امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات0%

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 109

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: فداحسین حلیمی
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 109
مشاہدے: 86408
ڈاؤنلوڈ: 5207

تبصرے:

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86408 / ڈاؤنلوڈ: 5207
سائز سائز سائز
امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

لیکن ہم قرآنی آیات کے خلاف امر بالمعروف اور نہی از منکر بجا لانے کی بجائے   گناہوں کو پھیلانے کی فکر میں رہیں تاکہ حضرت جلدی ظہور کریں ،کیا آنحضرت جب ظہور کریں گے تو یہی کام انجام دینگے ؟ ابھی دنیا ظلم وجور سے بھرا ہوا ہے ...اگر ظلم وجور کو روک سکتے ہیں تو ہماری ذمہ داری اور تکلیف ہے اسکی روک تھام  کریں ؛  اور ضرورت اسلام اور قران نے ہماری ذمہ داری  ڈال دی ہے کی  ہم قیام کرے اورہر  کام  انجام دے(1) یقیناً  اس قسم کا انتظار جس میں ایک قسم کی  حدود  و قوانین اور اسلامی مقررات کا تعطیل ہونا لازم آتا ہو اور منتظرین کو گناہوں کی طرف دعوت دے ایسے انتظار خود امام زمانہؑ کے ارشاد کے مطابق ظہور کی راہ میں سب سے بڑا مانع اور سد راہ ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں :و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم  (2) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارا احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتا : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوگی ،اور ہمیں شیعون سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کے کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات ےاضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کے وفا کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت واطاعت ہے اور جو چیز امام زمانہؑ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  مانے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط بھی ہے

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۵ -

(2):- الاحتجاج ج : 2 ص : 499    

۸۱

عصر ظہور

سوال نمبر 16: کیا امام زمانہ  حضرت مہدی منجی عالم بشریت کے ظہور پر شیعہ سنی سب متفقہ عقیدہ رکھتے ہیں ؟

جواب :یملأ الارض قسطا و عدلا كما ملئت جورا  (1) اس انتہائی مشہور ومعروف حدیث کے مطابق ۔جسے بے شمار راویوں نے نقل کیا ہے ۔جب دنیا سخت ترین اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہوگئی ہر طرح ظلم وتشدد کے شغلے بھرک رہے ہوں گے ؛انسانی معاشرے میں امن وامان نا پید ہو چکی ہو گئی ہر طرح  فاسقون فاجروں اور کافروں کا راج اور انکی حکومت ہو گی انسانی اقدار دم توڑ چکی ہوں گئی اور انکی جگہ اخلاقی اور اجتماعی برائیوں کا دور دورہ ہو گا کمزور او چھوٹے ممالک اور اقوام کی حمایت و حفاظت کے نام پروجود میں آنے والے ادارے انکے خلاف انکے ہی نسل کشی و غارت گری کے لیئے استعمال ہونگے خلاصہ یہ کہ جب ہر طرح کی خباثت ؛ فحشا وفساد اور منکرات کا رواج ہو گا تو وہ عظیم الشان مصلح عالم روئے زمین پر حق وعدالت کی حکومت کا پر چم لہرائے گا اور چھوٹے بڑے قصبوں ؛ شہروں ؛سے لے کر دور ودراز دیہاتوں تک دنیا کے ہر کونہ کونہ نور اسلام سے جلوہ فگن ہو گا ؛ ذاتی اعراض اور منافع سے پاک الھی قوانیں کی حکمرانی ہو گی اور انسانی اقدار پھر سے معاشرہ میں زندہ ہو گی اور کائنا ت کا خاتمہ جب تک مھدی موعد موجود  ظہور نہ کرے اور ظلم جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر نہ دئے نہیں ہوگئی ۔

چنانچہ آخری دور میں مصلح عالم حضرت مھدی موعود  کے ظہور کے بارے میں اصحاب تابیعیں تابعیں کے پیروں سے لے کرآج تک کوئی اختلاف نہیں ہے اسیلیے اس اجماع مسلمیں کا اعتراف  مہدویت کے منکر ابن خلدوں نے اپنی مقدمہ تاریخ میں بھی کیاہے

--------------

(1):- مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح ال کاف ی 6 ؛ ص235، الم کتبة ال اسلام یة - ت ہران، چاپ: اول، 1382 ق. نقلا عن سنن ابن اب ی داود ترمذی

۸۲

۔ ابن خلدوں کہتا ہے :واعلم انّ المشهور بین الکافة من آهل الاسلام علی ممرّ الاعصار انه لابّد فی آخری الذمان من ظهور رجلٍ من اهل البیت   یؤید الدین ویظهر العدل ویتبعه المسلمون ویستولی علی الممالک الاسلامیة ویسّمی بالمهدی (1)    جان لو !ہر دور میں یہ بات تمام مسلمانوں کے درمیاں مشہور رہی ہے کہ آخری زمانہ میں حتمی طور پر اھل بیت اطہار  کی نسل سے ایک شخص ظہور کرئے گا جو دین کی نصرت اور عد ل و انصاف کو ظاہر کرئے گا تمام مسلمانوں اسکی پیروی کریں گے اور وہ تمام اسلامی ممالک کاحکمران ہو گا اور اسکا نام مھدی  ہو گا ۔

