غدیرقیامت تک کھلی کتاب
غدیر کادروازہ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَا هُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا هُ“
ک ی کنجی سے کھلتا ہے اور اس کے اورا ق دو حصوں میں تقسیم ہو تے ہیں :ایکاَللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وٰالَاهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَه“
دوسرے”اللَّهُمَّ عَادِمَنْ عَاداهُ وَاخذُلْ مَنْ خَذَ لَهُ“
۔جس کے بعد چودہ صد یوں کے فاصلہ اور اس طولانی دور کے درمیان غدیر اور سقیفہ دونوں کے کارناموںکا اس غدیری باب میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔
اسی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسی منبر سے موافق اور مخا لف باتیں سامنے آئیںاور یہ سلسلہ جا ری رہا یھاں تک کہ غدیر کاسقیفہ کے ھاتھوںخون ہوگیاسقیفہ میں جمع ہونے والے لوگوں نے منبر پر ابوبکر اور عمرکا تعارف کرایا ،درحقیقت انھوں نے غدیر کے مد مقابل ایک محاذکھولا اورآنے والی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے اپنے عقائد نشرکرنے کی خاطر کوشش اورایک دوسرے سے جنگ وجدل کرتے رہے اس دن سے غدیر ایک سخت ومشکل امتحان بن گیا تاکہ محاذپرلڑنے والوں کی شناخت ہوسکے ۔
غدیر کی فائل قیامت تک ہر گز بند نہیں ہو سکتی جب تک کہ قیامت کے دن یہ فائل محمد و علی علیھما السلام کی خدمت اقدس میں پیش نہ کی جا ئے سامنے اور اس کے متعلق ہر ایک سے باز پُرس نہ ہوجا ئے ۔
ایک سرسری نگاہ میں اس فائل کے صفحات میں منا ظرے غدیر کے سلسلہ میں اتمام حجت، غدیرکے بارے میں دشمنوں کے اقرار ،غدیر اور سقیفہ کی طرفداری کر نے والوں کی جنگیں ،غدیر کاتہذیب و تمدن ،ادبیات غدیر اور غدیر کی یادیںشامل ہیں ان ہی تمام شیریں اور تلخ واقعات سے غدیر کا دفتر پُر ہے کہ جس نے چودہ صدیاں دیکھی ہیں اور آج تک اس کی عظمت کو بیان کر رہا ہے ۔
خدایاہمارا نام ”اللھم انصرمن نصرہ “والے صفحات میں درج فرما،اور ہم کو ”اللھم اخذل من خذلہ“والے گروہ کی مکمل شناخت عطا کر اے شیعوں کے خدا غدیر کے بلند و بالا سورج کو ہمیشہ کےلئے اقیانوس اسلام کے افق میں اہل بھشت کی راہ کا چراغ قرار دے اور اسکے نام کو دنیا میں روشن ومنور فرما۔
۱ خدا و معصومین علیھم السلام کی غدیر کے ذریعہ اتمام حجت
آج تک بغیر کسی وقفہ کے غدیر کی علمی فائل کوچودہ سو سال گذر گئے اور اس پوری مدت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائمی فرمان جا ری و ساری رہا ہے متعدد واعظوں نے منبروں پر ،علما ء نے بحث و مناظروں کے جلسوں میں ،بڑے بڑے مولفوں نے اپنی اپنی کتابوں میں، سلمان ،ابوذر و مقداد جیسے غدیر کے سچے گواہوںنے نیز معاشرے کی خدمت کرنے والوں نے اسلام کے اس بزرگ ہدف کے دفاع کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی ہے ۔
اگر غدیر موجودہ معاشرے میں عملی شکل اختیار کر لیتی تو کوئی اختلاف و تفرقہ ہی نہ ہوتا کہ ولایت کی بنیاددوں کو ثابت کرنے کے لئے بحث و مناظرے اور دلیلوں کی ضرورت ہوتی ۔خداوند عالم کی ان لوگوں پر لعنت ہو جنھوں نے غدیر کے میٹہے اور گوارا چشمے کو گدلا کیا ،اور نسلوں کو اس کا میٹھا و گوارا پانی پینے سے محروم کیا ،اور امت کے مھربان اماموں پر خداوند عالم کی صلوات و رحمت و برکتیں ہوں جنھوں نے سقیفہ کے فتنوں میں غرق ہو نے والوںسے غدیر کی حفاظت فرمائی اور غدیرکو مختلف حالات میں زندہ و جاوید بنادیا۔
ان اقدامات سے وہ نوآشنا افراد مخاطب تھے جن کا اسلام کی اس عظیم حقیقت سے آشنا ہو نا ضروری تھا ،وہ سوئے ہو ئے ضمیر جنہیں تجدیدعھد اور یاد دلانے کی ضرورت تھی ،وہ مردہ دل جن کےلئے ہدایت کا راستہ کھولنا ضروری تھا تاکہ ان کی خشک زمین تک پا نی پہنچے ،اوراس دنیا میں صدیوں سال بعد آنے والی نسلیںجن کی اطلاع لئے حقیقت غدیر کو تاریخ کے اوراق میں ثبت ہونا چا ہئے تھا ۔
حریم غدیر کے اس دفاع مقدس کا تاریخچہ ،اپنے اندر ایسی شخصیتوں کو لئے ہوئے ہے جو ہر زمانہ کے تقاضوں اور ہر جگہ کے حالات کے مطابق اپنی معنویت سے سرشارفکر و روح سے لے کر جان آبروتک اخلاص کے ساتھ فدا کرتے رہے ،انھوں نے ولایت کے ان قطعی استدلال کے اسلحہ سے جن کا پشت پناہ پروردگاعالم ہے ،ولایت کے دشمنوں کوعلمی بحثوں میں شکست فاش دے کر،اور پوری دنیا میں شیعیت اور غدیر کا نام روشن کرتے رہے ۔
ان استدلالات اور غدیر کی یاد آور یوں کا واضح نمونہ خود ائمہ علیھم السلام اور ان کے اصحاب کے ذریعہ وقوع پذیر ہوا ہے ،تمام راویوں نے چودہ سو سال کے عرصہ میں حدیث غدیر کی روایت بیان کی اور اس طرح اہل سقیفہ کے مقابلہ میں جھاد کیا ہے ۔
امام زمانہ عجل اللہ تعا لیٰ فر جہ الشریف کی غیبت کے دور میں غدیر کے دفاع کا پرچم علمائے شیعہ نے اپنے ھاتھوں میں اٹھا ئے رکھا ،یھاں تک کہ بہت سے مقامات پر دشمنوں نے غدیر کا اقرار کیا اور اس کا انکار کرنے سے عاجز رہ گئے۔
آجکل ان استدلالات کا دامن کتا بوں اور جلسوں سے نکل کربہت وسیع ہو گیاکانفرنسوں ،ریڈیو، ٹیلیویزن یھاں تک کہ انٹرنٹ سے بھی اس کے پروگرام نشر کئے جا نے لگے ہیں ۔
ھم ذیل میں اتمام حجت اور استدلال کے ایسے لاکھوں موارد میں سے چندنمونے پیش کرتے ہیں :
۱ ۔خداوند عالم کا غدیر کے ذریعہ حجت تمام کرنا
۱ ۔حارث فھری کا غدیر میں اعتراض کے طور پر خداوندعالم سے عذاب کی درخواست کرنا خداوند عالم نے بھی فوراً آسمان سے ایک پتھر بھیجا اور وہ سبھی کی آنکھوں کے سامنے ھلاک ہو گیا اور یہ واقعہ خدا وند عالم کی طرف سے براہ راست سب سے پہلی اتمام حجت کے عنوان سے تاریخ میں ثبت ہوا ۔
۲ ۔غدیر میں لوگوں نے ایک خوبصورت شخص کو یہ کہتے ہوئے دیکھا:”خدا کی قسم میں نے آج کے دن کے مانندکوئی دن نہیں دیکھا ۔۔۔اس کےلئے ایساپیمان باندھا جس کو خدا اوراس کے رسول کا انکار کرنے والے کے علاوہ کوئی توڑ نہیں سکتا ہے ۔ ۔۔“ جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ وہ کون تھا؟ تو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :وہ جبرئیل تھے ۔اس طرح دوسری مرتبہ سب لوگوں کی نگا ہوں کے سامنے حجت الٰہی تمام ہوئی ۔
۳ ۔منافقین کے ایک گروہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت با برکت میں حا ضر ہوکر آپ سے آیت و نشانی طلب کی توپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :کیا تمھا رے لئے غدیر خم کا دن کافی نہیں تھا ؟جس وقت میں نے حضرت علی علیہ السلام کو اما مت کےلئے منصوب کیا تو منا دی نے آسمان سے ندا دی :”یہ خدا کا ولی ہے ،اس کی اتباع کرنا ورنہ تم پر خدا کا عذاب نازل ہوگا “
ایک دن ابو بکر نے چالاکی سے غصب خلافت کی توجیہ کرتے ہو ئے حضرت امیر المومنینعليهالسلام
سے کہا :کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی ولایت کے سلسلہ میں غدیرکے بعدکسی چیز میں تغیر وتبدل نہیں کیا ۔۔۔لیکن آپعليهالسلام
کے ان کا خلیفہ ہونے کے متعلق ہم سے کچھ نہیں فرمایاہے !!
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :کیسا ہے کہ میں تمھاری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرادوں تا کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
بذات خود تجھ کو اس کا جواب دیں ؟ ابو بکر نے اس بات کو قبول کرلیا اور نماز مغرب کے بعدحضرت علی علیہ السلام کے ھمرا ہ مسجد قبا میں آئے اور یہ مشاہدہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محراب ِمسجد کے پاس تشریف فرما ہیں اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ابو بکر سے خطاب کرتے ہو ئے فرمایا :اے ابو بکر تو نے علیعليهالسلام
کی ولایت کے خلاف اقدام کیااورتو اس کے مقام پر بیٹھ گیاجو نبوت کی جگہ ہے اور علیعليهالسلام
کے علاوہ اس کا اورکوئی مستحق نہیں ہے اس لئے کہ وہ میرے وصی اور خلیفہ ہیں ۔۔۔“
اس معجزے کے ذریعہ کہ جس کا پشت پناہ خدا وند عالم ہے دوسری مرتبہ خدا وند عالم نے صاحب غدیر کے حق کو غصب کر نے والے پر اپنی حجت تمام کردی ہے ۔
۴ ۔حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ظاہری حکومت کے دوران غدیر کے عینی شا ھدوں کو خدا کی قسم دے کر کہا کہ وہ کھڑے ہوں اور جو کچھ انھوں نے غدیر خم میں دیکھا تھا اس کی شھادت دیں ۔کچھ لوگوں نے اٹھ کر اس کی گواھی دی لیکن آٹھ افراد نے گوھی دینے سے انکار کیا ۔
حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :”اگر تم جھوٹ کہہ رہے ہو اور بھانہ جوئی کر رہے ہو در انحالیکہ تم غدیر خم میں مو جود تھے اور تم نے میری خلافت کا اعلان سناتھا، تو خداوند عالم تم میں سے ہر ایک کو کسی آشکار مصیبت میں گرفتار فرمائے “اس طرح واقعہ غدیر کے تیس سال بعدپروردگار عالم کی اتمام حجت ظاہر ہوئی اور ان میں سے ہر ایک ایسے مرض میں گرفتار ہوا جس کا سب نے مشاہدہ کیا مرض میں مبتلا ہونے والے افراد دوسروں کے سامنے اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ ہم آپعليهالسلام
کی دعا کے ذریعہ اس مرض سے دو چار ہوئے ہیں ۔
۲ ۔پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا غدیر کے ذریعہ اتمام حجت کرنا
۱ ۔اطراف مدینہ کے ایک بادیہ نشین شخص نے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سوال کیا :میری قوم کے حاجی یہ خبر لا ئے ہیں کہ آپ نے خدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے کیا خدوند عالم کی طرف سے ہے ؟آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :اس اطاعت کو خدوند عالم نے واجب قرار دیا ہے ،اور حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت اہل آسمان اور زمین سب پر واجب کی گئی ہے “
۲ ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مدینہ منورہ میں فرمایا :روز غدیر میری امتوں کی سب سے اچھی عیدوںمیں سے ہے اور یہ وھی دن ہے جس میںخدا وند عالم نے مجھ کو اپنے بھائی علی بن ابی طالب کو اپنی اپنی امت کے لئے جانشین بنا نے کا حکم صادر فرمایاتھا “
۳ ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنی وصیت میں امیر المو منین علیہ السلام سے فرمایا: ”۔۔۔میں نے غدیر خم میں لوگوں سے یہ عہد و پیمان لے لیا ہے کہ تم میرے بعد میری امت میں میرے و صی ،خلیفہ اور صاحب اختیار ہو “
۴ ۔پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاهُ “
کے مطلب کے سلسلہ م یں سوال کیا گیا تو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :”۔۔۔جس شخص کا میں صاحب اختیار ہوں اور اس کے نفس سے زیادہ اس پر حاکم ہوں تو علی بن ابی طالبعليهالسلام
اس کے صاحب اختیار ہیں اور اس کے نفس پر خود اس کی نسبت زیادہ اختیار رکھتا ہوں اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے مقابلہ میں اسے کو ئی اختیار نہیں ہے “
۳ ۔امیر المو منین علیہ السلام کاغدیرکے ذریعہ حجت تمام کرنا
۱ ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے سات دن بعد حضرت علی علیہ السلام مسجد میں تشریف لا ئے اورلوگوں کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجة الوداع کے بعد غدیر خم میں تشریف لا ئے اور آپ نے وہاں پر منبر سا بنا یاگیا اور آپ اس منبر تشریف لے گئے اور آپ نے اس منبر پر میرے بازو پکڑکر مجہے اتنا بلند کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفیدی بغل دکھا ئی دینے لگی اس وقت آپ نے بلند آواز سے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَا هُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا هُ “
خدا وند عالم نے اس دن یہ آیت نا زل فرمائی:(
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً
)
۲ ۔ابو بکر اور عمر بیعت لینے کے لئے امیر المو منین علیہ السلام کے دولت کدہ پر آئے اور کچھ باتیں کرنے کے بعد با ھرنکلے توحضرت علی علیہ السلام فوراً مسجد میں تشریف لائے اور کچھ مطالب بیان کرنے کے بعد فرمایا :ابو بکر اور عمر نے میرے پاس آکر مجھ سے اس کے ساتھ بیعت کا مطالبہ کیا جس کے لئے میری بیعت کرناضروری ہے !۔۔۔میں صاحب روز غدیر میں ہوں ۔۔۔“
۳ ۔پھلی مرتبہ جب حضرت علی علیہ السلام کو زبر دستی بیعت کے لئے لایا گیا اور آپ نے بیعت کر نے سے انکار کیا تو آپعليهالسلام
نے فرمایا :میں یہ گمان نہیں کرتا ہوں کہ پیغمبر اکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن کسی کےلئے کو ئی حجت یا کسی کےلئے کوئی بات باقی چھوڑی ہو ۔میں ان لوگوں کو قسم دیتا ہوں جنھوں نے غدیر خم کے دن”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَا هُ فَعَلِیٌّ مَوْ لَاهُ “
س نا ہے وہ اٹھ کر اس کی شھا دت دیں ۔اھل بدر کے بارہ آدمیوں نے کھڑے ہو کر غدیر کے ما جرے کی شھادت دی اور دیگر لوگ بھی اس سلسلہ میں باتیں کرنے لگے تو عمر نے ڈر کی وجہ سے مجلس کے خاتمہ کا اعلان کردیا!!
۴ ۔دوسری مرتبہ جب امیر المو منین علیہ السلام کے گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر اور آپعليهالسلام
کے سر پر تلوار لٹکا کر زبردستی بیعت کے لئے لا یا گیا تو عمر نے کہا :بیعت کرو ورنہ ہم آ پ کو قتل کر دیں گے ۔آپعليهالسلام
نے فر مایا :اے مسلمانو!اے مھا جر و انصار میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہو ں کیا تم نے غدیر خم میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں سناتھا کہ آپ نے کیا فرمایا۔۔۔ “؟ سب نے مل کر آپعليهالسلام
کی بات کی تصدیق کی اور کہا : ھاں خدا کی قسم ۔
۵ ۔حضرت علی علیہ السلام غصب خلافت اور خانہ نشینی اختیار کرنے کے بعدھمیشہ غاصبین خلافت سے ترشروئی کے ساتھ پیش آتے اور اپنی حالت انزجار کا اظھارکرتے ۔ایک روزحضرت ابو بکر بھولے سے اس مشکل کا خاتمہ کرنے کےلئے تنھائی میں آپ سے ملاقات کر نے کےلئے آئے آپعليهالسلام
نے ابو بکر سے فرمایا: کوخداکی قسم دیتا ہوں یہ بتا کہ غدیر کے دن پیغمبر کے فرمان کے مطابق میں تیرا اور تما م مسلمانوں کا صاحب اختیار ہوں یا تو“؟ابو بکر نے کہا :یقیناً آپ ہیں !
۶ ۔ابو بکر نے دعویٰ کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں علیعليهالسلام
کو ہمارا صاحب اختیار قرار دیا لیکن ہمارا خلیفہ مقرر نہیں فرمایا ۔حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :اگر پیغمبر اکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم بذات خدو تجھ سے فرمائیں کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مجھ کو خلیفہ مقرر فر مایا ہے تو قبول کرلوگے ؟اس نے کہا :ھاں ۔حضرت علی علیہ السلام نے مسجد قبا میں ابو بکرکو رسول خدا صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کی نشاندھی فرما ئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: علی علیہ السلام میرے وصی اور خلیفہ ہیں ۔
۷ ۔ایک دن ابو بکر نے حضرت علی علیہ السلام سے عرض کیا :اگر کوئی میرا مورد اعتماد شخص اس بات کی گواھی دیدے کہ آپعليهالسلام
خلا فت کے زیادہ سزوارہیں تومیں خلافت آپکے حوالہ کردونگا !!!آپعليهالسلام
نے فرما یا: اے ابو بکر کیا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کو ئی قابل اطمینان شخص ہے ؟! آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چا رمقامات پر تجھ سے اور عمر ،عثمان اور تیرے کئی ساتھیوں سے میری بیعت لی ان میں سے ایک حجة الواداع سے واپسی کے وقت غدیر خم کا مقام تھا ۔
۸ ۔جس وقت ابو بکر کا نما ئندہ (جس کو غصب فدک کے بعد وہاں کا نما ئندہ بنایا تھا )حضرت علیعليهالسلام
کے اصحاب کے ھا تھوں قتل ہوا تو ابو بکر نے اس جگہ پر خالد کوایک لشکر کے ھمراہ بھیجا ۔جب وہ حضرت علیعليهالسلام
کے روبرو ہو ا تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ذو الفقار کے اشارہ سے خالد کو اس کے گھو ڑے سے نیچے گرا تے ہو ئے فر مایا :”۔۔۔کیا تیرے اطمینان کےلئے غدیر کا دن کافی نہیں تھا جو تونے آج یہ عزم وارادہ کیاہے “؟!
۹ ۔مندرجہ بالا واقعہ کے بعد حضرت علی علیہ السلام واپس مدینہ پلٹے تو ابو بکر اور آپعليهالسلام
کے درمیان کچھ گفتگو ہوئی ۔اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے اپنے چچا عباس سے مخاطب ہو کر فرمایا :اب جبکہ روز غدیر ان کےلئے قانع کنندہ نہیں ہے تو ان کو خود ان ہی کے حا ل پر چھوڑدیجئے ۔وہ ہمیں جتنا کمزور کرسکتے ہیں کرنے دیجئے خدا وند عالم ہمارا مو لا ہے اور وہ بہترین حکم کرنے والا ہے ۔
۱۰ ۔عمر کے دور میں بنی ھاشم نے مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک میٹنگ کی جس میں امیر المو منین علیہ السلام نے عمر اور ابو بکر کے ذریعہ ایجاد ہو نے والی بدعتوں کو شمار کیا منجملہ آپعليهالسلام
نے فرمایا : غدیر کے روز جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری ولایت کا اعلان فر ما یا تواس وقت عمرنے اپنے دوست ابو بکر سے ملاقات کی ۔جب میرے تعارف کرانے اور منصوب کرنے کے تمام امور انجام پا گئے تو ابو بکر نے کہا :”واقعاً یہ ایک بہت بڑی کرامت ہے “!عمرنے اس پر سخت نظریں ڈالتے ہو ئے کہا : ”نہیں ،خدا کی قسم نہیں ،میں کبھی بھی ان کی باتوں پر کان نہیں دھروںگا اور ان کی اطاعت نہیں کرونگا “پھر اس کا سھارا لیتے ہوئے تکبر کی حالت میں چلتے بنے ۔
۱۱ ۔عمر کے قتل ہو جانے کے بعد عمر کی بنائی ہو ئی چھ آدمیوں کی کمیٹی نے اپنے درمیان ایک شخص کا انتخاب کرنے کے لئے جلسہ کیا یہ عثمان کومنتخب کرنے کے لئے ایک سازش تھی جسے پہلے ہی منتخب کرلیا گیا تھا حضرت علی علیہ السلام جو اس کمیٹی کے ممبر تھے آپعليهالسلام
نے بقیہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کر نے کےلئے فرمایا :”میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں یہ بتاو ،کیاتم میں میرے علاوہ کو ئی ایسا ہے جس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں خدا کے حکم سے منصوب کیا ہو اور یہ فرمایا ہو :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“؟سب نے مل کر کہا :نہیں ،آپ کے علاوہ کوئی اس فضیلت کا حامل نہیں ہے ۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ”کیا میرے علاوہ تم میں کو ئی ایسا شخص ہے جس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جحفہ میں غدیر خم کے درختو ں کے نزدیک یہ فر مایا ہو :”جس شخص نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ؟سب نے کہا :خدا کی قسم نہیں ،آپ کے علاوہ کوئی یہ منصب و فضلیت نہیں رکھتا ۔
۱۲ ۔ماجرائے شوریٰ اور انتخاب عثمان کے بعد لوگ اس کی بیعت کرنے کےلئے مسجد میں پہنچے تو حضرت علی علیہ السلام نے اس مجمع میں کھڑے ہوکر فرمایا :کیا تمھارے درمیان کو ئی ایساشخص ہے جسکے غدیر خم کے میدان میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بازو پکڑکر یہ فرمایا ہو :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“؟تو ا یک شخص نے سب کی نمائندگی کرتے ہو ئے کہا :ھم کسی ایسے شخص کو نہیں پہچا نتے جس کی گفتار آ پ کی گفتار سے زیادہ صحیح ہو ۔
۱۳ ۔ عثمان کے دور میں مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دوسو اصحاب کی موجودگی میں ایک جلسہ منعقد ہوااس جلسہ میں حضرت علی علیہ السلام نے فرما یا :خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے والیان امر کے تعارف کرانے کا حکم دیا ۔۔۔تو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں مجھکو اپنا جانشین منصوب کر تے ہو ئے فرمایا :مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“؟اور خدا نے یہ آیت :(
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
۔)
نازل فرما ئی ۔
مسجد میں موجود مجمع نے کہا :ھاںخدا کی قسم ہم نے یہ سنا تھا جو کچھ آپ فرما رہے ہیں اور ہم سب غدیر خم میں موجود تھے ۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں جنھوں نے غدیر خم میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہونٹوں سے وہ پیغام سناہے وہ اس کی گواھی دیں ۔اس وقت جناب مقداد ،ابوذر،عمار،براء اور زید بن ارقم نے کھڑے ہو کر کہا :ھم گو اھی دیتے ہیں کہ ہمیں وہ وقت یاد ہے کہ جب آپعليهالسلام
رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ھمرا ہ منبر پر تشریف فر ماتہے اورآنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یہ فرمایا: ایھا الناس !۔۔۔خدا نے تم کو ولایت کا حکم دیا ہے اور میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ ولایت حضرت علیعليهالسلام
سے مخصوص ہے
۱۴ ۔اسی جلسہ میں جب ابو بکر کے اس دعویٰ کے سلسلہ میں سوال کیا گیا کہ رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا تھا کہ ”خداوند عالم نبوت اور خلافت کو اہل بیت علیھم السلام میں جمع نہیں کرے گا ؟“ توحضرت علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا :اس دعوے کے با طل ہونے کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غدیر خم کا یہ فرمان ہے :مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
“ہے ۔م یں کیسے ان کا صاحب اختیار ہو سکتا ہوں اگر وہ میرے امیراورمجھ پر حاکم ہوں “؟!
۱۵ ۔اسی جلسہ میں حضرت علی علیہ السلام نے جملہ ”فلیبلغ الشاهد الغائب
“ یعنی حا ضرین غا ئبین تک پہنچا دیں “کے سلسلہ میں فر مایا :پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ صرف غدیرخم ،روز عرفہ اور اپنی رحلت کے دن فرمایا ۔۔۔اور تمام لوگوں کو حکم دیا کہ جب بھی وہ کسی شخص کو دیکہیں تو اس تک آل محمد علیھم السلام کے اماموں کی اطاعت اور ان کے حق کے واجب ہو نے کا پیغام پہنچائیں “۔
۱۶ ۔بصرہ میں جنگ جمل کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام نے طلحہ سے فرمایا :میں تجھ کو خدا کی قسم دیتا ہوں یہ بتا کہ کیا تونے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا تھا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
“اس نے کھاھاںسنا تھا ۔آپعليهالسلام
ن ے فرمایا تو پھر مجھ سے جنگ کر نے کیوں آئے ہو؟اس نے کہا :میرے ذہن میں نہیں تھا اور میں بھول گیا تھا “یہ بات بیان کر دینا ضروری ہے کہ طلحہ نےغدیر خم کا پیغام یاد آ جا نے کے بعد بھی اپنے قتل ہو نے تک حضرت علی علیہ السلام سے جنگ جا ری رکھی۔
۱۷ ۔جس وقت حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں جنگ صفین کی تیاریوں میں مصروف تھے تو آپ نے ایک خطبہ کے دوران فرمایا :اے مھا جرین وانصار ،۔۔۔کیا تم پر میری مدد کرنا واجب نہیں ہے ؟کیا میرے حکم کی اطاعت کرنا تم پر واجب نہیں ہے ؟۔۔۔کیا تم نے غدیر خم کے میدان میں میری ولایت اور صاحب اختیار ہو نے کے سلسلہ میں فرمایا رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا فرمان نہیں سنا تھا؟۔
۱۸ ۔معا ویہ نے جنگ صفین میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کو ایک خط میں اس طرح لکھا: ”مجھ کو خبر ملی ہے کہ جب آپعليهالسلام
اپنے اہل راز اورخاص شیعوں کے ساتھ تنھائی میں بیٹھتے ہیں تویہ ادعا کرتے ہیں کہ ۔۔۔خدا وند عالم نے آپ کی اطاعت مو منین پر واجب فر ما ئی ہے اور کتاب و سنت میں آپ کی ولایت کا حکم دیا ہے ۔۔۔اور (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی غدیر خم کے میدان میں اپنی امت کو جمع کیا اور آپعليهالسلام
کے سلسلہ میں جو کچھ خداوند عالم کی جا نب سے پہنچا نے پر ما مور ہو ئے تھے ا سے پہنچایا اور حکم دیا کہ حا ضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا ئیں اور لوگوں کو خبر دار کیا کہ آپعليهالسلام
ان کے نفوس پرخود ان سے زیادہ صاحب اختیار ہیں ۔۔۔“
۱۹ ۔امیر المو منین علیہ السلام نے جنگ صفین کے میدان میں اپنے لشکریوں کوحالانکہ وہاں پر معا ویہ کے بھیجے ہو ئے کچھ افراد بھی مو جود تھے )کے لئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا :میں تم کو خدا وند عالم کے اس فرمان(
یٰایُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااَطِیْعُوْااللهَ
)
کے سلسلہ میں قسم دیتا ہوں کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں مجھ کو اپنا خلیفہ و جانشین مقرر کیا اور فرمایا :ایھا الناس !خداوند عالم میرا صاحب اختیارہے اور میں مومنوں کا صاحب اختیار ہوں اور میرا اختیار مومنوں کے نفوس پرخود ان سے زیادہ ہے جان لو ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
“۔ بدر یین کے بارہ آدمیوں نے کھڑے ہو کرواقعہ غدیر میں اپنی موجودگی کی گواھی دی اور چار آدمیوں نے کھڑے ہو کرسب کےلئے واقعہ کی تفصیلات بیان کی ہے ۔
۲۰ ۔معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک خط میں اپنے کچھ فضائل لکھ کر بھیجے اور ان پرفخر جتایا حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :کیا ہندہ جگر خوار کا بیٹا مجھ پر فخر کرتا ہے ؟! اس کے بعد آپ(ع)نے ایک خط تحریر فرمایا اور اس میں اشعار میں اپنے فضائل تحریر فرماکر اس کے پاس بھیجا جس کا ایک شعر یہ ہے :
وَاَو ْجَبَ لِی ْ وِلَایَتَه ُ عَلَی ْ کُم ْ رَسُو ْلُ الل ه ِ یَو ْمَ غَدِی ْ رِخُمّ
یعنی :پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں اپنی ولایت تم سب پر واجب فرمائی اور میری ولایت تم پر واجب فر ما ئی ہے ۔
۲۱ ۔جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر کا ایک آدمی ہاتھ میں قرآن لئے ہوئے اس آیت:(
عَمَّ یَتَسَائَلُوْنَ عَنِ النَّبَاِالْعَظِیْم
)
کی تلاوت کر تے ہوئے میدان جنگ میں آیااورحضرت علی علیہ السلام بذات خود اس سے جنگ کر نے کےلئے گئے تو آپ نے سب سے پہلے اس سے سوال کیا :کیا جس نبا عظیم پر لوگ اختلاف رکھتے ہیں تم کو اس کی خبر ہے ؟اس مرد نے کہا :نہیں !!آپعليهالسلام
نے فرمایا :خدا کی قسم میں ہی وہ نبا عظیم ہوں جس پر لو گوں نے اختلاف کیا ہے ۔میری ولایت کے متعلق ہی تم نے جھگڑا کیا ہے ۔۔۔ ان تم روزغدیر جان چکے ہو اور قیامت کے دن بھی تم اپنے کرتوتوں کو جا ن لو گے۔
۲۲ ۔حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی ظاہری خلافت کے دور میں ایک سال عید غدیر جمعہ کے دن آگئی تو آپعليهالسلام
نے جمعہ کے خطبہ کو غدیر کے مسئلہ سے مخصوص کیا اوراس کے ضمن میں فرمایا :”خدا وند عالم اپنے منتخب شدہ بندوں کے سلسلہ میں جو کچھ ارادہ رکھتا تھا وہ اس نے غدیر خم کے میدان میں اپنے پیغمبر پر نازل فرمایا اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا نے کا حکم صادر فرمایا ۔۔۔خداوند عالم نے اپنا دین کامل فر مایا اور اپنے پیغمبر ،مو منین اور ان کے تابعین کی آنکھو ں کو ٹھنڈک بخشی “خطبوں اور نماز جمعہ کے بعد آپعليهالسلام
اپنے اصحاب کے ھمراہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے بیت مبارک پر تشریف لے گئے جھاں جشن غدیر منانے کا انتظام کیاگیا تھا اور مفصل طور پر پذیرائی بھی کی گئی تھی۔
۲۳ ۔حضرت علی علیہ السلام کی ظاہری خلافت کے دور میں آپعليهالسلام
کے حکم سے مسجد کوفہ اور دارالامارہ کے سامنے کو فہ کے سب سے وسیع میدان میں ایک اجتماع ہوا جس میں عظیم مجمع جمع ہواتھا اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب بھی مو جود تھے آپعليهالسلام
منبر پر تشریف لے گئے ۔
حضرت علی علیہ السلام نے منبر سے قسم دے کر فرمایا جو شخص غدیر خم میں حا ضر تھا وہ کھڑا ہو جائے اور جو کچھ اس نے غدیر خم میں دیکھا ہے اس کی گو اھی دے ۔آپعليهالسلام
کی درخواست پرمجمع سے تقریبا ً تیس آدمی اٹہے اور جو کچھ انھوں نے غدیر خم میں مشاہدہ کیا تھا اس کی شھادت دی ۔لیکن غدیر میں حاضر آٹھ آدمیوں نے جا ن بوجھ کر گواھی دینے سے انکار کیا تو آپعليهالسلام
نے ان سے اس انکار کی علت دریافت کی تو انھوں نے کہا ہم بھول گئے ہیں !!!
