امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات33%

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 109

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 89295 / ڈاؤنلوڈ: 5751
سائز سائز سائز
امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

 یہاں تک بھیڑ ؛ بھیڑیا  ؛شیر ؛ انسان ۔۔۔سب امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کریں گے  اور یہ ہے   اس آیہ شریفہ کی تفسیر اور یہ اس وقت  کی بات ہے  جب قائم آل محمد(ص) قیام کریں گے۔(۱) یہ آیہ مبارکہ قرآن مجید میں تین جگوں پر  آئی ہے اور سورہ فتح کی آیت نمبر ۲۸ کی ذیل میں حافظ ابو عبد اللہ گنجی اور علامہ شبلنجی دونوں نے سعید بن جبیر سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا اس آیت سے مھدی موعود ؑ ؛ فرزند فاطمہؑ  مراد ہیں(۲)

 ۴: وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ  إِنَّ الْبَاطِلَ كاَنَ زَهُوقًا*     اور کہہ دیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔  امام محمد باقر         فرماتے ہیں جب امام زمان ؑ ظہور کریں گے تو تمام باطل حکومتیں مٹ جائے گی(۳) اس آیہ مبارکہ میں دو نکتے کی طرف توجہ بہت ہی  ضروری ہے : ایک یہ کہ اس آیت پروردگار عالم نے تمام باطل کے مٹ جانے کا وعدہ دیا ہے جبکہ تاریخ گواہ ہے یہ وعدہ ابھی تک  تحقق نہیں پایا  ۔ دوسری یہ کہ امام مہدی  کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے جب آپ ظہور کریں گے تو تمام باطل حکومتیں مٹ جائے گی   اور یہ خود امام غائب کے وجودپر بہتریں دلیل ہے  ۔

۵: الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِیمُونَ الصَّلَوةَ وَ ممَِّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُون * (۴) جو لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ  کرتے ہیں۔آٹھویں ہجری کے مشہہور سنی عالم اس آیہ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتا ہے : المراد بالغیب المهدی المنتظر الذی وعد اللّه فی القرآن. وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ [النور: ۵۵]

---------------

(۱):- مجلسی: بحار الانوار : ج۵۱ ص ۶۱ ۔

(۲):- گنجیشافع ی: الب یان : باب نمبر ۲۵ اور  شبلنج ی: نور الابصار ص ۱۸۶۔

(۳):- کلین ی: کاف ی: ج ۸ ص ۲۸۷ اذا قام القائم ۔

(۴):- بقرۃ :۳ ۔

۲۱

و ورد فی الخبر«لو لم یبق من الدنیا إلا یوم واحد لطول اللّه ذلك الیوم حتی یخرج رجل من أمتی یواطی‏ء اسمه اسمی و كنیته كنیتی یملأ الأرض قسطا و عدلا كما ملئت جورا و ظلما» (۱) غیب سے مراد امام مہدی منتظر ہیں جس کے بارے میں پروردگار عالم نے سورہ نور کی ۵۵ آیت میں قطعی وعدہ  دیا ہے  اور پیغمبر اکرم(ص) سے بھی روایت ہے اگر دنیا کی عمر سے ایک دن بھی باقی رہ جاے تو پروردگار عالم اس دن کو اتنا طول دے گا یہاں تک میری امت سے ایک شخص ظہور کرے گا جسکا نام میرے نام جسکی  کنیت میری کنیت پر ہو گی  اور وہ زمیں کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بھر چکا ہو گا ۔(۲)

اسی طرح پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں : الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ سے مراد وہ افراد ہیں جو امام زمانہؑ کے طول غیبت کے دوران  مختلف قسم کےسختیوں ا ورمصیبتوں پر صبر کرتے ہیں :قَالَ(ص) طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ. (۳)  خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں....- یہ بعض قرآنی آیات اور احادیث اہل بیت اطہارؑ جس میں نظریہ مہدویت  اور امام مہدی کے متعلق اصولی اور کلی گفتگو ہوئی ہے ۔

--------------

(۱):- اس حدیث کو ؛ ابو داود  نے اپنی  کتاب المہدی باب ۱ میں ابن ماجہ :نے اپنی کتاب الفتن باب ۳۴ میں ؛اور امام احمد نے  مسندہ؛ ۱ / ۹۹؛ ۳/ ۲۸ میں۔نقل کیا ہے ۔

(۲):- نیشابوری نظام الدین حسن بن محمد: غرائب القرآن و رغائب الفرقان: ج ۱، ص: ۱۴۴ ؛ ناشر؛ دار الکتب العلمیہ ؛ چھاپ: ۱۴۱۶ ق: بیروت

(۳):- مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳

۲۲

سوال نمبر ۷ : امام مہدی ؑ کا پیغمبر اکرم(ص) کے وصی اور خلیفہ ہونے پر کیا دلیل ہے ؟

جواب : امام مہدی          کے اس وصی پیغمبر اعظم(ص) اور اس روئے زمین پر خلیفۃ اللہ ہونا تقریباَ  مسلمات اسلام میں سے شمار ہوتا ہے اور جو شخص  مہدویت اور امام مہدی         پر عقیدہ رکھتے ہیں انکے  امام  اور پیغمبر اکرم(ص) کی عترت طاہرہ ہے وصی ہونے پر عقیدہ رکھتا ہے  اور اس بارے میں پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومیںؑ سے سینکڑوں احادیث  فریقین کی  قابل اعتماد  حدیثی اور دیگر کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ؛ ہم یہاں اختصار کی بنا پر دو تین حدیث نقل کرتے ہیں ۔

حدیث نمبر ۱ :

امیر المؤمنین علی           اور عبد اللہ ابن مسعوددونوں سے مشہور روایت ہے جس میں آنحضرت (ص) فرماتے ہیں:لو لم یبق من الدنیا إلا یوم واحد لطول اللّه ذلك الیوم حتی یخرج رجل من أمتی یواطی‏ء اسمه اسمی و كنیته كنیتی یملأ الأرض قسطا و عدلا كما ملئت جورا و ظلما (۱)   اگر دنیا کی عمر سے ایک دن بھی باقی رہ جائے تو پروردگار عالم اس دن کو اتنا طول دے گا یہاں تک میری امت سے ایک شخص ظہور کرے گا جسکا نام میرے نام ؛ جسکی کنیت میری کنیت پر ہو گی  اور وہ زمیں کو  اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بھر چکا ہو گا ۔

حدیث نمبر ۲ :

 کسی اور حدیث میں آپ فرماتے ہیں ۔مہدی موعود میری عترت اور فاطمہ کے  اولاد سے ہونگے(۲)

--------------

(۱):- ابوداوود: سنن :ج ۲ ص ۲۰۷ اور ترمذی: سنن :ج ۴ ص ۵۰۵ باب نمبر ۵۲ اور حمو یجو ین ی: فوائد السمطین :ج ۲ ص ۳۲۵ اور اس یطرح   ابو داود  نے اپن ی  کتاب الم ہد ی  باب ۱  م یں ابن ماج ہ:نے الفتن باب ۳۴ م یں ؛اور امام احمد نے  مسند ہ؛ ۱ / ۹۹؛ ۳/ ۲۸ م یں۔ اورن یشابور ینے    غرائب القرآن ج ۱، ص: ۱۴۴ میں  اور جناب ش یخ صدوق نے کمال الد ین ص ۲۸۷ م یں نقل کیا ہے ۔

(۲):- ابن صبّاغ مالکی:فصول المھم ہص ۲۹۴ ۔

۲۳

عصر غیبت

 سوال نمبر۸: غیبت امام عصر کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہاں سے شروع ہوئی ؟

