خطبہ غدیر کا خلاصہ
اگر چہ خطبہ غدیر کا عربی متن اور اس کا اردو ترجمہ اس کتاب کے چھٹے اور ساتویں حصہ میں بیان ہو گا لیکن خطبہ کا خلاصہ ،اس کی مو ضوعی تقسیم اورمطالب کا جدا جدا بیان کرنا قارئین کرام کےلئے خطبہ کے متن کا دقیق طور پر مطالعہ کرنے کا ذوق بڑھاتا ہے ۔لہٰذاھم اس اہم مطلب کو دو حصوں میں بیان کرتے ہیں ۔
۱ خطبہ غدیر کے چند اہم نکات
خطبہ غدیر پر ایک سرسری نگاہ کرنے سے کچھ مھم نکات نظر آتے ہیں جن کو ہم ذیل میں ذکر کر رہے ہیں :
۔پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خطبہ کے مختلف موارد میں اپنی تبلیغ پر خداوند عالم کو گواہ بنانا۔
۔پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کامختلف مواقع پر اپنے پیغام کو پہنچانے پر لوگوں کو گواہ بنانا۔
۔خطبہ کے دوران قرآن کی آیتوں کو بطور شاہد پیش کرنا۔
۔خطبہ کے دوران کئی جگہوں پر اپنے بعدبارہ اماموںعليهالسلام
کی امامت کے مسئلہ پرتاکید کرنا۔
۔حرام وحلال کے تبدیل نہ ہونے اور اماموں کے ذریعے ان کے بیان ہونے پر تاکیدکرنا
۔خطبہ میں بہت ساری آیتوں کی اہل بیت علیھم السلام کے ذریعے تفسیر کرنا۔
۔کئی مقامات پر منافقین کے گذشتہ اور آئندہ اقدامات کی طرف کبھی صاف طور پراور کبھی تلویحاً اشارہ کرنا۔
۔خطبہ کے پہلے آدہے حصہ کو امیر المومنین علیعليهالسلام
کی ولایت کے رسمی اعلان سے مخصوص کرنا اور اس بنیادی مطلب اوراصل مو ضوع کو بیان کر نے کے بعداس کے سلسلہ میں وضاحت نیز دوسرے مطالب جیسے نماز۔زکات ،حج وغیرہ کا بیان کرنا۔
۲ خطبہ غدیر کے مطالب کی موضوعی تقسیم
وہ مطالب جو ذیل میں ۲۱ عنوان کے تحت ذکر ہوئے ہیں خطبہ غدیر جو انشاء اللہ چھٹی اور ساتویںفصل میں ذکر ہوگاکے متن سے لئے گئے ہیں ان کو ذکر کرنے سے پہلے چارنکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے :
۱ ۔وہ موضوعات جو ہم نے مد نظر رکہے ہیں اور ان کاذکر کیا ہے خطبہ کے مھم مطالب سے مربوط ہیں اور پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان پر زیادہ زوردیا ہے اگر خطبہ کے تمام مطالب کا ذکر کیا جائے توایک مفصل مو ضوعی فھرست درکار ہے ۔
۲ ۔اختصار کی وجہ سے ہم نے خطبہ کی عبارتوں کو مختصر تلخیص کے ساتھ ذکر کیا ہے علاقہ مند حضرات زیادہ توضیحات کے لئے متن خطبہ کی طرف مراجعہ کرسکتے ہیں ۔
۳ ۔ہر عبارت کے آخر میں بریکٹ کے اندر خطبہ کے گیارہ حصوںمیں سے جس کے اندر وہ عبارت ذکر ہوئی ہے اسکا ایڈرس نیچے دیا گیاہے ۔
۴ ۔اس موضوعی تقسیم کے عناوین درج ذیل ہیں :
۱ ۔توحید۔
۲ ۔پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نبوت۔
۳ ۔علی بن ابی طالبعليهالسلام
کی ولایت۔
۴ ۔بارہ معصوم اماموں کا تذکرہ۔
۵ اہل بیتعليهالسلام
کے فضائل۔
۶ ۔امیرالمومنینعليهالسلام
کے فضائل۔
۷ ۔ امیرالمومنین ہونے کا لقب۔
۸ ۔اہل بیتعليهالسلام
کا علم ۔
۹ ۔حضرت مھدی (عج)۔
۱۰ ۔اہل بیتعليهالسلام
کے شیعہ اور محبّین۔
۱۱ ۔اہل بیتعليهالسلام
کے دشمن۔
۱۲ ۔گمراہ کرنے والے امام۔
۱۳ ۔اتمام حجت۔
۱۴ ۔بیعت۔
۱۵ ۔قرآن۔
۱۶ ۔تفسیر قرآن۔
۱۷ ۔حلال و حرام۔
۱۸ ۔نمازاور زکات۔
۱۹ ۔حج اور عمرہ۔
۲۰ ۔امر بالمعروف ونھی عن المنکر۔
۲۱ ۔قیامت ۔
۱ ۔توحید
خطبہ کا پہلا حصہ ، توحید کے متعلق اعلیٰ اور معنی عبارت پر مشتمل ہے کہ جسکی طرف اجمالی طور پر اشارہ کیا جاتا ہے :خداوند عالم کی عظمت اور بزرگی،اسکا علم ،قدرت اورخالقیت،اسکا سمیع وبصیر ہونا،اسکا ازلی اور ابدی ہونا،اسکا بے نیاز ہونا،اس کا ارادہ،اس کی ضداور شریک کا نہ ہونا،پروردگارکا حکےم وکریم ہونا، اسکا قدوس اورمنزہ ہونا،تمام امور کاخدا کی طرف پلٹنا،بندوں سے اسکاقریب ہونا۔خداکی رحمت ونعمت کا وسیع ہونا،انسان اورافلاک کے اندر اسکی قدرت کے آثار، خدا کا انتقام اورعذاب،خدا کی حمد وثناکاضروری ہونا، اسکی صفات کو درک کرنے سے عاجز ی کا اظھار کرنا۔اسکی عظمت کے مقابلے میں تواضع اور انکساری کرنا۔( ۱)
۲ ۔پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نبوت
۔میں زمین وآسمان کی تمام مخلوقات پر خداکی حجت ہوں جو بھی اس بارے میں شک کرے وہ کافرہے ۔( ۳)
۔جس نے میری ایک بات میں شک کیا گویا اس نے میری ساری گفتگومیں شک کیا اور جو میری گفتار میں شک کرے اسکا ٹھکاناجہنّم ہے ۔( ۳)
۔خدا کے حکم کے بغیرمیرے کلام میں تغیر وتبدیلی نہیں آسکتی۔( ۴)
۔مجھ سے پہلے والے انبیاء اور مرسلین نے میرے آنے کی بشارت دی ہے ۔ ( ۳)
۔کوئی ایسا علم نہیں ہے جس کی خدا نے مجہے تعلیم نہ دی ہو( ۳)
۳ ۔علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت
خداوند عالم نے علی کو صاحب اختیار اور تم لوگوں پر امام بنایا ہے ( ۳ )
علیعليهالسلام
کی اطاعت شھری ، دیھاتی ،عربی، عجمی ،آزاد، غلام ،چھوٹے بڑے سب پر واجب ہے ۔
علیعليهالسلام
کام حکم ھرموحد( موجود) پرقابل اجراء اور ان کا کلام مورد عمل اورامر نافذ ہے ۔( ۳)
جس جس پر میں اختیار رکھتا ہوں یہ علیعليهالسلام
بھی اس پر اختیار رکھتے ہیں ۔( ۳)
علیعليهالسلام
کی ولایت خدا کی طرف سے ہے اور اس کا حکم بھی خدا کی طرف سے ہوا ہے ( ۳)
خدایا ! جو علیعليهالسلام
کو دوست رکہے تو اس کو دوست رکھ ۔( ۴)
خدا نے تمھارے دین کو حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے ذریعے کا مل کیا ہے ۔( ۵)
علیعليهالسلام
کے حکم کو غور سے سننا تا کہ سالم رہو ،ان کی اطاعت کر نا تا کہ ہدایت پا سکو ،ان کے روکنے سے باز رہنا تاکہ صلاح و بھبودی تک پہونچ سکو ،اور اس کے ارادہ کے پیچہے پیچہے چلنا تاکہ مختلف راستے تم کو گمراہ نہ کر سکیں ۔( ۶)
علیعليهالسلام
کے راستے کو چھو ڑ کر گمراھی کی طرف مت چلے جانا ،ان سے دور نہ ہوجانا اور ان کی ولایت سے سر پیچی نہ کر نا ۔
اگر طویل عر صہ گزرنے کے بعد تم نے کو تا ہی کی یاان کوبھول گئے تو یاد رکھو کہ تمھارے نفسوں پر اختیار رکھنے والے اور تمھارے دین کو بیان کرنے والے علی ہیں جس کو خدا نے میرے بعد اپنی مخلوق پر امین قرار دیا ہے ۔وہ تمھارے ہر سوال کا جواب دیں گے اور جس چیز کو تم نہیں جانتے اس کو بیان کریں گے( ۱۰)
۴ ۔ بارہ ائمہ معصومین علیھم السلام کا تذکرہ
میں خدا کا وہ صراط مستقیم ہوں جس کی پیروی کا خدا نے تم کو حکم دیا ہے اور میرے بعد علیعليهالسلام
اور ان کی نسل سے میرے فرزند ہیں جو حق کی طرف ہدایت کر نے والے امام ہیں ۔( ۷)
میری نسل میں امامت علیعليهالسلام
کی اولاد سے ہو گی جب تک کہ قیامت کے دن خدا اور اس کے رسول سے ملاقات نہ کر لو ۔( ۳)
جس شخص نے خدا ،رسول ،علی اور ان کے بعد آنے والے ائمہ کی اطاعت کی یقیناً وہ بڑا کامیاب ہوگا ۔( ۱۱)
امیر المو منین علیعليهالسلام
،حسن ،حسین اور باقی ائمہعليهالسلام
کی کلمہ باقی اور طیب و طاھر کے اعتبار سے بیعت کرو ( ۱۱ )
قرآن تم کو دعوت دے رہا ہے کہ علی علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند امام ہیں اور میں نے بھی تم لوگو ں کو آگاہ کر دیا ہے کہ باقی امام میری اور ان کی نسل سے ہیں ،قرآن کہہ رہا ہے :(
وَجَعَلَهَا کَلِمَةً بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهِ
)
اور میں کہہ رہا ہوں ( ۱۰)لَنْ تَضِلُّوْامَااِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا
> ( ۱۰) جو لوگ قیامت تک علیعليهالسلام
اور ان کی نسل اور میری اولاد سے ہو نے والے اماموں کو امام کے عنوان سے قبول نہیں کریں گے ان کے اعمال حبط ہو جا ئیں گے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہینگے( ۵)
میں خلا فت کو امامت کے عنوان سے اپنی نسل میں قیامت تک کےلئے چھو ڑے جا رہا ہوں ۔( ۶)
حلا ل و حرام اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ میں ان کو ایک مجلس میں بیٹھ کر شمار کروں پس مجھ کو خدا کی جانب سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ علی امیر المو منین اور ان کے بعدقیامت تک اماموں کے بارے میں جو میری اولاداور ان کی نسل سے ہیں اور ان کا قائم مھدی ہے ان کے سلسلہ میں جو کچھ خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے اس پر تم لوگوں سے بیعت لوں ۔( ۱۰)
حلال وہ ہے جس کو خدا ،رسول اور بارہ امام حلال قراردیں اور حرام وہ ہے جس کو خدا ،رسول اور بارہ امام حرام قرار دیں ۔( ۳)
۵ ۔اہل بیت علیھم السلام کے فضائل
تمھارا پیغمبر بہترین پیغمبر ،تمھارے پیغمبر کاجانشین بہترین جا نشین اور ان کی اولاد بہترین جا نشین ہیں ۔
حضرت علیعليهالسلام
صبر اور برد باری کا بہترین نمونہ ہیں اور ان کے بعد ان کی نسل سے میرے فرزند ۔
