امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات33%

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 109

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 89284 / ڈاؤنلوڈ: 5749
سائز سائز سائز
امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 اب  انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر  جاۓ تو  یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ،  لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے  -

اسی طرح فضیل بن یسار  نے امام محمد باقر      سے  روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ  ” (۱) آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ       کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو  امام زمانہ کے ظہور  میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا  و ہ  اپنے امام کے ہمراہ  جہاد میں انکے خیمے میں ہے  -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الإیمان  صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ” إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (۲) “  فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (۳) کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت  نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے  الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں  مگر ان افراد کے  جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی  گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ  علم  رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ   پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا 

--------------

(۱):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ 

(۲):- زخرف :۸۶ - 

(۳):- صدوق :کمال الد ین اتمام النعمة :ج ۱ ص ۱۹

۴۱

(یعنی انکے ظہور اور قیام پر   اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران  انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے  ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی

ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں

 صحیح  روایات  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ   ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے  کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص)  اس بارے  آنحضرت میں فرماتا ہے

لما اسری بی الی السماء ........  (۱)   جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر  پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا“لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ  أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے  مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ  کا نور کوکب درّی  کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا  میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔

--------------

(۱):- سید ہاشم بحر ینی :مدینة  المعاجز ص ۱۵۳ -  

۴۲

اسی طرح امیر المومنین       فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی إلی السماء.......   فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (۱)    “ جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ،   ندا آئی یا محمد(ص)  تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے  ہے میں نے  عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ  انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر  ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم  گرامی  لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ  کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ  کا نام تھا -

ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا..... (۲)

--------------

(۱):- صدوق :  کمال الد ین ج : ۱ ص : ۲۵ ۶   

(۲):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ ۲۲ 

۴۳

 آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا  ذکر  اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا  ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض        اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا  اور انھیں کی برکت سے آسمان  ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا  اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات  کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں نیز امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (۱)   ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة  الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی  عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے  انکے  وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا  زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم  وجور سے بھر چکی ہو گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔

--------------

(۱):-  کمال الد ین و تمام النعمة / ج ۱ / ۲۰۷ / ۲۱ ص : ۲۰۱

۴۴

ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے 

امام حسین          سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا  گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (۱)   ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت  کو لوگوں پر  واجب کیا ہے  -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“  ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو  پہچان لیا ہو  یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار )  اگر چہ  وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو  -جیسا کہ چھٹے امام  سے روایت ہے  آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (۲)   جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں  ہے -

د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :

--------------

(۱):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(۲):- کلینی: کافی،ج ۱ ، ۱۸۱ - 

۴۵

 عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ. (۱)   میرے بعد بارہ امام  سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا

اسی طرح چھٹے اما  م        فرماتے ہیں :إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام   (۲) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ  تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ  اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا  (ص) انکی  مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للإمام‏ علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (۳)   حضرت ولی عصر        لوگوں میں سب سے زیادۃ  دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛  عابد اور عبادت گزار  ہونگے ” 

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو  زند ہ کریں گے

 قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و  پاکدامنی کو رواج دینا تھا  -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے

--------------

(۱):- کل ین ی: کافی،ج۱ ،ص ۱۸۱ - 

(۲):- صافیگلپائ ی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -    علیبن محمد خزاز قم ی: کفا یةالاثر ص : ۴ 

(۳):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ - 

۴۶

جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے  آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے  زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس  تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ  آیہ مبارکہ یہ ہے :يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک  مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا  ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭   خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص)  کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار  کیوں نہ ہو ۔

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے  اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ   حقیقت میں تمام  انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی)  پورا ہونے وآپکے  علمی مقام  و  آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت  بیان کو  کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (۱)

--------------

(۱):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : ۲ ص : ۴۳۷ 

۴۷

 رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور  زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں  کیا حال  گا ان قوموں کا  جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے    ۔

  اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے  ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی  رسالت کے   انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں :قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ‏:. (۱)   قائم میرا  فرزند  ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت  پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے   انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....

--------------

(۱):- علیبن محمد خزاز: کفا یةال اثر ص : ۴۵  

۴۸

اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص)  کی معرفت  اور اطاعت ہے اور  انکا  انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ  الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے  بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی  حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا(یا حسرتا  !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک  مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی  ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (۱)    اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے  میں امام زمانہ کے موجود  ہونےکی ضرورت پر  دلالت کرتی ہیں  

۲: امام مہدی ؑ کی محبت

معرفت کا  لازمہ محبت ہے  یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا  اور  اسکی عظمت وفضائل اسکے      مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا  ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛  فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے 

--------------

(۱):- صدوق : کمال الد ین ج : ۲ ص : ۴ ۱۱-: اعلام الور ی          ۴۲۵   -

۴۹

اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا  اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک  و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے  نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران  امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص  توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص)   فرماتے ہیں  :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی  امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب       کو اچانک میں نے علی ابی طالب     .......اور حجت قائم          کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ  میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں  

پس اگر چہ تمام  معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے  اسیلۓ  آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر .. (۱)   ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان         کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر  چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔

--------------

(۱):-  کاف ی:ج۱ ،ص۱۷۹ اور الغ یبة ،نعمان یص ۱۴۱  اور ک فایة الاثر ص ۱۶۲ - 

۵۰

الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت 

امام زمانہ           ہ  کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں  سےمطلع اوراسکے   رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے  اچھے اور نیک کاموں  کود یکھ کر انکے  دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے  برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر  انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا  او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی  ہے ،اور میرا  ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛  انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ  اما م  زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل  پیروی سے  حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے(وانت عاصیُ           ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ) یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔

اسیلۓ صادق آل محمد        د فرماتے ہیں: مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ  (۱)

--------------

(۱):- الصراطالمستقیم ج : ۲ ص :  ۱۴ ۹ 

۵۱

  جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں  میں سے قرار  دۓ .....

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ  کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“  و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم ‏ (۱) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے  احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے ۔

--------------

(۱):- مجلسیبحار انوار ،ج۵۲ ،ص ۱۴۰ - 

۵۲

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط  ہے ۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین        فرماتے ہیں :“إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (۱)   جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں  انکی زیارت سے  محروم کر دۓ  گا  -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے  ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے  اوریہی  شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔

ب: امام مہدی  کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا  کرنے اور اسے رشد دینے  کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور  پر  یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح  ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔

--------------

(۱):-  طبرسی - الاحتجاج ج : ۲ ص : ۴۹۹ - 

۵۳

اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش  ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت  کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ  اپنا  اثر خود بخود  چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت  اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ  اعظم  ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ  معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے  دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہےالسلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا  اُجالا پھیل جاۓ(۱)   اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے  گا(۲)     اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے  کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد  یہاں ذکر کرتے ہیں - 

--------------

(۱):- نعمانی:الغ یبة ،باب ۱۰ ،ص ۱۴۱ -

(۲):- پیام اما زمانہ ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہکے متعلق تقر یر کا ایک حصہ-

۵۴

۱ :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور  اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا  بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا  و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے  اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے  ہیں  ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو  آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں  صدقہ دینے کو  اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(۱)    اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور  اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں  چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک  اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو -  اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو  اپنے  امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (۲) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت  اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا  اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور   ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ  ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔

--------------

(۱):- مجلسی :ج ۱۰۲  ،ص ۱۱۱ مصباح الزائر ص ۲۳۵ - 

(۲):- کشف المحجہ: فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ - 

۵۵

۲: انکے  فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .

بعض معصومین ؑبھی  امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین        اپنے  حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه          مثل السقیم  وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه            مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ 

ومن الدلآئل ضحكه بین الوری               والقلب مخزون كقلب الثاكل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔

انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے  بھاگ جاتے ہونگے   ۔

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے  میں خندان نظر آئیں گۓ   جبکہ  انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی  ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام        اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ  (۱)

--------------

(۱):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ اور،ج   ۱ ص ۵۳۸ -  

۵۶

اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے....... 

کسی دوسرے حدیث میں جسے  جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی  ہے ،کہتے ہیں :قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (۱)   ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق      کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ  تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ،  جُبہ خیبری  زیب تن کیۓ  ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے  گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو  ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں  اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے  آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس  ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ  ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران  اور انکے شوق دیدار میں بے تاب  وگریاں تھے۔

--------------

(۱):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶  باب غیبت -  ---- کمال الد ین ج : ۲ ص ۳۵: بحارال انوار ج : ۵۱ ص : ۲۱۹     

۵۷

۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ  ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(۱) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے  ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (۲) اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں  امام زمانہ کی بہترین  خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا  ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود  فرماتا ہےوَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ  إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (۳) بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے

--------------

(۱):- وسائل الش یعة ج : ۱۶ ص : ۳۴ ۶ بحارالانوار ج : ۷۱ ص : ۳۵ ۸ 

(۲):- تحف العقول :ص ۵۱۳ :اور بحار انوار :ج۷۵ ،ص ۳۸۲ -

(۳):- سورہحج ۴۰ - 

۵۸

۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی

امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا  انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار  اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے(بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (۱) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں  آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصومؑ  فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (۲)   ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی(۳)   لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود  امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین  اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک  احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ  اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر  سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے“ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (۴) .  اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب  عوام پر واجب ہے ۔

--------------

(۱):- دعایندب ہ کا ا یکفقرہ

(۲):- صافیگلپائ ی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ - 

(۳):- البتہواضح ر ہے یہ غیبت کےپہل ی  معنی کی بنیاد پر ہے

(۴):- مجلسی:بحار الانوار،ج۲ ،ص ۸۸ - وسائل الش یعة ج : ۲۷ ص : ۱۳

۵۹

 یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں :أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏  (۱) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی  خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه‏.  ” (۲) اور ہم نے انھیں  تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے  جو حقیقت میں خدا سے  شرک لانے کی حد میں ہے یعنی   انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی  حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے  :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم   ” (۳) ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء  ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،

--------------

(۱):- """"   """"ج ۵۳ ،ص ۱۸۱ - الغیبةللطوس یص : ۲۹۱ 

(۲):- کلینی :اصول   الکاف یج : ۱ ص : ۶۷ -   تہذ یب ال اح کام ج : ۶ ص :  ۲۱ ۸  

(۳):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ،  الاحتجاج ج : ۲ ص۳۸۵  :  عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ . 

۶۰

آگاہ  رہو جو شخص ہمارے شیعوں میں سے اس ذمہ داری کو ادا کرے اسکی فضیلت اسلام کے تمام دشمنوں سے جنگ کرنے والے مجاہدین  سے ہزار ہزار بار زیادہ ہے چونکہ علماء ہمارے مانے والے  محبین کے دین اور عقیدے کی دفاع اور محافظت کرتے ہیں جبکہ مجاہد ین انکے بدن اور جسم  کی دفاع کرتے ہیں”  اورقیامت کے دن پروردگار عالم کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا کہاں ہے ہیں ایتام آل محمد کی کفالت کرنے والے جو انکی غیبت کے دوران انکی کفالت کرتے تھے( يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ(ص) النَّاعِشُونَ  لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)

پس ائمہ اطہار ؑکے ان نورانی  کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر غیبت میں فقہا ء ؛ علماء اورخصوصاً ولی امر مسلمین کے انکے نزدیک کیا حیثیت ہے اور انکا کہنا نہ  مانا انکے حق میں جفا اور امام  کے نزدیک انکے مقام کا خیال نہ رکھنا اس شخص کو کس مقام میں لا کر کھڑا کردیتا ہے اگر چہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہےکہ ہمارے معاشرے میں  ہم میں سے بعض  خوستہ یا ناخواستہ دشمن کے غلط پڑوپکنڈوں کی  زد میں آکر  امام زمانہ کے مطیع نمائندوں کے خلاف ناحق زبان کھولنے  اور گستاخی کرنے کی جرئت کرتے ہیں جبکہ شیطان اور پیروان  شیطان اپنی تمام تر طاقتوں سمیٹ یہ کوشش  کررہیں  ہیں کہ انھی  پڑوپکنڈوں اور افواہوں کے ذریعے مجھ جیسے کمزور  مؤمنین کو علماء سے فقہاء سے دور کیا جاۓ تاکہ  انھیں دین اور ایمان کے دائرے سے نکالنا آسان ہو جاۓ ، اور ہم خود بھی جانتے ہیں کہ جو لوگ علماء اور ولایت فقیہ سے  کٹ جاتے ہیں   حقیقت میں وہ دین  اور صراط مستقیم سے کٹ جاتے ہیں   اور گمراہ ہو جاتے ہیں-نعوذ باﷲ من ذلک  - خدا ہمیں بچا کے رکھے -

پس ان روایات سےمعلوم ہوتا ہے عصر غیبت میں منتظریں کی  ایک اور اہم ذمہ داری  علماء  ،فقہاء کی اطاعت اورفرمان برداری اور خصوصیت کے ساتھ ولی امر مسلمین کے فرمان پر لببیک کہنا اور انکے نقش قدم پر چلنا ہے ۔جو کہ حقیقت میں خط ولایت  کے ساتھ متمسک  رہنا اور صراط مستقیم پر چلنا ہے - خدایا ہمیں  ہر دور میں اپنی حجت کو تشخیص دینے اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما  - آمین !ثم  آمین!

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 3 ص ۵    

۶۱

۵:  برادران ایمانی کے ساتھ ہمدردی اور معاونت

ائمہ معصومینؐ کے ارشادات کے مطابق ہر دور کے امام کو اپنے ماننے والے مؤمنین پر ایک مہربان اور فداکار باپ کی حیثیت حاصل ہے ، اور تمام مؤ منین کو انکے  فرزندی  کا شرف حاصل ہے  اور یہی وجہ ہے امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے  دوران غیبت میں مؤمنین کو ایتام آل محمد سے پکارا گیا ہے، يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)   اورکسی مؤمن بھائی کے ساتھ احسان وہمدردی ، اسکے ساتھ تعاون کرنے کو امام زمانہ کے ساتھ تعاون کرنے اور انکے حق میں ہمدردی سے پیش آنے  اسی طرح کسی مؤمن  بھائی کے حق کشی ، اسکے ساتھ بے دردی وبے اعتنائی سے پیش آنے کو امام زمانہؑ پر ظلم وجفا اور انکے ساتھ بے اعتنائی  سے پیش آنے کے برابر شمار  کیا گیا ہے ۔

لہذا منتظرین کی ایک اور بہت ہی اہم ذمہ داری عصر غیبت میں ہر ممکنہ راستوں سے برادران ایمانی کے معاشتی ،سماجی ،اجتماعی اقتصادی ، معنوی اور دیگر مختلف قسم کے مشکلات اور گرفتاریوں کو حل کرنے اور انکی ضروریات پورا کرنے کے لیے  جد وجہد کرنا ہے - چنانچہ اسی اجتماعی ذمہ داری کی  اہمیت اور اس پر عمل کرنے والوں کی خدا  و رسول اور  انکے حقیقی جانشین کے نزدیک قدر ومنزلت کو بیان کرتے ہوۓ  جناب شیخ صدوق نے سورہ عصر کے تفسیر میں امام صادق        سے نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں :(والعصر انّ الإنسان لفی خسر ) میں عصر سے مراد قائم کے ظھور کا زمانہ ہے  اور(إنّ الإنسان لفی خسر) سے مراد ہمارے دشمن ہیں اور(إلاّ الذین آمنوا ) سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنہون نے ہماری آیات کے زریعے  ایمان لائیں ہونگے  - اور ( وعملواالصالحات ) یعنی برادران دینی کے ساتھ ہمدردی  اورتعاون کرتے ہیں(وتواصوا بالحق ) یعنی امامت اور(وتواصوا بالصبر )

