خطبہ غدیر کااردو ترجمہ
غدیر خم میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خطبہ کا کامل متن
اردو ترجمہ
خدا کی حمد و ثنا
ساری تعریف اس اللہ کےلئے ہے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ہے
وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ہے وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کےے ہوئے ہے اور اپنی قدرت اور اپنے برھان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکہے ہوئے ہے ۔
وہ ہمیشہ سے قابل حمد تھااور ہمیشہ قابل حمد رہے گا ،وہ ہمیشہ سے بزرگ ہے وہ ابتدا کرنے والا دوسرے :خداوند عالم کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہو ئے ہے درحالیکہ خداوند عالم اپنے مکان میں ہے ۔البتہ خداوند عالم کےلئے مکان کا تصور نہیں کیا جا سکتا ،پس اس سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم تمام مو جودات پر اس طرح احاطہ کئے ہوئے ہے کہ اس کے علم کےلئے رفت و آمد اور کسب کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہے وہ پلٹانے والاہے اور ہر کام کی باز گشت اسی کی طرف ہے بلندیوں کا پیدا کرنے والا ،فرش زمین کابچھانے والا،آسمان و زمین پر اختیار رکھنے والا ، پاک ومنزہ ،پاکیزہ
،ملائکہ اور روح کا پروردگار، تمام مخلوقات پر فضل وکرم کرنے والا اور تمام موجودات پر مھربانی کرنے والا ہے وہ ہر آنکھ کو دیکھتا ہے
اگر چہ کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھتی ۔
وہ صاحب حلم وکرم اوربردبار ہے ،اسکی رحمت ہر شے کااحاطہ کئے ہوئے ہے اور اسکی نعمت کا ہر شے پراحسان ہے انتقام میں جلدی نہیں کرتا اور مستحقین عذاب کو عذاب دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا ۔
اسرارکو جانتا ہے اور ضمیروں سے باخبر ہے ،پوشیدہ چیزیں اس پر مخفی نہیں رہتیں ،اور مخفی امور اس پر مشتبہ نہیں ہوتے ،وہ ہر شے پر محیط اور ہر چیز پر غالب ہے ،اسکی قوت ہر شے میں اسکی قدرت ہر چیز پر ہے ،وہ بے مثل ہے اس نے شے کو اس وقت وجود بخشا جب کو ئی چیز نہیں تھی اوروہ زندہ ہے ،
ہمیشہ رہنے والا،انصاف کرنے والا ہے ،اسکے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ،وہ عزیز و حکیم ہے ۔
نگاہوں کی رسائی سے بالاتر ہے اور ہر نگاہ کو اپنی نظر میں رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی کوئی شخص اسکے وصف کو پا نہیں سکتا اور کوئی اسکے ظاہر وباطن کی کیفیت کا ادراک نہیں کرسکتا مگر اتنا ہی جتنا اس نے خود بتادیا ہے ۔
میں گواھی دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ہے جس کی پاکی و پاکیزگی کا زمانہ پر محیط اور جسکا نور ابدی ہے
اسکا حکم کسی مشیر کے مشورے کے بغیر نافذہے ،اور نہ ہی اس کی تقدیرمیں کوئی اسکا شریک ہے ،اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی فرق ہے ۔
جو کچھ بنایا وہ بغیر کسی نمونہ کے بنایا اور جسے بھی خلق کیا بغیر کسی کی اعانت یا فکر ونظر
کی زحمتکے بنایا ۔جسے بنایا وہ بن گیا
اور جسے خلق کیا وہ خلق ہوگیا ۔وہ خدا ہے لا شریک ہے جس کی صنعت محکم اور جس کا سلوک بہترین ہے ۔وہ ایسا عادل ہے جو ظلم نہیں کرتااور ایسا کرم کرنے والا ہے کہ تمام کام اسی کی طرف پلٹتے ہیں ۔
میں گو اھی دیتا ہوں کہ وہ ایسا بزرگ و برتر ہے کہ ہر شے اسکی قدرت کے سامنے متواضع ، تمام چیزیں اس کی عزت کے سا منے ذلیل ،تمام چیزیں اس کی قدرت کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہو ئے ہیں اور ہر چیز اسکی ھیبت کے سامنے خاضع ہے ۔
وہ تمام بادشاہوں کا بادشاہ
،تمام آسمانوں کا خالق ،شمس و قمر پر اختیاررکھنے والا ،یہ تمام معین وقت پرحرکت کر رہے ہیں ،دن کو رات اور رات کو دن پر پلٹانے والا
ہے کہ دن بڑی تیزی کے ساتھ اس کا پیچھا کرتا ہے ،ھرمعاندظالم کی کمر توڑنے والا اورھرسرکش شیطان کو ھلاک کرنے والا ہے ۔
نہ اس کی کوئی ضد ہے نہ مثل،وہ یکتا ہے بے نیاز ہے ،نہ اسکا کوئی باپ ہے نہ بیٹا ،نہ ھمسر۔ وہ خدائے واحد اور رب مجید ہے ،جو چاہتا ہے کرگزرتا ہے جوارادہ کرتا ہے پور ا کردیتا ہے وہ جانتا ہے پس احصا کر لیتاہے ،موت وحیات کا مالک،فقر وغنا کا صاحب اختیار ،ہنسانے والا، رلانے والا،قریب کرنے والا ،دور ہٹادینے والا
عطا کرنے والا
،روک لینے والا ہے ، ملک اسی کے لئے ہے اور حمد اسی کے لئے زیبا ہے اورخیر اسکے قبضہ میں ہے ۔وہ ہر شے پر قادر ہے ۔
رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے ۔
اس عزیزو غفار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ،وہ دعاؤں کا قبول کرنے والا، بکثرت عطا کرنے والا،سانسوں کا شمار کرنے والا اور انسان و جنات کا پروردگار ہے ،اسکے لئے کوئی شے مشتبہ نہیں ہے ۔
وہ فریادیوں کی فریاد سے پریشان نہیں ہوتا ہے اور اسکو گڑگڑانے والوں کا اصرار خستہ حال نہیں کرتا ،نیک کرداروں کا بچانے والا ، طالبان فلاح کو توفیق دینے والامو منین کا مولا اور عالمین کا پالنے والاہے ۔اسکا ہر مخلوق پر یہ حق ہے کہ وہ ہر حال میں اسکی حمد وثنا کرے ۔
ھم اس کی بے نھایت حمد کرتے ہیں اورھمیشہ خوشی ،غمی،سختی اور آسائش میں اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ،میں اس پر اور اسکے ملائکہ ،اس کے رسولوں اور اسکی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں،اسکے حکم کو سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں ،اسکی مرضی کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اسکے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں
چونکہ اسکی اطاعت میں رغبت ہے اور اس کے عتاب کے خوف کی بناء پر کہ نہ کوئی اسکی تدبیر سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی کو اسکے ظلم کا خطرہ ہے ۔