خدا وند عالم نے اپنا نور مجھ میں پھر علیعليهالسلام
میں ان کے بعد ان کی نسل میں مھدی مو عود تک قرار دیا ہے ۔ ( ۶)
۶ ۔امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل
علیعليهالسلام
امام مبین اور امام المتقین ہیں ۔( ۳)
علیعليهالسلام
حق کی طرف ہدایت کر تے ہیں ،اور اس پر عمل کر تے ہیں باطل کو نیست و نا بود کر نے والے اور اس سے منع کر نے والے ہیں اور راہِ خدا میں کسی ملا مت کر نے والے کی ملامت ان کے لئے رکا وٹ نہیں ہوسکتی ۔( ۳)
علیعليهالسلام
خدا وند عالم پر ایمان لا نے والے سب سے پہلے شخص ہیں ۔( ۳)
علیعليهالسلام
کو سب سے افضل مانو اس لئے کہ وہ میرے بعد ہر مرد و عورت سے افضل ہیں ۔( ۳)
علیعليهالسلام
جنب خدا ہیں قرآن میںآیا ہے :(
یَاحَسْرَتَا عَلیٰ مَافَرَّطْتُ فِیْ جَنْبِ اللهِ
)
( ۳)
یہ علیعليهالسلام
ہیں جس نے تم سب سے زیادہ میری مدد کی ،تم میں سب سے زیادہ میرے نزدیک محبوب اور عزیز ہیں میں اور میرا خدا اس سے راضی ہیں ۔( ۵)
خدا وند عالم کی رضا کے با رے میں کوئی آیت نازل نہیں ہو ئی مگر علیعليهالسلام
کے بارے میں ۔( ۵)
خداوند عالم نے قرآن میں جب بھی مو منین سے خطاب کیاتو ان میں سب سے پہلے علیعليهالسلام
کومخاطب قراردیا ۔( ۵)
خدا وند عالم نے سورہ ”ھل اتیٰ “میں جنت کی گوا ہی صرف علیعليهالسلام
کے لئے دی ہے ( ۵)
سورہ ” ھل اتیٰ“فقط علیعليهالسلام
کے سلسلہ میں اور علیعليهالسلام
کی مدح میں نازل ہوا ہے ۔( ۵)
علیعليهالسلام
دین خدا کے یاور ومددگاراور رسول کے محافظ ہیں ۔( ۵)
علیعليهالسلام
تقی ،نقی ،ھادی اور مھدی ہیں ۔( ۵)
علیعليهالسلام
وعدہ گاہ الٰہی ہیں ( ۶)
علیعليهالسلام
مبشر ہیں ۔۔۔علیعليهالسلام
ھادی ہیں ۔( ۷)
علیعليهالسلام
وہ شخصیت ہیں جن کو خدا وند عالم نے مجھ سے خلق فرمایا اور مجھ کو علیعليهالسلام
سے خلق فرمایا ۔( ۱۰)
حضرت علیعليهالسلام
کے فضائل و کمالات صرف خدا جانتا ہے اور خداوند عالم نے ان کو قرآن میں بیان فر مایا ہے ،علیعليهالسلام
کے فضائل اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ میں ان کو ایک مجلس میں بیان کروں ۔پس جو بھی علیعليهالسلام
کے فضائل تمھارے سامنے بیان کرے (بشر طیکہ ان کی معرفت بھی رکھتا ہو )اس سے قبول کر لو ۔
۷ ۔”امیر المو منینعليهالسلام
“کے القاب
میرے بھا ئی (علیعليهالسلام
) کے علاوہ کو ئی” امیر المو منین “نہیں ہے اور میرے بعد مو منین کا امیر بننا علیعليهالسلام
کے علاوہ کسی کے لئے جا ئز نہیں ہے ۔( ۳)
علیعليهالسلام
کو امیر المو منین کہہ کر سلام کیا کرو ۔( ۱۱)
جو لوگ علیعليهالسلام
کو امیر المو منین کہہ کر سلا م کر نے میں سبقت کریں گے وہ کامیاب ہیں ۔( ۱۱)
۸ ۔اہل بیت علیھم السلام کا علم
کو ئی ایسا علم نہیں ہے جس کی خدا نے مجہے تعلیم نہ دی ہو اور کوئی ایسا علم نہیں ہے جس کی میں نے علیعليهالسلام
کو تعلیم نہ دی ہو ۔( ۳)
خدا وند عالم نے مجھ کو امر و نھی کیا ہے اور میں نے علیعليهالسلام
کو امرونھی کیا ہے پس علیعليهالسلام
نے امر و نھی خدا کی جانب سے سیکھا ہے ۔( ۶)
ایھا الناس !میں نے تمھارے لئے (احکام) بیان کئے اور تمہیں تعلیم دی ہے اور میرے بعد تمہیں یہ علیعليهالسلام
تعلیم دیں گے ۔( ۹)
۹ ۔حضرت مھدی عج
خدا وند عالم نے اپنا نور میرے اور علیعليهالسلام
کے صلب میں اور اور ان کی نسل میں مھدی قائم تک قرار دیا ہے ( ۶)
مھدی ،حق خدا اور ہمارے ہر حق کا بدلہ لیں گے ۔( ۶)
کو ئی ایسی سر زمین نہیں ہے مگر خدا وند عالم اس کے باشندوں کو ان کی تکذیب کی وجہ سے ھلاک کرے گا اور ان کو مھدی کے اختیار میں قرار دے گا ۔( ۶)
خاتم الا ئمہ ،قائم آل محمد ہم سے ہیں ۔( ۸)
مھدی وہ ہیں جو تمام ا دیان پر غالب آنے والے ،ظالموں سے انتقام لینے والے دین خدا کے مددگار ،ناحق بہنے والے خون کے منتقم،قلعوںکوفتح کرنے والے،دریائے عمیق سے نشات پانے والے انسانوں کو ان کی حیثیت کے مطابق نشاندھی کرانے والے،علوم کے وارث اور آیات الٰہی کو استحکام بخشنے والے ہیں ۔( ۸)
مھدی وہ ہیں جن کے سپرد امور کئے گئے ہیں گزشتہ انبیاء و ائمہ نے ان کے آنے کی بشارت دی ہے وہ زمین پر باقی رہنے والی خدا کی حجت اوراس کے ولی ہیں اور وہ خداوند عالم کے سرّ اور آشکار کے امانتدار ہیں ۔( ۸)
۱۰ ۔اہل بیت علیھم السلام کے دوستدار اور شیعہ
خدا وند عالم ہر اس شخص کو بخش دے گا جو علیعليهالسلام
کا کلام سنے گا اور اس کی اطاعت کرے گا ۔( ۳)
خدایا جو علیعليهالسلام
کو دوست رکہے تو اس کو دوست رکھ ۔( ۴)
متقی شخص کے علاوہ کوئی خدا کو دوست نہیں رکھ سکتا ،اور مخلص مو من کے علا وہ کوئی علی پر ایمان نہیں لا سکتا ۔( ۷)
علیعليهالسلام
کے دوست وہ لوگ ہیں جن کا تذکرہ خدا وند عالم نے قر آن میں کیا ہے (اس کے بعد آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان کے سلسلہ میںقر آن کریم کی چند آیات کی تلاوت فر ما ئی)( ۷)
ہمارا دوست وہ شخص ہے جس کی خدا نے تعریف کی ہے اور جس کو خدا دوست رکھتا ہے ( ۷)
جو شخص خدا ،اس کے رسول اوربارہ اماموں کی اطاعت کر ے گا وہ عظیم کا میابیاں حاصل کرے گا ( ۱۱)
وہ لوگ جو علیعليهالسلام
کی بیعت ،ولایت اور ”امیر المو منین “ کے عنوان سے سلام کر نے میں سبقت کرےںگے وہ کامیاب ہیں اور ان کا ٹھکا نا جنت ہے ۔( ۱۱)
۱۱ ۔اہل بیت علیھم السلام کے دشمن
علیعليهالسلام
کی مخالفت کر نے والا ملعون ہے ۔( ۳)
خدا وند عالم علیعليهالسلام
کی ولایت کا انکار کر نے والے کی توبہ ہر گز قبول نہیں کرے گا اور اس کو نہیں بخشے گا ۔( ۳)
علیعليهالسلام
کی مخالفت سے بچو ورنہ ایسی آگ کے حوالے کئے جا و گے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے لئے بنا ئی گئی ہے ۔( ۳)
خدا وند عالم فرماتا ہے (جو شخص علیعليهالسلام
کے ساتھ دشمنی رکہے اور ان کی ولایت قبول نہ کرے اس پر میری لعنت اور غضب نا زل ہو ۔( ۳)
ملعون ہے ،ملعون ہے ،مغضوب ہے ،مغضوب ہے وہ شخص جو (علی کے بارے میں )میری اس بات کو قبول نہ کرے اور اس سے متفق نہ ہو ۔( ۳)
خدایا علی کے دشمن کو اپنا دشمن قرار دے ،علیعليهالسلام
کے منکر پر اپنی لعنت بھیج اورحق علیعليهالسلام
کے منکر پر اپنا غضب نازل فرما ۔( ۴)
جو لوگ علیعليهالسلام
اور ان کے جا نشینوں کی امامت کے منکر ہیں قیامت کے دن ان کے اعمال حبط ہو جا ئیں گے اور وہ ہمیشہ آتش جہنم میں جلیں گے ان کے عذاب میں کو ئی کمی نہیں ہو گی اور ان کو مھلت نہیں دی جا ئے گی ۔( ۵)
شقی انسان کے علاوہ کو ئی علی سے دشمنی نہیں کرے گا ۔( ۵)
خدا وند عالم نے ہمیں دنیائے عالم کے تمام مقصروں ،معاندوں ،مخالفوں ،خائنوں، گناہگاروں ظالموں اور غاصبوں پر حجت قرار دیا ہے ۔( ۶)
گمراہ کرنے والے پیشوا ،ان کے دوست ،ان کی اتباع کر نے والے اور ان کی مد د کرنے والے جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہو ں گے ۔( ۶)
علیعليهالسلام
کے دشمن ،اھل شقاوت اہل نفاق اور اپنے نفسوں پر ظلم کر نے والے ہیں ،وہ شیطانوں کے بھا ئی ہیں جو آپس میںبظاہر خوبصورت اور تکبر آمیز باتیں کیا کرتے ہیں ۔( ۷)
خداوند عالم نے قر آن کریم میں علیعليهالسلام
کے دشمنوں کا تذکرہ کیا ہے (اس کے بعد آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس سلسلہ میں قرآن کریم کی چند آیات کی تلاوت فر ما ئی )( ۷)
ہمارا دشمن وہ شخص ہے جس پر خدا وند عالم نے لعنت و ملامت کی ہے ۔( ۷)
۱۲ ۔گمرا ہ کر نے والے پیشوا
عنقریب میرے بعد ؛کچھ افراد اپنے آپ کو امام کھلا ئیں گے اور لوگوں کو آتش جہنم کی طرف دعوت دیں گے ،قیامت کے دن ان کی کو ئی مدد نہیں کی جا ئیگی ،خدا وند عالم اور میں ان سے بیزار ہیں ،وہ ان کے اعوان و انصار اور ان کی اتباع کر نے والے جہنم کے سب سے آخری درجہ میں ہو ں گے ،آگاہ ہو جاو وہ اصحاب صحیفہ ہیں لہٰذا تم میں سے ہر کوئی اپنے صحیفہ پرغور کرلے (آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس کے ذریعہ اصحاب صحیفہ ملعونہ کی طرف اشارہ فرمایاہے )۔( ۶)
عنقریب میرے بعد کچھ لوگ خلافت کو بادشاہت کے عنوان سے غصب کر لیں گے ۔خدا ان غاصبوں پر لعنت کرے ۔( ۶)
۱۳ ۔اتمام حجت
خدا وند عالم نے ہمیں دنیا کے تمام مقصروں ،دشمنوں ،مخالفوں ،خائنوں ،گناہگاروں ،ظالموں اور غاصبوں پر حجت قرار دیا ہے ۔( ۶)
مجہے خدا نے جس چیز کے پہنچانے کا حکم دیا تھا میں نے پہنچا دیا تاکہ ہر حاضر و غائب اور ہر اس شخص پر جو دنیا میں آیا ہے یا ابھی نہیں آیا حجت تمام ہو جا ئے ۔( ۶)
حاضر ین غائبین کو اور باپ اپنی اولاد کو قیامت تک اس(واقعہ غدیر) پیغام کو پہنچا ئیں ۔( ۶)