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :”اگر تم یہ بھانہ کرکے جھوٹ بو ل رہے ہو اور جان بوجھ کر گواھی نہیں دے رہے ہو تو تم میں سے ہر ایک بلا و مصیبت میں گرفتار ہو“اور آپعليهالسلام
نے ہر ایک کےلئے ایک خاص بلا ومصیبت بیان فر مائی ۔
یہ تمام کے تمام آٹھ آدمی آپعليهالسلام
کے فر مان کے مطابق آشکار مصیبت میں گرفتار ہوئے اور لوگوں کے درمیان اسی بلا کے ذریعہ پہچا نے جا تے تھے ۔اور لوگوں کے درمیان مشہور تھا کہ یہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کے نفرین شدہ ہیں ۔
۲۴ ۔حضرت علی علیہ السلام نے جنگ نھروان کے بعد اپنے سن مبارک کے آخری مھینوں میں ایک مفصل نوشتہ ایک کتابچہ کی شکل میں املا فرمایا اور مولا کے کاتب نے اس کو تحریر کیا اور یہ طے پایا کہ جمعہ کے دن آپعليهالسلام
کے خاص دس اصحاب کی مو جودگی میں آپ کایہ کتابچہ لوگوں کے سامنے پیش کیاجائے اس کتابچہ کے کچھ جملے یہ ہیں :ولایت کے سلسلہ میں میری دلیل یہ ہے کہ لوگوں کا صاحب اختیار صرف میں ہوںقریش نہیں ۔۔۔چونکہ اس امت کی ولایت کے تمام اختیارات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل تھے اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد اس امت کا صاحب اختیار میں ہوں ۔۔۔اسلئے کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم میں فرمایا تھا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
۲۵ ۔حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے اپنے امتیازات کے سلسلہ میں جو آپعليهالسلام
کے علا وہ کسی اور کو عطا نہیں کئے گئے فرمایا ہے :خداوند عالم نے میری ولایت کے ذریعہ اس امت کے دین کو کا مل کیا اور ان پر نعمتیں تمام کیں ۔۔۔جس وقت پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے یو م الولایة”غدیر خم کے دن “فرمایا :اے محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
لوگوں کو خبر دیدیجئے :(
اَلْیَوْ مَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً
)
۲۶ ۔حضرت علی علیہ السلام نے اس حدیث ”ھم اہل بیت علیھم السلام کا امر لوگوں کےلئے بہت دشوار ہے انبیائے مرسل،ملائکہ مقرب اور جن مو منین کے قلوب کا پروردگار عالم نے امتحان لیا ہے ان کے علاوہ کو ئی اس(امر )کو برداشت نہیں کرسکتا ہے “کو بیان کرتے ہو ئے فرمایا ہے :۔۔۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے دن میرھاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑکر فرمایا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
ک یا مومنوں نے اسے قبول کیاان لوگوں کے علاوہ جنہیں اللہ نے لغزش اور گمراھی سے بچالیا تھا؟
۲۷ ۔حضرت علی علیہ السلام سے یہ درخواست کی گئی کہ آپ اپنے متعلق حضرت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
خدا کی سب سے بڑی منقبت بیان فرمائیں تو آپعليهالسلام
نے فرمایا :آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا غدیر خم کے میدان میں خدا کے حکم سے میری ولایت کا اعلان فرمانا “
۲۸ ۔ایک دن حضرت علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ایک دوسرے کے سامنے اپنے فضائل بیان کررہے تھے تاکہ یہ فضائل ہمارے یاد رہیں ۔منجملہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں وہ ہوں کہ جس کے سلسلہ میں خداوند عالم نے فرمایا ہے :
(
اَلْیَوْ مَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنا ً
)
میں وہ نبا عظیم ہوں کہ خداوند عالم نے غدیر خم کے میدان میں میرے ذریعہ دین کا مل فرمایا ۔میں وہ ہوں کہ جس کے سلسلہ میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا ہے:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ“
۲۹ ۔ایک شخص نے حضرت علیعليهالسلام
سے عرض کیا یا علیعليهالسلام
میرے لئے ایمان کی اس طرح کامل تعریف کیجئے کہ کسی دوسرے سے سوال کرنے کی ضرورت نہ رہے ۔تو آپ نے چند مطالب بیان فرمائے منجملہ یہ بیان فرمایا کہ گمراہ ہونے کا سب سے کم سبب حجت خدا کی معرفت حاصل نہ کرنا ہے اس نے آپعليهالسلام
سے عرض کیا کہ مجہے حجج الٰہی سے روشناس کیجئے ۔آپعليهالسلام
نے فرمایا :جسکو پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں اپنا جانشین معین فرمایا اور یہ خبر دی کہ میرا یہ جا نشین تم پر تمھارے نفسوں سے زیادہ حق رکھتا ہے ۔
۳۰ ۔ایک روز حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :میرے ستّر فضائل ایسے ہیں جن میں سے کسی ایک میں بھی پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا کوئی صحابی میرے ساتھ شریک نہیں ہے ۔اس کے بعد ان میں سے اکیاون وے مقام کو اس طرح بیان فرمایا :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں مجھ کو سب کا مو لا مقرر کرتے ہوئے فرمایا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
ظالم ین رحمت الٰہی سے دور رہیں اور ان پر خداوند عالم کا عذاب نازل ہو ۔
۳۱ ۔امیر المومنین علیہ السلام نے اس سلسلہ میں کہ وہ غدیر خم کی بیعت کے بعدلو گوں کی طرفسے ہو نے والی ہر قسم کی کو تا ہی کے وہ خود ذمہ دار ہیں فرمایا :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مجھ سے وصیت کر تے ہوئے فرمایا:اے علی اگر تمہیں کو ئی ایسا گروہ مل جا ئے کہ دشمنوں سے جنگ کرسکوتو اپنے حق کا مطالبہ کرنا ورنہ خا نہ نشین ہو جانا چونکہ میں نے غدیر خم کے میدان میں تمھارے سلسلہ میں یہ پیمان لے لیا ہے کہ تم میرے اور لوگوں کے خودان کے نفسوں سے زیادہ صاحب اختیار ہو ۔
۳۲ ۔ایک دن حضرت علی علیعليهالسلام
نے لوگوں کی طرف نظریں اٹھا تے ہو ئے فرمایا :تم نے خودمشاھدہ کیا ہے کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
غدیر خم کے روز کس طرح کھڑے ہوئے اور مجہے اپنے پاس کھڑا کیا اورمیرا ہاتھ پکڑکر میرا تعارف کرایا۔
۴ ۔غدیر کے سلسلہ میں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کااتمام حجت کرنا
۱ ۔حضرت ام کلثوم نے اپنے تین سال کے سن مبارک میں اپنی والدہ گرا می کو یہ حدیث فرماتے سنا ہے کہ جن لو گوں نے صاحب غدیر کو چھوڑ دیا تھا اور سقیفہ کی سخت حمایت کررہے تھے آپعليهالسلام
نے ان سے خطاب کرتے ہو ئے فر مایاتھا :کیا تم نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے غدیر خم کے اس پیغام کو فراموش کردیا ہے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
۔
۲ ۔حضرت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رحلت کے بعد حضرت فا طمہ زھرا سلام اللہ علیھا اُحد کے شھیدوں کی قبروں کے پاس تشریف لے جاتیں اور گریہ فرماتی تھیں ۔محمود بن لبید نے آپ سے سوال کیا :کیا پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنی وفات سے پہلے صاف طور پر حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے با رے میںکچھ فر مایا تھا ؟!
حضرت زھرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا :وا عجبا ،کیا تم نے غدیر خم کے دن کو بھلا دیا ہے ؟!
۳ ۔جس وقت اہل سقیفہ نے بیعت کےلئے حضرت علی علیہ السلام کے بیت الشرف پر دھاوا بولا تو حضرت زھرا علیھا السلام پشت در آئیں اور فرمایا :”گو یا تم کو یہ نہیں معلوم کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے دن کیا فرمایا تھا ؟!خدا کی قسم اس دن علی بن ابی طالب کی ولایت کا عہد لیاتھا تاکہ اس(ولایت) سے تمھاری امیدیں منقطع ہو جا ئیں۔ لیکن تم نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے اپنا رابطہ منقطع کرلیا! خدا وند عالم تمھارے اور ہمارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا “
۴ ۔حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے سن مبارک کے آخری ایام میں مھاجر و انصار کی کچھ عورتیں آپ کی عیادت کے لئے آئیں ۔اس موقع پر آپ نے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے سلسلہ میں مطالب بیان فر ما ئے، عورتوں نے وہ مطالب اپنے مردوں سے بیان کئے ، اسکے بعد انصار و مھا جرین کے کچھ سرکردہ افراد عذر خوا ہی کے عنوان سے آپ کے پاس آئے اورکہنے لگے :اے سیدة النسا ء اگر ابو الحسن نے یہ مطالب اہل سقیفہ کی بیعت سے پہلے بیان فرما ئے ہو تے تو ہم ہر گز ان کی جگہ پر دوسروں کی بیعت نہ کرتے !!
آپ علیھا السلام نے فرمایا :مجھ سے دور ہو جا ؤ تمھارا عذر قابل قبول نہیں ہے ۔۔۔خدا وند عالم نے غدیر خم کے بعد کسی کےلئے کسی عذرکی کو ئی گنجائش باقی نہیں رکھی ہے ۔
۵ ۔ غدیر کے سلسلہ میں امام حسن علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا
۱ ۔حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی شھادت اور حضرت امام حسن علیہ السلام سے صلح کے بعد معا ویہ کو فہ پہنچا اور یہ طے پایا کہ امام حسنعليهالسلام
اور معا ویہ منبر پر جائیں اور لوگوں کےلئے صلح کا مسئلہ بیان فر ما ئیں جب معا ویہ اپنی باتیں کہہ چکا تو حضرت امام حسن علیہ السلام نے منبر سے حضرت علیعليهالسلام
کی مظلومیت کے سلسلہ میں مطالب بیان کر تے ہو ئے فرمایا :اس امت نے میرے پدر بزر گوار کو چھو ڑ کر دو سروں کی بیعت کرلی حالانکہ خود انھوں نے اس چیز کا مشا ھدہ کیاتھا کہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں میرے پدر بزرگوار کو اپنا خلیفہ و جا نشین مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ حاضرین غا ئبین تک یہ پیغام پہنچا دیں “
۲ ۔ایک دن معا ویہ نے اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جلسہ کیا جس میںامام حسن علیہ السلام کو بھی دعوت دی اس (معاویہ ) کے اصحاب نے ہر طرح سے آپ (امام حسنعليهالسلام
)کی شان اقدس میں جسارت کی اور آپعليهالسلام
کے پدر بزرگوار حضرت امیر المو منین علیہ السلام کو ناسزا جملے کہے ۔
امام حسن علیہ السلام نے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے سلسلہ میں مفصل استدلال کیا منجملہ آپعليهالسلام
نے فر مایا :پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے منبرپر حضرت علی علیہ السلام کو بلا یا اس کے بعد آپعليهالسلام
کے ھاتھوں کو پکڑکر فر مایا:”اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ “
۶ ۔غدیر کے سلسلہ میں امام حسین علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا
مرگ معاویہ اور واقعہ عا شوراسے ایک سال پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام نے موسم حج میں منیٰ کے مقام پر سات سو افراد کو اپنے خیمہ میں دعوت دی جس میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے دو سواصحا ب تھے ان کے درمیان آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایاجس میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے خلاف معا ویہ کے اقدامات کی مذمت کی آپعليهالسلام
کے فضائل و مناقب بیان فرمائے اور ان سے اقرار لیا منجملہ آ پعليهالسلام
نے فرمایا: میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جا نتے ہو کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو منصوب کیا آپعليهالسلام
کی ولایت کا اعلان کیا اور فرمایا :حاضرین غا ئبین تک یہ پیغام پہنچادیں ؟ مجمع نے کہا :ھاں خدا کی قسم (رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یھی فرمایا تھا )۔
۷ ۔غدیر کے سلسلہ میں امام زین العا بدین علیہ السلام کااتمام حجت کرنا
ایک شخص نے حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام سے سوال کیا :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس فرمان”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
“کا ک یا مطلب ہے ؟آپ نے فرمایا :پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے لوگوںکو خبر دی کہ میرے بعد علی بن ابی طالب علیہ السلام امام ہیں ۔
۸ ۔غدیر کے سلسلہ میں امام باقر علیہ السلام کا احتجاج
۱ ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ان خاص حالات میں جو بنی امیہ کے دورکا اختتام کا تھا واقعہ غدیر کی تفصیلی داستان خطبہ غدیر کے مکمل متن کے ساتھ بیان فر ما ئی جو اس تاریخی خطبہ کےلئے امام معصوم علیہ السلام کی محکم سند ہے ۔
۲ ۔بصرہ کے ایک شخص نے حضرت امام باقرعليهالسلام
سے عرض کیا :حسن بصری آیت(
یَااَ یُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکْ
۔)
کو پڑھتا ہے اور کہتا ہے :ا یک شخص کی شان میں نا زل ہو ئی ہے لیکن اس شخص کا نام بیان نہیں کرتا ہے ۔حضرت امام باقر علیہ السلام نے فر مایا :اس کو کیا ہو گیا ہے ؟وہ اگر چا ہتا تو یہ بتا دیتا کہ کس شخص کے سلسلہ میں نا زل ہو ئی ہے !جبرئیل نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت با برکت میں حاضر ہو کر عرض کیا : خدا وند عالم نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ امت کےلئے یہ بیان فرمادیں کہ آپ کے بعد ان کا ولی کون ہے اور یہ آیت نازل فرما ئی پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
بھی کھڑے ہوئے اور حضرت علیعليهالسلام
کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اوربلند کرکے فرمایا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
۳ ۔ابو بصیر نے امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا :لوگ کہتے ہیں : پر وردگار عالم نے قرآن کریم میں صاف طور پر اہل بیت علیھم السلام کے ناموں کا تذکرہ کیوں نہیں فرمایاہے ؟ حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :خدا وند عالم نے نماز نازل فرما ئی ہے لیکن نماز کی رکعتوں کی تعداد پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بیان فر ما ئی ہیں اسی طرح زکات اور حج ہیں ،اور آیت(
اَطِیْعُوْااللهَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَ اُوْلِی الْاَمْرِمِنْکُمْ
)
نازل فرما ئ ی جو حضرت علی ،حسن اور حسین علیھم السلام کی سلسلہ میں ہے ، کلمہ ”اولوالامر “کو بیان کرتے ہو ئے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بیان فرمایا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌ مَوْلَاهُ “
اگر آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سکوت فرماتے اور آ یہ اولوالامر کے اہل کا تعارف نہ کراتے تو آل عباس ،آل عقیل اور دوسرے افراد اس کا دعویٰ کر بیٹھتے ۔جب حضر ت رسول خدا نے اس دنیا سے رحلت کی تو لوگوں کے صاحب اختیار حضرت علی علیہ السلام تھے ،چونکہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کالوگوں کے لئے اعلان کیا تھااور آپ کو اپنا خلیفہ و جا نشین مقرر فرمایا تھا۔
۴ ۔ابان بن تغلب نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس فرمان:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
کا ک یا مطلب ہے ؟حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فر مایا : کیا اس طرح کے مطلب میں بھی کو ئی سوال کی گنجا ئش باقی رہ جا تی ہے ؟!ان کو سمجھا یا کہ وہ آپ کے جا نشین و خلیفہ ہو ں گے ۔
۵ ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے امت کی طرف سے حقیقت ِ غدیر کے انکار کے سلسلہ میں تعجب سے فرمایا: کیا یہ امت اس فرمان و عہد کا انکار کرتی ہے جس کو پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علیعليهالسلام
کےلئے اس دن لیا تھا جس دن آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان کو ان ہی لوگوں کا خلیفہ و امام معین فرما یا تھا اور اپنے دور حیات ہی میں لوگوںکو ولایت و اطاعت کی طرف دعوت دی تھی اور ان کو اس مطلب کا گوا ہ بنایا تھا ۔
۶ ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے حدیث غدیر کے ذریعہ ولایت و برائت کو بیان کرتے ہوئے فر مایا :یہ امت جب حضرت علی علیہ السلام کی خد مت میں پہنچتی ہے تو کہتی ہے : ہم علی علیہ السلام کے دو ستوں کو دوست رکھتے ہیں لیکن ان کے دشمنو ں سے بیزاری نہیں کر تے ،بلکہ ان کو بھی دوست رکھتے ہیں !ان کا یہ دعویٰ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے جبکہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا فر مان ہے :”اللَّهُمَّ وَال مَنْ وَا لَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ “
ل یکن اس کے با وجود وہ ان کے دشمنوں سے دشمنی نہیں کر تے ہیں اور ان کو ذلیل و خوار کرنے والے کو ذلیل و خوار نہیں کرتے ہیں ۔یہ انصاف نہیں ہے !!!
۹ ۔غدیر کے سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا
۱ ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا :لوگوں نے غدیر کے سلسلہ میں خود کوغفلت میں ڈال دیا ہے ۔
۲ ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے واقعہ غدیر نقل فرمانے کے بعد اس آیت(
یَعْرِفُوْنَ نِعْمَةَ اللهِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَهَا
)
کی تلاوت فر ما ئی ، یعنی خدوند عالم کی نعمتوں کی معرفت ہو جا نے کے بعد ان کا انکار کر تے ہیں “اور فر مایا :غدیر کے دن ان کو پہچا نتے ہیں اور سقیفہ کے دن ان کا انکار کر تے ہیں ۔
۳ ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے امیر المو منین علیہ السلام کے رنج و محن کے سلسلہ میں تعجب سے فر مایا :غدیر کے دن آپعليهالسلام
کے اتنے شاہد و گواہ تھے لیکن پھر بھی آپعليهالسلام
اپنا حق نہ لے سکے حالانکہ لوگ دو گوا ہوں کے ذریعہ اپنا حق لے لیتے ہیں !!
۴ ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے غدیرپر ثابت قدم رہنے کے سلسلہ میں فرمایا :پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کےلئے حا ضرین سے عہد و پیمان لیا اور ان سے آپعليهالسلام
کی ولایت کا اقرار کرایا ۔بڑے خو ش نصیب ہیں وہ لوگ جو آپعليهالسلام
کی ولایت پر ثابت قدم رہے اور وائے ہو ان لوگوں پر جنھوں نے آپعليهالسلام
کی ولایت کو چھوڑدیا “۔
۵ ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے غدیر کیلئے قرآن سے استناد کر تے ہو ئے فرمایا :خدا وند عالم کا فرمان ہے :(
یَایُّهَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکْ
)
اور یہیں پر پیغمبر اسلام نے حضرت علی علیہ السلام سے فر مایا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
۶ ۔غدیر پیغمبر اسلام کی رسالت کا آخری پیغام تھا اس سلسلہ میں آپعليهالسلام
نے فر مایا :خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فر ماتا ہے :(
فَاِذَافَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ
)
یعنی ”جب آپ رسالت سے فارغ ہو جائیں تو اپنے علَم اور نشانی کو منصوب فرمادیں اپنے وصی کا تعارف کرائیں اور اس کی فضیلت بیان فر ما دیں ۔۔۔“پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بھی حجة الو داع سے واپسی پر ندا دی تا کہ لوگ جمع ہوجا ئیں اور فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
۷ ۔حضرت اما م جعفر صادق علیہ السلام نے ابو بکر ،عمر اور عثمان کے کفر کے سلسلہ میں فرمایا:جب ان کے سامنے ولایت پیش کی گئی اور پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔ “تو انھو ں نے اس کا انکار ک یا بعدمیں (ظاہری طور پر اقرار کیا )لیکن جب پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس دنیا سے کوچ کیا تو یہ کا فر ہوگئے ۔۔۔اس کے بعد انھوں نے اپنے کفر میںاور شدت اختیار کی کہ جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی تھی ان سے اپنے لئے بیعت لی یہ ایسے لوگ تھے جن کے لئے ایمان نام کی کو ئی چیز باقی نہیں رہ گئی تھی ۔
۸ ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام جس سفر میں مدینہ سے مکہ تشریف لے جا رہے تھے راستے میں مسجد غدیر سے گزرے تو آپعليهالسلام
نے مسجد غدیر کے بائیں طرف نظر ڈالتے ہو ئے فرمایا :یہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے پائے اقدس کاوہ مقام ہے جھاں پر آپ نے کھڑے ہوکر یہ فرمایا تھا: ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔“
۹ ۔حضرت امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا ہے :روز غدیر وہ دن ہے کہ جس میں امیر المو منینعليهالسلام
کو خلیفہ و جا نشین بنایاگیا پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے آپعليهالسلام
کےلئے پیمان ولایت کو مردوں اور عورتوں سب کی گردن میں ڈال دیا۔
۱۰ ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے غدیر خم کی عظمت کو اس طرح یاد فرمایا :روز غدیر بہت اہم دن ہے ،خداوند عالم نے اس کی حرمت کو مو منین کے لئے عظیم قرار دیا اس دن دین کامل کیا اور ان پر نعمتیں تمام کیں اور (عالم ذر )میں جو عہد و پیمان ان سے لیا گیا تھا وہ دوبارہ لیا گیا ۔
۱۱ ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس زمانہ میں فوری طور پر شھروں میں غدیر کی خبر منتشرہو نے کے سلسلہ میں فر مایا :جس وقت پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علیعليهالسلام
کی ولایت کا اعلان کیا اور فرمایا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
، یہ خبر شھروں میں منتشر ہو ئی ۔پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس سلسلہ میں فرمایا :”اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کو ئی خدا نہیں ہے یہ مسئلہ خدا کی طرف سے ہے “
۱۲ ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس فرمان ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔ “کا ک یا مطلب ہے ؟امام جعفر صادق علیہ السلام نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی یہ حدیث نقل فر ما ئی :”جس شخص کا میں صاحب اختیار ہوں اور اس کے نفس پرخود اس سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں یہ علی بن ابی طالب اس کے صاحب اختیار ہیں اور اس کے نفس پر اس سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں اسے کوئی اختیار نہیں ہے “
۱۰ ۔غدیر کے سلسلہ میں امام کاظم علیہ السلام کااتمام حجت کرنا
۱ ۔حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام نے ایک حدیث میں واقعہ غدیر کو اس طرح نقل فرمایا: پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کا مشہور و معروف واقعہ غدیر میں تعارف کرایا اور لوگوں سے سوال کیا :کیا میں تمھا رے نفسوںپر تم سے زیادہ حاکم نہیں ہوں ؟سب نے کہا : ؟ھاں، یا رسول اللہ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے آسمان کی طرف اپنی نظریں اٹھا تے ہو ئے فر مایا :خدایا ،تو گواہ رہنا “،اور اس عمل کی آپ نے تین مرتبہ تکرار فرما ئی ۔اس کے بعد فرمایا :جا ن لو جس شخص کا میں مو لا ہوںاور اس کے نفس پر اس سے زیادہ حاکم ہوں یہ علی اس کے مو لا اور صاحب اختیار ہیں “۔
۲ ۔ حضرت امام مو سیٰ کاظم علیہ السلام نے غدیر میں منافقوں کی فریب کاریوں کے سلسلہ میں فرمایا :جس وقت پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و خلافت کا اعلان فر مایا اور مھا جرین و انصارکے بزرگوں کو ان کی بیعت کرنے کا حکم صادر فرمایا تو انھوں نے ظاہری طور پر تو بیعت کی لیکن اپنے درمیان دو منصوبے بنا ئے :ایک پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے خلافت چھین لیں ،دوسرے اگر ممکن ہو تو ان دونوں شخصیتوں کو قتل کر ڈالیں۔
۳ ۔جن ایام میں حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام قید میں تھے تو ایک دن ھارون رشید نے آپعليهالسلام
کو بلا بھیجا اور کچھ مسا ئل دریافت کئے منجملہ لوگوں پر اہل بیت علیھم السلام کی ولایت کے سلسلہ میں تھے ۔ سلسلہ میں تھے ۔حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام نے فر مایا : تمام خلائق پر ہماری ولایت ہے اور اس دعوے کےلئے ہمارے پاس پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا یہ فرمان ہے جو آپ نے غدیر خم کے میدان میں فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔ “
۱۱ ۔غدیر کے سلسلہ میں امام رضا علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا
۱ ۔حضرت امام رضا علیہ السلام کے زمانہ کے مخصوص حالات اور خراسان کا علاقہ جومخالفوں کا علمی مرکزتھااور اس بات کا متقاضی تھا کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مستند حدیثیں نقل کی جا ئیں لہٰذا حضرت امام رضا علیہ السلام نے حدیث غدیر کی سند کا سلسلہ اپنے آباء و اجداد حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام امام صادق علیہ السلام ،امام باقر علیہ السلام ، امام سجاد علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام ،امیر المو منین علیہ السلام اور پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نقل فرمایا کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
۲ ۔جب حضرت امام رضا علیہ السلام خراسان کے شھر مرو پہنچے تو آپ کی تشریف آوری کے پہلے ایام میںلوگ امامت کے سلسلہ میں بہت زیادہ گفتگو کیا کر تے تھے خاص طور سے جمعہ کے روز شھر کی جامع مسجد میں جمع ہو کر اس سلسلہ میں محو گفتگو رہے ۔جب یہ خبرحضرت امام رضا علیہ السلام تک پہنچی تو آپعليهالسلام
نے مسکرا کر فرمایا: ۔۔۔خدا وند عالم نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سن مبارک کے آخری حج حجة الوداع میں آیت :(
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً
)
نازل فرمائی۔ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس دنیا سے نہیں گئے مگر یہ کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کا خلیفہ و امام منصوب فرمایا۔
۱۲ ۔غدیر کے سلسلہ میں امام علی نقی علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا
۱ ۔جس سال معتصم عباسی نے حضرت امام ھا دی علیہ السلام کو مدینہ سے سا مرا ء بلایا تو آپعليهالسلام
اس سال غدیر کے دن کوفہ تشریف لائے اور امیر المو منین علیہ السلام کی زیارت کےلئے نجف اشرف تشریف لے گئے وہاں پر آپ نے غدیر کی ثقافت کے سلسلہ میں مکمل اعتقادی زیارت کی قرائت فرمائی اور اس کے ضمن میں واقعہ غدیر کو اس طرح بیان فرمایا :پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سفر کی سختیاں طے کیں اور گرمی کی شدت میں ظھر کے وقت ایک خطبہ ارشاد کیا اور ۔۔۔فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“ل یکن کچھ لوگوں کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لا یا ۔
۲ ۔اہواز کے لوگوں نے حضرت امام ھادی علیہ السلام کی خد مت اقدس میں ایک خط لکھا جس میں کچھ سوالات تحریر کئے ۔حضرت امام ھادی علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں سوالات کے جوابات تحریر فرمائے ۔منجملہ تحریر فرمایا :ھم قرآن کریم میں اس آیت(
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا
۔۔۔)
کا مشا ھدہ کرتے ہیں ،اور تمام روایات اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نا زل ہو ئی ہے ۔ھم یہ بھی مشا ھدہ کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے اصحاب سے جدا کیا اور فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“ ان دونوں کے رابطہ سے ہم یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ قرآن ان روایات کے صحیح ہو نے اور ان شواھد کی حقانیت کی گواھی دیتا ہے ۔
۱۳ ۔غدیر کے سلسلہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا
۱ ۔اسحاق بن اسما عیل نے نیشاپور سے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کےلئے ایک خط تحریر کیا جس میں کچھ مسائل تحریر کئے ۔آپعليهالسلام
نے ان کے خط کا جواب اپنے نمایندوں کے ذریعہ بھیجا جس کا ایک حصہ یہ ہے :
جب خداوند عالم نے اپنے آخری پیغمبر کے بعد اپنے اولیا ء کو منصوب کرکے تمھارے اوپر احسان کیا تو پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے خطاب فرمایا :
(
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً
)
۲ ۔حسن بن ظریف نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت با برکت میں ایک خط تحریر کیا جس میں’ ’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“ کے معن ی دریافت کئے ۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اس کا اس طرح جواب تحریر فرمایا: آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا مقصد تھا کہ ان (علیعليهالسلام
)کو علامت اور نشانی قرار دے دیں کہ اختلاف کے وقت خدا وند عالم کے گروہ کی ان کے ذریعہ شناخت ہو جا ئے ۔
۲ اصحاب پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور امیر المو منین علیہ السلام کے دوستوں کا غدیرکے ذریعہ اتمام حجت کرنا
۱ ۔ابن عباس کے جلسہ میں جناب ابوذر نے کھڑے ہو کر عرض کیا :میں جندب بن جنادہ ابوذر غفاری ہوں ۔میں تم کو خدا اور اس کے رسول کے حق کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں :کیا تم نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا یہ فرمان سنا ہے : زمین وآسمان میں ابوذر سب سے سچے ہیں ؟سب نے کہا : ھاں جناب ابوذر نے کہا : کیا تم اس بات کو قبول کرتے ہو کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں ہم سب کو جمع کر کے فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔؟سب نے کہا :ھاں ،خدا ک ی قسم ۔
۲ ۔غدیر کے ذریعہ جناب عماریاسر کا اتمام حجت کرنا
جنگ صفین میں عمار یاسر اور عمرو عاص کے مابین مناظرہ ہوا اور کچھ مطالب ردوبدل ہوئے
منجملہ جناب عما ر نے کہا :اے ابتر ،کیا تجھ کو پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا یہ فرمان ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“ یاد ہے ؟اس بنا پر میرے مو لا و صاحب اختیار خدا وند عالم اس کا رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ان کے بعد حضرت علی علیہ السلام ہیں لیکن تیرا کو ئی مو لااور صاحب اختیار نہیں ہے !!
۳ ۔غدیر کے ذریعہ مالک بن نویرہ کا اتمام حجت کرنا
قبیلہ بنی حنیفہ کے سردار مالک بن نویرہ مدینہ کے نزدیک کے رہنے والے غدیر خم میں مو جود تھے ۔ آپ (مالک بن نویرہ )پیغمبر کی رحلت کے بعد مدینہ آئے اور تعجب سے ابوبکر کو پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے منبر پر دیکھا تو اس سے مخا طب ہو کر کہا :”اے ابو بکر کیا تم نے غدیر خم کے دن حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کو بھلا دیا ہے ؟یہ منبر تمھاری جگہ نہیں ہے جس پر تم بیٹھ کر خطاب کر رہے ہو “!یہ کہہ کر آپ اپنے قبیلہ میں واپس پلٹ آئے ۔
ابو بکر نے مالک سے انتقام کی خا طر خالد بن ولید کو لشکر کے ساتھ روانہ کیا تو لشکر نے مالک بن نویرہ اور ان کے اصحاب کو قتل کر دیا اور ان کی عورتو ں کو اسیر کر کے مدینہ لے آئے !امیر المو منین علیہ السلام نے اس سلسلہ میں اہل سقیفہ سے مقابلہ کیا۔
۴ ۔غدیر کے ذریعہ حذیفہ بن یمان کا اتمام حجت کرنا
۱ ۔حذیفہ غدیر خم میں حاضر تھے اور ان افراد میں سے تھے جنھو ں نے خطبہ غدیر کے کامل اور مفصل متن کو حفظ کیا اور وہاں پر غیر مو جود افراد تک پہنچایا ۔
۲ ۔ایک مو قع پر حذیفہ داستان غدیر کو اس طرح نقل کر تے ہیں :خدا کی قسم میں غدیر خم میں رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور مھا جرین و انصار اس مجلس میں مو جود تھے ۔رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے دائیں طرف کھڑے ہو نے کا حکم دیا اس کے بعد فر مایا:
”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
۳ ۔جناب حذیفہ قتل عثمان کے بعد حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی ظاہری حکو مت کے دور میں شھر مدائن کے گور نر تھے ۔آپ نے لوگوں سے امیر المو منین علیہ السلام کےلئے بیعت لینے کی خاطر منبر پر جا کر اس طرح خطبہ دیا : اس وقت تمھا را حقیقی صاحب اختیار امیر المو منین اور وہ ہے جو اس نام کا حقیقت میں حق دار ہے “!بیعت کا پروگرام تمام ہو جا نے کے بعدایران کے ایک مسلم نامی جوان نے جناب حذیفہ کے پاس آکر سوال کیا آپ نے جو یہ ”امیرالمو منین حقیقی “کھکر اس سے پہلے خلفاء کی طرف اشارہ کیا ہے ۔اگر پہلے تین خلفا ء حقیقی نہیں تھے تو اس مطلب کی میرے لئے وضاحت کیجئے !
جناب حذیفہ نے اس کےلئے تاریخ کے مفصل مطالب بیان کئے یھاں تک کہ غدیر کے واقعہ تک پہنچ گئے آپ نے واقعہ غدیر کو مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کیا کہ کسی روایت میں اتنی تفصیل کے ساتھ بیان نہیں ہوا ہے ۔آپ نے غدیر کے اصلی حصہ کو اس طرح بیان کیا :پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں بلند آواز سے علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فر مایا اور ان کی اطاعت لوگوں پر واجب فرمائی ۔۔۔اور فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“۔اس کے بعد سب کو حضرت عل ی علیہ السلام کی بیعت کر نے کا حکم دیا ،اور سب نے آپعليهالسلام
کی بیعت کی ۔
۵ ۔غدیرکے ذریعہ بلال حبشی کا اتمام حجت کرنا
حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے موذن جناب بلال ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے ابو بکر کی بیعت نہیں کی تھی ،حالانکہ ابو بکر نے ہی اپنے پیسوں سے جناب بلال کو غلامی سے نجات دلا ئی تھی اور آپ (بلال)کو آزاد کر دیا تھا ۔ایک دن عمر نے جناب بلال کا گریبان پکڑ کر کہا :کیا ابو بکر کی تجہے آزاد کرانے کی یھی جزا ہے ؛کیا اب بھی تم ان(ابوبکر )کی بیعت نہیں کروگے ؟
جناب بلال نے کہا :اگر اس نے مجہے خدا کےلئے آزاد کرا یا تھا توخدا کے لئے مجہے میرے حال پر چھوڑدے ،اور اگر غیر خدا کے لئے آزاد کرایا تھا تو تمھاری بات پر عمل کرنا چا ہئے !!لیکن رہا ابو بکر کی بیعت کر نے کا مسئلہ ،تو جس شخص کو پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے خلیفہ مقررنہیں فرمایا اور اس کو مقدم نہیں رکھا تو میں اس کی بیعت نہیں کرونگا ۔۔۔اے عمر تم اچھی طرح جا نتے ہو کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے چچا زاد بھائی کے لئے عہد لیا اور قیامت کے دن تک کے لئے ہماری گردنوں پر ان کو غدیر خم کے میدان میں ہمارا مو لا و صاحب اختیار قرار دیا ۔کس شخص میں ھمت ہو سکتی ہے کہ وہ اپنا صاحب اختیار رکھتے ہو ئے کسی دوسرے کی بیعت کرے ؟!
