غدیر خم کے تین روز کی رسومات
غدیر خم میں رو نما ہو نے والے واقعات ایک ہی مقام پر اور ایک ہی شخص سے نقل نہیں ہو ئے ہیں حاضرین میں سے ہر ایک نے اس باعظمت پروگرام کے بعض پھلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور کچھ مطالب ائمہ معصومین علیھم السلام نے نقل کئے ہیں ۔
ھم نے اخبار و احا دیث کے مطالعہ اور جائزہ سے واقعہ غدیر کی منظر کشی کی ہے جس کو مندرجہ ذیل تین حصوں میں بیان کیا جاتا ہے :
ابتدا میںخطبہ سے پہلے کے واقعات جوخطبہ کےلئے ماحول کوسازگار بنانے کے لئے رونماہوئے ، اس کے بعد پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خطبہ کی کیفیت اور وہ عملی اقدامات جو آپ نے منبر پر انجام دئے ،اور تیسرے حصہ میں وہ چیزیں بیان کی جا ئینگی جو خطبہ غدیر کے بعد انجام دی گئیں۔
۱ خطبہ سے پہلے کے پروگرام
حجة الوداع کی اہمیت
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ہجرت اور آپ کا مکہ معظمہ سے تشریف لیجانا تاریخ اسلام کا ایک حساس موڑ شمار کیا جا تا ہے اور ہجرت کے بعد پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مکہ معظمہ کے تین سفر فر ما ئے ۔
پھلی مر تبہ آٹھویں ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعدعمرہ کے عنوان سے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور مشرکین کے ساتھ معاہدہ کے مطابق فوراً واپس پلٹ آئے ۔
دوسری مر تبہ نویں ہجری میں فتح مکہ کے عنوان سے اس شھر میں داخل ہو ئے ،اور تمام امور کی تکمیل اور کفر و شرک اور بت پرستی کا جا ئزہ لینے کے بعد آپ طائف تشریف لے گئے لوٹتے وقت مکہ تشریف لا ئے اور عمرہ بجالانے کے بعد مدینہ واپس لوٹ آئے ۔
تیسری اور آخری مرتبہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہجرت کے بعد دس ہجری میں حجة الوداع کے عنوان سے مکہ تشریف لا ئے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے پہلی مر تبہ رسمی طور پر حج کا اعلان فر مایا تاکہ جھاں تک ممکن ہوسب لوگ اپنے تئیں حا ضر ہوں۔
اس سفر میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے دو بنیادی مقصد اسلام کے دو اہم احکام بیان کرنا تھا جن کو آ نحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ابھی تک لوگوں کے لئے مکمل اور رسمی طور پر بیان نہیں فر مایا تھا :ایک حج اور دوسرے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد خلافت و ولایت اور جا نشینی کا مسئلہ تھا ۔
سفر حج کا اعلان
خدا وند عالم کے حکم کے بعد پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مدینہ اور اس کے اطراف میں منا دی دینے والوں کو روانہ فر مایا تاکہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس سفر کی اطلاع سب تک پہنچا دیں اور یہ اعلان کردیںکہ جو چا ہے وہ آپعليهالسلام
کے ساتھ سفر کر سکتا ہے ۔
عام اعلان کے بعد مدینہ کے اطراف سے متعدد افراد آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
،مھا جرین اور انصار کے ساتھ مکہ جا نے کےلئے شھر مدینہ آئے ۔مدینہ سے مکہ کے درمیان راستہ میں مختلف قبیلوں کے متعدد افراد آ نحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ شامل ہوتے گئے دور دراز علاقوں میں بھی اس اہم خبر کے پہنچتے ہی مکہ کے اطراف اور یمن وغیرہ شھر وںکے متعدد افراد نے بھی مکہ کےلئے رخت سفر باندھا تاکہ حج کے جز ئی احکام ذاتی طور پر خود پیغمبر اکر مصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سیکھیں اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ اس پہلے رسمی سفر حج میں شریک ہوسکیں ۔مزید یہ کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یہ اشارہ فر ما دیا تھا کہ یہ میری زندگی کا آخری سفر ہے جس کے نتیجہ میں چا روں طرف سے لوگوں کے اضافہ ہو نے کابا عث بنا ۔
تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار افراد
حج میںشریک ہو ئے جن میں سے صرف ستّرہزار افراد مدینہ سے آنحضرتعليهالسلام
کے ساتھ آئے تھے یوں لبیک کہنے والوں کا سلسلہ مکہ سے مدینہ تک جڑاہوا تھا ۔
مدینہ سے مکہ تک سفر کا راستہ
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ھفتہ کے دن ۲۵ ذیقعدہ کو غسل انجام دیااور احرام کے دو لباس اپنے ھمراہ لیکر مدینہ سے با ہر تشریف لا ئے ، آپعليهالسلام
کے اہل بیت جن میں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اما م حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام شامل تھے نیز آ پ کی ازواج سب کے سب اونٹوں کے کجا ووں اور محملوں میں سوار تھے ”مسجد شجرہ “ ”جو مدینہ کے نزدیک ہے “سے احرام با ندھنے کے بعد آپ نے مکہ کی راہ لی اور سوار و پیادہ لوگ آ پ کے ھمراہ چل رہے تھے ۔
اگلے دن صبح” عِرْق ُ الظَّبْیَه “
پہنچے اور اس کے بعدمقام” روحا ء “
پر کچھ دیر کےلئے توقف فر مایا
وھاں سے نماز عصر کےلئے مقام”مُنصرَف “
پہنچے ۔نماز مغرب و عشا ء کے وقت مقام”مُتَعَشّیٰ“
پر قیام فر مایارات کا کھانا وہیں نوش فرمایا ، نماز صبح کے لئے مقام”ا ثَا یَةً“
،پہونچے منگل کی صبح مقام ”عرج “ پر تھے اور بدھ کے روز” سقیاء “
کی منزل پر قدم رکھا ۔
راستے کے دوران پیدل چلنے والوںنے راستہ کی مشکلات کا تذکرہ کیاآنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سواری کی درخواست کی گئی تو آپعليهالسلام
نے فر مایا ابھی سواری مھیانہیں ہے آپ نے حکم دیا کہ آسانی کےلئے سب اپنی کمریں باندھ لیں اورتیز رفتاراور دوڑ دوڑ کر سفر طے کریں ۔اس حکم پر عمل پیرا ہو ئے تو کچھ راحت و آرام ملا ۔
جمعرات کے دن مقام” ابواء“
پہونچے ،جھاں پر آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی مادر گرامی جناب آمنہ کی قبر ہے ،آپعليهالسلام
نے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت فر ما ئی ۔ جمعہ کے دن مقام” جحفه “
اور” غدیر خم “
سے گذر نے کے بعد مقام” قُدَیْد “
کےلئے عا زم ہو ئے اور ھفتہ کے دن وہاں پہنچے۔اتوار کے دن مقام” عسفان “
پہنچے اور ”پیر کے دن مقام” مرّالظهران “
پر پہنچے اور رات تک وہیں پر قیام فر مایا ۔رات کے وقت مقام ” سیرف “ کی طرف حرکت کی اور وہاں پہونچے اوراس کے بعد کی منزل مکہ معظمہ تھی ۔دس دن کا سفر طے کر نے کے بعد منگل کے روز پانچ ذی الحجہ کو مکہ پہنچے ۔
حضرت امیر المو منین علیہ السلام کا مدینہ سے یمن اور یمن سے مکہ کا سفر
دو سری طرف حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کی طرف سے ایک لشکر کے ھمراہ نجران اور اس کے بعد یمن تشریف لے گئے اس سفر میں آپ کا مقصد خمس زکوٰة اور جزیہ وصول کرنا اور نیز اسلام کی دعوت دینا تھا ۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مدینہ سے چلتے وقت حضرت علی علیہ السلام کےلئے ایک خط تحریر فر مایا اورآپعليهالسلام
کو حکم دیا کہ وہ بھی یمن سے مکہ چلے آئیں ۔نجران اور یمن کے امور انجام دینے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا لشکر نیز اہل یمن کے کچھ افراد (جن کی تعداد بارہ ہزار تھی) کے ساتھ میقات سے احرام با ندھنے کے بعد عازم مکہ ہو ئے ۔پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