۲ ایک اہم مطلب کے لئے خداوند عالم کا فرمان
میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا ہوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کہیں ایسا نہ ہوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ہے ۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجہے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاہے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ہے اور خدا ہمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ہے ۔
اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ہے :(
بِسم اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ،یٰاایُّهَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّکَ( فی عَلِیٍّ یَعْنی فِی الْخِلاٰفَةِلِعَلِیِّ بْنِ ابی طٰالِبٍ) وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رِسٰالَتَهُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ
)
”اے رسول!جوحکم تمھاری طرف علیعليهالسلام
(یعنی علی بن ابی طالب کی خلافت )کے بارے میں نازل کیاگیا ہے ،اسے پہنچادو،اوراگرتم نے ایسانہ کیا
تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اوراللہ تمہیں لوگوںکے شرسے محفوظ رکہے گا “
ایھا الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوئی کوتا ہی نہیں کی اور میں اس آیت کے نازل ہونے کا سبب واضح کردینا چاہتا ہوں :
جبرئیل تین بار میرے پاس خداوندِسلام
پروردگار(کہ وہ سلام ہے )کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پرٹھھر کر سفیدوسیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالبعليهالسلام
میرے بھائی ،وصی،جانشین اور میرے بعد امام ہیں ان کی منزل میرے لئے ویسی ہی ہے جیسے موسیٰ کےلئے ھارون کی تھی ۔فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا،وہ اللہ و رسول کے بعد تمھارے حاکم ہیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پریہ آیت نازل کی ہے :
(
اِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلاٰةَوَیُوتُوْنَ الزَّکٰاةَ وَهُمْ رٰاکِعُونَ
)
”بس تمھارا ولی اللہہے اوراسکارسول اوروہ صاحبان ایمان جونمازقائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میںزکوٰةادا کرتے ہیں “علی بن ابی طالبعليهالسلام
نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوٰةدی ہے وہ ہر حال میں رضا ء الٰہی کے طلب گار ہیں ۔
میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجہے اس وقت تمھارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت ،فساد برپاکرنے والے ،ملامت کرنے والے اور اسلا م کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوںسے با خبرہوں ،جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ہے کہ”یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے ،اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ پروردگارکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے “۔اسی طرح
منافقین نے بارھا مجہے اذیت پہنچائی ہے یھاں تک کہ وہ مجہے ”اُذُنْ
“”ھر با ت پرکان دھرنے والا“کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ہی ہوںچونکہ اس (علی )کے ہمیشہ میرے ساتھ رہنے،اس کی طرف متوجہ رہنے،اور اس کے مجہے قبول کرنے کی وجہ سے یھاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ہے :
(
وَمِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ هُوَاُذُنٌ،قُلْ اُذُنُ )عَلَی الَّذِیْنَ یَزْعَمُوْنَ اَنَّهُ اُذُنٌ-(خَیْرٍلَکُمْ،یُومِنُ بِاللّٰهِ وَ یُومِنُ لِلْمُومِنِیْنَ
)
اس مقام پر یہ بات بیان کردینا ضروری ہے کہ”یُومِنُ بِاللّٰهِ “
اللہ ”باء “ کے ساتھ اور”یُومِنُ لِلْمُومِنِیْنَ
‘مو منین ”لام کے ساتھ ان دونوں میں یہ فرق ہے کہ پہلے کا مطلب تصدیق کرنا اور دوسرے کا مطلب تواضع اور احترام کا اظھار کرنا ہے ۔
”اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو رسول کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بس کان ہی (کان) ہیں (اے رسول )تم کھدوکہ (کان تو ہیں مگر)تمھاری بھلائی (سننے )کے کان ہیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مو منین( کی باتوں) کا یقین رکھتے ہیں “
ورنہ میں چاہوں تو ”اُذُنْ
“کہنے والوں م یںسے ایک ایک کا نام بھی بتاسکتا ہوں،اگر میں چاہوں تو ان کی طرف اشارہ کرسکتا ہوں اور اگرچا ہوں توتمام نشانیوں کے ساتھ ان کاتعارف بھی کراسکتا ہوں ،لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں ۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضی خدا یھی ہے کہ میں اس حکم کی تبلیغ کردوں۔
اس کے بعد آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس آیت کی تلا وت فرما ئی :
(
یٰاایُّهَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّک (فِیْ حَقِّ عَلِیْ )وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رِسٰالَتَهُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ
)
”اے رسول!جوحکم تمھاری طرف علیعليهالسلام
کے سلسلہ میں نازل کیاگیا ہے ،اسے پہنچادو،اوراگرتم نے ایسانہ کیاتورسالت کی تبلیغ نہیں کی اوراللہ تمہیں لوگوںکے شرسے محفوظ رکہے گا “
۳ بارہ اماموں کی امامت اور ولایت کا قانونی اعلان
لوگو! جان لو(اس سلسلہ میںخبر دار رہواس کو سمجھواور مطلع ہوجاؤ) ہوکہ اللہ نے علی کو تمھارا ولی اور امام بنادیا ہے اور ان کی اطاعت کو تمام مھاجرین ،انصار اورنیکی میں ان کے تابعین اور ہر شھری، دیھاتی، عجمی، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کردیا ہے ۔ہر توحید پرست
