ ہو گيا ہو_اس بناء پر جملہ ''و ان كان الله '' يہ بتاتاہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنى قوم پر يقين كرليا تھا كہ وہ ايمان نہيں لائيں گے_ اور يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ يہ (ان) كى خبر ميں لام كو نہ لانا اس وجہ سے ہے كہ يہ(ان نافيہ ) كے ساتھ مشتبہ نہ ہوجائے_

۳_ خدا كى طرف سے اہل كفر كى ضلالت و گمراہى ان كى ہٹ دھرمى اور حق قبول نہ كرنے كى سزا ہے_

يا نوح قد جادلتنا فأتنا بما تعدنا ان كان الله يريد ان يغويكم

اہل كفر كى ہٹ دھرمى اور حق قبول نہ كرنے (قد جادلتنا)كے بيان كے بعد جملہ ''ان كان الله '' كا واقع ہونا اس بات كى حكايت كررہا ہے كہ اہل كفار كو گمراہ كرنے كا خدائي ارادہ خود ان كى ہٹ دھرمى اور عناد كا نتيجہ ہے_

۴_جن كى گمراہى اور ضلالت كا خدا وند عالم نے ارادہ كر ليا ہے تو انہيں انبياء كى تعليمات اور نصيحتيں كچھ فائدہ نہيں ديتى ہيں _و لا ينفعكم نصحى ان كان الله يريد ان يغويكم

''ان كان اللّه ...'' جملہ'' لا ينفعكم نصحي'' كےليے بہ منزلہ علت ہے _يعنى خداوند متعال نے تمہارى گمراہى كا ارادہ كيا ہے تو ميرى نصيحت تم پر كچھ اثر انداز نہيں ہو گئي_

۵_انبياء اور مبلغين دين كے ليئے ضرورى نہيں ہے كہ جو لوگ ہدايت كو قبول نہيں كرتے وہ انہيں معارف الہى كى تبليغ كريں _ان اردت ان انصح لكم

۹۵

حضرت نوح(ع) پرجب يہ حقيقت ظاہر ہوگى كہ خداوند متعال قوم نوح كى لجاجت كى وجہ سے ان كو گمراہ ديكھنا چاہتا ہے تو نصيحت اور دين كى تبليغ كرنے كو جملہ شرطيہ ''ان اردت ...''كے ذريعہ بيان كيا تا كہ اس مطلب كى طرف اشارہ كيا جائے كہ دين كى تبليغ اس مرحلہ كے بعد مجھ پر لازم و ضرورى نہيں ہے_

۶_ جب يہ احتمال ہوكہ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر مؤثر نہيں تو تبليغ كرنا واجب نہيں ہے_

و لا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم ان كان الله يريد ان يغويكم

۷_ انسانوں كى ہدايت اور گمراہي، ارادہ خداوند اور اسكى مرضى سے خارج نہيں ہے_

و لا ينفعكم نصحي ان كان الله يريد ان يغويكم

۸_ حضرت نوحعليه‌السلام لوگوں كے ہمدرد اور دلسوز پيغمبر تھے_لا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم

۹_ كفارقوم نوح حضرت نوحعليه‌السلام كواپنا خير خواہ اور ان كى تعليمات كو اپنے ليے فائدہ مند نہيں سمجھتے تھے_

يا نوح قد جادلتنا ان اردت ان انصح لكم

قوم نوح(ع) كے رؤساء حضرت نوحعليه‌السلام كى مسلسل جدوجہد كو مناظرہ كا نام ديتے تھے ليكن حضرت نوح(ع) ان كى فكرى خطا كو خطا قرار دينے كے ليے ان كے مقابلہ ميں لفظ نصيحت سے تعبير كرتے تھے_

۱۰_ انسان پر نصيحت كا مؤثر ہونا، خداوند متعال كى توفيق اور اسكى مشيّتكا مرہون منت ہے_

و لا ينفعكم نصحى ان كان الله يريد ان يغويكم

۱۱_خداوند متعال، انسانوں كا پروردگار اور انكے امور كا مدبّر ہے_هو ربكم

۱۲_اتمام حجت اور ان كى كينہ توزى كے بعد اہل كفار كو گمراہ كرنا، خداوند عالم كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

ان كان الله يريد ان يغويكم هو ربكم

۱۳_ انسانوں كى بازگشت ،خداوند متعال كى طرف ہے_و اليه ترجعون

۱۴_ انسانوں كى خدا كى طرف بازگشت، اسكى ربوبيت كى ايك جھلك ہے_هو ربكم و اليه ترجعون

۱۵_انسانوں كا خداوند متعال كى طرف لوٹنا حتمى اور اس سے راہ فرار ممكن نہيں ہے_و اليه ترجعون

مذكورہ بالا تفسير كا سبب فعل '' ترجعون'' كا مجہول ہونا ہے_

۹۶

۱۶_پيغمبروں كى نصيحتوں كو قبول نہ كرنا، آخرت كے عذاب ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_