مدینہ کی طرف سے مکہ کے نز دیک پہنچے توادھرسے حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام بھی یمن سے مکہ کے نزدیک پہنچے ۔آپعليهالسلام
نے لشکرمیں اپنا جا نشین مقرر فر مایا اور خود آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ملا قات کےلئے تشریف لے گئے اور مکہ کے نزدیک آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خد مت میں پہنچے اور روداد سفر سنا ئی ۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
مسرور ہوئے اور حکم دیا کہ جتنا جلدی ممکن ہو آپعليهالسلام
کے لشکر کو مکہ لا یا جا ئے ۔
حضرت علی علیہ السلام پھر اپنے لشکر کے پاس آئے اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے قافلہ کے ساتھ منگل کے دن پا نچ ذی الحجہ کو مکہ پہنچے ۔
ایام حج آنے کے بعد آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نویں ذی الحجہ کے دن عرفات تشریف لے گئے اس کے بعد مشعر اور منٰی پہنچے ۔اس کے بعدیکے بعد دیگرے اعمال حج انجام دئے اورحج کے واجب و مستحب اعمال لو گوں کےلئے بیان فر مائے۔
غدیر سے پہلے خطبے
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مقام غدیر سے پہلے دو حساس مقامات پر دو خطبے دئے جن کا مقصد حقیقت میں خطبہ غدیر کےلئے ماحول فراہم کر نا تھا ۔
آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے پہلا خطبہ منیٰ میں دیا تھا ۔ اس خطبہ کے آغاز میںآپعليهالسلام
نے معاشرہ میں مسلمانوں اور عوام الناس کی جان ،مال ،عزت اور آبرو کی حفاظت ،اس کے بعددور جا ہلیت میں نا حق خون ریزی اور نا حق لئے گئے اموال کو رسمی طور پر معاف فرمایا تاکہ لوگوں کے مابین ایک دوسرے سے کینہ ختم ہو جائے تاکہ معاشرے میں پوری طرح امنیت کا ماحول پیدا ہو جا ئے اور اس کے بعد لوگوں کو اپنے بعد اختلاف کر نے اور ایک دوسرے پر تلواراٹھانے سے خوف دلایا ۔
اس مقام پر آ پ نے واضح طورپر فر مایا:
”اگر میں نہ رہوں تو علی ابن ابی طالبعليهالسلام
خلاف ورزی کر نے والوں کے سا منے اٹھ کھڑے ہو ں گے “
اس کے بعد آپعليهالسلام
نے اپنی زبان مبارک سے حدیث ثقلین بیان کی اور فرمایا:
”میں تمھا رے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑکر جا رہا ہوں اگر ان دونوں سے متمسک رہوگے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے :کتاب خدا اور میری عترت یعنی میرے اہل بیتعليهالسلام
“
آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس بات کی طرف بھی اشارہ فر مایا کہ میرے ان اصحاب میں سے بعض کوقیامت کے دن جہنم کی آگ میں جھونک دیا جا ئیگا ۔
اھم بات یہ ہے کہ اس خطبہ میں حضرت امیر المو منینعليهالسلام
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے کلام کی لوگوں کےلئے تکرار فر ما رہے تھے تا کہ دور بیٹھنے والے افراد بھی سن لیں۔
منیٰ کی مسجد خیف میں دوسرا خطبہ
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے دوسرا خطبہ منیٰ کی مسجد خیف میں ارشاد فر مایا ۔منیٰ میں قیام کے تیسر ے روز آپعليهالسلام
نے لوگوں کے مسجد خیف میں جمع ہو نے کا حکم صادر فر مایا۔وھاں پر بھی آپ نے خطبہ دیا جس میں صاف صاف یہ اعلان فر مایاکہ اس خطبہ کو یاد رکہیں اور حا ضرین غا ئبین تک پہنچائیں۔
اس خطبہ میں آ پعليهالسلام
نے اخلاص عمل ،مسلمانوں کے امام سے متعلق ھمدردی اور تفرقہ نہ ڈالنے پر زور دیااور تمام مسلمانوں کے حقوق اور قوانین الٰہی میں برابرہو نے کا اعلان فر مایا اس کے بعد مسئلہ خلافت بیان فر مایا پھرآپعليهالسلام
کی زبان مبارک پر حدیث ثقلین جا ری ہو ئی اور دوسری مرتبہ غدیر کے لئے زمینہ فراہم کیا ۔
اس موقع پر منافقوں نے مکمل طور پر خطرہ کا احساس کیا اور واقعہ کوسنجیدگی سے لیا انھوں نے عہد نا مہ لکھا اور قسمیں کہا ئیں اور اپنے پروگرا موں کا آغاز کیا ۔
غدیر سے پہلے انبیاء علیھم السلام کی میراث کا حوالہ کرنا
مکہ میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر الٰہی قانون اس طرح نا زل ہوا :”آپ کی نبوت مکمل ہو گئی اورآپ کا زمانہ ختم ہو کیا ۔اسم اعظم اور آثار علم و میراث انبیاء علیھم السلام، علی ابن ابی طالبعليهالسلام
کے حوالہ کر دیجئے جو سب سے پہلے ایمان لا ئے ہیں ۔میں زمین کو اس عالم کے بغیر ایسے ہی نہیں چھوڑ دوں گا کہ جس کے ذریعہ میری اطاعت اور ولایت سے لوگ متعارف ہوں اور وہ میرے پیغمبر کے بعد لوگوں کےلئے حجت ہو “
انبیاء علیھم السلام کی یا دگاریں حضرت آدم و نوح و ابراھیم علیھم السلام کے صحیفے،توریت و انجیل، حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا عصا ،حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگشتری اور دوسری تمام میراث صرف اور صرف حجج الٰہی کے ھا تھوں میںرہتی ہیں ۔اس دن خاتم الانبیاءصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس پوری میراث کے محافظ تھے اور اب حکم الٰہی حضرت امیر المومنین کےلئے آگیا ۔یہ تمام چیزیں حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب سے یکے بعد دیگرے ائمہ علیھم السلام تک منتقل ہو تی رہیں اور اب یہ تمام چیزیں خدا وند عالم کی آخری حجت پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کو طلب فر مایا اور ایک مخصوص میٹینگ کی جس میں خداوند عالم کی اما نتیں حضرت علی علیہ السلام کے حوالہ کر نے میں ایک رات دن لگ گیا ۔
لقب امیر المو منینعليهالسلام
لقب امیر المو منینعليهالسلام
مکہ میں جبرئیلعليهالسلام
خدا وند عالم کی طرف سے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کےلئے خاص طور سے لقب ( امیر المو منین )لیکر نا زل ہو ئے اگر چہ اس سے پہلے بھی یہ لقب آپ ہی کےلئے معین ہو چکاتھا ۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے تمام اصحاب کو حکم دیا کہ ایک ایک صحابی حضرت علی علیہ السلام کے پاس جا ئے اور آپعليهالسلام
کو ”السلام علیک یا امیر المومنین “ کھکر سلام کرے ۔اس طرح پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے دور حیات میں ہی اصحاب سے حضرت علی علیہ السلام کے امیر ہو نے کا اقرار کرا لیا تھا ۔
اس مقام پر ابو بکر اور عمر نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر اعتراض کرتے ہوئے کھا: کیا یہ حق خدا وند عالم اور ان کے رسول کی طرف سے ہے ؟آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
غضبناک ہو ئے اور فرمایا:”یہ حق خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہے ،خدا وند عالم نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے “
غدیرمیں حاضرہونے کےلئے قانونی اعلان
لوگ اس چیز کے منتظر تھے کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
ا پنے اس آخری سفرحج میں کچھ ایام مکہ میں قیا م فر ما ئیں،لیکن اعمال حج تمام ہو نے کے فوراً بعد آپ نے اپنے منادی بلال کولوگوں کے لئے اس بات کا اعلان کر نے کا حکم دیا :کل محتاجو ں کے علاوہ سب کو چلنا ہے کو ئی بھی مکہ میں نہ رہنے پائے تاکہ وقت معین پر ”غدیر خم “میں حا ضر ہو سکیں ۔
”غدیر “ کے علاقہ کا انتخاب جو خاص حکم الٰہی کی وجہ سے تھا کئی اعتبار سے قابل غور ہے :