ایھا الناس ،خدا تم لوگوں کو تمھارے حال پر نہیں چھوڑے گا یھاں تک کہ خبیث لوگوں کوپاک لوگوں سے الگ کرلے ( ۶)
سب سے بڑا امر با لمعروف یہ ہے کہ تم میری باتوں کو غور سے سنو اور جو حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچاو،ان کو ان باتوں کے قبول کر نے پر زور دو اور ان کی مخالفت کر نے سے روکو۔( ۱۰)
حضرت آدم علیہ السلام ایک معمولی سے ترک اولیٰ کی وجہ سے زمین پر بھیج دئے گئے، حالانکہ خدا کے منتخب بندے تھے تو تمھارا کیا حشر ہو گا حالانکہ تم ہو !(یعنی تم میں اور حضرت آدم علیہ السلام بہت میں فرق ہے )اور تمھارے درمیان خدا کے دشمن بھی مو جود ہیں ۔( ۵)
ایسی باتیں کروکہ خداتم سے راضی ہو ،اس لئے کہ اگرتم اور تمام روئے زمین کے لوگ کافر ہو جا ئیں تو خدا کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔( ۱۰)
تم میں سے ہر ایک علیعليهالسلام
کی نسبت جتنی دل میں محبت اور نفرت رکھتا ہے اسی کے مطابق پر عمل کرے۔( ۶)
۱۴ ۔بیعت
میں خطبہ کے بعد تم لوگوں کو دعوت دونگا کہ میرے ساتھ علیعليهالسلام
کی بیعت اور ان کے بلندو بالامقام کے اقرارکے عنوان سے ہاتھ ملائیں اور میرے بعد علی علیہ السلام سے ہاتھ ملا ئیں ۔آگاہ ہو جا ؤ !میں نے خدا کی بیعت کی ہے اور علیعليهالسلام
نے بھی میری بیعت کی ہے اور میں خدا کی نیابت میں علیعليهالسلام
کےلئے بیعت لے رہا ہوں،پس جو بھی اپنی بیعت سے منھ موڑے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا ( ۹)
میں تم لوگوں سے بیعت لینے پر مامو ر ہوں اور امیر المومنین علیعليهالسلام
اور ان کے بعد ائمہ جو مجھ سے ہیں اور ان کا آخری قائم ہے ان کے سلسلہ میں جو کچھ خدا کی جانب سے لا یا ہوں اس کی قبولیت پر تمھارے ساتھ ہاتھ ملاوں۔( ۱۰)
ایھا الناس !تمھاری تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کہ میں تم سے اس مختصر سے وقت میں بیٹھ کر بیعت لوں ،لہٰذا خدا نے مجہے یہ حکم دیا ہے کہ میں علیعليهالسلام
اور ان کے بعد آنے والے ائمہ کی خلافت اورمقام کے بارے میں تمھاری زبانوں سے اقرار لوں ۔( ۱۱)
امیر المو منین علیعليهالسلام
،حسن ،حسین اور باقی ائمہعليهالسلام
کی بیعت کرو۔( ۱۱)
جو کچھ میں کہوں تم اس کو اپنی زبان سے دھراو۔۔۔کہو ”ھم نے سنا اور ہم اطاعت کریںگے‘( ۱۱)
علیعليهالسلام
کی بیعت کرنے میں سبقت کر نے والے افراد کا میاب ہیں ۔( ۱۱)
۱۵ ۔قرآن
قرآن میں تدبر کرو ،اس کی آیات کو سمجھو ،اس کے محکمات میں دقت کرو اور متشابھات کے پیچہے مت جا و ۔( ۳)
خدا کی قسم علی بن طالب علیہ السلام کے علاوہ کو ئی قرآ ن کے باطن اور اس کی تفسیر بیان نہیں کر سکتا ہے کہ جن کے ھاتھو ں کو میں نے تمھارے سامنے بلند کر رکھا ہے ۔( ۳)
۱۶ ۔تفسیر قرآن
رضا ئے خدا کے بارے میں نازل ہو نے والی آیت، علیعليهالسلام
کے بارے میں ہے ( ۵)
خدانے قرآن میں مومنین کو مخاطب نہیں قرار دیا مگران میں سب سے پہلے شخص علیعليهالسلام
ہیں ۔( ۵)
خدانے سورہ (ھل آتی)کو فقط علی کے بارے میں نازل کیا ہے اور اسمیں صرف علی کی مدح کی ہے ۔( ۵)
خدا کی قسم سورہ ”والعصر“علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔( ۵)
قرآن تم سے کہہ رہا ہے کہ علیعليهالسلام
کے بعد امام ان کی اولاد میں سے ہوں گے۔۔لہٰذا خدا فرماتاہے :
(
وجعلهاکلمة باقیة فی عقبه
)
( ۱۰)
خدا نے علی کے فضائل کو قرآن میں نازل کیا ہے ۔( ۱)
یہ علیعليهالسلام
ہے جس نے نمازکو قائم کیا،حالت رکوع میں زکات دی اور ہر حال میں خدا کو یاد رکھتا ہے ۔(آیت”انماولیکم واللہورسولہ و۔۔۔کی تفسیر( ۲)
خدا کا یہ قول:<۔۔۔من قبل ان نطمس وجوھافنردھاعلی آدبارھا> سورہ نساء آیت/ ۴۷ ۔”۔۔۔قبل اس کے کہ ہم تمھارے چھروں کو بگاڑکر پشت کی طرف پھیر دیں“میرے اصحاب میں سے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوا ہے جن کو میں نام ونسب سے جانتا ہوں مگرمجہے ان کے نام نہ لینے کا حکم دیا گیا ہے ۔
۱۷ ۔حلال اور حرام
ھر وہ حلال جس کی طرف میں نے تمھاری ہدایت کی ہے اور ہر وہ حرام جس سے میں نے منع کیا ہے ہمیشہ وھی رہے گا کبھی بھی اس میں تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔یہ بات ہمیشہ یاد رہے اور دوسروں کو بھی اس بات کی تلقین کر دیجئے کہ ہر گز میرے حلال وحرام میں تغیّرو تبدل نہ کریں۔( ۱)
حلال وحرام اس سے زیادہ ہیں کہ میں سب کوتم لوگوںکے سامنے گنوادوں اور ایک ہی مجلس میں تمام حلال کاموں کاامر کروں اور تمام حرام کاموں سے نھی کروں پس میں مامور ہوں کہ تم سے بیعت لوںاوراس بات پرھاتھ ملاوںکہ جو کچھ میں خدا وند عالم کی طرف سے علیعليهالسلام
اور ان کے بعد کے ائمہعليهالسلام
کے بارے میں لیکر آیا ہوںتم اسے قبول کرو۔( ۱۰)
حلال کام فقط وھی ہے جسکو خدا ،اسکے رسول اور اماموں نے حلال کیا ہو،اور حرام کام فقط وھی ہے جسکو خدا،اسکے رسول اور اماموں نے حرام کیا ہو۔( ۳)
۱۸ ۔نماز اور زکات
نماز کو قائم رکھو اور زکات دیتے رہو جیسا کہ خدا نے تمہیں حکم دیا ہے ۔( ۱۰)
میں دوبارہ اپنی بات کی تکرار کر رھاہوں ۔”نماز کو قائم رکھو اور زکات ادا کرو۔“
۱۹ ۔حج اور عمرہ
حج اور عمرہ شعائر الٰہی ہیں ۔( ۱۰)
خانہ خداکے حج کےلئے جاؤ،کوئی انسان خانہ خداکی زیارت نہیں کرے گا مگریہ کہ غنی ہو جا ئیگا اور (ممکن ہونے کے باوجود) کوئی خانہ خدا کی زیارت سے انکار نہیں کرے گا مگر یہ کہ فقیرہوجائے گا۔( ۱۰)
دین کامل اور معرفت کے ساتھ خانہ خدا کی زیارت کے لئے جاؤ ،اور گناہوںسے دوری اور توبہ کئے بغیر مقدس مقامات سے واپس نہ لوٹو۔
حاجیوںکی مدد کی جائے گی جو کچھ وہ خرچ کریں گے دوبارہ انکو دے دیاجائے گا۔خدا احسان کرنے والوں کا اجر ضایع نہیں کرتا۔( ۱۰)
کوئی مومن موقف پہ توقف نہیں کرتا مگر خدا اس وقت تک کے اسکے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور جب اسکا حج تمام ہوجاتا ہے تو اسکے نامہ اعمال کانئے سرے سے آغاز ہوتا ہے ۔( ۱۰)
۲۰ ۔امر بالمعروف و نھی عن المنکر
میں اپنی بات کی تکرار کرتا ہوں۔”امر با لمعروف ونھی عن المنکر کرو۔“( ۱۰)
بہترین امر با لمعروف اور نھی عن المنکر یہ ہے کہ میری بات کو غور سے سنواور جو لوگ حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچاؤ اوران کو قبول کرنے کا حکم دو۔
اور اسکی مخالفت سے بچو،اس لئے کہ یہ حکم خدا کی طرف سے ہے ۔( ۱۰)
کوئی امر بہ معروف ونھی ازمنکر نہیں ہے مگر معصوم امام( کی راہنمائی) کے ساتھ۔( ۱۰)
۲۱ ۔قیامت اور معاد
تقویٰ اختیار کرو۔تقویٰ اختیار کرو۔روز قیامت سے ڈرو۔موت،حساب و کتاب۔ میزان،اور خدا کی بارگاہ میںمحاسبہ اورثواب وعقاب کو یاد کرو۔( ۱۰)
جواپنے ساتھ نیکی لے کرآئے گااسکو ثواب دیا جائے گا اور جو گناہ لے کرآئے گاوہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ پائے گا۔( ۱۰)
اس مقام پر خطبہ غدیر کے مطالب کا خلاصہ اور اس کی مو ضوعی تقسیم تمام ہوجاتی ہے ۔
حدیث غدیر کی سند اور متن کے سلسلہ میں تحقیق
اگرچہ حدیث غدیرکی سند اورمتن کے سلسلہ میں مفصل علمی بحثیں ہیں لیکن پھر بھی ہم ان پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ۔
علماء کرام نے ان دونوں مطالب کے سلسلہ میں کافی اور وافی بحثیں کی ہیں مطالعہ کرنے والے افراد اسی حصہ میں جن کتابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کی طرف رجوع کریں ۔
۱ حدیث غدیر کی سند
غدیر کے عظیم واقعہ میں خطبہ سے پہلے جو مقدماتی مراحل انجام پائے،خطبہ کامتن،اور وہ واقعات جو خطبہ کے ساتھ یا خطبہ کے بعد رونما ہوئے سب ایک روایت کی شکل میں ہمارے ھاتھوں تک نہیں پہنچ پائے۔بلکہ غدیر میں موجود افراد میں سے ہر ایک نے مراسم کے ایک گوشہ یا آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی باتوں کے ایک حصے کو نقل کیا ہے ۔البتہ اس واقعہ کا کچھ حصہ متواتر طریقے سے بھی ہم تک پہنچاہے اور خطبہ غدیر بھی مکمل طورپر کتابوں میں محفوظ ہے ۔
حساس دور میں حدیث غدیرکی روایت
غدیر کے میدان میں اس جمع غفیر میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے جو باتیں کیںوہ اس طریقے سے شھروں میں منتشر ہوگئیں کہ حتی غیر مسلم بھی ان سے باخبر ہوگئے۔
بجا ہوتا اگر غدیرمیںایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ حاضرمسلمانوں میں سے ہر ایک اپنے سھم کے مطابق خطبہ غدیر کے ایک حصہ کو حفظ کرتااوراسکے متن کو اپنی اولاد ،اپنے رشتہ داروں اور دوستوں تک پہنچاتا۔
افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت کی مسلمانوںکی اجتماعی حالت اور رحلت پیغمبر کے بعدکی تاریک فضا کہ جس میں کئی سال تک حدیث سنانا اور لکھنا ممنوع تھا۔اس بات کا سبب بنی کہ لوگ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تقدیر ساز باتوں کو بھی بھول جائیں،اور ان کی اہمیت کو کھوبیٹہیں ۔
طبیعی طور پر ایسا ہی ہونا چاہے ے تھا اسلئے کہ مسئلہ غدیر کو چھیڑنا ،غاصبین خلافت کی جڑوں کو اکھاڑپھینکنے کے مترادف تھا اور وہ ہر گزاس کام کی اجازت نہیں دے سکتے تھے لیکن اسکے باوجود واقعہ غدیر یوں لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھا کہ اکثر لوگوں نے غطبہ غدیر یا اس کا کچھ حصہ حفظ کیااور اس کوآنے والی نسلوں تک پہنچایا اور کسی کے بس میں نہیں تھا کہ اس پر کنٹرل کر سکے اور اس مھم خبر کو منتشرہونے سے روک سکے۔
خود امیر المومنینعليهالسلام
اور فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاجو غدیر کا رکن تھے اور ائمہ یکے بعد دیگرے اس حدیث کو محفوظ رکھتے رہے اور کئی بار دوستوں اور دشمنوں کے مقابلے میں اس کے ذریعے استدلال پیش کرتے رہے ۔
ھم دیکھتے ہیں کہ اس خطرناک ماحول میں امام باقر علیہ السلام خطبہ غدیر کے مکمل متن کو اپنے اصحاب کےلئے بیان کرتے تھے ۔
اسی طرح صحابہ میں سے دو سو آدمیوں نے اور تابعین کے ایک گروہ نے اس تقیہ کے ماحول میں کہ جھاں ایک حدیث کا نقل کرنا ایک جان دینے کے برابر تھا اسکو نقل کیا۔کتاب عوالم العلوم:ج ۱۵/۳ صفحات ۴۹۳ ۔ ۵۰۸ میں حدیث غدیر کے راویوں کی چودہ سو سال سے اب تک کی زمانہ کے لحاظ سے ایک فھرست ذکر ہوئی ہے اور ا س میں ثابت کیا ہے کہ یہ نقل خَلَف از سَلَف اس بات کی دلیل ہے کہ بغیر انقطاع کے حدیث غدیر کے نقل کاسلسلہ مستحکم ہے ۔صفحات ۵۰۱ ۔ ۵۱۷ میں غدیر کے راویوں کو الف، با ،کی ترتیب سے ذکر کیا ہے ، صفحہ ۵۲۲ میں وہ مو لفین جنھوںنے حدیث غدیر کو ضبط(لکھا) کیا ہے کاتذکرہ کیا ہے ۔صفحات ۹ ۲ ۵ ۔ ۴ ۳ ۵ میں حدیث غدیر کے نقل کرنے والے صحابہ تابعین اور دوسرے لوگوں کی وثاقت کو بیان کیا ہے ۔اسی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان ”حدیث غدیر“برابرکسی حدیث کے راوای نہیں ہیں اوراس کے تواترکے علاوہ علم رجال اور درایت اسناد کے اعتبار سے بھی یہ حدیث فوق العادہ ہے ۔
حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں کتابوں کی شناخت
حدیث غدیر کی سند سے مربوط تاریخی اور رجالی بحثوں کے اعتبار سے بہت سی مفصل کتابیں تالیف ہوئی ہیں ۔
ان کتابوں میں ،حدیث غدیر کے راویوں کے نام جمع کئے گئے ہیں اور راویوں کے موثق ہونے کے بارے میں رجالی بحثیں ہوئی ہیں راویوںاور اسنادکے بارے میں مفصل تاریخ بیان ہوئی ہے اور اس کے اسناد و رجال کے بارے میںتعجب خیز باتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ذیل میں دو نمونوں کی طرف ا شارہ کیا جاتاہے :
ابوالمعالی جو ینی کہتے ہیں :میں نے بغداد میں ایک جلد ساز کے پاس ایک کتاب دیکھی کہ جس کی جلد پر یہ لکھا ہوا تھا۔”من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ“کی اسنادکے بارے میں اٹھائیسویں جلد اور اس جلد کے بعد انتیسویںجلدہے “
ابن کثیر کہتے ہیں :میں نے دو ضخیم جلدوں میں ایک کتاب کو دیکھا جس میں طبری نے غدیر خم کی احادیث کو جمع کیا ہے ۔
اھل سنت کی بہت سی بڑی بڑی کتابوں میں حدیث غدیر کو مسلمات کے عنوان کے تحت ذکر کیا گیاہے ۔منجملہ ان کے مولفین یہ ہیں :اصمعی ، ابن سک یت ،جاحظ،سجستانی، بخاری اندلسی ، ثعلبی، ذھبی، مناوی، ابن حجر،تفتازانی،ابن اثیر،قاضی عیاض،باقلانی۔
اگر چہ اس سلسلے میں کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہم یھاںپر اختصار کے ساتھ چند ایک کتابوںکاتعارف کراتے ہیں :
۱ ۔عبقات الانوار۔میرحامد حسین ہندی۔(غدیر سے مربوط جلدیں)
۲ ۔الغدیر:علامہ امینی؛ج ۱ ص ۱۲ ۔ ۱۵۱ ۔ ۲۹۴ ۔ ۳۲۲ ۔
۳ ۔نفحات الازھارفی خلاصة عبقات الانوار:علامہ سید علی میلانی؛ج ۶ ۔ ۹ ۔
۴ ۔عوالم العلوم:شیخ عبداللہبحرانی؛ج ۱۵/۳ ص ۳۰۷ ۔ ۳۲۷ ۔
۵ ۔بحار الانوار ،علا مہ مجلسی :جلد / ۳۷ ،صفحہ / ۱۸۱ ۔ ۱۸۲ ۔
۶ ۔اثبات الھدات ،شیخ حر عا ملی جلد ۲ صفحہ ۲۰۰ ۔ ۲۵۰ ۔
۷ ۔کشف المھم فی طریق خبر غدیر خم سید ھاشم بحرانی ۔
۸ ۔الطرائف سید ابن طا وس صفحہ / ۳۳ ۔
خطبہ غدیرکے مکمل متن کے مدارک
اسلامی کتابوں کی تاریخ میں:خطبہ غدیر کو مستقل طور پر نقل کرنے میں سب سے پہلی کتاب کہ جس کو شیعہ عالم ،علم نحو کے استاد،شیخ خلیل بن احمد فراھیدی متوفیٰ ۱۷۵ ہجری نے تالیف کیا ہے ملتی ہے ۔کہ جو عنوان”جزء فی خطبةالنبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
یوم الغدیر“
کے تحت پہچانی جاتی ہے اور اسکے بعدبہت سی کتابیں اس سلسلے میں تالیف ہوئی ہیں ۔
خوش قسمتی سے خطبہ غدیر کا مکمل اور مفصل متن ،شیعوںکے معتبر مدارک میں سے طبع شدہ نو کتابوںمیں متصل سند کے ساتھ مذکورہے ۔
ان نو کتابوں کی روایات تین سلسلوںپر ختم ہوتی ہیں :
ایک امام باقرعلیہ السلام کی روایت کا سلسلہ ہے کہ جو معتبر اسناد کے ساتھ چار کتابوں”روضة الواعظین“(شیخ ابن فتال نیشاپوری)
”الاحتجاج“(شیخ طبری)
، ”الیقین“(سیدابن طاووس
اور ”نزھة الکرام ”شیخ محمد بن حسینی رازی)
میں نقل ہوا ہے ۔
دوسرا سلسلہ :حذیفہ بن یمان کی روایت ہے کہ جے متصل سند کے ساتھ سیدابن طاووس نے اپنی کتاب”الاقبال“
”النشر والطیّ“کتاب نقل کیا ہے ۔
تیسرا سلسلہ:زید بن ارقم کی روایت کا ہے کہ جومتصل اسنا د کے ساتھ چار کتابوں ”العُدد القویة“ تالیف شیخ بن یوسف حلی
،”التحصین“تالیف سیدابن طاووس
،”الصراط المستقیم“ تالیف شیخ علی بن یونس بیاضی
اور ”نھج الایمان“ تالیف شیخ علی بن حسین بن جبر
، دونوں نے مورخ طبری کی کتاب”الولایة “ کے مطابق نقل کیا ہے ۔
شیخ حرعاملی نے کتاب”اثبات الھداة“
میں،علامہ مجلسی نے ”بحار الانوار“
میں،سید بحرانی نے کتاب”کشف المھم“
میں اور باقی متاخرین علماء نے خطبہ غدیر کو مکمل طورپر مدارک مذکور سے نقل کیاہے ۔
اس طرح خطبہ غدیر کے متن کامل کی ان شیعہ بزرگوں کے ذریعہ حفاظت ہو ئی اور ہم تک پہنچاہے اور یہ خود عالم اسلام میں شیعوں کےلئے فخر کا مقام ہے ۔
خطبہ غدیر کے متن کامل کی روایت کر نے والے اسناد و رجال
ذیل میں خطبہ غدیر کے پشت پناہ کے اعتبار سے خطبہ غدیر سے مربوط روایات کو بعینہ نقل کیاجارھا
ہے ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت دو سندوں کے ساتھ :
۱ ۔شیخ احمد بن علی بن ابی منصور طبر سی اپنی کتاب ”الاحتجاج “میں لکھتے ہیں :مجہے سید عالم عابد ابو جعفر مھدی بن ابی الحرث الحسینی مر عشی نے ، شیخ ابو علی حسن بن شیخ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی سے بیان کیا انھوں نے شیخ سعید ابو جعفر قدس اللہ روحہ سے انھوں نے ایک جماعت سے اورانھوں نے ابو محمدھارون بن مو سیٰ تلعکبری سے انھوں نے ابو علی محمد بن ھمام سے انھوں نے علی سوری سے انھوں نے اولاد افطس (وہ اللہ کے صالح بندوں میں سے تھے )میں سے ابو محمد علوی سے انھوں نے محمد بن مو سیٰ ھمدانی سے انھوں نے محمد بن خالد طیالسی سے انھوں نے سیف بن عمیرہ و صالح بن عقبہ سے انھوں نے قیس بن سمعان سے انھوں نے علقمہ بن محمد حضرمی سے اورانھوں نے ابو جعفر محمد بن علی (الباقر) علیہ السلام سے نقل کیا ہے ۔
۲ ۔حذیفہ بن یمان کی روایت کی سند اس طرح ہے :
سید بن طاؤ س نے اپنی کتاب ”الاقبال “میں نقل کیا ہے :مولف کتاب ”النشرو الطی “نے احمد بن محمد بن علی المھلب سے انھوں نے شریف ابوالقاسم علی بن محمد بن علی بن القاسم شعرانی سے انھوں نے اپنے والد بزرگوارسے انھوںنے سلمہ بن فضل انصاری سے انھوںنے ابو مریم سے انھوں نے قیس بن حیان (حنان) سے انھوں نے عطیہ سعدی سے انھوںنے حذیفہ بن یمان سے نقل کیا ہے ۔
۳ ۔زید بن ارقم کی روایت کی سند یوں ہے :
سید بن طاؤ س نے اپنی کتاب ”التحصین “میں نقل کیا ہے کہ حسن بن احمد جاوانی نے اپنی کتاب ”نور المھدی والمنجی من الردی “میں ابوالمفضل محمد بن عبد اللہ شیبانی سے نقل کیا ہے انھوں نے ابو جعفر محمد بن حریر طبری اورھارون بن عیسیٰ بن سکین البلدی سے انھوںنے حمید بن الربیع الخزاز سے انھوںنے یزید بن ھارون سے انھوں نے نوح بن مبشر سے انھوں نے ولید بن صالح سے اور انھوں نے زید بن ارقم کی زوجہ اورزید بن ارقم سے نقل کیا ہے ۔
۲ حدیث غدیر کا متن