جواب :  غیبت مادہ  غاب سے ہے حس کا معنی (نگاہوں سے مخفی ہونا ہے ) نہ کہ حاضر نہ ہونا جیساکہ عام طور پر لفظ غیبت کے سننے سے اسی غلط معنی کا تصور ذہن میں أتا ہے لہذا امام غائب کے متعلق گفتگو اس امام حاضر کے متعلق ہوگی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں  لوگوں کی نظر وں سے مخفی ہیں  یعنی لوگ عام حالت میں انہیں  نہیں دیکھ پاتے جبکہ أپ لوگوں کے درمیاں رہتے ہیں اور ان ہی کے درمیاں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ چنانچہ امیر المؤمنین علی _ امام زمانہ  کی حالت غیبت کی طرف اشارةکرتے ہوے فرماتے ہیں :صَاحِبَ هَذَا الْأَمْرِ يَتَرَدَّدُ بَيْنَهُمْ وَ يَمْشِی فِی أَسْوَاقِهِمْ وَ يَطَأُ فُرُشَهُم ….  وَ لَا يَعْرِفُونَهُ حَتَّی يَأْذَنَ اللَّهُ لَهُ أَنْ يُعَرِّفَهُمْ نَفْسَهُ (۱) قسم ہے خداوند عالم کی حجت خدا لوگوں کے درمیاں ہوتی ہے راستوں میں گلیوں میں چلتی پھر تی ہیں لوگوں کے گھروں میں آتی جاتی ہے ؛زمین پر مشرق سے مغرب کو آمد ورفت کرتی ہے لوگوں کی باتوں کوسنتی ہے اور ان پر سلام بھجتی ہے وہ دیکھتی ہے لیکن انکو دیکھا نہیں جاسکتا ایک معیّن وقت تک کہ جب خدا کا وعدہ پورا نہیں ہو جاتا  ـ

اسی لیے معصومیں نے انکی وجود مقدس کو اس سورج سے تشبیہ دی ہے جو بادل کے پیچھے چپھے ہو ے ہے یہ غیبت کا ایک معنی ہے جوبعض رواریات میں آئی ہے لیکن بعض دیگر  روایات میں امام زمانہ کی  غیبت کا ایک اور معنی بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ أپ لوگوں کے درمیاں زندگی بسر کرتے ہیں اور لوگوں کو دیکھائی دیتے ہیں لیکن أپ کو پہچانتے نہیں ہیں یعنی أپ غائب نہیں ہیں بلکہ نقص لوگوں میں ہے ان میں یہ قابلیت نہیں کہ وہ انھیں دیدار کریں

--------------

(۱):- الغیبہ ج۳ /ص ۱۶۴ : کمال الدین /ج۲/ باب ۳۳ /ح ۴۶/ ص ۲۸

۲۴

امام صادق   فرماتے ہیں: وَ أَمَّا سُنَّةُ يُوسُفَ فَإِنَّ إِخْوَتَهُ كَانُوا يُبَايِعُونَهُ وَ يُخَاطِبُونَهُ وَ لَا يَعْرِفُونَه‏: اس صاحب امر میں انبیاء  کی سنن پائی جاتی ہیں ۔۔۔حضرت یوسف کی سنت ان میں مخفی ہونا ہے اللہ تعالی انکے اور لوگوں کے درمیان ایک حجاب قرار دے گا کہ لوگ ان کو دیکھیں گے لیکن پہچانیں گے نہیں ـ اسی طرح امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشرف کا حالت غیبت میں زندگی گزارنا ایک ایسا واقعہ نہیں ہے جو پہلی بار صرف امام مہدی کے لیے واقع ہوا ہو بلکہ قرأن کریم اور روایات میں ایسے موارد بیاں ہوے ہیں جہاں معجزانہ انداز میں لوگ ایک قابل دید مخلوق کو مشاہدة نہ کر سکتے چنانچہ سورہ یس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :*وَ جَعَلْنَا مِن بَینْ‏ِ أَيْدِیهِمْ سَدًّا وَ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُون‏ (۱) * اورہم نے ان کے آگے دیوار کھڑی کی ہے اور ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کی ہے اور ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے لہٰذا وہ کچھ دیکھ نہیں پاتے : اسی أیت کے ذیل میں عبداللہ بن مسعود  نقل کرتا ہے قریش والے أنحضرت  (ص) کے گھر کے دروازے پر جمع ہوےآپ گھر سے باہر تشریف لے أئیں اور انکے سروں پر خاک پھر دیے لیکن وہ لوگ أپکو نہیں دیکھ پاے(۲) بلکہ بہت سی روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ ایک سنت الہی ہے جو متعدد انبیاء  کی زندگی میں واقع ہوئی ہے اور بہت سے انبیا کی زندگی کا حصہ مخفی اور غیبت میں بسر ہوا ہے  جیسے حضرت ادریس ؛ نوح ؛ صالح ؛ ابراہیم ؛ یوسف ؛ موسی؛ شعیب ؛ الیاس ؛ سلیمان؛ دنیال ؛ عیسی ؛ وغیرہ(۳) اور یہ چیز خداوند عالم کی مصلحت اور حکمت کی بنا پر ہوتی ہے ـ

--------------

(۱):- یس۷۹

(۲):- مجمع البیان ج۸ ص ۱۶ ۴

(۳):- رجوع کریں علی اصغر رضوانی : امامت اورغیبت  مترجم فروز حیدر ص /۱۸۶  طبع ۲۰۰۸ بحار ال انوار (ط - ب یروت) ؛ ج ۵۲ ؛

۲۵

اسی وجہ سے امام مہدی  کی غیبت کی روایتوں میں غیبت کو انبیاء کی سنت کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور امام مہدی کی زندگی میں انبیاء کی سنت کا جاری ہونا غیبت کی دلیلوں میں شمار کیا گیا ہے ۔ چنانچہ امام صادق  فرماتے ہیں :قَالَ‏ إِنَّ لِلْقَائِمِ ع مِنَّا غَيْبَةً يَطُولُ أَمَدُهَا فَقُلْتُ لَهُ وَ لِمَ ذَاكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَبَی إِلَّا أَنْ يُجْرِيَ فِیهِ سُنَنَ الْأَنْبِيَاءِ ع فِی غَيْبَاتِهِمْ (۱) بے شک ہمارے قائم امام مہدی غیبت اختیار کریں گے جس کی مدت طولانی ہوگی راوی کہتا ہے اے فرزندے رسول (ص) اس غیبت کی وجہ کیا ہے ؟ امام نے فرمایا خداوند  عالم کا ارادہ یہ ہے کہ انبیاء کی غیبت کی سنت أپ میں ظاہر ہو ۔

سوال نمبر ۹ : فلسفہ غیبت کیا ہے ؟

جواب : اس سوال کے جواب دینے سے پہلے اس حقیقت کی طرف متوجہ رہنا انتہائی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح امیر المؤمنین  فرماتے ہیں:مَا أَعْظَمَ‏ اللَّهُمَّ مَا نَرَی مِنْ خَلْقِكَ وَ مَا أَصْغَرَ عَظِیمَهُ فِی جَنْبِ مَا غَابَ عَنَّا مِنْ قُدْرَتِكَ (۲) پاک وپاکیزہ ہے تو ؛تیری وہ مخلوق کتنی عظیم ہے جو ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور اس کی عظمت کتنی چھوٹی ہے تیری اس قدرت کے مقابلے میں جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے ۔ لہذا کسی کی مجال کی بات نہیں کہ وہ اس عظیم کائنات کی کسی بھی مخلوق کی خلقت کا رازمعلوم نہ ہونے پر اسکے وجو د کے بارے میں اعتراض شروع کردے یا اس کے وجود سے انکار کردے مثال کے طور پر آج کے ترقی یافتہ دور میں کڑوڑں کی تعداد میں کہکشانیں کشف ہوئے ہیں تو کیا حق بنتا ہے کہ مزید اور کہکشانوں کا اس فضامیں موجود ہونے سے انکار کرے ؟

ہرگز نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے سے قریب تریں چیزوں کی حقیقت کو جانے سے قاصر ہے کیونکہ اسکی روح سے زیادہ کوئی اور چیزاسکے نفسانی غرائض اسکی فطری امور جیسے عشق ؛ذوق ؛ لذت ؛ محبت ۔۔۔۔ان تمام فطری امور کی حقیقت ہمارے سامنے مجھول ہیں لیکن ہم کبھی بھی ان چیزوں کو انکار نہیں کرسکتے ہیں ۔