--------------

(1):-    مستدرکالوساةل :ج 17 ص 318

۶۲

زمانہ فترت یعنی وہی غیبت کا زمانہ ہے (جس میں امام  غائیب پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس راہ  مین پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتے ہیں )(1) یعنی اس سورہ مبارکہ میں نجات یافتہ مؤمنین سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنھون نے دوران غیبت میں اپنے مالی ،معنوی اسطاعت کے زریعے پسماندہ ،بے کس اور ناتوان مؤمنین کےہم دم  اور فریاد رس رہے ہیں  ۔

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں امام صادق        اور امام کاظم          دونوں سے روایت ہے  فرماتے ہیں :ُ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَی زِيَارَتِنَا فَلْيَزُرْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَصِلَنَا فَلْيَصِلْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنا (2) جو شخص ہم اہل بیت سے تعاون کرنے یا صلہ کرنے سے معذور ہو اسے چاہیے ہمارے چاہنے والوں کے ساتھ نیکی اور تعاون کرے  تو اسے  ہمارے ساتھ تعاون کرنے اور نیکی کرنے کا ثواب عطا ہو گا،اسی طرح اگر ہماری زیارت سے محروم ہیں تو ہمارے دوستوں اوراللہ کے  صالح بندوں کی زیارت کریں تو  خدا    اسے ہماری زیارت کرنے کا ثواب  عطا کرے گا

 چنانچہ  اما م موسی کاظم         سے روایت ہے فرماتے ہیں :مَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ الْمُؤْمِنُ فِی حَاجَةٍ فَإِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَی سَاقَهَا إِلَيْهِ فَإِنْ قَبِلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَصَلَهُ بِوَلَايَتِنَا وَ هُوَ مَوْصُولٌ بِوَلَايَةِ اللَّهِ وَ إِنْ رَدَّهُ عَنْ حَاجَتِهِ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَی قَضَائِهَا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَ کی ولایت خدا کی ولایت سے متصل ہے  )لیکن اگر اسے رد کر لے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگاريْهِ شُجَاعاً مِنْ نَارٍ يَنْهَشُهُ فِی قَبْرِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَغْفُوراً لَهُ أَوْ مُعَذَّباً فَإِنْ عَذَرَهُ الطَّالِبُ كَانَ أَسْوَأَ حَالا   (3) کسی کے پاس اسکا مؤمن بھائی کوئی نہ کوئی حاجت لے کر آۓ تو اسے  یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ  خدا کی طرف سے رحمت ہے جو اس پر نازل ہوئی ہے  پس اس حالت میں اگر اسکی حاجت پوری کر دے تو اسے ہماری ولایت کے ساتھ متصل کیا ہے  اور بے شک اسے  خدا کی ولایت حاصل ہوئی ہے (چونکہ  اہل بیت اطہارؑ  کی ولایت خدا کی ولایت کا ایک حصّہ ہے لہذا جو اہل بیت ؑؑ اطہار کی ولایت کے دائرے میں داخل ہو جائے وہ خدا کی ولایت میں آگیا ہے )

--------------

(1):- صدوق : اکمال الدین:ج۲ ،ص ۶۵۶ -  

(2):- طوسی ،تہذ یب ج ۶ ،ص۱۰۴  اور کامل زیارات :ص ۳۱۹ - 

(3):- کلینی: اصول الکاف یج : 2 ص : ۶ 19 

۶۳

لیکن اگر اسے رد کر دے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگار عالم اسکے قبرمیں آگ سے  بنائے  ہوئے ایک سانپ  کو اس پر مسلط کرۓ گا جوقیامت تک اسے ڈنستا رہے گا چاہیے اسے خدا معاف کرے یا نہ کرے اور قیامت کے دن صاحب حاجت اسکا عذر قبول نہ کرے تو اسکی حالت پہلے سے بھی  زیادہ بدتر ہو جاۓ گی-

اسی طرح  متعدد روایات میں کسی مومن بھائی کی حرمت کا خیال نہ رکھنا اسکے ساتھ نیک برتاؤ سے پیش نہ آنا اور اسکے ساتھ تعاون نہ کرنا ائمہ علیہم السلام کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ان مقدس ذوات کی بے حرمتی کرنے کےبرابر جانا گیا ہے چنانچہ ابو ہارو ن نے چھٹے امام سے نقل کیا ہے کہتا ہے  :قَالَ قَالَ لِنَفَرٍ عِنْدَهُ وَ أَنَا حَاضِرٌ مَا لَكُمْ تَسْتَخِفُّونَ بِنَا قَالَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ خُرَاسَانَ فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ نَسْتَخِفَّ بِكَ أَوْ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ أَمْرِكَ فَقَالَ بَلَی إِنَّكَ أَحَدُ مَنِ اسْتَخَفَّ بِی فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ أَسْتَخِفَّ بِكَ فَقَالَ لَهُ وَيْحَكَ أَ وَ لَمْ تَسْمَعْ فُلَاناً وَ نَحْنُ بِقُرْبِ الْجُحْفَةِ وَ هُوَ يَقُولُ لَكَ احْمِلْنِی قَدْرَ مِیلٍ فَقَدْ وَ اللَّهِ أَعْيَيْتُ وَ اللَّهِ مَا رَفَعْتَ بِهِ رَأْساً وَ لَقَدِ اسْتَخْفَفْتَ بِهِ وَ مَنِ اسْتَخَفَّ بِمُؤْمِنٍ فِینَا اسْتَخَفَّ وَ ضَيَّعَ حُرْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ  ” (1) ایک دفعہ امام صادق       نے کچھ لوگ جوآپ کے   پاس بیٹھے ہوۓ تھے او رانکے ساتھ میں بھی تھا ،ان سےکہا تمھیں کیا ہو گیا ہے ہماری حرمت کا خیال نہیں رکھتے ہو ،تو اہل خراسان کا رہنے والا  ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہم آپکو سبک شمار کرے یا آپکے فرمان میں کسی چیز کی بے اعتنائی کرے ، امام نے فرمایا ہاں انھی میں سے ایک تم بھی ہو جو ہمارے  لاج نہیں رکھتے ،اس شخص نے دوبار ا    کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپکی لاج نہ رکھوں ،فرمایا چپ ہو جاؤ   کم بخت  کیا تم نے اس شخص کی آواز نہیں سنی تھی اس وقت جب ہم جعفہ کے نزدیک تھے اور وہ تم سے کہ رہا تھا کہ مجھے صرف ایک میل تک اپنے سواری پر بٹھا کر لے چلو خدا کہ قسم میں بہت ہی تھکا ہوں ،خدا کی قسم تم نے سر اُٹھا کر  بھی اسکی طرف نہیں دیکھا اس طریقے سے تم نے اسکی بے اعتنای کی ہے اور  کوئی شخص کسی  مومن کی استخفاف  کرے اسنے ہمارے بے اعتنائی کہ ہے ،اور خدا کی حرمت ضائع کر دی ہے ۔