اس کے بعد ان لوگوں نے جناب بلال کو مدینہ سے باھر جا کر کسی دوسری جگہ زند گی بسر کرنے پر مجبور کیا
۶ ۔ غدیرکے ذریعہ اصبغ بن نباتہ کااتمام حجت کرنا
جنگ صفین میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے اصبغ بن نباتہ کے ذریعہ معاویہ کےلئے ایک خط ارسال فرمایا ۔اصبغ بن نباتہ نے معاویہ کے پہلو میں بیٹہے ہو ئے ابو ھریرہ سے خطاب کرتے ہو ئے فرمایا :میں تجھ کو خدا کی قسم دیتا ہوں۔۔۔ کیا تم غدیر خم میں حا ضر تھے ؟
ابو ھریرہ نے کہا :ھاں ۔اصبغ بن نباتہ نے سوال کیا :پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں کیا فرمایاتھا ؟ ابو ھریرہ نے کہا :میں نے رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو یہ فرماتے سنا ہے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ ،اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ
“۔اصبغ نے کہا :اگر ا یسا ہے تو تم نے ان کے دشمن کی ولایت تسلیم کی اور ان سے دشمنی کی ہے !!
ابوھریرہ نے ایک گھری سانس لی اور کہا :اِنَّاللهِ وَاِنَّااِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ
۔
۷ ۔غدیر کے ذریعہ ابو الھیثم بن تیھان کا اتمام حجت کرنا
بارہ آدمیوں نے حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام کی اجازت سے جمعہ کے دن ابوبکر کے منبر کے سامنے کھڑہے ہو کر اس پر اعتراض کرنے اور اتمام حجت کے عنوان سے مطالب بیان کرنے کا ارادہ کیا ۔ان میں سے ایک ابو الھیثم بن تیّھان تھے جنھوں نے اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر کہا :میں گوا ہی دیتا ہوں کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے دن حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ و جا نشین مقرر فرمایا انصار کے ایک گروہ نے رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت با برکت میں ایک شخص کو ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔‘ کے مطلب کے سلسلہ م یں سوال کرنے کی غرض سے بھیجا ۔تو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا ان سے کہنا کہ:علی علیہ السلام میرے بعد مو منوں کے صاحب اختیار اور میری امت کےلئے سب سے زیادہ ھمدردو خیرخواہ ہیں ۔
۸ ۔غدیر کے ذریعہ ابو ایوب انصاری کا اتمام حجت کرنا
ایک مسافر نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حاضر ہوکر عرض کیا: اے میرے مولا اور صاحب اختیار آپ پر میرا سلام!حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا یہ کو ن ہے ؟
تو عرض کیا گیا :یہ ابو ایوب انصاری ہیں ۔
آپعليهالسلام
نے فرمایا : اس کے راستہ سے ہٹ جا و !لوگ راستہ سے ہٹے اور انھوں نے آگے آکر عرض کیا :میں نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو یہ فرماتے سنا ہے : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔،
۹ ۔غدیر کے ذریعہ قیس بن سعد بن عبادہ کا ااتمام حجت کرنا
۱ ۔ قیس اور ان کے باپ جوانصار کے سردار اور ابو بکر کے مخالف تھے ۔ایک دن ابو بکر نے قیس سے کہا :خدا کی قسم تم وہ کام انجام نہیں دو گے جس سے تمھا رے امام اور دوست ابو الحسن علیھما السلام نا راض ہو تے ہوں ۔قیس نے غضبناک ہوکر کہا :اے ابو قحافہ کے بیٹے ،۔۔۔خدا کی قسم اگر چہ میرے ھاتھوں نے تیری بیعت کر لی ہے لیکن میرے دل اور زبان نے تو تیری بیعت نہیں کی ہے ۔حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں میرے لئے غدیر سے بلند و بالا کو ئی حجت نہیں ہے ۔ھم کو ہمارے حال پر چھوڑ دے کہ ہم تیرے راستہ میں اندہے ہوکر غرق ہو جا ئیں اور تیرے سلسلہ میں گمرا ہی میں مبتلاہو جا ئیں حالانکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم نے حق کا راستہ چھوڑ دیا ہے اور با طل کے راستہ کو اپنا لیا ہے !!
۲ ۔حضرت امام مجتبیٰ علیہ السلام سے صلح ہو جا نے کے بعد معاویہ سفر حج کے ارادے سے مدینہ پہنچا تو انصار نے اس کی کو ئی پروا نہ کی تومعاویہ نے اس سلسلہ میں قیس سے اعتراض کیا ۔ قیس نے اس کے جواب میں امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور ان کی مظلومیت کی یاد دلا ئی تو معاویہ نے سوال کیا :ان مطالب کی آپ کو کس نے تعلیم دی ہے ؟ قیس نے کہا : امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام سے تعلیم حاصل کی ہے ۔۔۔جب پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان (علی علیہ السلام)کو غدیر خم کے میدان میں اپنا خلیفہ و جانشین بناکر فرمایا: ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
۱۰ ۔غدیر کے ذریعہ ابو سعید خدری کا اتمام حجت کرنا
۱ ۔ابو سعید خدری ان افراد میں سے ہیں جنھوں نے واقعہ غدیر کو مفصل طور پر نقل کیا ہے انھوں نے اپنی گفتگو کے ایک حصہ میں اس طرح کہا ہے :پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے روز لوگوں کو دعوت دی ۔۔۔حضرت علی علیہ السلام کے بازو پکڑ کر بلند کئے ۔۔۔اور فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاه
۔۔“۔اس کے بعد آ یہ(
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ
۔۔۔)
نازل ہو ئ ی ۔اس کے بعد حسان بن ثابت نے اشعار پڑہے ۔
۲ ۔عبد اللہ بن علقمہ وہ شخص تھا جو بنی امیہ کے پروپگنڈے سے بہت متا ثر تھااور امیر المو منین علیہ السلام کو نا سزا الفاظ کہتا تھا ۔ایک دن ابو سعید خدری سے اس نے پوچھا :کیا تم نے حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں کو ئی منقبت سنی ہے ؟ابو سعید نے کہا :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے روز ان کے سلسلہ میں تبلیغ کامل فر مائی اور ۔۔۔اور ان کے دونوں ھاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“اورآپ نے اس جملہ ک ی تین مرتبہ تکرارفرمائی۔
عبد اللہ بن علقمہ نے تعجب سے سوال کیا :کیا تم نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس فرمان کو خود سنا ہے ؟ابو سعید نے اپنے کانوں اور سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا :پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس فرمان کو میرے دونوں کا نوں نے سنا ہے اور میرے دل نے اس کو اپنے اندر جگہ دی ہے ۔اسی مقام پر عبد اللہ نے کہا :میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنے نا سزا الفاظ کہنے سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں ۔
۱۱ ۔غدیر کے ذریعہ اُبیّ بن کعب کا اتمام حجت کرنا
معروف صحابی ابی بن کعب نماز جمعہ میں ابو بکر پر اعتراض کے عنوان سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگے :اے مھا جرین و انصار کیا تم نے خود کو فراموشی میں ڈالدیا ہے یا تم کو بفراموش کردیا گیا ہے یا تم تحریف کا قصد رکھتے ہو یا حقیقتوں میں رد و بدل کرتے ہو یا ذلیل و خوار کرنے کا قصد رکھتے ہو یا عاجز ہو گئے ہو ؟!کیا تمہیں نہیں معلوم کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ایک اہم مو قع پر قیام فرمایا اور حضرت علی علیہ السلام کو ہمارا مو لا وآقا بنا کر فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
۱۲ ۔غدیر کے ذریعہ جابر بن عبد اللہ انصاری کا اتمام حجت کرنا
۱ ۔جناب جابر غدیر کا واقعہ اس طرح نقل کرتے ہیں :خداوند عالم نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کوحکم دیا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کا خلیفہ و امام معین فر ما دیں اور لوگوں کو ان (علیعليهالسلام
)کی ولایت کی خبر دیدیں ۔اس حکم کے بعد حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں تشریف فر ماکر حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فر مایا ۔
۲ ۔حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام کی موجود گی میں ایک عراقی نے جناب جابر کے گھر میں داخل ہوکر کہا :اے جا بر میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں جو کچھ تم نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے دیکھا اور سنا ہے وہ میرے لئے بیان کریں۔جناب جابر نے کہا :ھم جحفہ کے علاقہ میں غدیر خم کے میدان میں تھے اور وھاںپر مختلف قبیلوں کے کثیر تعداد میں لوگ مو جود تھے تو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنے خیمہ سے باھر تشریف لائے ،آپ نے اپنے دست مبارک سے تین مرتبہ اشارہ فر مایا اور حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیکر فر مایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
۱۳ ۔غدیر کے ذریعہ زید بن صوحان کا اتمام حجت کرنا
زید پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بہترین اصحاب میں سے تھے جو جنگ جمل میں شھید ہو ئے تھے جب وہ میدان جنگ میں زمین پر گرے تو حضرت امیرالمو منین علیہ السلام ان کے سرھانے تشریف لے گئے اور فرمایا :اے زید خدا تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے ۔تم سبک بار تھے یقیناتمھاری مدد بہت اہمیت کی حا مل تھی زید نے اپنے سر کو امیر المو منین علیہ السلام کی طرف بلند کر تے ہو ئے عرض کیا :۔۔۔خدا کی قسم میں آپعليهالسلام
کے لشکر میں جھالت کی حالت میں قتل نہیں ہونگا ،بلکہ میں نے رسول اسلا مصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زوجہ ام سلمہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا تھا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ ،اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ
“۔خدا ک ی قسم میںنے ہر گز آپ کو خوار کرنا نہیں چاھاچونکہ میں نے یہ دیکھا کہ اگر میں آپعليهالسلام
کو خوار کروں تو خدا مجھ کو ذلیل و خوار کرے گا ۔
۱۴ ۔غدیر کے ذریعہ حذیفہ بن اسید غفاری کا اتمام حجت کرنا
حذیفہ بن اسید واقعہ غدیر کو اس طرح نقل کر تے ہیں :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حجة الوداع سے واپس پلٹتے وقت فرمایا :خداوند عالم میرا صاحب اختیار ہے اور میں ہر مسلمان کا صاحب اختیار ہوں اور میں مومنین کے نفوس پرخود ان کی نسبت زیادہ اختیار رکھتا ہوں ۔آگاہ ہو جاو !”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
“
۱۵ ۔غدیر کے ذریعہ عبد اللہ بن جعفرکا اتمام حجت کرنا
معاویہ اپنی حکومت کے پہلے سال مدینہ آیا اور اس نے وہاں پر ایک جلسہ کیا جس میں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیھما السلام ،عبد اللہ بن جعفر ،ابن عباس اور دوسرے افراد کو دعوت دی ۔اس جلسہ میں معا ویہ کے خلاف بہت زیادہ آوازیں بلند ہوئیںمنجملہ جناب عبد اللہ بن جعفر نے کہا :”اے معا ویہ ،پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
منبر پر تشریف فرما تھے اور میں ،عمربن ابی سلمہ ،اسامہ بن زید،سعد بن ابی وقاص ، سلمان ،ابوذر ، مقداد، اور زبیر آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سامنے بیٹہے ہو ئے تھے کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا : کیا میں مو منوں کے نفوس پر خود ان کی نسبت زیادہ اختیار نہیں رکھتا؟ ہم سب نے عرض کیا : ھاں (کیوں نہیں ) یا رسول اللہ ۔تب آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
“۔
معاویہ نے اس سلسلہ میں حضرت امام حسن اور امام حسین علیھما لسلام اور ابن عباس سے سوال کیا تو ابن عباس نے کہا :تو جوکچھ کہہ رہا ہے اس پر ایمان کیوں نہیں لاتا ۔اب جن اشخاص کے اس نے نام لئے ہیں ان کو بلاکر ان سے سوال کر ۔معاویہ نے عمر بن ابی سلمہ اور اسامہ کو بلا بھیجا اور ان سے سوال کیا انھوںنے گواھی دی کہ جو کچھ عبد اللہ نے کہا ہے وہ با لکل صحیح ہے اور ہم نے اسی طرح پیغمبرا سلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو فر ماتے سنا ہے ۔
۱۶ ۔غدیر کے ذریعہ ابن عباس کا اتمام حجت کرنا
۱ ۔مدینہ میں معاویہ کی اسی نشست میں ابن عباس نے معا ویہ پر احتجاج کر تے ہو ئے کھا: پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم میں لوگوں میں سب سے افضل ،ان میں سب سے سزاواراور ان میں سب سے بہترین شخص کو امت کےلئے منصوب فرمایا اور حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ اس امت پر حجت تمام فرمائی اور ان کو حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔۔۔اور ان کو با خبر فرمایا کہ جس کا صاحب اختیار پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہے علی علیہ السلا م بھی اس کا صاحب اختیار ہے ۔(اور ایک روایت میں آیا ہے اے معا ویہ کیا تجھ کو اس بات پر تعجب ہے کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں اور دوسرے متعدد مقامات پر امامو ں کے نا م بیان فر مائے ، ان (لوگوں) پرحجت تمام کی اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم صادر فر مایا ۔
۲ ۔ابن عباس نے ایک مقام پر غدیر کو اس طرح نقل کیا ہے :خداوند عالم نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو حکم دیا کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کا امام معین فر ما دیں اور ان کو ان(علیعليهالسلام
) کی ولایت کی خبر سے آگاہ فر ما دیں ۔اسی لئے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں آپعليهالسلام
کی ولایت کا اعلان کرنے کے لئے قیام فر مایا ۔
۳ ۔ایک دوسرے مقام پر ابن عباس واقعہ غدیر کو یوں نقل کرتے ہیں :پیغمبر اکر مصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے لوگوں کے حضور میں حضرت علی علیہ السلام کے بازو پکڑ کر فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“ اس کے بعد ابن عباس نے کہا : خدا ک ی قسم اس اقدام سے لوگوں پر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت واجب ہو ئی ۔
۱۷ ۔غدیر کے ذریعہ اسامہ بن زید کا اتمام حجت کرنا
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سن مبارک کے آخری ایام میں اسامہ نے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے کمانڈر کے عنوان سے ایک فوج تیار کی اور رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے حرکت کی ۔اسی دوران ابوبکر نے خلافت غصب کرلی اور اس نے اسامہ کو ایک خط تحریر کیا جس میں اسامہ کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی، اسامہ نے خط کا جواب اس طرح تحریر کیا :۔۔۔تم حق کو صاحب حق تک واپس پہنچا نے کی فکر کرو اور ان کے حوالہ کردو اس لئے کہ وہ تم سے کہیں زیادہ سزاوار ہیں ۔تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کےلئے کیا فر ما یا ہے اتنا زیادہ عرصہ بھی تو نہیں ہوا جو تم بھول گئے ہو!
۱۸ ۔غدیر کے ذریعہ محمد بن عبد اللہ حِمیَری کا اتمام حجت کرنا
ایک دن معاویہ کے پاس تین شاعر موجود تھے جن میں سے ایک محمد حمیری تھے ۔معاویہ نے سونے کی ایک تھیلی باھر نکالتے ہو ئے کہا :میں تم میں سے یہ تھیلی اس شخص کو دونگا جو حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں حق کے علاوہ اور کچھ نہ کہے دو شاعروں نے اٹھ کر حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نا سزا اشعار پڑہے ۔اس کے بعد محمد بن عبد اللہ حمیری نے اٹھ کر امیر المو منین علی علیہ السلام کی مدح میں اشعار پڑہے جس کی ایک بیت غدیر خم سے متعلق تھی :
تَنَاسُوْا نَصْبَهُ فِیْ یَوْمِ خُمٌّ مِنَ الْبَارِیْ وَمِنْ خَیْرِالاَنَامِ
یعنی :غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ وامام و جانشین رسول معین ہو نے کو بھلا دیا جو خدا وند عالم اور لوگوں میں سب سے بہترین شخص کے ذریعہ منصوب ہوئے تھے !
معاویہ نے کہا :تم نے ان سب میں سب سے صحیح اور سچ کہا !!یہ مال وزر کی تھیلی تم لے لو!
۱۹ ۔غدیر کے ذریعہ عمرو بن میمون اودی کا اتمام حجت کرنا
عمرو بن میمون اودی کہتے تھے :حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی نسبت بد گوئی کرنے والے جہنم کی لکڑیاں ہیں ۔میں نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعض اصحاب کہ یہ کہتے سنا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب کو وہ صفات عطا کئے گئے ہیں جو کسی اور کو نہیں دئے گئے ہیں ۔منجملہ یہ کہ وہ صاحب غدیر خم ہیں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے صاف طور پر ان کے نام کا اعلان فر مایا ،ان کی ولایت کو امت پر واجب قرار دیا ،ان کے بلند و بالا مقام کا تعارف کرایا ، ان کی منزلت کو روشن کیا ۔۔۔اور فرمایا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
۲۰ ۔غدیر کے ذریعہ بَرد ھمدانی کا اتمام حجت کرنا
قبیلہ ھمدان کا ایک (بَرد )نامی شخص معاویہ کے پاس آیاحالانکہ عمرو عاص امیر المو منینعليهالسلام
کی شان میں بدگوئی کر رہا تھا ۔برد نے کہا :اے عمر و عاص ہمارے بزرگوں نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو یہ فر ما تے سنا ہے:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
ک یا یہ حق ہے یا باطل ہے ؟عمرو عاص نے کہا حق ہے ، اس سے بڑھکر میں یہ کہتا ہوں کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ا صحاب میں کو ئی بھی علی علیہ السلام جیسے منا قب نہیں رکھتا ہے !!
اس مر د نے اپنے قبیلہ کے پاس واپس آکر کہا :ھم اس قوم کے پاس سے آئے کہ جن سے ہم نے خود ان کے اپنے خلاف اقرار لے لیاہے !آگاہ ہوجاؤکہ علی علیہ السلام حق پر ہیں اور ان کے پیرو کار بنو !
۲۱ ۔غدیر کے ذریعہ زید بن علی بن الحسین علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا
زید بن علیعليهالسلام
کے پاس پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس فر مان”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ“
کا تذکرہ ہوا تو ز ید نے کہا :پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کو اس علامت کے طور پر معین فرمایا کہ جس سے اختلاف کے وقت خدا وند عالم کے حزب و گروہ کی شناخت ہو جا ئے
۲۲ ۔پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے چالیس اصحاب کا غدیرکے ذریعہ اتمام حجت کرنا
سقیفہ کے واقعہ کے بعد ،اصحاب میں سے چا لیس افراد نے امیر المو منین علی علیہ السلام کی خدمت با بر کت میں آکر عرض کیا :خدا کی قسم ہم آپ کے علاوہ کسی کی اطاعت نہیں کریں گے حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :کس طرح ؟انھوں نے عرض کیا : ہم نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو غدیر خم کے میدان میں آپعليهالسلام
کے سلسلہ میں ان مطالب کو بیان فرماتے ہو ئے سنا ہے ۔آپعليهالسلام
نے فرمایا :کیا تم اپنے عہد و پیمان پر باقی ہو؟ انھوں نے کہا :ھاں ۔آپعليهالسلام
نے فرمایا :کل تم اپنے سرکے بال منڈاکر آنا ( تا کہ ہم ان سے جنگ کرنے کےلئے جا ئیں )۔
۲۳ ۔انصا ر کے ایک گروہ کا غدیر کے ذریعہ اتمام حجت کرنا
انصار کے کچھ افراد نے کوفہ میں امیر المو منین علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حا ضر ہوکر عرض کیا :اے ہما رے مو لا آپعليهالسلام
پر ہمارا سلام !۔۔۔حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :میں تمھارا مو لا کیسے ہوسکتا ہو ں جبکہ تم نئی قوم ہو؟انھوں نے عرض کیا :ھم نے غدیر خم میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو آپعليهالسلام
کے بازو پکڑکر یہ فر ما تے سنا ہے :خدا وند عالم میرا صاحب اختیار ہے اور میں مو منوں کا مو لا ہوں اور جس شخص کا میںصاحب اختیار ہوں یہ علیعليهالسلام
اس کے صاحب اختیار ہیں “
۲۴ ۔پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے چار اصحاب کے ذریعہ غدیرکے سلسلہ میں اتمام حجت
چار آدمیوں نے کو فہ میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حا ضرہو کر عرض کیا :السلام علیک یا امیر المومنین ورحمة اللہ و برکاتہ ۔حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا : علیکم السلام کھاں سے آئے ہو ؟ انھوں نے عرض کیا : ہم فلاں شھر سے آپعليهالسلام
کے موالی ہیں ۔
آپعليهالسلام
نے فرمایا :تم کھاں سے ہما رے موالی ہو ؟
انھوں نے عرض کیا :ھم نے غدیر خم کے میدا ن میںپیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو یہ فر ما تے سنا ہے”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔ “
۲۵ ۔غدیر کے ذریعہ عبد الر حمن بن ابی لیلیٰ کااتمام حجت کرنا
۱ ۔عبد الرحمن بن ابی لیلی نے حدیث غدیر کو اس طرح نقل کیا ہے :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم کے میدان میں سب کے سامنے پیش کیا اور ان کااس طرح تعارف فرمایاکہ وہ ہر مومن مرد و عورت کے صاحب اختیار ہیں ۔
۲ ۔ایک دن عبد الرحمن نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت اقدس میں کھڑے ہو کر عرض کیا : ہم آپ سے خلافت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لینے والوں کو کیسے خلافت کے آپ کی نسبت زیادہ سزوار کہہ سکتے ہیں ؟اگر ایسا کہیں تو پھرکیوں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں حجة الوداع کے بعد آپعليهالسلام
کو خلیفہ منصوب کرتے ہو ئے فرمایا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“۔
۲۶ ۔غدیر کے ذریعہ عمران بن حصین کا اتمام حجت کرنا
عمران بن حصین نے واقعہ غدیر کو اس طرح نقل کیا ہے :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :تم نے مجھ سے سوال کیاہے کہ میرے بعد تمھارا صاحب اختیار کو ن ہے اور میں نے تم کو اس کی خبر دیدی ہے ۔اس کے بعد غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
۲۷ ۔غدیر کے ذریعہ زید بن ارقم کا اتمام حجت کرنا
۱ ۔زید بن ارقم وہ شخص ہیں جنھوں نے غدیر خم کے دن پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سر کے اوپر سے درختوں کی شاخوں کو پکڑرکھا تھا کہ خطبہ ارشاد فرماتے وہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سر مبارک سے نہ ٹکرائیں ۔ فطری طور پر وہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ذریعہ حضرت علیعليهالسلام
کے بلند کئے جانے اور ان کا تعارف کراتے و قت آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا سب سے زیادہ نزدیک سے مشاہدہ کر رہے تھے ۔یہ وھی شخص ہے جس نے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خطبہ غدیر کو مفصل طورپر حفظ کیا اور بعد میں آنے والی نسلوں کےلئے نقل کیا ہے ۔
۲ ۔حساس مواقع پرزید بن ارقم جیسے شخص کی گواھی کی ضرورت تھی جس نے غدیر میںپیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا اتنے نزدیک سے مشاہدہ کیاتھا ۔کوفہ میں حضرت علیعليهالسلام
نے اس سے فرمایا کہ وہ لوگوں کے سامنے غدیر کے ماجرے کی گواھی دے لیکن اس نے اٹھ کر گواھی نہیں دی اور کہا کہ میں بھول گیا ہوں !!!
اس وقت مو لا ئے کا ئنات علیہ السلام نے فر مایا :اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو خدا وندعالم تمھاری آنکھو ں کو اندھا کرے وہ ابھی اس جلسہ سے باھر بھی نہیں گیا تھا کہ اندھا ہو گیا اور لوگوں کے درمیا ن امیر المو منین علیہ السلام کے نفرین شدہ کے عنوان سے اس کی شناخت کی جا نے لگی ۔اس نے یہ معجز ہ دیکھنے کے بعد یہ قسم کہا ئی کہ اس کے بعد جو بھی اس سے غدیر کے سلسلہ میں سوال کرے گاتو جو کچھ سنا اور دیکھا ہے اس کوضرور بتا وں گا ۔
۳ ۔زید بن ارقم کے بھا ئی کا کہنا ہے :ایک دن ہم زید کے ساتھ بیٹہے ہو ئے تھے ایک گھوڑا سوار اپنا سفر طے کر کے آیا اور اس نے سلام کرنے کے بعد زید کے بارے میں پوچھااور اس سے یوں عرض کیا: میں مصر کی فسطاط نامی جگہ سے آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ آپ سے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سنی ہوئی اس حدیث غدیر کے بارے میں سوال کروںجو حضرت علی بن ابی طالبعليهالسلام
کی ولایت پر دلالت کرتی ہے ۔زید نے غدیر کے واقعہ کو مفصل طور پر بیان کرنے کے دوران کہا :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر میں منبر پر فرمایا : لوگو! کون شخص تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق رکھتا ہے ؟مجمع نے کہا :خدا اور اس کا رسول ہما رے صاحب اختیار ہیں ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :”خدایا گواہ رہنا اور اے جبرئیل تو بھی گواہ رہنا ‘ اور اس جملہ کی آپ نے اپنی زبان اقدس سے تین مرتبہ تکرار فرمائی ۔اس کے بعد علی بن ابی طالبعليهالسلام
کے ہاتھ کو تھام کر اور اپنی طرف بلند کرتے ہو ئے فر مایا :
”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
اور اس جملہ کی آپ نے اپنی زبان اقدس سے تین مرتبہ تکرار فر مائی ۔
۴ ۔عطیہ عو فی نے زید بن ارقم سے کہا :میں واقعہ غدیر کو آپ سے سننے کا متمنی ہوں ۔زید نے کھا:پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
غدیر میں ظھر کے وقت اپنے خیمہ سے باھر تشریف لائے اور حضرت علیعليهالسلام
کے بازو تھام کر فر مایا :اے لوگو!کیا تم اس بات کو تسلیم کرتے ہو کہ میں تمھا رے نفسوں کا تم سے زیادہ صاحب اختیار ہوں ؟ لوگوں نے جواب دیا :ھاں ۔تب آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :
”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔ ۔۔۔“
۲۸ ۔غدیر کے ذریعہ برا ء بن عازب کااتمام حجت کرنا
براء بن عازب بھی وہ شخص تھے جو زید بن ارقم کی مدد کرنے کے لئے غدیر خم میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سراقدس کے اوپر سے درختوں کی شاخیں اٹھا ئے ہو ئے تھے تا کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
بالکل آرام و سکون کے ساتھ خطبہ ارشاد فر ما سکیں ۔وہ غدیر خم میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سب سے نزدیک تھے جب کوفہ میں علی بن ابی طالبعليهالسلام
نے لوگوں کے مجمع میں اس سے غدیر کے سلسلہ میں گو اھی دینے کےلئے فرمایا تو اس نے انکار کیا اور وہ آپعليهالسلام
کی نفرین میں گرفتار ہوا۔
وہ اس کے بعد اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہوا اور واقعہ غدیر کو اس طرح نقل کیا کرتا تھا :میں حجة الوداع میںپیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ تھا کہ جب آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
غدیر خم میں اترے نماز جماعت کا حکم صادر ہوا اورپیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کےلئے درختوں کے درمیان جگہ صاف کئی گئی آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے نماز ظھر ادا فرمائی اور حضرت علی علیہ السلام کے بازو تھام کر فر مایا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
۲۹ ۔غدیر کے ذریعہ شریک کااتمام حجت کرنا
شریک نخعی قاضی سے سوال کیا گیا :جو شخص ابو بکر کی معرفت حا صل کئے بغیر دنیا سے چلاجا ئے اس کا کیا حشر ہو گا ؟شریک نخعی نے جواب دیا : کچھ نہیں ،اس کے ذمہ کو ئی چیز نہیں ہے ۔سوال کیا گیا :اگر حضرت علی علیہ السلام کی معرفت حا صل کئے بغیر دنیا سے چلا جا ئے تو اس کا کیا حشر ہوگا؟ جواب دیا : اس کا ٹھکانا جہنم ہے ،اس لئے کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان راہنما کے طور پر منصوب فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
۳۰ ۔غدیر کے ذریعہ ام سلمہ کااتمام حجت کرنا
رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زوجہ ام سلمہ غدیر خم میں موجود تھیں ، وہ حدیث غدیر کو اس طرح نقل فر ما تی ہیں :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :
”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ،اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ
“
۳۱ ۔غدیر کے ذریعہ خو لہ حنفیہ کااتمام حجت کرنا
جب قبیلہ حنیفہ کے سردار مالک بن نویرہ نے غدیر کے ذریعہ استدلال کرتے ہوئے ابو بکر کی ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تو خالد بن ولید کے لشکر نے ان کے قبیلہ کے مردوں کو قتل کردیا اور عورتو ں کو قیدی بنا کرمدینہ لے آئے ۔ان ہی قیدیوں میں سے ایک خو لہ حنفیّہ نا می لڑکی کو مسجد میں لایا گیا وہاں پر اس نے امیر المو منین علیہ السلام سے عر ض کیا : آپ کون ہیں ؟آپعليهالسلام
نے فر مایا :میں علی بن ابی طالب ہوں؟ حنفیّہ نے عرض کیا : آپعليهالسلام
وھی شخص ہیں جن کو پیغمبر اسلام نے غدیر خم کے میدان میں لوگوں کا راہنما بنایا ؟آپعليهالسلام
نے فرمایا :ھاں، میں وھی ہوں ۔حنفیّہ نے عرض کیا : آپعليهالسلام
ہی کی وجہ سے ہم نے غضب کیا اور آپعليهالسلام
ہی کی وجہ سے ہم پر دھاوا بولا گیا اور ہم کو قیدی بنا لیا گیا ،چونکہ ہما رے مردوں نے کہا تھا :ھم اپنے اموال کے صدقات (زکات و فطرہ وخمس وغیرہ)اور اپنی اطاعت ہر کسی کے اختیار میں قرار نہیں دیں گے مگر یہ کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اسے ہمارا اور تمھارا امام و خلیفہ معین فر مایا ہو ۔
۳۲ ۔غدیر کے ذریعہ دارمیّہ حجونیہ کااتمام حجت کرنا
(دارمیہ) نا م کی ایک سیاہ فام خاتون امیر المو منین علیہ السلام کے شیعوں میں سے تھی ،معا ویہ جب حج کی غرض سے مکہ آیا تو اس نے اس خاتون کو بلا بھیجا اور اس سے سوال کیا :تم علیعليهالسلام
کو کیوں دوست رکھتی ہو اور مجھ کو کیوں دشمن رکھتی ہو ؟اور ان کی ولایت کو کیوں قبول کرتی ہو اور مجھ سے کیوں دشمنی رکھتی ہو ؟ دارمیّہ نے کہا : میں حضرت علیعليهالسلام
کی ولایت کو اس عہد و پیمان کی بنا پر قبول کر تی ہوں جو پیغمبر اسلامعليهالسلام
نے ہوں جو پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے روز ان(علیعليهالسلام
)کی ولایت کےلئے لیا تھا اور تو بھی اس وقت مو جود تھا ۔!
یہ غدیر کے سلسلہ میں منا ظروں اور استدلالات کے بعض نمو نے تھے ۔تاریخ میں ہزاروں ایسے مواقع ہیں جن میں غدیر کے سلسلہ میں شیعہ اور ان کے مخا لفوں کے ما بین بحثیںاورمنا ظرئے ہو ئے ہیں اورحدیث غدیر کی سند اور متن کے سلسلہ میں اتمام حجت کےلئے بہت سے مطالب بیان ہو ئے ہیں جن کو ایک مستقل کتاب میں بیان کر نے کی ضرورت ہے ۔
۳ غدیر کے سلسلہ میں دشمنوں کے اقرار
تاریخ میں بہت سے ایسے مواقع آئے ہیں جھاں پرخود دشمنان غدیر نے غدیر کی حجت کا اقرار کیا ہے یہ بات خود ان کے خلاف ایک حجت ہے ،ھم ذیل میں اس کے کچھ نمونے بیان کر رہے ہیں ۔
۱ ۔ غدیر کے سلسلہ میں ابلیس کا اقرار
جناب سلمان جن کی چشم بصیرت امیر المو منین علیہ السلام کی ولایت کی روشنی کے پر تو میں ظاہر کے علاوہ باطن کا بھی نظارہ کرتی تھی وہ اس طرح نقل کرتے ہیں : ایک دن ابلیس ( آدمی کی شکل میں )کا ایسی جگہ سے گذر ہوا جھاں پر کچھ لوگ امیر المو منین علیہ السلام کو کچھ نا سزا جملے کہہ رہے تھے ابلیس نے ان سے کہا :تم لوگوں کا برا ہو جو اپنے مولا علی بن ابی طالبعليهالسلام
کو برا بھلا کہہ رہے ہو! انھوں نے کہا : یہ کھاں سے معلوم ہو گیا کہ وہ ہما رے مو لا ہیں ؟ابلیس نے کہا :تمھارے پیغمبر کے اس فر مان کے ذریعہ :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
۲ ۔غدیر کے سلسلہ میں ابو بکر کا اقرار
ایک دن ابوبکر خلافت غصب کر نے کی تاویل کر نے کےلئے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حاضر ہوا اور کہا :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم میں ایام ولایت کے بعد کسی چیز میں کو ئی تغیر و تبدل نہیں فرمایا اور میں گواھی دیتا ہوں کہ آپعليهالسلام
میرے مو لا ہیں اور میں ان تمام مطالب کا اقرار کرتا ہوں اور میں نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے زمانہ میں بھی آپعليهالسلام
کو امیر المو منینعليهالسلام
کہہ کر سلام کیا ہے ۔
۳ ۔ غدیر کے سلسلہ میں عمر کا اقرار
عمر بن خطاب نے بھی حدیث غدیر کو اس طرح نقل کیا ہے :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا اعلان کر تے ہوئے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔“خدا یا تو ان کا گواہ رہنا!