کیلئے ان کا حکم جاری،ان کا امر نافذ اور ان کا قول قابل اطاعت ہے ،ان کا مخالف ملعون اور ان کا پیرو مستحق رحمت ہے ۔
جو ان کی تصدیق کرے گا اور ان کی بات سن کر اطاعت کرے گا اللہ اسکے گناہوں کو بخش دے گا
ایھا الناس ! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ہے لہٰذا میری بات سنو ، اور اطاعت کرو اور اپنے پر ور دگار کے حکم کو تسلیم کرو ۔ اللہ تمھارا رب ، ولی اور پرور دگار ہے اور اس کے بعد اس کا رسول محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
تمھارا حاکم ہے جو آج تم سے خطاب کر رہا ہے ۔
اس کے بعد علی تمھارا ولی اور بحکم خدا تمھارا امام ہے اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تمھارے خدا و رسول سے ملاقات کے دن تک با قی رہے گی ۔
حلال وھی ہے جس کو اللہ ،رسول اور انھوں(بارہ ائمہ )نے حلال کیا ہے اور حرام وھی ہے جس کو اللہ،رسول اور ان بارہ اماموں نے تم پر حرام کیا ہے ۔ اللہ نے مجہے حرام و حلال کی تعلیم دی ہے اور اس نے اپنی کتاب اور حلال و حرام میں سے جس چیز کا مجہے علم دیا تھا وہ سب میں نے اس( علیعليهالسلام
)کے حوالہ کر دیا ۔
ایھا الناس علیعليهالسلام
کو دوسروں پر فضیلت دو خداوندعالم نے ہر علم کا احصاء ان میں کر دیا ہے اور کو ئی علم ایسا نہیں ہے جو اللہ نے مجہے عطا نہ کیا ہو اور جو کچھ خدا نے مجہے عطا کیا تھا سب میں نے علیعليهالسلام
کے حوالہ کر دیا ہے ۔
وہ امام مبین ہیں اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :
(
وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنَاهُ فِیْ اِمَامٍ مُبِیْنٍ
)
”ھم نے ہر چیز کا احصاء امام مبین میں کردیا ہے “
ایھا لناس ! علیعليهالسلام
سے بھٹک نہ جانا ، ان سے بیزار نہ ہو جانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دیناکہ وھی حق کی طرف ھدا یت کر نے والے ،حق پر عمل کر نے والے ، باطل کو فنا کر دینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں ،انہیں اس راہ میں کسی ملامت کر نے والے کی ملامت کی پروانہیں ہوتی ۔
وہ سب سے پہلے اللہ و رسول پر ایمان لا ئے اور اپنے جی جا ن سے رسول پرقربان تھے وہ اس وقت رسول کے ساتھ تھے جب لوگوں میں سے ان کے علا وہ کوئی عبادت خدا کر نے والا نہ تھا(انھوں نے لوگوں میں سب سے پہلے نماز قائم کی اور میرے ساتھ خدا کی عبادت کی ہے میں نے خداوند عالم کی طرف سے ان کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم دیاتو وہ بھی اپنی جان فدا کرتے ہو ئے میرے بستر پر سو گئے ۔
ایھا الناس ! انہیں افضل قرار دو کہ انہیں اللہ نے فضیلت دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ انہیں اللہ نے امام بنا یا ہے ۔
ایھا الناس ! وہ اللہ کی طرف سے امام ہیں
اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے بلکہ اللہ یقینااس امر پر مخالفت کر نے والے کے ساتھ ایسا کرے گااور اسے ہمیشہ ھمیشہ کےلئے بدترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ لہٰذا تم ان کی مخالفت
سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہنم میں داخل ہو جا و جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جس کو کفار کےلئے مھیا کیا گیا ہے ۔
ایھا الناس ! خدا کی قسم تمام انبیاء علیھم السلام و مرسلین نے مجہے بشارت دی ہے اور میں خاتم الانبیاء والمر سلین اور زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کےلئے حجت پر ور دگار ہوں جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ زمانہ جا ہلیت جیسا کا فر ہو جا ئے گا اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیدیا اورجس نے ہمارے کسی ایک امام کے سلسلہ میں شک کیااس نے تمام اماموںکے بارے میں شک کیااور ہمارے بارے میں شک کرنے والے کا انجام جہنم ہے ۔
اس بات کا بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ شاید ”جا ہلیت اول کے کفر“ سے دور جاہلیت کے کفر کے درجہ میں سے شدیدترین درجہ ہے ۔
ایھا الناس ! اللہ نے جو مجہے یہ فضیلت عطا کی ہے یہ اس کا کرم اور احسان ہے ۔ اس کے علا وہ کو ئی خدا نہیں ہے اور وہ میری طرف سے تا ابد اور ہر حال میں اسکی حمدو سپاس ہے ۔
ایھا الناس ! علیعليهالسلام
کی فضیلت
کا اقرار کرو کہ وہ میرے بعد ہر مرد و زن سے افضل و بر تر ہے جب تک اللہ رزق نا زل کررھا ہے اور اس کی مخلو ق با قی ہے ۔ جو میر ی اس بات کو رد کرے اور اس کی موافقت نہ کرے وہ ملعون ہے ملعون ہے اور مغضوب ہے مغضوب ہے ۔ جبرئیل نے مجہے یہ خبر دی ہے
کہ پر ور دگار کا ارشاد ہے کہ جو علی سے دشمنی کرے گا اور انہیں اپنا حاکم تسلیم نہ کر ے گا اس پر میری لعنت اور میرا غضب ہے ۔لہٰذا ہر شخص کو یہ دیکھنا چا ہئے کہ اس نے کل کےلئے کیا مھیا کیا ہے ۔اس کی مخالفت کرتے وقت اللہ سے ڈرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ حق سے قدم پھسل جا ئیں اور اللہ تمھا رے اعمال سے با خبر ہے ۔
ایھا الناس ! علیعليهالسلام
وہ جنب اللہ
ہیں جن کاخداوند عالم نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے والے کے با رے میں فرمایا ہے :(
اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یَاحَسْرَتَاعَلیٰ مَافَرَّطَّتُ فِیْ جَنْبِ اللّٰهِ
)
ھائے افسوس کہ م یں نے جنب خداکے حق میں بڑی کو تا ہی کی ہے “
ایھا الناس ! قر آن میں فکر کرو ، اس کی آیات کو سمجھو ، محکمات میں غوروفکر کرو اور متشابھات کے پیچہے نہ پڑو ۔ خدا کی قسم قر آن مجید کے باطن اور اس کی تفسیر
کو اس کے علاوہ اور کو ئی واضح نہ کرسکے گا۔
جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ہے اور جس کے بارے میں یہ بتا رہا ہوں کہ جس کا میں مو لا ہوں اس کا یہ علیعليهالسلام