جس طرح غدیر کا واقعہ اور اس کا خطبہ ایک سند کے ذریعہ ہم تک نہیں پہنچا ہے اسی طرح اس کا متن بھی ٹکڑوں ٹکڑوں میں نقل ہوا ہے اور مختلف وجوھات جیسے تقیہ اور اس کے مانند چیزیں نیز خطبہ کے طولانی ہو نے اوراس کے سب کےلئے مکمل طورپر حفظ نہ ہو نے کی وجہ سے غدیر کے اکثر راویوں نے اس کے گوشوں کو نقل کیا ہے لیکن جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌ مَوْلَاه
“اور دوسرے چند جملوں کو تمام راو یوں نے اشارتاًیا صاف طور پر نقل کیا ہے ۔ ان تمام باتوں کے با وجود خطبہ کا پورا متن ہم تک پہنچا ہے جیساکہ پہلے حصہ میں ہم نے بیان کیا ہے اور صاحب ولایت کا لطف و کرم ہے کہ اسلام کی اس بڑی سند کو ہمارے لئے محفوظ کیا ہے ۔
کلمہ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث
خطبہ غدیر کو اسلام کا دائمی منشور کہا جاتا ہے اور اس میں اسلام کے تمام پہلو کلی طورپر جمع ہیں لیکن حدیث غدیر کے متن میں علمی بحثیں عام طور سے کلمہ ”مولیٰ “کے لغوی اور عرفی معنی کے اعتبار سے ذہنوں کو اپنی طرف مر کوز کئے ہو ئے ہیں ۔
یہ اس لئے ہے کہ حدیث کا اصل محور جملہ”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “
ہے اور جب بھ ی حدیث غدیر کی طرف مختصر طور پر اشارہ کیا جاتا ہے یھی جملہ مد نظر ہو تا ہے ۔راویوں اور محدثین نے بھی اختصار کے وقت اسی جملہ پر اکتفا کی ہے اور اس کے قرائن کو حذف کر دیا ہے ۔
اس سلسلہ میں قابل غور بات یہ ہے کہ خطبہ کے مفصل متن اور خطبہ میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بیان کردہ تمام مطالب کے پیش نظر غدیر میں کلمہ ”مولیٰ “کے معنی اور ولایت سے مراد تمام مخاطبین کےلئے با لکل واضح و روشن تھا اور خطبہ کے متن کامطالعہ کرنے اور خطبہ کی تمام شرطوں کو مکمل طور پر نظر میں رکھنے والے ہر منصف پر یہ معنی اتنے واضح ہو جا ئےں گے کہ اس کو کسی بحث اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ۔
کلمہ”مو لیٰ “کو استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا لفظ جیسے ”امامت “،” خلافت “اور ”وصایت “ اور ان کے مانند الفاظ اس معنی کے حامل نہیں ہیں جو لفظ ”ولایت “میں مو جود ہیں اور یہ مندرجہ بالا الفاظ کے معانی سے بالا ہے ۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
حضرت علی علیہ السلام کی صرف امامت یا خلافت یا وصایت کو بیان کر نا نہیں چا ہتے ہیں بلکہ آپ تو ان کے لو گو ں کے جان و مال و عزت و آبرواور ان کے نفسو ں سے اولیٰ اور ان کے تام الاختیار ہو نے کو بیان کرنا چا ہتے ہیں واضح الفاظ میں آپ ان کی ”ولایت مطلقہ الٰھیہ“یعنی خدا وند عالم کی طرف سے مکمل نیابت کو بیان کرنا چا ہتے تھے اس بنا پر کو ئی بھی لفظ ،لفظ ”مولیٰ “سے فصیح اور بلیغ اورواضح نہیں ہے ۔
اگر کو ئی اور لفظ استعمال کیا جاتا تو غدیر کے دشمن اس کو بڑی آسانی کے ساتھ قبول کرلیتے یا اس کی تردید میں اتنی تلاش و جستجو نہ کرتے ،اور اگر متعدد معنی رکھنے کی بنا ہو تی تو دوسرے لفظوں میں بہت آسان تھی۔وہ اس کلمہ کے معنی سے متعلق شک میں ڈال کر اس کے عقیدتی اور معاشرتی پہلو سے جدا کرنا چاہتے تھے اور اس کو عاطفی اور اخلاقی مو ضوع کی حد تک نیچے لاناچا ہتے تھے ۔
غدیر کے مخالفین ”اولیٰ بنفس “کے وسیع معانی سے خوف کہا تے ہیں وہ اس کے معنی کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں لہٰذا اس طرح ان کا مقابلہ کرنے کےلئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ھم کو اس معنی پر زور دینا چا ہئے، اور اس طرح کے کلمہ کے استعمال کرنے کےلئے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا شکریہ ادا کرنا چا ہئے جس نے ہماری اعتقاد میں ایک محکم و مضبوط بنیاد ڈالی ہے جس سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہو تے ہیں :
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رحلت کے بعد بلا فاصلہ بارہ معصوم اماموںکی امامت و ولایت ۔
ان کی ولایت اور اختیار کا تمام انسانوںپر تمام زمان و مکان اور ہر حال میں عام اور مطلق ہونا ۔
ان کی ولایت کا پروردگار عالم کی مھر سے مستند ہو نا اور یہ کہ امامت ایک منصب الٰہی ہے ۔
صاحبان ولایت کی عصمت کا خدا وندعالم اور رسول کی مھر کے ذریعہ اثبات ۔
لوگوں کا ائمہ علیھم السلام کی ولایت کا عہد کرناان کی طرف سے بالکل رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ولایت کے عہد کے مانند ہے ۔
سب سے اہم بات یہ کہ اس طرح کے بلند مطالب کے اثبات کا لازمہ ،خداوند عالم کی اجازت اور انتخاب کے بغیر ہر ولایت، شرعی ولایت نہیں ہے ،اس طرح ہر اس دین و مذھب کی نفی ہو جا تی ہے جو اھلبیتعليهالسلام
کے علاوہ کسی اور کی ولایت کو تسلیم کرتاہو۔
کلمہ مولیٰ میں بحث کا منشا
کلمہ ”مو لیٰ “کے معنی کے سلسلہ میں بحث اس وقت شروع ہوئی جب شیعوں کے مخالف اکثر راویوں نے حدیث کے صرف اسی جملہ کو نقل کرنے پر اکتفا کیا اوران کے متکلمین نے اپنا دفاع کرنے کےلئے تاریخ کے تمام قرینوں اور مطالب کو چھوڑتے ہو ئے پورے خطبہ سے صرف کلمہ ”مو لیٰ “کا انتخاب کیا اور اس کے معنی کے سلسلہ میں لغوی اور عرفی بحث کرنا شروع کردی ۔
یہ فطری بات ہے کہ ان کے مقابلہ میں علماء شیعہ نے بھی اسی مو ضوع کے سلسلہ میں بحث و جستجو کی ہے اور ان کو لازمی جوابات دئے ہیں اور سب نے نا خواستہ طورپر اسی کلمہ کو مد نظر رکھا ہے ۔
واقعہ غدیر کے ہر پہلو کا دقیق و کامل مطالعہ اور خطبہ کے متن میں دقت کرنے سے کلمہ ”مو لیٰ“ کے معنی واضح ہو نے کے لئے بہت سے جاذب نظر مطالب سامنے آتے ہیں :
پھلی تجلی
اگر ہم پورے خطبہ پر نظر ڈالیں تو یہ مشاہدہ کریں گے کہ اس کے اکثر مطالب کلمہ ”مو لیٰ“کے معنی کی تفسیر و تو ضیح ،اس کے مصداق معین کرنے اور معاشرہ میں”ولایت “کی قدر و قیمت اور اس کے توحید و نبوت و وحی سے مرتبط ہونے کے بارے میں ہے ۔
بنابریں جب پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے کلمہ ”مو لیٰ “کے معنی واضح و روشن فر ما دئے اور غدیرمیں مو جود تمام افراد (جن کے مابین عرب کے بڑے شاعر حسان بھی تھے )صاحب اختیار ہو نے کے معنی سمجھ گئے اور اسی اعتبار سے انھوں نے بیعت کی ، تو پھر اس کا کو ئی مطلب نہیں رہ جاتا کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے کلام کے معنی سمجھنے کےلئے ہم لغت اور اس کے عرفی معنی کی طرف مراجعہ کریں ،چا ہے وہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تفسیر کے مطابق ہوں یا تفسیر کے مطابق نہ ہوں ۔
دوسری تجلی
یہ بات طے شدہ ہے کہ غدیر کے اجتماع اور خطبہ کا اصل مقصد مسئلہ ولایت کا بیان کرنا تھا اور اس وقت تھا جب لوگوں نے خود پیغمبر اکر مصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے اس سلسلہ میں مطالب سنے تھے ۔ان تمام باتوں کے باوجود ظاہر ہے کہ غدیر کا عظیم اجتماع مسئلہ ولایت اور کلمہ مو لا کے معنی میں باقی رہ جانے والے ابہام کو رفع کرنے کے لئے تھا ۔
اس بنا پر یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہو گی کہ اس طرح کے مجمع اور ان حساس شرطوں میں ”مولیٰ “ کے سلسلہ میں گفتگو کی جا ئے جو نہ صرف مطالب کو روشن نہ کرے بلکہ اس میں اور زیادہ ابہام پیدا ہو جائے اور اس ابہام کو رفع کرنے کےلئے لغت اور اس کے مانند کتابوں کی ضرورت پیش آئے اور ہر عقل مند انسان یہ فیصلہ کرتا ہوا نظر آئے کہ اصلا ً اس طرح سے اتنا بڑا جلسہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ !!
تیسری تجلی
اس دن کا اجتماع مسئلہ ولایت میں پیدا ہو نے والے ہر ابہام کو دور کرنے کیلئے تھا ،اور اگریہ بنا قرار دی جا ئے کہ اسی مجلس میں، اس مسئلہ میں بڑے ابہام کاآغازہوااور اس میں ایک ایسا عجیب کلمہ استعمال کیا جا ئے جو بہت پیچید گی کا حامل ہو ،تو ایسی صورت میں تو یہ کہنا ہی منا سب ہو گاکہ: اگراس طرح کی مجلس بر پا ہی نہ ہو تی تو بھی مسئلہ ولایت بہت واضح تھا !!!
اسی مقام پر آیہ قرآن :<وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ
>محقق ہو تی ہے ۔یعنی اگر ابلاغ پیغام اس طرح ہو کہ اس کا مطلب چودہ صدیوںمیں روشن و واضح نہ ہوا ہو تو گو یاحقیقت میں پیغام ابلاغ ہی نہیں ہوا ہے !!
چوتھی تجلی
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انھوں نے اپنی زندگی کی سب سے اہم گفتگو میں ایک ایسا مطلب بیان فرمایا کہ جسے سمجھنے کے لئے چودہ سو سال سے مسلمان اس کے تحت اللفظی معنی کو سمجھنے کی خاطربحث کر رہے ہیں اور ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے تو یہ آپ کی اس فصاحت و بلاغت کے خلاف ہو گا اور کسی پیغمبر نے الٰہی پیغام کواس طرح نہیں پہنچایا ہے !!