و لا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم هو ربكم و اليه ترجعون

نصيحت كو قبول نہ كرنے والوں كى خدا كى طرف بازگشت كى حقيقت كو بيان كرنے كا مقصد انہيں اخروى عذاب سے خبردار كرنا ہے_

۱۷_عن ابى الحسن الرضا عليه‌السلام قال: قال الله فى قوم نوح ''ولا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم ان كان الله يريد ان يغويكم ، قال : الامر الى الله يهدى و يضل (۱) امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند عالم نے حضرت نوح(ع) كا ان كى قوم كے بارے ميں قول نقل كرتے ہوئے فرمايا كہ اگر خداوند عالم تمھيں گمراہ كرنا چاہے اور ميں تمھيں نصيحت كرنا چاہوں تو ميرى نصيحت تمھارے ليے سودمند ثابت نہيں ہو سكتى _ امام(ع) نے فرمايا كہ ہدايت و گمراہى كا اختيار خدا كے ہاتھ ميں ہے_

انسان :انسانوں كى تدبير كرنے والا :۱۱;انسانوں كى تربيت كرنے والا ۱۱; انسانوں كى عاقبت ۱۳،۱۵

احكام :۶//امر بالمعروف:امر بالمعروف كے احكام ۶; امر بالمعروف كے شرائط۶

انبياء:انبياء كى ذمہ دارى كا دائرہ ۵; انبياء كے موعظہ كے شرائط كى تاثير ۴; موعظہ انبياء كے رد كرنے كے آثار ۱۶

حق :حق قبول نہ كرنے كا انجام ۳

خدا :توفيقات خدا كا اثر ۱۰; ربوبيت خدا ۱۱; خدا كا اتمام حجت كرنا ۱۲; خدا كا ارادہ۲،۴،۷; خدا كى ربوبيت كى نشانياں ۱۲،۱۴; خدا كى گمراہى ۲،۳، ۴، ۱۲ ، ۱۷; خدا كى مشيت كا اثر ۷; خداوند متعال كى ہدايتيں ۱۷; خدا كے ارادہ كا اثر۱۰; خدا كے افعال ۱۱; مشيت خدا ۷

خدا كى طرف لوٹنا:۱۳،۱۴خدا كى طرف حتماً لوٹنا ۱۵

روايت :۱۷سزا:آخرت كى سزا كا سبب۱۶

عذاب :عذاب كى درخواست ۱

قوم نوح:اشراف قوم نوح كى گمراہى ۲; قوم نوح اور حضرت نوحعليه‌السلام ۹;قوم نوح كى خواہشات ۱; قوم نوح كى فكر ۹;قوم نوح كے ايمان كى نااميدى ۱

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲،ص۱۴۳،ح۱۶; نور الثقلين ج۲ص۳۴۹،ح۶۲_

۹۷

گمراہ لوگ:گمراہوں كا حق قبول نہ كرنا۳; گمراہوں كا ہدايت قبول نہ كرنا۴;گمراہوں كى دشمنى ۱۲; گمراہوں كى لجاجت ۳;گمراہوں كے ليے اتمام حجت ۱۲

گمراہى :گمراہى كا سبب۳; گمراہى كى ابتداء ۷

لجاجت :لجاجت كى جزاء ۳

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارى كا دائرہ ۵

موعظہ :موعظہ كى شرائط كا اثر ۱۰

نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام كا عقيدہ ۲; حضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۱; حضرت نوحعليه‌السلام كى خيرخواہى ۸; حضرت نوحعليه‌السلام كى مہربانى ۸;حضرت نوحعليه‌السلام كى نااميدى كا سبب۱ ; حضرت نوحعليه‌السلام كے فضائل ۸

نہى عن المنكر :نہى عن المنكر كے احكام ۶; نہى عن المنكر كے شرائط۶

ہدايت :ہدايت كا سبب ۷

ہدايت قبول نہ كرنے والے:معارف الہى كا ہدايت قبول نہ كرنے والوں كو ابلاغ ۵

آیت ۳۵

( أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَاْ بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرَمُونَ )

كيا يہ لوگ يہ كہتے ہيں كہ انھوں نے اپنے پاس سے گڑھ ليا ہے تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر ميں نے گڑھاہے تو اس كا جرم ميرے ذمہ ہے اور ميں تمھارے جرائم سے برى اور بيزار ہوں (۳۵)

۱_ عصر بعثت كے مشركين، قرآن كو پيغمبر اسلام كا منگھڑت كلام سمجھتے تھے_ام يقولون افتراه