اسی طرح علامہ مروی قرن    3    کے مشہور اہل سنت عالم اپنی کتاب سوائک الذھب میں یوں تحریرفرماتے ہیں:الذّی اتفق علیه العلماء انّ المهدی هو القائم فی آخر الوقت وانه یملاء الارض عدلاًوالاحادیث فیه کثیرة ُ (2)   اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ حضرت مھدی  ہی آخری زمانہ میں قیام فرمائیں گے اور زمین کو عدلو انصاف سے بھر دیں گئے جبکہ انکے وجود اور انکے ظھور سے متعلق روایات بہت ذیادہ ہیں ۔ اسیلے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء نے تیس سے زیادہ کتابیں اسی موضوع کے متعلق لکھی ہے ۔(3)  

 سوال نمبر 17:  حضرت امام مھدی  کے ظہور کی نشانیاں اور شرائط کیا ہیں    ؟

     جواب : حضرت امام مھدی  کے ظہور کی کچھ نشانیاں اور شرائط ہیں جن کو ظہور کے اسباب اور علامات ظہور کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے ۔ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اسباب کا مہیا ہونا ظہور میں واقعی طور بر اثر رکھتا ہے اس طرح کہ ان اسباب کے ہموار ہونے سے امام  کا ظہور ہو جائے گا اور ان کے بغیر ظہور نہیں ہو سکتا ۔

--------------

(1):- مقدمہ ابن خلدوں ص367

(2):- سوائک الذھب ص28

(3):- رجوع کریں نوید امن امان  ؛ صافی گلپائی گانی ص78

۸۳

لیکن جہاں تک علامات اور نشانیوں کا تعلق ہے تو وہ ظہور میں کوئی اثر نہیں رکھتیں بلکہ صرف ظہور کی نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ ظہور کے زمانہ یا ظہور کے قریب ہونے کو پہچانا جا سکتا ہے ۔ پس شرائط اور اسباب کا مہیا ہونا نشانیوں سے ذیادہ اہمیت رکھتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ نشانیوں کو تلاش کرنے سے پہلے امام زمانہ  کے ظہور کی شرائط پر توجہ دیں اورہر ایک اپنی اپنی قدرت کے مطابق ان شرائط کے مہیا کرنے میں سہیم بنائے تاہم ہم یہاں امام زمانہ کے ظہور کے کچھ اہم اسباب اور عالمات بیان کرتے ہیں ۔

ظہور کی شرائط اور اسباب

اس کا ئنات میں پروردگار عالم کی سنتوں میں ایک سنت(إن اللّه سبحانه یجری الأمور علی ما یقتضیه لا علی ما ترتضیه‏ (1)    ہر چیز کا جب تک اپنی اسباب اور شرائط مہیا نہیں ہوتی وجود میں نہیں آتی مثال کے طور پر اگر کسی زمین میں کوئی سا بیج دال دے تو وہ دانہ اس وقت نکل آے گا جب اس کے لیے مناسب آب وہوا اور مٹی مل جاے اسی بنا پر معاشر ے کی اصلاح کے لیے یا معاشرے میں انقلاب لانے کے لیے بھی زمینہ فراہم ہونا اور اسکے لیے اسباب مہیا ہو بھی ضروری ہے لہذا حضرت مھدی  کا عالمی انقلاب اور قیام میں بھی کو معجزہ درکار نہیں ہے بلکہ جب تک اسباب اور شرائط پوری نہ ہو جائیں اس وقت تک واقع نہیں ہو گا ۔ اسیلے اما محمد باقر  سے کسی شخص نے کہا لوگ کہتے ہیں جب امام مہدی  کا ظہور ہو گا تو تمام امور ان کی مرضی کے مطابق خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے ۔امام  نے فرمایا : ہرگز  ایسا نہیں ہے قسم ہے اس ذات کی جس نے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ؛ اگر یہ طے ہوتا کہ کسی کے کام خود بخود ہو جایا کری تو پھر ایسا تو رسول اکرم (ص) کے لیے ہوا چاہئے تھا(2)    اور امام زمانہ  کے عالمی مشن اور نظام کے قیام تین عنصر کی ضرورت ہیں جو کہ ہر انقلاب اور نظام کے قیام اور استحکام کے لیے ضروری ہے ۔

--------------

(1):- غرر الحکم و درر ال کلم / 222 / 56 ص : 222

(2):- غیبت نعمانی ؛ باب2 ح  15

۸۴

1۔ شائستہ قیادت

 ہر انقلاب اور قیام میں رہبر اور قائد کی ضرورت سب سے پہلی ضرورت شمار کی جاتی ہے اور انقلاب جس قدر وسیع اور بلند مقصد کا حامل ہوتا ہے اس انقلاب کا رہبر اور قائد بھی ان اغراض و مقاصد کے لحاظ سے عظیم و بلند مر تبہ ہو نا ضروری ہے ۔ حضرت مھدی  جو انبیاء اور اولیا  کے وارث ہیں اس عظیم الشان انقلاب کے رہبر کے عنوان سے حاضر اور زندہ ہیں صرف آپ ہی اسیے رہبر ہیں جو عالم غیب سے رابط کی وجہ سے کائنات اور اسکی اشیاء کے باہمی روابط سے مکمل طور پرآگاہی رکھتے ہیں اور اپنے زمانے کے سب  سے بابصیرت اور علم لدنی کے مالک ہیں ۔جیسا کہ پیغمبر اکرم  (ص)سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں:آگاہ رہو کہ مہدی  تمام علوم کے وارث ہیں تمام علوم پر احاطہ رکھتے ہیں  ۔(1)