--------------

(1):- کلینی :روضۃ الکافی،ج۸، ص ۱۰۲ -

۶۴

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں جابر جعفی امام محمد باقر        سے نقل کرتے ہیں: و نحن جماعة بعد ما قضینا نسكنا، فودعناه و قلنا له أوصنا یا ابن رسول الله. فقال لیعن قویكم ضعیفكم، و لیعطف غنیكم علی فقیركم، و لینصح الرجل أخاه كنصیحته لنفسه.... ، و إذا كنتم كما أوصیناكم، لم تعدوا إلی غیره، فمات منكم میت قبل أن یخرج قائمنا كان شهیدا، و من أدرك منكم قائمنا فقتل معه كان له أجر شهیدین، و من قتل بین یدیه عدوا لنا كان له أجر عشرین شهیدا. (1) کہ ہم نے مناسک حج اکٹھے  بجھا   لا نے  کے بعد جب   امام سے الگ ہونے کو تھے آپ سے عرض کیا اے فرزند رسول    ہمارے لیے کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا تم میں سے جو قوی ہے  قدرت ومقام رکھتا ہے اسکی ذمہ داری ہے کمزور لوگوں کی مدد کرے اور جو مالدار ہے فقیروں اور بے کسوں پر ترس کریں انکی نصرت کریں ،اوراپنے  مومن بھائی کے ساتھ اس طرح خیر خواہی سے پیش آے  جس طرح اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہ ہے .....اور اگر تم نے ہماری نصیحت پر عمل کیا  تو غیروں میں سے شمار نہیں ہوگے- اب اس حالت میں تم میں سے جو شخص  قائم آل محمدکے قیام کرنے سےپہلے مر جاۓ تووہ شہید کی موت مرا  ہے ،اور جو  اپنی زندگی میں انھیں درک کرلے اور انکے ساتھ جھاد کرے تو اسے دو شہید کا ثواب عطا کرے گا ،اور جو شخص انکے ساتھ ہوتے ہوے ہمارے کسی دشمن کو قتل کرلیں تو اسے بیس ۲۰ شہید کا اجر دیا جاۓگا- پس ان روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ منتظرین کی اپنے مومن بھائی کی نسبت کیا ذمہ داری ہے اور اس اجتماعی  ذمہ داری کی کیا اہمیت ہے کہ جس کا خیال رکھنا  ہم سب کا شرعی اور اخلا قی فریضہ ہے - 

۶: خود سازی اور دیگر سازی

منتظرین کی ایک اور اہم ذمہ داری خودسازی و اپنے جسم وروح کی تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر سازی  اور ہم نوع کی تربیت بھی ہے ،خود سازی اور دیگر سازی ایک اہم دینی وظیفہ ہونے کے ساتھ بزرگ ترین اور عالی ترین  انسانی خدمات میں سے بھی شمار ہوتا ہے

--------------

(1):- امالی طوسی ،ص ۲۳۲ اور بحار انوار ،۵۲ ،ص ۱۲۲ ،ح ۵ - 

۶۵

اور اسلامی تعلیمات میں بھی حضرت ولی عصر ؑاور انکے جان بہ کف آصحاب  تاریخ انسانیت کے پرہیز گار ؛متقی اور صالح ترین افراد ہونگے چنانچہ انکے توصیف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون٭  (1)   اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔

 اسی طرح احادیث معصومین میں بھی امام عصر ؑکے آصحاب وہ لوگ ہونگے جنھیں خدا ورسولؐ اور ائمہ معصومینؑ کی صحیح معرفت  حاصل ہوگئی ، اخلاق اسلامی سے متخلق؛ نیک کردار کے مالک ؛عملی میدان میں ثابت قدم و پائیدار ؛ دستورات دینی کے مکمل پابند اور فرامین معصومینؑ کے سامنے سر تسلم خم ہونگے ۔

چنانچہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نھج البلاغہ میں انکے توصیف میں فرماتے ہیں :وَ ذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِیهِ إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وَ إِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ أُولَئِكَ مَصَابِیحُ الْهُدَی وَ أَعْلَامُ السُّرَی لَيْسُوا بِالْمَسَايِیحِ وَ لَا الْمَذَايِیعِ الْبُذُرِ أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّهُ لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ وَ يَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه‏. “ (2) اخری زمانہ  وہ زمانہ ایسا ہو گا جس میں صرف وہ مؤمن نجات پاسکے گا کہ جو گمنام اور بے شر ہو گا مجمع اسے  نہ پہچانے اور غائب ہو جاۓ تو کوئی اسکی  تلاش نہ کرۓ یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لیۓ  نشانیان  منزل ہوں گۓ  نہ ادھر ادُھر   لگاتے پھرین گۓ  اور نہ لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریں گے ؛ ان کے لئے اﷲ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا

--------------

(1):- انبیاء :۱۰۵ - 

(2):- نہج البلاغ ہ،خ ۱۰۳ ،ص ۲۰۰ ،ترجمہس ید ذیشان حیدر جوادی - 

۶۶

اسی طرح صادق آل محمد  سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : “جو شخص چاہتا ہے کہ حضرت قائم  ؑکے اصحاب میں سے ہوں اسے چاہئے انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ پرہیزگاری اور نیک اخلاق کو پناۓ ،پھر اگر وہ اس حالت میں انکے قیام سے پہلے مر جاۓ اور بعد میں ہمارا قائم قیام کرۓ تو اسے ایسا اجر دیا جاۓگا جیسے اس نے حضرت کو درک کیا ہو.(1) اور خود معصومینؑ کے فرمان کے مطابق مبغوض ترین فرد وہ شخص ہے جو مؤمن اور امام زمانہ کے منتظر ہونے کا دعوا کرے لیکن قول وفعل میں انکے دیے ہوۓ دستورات اور دینی قوانین کے مخالفت سمت قدم اٹھاۓ چنانچہ اسی نقطے کی طرف اشارۃکرتے ہوۓ امام ذین العابدین فرماتے ہیں :لَا حَسَبَ لِقُرَشِيٍّ وَ لَا لِعَرَبِيٍّ إِلَّا بِتَوَاضُعٍ وَ لَا كَرَمَ إِلَّا بِتَقْوَی وَ لَا عَمَلَ إِلَّا بِالنِّيَّةِ وَ لَا عِبَادَةَ إِلَّا بِالتَّفَقُّهِ أَلَا وَ إِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّهِ مَنْ يَقْتَدِی بِسُنَّةِ إِمَامٍ وَ لَا يَقْتَدِی بِأَعْمَالِهِ.” (2)   کسی کو عربی اور قریشی ہونے کی بنا پر دوسروں پر کسی قسم کی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے سواۓ تواضع کے اورکسی کو کوئی کرامت حاصل نہیں ہے الا  یہ  کہ تقوای اختیار کرے  اور کوئی عمل نہیں ہے سواۓ نیت کے اور کوئی عبادت نہیں ہے سواۓ تفقہ کے (یعنی عبادت درست معرفت کے ساتھ ہے ) پس ہو شار رہو!پروردگار عالم کے نزدیک مبغوض ترین شخص وہ ہے جو ہماری ملت اور مذہب پر ہو لیکن عمل میں ہماری پیروی  واقتدا ء نہ کرے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :إِنَّا لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤْمِناً حَتَّی يَكُونَ لِجَمِیعِ أَمْرِنَا مُتَّبِعاً مُرِیداً أَلَا وَ إِنَّ مِنِ اتِّبَاعِ أَمْرِنَا وَ إِرَادَتِهِ الْوَرَعَ فَتَزَيَّنُوا بِهِ يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ وَ كَبِّدُوا أَعْدَاءَنَا بِهِ يَنْعَشْكُمُ اللَّهُ  (3) ہم کسی کو مومن نہیں جانتے جب تک وہ ہماری مکمل پیروی نہ کرۓ اور یہ جان لو ہماری پیروی پرہیز کاری اور تقوای اختیار کرنے میں ہے ،پس  اپنے آپکو زہد و  تقوای کے ذریعے زینت  دو  تاکہ خدا تمھیں  غریق رحمت کرۓ ،اور اپنے تقوای کے ذریعے ہمارے دشمنوں کو سختی وتنگی میں ڈال دو تاکہ خدا تمھیں عزت کی زندگی عطا کرے-