پانچویں تجلی
یہ سوال پیدا ہو تا ہے :کہ جب غاصبین خلافت کو خلیفہ معین کرنے کاکو ئی حق نہیں تھاتو پھر بھی وہ اپنا خلیفہ معین کرتے تھے اور کلمہ ”و لی“سے استفادہ کرتے تھے تو کسی شخص نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اس لفظ کے ستّر معنی ہیں ؟جب ابو بکر نے عمر کے لئے لکھا کہ”:ولَّیْتُکُمْ بعدی عمربن خطاب “
تو ولایت کے معنی میں کو ئی ابہام نہیں تھا اور یہ ابہام صرف غدیر خم میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی گفتگومیں ہی کیوں پیش آیا ؟
ظاہر ہے کہ بحث کلمہ کے لغوی معنی اور ابہام میں نہیں ہے بلکہ غدیر کا وزن اتنا زیادہ اور گراں ہے کہ دشمن اس طرح کی مذبوحانہ کو شش کرنے پر مجبور ہو گئے ؟
چھٹی تجلی
اسی طرح ذہن میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ :حدیث غدیر اہل سنت اور شیعوں کے نزدیک متواتر ہے اور بہت کم ایسی حدیثیں ہیں چودہ سو سا ل کے دور ان میں اس کے اتنے زیادہ نقل کرنے والے ہوں اگر اس کے معنی اتنے زیادہ مبھم ہیں کہ آج تک کو ئی بھی اس کے واقعی معنی کو نہیں سمجھ سکا ہے اور وہ اتنے احتمالات کے درمیان اسی طرح سرگردان ہے تو اس حدیث کو کیوں نقل کیا گیا اور یہ بڑے بڑے راوی جن میں سے بہت سے علما ء اور مولفین ہیں تو ان کو اس حدیث کے نقل کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟!حدیث مبھم کو نقل کرنے کی کیا ضرورت ہے !حدیث مبھم کی تو سند کو جمع کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے !تو یہ کہنا چاہئے کہ: ”مو لیٰ “ کے اہم معنی تو سب کےلئے واضح و روشن تھے لہٰذا اس کو نقل کرنے کےلئے اتنا اہتمام کیاگیا ۔
ساتویں تجلی
کو ئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے :ابوبکر ،عمر ،حارث فھری اور کئی افراد نے یہ سوال کیا :”کیا یہ مسئلہ خدا وند عالم کی طرف سے ہے یا خود آپ کی طرف سے ہے ؟“یہ سب اسی وجہ سے تھا کہ وہ کلمہ مو لیٰ سے صاحب اختیار ہونے کے معنی کو اخذ کرچکے تھے لہٰذا انھوں نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے ایسا سوال کرنے کی جسارت کی ورنہ سب جانتے تھے کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تمام گفتار آیہ(
وَمَایَنْطِقُ عَنِ الهَویٰ
)
کے مطابق وحی الٰہی اور خداوند عالم کے کلام کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔
کلمہ مولیٰ کے معنی کا واضح ہونا
بارہ زیادہ اہم قرینے جملہ” مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاهُ “
کے معن ی کے بیان گرہیں کہ ان میں ہر ایک تنھا اس کے اثبات کےلئے کا فی ہے ،یھاں تک کہ اگر ان میں سے ایک بھی نہ ہوتا پھر بھی اس کے معنی واضح تھے ہم ان کو ترتیب کے ساتھ ذیل میں نقل کر رہے ہیں :
پھلا قرینہ
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ”نفس سے اولیٰ ہو نا “کے سلسلہ میں پہلے خدا وند عالم اس کے بعد اپنا ذکر فرمایا پھر اس کے بعد اس کلمہ کو امیر المو منین علیہ السلام کے بارے میں استعمال کیا جبکہ ان کی ولایت مطلقہ کے معنی کسی پر پوشیدہ نہ تھے ۔
دوسرا قرینہ
آیت :(
یَااَیُّهَاالرَّسُوْلُ)
جس کے آخر میں خداوندعالم فرماتا ہے :(
وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَا لَتَهُ
)
یہ کسی بھی حکم الٰہی کے بارے میں نازل نہیں ہو ئی ہے لہٰذا اسلام کا سب سے اہم مسئلہ ہو نا چا ہئے جس کے با رے میں اس طرح کے مطلب کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔
تیسرا قرینہ
بیابان و جنگل میں لوگوں کو روکنا وہ بھی تین دن ،نظم و ترتیب کے ساتھ پروگرام کرنا اور ایک استثنا ئی طویل خطبہ ارشاد فرمانا یہ سارے پروگرام پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زندگی میں بلکہ پوری تاریخ میں بے مثال ہیں یہ سب سے قوی و محکم دلیل ہے کہ مو لیٰ کے معنی بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔
چو تھا قرینہ
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کااس بات کی طرف اشارہ فرمانا کہ میری عمر اختتام کو پہنچ رہی ہے اور میں تمھارے درمیان سے جانے والا ہوں ،یہ اس بات کا بہت ہی اچھا قرینہ ہے کہ مو لیٰ کے معنی آپ کی رحلت کے بعد والے ایام سے متعلق ہو جو وھی امامت اور وصایت ہیں ۔
پانچواں قرینہ
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس پیغام کے پہنچانے پر کئی مرتبہ خدا وندعالم کو اپنا گواہ قرار دیا کہ کسی بھی حکم الٰہی کو پہنچا نے پر آپ نے ایسا نہیں کیا ۔اس کے بعد آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے متعدد مرتبہ لوگوں سے یہ بھی چاھاکہ ”حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا دیں “ایساکسی اور حکم الٰہی کے لئے نہیں فرمایا ۔
چھٹا قرینہ
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا اس بات کی تصریح فرمانا کہ مجہے ڈر ہے کہیں لوگ میری تکذیب نہ کریں حالانکہ کسی دوسرے حکم الٰہی میں آپ کو ایسا خو ف نہیں تھا ۔ظاہر ہے کہ جا نشین کا معین کرناھی وہ حساس نکتہ ہے جسے لوگ آسانی سے قبول نہیں کر سکتے ہیں ۔
ساتواں قرینہ
آیت :(
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ
)
بھ ی مندرجہ بالا آیت کے مانند کسی بھی حکم الٰہی کے سلسلہ میں نازل نہیں ہو ئی اور یقیناً وہ حکم جس کے سلسلہ میں یہ آیت نازل ہو ئی ہے وہ اسلام کا سب سے اہم حکم ہو نا چاہئے جس کے ذریعہ دین کی تکمیل ہو رہی ہے ۔
آٹھواں قرینہ
بیعت کا مسئلہ جو خطبہ کے دوران زبانی طورپر بیان کیا گیا اور خطبہ کے بعد ہاتھ کے ذریعہ انجا م دیا گیا اس کا ولایت کو قبول کرنے کے علاوہ کو ئی دوسرا مطلب نہیں ہوسکتاہے ۔
نواں قرینہ
غدیر خم میں مو جود لوگوں کا بیعت کرنا اور مبارک باد پیش کرنا اور دوست و دشمن کے ذریعہ ہو نے والی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس جملہ سے ولایت اور امارت کے معنی سمجہے تھے اور پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بھی اس طرح کے مطلب کے اخذ کرنے کی نھی نہیں فرما ئی ہے یا ان کی اصلاح نہیں کی ہے ۔
دسواں قرینہ
حسان بن ثابت کے ذریعہ پڑہے جا نے والے اشعار جن کی پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے تا ئید فرما ئی یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے انھوں نے بھی مولیٰ سے”اولیٰ بہ نفس “کے معنی سمجہے تھے ۔چونکہ وہ عرب کے بڑے ادباء اور شعراء میں شمار ہو تا ہے لہٰذا وہ لغوی اعتبار سے دوسرے ہر لغتنامہ پر ترجیح رکھتا ہے چونکہ لغتنامہ میں صرف کلمہ کے معنی بیان کئے جاتے ہیں لیکن اس مورد معین کے کونسے معنی حاضرین کے ذہن میںآتے ہیں یہ خداوندعالم کا لطف و کرم تھا کھاتنا بڑا لغت شناس شاعر غدیر خم میں حا ضر تھا اور اس نے اپنے ذہنی تبادر کااسی مقام پر صریح طور پر اعلان کیا یھاں تک کہ اس کو شعر کی صورت میں ڈھال دیا جو ہمیشہ کے لئے محکم سند ہے ۔
گیار ہواں قرینہ
حارث فھری کی داستان مو لا کے معنی میں شک کر نے والوں کے لئے ایک قسم کا مباھلہ تھا اس نے صاف طور پر یہ سوال کیا کہ کیا ” مولیٰ “کا مطلب یہ ہے کہ علی بن ابی طالب ہمارے صاحب اختیار ہو ں گے ؟اس مباھلہ میںخداوند عالم نے فوراً حق کی نشاندھی کرائی اور حارث پر عذاب نازل فرمایا اور اس کو ھلاک کیا تاکہ ”مو لیٰ “ کا مطلب ”اولیٰ بہ نفس “ثابت ہو جائے ۔
بارہواں قرینہ
حضرت عمر نے وہیں غدیر میں جملہ”اَصْبَحْتَ مَوْلَایَ وَمَوْلیٰ کُلِّ مُومِنٍ وَمُومِنَةٍ“
استعمال کیا جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ دشمن کا اس سے بہتر کو نسا اقرار ہو گا ۔کلمہ” اَصْبَحْتُ “
اس نئے واقعہ ک ی طرف اشارہ ہے اور کلمہ”کُلْ
“
ولایت مطلقہ کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ اقرار اس بات کی علا مت ہے کہ دشمن نے بھی اس کو قبول کیا ہے ۔
تیرہواں قرینہ
علی بن ابی طالب کے سامنے حاضر ہو کرآپعليهالسلام
کو”امیرالمو منین کے عنوان سے سلام کرنے “ کا حکم عنوان بھی مو لیٰ کے لئے امارت کے معنی کو ثابت کرتا ہے اور اس کا عملی اقرار بھی کرنا ہے ۔
معصومین علیھم السلام کے کلام میں مو لیٰ کا مطلب
اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ ہم غدیر میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے کلمہ مو لیٰ “کے معنی کاصاحبان غدیراور ائمہ معصومین علیھم السلام سے سوال کریں :
۱ ۔اس چیز میں اطاعت کرنا جسکو دوست رکھتے ہو یا دوست نہیں رکھتے ہو
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سوال کیاگیا :جس ولایت کے ذریعہ آپ ہماری نسبت ہم سب سے مقدم ہیں وہ کیا چیز ہے ؟آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :جن تمام چیزوںکو پسندیانا پسند کرتے ہو ان سب میں ہمارے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنااور ہماری اطاعت کرنا ۔
۲ ۔حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کےلئے نمونہ
غدیر خم میں جناب سلمان نے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سوال کیا :حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کس ولایت کے مانند ہے ؟آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :ان کی ولایت میری ولایت کے مانند ہے ۔میں جس شخص پر میںاس کی نسبت زیادہ اختیار رکھتا ہوں علی بھی اس کے نفس پر اس سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں ۔
۳ ۔ولایت یعنی امامت
حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام سے سوال کیا گیا :پیغمبر اکر مصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس کلام”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌِّ مَوْلَاهُ “
کاک یا مطلب ہے ؟ آپعليهالسلام
نے فرمایا : آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے لوگوں کو خبر دار کیا کہ میرے بعد علی امام ہیں ۔
۴ ۔یہ بھی سوال ہو سکتا ہے ؟!