-------------

(۱):- بحار /ج۵۲ /ص ۹۰

(۲):- عیون الح کم و المواعظ (لل یث ی) / ۴۸۳ / الفصل الثالث ص : ۴۷۵

۲۶

اس تمہیدی گفتگو کے بعد یہ عرض کرتا ہوں کہ ایک طرف غیبت امام عصر  اسلامی نقطہ نگاہ سے مسلمات اسلام میں سے شمار ہوتا ہے اور اہل بیت اطہار  نےوقتاَ فوقتاَ ہر دور میں اس خدائی حتمی فیصلے کی خبر دے چکے ہیں ،تو دوسری طرف جب ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کائنات کے چھوٹے سے چھوٹا ذرات سے لے کر بڑے سے بڑا کام حکمت اور مصلحت کے بغیر انجام نہیں پاتا چاہیے ہم ان مصلحتوں کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں  نیز کائنات کا ہر چہوٹے سے چھوٹا واقعہ خداوند عالم کی تدبیر اور اسی کی ارادہ سے انجام پاتا ہے جن میں سے اہم تریں واقعہ امام مھدی کی غیبت کا واقعہ ہے لھذا آپکی غیبت کا مئلہ بھی حکمت اور مصلحت کے مطابق واقع ہوئی ہے اگر چہ ہم اسکے فلسفہ اور راز سے أشنا نہ بھی ہو اور اگر ہم اس حادثے کی حکمت اور راز سے أشنا نہ ہونے پایے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس حتمی واقعے کے جو کہ قطعا َ واقع ہوا ہے متعلق شک وتردید کا شکار ہو جائیں یا اسے سرے سے ہی انکار کرنے لگے جبکہ اھل  بیت ا طہار  نےمتعدد روایات میں أپکی غیبت کے متعلق شک کرنے والوں کی تردید کرتے ہوے سخت مذمت کر چکے ہیں ۔چنانچہ امام صادق فرماتے ہیں : شک صاحت العصر کے لیے ایک ایسی غیبت ہے جس میں ہر اھل باطل شک وتردید کا شکار ہو جائے گا غیبت کی وجہ ایک ایسا امر ہے جس کو تمھارے سامنے بیاں کرنے کی اجازت نہیں ،غیبت اسرار الھی میں سے ایک راز ہے لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ خداوند عالم صاحب حکمت ہے اور ہ یہ قبول کرتے ہیں کہ اسکے کاموں میں حکمت ہوتی ہے اگر چہ ہمیں ان کاموں کی وجوہات کا علم نہ بھی ہو(۱) تاہم اھل بیت اطہار ہماری اطمینان قلبی کے خاطر امام مھدی  کی غیبت کے کچھ اسرار  اور حکمت بیاں  کیے ہیں  ان  میں سے بعض ہم یہاں مختصرا ً  ذکر کرتے ہیں :

--------------

(۱):- کمال الدین /ج۱/ص۲۰۴/باب۴۴ مذید معلومات کے لیے مراحعہ کریں منتخب الاثر /صافی گلپائی گانی باب/۲۸ /فصل ۲

۲۷

الف :عوام کی تادیب وتنبیہ

          جب ایک امت اپنے نبی اور امام  کہ جسکا وجود اقدس  بقاء اور ہدایت کے لیے ضروری ہے اسکی قدر نہ کرے اور اسکے حقوق اور فرائض انجام نہ دے بلکہ اسکے احکام کی نافرمانی کرے اور انھیں ختم کرنے کی درپے ہو  جاے اور ھدایت تکوینی اور فطری کا راستہ اپنے اپر بند کردے تو پھر سنت  الھی یہ ہے کہ پروردگار عالم انکے اوپر ہدایت تشریعی کا راستہ بھ بند کردیتا ہے اور انکے درمیان سے ھادی برحق  ولی عصر کو اٹھا لیتا ہے تاکہ امت اس حقیقی رہبر کی قدرو قیمت کو درک کر سکھیں اور اسکی برکت کوسمجھ سکہیں ۔جسکی مثال ہم قرأن مجید اور روایات معصومیں  میں امم سابقہ کے متعلق دیکھ سکتے ہیں : چنانچہ اما محمد باقر اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں :جب پروردگار عالم کسی قوم میں ہمارے وجود اور ہماری ہم نشینی سے خوش نہ ہو تو پھر ہیں ان سے اٹھا لیتا ہے إِنَّ اللَّهَ إِذَا كَرِهَ لَنَا جِوَارَ قَوْمٍ نَزَعَنَا مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِهِم (۱)

ب: لوگوں کا امتحان

اس کائنات پر محیط سنن الھی میں سے ایک ناقابل تغیر سنت پروردگار عالم کا لوگوں سے امتحان لینا ہے یہ ایک ایسا راستہ ہے جس حتمی طور پر سب کو گزرنا ہے ۔خداوندمتعال اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے أزماتا ہے تاکہ راہ حق میں ان کی پابت قدم رہنا معلوم ہو جاے اور انکی شخصیت ؛صبر ؛ایمان استقامت اور فرمان الھی کے سامنے درجہ تسلیم کو پہچان سکھے ۔اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مھدی  کی غیبت سب سے اہم امتحان الھی ہے جیسا کہ جناب جابر انصاری پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں أپ (ص) نے فرمایا  :

--------------

(۱):- ابن بابویہ، ، علل الشرائع ؛ ج ۱ ؛ ص۲۴۴ - قم ، چاپ: اول، ۱۳۸۵ش / ۱۹۶۶م

۲۸

 ذلک الذی یغیب عن شیعته واولیاء ه  وہ اپنے پیروکاورں اور چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہو جاے گا اور اس شخص کے علاوہ اسکی امامت کا کوئی قائل نہ رہ جاے جسکے دل کا خدا وند عالم نے ایمان کے لیے امتحان لے رکھا ہے ۔کسی اور رایت میں ابن عباس أنحضرت(ص) سے یوں نقل کرتا ہے أپنے فرمایا:....... وَ الَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ بَشِیراً إِنَّ الثَّابِتِینَ عَلَی الْقَوْلِ بِهِ فِی زَمَانِ غَيْبَتِهِ لَأَعَزُّ مِنَ الْكِبْرِیتِ الْأَحْمَرِ فَقَامَ إِلَيْهِ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لِلْقَائِمِ مِنْ وُلْدِكَ غَيْبَةٌ قَالَ إِی وَ رَبِّی‏ وَ لِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَ يَمْحَقَ الْكافِرِینَ‏ يَا جَابِرُ إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ وَ سِرٌّ مِنْ سِرِّ اللَّهِ مَطْوِيٌّ عَنْ عِبَادِ اللَّهِ فَإِيَّاكَ وَ الشَّكَ‏ فِیهِ فَإِنَّ الشَّكَ‏ فِی أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ كُفْرٌ. (۱) ان کی غیبت کے زمانے میں ان کی امامت کے عقیدے پر ثابت قدم رہنے والے سرخ سونے سے بھی زیادہ نایاب ہونگے یہ سن کر جناب جابر کھڑے ہو گے اور عرض کیا یا رسول ﷲ (ص) أپ کی اولاد میں سے قائم کے لیے غیبت ہے؟ فرمایا (ص) ہاں میرے پروردگار کی قسم ایسی غیبت جو ایماں کو خالص کردے اور کفار کو محو کر دے اے جابر ! یہ خدا کے امور میں سے ایک امر اور خدا کے رازوں میں سے ایک ایسا راز ہے جو بندوں کے اوپر پوشیدہ ہے لہذا اسمیں شک کرنے سے آرے رہنا کیونکہ خداوند عالم کے کاموں میں شک کرنا یقیناً کفرہے ـاسی طرح امام موسی کاظم  سے بھی روایت ہے أپنے فرمایا : جب میرا پانچواں فرزند غائب ہو گا تو تم لوگ اپنے دین کی حفاظت کرنا تاکہ کو ئی تمہیں دین سے خارج نہ ک پاے کیونکہ اس امر کے صاحب یعنی امام مھدی کے لیے غیبت ہو گی جس میں اسکے بعض ماننے والے اپنے غقیدے سے بھر جائیں گے اور یہ غیبت ایک امتحان ہے جس کے ذریعے خدا اپنے بندوں کا امتحان لے گا (۲) اس حقیقت کوبیان کرتے ہوے متعدد روایات معصومیں  سے وارد ہوے ہیں واضح رہے امتحان کی شدت کے بارے میں بہت ساری حدیثیں  اھل بیت اطہار سے بہت سی احدیث نقل ہوئے ہیں(۳)