--------------

(1):- غیبۃ نعمانی :ص   ۱۰۶ 

(2):- کلینی :روضۃ الکافی ،ص ۲۳۴ ،ح۳۱۲ - 

(3):- کلینی :اصول کاقی ،ج۲ ،ص ۷۸ ،ح۱۳ - 

۶۷

پس ان روایات اور دوسری متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نے ان مقدس ہستیوں کو اپنے مولا ومقتدا قبول کیا ہے تو  وہ ذوات بھی ہم سےیہ توقع رکھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم عمل وکردار میں انکے  نقش قدم پر چلیں اسی لیے معصومینؑ فرماتے ہیں :کہ تم ہمارے لئے  زینت  کا باعث بن جاؤ ننگ وعار کی باعث مت بنو (1)

۷: شبہات اور بدعتوں کا مقابلہ

زمان غیبت میں ہم سب کی  خصوصاً  علماءاور بیدار طبقے کہ ایک اہم فرائض معاشرے میں خود غرض یا سادہ لوح دوستوں کے ہاتھوں مختلف قسم کےبدعتوں اور ان شبھات کا مقابلہ کرنا ہے جو امام زمان     ہ   کی غیبت کی وجہ سے انکے بارے میں وجود میں آئی ہیں چنانچہ امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِی فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِیهِمْ وَ الْوَقِیعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِی الْفَسَادِ فِی الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِی الْآخِرَةِ ” (2) میرے بعد اہل تریدد (یعنی جو  ائمہ کی ولایت و امامت کے متعلق شک وتردید کا اظہار کرے)اور اہل بدعت (یعنی دین میں نئی چیز ایجاد کرنے والا جسکا دین سے کوئی ربط نہ ہو)کو دیکھیں تو ان لوگوں سے اپنی برائت و بیزاری کا اظہار کرو ،اور اس طرح انکے خلاف پروپکنڈہ کرو  کہ آیند ہ کوئی اسلام میں اس طرح کی فساد پھلانے کی جرئت نہ کرۓ اور لوگ خود بخود ان سے دور ہو جائیں اور انکی بدعتوں کو نہ اپنائیں اگر ایسا کیا تو پروردگار عالم اسکے مقابلے میں تمھیں حسنہ دیا جاۓ گا اور تمھارے درجات کو بلند کر ے گا ۔

اسی طرح بعض شبھات دشمنوں نے خود امام زمانہؑ کے بارے میں  لوگوں کے  حضرت مہدی پر عقیدے کو کمزور کرنے اور اس میں خلل  پیدا کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے جیسا کہ آج کل نٹ پر ۱۰  ہزارسے زیادہ شبھات انکے متعلق دیا گیا ہے؛   تو علماء کی ذمہ داری ہے کہ ان شبھات کا مقابلہ کریں

--------------

(1):-کلینی: کافی ،ج ۲ ، ص ۷۷ ،ح۹ - 

(2):- کلینی : اصول کافی،ج۲ ،ص ۳۷۵ ،ح ۴

۶۸

 اور بطوراحسن  جواب دیں  اور  لوگوں کو امام زمانہ  ہ      کے مقدس وجود کی طرف جذب ہونے کا زمینہ فراہم کریں لہذا ہماری اس اہم زمہ داری اور عصر غیبت میں رونما  ہونے والے شبھات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امام صادق          فرماتے ہیں :.....  فإیاكم و الشك و الارتیاب و انفوا عن أنفسكم الشكوك و قد حذرتكم فاحذروا أسأل الله توفیقكم و إرشادكم (1) خبردار شک وریب سے پرہیز کرنا ،(یعنی انکے غیبت اور ظہور کے بارے میں) اپنے دلوں سے شکوک وشبھات باہر نکال دو میں نے تم لوگوں کو برحزر کردیا ہے لہذا تم لوگ اس قسم کے شک وتردید سے باز رہو  (چونکہ اس  امر میں شک صراط مستقیم میں شک کے برابر ہے ) میں اﷲ تعالی سے تمھارے لئے توفیقات اور ہدایت کی دعا کروں گا-

اسی طرح رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں:......... یا جابر إن هذا الأمر أمر من أمر الله و سر من سر الله مطوی عن عباد الله فإیاك و الشك فیه فإن الشك فی أمر الله عز و جل كفر (2) اے جابر انکی غیبت اورظہور میں شک کرنا  خدا سے کفر اختیار کرنے کے برابر ہے -

اورہم سب جانتے ہیں کی آج کا دور ایسا دور ہے جس میں ایک طرف دشمن مختلف شبہات اور غلط پروپکنڈوں کے ذریعے لوگوں کو عقیدہ انتظار اور اسکی حقیقت سے دوررکھنے اور انکے دلوں میں شک وتردید پیدا کرنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف جعلی اور فرصت طلب افراد امام زمانہ ؑکے مقدس نام پر مؤمنین کے انکی نسبت صادقانہ عقیدے سے سؤء استفادہ کرنے اور مختلف قسم کی دکانین کھولنے کی کوشش میں لگے ہوۓ ہیں لہذا علماو اور ذمہ دار افراد کی ذمہ داری ان دونوں حدود  پر دشمن کے مقابلہ کرنا ہے

--------------

(1):- الغیبةللنعمان ی      ص     150 ،ح ۸ -    

(2):- صدوق اکمال الدین : ج ۱ ، ص ۲۸۷ - 

۶۹

۸:بے صبری سے پرہیزکرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر غیبت مشکلات اور مصائب کے ہجوم لانے کا زمانہ ہے اور مومنین سے مختلف قسم کی سختیوں اور گرفتاریوں کے ذریعے سے امتحان لیا جاۓ گا تاکہ اس طرح نیک وبد ؛صادق و کاذب اور مومن ومنافق میں تمیز ہو جاۓ اور یہ ایک سنت الہی ہے اس امت یا اس زمان کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ گزشتہ امتوں سے لیا گیا ہے اور آئیند آنے والے نسلوں سے بھی تا قیامت تک مختلف ذریعوں سے امتحان لیا جاۓ گا ۔ چناچہ اسی سنت الھی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :ما كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنینَ عَلی‏ ما أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّی يَمیزَ الْخَبیثَ مِنَ الطَّيِّبِ.....٭  ” (1) اﷲ تعالی مومنین کو منافقین سے جس حالت میں نا مشخص ہے نہیں رکھا جاۓ گا ،یہاں تک (امتحان کےذریعے )خبیث اور طیب میں تمیز پیدا ہو جاۓ ۔ اسی طرح سورہ   عنکبوت کی آیت  نمبر۲   میں فرماتا ہے :أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذینَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبینَ   (2) “کیا لوگوں نے  یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دۓ جائیں گے کہ وہ یہ کہے کہ ہم  ایمان لے آۓ ہیں اور انکا امتحان نہیں ہو گا ٭ بشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اﷲ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں ” 

--------------

(1):- سورہآل عمران : ۱۷۹ - 

(2):- سورہعنکبوت : ۲ -۳ - 

۷۰

اورناطق قرآن علی ابن ابی طالبؑ اسی بارے میں فرماتے ہیں :.....ِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ وَ لَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وَ قَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ إِنَّ فِی ذلِكَ لَآیاتٍ وَ إِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِین (1)   لوگو اﷲ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن کبھی یہ ضمانت نہیں دیا ہے کہ تم سے امتحا ن بھی نہیں لیا جاۓ گا ، اور خدا سب سے بڑکر سچا ہے ،یوں فرماتا ہے “ بے شک ان حوادث اور وقعات میں علامتیں اور نشانیان ہیں اور ہم اچھے اور بُرے سب بندوں سے امتحان لیتے ہیں ”-