ابان بن تغلب نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ
“کے سلسلہ م یں سوال کیا توآپ نے فرمایا :
اے ابو سعید کیا اس مطلب کے سلسلہ میں بھی سوال ہو سکتا ہے !؟ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے لوگوں کو سمجھا یا کہ میرے بعد حضرت علی علیہ السلام میرے مقام پر ہوں گے ۔
۵ ۔حزب اللہ کی علا مت
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ “
کے سلسلہ م یں سوال کیا گیاتو آپعليهالسلام
نے فر مایا :
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
ان کو ایک ایسی نشانی قرار دینا چا ہتے تھے کہ وہ لوگوں کے اختلاف اور تفرقہ کے وقت خداوند عالم کے حزب کی شنا خت ہو سکے ۔
۶ ۔علیعليهالسلام
کے امر کے ہوتے ہوئے لوگوں کو اختیار نہیں ہے
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ :پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں اس فرمان”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌِّ مَوْلَاهُ
کا ک یا مطلب ہے ؟آپعليهالسلام
نے فرمایا :خدا کی قسم یھی سوال آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے بھی کیا گیا تو آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس کے جواب میں فرمایا :
خدا وند عالم میرا مو لا ہے اور وہ مجھ پر مجھ زیادہ سے اختیار رکھتا ہے اور اس کے امر کے ہوتے ہوئے میرا کو ئی امر و اختیار نہیں ہے اور میں مومنوں کا مو لا ہوں اور ان کی نسبت ان پر ان سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں اور میرے امر کے ہوتے ہوئے ان کا کو ئی اختیار نہیں ہے اور جس شخص کا میں صاحب اختیار ہوں اور میرے امر میں اس کا کو ئی دخل نہیں ہے ،علی بن ابی طالب اس کے مو لا ہیں اور اس پر اس کے نفس سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں اور ان کے امر کے ہوتے ہوئے اس شخص کاکوئی امر اور اختیار نہیں ہے ۔
حدیث غدیر کے متن کے سلسلہ میں کتابوں کا تعارف
جیسا کہ حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں کتابوں میں مفصل بحث ہو ئی ہے ،حدیث کے متن کے سلسلہ میں بھی بڑی محکم کتابیں تا لیف کی گئی ہیں ہم ذیل میں ان میں سے بعض کتابوںکا تذکرہ کررہے ہیں :
۱ ۔عبقات الانوار ،میر حا مد حسین ،غدیر سے متعلق جلدیں ۔
۲ ۔الغدیر علا مہ امینی جلد ۱ صفحہ ۳۴۰ ۔ ۳۹۹ ۔
۳ ۔عوالم العلوم جلد ۱۵/۳ صفحہ / ۳۲۸ ۔ ۳۷۹ ۔
۴ ۔فیض القدیر فیمایتعلق بحدیث الغدیر،شیخ عباس قمی ۔
۵ ۔المنھج السوی فی معنی المو لیٰ والولی ،محسن علی بلتستا نی پاکستانی ۔
۶ ۔بحا رالانوار جلد ۳۷ صفحہ ۲۳۵ ۔ ۲۵۳ ۔
۷ ۔الغدیر فی الاسلام ،شیخ محمد رضا فرج اللہ صفحہ / ۸۴ ۔ ۲۰۹ ۔
۸ ۔کتاب ”اقسام المو لیٰ فی اللسان “شیخ مفید ۔
۹ ۔رسالہ فی معنی المو لیٰ،شیخ مفید ۔
۱۰ ۔رسالہ فی الحواب عن الشبھات الواردة لخبر الغدیر،سید مرتضیٰ۔
۱۱ ۔معا نی الاخبار ،شیخ صدوق صفحہ ۶۳ ۔ ۷۳ ۔
اس بات کے مد نظر کہ مفصل استد لالی بحثیں اس کتاب میں بیان کرنا مقصود نہیں ہیں لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ قارئین کرام مذکورہ کتابوں کو ملاحظہ فرما کر اپنے مقصود تک رسا ئی حاصل کرسکتے ہیں ۔
۳ خطبہ غدیر کے کامل متن کو مھیا اور منظم کرنا
خطبہ غدیر کے نسخوں کی ایک دوسرے سے مقایسہ کرنے کی اہمیت و ضرورت
”خطبہ غدیر “کے متن کو مقایسہ کرنے کی اہمیت مندرجہ ذیل طریقوں سے واضح ہو تی ہے :
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
،ائمہ معصومین علیھم السلام اور اصحاب سے نقل شدہ احادیث چودہ صدیاں طے کر کے ہم تک پہنچی ہیں لیکن اس دوران انہیں بڑی مشکلیں جھیلنا پڑیںجیسے تقیہ ،شیعوں کے ثقافتی اور اقتصادی حالات کا نا مساعد ہونا ،کتابوں کو چھاپنے کے امکانات کا نہ ہونا ،نسخہ برداری کرنے میں فنی اصول کی رعایت کا امکان نہ ہونا ،ناسخین کی کتابت کی غلطیاں اور ان کے مانند دو سرے اسباب ہیں جوکسی ایک معین روایت کے سلسلہ میں نسخوں کے اختلاف کا باعث ہوئے ہیں ۔
لہٰذا ایک کتاب کے نسخوں کا مقابلہ اور تطبیق یا ایک حدیث کے متن کا تقابل جو کئی مختلف کتابوں میں نقل ہو ئی ہے یہ متن سے متعلق بہت سی مشکلوں کو حل کردیتا ہے اور دو سرے نسخہ میں جو ابہام و مشکل پا ئی جاتی ہے اس کو برطرف کردیتا ہے اور اس طرح متن کامل طور پر روشن ہو جاتا ہے ۔
”خطبہ غدیر “کے سلسلہ میں تین اہم جہتوںسے مقایسہ کرنا لازم و ضروری ہے :
۱ ۔ایک سر نوشت ساز حدیث کے عنوان سے خود خطبہ کی اہمیت اور اس دائمی منشور کی طرف امت کا لازمی طور پر توجہ دینا جوخطبہ کی عبارت کو واضح کرنے کی ذمہ داری کو بہت مشکل بنا دیتی ہے ۔
۲ ۔متن کا طولا نی ہونااور فطری طور پرطولانی متن میں مبھم اور مشکل الفاظ و معانی بہت زیادہ ہوتے ہیں جن کو مقایسہ کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے ۔
۳ ۔حدیث کا سماعی ہونا ،یعنی حدیث املاء کے طور پر نہیں بیان کی گئی جو راوی ھمت کرکے لکھ لیتا ،بلکہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خطبہ کے دوران اسے ذہن نشین کیا ہے اور اس کے بعد نقل کیا ہے اور یہ بات فطری ہے کہ ایسے مواقع میں حدیث کے کم یا زیادہ ہونے کا امکان زیادہ ہو تا ہے اور مقابلہ کے طریقہ سے حذف شدہ جملے اور کلمات کو ان کے مقام پر لایا جاسکتا ہے ۔
خطبہ غدیر کے مقابلہ کے نتائج
روایات اور نسخوں کی قدرو قیمت کا اندازہ ایک دوسرے سے تقابل کرنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور ھرایک کے علمی مقام ومرتبہ کو بڑی آسانی کے ساتھ مشخص ومعین کیا جاسکتا ہے
خطبہ غدیر کے مختلف نسخوں کے ایک دوسرے سے مقائسہ کرنے سے مندرجہ ذیل نتایئج اخذ ہوتے ہیں :
۱ ۔خطبئہ غدیر کے سلسلہ مےں ذکر شدہ تینوں روایات(امام باقرعليهالسلام
،حذیفہ اور زید بن ارقم کی روایات) متن کے اعتبارسے مکمل طور پر ایک دوسرے کے موافق ہیں سوائے وہ کلمات اور عبارات کے وہ اختلافی موارد جن کا ہر حدیث مےں ہونا ایک عام امر سمجھا جاتاہے حدیث کے طولا نی ہونے کے باوجود اس مطابقت کا ہونا حدیث کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے خاص طور سے اس مطلب کو مدنظر رکھ کر کہ امام باقر علیہ السلام نے اس خطبہ کو علم الٰہی اور غیبی طریقہ سے نقل فرمایا ہے اور آپ بذات خود غدیر خم مےں تشریف نہیں رکھتے تھے حالانکہ حذیفہ اور زیدبن ار قم وشعبہ غدیر کے چشم دید گواہ ہیں اور زید بن ارقم اور حذیفہ اھلسنت کے قابل اعتماد راوی بھی ہیں ۔
۲ ۔تینوں روایات ایک دوسرے کی تائید اور تکمیل کرتی ہیں :اس کا مطلب یہ ہے کہ نسخوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کر تے وقت ایک نسخہ مےں امام باقر علیہ السلام کی روایت میں ایک کلمہ یا جملہ موجود ہے لیکن دوسرے نسخہ مےں مو جود نہیں ہے اور وھی کلمہ یا جملہ زید بن ارقم اور حذیفہ سے مروی روایات مےں بھی ایک میںموجود ہے اور دوسری روایت مےں موجود نہیں ہے جس سے اس مطلب کا پتہ چلتا ہے کہ راویوں اور نا سخین سے غلطی یا کو تا ہی ہوئی ہے اور اس بات کی نشاندھی ہوتی ہے کہ اصل مےں تینوں روایات ایک دوسرے پر منطبق ہوتی ہیں ۔
۳ ۔دو یاتین مقامات جھاں مسئلہ تو لاّ اور تبرا سے متعلق جملہ جو بعض نسخوں مےںموجود ہے تینوں روایات میں اشارہ کے طور پرآیا ہے یا حذف ہوگیا ہے اور یہ بات خطبہ کے راویوں کے تقیہ کے مخصوص حالات کی حکایت کرتی ہے اس مسئلہ کا نمونہ دو اصحاب صحیفہ اور سب سے پہلے بیعت کرنے والوں کانام ہے جو بعض نسخوں میں صاف طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے ۔
۴ ۔کتاب ”الاقبال “مولف سید بن طاؤس نیز کتاب”الصراط المستقیم“
مولف علامہ بیاضی کی ایک روایت میںایک قسم کی تلخیص کی گئی ہے اسکا مطلب یہ ہے یاتو مولف نے اختصار سے کام لیا ہے یااسکے اصل راوی نے مختصر طورپر نقل کیاہے ۔
بھر حال ان دو کتابوں مےں بھی موجود متن کابھی مقابلہ کیا گیا ہے اور ان دونوں کتابوں مےں نسخوں کے مابین اختلافی موارد کو حاشیہ مےں ان کے نام کے ساتھ ذکر کیا گیاہے ۔
۵ ۔کتاب وروضتہ الوا عظین کی روایت کتاب”التحصین “
کے ساتھ بہت سے مقامات پر مشابہت رکھتی ہے اور خاص مقامات پر دوسرے تمام نسخوں سے مختلف ہے ۔
۶ ۔کتاب”نهج الایمان “
کی روایت کتاب”العدد القویه ّ “
کے ساتھ بہت سے مقامات پر مشابہت رکھتی ہے اور اس نے کئی مقامات پر عبارتوں کی مشکل حل کی ہے ۔
۷ ۔کتاب”التحصین “
میں نقل کی گئی روایت کے آخر کے دو صفحہ ناقص ہیں جن کا اس کے مقام پر حاشیہ مےں پور ے متن کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے ۔
۸ ۔روایت کتاب”الیقین “
میں متعدد مقامات پر کچھ اضافہ کیاگیاہے اور اور بعض مقامات پر اس کی جملہ بندی مےں دوسری روایات سے فرق پایا جاتا ہے ۔
غدیر مےں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے تمام فرامین کا جمع کرنا
اس بات کا بیان کردینا نھایت ہی ضروری ہے کہ بعض روایات مےں جو خطبہ یا واقعہ غدیرکاایک حصہ نقل ہواہے اس سے اس میں بعض ایسے مطالب کامشاھد ہ ہوتا ہے جو خطبہ کا مل کے متن مےں موجود نہیں ہیں ان میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے لوگوں سے لئے گئے اقراروں کا تذکرہ ہے اور ان سوا لا ت کے جوابات درج ہیں جولوگوں نے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے دریافت کئے ہیں ۔
اسی طرح پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا اپنی وفات کے نزدیک ہونے کی خبردینا ،لوگوں کے ساتھ اپنے گزشتہ معاملات کا تذکرہ کرنا، قیامت کا تذکرہ اور غدیر کے سلسلہ میں جوابات دینا ہیں جو دوسرے حصہ میں مفصل طور پر بیان کئے گئے ہیں ۔
ان موارد کے سلسلہ میں کئی احتمال پائے جاتے ہیں :
۱ ۔چونکہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مکہ ،عرفات اور منیٰ میں کئی مرتبہ خطبے ارشاد فر مائے ہیں لہٰذا وہ تمام خطبے راویوں کی نظر میں خطبہ حجة الوداع کے عنوان سے موجود اور انھوں نے ان کے بعض حصوںکو خطبہ غدیر کے ایک حصہ کے عنوان سے نقل کیا ہے ۔
۲ ۔جو مطالب متن کامل میں نہیں ہیں ان کے سلسلہ میں یہ احتمال ہے کہ یہ مطالب خطبہ سے پہلے یا خطبہ کے بعد لوگوں کے چھوٹے چھوٹے جلسوں میں بیان ہو ئے ہیں اور پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر خم میں تین دن قیام فرمایا لہٰذا ان تین ایام میںآپ کی زبان اقدس سے متعدد فرامین جا ری ہوئے ہیں ۔
