اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 54229
ڈاؤنلوڈ: 4479

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54229 / ڈاؤنلوڈ: 4479
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہدایت کے لئے جدو جہد

خداوند عالم قرآن میں فرماتاہے :

البتہ اس شخص کے لیے میری مغفرت اور بخشش زیادہ ہے جو توبہ کرے مجھ پر ایمان لائے اور نیک بن جائے۔( طہ/ ۸۲)

یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ توبہ، ایمان اور نیک عمل خدا کی خوشنودی و مغفرت کےلیے کافی نہیں بلکہ ہدایت بھی ساتھ ہونی چاہئے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

خدواند عالم کسی کی مغفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ توبہ کرے، ایمان لائے، نیک بن جائے ، اور ہم اہل بیت(ع) کی ولایت سے ہدایت پائے۔ بحار الانوار/ج۲۷/ص۱۷6/ح۲۲)

اس بنا پر ہدایت تکوینی اور ہدایت تشریعی دو مترادف خط ہیں اور ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ تکوینی ہدایت اللہ کی جانب سے ایک احسان ہے جو اس نے اپنی تمام مخلوقات پر کیا ہے اور تمام بندوں کے شامل حال ہے۔ وہ خود قرآن میں فرماتاہے :

قسم ہے جان کی اور جس نے اسے درست کیا اور پھر اسے اس کے اچھے، رے کی تمیز سمجھا دی۔(شمس/ ۷)

دوسری جگہ فرماتا ہے:

اور ہم نے اسے (یعنی انسان کو) راہ دکھادی اب چاہے وہ شکر گزار ہو یا سرکش بن جائے۔ (انسان/ ۳)

۱۰۱

لیکن تشریعی ہدایت سے مراد وہ تلاش و کوشش ہے جو خود انسان انجام دیتا ہے اور بحث و تجربہ کے بعد عقلی دلائل کی بنیاد پر حق و باطل میں تشخیص دے لیتا  ہے اور اس سیدھی راہ کو اختیار کر لیتا ہے جس سے دور تھا۔ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے :

ان بندوں کو بشارت دو جو باتوں کو سنتے ہیں اور سب میں اچھی بات کو اختیار کر لیے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی اور یہی عقل مند ہیں۔(زمر / ۱۷،۱۸)

مذکورہآیاتکامفہومیہہےکہجوبندہسوچتا ہے باتوں پر کان دھرتا ہے، تمام آراء نظروں میں سے بہترین کو اختیار کر کے حق کی پیروی کرتا ہے وہ خود اپنے اختیار سے اصل ہدایت تکوینی کی طرف پلٹ آیا ہے اور اس بات کا مستحق بنا ہے کہ خدا اسے عقل مند کہے۔

ہدایت تکوینی اور ہدایت تشریعی کی تفسیر کےلیے سب سے بڑی مثال وہ واقعات ہیں جو امت مسلمہ کے درمیان رونما ہوئے اور ہورہے ہیں۔ وہ امت جس کی خدا نے ہدایت فرمائی اسے تاریکی سے روشنی میں لایا اور سیدھے راستے کی ہدایت فرمائی تاکہ وہ اس پر گامزن ہو۔ اور جب اس نے دین کو کامل کردیا ان پر اپنی نعمت تمام کردی، ان کے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا، تو انھیں ایک روشن اور وسیع آئین کی ہدایت فرمائی۔ لیکن یہی امت رسول اسلام(ص) کے بعد بٹ گئی اس میں مختلف گروہ، فرقے اور مذہب وجود میں آگئے۔ جبکہ یہ بہترین امت تھی۔

سب سے پہلے اختلاف اور جدا جدا ہونے کا سبب صحابہ ہیں۔ ایک مختصر گروہ جو مشعل رسالت کو اٹھائے ہوئے تھا تاکہ اس سے آنے والی نسلوں تک منتقل کرے۔ لیکن رسول(ص) کے بعد اس گروہ کے افراد نہ صرف متفرق ہوگئے بلکہ آپس میں لڑے، ایک دوسرے کا خون بہایا، ایک نے دوسرے کو کافر قرار دیا اور