حضرت عمر کا کہنا ہے :میں نے غدیر خم میں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے :خدا کی قسم پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے تم سے وہ عہد لیا جس کو منافق کے علاوہ اور کو ئی توڑنہیں سکتا ہے ۔۔۔اے عمر تو بھی اس پیمان کو توڑنے یا اس کی مخالفت کرنے سے پر ھیز کرنا !!
۴ ۔ غدیر کے سلسلہ میں ابو ھریرہ کا اقرار
۱ ۔سقیفہ کے قوی بازو ابو ھریرہ داستان غدیر کی اس طرح توصیف کرتے ہیں :غدیر خم میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کا بازو تھام کر فر مایا :کیا میں مو منوں کا صاحب اختیار نہیں ہوں؟ جواب ملا :ھاں ،یا رسو ل اللہ ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“اور یہ آیت :(
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
)
نا زل ہو ئی ۔
۲ ۔جنگ صفین میں اصبغ بن نباتہ حضرت امیر المو منین علیہ السلام کا ایک خط لیکر معاویہ کے پاس آئے۔وھاں پر آپ(اصبغ بن نباتہ )نے ابو ھریرہ کو دیکھ کر کہا :میںتجھ کو خدا کی قسم دےتا ہوں ۔۔۔کیا تم روز غدیر، غدیر خم کے میدان میں مو جو د تھے ؟اس نے کہا : ھاں ۔سوال کیا :تم نے حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا کیا فر مان سنا ہے : ابو ھریرہ نے کہا میں نے سنا ہے کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا ہے ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ،اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ
“
۳ ۔حضرت امام حسن علیہ السلام سے صلح کر نے کے بعد معاویہ کو فہ پہنچا ۔تو ہر رات ابوھریرہ مسجد کوفہ میںمعاویہ کے پہلو میں بیٹھتا تھا ۔ایک رات ایک جوان نے اس سے کہا :میں تجھ کو خدا کی قسم دیتا ہوں یہ بتا کیا تو نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو حضرت علی علیہ السلام کے با رے مےں یہ فر ما تے سنا ہے :اَللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ
“؟ابو ھر یرہ نے معا ویہ کی مو جو د گی میں کہا :ھاں ۔اس جوان نے کہا :میںخدا وند عالم کو گواہ بنا کر کہتا ہوںکہ تو نے ان کے دشمن (معا ویہ ) کی ولایت تسلیم کی ہے اور ان (علی علیہ السلام )کے دوستوں سے دشمنی کی ہے !
۵ ۔ غدیر کے سلسلہ میں سعد بن ابی وقاص کا اقرار
۱ ۔سعد بن ابی وقاص سقیفہ کے لشکریو ں کا سردار ہے اور اس نے ان کی بڑی خد مات انجام دی ہیں ۔وہ امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل کا اقرار کر تے ہو ئے کہتا ہے :حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں ان کےلئے سب سے افضل غدیر خم ہے ۔پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کے دو نوں با زوو ں کو تھام کر بلند کیااور میں یہ سب کچھ دیکھ رھاتھا اور فرمایا: کیا میں تم پر تمھا رے نفسوں سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ہوں ؟انھوں نے کہا :ھاں۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“۔
۲ ۔سعد (جس نے قتل عثمان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت نہیں کی تھی )کی مکہ کے سفر میں دوعراقیوں سے ملاقات ہو ئی اس نے ان سے امیر المو منین علیہ السلام کی پانچ بژی فضیلتوں میں سے غدیر کی ایک فضیلت کی اس طرح تو صیف کی ہے :ھم حجة الوداع میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ھمراہ تھے ۔ حج سے واپسی پر پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم میں قیام فر مایا اور منادی کو ندا دی کہ وہ مردوں کے درمیان یہ اعلان کرے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔۔“
۶ ۔ غدیر کے سلسلہ میں انس بن مالک کا اقرار
انس بن مالک پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خدمت گذار اور غدیر خم میں مو جو د تھے ۔اس نے سب سے حساس مو قع (جب حضر ت علی علیہ السلام نے کوفہ میں سب لوگوں کی مو جو د گی میں اس سے غدیر کے سلسلہ میں گوا ہی دینے کےلئے فر مایا )پر آپعليهالسلام
کی گوا ہی دینے سے انکار کیا اور آپعليهالسلام
کی نفرین سے مرض برص میں اس طرح مبتلا ہوا کہ اس کی پیشانی پر سفید داغ ہو گیا جس کا سب مشاہدہ کر تے تھے اور سب اس کی وجہ سے واقف تھے ۔
اس نے اس مرض میں مبتلا ہو جا نے کے بعد سے غدیر کو مخفی نہ کرنے کا ارادہ کیا اس کا ایک نمونہ کچھ یوں ہے :میں نے غدیر خم کے میدان میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو اس وقت جب آپ حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ تھا مے ہو ئے تھے یہ فر ما تے سنا ہے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
۔۔
۷ ۔ غدیر کے سلسلہ میں عمرو عاص کا اقرار
معاویہ نے عمرو عاص کو ایک خط لکھا جس میں حضرت علی علیہ السلام کو نا سزا الفاظ لکھتے ہو ئے اس کو اپنی مدد کےلئے طلب کیا ۔عمرو عاص نے معاویہ کے خط کا جواب دیا اوراس کی باتوں کو رد کر تے ہو ئے مو لا ئے کا ئنات کے فضا ئل و مناقب شمار کئے منجملہ یہ تحریر کیا :پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان کے سلسلہ میں فر ما یا ہے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ،اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ
“
۸ ۔ غدیر کے سلسلہ میں حسن بصری کا اقرار
حسن بصری حدیث غدیر کو یوں نقل کر تے ہیں :پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم کے میدان میں امام مقرر کرتے ہو ئے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
“
۹ ۔ غدیر کے سلسلہ میں عمر بن عبد العزیز کا اقرار
ایک شخص نے ملک شام میں عمر بن عبد العزیز سے کہا :میں علیعليهالسلام
کے مو الیوں میں سے ہوں اس نے بھی اپنے سینہ پر ہاتھ مارکر کہا :خدا کی قسم میں بھی موالیان علیعليهالسلام
میں سے ہوں ۔ اس کے بعد کھا: کچھ لوگوں نے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ ہم نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو یہ فر ما تے سنا ہے : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ
“
۱۰ ۔ غدیر کے سلسلہ میں ابو حنیفہ کا اقرار
ابو حنیفہ ایک ایسی مجلس میں پہنچے جس میں غدیر کے سلسلہ میں گفتگو ہو رہی تھی تو اس نے کھا: میں نے اپنے اصحاب سے کہہ دیا ہے کہ شیعوں کے سامنے حدیث غدیر کا اقرار نہ کریں کہ وہ تمھاری مذمت کر یں !!اس مجلس میں موجود صیرفی نے نا راضگی کا اظھار کر تے ہو ئے کہا :اس کا اقرار کیوں نہ کریں؟کیا یہ مطلب تمھارے نزدیک ثابت نہیں ہے ؟ابو حنیفہ نے کہا :ثابت ہے اورخود میں نے ہی اس کو نقل کیا ہے ۔
۱۱ ۔غدیر کے سلسلہ میں مامون عباسی کا اقرار
مامو ن نے بنی ھاشم کو ایک خط لکھا جس میں امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل رقم کئے تھے منجملہ اس نے یہ تحریر کیا تھا :”حدیث غدیر خم میں وہ(علیعليهالسلام
)صاحب ولا یت تھے “۔
۲ ۔مامون نے خراسان میں ایک جلسہ منقعد کیا جس میں اسلام کی چالیس بڑی بڑی ھستیوں کواپنے ساتھ مناظرہ کے لئے دعوت دی ۔اس جلسہ میں اس نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے سلسلہ میں حدیث غدیر کے بارے میں استدلال کیا اور انھوں نے قبول کیا ۔
۱۲ ۔ غدیر کے سلسلہ میں طبری کا اقرار
اھل سنت کے مشہور و معروف مورخ طبری کے دور میں ابو بکر بن داود نے حدیث غدیر خم کے سلسلہ میں کچھ نادرست باتیں بیان کر دی تھیں ۔جب یہ خبر طبری تک پہنچی تو اس نے ابو بکر بن داود کے جواب میںحدیث غدیر کے متعلق ایک مستقل کتاب تحریر کی اور اس میں حدیث غدیر کے اسناد کو صحیح ثابت کیااور ضروری منابع و مدارک بھی تحریر کئے ۔
یہ سب سقیفہ کے طرفداروں کے حدیث غدیر کے سلسلہ میں اقرار کے بعض نمونے تھے ۔ان چودہ صدیوں میں اہل سنت کے بہت بڑے بڑے بزگوں نے اپنی کتابوں اور تقریروں میں حدیث غدیر کا اعتراف کیا ہے یھاں تک کہ انھوں نے اس سلسلہ میں کتا بیں بھی لکھی ہیں ۔
۴ غدیر سقیفہ کے مد مقابل
حالا نکہ غدیر ایک بہت بڑا وسیع بیابان تھا جو پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تقریر کے لئے آمادہ و تیار کیا گیا تھا ،لیکن جس دن رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس میں خطبہ غدیر ارشاد فرمایا تھا اسی دن سے وہ سقیفہ اور غدیر کامیدان جنگ قرارپایا ۔سقیفہ کے لشکر کے سردار منبر غدیر کے سامنے بیٹھنے کے با وجود اپنے تیز و طرار دانتوں کو پیس پیس کر غدیر اور غدیریوں کو ڈرا رہے تھے ،ان کے کمانڈر اور ان کے وفادار ساتھیوں کو جنگ کے لئے تیار رہنے کا چیلنج کر رہے تھے یھاں تک کہ صاحب غدیر کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔
سقیفہ کے لشکر کی تشکیل
ماجر ا ئے غدیر کے واقع ہو نے کے ساتھ ہی سقیفہ کی بنیاد رکھنے والوں نے فوجی ،سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی عہد نامہ پر دستخط کئے اور اپنا لشکر تیار کر نے میں جٹ گئے ۔
انھوں نے اس کام کو عملی جا مہ پہنا نے میں اتنی جلدی کی کہ ستر دن گزر نے کے بعد ایک بڑا لشکر لیکر صاحب غدیر کے گھر پر دھا وا بول دیا اور گھر کو آگ لگا دی ۔وہ بڑی ضرب و شتم کے ساتھ گھر میں گھس گئے اور غدیر کا دفاع کرنے والوں میں پیش قدمی کرنے والوں یعنی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور محسنعليهالسلام
کو شھید کر دیا ،صاحب غدیر کی گردن میں رسی کا پھندا ڈالا اور غدیریوں پر اس وحشیانہ حملہ سے انھوں نے اپنے خیال خام میں غدیر کافا تحہ پڑھ دیا۔
سقیفہ کے با لمقابل غدیر کی مقا ومت
اھل سقیفہ اس بات سے غافل تھے کہ خدا وند عالم ،پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ائمہ معصومین علیھم السلام غدیر کے محا فظ ہیں اور اس جنگ کے فاتح بھی وھی ہیں ۔ غدیرکے حا می بھی صاحبان غدیر کے انتخاب کے ساتھ اپنے اندر لشکر غدیر کاممبر ہو نے کی صلا حیت پیدا کرلیں گے ۔
غدیرکے سلسلہ میںسب سے پہلی بارہونے والی جنگ یعنی سقیفہ میں حقیقتاً دونوں(یعنی غدیریوں اور اہل سقیفہ ) کا پلّہ برابر نہیں تھا ؛غدیری اگرچہ مغلوب ہو گئے لیکن صاحب غدیر کی موجودگی میں صحیح طور پر حقا ئق کو واضح کرنے اور آنے والی نسلوں کےلئے حجت تمام کر نے میں کا میاب و کامران رہے ۔غدیر یوں کی صف میں پہلے توتین آدمی تھے لیکن آہستہ آہستہ اس حسن تدبیر سے سات آدمی ہو ئے اسی طرح آج ان کی تعدادکروڑوںاور اربوں افراد تک پہنچ گئی ہے ۔
غدیر،جنگ جمل ،صفین اور نھر وان میں
اگر وھی پہلے دن والی ہی سقیفہ ہو تی توھر گز یہ نوبت نہیں آسکتی تھی کہ پچیس سال کے بعدلوگ حضرت امیر المو منینعليهالسلام
سے خلافت قبول کرنے کےلئے التماس کریںیہ اُن ہی کا موں کا اثر تھا جو غدیریوں نے سقیفہ کے دن انجام دئے تھے ۔ان ہی ایام میں جمل ،صفین اور نھروان جیسی جنگو ں کےلئے صف آرائی ہوئی
اگرچہ سقیفہ میں صف آرائی کی نو بت نہیں آئی اور غدیری بظاہر جلدی ہی خاموش ہو گئے اور غدیریوں کی تعداد چا لیس افراد تک نہ پہنچ سکی لیکن امیر المو منین علیہ السلام کے ساتھ ہو نے والی ان تینوں جنگوں میں بہت سے صاحبان ِ شمشیر (ایمان کے مختلف درجات کے ساتھ ) آپعليهالسلام
کے ھمراہ تھے جن میں صرف پانچ ہزار افراد شرطة الخمیس
یعنی فدائیان غدیر تھے کہ جنھوں نے مولیٰ ،امیر المو منین کا صاحب اختیار ہونے اور مقام ولایت مطلقہ کی مطلق اطاعت کا عملی نمونہ پیش کیا۔
ان میں سے ایک اصبغ بن نباتہ تھے کہ جس وقت ان سے سوال کیا گیا :تمھا رے نزدیک امیر المو منین علیہ السلام کی منزلت کس حد تک ہے ؟انھوں نے کھاھم نے تلواروں کو اپنے کند ھوں پر رکھ لیا ہے اور جس پر وہ اشارہ کر دیں گے اس پر چلا دیں گے ۔۔۔
غدیر کے مقابلہ میں سقیفائی چھرے
اھل سقیفہ جن کا پہلے دن صرف ایک ہی چھرہ تھالیکن بعد میں تین خاص اور سیکڑوںعام چھرے ہوگئے کہ جن کا خلاصہ یھی تین چھرے تھے اور غدیر یوں کے ساتھ جنگ کر نے کےلئے آمادہ ہوگئے ۔یہ وہ افراد تھے جو پہلے دن اپنے باطن کو چھپا ئے ہو ئے تھے صرف غا صبوں کی پیٹھ پیچہے ہی ان کے حق میں باتیں کیا کر تے تھے لیکن اب انھوں نے یہ بتلا دیا کہ وہ اصحاب سقیفہ کا کس لئے دم بھر ر ہے تھے ۔
ایسے ایسے گروہ مو جود تھے جن کی پیشانیوں پرعبادت کی وجہ سے گھٹے پڑے ہو ئے تھے اور وہ ظاہری طور پر زاھدمعلوم ہو تے تھے لیکن اس کے با وجود وہ حضرت علیعليهالسلام
کے مد مقابل آرہے تھے کچھ لوگ ریاست طلبی کے عنوان سے حضرت علی علیہ السلام کے مد مقابل آرہے تھے ، کچھ گروہ مال و دولت کے لالچ میں آپعليهالسلام
سے جنگ کر نے آئے تھے ،کچھ گروہ عیاش تھے وہ اپنی عیاشی کے چکر میں حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کر رہے تھے ،کچھ گروہ اسلام اورپیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نسبت شدید محبت کا اظھار کر نے کے با وجود صاحب غدیر کے مد مقابل ہو رہے تھے !!کچھ گروہ پیغمبر کی نسبت اپنے کفر و عناد کا مظاہرہ کر رہے تھے ،کچھ افراد صاف طور پر پیغمبر اور قر آن کے مخالف عقائد کا دم بھر نے کے با وجود اپنے کو اسلام کے وفادار سمجھتے تھے اور اسی نظریہ کے مد نظر امیر المو منین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کر نے کےلئے آئے تھے ۔
غدیر کے مد مقابل سقیفہ کی پُرفریب صورتیں
دوسری طرف سقیفہ میں کچھ ظاہر فریب چھرے نمایاں طوپر نظر آئے کہ جنھو ں نے اپنے مدمقابل معاشرہ کی کمر توڑکر رکھ دی ہے ۔
پھلی مر تبہ جنگ میں رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زوجہ حضرت علی علیہ السلام کے مد مقابل آئیں حالانکہ پیغمبر اسلام کے دو صحا بی طلحہ و زبیر بھی اس کے ساتھ تھے ۔
ایک طرف عورت کا میدان جنگ میں آنا اور دوسری طرف پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زو جہ ہو نا عوام کو دھوکہ دینے کا نرالا طریقہ تھا جس کا بظاہر اثر بھی ہوا لیکن سقیفہ کے بانی کی بیٹی ہو نے اور اپنے پدر بزر گوار کےلئے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے دورحیات اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رحلت کے بعد جا سوسی جیسے کارنامے اس کے نامہ اعمال میں درج تھے جس کی بنا پر اس کو غدیر کے مد مقابل سقیفہ کابہترین نمائندہ تصور کیا جاسکتاتھا
دوسری مرتبہ قتل عثمان کے بھانے سے جو سقیفہ کا تام الاختیار آخری لیڈر تھا جس کو سقیفہ میں بنائے گئے منصوبے کے تحت منتخب کیا گیا تھا ،معاویہ اور سقیفہ کے بقیہ دوسرے افراد نے مل کر ایک گروہ تیار کیا اور سقیفہ کے مقتول خلیفہ کا انتقام لینے کی غرض سے قیام کیا ۔سقیفہ کے کُرتے کو دمشق کے اس منبر پر لٹکایا جس کی بنیاد سقیفہ میں محکم کی گئی تھی ،خال المو منین اور کاتب وحی جیسے زیور سے آراستہ کیا اور غدیر سے جنگ کے لئے نکل آئے ۔
غدیروالوں نے بھی عمار یاسر ،اویس قرنی اور مالک اشتر جیسے فدا کاروں کے ساتھ جتنا ہو سکتا تھا فدا کاری کا مظاہرہ کیا اور ایسے حالات پیدا کردئے کہ غدیر کا سنھرا نقش آسمان پر ابھر آیا ۔
تیسری مرتبہ نھروان کے کج فکر افراد جودرحقیقت سقیفہ کی پیدا وار تھے خود خواھی اور پروردگار عالم کی طرف سے منصوب امام کی اطاعت نہ کرنے کا سقیفہ والوں کی طرح عہد کرچکے تھے وہ بھی غدیر کے میدان میں آئے ۔
اس کے بعدصاحب غدیر کی اس شمشیر سے شھادت کہ جس پر انھوں نے اسلام کے نام کا سنھرا پا نی چڑھا رکھا تھا اوراسے خالص سقیفہ کے زھر میں بجھا ئے ہو ئے تھے یہ سقیفہ وا لوں کوطرف سے غدیر کو ذبح کرنے کا راستہ صاف نظر آرھا تھا ۔
مقتل غدیر!!
معا ویہ نے بیس سال کی طویل مدت میں غدیر کےلئے ایک بہت بڑا مقتل تیار کیاتھا اور اس میں ہزاروں غدیریوں کے سر کا ٹ کر ان کے خون سے لشکر سقیفہ کو سیراب کیا تاکہ کربلا کےلئے قوی ہو جا ئیں مرگ معاویہ اور یزیدکے بر سر اقتدار آجا نے کے بعد یہ بڑا مقتل غدیر کا سر کا ٹنے کےلئے تیار تھا اور یھی غدیر کو کر بلا تک کھینچ کر لایا تا کہ سقیفہ کے لیڈروں کے خواب کی صحیح تعبیر ہو جا ئے ۔
غدیر یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام
اس مرتبہ غدیر اپنی پوری طاقت اور چندفداکار ساتھیوں کے ساتھ کر بلا کے میدان میں پہنچی،یہ حسینعليهالسلام
تھے جو اپنے ایسے با وفاساتھیوں کے ساتھ آئے تھے جو شھادت اور ٹکڑے ٹکڑے ہو نے کےلئے اپنی کمر با ندہے ہو ئے تھے اورجس کا دوسرا گروہ اسیر ہو نے ،سر بریدہ غدیر کےلئے آنسو بھانے اور شام کے بے خبروں کو غدیر کی خبر سے با خبر کر نے کےلئے تیار تھے ۔
اس مقام پر حضرت امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے عملی نمونہ کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے :
”اِذَاکُتِبَ الْکِتَابُ قُتِلَ الْحُسَیْنُ عَلَیْهِ السلامُ “
جس وقت غدیر کے با لمقابل سقیفہ کا عہد نا مہ لکھا گیا تھا حضرت امام حسین علیہ السلام شھید ہو گئے تھے “!
ھاں !غدیر کا اس کے با وفا ساتھیوں سمیت سر قلم کردیا ،اس کے با عظمت خیموں کو غارت کر دیا ، ان میں آگ لگا دی ،غدیر کے عزیز و اقربا کو قید ی بنا لیا تا کہ سقیفہ کے دوسرے شھر والے اس پر فخر و مباھات کریں اور یہ اعلان کریں کہ غدیر کا کام تمام ہو گیا ہے ،لیکن۔۔۔!
غدیر کی حقیقی زندگی
غدیر نے اپنی واقعی اور حقیقی زندگی کا آغاز کر بلا کے دن سے کیا اور پچاس سال سقیفہ کے اوباش افراد کے ھاتھوں میںگرفتار رہنے کے بعد پھر سے نئی زندگی کا آغاز کیا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد دو بارہ غدیرکی آواز دنیا کے آخری گو شہ تک پہنچی یھاں تک کہ کفار اور مشرکین نے اہل سقیفہ پر لعنت کی اور غدیر کی سر افرازی کو مبارکباد پیش کی ہے ۔
اس مر تبہ پھرسقیفہ اور غدیر کی جنگ کے شعلے بھڑکے اور اہل سقیفہ کے کینہ و حسد کے شعلے اتنے بھڑکے کہ انھوں نے سقیفہ کا جا نشین حجاج جیسے خو نخوار وںکو بنا دیا ۔وہ بھی چراغ لیکر آئے اور غدیر کے فدا ئیوں کو چُن چُن کرمقتل سقیفہ میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔ قنبرجیسوں نے بذات خود اپنے کو غدیر میں شھید ہو نے کےلئے اپنا تعارف کرایا ۔اگرچہ ان کی زبان کاٹ دی گئی یا ان کی زبان گُدّی سے نکال لی گئی لیکن یہ سب غدیر کی وہ بیش بھا قیمت تھی جو وہ اپنے جان و دل سے ادا کر رہے تھے ۔
گو یا سقیفا ئی پارٹی کو بخو بی اس بات کا پتہ تھا کہ ابھی غدیر زندہ و جا وید ہے اورھر دن اس کو نئی زندگی مل رہی ہے ۔غدیر ان نسلوں کی منتظر ہے جو اپنی کسی چیز کے کھو جا نے کے بعد اپنے ھاتھو ں کو پھیلا ئے ہو ئے اس کے استقبال کےلئے کھڑی رہیں اوردل کے پیروں سے صحرائے غدیر میںحا ضرہوں اور صاحب غدیر کی بیعت کریں ۔
غدیر اور سقیفہ تا ریخ کے آئینہ میں
اموی حکو مت کے ختم ہو نے کے ساتھ ہی سقیفہ کا دفتر بند ہو گیا لیکن پھر دو سری مرتبہ حکو مت عباسی کے آنے کے بعد اس دفتر کو غدیر سے مقابلہ کر نے کے لئے کھول دیا گیا ۔گو یا سقیفہ نے مختلف طریقو ں سے مختلف زمانوں میں اپنے جلوے دکھلا ئے ۔پا نچ سو سال برسر اقتدارعباسیوں نے غدیریوں کے لئے کو ئی خو شی کامو قع نہیں آنے دیا ان کو قتل کیا ،تختہ دار پر چڑھا یا اور قید خا نوں میں ڈال دیا اور غدیر کے اماموں کو یکے بعد دیگرے شھید کردیا ۔
لیکن زمانے نے جو چھوٹا سا راستہ تشیع کےلئے چھوڑ رکھا تھا اس میں غدیر کو ہر دن دو سروں کی توقعات کے خلاف کا میابی ملتی رہی اور اسلامی سرحدوں کے باھر سے اپنے عا شقوں کو جذب کرنے لگی اور صراط مستقیم ڈھونڈھنے والوں کی کشتی نجات، سقیفہ کے فتنوں کے دریا کی مو جو ں سے ٹکرا تی ہو ئی رواں دواں ہو ئی ۔
اگرچہ خلافت کو غصب کرنے کے دن صاحب غدیر کے ساتھ صرف تین افراد باقی رہ گئے تھے اور کربلا میں کو ئی باقی نہیں رہا !!سقیفہ کے غا صبین آج آئیں اور اپنی آنکہیں کھول کر پوری دنیا میں ان چو دہ صد یوںمیں کروڑوں غدیریوں کا مشاہدہ کریں ۔اتنے غدیری کہ غا صبوں کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
۵ غدیر سے متعلق کتب کی وا قعیت
پھلی صدی ہجری سے غدیر کی روایت کے سینہ بہ سینہ منتقل ہو نے کے ساتھ ساتھ کتاب نے بھی مسلمانو ں کی نسلوں تک غدیر کا پیغام پہنچا نے میں اپنا کر دار ادا کیا ہے اور غدیر کا دفتر اسی طرح کھلاہوا ہے اور دوسری صدی ہجری سے کتاب اور کتاب نویسی نے جدیت کے ساتھ اس با رے میں بڑا کردار اداکیا ہے ۔
اس کے با وجود کہ رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ایک لاکھ بیس ہزار مخا طب افراد (جو غدیر خم میں مو جود تھے )کو اس عظیم وا قعہ کے لکھنے کےلئے اقدام کر نا چا ہئے تھا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا حالانکہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر کے پیغام کو آئندہ آنے والی نسلوں کےلئے پہنچانے کی بہت تا کید فر ما ئی تھی لیکن حکو متوں کے ڈر نے اس میں رکا وٹ ڈالی لیکن ان تمام حیلوں اور بھانوں کے با وجود اسلام کی ثقافت غدیر کے نام سے پر ہے اوراسلام کی اعتقادی ،تا ریخی اور حدیثی کتا بوں (وہ کہیں پر اور کسی زمانہ میں بھی تا لیف ہو ئی ہوں ) میں نور غدیر قابل کتمان نہیں تھا ۔
مو ضوع غدیر سے متعلق سب سے پہلی کتابیں
سب سے پہلے تین کتابوں کا نام لیاجا سکتا ہے جن میں واقعہ غدیر کو نقل کیا گیا :
۱ ۔”کتاب علی علیہ السلام “جس کو حضرت علیہ السلام نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے املا ء کے ذریعہ تحریر فر مایا ۔”معروف “نام کے ایک شخص نے حضرت امام محمد با قر علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حا ضر ہو کر واقعہ غدیر کو ابو الطفیل کے نقل کے مطابق بیان کیا ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس کی تا ئید کر تے ہو ئے فر مایا :اس مطلب کامیں نے کتاب علی علیہ السلام میں مشاہدہ کیا ہے اور ہمارے نزدیک یہ مطلب صحیح ہے ۔“
یہ کتاب ودایع امامت میں سے ہے اور امام کے علا وہ کسی اور کی اس تک رسائی نہیں ہے ۔
۲ ۔تا لیفات بشری میں سب سے پہلی ی کتاب جس میں مسئلہ غدیر نقل کیا گیا ہے ”کتاب سلیم بن قیس ھلا لی “ہے ۔یہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رحلت کے بعد کے سا لوں میں تا لیف ہو ئی اور اس کتاب کے مو لف نے ۷۶ ھجری میں وفات پائی ،غا صبان خلافت کی نظروں سے دور رہ کر اس کتاب میں غدیر سے متعلق مختلف مسائل کا تذکرہ کیا ہے یھاں تک کہ مستقل طور پر حدیث میں غدیر کے پورے واقعہ کو تحریر کیا ہے یہ چودہ سو سالہ یاد گارآج بھی اسی طرح باقی ہے اورمتعدد مرتبہ طبع ہو چکی ہے ۔
۳ ۔غدیر کے مو ضوع سے متعلق مستقل طور پر تالیف ہو نے والی کتاب پہلی کتاب ” خطبةالنبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہے جس کو ادبیات عرب کے بڑے عالم خلیل بن احمد فرا ھیدی نے تحریر کیا ہے جنھوں نے ۱۷۵ ھ میں وفات پائی اور اس کتاب میں غدیر خم میں حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خطبہ کو مفصل طور پر تحریر کیا ہے ۔
چودہ صدیوں میں غدیر کے قلمی آثار
دین کے مختلف پھلووں میں غدیر اتنی راسخ ہو چکی ہے کہ یہ متعدد مو ضو عات میںزیربحث قرار پائی ہے ۔کتب حدیث میں سند اور متن کے اعتبار سے ،کتب تا ریخ میں اسلام کے سب سے اہم واقعہ کے عنوان سے ،کتب کلام میں سب سے اہم اعتقادی عنوان سے جو یھی خلافت وولایت ہے ،کتب تفسیر میں خلافت کے متعلق آیات کی تفسیر کے عنوان سے ،کتب لغت میں کلمہ”مو لیٰ “کے معنی کے اعتبار سے اور کتب ادب و شعر میں تا ریخ اسلام کے زیبا قطعہ کے عنوان سے نظم و نثر میں بیان کیا گیا ہے ۔
پھلی صدی ہجری میں افراد کے امین سینے اورقوی حا فظے تھے انھوں نے کتاب کی طرح عمل کیا اور سو سال کے راستے کواچھی طرح طے کیا اورآل محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی امانت کو محفوظ رکھا بہت سے صحابہ اور تا بعین واقعہ غدیر کو محفلوں میں بیان کر تے تھے اور اس کو اپنے بعد آنے والی نسلوں تک منتقل کر تے تھے اگر چہ کتاب سلیم کے مانند کتابیں بھی مخفی طور پر تا لیف ہو رہی تھی اور ان میں غدیر کو ثبت(لکھا ) جا رہا تھا ۔
دو سری ہجری کے آغاز میں جس میں نسبتاً معا رف دینی کو تد وین کر نے کی آزا دی تھی تبلیغ غدیر کو بھی نئی زندگی ملی اور آہستہ آہستہ روایت سے تالیف کی شکل میں نقل کی جا نے لگی ۔
چو تھی ہجری میں حدیث غدیر کے متن کے سلسلہ میں تحقیق اور بحث کا آغاز ہوا اور خطبہ غدیر کا اصلی فقرہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاهُ فَهٰذا عَلِیٌ مَوْ لَاهُ
“ش یعہ اور اس کے مخا لفوں کے درمیان منا ظروں میں بیان کیا جا نے لگا رجال اسناد اور حدیث غدیر کے ناقلین کے بارے میں بھی اس سلسلہ میں بڑی تحقیق و جستجو کر نے لگے ۔