2۔کامل قانوں اور دستور

دوسرا عنصر انتہائی ضروری ہے وہ ہے قانوں ایک ایسا قانون کہ جس میں تمام معاشرتی ضروریات کا خیال رکھا گیا ہو اور وہ قانون ایک عادلانہ نظام حکومت کے تحت تمام  انفرادی اور اجتماعی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہو اور معاشرے کی ترقی کی سمت کا رخ اسکی منزل مقصود کی طرف موڑدے ۔ اور وہ قانون اور دستور بھی قرآن سنت اور سیرت اہلیبیت  کی شکل میں موجود ہے ۔

3 ۔لوگوں کے اطاعت کے لیے آمادگی

کامل قانوں اور شائستہ رہبر اس وقت کار آمد ثابت ہوتے ہیں کہ جب امت اسکی اطاعت کرنے لگے اور معاشرے میں لائق انصار اور مددگار موجود ہوایسے جان نثارمددگاروں کی بھی ضرورت ہے جنکی کی کچھ صفات راویات میں آئی ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں : وہ لوگ اپنے امام کی اطاعت میں کوشاں رہتے ہیں(2) :

--------------

(1):- نجم الثاقب ؛ص193

(2):- منتخب الاثر فصل8؛باب 1 ؛ح 2

۸۵

 یا امیر المؤمنین  فرماتے ہیں وہ ایسے شیر ہیں جو خود باہر نکل آئے ہیں اور اگر چاہیں تو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہیں(1) :  صادق آل محمد فرماتے ہیں : وہ لوگ رات بھر عبادت کرتے ہیں اور دن میں روزہ رکھتے ہیں حتی کہ گھوڑوں پر سواری کی حالت میں بھی خدا کی تسبیح کرتے ہیں: (2)  

اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شرط اب تک فاقد ہے تو ہم سب کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم خود بھی ذہنی طور پر تیار ہو جائے اور دوسروں کو بھی آمادہ کرے ۔

ظہور کی علامات اور نشانیاں

روایات میں امام مھدی  کی بابرکت ظہورکے کچھ نشانیاں اور علاما ت بیاں ہوئی ہے ان نشانیوں کی طرع متوجہ رہنا منتظریں اور مؤمنیں کے ایمان ؛ استقامت ؛صبر اور ولولہ میں اضافہ کے باعث بننے کے ساتھ ساتھ دشمنوں "گمراہوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہے تاکہ وہ ان برائیون سے باز آجائیں ۔ اھل بیت اطہار سے امام مھدی  کے ظہور کی بہت سے نشانیاں ذکر ہوئی ہیں تاہم ان نشانیوں کو دو حتمی اور غیر حتمی میں تقسیم کرسکتے ہیں ابن فضیل نے امام محمد باقر  سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا ظہور کی نشانیاں دو طرح کی ہے ایک حتمی اور دیگر غیر حتمی (3)

1۔ حتمی علامات

حتمی اورقطعی نشانیاں وہ ہیں جنکا نمایاں ہونا ظہور سے پہلے ضروری ہے :

--------------

(1):- یوم الخالص ؛ ص224 

(2):- بحار ؛ ج52 ؛ ج308

(3):- غبتر نعمانہج باب81 ص 429

۸۶

1۔سفیانی کا خروج

سفیانیکا خروج بہت سی روایات میں بیاں ہونے والی ان حتمی نشانیوں میں سے ہے  اسکا تفصیل یہ ہے کہ سفیانی ابوسفیان کی نسل سے ہوگا جو ظہور سے تھوڑی مدت پہلے سر زمین شام سے خروج کرے گا وہ ظالم وجابر ہو گا جس کو قتل وغارت کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی اور اپنے دشمنوں سے بہت ہی بُرا سلوک کرے گا :حضر ت امام صادق  اس بارے میں بیاں فرماتے ہیں : اگر تم سفیانی کو دیکھو گے تو تم نے گویا سب سے پلیداور بُرے اناسن کو دیکھ لیا ہے  :قَالَ: لِلْقَائِمِ خَمْسُ عَلَامَاتٍ‏ ظُهُورُ السُّفْيَانِيِّ وَ الْيَمَانِيِّ وَ الصَّيْحَةُ مِنَ السَّمَاءِ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الزَّكِيَّةِ وَ الْخَسْفُ بِالْبَيْدَاءِ. (1)

2۔ خسف بیدا ء

خسف بیداء مکہ ومدینہ کے درمیاں ایک صحرائی علاقہ کا نام ہے جہاں سفیانی کا لشکرزمین میں دھنس جاے گا ۔ امام صاد ق فرماتے ہیں ۔ حضرت قائم کے ظہور سے پہلے پانچ نشانیاں حتمی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔صحراء کا پھٹ جانا ہے

3 یمنی کا قیام

سر زمین یمنی اس صالح اور مومن شخص کا نام ہے جو ظلم وبربریت کے خلاف یمن کے سرزمن پرامام مھدی  کے ظہور سے پہلے قیام کریں گے امام محمد باقر  فرماتے ہیں : امام مھدی کے قیام سے پہلے بلند ہونے والے پرچموں کے درمیاں یمنی کا پرچم تمام ہدایت کرنے والے پرچموں میں سب سے بہتر ہو گا ؛ کیونکہ وہ تمہارے آقا کی طرف دعوت دے گا ۔(2)