۱۰۲

 علیحدہ ہوگئے۔ ان کے بعد تابعین تھے۔ انھوں نے مشکل کو اور بڑھا دیا۔ انھوں نے نئے افکار کر دین خدا میں داخل کرکے اختلاف کے دائرہ کو مزید وسیع کردیا۔ لہذا مختلف گروہ، اقوام اور مذاہب وجود میں آگئے۔ اور مسلمان ایک ایسے انسان میں تبدیل ہوگیا جو تاریکی میں سرگردان ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ حق کہاں ملے گا۔ اس لیے کہ ہر فرقہ قرآن و سنت اور راہ رسول(ص) کی پیروی کا دعوا کرتا ہے۔

اگر جذبات اور نری اندھی تقلید سے آزاد ہوں، تعصب کو پس پشت ڈال دیں اور بصیرت کی نگاہ سے حالات پ رنظر ڈالیں تو خود سے یہ سوال کریں گے کہ ان تمام فرقوں کے درمیان اہل بیت(ع) کا کیا مقام ہے؟ اور خصوصا اس وقت جب ہمیں اہل بیت(ع) کے متعلق رسول(ص) کے احادیث بھی دکھائی دیں کہ جن میں آنحضرت(ص) نے امت کو تمام دینی و دنیاوی مسائل میں اہل بیت(ع) کی طرف رجوع کرنےکی تاکید فرمائی۔ تاکہ انکی ہدایت کی ضمانت ہوجائے اور وہ انھیں گناہ سےمحفوظ رکھیں۔ایسی حدیثیں بہت ہیں اور تمام مذاہب کے درمیان صحیح اور تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں جیسے رسول خدا(ص)  کا یہ قول :

”میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں، کتاب خدا اور اپنی عترت ( اہل بیت (ع)) جب تک ان دونوںسے متمسک رہوگے، میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ تمہیں خدا کا واسطہ ہمارے اہل بیت(ع) کو بھولنا مت( آپ(ص) نے یہ قول تین مرتبہ دہرایا۔“

( صحیح مسلم ج۴، ص۱۸۷۳۔ ذخائر العظمی ، ۱6)

وہ محقق جو آج امت کے درمیان اہل بیت(ع) کی حیثیت کےبارے میں تحقیق کرتا ہے اسے تمام مسلمانوں کے درمیان اہل بیت(ع) کےمتعلق سوائے احترام کے کچھ اور نہیں ملتا۔ لیکن اہل بیت(ع) کے متعلق رسول خدا(ص) کی وصیت صرف احترام و تعظیم میں منحصر نہیں ہے۔ بلکہ آپ(ص) نے حکم فرمایا ہے کہ لوگ اپنے امور میں اہل بیت(ع) کی پیروی اور تقلید کریں اور انھیں کی طرف رجوع کریں۔ آپ(ص)

۱۰۳

 نے یہاں تک فرمایا :

ان پر سبقت نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور ان کو چھوڑ کر، پیچھے نہ رہ جانا، اس میں بھی ہلاکت ہے۔ انہیں سکھانے نہ لگنا وہ تم سےزیادہ عقل رکھتے ہیں۔

 (معجم الکبیر ج۵، ص۱۸6)

لہذا اگر ایسا ہے تو ہم صرف ایک گروہ کو پاتے ہیں جس نے رسول(ص) کی وصیت پر عمل کیا اور امیر المومنین، علی بن ابیطالب(ع) کے زمانہ سے اب تک اہل بیت(ع) کی راہ پر قائم ہے۔ اس گروہ کو  شیعیان علی کہا گیا۔ اور دھیرے دھیرے لفظ شیعہ ان تمام لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا اور ائمہ طاہرین(ع) کی ولایت اور رہبری کوقبول کرتے ہیں۔

لیکن اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹیں تو پتہ چلے گا کہ اہل بیت(ع) اور ان کے شیعوں پر ظلم و ستم ہی ہوتا رہا ہے انھیں زندگی کے میدا ن سے دور کردیا گیا اور وہ اسلام کے اوائل کی تین صدیوں میں مسلمانوں پر حکومت کرنے والے حکام اور امراء کے  ظلم و ستم کا شکار رہے۔ یہ ظالم حکمران امت کو اہل بیت(ع) کی واقعی قیادت سے محروم رکھنے میں کامیاب رہے۔ اسی طرح انکی سدھی راہ روشن سے بھی دور رکھا اور وہ محبت و احترام جو اہل بیت(ع) کی نسبت امت پایا جاتاتھا اسے ختم کردیا۔ گرچہ حکمرانوں نے منبروں سے لعنت و نفرین میں فروگذاشت نہ کی اور کسی دشنام کو باقی نہ چھوڑا، لیکن اس غیر معمولی فشار کے باوجود یہ حکمران مومنین کے دلوں سے اہل بیت(ع) رسول(ص) کی مودت و الفت کا نکال نہ سکے۔