یہ تحقیقات چو تھی ،پا نچویں اور چھٹی ہجری میں اوج پر پہنچ گئیں اور ہزارسال تک اسی طرح جا ری و ساری رہیں کہ ان صدیوں کے بر جستہ آثار آج بھی موجود ہیں ۔
گیا رہویں ہجری کے آغاز سے لیکر آج تک میدان علمی کوباز رکھتے ہوئے محققین اور اسلامی دانشمندوں نے غدیر کے سلسلہ میں مفصل اور مطالب سے پُراور اہم کتابیں تا لیف کی ہیں اور بڑے اچہے طریقہ سے ہزار سالہ زحمتوںسے نتیجے اخذ کئے ہیں ۔بڑی بڑی تحقیقات کر نے والے جیسے قاضی شوستری، علامہ مجلسی ،شیخ حر عا ملی ،سید ھاشم بحرانی ،میر حا مد حسین ہندی ،علا مہ امینی اور دو سرے علماء اس مد عا کے بہترین شا ھد ہیں ۔
کتب غدیر کی تعداد
غدیر کے سلسلہ میں زیادہ تر کتا بیں عربی ،فارسی اور اردو زبانوں میں لکھی گئی ہیں ،کچھ کتا بیں انگریزی زبان میںبھی ہیں اور کچھ کتابیں تر کی، آذری ،استا نبولی ، بنگا لی اور نو رو زی زبان میں بھی لکھی گئی ہیں ان میں سے بعض تالیفات اوربعض تر جمہ و تلخیص کی صورت میں ہیں ۔
علمی تقسیم بندی کے اعتبار سے ان میں سے بعض کتا بوں میں مکمل طور پروا قعہ غدیر کو نقل کیا گیا ہے اور کچھ کتا بوں میں صرف خطبہ غدیر کا مکمل متن تحریر کیا گیا ہے ۔بہت سی کتا بوں میں حدیث غدیر کی اسناد کی جمع آوری اور رجا لی بحث کی گئی ہے ۔
زبر دست علمی تحقیقات مخا لفوں کے جواب میں ہیں جوکلمہ ”مو لیٰ “کے معنی،سند کی تحقیق اور دلالت کے سلسلہ میں کی گئی ہیں بچوں اور نو جوانوںکے شعر و ادبیات بھی غدیر سے متعلق تا لیفات کاایک جلوہ ہیں ۔
غدیر سے متعلق کتا بیں
علا مہ سید عبد العزیز طبا طبا ئی قدس سرہ نے کتاب ”الغدیرفی التراث الاسلامی “میں غدیر سے متعلق مستقل ۱۸۴ مستقل کتابو ں کی فھر ست تحریر کی ہے اور ان کے مو لفین کی حالات زند گا نی پر رو شنی بھی ڈالی ہے ۔
اسی طرح دانشمند بزرگ محمد انصاری نے کتاب ”غدیر در آئینہ کتاب “میں غدیر سے متعلق ۴۱۴ مستقل کتا بوں کے نام درج کئے ہیں اور ان میں مکمل طور پر کتا بوں کا تعارف اور ان کی تعداد کو بڑے خو بصورت انداز میں تحریر کیا ہے ۔
کتا بوں کے ذریعہ غدیر کی وسیع تبلیغ
غدیر کے قلمی آثار پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے مختلف جلووں کا نظارہ ہوتاہے چھو ٹی بڑی کتا بیں ،رسالے ،بروشر،مقالات،مجلے،اخبار،کامپیوٹری علمی پرو گرام،خوبصورت خطاطی، اعلانات ،کارڈ اور پو سٹرکی شکل میں مشاہدہ کر تے ہیں ۔
یہ طریقہ ہر سال اوج پر ہے اور حضرت بقیة اللہ الاعظم کے زیر سایہ پیغام غدیر کے ابلاغ میں موثر کردارادا کرا رہا ہے ۔
۶ شعرا ور ادبیات غدیر
اسلام کے واقعات میں سے صرف غدیر ایسا واقعہ ہے کہ جس کے رونما ہو نے کے وقت سے شعر کی سند بھی اپنے ساتھ لئے ہو ئے ہے ۔شعر اپنے وزن و قافیہ کے ساتھ غدیر کے دفتر میں ہمیشہ باقی رہنے والی سند ہے جو یکے بعد دیگرے سینوں میں حفظ ہوتی رہی اور ادبی اہمیت کے مد نظر کتا بوں میں لکھی جاتی رہی ہے ۔بعد میں آنے والی نسلیں جو دشمنوں کے غلط پروپگنڈے کے پنجے میںاپنے معا رف سے بہت زیادہ دور ہو گئی ہیں نے غدیر کے متعلق حسان اور اس کے ما نند افرادکے ا شعار سے اسے دوبارہ درک کیا ہے ۔
طول تاریخ میں حدیثی اور تا ریخی اسناد و مدارک کے ساتھ ساتھ مختلف صدیوں میں مختلف شعرا ء کے اشعار نے بھی اس واقعہ کی حفاظت کر نے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔
شعر میں ایک دو سری بات یہ پا ئی جا تی ہے کہ اس نے غدیر کو کتا بوں اور محفلوں میں اس طرح پیش کیا جو دو سرے طریقوں سے ممکن نہیں ہے یا کم از کم آسان نہیں ہے بہت سی ادبی کتا بو ں میں یھاں تک کہ اہل بیت علیھم السلام کے مخالفوں نے اپنی کتابوں میں غدیر کے سلسلہ میںایک بڑے شاعر کے شعرکو ادبی شہ پارے کے طورپر نقل کیا ہے اسی طرح وہ بہت سے افراد جن کے پاس مطالعہ اور علمی متون کو سننے کا وقت نہیں ہیں وہ بھی ا شعارکے ایک قطعہ سے ہی معارف غدیر سے سر شار ہو جا تے ہیں ۔
غدیرعربی ،فارسی ،اردو اور تر کی اشعار کے آئینہ میں
چو دہ صدیوں کے عر صہ میںمسئلہ غدیر عربی ،فارسی ،اردو،تر کی اور دو سری زبانوں میں اشعار میں نظم ہو تا رہا ہے ۔اس سلسلہ میں سب سے پہلا زبردست شاعرقدم حسان بن ثابت نے اٹھایا اور نبی اکرم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقاعدہ اجا زت سے غدیر خُم ہی میں واقعہ غدیر کے متعلق کہے ہو ئے اشعار پڑہے ۔
خود حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے غدیر خم کے متعلق اشعار کہے ہیں چند اصحاب پیغمبر نیز ائمہ علیھم السلام کے بعض اصحاب نے بھی غدیر کے سلسلہ میں اشعار کہے ہیں منجملہ قیس بن سعد بن عبادہ ،سید حمیری ،کمیت اسدی ،دعبل خزا عی اور ابو تمام وغیرہ ہیں ۔
اشعار سے دلچسپی رکھنے والے بڑے بڑے علماء نے بھی غدیر کے سلسلہ میں اشعار کہے ہیں منجملہ شریف رضی ،سید مر تضیٰ ،قطب راوندی ، حا فظ بر سی ، شیخ کفعمی ، شیخ بھا ئی ، شیخ کر کی ، شیخ حر عا ملی ، سید علی خان مدنی ،اور آیت اللہ شیخ محمد حسین غر وی اصفھا نی (کمپانی ) ہیں ۔
اپنے وقت کے بڑے بڑے عرب شعرا ء جیسے ابن رو می ، وا مق نصرانی ، حما نی، تنو خی ، ابو فراس حمدانی، بشنوی کردی ، کشا جم ، نا شی صغیر ،صا حب بن عباد ، مھیار دیلمی ، ابو العلا معر ی ، اقساسی ، ابن عرندس ، ابن عو دی، ابن داغر حلی ، بولس سلامہ مسیحی نے غدیر کے سلسلہ میں اشعار کہے ہیں ۔
شعرائے عرب کے علاوہ فارسی ،اردو اور ترکی زبان کے شعراء نے بھی غدیر کے مطالب کو شعر میں ڈھال کر غدیر کے پیغام کی حفاظت اور اس کو نشر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
اس بات کی یاد دھانی ضروری ہے کہ بعض شعراء نے داستان غدیر کو بطور مفصل یا مختصر طور پر اشعار میں نظم کیا ہے ان میں سب سے پہلے شاعر حسان بن ثابت ہیں ۔دوسرے بعض شعراء نے غدیر کے فقط حساس مطلب ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهٰذَا عَلِیٌ مَوْ لَاهُ
“کو شعر م یں نظم کر کے غدیر کے پیغام کی حفا ظت کی ہے ایک گروہ نے غدیر کے ادبی اور اعتقادی پہلو کو شعر میں نظم کیا ہے اور جھا ں تک ان سے ممکن ہوا انھوں نے غدیر کے معنوی پہلو کو اشعار میں ڈھال کر ایک شیعہ شخص کی زندگی کو نشاط بخشی ہے کہ جب بھی وہ اشعار پڑہے جا تے ہیں تو ان سے ان کے جسم و روح میں ولایت کی خنکی کا احساس ہو تا ہے ۔
غدیر کے اشعارسے متعلق کتا بوں کی تد وین
بعض مو لفین نے غدیر سے متعلق اشعار کو کتابوں میں جمع کیا ہے اور غدیر کی اس ادبی اسناد کو منظم اور مرتب مجمو عوں کی شکل میں پیش کیا ہے ۔ان میں سے بعض کتا بیں صرف اشعار غدیر سے متعلق ہیں جن میں سے کچھ کتا بوں کے نام ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں :
ا۔الغدیر فی الکتاب والسنة والا دب ،علامہ امینی ۔
۲ ۔شعراء الغدیر ،مو سسة الغدیر بیروت ۔
۳ ۔الغدیر فی الادب الشعبی ،حسین بن حسن بھبھانی ۔
۴ ۔غدیر یات علا مہ امینی ،بر گزیدہ الغدیر ۔
۵ ۔الغدیریة ،شیخ ابراھیم کفعمی ۔
۶ ۔غدیریات ھا دفة ،سید طالب خر سان ۔
۷ ۔غدیر در شعر فا رسی ،سید مصطفےٰ مو سوی گر ما رودی ۔
۸ ۔سرود غدیر ،علا مہ سید احمد اشکو ری ، ۲ جلد ۔
۹ ۔شعراء غدیر از گزشتہ تا امروز ،محمد ھا دی امینی ، ۰ اجلد ۔
۰ ا۔غدیر در شعر فا رسی از کسا ئی مروزی تا شھر یار تبریزی ،محمد صحتی سر درودی ۔
اا۔پا سداران حما سہ غدیر ،پرویز عبا سی ۔
۲ ا۔بیعت با خو رشید ،ادارہ ارشاد خر اسان ۔
۳ ا۔در سا حل غدیر ،احمد احمدی بیر جندی ۔
۴ ا۔گلبانگ غدیر ،محمد مھدی بھداروند ۔
۵ ا۔دریا در غدیر ،ثابت محمو دی ۔
۶ ا۔خطبة الغدیر محمد حسین صغیر اصفھا نی ۔
۷ ا۔خطبہ غدیر خم ،عباس جبروتی قمی ۔
۸ ا۔خطبہ غدیریہ ،عا صی محمد میرزا ۔
۹ ا۔غدیریہ ملا مسیحا ۔
۲۰ ۔غدیریہ ،ملا محمد جعفر ۔
ا ۲ ۔مھر آب خم ،سید علی رضوی ۔
۲۲ ۔یک جر عہ از غدیر ،شعرائے قم ۔
۲۳ ۔صھبا ئے غدیر ،شعرا ئے ہند ۔
۲۴ ۔ترانہ غدیر سید محمد رضا سا جد زید پوری ۔
عصر حا ضر میں شعر غدیر
ہما رے دور میں شعر غدیر نے ادبی پہلو وں سے بڑھکر مخصوص تبلیغی شکل اختیار کر لی ہے اور اس کا مشاہدہ بہت سی کتابوں ،رسالوں ، اخباروں ،ریڈیو ،ٹیلیویزن اور کمپیوٹرکے پروگراموں میں کیا جا سکتا ہے محفلوں میں مدح کی صورت، آڈیواور ویڈیو کیسٹ اور کمپیو ٹر سی ڈی یھاں تک کہ انٹر نیٹ کے ذریعہ نشر کئے جا نے والے پرو گراموں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جن سے غدیر ی اشعار کو ایک نئی زندگی ملی ہے ۔
ھم کتاب کے اس حصہ میں آپ کی خدمت میں عربی ،فارسی ،اردو اور ترکی ادب میں اعتقاد، ولایت اور ادبی اعتبار سے خاص اہمیت کے حامل اشعارچار حصوں میں پیش کرتے ہیں :
شعر اور ادب عربی
سب سے پہلے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی اجازت خود آپ ہی کے حضور حسان بن ثابت کے اشعار پڑہے گئے ان میں سے حساس اشعار مندرجہ ذیل ہیں :
الم تعلمو ا انَّ النَّبیَّ محمَّداً لدیٰ دَوح خم حین قام منادیاً
فقال لهم من کنت مولاه منکم وکان لقولی حافظاً لیس ناسیاً
فمولاه من بعدی علیّْ وانَّنی به لکم دون البر یَّة راضیاً
ترجمہ :”کیا تم کونہیں معلوم کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
جب مقام خم کے درختوں کے نیچے قیام پذیر ہوئے
تو مسلمانوں سے کہا کہ میں تم میںسے جس کا مولا ہوں اور اسکو میر ی بات یاد بھی رہے
تو اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ میرے بعد علی مولا ہیں اور میں مولاکے عنوان سے فقط انہیں سے راضی ہوں کسی اور سے نہیں ۔
معاویہ نے ایک خط میں علیعليهالسلام
کے مقابلے میں اپنے افتخارات کا دعویٰ کیا تو مولائے کائنات نے اس خط کے جواب میں اشعار تحریر فرمائے جس میں بعض اشعار غدیر کے بارے میں تھے :
محمد النبی اخی وصنوی وحمزة سید الشهداء عمّی
واوجب لی ولایته علیکم رسول الله یوم غدیر خم
واوصانی النبی علی اختیار لامّته رضیً منکم بحکمی
الا من شاء فلیومن بهذا والا فلیمُتْ کَمَداً بغمّ
فویل ثم ویل ثم ویل لمن یلقی الاله غداً بظلمی
ترجمہ :”محمد نبی میرے بھائی میں اورحمزہ سیدا الشھداء میرے چچا ہیں ۔
غدیر خم کے مقام پر ۱۸ ذی الحجہ کو رسول خدا نے تم پر مجھ کو اپنی جانب سے حاکم قرار دیا ہے ۔
اور نبی نے مجھ کو اپنی امت کے سلسلہ میں منتخب ہونے کی وصیت کی کیونکہ تم میرے حاکم ہونے پر راضی تھے ۔
آگاہ رہو کہ جس کا دل چاہے وہ اس مطلب پر ایمان لائے ورنہ حسد اور غم کے مارے مرجائے
تو افسوس ہے افسوس ہے افسوس ہے اس شخص پر جو بروز قیامت خدا سے اس حال میں ملاقات کرے کہ مجھ پر ظلم کرچکا ہو ۔
ہناد بن سری کہتا ہے کہ: میں نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک شب خواب میں دیکھا تو آپ نے فرمایا :میرے لئے کمیت کے وہ اشعار پڑھو جس میں اس نے کہا ہے کہ:”ویوم الدوح دوح غدیرخم “
میں نے آپ کی خدمت اقدس میں وہ اشعار پڑہے تو آپ نے فرمایا :میرا یہ شعر بھی اس میں اضافہ کرلو :
ولم ار َمثل ذلک الیوم یوماً ولم ارَ مثله حقاً ا ضیعا
ترجمہ :”میں نے اس دن کی طرح کسی دن کونہیں پایا اور نہ مولائے علی کے حق جیساضائع ہونے والا حق دیکھا۔
جنگ صفین میں امیر المو منین علیہ السلام کے لشکر کے کمانڈرقیس بن سعد بن عبادہ نے آپ کے لئے یہ اشعار پڑہے :
قلت لما بغی العدوّعلینا حسبنا ربنا و نعم الو کیل
وعلیُّ امامنا وامام لِسِوانا اتی به التنزیل
ومن قال النبی:من کنت مولاه فهذا مولاه خطب جلیل
ترجمہ :”جب ہم پر دشمن نے حملہ کیا تو میں نے کہا کہ ہمارے لئے ہمارا پروردگار کافی ہے ۔اور وہ بہتر ین ضامن ہے ۔
علی علیہ السلام ہمارے امام ہیں اور ہمارے غیروں کے بھی امام ہیں اس سلسلہ میں قرآن کی آیت گواہ ہے ۔
اس سلسلہ میں نبی کا یہ قول بھی اہمیت رکھتا ہے ہے کہ جس کا میں مولا ہو ں اس کے علی بھی مولا ہیں سید باقر رضوی ہندی متوفی ( ۱۳۲۹ ء) کہتے ہیں :
میں نے شب عید غدیر امام زمانہ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آپ بڑے غمگین اور گریہ کررہے تھے ۔میں آپ کی خدمت بابرکت میں پہونچا ،سلام کیا ھاتھوں کا بوسہ لیا لیکن میں نے مشاہدہ کیا کہ آپ متفکر ہیں میں نے عرض کیا میرے مولا یہ ایام تو خو ش ہونے اور عید غدیر کا جشن منانے کے ایام ہیں لیکن میں آپ کو ملول، رنجیدہ خاطر اور گریاں دیکھ رہا ہوں ؟فرمایا :مجہے اپنی جدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا غم یاد آگیا ہے ۔اس کے بعد آپعليهالسلام
نے یہ شعر پڑھا :
لا ترانی اتّخذتُ لا و عُلا ها بعد بیت الا حزان بیت سرور!
ترجمہ :”جناب فاطمہ کے عظیم مرتبہ کی قسم بیت الا حزان کے بعد تم مجھ کو کوئی خوشی کا گھر انتخاب کرتے ہوئے نہیں دیکھوگے ۔
سید باقر کہتے ہیں میںنیند سے بیدار ہوا، غدیر اور مصائب حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے بارے میںچند اشعار لکہے جن کا کچھ حصہ مندرجہ ذیل ہے :
کلُّ غدر وقول افک وزور هو فرع عن جحد نص الغدیر
یوم اوحی الجلیل یامرطه وهوسارً ان مُر بترک المسیر
حطَّ رحل السری علی غیر ماء وکِلا ،فی الفلا بحرَّ الهجیر
ثمَّ بلَّغهم والا ّفما بلَّغت وحیاً عن اللطیف الخبیر
اقِم المرتضی اماماًعلی الخل ق و نور اًیجلودجی الدیجور
فرقی آخذا ً بکفَّ علیَّ منبراً کان من حدوج وکور
ودعا والملا حضور جمیعاً غَیَّبَ الله رشد هم من حضور
انَّ هذا امیر کم وولیّ ال امربعدی ووارثی ووزیری
هو مولی لکل من کنت مولا هُ من الله فی جمیع الامور
افصبراً یاصاحب الامر والخط ب جلیل یذیب قلب الصبور
وکانّی به یقول ویبکی بسلوَّ نزر و دمع غزیر
لا ترانی اتّخذتُ لا وعُلا ها بعد بیت الا حزان بیت سرور!
فمتیٰ یابن احمد تنشرالطاغوت والجبت قبل یوم النشور
ترجمہ :”ھر طرح کی غداری اور بہتان ،اور جھوٹ روایت غدیر کا انکار کرنے کی وجہ سے ہے ۔
جس دن خداوند جلیل نے رسول گرامی کو وحی کے ذریعہ یہ حکم دیا کہ
بے آب دانہ مقام پر جنگل مےں تپتی دھوپ مےں قافلہ روک دیا جائے یہ اس حال مےں تھا کہ رسول مکہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے
پھر رسول کو حکم ملا کہ لوگوں تک پیغام الٰہی پہنچا دیجئے ورنہ آپ نے خدا وند لطیف وخبیر کی جانب سے کوئی حکم نہیں پہنچایا ۔
علی مرتضیٰ کو مخلوقات کا امام اور ایسا نور قرار دید یجئے جو تاریکیوں کے اند ھیرے کو ختم کردے اسی وقت رسول کجاووں کے منبر پر مولا ئے کائنات کے ہاتھ کو پکڑ کر تشریف لے گئے
اور دعا کی جبکہ تمام لوک موجود تھے وہ لوک اس طرح کے تھے کہ ہدایت الٰہی سے فیض اٹھا نے سے قاصر تھے ۔
رسول نے فرمایا یہ تمھارے امیر اور میرے بعد تمھارے امور کے ذمہ داروارث اور وزیر ہیں ۔
تمام امور مےں خدا کی جناب سے ہر اس شخص کے مولا ہیں جس کا مےں مولاہوں۔
لہٰذا اے امام زمانہ آپ صبر کیجئے حالانکہ مصیبت اتنی عظیم ہے کہ صابر شخص کے دل کو پگھلادیتی ہے ۔
اس وقت مجھ کو محسوس ہوا گویا ا مام زمانہ شدت سے روتے ہوئے فرمارہے ہیں :
جناب فاطمہ کے عظیم مرتبہ کی قسم بیت الا حزان کے بعد تم مجھ کو کوئی خوشی کا گھر انتخاب کرتے ہوئے نہیں دیکھوگے ۔
اے فرزند رسول قیامت سے پہلے آپ کب سرکشوں کو سزا دیں گے ۔
اب آپ کے بعد مختلف شعراء کے اشعار ملا حظہ فرما ئیں
سید حمیری
وکم قد سمعنا من المصطفی وصایا مخصَّصة فی علیّ
وفی یوم خم رقی منبراً یبلغ الرکب و الرکب لم یرحل
فبَخبَخَ شیخک لمّا رآی عری عقد حیدر لم تحلل
ترجمہ: ”ھم نے مولا ئے کا ئنات کے سلسلہ مےں رسول گرامی سے کتنی زیادہ خصوصی سفارشیں سُنی ہیں
اور غدیر خم کے میدان مےں آپ منبر پر تشریف لے گئے اور وہاں جاکر موجود افراد تک حکم الٰہی پہنچا یا ۔
اس وقت جب تمھارے بزرگ نے دیکھا کہ مولا ئے کائنات کے عقدوں کو کھلتے ہو ئے نہیں دیکھا تو مبارک بادپیش کی ۔
ابن رومی
قال النبی له مقالاًلم یکن یوم الغدیر لسامعیه مُجمجماً
من کنت مولاه ف ه ذا مول ی له مثل ی واصبح بالفخار متوّجاً
ترجمہ :”نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر کے میدان مےں علیعليهالسلام
کے متعلق ایک ایسی بات کھی جو سامعین کےلئے مبھم نہ تھی ۔
آپ نے فرمایا جس جس کا مےں مولاہو ں اس کے علی بھی مولا ہیں چنانچہ آپ کے سرپر فخر کا تاج پہنا دیا گیا ۔
شریف رضی
غدر السرور بنا وکان وفاوه یوم الغدیر
یوم اطاف به الوص ی وقد تلقّب بالامیر
فتسلّ فیه وردَّعا ریة الغرام الی المعیر
ترجمہ :”خوشی نے ہم سے بے رخی کی اور وفاداری غدیر کے دن کی ۔
جس دن میدان غدیر مےں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے وصی علیعليهالسلام
پہنچے
لہٰذا غدیر کے دن اپنا غم دور کرو اور آسودہ خاطر ہوکر رہو ۔
سید مر تضیٰ
لله درّ یوم ما اشرفا ودرّ ما کان به ا عرفا
ساق الینا فیه ربّ العلی ماامرض الاعداء او اتلفا
ترجمہ :”اور غدیر کا کیا کہنا اس کے شر ف کا کیا کہنا اور اس مےں پہچنوائی جانے والی ھستی کا کیا کہنا۔
اس دن پر وردگار عالم نے ہم کو ایسی خوشی تحفہ مےں دی جس کی وجہ سے دشمن یا بیمار پڑگئے یا نابود ہوگئے ۔
مھیار دیلمی
واسا لهم یوم خم بعد ما عقدوا له الو لایة لِمَ َ خانوا ولِمََ خَلَعوا
قول صحیح ونیّات بها نَفَل لاینفع السیف صقل نحته طبع
انکار هم یاامیرالمومنین لها بعد اعترافهم عاربه ادّر عوا
ترجمہ :”ذرا ان سے پو چھو توکہ جب وہ غدیرمےں علی سے ولایت کاعھد کرچکے تھے توکیوں خیانت کی اور علی کو منصب خلافت سے کیوں دور کردیا ۔
اے مولا ئے کائنات اقرار کے بعد منکر ولایت ہوجانا باعث ننگ دعارہے جسکو انھوں نے سپر قرار دے رکھاہے ۔
فنجکر دی
لا تنکرنَّ غدیر خمّ انّه کا لشمس فی اشراقها بل اظهر
ماکان معروفاً باسناد الی خیر البر ایا احمد لا یُنکر
فیه امامة حیدر وکماله وجلاله حتی القیامة یذکر
ترجمہ :”خبر دارکبھی غدیر خم کا انکار نہ کرنا کیو نکہ غدیر خم درخشند گی مےںسورج کے مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ رو شن ہے ۔
جو واقعہ بہترین مخلوق محمد مصطفٰے کی جانب بہت سی اسناد کے ذریعہ مشہور ہواس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
اس مےں مولا ئے کائنات کی امامت مستقرہوگی اور قیامت تک آپ کے کمال اور جلال کا ذکر کیا جائیگا
ابو محمد حلّی
واذا نظرت الی خطاب محمد یوم الغدیر اذاستقرالمنزل
من کنت مولاه فهذاحیدر مولاه لایر تاب فیه محصّل
لعرفتَ نصّ المصطفی بخلافة من بعده غرّاء لایتاوَّل
ترجمہ :”جب کا روا ن ٹھھر نے کے وقت غدیر میں رسول کے اس خطاب کی طرف آپ توجہ کریں گے کہ میں جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی بھی مو لا ہیں ۔
تو آپ کو معلوم ہوجا ئیگا کہ رسول نے جو اپنے بعد علی کی خلافت کی بات کھی ہے وہ بہت روشن ہے اور اس کی تاویل نہیں کی جا سکتی ہے ۔
ابو عبداللہ خصیبی
انَّ یوم الغدیریوم سرور بیَّن الله فیه فضل الغدیر
وحباخمّ با لجلالة والتف ضیل والتحفة التی فی الحبور
یوم نادی محمد فی جمیع ال خلق اذقال مفصح التخییر
قائلا للجمیع من فوق دوح جمعوه لامره المقدور
فصدد تم عنه ولم تستجیبوا وتعرَّضتم لافک وزور
ثم قلتم قد قال :من کنت مولاه فهذا مولاه غیر نکیر
ترجمہ :”غدیر کا دن یقیناً خوشی کا دن ہے اس میں خدوند عالم نے غدیر کی فضیلت کا تذکرہ فرمایا ہے
اور غدیر خم کو جلالت ،فضیلت اور تحفہ بخشا ہے جو دانشمندوں سے مخصوص ہے ۔
جس دن رسول نے تمام مخلوقات کو مخاطب کیا اور آپ نے یہ خطاب بڑے بڑے درختوں کے نیچے سے کیا ۔
لیکن تم نے ان کی بات نہ مانی اور جھوٹ و بہتان کا سھارا لیا ۔
پھر تم نے کہا کہ رسول نے فرمایا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں ۔
ناشی صغیر
وصارمه کبیعته بخمًّ معاقدها من القوم الرقاب
علیّ الدّر والذهب المصفّی وباقی الناس کلهم تراب
ترجمہ :”غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی تلوار آپ کی بیعت کی طرح ہے کہ جس طرح تلوار گردنوں پر پڑتی تھی اسی طرح یہ بیعت ان کی گردنوں میں آگئی ۔
علیعليهالسلام
موتی اور خالص سونا ہیں اور باقی لوگ مٹی کی طرح بے حیثیت ہیں ۔
بولس سلامہ مسیحی
عاد من حجة الو داع الخطیر ولفیف الحجیج موج بحور
لجة خلف کا نتشار الغیم صبحاً فی الفدفد المغمور
بلغ العائدون بطحاء خمًّ فکانَّ الرکبان فی التنور
عرفوه غدیر خم و لیس الغ ور الاّ ثمالة من غدیر
جاء جبریل قائلاً :یا نبی الله بلَّغ کلام ربّ مجیر
انت فی عصمة من الناس فانثر بینات السماء للجمهور
واذِعها رسالة الله وحیاً سر مدیاً و حجة للعصور
مادعاهم طه لامریسیر وصعید البطحا ء وهج حرور
وارتقی منبرالحدا ئج طه یشهرالسمع للکلام الکبیر
ایهاالناس انما الله مو لا کم و مو لا ی نا صری و مجیری
ثم انی ولیُّکم منذ کان الدهر طفلاًحتی زوال الدهور
یاالهی من کنت مو لاه حقاً فعلیٌ مو لاه غیر نکیر
یاالهی وال ِ الذین یوالوان ابن عمی وانصرحلیف نصیری
کن عدوّاً لمن یعا دیه واخذل کل نکس وخاذل شریر
قالهاآخذاًبضبع علی رافعاًساعد الهمام الهصور
لاح شَعر الابطین عند اغتناق الزند للزند فی المقام الشهیر
بثَّ طه مقاله فی علی واضحاًکالنهار دون ستور
لامجازولاغموض ولبس یستحثّ الا فهام للتفسیر
فا تاه المهنَّؤ ن عیون القوم یبدون آیة التو قیر
جاء ه الصا حبان یبتدران القول طلاّ علی حقاق العبیر
بتَّ مولی للمو منین هنیئاً للمیامین بالامام الجدیر
هنّا ته ازواج احمد یتلوهنَّ رتل من الجمیع الغفیر
عیدک العید یا علی فان یص مت حسود اوطا مس للبدور
ترجمہ :”عظیم المرتبت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
حجة الوداع سے واپس ہوئے جبکہ حاجیوں کا مجمع ٹھاٹہیں مار رھاتھا ۔
مجمع بہت زیادہ پانی کی طرح تھا لگ رھاتھا جیسے صبح کے وقت
حج سے لوٹنے والے وادی خم میں پہونچے لگ رھاتھا گویا وہ لوگ تنور میں پہونچ گئے ہیں ۔
انھوں نے اس جگہ کو غدیر خم کے نام سے پہچانا
جبرئیل نے آکر نبی سے کہا اے نبی خدا ،خدا کا پیغام پہونچا دیجئے
آپ لوگوں کے شر سے محفوظ رہیں گے لہٰذا آسمانی پیغام لوگوں تک پہونچا دیجئے ۔
اس پیغام کو پہونچا دیجئے تاکہ یہ پیغام آنے والے زمانوں کیلئے حمیت رہے ۔
پیغمبر نے ان کو ایک آسان امر کیلئے دعوت نہیں دی جبکہ سر زمین غدیر دھوپ سے تپ رہی تھی ۔
رسول کجاووں کے منبر پر تشریف لے گئے تا کہ پورا مجمع ان کا کلام سن سکے۔
لوگو! بیشک اللہ تمھارا اور میرا مولا و مددگار ہے اور مجہے پناہ دینے والا ہے ۔
پھر اس کے بعد میں بچگی سے لیکر قیامت تک تمھارا ولی ہوں ۔
بار الٰھا جس کا میں حقیقی مو لا ہوں یقیناً علی بھی اس کے مو لا ہیں ۔
بار الٰھا جو میرے چچا زاد بھا ئی سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت کر اور جو ان کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر ۔
جو ان سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی رکھ اور ہر رسوا کرنے والے کو رسوا کردے ۔
آپ نے مولائے کا ئنات کا بازو پکڑ کر اس حال میں کہا کہ آپ کی سفیدی بغل نمودار تھی۔
آپ نے مولائے کائنات کے سلسلہ میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح طور پرکھی۔
مجاز گو ئی اور پیچید گی کا استعمال نہیں کیا کہ سمجھنے والوں کو دشواری کا سامنا ہوتا ۔
اس وقت مبارکباد پیش کرنے والے قوم کے نمایاں افراد آپ کے پاس تہنیت پیش کرنے آئے ۔
ابو بکر اور عمر بھی تیزی سے آپ کے پاس مبارکباد پیش کرنے کے لئے آئے ۔
مو لائے کائنات مو منین کے مولا ہو گئے لائق امام کے ذریعہ برکت پانے والوں کا کیا کہنا
آپ کو ازواج نبی نے بھی مبارکباد پیش کی اس کے بعد جم غفیر نے بھی مبارکباد پیش کی
اے علیعليهالسلام
آپ کی عید عید ہے اس مو قع پر حسد رکھنے والا ہی خا موش ہوگا یا چاند کو بے نور سمجھنے والا ہی آپ کی ولایت کا انکار کرے گا ۔
معرو ف عبد الجید مصری
وُلّیتَ فی یوم الغدیر بآ یة شهدالحجیج بها ،فکیف تووَّل؟
انت الو لیُّ،ومن سواک معطّل عنها ،واجماع السقیفةبا طل
فا ذا اتی یوم الغدیر تنزَّلت آیات ربَّک کا لنجوم اللمّعِ
قم یامحمد انّها لرسا لة ان لم تبلّغها فلست بصادع ِ
وقف الرسول مبلَّغاًومنادیا ً فی حجة التودیع بین الاربُعِ
و ا بو تراب فی جوارالمصطفیٰ طلق المحیّا کا لهلال الطالعِ
رفع النبیّ ید الوصیّ وقال فی مرا یٰ من الجمع الغفیر و مسمعِ
”من کُنت مولاه فهٰذا المر تضیٰ مولی له “فبخٍ بخٍ لسمیدعِ!
وسَعَت جموعُ الناس نحوامیرها مابین مقطوع الرجا ،و مبا یعِ!
وصیّ بها مو سی، و هذا احمدٌ وصیّ اخا ه،فذلَّ من لم یبخعِ !!
ترجمہ :”غدیر کے دن آپ ایسے عھدے کے ذمہ دار قرار دئے گئے جس کا حجاج نے مشاہدہ کیا تو بھلا اس کی کیسے تاویل ممکن ہے ؟!