مو لا ہے ۔ یہ علی بن ابی طالبعليهالسلام
میرا بھائی ہے اور وصی بھی ۔ اس کی ولایت کا حکم اللہ کی طرف سے ہے جو مجھ پر نا زل ہوا ہے ۔
ایھا الناس ! علیعليهالسلام
اوران کی نسل سے میری پاکیزہ اولاد ثقل اصغر ہیں اور قرآن ثقل اکبر ہے
ان میں سے ہر ایک دوسرے کی خبر دیتا ہے اور اس سے جدا نہ ہوگا یھاں تک کہ دونوں حوض کو ثر پر وارد ہوں گے جان لو! میرے یہ فرزند مخلوقات میں خدا کے امین اور زمین میں خدا کے حکام ہیں ۔
آگاہ ہو جاو میں نے میں نے اداکر دیا میں نے پیغام کو پہنچا دیا ۔میں نے بات سنا دی، میں نے حق کو واضح کر دیا،
آگاہ ہو جا و جو اللہ نے کہا وہ میں نے دھرا دیا۔ پھر آگاہ ہو جاو کہ امیر المو منین میرے اس بھا ئی کے علاوہ کو ئی نہیں ہے
اور اس کے علاوہ یہ منصب کسی کےلئے سزا وار نہیں ہے ۔
۴ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ھاتھوں پر امیرا لمومنین علیہ السلام کا تعارف
(اس کے بعد علیعليهالسلام
کو اپنے ھا تھوں پرپازوپکڑکر بلند کیا یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت علی علیہ السلام منبر پر پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے ایک زینہ نیچے کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے دائیں طرف ما ئل تھے گویا دونوں ایک ہی مقام پر کھڑے ہو ئے ہیں ۔
اس کے بعد پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا اور ان کے دونوں ھاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایااورعلیعليهالسلام
کو اتنابلند کیا کہ آپعليهالسلام
کے قدم مبارک آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے گھٹنوں کے برابر آگئے۔
اس کے بعد آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فر مایا :
ایھا الناس !یہ علیعليهالسلام
میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن
اورمیری امت میں سے مجھ پر ایمان لانے والوںکے لئے میرا خلیفہ ہے اور کتاب خدا کی تفسیر کی رو سے بھی میرا جانشین ہے یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا ،اس کی مر ضی کے مطابق عمل کر نے والا ،اس کے دشمنوں سے جھاد کر نے والا، اس کی اطاعت
۔ پر ساتھ دینے والا ، اس کی معصیت سے رو کنے والا ۔
یہ اس کے رسول کا جا نشین اور مو منین کا امیر ،ہدایت کرنے والاامام ہے اورناکثین( بیعت شکن ) قاسطین (ظالم) اور مارقین (خا رجی افرا
سے جھاد کر نے والا ہے ۔
خداوند عالم فر ماتا ہے :(
مٰایُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ
)
”میرے پاس بات میں تبدیلی نہیں ہو تی ہے “ خدایا تیرے حکم سے کہہ رہا ہوں
۔خدا یا علیعليهالسلام
کے دوست کو دوست رکھنا اور علیعليهالسلام
کے دشمن کو دشمن قرار دینا ،جو علیعليهالسلام
کی مدد کرے اس کی مدد کرنا اور جو علیعليهالسلام
کو ذلیل و رسوا کرے تو اس کو ذلیل و رسوا کرناان کے منکر پر لعنت کر نا اور ان کے حق کا انکارکر نے والے پر غضب نا زل کرنا ۔
پر ور دگا را ! تو نے اس مطلب کو بیان کرتے وقت اور آج کے دن علیعليهالسلام
کو تاج ولایت پہناتے وقت علیعليهالسلام
کے بارے میں یہ آیت نازل فر ما ئی:
(
الْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَاتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمْ الاِسْلاٰمَ دیناً
)
”آج میںنے دین کو کا مل کر دیا ،نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیدیا“
(
وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالاِسْلاٰمِ دیناًفَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَفِی الْآخِرَةِمِنَ الْخاسِرینَ
)
”اور جو اسلام کے علاوہ کو ئی دین تلاش کر ے گا وہ دین قبول نہ کیا جا ئے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہو گا “
پرور دگارا میں تجہے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی ۔
۵ مسئلہ امامت پر امت کی توجہ پر زور دینا
ایھا الناس !اللہ نے دین کی تکمیل علیعليهالسلام
کی امامت سے کی ہے ۔لہٰذا جو علیعليهالسلام
اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا ۔اس کے دنیا و آخرت کے تمام اعمال بر باد ہو جا ئیں گے
وہ جہنم میں ہمیشہ ھمیشہ رہے گا ۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کو ئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ انہیں مھلت دی جا ئے گی ۔
ایھا الناس ! یہ علیعليهالسلام
ہے تم میں سب سے زیادہ میری مدد کر نے والا ، تم میں سے میرے سب سے زیادہ قریب تر اور میری نگاہ میں عزیز تر ہے ۔اللہ اور میں دونوں اس سے را ضی ہیں ۔قرآن کریم میں جو بھی رضا کی آیت ہے وہ اسی کے با رے میں ہے اور جھاں بھی یا ایھا الذین آ منوا کہا گیا ہے اس کا پہلا مخا طب یھی ہے قرآن میںھر آیت مدح اسی کے با رے میں ہے ۔ سورہ ھل اتیٰ میں جنت کی شھا دت صرف اسی
کے حق میں دی گئی ہے اور یہ سورہ اس کے علا وہ کسی غیر کی مدح میں نا زل نہیں ہوا ہے ۔
ایھا الناس ! یہ دین خدا کا مدد گار ، رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے دفاع کر نے والا ، متقی ، پا کیزہ صفت ، ھا دی اور مھدی ہے ۔تمھارا نبی سب سے بہترین نبی اور اس کا وصی بہترین وصی ہے اور اس کی اولاد بہترین او صیاء ہیں ۔
ایھا الناس !ھر نبی کی ذریت اس کے صلب سے ہو تی ہے اور میری ذریت علیعليهالسلام
کے صلب سے ہے
ایھا الناس ! ابلیس نے حسد کر کے آدم کو جنت سے نکلوادیا لہٰذا خبر دار تم علی سے حسد نہ کرنا کہ تمھارے اعمال برباد ہو جا ئیں ،اور تمھا رے قد موں میں لغزش پیدا ہو جا ئے ،آدم صفی اللہ ہو نے کے با وجود ایک ترک او لیٰ پر زمین میں بھیج دئے گئے تو تم کیا ہو اور تمھاری
کیا حقیقت ہے ۔تم میں دشمنان خدا بھی پا ئے جا تے ہیں