--------------

(1):- الغیبة( للنعمانی) / النص / 252 / باب 14

(2):- غبیت نعمانہ ن ؛باب14/ ح13/ص 264

۸۷

4۔ نفس زکیہ کا قتل

نفس زکیہ سے مراد اس ممتاز اور پاک سرشت شخصیت ہیں جو اما م  کے ظہور سے پہلے آپ  کے مخالفیں کے ہاتھوں قتل ہو جائے گی بعض روایات کے مطابق یہ واقعہ امام  کے ظہور سے 15 دن پہلے واقع ہو گا حضرت صادق  اس بارے میں فرماتے ہیں : قائم آل محمد  کے ظہور اور نفس زکیہ کے قتل میں صرف 15 دن رات کا فاصلہ ہو گا  :(1)

5۔ صیحہ آسمانی

بعض روایات کے مطابق امام عصر  کے ظہور سے پہلے جناب جبرئیل آسمان سے نام مقدس حضرت مھدی لے کے آوازدیں گے کہ جس کو تمام آہل مشرق ومغرب سن لیں گے ۔چنانچہ امام صادق   سورہ ق ؛کی آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں : آسمان سے آواز دینے والا حضرت مھدی کو آپ کے نام اور آپ کی ولدیت کے ساتھ پکارے گا(2)

2۔ غیر حتمی علامات

غیر حتمی علامتوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو کسی نہ کسی شرط کے ساتھ مشروط ہیں جب تک وہ شرط تحقق نہ پائے وہ مشروط بھی حتمی نشانیوں میں شمار نہیں ہوتی ۔ان غیر حتمی نشانیوں کے متعلق امام صادق  سے ایک انتہائی طولانی روایت ہے جس میں 1 سے اوپر علامات بیاں ہوئی ہیں رجوع کریں  (3)

--------------

(1):- کمال الدین ؛ ج2 / باب 57 /ح2 /ص 554

(2):- معجم احادیث الامام مھدی؛ج3 /ص 253

(3):- بحار ؛ج52 /ص 256

۸۸

امام مھدی  کی حکومت

سوال نمبر 18 :   امام مھدی  کی حکومت کیسی ؟کہاں اور کن کن خصوصیت کے حامل ہو گی ؟

جواب :وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ ءَامَنُواْ مِنكمُ‏ْ وَ عَمِلُواْ الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فىِ الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ (1)    تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اوراس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔ امام مھدی  کے اس عالمی انقلاب کے نتیجے میں پروردگار عالم کا حتمی وعدہ روئے زمین پر پہلی بارا تحقق ہوگا ؛ اور صفحہ ہستی سے ظلم وستم ؛برائیوں ؛ تباہیوں ؛ خیانتوں ؛ اور ہر قسم کی فکری اور عملیانحرافات سے مکمل مقابلہ کے بعد  (البیعة للہ ) کی بنیاد پر ایک ایسی الھی نظام اور حکومت تشکیل پائے گی جسکی بنیاد توحید اور مکمل طور پر حق وعدالت پر مبنی ہوگئی ؛ایک ایسی حکومت جو مظھر تام(قائماً بالقسط ) (2)   ہوگئی جس میں ذرہ برار ظلم وستم نہیں ہوگا اسکا دار الحکومت نجف اور کوفہ اور بر گ و شاخ پوری دنیاپر چھا جائے گئی اور نفسانی وسوسوں اور شہوتوں کی وجہ سے مردہ انسانیں کو دوبارہ ایک نئی زندہ گی کلے گی تاکہ وہ مسجود ملائکہ کو حقیقی زندگی اور واقعی حیات کی شیرینی چکھائے اور اس الھی حکومت کی خصوصیت  کچھ یوں ہو گئی

--------------

(1):- نور : 55

(2):- العمران18

۸۹

1: معنوئی ترقی

بے شک دنیا میں جتنے بھی انبیاء ؛ اوصیاء اور مصلح آئیں ہیں ان سب کی تمام تر کوششیں لوگوں کی معنوی زندگی کورشد دے کر انھیں مقام انسانیت تک لے جانے کے لیے تھا اور انسان کو اسی معنوی زندگی کی وجہ ہے ہی انسان کہا ہے اور اسی سے ہی دیگر حیوانات سے جدا ہوتا اور اسی راہ سے ہی انسان کو  راز خلقت (جو کہ قرب الھی) ہاتھ آتا ہے جبکہ معنویت کی کمزوری ہر دور میں تمام تر معاشرتی اور فردی بد بختیوں اور خرابیوں کا پیش خیمہ بنی ہے لھذا جسطرح قرآن مجید نے ہمیں خبر دیا ہے :الَّذِینَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فىِ الْأَرْضِ أَقَامُواْ الصَّلَوةَ وَ ءَاتَوُاْ الزَّكَوةَ وَ أَمَرُواْ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْاْ عَنِ الْمُنكَرِ  وَ لِلَّهِ عَقِبَةُ الْأُمُو  * (1) یہ وہ لوگ ہیں، اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت مھدی عجل ﷲ فرجہ الشریف کی حکومت عدل الھی کے سایے میں ہر جگہ برائیون اور تباہیوں کی جگہ معنویت  اور عبودیت لے  آئےگئی اور جب معاشرے میں معنویت عام ہو جائے تو خود بخود اس معاشرے میں صدق؛ صفا ؛ ایثار ؛ محبت ؛ اچھائی؛ اور نیکی پھیل جائیں گے اورزندگی کے تمام پہلو میں انسانی اقدار کی رونق اور شادابی ہو گئی۔ چنانچہ امیر المؤمنیں فرماتے ہیں ک لوگ حضرت مھدی کے زمانے میں عبادت اور معنویت کی طرف مائل ہوں گے اور نماز جماعت سے پڑھیں گے(2) :  نیز فرماتے ہیں انکے دور میں لوگوں کے دلوں سے کینے ختم ہو جائیں گے(3)