--------------

(۱):-. کمال الد ین و تمام النعمة / ج ۱ / ۲۸۸ / ۲۵ باب ص : ۲۸۶

(۲):- غبتل طوسی /فصل۵ /ح ۲۸۴ : ص ۲۳۴

(۳):- ملاحظہ کریں  صافی کی کتاب /ںوید امن وامان  /ص۱۴۰

۲۹

ج : امام   کی جان کی حفاظت :

      قرآن مجید میں مختلف مقامات پر انبیاء کرام کے انکی جان کی حفاظت اور قتل کے خوف سے انکو انکی قوم سے مخفی رکہنے کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے تاکہ ایک مناسب موقع پر اپنی رسالت اور ذمہ داری کو ادا کر سکیں جیسا کہ حضرت موسی  کے بارے میں انکی والدہ گرامی کووحی ہوئی  :وَ أَوْحَيْنا إِلی‏ أُمِّ مُوسی‏ أَنْ أَرْضِعیهِ فَإِذا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقیهِ فِی الْيَمِّ وَ لا تَخافی‏ وَ لا تَحْزَنی‏ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ جاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلینَ* (۱) اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں اور جب ان کے بارے میں خوف محسوس کریں تو انہیں دریا میں ڈال دیں اور بالکل خوف اور رنج نہ کریں، ہم انہیں آپ کی طرف پلٹانے والے اور انہیں پیغمبروں میں سے بنانے والے ہیں اسیطرح پیغمبر اکرم  (ص)مکہ معظمہ سے نکل کر ایک غار میں مخفی ہو گئے البتہ یہ سب خداوند عالم کے حکم اور ارادہ سے ہوتا تھا ۔حضرت مھدی  کی غیبت کے بارے میں بھی متعدد روایات یہی وجہ بتاتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت ہے روای کہتا ہے امام نے فرمایا : امام منتظر  قیام کرنے سے پہلے ایک مدت غیبت میں رہیں گئے میں نے عرض کیا کس لیے ؟ فرمایا اسلیے کہ انہیں جان کا خطرہ ہے(۲) اس حقیقت کو ہم تاریخ  کی أ ئینے میں بھی دیکھ سکتے ہیں چونکہ بنی عباس کے حکمرا ن بخوبی جانتے تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے خاندان میں امیر المؤمنین  اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکی نسل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جسکے ہاتھوں ظالموں اور جابروں کی حکومت کا خاتمہ ہو جاے گا ۔ اور وہ بچہ امام حسن العسکری  کا فرزند ہو گا لھذا انھوں نے أپ کو شھید کرنے کی قصد سے امام حسن العسکری  کو عرصہ دراز تک فوجی چھاو نی میں نظر بند رکھا تھا اور باقاعدہ طور سے پھرا لگا کر رکھا تھا لیکن پروردگار عالم نے جس طرح جنا ب موسی کو فرعون کے ہاتھوں سے بچا لیا اسی طرح حجت خدا    امام حجت  کو بنی عباس کے ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں سے بچا لیا ۔

--------------

(۱):- القصص .۷

(۲):- کمال الدین .ج ۲.  ح ۷

۳۰

د :  فاسق اور فاجر حکمرانوں سے آزادی

  روایا ت کے مطابق آپکی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہو گی جو مظہر تام اسماء الھی(الغالب؛العادل ؛الحاکم ) ہونگے نہ ہی أپکے گردن پر کسی ظالم اور ستمگر حاکم کی بیعت ہے اور نہ ہی جب أپ ظھور کریں گے تو سواے ذات پروردگار کے اور کسی کے سامنے جکیں گے ۔أپ وہ عظیم مصلح ہونگے جو عالمی نظام عدل کی قیام  کے لیے زمینہ  فراہم نہیں ہوتی اس وقت تک أپ غیبت میں رہیں گے تاکہ آپکے گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو اور خداکے علاوہ کسی کی حکومت کو قبول نہ کیا ہو ۔ چنانچہ امام صادق  فرماتے ہیں : صاحب ہذا الامر تغیب ولادتہ عن ھذا ۔۔۔۔۔۔ حضرت صاحب الامر کی ولادت کو لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھیں گے تاکہ جب ظھور کریں تو انکی گردن میں کسی بیعت نہ ہو اور پروردگار عالم انکی امر کو ایک رات میں اصلاح کرے گا(۱)  اسی طرح خود امام زمانہ  اپنے نائب دوئم محمد بن عثمان کے سوالات کے جواب میں جس میں انھوں نے غیبت کی حکمت کے بارے میں سوال کیا تھا تو أپ نے فرمایا :إنّه لم یكن أحد من آبائی إلّا و قد وقعت فی عنقه بیعة لطاغیة زمانه، و إنّی أخرج حین أخرج و لا بیعة لأحد من الطواغیت فی عنقی ،(۲) میر ے تمام أباو اجداد  مجبور تھے کہ اپنے زمانے کی طاغوتیوں کی بیعت میں رہے  لیکن میں ایک اسی حالت میں قیام کروں گا جبکہ میرے گردن پر کسی ظالم اور ستمگر کی بیعت نہ ہو گی۔

روایات معصومیں مین غیبت کے دیگر اساب اور حکمت بیاں ہوئی ہیں لیکن ہم یہاں اختصار کی بنا پر انھی چند امور کے ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے لیکن دوبارہ تاکیداً عرض کروں گا کہ غیبت امام زمانہ  ایک خدائی راز ہے جس کی اصلی فلسفہ اور راز امام زمانہ  کے ظھور کے بعد ہی واضح ہوگا ۔  

--------------

(۱):- بحار /ج/ص۹۶

(۲):- الزام الناصب / ج ۱ / ۳۹۱ / الص : ۳۸۷

۳۱

سوال نمبر۱۰: اگر حضرت مھدی امام عصر اور حجت خدا ہیں تو امام اور ہادی کو چاہیے لوگوں کے درمیاں رہیں تاکہ لوگ انکی امامت کی سایے میں ہدایت حاصل کرسکے لیکن جو امام مخفیانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو ایسیے امام اور ہادی کے ہونے سے نہ ہونا بہتر نہیں ہے ؟

جوا ب : یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی معاشرہ سنکڑوں سال سے حجت خدا کی ظھور کے فیض اور انکی ہدایت سے محروم ہے اور بشر اس آسمانی رہبر کے حضور میں مشرف ہونے سے قاصر ہے تو یہاں پر بسا اوقات مجھ جیسے ضعیف الایمان لوگوں کے اذھان میں اسیے سوالات پیدا ہوتے ہیں  بلکہ ایسے سوالات اور شبہات دین ومذہب کے دشمن عناصر سوچھے سمجھے سازش کے تحت لوگوں کے ایمان کو سست کرنے کے خاطر ایجاد کرتا ہے ۔لیکن حقیقت میں ایسے سوالات اور شبہات ان کے اذھان میں حجت خدا کے مقام کی صحیح پہچان اور شناخت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ،جبکہ امام معصوم کے مقدس وجود کے اثرات اور فوائد انکے ظہوراور ہدایت ظاہری تک محدود نہیں  بلکہ ھدیت ظاہری انکے بابرکت وجود کے اثرات میں سے ایک چھوتا سا اثر ہے انکے وجود مقد س کے ایک اور فائدہ مخلوقات کو تباہی ہے بچانا ہے ، خدا کی اپنے بندوں کی اوپر حجت تمام ہونا ہے ،تمام موجودات پر خدا کے فیض کا واسطہ بھی ہے ۔ ہم یہاں انکے وجود اقدس کے چند  فوائد بطور اختصار فھرست وار بیان کرتے ہیں ۔