یاد رکھو علی کا دشمن صرف شقی ہو گا اور علی کا دوست صرف تقی ہو گا اس پر ایمان رکھنے والاصرف مو من مخلص ہی ہو سکتا ہے اور خدا کی قسم علیعليهالسلام
کے با رے میںھی سورہ عصر نا زل ہوا ہے ۔
(
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْر
)
”بنام خدائے رحمان و رحیم ۔قسم ہے عصر کی ،بیشک انسان خسارہ میں ہے “مگر علیعليهالسلام
جو ایمان لا ئے اور حق اور صبر پر راضی ہو ئے ۔
ایھا الناس !میں نے خدا کو گواہ بناکر اپنے پیغام کو پہنچا دیا اور رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ایھا الناس !اللہ سے ڈرو ،جو ڈرنے کا حق ہے اور خبر دار !اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک اس کے اطاعت گذار نہ ہو جا ؤ ۔
۶ منافقوں کی کار شکنیوں کی طرف اشارہ
ایھا الناس !”اللہ ، اس کے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور اس نور پر ایمان لا و جو اس کے ساتھ نا زل کیا گیا ہے ۔قبل اس کے کہ خدا کچھ چھروں کو بگا ڑ کر انہیں پشت کی طرف پھیر دے یا ان پر اصحاب سبت کی طرح لعنت کرے “
جملہ ” جو شخص اپنے دل میں علیعليهالسلام
سے محبت اور بغض کے مطابق عمل کرتا ہے “کی آٹھویں حصہ کے دوسرے جزء میں وضاحت کی جا ئے گی ۔
خدا کی قسم اس آیت سے میرے اصحاب کی ایک قوم کا قصد کیا گیا ہے کہ جن کے نام و نسب سے میں آشنا ہوں لیکن مجہے ان سے پردہ پوشی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔پس ہر انسان اپنے دل میں حضرت علی علیہ السلام کی محبت یا بغض کے مطابق عمل کرتاہے ۔
ایھا الناس !نور کی پہلی منزل میں ہوں
میرے بعد علیعليهالسلام
اور ان کے بعد ان کی نسل ہے اور یہ سلسلہ ا س مھدی قائم تک بر قرار رہے گاجو اللہ کاحق اورھما راحق حا صل کر ے گا
چو نکہ اللہ نے ہم کو تمام مقصرین ،معا ندین ،مخا لفین ،خا ئنین ،آثمین اور ظالمین کے مقابلہ میں اپنی حجت قرار دیا ہے ۔
ایھا الناس !میں تمہیں با خبر کرنا چا ہتا ہوں کہ میں تمھا رے لئے اللہ کا نما ئندہ ہوں جس سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں ۔ تو کیا میں مر جا وں یا قتل ہو جا ؤں تو تم اپنے پرا نے دین پر پلٹ جا و گے ؟ تو یاد رکھو جو پلٹ جا ئے گا وہ اللہ کا کو ئی نقصان نہیں کرے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دینے والا ہے ۔آگاہ ہو جا و کہ علیعليهالسلام
کے صبر و شکر کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بعد میری اولا د کو صابر و شاکر قرار دیا گیا ہے ۔جو ان کے صلب سے ہے ۔
ایھا الناس !مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھوبلکہ خدا پر بھی احسان نہ سمجھوکہ وہ تمھارے اعمال کو نیست و نابود کردے اور تم سے ناراض ہو جا ئے ،اور تمہیں آگ اور”پگھلے ہوئے “تانبے کے عذاب میں مبتلا کردے تمھارا پروردگار مسلسل تم کو نگاہ میں رکہے ہو ئے ہے ۔
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ”پھلے صحیفہ ملعونہ “کی طرف اشارہ فر مایا ہے جس پرمنافقین کے پانچ بڑے افراد نے حجة الوداع کے موقع پر کعبہ میں دستخط کئے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد خلافت ان کے اہل بیت علیھم السلام تک نہیں پہنچنی چا ہئے اس سلسلہ میں اس کتاب کے تیسرے حصہ کے دوسرے جزء کی طرف رجوع کیجئے “
ایھا الناس !عنقریب میرے بعد ایسے امام آئیں گے جو جہنم کی دعوت دیں گے اور قیامت کے دن ان کا کو ئی مدد گار نہ ہو گا ۔اللہ اور میں دونوں ان لوگوں سے بیزار ہیں ۔
ایھا الناس !یہ لوگ اور ان کے اتباع و انصار سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہو ں گے اور یہ متکبر لوگو ں کا بد ترین ٹھکانا ہے ۔آگاہ ہو جا و کہ یہ لوگ اصحاب صحیفہ
ہیں لہٰذاتم میں سے ہر ایک اپنے صحیفہ پر نظر رکہے ۔
راوی کہتا ہے :جس وقت پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنی زبان مبارک سے ”صحیفہ ملعونہ “کا نام ادا کیا اکثر لوگ آپ کے اس کلام کا مقصد نہ سمجھ سکے اور اذھان میں سوال ابھر نے لگے صرف لوگوں کی قلیل جما عت آپ کے اس کلام کا مقصد سمجھ پائی ۔
ایھا الناس !آگاہ ہو جا و کہ میں خلافت کو امامت اوروراثت کے طورپر قیامت تک کےلئے اپنی اولاد میں امانت قرار دے کر جا رہا ہوں اور مجہے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے اس کی تبلیغ کر دی ہے تا کہ ہر حا ضر و غائب ،مو جود و غیر مو جود ، مو لود و غیر مو لود سب پر حجت تمام ہو جا ئے ۔ اب حا ضر کا فریضہ ہے کہ قیامت تک اس پیغام کوغائب تک اورماں باپ اپنی اولاد کے حوالہ کر تے رہیں ۔
میرے بعد عنقریب لوگ اس امامت(خلافت) کو باشاہت سمجھ کرغصبی
غصب کرلیں گے ،خدا غا صبین اور تجاوز کرنے والوں پر لعنت کرے ۔یہ وہ وقت ہوگا جب (اے جن و انس
تم پر عذاب آئے گا آگ اور(پگھلے ہوئے) تانبے کے شعلے بر سا ئے جا ئیں گے جب کو ئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہو گا ۔
ایھا الناس !اللہ تم کو انہیں حالات میں نہ چھو ڑے گا جب تک خبیث اور طیب کو الگ الگ نہ کر ایھا الناس !کوئی قریہ
ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ (اس میں رہنے والوںکو آیات الٰہی کی تکذیب کی بنا پر) ھلا ک کر دےگااور اسے حضرت مھدی کی حکومت کے زیر سلطہ لے آئے گا یہ اللہ کا وعدہ ہے اوراللہ صا دق الوعد ہے ۔
ایھا الناس !تم سے پہلے اکثر لوگ ھلاک ہو چکے ہیں اور اللہ ہی نے ان لوگوں کو ھلاک کیا ہے
اور وھی بعد والوںکو ھلا ک کر نے والا ہے ۔خداوند عالم کا فرمان ہے :
(
الَمْ نُهْلِکِ الْاوَّلینَ،ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْآخِرینَ،کَذٰلِکَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمینَ،وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبینَ
)
”کیا ہم نے ان کے پہلے والوں کو ھلاک نہیں کردیا ہے پھر دوسرے لوگوں کو بھی انہیں کے پیچہے لگا دیں گے ہم مجرموں کے ساتھ اسی طرح کا بر تاو کرتے ہیں اور آج کے دن جھٹلانے والوں کے لئے بربادی ہی بربادی ہے “
ایھا الناس !اللہ نے مجہے امر و نھی کی ہدایت کی ہے اور میں نے اللہ کے حکم سے علیعليهالسلام
کوامر ونھی کیا ہے ۔ وہ امر و نھی الٰہی سے با خبر ہیں ۔
ان کے امر کی اطاعت کرو تاکہ سلا متی پا و ، ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پا و ان کے روکنے پر رک جا و تاکہ راہ راست پر آجا و ۔ان کی مر ضی پر چلو اور مختلف راستے تمہیں اس کی راہ سے منحرف کردیں گے ۔
۷ اہل بیت علیھم السلام کے پیرو کار اور ان کے دشمن
میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کی اتباع کا خدا نے حکم دیا ہے ۔
پھر میرے بعد علیعليهالسلام
ہیں اور ان کے بعد میری اولاد جو ان کے صلب سے ہے یہ سب وہ امام ہیں جو حق کے ساتھ ہدایت کر تے ہیں اور حق کے ساتھ انصاف کر تے ہیں ۔
اس کے بعد آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس طرح فرمایا :(
بسم الله الرحمٰن الرحیم، الحمد لله رب العا لمین
)
سورہ الحمد کی تلاوت کے بعد آپ نے اس طرح فرمایا :
خدا کی قسم یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے با رے میں نا زل ہوا ہے ، اس میں اولاد کےلئے عمو میت بھی ہے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ہے ۔
یھی خدا کے دوست ہیں جن کےلئے نہ کوئی خو ف ہے اور نہ کو ئی حزن ! یہ حزب اللہ ہیں جو ہمیشہ غالب رہنے والے ہیں ۔
آگاہ ہو جا و کہ دشمنان علی ہی اہل تفرقہ ، اہل تعدی اور برادران شیطان ہیں جواباطیل کوخواھشات نفسانی کی وجہ سے ایک دوسرے تک پہونچا تے ہیں ۔
آگاہ ہو جا و کہ ان کے دوست ہی مو منین بر حق ہیں جن کا ذکر پر ور دگار نے اپنی کتاب میں کیا ہے :
(
لَاتَجِدُ قَوْماًیُومِنُوْنَ بِاللهِ والْیَوْمِ الْآخِرِیُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّاللهَ وَرَسُوْلَه وَلَوْ کَانُوْااٰبَائَهُمْ اَوْاَبْنَائَهُمْ اَوْاِخْوَانَهُمْ اَوْعَشِیْرَتَهُمْ ،اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِم الاِیْمَانَ
)
”آپ کبھی نہ دیکہیں گے کہ جوقوم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رہی ہے جو اللہ اور رسول سے دشمنی کر نے والے ہیں چا ہے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرة اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے “
آگاہ ہو جا و کہ ان (اہل بیت )کے دوست ہی وہ افراد ہیں جن کی توصیف پر ور دگار نے اس انداز سے کی ہے :(
الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَلَمْ یَلْبَسُوْااِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُوْن
)
” جو لوگ ایمان لا ئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا انہیں کےلئے امن ہے اور وھی ہدایت یا فتہ ہیں “
آگاہ ہو جا ؤ کہ ان کے دوست وھی ہیں جو ایمان لائے ہیں اور شک میں نہیں پڑے ہیں ۔
آگاہ ہوجاو کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جوجنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل ہو ں گے اور ملا ئکہ سلام کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے کہ تم طیب و طاھر ہو ، لہٰذا جنت میں ہمیشہ ھمیشہ کےلئے داخل ہو جا و “
آگاہ ہو جا و کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جن کے لئے جنت ہے اور انہیں جنت میں بغیر حساب رزق دیاجائیگا ۔
آگاہ ہو جا و کہ ان (اہل بیت ) کے دشمن ہی وہ ہیں جوآتش جہنم کے شعلوں میںداخل ہوں گے۔
آگاہ ہو جا و کہ ان کے دشمن وہ ہیں جوجہنم کی آواز اُس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک
رہے ہوں گے اور وہ ان کو دیکہیں گے ۔
آگاہ ہو جا و کہ ان کے دشمن وہ ہیں جن کے با رے میں خدا وند عالم فر ماتا ہے :
(
کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَعَنَتْ اُخْتَهَا
)
” (جہنم میں) داخل ہو نے والاھر گروہ دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا ۔۔۔ ‘ ‘
آگاہ ہو جا و کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں جن کے با رے میں پر ور دگار کا فرمان ہے :
(
کُلَّمَا اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ سَالَهُمْ خَزْنَتُهَااَلَمْ یَاتِکُمْ نَذِیْرٌ. قَالُوْابَلَیٰ قَدْجَاءَ نَانَذِیْرٌفَکَذَّبْنَاوَقُلْنَامَانَزَّلَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّافِیْ ضَلَالٍ کَبِیْرٍ. اَلَا فَسُحْقاًلِاَصْحَا بِ السَّعِیْرِ
)
” جب کوئی گروہ داخل جہنم ہو گا تو جہنم کے خازن سوال کریں گے کیا تمھا رے پاس کو ئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ؟تو وہ کہیں گے آیا تو تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلا دیا اور یہ کہہ دیا کہ اللہ نے کچھ بھی نا زل نہیں کیا ہے تم لوگ خود بہت بڑی گمرا ہی میں مبتلا ہو۔۔۔آگاہ ہوجا ؤ تو اب جہنم والوں کےلئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے “
آگاہ ہو جا و کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ہیں
اور انہیں کےلئے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔
ایھا الناس!دیکھو آگ کے شعلوں اوراجر عظیم کے ما بین کتنا فا صلہ ہے ۔
ایھا الناس!ہمارا دشمن وہ ہے جس کی اللہ نے مذمت کی اور اس پر لعنت کی ہے اور ہمارا دوست وہ ہے جس کی اللہ نے تعریف کی ہے اور اس کو دوست رکھتا ہے ۔
ایھا الناس!آگاہ ہو جا و کہ میں ڈرانے والا ہو ں اور علیعليهالسلام
بشارت دینے والے ہیں ۔