--------------

(1):- حج :41

(2):- احقاق الحق ؛ج13 ؛ ص 312 

(3):-  الغیبة طوسی ؛ ص295 

۹۰

2: کتاب وسنت کی احیای

هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون* (1) ۔

اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے ۔  خداوند عالمیں کا یہ حتمی وعدہ امام مھدی  کے دور میں انکے الھی نظام کے زیر سائے میں محقق ہوگا اور سراسر عالم سے بد پرستی اور شرک کے آثار مٹا کر شریعت کے قوانین کو نافذ کیا جائے گا۔ چنانچہ تفسیر عیاشی میں مذکورةآیت کی ذیل میں آیا ہے :و الله ما نزل تأویلها بعد و لا ینزل تأویلها حتی یخرج القائم علیه السلام، فاذا خرج القائم لم یبق كافر بالله العظیم و لا مشرك بالإمام الأكرة خروجه، حتی لو كان كافر أو مشرك فی بطن صخرة لقالت: (2)   جب ہمارے قائم قیام کریں گے  تو دیکھنے والے دیکھ لیں گئے کہ روئے زمین پر کوئی مشرک نظر نہیں آئے گا دین اسلام ہر جگہ پہو نچ چکا ہو گا  ـ آیة ﷲ جوادی آملی فرماتے ہیں : حضرت حجت کے دور  میں نہ صرف کفروشرکو بتپرستی کے آثار مت جائے گی بلکہ ہر قسم کے اضافی تشریفات ؛ رسومات ؛ عادات اور تجمل پرستی کا بھی خاتمہ ہوجاے گا(3)

3 : عدالت میں وسعت

جس چیز سے غریب اور کمزورعوام سب سے زیادہ رنجیدہ ہے وہ معاشرے میں اجتماعی زندگی میں عدل وانصاف کا فقدان ہے ؛ ہمیشہ سےشکم سیر لوگوں کے ساتھ ایک بہت بڑا گروہ بھوکا رہا ہے اور ہمیشہ سے غریبوں اور کمزوروں کے حقوق طاقتوروں اور مکاروں نے پامال کئے ہیں ۔

--------------

(1):- توبہ: 33

(2):- تفسیر نور الثقل ین، ج 2، ص: 212

(3):- امام مھدی موجود موعود ص257 طبع 3

۹۱

 لیکن بشر فطری طور پر زندگی کے ہر پہلو میں عدل وانصاف کے خواہاں ہے اور یہ درینہ آرزو  امام مھدی  کے حق وعدالت پر مبنی حکومت کے زیر سایے میں محقق ہو گی چنانچہ امام حسین  فرماتے ہیں : اگر دنیا کی عمر کا ایک دن بھی رہ جائے تو خداوند عالم اس دن کو اتنا طولانی کردے گا کہ میری نسل سے ایک شخص قیام کرئے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح ظلم جور سے بھر ی ہو گئی  (1)

4: علم معرفت میں ترقی

امام مھدی  کی حکومت علماء اور دانشوروں کی  سر پرستی اور بذات خود آپکی زیر نگرانی میں تشکیل پائے گئی لھذا آپکی حکومت کا ہر پروگرام علم ومعرفت اور انسانی دانش کی عظیم پیش رفت  اور ترقی کا سبب بنے گا ؛ روایات بتاتی ہیں کہ علم ودانش کا ادراک اور شعور امام زمانہ  کے دور میں آج کی ترقی سے قابل مقائسہ نہیں ہوگا یہاں تک صنعت اور تکنالوجی کے اعتبار سے بھی حیرت انگیز ترقی ہوگی لیکن آج کی ترقی اور امام زمانہ  کے دور کے علمی ترقی میں فرق یہ ہو گا کہ آج انسان جتنے ترقی کرتا جارہا ہے اتنا ہی انسانیت سے دور دن بدن اخلاقی اور اجتماعی فسادات کے دلدل میں ڈھوپ رہا ہے جبکہ اس کے بر عکس آپ کے دور میں اس نظام عدل الھی کے نفاذ کے نتیجے میں جتنی علم ودانش اور سائنس ؛ تکنالوجی ترقی کر تا جائے گا اتنا ہی انسان اخلاق کی بلندی اور انسانی کمالات کے اعلی منزل فائز ہوتا جاے گا ۔حضرت صادق آل محمد اس دور کی علمی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: علم ودانش کے 27 حروف ہیں اب تک جو کچھ انبیاء  نے پیش کیا ہے وہ دو حرف ہے اور بس جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو باقی 25 حروف کو بھ پیش کریں گے ۔اسی طرح امام محمد باقر  اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں : اما مھدی کے دور میں تمھیں حکمت دیا جاے گا یہاں تک عورتیں گھروں میں کتاب وسنت کے مطابق فیصلہ کیا کریں گے(2)