ایک یہ کہ مکہ سے واپس آتے وقت غدیراس جگہ سے پہلے ہے جھاں پر لوگوں کے راستے ایک دو سرے سے جدا ہو تے ہیں ۔
دوسرے یہ کہ مستقبل میں مسلمانوں کے حج کرنے والے قافلے مکہ آتے اور جا تے وقت جب اس مقام سے گذریں تووادی غدیر اور مسجد النبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں نماز پڑہیں اور اپنے عقیدہ کے مطابق تجدید بیعت کریں تاکہ اس واقعہ کی یاد دلوں میں دوبارہ زندہ ہو جائے ۔
تیسرے یہ کہ ”غدیر “ جحفہ سے پہلے وہ وسیع و عریض میدان تھا جھاں پر سیلاب اور شمال مغرب کی طرف سے بہنے والے چشمہ کا پانی آکرجمع ہوتا تھا اور اس میدان میںکچھ پرانے اور مضبوط درخت بھی تھے لہٰذا یہ میدان پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے تین دن کے پرو گرام اورخطبہ ارشاد فرمانے کےلئے بہت ہی منا سب تھا لوگوں کےلئے بھی یہ بڑے تعجب کی بات تھی کہ پیغمبر (دس سال مکہ سے دور رہنے کے با وجود ) مکہ میں قیام نہیں فر ماتے تاکہ ان کی خدمت با برکت میں لوگ حا ضر ہوں اور ان سے اپنے مسائل بیان کر یںبلکہ اعمال حج تمام ہو نے کے بعد فور اً وہاں سے رخت سفر با ندھ لیتے ہیں اور لوگوں کو بھی مکہ سے چلنے اور ” غدیر خم “میں حاضر ہو نے کا حکم فر ما تے ہیں ۔
جس صبح کو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مکہ سے کوچ فرمایا آپ کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار
سے زیادہ افراد تھے یھاں تک کہ مکہ کے پانچ ہزارافراد اور یمن کے تقریبابارہ ہزار افراد”جن کا ادھر سے راستہ بھی نہیں تھا “بھی غدیر کے پروگرام میں شریک ہونے کےلئے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ آئے تھے ۔
۲ خطبہ کی کیفیت اور اس کے جزئیات
غدیر میں لوگوں کا اجتماع
پیر
کے دن ظھر کے وقت جیسے ہی”کراع الغُمَیم “
(وہ علاقہ جھاں پر ”غدیر خم “ واقع ہے )پر پہنچے ،آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنا راستہ دائیں طرف اور غدیر کی جانب بدلتے ہو ئے فرمایا :
”اَیُّهاالنَّاس،اجیبواداعیَ الله ،اناَرسُول الله “
”ایھا الناس خدا کی طرف دعوت دینے والے کی دعوت پر لبیک کہو ،میں خدا کا پیغام لانے والا ہوں “ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اہم پیغام کے پہنچا نے کا وقت آگیا ہے ۔
اس کے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے منادی کو یہ ندا لگا نے کا حکم دیا :”تمام لوگ ٹھھر جا ئیں جو لوگ آگے بڑھ گئے ہیں وہ پیچہے پلٹ آئیں اور جوپیچہے رہ گئے ہیں وہ ٹھھر جا ئیں “تاکہ تمام لوگ پہلے سے معین شدہ مقام پر جمع ہو جا ئیں ۔اسی طرح یہ حکم بھی صادر فر مایا :کوئی شخص قدیم درختوں کے نیچے نہ جا ئے اور وہ جگہیں اسی طرح خالی رہیں ۔
اس حکم کے صادر ہو نے کے بعد تمام مرکب رک گئے ،اور جو لوگ بڑھ گئے تھے وہ واپس پلٹ آئے ، تمام لوگ غدیر خم کے مقام پر اترگئے ہر ایک نے اپنی اپنی جگہ تلاش کی ،اور آہستہ آہستہ سکون و اطمینان کاسانس لیایہ صحرا پہلی مرتبہ ایسے عظیم انسانی مجمع کا شاہد تھا ۔
گرمی کی شدت اور گرم زمین اتنی تکلیف دہ تھی کہ لوگ یھاں تک کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بھی اپنی عبا کا ایک حصہ اپنے سر اقدس پر اور دوسرا حصہ اپنے پیروں کے نیچے بچھا رکھا تھا اور کچھ لوگ گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنی عبا اپنے پیروں پر لپیٹے ہو ئے تھے !
خطبہ اور منبر کی جگہ کی تیاری
دوسری طرف پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مقداد ،سلمان ،ابوذر اور عمار کو بلاکر یہ حکم صادر فر مایا کہ ان پانچ پرانے درختوں (جوتالاب غدیر کے کنا رے ایک لائن میں کھڑے ہو ئے تھے )کے نیچے جگہ تیار کریں انھوں نے درختوں کے نیچے سے کا نٹوں کو صاف کیا ،پتھروں کو جمع کیا ،درختوں کے نیچے صفائی کی اور پا نی کا چھڑکا و کیا ۔اس کے بعد درختوں کی زمین تک لٹکنے والی شاخوں کو کا ٹا ۔پھر دھوپ سے بچنے کی غرض سے دو نزدیک کھڑے ہو ئے درختوںکی شاخوں پر کپڑا ڈال کرسائبان بنایا،اوراس طرح وہ جگہ تین دن کے پروگرام کیلئے بالکل تیارہوگئی۔
اس شا میانہ کے نیچے پتھروں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا اور پالان شتر کاآنحضرتعليهالسلام
کے قد کے برابر منبر تیار کیا اور اس پر کپڑا ڈالا منبر کو مجمع کے درمیان بنایا تھا تاکہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
خطبہ ارشاد فرما تے وقت سب کو دیکھ سکیں، اور آپعليهالسلام
کی آواز سب تک پہنچ سکے اور سب لوگ آپ کا دیدار کرسکیں ،اور جیساکہ غدیر کے واقعہ میں آیا ہے کہ:غدیر خم میں کو ئی ایسا شخص نہیں تھا جس نے آپعليهالسلام
کا دیدار نہ کیا ہو اور اپنے کا نوں سے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی آواز نہ سنی ہو ۔
البتہ ربیعہ بن امیہ بن خلف لوگوں کےلئے آپعليهالسلام
کے کلام کی تکرار کر رہے تھے تاکہ دور بیٹھنے والے افراد بہتر طریقہ سے مطالب سمجھ سکیں ۔
پیغمبراکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور امیر المومنین علیہ السلام منبر پر
ظھر کے وقت انتظار کی گھڑیاں تمام ہوئی یھاں تک کہ منادی نے نماز جما عت کےلئے آواز لگا ئی لوگوں کے اپنے اپنے خیموں سے باھر آنے اور نماز کی صفیں مرتب کر نے کے بعد پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنے خیمہ سے با ہر تشریف لائے اور نماز با جما عت بجالائے ۔
اس کے بعد مجمع مشاہدہ کر رہا تھا کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
منبر پر کھڑے ہو ئے اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور حکم دیا کہ آپ منبر پر آئیں اور میرے پاس دائیں طرف کھڑے ہو جائیں ،خطبہ شروع ہو نے سے پہلے امیر المومنین علیہ السلام آپعليهالسلام
سے ایک زینہ نیچے کھڑے ہو ئے تھے اور آنحضرتعليهالسلام
اپنادست مبارک آپعليهالسلام
کے دوش پر رکہے ہو ئے تھے ۔
اس کے بعد پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مجمع پر دائیں اور با ئیں طرف نظر ڈالی اور مجمع کا پوری طرح جمع ہو نے کا انتظار کیاجلسہ میں ایک طرف عورتیں بھی بیٹھی ہو ئیں تھیں جو پیغمبر کو اچھی طرح دیکھ رہیں تھیں ۔مجمع کے تیار ہو جا نے کے بعد پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے دنیائے اسلام کے لئے اپنے آخری اور تا ریخی خطاب کا آغاز فر مایا ۔
منبر اور خطبہ کے اس دلچسپ انداز کو مد نظر رکھ کرکہ دو آدمی منبر پر ہیں اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد اس انو کہے منظر کا نظارہ کر رہے ہیں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خطبہ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ۔
ھم یہ بات بیان کر تے چلیں کہ ایک تقریر کےلئے ایک لاکھ بیس ہزار افراد کا مجمع اس عالم میں کہ ایک خطیب کو تمام لوگ دیکھ رہے ہوں آج کی دنیا میںبھی یہ ایک غیر معمولی مسئلہ ہے چہ جائیکہ عصر بعثت میں گذشتہ انبیاء علیھم السلام کے چھ ہزار سالہ دور میں کسی تقریر کےلئے اتنابڑا مجمع جمع ہوا ہو ۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کاخطبہ