اسی طرح آج اکثر مسلمانوں کے درمیان جو تناقض و تضاد موجود ہے اس کا معنی ومفہوم سمجھ میں آجاتا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر مسلمان اہل بیت(ع) کو دوست رکھتے ہیں، علم و فضیلت اور انسانی و اخلاقی تکامل کے لحاظ سے ان کی برتری کے قائل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پیروی دوسروں کی کرتے ہیں۔ اور

۱۰۴

 اپنے شرعی احکام میں دوسروں کی طرف رجوع کرتےہیں۔ یعنی ان لوگوں کی طرف کہ جنہوں نے نہ پیغمبر اکرم(ص) کو پہچانا، نہ ہی آںحضرت(ص) کے زمانہ میں موجود تھے۔ بلکہ وہ تو اس عظیم فتہ(کربلا) کے بعد پیدا ہوئے جس نےدین کی نشانیوں کو بدل ڈالا اور صالحین کا خاتمہ کردیا۔اہل بیت(ع) اور ان کی پیروی کرنے والے شیعہ گویا اسلامی سماج سے دور کردیئے گئے۔

یہی سبب تھا کہ ائمہ اہل بیت(ع) سے اکثر مسلمان نا آشنا رہ گئے۔ اور اگر ان سے پوچھا جائے کہ اہل بیت(ع) کون لوگ ہیں؟ تو کہتے ہیں : رسول(ص) کی بیویاں!! لیکن ظاہر ہے کہ پیغمبر(ص)  نے امت کو اہل بیت(ع) کی پیروی کا حکم دیان ہے جس سے مراد بیویاں نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد بارہ امام(ع) ہیں جن کے متعلق صریحا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

میرے بعد بارہ خلیفہ ہیں جوسب کے سب قریش سے ہیں۔

                                                (صحیح مسلم، ج۳، ص۱۴۵۲)

محققین اچھی طرح جانتے ہیں کہ اہل بیت(ع) نے ہمیشہ پوری کوشش کی کہ لوگ ان سے آشنا ہوجائیں اور ان کے پاس آئیں۔لیکن افسوس کہ :

عوام دنیا کے غلام ہیں اور ان کا دین سوائے زبانی لقلقہ کے کچھ نہیں۔ تا کہ اس طرح ان کی زندگی چلتی رہے اور اگر کسن دن انھیں آزمایا گیا تو دیندار بہت کم ہوں گے۔( از اقوال امام حسین(ع))

یہی وجہ تھی کہ امام صادق(ع) یہ آیت پڑھا کرتے تھے:

میں اس کے لیے مغفرت کرنے والا ہوں جو توبہ کرے۔ ایمان لائے۔ عمل صالح انجام دے۔ اور پھر ہدایت پائے(سورہ طہ/ ۸۲

پھر فرماتے ہیں :

ہم اہل بیت(ع) کی ولایت سے ہدایت پائے۔

آیت کریمہ سے بھی کچھ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ جن مسلمانوں کے

۱۰۵

 دلوں میں عقیدہ مستحکم ہوگیا، وہ خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان لائے۔ اپنے گناہوں سے توبہ کی۔ اچھے اعمال انجام دئے۔ اور برے عمل سے دور رہے۔ لیکن سرف اتنا کای نہیں ہے اور صرف ان ہی چیزوں کے ذریعہ خدا کی مغفرت کے مستحق نہیں بن سکتے۔ مگر یہ کہ انہوں نے رسول اکرم(ص) کےجانشین ائمہ ہدی(ع)  کی پیروی بھی کی ہو۔ صرف یہ ائمہ(ع) ہیں جو امت کو قرآنی مقاصد اور سنت رسول(ص) کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ اور اسی صورت میں امت کے ایمان و اعمال ، واجبات الہی سے بغیر کسی تاویل ونقص کے مطابقت کرسکتے ہیں۔