ایھا الناس!میں انذار کرنے والا اور علیعليهالسلام
ہدایت کرنے والے ہیں ۔
ایھا الناس!میں پیغمبر ہوں اور علیعليهالسلام
میرے جا نشین ہیں ۔
ایھا الناس!آگاہ ہو جا و میں پیغمبر ہوں اور علیعليهالسلام
میرے بعد امام اور میرے وصی ہیں اوران کے بعد کے امام ان کے فرزند ہیں آگاہ ہو جاو کہ میں ان کا باپ ہوں اور وہ اس کے صلب سے پیدا ہو نگے۔
۸ حضرت مھدی عج۔۔
یاد رکھو کہ آخری امام ہمارا ہی قائم مھدی ہے ، وہ ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے ،وھی قلعوں کو فتح کر نے والا اور ان کو منھدم کر نے والا ہے ،وھی مشرکین کے ہر گروہ پر غالب اور ان کی ہدایت کر نے والا ہے ۔
آگاہ ہوجا ؤ وھی اولیاء خداکے خون کا انتقام لینے والااور دین خدا کا مدد گار ہے جان لو!کہ وہ عمیق سمندر سے استفادہ کر نے والا ہے ۔
عمیق دریا سے مراد میں چند احتمال پائے جا تے ہیں ،منجملہ دریائے علم الٰہی ،یا دریائے قدرت الٰہی ،یا اس سے مراد قدرتوں کا وہ مجمو عہ ہے جو خداوند عالم نے امام علیہ السلام کو مختلف جہتوں سے عطا فر مایا ہے “
وھی ہر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ہر جا ھل پر اس کی جھالت کا نشانہ لگا نے والا ہے ۔
آگاہ ہو جا و کہ وھی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ہے ، وھی ہر علم کا وارث اور اس پر احا طہ رکھنے والا ہے ۔
آگاہ ہو جا ؤوھی پرور دگار کی طرف سے خبر دینے والا اورآیات الٰہی کو بلند کر نے والا ہے
وھی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ہے ۔
اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ہے ۔
وھی حجت با قی ہے اور اس کے بعد کو ئی حجت نہیں ہے ، ہر حق اس کے ساتھ ہے اور ہر نور اس کے پاس ہے ، اس پر کو ئی غالب آنے والا نہیں ہے وہ زمین پر خدا کا حاکم ، مخلوقات میں اس کی طرف سے حَکَم اور خفیہ اور علانیہ ہر مسئلہ میں اس کا امین ہے ۔
۹ بیعت کی وضاحت
ایھا الناس!میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا ،اب میرے بعد یہ علی تمہیں سمجھا ئیں گے
آگاو ہو جا و ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو ،
اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو ، میں نے اللہ کے ساتھ بیعت کی ہے اور علیعليهالسلام
نے میری بیعت کی ہے اور میں خدا وند عالم کی جا نب سے تم سے علی(ع)کی بیعت لے رہا ہوں (خدا فرماتا ہے )
:(
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَایُبَایِعُوْنَ اللهَ یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ فَمَنْ نَکَثَ فَاِنَّمَایَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِه وَمَنْ اَوْفَیٰ بِمَاعَاهَدَ عَلَیْهُ اللهَ فَسَیُوْتِیْهِ اَجْراًعَظِیْماً
)
” بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کر تے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کر تے ہیں اور ان کے ھا تھوں کے اوپر اللہ ہی کا ھا تھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کر تا ہے اور جو عہد الٰہی کو پورا کر تا ہے خدا اسی کو اجر عظیم عطا کر ے گا “
۱۰ حلال و حرام ،واجبات اور محرمات
ایھا الناس!یہ حج اور عمرہ اور یہ صفا و مروہ سب شعا ئر اللہ ہیں (خدا وند عالم فر ماتا ہے :
(
فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِعتَمَرَفَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا
)
”لہٰذا جوشخص بھی حج یا عمرہ کر ے اس کےلئے کو ئی حرج نہیں ہے کہ وہ ان دونوں پھا ڑیوں کا چکر لگا ئے “
ایھا الناس!خا نہ خدا کا حج کرو جو لوگ یھاں آجاتے ہیں وہ بے نیاز ہو جا تے ہیں خوش ہوتے ہیں اور جو ا س سے الگ ہو جا تے ہیں وہ محتاج ہو جا تے ہیں ۔
ایھا الناس!کو ئی مو من کسی مو قف(عرفات ،مشعر ،منی ) میں وقوف
ہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے گناہ معاف کر دیتا ہے ،لہٰذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے
ایھا الناس!حجا ج کی مدد کی جاتی ہے اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معا وضہ دیا جاتا ہے اور اللہ محسنین کے اجر کو ضا ئع نہیں کرتا ہے ۔
ایھا الناس!پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو ،اور جب وہ مقدس مقامات سے واپس ہو تو مکمل توبہ اور ترک گنا ہ کے ساتھ ۔
ایھا الناس!نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے
اگر وقت زیادہ گذر گیا ہے اور تم نے کو تا ہی و نسیان سے کام لیا ہے تو علیعليهالسلام
تمھا رے ولی اور تمھارے لئے بیان کر نے والے ہیں جن کو اللہ نے میرے بعداپنی مخلوق پرامین بنایا ہے اور میرا جا نشین بنایا ہے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔
وہ اور جو میری نسل سے ہیں وہ تمھارے ہر سوال کا جواب دیں گے اور جو کچھ تم نہیں جا نتے ہو سب بیان کر دیں گے ۔
آگاہ ہو جاو کہ حلا ل و حرام اتنے زیادہ ہیں کہ سب کا احصاء اور بیان ممکن نہیں ہے ۔مجہے اس مقام پر تمام حلال و حرام کی امر و نھی کرنے اور تم سے بیعت لینے کا حکم دیا گیاہے اور تم سے یہ عہد لے لوں کہ جو پیغام علیعليهالسلام
اور ان کے بعد کے ائمہ کے با رے میں خدا کی طرف سے لا یا ہوں ،تم ان سب کا اقرار کرلوکہ یہ سب میری نسل اور اس (علیعليهالسلام
)سے ہیں اور امامت صرف انہیں کے ذریعہ قائم ہوگی ان کا آخری مھدی ہے جو قیا مت تک حق کے ساتھ فیصلہ کر تا رہے گا “
ایھا الناس!میں نے جس جس حلال کی تمھارے لئے رہنما ئی کی ہے اور جس جس حرام سے روکا ہے کسی سے نہ رجوع کیا ہے اور نہ ان میں کو ئی تبدیلی کی ہے لہٰذا تم اسے یاد رکھو
اور محفوظ کرلو، ایک میں پھر اپنے لفظوں کی تکرار کر تا ہوں :نماز قا ئم کرو ، زکوٰة ادا کرو ، نیکیوں کا حکم دو ، برا ئیوں سے روکو ۔