--------------

(1):-   عبد الرزاق المصنف ؛ج1 ؛ ص 402 اور الفتن لابن حماد ؛ص 162

(2):- نعمانی ص239

۹۲

  نیز آپ  فرماتے ہیں :اذا قام قائمنا وضع یده علی رؤوس  اور جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو لوگوں کے سروں پر اپنا ہاتھ رکھیں گئے جسے انکے عقل جمع ہو جاے گئی اور انکا اخلاق کامل ہو جاے گا(1)    یہ روایت کنایہ ہے اس دور میں عقل اور فکر انسانی کی بے تحاشا ترقی کی طرف کہ جو کسی خاص طبقہ کے لے مختص نہیں بلکہ معاشرے کے ہر طبقہ کے لیے ہوگئی۔

5:  بدعتوں کا مقابلہ

آج کے مادہ پرست دور میں دین دار اور دینی اصولوں کے پابند لوگ بہت کم نظر آتے ہیں اور اکثر لوگ یا تو دین سے ناواقف ہیں یا تو من مانی منگھڑٹ بدعتوں  کو دین کا جز قرار دے کر انکے پیچھے پھر تے ہیں ؛ جو کہ حقیقت میں خدا و ر رسول (ص) کے ساتھ جنگ  اور اپنے نفس کی خواہشات کے پیروی کرنا ہے(2) ۔ لیکن امام مھدی  کی دور حکومت میں آپ سنتوں کو دوبارہ زندہ اور بدعتوں کی بساط لپیٹ لیں گئے ؛ امام محمد باقر  اس بارے میں فرماتے: وَ لَا يَتْرُكُ بِدْعَةً إِلَّا أَزَالَهَا وَ لَا سُنَّةً إِلَّا أَقَامَهَا (3)    کوئی بھی بدعت ایسی نہیں ہو گئی جسکو جڑ سے اکھاڑ نہ پھینکیں اور کوئی بھی سنن ایسی نہیں ہو گئی جسکو زندہ نہ کریںـ

6:  امنیت

آج انسانی معاشرے کے پیکر پر جو سب سے بڑا زخم ہے جسکی وجہ سے بشر ہر جگہ بے چینی اور اضطراب کا شکار ہے وہ زندگی کے مختلف پہلو میں امنیت کا فقدان ہے ؛ آج دنیا میں ہر کمزور اور ضعیف خواہ وہ افراد کی شکل میں ہو یا آقوام کی شکل میں ہو یا خطے کی شکل میں مالی اور جانی اور عرض و عزت نفس کی اعتبار سے

--------------

(1):- بحار ؛ج52 ؛ص 332 

(2):- مزاان الحکمہ ؛ ح649 

(3):- بحار الانوار (ط - ب یروت) / ج 55 / 92 /. ص : 61

۹۳

 ہر اعتبار سے شیطانی اور استکباری عالمی طاقتوں کے پاوں کے نیچے دست وپنجہ نرم کررہا ہے ؛ لیکن امام حجت عج کی حکومت کے سائے میں نہ صرف انسانی معاشرے میں امنیت قائم ہوگی لوگوں کی جان ومال وعزت آبرو محفوظ ہو جائے گئی بلکہ امنیت اور سالمیت کا دائرہ ھر جاندار اور ذی روح تک پھل جائے گا ؛ پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا تاکہ لوگ اپنی فطرت کی جانب بازگشت کریں نہ کوئی ناحق خون بہے گا اور نہ کسی سوئے کو جگایا جائے گا(1) ۔ نیز آنحضرت (ص) فرماتے ہیں  ایک عورت ظلم وستم ناانصافی سے بے خوف وخطر ہو کر شب کو سفر کرئے گئی  .(2)

7 : اقتصاد ی ترقی اور دولت کا عادلانہ تقسیم

وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَی ءَامَنُواْ وَ اتَّقَوْاْ لَفَتَحْنَا عَلَیهِْم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ (3)  اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔ بے شک ایک کامل نظام اور معاشرے کی پہچان صحیح اقتصاد کے ائپر ڈپند ہے ؛ اگر معاشرے میں مال ودولت اور مادی وسائل سے صحیح فائدہ اٹھایا جائے اور تقسیم دولت میں عدالت کا لحاظ رکھا جائے تو  پھر اس معاشرے سے فقرو فاقہ ؛ محرومیت اور تنگ دستی کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا اور لوگ فطری طور پر دین اور معنویت کی طرف توجہ دیں گئے اور تقوای اختیار کرنے لگیں گے اور جب معاشرے با تقوای ہو جائے تو پروردگار عالم کا حتمی وعد ہ محقق ہو گا اور زمین آسمان میں برکت اور رحمت کے دروازے کھول دیا جائے گا جیسا کہ امیر المؤمنین علی  اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں :ولو قام قائمنا لانزلت السماء قطرها ولاخرجت الرض نباتها (4)

--------------

(1):- لامامة والتبصرة ص121اور خصال ؛ باب 400 ؛ ص 255

(2):-  المعجم الکبیر ؛ج6 ؛ ص 179 

(3):-   اعراف : 96

(4):-  خصال للصدوق  ص626

۹۴

جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو حتما ً آسمان سے بارشیں ہوگئی اور زمین دانہ اگائے گئی اسی طرح بعض روایات میں آیا ہے : وتظہرلہ الکنوز  تمام خزانے انکے لیے ظاہر ہو جائیں گے(1)   نیز پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : وہ مال ودولت کو صحیح تقسیم کریں گے(2)   اور معاشرے میں مال کا مساوات کے ساتھ تقسم کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کوئی فقیر اور مختاج نہیں رہے گا اور زکاة لینے والا تک نہیں ملے گا ؛ چنانچہ آنحضرت (ص) اس بارے میں فرماتے ہیں : انکی حکومت میں مال کا ڈھیر لگ جائے گا(3)   مذید یہ کہ خداوند عالم لوگوں کے دلوں کو غنی وبے نیازی سے بھر دے گا اسحد تک کہ حضرت اعلان کریں گے جسیے مال ودولت چاہیے وہ میرے پاس آئے 1 لیکن کوئی آگے نہیں بڑھے گا ۔(4)