آپ ولی ہیں آپ کے علاوہ سب ولایت سے در کنار ہیں اور سقیفہ کا اجماع باطل ہے ۔
تو جب غدیر کا دن آیا تو آپ کے پروردگار کی آیات درخشاں ستاروں کی طرح نازل ہوئیں ۔
اے محمد آپ کھڑے ہو جائیے کیونکہ یہ ایسا پیغام ہے کہ اگر آپ نے اس کو نہیں پہونچایا تو گویا رسالت کا کو ئی کام ہی انجام نہیں دیا ۔
اس وقت رسول حجة الوداع کے مو قع پر اس حالت میں حکم الٰہی کی تبلیغ کے لئے کھڑے ہوئے آ پ کے پہلو میں مو لائے کا ئنات تھے ۔
آپ نے مو لائے کائنات کا ہاتھ اٹھاکر مجمع کے سامنے کھا
جس جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی مو لا ہیں اس سردار کو ولایت مبارک ہو ۔
لوگوں کا مجمع اپنے امیر کی طرف بڑھنے لگا کچھ لوگوں کی اس ولایت کے ذریعہ امیدیں ٹوٹ گئی تھیں اور کچھ نے دل سے بیعت کی تھی ۔
اس ولایت کے سلسلہ میں مو سیٰ نے بھی وصیت کی تھی اور یھاں پیغمبر نے اپنے بھائی کو وصیت کی تو اس کا انکار کرنے والا ذلیل ہے ۔
معروف عبد المجید مصری کا ایک ادبی شہ پارہ :
واختزنت ذاکرةُ العالمِ
احداثَ الیوم الموعودِ
لتشهدهاالاجیالُ
و یفطنَ مغزاهاالحکماء
و تد لَّت من اغصان الغرقَد
حبّاتُ ند یً فضّیًّ
و قفت تقطفهاالزهراء
هی ذی اودیة سالت لعلیًّ
بالوحی علی البطحا ء
فاندثرت ا حلام قریشٍ
وتلاشت محضَ هبائ
ویقال بانّک الماموربتبلیغ التنزیل
افترش الصحراء
وجمع وفودالرحمٰن
عن شطآن غدیرالوعی
وآخذبیدک ونادی :
من کنت انامولاه فهذامولاه
ذیل میں ایک ادبی قطعہ معروف عبد المجید مصری سے ملا حظہ فر مائیے :
دنیا کے ذہن میں اس یوم مو عود کے واقعہ محفوظ ہیں تا کہ نسلیں اس کی گواہ رہیں اور حکماء اس کے مفہوم کی طرف متوجہ رہیں ۔
درخت کی شاخوں پر چاندی جیسی شبنم کے قطرے آویزاں تھے
جن کو جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کھڑی ہو کر چُن رہی تھیں
یہ شبنم کے قطرے ایسی وادی رکھتے تھے
جو علی کے لئے غدیر کے مقام پر وحی کے ذریعہ جاری ہو ئیں ۔
اس وقت قریش کے خواب ٹوٹ گئے
اور بکھرے ہوئے ذروں کی طرح پھیل گئے ۔
اس وقت رسول سے کہا جا رہا تھا کہ آپ کی ذمہ داری پیغام الٰہی کو پہونچانا ہے
بیابان لوگوں سے پُر ہو گیا
خدا وند عالم کے وفد اکٹھا ہو گئے ۔
تاکہ غدیر کا پیغام سنیں
رسول نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر آواز دی
جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی بھی مو لا ہیں ۔
سب سے پہلے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حضور میں جو اشعار پڑہے گئے وہ حسان بن ثابت کے اشعار ہیں کہ جن کی حساس بیت یہ ہے :
شعروادب فارسی
نظیری نیشاپوری
قسم بہ جان تو ای عشق ای تمامیِ ھست
کہ ھست ھستیِ ماازخمِ غدیرِتومَست
در آن خجستہ غدیرتودیددشمن ودوست
کہ آ فتاب بودآفتاب برسرِدست
فرازمنبر یوم الغدیراین رمزاست
کہ سرزجیب محمدعلی برآوردہ
حدیث لحمک لحمی بیان این معناست
کہ برلسان مبارک پیمبرآوردہ
”اے وجود کامل اے عشق تیری جان کی قسم کہ ہماری ھستی تیرے غدیر کے خم سے مست ہے ۔
تیرے اس خجستہ اور مبارک غدیر میں دشمن اور دوست نے دیکھاکہ ایک آفتاب دوسرے آفتاب کے ھاتھوں پرتھا۔
یوم الغدیر کے منبر کے اوپر یہ راز ہے کہ محمد کے وجود سے علی نکلے ۔
حدیث” لحمک لحمی“ اس معنی کی بیان گر ہے کہ جس کو نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنی زبان پر جاری کیا“
محمدجوادغفورزادہ(شفق)
جلوہ گرشدباردیگرطورسینادرغدیر
ریخت از خم ولایت می بہ مینادرغدیر
رودھابایکدگرپیوست کم کم سیل شد
موج می زدسیل مردم مثل دریادرغدیر
ھدیہ جبریل بود<الیوم اَکمَلْتُُ لَکُم
>
وحی آ مددرمبارک بادمولی درغدیر
باوجودفیض<اَتْمَمتُ عَلَیکم نعمَتی
>
ازنزول وحی غوغابودغوغادرغدیر
برسردست نبی ہر کس علی رادیدگفت
آفتاب وماہ زیبابودزیبادرغدیر
برلبش گلواژہ<مَنْ کُنْتُ مَولا
>تانشست
گلبن پاک ولایت شدشکوفادرغدیر
(برکہ خور شید)درتاریخ نامی آشناست
شیعہ جو شیدہ ست ازآن تاریخ آنجادرغدیر
گرچہ درآن لحظہ شیرین کسی باورنداشت
می توان انکاردر یاکردحتی درغدیر
باغبان وحی می دانست ازروزنخست
عمرکوتاھی ست درلبخندگلھادرغدیر
دیدہ ھادرحسرت یک قطرہ ازآن چشمہ ماند
این زلال معرفت خشکیدآیادرغدیر؟
دل درون سینہ ھا در تاب وتب بود ای دریغ
کس نمی داند چہ حالی داشت زھرا درغدیر
” غدیر میں ایک بار پھر طور سینا متجلی ہوگیاغدیر میںخم ولایت سے مینا میں شراب گری
دریا ایک دوسرے سے مل گئے اور رفتہ رفتہ سیلاب بن گئے غدیر میں لوگوں کا سیلاب دریا کی طرح مو جیں مار رھاتھا۔
غدیر میں جبرئیل کا ھدیہ ”الیوم اکملت لکم دینکم “تھاغدیر میں مولائے کائنات کو مبارکباد پیش کرنے کے لئے وحی نازل ہوئی۔
”اتممت علیکم نعمتی “نبی کے فیض ِ وجود کی بناپرغدیر میں بہت شور وغل تھا۔
نبی کے ھاتھوں پرجس نے بھی علی کو دیکھا اس نے کھاغدیر میں آفتاب و ماہتاب نھایت ہی خوبصورت تھے ۔
حضور لب مبارک پر جیسے ہی ”من کنت مو لاہ “آیاغدیر میں ولایت کا چمن کھل اٹھا۔
تاریخ میں خورشید کا تالاب آشنا نام ہے وہاں غدیر میں اس سے شیعہ وجود میں آئے ہیں ۔
اگرچہ اس شیرین لمحہ میں کسی کو یقین نہیں تھا کہ غدیر میں بھی دریا کا انکار کیا جا سکتا ہے ۔
غدیر میں وحی کا باغبان پہلے دن سے ہی جانتا تھا کہ غدیر میں پھولوں کی مسکراہٹ کی عمر مختصر ہے
اس چشمہ کی ایک بوند کی حسرت میںآنکہیں کھلی رہیں کیا غدیرمیں یہ معرفت کا چشمہ زلال خشک ہوگیا۔
بیشک سینوں کے اندر دل بے چین تھے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ غدیرمیںجناب فاطمہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی کیا حالت تھی ؟“
سید رضا موید :
از ولا یتعھدی حیدرخدا تاج شرف
باردیگر بر سر زھرا ی اطھر می زند
در حریم ناز وعصمت زین ھمایون افتخار
فاطمہ لبخندبرسیمای شوھرمیزند
این بشارت دوستان راجان دیگر می دھد
دشمنان را این خبر ،بر قلب خنجر می زند
باز تابید از افق روز درخشانِ غدیر
شد فضا سر شار عطرِگل زبستان غدیر
موج زددریای رحمت در بیابان غدیر
چشمہ ھای نو رجاری شد زدامان غدیر
شد غدیر خم تجلیگاہ انوار خدا
تا در آنجا جلوہ گر شد نور مِصباحُ الھُدا
آفرینش را بُوَد بر سوی آن سامان نگاہ
ماسوی اللّٰہ منتظر تا چیست فرمان اِلہ
ناگھان خَتمِ رُسُل آن آفتاب دین پناہ
بر فراز دست می گیردعلی را ھمچو ماہ
تا شناساند بہ مردم آن ولی اللّٰہ را
والِ مَن والا ہ خواند ،عادِمَن عادہ را
ای غدیر خم کہ ھستی روز بیعت باامام
بر تو ای روز امامت از ھمہ امت سلام
از تو مُحکم شد شریعت ،وز تو نعمت شد تمام
مابہ یاد آن مبارک روز و آن زیبا پیام
ازوِلای مُرتضی دل را چراغان می کنیم
بار علی بار دگر تجدید پیمان می کنیم
خط سُرخی کز غدیر خم پیمبر باز کرد
باب رحمت را از اول تا آخر باز کرد
بر جھان ما سوی حق را ہ دیگر باز کرد
از بھشت آرزوھا بر بشر دَر باز کرد
از غدیر خم کمالِ شرع پیغمبر شدہ است
مُھر این فرمان بہ خون مُحسن و اصغر شدہ است
این خدائی روز ،بر شیر خدا تبریک باد
بر تمام اَنبیا واولیا تبریک باد
یا امام العصر این شادی تو را تبریک باد
چھاردہ قرن امامت بر شما تبریک باد
سینہ ھا از داغ ھِجران داغدارت تابہ کِی
چون(مو ی د) شیعیان در انتظارات تابہ کِی
”خدا نے حیدر کی ولایت عھدی کاتاج شرف دوسری مرتبہ زھرائے اطھر کے سر پر رکھا
اس قابل فخر کی ھستی کی بنا پرحریم عصمت میںفاطمہصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنے شوھر نامدار کے چھرے کو دیکھ کر مسکراتی ہیں
یہ بشارت دوستوں کا حو صلہ بڑھا تی ہے اور اس خبر سے دشمنوں کے دل پرخنجر لگتا ہے ۔
زمین سے دوبارہ غدیر کا چمکتا ہوا دن نکلابوستان غدیرکے پھول سے فضا معطر ہو گئی
صحرائے غدیر میں دریائے رحمت موج مارنے لگاغدیر کے دامن سے نورکے چشمے بہنے لگے
غدیر خم انوار خدا کی تجلی گاہ بن گیایھاں تک کہ وہاں سے مصباح الھدیٰ کا نور جلوہ گر ہو گیا
خدا کے علاوہ خلقت کی نگاہ اس طرف تھی سب منتظر تھے کہ خدا کا فرمان کیا ہے ؟ناگھاں خاتم الانبیاء چاند کی طرح علی کو ھاتھوں پر اٹھایا۔
تاکہ لوگوں کو اس ولی اللہ کا تعارف کرائیں اور وال من والاہ اور عاد من عاداہ کہیں
اے غدیر خم امام کی بیعت کے دن تیرا کیا کہنااے روز امامت ساری امت کا تجہے سلام
تیری بنا پر شریعت محکم ہوئی اور نعمت کا مل ہوئی ھم
اس مبارک دن اورنیک پیام کی یاد میں
علی مرتضیٰ کی محبت کی بنا پردل کو چراغاں کرتے ہیں
علی کے ساتھ دوبارہ تجدید عہد کرتے ہیں ۔
”غدیر خم سے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے جو سرخ راستہ کھولاتو گویا ابتدا سے انتھا تک باب رحمت کھول دیا
ھمارے دنیا کے لئے حق کی جانب ایک اور راستہ کھول دیا
لوگوں کے لئے جنت کی امیدوں کا ایک اور راستہ کھول دیا
غدیر خم سے پیغمبر کی شریعت کا مل ہوئی ہے
اس دستاویز کی مھر جناب محسن اور علی اصغرعليهالسلام
کے خون سے لگی ہے
یہ خدائی دن شیر خدا کو مبارک ہو
اے امامت کی چودہ صدیوں تم کو مبارک ہو
تمھارے سینے کب تک داغ حجراں سے داغدار رہیں گے
مو ی د کی طرح شیعہ تیرے انتظار میں کب تک رہیں گے “
مصطفی محدّثی خراسانی
ملتھب درکنار برکہ روح تاریخ پیر منتظر است
دست خور شید تانھد دردست آسمان در غدیر منتظر است
برسر آسمانی آن ظھر آیہ ھای شکوہ نازل شد
مژدہ دادند آیہ ھای شکوہ دین احمد تمام کامل شد
ایک حوض کے کنارے تاریخ کی بے چین روح منتظر ہے تاکہ آسمان غدیر ہاتھ میں خورشید کا ہاتھ رکھ دے
پس دور پھر میں با شکوہ آیات نازل ہوئیں
باعظمت آیات نے خو شخبری دی کہ دین کامل ہوگیا
حاج غلامر ضا ساز گار
غدیر عیدھمہ عُم رباعل ی بودن غدیر آینہ دارعلی ولی اللہ ست
غدیر حاصل تبلیغ انبیا ھمہ عمر غدیر نقش ولای علی بہ سینہ ماست
غدیر یک سند زندہ یک حقیقت محض غدیر ازدل تنگ رسول عقدہ گشاست
غدیر صفحہ تاریخ وال من والاہ غدیر آیہ توبیخ عاد من عادست
ھنوز لالہ (اکملت دینکم )روید ھنوز طوطی (اتممت نعمتی )گویاست
ھنوز خواجہ لولاک رانِداست بلند کہ ھرکہ راکہ پیمبر منم علی مولاست
بگوکہ خصم شودمنکر غدیرچہ باک کہ آفتاب بہ ھرسو نظرکنی پیداست
چوعمر صاعقہ کوتاہ باد دورانش خلافتی کہ دوامش بہ کشتن زھراست
”غدیر ساری زندگی علی کے ساتھ رہنے کی عید ہے غدیر علی ولی اللہ کی آئینہ دار ہے
غدیر انبیاء کی ساری عمر تبلیغ کا نتیجہ ہے غدیر ہمارے سینوں پر علی کی ولایت کا نقش ہے
غدیر ایک زندہ سنداور ایک خالص حقیقت ہے غدیر رسول کے پریشان دل کا عقدہ کھولتی ہے
غدیر وال من والاہ کی تاریخ کا صفحہ ہے غدیر عاد من عاداہ کی مذمت کی آیت ہے
ابھی” اکملت دینکم “کا پھول اگتا ہے ابھی ”اتممت نعمتی“ کی صدا بلند ہے
ابھی سید لولاک کی صدا بلند ہے کہ جس کا میں پیغمبر ہوں علی اس کے مولا ہیں
کھدو اگر دشمن غدیر کا انکار کردے تو کیا ڈر کیونکہ ہر طرف آفتاب نظر آئے گا
اس خلافت کا زمانہ بجلی کی مدت کی طرح مختصر ہو جائے جس کی بقا سید ہ کونین کو شھید کرنے کے ذریعہ ہے
دکتریحیی حدّادی ابیانہ
ستارہ سحر از صبح انتظار دمید
غدیر از نفس رحمت بھار چکید
گرفت دست قدر،رایت شفق بر دوش
زمین بہ حکم قضا آب زندگی نوشید
برآسمان سعادت ز مشرق ھستی
سپیدہ داد نویدِ تولدِ خورشید
بہ باغ ،بلبل شوریدہ رفت بر منبر چو از نسیم صبا بوی عشق یار شنید
زخویش رفتہ ،نواخوان عشق بود وسرود
بہ بانگ زیر وبم،اسرار خطبہ توحید
فتاد غلغلہ در باغ و شورشی انگیخت
کہ خیل غنچہ شکفت وبہ روی او خندید
ھوا زعطر گلاب محمدی مشحون
زمین بہ عترت وآل رسول بست امید
رسول،سدرہ نشین شد ،علی بہ صدر نشست
پیِ تکامل دینش خدای کعبہ گزید
گرفت پرچم اسلام را علی در دست
از این گزیدہ زمین وزمان بہ خود بالید
بہ یُمنِ فیضِ ولایت شراب خمّ اَلَست
بہ عشق آل علی از غدیر خم جوشید
”صبح انتظار سے ستارہ چمکا غدیر رحمت بھار کے سانس سے ظاہر ہوئی
شفق کے پرچم کو قدر کے ھاتھوں نے دوش پر اٹھایا زمین نے قضا کے حکم سے آب حیات پیا
آسمان سعادت پرمشرق وجود سے خورشید کے طلوع ہونے کی خبر سپیدہ صبح نے دی
بلبل باغ میں منبر پر اس وقت گئی جب اس نے نسیم صبا کے عشق یار کی خوشبو سونگھی
عشق کا نوا خواں بے ہوش ہو گیا تھا اور اس نے با آواز بلند خطبہ تو حید کے اسرار پڑھ کر سنائے
باغ میں شور مچ گیاکلیاں کھل کھلاکر مسکرا اٹہیں
فضا گلاب محمدی کے عطر سے معطر ہو گئی زمین نے آل محمد سے امید لگا ئی
رسول سدرة المنتھیٰ پر بیٹھ گئے علی صدر نشین ہو گئے
خدائے کعبہ نے اپنا دین کا مل کر لیا
علی نے پرچم اسلام کو ہاتھ میں پکڑ لیا اس انتخاب سے زمین و زمان پھولے نہ سمائے
فیض ولایت کی برکت سے ”اَلَسْتُ
“کے خم ک ی شراب آل علی کے عشق میںجوش مارنے لگی “
محمد علی سالا ری
سر زد از دوش پیمبر ،ماہ در شام غدیر
تا کہ جبرائیل او را داد پیغام غدیر
مژدہ داد او را ز ذات حق کہ بافرمان خویش
نخل ھستی بارو بر آرد در ایام غدیر
دین خود را کن مکمَّل با ولا ی مرتضیٰ
خوف تاکی باید از فرمان و اعلا م غدیر
می شود مست ولای مرتضیٰ،از خود جدا
ھرکہ نوشد جرعہ ای از بادہ جام غدیر
شد بپا ھنگامہ ای درآسمان ودر زمین
تا ولایت شد علی را ثبت ،ھنگام غدیر
شور شوقی شد در آن صحرای سوزان حجاز
مرغ اقبال آمد وبنشست بر بام غدیر
عشق مولا در دلم از زاد روز من نشست
جبینم حک بود تا مرگ خود نام غدیر
” دوش پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے شام غدیر میںچاند چمکا یھاں تک کہ جبرئیل نے حضور کوپیغام غدیر پہونچایا
خدا کی جانب سے حضور کے لئے خوشخبری دی کہ اپنے حکم سے کہ تم میوہ دار درخت خرما ہو جس کے پھل ایام غدیر میں نکلیں گے
ولائے مرتضیٰ سے اپنا دین مکمل کرو اعلان غدیر کرنے سے کب تک ڈرتے رہوگے
ولائے مرتضیٰ میں مست انسان خود سے بے خود ہو جاتا ہے جو بھی جام غدیر کا ایک گھونٹ پی لیتا ہے
آسمان و زمین میں ایک ہنگامہ ہو گیا یھاں تک کہ غدیر کے وقت علی کی ولایت ثبت ہو گئی
حجاز کے اس تپتے صحرا میں ایک جوش و ولولہ پیدا ہو گیا قسمت کا پرندہ بام غدیر پرآکر بیٹھ گیا
میرے دل میں مو لائے کا ئنات کا عشق میری ولادت کے دن سے ہی بیٹھ گیامیری پیشا نی پر مرتے دم تک غدیر کا نام کندہ رہے گا “
محمود شاھرخی
بہ کا م دھر چشاندی مِیی ز خم غدیر
کہ شورو جوشش آن در رگ زمان جاری است
زچشمہ سارو لای تو ای خلا صہ لطف
بہ جو یبار زمان فیض جاودان جاری است
”تم نے زمانہ کو غدیر خم کی شراب چکھا دی جس کا جوش زمانہ کی رگ میں جاری ہے
اے خلاصہ لطف تیری ولایت کے چشمہ سے زمانہ کی نھر کی جا نب ھمیشگی فیض جا ری ہے “
حکیم ناصر خسرو
بیا ویزد آن کس بہ غدر خدا ی کہ بگریزد از عہد روز غدیر
چہ گوئی بہ محشر اگر پرسدت از آن عہد محکم شبر یا شبیر
”جوشخص عہد غدیر سے فرار اختیار کرے گا وہ خداکے عذاب میں مبتلا ہوگا
اگر تم سے اس شبیر و شبر کے محکم عہد کے بارے میں سوال کیا جائے تو تم کیا جواب دوگے “
طائی شمیرانی
سائباں با ور نکردم مہ شود بر آفتاب تا ندیدم بر فراز دست احمد بو تراب
آری آری ماہ بر خو رشید گردد سا ئباں مصطفےٰ گر آفتاب آید علی گر ما ھتاب
”مجہے یقین نہیں آیا کہ سورج کے اوپرچاند کا سایہ ہو سکتا ہے جب تک میں نے احمد کے ھاتھوں پرابو تراب کو نہیں دیکھا تھا ۔
ھاں ،ھاں چاند خورشید کے لئے سائبان بن سکتا ہے اگر مصطفےٰ آفتاب ہوں اور علی ما ہتاب“
طاھرہ مو سوی گرما رودی
ای شرف اہل ولایت ،غدیر بر کہ سر شار ہدایت ،غدیر
زمزم و کو ثر زتو کی بہتر ند آبرو ی خویش زتو می خرند
این کہ کند زندہ ھمہ چیز آب ز آب غدیر است نہ از ہر سراب
از ازل این بر کہ بجا بودہ است آینہ لطف خدا بودہ است
”اے اہل ولایت کے شرف غدیر ہدایت کے سرشار حوض غدیر
زمزم و کوثر تجھ سے کب بہتر ہیں اپنی آبرو تجھ سے خریدتے ہیں
یہ جو کہتے ہیں کہ پانی تمام چیزوں کو زندہ کرتا ہے اس سے مراد آب غدیر ہے نہ ہر سراب
یہ حوض ازل سے قائم تھاآئینہ لطف خدا تھا “
مکرم اصفھا نی
اندیشہ مکن زانکہ کند و سوسہ خناس
در باب علی یعصمک اللہ من الناس
باید بشناسانیش امرو ز بہ نشناس
بازار خَزَف بشکنی از حُقّہ الماس
حق را کنی آنگو نہ کہ حق گفت مد لّل
”خیال بد مت کروکیونکہ خناس وسوسہ کرتا ہے
علی کے سلسلہ میں خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکہے گا
آج تم ان کا نا جاننے والوں کے سامنے تعارف کرادو
اینٹ ،پتھر اور الماس میں فرق ڈالو
جس طرح خدا نے کہا ہے حق کو دلیل کے ساتھ ثابت کرو
خو شدل کرما نشاھی
در غدیر خم نبی خشت از سر خم بر گرفت
خشت از خم ولا ی ساقی کو ثر گرفت
از خم خمر خلافت در غدیر خم بلی
ساقی کو ثر ز دست مصطفی ساغر گرفت
غدیر خم میں نبی نے خم سے اینٹ لی
ساقی کو ثر کی ولایت کے لئے خم سے اینٹ لی
بلیٰ کے غدیر خم میںخلافت کی شرافت کے خم سے
ساقی کو ثر نے مصطفےٰ کے ہاتھ سے ساغر لیا
یو سف علی میر شکاک
ماہ صد آئینہ دارد نیمہ شبھا در غدیر
روز ھا می گسترد خورشید ،خود را بر غدیر
پیش چشم آسمان ،پیشانی باز علی
آفتاب روی زھرا در پس معجر غدیر
”غدیر میں آدھی رات کے وقت چاند کے سو آئینے ہوتے ہیں
خورشید خود کو پورے دن غدیر کے اوپرتاباں رکھتاہے
آسمان کی نگاہوں کے سامنے علی کی کھلی ہو ئی پیشا نی
غدیر کے بعد گویا جناب فاطمہ زھرا َ کے چھرے کا آفتاب ہے “
سید مصطفی مو سوی گرما رودی
گلِ ہمیشہ بھار غدیر آمدہ است شراب کھنہ ما در خم جھان باقی است خدا گفت کہ (اکملت دینکم)آنک نوای گرم نبی در رگ زمان باقی است
قسم بہ خون گل سرخ در بھارو خزان ولایت علی وآل جاودان باقی است
گل ہمیشہ بھارم بیا کہ آیہ عشق بہ نام پاک تو در ذھن مردمان باقی است
۔۔۔
”میری بھار کا پھول ہمیشہ غدیر ہواہے دنیا کے خم میں ہماری کہنہ شراب باقی ہے
خدا نے اس کے لئے اکملت کہا کیونکہ نبی کی گرم آواز زمانہ کی رگ میں باقی ہے
بھار و خزاں کے سرخ پھولوں کے خون کی قسم علی وآل کی ولایت ہمیشہ باقی رہے گی
میرے ہمیشہ بھاری رہنے والے پھول آ کیونکہ آیہ عشق تیرے پاک نام کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں باقی ہے
در روز غدیر ،عقل اوّل آن مظھر حق نبیَّ مرسل
چو ن عرش تو را کشید بر دوش آنگاہ گشود لعل خاموش
فرمود کہ این خجستہ منظر بر خلق پس از من است رھبر
بر دامن او ہر آن کہ زد دست چون ذرہ بہ آفتاب پیوست
”غدیر میں عقل اول اور مظھر حق نبی مرسل نے جب آسمان کو دوش پراٹھایا اس وقت گویا ہوئے یہ مبارک شخص میرے بعد لوگوں کا رھبر ہے ۔
اس کے دامن سے متمسک رہووہ ذرہ کی طرح آفتاب سے جا ملا“
علی رضا سپاھی لائین
دشت غوغا بود غوغا بود غوغا در غدیر
موج می زند سیل مردم مثل دریا در غدیر
در شکوہ کاروان آن روز باآھنگ زنگ
بی گمان باری رقم می خورد فردا در غدیر
ای فرامو شان باطل سر بہ باطل افکنید
چون پیمبر دست حق را برد بالا در غدیر
حیف اما کاروان منزل بہ منزل می گذشت
کاروان می رفت وحق می ماند تنھا در غدیر !!
”دشت غدیر میں بے حد شور و غل تھا
غدیر میں دریا کی طرح لوگوں کا سیلاب مو جیں مار رہا تھا
اس وفا کے کاروان کی عظمت میں غدیرمیں مستقبل کے سلسلہ میں گفتگو کی جا رہی تھی
اے باطل پرستوں سر جھکالو
جب غدیر میںپیغمبر اپنے دست مبارک کو اٹھائیں
افسوس لیکن کاروان منزل بہ منزل گذر رہا تھا
کاروان جا رہا تھااور حق غدیر میں تنھارھا جا رہا تھا “
محمد علی صفری (زرافشان )
آن روز کہ با پر تو خورشید ولایت
رہ را بہ شب از چار طرف بست محمد
صحرائے غدیر است زیارتگہ دلھا
از شوق علی داد دل از دست محمد
تا جلوہ حق را بہ تماشا بنشینند
بگرفت علی را بہ سر دست محمد
”جس دن خورشید ولایت کے پرتو کی بنا پر
محمد نے رات کے لئے چاروں طرف سے راستہ بند کردیا
صحرائے غدیر دلو کی زیارت گاہ ہے
علی کی محبت میں محمد سر شار ہوگئے
تاکہ لوگ جلوئہ حق کا نظارہ کریںکہ محمد نے علی کا ہاتھ پکرلیا“
یحیٰ سا قی ای قدت طو بی ای لبت کو ثر
کوثری مِیَم امروز از غدیر خم آور
آور از غدیر خم ،خم خُمَم مِیِ کوثر
من منم بدہ سا غر ،خم خمم بدہ صھبا
بادہ در غدیرم دہ ،از غدیر خم ،خم خم
ھمچون زاھدان شھر ،در غدیر خم شو گم
می زخم وصلم دہ ،تا کف آورم بر لب
خم دل کنم دجلہ ،دجلہ را کنم دریا
”ساقی جس کا قد طوبیٰ کی طرح ہے تیرا لب کو ثر ہے
تو کوثر ہے آج میرے لئے غدیر خم کی شراب لے کر آ
غدیر میں مجھ کو بادہ دے غدیر کا مجھ کو خم دے
شھر کے زاھدوں کی طرح غدیر میں کھوجا
تاکہ میرے لب پرجھاگ آجا ئیں
خم دل کو دجلہ کروں اوردجلہ کو دریا کروں “
ناصر شعار بوذری
گفت بر خیز کہ از یار سفیر آمدہ است
بہ چرا غانی صحرا ئے غدیر آمدہ است
مو ج یک حا دثہ در جان غدیر است امروز
و علی چھرئہ تابان غدیر است امروز
بیعت شیشہ ای و آہن پیمان شکنی
داد از بیعت آبستن پیمان شکنی
پس از آن بیعت پر شور علی تنھا ماند
و وصایای نبی در دل صحرا جا ماند
مو ج آن حا دثہ در جان غدیر است ھنوز
و علی چھرئہ تابان غدیر است ھنوز
”اس نے کا کہ اٹھ یار کا سفیرصحرائے غدیر کی چراغانی لے کر آیاہے
آج غدیر کی جان میں ایک واقعہ کی مو ج ہے
آج علی غدیر کے چھرئہ تاباں ہیں
شیشہ کی بیعت اور پیمان شکنی کا لوہے نے بیعت سے پیمان شکنی کا درس دیا
اس ولولہ انگیز بیعت کے بعد علی تنھا رہ گئے ہیں
نبی کی وصیتیں صحرا میں رہ گئیں
ابھی غدیر کی جان میں اسی واقعہ کی مو جیں ہیں اور ابھی بھی علی غدیر کے رخ تاباں ہیں “
محمد تقی بھار
ای نگار رو حانی ،خیز و پردہ بالا زن
در سرادق لا ہوت ،کوس ”لا “و”الّا زن
در ترانہ معنی ،دم ز سرّ مو لا زن
و انگہ از غدیر خم با دہ تو لّا زن
تا زخود شوی بیرون ،زین شراب رو حا نی
در خم غدیر امروز ،بادہ ای بجوش آمد
کز صفای اورو شن ،جان بادہ نوش آمد
وان مبشّر رحمت ،بازدر خروش آمد
کان صنم کہ از عشاق بردہ عقل وھوش آمد
با ھیولی تو حیددر لباس انسانی
او ست کز خم لاھوت ،نشئا ئہ صفا دارد
در خریطہ تجرید ،گوھر وفادارد
در جبین جان پاک ، نور کبر یا دارد
در تجلی ادراک جلو ئہ خدا دارد
در رُخَش بود روشن ،راز ھای رحمانی
”اے روحانی نقش اٹھ اور پردہ کو اوپر اٹھا
لاہوت کے ماحول میں لا اور اِلّا کا طبل بجا
معنی کے ترانہ میں مولاکا راز بتا
پھر غدیر خم سے مولا کا جام لا
تا کہ اس روحا نی شراب کی وجہ سے خود سے بھار آجائے
آج خم غدیر میں ایک لاکھ بادہ جوش میں آئے
جس کی صفا سے بادہ نوش کی جان روشن ہو گئی
وہ مبشر رحمت پھر جو ش میں آیا
وہ صنم جو عشاق سے لے گیا تھاہوش میں آیا
توحید کی شکل میں انسان کے لباس میں
وہ ہے جو خم لاہوت سے صفا کی ابتدا رکھتا ہے
تجرید سے گوھر وفا رکھتا ہے
جان پاک کی پیشا نی میں نور کبریا رکھتا ہے
تجلی ادراک میں جلوئہ خدا رکھتا ہے
اس کے رُ خ میں روحا نی راز روشن ہوتے ہیں “
آیة اللہ کمپانی
ولا یتش کہ در غدیر شد فریضہ امم
حد یثی ازقدیم بود ثبت دفتر قدم
کہ زد قلم بہ لوح قلب سیّد امم رقم
مکمل شریعت آمد ومتمّم نعم
شد اختیار دین بہ دست صاحب اختیار من
باد ہ بدہ ساقیا ،ولی زخمَّ غدیر چنگ بزن مطربا، ولی بہ یاد امیر
وادی خم ّ غدیر منطقہ نور شد باز کف عقل پیر ،تجلّی طور شد
”ان کی ولایت جو غدیر میں اقوام پر واجب ہو گئی
یہ ازل سے دفتر قِدم میں ثبت تھی
قلم نے حضور کے قلب پر لکھاکہ شریعت کامل ہوگئی اور نعمت تمام ہو گئی صاحب اختیار کے ذریعہ میں نے دین کو اختیار کیا
اے ساقی غدیر خم کا بادہ دے اے مطرب مو لائے کا ئنات کی یاد میں طرب کی باتیں کر
وادی غدیر خم منور ہو گئی دوبارہ عقل تجلی طور ہو گئی
ناظم زادہ کرمانی :
عارفان راشب قدر است شب عید غدیر بلکہ قدر است ازاین عید مبارک تعبیر
کرد ہ تقدیر بدینسان چو خداوند قدیر ای علی ،ای کہ تویی بر ھمئہ خلق امیر
بھترین شاہد این قصہ بود خمِّ غدیر کرد تقدیر چنین لطف خداوند قدیر
”شب غدیر عارفوں کی شب قدر ہے بلکہ اس عید کوقدر کہنا زیادہ بہتر ہے خدانے یوں فیصلہ کیا کہ اے علی تم تمام مخلوق کے امیر ہو
اس قصہ کا بہترین شاھدغدیر خم تھاخدا کے لطف سے یہ فیصلہ ہوا “
احمد عزیزی
غدیر خم از غیرت بہ جوش است ببین قرآن ناطق را خموش است
خمّ غدیر از کف این می تَرَست زانکہ علی ساقی این کوثر است
”غدیر خم غیرت کے جوش میں ہے دیکھو کہ قرآن ناطق خا موش ہے
شراب کی وجہ سے ہاتھ سے خم غدیر تر ہے چونکہ اس کو ثر کے ساقی علی ہیں
حالی اردبیلی
صبح سعادت دمید ،عید ولایت رسید فیض ازل یار شد، نوبت دولت رسید
از کر مش برگد ا ،داد ھمی جان فزا گفت بخور زین ھلا ،کز خُم جنت رسید
”صبح سعادت نمودار ہو ئی کہ ولایت اب پہونچی فیض ازل یار ہوادولت کی نوبت آئی
اس کے کرم سے فقیر کے لئے حوصلہ افزا بات ہو گی اس نے کہا اسے کھاؤ کیونکہ یہ جنت کے خم سے آیا ہے
فرصت شیرازی
این خم نہ خم عصیر باشد این خم ،خم غدیر باشد
از خم غدیر می کنم نوش تا چون خم برآورم جوش
”یہ خم انگور کا خم نہیں ہے یہ خم ،خمِ غدیر ہے
میں خم غدیر پیتا ہوں تاکہ خم کی طرح جوش میں آجاؤں“
آیة اللہ میرز ا حبیب خراسانی
امروز بگو ،مگو چہ روز است؟ تا گویمت این سخن بہ اکرام
موجود شد از برای امروز آغاز وجود تا بہ انجام
امروز زروی نص قرآن بگر فت کمال ،دین اسلام
امروز بہ امر حضرت حق شد نعمت حق بہ خلق اتمام
امروز وجود پردہ برداشت رخسارئہ خویش جلو ہ گر داشت
امروز کہ روز دار وگیراست می دہ کہ پیالہ دلپذیر است
از جام وسبو گذشت کارم وقت خم ونوبت غدیر است
امروز بہ امر حضرت حق بر خلق جھان علی امیراست
امروز بہ خلق گردد اظھار آن سرّ نھان کہ در ضمیر است
عالم ھمہ ہر چہ بود وھستند امروز بہ یک پیالہ مستند
”آج کہو ،نہ کہو کو نسا دن ہے تاکہ میں تمہیں یہ بات اچہے انداز میں بتاؤں
آج کے لئے وجود کا آغاز انجام تک موجود ہو گیا
آج قرآن کی نص کے اعتبار سے دین اسلام کا مل ہو گیا
آج خدا کے حکم سے نعمت حق مخلوق پرکامل ہو گئی
آج وجود کا پردہ ہٹا اور رخسارہ جلوہ گر ہو گیا
آج جو پریشانیوں کا دن ہے مجہے شراب دے چونکہ پیالہ دل کو لبھانے والاہے
میرا کام جام و صبو سے گذر گیاخم کا وقت اور غدیر کی باری ہے
آج خدا کے حکم سے علی تمام مخلوقات عالم کے امیر ہیں
آج لوگوں پرضمیروں کا پوشیدہ راز آشکار ہوجا ئے گا
دنیا جو بھی تھی اور ہے آج ایک پیالہ میں مست ہے “
فارسی ادبیات میں نثر لکھنے والوں نے غدیر کے سلسلہ میں زبر دست قطعے لکہے ہیں جس کے ہم دو نمونہ ذیل میں پیش کررہے ہیں :
غدیر میں گو یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فکر فر ما رہے تھے :حضرت علی علیہ السلام کے بغیر کیسے کام کا انجام ہو گا ؟
اور حضرت علی علیہ السلام یہ فکر کر رہے تھے کہ :حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر کیسے زندگی بسر ہو گی ؟
لوگ اسی آنے اور جا نے کے پس و پیش میں ہیں ایک مشکل میں گرفتار ہیں :
یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کہ اگر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کر لی تو باقی رہ جا ئیںگے ۔
یہ علی علیہ السلام ہیں اگر ان کی بیعت توڑ لی تو ہاتھ سے نکل جا ئیں گے !!