مگر جب کتاب الہی کی تاویل کرلی گئی اور حدیث نبوی میں تحریف ہونے لگی تو ہر فرقہ نے اپنی تاویل کے مطابق کتاب خدا سے استدلال کرناشروع کردیا جو احادیث خود اس کےنزدیک صحیح تھیں انھیں بطور دلیل پیش کیا۔ اس طرح اختلافات پیدا ہوئے۔ سرگردانی وجود میں آئی اور شک و تردید میں اضافہ ہوا۔

لہذا اگر کوئی مسلمان اس ہنگامہ میں حق کو پہچاننا چاہے اور گمراہی سے دور ہو کر آخرت کی نجات کا خواہاں اور بہشت و نعمت الہی تک پہنچنا چاہے تو اس کے لئے کشتی نجات پر سوار ہونے اور اہل بیت(ع) کی طرف پلٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہی امت کے امام ہیں۔ خداوند عالم کسی بھی بندے کے اعمال کو قبول نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ عمل ان کے ذریعہ ہو۔ اور کوئی بھی رجحان اہل بیت(ع) کے بغیر قبول نہیں ہے۔

اس کو خود رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے، امت کو حکم دیا ہے اور اس کا ابلاغ خدا کے حکم پر کیا ہے۔ اور اگر پیغمبر(ص) کے بعد اصحاب کے اختلاف پر نظر ڈالیں تو پتہ چکے گا کہ انھوں نے مسئلہ خلافت پر اختلاف کیا اور دیگر تمام اختلافات اسی کے بعد وجود میں آئے۔ بلاشبہ یہ سب خلافت کی خاطر تھے اس لیے کہ جس کے پاس

۱۰۶

 قیادت کی صلاحیت نہ ہو وہ امت کی رہبری ہاتھ میں لے لے اور نچلی سطح والا خلافت رسول(ص) غصب کر لے تو یقینا امت کو گمراہی کی طرف لے جائے گا۔۔ اس لیے کہ جہالت و خواہش نفس کی بنیاد پر عمل کریگا۔

( نہ کہ علم و فہم کی بنیاد پر)۔

اور آج جب کہ خلافت کا کہیں پتہ نہیں ہے تو کیا مسلمان فکری بالیدگی پالیں گے؟ رسول(ص) کی وصیت پر عمل پیرا ہوجائیں گے؟ قرآن و عترت رسول(ص) سے متمسک ہوجائیں گے؟ تا کہ ان کے درمیان دوبارہ صلح و صفائی، بھائی چارگی اور محبت پلٹ آئے اور امت کے درمیان اتحاد و پائیداری پیدا ہوجائے؟ یہ ہے ایک مہربان دوسر ور دل سوز بھائی کی فریاد و۔۔۔!!!

گذشتہ بحث سے ہمیں پتہ چلا کہ ہدایت ایسی عظیم نعمت ہے جو خداوند عالم نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے اور اہل بیت(ع) کی ولایت کی طرف رجوع اور ان کی پیروی گناہ گار نبدوں کے لیے ایک بڑی نعمت ہے جو خدواند عالم کی بخشش کی باعث ہے۔ اب ہم کس طرح جہاد کریں کہ اس راہ پر گامزن رہ سکیں؟

اسلام میں دو جہاد ہیں، دشمن سے جہاد جسے جہاد اصغر کہتے ہیں اور دوسرا نفس سے جہاد جسے جہاد اکبر کہا جاتا ہے۔ جس کی ہمارے نزدیک زیادہ اہمیت ہے وہ جہاد اکبر ہے  یہجہاد خود انسان اور نفس امارہ سے متعلق ہے اس کے ذریعہ عقیدہ کی گمراہی سے نجات ملتی ہے۔

کبھی انسان اپنے نفس سے جہاد کرتا ہے اور کبھی دوسروں سے جہاد کرتا ہے۔ نفس سے جہاد یعنی کار خیر میں استمرار، نیک لوگوں کی ہمراہی اور اہل بیت(ع) کے حکم کے مطابق عبادات و معاملات کو بجالاتا ہے۔ لیکن غیر کے ساتھ جہا د یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف حکمت و نصیحت کے ساتھ تبلیغ و دعوت دیناہے۔