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کاغدیر خم میں تاریخ ساز خطبہ جو تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہا اس کو گیارہ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے سب سے پہلے خدا وند عالم کی حمد و ثنا اور اس کی قدرت و رحمت کا تذکرہ فر مایا اور اس کے بعد خدا وند عالم کے سامنے اپنی بندگی کا اقرار فر مایا ۔
دوسرے حصہ میں آپ نے مجمع کو اصل مطلب کی طرف متوجہ کرتے ہو ئے فر مایا کہ مجہے علی بن ابی طالبعليهالسلام
کے سلسلہ میں ایک اہم پیغام پہنچا ناہے اگر میں نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گو یا رسالت الٰہی کا کوئی کام انجام نہیں دیا اور میں خدا کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔
تیسرے حصہ میں آپ نے اپنے بعدقیامت تک کےلئے بارہ اماموں کا اعلان فر مایاتاکہ اقتدار کی تمام امیدیں ایک دم قطع ہو جا ئیں ۔ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تقریر میںسب سے اہم بات یہ تھی کہ ائمہ معصومین علیھم السلام قیامت تک کےلئے تمام انسانوں پر ولایت رکھتے ہیں اور ہر زمانہ میں اور ہر جگہ ہر معاملہ میں ان ہی کے کلمات و ارشادات کا بول بالا ہوگا اور خداو رسول کی جا نب سے حلال و حرام میں حضرات ائمہ علیھم السلام کی مکمل نیابت اور ان کے تام الاختیار ہو نے کا اعلان فر مایا ۔
خطبہ کے چو تھے حصہ میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کے ھا تھوں کو بلند کر کے فر مایا :<مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَاعَلِیٌّ مَوْ لَاهُ،اَللَّهُمّّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ
>
”جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی مو لا ہیں پر ور دگارا جو علی کو دوست رکہے اس کو تو دوست رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے اس کو دشمن رکھ اور جو ان کی مد د کرے اس کی تو مدد کراور جو ان کو رسوا کرے اس کو تو رسوا و ذلیل کر“
اور اس کے بعد ائمہ علیھم السلام کی ولایت کے ذریعہ اکمال دین اور نعمتوں کے تمام ہو نے کا اعلان فر مایا اور اس کے بعد خدا ،ملائکہ اور لوگوں کو اپنے اس پیغام کے پہونچا نے پر شاہد قرار دیا ۔
پا نچویں حصہ میں آپعليهالسلام
نے صاف صاف یہ اعلان فر مایا :جو ائمہ علیھم السلام کی ولایت سے سر پیچی کر ے گا اس کے تمام نیک اعمال حبط ہو جا ئیں گے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے “اس کے بعد امیر المو منین علیہ السلام کے کچھ فضا ئل بیا ن فر ما ئے ۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے چھٹے حصہ میں غضب الٰہی کے کچھ گو شوں پر رو شنی ڈالی ،آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے عذاب اور لعنت کے متعلق آیات کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا :” ان آیات سے مراد میرے بعض اصحاب ہیں کہ جن سے میں اغماض نظر کرنے پر ما مور ہوں ،لیکن جان لو! خدا وند عالم نے مجہے دشمنوں ، مخا لفین ،خائنین اور مقصرین پر حجت قرار دیا ہے اور دنیا میں اغماض نظر کرنا آخرت میں ان کے عذاب سے مانع نہیں ہے “
اس کے بعد جہنم کی طرف لے جانے والے گمراہ راہنماوںکے با رے میں اشارہ کرتے ہو ئے فر مایا”میں ان سب سے بیزار ہوں “ رمزی طورپر”اصحاب صحیفہ ملعونہ “ کی طرف اشارہ کیا اور صاف طور پر فر مایا کہ میرے بعد کچھ لوگ مقام امامت کو غصب کریں گے اور اس کے غاصبین پر لعنت فرمائی ۔
ساتویں حصہ کو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اہل بیت علیھم السلام کی محبت و ولایت اور ان کے اثرات کاذکر کرتے ہو ئے فر مایا : سورہ حمدمیں صراط مستقیم والوںسے مراد اہل بیت علیھم السلام کے شیعہ ہیں ۔
اس کے بعد اہل بھشت کے با رے میں کچھ آیات کی تلاوت فر مائی اور ان کی تفسیر شیعہ اور آل محمد علیھم السلام کی اتباع کر نے والوں سے فر ما ئی ۔اھل جہنم سے متعلق بھی کچھ آیات کی تلا وت فر ما ئی اور ان کی تفسیر میں دشمنان آل محمد علیھم السلام کا تذکر ہ فر مایا ۔
آٹھویں حصہ میں” حضر ت بقیة الله الاعظم حجة بن الحسن المهدی ارواحنا فداه “
کا تذکرہ فر مایا اور ان کے مخصوص اوصاف بیان فر مائے اور مستقبل میں آپ کے وجود مبارک کے ذریعہ دنیا کے عدل و انصاف سے پرُہونے کی خوشخبری سنائی ۔
نویں حصہ میں فرمایا:خطبہ تمام ہو جا نے کے بعد میں تمہیں اپنی بیعت اور اس کے بعدعلی بن ابی طالبعليهالسلام
کی بیعت کی دعوت دیتا ہوں ۔اس بیعت کاسرچشمہ یہ ہے کہ میں نے خدا وند عالم کی بیعت کی ہے اور علیعليهالسلام
نے میری بیعت کی ہے ،نتیجتاً یہ بیعت جو میں تم سے لے رہا ہوں یہ خداوند عالم کی جانب سے ہے اور خدا وند تبارک و تعالیٰ کے ساتھ بیعت ہے ۔
دسویں حصہ میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے احکام الٰہی کے سلسلہ میں گفتگو فر مائی جس کا مقصد چند بنیادی عقائد اور اہم مسائل بیان کرنا تھا :منجملہ یہ کہ چونکہ تمام حلال و حرام بیان کرنا میرے امکان میں نہیں ہے لہٰذا میں نے تم سے ائمہ علیھم السلام کی بیعت لے کرقیامت تک کےلئے تمام حلال و حرام کو بیان فر ما دیاہے چونکہ ان کا علم و عمل حجت ہے ،دوسرے یہ کہ امر با لمعروف و نھی عن المنکر کا سب سے اہم مر حلہ ائمہ علیھم السلام کے سلسلہ میں پیام غدیر کی تبلیغ ،انکی اطاعت کا حکم اور ان کی مخا لفت سے روکنا ہے ۔
اپنے خطبہ کے آخری حصہ میںزبانی بیعت انجام پا ئی اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: ”خدا وند عالم کا یہ حکم ہے کہ ہاتھ کے ذریعہ بیعت لینے سے پہلے تم سے زبانوں کے ذریعہ اقرار لوں “اس کے بعد جس مطلب کی تمام لوگوں کو تا ئید کرنا تھی وہ معین فر مایا جس کا خلاصہ بارہ اماموں کی اطاعت دین میں تبدیلی نہ کرنے کاعھد و پیمان ،آئندہ نسلوں اور غائبین تک پیغام غدیر پہنچا نا تھا ۔ضمناً یہ بیعت ہاتھ کی بیعت بھی شمارہو تی تھی چونکہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :کہو کہ ہم اپنی جان و زبان اور ھاتھوں سے بیعت کر تے ہیں “
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خطبہ کے آخری کلمات آپ کے فرامین کی اطاعت کرنے والوں کے حق میں دعا اور آپ کے فرامین کا انکار کر نے والوںپر لعنت تھی اور خداوند عالم کی حمد و ثنا پر آپ نے خطبہ تمام فر مایا ۔
منبر پر دو عملی اقدام
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے خطبہ کے دوران منبرپر دو عملی اقدام انجام فر ما ئے جو اب تک بے نظیر اور بہت ہی جا ذب نظر تھے :
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام منبرپرپیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ھا تھوں پر
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے تمام مقدمات فراہم کرنے اور امیر المو منین علیہ السلام کی خلافت و ولایت کا تذکرہ کرنے کے بعد اس غرض سے کہ قیامت تک ہر طرح کا شک و شبہ ختم ہو جائے اور اس سلسلہ میں ہر طرح کا مکر و فریب غیرموثر ہو جا ئے ابتدا میں آپ نے زبانی طور پر اشارہ فرمایا اور اس کے بعد لوگوں کے لئے عملی طور پر بیان کرتے ہوئے ابتدا میں اس ترتیب کے ساتھ بیان فر مایا :