۳ ۔چونکہ نقل کرنے والے کا مقصد اصل خطبہ نقل کرنا تھا یہ مطالب جو سوال و جواب کی شکل میں نقل ہوئے ہیں ان کو متن میں شمار نہیں کیا گیا ہے صرف خطبہ کے متن کو ذکر کیا گیا ہے ۔
۴ ۔مختصر طور پر غدیر میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے فرامین میں سے متن خطبہ کے بعض مطالب خطبہ کے قبل و بعد کے مطالب کے ساتھ مخلوط طور پر نقل کئے گئے ہیں ۔
بھر حال خطبہ کو منظم کرنے میں فقط جن نسخوں میں خطبہ غدیر کو مفصل طور پر ایک متن کی صورت میںنقل کیا گیا ہے ان میں ایک دو سرے سے مقابلہ کیا گیا ہے ۔غدیر میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے تمام فرامین کو جداگانہ طور پر دستہ بندی کرکے کتاب کے دو سرے حصہ میں نقل کیا گیا ہے ۔
خطبہ کے عربی متن کو منظم کرنا
خطبہ غدیر کا عربی متن متعدد مرتبہ مستقل طور پر طبع ہو چکا ہے جو تمام کے تمام کتاب ”الاحتجاج “ کی روایت کے مطابق تھے ۔اس کے مشہور و معروف دو نمو نوں میں سے ایک کتاب”الخطبة المبار کة النبویة “
جس کو علامہ سید حسن حسینی لواسانی نے مرتب و منظم کیا ہے اور دوسراکتاب”خطبة النبی الاکرم فی یوم الغدیر “
ہے جس کو مرحوم استاد عماد زادئہ اصفھانی نے منظم و مرتب کیا ہے ۔
مو جودہ متن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ،حذیفہ بن یمان ،اور زید بن ارقم کی تین روایات کے مطابق ہے ۔ اس کے نو منابع اور مدارک یعنی ” روضة الواعظین،الاحتجاج ،الیقین ،التحصین ،العدد القویة ، الاقبال ،الصراط المستقیم ،نھج الایمان اور نزہة الکرام سے مقائسہ کرنے کے بعد منظم و مرتب کیا گیا ہے اوراسے گیارہ حصوں میں پیش کیا جائیگا اور ہر حصہ سے پہلے اس کا عنوان ذکرکیا جائیگا ۔
مطالعہ کی آسانی اور اس کو حفظ کرنے کیلئے حروف پر حرکات اور کلمات پر اعراب گذاری کی گئی ہے ۔وہ مقامات جو خطبہ کا جزء نہیں ہیں ان کو خاص حروف اور بغیر اعراب کے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ متن کے اہم موارد کو سیاہ حروف میں ذکر کیا گیا ہے ۔خطبہ کے کامل متن کو بچانے کی غرض سے جوجملے قطعی طورپر آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے کلام کا جزء نہیں ہیں ان پر صلی اللہ علیہ وآلہ اور علیہ السلام لکھنے سے احتراز کیا گیا ہے
حاشیہ میں نسخوں میں اختلافات کے مقامات اور ان کی کیفیت بیان کی گئی ہے ۔چھ اصلی مقابلہ کی گئی کتابوں کےلئے مندرجہ ذیل اشاروں کو بیان کیا جا رہا ہے :
الف :الاحتجاج ۔ ب:الیقین ۔ ج:التحصین ۔
د : روضة الواعظین ۔ ھ:العدد القویة ۔ و:نھج الایمان ۔
جن بعض موارد میں نسخوں کا اختلاف کتاب ”الاقبال “،”الصراط المستقیم “اور ”نزھة الکرام “ سے ذکر کیا گیا ہے وہاں پر ان کتابوں کا نام ذکر ہوا ہے اور کوئی رمز نہیں آیا ہے ۔
اس با ت کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ متن نو روایات اور نو کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے حاشیوں اور دوسرے نسخوں کے مطالب اس لئے اہمیت کے حا مل ہیں کہ ہر نسخہ واقع کو نمایاں کرنے میںکردار اداکرسکتا ہے ۔
حاشیے میں قرآنی آیات کے حوالے اور مشکل کلمات اور جملوں کی وضاحت کی گئی ہے ۔
چونکہ خطبہ کا متن عربی زبان میں ہے لہٰذا حاشیے بھی عربی زبان میں ہی ذکر کئے گئے ہیں تا کہ دو زبانوں میں خلط ملط نہ ہو جائے ۔ضمناً خطبہ کے گیارہ حصوں میں سے ہر ایک کے حاشیہ کا نمبر جداگانہ طورپر لکھا گیا ہے ۔
۴ خطبہ غدیر کے ترجمے
”خطبہ غدیر “کا فارسی ،اردو ،ترکی اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے نیز عربی ،فارسی اردواور ترکی زبان کے اشعار میں متعدد مرتبہ منظم کیا گیاہے اور ان میں سے بہت سے ترجمے و اشعار کے مجموعے چھا پے جا چکے ہیں ۔ ہم ذیل میں خطبہ کے نظم و نثر کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :
خطبہ غدیر کا سب سے پہلے فارسی زبان میں ترجمہ ۶ ھ میںایک بلندپایہ کے عالم شیخ محمد بن حسین رازی کے ذریعہ کتاب ”نزھة الکرام “میں انجام پایا اور بعینہ کتاب مذکور میں طبع بھی ہوا ہے ۔
خطبہ غدیر کے فارسی زبان میں چھپے ہوئے تین عنوانوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے :
۱ ۔”خطبہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
در غدیر خم “ مو لف استاد حسین عماد زادہ اصفھانی ۔یہ ترجمہ مختلف صورتوں میں چھاپا گیا ہے کبھی عربی متن اور اس کے نیچے فارسی ترجمہ اور کبھی مستقل فارسی ترجمہ کی صورت میں چھاپا گیا ہے ،اسی طرح ایک مفصل کتاب ”پیامی بزرگ از بزرگ پیامبران “کی صورت میں بھی طبع ہواہے ۔
۲ ۔غدیریہ مولف ملا محمد جعفر بن محمد صالح قاری ۔
۳ ۔غدیر پیوند نا گسستنی رسالت و امامت مو لف شیخ حسن سعید تھرانی مرحوم ۔
خطبہ غدیر کے اردو زبان میں چھاپے گئے تین عنوانوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
۱ ۔”غدیر خم اور خطبہ غدیر“ مو لف علا مہ سید ابن حسن نجفی یہ ترجمہ کراچی میں طبع ہوا ہے ۔
۲ ۔”حدیث الغدیر “مولف علامہ سید سبط حسن جا ئسی یہ ترجمہ ہندوستان میں طبع ہوا ہے ۔
۳ ۔”حجة الغدیر فی شرح حدیث الغدیر“ یہ ترجمہ دھلی میں طبع ہوا ہے ۔
خطبہ غدیر کا ترجمہ آذری ترکی زبان میںکتاب حاضر سے ”غدیر خطبہ سی “کے عنوان سے انجام پایا ہے ۔
انگریزی زبان میں ہونے والے تین ترجموں کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
۱ ۔ what happend in qadir ?(واٹ ھیپنڈ ان غدیر )کتاب حاضر میں مذکور خطبہ غدیر کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔
۲ ۔ the last two khutbas of the last prophet pbuh (دا لاسٹ ٹو خطباز آف دا لاسٹ پرفیٹ )مترجم سید فیض الحسن فیضی جو راولپنڈی پاکستان میں طبع ہوا ہے ۔
۳ ۔ the last sermon of prophet mohammad at ghadir khum (دا لاسٹ سِر مُن آف پرافیٹ محمد ایٹ غدیر خم )مترجم حسین بھا نجی جو تنزانیا میں طبع ہوا ہے ۔
”حدیث غدیر “کی عربی نظم علامہ امینی کی کتاب ”الغدیر “میں جمع کی گئی ہیں اس کتاب کی گیارہ جلدوں میں ”غدیر “سے متعلق عربی اشعار کو جامع طور پر تدوین کیا گیا ہے ۔اسی طرح کتاب ”شعراء الغدیر “جو مو سسہ الغدیر کے ذریعہ دو جلدوں میں تدوین کی گئی ہے ۔
خطبہ غدیرکی فارسی نظم مندرجہ ذیل کتابوں میںذکر کی گئی ہے :
۱ ۔”سرود غدیر “مو لف علامہ سید احمد اشکوری ، ۲ جلد۔
۲ ۔”شعرائے غدیر از گذشتہ تا امروز “تالیف ڈاکٹر شیخ محمد ھادی امینی ۱۰ جلد ۔
۳ ۔”غدیر در شعر فارسی از کسا ئی مروزی تا شھر یار تبریزی “محمد صحتی سردرودی ۔
کچھ فارسی شعراء نے خطبہ غدیر کو فارسی نظم کی صورت میں تحریر کیا ہے ہم ذیل میں چند طبع شدہ نمونو ں کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
۱ ۔خطبة الغدیر مولف مرحوم صغیر اصفھانی جو مرحوم عماد زادہ کی مدد سے تحریر کیا گیا ہے ۔
۲ ۔خطبہ غدیریہ مولف مرزا رفیع ، جس کو ۱۳۱۳ ھ میں ہندوستان میں طبع کیا گیا ہے ۔
۳ ۔ترجمہ (منظوم )خطبہ غدیر خم مولف مرزا عباس جبروتی قمی ۔
۴ ۔”غدیر خم “مولف مرتضیٰ سرفراز جس کو ۱۳۴۸ ھ ش میں طبع کیاگیا ہے ۔
یہ چندکتابیں نمونے کے طور پر پیش کی گئی ہیں اور زیادہ اطلاع کے لئے دو کتاب”الغدیر فی التراث الاسلامی “اور ”غدیر در آئینہ کتاب “ملا حظہ کیجئے ۔
غدیر کے خطبہ کو فارسی میں منظم و مرتب کیاجانا
خطبہ کے تمام تر جمے کتاب ”الاحتجاج “کے مطابق ہیں لیکن مو جودہ ترجمہ کے عربی متن کو مذکورہ نو کتابوں سے مقائسہ کرنے کے بعد انجام دیا گیا ہے اورعلم حدیث کی رو سے اضافات اور عبارتوںمیں تغیر و تبدیلی ہو ئی ہے نیز عقیدتی پہلووں پر بھی رو شنی ڈالی گئی ہے ۔
یہ عربی متن کے مطابق ترجمہ (جس کو ہم چھٹے حصہ میں ذکر کریں گے )گیارہ حصوں میں تقسیم ہوا ہے اور حصہ کے آغاز میںاس کانام بھی ذکرکیا گیا ہے ۔
خطبہ غدیر بلند و بالا مطالب و مفاہیم کا حامل ہے لہٰذا ترجمہ کرنے میں ان مطالب کوروشن و واضح کرنے کا خیال رکھا گیا ہے اور تحت اللفظ ترجمہ کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے البتہ خطبہ کی اہمیت ہو نے کے باوجود بعض مقامات پر تفسیر کی احتیاج ہے جس کو اس کتاب کے آٹھویں حصہ میں کسی حد تک بیان کرنے کی کو شش کی گئی ہے ۔
خطبہ کے متن میں موجودہ آیات کو پہلے عربی صورت میں تحریر کیا گیا اس کے بعد ان کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا ہے ۔
جن مقامات پر یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا کلام نہیں ہے وہاں جملہ ”صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “اور” علیہ السلام “تحریر نہیں کیا گیا ہے ۔
خطبہ میں کلمہ ”معاشر الناس “اور ”الا“بہت زیادہ آیا ہے چونکہ اردو زبان میں اس کے معادل کوئی اچھالفظ نہیں ہے لہٰذا پہلے کلمہ کا ” اے لوگو “اور دو سرے کلمہ کا”آگاہ ہو جاؤ “ترجمہ کیا گیاہے ۔
خطبہ کے اہم مقامات کو سیاہ حرفوں میں تحریر کیا گیا ہے خطبہ کے متن سے خارج موارد کو مشخص طور پر اور مختلف حروف کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے ۔
نسخوں کے جن اختلافی موارد کو عربی متن کے حاشیہ میں تحریر کیا گیا ہے اگر کسی ایسے اہم مطلب کا حامل ہے کہ جس کا متن سے استفادہ نہیں ہو رہا ہے یا عبارت میں اتنا اختلاف ہے جس سے جملہ کے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں اس مطلب کو ترجمہ کے حاشیہ میں ذکر کیا گیاہے لیکن اگر کلمات مےں اختلاف ہو اورنئے اور اہم مطلب کا حامل نہ ہو تو اس کوترجمہ کے حاشیہ میں لکھنے سے خودداری کی گئی ہے الف اور با کی علامات جن کو عربی متن کے حاشیہ میں استعمال کیا گیا ہے ان کویھاں پر بھی استعمال کیا گیا ہے اور وہ چند موارد جو دو کتاب ”الاقبال “اور ”الصراط المستقیم “سے بیان کئے گئے ہیں ان کو علامت کے بغیر ذکر کیا گیا ہے ۔
وہ موارد جن میں عبارت کی وضاحت ضروری ہے یا تاریخ سے مربو ط ہیں ان اس کو حاشیہ میں بیان کیا گیا ہے ۔
ھم امید کرتے ہیں کہ مذکورہ نسخوں سے مقائسہ کیلئے جواقدار بیان کئے گئے ہیں ان کے مد نظر قارئین کرام کےلئے خطبہ غدیر کی اہمیت واضح ہو گئی ہو گی اور وہ بڑی توجہ کے ساتھ اس کا مطالعہ کرینگے ۔
____________________