۱ : امام واسطہ فیض ہوتا ہے

دینی تعلیمات کی روشنی میں عقلی اور نقلی دلائل سے استفادہ ہوتا ہے کہ حجت خدا کائنات کے تمام مخلوقات اور خدا کے درمیان واسطہ فیض ہوتا ہے( جسکے بارے مین تفصیلی گفتگو بعد مین ہوگئی) نظام کائنات میں محور اور مرکز کی حیثیت رکھتا ہے لھذا ھر دور میں حجت خدا کا رؤے زمیں پر تا صبح قیامت باقی رہنا ضروری ہے ورنہ انسان ،جنّات ،ملائکہ ، حیوانات اور جمادات کا نام نشان تک مٹ کر رہ جاے گا ۔ اور یہ مطلب مختلف احادیث جنہین شیعہ سنی دونوں علماء نے  اہل بیت اطہار سے نقل کیا ہے

۳۲

 انسےاستفادہ ہوتا ہےجیسا کہ پیغمبر اکرم فرمات ہین:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ النُّجُومُ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمَاءِ وَ أَهْلُ بَيْتِی أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ فَإِذَا ذَهَبَ أَهْلُ بَيْتِی ذَهَبَ أَهْلُ الْأَرْضِ. (۱) ستارے اہل آسمان کے لیے باعث نجات ہین چنانچہ اگر ستارے چلے جائے تو آسمان والے بہی ختم ہو جائین گے اسی طرح میرےاہل بیت زمین والون کے لیے ذریعہ نجات ہین چنانچہ اگر میرے اہل بیت زمین چہور دے تو اہل زمین بہی ختم ہو جائین گئے

نیز  متقی ھندی اپنی سند مالک بن انس سے نقل کرتا ہے کہ رسول خدا  (ص) نے فرمایا :لن یزال هذا الدین قائماً الی اثنی عشر من قریش ،فاذا هلکو ماجت  الرض (۲) یہ دین قائم دائم رہے گا  یہاں تک قریش میں بارہ افراد لوگوں کے درمیان امامت اور خلافت کریں گے اور جب یہ سب ختم ہو جائیں گے تو زمین بھی اپنے اھل کے ساتھ ختم ہو جاے گی ـ اسی طرح امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (۳) ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین  """""

ان روایات سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ زمیں اور اھل زمیں کے وجود کی بقا حجت خدا کے وجود کے ساتھ مربوط ہے  اور انھی کی وجہ سے باقی ہے ۔ اسی طرح زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے : اے خداے قادر کی حجتیں ، خدانے آپسے آغاز وانجام کیا ہے وہ آپ کے ذریعے بارش برساتا ہے آپ کے ذریعے آسماں کو روکے ہوے ہے تاکہ زمین پر نہ آگرے مگر اسکے حکم سے ، وہ آپ کے ذریعے غم دور کرتا ہے اور سختی ہٹاتا ہے ۔

--------------

(۱):- ابن بابویہ، محمد بن عل ی، کمال الد ین و تمام النعمة، ۲جلد، اسلامیہ- ت ہران، چاپ: دوم، ۱۳۹۵ق.

(۲):- محمد تقی ہندی کنز العمال  /اس حدیث کو بخاری نے بھی نقل کال ہے

(۳):-  کمال الدین و تمام النعمة / ج ۱ / ۲۰۷ / ۲۱ ص : ۲۰۱

۳۳

 معصومیں علیھم السلام کے ان جمالت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام عصر  زمان غیبت میں بھی تمام  مخلوقات کے لیے سر چسمہ حیات ہیں اور تمام برکات الھی انہی کے واسطے مخلوقات تک پہنچتی ہے اسی لیے خود پیغمبر اکرم نے انکے وجود مقدس کو غیبت کی حالت میں اس سورج سے تشبیہ دی ہے جو بادل کے پیچھے چھوپا ہوا ہے لیکن اسکے وجود سے مخلوقا ت زمیں مسلسل استفادہ لے رہا ہوتا ہے ۔ جیسا کہ جابر الانصاری پیغمبر گرامی اسلام  (ص)سے نقل کرتے ہیں :فقلت: یا رسول اللّه هل لشیعته انتفاع‏ به فی غیبته؟ فقال صلّی اللّه علیه و آله: إی و الذی بعثنی بالحقّ إنّهم یستضیئون بنوره و ینتفعون بولایته فی غیبته كانتفاع‏ الناس بالشمس و إن علاها السحاب (۱) اس ذات کی قسم جس نے مجہے نبوت پر مبعوث کیا ہے وہ لوگ انکے نورانی وجود سے منور اور انکی ولایت سے زمان غیبت مین ایسے ہی استفادہ کریں گے جس طرح لوگ بادل کے پیچہے  چہوپے ہوےسورج سے استفادہ کرتے ہین ـ 

۲ : زمین کبھی حجت خداسے خالی نہیں ہوتی

متعدد روایات کے مطابق جسے شیعہ سنی دونوں طرفیں کے علماء نے نقل کیا ہے زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی خواہ وہ لوگوں کے درمیاں ظاہر ہو یا خوف کی وجہ سے پوشیدہ ہو :امیر المؤمنین فرماتے ہیں: بَلَی لَا تَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّهِ بِحُجَّةٍ إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وَ إِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللَّهِ وَ بَيِّنَاتُهُ   خدا کی قسم زمین کبھ حجت خدا جو خدا کے لیے قیام کرے سے خالی نہیں ہو سکتی چاہیے وہ ظاہراً اور أشکار ہو یا خائف ومخفی تاکہ خدا کی حجتیں اور براہیں تمام نہ ہو نے پائیں(۲) اسی طرح متعدد روایات مین ائمہ اطہار فرماتے ہیں:

--------------

(۱):- الزام الناصب / ج ۱ / ۳۸۵ / ص : ۳۸۰" قندوز ی حنفی ینابیع المودة /ج۳/ص ۱۷

(۲):- نہج البلاغہ خ۱۴۷

۳۴

سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا ع فَقُلْتُ أَ تَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ حُجَّةٍ فَقَالَ لَوْ خَلَتْ مِنْ حُجَّةٍ طَرْفَةَ عَيْنٍ لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا (۱) قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع يَمْضِی الْإِمَامُ وَ لَيْسَ لَهُ عَقِبٌ قَالَ لَا يَكُونُ ذَلِكَ قُلْتُ فَيَكُونُ مَا ذَا قَالَ لَا يَكُونُ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَی خَلْقِهِ فَيُعَاجِلَهُم‏ (۲) أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ أَنْ يَكُونَ فِیهَا حُجَّةٌ عَالِمٌ إِنَّ الْأَرْضَ لَا يُصْلِحُهَا إِلَّا ذَلِكَ وَ لَا يُصْلِحُ النَّاسَ إِلَّا ذَلِكَ. (۳) اگر زمین ایک لحظے کے لیے  امام زمان  سے (جو کہ حجت خدا ہے  )خالی رہ جاے تو برباد ہو جاے گی ۔

۳ : امام زمانہ  کی غیبت ظاہری کی ذمہ دار ہم خود ہیں

اگر آج امت محمدی اس الھی رہبر کے حضور کے فیض سے محروم ہیں تو اسکے ذمہ دار امام  نہیں بلکہ خود عوام ہیں جو أپ کی رہبری قبول کرنے پر أمادہ نہیں ہیں اور مخالفت پر کمر بستہ ہیں جیسا کہ أ پ کے أباء  واجداد طاہرین  کی اطاعت کے بجائے مخالفت کی گئی اگر لوگ اطاعت پر أمادہ ہوتے تو امام ظاہر ہی رہتے چنانچہ اس بارے میں خود امام زمانہ فرماتے ہیں  وَ لَوْ أَنَّ أَشْيَاعَنَا وَفَّقَهُمْ اللَّهُ لِطَاعَتِهِ‏ عَلَی اجْتِمَاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِی الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ عَلَيْهِمْ لَمَا تَأَخَّرَ عَنْهُمُ الْيُمْنُ بِلِقَائِنَا وَ لَتَعَجَّلَتْ لَهُمُ السَّعَادَةُ بِمُشَاهَدَتِنَا عَلَی حَقِّ الْمَعْرِفَةِ وَ صِدْقِهَا مِنْهُمْ بِنَا فَمَا يَحْبِسُنَا عَنْهُمْ إِلَّا مَا يَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نَكْرَهُهُ وَ لَا نُؤْثِرُهُ مِنْهُمْ‏ (۴)

--------------

(۱):- ابن بابویہ، محمد بن عل ی، کمال الد ین و تمام النعمة، ۲جلد، اسلامیہ- ت ہران، چاپ: دوم، ۱۳۹۵ق.