لوگوں کے گروہ کس طرح حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں فکر کرتے ہیں اور ان کے قائد بیعت کو توڑنے کی سا زش کرتے ہیں ۔۔۔!!؟
اسماعیل نوری علاء
آری ۔۔۔خم ! ھاں ،خم
شربدار ولایت ولایت کی شراب کی جگہ
غدیر حا دثات غدیر واقعات
ومیان منزل افشای راز ھا ست ۔ رازوں کے افشا کے درمیان ہے
بنگریدش اس کو دیکھو
کہ بر اوج دست و بازو دست و بازو کی بلندی پر
در چنگ چنگا لی از نور نور کے پنجہ میں
ایستا دہ است کھڑا ہے
بہ ابر ھا نزدیکتر تا بہ ما ہمارے مقابلہ میں بادلوں سے زیادہ نزدیک ہے
و نگاہ نمی کند نہ در چشمان مشتاق اور مشتاق آنکھوں کو نہیں دیکھتا ہے
نہ در دیدگان دریدہ از حسد ۔ نہ حسد سے پھٹی ہو ئی آنکھوں کو
بہ این ترانہ گو ش کنید اس ترانہ کو سنو
کہ در ھفت آسمان می طپد : جو ساتوں آسمانوں میں گونج رہا ہے
”جو مجھ کو اپنا مو لا سمجھتا ہواس کو معلوم ہوتا ہے کہ میرے برابر میں کھڑا ہو ا شخص بھی اس کا مو لا ہے “
آری ھاں
امروز ھمہ چیز کا مل است آج تمام چیزیں کامل ہو گئیں
معیاری بہ دنیا آمدہ دنیا کو ایک معیار مل گیا
کہ در سایہ اش جس کے سایہ میں
نیک و بد از ہم مشخصند۔ نیک و بد ایک دوسرے سے ممتاز ہیں ۔
شعر اور اردو ادب
پیمبروں نے جو ما نگی ہے وہ دعا ہے غدیر
جو گو نجتی رہے تا حشر وہ صدا ہے غدیر
جو رک سکے نہ وہ اعلان مصطفےٰ ہے غدیر
کہ ابتداء ذو العشیرہ ہے انتھا ہے غدیر
غدیر منزل انعام جا ودانی ہے
غدیر مذ ھب اسلام کی جوانی ہے
غدیر دامن صدق و صفا کی دولت ہے
غدیر کعبہ و قر آن کی ضما نت ہے
غدیر سر حد معراج آدمیت ہے
غدیر دین کی سب سے بڑی ضرورت ہے
غدیر منزل مقصود ہے رسولوں کی
غدیر فتح ہے اسلام کے اصولوں کی
متاع کون و مکاں کو غدیر کہتے ہیں
چراغ خا نہ جاں کو غدیر کہتے ہیں
صدا قتوں کی زباں کو غدیر کہتے ہیں
عمل کی روح رواں کو غدیر کہتے ہیں
غدیر منزل تکمیل ہے سفر نہ کہو
نبی کی صبح تمنا ہے دو پھر نہ کہو
ستم کئے ہیں بہت وقت کے شریروں نے
مٹائے نقش وفا خنجروں نے تیروں نے
حدیثیں ڈھا لی ہیں دنیا کے بے ضمیروں نے
فسا نے لکہے ہیں در بار کے اسیروں نے
علی کے لال کا جب ہاتھ تھام لے گی غدیر
ستمگروں سے ضرور انتقام لے گی غدیر
کوہ فاراں سے چلا وہ کا روان انقلاب آگے آگے مصطفےٰ ہیں پیچہے پیچہے بو تراب
فکر کے ظلمت کدے میں نور بر ساتا ہوا ذہن کی بنجر زمیں پر پھول بر ساتا ہوا
قافلہ تھا اپنی منزل کی طرف یوں گا مزن جیسے دریا کی روانی جیسے سورج کی کرن
خُلق پیغمبر بھی تیغ فا تح خیبر بھی ہے یعنی مر ہم بھی پئے انسانیت نشتر بھی ہے
ذہن کی دیوار ٹو ٹی باب خیبر کی طرح دل میں در وازے کھلے اللہ کے گھر کی طرح
مو ج نفرت میں محبت کے کنول کھلنے لگے خون کے پیا سے بھی آپس میں گلے ملنے لگے
ذو العشیرہ میں ہوا پہلے پھل اعلان حق یعنی یہ آغاز تھا آئینہ انجام حق
بن گئی ہجرت کی شب دین الٰہی کی سحر بستر احمد پہ سو ئے شیر داور رات بھر
بزم پیغمبر میں دیکھو آدمیت کا جلال یعنی سر داروں کے پہلو میں نظر آئے بلال
آخرش بدر و احد کے معر کے سر ہو گئے جب اٹھی تیغ علی پسپاستم گر ہو گئے
غدیر نام ہے اللہ کی عبا دت کا غدیر نام ہے انسان کی شرافت کا
غدیر نام ہے نوع بشر کی عظمت کا غدیر نام ہے ربط کتاب و عترت کا
جھاں میں جو ہے اسی اک سفر کا صدقہ ہے
ھر ایک صبح اسی دو پھر کا صدقہ ہے
کہیں سکوں کہیں جھنکار بن گئی ہے غدیر کبھی صدا ئے سرِداربن گئی ہے غدیر
کہیں قلم کہیں تلوار بن گئی ہے غدیر کہیں دعا کہیں انکار بن گئی ہے غدیر
یہ سب اثاثہ علم و یقین مٹ جاتا
اگر غدیر نہ ہو تی تو دین مٹ جاتا
دل پیمبر اعظم کا چین بھی ہے غدیر نمود قوت بدر و حنین بھی ہے غدیر
لب بتول پہ فر یاد و شین بھی ہے غدیر حسن کی صلح بھی جنگ حسین بھی ہے غدیر
کبھی صدا ئے جرس بن کے راہ میں آئی
کفن پہن کے کبھی قتل گاہ میں آئی
نبی کے بعد صف اشقیاء جب آئی تھی عدا وت آل پیمبر کی رنگ لا ئی تھی
ستم پر ستوں نے کب آستیں چڑھا ئی تھی جمل کی اور نہ صفین کی لڑائی تھی
نہ سمجھو تھا وہ شہ قلعہ گیر پر حملہ
کیا تھا اہل ہوس نے غدیر پر حملہ
یہ آرزو تھی مٹا دیں گے نقش پائے غدیر سمجھ رہے تھے کہ مقتل ہے انتھا ئے غدیر
مگر نہ رک سکی تیغوں سے بھی ہوا ئے غدیر سنا ںکی نوک پہ بھی گونج اٹھی صدا ئے غدیر
لہو میں غرق ہر اک حق پسند ہو کے رھا
مگر غدیر کا پرچم بلند ہو کے رھا
نفاق و کفر کے گھیروں نے را ستہ رو کا جفا و ظلم کے ڈیروں نے راستہ رو کا
جھا لتوں کے اندھیروں نے را ستہ رو کا قدم قدم پہ لٹیروں نے را ستہ رو کا
جو سدّ راہ بصد نخوت و غرور ہو ئے
وہ سب غدیر سے ٹکرا کے چورچور ہو ئے
جو حق پرست تھے وہ دار پر چڑھا ئے گئے نہ جانے کتنے غریبوں کے گھر جلا گئے
نقوش حق و صدا قت تھے جو مٹا ئے گئے زبا نیں کا ٹی گئیں اور لہو بھا ئے گئے
جو ایک مریض کو بیڑی پہنا نے آئے تھے
وہ سب غدیر کو قیدی بنا نے آئے تھے
ستم گروں سے کہو قتل عام کر تے رہیں نبی کے قول کی تا ویل خام کر تے رہیں
جو کر گئے ہیں اب و جد وہ کام کر تے رہیں ہزار ظلم صبح و شام کر تے رہیں
مگر غدیر کا اعلان رک نہیں سکتا
اٹھا تھا خم سے جو طوفان رک نہیں سکتا
لئے ہے تیغ علی قلعہ گیر کا وا رث نمو د قوت نان شعیر کا وارث
نبی کے لال جناب امیر کا وارث نکل کے آئے گا جس دن غدیر کا وارث
زبان تیغ بتا ئے گی عزّ و شان غدیر
کہیں پناہ نہ پا ئیں گے دشمنان غدیر
جب شکست فاش با طل کو ہو ئی جنگاہ میں بد دعا دینے کو آ پہونچے نصا ریٰ راہ میں
تب نبی و فا طمہ حسنین و حیدر آگئے اپنے اہل بیت کو لیکر پیمبر آگئے
منزل خندق پہ پہنچا جب غدیری کا رواں کل ایماں بن کے نکلے تب امام انس و جاں
سورہ تو بہ حرم میں لے کے جا ئیگا وھی جس نے چو سی ہے زباں قرآں سنا ئے گا وھی
فتح مکہ میں جھا لت کے صنم تو ڑے گئے پتھروں کے بت روایت کے صنم تو ڑے گئے
آچکا ہے اب وہاں پر کا روان انقلاب انبیاء نے مد توں دیکھا تھا جس منزل کا خواب
ہو گیا اعلان جب مو لا علی کے نام کا چھرہ رو شن ہو گیا مستقبل اسلام کا
مصطفےٰ کو تا ابد محمود حق نے کر دیا حد پہ جو آئے تو لا محدود حق نے کر دیا
ذمہ دار دین حق پڑھ کر ولا یت ہو گئی دو سرے لفظوں میں تو سیع نبوت ہو گئی
۔۔۔۔۔۔
بزم ھستی میں جلا ل کبریا ئی ہے غدیر
بھر امت امر حق کی رو نما ئی ہے غدیر
اے مسلماں دیکھ یہ دو لت کہیں گم ہونہ جا ئے
مصطفےٰ کی زندگی بھر کی کما ئی ہے غدیر
دا من تا ریخ انسان کی دو لت ہے غدیر
بیکسوں کی شان کمزوروں کی طاقت ہے غدیر
اک ذرا سا ذکر آیا اور چھرے فق ہو ئے
دشمنوں کے واسطے روز قیامت ہے غدیر
عظمت دین الٰہی کا منا رہ ہے غدیر
دو پھر میں جو تھا روشن وہ ستارہ ہے غدیر
تھام کر با زوئے حیدر مصطفےٰ بتلا گئے
ایک کیا سا رے رسولوں کا سھارا ہے غدیر
پیچ و خم کو ئی نہ کہا ئی نہ کہا نچہ ہے غدیر
جس میں ڈھلتی ہے صداقت ایسا سا نچہ ہے غدیر
پھر گیا رخ دشمنان مذ ھب اسلام کا
کفر کے رخسار پر حق کا طما نچہ ہے غدیر
منزل تکمیل دین کبریا ئی کی عید ہے
نقطہ معراج کار انبیاء کی عید ہے
آدمی کیا عترت و قرآن ملتے ہیں گلے
عید سب بندوں کی یہ دین خدا کی عید ہے
شعر و ادب تر کی
یو سف شھاب
امامی حضرت باری گرَگ ایدہ تعیین
محوّل ہر کَسَہ او لماز امور ربانی
منا دی آیہ قرآنیدور،علیدی ولی
علینی رد ایلین ،رد ایدو بدی قرآنی
منہ وصی ،سیزہ اولی بنفسدوربو علی
مباد ترک ایلیہ سیز بو وصایانی
بو امر امر الھیدی ،نہ مینم را ییم
امین وَحیِدی نا زل ایدن بو فرمانی
دو توب گو گہ یوزین عرض ایتدی اول حبیب خدا
کہ ای خدا ئے روؤف و رحیم و رحما نی
عم او غلو می دو تا دشمن او کس کہ ،دشمن دوت
محب و نا صر ینہ ،نصرت ایلہ ہر آنی
بو ما جرانی گو رندہ تمام دشمن و دو ست
غریو و غلغلہ دن دو لدی چرخ دا ما نی
او کی محبیدی مسرور او لوب ،عدو غمگین
نہ او لدی حدی سرور ونہ غصہ پایا نی
”امام کو خداوند عالم معین کرتا ہے یہ امر ربانی ہر شخص کے حوالے نہیں کیا جاسکتاہے
علی آیہ قرآن کے منادی اور خدا کے ولی ہیں ،جس شخص نے علی کا انکار کیا اس نے خدا کا انکار کردیاہے
یہ علی میرے وصی اور تم میں سب سے اولیٰ ہیں ہر گز ان سفارشات کو ترک نہ کرنا
یہ امر ،امر الٰہی ہے میری اور تمھاری رائے نہیں ہے امین وحی نے یہ فرمان نازل کیا ہے
حبیب خدا نے اپنی صورت آسمان کی طرف کرکے کھااے خداوند رؤوف و رحیم و رحمان جو شخص میرے چچازاد بھائی کا دشمن ہے تو اس کو دشمن رکھ جو اس کو دوست رکہے تو ہمیشہ اس کی مدد کر
تمام دوست اور دشمنوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو دنیا میں خو شی کر لھر دوڑ گئی
دوست خوشحال ہوگئے اور دشمن رنجیدہ ہوگئے غصہ کافور ہوگیا اور خو شی و شادمانی کے حالات فراہو ہوگئے “
قمری
حکم خطاب آیہ یا ایھا الرسول
تبلیغنہ وصایتوہ مد عا علی
حکم غدیر ہ منزلی حج الوداعدہ
قیلدی سنی یرندہ وصی ،مصطفیٰ علی
”یا ایھا الرسول ۔۔۔کا حکم خطاب ،اے علی تیری وصایت و خلافت کا مدعا ہے
حجة الوداع میں حکم غدیر کے اقتضا کے مطابق پیغمبر اکرم نے تجہے اپنا جا نشین منتخب فرمایا“
یوسف معزی ارد بیلی
پروردگار عالم ایدو بدور حما یتین
بیلد یر دی یر یو زندہ پیمبر رسالتین
گلدی غدیر خُمَیدہ رجعتدہ نا گھان
روح الامین گتور دی پیام و بشارتین
بعد از سلام عرض ایلدی امر ایدور خدا
امّت لَرہ یتور سون علی نون ولا یتین
فرمان و یروب رسول امین کا روان دو شوب
فر ما نیون گور و بدور اولارد ا طاعتین
منبر دو زَلدی چخدی ھمان منبر او ستنہ
اوّل پشیتدی امتی قرآن تلا وتین
خیر البشر علی کمرین دو تدی قا لخِزوب
حضار تا گور و بدور او صاحب شجا عتین
مو لا یم ہر کیمہ دیدی من ہر زماندہ
مو لا سی دور عم او غلوی ھمان با دیانتین
جبریل گتدی آیہ اکملت دینکم
اسلامون آرترو بدو بو گون حق جلا لتین
”پروردگار عالم نے اپنی حمایت کا اعلان کیا جب رسالت پیغمبر کا زمین پر اعلان فرمایا
ناگھاں غدیر خم آئی روح الامین ان کے لئے پیغام اوربشارت لے کر آئے
سلام کے بعد عرض کیاخداوند عالم کا امر ہے :ولایت علی کا پیغام امت تک پہونچا دیجئے رسول امین کے فرمان سے تمام قافلے ٹھھر گئے انھوں نے بھی رسول کے فرمان کی اطاعت کی
منبر بنایا گیا اور رسول منبر پر تشریف لے گئے پہلے قرآن کی آیت لوگوںکو پڑھ کر سنا ئی
پیغمبر خیر البشر نے علی کو اپنے ھاتھوں پر بلند کیااور حاضرین نے اس صاحب شجاعت شخص کا مشاہدہ کیا ۔
فرمایا :جس شخص کا میں ہر زمانہ میں مو لاہو ں یہ علی بھی اس کے مولا ہیں
جبرئیل آیہ اکملت لکم دینکم لیکر آئے آج اللہ نے اسلام کی جلالت و عظمت بڑھا دی ہے “
۷ غدیر کی یا دیں
غدیر کی یاد کو زندہ رکھنااس کے مطالب و محتوا کو زندہ رکھنے کا سب سے موثر سبب ہے ،طول تا ریخ میں غدیر کی یا دگا ری کے طور پر مختلف چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں چو نکہ مسلمانوںکی مختلف اقوام و ملل نے اپنے حالات کے مطابق اپنے معا شرہ میں غدیر کی یادگا ریں بپا کی ہیں ۔
مسجد غدیر ،غدیر کے بیا بان میں مسلمانوں کی زیا رتگاہ کے عنوان سے ایک متبرک جگہ تھی۔غدیر کی یاد میں منا ئی جا نے والی سالانہ محفلیں دو سرے مختلف قسم کے پروگرام ،غدیر کو زندہ کر نے کے دو سرے جلوے ہیں ،غدیرمیں زیارت امیر المو منین علیہ السلام پڑھنا صاحب غدیر سے تجدید بیعت اور غدیر کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے ہے ۔ یہ تمام مظا ھرے غدیرکے معتقد معاشروں میں غدیر کی حفا ظت اور اس کے مخا لفوں کے با لمقابل اس کے دفاع کے لئے ہیں ۔ان ہی یادوں کے سایہ میں چو دہ صدیوں سے غدیر تا ریخ اسلام میں درخشاں و تا بندہ ہے اور غدیر کی نا بودی کی ہزاروں سازشیں ناکام ہو چکی ہیں ۔
ا مسجد غدیر
غدیر وہ سر زمین مقدس ہے جس نے دسویں ہجری میںپیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حجة الوداع میں ایک اہم کر دار ادا کیا اور ”و صایت و ولایت “امیر المو منین علی بن ابی طالب اس مقام پر انجام پا ئی آج اس کی کیا حا لت ہے ؟
کیا تا ریخ کایہ اہم نقطہ دشمنی و لجا جت کے گرد و غبار میں فر ا موشی کے سپرد کر دیا گیا ہے ؟کیا اس مقدس وا دی کو شیعہ بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی زیا رتگاہ نہیں ہو نا چا ہئے ؟ کیا چودہ صدیاں گزر نے کے با وجود اس معطرخاک نے رسالت و وصایت کی شمیم روح پرور کی نگھداری نہیں کی ہے ؟کیا ابھی بھی اس مقدس و پا کیزہ سر زمین پر پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت علی علیہ السلام کے مقدس قدموں کے نشانات نقش نہیں ہوئے؟کیا یھی خاک و بالو اس عظیم منظر کے وا قعہ کے شاہد و گواہ نہیں ہیں ؟کیا غدیر کی اس پگھلا دینے والی گرم ہوا کی امواج میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نجات دینے والی صدا نہیں آ رہی ہے ؟
کیابیت اللہ الحرام کے زا ئروں کو اس سر زمین پاک سے گزر نے اور اپنے روح و جسم کو اس فضا میں تا زگی اور شا دابی سے معطر کر نے کی اجا زت ہے جس ۸ ا ذی الحجہ کوپیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
ملکوتی صدا بلند ہو ئی تھی ؟
مسجد غدیرکی تا ریخ
جس دن سے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم کے میدا ن میں امامت کے منصب پرمتعا رف فر مایایہ وہ وادی اور مقدس ہو گئی ۔دو نورانی ھستیوں حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت علیہ السلام کے ذریعہ اس مقام پر تین دن کے پروگرام نے اس وادی کو ایسی رو حانی کیفیت عطا کر دی کہ چودہ سو سال سے لیکر آج تک (غدیر میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی مسجد )کا نام زبان زد عام ہے اور لاکھوں حا جی خا نہ کعبہ جا تے اور آتے وقت اس کی زیارت کر تے ہیں اور اس میں نماز پڑھ کر خدا وندعالم سے لو لگا تے ہیں ۔
ائمہ علیھم السلام نے اپنے اصحاب کو غدیر خم کی مسجد کی زیارت کر نے کی تا کید فر ما ئی تھی اوریہ کہ
۱ ۔بحا رالا نوار جلد ۸ قدیم صفحہ ۲۲۵ ،جلد ۳۷ صفحہ ا ۲۰ ،جلد ۵۲ صفحہ ۵ حدیث ۴ ،جلد ۰۰ ا صفحہ ۲۲۵ ۔اثبات الھداةجلد ۲ صفحہ ۷ ا حدیث ۶۷ ،صفحہ ا ۲ حدیث ۸۷ ،صفحہ ۹۹ ا حدیث ۰۰۴ ا ۔معجم البلدان جلد ۲ صفحہ ۳۸۹ ،مصباح المتھجدصفحہ ۷۰۹ ،الوسیلہ (ابن حمزہ) صفحہ ۹۶ ا ۔الغیبہ(شیخ طو سی )صفحہ ۵۵ ا۔الدروس صفحہ ۵۶ ا۔مزارات اہل البیت علیھم السلام و تا ریخھامولف سید جلا لی صفحہ ۴۲ ۔
مسجد کی زیارت کر نے سے با لکل غافل نہ ہونا ۔حضرت امام حسین علیہ السلام جب مکہ سے کربلاکی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے غدیر میں توقف فر مایا ۔حضرت امام باقر اور حضرت اما م صادق علیھما السلام مسجد غدیر میں تشریف فر ما ہو ئے اور انھوں نے اپنے اصحاب کےلئے غدیر میں ہو نے والے پرو گرام کی انہیں نشاندھی کی اور اس کی تشریح فر ما ئی ۔
محدثین اور بڑے علمائے کرام بھی غدیر خم میں آتے اور اس وا دی کا احترام کر تے تھے ۔تیسری صدی ہجری میں علی بن مہز یار اہوا زی اپنے سفر حج کے دوران وہاں پر آئے تھے ۔شیخ طو سی چھٹی ہجری ابن حمزہ ساتویں ھجر ی اور شھید اول اور علامہ حلی آٹھویں صدی ہجری کے کلا م میں ہم مسجد غدیر کا اسم مبارک اور اس کے با قی رہنے کے آثار کے متعلق پڑھتے ہیں ۔
سید حیدر کا ظمی نے ۲۵۰ ا ہجری میں مسجد غدیر کے وجود مبارک کی خبر دی ہے اور اس زمانہ میں اگرچہ سڑک غدیر سے بہت دور تھی لیکن غدیر کی مسجد مشہور و معروف تھی ۔محدث نوری نے بھی ۳۰۰ اھجری میں اس کے وجودکی خبر دی ہے وہ بذات خود مسجد غدیر میں گئے اور وہاں کے اعمال بجا لائے ۔
مسجد غدیر کا دشمنوں کے ھا تھوں خراب ہو نا
جس طرح تاریخ میں غدیر کا پرچم بلند و بالا ہے اور اس سے ”علی ولی اللہ “کا نور در خشاں ہے اسی طرح مسجد غدیر بھی دشمنان و لا یت کی آنکھوں میں خار تھی کہ جس کی مٹی اور اینٹوں کی بنیادیں زندہ سند کے عنوان سے صحرا ئے غدیر کے دل پر درخشاں ہے ۔اسی وجہ سے مو لا ئے کا ئنات سے بغض و عناد رکھنے والے جنھوں نے آپعليهالسلام
کے گھر کوبھی جلا دیا تھا اوران کی اتباع کر نے والوں میں اس طرح کی اعتقاداتی اور تا ریخی عمارت کو دیکھنے کی ھمت نہیں تھی ۔
مسجد غدیر کے آثار جن کی پیغمبر اکر مصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ان کے اصحاب نے بنیاد رکھی تھی سب سے پہلی مر تبہ عمر بن خطاب کے ذریعہ سے نیست و نابود کئے گئے اور ان کی نشانیوں کو مٹا دیا گیا ۔
حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے زمانہ میں اسے دوبارہ زندہ کیا گیا لیکن آپعليهالسلام
کی شھا دت کے بعد معاویہ نے دو سو آدمیو ں کو بھیج کر پھر مسجد غدیر کو خاک میں ملادیا !