۱۰۷

یہ جہاد کبھی گفتار کے ذریعہ ہے اور کبھی قلم کے ذریعہ ہے لیکن خدا کے نزدیک قلم کا جہاد تلوار کے جہاد سے اولی ہے رسول خدا(ص) فرماتے ہیں :

خدا کے نزدیک عالموں اور دانشوروں کے قلم کی روشنائی شہداء کے خون سے افضل ہے(کشف الخفا، ج۲، ص۲ 6 ۲۔ الاسرار المرفوعہ، ص۲۰۷، ح۸۱۷۔

اس لیے کہ علماء کی تحریر مسائل حق کو بیان اور ان کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ بلاشبہ لوگوں کو حجت کامل اور واضح دلیل کے ساتھ سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور خدا کے نزدیک یہ عمل قطعا شہداء کے خون سے برتر ہے۔ اگرچہ شہداء کا خون بھی نہایت مقدس ہے۔

لہذا علماء اور دانشوروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقی اسلام کی تبلیغ کے لیے کوشاں رہیں۔ ائمہ اہل بیت(ع) سے لوگوں کو آشنا کریں اس راہ میں مال اور وقت قربان کرنے میں گریز نہ کریں۔ ممکن ہے کفر و الحاد اور تباہی کے مراکز کی بے حساب مال سے پشت پناہی کی جارہی ہو لیکن دولت مند مسلمان خدا کی راہ میں سوائے مختصر خیرات کے اور کچھ نہ دیتے ہوں۔

ہم خود اس بات کے شاہد ہیں کہ کفار لوگوں کو بھوک سے نجات دینے کے بہانے صومالیہ پہنچ گئے لیکن ہمارے مسلمان بھائی اس سے غافل ہیں۔

اور اس بات کے بھی شاید تھے کہ مسیحی گروپوں نے افریقہ کے مشرق و مغرب، سوڈان، مصر، انڈونیشیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں مختصر کھانے کی اشیاء اور دوائیں خیرات کیں اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کر کے دھیرے دھیرے مسیحیت کی طرف لےجاتے رہے۔ لیکن مسلمانوں کا وہ گروہ جس کے پاس کثرت سے مال ہے اور اللہ نے انہیں اپنی یہ نعمت اس لیےبخشی ہے کہ اس کے دوسرے بندوں کو بھی اس سے کچھ نفع پہنچے لیکن آپ انہیں ۲۰ مرتبہ حج سے مشرف ہوتے دیکھتے ہیں اور سال کافی پیسہ خرچ کر ڈالتے

۱۰۸

ہیں۔ گوانہیں کے پڑوس میں بھووں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے جو بھوک شدت سے بد حواس ہوتے ہیں اور ان کے پاس بدن ڈھانکنے  کے لیے لباس بھی نہیں ہوتا۔ کیا رسول خدا(ص) نے نہیں فرمایا : تم میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک وہ ہے جو خدا کے بندوں کی زیادہ مدد کرتا ہے۔ ( بحار ، ج۷۷، ص۱۵۲، ح۱۱۰)۔

پھر کیا ہوگیا ہے کہ بعض حضرات کئی کئی مرتبہ خانہ خدا حج کے لیے جاتے ہیں جب کہ ان کے ہی خاندان میں مجبور و بے سہارا لوگ موجود ہیں اور وہ ان کی ضرورت کو بر طرف نہیں کرتے، ان پر رحم نہیں کھاتے؟

اس سے بھی بڑھ کر وہ اسراف ہے جسے مسلمان سگریٹ پر کر کرتے ہیں۔ مسلمان جو پیسہ سگریٹ نوشی میں خرچ کرتے ہں اگر ہم اس کا مختصر جائزہ لیں تو اس کی شرح ہمیں مبہوت کردے گی۔ بطور مثال اگر مسلمانوں کی تعداد ایک ملیارڈ سے زیادہ ہو اور ہر پانچواں مسلمان سگریٹ پیتا ہو۔ تو (۲۰۰) دو سو ملین سگریٹ پینے والے ہر روز (۲۰۰) دو سو ملین ڈالر سگریٹ نوشی میں خرچ کرتے ہیں اور ایک ماہ میں 6۰ارب ڈالر خرچ کر ڈالتے ہیں اور پورے سال میں کم از کم ۷۲۰ ارب ڈالر اس لیے خرچ کر ڈالتے ہیں بمشکل علاج ہونے والی بیماری مفت خرید سکیں!!