(۲):- ابن بابویہ، محمد بن عل ی، کمال ا لدین و تمام النعمة، ۲جلد، اسلامیہ- ت ہران، چاپ: دوم، ۱۳۹۵ق.

(۳):- ابن بابویہ، محمد بن عل ی، کمال الد ین و تمام النعمة، ۲جلد، اسلامیہ- ت ہران، چاپ: دوم، ۱۳۹۵ق.

(۴):- الاحتجاج عل ی اہل اللجاج (للطبرس ی) / ج ۲ / ۴۹۹ / ص : ۴۷۹

۳۵

لھذا اگر لوگ اس عظیم نعمت سے بہرہ مند نہ ہوں اور أفتاب بدایت کی شعاعوں کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں تو اسے امام  کے وجود پر اعتراض نہیں ہو سکتا جیسا کہ اگر لوگ دوسری نعمتوں سے استفادہ نہ کریں اور ان نعمتوں کے فوائد ہی ظاہر نہ ہونے دیں یا اسے غلط استعمال کریں تو اس رویہ کے باعث ان نعمتوں کی خلقت پر اعتراض نہیں ہو سکتا کہ انھیں کیوں خلق کیا گیا؟

کسی کو یہ حق نہیں ملتا کہ یہ کہے کہ جب لوگ ان نعمتوں سے درست استفادہ نہیں کررہے تو ان نعمتوں کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے بلکہ لوگوں کی توبیخ کرنا چاہے کہ کیوں ان نعمتوں سے صحیح استفادہ نہیں کررہے اور ان مین یہ صلاحیت پیدا کرنی چاہے تاکہ ان نعمتوں سے بر پور استفادہ کرسکے ۔ 

سوال نمبر۱۱:  بعض روایات میں امام زمانہ عجل ﷲ فرجہ کو عصر غیبت میں خورشید پنہان سے تشبیہ دی ہے اس تشبیہ کے کیا راز ہو سکتی ہے ؟

جواب : یہ حدیث شریف کوخود پیغمبر اکرم (ص) اور امام زمانہ   دونوں سے نقل  ہوا ہے  آپ  فرمات.ہین: ، و إنّی أخرج حین أخرج و لا بیعة لأحد من الطواغیت فی عنقی، و أمّا وجه الانتفاع‏ بی فی غیبتی فكالانتفاع بالشمس إذا غيّبها عن الأبصار السحاب،   یقینا ً اس  حدیث  شریف میں بہت سے نکات پاے جاتے ہیں ۔لیکن ہم یہاں ان نکات میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

ا :  جس طرح سورج نظام شمسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرے تمام سیارے اسی کے گرد حرکت کرتے ہیں ، سورج اگر چہ دیکھنے میں بادلوں کیے پیچھے چھپا ہو تا ہے لیکن کائنات کا ہر  جنبندہ اسکے وجود سے مستفید ہوتا رہتا ہے اگر فرضا ً سورج ایک لحظے کے لیے صفحہ ہستی سے ناپدید ہو جاے تو تمام جاندار  مخلوق منجمد ہو کر بے جان ہو جاے۔ اسی طرح امام عصر  کا وجود گرامی بھی کائنات کے نظام میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ چنانچہ دعا عدلیہ میں ہم پڑتے ہیں

۳۶

:  ببقائه بقیت الدینا و بیمنه رزق الوری و بوجوده ثببت الارض و السماء  (۱) اسی ہستی کے وجود سے دنیا باقی ہے اور اسی کی برکت سے کائنات کے ہر موجود کو روزی ملتی ہے اور اسی کے وجود کی خاطر زمین اور أسمان مستحکم باقی ہیں ۔

۲ سورج ایک لمحہ کے لیے بھی نور افشانی سے دریغ نہیں کرتا اور ہر چیز سورج سے جتنا رابطہ رکھتی ہے سورج کے نور سے اسی قدر فیضیاب ہوتی ہے ۔چنانچہ حضرت ولی عصر کا وجود بھی تمام مادّی اور معنوی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے واسطہ ہے ۔ کمالات کے اس سرچسمہ سے جس شخص کا جتنا رابطہ استوار ہے وہ اتنا ہی اس سے فیضیاب ہوتا ہے ۔چنانچہ آپ شیخ مفید کے ایک خط میں اس طرح خطاب فرماتے ہیں :إنّا غیر مهملین‏ لمراعاتكم، و لا ناسین لذكركم، و لو لا ذلك لنزل بكم اللأواء و اصطلمكم‏ الأعداء (۲) ۔ہم نے ہر گز تم کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا ہے اور ہرگز تمھیں نہیں بھولے۔اگر ہماری توجہ نہ ہوتی تو تم پر بہت سی سختیاں اور بلائیں نازل ہوتیں اور دشمن تم کو نیست ونابود کر دیتے ۔

 سوال نمبر ۱۲ : یہ کسے ممکن ہے کہ ایک انسان  ہزار سال سے زیادہ زندہ رہے ؟

جواب : حضرت حجت  کی زندگی سے مربوط بحثوں میں سے ایک بحث آپ  کی طولانی عمر کے بارے میں ہے بعض لوگوں کے ذھوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے ایک انساں ہزار سال سے ذیادہ زندگی کرے جبکہ عام طور انساں کی عمر ۸۰ سے ۱۵۰ سال کی ہوتی ہے؟ اور اس شبہ کی وجہ بھی انسان کی متوسط عمر ۷۰ سے۱۰۰ سا ل کے درمیاں ہونا ہے ۔ ورنہ عقلی اور سائنسی اعتبار سے انسان کس عمر کے طولا نی ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ سائنسی  اعتبار سے طول عمر کے لیے کی جانے والی انسانی کوشیشں نتیجہ خیز ہین اور اس میں کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔

---------------

(۱):- مفاتیح الجنان ،دعای عدلیہ

(۲):- مفید، محمد بن محمد ،، ۱جلد، ص۸- قم، چاپ: اول، ۱۴۱۳ ق

۳۷

اوردنیا  کے سائنسداں حضرات أج تک انسان کی طبیعی عمر کے لئے کوئی حتمی سرحد معین نہیں کرسکے ہیں(۱) خاص طور پر ایک مسلمان فرد جو قرأنی حقائق پر عقیدہ رکھتا ہے اسے کے لیے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ قرأن مجید نے طولانی عمر کے مالک  افراد کے ایسیے نمونے بیان کیے ہیں جو سیکڑون سال سے اب بھی زندہ ہے ۔ چنانچہ حضرت عیسی  کے بارے میں ارشاد باری ہوتا ہےوَ مَا قَتَلُوهُ يَقِینَا*بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ  وَ كاَنَ اللَّهُ عَزِیزًا حَكِیمًا * (۲) اور انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔لہذا تمام مسلمانون کاعقیدہ ہے کہ نہ صرف حضرت عیسی  بلکہ جناب خصر ؛ جناب الیاس؛ جناب ادریس   سب اب بھی زندہ ہیں اور حضرت عیسی  أخری زمانہ میں امام عصر  کے ظھور کے بعد زمین پر تشریف لائیں گئے اور حضرت ولی عصر کی اقتداء میں ںماز ادا کریں گے انکی نصرت کریں گے ۔ لہذا ابو خاتم سجستانی اپنی کتاب ( المعمرون ) میں مستند تاریخی حوالے سے سینکڑوں افراد کو ان کے عمر کے ساتھ بیاں کیے ہیں ان میں سے حضرت أدم  کی ۹۱۲ سال ؛ حضرت نوح کی ۲۵۰۰ سال ؛ بیاں کیے ہیں ۔لیکن حضرت حجت  کی طولانی عمرکے متعلق ہم سینکڑوں احادیث رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا عقیدہ ہے جسے ہم فلسفہ غیبت کے موضوع میں بیان کر چکے ہیں کہ انکی غیبت  عمر میں طولانی قدرت خدا اور ارادہ خاص پروردگار سے انجام پایا ہے اور قدرت خدا لامحدود ہے اس میں کسی شک وشبہ کی گنجأش نہیں ہے ۔ پروردگار عالم جب ارادہ کرے تو کسی کو قیامت تک زندہ رکھ سکتا ہے جیسا کہ شیطان ھزاروں سال سے اب بھی زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا خود پروردگار عالم قرآن مجید میں حضرت یونس  کے متعلق بیان فرماتا ہے : فَلَوْ لَا أَنَّهُ كاَنَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ * لَلَبِثَ فىِ بَطْنِهِ إِلىَ‏ يَوْمِ يُبْعَثُون * (۳) اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، ۱۴۴۔ تو قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہ جاتے