اور انھیں نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ۓ اما م صادق        فرماتے ہیں :ہمارے قائم کے ظھور سے پہلے مومنین کے لئے خدا  کی  جانب سے کچھ نشانیاں ہیں ،عرض ہوا  یا ابن رسول اﷲ        وہ نشانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا وہ نشانیاں اس کلام الھی میں ذکر ہوئی ہیں اور اس آیت کی تلاوت کی“وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرینَ٭  “ (2) اور یقیناً  ہم تم سے خوف، بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے امتحان لیا جاۓ گا اور اے پیغمبر(ص) آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ” بے شک تم سے امتحان لیا جاۓ گا یعنی حضرت قائم کے خروج سے پہلے مومنین سے سلاطین جور  سے  ترس ،منگائی ،گرانی کی وجہ سے بھوک ؛گرسنگی ،تجارت میں ورشکستگی و ناگہانی موت اورفصل وکاشت میں نقصان کے ذریعے امتحان لیا جاۓ گا ،پھر فرمایا اے محمد بن مسلم یہ ہے اس آیت کی تاویل جسکی تاویل(وَ ما يَعْلَمُ تَأْویلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَ ما يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْباب‏ (3) سواۓ خدا اور راسخین  فی علم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(1):- نہج البلاغ ہخطب ہ ۱۰۳ اردو ترجمہس ید ذیشان حیدر - 

(2):- بقرہ: ۱۵۵ - 

(3):- آل عمران :۷ - 

۷۱

اور امام زمانہؑ کے طول غیبت کے دوران  مختلف قسم کےسختیوں ا ورمصیبتوں پر صبر کرنے والوں کی توصیف میں پیغمبر اکرم(ص)  فرماتے ہیںَّ:قَالَ(ص) طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ... (1) خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں.اور متعدد روایات میں انکی غیبت کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں واذیتوں پر بے صبری کرنے سے منع کیا گیا ہے اور قضاء وقدر کے سامنے تسلم ہونے کا حکم دیا ہے جیسا کہ شیخ کلینی نے اپنی سند امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے حضرت نے فرمایا :

كَذَبَ الْوَقَّاتُونَ وَ هَلَكَ الْمُسْتَعْجِلُونَ وَ نَجَا الْمُسَلِّمُونَ  (2) ظہور کے وقت تعین کرنے والے ہلاکت میں ہوں گے لیکن قضاوقدر الہی کے سامنے تسلیم ہونے والے نجات پائیں گے

۹: جوانوں کی مخصوص ذمہ داری

اسلامی تعلیمات میں جوانی اور جوان طبقے کو خاص اہمیت اور مخصوص مقام حاصل ہے ،انکے ساتھ الفت ،عطوفت کے ساتھ پیش آنے اور ہمیشہ اچھی نگاہوں سے دیکھنے پر زور دیا گیا ہے جس طرح رسول اکرم  (ص)کا فرمان ہے:اوصیكم بالشباب خیراً فإنّهم ارقُّ افئدةً انّ اللّه بعثنی بالحق بشیراً و»نذیراً  فحالفنی الشباب وخالفنی الشیوخ .تمھیں وصیت کرتا ہوں ان جوانوں کے بارے میں جو پاک دل ہوتے ہیں ،جب اﷲ تعالی نے مجھے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا تو یہ جوان تھے جنھوں نے میرے ساتھ دیا جبکہ عمر رسیدہ افراد نے میری مخالفت کی ۔

--------------

(1):- مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ - 

(2):- الکاف یج : 1 ص : 368

۷۲

پس کلام رسول پاک (ص) سےہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جوانوں کو بری نگاہوں سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انکے بارے  میں نیک سوچ رکھنا چاہیے اور تاریخ اسلام اس بات پر زندہ گواہ ہے کہ جب نبی اکرم(ص) نے ذوالعشیرمیں قریش کو توحید اور دین کی طرف پہلی بار دعوت دیا تو جس شخص نے سب سے پہلے آنحضرت(ص) کی دعوت پر لبیک کہا وہ علی ابن ابی طالب ۱۰ سالہ نوجوان تھے جبکہ بزرگان قریش آخری دم تک آپ کے مخالفت کرتے رہیں ۔

جوانی کی قدر وقیمت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود امام زمانہؑ  ظہور کریں گے تو  آپ جواں  ہونگے  جیسا کہ امیر مومنین فرماتے ہے-مہدیؐؑ  قریش کے خاندان کا  ایک دلیر ؛ شجاع اور تیز ہوش جوان ہونگے تیس یا چالیس سے کم عمر میں ظہور کریں گے - اسی طرح امام زمانہ  ؑکا خاص سفیر نفس زکیہ جنہیں رکن مقام کے درمیان شہید کیا جاۓ گا ایک جوان ہو ں گئے ـ   اما م صادق        اس بارے میں فرماتے ہیں :امام زمانہ کے ظہورکے وقت انکی طرفسے ایک جوان شخص سفیرکے عنوان سے منتخب ہونگے تاکہ امام ؑکے پیغام کو اہل مکہ تک پہنچا  ۓ اور انھیں آنحضرت کی حکومت کے پرچم تلے آنے کی دعوت دے لیکن مکہ کے حکمران اسے رکن  و مقام کے درمیان شھید کریں گے(1)   اسی طرح مختلف روایا ت میں آیا ہے کہ امام عصر کے ۳۱۳  اصحاب میں سے بہت ہی کم افراد کے سب جوان ہونگے  -چناچہ امیر مومنین        فرماتے ہیں  - امام مہدی ؑکے اصحاب سارے جوان ہونگے ان میں کوئی بھوڑے نہیں ہونگے سواۓ آنکھ میں سرمہ اور کھانےمیں نمک کی برابرکے :أصحاب المهدی شباب لا كهول فیهم إلا مثل كحل العین و الملح فی الزاد و أقل الزاد الملح (2)   اور کتنا ہی کم ہو تا ہے کھانے میں نمک  کی مقدار ۔

--------------

(1):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۶۴ -

(2):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۷۶  اور بحار انوار ج ۵۲ ، ص ۳۳۳ -

۷۳

 اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اما م زمانہؑ کے غیبی ندا پر سب سے پہلے  لبیک کہنےوالے اکثر جوان ہی ہونگے  امامؑ صادق  فرماتے ہیں: امام ؑکے ظہور کرنے کے بعد جب انکا آسمانی ندا انکے کانوں تک پہنچ جاے گی تو اس حالت میں لبیک کہیں گے کہ اپنے  اپنے چھتوں پر آرام کررہے ہونگے اور بغیر کسی آمادگی کے حرکت کریں گے اور صبح ہوتے ہوتے اپنے امامؑ کی زیارت سے شرف یاب ہونگے -  (1)

سوال نمبر 14: کیا عصر غیبت میں حضرت مھدی  سے ملاقات ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کیسے ؟

جواب : کثرت روایات اور مستند تاریخی حوالے یہ یہ بات ثابت ہے کہ غیبت صغری میں حضرت مھدی  کے نائبین خاص کے ذریعہ آپکے مانے والے آپ سے رابطہ برقرار کیے ہوے تھے او ر ان میں سے بعض افراد امام  کے حضور میں شرف یاب بھی ہوئے ہین ۔لیکن غیبت کبری میں یہ رابطہ ختم ہو گیا ہے اور امام عصر  سے عام طور پر ملاقات کرنا عادتا ً ناممکن ہے چو نکہ بنا اور وظیفہ آپکے لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہنا ہے لیکن اسکے باوجود عقلاً اور شرعاً دونو ں اعتبار سے آپکی دیدار سے مشرف ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے جسکے تقریباً تمام علماء متقدمیں اور متاخریں سب متفق ہیں ۔جیسا کہ شیخ طوسی قدس سرہ فرماتے ہیں : ہم ممکن سمجھتے ہیں کہ بہت سے اولیا اور انکی امامت کے ماننے والے حضرات انکی خدمت میں پہونچیں اور انکی ہستی سے استفادہ کریں(2)    اسی طرح سیّد ابن طاووس علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : امام کی زیارت کے راستے ہر اس شخص کے لیے کھلا ہوا ہے جسے خدا اپنے بے انتہا احسان اور انکی زیارت عنایت فرمائے(3) :  اور تاریخ میں بھی انتہائی باوقا ر افراد  اور عظیم الشان علماء کی امام زمانہ  سے ملاقات کے واقعات نقل ہوئے ہیں (4)