اور یہ یاد رکھو کہ امر با لمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جا و اور جو لوگ حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچا و اور اس کے قبول کر نے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو
اس لئے کہ یھی اللہ کا حکم ہے اور یھی میرا حکم بھی ہے
اور امام معصوم کو چھو ڑ کر نہ کو ئی امر با لمعروف ہو سکتا ہے اور نہ نھی عن المنکر ۔
ایھا الناس!قرآن نے بھی تمہیں سمجھا یا ہے کہ علیعليهالسلام
کے بعد امام ان کے فرزند ہیں اور میں نے تم کو یہ بھی سمجھاد یا ہے کہ یہ سب میری اور علی کی نسل سے ہیں جیساکہ پر ور دگار نے فر مایا ہے :
(
وَجَعَلَهَاکَلِمَةً بَاقِیَةً فِیْ عَقَبِهِ
)
” اللہ نے (امامت )انہیں کی اولاد میں کلمہ با قیہ قرار دیا ہے “اور میں نے بھی تمہیں بتا دیا ہے کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رہو گے ہر گزگمراہ نہ ہو گے
ایھا الناس!تقویٰ اختیار کرو تقویٰ۔قیا مت سے ڈروجیسا کہ خدا وندعالم نے فر مایا ہے :
(
اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ
)
” زلزلہ قیامت بڑی عظیم شی ہے “
موت ، قیامت ،حساب، میزان ،اللہ کی با رگاہ کا محا سبہ ،ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وہاں نیکیوں پر ثواب ملتا ہے
اور برا ئی کر نے والے کا جنت میں کو ئی حصہ نہیں ہے ۔
۱۱ قانونی طور پر بیعت لینا
ایھا الناس!تمھاری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک ایک میرے ہاتھ پر ہاتھ ما ر کر بیعت نہیں کر سکتے ہو ۔لہٰذا اللہ نے مجہے حکم دیا ہے کہ میں تمھاری زبا ن سے علیعليهالسلام
کے امیر المو منین
ہو نے اور ان کے بعد کے ائمہ جو ان کے صلب سے میری ذریت ہیں سب کی امامت کا اقرار لے لوں اور میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میرے فرزند ان کے صلب سے ہیں ۔
لہٰذا تم سب مل کر کہو :ھم سب آپ کی بات سننے والے ، اطاعت کر نے والے ، راضی رہنے والے اور علیعليهالسلام
اور اولاد علیعليهالسلام
کی امامت کے با رے میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ہے اس کے سا منے سر تسلیم خم کر نے والے ہیں ۔ھم اس بات پر اپنے دل ، اپنی روح ، اپنی زبان اور اپنے ھا تھوں سے آپ کی بیعت کر رہے ہیں اسی پر زندہ رہیں گے ، اسی پر مریں گے اور اسی پر دو بارہ اٹہیں گے ۔نہ کو ئی تغیر و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا ہو ں گے ، نہ عہد سے پلٹیں گے نہ میثاق کو تو ڑیں گے ۔
اورجن کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ وہ علی امیر المومنین اور ان کی اولاد ائمہ آپ کی ذرّیت میںسے ہیں ان کی اطاعت کریں گے ۔جن میںسے حسن وحسین ہیں اور ان کے بعد جن کو اللہ نے یہ منصب دیا ہے اور جن کے بارے میں ہم سے ہمارے دلوں،ہماری جانوںہماری زبانوں ہمارے ضمیروں اور ہمارے ھاتھوںسے عھدوپیمان لے لیاگیا ہے ہم اسکا کوئی بدل پسند نہیں کریں گے ،اور اس میں خدا ہمارے نفسوں میں کوئی تغیر و تبدل نہیں دیکہے گا۔
ھم ان مطالب کو آپ کے قول مبارک کے ذریعہ اپنے قریب اور دور سبھی اولاد اور رشتہ داروں تک پہنچا دیں گے اورھم اس پر خدا کو گواہ بناتے ہیں اور ہماری گواھی کے لئے اللہ کافی ہے اور آپ بھی ہمارے گواہ ہیں ۔
ایھاالناس!اللہ سے بیعت کرو ،علیعليهالسلام
امیر المومنین ہونے اور حسن وحسین اور ان کی نسل سے باقی ائمہ کی امامت کے عنوان سے بیعت کرو۔جو غداری کرے گا اسے اللہ ھلاک کردے گا اور جو وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا اور جو عہد کو توڑدے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور جو شخص خداوند عالم سے باندہے ہوئے عہد کو وفا کرے گا خدوند عالم اس کو اجر عظیم عطا کرے گا ۔
ایھاالناس !جومیں نے کہا ہے وہ کہو اور علی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کرو،
اور یہ کہو کہ پرودگار ہم نے سنا اور اطاعت کی ،پروردگاراھمیں تیری ہی مغفرت چاہئے اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے اور کہو :حمدو شکرہے اس خداکاجس نے ہمیں اس امر کی ہدایت دی ہے ورنہ اسکی ہدایت کے بغیر ہم راہ ہدایت نہیں پاسکتے تھے ۔
ایھاالناس!علی ابن ابی طالب کے فضائل اللہ کی بارگاہ میں اور جواس نے قرآن میں بیان کئے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ میں ایک منزل پر شمار کر اسکوں۔لہٰذا جو بھی تمہیں خبر دے اور ان فضائلسے آگاہ کرے اسکی تصدیق کرو۔
یاد رکھو جو اللہ ،رسول،علی اور ائمہ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک ہوگا ۔
ایھا الناس!جو علی کی بیعت ،ان کی محبت اور انہیں امیر المومنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں گے وھی جنت نعیم میں کامیاب ہوں گے ۔ایھالناس!وہ بات کہو جس سے تمھارا خدا راضی ہوجائے ورنہ تم اور تمام اہل زمین بھی منکر ہوجائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتے۔
پرودگارا !جو کچھ میں نے ادا کیا ہے اور جس کا تونے مجہے حکم دیا ہے اس کے لئے مومنین کی مغفرت فرما اور منکرین (کافرین )پر اپنا غضب نازل فرمااور ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے ۔
ب : ”عَرَّفَھَا “ تشدید کے ساتھ ،یعنی جو شخص امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل بیان کرے اور ان کا لوگوں کو تعارف کرائے تو اس کی تصدیق کرو ۔
”ب “ میں عبارت اس طرح ہے :ایھا الناس ،فضائل علیعليهالسلام
اور جو کچھ خداوند عالم نے ان سے مخصوص طور پر قرآن میں بیان کیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ میں ایک جلسہ میں بیٹھ کر سب کو بیان کروں ،لہٰذا جو کو ئی اس بارے میں تم کو خبر دے اس کی تصدیق کرو ۔
____________________