---------------

(۱):- اس بارے میں مزید معلومات کے لئے مراجعہ کریں نوید امن وامان ص۲۶۱

(۲):- نساء :۱۷۵

(۳):- صافات :۱۴۴ (اور خوشی کی بات یہ ہے أج  مڈگاسکرکے ساحلی علاقے میں۴۰۰ مل ین سال کی ایک مچھلی ملی ہے ۔  ( روزنامہ کیہان ش۴۴۱۳؛ ۲۲؛۱۳۴۳ہ ق  نقل از محور کا ئنات ص ۱۱۲)

۳۸

سوال نمبر ۱۳ : غیبت کبری  کی دور میں جب حجت خدا غیب کی پردے میں ہیں تو ہماری کیا کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

جواب : اس موضوع کےمتعلق  قرآنی آیات اور روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ عضر غیبت میں لوگون  کے گردن پر بہت ہی سنگین اور بڑی زمہ داری ہے اور جب تک ان زمہ داریوں اور وظائف پر عمل نہ کریں حقیقی اور سچے مسلمان شمار نہیں ہوتا

لہذا واقعی اور سچے مسلمان بنے کے لیۓ ان زمہ داریوں  کو اچھی طرح جاننا اور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہےـ

ہم یہاں چند اہم زمہ دّاریوں کو اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں تاکہ  تشنئہ معرفت حضرات کے لیےان وظائف اور زمداریوں کو جاننے میں آسانی ہو جائے

۱:  امام حجہ            کی معرفت اور شناخت :

ایک مؤمن مسلمان  جو امام کے وجود کو ضروری سمجتا ہےاسکی سب اہم ذمہ داری اور پہلا وظیفہ ہر دور کے امام کی معرفت اور انکی شناخت ہے ،چونکہ  فریقیں کے نزدیک یہ ثابت ہے کہ  پیغمبر اکرم(ص)  نے امام زمانہ       کی معرفت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے  لہذا ہر مسلم فرد کی شرعی اور عقلی ذمہ داری  بنتی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کرلے  چنانچہ اس بارے پیغمبر اکرم سے مشہور اور متواتر حدیث ہے جسے شیعہ سنی سب نے نقل کیا ہے آپؐ  نےفرمایا: من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة(۱) جو شخص اپنے  امام زمانہ کی معرفت کے بغیر مر جاۓ وہ جاہلیت کی موت مراہے ” یعنی جب تک امام زمانہ کو نہ پہچانے کہ وہ کون ہیں وہ شخص حقیقی مسلمان نہیں ہے اور وہ ایمان کی دائرے میں نہیں مرتا ۔

--------------

(۱):- تفتازانی: شرح مقاصد: ج ۲ ص ۲۷۵-

۳۹

 جبکہ اسلامی تعلیمات کے روشنی میں تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جس ہستی کے آمد کے ہم  سب منتظر ہیں وہ ایسی شخصیت ہیں جن کو پروردگار عالم نے اسی دن کے لیے ذخیرہ کیا ہے ، اس روۓ زمین پر امام زمانہ اور حجت خدا ہونگے اور انکی بابرکت وجود کے ذریعےسے   مقصد  بعثت انبیا ء  کامل اورخلقت کا  نتیجہ حاصل ہو گا لیکن خصوصیت کے ساتھ مکتب تشیّیع کے نزدیک وہ  ذات  ابھی بھی ہمارے درمیان زندگی کر رہی ہے  اگر چہ الہی مصلحت کی بنا پر انکی شخصیت  کی زیارت سے ہم سب محروم ہیں ، آپ پردہ غیب سے ہماری مسلسل سرپرستی کررہے ہیں  ،انھیں کے وسیلہ سے اﷲ تعالی لوگوں کو رزق فراہم کرتا ہے اور زمین وآسمان اپنی جگہ ثابت وبرقرار ہیں   آپ خدا اور مخلوق کے درمیا ن واسطہ فیض ہیں تمام  انبیاء  واوصیاءؑ کے علوم  اور اوصاف حمیدہ کے وارث ہیں اورآپ ہی کی ذات کو  اﷲ تعالی کی  ارادہ  و اجازت سے نفوس پر تصرف کرنے کا حق حاصل ہے اور حق وحقیقت کی طرف ہدایت کرتی ہے ۔

اگر آج مسلم سوسائٹی معیشتی ؛ اجتماعی اور ثقافتی لحاظ سے اضطراب ؛تنزّل اور خفقان کا شکار ہے ،تو یہ سب آنحضرتؑ سے غفلت ؛ بے توجہی اور انکی معرفت حاصل کرنے میں کوتاہی کے وجہ سے ہے ،اور فطری طور پر جب انسان کسی موضوع کو کما حقہ نہ پہچانتا ہو اسکے بارے میں وہ اپنے وظیفے کو دلی  لگاو سے انجام  نہیں دے سکتا لھذا ایک حقیقی منتظر  کی ظہور سے پہلے  سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری حضرت حجت اما م منتظر      کی معرفت  اور شناخت ہے اوریہی سعادت و نجات کا باعث اور  اسے دوری دنیوی نقصان اور خسران ابدی کا باعث ہے  لہذا صادق آل محمد  فرماتے ہیں :يَقُولُ اعْرِفِ الْعَلَامَةَ فَإِذَا عَرَفْتَهُ لَمْ يَضُرَّكَ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ عَرَفَ إِمَامَهُ كَانَ كَمَنْ كَانَ فِی فُسْطَاطِ الْمُنْتَظَرِ ع (۱) تم اپنے امام کو پہچانیں جسکے تم منتظر ہے کیونکہ جب تم انکو پہچانیں گے تو پھر وہ ظھور کرۓ یا نہ کرۓ تمھیں کچھ نقصان نہیں ہو گا یعنی تم نے اپنے ذمہ داری انجام دیا اور حقیقی منتظرین میں سے ہو گۓ

-------------

(۱):- مجلسی: مرآ ۃ العقول :ج۴ ص ۱۸۶ اور اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ -  

۴۰

 اب  انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر  جاۓ تو  یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ،  لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے  -

اسی طرح فضیل بن یسار  نے امام محمد باقر      سے  روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ  ” (1) آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ       کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو  امام زمانہ کے ظہور  میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا  و ہ  اپنے امام کے ہمراہ  جہاد میں انکے خیمے میں ہے  -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الإیمان  صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ” إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (2) “  فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (3) کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت  نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے  الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں  مگر ان افراد کے  جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی  گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ  علم  رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ   پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا 

--------------

(1):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ 

(2):- زخرف :۸۶ - 

(3):- صدوق :کمال الد ین اتمام النعمة :ج 1 ص 19

۴۱

(یعنی انکے ظہور اور قیام پر   اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران  انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے  ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی

ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں

 صحیح  روایات  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ   ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے  کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص)  اس بارے  آنحضرت میں فرماتا ہے

لما اسری بی الی السماء ........  (1)   جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر  پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا“لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ  أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے  مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ  کا نور کوکب درّی  کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا  میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔

--------------

(1):- سید ہاشم بحر ینی :مدینة  المعاجز ص ۱۵۳ -  

۴۲

اسی طرح امیر المومنین       فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی إلی السماء.......   فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (1)    “ جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ،   ندا آئی یا محمد(ص)  تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے  ہے میں نے  عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ  انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر  ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم  گرامی  لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ  کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ  کا نام تھا -

ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا..... (2)