'' يقولون'' كى ضمير سے كون افراد مراد ہيں ؟ اس بارے ميں دو نظريے ہيں بعض نے عصر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مشركين مراد ليے ہيں اور بعض مفسرين نے قوم نوح(ع) كے كفار قرار ديے ہيں مذكورہ بالا تفسير پہلے نظر يے كى بناء پر ہے_ قابل ذكر ہے كہ اس بناء پر كلمة ''قل '' كا مخاطب پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ''اقترئہ'' ميں ضمير مفعول قرآن كى طرف يا حضرت نوح(ع) كے مخصوص واقعہ كى طرف لوٹ رہى ہے_

۹۸

۲_ مكہ كے مشركين ،حضرت نوحعليه‌السلام اور انكى قوم كے واقعہ كو خودپيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كى طرف سے بنايا ہوا قصہ خيال كرتے تھے_و لقد ارسلنا نوحاً ام يقولون افترىه

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب ''افتراہْ'' كے مفعول كى ضمير،ما قبل آيات ميں ذكر حضرت نوح(ع) اور ان كى قوم كے واقعہ كى طرف لوٹے_

۳_خود ساختہ مطالب كو خداوند متعال كى طرف نسبت دينا جرم اور گناہ ہے_قل ان افتريته فعلّى اجرامي

'' افتراء'' كا معنى جھوٹ باندھنا ہے_ اگر چہ اسكى كسى دوسرے كى طرف نسبت دينا اسميں ذكر نہيں ہوا ہے_ ليكن آيت كريمہ ميں جو قرائن و اشارات ملتے ہيں _ مثلاً '' افتراہ '' اور ''افتريتہ'' يہ بتاتے ہيں كہ معنى يوں ہے اگر اسكو ميں نے بنايا ہوا اور اسكى نسبت خدا كى طرف دى ہوتي

۴_ خداوند متعال نے پيغمبر اسلام كو مشركين كا جواب دينے، اور ان سے پيش آنے كا طريقہ تعليم ديا ہے_

ام يقولون افترىه قل ان افتريته فعلى اجرامى و انا بريّ مما تجرمون

مذكورہ بالا تفسير كا (قل) كے لفظ سے استفادہ كيا گيا ہے_

۵_ ہركوئي اپنے اعمال كا ذمہ دارہے اور اپنے گناہوں كى سزا بھى خود ہى بھگتے گا_ان افتريته فعلى اجرامي

''اجرام'' كا معنى ارتكاب اور گناہ كرنا ہے'' فعليّ'' كے لفظ كا '' اجرامي'' پر مقدم ہونا حصر پر دليل ہے يعنى افتراء كا گناہ (اگر افتراء ہو) مجھ پرہے نہ كہ كسى اور پر_

۶_ شرك اور غير خدا كى عبادت جرم اور گناہ ہے_و انا بريئٌ مما تجرمون

كيونكہ ''تجرمون'' كے مخاطب مشركين اور غير خدا كى عبادت كرنے والے ہيں _ لہذاجملہ ''تجرمون'' ميں گناہ سے مرادممكن ہے شرك كرنا اور غير خدا كى عبادت كرنا ہو ،يہ بات قابل ذكر ہے كہ (لفظ مما ) ميں ''ما'' مصدريہ ہے يعنى معنى يہ ہوگا'' انا بريئٌ من اجرامكم'' _

۷_ پيغمبر اسلام كا مشركين مكہ كى شرك پرستى اور ان كے

۹۹

گناہوں سے بيزارى كا اعلان _و انا بريئٌ مما تجرمون

۸_ اپنے نظريے كى حفاظت اور عقائد كى پابندى كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے مخالفين دين سے نبردآزما ہونا چاہيے_

ان افتريته فعلى اجرامى و انا بريئٌ مما تجرمون

افتراء:خدا پرافتراء كا گناہ ۳;قرآن مجيد پر افتراء۱; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر افتراء ۱

انسان :انسانوں كى ذمہ دارياں ۵

تبري:شرك سے تبرى كرنا ۷; گناہ سے تبرى كرنا ۷

جرم :جرم كے موارد۶

خدا :تعليمات خداوندى ۴

دين :دشمنان دين سے برتاؤ كا طريقہ ۸

ديندارى :ديندارى كى اہميت ۸; دين دارى ميں استقامت ۸

شرك :شرك عبادى گناہ ہے۶

عقيدہ :عقيدہ ميں استقامت ۸

عمل :عمل كے آثار ۵

گناہ :گناہ كيسزا۵; گناہ كے موارد ۳،۶

مجازات:سزاؤں كا شخصى ہونا۵; سزاؤں كى خصوصيات ۵

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين ۴;رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جھوٹ كى تہمت۲; رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اعلان تبرى كرنا ۷;معلم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۴

مشركين :صدراسلام كے مشركين اور قرآن مجيد ۱; صدر اسلام كے مشركين كى فكر ۱; مشركين سے برتاؤ كرنے كى روش۴

مشركين مكہ :مشركين مكہ اورحضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۲; مشركين مكہ كى تہمتيں ۲;مشركين مكہ كى فكر ۲

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109