--------------

(1):- نعمانی الغیبہ :ص ۳۱۶  ،باب ۲۰ ح ۱۱-

(2):- کلمات المحقیقن :ص533

(3):- الطرائف : ص185 

(4):- دیکھئے:جنة الماویٰ،اور نجم الثاقب،محدث نوری

۷۴

یہاں ضروری ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کے بارے میں بحث کے حوالے سے درج ذیل نکات پر توجہ دی جائے:

پہلا نکتہ یہ ہے کہ امام  علیہ السلام  کی ملاقات کبھی ایسے لوگوںکی نصرت اور مدد کے لئے ہوتی ہے کہ جو پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تنہائی و بے کسی کا احساس کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کوئی حج کے سفر میں راستہ بھٹک گیا اور امام  علیہ السلام  یا ان کے اصحاب میں سے کسی صحابی نے اسے سرگردانی سے نجات دی اور امام  علیہ السلام سے اکثر ملاقاتیں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔

لیکن بعض ملاقاتیں عام حالات میں بھی ہوئی ہیں اور ملاقات کرنے والے اپنے مخصوص روحانی مقام کی وجہ سے امام  علیہ السلام  کی ملاقات سے شرفیاب ہوئے ہیں۔لہٰذا مذکورہ نکتے کے مد نظر توجہ رہے کہ ہر کسی سے امام  علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں خصوصاً آج کل بعض لوگ امام زمانہ  علیہ السلام  کی ملاقات کا دعویٰ کرکے اپنی دُکان چمکا کرشہرت اور دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی اور عقیدہ و عمل میں انحراف کی طرف لے جاتے ہیں، بعض دعاؤں کے پڑھنے اور بعض ایسے اعمال انجام دینے کی دعوت دیتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے اذکار اور اعمال کی کوئی اصل اور بنیاد بھی نہیں ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام  کے دیدار کا وعدہ  دے کر ایسی محفلوں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جن کے طور طریقے دین یا امام زمان علیہ السلام     کے لئے قابل قبول نہیں اوریوں وہ لوگ امام غائب کی ملاقات کو سب کے لئے ایک آسان کام قرار دیتے ہیں، جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام  علیہ السلام  خداوندعالم کے ارادہ کے مطابق مکمل طور پر غیبت میں ہیں اور صرف ایسے گنتی کے چند افراد ہی کی امام  علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے جن کی نجات فقط لطف الٰہی کے اس مظہر یعنی اما م عصر کی براہ راست عنایت پرمنحصر ہوتی ہے۔

۷۵

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام  کی ملاقات صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب امام زمانہ  علیہ السلام کی نظر میں کوئی مصلحت اس ملاقات میں ہو،

لہٰذا اگرکسی عاشق امام  علیہ السلام کو اس کے تمام تر اشتیاق ورغبت اور بھرپور کوشش کے باوجودبھی امام سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکے تو اس کوما یوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اورملاقات نہ ہونے کو امام  علیہ السلام کے لطف و کرم کے نہ ہونے کی علامت قرار نہیں دینا چاہئے، جیسا کہ جو افراد امام  علیہ السلام  کی ملاقات  سے فیض یاب ہوئے ہیں ان کی ملاقات کو ان کے تقویٰ اور فضیلت کی علامت قرارنہیں دیا جا سکتا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ اگرچہ امام زمانہ  علیہ السلام کے جمالِ پر نور کی زیارت اور دلوں کے اس محبوب سے گفتگو اور کلام کرنا واقعاً ایک بڑی سعادت ہے لیکن آئمہ  علیہم السلام خصوصاً امام عصر علیہ السلام  اپنے شیعوں سے یہ نہیں چاہتے کہ ان سے ملاقات کی کوشش میں رہیں اور اپنے اس مقصود تک پہنچنے کے لئے  چِلّہ  کاٹیں، یا جنگلوں میں مارے مارے پھریں؛ بلکہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ ہمارے شیعوں کو ہمیشہ اپنے امام کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرنا چاہئے اور آپ کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اپنی رفتار و کردار کی اصلاح کی کو شش کرنا چاہئے اورآپ کے عظیم مقاصد کے حصول کے راستے پر قدم بڑھانا چاہئے تاکہ جلد از جلدبشریت کی اس آخری امید کے ظہور کا راستہ ہموار ہوجائے اور کائنات ان کے وجود سے براہ راست فیضیاب ہو۔خود امام مہدی  علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَکثِرُْوا الدعَاء َ بِتَعجِیلِ الفرجِ، فانَّ ذَلکَ فَرَجُکُم'' (1)  

--------------

(1):- کمال الدین،ج2،باب45،ح4،ص239. اس مطلب کو محور کائنات  جناب  سیفی کی کتاب سے لیا گیا ہے ۔

۷۶

سوال نمبر 15: انتظار کیا ہے ؟  اور اسکا صحیح  معنی بیان کیجہے ؟

ج : انتظار کا صحیح مفہوم :

لغت کے اعتبارسے انتظار  ایک نفسیاتی حالت جو آئندہ اور مستقبل کے لیۓ  امیدوار ہونا ہے لیکن اسلامی تعلیمات میں انتظار نہ صرف ایک نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عقیدہ ہے عقیدہ حق وعدالت  کے طاقتوں کا ظلم وباطل کے طاقتوں پر مکمل طور پر غالب آنے ،تمام انسانی اقدار کا روۓ زمین پر برقرار ہونے اور مدینہ فاضلہ یعنی ایک آئیڈیل آفاقی معاشرے کے وجود میں لانے بلاآخر عدل الہی اور دین الہی کا اس روۓ زمین پر آخری حجت خدا کے ہاتھوں جلوہ گرہونے کا ۔

انتظار نظریہ ہے نظریہ آخری زمانہ میں منجی موعود کا ظہور کرنے اور عالم بشریت کو موجودہ حالات سے نجات دینے اور مستضعفیں کے ہاتھوں ایک آفاقی اور الھی نظام کا قائم کرنے کا ہے ۔انتظار عمل اور حرکت ہے ایسا عمل جو جس میں نفس کہ تزکیہ ہو، فردی اور اجتماعی اصلاح ہو یعنی خود سازی کے ساتھ دیگر سازی اور سماج سازی بھی ہو ،اور ایسی حرکت جو منظم اور انسانی زندگی کے تمام پہلو اور زاویوں سے  ہو، اور اس آفاقی نظام کے لیۓ  زمینہ فراہم کرۓ اور اس دور کے ساتھ ہم آہنگ اور وہم سوہوں  یہ ہے حقیقت انتظار  اسی لیے اہل بیت اطہارعلیم السلام نے واضح  الفاظ مین نظریۃانتظار کے بنیادی رکن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ انتظار صرف نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عمل ہے اور وہ بھی بہتریں عمل ہے جیسا کہ  فریقین کی جانب سے منقول ہے رسول خدا (ص) نے فرمایاافضل اعمال امتی انتظار الفرج من اﷲ (1) -میری امت کے اﷲ تعالی کی جانب سے ظہور وآسائش کا انتظار کرنا بزرک ترین عمل ہے ۔ یاکسی اور مقام پر   آپ  یوں فرماتے  ہیں  -انتظار الفرج عبادة افضل اعمال اُمّتی انتظار فرج اﷲ عزّوجل  (2) - فرج اور آسائش کا انتظار کرنا عبادت ہیں میری امت کے اعمال میں سب کے بہتر عمل اﷲ کی طرف سے فرج وکشائش کا انتظار ہے

--------------

(1):- کمال الدین:  ج ۲ باب نمبر ۵۵ ح ۱ -

(2):- کنزل العمال : ج ۳ ص ۲۷۳ ح ۶۵۰۹ -

۷۷

اور اسی مضمون میں ائمہ معصومینؑ  سے بھی بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں  جیسا کہ امیر المؤمنیں علی          فرماتے ہیں ۔انتظروا الفرج ولا تیأسو من روح اللّه ،فإنّ أحب الأعما الی اللّه عزّوجل انتظار الفرج  الآخذ بأمرنا معنا غداً فی حظیر القدس ،والمنتظر لأمرنا كالمتشحط بدمه فی سبیل اللّه (1)   آسائش اور رہائی کا انتظار کرو  خدا کی  رحمتوں سے کبھی مایوس نہ ہوجاؤ  اسلئے کہ پروردگا ر عالم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل انتظار فرج ہے اور ہماری ولایت کو مضبوطی سے تھامنے والا کل جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا  اور ہماری ولایت وامامت کے انتظار کرنے والا اس شخص کی مانند ہے  جو اﷲ کے راہ میں اپنے خون سے غلطان  ہو

د: انتظار کا غلط مفہوم اور اسکا منفی نتائیج .