”قرآن کا باطن اور تفسیر تمھارے لئے کو ئی بیان نہیں کر سکتا مگر یہ شخص جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور اس کو بلند کر رہا ہوں “
اس کے بعد آنحضر تصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے قول کو عملی صورت میں انجام فر مایا اور امیر المو منین علیہ السلام سے جو منبر پر آپ کے پاس کھڑے ہوئے تھے فرمایا :”میرے اور قریب آو “حضرت علی علیہ السلام اور قریب آئے ،اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کے دونوں بازووںکو پکڑا اس وقع پرحضرت علی علیہ السلام نے اپنے دونوں ھا تھوں کو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے چھرہ اقدس کی طرف بڑھا دیا یھاں تک کہ دونوں کے دست مبارک آسمان کی طرف بلند ہو گئے ۔اس کے بعد آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کو ”جوآپ سے ایک زینہ نیچے کھڑے ہو ئے تھے “ان کی جگہ سے اتنا بلند کیا کہ ان کے پا ئے اقدس آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے زانو کے بالمقابل آگئے اورسب نے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی سفیدی بغل کا مشاہدہ کیا جو اس دن تک کبھی نہیں دیکھی گئی تھی اس حالت میں آپ نے فر مایا :
”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاهُ“
”جس کا م یں مولا ہوں اس کے یہ علی مو لا ہیں “
۲ ۔دلوں اور زبانوں کے ذریعہ بیعت
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا دوسرا اقدام یہ فرمایا کہ چونکہ اس انبوہ کثیر کے ایک ایک فرد سے بیعت لینا غیر ممکن تھا اور دوسری جانب ممکن تھا لوگ بیعت کر نے کےلئے مختلف قسم کے بھانے کریں اور بیعت کرنے کےلئے حاضر نہ ہوں ،جس کے نتیجہ میں ان سے عملی طور پر پابند رہنے کا عہد اور قا نونی گواھی نہ لی جا سکے ،لہٰذا آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے خطبہ کے آخر میں فر مایا :ایھا الناس !ایک ہاتھ پر ،اتنے کم وقت میںاس انبوہ کثیرکابیعت کر نا سب کےلئے ممکن نہیں ہے لہٰذا جو کچھ میں کہنے جا رہا ہوں سب اس کی تکرار کر تے ہو ئے کہیں :ھم آپ کے اس فر مان کی جو آپ نے حضرت علی بن ابی طالب اور ان کی اولا د سے ہونے والے اماموں کے متعلق فرمایا اس کو قبول کر تے ہیں اور اس پر راضی ہیں ،ھم اپنے دل ،جان ،زبان اور ھاتھوں سے اس مدعاپر بیعت کر تے ہیں ۔۔۔ان کےلئے ہم سے اس بارے میں ہما رے دل و جان ،زبانوں، ضمیروں اور ھاتھوں سے عہد و پیمان لے لیا گیاہے جو شخص ہاتھ سے بیعت کر سکا ہاتھ سے اور جو ہاتھ سے بیعت نہ کر سکا وہ زبان سے اس کا اقرار کر چکا ہے “
ظاہر ہے کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
جس کلام کی بعینہ تکر ار کرانا چا ہتے تھے وہ آپ نے ان کے سامنے بیان کیااوراس کی عبارت معین فرمادی تاکہ ہر انسان اپنے مخصوص طریقہ سے اس کا اقرار نہ کرے بلکہ جو کچھ آپ نے بیان فرمایاہے سب اسی طرح اسی کی تکر ار کریں اور بیعت کریں ۔
جب آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا کلام تمام ہوا سب نے اس کو اپنی زبانوں پر دھرایا اس طرح عمومی بیعت انجام پائی ۔
۳ خطبہ کے بعد کے مراسم
مبارکباد ی
خطبہ تمام ہو نے کے بعد ،لوگ ہر طرف سے منبر کی طرف بڑہے اور حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی ،آنحضر تصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام کو مبارک باد پیش کی اور آنحضر تصلىاللهعليهوآلهوسلم
فر ما رہے تھے:”اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَاعَلیٰ جَمِیْعِ الْعٰا لَمِیْن“َ
تاریخ میں عبارت اس طرح درج ہے :خطبہ تمام ہو جا نے کے بعد لوگوں کی صدائیں بلند ہوئیں کہ: ھاں ،ھم نے سنا ہے اور خدا و رسول کے فر مان کے مطابق اپنے دل و جان ، زبان اور ھا تھوں سے اطاعت کر تے ہیں “اس کے بعد مجمع پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت علی علیہ السلام کی طرف بڑھا اور بیعت کےلئے ایک دوسرے پر سبقت کر تے ہو ئے ان کی بیعت کی ۔
مجمع سے اٹھنے والے اس احساساتی اور دیوانہ وار شورسے اس بڑے اجتماع کی شان و شو کت دوبالا ہو رہی تھی۔
جس اہم اور قابل توجہ مطلب کا پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی کسی بھی فتح و پیروزی (چا ہے جنگوں میں ہو یادوسرے مقامات پرہوحتی ٰکہ فتح مکہ بھی )میں مشاہدہ نہ کیا گیا وہ یہ ہے کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم میں فر مایا :مجہے مبارکباد دو مجہے تہنیت کہو اس لئے کہ خدا نے مجھ سے نبوت اور میرے اہل بیت علیھم السلام سے سے امامت مخصوص کی ہے “
یہ بڑی فتح و پیروزی اور کفرو نفاق کی تمام آرزووں کا قلع و قمع کر دینے کی علامت تھی ۔
دوسری طرف پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے منادی کو حکم دیا کہ وہ مجمع کے درمیان گھوم گھوم کر غدیر کے خلاصہ کی تکرار کرے:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهٰذَاعَلِیٌ مَوْلَاهُ اَللَّهُمَّ وٰالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِمَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ“
تا کہ غدیر کا مرقع لوگوں کے ذہن میں منقش ہو جا ئے ۔
لوگوں سےبیعت
مسئلہ کو رسمی طور پر مستحکم کرنے کیلئے اوراس لئے کہ پورا مجمع منظم و مرتب طریقہ سے بیعت کر سکے لہٰذا پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے خطبہ تمام کر نے کے بعد دو خیمے لگا نے کا حکم صادر فرمایا ۔ایک خیمہ اپنے لئے مخصوص قرار دیا اور آپ اس میں تشریف فر ما ہو ئے اور حضرت علیعليهالسلام
کو حکم دیا کہ آپ دوسرے خیمہ کے دروازہ پر تشریف فر ماہوں اور لوگوں کو جمع ہو نے کا حکم دیا ۔
اس کے بعد لوگ گروہ گروہ کر کے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خیمہ میں آتے اورپ کی بیعت کرتے اور آپ کو مبارکباد پیش کر تے ،اس کے بعدحضرت امیر المو منینعليهالسلام
کے خیمہ میں آتے اور آپ کو پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خلیفہ اور امام ہو نے کے عنوان سے آپ کی بیعت کر تے اور آپ پر (امیر المو منین )کے عنوان سے سلام کرتے اور اس عظیم منصب پر فائز ہونے کی مبارکباد پیش کرتے تھے ۔
بیعت کا یہ سلسلہ تین دن تک چلتا رہا ،اور تین دن تک آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم میں قیام فرمایا ۔یہ پروگرام اس طرح منظم و مرتب تھا کہ تمام لوگ اس میں شریک ہو ئے ۔
یھاں پراس بیعت کے سلسلہ میں تاریخ کے ایک دلچسپ مطلب کی طرف اشارہ کرنا منا سب ہو گا: سب سے غدیر میں جن لوگوں نے امیر المو منین علیہ السلام کی بیعت کی وہ وھی لوگ تھے جنھوںنے سب سے پہلے یہ بیعت توڑی اور اپنا عہد و پیمان خود ہی اپنے پیروں تلے روند ڈالا ۔وہ افراد :ابو بکر، عمر،عثمان ، طلحہ ا ور زبیر تھے جو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعدیکے بعد دیگرے آپعليهالسلام
کے مد مقابل آئے ۔
تعجب خیز بات یہ ہے کہ عمر نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کے بعد اپنی زبان سے یہ کلمات ادا کئے :
”مبارک ہو مبارک اے ابو طالبعليهالسلام
کے بیٹے ،مبارک اے ابو الحسن آج آپ میرے اور ہر مو من مرد اور ہر مو منہ عورت کے مو لا ہو گئے “!