8: محرومیں اور مستضعفیں کی نجات

 اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مھدی  کا قیام معاشرے میں عدالت کی برقراری اورسماج سے محرمیت کی بیخ کنی کے لیئے ہی ہو گا ۔ اسیلیے امیر المؤمنین  فرماتے ہیں : حضرت مھدی ظہور کریں گے تو کوئی مسلمان غلام نہیں ہوگا مگر یہ کہ حضرت اسے خرید کر آذاد کردیں نیز کوئیقرضدار نہیں ہوگا مگر یہ کہ حضرت انکے قرض ادا کردیں گے(5)    اسی طرح امام محمد باقر  فرماتے ہیں : آپ  سال میں دو مرتبہ لوگوں کو بخشش عنایت کریں گے اور مہینہ میں دو دفعہ ان کی روزی انہیں عطا فرماے گا لوگوں کے درمیاں مساوات قائم کریں گے یہاں تک زکواة لینے والا کوئی نیاز مند نہیں ملے گا  (6) خلاصہ یہ کہ حضرت حجہ  کی حکومت میں انسان اندرونی اور بیرونی لحاظ سے بے نیاز ہو جاے گا اور دولت کی عادلانہ تقسیم سے خود بخود انکے اندر قناعت آجائے گئی ۔ امید ہے کہ پرودرگار عالم جلد از جلد وہ دن دیکھنے کی توفیق عطا فرمائیں !

--------------

(1):- کما ل الدین ؛ ج1 باب 32  ح 16  (2):- بحار ؛ج51 ص 81 

(3):- مستدرک ؛ج4 ص 558 (4):- المصنف ؛عبد الرزاق ؛ ج1 ؛ ص 402

(5):- تفیر عیاشی ؛ج1 ؛ ص64 (6):-  بحار ؛ج52 ؛ح 212 

۹۵

رجعت

سوال 19 :   کیا امام مھدی کے قیام کرنے کے بعد مردہ لوگوں کے ایک گروہ رجعت کریں گے ؟

جواب :  امام مھدی کے عالمی قیام کے بعد قیامت کے آنے سے پہلے لوگوں کے ایک گروہ کا اسی دنیا میں پلٹ کر آنا ضروریات مذہب میں سے شمار ہوتا ہے   ' سیّد مرتضی علم الھد ی  فرماتے ہیں:أنّ الذی تذهب الشیع الإمامیه أن الله تعال یعید عند ظهور مام الزمان المهدی ع قوما ممن ان قد تقدم موته من شیعته لیفوزوا بثواب نصرته و معونته و مشاهده دولته و یعید ایضا قوما من عدائه لینتقم منهم فیلتذوا بما یشاهدون من ظهور الحق و علو لم هله (1) شیعہ امامیہ کے اعتقادات میں سے یہ ہے کہ ﷲ تعالی امام مھدی  کے ظہور کے وقت شیعوں کے ایک گروہ کو جو پہلے مر چکے  ہوں گئے انکو دوبارہ پلٹایا جائے گا تاکہ امام زمانہ کی مدد اور نصرت کا ثواب انکے نصیب میں ہونے کے ساتھ ساتھ انکی حکومت کا مشاہدہ کر کے خوش حال ہوں نیز انکے دشمنوں سے بھی ایک گروہ کو دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں بیجھ دیے گا تاکہ انسے انتقام لے سکے : رجعت عالم مادی میں کلی طور پر قیامت کے دن حیات نو سے مشابہت رکھتا ہے  اسیلے  جناب آلوسی آہل سنت کے مشہور مفسر کہتے ہیں :وکون الاحیاء بعد الاماته والارجاع الی الدنیا من الامور المقدوره له عزّوجل ممّا لا نستطیع فیه کبشان لاّ انّ الکلام فی وقوعه … مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور دنیاکی طرف پلٹانا ایسے امور میں سے ہیں جوخدا کی قدرت کے مطابق ہے کہ کوئی بھی شخص اس میں شک وشبہ نہیں رکھتا صرف اسکے واقع ہونے میں بحث ہے ۔ لہذا ایک طرف عقلی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو جس طرح جناب آلوسی فرماتے ہیں رجعت ایک ممکن امر ہے  اگر خداوند عالم ارادہ کے لیے تواسمیں تعجب کی کوئی گنجائش نہیں

--------------

(1):-   بحار الانوار  ط - بیروت / ج53 / 138 / ص : 138

۹۶

دوسری طرف  قرآن کریم نے متعدد آیات میں مختلف مقامات متعدد  افراد کے مرنے کے بعد دوبارہ پلٹ کر آنے کا تذ کرہ کیا ہے ۔جیسا کہ سورة بقرہ کی 243 آیت جس پرودگار عالم اپنے رسول کو یوں یاد دھانی کراتاہے ۔*  الم تر ِالی الذِین خرجوا مِن دِیارِهِم و هم الوف حذر الموتِ فقال لهم الله موتوا ثم احیاهم (1)   کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جا، پھر انہیں دبارہ  زندہ کر دیا ۔