ممکن ہے بسا اوقات نظریہ انتظار کو اپنے  درست اور اصلی مفہہوم  میں نہ سمجھنےبلکہ  کج فہمی  کے شکار ہونے  اور اسے غلط معنی اور مفہوم مراد لینے کی وجہ سے  یہی انتظار سازندگی وتعمیری روخ کو بدل کر تخریبی ویرانگری کا روخ اختیار کر لے اور ایک متحرک انقلابی اور پاک سرش شخص یا معاشرے کو  رکود وجمود ،مفلوج اور خباثت کی طرف دعوت دے  -

اگر آپ تاریخ  کا مطالعہ کریں تو سینکڑوں؛  ہزاروں کی تعداد میں افراد مختلف گروہوں  تنظیموں کی شکل میں نظر  آئیں گے جنہون  نے عقیدہ انتظار کو الٹا سمجھنے  اور اسے غلط مفہوم مراد لینے کی وجہ سے نہ صرف انتظار کو اپنے ترقی وسازندگی کا ذریعہ بنایا بلکہ الٹا یہی انتظار انکےمفلوج ہونے جمود کے شکار ہونے اور اپنے علاوہ سکاج کو بھی فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دینے کا سبب بنا مثال کے طور پر (انجمن حجتیہ )نامی تنظیم جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران سے پہلے انقلاب کے دوران او انقلاب کے بعد بھی ایران میں ملکی سطح  پر لوگوں کو فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دیتے تھے اور انکا یہ شعار تھا کہ ہم معاشرے میں  جتنا بھی ہو سکھے گناہوں کو اور ظلم وبربریت کو عام کر دے

--------------

(1):- بحار انوار : ج ۵۲ ص ۱۲۳ ح ۷ -

۷۸

اتنا ہی امام زمانہ کی ظہور میں تعجیل کا زمینہ فراہم ہو گا اور امام جلدی ظہور کریں گے ہم یہاں پر ان گروہوں میں سے ایک دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ مؤمنین کے لیےاس قسم کے منحرف شدہ گروہوں کو پہچاننے اور ان سے دوری اختار کرنے میں مدد ثابت ہو جاے  ۔

پہلاگروہ ـ :1

لوگوں کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ عصر غیبت میں ہماری ذمہ داری صرف اور صرف حضرت حجت         کے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنا ہے اور کسی قسم کی اصلا حی واجتماعی حرکت کو انتظار اور خدائی مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں انکا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو ؛ ہمیں کوئی ربط نہیں امام زمان       ہ خود تشریف فرما کر ان سب کو ٹھیک کریں گے،اسے پہلے جو بھی علم اٹھے گا باطل کا علم ہو گا اور لا محالہ دین و شریعت کے خلا ف ہو گا لہذا  اسے اصلاحی اور اجتما عی حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیںامام خمینی قدس اﷲ (عصر حاضر کی عظیم ہستی)ا نکے رد میں فرماتے ہیں : (کچھ لوگ انتظار فرج کو صرف مسجدوں حسینیوں اور گھروں میں بیٹہ کر امام زمانہ کے ظہور کے لیے خدا کی درگاہ میں دعا کرنے میں دیکھتا ہے اور  تکلیف اور ذمداری سمجھتے ہیں ہم سے کوئی ربط نہیں دنیا میں ملتوں  پر کیا گزرے ،خود امام ظہور کریں گے تو سب کچھ ٹھیک کریں گے )یہ ان لوگوں کی منطق ہے جو حقیقت میں اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے گریز کرتا ہے ،اسلام انکو قبول نہیں کرتا بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انکی آمد کے لیے زمینہ فراہم کر یں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں انشاء اﷲ ظہور کریں گے(1)   اگر ہماری بس میں ہوتا تو پوری دنیا  سے ظلم وجور کو مٹا دیتے ہماری شرعی ذمہ داری تھی لیکن یہ ہماری بس سے باہر ہے ،اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت حجت دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے یہ نہیں کہ تم لوگ اپنے شرعی تکلیف سے ہاتھ اُٹھاے بیٹھے اور اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دے(2)

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص ۱۶ -

(2):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۴ -

۷۹

 بلکہ دوران غیبت میں چونکہ احکام حکومتی اسلام جاری وساری ہیں کسی قسم کی ہرج و مرج  قابل قبول نہیں ہے ،پس حکومت اسلامی کا تشکیل دینا ہماری ذمہ داری ہے جسکا عقل حکم کرتی ہے ،تاکہ کل اگر ہم پر حملہ کرے یا ناموس مسلمین پر ہجوم لانے کی صورت میں دفاع کر سکے اور انھویں روک سکے ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں ،کہ کیا پیغمبر اکرم (ص)نے جن قوانین کی تبلیغ وتبین اور نشروتنفیذ کے لیے ۲۳ سال طاقت فرسا زحمتیں برداشت کی وہ قوانیں محدود مدت کے تھیں ؟ یا خدا نے ان قونیں کے اجرا کرنے کو ۲۰۰ سال تک کے لیے محدود کیا  ؟ کیا غیبت صغری کے بعد اسلام نے سب کچھ  چھوڑ دیا ؟(بے شک ) اس طرح کا عقیدہ اور اسکا اظہار کرنا اسلام کے منسوخ  ہو جانے پر عقیدہ رکھنے اور اسے اظہار کرنے سے زیادہ بدتر ہے ، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب اسلامی مملکتوں کا انکے حدود اور باڈروں کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے یا مالیات ،جزیہ ،خمس وزکواۃ  اور ٹیکس نہیں لینا چاہیے ،یا اسلام کے کیفری احکام دیات؛  قصاص سب کی چھٹی ہے(1)  

دوسرا اور بدترین گروہ

اس گروہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف سماج سے ظلم وستم  کو ختم کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے بلکہ  ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو گناہوں کی طرف دعوت دیں اور جتنا بھی ہو سکے ظلم وبربریت کے دائرے کو بڑاھنے کی کوشش کریں تاکہ امام زمانہ کی ظہور کے لیے زمینہ فراہم ہو جاۓ ،اس گروہ   میں بعض خود غرض  افراد بھی ہوتے ہیں  جو سوچھے سمجھے فساد کی طرف دعوت دیتے  ہیں  اور بعض ایسے سادہ لوح افراد بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے غلط افکار کی زد میں آکر منحرف  ہوچکے ہوتے ہیں ۔انکے رد میں رہبر کبیر امام خمینی فرماتے ہیں :یہ جو کہتے  ہیں ضروریات اسلام کے خلاف ہے ،یہ کہ ہم خود بھی گناہ  انجام دیں اور معاشرے میں بھی گناہوں کو  پھلائے تاکہ حضرت حجت         جلدی ظہور کرے ،....حضرت حجت      ظہور کریں گے تو  کس لیے ظہور کریں گے ؟ اس لیے ظہور کریں گے کہ دنیا  میں عدالت پھیلانے کے لیے   ،حکومت کو تقویت دینے کے لیے ، فساد کو زمین سے ریشہ کن کرنے کے لیے ظہور کریں گے ،

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۵ -

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109