دو سری بات جس نے ان دورخے چھروں کو اجاگرکیا یہ تھی کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حکم صادر ہو جا نے کے بعد تمام لو گوں نے چون و چرا کے بغیر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی ،لیکن ابو بکر اور عمر (جنھوں نے سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی تھی )نے بیعت کر نے سے پہلے اعتراض کر تے ہو ئے سوال کیا : کیا یہ حکم خدا وند عالم کی جا نب سے ہے یا اس کے رسول کی جانب سے ہے (یعنی آپ یہ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں )؟آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :خدا اوراس کے رسول کی طرف سے ہے ۔کیا اتنا بڑا مسئلہ خدا وند عالم کے حکم کے بغیر ہو سکتا ہے ؟نیز فرمایا :”ھاں یہ حق ہے کہ حضرت علی علیہ السلام خدا اور اس کے رسول کی طرف سے امیر المو منین ہیں “
عورتوں کی بیعت
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے عورتوں کو بھی حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کر نے کا حکم دیا اوران کوامیر المو منین کہہ کر سلام کریں اور ان کو مبارکباد پیش کریں اور اس حکم کی اپنی ازواج کےلئے تا کید فر مائی ۔
اس عمل کو انجام دینے کےلئے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے پانی کا ایک برتن منگایااوراسکے اوپر ایک پردہ لگایا اس طرح کہ عورتیں پردہ کے ایک طرف پانی کے اندر ہاتھ ڈالیں پردہ کے ادھر سے مولائے کائنات کا ہاتھ پانی کے اندر رہے اور اس طرح عورتوں کی بیعت انجام پائے۔
یہ بات بھی بیان کر دیں کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا بھی غدیر خم میں حا ضر تھیں ۔ اسی طرح پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ازواج ،حضرت علی علیہ السلام کی بہن ام ھانی ،حضرت حمزہ علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ اور اسماء بنت عمیس بھی اس پرو گرام میں مو جود تھیں ۔
عما مہ ” سحاب“
عرب جب کسی کو کسی قوم کا رئیس بنا تے تھے تواُن کے یھاں اس کے سر پرعمامہ با ندھنے کی رسم تھی ۔عربوں کے یھاں اس بات پر بڑا فخرہوتا تھا کہ ایک بڑی شخصیت اپنا عمامہ کسی شخص کے سر پر باند ھ دے کیونکہ اس کامطلب ا س پر سب سے زیادہ اعتماد ہو تا تھا۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس رسم و رواج کے مو قع پر اپنا عمامہ جس ک ”سحاب “ کہا جاتا تھا تاج افتخار کے عنوان سے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے سر اقدس پر با ندھا اور تحت الحنک کو آپ کے دوش پر رکھ کر فرمایا :”عمامہ تاجِ عرب ہے “
خود امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں یوں فر ما تے ہیں :
”پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے دن میرے سر پر عمامہ باندھا اور اس کا ایک کنا رہ میرے دوش پر رکھتے ہو ئے فر مایا :خدا وند عالم نے بدر و حنین کے دن اس طرح کا عمامہ باندھنے والے ملا ئکہ کے ذریعہ میری مدد فر ما ئی “۔
غدیر کے موقع پر اشعار
غدیر کے پروگرام کا دوسرا حصہ حسان بن ثابت کا اشعار پڑھنے کی درخواست تھی ۔اس نے پیغمبر
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی :یا رسول اللہ اجازت مر حمت فرمائیے میں نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے سلسلہ میں جو شعر اس عظیم واقعہ کی مناسبت سے کہے ہیں ان کو پڑھوں ؟
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :پروردگار عالم کے نام اور اس کی بر کت سے پڑھو۔
حسان ایک بلند جگہ پر کھڑے ہو ئے اور اس کا کلام سننے کےلئے جم غفیر اکٹھا ہوگیا ۔حسان نے کھا: ”اے قریش کے بزر گو! میری بات رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی گواھی اور اجازت سے سنو“
اس کے بعد اس نے اسی مقام پر کہے ہوئے اشعار کوپڑھنا شروع کیا جو غدیر کی تا ریخی سند کے اعتبار سے ثبت ہو ئے اور یادگاری کے طور پر باقی رہے ۔ھم ذیل میں حسان کے عربی اشعار کا متن اور ان کا تر جمہ پیش کر تے ہیں :
اَلَمْ تَعْلَمُوْا ا نَّ النَّبِیَّ مُحَمَّداً لَدیٰ دَوْحِ خُمٍّ حِیْنَ قَا مَ مُنَا دِیاً
کیا تم نہیں جا نتے کہ محمد پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم کے درختوں کے پاس منادی کی حیثیت کھڑے ہوئے:
وَقَدْ جَا ءَ هُ جِبْرِیْلُ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ بِاَ نَّکَ مَعْصُوْمٌ فَلَا تَکُ وَا نِیاً
اور ان کے پاس جبرئیلعليهالسلام
خدا وند عالم کی طرف سے یہ پیغام لے کر آئے کہ اے رسول اس پیغام کو پہنچا نے میں سستی نہ کیجئے آپ محفوظ رہیں گے ۔
وَبَلِّغْهُمْ مَااَنْزَلَ اللهُ رَبُّهُمْ وَاِنْ اَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ وَحَاذَرْتَ بَا غِیاً
جو کچھ آپ پر خداوند عالم کی طرف سے نا زل ہوا ہے اس کو پہنچا دیجئے اگر آپ نے ایسا نہ کیا اور سر کشوں سے خوف کہا گئے “
عَلَیْکَ فَمَا بَلَّغْتَهُمْ عَنْ اِلٰهِهِمْ رِسَا لَتَهُ اِنْ کُنْتَ تَخْشیٰ اِلَّا عَا دِیٰا
”اگر آپ ظالموں سے خوف ڈرگئے اور دشمنوں سے ڈر گئے تو گو یا آپ نے اپنے پروردگار کی رسالت کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا “
فَقَامَ بِهِ اِذْ ذَاکَ رَافِعُ کَفِّهِ بِیُمْنیٰ یَدَیْهِ مُعْلِنُ الصَّوْتِ عَا لِیاً
”اس وقت پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک کو بلند کیا اور بلند آوازمیں فر مایا :
فَقَالَ لَهُمْ :مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاهُ مِنْکُمْ وَکَانَ لِقَوْ لِیْ حَا فِظاً لَیْسَ نَا سِیاً “
میں تم میں سے جن لوگوں کا مو لا ہوں اور جو میری بات یاد رکہے گا اور فراموش نہیں کرے گا
فَمَوْ لَاهُ مِنْ بَعْدِیْ عَلِیٌّ وَاِنَّنِیْ بِهِ لَکُمْ دُوْ نَ الْبَرِ یَّةِ رٰا ضِیاً
”میرے بعد علیعليهالسلام
اس کے مو لا ہیں اور میںصرف علی کےلئے ،کسی اور کےلئے نہیں ،اپنے جا نشین کے عنوان سے راضی ہو ں “
فَیَا رَبِّ مَنْ وَالیٰ عَلِیّاً فَوَالِهِ وَکُنْ لِلَّذِیْ عَا دیٰ عَلِیَّاً مُعَادِیاً
”پروردگار ا!جو علیعليهالسلام
کو دوست رکہے تو اس کو دوست رکھ اور جو علی سے دشمنی رکہے تو اس کو دشمن رکھ“
وَ یَارَبِّ فَا نْصُرْنَاصِرِیْهِ لِنَصْرِهِمْ اِمَامَ الْهُدیٰ کَالْبَدْرِیَجْلُو الدَّیَاجِیَا
”پروردگارااس کی مدد کرنے والوں کی مدد کر اس لئے کہ وہ اس ہدایت کر نے والے امام کی مدد کر تے ہیں جو شب کی تاریکیوں میں چو دہویں رات کے چاند کی مانندروشنی بخشتا ہے “
وَیَارَبِّ فَاخْذُلْ خَا ذِلِیْهِ وَکُنْ لَهُمْ اِذَا وَقَفُوْایَوْ مَ الْحِسَا بِ مُکَافِیاً
”اس کو رسوا کرنے والے کو رسوا کر اور قیامت کے دن جب وہ حساب کےلئے کھڑا ہو تو خود اس کو جزا دینا“
حسان کے اشعار ختم ہو نے کے بعد پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :جب تک اپنی زبان سے ہمارا دفاع کر تے رہو گے روح القدس کی طرف سے تمھاری تائید ہو تی رہے گی ۔
غدیر میں جبرئیل کا ظا ہر ہو نا
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خطبہ کے بعد ایک اور یہ مسئلہ پیش آیا اور دوسری مرتبہ لوگوں پر حجت تمام ہو ئی کہ ایک خوبصورت شخص لوگوں کے پاس کھڑا ہوا کہہ رہا تھا :