جناب سیوطی فرماتے ہیں : انکی تعداد ستّر ہزارسے بھی ذیادہ تھے  ان پر موت آنے کے بعد مدت تک ایسی حالت میں پڑھے رہے یہاں تک  بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک نبی جنکا نام حزقیل تھا انکا وہاں سے گزر ہوا تو انھوں نے اس حالت کو دیکھ کر عرض کیا بارے الہی اگر ممکن ہے تو انکودوبارہ زندہ کردے ﷲ تعالی نے انکی دعا مستجاب کی اور انھیں دوبارہ زندہ کیا اور ایک مدت کے بعد طبیعی اموات سے اس دنیا سے رخصت ہوئے(2)    اسی طرح پروردگار عالم حضرت عیسی  کے زبانی یوں حکایت کرتا ہے : و احِی الموت بِاذانِ اللہِ(3) .  اور میں اللہ کے حکم سے  اور مردے کو زندہ کرتا ہوں:تفاسیر کی مشہور کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت عیسی  نے اپنے دوست عاز کو زندہ کیا  نیز ضعیف العمر عورت کے فرزند کی زندگی کو پلٹایا اور ایک لڑکی کو بھی زندہ کیا یہ تینوں زندہ ہونے کے بعد  بہ قید حیاة تھے اور اپنے بعد اپنی یادگار اولاد کی شکل میں چھوڑگئے(4)    اسی طرح ابن عباس کی مشہور روایت آنحضرت (ص) سے جس میں رسول صلعم    نے  اصحاب کھف کے پلٹ کرآنے کے بارے میں خبر دی ہے(5)  

--------------

(1):- بقرہ:

(2):- درر المنثور ج2 ص 792  / کشاف 'ج 1 ص 286 

(3):- آلعمران :

(4):- ترسم  الجلالں  'ج /1 ص/73

(5):- الطرائف ج1/ص83)(العمدہ /ص373

۹۷

اجمالی فہرست

مقدمہ

مہدویت اور امام مہدی

سوال نمبر 1: مہدویت کیا ہے اور کہاں سے شروع ہوئی ہے ؟

سوال  نمبر 2:   عقیدہ مھدویت  اور امام مہدی کے درمیان کیا رابطہ ہے ؟

سوال نمبر 3: کیا اہل سنت علماء امام مہدی کے متعلق احادیث کے صحیح اورمتواتر ہونے کا قائل ہیں ؟

سوال  نمبر 4: کیا مہدویت  پر اسلام کے علاوہ دوسرے دینی اور مادی ادیان اور مکاتب فکر بھی عقیدہ رکھتے ہیں کیا دلیل ہے ؟

سوال نمبر 5: کیا اہل سنت علماء میں سے کوئی امام مہدی کے امام حسن العسکری ؑ کے بیٹا ہونے اور انکی ولادت کے قائل ہیں ؟

سوال نمبر  6 :کیا قرآن کریم میں مھدویت اور امام مھدی ؑ کے متعلق کوئی صریح  گفتگو ہوئی ؟

سوال نمبر 7 : امام مہدی ؑ کا پیغمبر اکرم(ص) کے وصی اور خلیفہ ہونے پر کیا دلیل ہے ؟

۹۸

عصر غیبت

 سوال نمبر8: غیبت امام عصر کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہاں سے شروع ہوئی ؟

سوال نمبر 9 : فلسفہ غیبت کیا ہے ؟

سوال نمبر10: اگر حضرت مھدی امام عصر اور حجت خدا ہیں تو امام اور ہادی کو چاہیے لوگوں کے درمیاں رہیں تاکہ لوگ انکی امامت کی سایے میں ہدایت حاصل کرسکے لیکن جو امام مخفیانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو ایسیے امام اور ہادی کے ہونے سے نہ ہونا بہتر نہیں ہے ؟    

سوال نمبر11:  بعض روایات میں امام زمانہ عجل ﷲ فرجہ کو عصر غیبت میں خورشید پنہان سے تشبیہ دی ہے اس تشبیہ کے کیا راز ہو سکتی ہے ؟

سوال نمبر 12 : یہ کسے ممکن ہے کہ ایک انسان  ہزار سال سے زیادہ زندہ رہے ؟

سوال نمبر 13 : غیبت کبری  کی دور میں جب حجت خدا غیب کی پردے میں ہیں تو ہماری کیا کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

سوال نمبر 14: کیا عصر غیبت میں حضرت مھدی  سے ملاقات ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کیسے ؟

سوال نمبر 15: انتظار کیا ہے ؟  اور اسکا صحیح  معنی بیان کیجہے ؟

۹۹

عصر ظہور

سوال نمبر 16: کیا امام زمانہ  حضرت مہدی منجی عالم بشریت کے ظہور پر شیعہ سنی سب متفقہ عقیدہ رکھتے ہیں ؟

سوال نمبر 17:  حضرت امام مھدی  کے ظہور کی نشانیاں اور شرائط کیا ہیں ؟

امام مھدی  کی حکومت

سوال نمبر 18 :   امام مھدی  کی حکومت کیسی ؟کہاں اور کن کن خصوصیت کے حامل ہو گی ؟

رجعت

سوال 19 :   کیا امام مھدی کے قیام کرنے کے بعد مردہ لوگوں کے ایک گروہ رجعت کریں گے ؟

۱۰۰