بعد کے زمانوں میں پھر مسجد غدیر کو بنا یا گیا اور وہ حجاج کے راستہ کے نزدیک قرار پا نے کی وجہ سے بہت زیادہ مشہور و معروف تھی یھاں تک کہ سنی تا ریخ نو یسوں اور جغرافیہ دانوںنے بھی اس کا نام لیا اور اس جگہ کی نشاندھی کی ہے ۔
سو سال پہلے تک مسجد غدیر اپنی جگہ پر قا ئم تھی اگر چہ مسجد مخالفین کے علاقہ میں تھی لیکن باقاعدہ طورپر محل عبادت اور مسجد غدیر کے نام سے مشہو ر و معروف تھی یھاںتک کہ اس کو آخر ی ضربہ وھا بیوں نے لگایا ۔انھوں نے مسجد غدیر کو بر باد کر نے میں بغض و حسد سے بھرے ہو ئے دو اقدام کئے: ایک طرف تو انھوں نے مسجد کو منھدم کیا اور اس کے آثار نیست و نا بود کئے اور دو سری طرف انھوں نے راستہ بدل کراسے مسجد غدیر سے بہت دورکر دیاہے ۔
اسوقت مسجد غدیر کا مقام
غدیر اس وقت بھی بیابان کی صورت میں ہے جس میں ایک تالاب اور پانی کا چشمہ ہے اور مسجد جس کا اب نام و نشان نہیں ہے چشمہ اور تالاب کے درمیان تھی ۔یہ علا قہ مکہ سے دو سو کیلو میٹر کے فاصلہ پر شھر رابغ کے نزدیک جحفہ نامی دیھات کے پاس ہے جو حا جیوں کا میقات ہے اور اب بھی یہ علاقہ غدیر کے نام سے ہی جانا پہچانا جاتا ہے اور وہاں کے باشندے اس کے نام سے بخوبی آگاہ ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ شیعہ حضرات اس کی تلاش و جستجو میں وہاں پر آیا کرتے ہیں ۔
اس وقت وادی غدیر تک پہنچنے کے دو راستے ہیں :
ا۔راہ جحفہ
رابغ کے ہو ائی اڈے سے لیکر جحفہ نامی دیھات کے شروع ہونے تک ،اس کے بعدپانچ کلو شمال کی طرف ریگستان میں قصر علیا تک ریت کے ٹیلوں سے گزر کر ،اس کے بعد چھو ٹے سے بیابان سے گزر کر دائیں طرف غدیر کا راستہ ہے ۔مشرق کی طرف سے غدیر کا فاصلہ میقات جحفہ سے آٹھ کیلو میٹر ہے
۲ ۔راہ رابغ
مکہ”مدینہ “رابغ روڈ کے چو راہے سے مکہ کی طرف سڑک کے بائیں جانب دس کیلو میٹر اس کے بعد دائیں جانب غدیر کی طرف ایک چھو ٹا راستہ ہے کہ جس کا فا صلہ جنوب مشرق سے رابغ تک ۲۶ کیلو میٹر ہے ۔
اس آرزو و امید کے ساتھ کہ صاحب غدیر کے ظہور کے ساتھ خو شگوار اور روح انگیز علاقہ دوبارہ زندہ ہو اور تالاب اور اس کے چشمہ کے درمیان بڑی شان و شوکت کے ساتھ ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر ہواور پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے منبر اور خیمہ کی جگہ مکمل طور پر بنا ئی جا ئے اور پھر سے اس عظیم واقعہ کی یاد تازہ ہو اور پوری دنیا کے افراد کی زیارت گاہ بن جا ئے ۔
۲ غدیر کے دن حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی زیارت
ھر شیعہ انسان کی یہ دلی آرزو و تمنا ہے کہ اے کاش زمانہ پیچہے پلٹ جاتا اور ہم غدیر میں حا ضر ہو تے اور اپنے مو لا کے ہاتھ پر بیعت کرتے اور ان کو مبارکباد دیتے ۔اے کاش حضرت امیر المو منینعليهالسلام
اب زندہ ہو تے اور ہم ہر سال غدیر خم میں آپعليهالسلام
کی خدمت اقدس میں حا ضر ہو تے اور ان سے تجدید بیعت کرتے اور پھر انہیں تبریک و تہنیت پیش کرتے ۔
اس آرزو کا محقق ہو نا کو ئی مشکل نہیں ہے ۔نجف اشرف میں آپعليهالسلام
کے حرم مطھر میں حاضر ہو نا اور صمیم دل سے آپعليهالسلام
کی ساحت مقدس میں دلی آرزو کے ساتھ آپعليهالسلام
سے گفتگو کرنا شیعہ نظریہ کے مطابق حقیقی بیعت کی تجدید اور واقعی طور پر تبریک و تہنیت کہنا ہے ۔غدیر کا عالم ھستی کے اس دوسرے نمبر کے شخص پرسلام جو ہماری آواز کو سنتا ہے ہمارا جواب دیتا ہے غدیر میں حا ضر ہو نے اور ان کے دست مبارک پر بیعت کر نے کا حکم انہیں کے حو الہ ہے ۔
حضرت امام صادق اور حضر ت امام رضا علیھما لسلام نے سفارش فر ما ئی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو ہمیں غدیر کے روز حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی قبر مبارک کے پاس حا ضر ہو نا چا ہئے اور غدیر کی اس عظیم یاد کو صاحب غدیر کے حرم میں منا ئیں ۔یھاں تک کہ اگر ہم ان کے حرم مبارک میں حا ضر نہیں ہو سکتے تو ہم کہیں پر بھی ہوں ہما رے لئے یھی کا فی ہے کہ ان کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کر یں ان پر سلام بھیجیں اور اپنے دل کو حرم مطھر میں حا ضر کریں اور اپنے مو لا سے گفتگو کریں۔
غدیر کی یہ سالانہ یاد غدیر کے واقعہ کو دو بارہ زندہ کرنا اور صاحب غدیر سے تجدید بیعت کر نا ہے اور یہ یاد ائمہ علیھم السلام کے زمانہ سے لیکر آج تک اسی طرح بر قرار ہے ۔سالانہ غدیر کے دن ہزاروں افراد حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے حرم مطھر میں جمع ہو تے ہیں اور ان کی غلا می کے ھار کو اپنی گردن میں ان کے مبارک ھاتھوں سے ڈالتے ہیں اور اپنے نفوس کے مطلق طور پر ان کے با اختیار ہو نے پر فخر کر تے ہیں اور اسے ان کے فرزند حضرت قائم عجل اللہ تعا لیٰ فر جہ الشریف سے بیعت سمجھتے ہیں ،وہ ہما رے سلام کا جواب دیتے ہیں اور ہما رے ہاتھ کو اپنے دست ید اللّٰھی سے دبا تے ہیں ۔
حضرت امام ھادی علیہ السلام جس سال معتصم عباسی نے آپعليهالسلام
کو مدینہ سے سا مرا شھر بدر کیا غدیر کے دن نجف اشرف تشریف لا ئے اور اپنے جد محترم حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے حرم مطھر میں حاضر ہو ئے اور ایک مفصل زیارت میں آپعليهالسلام
(حضرت علی علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر فر مایا
یہ زیارت مطالب و محتوا کے اعتبار سے شیعوں کے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے بارے میں عقائداور آپعليهالسلام
کے فضائل اور محنت و مشقت کاایک مکمل مجموعہ ہے ۔اس مقام پر ہم اپنے تجدید عہد کے لئے اس زیارت کے چند جملے بیان کر تے ہیں نیزان دعاؤں کا بھی تذکرہ کریں گے جن میں مسئلہ غدیر بیان کیا گیا ہے ۔
ا۔دعائے ندبہ میں آیا ہے :
فَلَمَّااِنْقَضَتْ اَیَّامُهُ اَقَامَ وَلِیَّهُ عَلِیَّ بْنَ طَالِبٍ صَلَوَاتُکَ عَلَیْهِمَاوَآلِهِمَا هَادِیاًاِذْکَانَ هُوَالْمُنْذِرُوَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍفَقَالَ وَالْمَلَاُاَمَامَهُ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ،اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ
“
”پھر جب آپعليهالسلام
کی رسالت کے دن تمام ہو گئے تو انھوں نے اپنے ولی علی بن ابی طالب علیہ السلام کو قوم کا ھا دی مقرر کر دیا اس لئے کہ خود عذاب الٰہی سے ڈرا نے والے تھے اور ہر قوم کے لئے ھا دی کی ضرورت ہے آپ نے مجمع عام میں اعلا ن کر دیا جس کا میں صاحب اختیار ہوں اس کے یہ علیعليهالسلام
صاحب اختیار ہیں خدا یا جو اسے دو ست رکہے اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر اور جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر “
۲ ۔دعا ئے عدیلہ میں آیا ہے :
آمَنَّابِوَصِیِّهِ اَلَّذِیْ نَصَبَهُ یَوْمَ الْغَدِیْرِوَاَشَارَبِقَوْلِهِ ”هٰذَا عَلِیٌ“اِلَیْهِ
“
”ھم ایمان لا ئے ان کے وصی پر جن کو غدیر کے دن منصوب کیا اور اپنے اس قول کے ذریعہ اشارہ فر مایا کہ علی میرے جا نشین ہیں “
۳زیارت غدیر میں آیا ہے
:
اَلسَّلَا مُ عَلَیْکَ یٰا مَوْلاٰیَ وَمَوْ لَی الْمُوْ مِنینَ
السّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا دینَ اللهِ الْقَو یمَ وَصِرٰطَهُ الْمُسْتَقیمَ
اَشْهَدُ اَنَّکَ اَخُورَسُولِ اللهِ صلی الله علیه آله وَاَنّهُ قَدْ بَلَّغَ عَنِ اللهِ مٰا اَنْزَلَهُ فیکَ،فَصَدَعَ بِامْرِهِ وَاَوْجَبَ عَلیٰ اُمَّتِهِ فَرْضَ طٰاعَتِکَ وَوِلاٰیَتِکَ وَعَقَدَ عَلَیْهِمُ الْبَیْعَةَ لَکَ وَجَعَلَکَ اَوْلیٰ بِالْمُوْمِنینَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ کَمٰاجَعَلَهُ اللهُ کَذٰلِکَ ثُمَّ اَشْهَدَاللهَ تَعٰالیٰ عَلَیهم فَقٰالَ اَلَسْتُ قَدْ بَلَّغْتُ ؟فَقٰا لُوااللهم بلیٰ فقال: اللّٰهُمَّ اشْهَدْ وَکَفٰی بِکَ شَهیداًوَحَاکِماً بَیْنَ الْعِبٰادِ فَلَعَنَ اللهُ جٰاحِدَ وِلاٰیَتِکَ بَعْدَ الاِقْرٰارِوَنٰاکِثَ عَهْدِکَ بَعْدَ الْمیثٰاقِ
”سلام ہو آپ پر اے میرے مو لا اور مومنوں کے مولا۔
سلام ہو آپ پر اے اللہ کے دین محکم اور اس کے صراط مستقیم
میں گو اھی دیتا ہوں کہ آپ رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بھا ئی ہیں ۔۔۔اور میں گو اھی دیتا ہوں کہ انھوں نے آپ کے سلسلہ میں اللہ کی طرف سے جو نا زل ہوااسے پہنچا دیا اور خدا کے امر کو اجرا کیا اور انھوں نے اپنی امت پر آپ کی اطاعت اور ولا یت کوواجب کیا اور انھوں نے امت سے آ پ کے لئے بیعت لی اور آپ کو مو منین پر ان کے نفسوں کے مقابلہ میں اولیٰ قرار دیا جیسا کہ انہیں اللہ نے ایسا ہی بنایا تھا۔ پھر اللہ کو ان پر گواہ بنایا اور کہا کیا میں نے پہنچا دیا ؟ان لوگوں نے کہا ھاں پہنچا دیا پھر فر مایا خدا یا گواہ رہنا کیونکہ تیری گو اھی کا فی ہے اور تیرا حکم بندوں کے درمیان کا فی ہے پس خدا کی لعنت ہو تیری و لایت کا اقرارکر نے کے بعد انکار کر نے والے پر اور عہد کے بعد عہد شکنی کر نے والے پر“
۴غدیر کی زیارت کے دوسرے حصہ میں یوں آیاہے
:
اَشْهَدُ اَنَّکَ اَمیرُ الْمُوْ مِنین الْحَقُّ الَذِی نَطَقَ بِوِلاٰیَتِکَ التَّنْز یلُ وَاَ خَذَ لَکَ الْعَهْدَ عَلَی الْاُ مَّةِ بِذٰ لِکَ الرَّ سُولُ
اَ شْهَدُ یٰااَمیرَالْمُوْمِنینَ اَنَّ الشٰاکَّ فیکَ مٰاآمَنَ بِالرَّسُولِ الْاَمینِ وَاَ نَّ الْعٰادِلَ بِکَ غَیْرَکَ عٰانَدَ عَنِ الدینِ القویم الَّذِیْ ارْتَضَاهُ لَنَارَبُّ الْعَالَمِیْنَ وَاَکْمَلَهُ بِوِلَایَتِکَ یَوْمَ الْغَدِیْرِضَلَّ وَاللّٰهِ وَاَضلَّ مَنِ اتَّبَعَ سِوٰ اکَ وَعَنَدَ عَنِ الْحَقَّ مَنْ عٰادٰاکَ
میں گوا ہی دیتا ہوں کہ آپ برحق امیر المو منین ہیں آ پ کی ولایت پر قرآن نا طق ہے اور رسول نے اس کا عہد اپنی امت سے آپ کے با رے میں لے لیا ہے ۔
اے امیر المو منین آپ کے با رے میں شک کرنے والا پیغمبرامین پر ایمان نہیں لایا اور جس نے آپ کوکسی غیر کے برابر قرار دیاوہ دین محکم کا دشمن ہے جس کو خدا وند عالم نے ہما رے لئے پسند کیا ہے اور جس کو آپ کی ولایت کے ذریعہ روز غدیر مکمل کیا ہے ۔
خدا کی قسم وہ گمراہ ہوا اور دوسروں کو گمراہ کیا جس نے تیرے علا وہ کسی اور کا اتباع کیا “
۵ ۔زیارت غدیر کے ایک اور مقام پر آیا ہے :
اَ شْهَدُ اَنَّکَ مَااتَّقَیْتَ ضٰارِعاًوَلاٰاَمْسکْتَ عَنْ حَقِّکَ جٰازِعاًوَلاٰ اَحْجَمْتَ عَنْ مُجاهَدةِ غٰاصِبیکَ نٰاکِلاًوَلاٰاَظْهَرْتَ الرِّضٰابِخِلاٰفِ مٰایُرْضِی اللهَ مُدٰاهِناًوَلاٰوَهَنْتَ لِمٰااَصٰابَکَ فی سَبیلِ اللهِ وَلاٰضَعُفْتَ وَلاَاسْتَکَنْتَ عَنْ طَلَبِ حَقِّکَ مُرَاقِباً
مَعَاذَاللهِ اَنْ تَکُوْ نَ کَذَالِکَ، بَلْ اِذْظُلِمَتَ احْتَسَبْتَ رَبَّکَ وَفَوَضّْتَ اِلَیْهِ اَمْرَکَ وَذَکَّرْتَهُمْ فَمَاادَّکَرُوْاوَوَعَظْتَهُمْ فَمَااتَّعَظُوْاوَخَوَّفْتَهُمْ فَمَا تَخَوَّفُوْا
اور میں گو ہی دیتا ہوں کہ آپ نے ذلت کی وجہ سے تقیہ نہیں کیا اور نہ آپ اپنے حق سے عاجزی کی وجہ سے رکے اور نہ آپ نے اپنے غاصبوں کے مقابلہ میںعقب نشینی کرتے ہوئے صبر کیا اور نہ آپ نے کسی سازش کے تحت خدا کی مر ضی کے خلاف مطلب کا اظھار کیا اور جو آپ کو راہ خدامیں تکلیف ہو ئی تو اس کو کمزوری اور سستی کی وجہ سے قبول نہیں کیا اور خوف کی وجہ سے اپنے حق کے مطالبہ میں کو ئی کو تا ہی نہیں کی ۔
معاذ اللہ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں بلکہ جب آپ پر ظلم کیا گیا تو آپ نے رضائے خدا کو نگاہ میں رکھا اور اپنا امر اللہ کے حوالہ کر دیا اور آپ نے ظالموں کو نصیحت کی لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا آپ نے ان کو مو عظہ کیا انھوں نے نہیں مانا آپ نے انہیں خدا سے ڈرایا لیکن وہ خائف نہیں ہوئے ۔
۶زیارت غدیرکے ایک اور مقام پر آیا ہے
:
لَعَنَ اللهُ مُسْتَحِلّیْ الْحُرْمَةِ مِنْکَ وَذَائِدیِ الْحَقِّ عَنْکَ وَاَشْهَدُ اَنَّهُمْ الاَخْسَرُوْنَ الَّذِیْنَ تَلْفَحُ وَجوْهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِیْهَا کَالِحُوْنَ
لَعَنَ اللهُ مَنْ سٰاوَاکَ بِمَنْ نَاوَاکَ
لَعَنَ اللهُ مَنْ عَدَلَ بِکَ مَنْ فَرَضَ اللهُ عَلَیْهِ وِلَایَتَکَ
”پس خدا کی لعنت ہو آپ کی حرمت ختم کر نے والے پر اور آپ کے حق کو آپ سے دور کر نے والے پر اور میں گو اھی دیتا ہوں کہ وہ لوگ گھاٹا اٹھانے والوں میں ہیں ان کے چھرے جہنم میں جھونک دئے جا ئیں گے اور وہ اسی میں پڑے جلتے رہیں گے ۔
پس اس پر خدا کی لعنت ہو جو آپ کے دشمن کو آپ کے برابر کرے ۔
خدا کی لعنت ہو اس پر جو اسے آپ کے برابر قرار دے جس پر اللہ نے آپ کی اطاعت فرض کی ہے “
۷زیارت غدیر میں ایک اور مقام پر آیا ہے
:
اِنَّ اللهَ تَعالیٰ اسْتَجَابَ لِنَبِیِّهِ صلی الله علیه وآله فِیْکَ دَعْوَتَهُ،ثُمَّ اَمَرَهُ بِاِظْهَارِمَااَوْلَاکَ لِاُمَّتِهِ اِعْلَاءً لِشَانِکَ وَاِعْلَاناًلِبُرْهَانِکَ وَدَحْضاً لِلاَبَاطِیْلِ وَقَطْعاً لِلْمَعَا ذِیْرِ
فَلَمَّااَشْفَقَ مِنْ فِتْنَةِ الْفَاسِقِیْنَ وَاتَّقیٰ فِیْکَ الْمُنَافِقِیْنَ اَوْحیٰ اِلَیْهِ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ<یَااَیُّهَاالرَّسُوْلُ بَلّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکْ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رَسَالَتَهُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ >فَوَضَعَ عَلیٰ نَفْسِهِ اَوْزَارَالْمَسِیْرِوَنَهَضَ فِیْ رَمْضَاءِ الْهَجِیْرِفَخَطَبَ وَاَسْمَعَ وَنَادیٰ فَاَبْلَغَ ،ثُمَّ سَالَهُمْ اَجْمَعَ فَقَالَ:هَلْ بَلَّغْتُ؟ فَقَالُوْا:اَللَّهُمَّ بَلیٰ فَقَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْثُمَّ قَالَ:اَلَسْتُ اَوْلیٰ بِالْمُوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ؟ فَقَا لُوْا:بلیٰ فَاَخَذَ بِیَدِکَ وَقَالَ:مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِیٌّ مَوْلَا هُ،اَللَّهُمّّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَه“فَمَا آمَنَ بِمَااَنْزَلَ اللهُ فِیْکَ عَلیٰ نَبِیَّهِ اِلَّا قَلِیْلٌ وَلَازَادَاَکْثَرَهُمْ غَیْرَتَخْسِیْرٍ
۔
خداوند عالم نے آپ کے سلسلہ میں اپنے نبی کی دعا قبول فر ما ئی پھر ان کوحکم دیا آپ کی ولا یت کوظاہر کر نے ،آپ کی شان کو بلند کر نے ،آپ کی دلیل کا اعلان کرنے ،اور با طلوں کو کچلنے اور معذرتوں کو قطع کر نے کےلئے ۔
تو جب منافقین کے فتنہ سے ڈرے اور آپ کے با رے میں انہیں منافقین کی طرف سے خوف پیدا ہواتو عالمین کے پرور دگار نے وحی کی” اے رسول آپ اس پیغام کو پہنچا دیجئے جس کا ہم آپ کو حکم دے چکے ہیں اگر آپ نے وہ پیغام نہیں پہنچایا تو گو یا رسالت کا کو ئی کام ہی انجام نہیں دیا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفو ظ رکہے گا“ تو انھوں نے سفر کی زحمتوں کو اٹھایا اورظھر کے وقت کی سخت گرمی میں غدیر خم میں ٹھھر کر خطبہ دیا اور سنا یا اور آواز دی پھر پہو نچا دیا پھر ان سب سے پو چھا کیا میں نے پہنچا دیا تو سب نے کہا ھاں خدا کی قسم آپ نے پہنچا دیا پھر کہا کہ خدا یا گو اہ رہنا پھر کہا کیا میں مو منوں کی جان پر خود ان کی نسبت اولیٰ نہیں ہوں انھوں نے کہا ھاں پھر آپ نے علیعليهالسلام
کے ہاتھ کو پکڑا اور فر مایا جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی مو لا ہیں خدا یا اس کو دو ست رکھنا جو انہیں دو ست رکہے اور اسے دشمن رکھنا جو انہیں دشمن رکہے اس کی مدد کرنا جو ان کی مدد کرے اس کو ذلیل کرجو انہیں رسواکرے تو آپ کے با رے میں جو خدا نے اپنے نبی پر نا زل کیا ہے اس پر چند لوگوں کے علاوہ اور کو ئی ایمان نہیں لایا اور زیادہ تر لوگوں نے گھا ٹے کے علا وہ کچھ بھی نہیں پایا۔
۸زیارت غدیر میں ایک اور مقام پر آیا ہے
:
اَللَّه ُمَّ اِنَّانَع ْلَمُ اَنَّ ه ٰذَا ه ُوَالْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَفَالْعَنْ مَنْ عٰارَضَ ه ُ وَاسْتَکْبَرَوَکَذبَّ بِ ه ِ وَکَفَرَوَسَ یَع ْلَمُ الَّذینَ ظَلَمُوااَیَّ مُن ْقَلَبٍ یَن ْقَلِبُونَ
لَعْنَةُ اللهِ وَلَعْنَةُ مَلاٰ ئِکَتِهِ وَرُسُلِهِ اَجْمَعینَ عَلیٰ مَنْ سَلَّ سَیْفَهُ عَلَیْکَ وَسَلَلْتَ سَیْفَکَ عَلَیْهِ یٰااَمیرَالمُومِنینَ مِن الْمُشْرِکینَ وَالْمُنٰافِقینَ اِلیٰ یَوْمِ الدّ ینِ وَعَلیٰ مَنْ رَضِیَ بِمٰاسٰائَکَ وَلَمْ یُکْرِهْهُ وَاَغْمَضَ عَیْنَهُ وَلَمْ یُنْکِرْاَوْاَعٰانَ عَلَیْکَ بِیَدٍ اَوْ لِسٰانٍ اَوْقَعَدَعَنْ نَصْرِکَ اَوْخَذَلَ عَنِ الْجِِهٰادِ مَعَکَ اَوْغَمَطَ فَضْلَکَ وَجَحَدَ حَقَّکَ اَوْعَدَلَ بِکَ مَنْ جَعَلَکَ اللهُ اَوْلیٰ بِهِ مِنْ نَفْسِهِ
”خدایا میں جانتا ہوں بیشک یہ حق تیری طرف سے ہے تو تو لعنت کر اس پر جو علی سے ٹکرائے، سر کشی کرے ،تکذیب کرے اور کفر کرے اور عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کھاں جا ئیں گے۔
اللہ اس کے ملائکہ اور تمام رسولوں کی لعنت ہو اور ان سب پر جنھوں نے اپنی تلوار کو آپ کے مقابلہ میں کھینچا اورجن پر آپ نے اپنی تلوار کھینچی اے امیر المو منین چا ہے وہ مشرکوں میں سے ہوں یا منافقین میں سے روز قیامت تک ،اور ان سب پر جو آپ کی برا ئی سے راضی ہو ئے اور اس کو نا پسند نہ کیا اور چشم پوشی کی اور انکار نہ کیا یا آپ کے خلاف مدد کی ہاتھ یا زبان سے یا آپ کی نصرت سے بیٹھارھا یا آپ کے ساتھ جھاد سے باز رہا یا آپ کے فضل کو کم کیا اور آپ کے حق کا انکار کیا یااس کو آپ کے برابر کیا جس سے خدا نے آپ کو اولیٰ بنایا تھا ۔
۹زیارت غدیر کے ایک اور حصہ میں ہم پڑھتے ہیں
:
وَالْاَمْرُالْاَعْجَبُ وَالْخَطْبُ الْاَفْزَعُ بَعْدَجَحْدِکَ حَقَّکَ غَصْبُ الصَّدّ یقَةِ الطَٰاهِرَةِ الزَّهْرٰاءِ سَیَّدَةِ النَّساءِ فَدَکاًوَرَدُّشَهٰادَتِکَ وَشَهٰادَةُُُُ السَّیَّدَ یْنِ سُلاٰلَتِکَ وَعِتْرَةِ الْمُصْطَفیٰ صَلَّی اللهُ عَلَیْکُمْوَقَدْاَعْلَی اللهُ تَعٰالیٰ عَلَی الْاُمَّةِ دَرَجَتَکُمْ وَرَفَعَ مَنْزِلَتَکُمْ وَاَبٰانَ فَضْلَکُمْ وَشَرَّفَکُمْ عَلَی الْعٰالَمینَ
اور عجیب ترین امر اور سب سے نا گوار واقعہ آپ کے حق کے انکار کے بعد جناب صدیقہ طاھرہ فا طمہ زھراعليهالسلام
سید ة النساء علیھا السلام کے حق فدک کا غصب کرنا ہے اور آپ کی گو اھی اور سردار جوانان جنت امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کی گو اھی (جو آپ کی نسل اور عترت مصطفےٰ سے ہیں )کا رد کرنا ہے جبکہ خدا وند عالم نے آ پعليهالسلام
کے مرتبہ کو امت پر بلند کیا ہے اور آپ کی منزلت کو رفعت دی ہے اور آپ کے فضل کو ظاہر کیا ہے اور تمام عالم پر آپ کو شرف دیا ہے ۔
۰ازیارت غدیر میں آیا ہے
:
مٰااَعْمَهَ مَنْ ظَلَمَکَ عَنِ الْحَقِّ
فَاَشْبَهَتْ مِحْنَتُکَ بِهِمٰا مِحَنَ الْاَنْبِیٰاءِ عِنْدَ الْوَحْدَةِ وَعَدَمِ الْاَنْصٰارِ
مٰا یُحیطُ الْمٰادِحُ وَصْفَکَ وَلاٰیُحْبِطُ الْطٰاعِنُ فَضْلَکَ
تُخْمِدُ لَهَبَ الْحُرُوبِ بِبَنٰانِکَ وَتَهْتِکُ سُتُورَ الشُّبَهِ بِبَیٰانِکَ وَتَکْشِفُ لَبْسَ الْباطِلِ عَنْ صَریحِ الْحَقَّ
تو وہ کتناسرگشتہ اور اندھا ہے جس نے آپ کے حق پر ظلم کیا ۔
تنھائی اور ناصرو مددگار نہ ہو نے کی صورت میں آپ کی مظلومی انبیا ء علیھم السلام کی مظلومی سے کتنی مشابہ ہے ۔
پس آپ کی مدح کر نے والا آپ کی صفت کا احاطہ نہیں کر سکتا اور نہ کو ئی طعنہ دینے والا آپ کے فضل کا احاطہ کرسکتا ہے ۔
آپ نے اپنی انگلیوں (اپنی قدرت )سے جنگ کے شعلوں کو خاموش کیا اوراپنے بیان سے شبہ کے پردوں کوچاک کیااور باطل کے اشتباہ کوحق کی وضاحت سے کھول دیا ۔
اازیارت غدیر میں آیا ہے
:
اللّٰهُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ اَنْبِیٰا ئِکَ وَاَوْصِیٰاءِ اَنْبِیٰائِکَ بِجَمیعِ لَعَنٰا تِکَ وَاَصْلِهِمْ حَرَّنٰارِکَ وَالْعَنْ مَنْ غَصَبَ وَلِیَّکَ حَقَّهُ وَاَنْکَرَعَهْدَهُ وَجَحَدَهُ بَعْدَ الْیَقینِ وَالْاقْرَارِ بِالْوِلاٰیَةِ لَهُ یَوْمَ اَکْمَلْتَ لَهُ الدّ ینَ
اللّٰهُمَّ الْعَنْ قََََتَلَةَ اَمیرالْمُوْمِنِیْنَ وَمَنْ ظَلَمَهُ وَاَشْیٰاعَهُمْ وَاَنصٰارَهُمْ
اللّٰهُمَّ الْعَنْ ظٰالِمِی الْحُسَیْنِ وَقٰٰاتِلیهِ وَالْمُتٰابِعینَ عَدُوَّهُ وَنٰاصِریهِ وَالرّٰاضینَ بِقَتْلِهِ وَخٰاذِلیهِ لَعْناًوَبیلاً
خدایا لعنت کر اپنے انبیاء کے قا تلوں پر اور ان کے اوصیا کے قاتلوں پر مکمل لعنت اور ان کو جہنم کی گر می میں ڈال دے اور لعنت کراس پر جس نے تیرے ولی کا حق غصب کیا اور اس کے عہد کا انکار کیا اور یقین اور اقرار و لایت کے بعد ان سے منحرف ہوا جس روز تو نے دین کو مکمل کیا ۔
خدایا لعنت کر امیر المو منین کے قاتلوں پر اور اس پر جس نے ان پر ظلم کیا اوران (ظلم کرنے والوں) کے ماننے والوں اور نا صروں پر ۔
خدایالعنت کرحسین کے ظالموں اور قا تلوں اور ان کے دشمنوں کا اتباع کرنے والوں اور مدد گاروں پر اور ان کے قتل پرراضی رہنے والوں پر اور انہیں چھو ڑنے والوں پر سخت عذاب و لعنت کر “
۲ ا۔زیارت غدیر میں ہم پڑھتے ہیں :
اللّهمّ العن اولّ ظالم ظلم آل محمّد ومانعیهم حقوقهم
اللّهمّ خُصَّ اوّل ظالم وغاصب لآل محمّد باللعن وکل مستنّ بما سنّ الی یوم القیامة
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِیّنَ وَعَلیٰ عَلِیٍّ سَیَّدِ الْوَصِیِیّنَ وآلهِ الطّاهرین واجْعَلْنَابِهِمْ مُتَمَسِّکِیْنَ وَبِوِلَایَتِهِمْ مِنَ الْفَائِزِیْنَ الآمِنِیْنَ الَّذِیْنَ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ
خدا یا آل محمد پر سب سے پہلے ظلم کرنے والے پرلعنت کر اور ان کے حقوق کے رو کنے والوں پر
خدایا آل محمد پر پہلے ظالم اور غاصب پر مخصوص لعنت کر اور اس پر بھی جو اس کے طریقہ پر چلے روز قیامت تک ۔
خدایا درود نا زل فرما محمد پر جو خا تم النبیین ہیں اور علی پر جو سید الو صیین ہیں اور ان کی آل پاک پر اور ہم کو ان سے اور ان کی ولا یت سے متمسک قرار دے کر کا میاب فرمااور ان صاحبان امان میں سے قرار دے جن کےلئے کو ئی خوف اور حزن نہیں ہے ۔
۳ اھم روز غدیر کی دعا میں پڑھتے ہیں
:
اللَّهُمَّ صَدَّقْنَاوَاَجَبْنَادَاعِیَ اللّٰهِ وَاتَّبَعْنَاالرَّسُوْلَ فِیْ مُوَالَاةِ مَوْلَانَاوَمَوْلیَ الْمُومِنِیْنَ اَمِیْرِالْمُومِنِیْنَ عَلِیٍ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍاللَّهُمَّ رَبَّنَااِنَّنَاسَمِعْنَامُنَادِیاًیُنَادِیْ لِلاِیْمَانِ اَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا فَاِنَّایٰارَبَّنَا بِمَنِّکَ وَلُطْفِکَ اَجَبْنَادَاعِیْکَ وَاتَّبَعْنَاالرَّسُوْلَ وَصَدَّقْنَاهُ وَصَدَّقْنَامَوْلیَ الْمُوْمِنِیْنَ وَکَفَرْنَابِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ،فَوَلِّنَامَاتَوَلَّیْنَا
”بار الٰھاھم نے تصدیق کی اللہ کی جا نب بلانے والے کی دعوت پر لبیک کہا اور ہم نے رسول کا اتباع کیا اپنے اور مو منین کے مو لا امیر المو منین علی بن ابی طالب کی دو ستی میں ۔۔۔اے خدا اے ہما رے پرور دگار ہم نے ایمان کے لئے آواز دینے والے کی آواز کو سناکہ ایمان لا و اپنے رب پر تو ہم ایمان لے آئے ۔
بیشک اے ہمارے پروردگار ہم نے تیرے لطف و احسان کی وجہ سے تیری طرف بلانے والے کی دعوت پر لبیک کھی اور رسول کا اتباع کیا اور اس کی تصدیق کی اور اسی طرح ہم نے مو منین کے مو لا کی تصدیق کی اور جبت و طاغوت کا انکار کیا لہٰذا تو ہماری ولایت اور ایمان کی حفاظت فر ما “
۴ ا۔ھم دعائے روز غدیر میں ایک اور مقام پر پڑھتے ہیں :
اللَّهُمَّ اِنِّیْ اَسْالُکَ اَنْ تَجْعَلَنِیْ فِیْ هَذَالْیَوْمِ الَّذِیْ عَقَدْتَ فِیْهِ لِوَلِیِّکَ الْعَهْدَ فِیْ اَعْنَاقِ خَلْقِکَ وَاَکْمَلْتَ لَهمُ الدِّ یْنَ، مِنَ الْعَارِفِیْنَ بِحُرْمَتِهِ وَالْمُقَرِّیْنَ بِفَضْلِهِ اللَّهُمَّ فَکَمَاجَعَلْتَهُ عَیْدَکَ الاَکْبَرَوَسَمَّیْتَهُ فِی السَّمَاءِ یَوْمَ الْعَهْدِ الْمٍعْهُوْدوَفِیِ الاَرْضِ یَوْمَ الْمِیْثَاقِ الْمَاخُوْذِ وَالْجَمْعِ الْمَسْووْلِ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاقْرِرْبِهِ عُیُوْنَنَا وَاجْمَعْ بِهِ شَمْلَنَاوَلَاتُضِلَّنَابَعْدَ اِذْهَدَیْتَنَاوَاجعَلْنٰا لِاَنْعُمِکَ مِنَ الشٰاکِرینَ یااَرْحَمَ الرّٰاحِمینَ
۔
اے خدا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ۔۔۔مجھ کو اس روزمیں قرار دیدے جس دن تو نے اپنے ولی کےلئے اپنی مخلوق کی گردن میں عہد ڈالا ہے اوران کے دین کو مکمل کیا ہے کہ مجہے اس کی حرمت کو پہچا ننے والوں اور اس کی فضیلت کا اقرار کرنے والوں میںقرار دے۔۔۔اے خدا جس طرح تو نے اس کو عید اکبر قرار دیا ہے اس کا نام آسمان میں عہد معہو د اور زمین میں روز میثاق ما خوذ اور جمع مسئو ل قرار دیا ہے درود نا زل کر محمد وآل محمد پر اور اس سے ہماری آنکھوں کو روشن کر اور ہماری پراگندگی کو جمع کر اور ہماری ھدا یت کے بعد ہم کو گمراہ نہ کرنا اور ہم کو اپنی نعمت کا شکر ادا کر نے والوں میں قرار دے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔
۱۵ ۔ھم دعائے روز غدیر میں ایک اور مقام پر پڑھتے ہیں :
الْحَمْدُلِلِّٰه الَّذی عَرَّفَنٰافضلَ هٰذَاالیَوْمِ وَبَصَّرَنٰاحُرْمَتَهُ وَکَرَّمَنٰابِهِ وَشَرَّفَنٰابِمَعْرِفَتِهِ وَهَدانٰابِنُورِهِ اللّٰهُمَّ اِنیّ اَساَلُکَاَنْ تَلْعَنَ مَنْ جَحَدَ حَقَّ هٰذَاالْیَوْمَ وَانْکَرَحُرْمَتَهُ فَصَدَّ عَنْ سَبیلِکَ لِاطْفَا ءِ نُوْرِکَ
۔
خدا کی حمد ہے جس نے ہم کو اس دن کی فضیلت پہچنوا ئی اور اس کی حرمت کی بصیرت عطاکی، اور اس کے ذریعہ ہم کو عزت دی اور اس کی معرفت سے ہم کوشرف بخشا اور اس کے نور سے ہماری ہدایت کی ۔۔۔اے خدا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ۔۔۔اور ان پر لعنت کر جس نے اس روز کے حق کا انکار کیا اور اس کی حرمت کا انکار کیااور جس نے تیرے نور کو بجھا نے کےلئے تیری راہ بند کر دی ہے ۔
۶ ا۔عید غدیر کی دعا میں ایک اور مقام پرآیا ہے :
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ اَلَّذِیْ جَعَلَ کَمَالَ دِیْنِهِ وَتَمَامَ نِعْمَتِهِ بِوِلَایةِ اَمِیْرَالْمُومِنِیْن عَلی بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ عَلَیهِ السلام
۔
حمد ہے اس خدا کےلئے جس نے اپنے دین کو مکمل اور اپنی نعمت کو تمام کیا امیر المو منین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کے ذریعہ ۔
۳ غدیرکی محفلیں
ھر سال غدیر کے سلسلہ میں ۸ ا/ذی الحجہ کوجو پوری دنیا میں محفلیں منا ئی جا تی ہیں وہ غدیر کی یاد کاسب سے مشخص و معین آئینہ ہیں اور غدیر کے مطالب کو محفوظ کر نے میں اس کا معا شرتی اثر لوگوں کے اذھان میں غیرمعمولی ہے ۔
جس طرح غدیر کی یاد گا ر محفل ہر سال آسمان پر ملائکہ کے در میان منا ئی جا تی ہے اسی طرح زمین پربھی شیعہ حضرات اس دن غدیر کی یاد میں محفلیں برپا کر تے ہیں ۔
سب سے پہلی محفل غدیر اسی بیابان غدیر میں منا ئی گئی اور پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت امیرالمو منینعليهالسلام
کومبارکباد پیش کر نے والوں کا ایک سیلاب ا مڈ آیا اور اس دن اتنے زور شور سے محفل ہو ئی کہ اس جیسی محفل آج تک اس بیابان میں نہ ہو سکی ۔
اس کے بعدپچیس سال تک غدیر حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فا طمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے جلے ہو ئے دروازے کے پیچہے رو تی رہی یھاں تک مو لا ئے کا ئنات نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھا لی اور غدیر کی پہلی محفل مسجد کو فہ میں آپ کی مو جود گی میں بپا ہو ئی ۔عید غدیر جمعہ کے دن سے مقارن ہوئی اور حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے نماز جمعہ کے خطبوں میں مفصل طور پر غدیر کی عظمت بیان فر ما ئی نماز جمعہ کے بعد تمام افراد حضرت علی علیہ السلام کے ھمراہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے دو لت کدہ پر غدیر کا مخصوص طعام کھانے کےلئے گئے ۔
اس کے بعد غدیر کی مفصل محفل منا نے کے لئے حالات سازگار نہ ہوئے یھاں تک کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے دور میں خراسان میں اپنے مخصوص اصحاب کے ایک گروہ کو عید غدیر کا روزہ افطار کر نے کی دعوت فر ما ئی اور ان کے گھروں میں تحفے تحا ئف اور عیدی بھیجی اور ان کے لئے غدیر کے فضائل کے سلسلہ میں مفصل خطبہ بیان فر مایا۔
آل بویہ کے زمانہ میں ایران اور عراق میں اور فا طمی حکو مت کے دور میں شام ، مصر اور یمن میں مفصل طور پر غدیر کی محفلیں منائی جا تی رہیں اور ان محفلوں کو خا ص اہمیت دی جا تی تھی ۔
صفوی دور سے لیکر ہما رے دور تک غدیر کی محفلیں بڑے ہی زور و شور سے منائی جا تی ہیں اور ایران ،عراق ،لبنان ، پاکستان اور ہند و ستان میں بڑے وسیع پیمانہ پر غدیر کاجشن منا یا جا تا ہے ۔
متعدد بر سوں سے علما ء و بزرگان ،اور بلند عھدوں پر فائز افراد اور مختلف طبقوں کے لوگ غدیر کے دن ایک دو سرے کو مبار کباد ی پیغام بھیجتے ہیں اور اس کی بڑی عزت و توقیر کرتے ہیں ۔غدیر کی محفلیں بڑے بڑے شھروں سے لیکر چھو ٹے سے چھوٹے گا وں میں بھی برپا ہو تی ہیں یھاں تک پوری دنیا میں جھاں جھاں بھی شیعہ آباد ہیں چا ہے وہ کتنی ہی کم تعداد میں کیوں نہ ہوں ایک دو سرے کے پاس جا تے ہیں اور غدیر کے دن محفل کر تے ہیں ۔
۰ ا ۴ ا ھ میں غدیر کی چودہویں صدی کی منا سبت سے لندن میں ایک عظیم الشان سیمینار منعقدکیا گیاجو کئی دن تک جاری اور اس کی رپورٹ بھی طبع ہوچکی ہے اس کے بعد ایک مرتبہ پھر غدیر کی عظمت کی بین الاقوامی سطح پر نما ئش ہو ئی ۔
اب ہم چودہ سو گیارہ سالہ کا جشن غدیر منا رہے ہیں اور غدیر کو سورج کی طرح روشن و منور دیکھ رہے ہیں ہم اس پر فخر کرتے ہیں اور غدیر کی کامیابی کی خو شی منا ئیں گے اور سقیفہ کی مایوسی کو دیکہیں گے ۔
غدیر کی محفلوں میں غدیر کے سلسلہ میں تقریروں اورقصیدوںکے علاوہ غدیر میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خطبہ کی حفا ظت اور اسے حفظ کر نے والوں کو تحفے تحا ئف عطا کرنا برسوں سے رائج ہے اور اس کے مثبت آثار دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
آخر میں ہم یہ پیشکش کر تے ہیں :
ھر سال غدیر سے متعلق ہو نے والی محفلوں اور پروگراموں میں ”خطبہ غدیر “اور واقعہ غدیرکو مفصل طور پر بیان کیاجا ئے تا کہ اس طرح ہم پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس کے ابلاغ کے بارے میںدئے ہو ئے حکم کی تعمیل کر سکیں اور صاحبان ولایت مطلقہ الٰھیہ کی پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
،حضرت امیر المو منین علیہ السلام ،فا ط م ہ زھرا سلام اللہ علیھا اور ائمہ معصو مین علیھم السلام سے تجدید عہد و پیمان کر سکیں ۔
____________________