”خدا کی قسم آج کے دن کے مانندمیںنے کوئی دن نہیں دیکھا ۔کس طرح پیغمبر نے اپنے چچا زاد بھا ئی کے سلسلہ میں تاکید فر ما ئی ،اس کے لئے یوں عہد لیا کہ خداوند عالم اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتا وائے ہو اس پر جو اپنا باندھا ہوا پیمان و عہد توڑے“
اس وقت عمر نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا :آپ نے اس مرد کی باتیں سنیں؟آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :کیا تم نے اس شخص کو پہچان لیا ہے ؟عمرنے کہا :نہیں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :
”وہ روح الامین جبرئیل ہے ۔تم اپنے ایمان کی حفاظت کرنا کہ کہیں عہد شکنی نہ کر بیٹھو،اگر تم نے ایسا کیا تو خدا ،رسول ،ملائکہ اور مو منین تجھ سے بیزار ہو جا ئیں گے “
معجزئہ غدیر،تائید الٰھی
معجزہ کے عنوان سے ایک واقعہ جو غدیر کے پروگرام کے اختتام پر پیش آیا وہ ”حارث فھری ‘ ‘ کا ما جرا تھایہ شخص تیسرے دن پروگرام کی آخری گھڑیوں میں اپنے بارہ ساتھیوں کو لیکر آیا اور پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے عرض کیا :
”اے محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں آپ سے تین سوال پوچھنا چا ہتا ہوں :خدا وند عالم کی وحدانیت کی گواھی اور اپنی رسالت کا اعلان آپ نے پرور دگار عالم کی جانب سے یا اپنی طرف سے کیا ہے ؟ کیا نماز و زکات و حج اورجھادکا حکم پروردگار عالم کی جا نب سے آیا ہے یا آپ نے اپنی طرف سے ان کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے جو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے با رے میں یہ فرمایا ہے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَا هُ فَعَلِیٌ مَوْلَاهُ“
یہ آپ نے پر وردگار عالم کی جا نب سے فر مایا ہے یا آپ کی طرف سے ہے ؟
تو آپ نے تینوں سوالوں کے جواب میں فرمایا :
خدا وند عالم نے مجھ پر وحی کی ہے میرے اور خدا کے درمیان جبرئیل واسطہ ہیں ،میں خدا وند عالم کے پیغام کا اعلان کر نے والاہوں اور خداوند عالم کی اجازت کے بغیر میں کو ئی اعلان نہیں کرتا “
حارث نے کہا :
”پروردگارا محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے جو کچھ بیان فرمایاہے اگر وہ حق ہے اور تیری جانب سے ہے تو مجھ پر آسمان سے پتھر یا دردناک عذاب نازل فرما “
حارث کی بات تمام ہو گئی اور اس نے اپنی راہ لی تو خداوند عالم نے اس پرآسمان سے ایک پتھر بھیجا جو اس کے سر پر گرا اور اس کے پاخانہ کے مقام سے نکل گیا اور اس کا وہیں پر کام تمام ہو گیا ۔
اس واقعہ کے بعد آیت:
(
سالَ سَائلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَهُ دَافِعٌ
)
نازل ہوئی پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے اصحاب سے فر مایا :کیا تم نے دیکھا اور سنا ہے ؟ انھوں نے کھا: ھاں ۔
اس معجزہ کے ذریعہ سب کویہ معلوم ہو گیا کہ ”غدیر “ منبع وحی سے معرض وجود میں آیا اور ایک الٰہی فر مان ہے ۔
دوسری جانب ،اس دن کے تمام منافقین اور طول تاریخ میں حارث فھری کے مانند فکر رکھنے والے افراد کےلئے جو اپنی دانست میںخدا و رسول کو تو قبول کر تے ہیں اور یہ جانتے ہوئے علی بن ابی طالبعليهالسلام
کی ولایت خداوند عالم کی جانب سے ہے صاف طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ برداشت نہیں ہے !!خدا کے اس دندانشکن اور فوری جواب نے یہ ثابت کردیا کہ جس نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول نہیں کیا اس نے خدا و رسول کا انکار کیا اور وہ کافر ہے ۔
تین دن کے پروگرام میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے دیگر فرامین
تین دن تک بیعت کا سلسلہ چلتا رہا ،اور مختلف طبقوں کے افراد گروہ گروہ میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خد مت میں حا ضر ہو تے رہے ۔ان چھوٹے چھوٹے اجتماعات میں(خطبہ اور مسئلہ بیعت کی اہمیت کے پیش نظر کچھ سوالات ابھر کر سامنے آئے جن کی وضاحت کی ضرورت تھی ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بھی خطبہ کے مطالب مختصر اور مختلف عبارتوںمیں بیان فر ما تے اور بعض موارد میں وضاحت کے طور پر دیگر مطالب کا بھی اضافہ فر ماتے اور کبھی سوال و جواب کی صورت میں بیان فر ماتے ۔ان میں سے بعض مطالب آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
مفصل خطبے سے پہلے بیان فر ما ئے جو لوگوں کے آمادہ ہو نے کےلئے تھے ہم نمونہ کے طور پر ذیل میں چند فرامین کا تذکرہ کر رہے ہیں :
اپنے انتقال کی خبر
ایھاالناس !مجھ سے پہلے آنے والے تمام انبیا ء نے اس دنیا میںزندگی بسر کی اور جب خدا نے ان کی اجل بھیجی تو انھو ں نے اس پر لبیک کھی ۔میں بھی عنقریب داعی اجل کو لبیک کہنے والا ہوں خدوند لطیف و خبیر نے مجھ کو خبر دی ہے کہ(
اِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِنَّهُمْ مَیِّتُوْنَ
)
گویا مجھ کو بھی دعوت اجل دی گئی ہے اور میں اس پر لبیک کہہ چکاہو ں ۔اے لوگو !ھر پیغمبر اپنی قوم میںاپنے سے پہلے پیغمبر کی نسبت آدھی مدت رہتا ہے ۔
حضرت عیسیٰ بن مریم اپنی قوم کے درمیان چالیس سال رہے اور میں بیس سال کے بعد اس دنیا سے جا نے کےلئے تیار ہوں اور نزدیک ہے کہ تم سے مفارقت کر جا وں ۔
رسالت کے پہنچا نے پر اقرا ر
آگاہ ہو جا و کہ مجھ سے بھی سوال ہو گا اور تم سے بھی باز پُرس ہو گی ۔میں جو کچھ رسالت کے عنوان سے تمھارے لئے لیکر آیا ہوں ،کتاب خدا اور اس کی حجت جس کو میں نے یاد گاری کے طور پر تمھارے درمیان چھوڑا ہے اس کا مسئول ہوں اور تم بھی (ان کے سلسلہ میں) مسئول ہو ۔کیا میں نے پہنچا دیاہے ؟تم اپنے پروردگار کے سامنے کیا کہوگے ؟
ھر طرف سے آوازیں بلند ہو ئیں : ہم گواھی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔آپ نے اس کی رسالت کو پہنچایا اور اس کی راہ میں جھاد کیا آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس کا امر پہونچا دیا،آپ خیر خواہ تھے اور جو کچھ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ذمہ تھا آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے وہ پہونچا دیا ،خدا وند عالم آپ کو ہماری طرف سے وہ بہترین جزا دے جو کسی پیغمبر کو اس کی امت کی طرف سے دی جا تی ہے ۔
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :خدا یا گواہ رہنا ۔
دوسرے انداز سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا بیان
ایھا الناس میرا شجرئہ طیبہ بیان کرو ۔لوگوں نے کہا :آپ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ھاشم بن عبد مناف ہیں ۔
آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :خدا وند عالم جب مجھ کو معراج پر لے گیا تو اس نے مجھ پر اس طرح وحی نازل کی: اے محمد ،میں محمود ہوں اور تو محمد ہے !میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا جو شخص تیرے ساتھ نیکی کرے گا میں اس کے ساتھ نیکی کروں گا اور جو شخص تجھ سے دور رہے گا میں اس سے دور رہوں گا ، میرے بندوں کے پاس جانا اور اپنی نسبت میری کرامت کی ان کو خبر دینا ۔میں نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کا وزیر قرار دیا ۔تم میرے پیغمبر ہو اور علیعليهالسلام
تمھارے وزیر ہیں !