--------------

(1):- صدوق :  کمال الد ین ج : 1 ص : 25 ۶   

(2):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22 

۴۳

 آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا  ذکر  اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا  ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض        اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا  اور انھیں کی برکت سے آسمان  ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا  اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات  کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں نیز امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (1)   ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة  الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی  عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے  انکے  وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا  زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم  وجور سے بھر چکی ہو گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔

--------------

(1):-  کمال الد ین و تمام النعمة / ج 1 / 207 / 21 ص : 201

۴۴

ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے 

امام حسین          سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا  گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (1)   ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت  کو لوگوں پر  واجب کیا ہے  -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“  ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو  پہچان لیا ہو  یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار )  اگر چہ  وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو  -جیسا کہ چھٹے امام  سے روایت ہے  آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (2)   جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں  ہے -

د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :

--------------

(1):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(2):- کلینی: کافی،ج 1 ، 181 - 

۴۵

 عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ. (1)   میرے بعد بارہ امام  سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا

اسی طرح چھٹے اما  م        فرماتے ہیں :إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام   (2) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ  تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ  اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا  (ص) انکی  مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للإمام‏ علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (3)   حضرت ولی عصر        لوگوں میں سب سے زیادۃ  دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛  عابد اور عبادت گزار  ہونگے ” 

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو  زند ہ کریں گے

 قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و  پاکدامنی کو رواج دینا تھا  -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے

--------------

(1):- کل ین ی: کافی،ج1 ،ص 181 - 

(2):- صافیگلپائ ی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -    علیبن محمد خزاز قم ی: کفا یةالاثر ص : 4 

(3):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ - 

۴۶

جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے  آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے  زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس  تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ  آیہ مبارکہ یہ ہے :يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک  مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا  ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭   خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص)  کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار  کیوں نہ ہو ۔

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے  اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ   حقیقت میں تمام  انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی)  پورا ہونے وآپکے  علمی مقام  و  آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت  بیان کو  کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (1)

--------------

(1):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437 

۴۷

 رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور  زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں  کیا حال  گا ان قوموں کا  جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے    ۔

  اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے  ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی  رسالت کے   انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں :قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ‏:. (1)   قائم میرا  فرزند  ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت  پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے   انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....

--------------

(1):- علیبن محمد خزاز: کفا یةال اثر ص : 45  

۴۸

اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص)  کی معرفت  اور اطاعت ہے اور  انکا  انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ  الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے  بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی  حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا(یا حسرتا  !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک  مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی  ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (1)    اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے  میں امام زمانہ کے موجود  ہونےکی ضرورت پر  دلالت کرتی ہیں  

۲: امام مہدی ؑ کی محبت

معرفت کا  لازمہ محبت ہے  یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا  اور  اسکی عظمت وفضائل اسکے      مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا  ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛  فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے 

--------------

(1):- صدوق : کمال الد ین ج : 2 ص : 4 ۱۱-: اعلام الور ی          425   -

۴۹

اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا  اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک  و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے  نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران  امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص  توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص)   فرماتے ہیں  :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی  امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب       کو اچانک میں نے علی ابی طالب     .......اور حجت قائم          کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ  میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں  

پس اگر چہ تمام  معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے  اسیلۓ  آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر .. (1)   ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان         کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر  چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔

--------------

(1):-  کاف ی:ج1 ،ص179 اور الغ یبة ،نعمان یص 141  اور ک فایة الاثر ص 162 - 

۵۰

الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت 

امام زمانہ           ہ  کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں  سےمطلع اوراسکے   رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے  اچھے اور نیک کاموں  کود یکھ کر انکے  دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے  برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر  انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا  او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی  ہے ،اور میرا  ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛  انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ  اما م  زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل  پیروی سے  حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے(وانت عاصیُ           ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ) یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔

اسیلۓ صادق آل محمد        د فرماتے ہیں: مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ  (1)

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 2 ص :  14 ۹ 

۵۱

  جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں  میں سے قرار  دۓ .....

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ  کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“  و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم ‏ (1) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے  احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے ۔

--------------

(1):- مجلسیبحار انوار ،ج52 ،ص 140 - 

۵۲

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط  ہے ۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین        فرماتے ہیں :“إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (1)   جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں  انکی زیارت سے  محروم کر دۓ  گا  -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے  ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے  اوریہی  شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔

ب: امام مہدی  کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا  کرنے اور اسے رشد دینے  کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور  پر  یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح  ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔

--------------

(1):-  طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 - 

۵۳

اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش  ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت  کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ  اپنا  اثر خود بخود  چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت  اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ  اعظم  ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ  معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے  دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہےالسلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا  اُجالا پھیل جاۓ(1)   اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے  گا(2)     اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے  کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد  یہاں ذکر کرتے ہیں - 

--------------

(1):- نعمانی:الغ یبة ،باب 10 ،ص 141 -

(2):- پیام اما زمانہ ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہکے متعلق تقر یر کا ایک حصہ-

۵۴

1 :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور  اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا  بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا  و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے  اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے  ہیں  ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو  آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں  صدقہ دینے کو  اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(1)    اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور  اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں  چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک  اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو -  اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو  اپنے  امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (2) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت  اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا  اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور   ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ  ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔

--------------

(1):- مجلسی :ج ۱۰۲  ،ص ۱۱۱ مصباح الزائر ص ۲۳۵ - 

(2):- کشف المحجہ: فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ - 

۵۵

2: انکے  فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .

بعض معصومین ؑبھی  امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین        اپنے  حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه          مثل السقیم  وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه            مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ 

ومن الدلآئل ضحكه بین الوری               والقلب مخزون كقلب الثاكل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔

انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے  بھاگ جاتے ہونگے   ۔

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے  میں خندان نظر آئیں گۓ   جبکہ  انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی  ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام        اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ  (1)

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ اور،ج   ۱ ص ۵۳۸ -  

۵۶

اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے....... 

کسی دوسرے حدیث میں جسے  جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی  ہے ،کہتے ہیں :قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (1)   ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق      کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ  تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ،  جُبہ خیبری  زیب تن کیۓ  ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے  گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو  ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں  اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے  آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس  ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ  ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران  اور انکے شوق دیدار میں بے تاب  وگریاں تھے۔

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶  باب غیبت -  ---- کمال الد ین ج : 2 ص 35: بحارال انوار ج : 51 ص : 219     

۵۷

۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ  ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(1) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے  ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (2) اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں  امام زمانہ کی بہترین  خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا  ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود  فرماتا ہےوَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ  إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (3) بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے

--------------

(1):- وسائل الش یعة ج : 16 ص : 34 ۶ بحارالانوار ج : 71 ص : 35 ۸ 

(2):- تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -

(3):- سورہحج ۴۰ - 

۵۸

۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی

امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا  انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار  اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے(بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (1) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں  آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصومؑ  فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (2)   ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی(3)   لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود  امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین  اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک  احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ  اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر  سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے“ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (4) .  اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب  عوام پر واجب ہے ۔

--------------

(1):- دعایندب ہ کا ا یکفقرہ

(2):- صافیگلپائ ی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ - 

(3):- البتہواضح ر ہے یہ غیبت کےپہل ی  معنی کی بنیاد پر ہے

(4):- مجلسی:بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائل الش یعة ج : 27 ص : 13

۵۹

 یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں :أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏  (1) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی  خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه‏.  ” (2) اور ہم نے انھیں  تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے  جو حقیقت میں خدا سے  شرک لانے کی حد میں ہے یعنی   انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی  حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے  :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم   ” (3) ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء  ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،

--------------

(1):- """"   """"ج 53 ،ص 181 - الغیبةللطوس یص : ۲۹۱ 

(2):- کلینی :اصول   الکاف یج : 1 ص : ۶۷ -   تہذ یب ال اح کام ج : 6 ص :  21 ۸  

(3):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ،  الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵  :  عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ . 

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109