آگاہ ہو جاو : میں تم کو اس چیز کا گواہ بناتا ہوں کہ میں گواھی دیتا ہوں: خدا وند عالم میرا صاحب اختیار ہے اور میں ہر مومن کا صاحب اختیار ہوں کیا تم اس بات کا اقرار کر تے ہو اوراس کی گواھی دیتے ہو؟ انھوں نے کھا: ھاں ،ھم اس بات کی آپ کےلئے گواھی دیتے ہیں ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :”آگاہ ہو جاومَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْ لَاهُ
،جس کا م یں مو لا ہوں یہ علی اس کے مو لا ہیں “اور امیر المو منین کی طرف اشارہ فرمایا ۔
اے مسلمانو!حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا دیں :جو لوگ مجھ پر ایمان لائے اور انھوں نے میری تصدیق کی ہے میں ان کو ولایت علیعليهالسلام
کی وصیت کر تا ہوں ۔ جان لو کہ علی کی ولایت میری ولایت،اور میری ولایت خدا کی ولایت ہے ۔یہ وہ عہد و پیمان ہے جوخدا وند عالم نے مجھ سے لیاہے اور مجہے تم تک پہنچا نے کا حکم دیا ہے اس کے بعد تین مر تبہ فر مایا :کیا تم نے سنا ؟ انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ہم نے سن لیا ۔
ایھا الناس کس چیز کی گواھی دو گے ؟انھوں نے کہا :ھم گواھی دیتے ہیں کہ خدا کے علاوہ اور کو ئی خدا نہیں ہے ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: اس کے بعد کس چیز کی گو اھی دیتے ہو ؟انھوں نے کہا :محمد اللہ کے بندے اوراسکے رسول ہیں ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :تمھارا صاحب اختیار کون ہے : انھوں نے کھا: خدا اور اس کا رسول ہمارے صاحب اختیار ہیں ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا: جس شخص کے خدا اور رسول صاحب اختیار ہیں یہ شخص(علی علیہ السلام ) اس کے صاحب اختیار ہیں
کیا میں ہر مو من پر ا س کے نفس سے زیادہ حق نہیں رکھتا ؟
انھوں نے کہا :ھاں یا رسول اللہ ۔
آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے آسمان کی طرف نظریں اٹھا کرتین مرتبہ فرمایا:اے خدا گواہ رہنا! اس کے بعد فرمایا : آگاہ ہو جا و !جس شخص کا میں صاحب اختیار ہوں اور اس کے نفس پر اس سے زیادہ حق رکھتا ہوں یہ علیعليهالسلام
اس کے صاحب اختیار اور اس کے نفس پر اس سے زیادہ حق رکھتے ہیں ۔
سلمان نے سوال کیا :حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کس طرح ہے اور اسکا نمونہ کیا ہے ؟
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :علی علیہ السلام کی ولایت میری ولایت کے مانند ہے ۔جس شخص پر میں اس کے نفس سے زیادہ حق رکھتا ہوں علیعليهالسلام
بھی اس کے نفس پر اس سے زیادہ حق رکھتے ہیں ۔
دوسرے شخص نے سوال کیا :حضرت علی علیہ السلام کی ولایت سے کیا مراد ہے ؟
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا:جس شخص کا میں پیغمبر ہوں اس شخص کے یہ علی علیہ السلام امیر ہیں ۔
قیامت کے دن ولایت کا سوال
کیا تم اس بات کو تسلیم کرتے ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور میں تمھاری طرف اس کا رسول ہوں ،جنت و جہنم اور مرنے کے بعد زندہ ہو نا حق ہے ؟
انھوں نے کہا :ہم ان باتوں کی گواھی دیتے ہیں ۔
آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :خدایا یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پرگواہ رہنا ۔
آگاہ ہو جاو کہ تم لوگوں نے مجھ کو دیکھا ہے اورمیرا کلام سنا ہے ۔ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ با ندہے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔آگاہ ہوجاو کہ میں حوض کوثر پر تمھارا منتظر ہوںگااور قیامت کے دن دوسری امتوں کے مقابلہ میں تمھاری کثرت پر فخر کروں گا ۔تم وہاں پر آنا لیکن دوسری امتوں کے مقابل میں مجھ کو شرمندہ نہ کرنا !!
آگاہ ہو جاو میں تمھارا انتظار کروں گا اور تم قیامت کے دن میرے پاس حوض کوثر پر آو گے وہ حوض جس کی چوڑائی بُصریٰ سے لیکر صنعا تک
ہے ،اس میں آسمان کے ستاروں کی تعدادسے برابر پیالے ہیں ۔
آگاہ ہو جاو کہ قیامت کے دن جب تم میرے پاس حوض کوثر پر حا ضر ہو گے تو میں نے جس چیز پر آج تم سے شھادت لی ہے اس کے سلسلہ میں اور ثقلین سے متعلق سوال کروں گا کہ تم نے ان کے ساتھ کیسا برتاو کیا ؟دیکھو جس دن مجھ سے ملاقات کروگے دیکھوں گا کہ تم نے میری عدم مو جود گی میں ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔
سوال کیا گیا : یا رسول اللہ ثقلین کون ہیں ؟آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :ثقل اکبر خدا وند عز و جل کی کتاب ہے جو خدا اور مجھ سے تمھارے ھاتھوں میں ایک متصل واسطہ ہے اس کا ایک طرف خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف تمھارے ھاتھوں میں ہے اس میں ماضی میںاورروز قیامت تک مستقبل کے علوم موجودہیں ۔
ثقل اصغر قرآن کا ھمتا ہے اور وہ علی بن ابی طالب اور ان کی عترت ہے اور یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو ںگے یھاں تک کہ قیامت کے دن حو ض کوثر پر میرے پاس حا ضر ہوں ۔
ان سے سوال کر نا اور ان کے علاوہ کسی اور سے سوال نہ کرنا ورنہ گمراہ ہو جا و گے ۔میں نے ان دونوں کے لئے خدا وند عالم سے درخواستیں کیں وہ خدا وند لطیف و خبیر نے مجہے عطا کی ہیں ،ان کی مدد کرنے والا میری مدد کرنے والااور ان کو رسوا کرنے والا مجہے رسوا کرنے والا ہے ،ان دونوں کا دوست میرا دوست اور ان کا دشمن میرا دشمن ہے ۔تم سے پہلے کو ئی امت ھلاک نہیں ہو ئی مگراس وقت جب انھوں نے اپنے دین کو اپنی خواہشات نفسانی کے تحت قرار دے لیا، ایک زبان ہو کر اپنے پیغمبر کی مخالفت کی اور اپنے درمیان عدالت سے فیصلہ کر نے والوں کو قتل کر ڈالا۔
آگاہ ہو جا وکہ میں بہت سے لوگوں کوآتش جہنم سے نجات دلاو ں گا اور لیکن بعض کو مجھ سے لے لیا جا ئے گا میں خدا سے عرض کروں گا پروردگارا یہ میرے اصحاب ہیں ؟!مجھ کو جواب ملے گا :آپ کو نہیں معلوم کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا کارنامے انجام د ئے ہیں !!
غدیر کے پروگرام کا اختتام
اس طرح غدیر کا تین دن کا پروگرام اپنے اختتام کو پہنچااور وہ روز ”ایام الولایة“کے نام سے ذہنوں میں بیٹھ گئے،مختلف گروہ اور عرب کے قبیلوںمیں سے ھرایک نے دنیائے معارف اسلام ،اپنے پیغمبرسے الوداع کہنے اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے جا نشین کی کامل معرفت کے ساتھ اپنے اپنے شھر و دیار کی راہ لی ۔مکہ اور یمن کے رہنے والے جنوب کی طرف جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے واپس پلٹ گئے ،اور مختلف قبیلے راستے میں اپنے اپنے وطنوں کی طرف چلے گئے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بھی مدینہ کا رخ کیادر حا لیکہ کاروان بعثت کو اس کے منزل مقصود تک پہنچا دیا تھا۔
واقعہ غدیر کی خبر شھروں میں منتشر ہو ئی، بہت جلدی شائع ہو ئی اور سب کے کانوں تک پہنچ گئی، اور بیشک مسافروں ،ساربانوں اور تاجروں کے ذریعہ اس وقت کے سب سے دور ممالک یعنی ایران، روم اور چین تک پھیل گئی ،اور غیر مسلم بھی اس سے با خبر ہو ئے ۔دوسری جانب ،ملکوں کے بادشاہ جو اسلام کی نئی قدرت و طاقت کے مخالف تھے اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رحلت کے بعد کے ایام کے متظرتہے ان کے ارادے و منصوبے بھی حضرت علی علیہ السلام کے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے جا نشین ہو نے کی خبر سن کر پاش پاش ہو گئے ۔ اسلامی معا شرہ دوبارہ نئی طاقت بن کر سامنے آیا ،اور اغیار کے احتمالی حملوںسے محفوظ ہو گیا ،اس طرح خدا وند عالم نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کی: حضرت امیر المو منین علیہ السلام فر ما تے ہیں :
”مَاعَلِمْتُ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ
صلىاللهعليهوآلهوسلم
تَرَکَ یَوْمَ الْغَدِیْرِلِاَحَدٍ حُجَّةً وَلَالِقَائِلٍ مَقَا لاً“
”پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر کے دن کسی کےلئے کوئی حجت اور کوئی بھانہ باقی نہیں چھوڑا ‘ ‘
یہیں سے خدا وند تبارک و تعالیٰ کے کلام کے عمیق و دقیق ہو نے کو پہچانا جا سکتا ہے جو یہ فر ماتا ہے :
”لَوْ اِجْتَمَعَ النَّاسُ کُلُّهُمْ عَلیٰ وِلَایَةِ عَلِیٍّ مَاخَلَقْتُ النَّارَ “
”اگر تمام لوگ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت پر متفق ہو جاتے تو میں جہنم کو پیدا نہ کر تا “
____________________