اے مسلمانوں ! بیدار ہو۔ اور اس قدر اپنا مال فالتو خرچ نہ کرو۔ اگر ہم ان پیسوں کو ۱۰ سال جمع کریں تو ہمارے پاس ۷۲۰۰ ارب ڈالر جمع ہوجائے گا جو بلاشبہ دنیا کے مشرق و مغرب کے تمام فقیر مسلمانوں کو دولت مند بنادے گا۔کیا اسے آپ بے اہمیت سمجھتے ہیں جبکہ یہ خدا کے نزدیک عظیم ہے۔

بحث کے آخر میں اپنے شیعہ بھائی جو اہل بیت(ع) کے پیرو ہیں ان کے لیے کچھ یاد دہانی ضروری سمجھتا ہو۔

۱ـاپنے اہل سنت بھائیوں کے ساتھ گفتگو و بحث میں مجادلہ کی بہترین

۱۰۹

 روش اختیار کریں اور فحش، گالی اور ایسی باتوں سے گریز کریں جس سے وہ آزردہ ہوں اور وہ دور ہو جائیں اس لیے کہ خود امیر المومین(ع) نے فرمایا ہے :

”تم گالی دینے والے نہ بنو، نفرین نہ کرو لیکن کہو ان کا رویہ ایسا اور ویسا تھا تاکہ تمہاری دلیل اور واضح ہوجائے۔ ( بخاری، ج۳۲، ص۳۹۹)

۲ـ اپنی عورتوں اور اپنے معاملات میں ایسی باتوں سے پرہیز کریں رسول(ص) اور ائمہ اطہار(ع) کے زمانہ میں رائج نہ تھے ممکن ہے ہم ان کے ذریعہ لوگوں کے مذہب کا گرویدہ کرنے کے بجاے انہیں اپنے دین اور اہل بیت(ع) سے دور کریں۔

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:

” تم ہمارے لیے اپنے اعمال سے تبلیغ کرو نہ کہ زبان سے۔ایسا کام کرو کہ لوگ ہماری طرف آئیں نہ کہ ہم سے دور اور متنفر ہوجائیں۔“ (بحار، ج۸۵، ص۱۳ 6 )

۳ـاپنی گفتگو و تقریر میں علمی باتوں کو اہمیت دینے کی کوشش کریں اور صحاح ستہ سے استدلال کرتے ہوئے بحث کریں۔ ان ضعیف حدیثوں کر ترک کردیں جو احساسات کو بھڑکاتی ہیں اور عقل سے ٹکراؤ رکھتی ہیں۔

۴ـ پوری طاقت کے ساتھ استقامت اور تقوی کو شعار بنائیں اس لیے کہ خود ائمہ(ع) نے بھی یہی کیا ہے اور صرف اس قول پر تکیہ نہ کریں کہ حضرت علی(ع) اپنے دوستوں اور پیروؤں کی شفاعت کردیں گے کیونکہ خود حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:

” ایمان آرزور سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ ایمان وہ ہے جو دلوں میں مستحکم ہوتا ہے اور اقوال و اعمال اس کی تصدیق کرتے ہیں۔( یعنی انسان کے قول و فعل میں مطابقت ہوتی ہے)۔“ ( بحار، ج6 ۹، ص۷۲)

۵ـ ائمہ اطہار(ع) کی نصیحتوں اور موعظوں سے فائدہ اٹھائیں جو ہمارے لیے

۱۱۰

 ایک بڑا سرمایہ ہیں۔ صرف نہج البلاغہ میں سینکڑوں بیماریوں کا علاج موجود ہے۔ اب وہ موقع آچکا ہے یہ م جہل و نادانی کے غبار کو دور کردیں اور امت کو تہذیب کے بلند ترین درجات تک لے جائیں۔

پس اگر شیعوں کے امام شہر علم کےباب ہیں تو ان کے پیروؤں کو چاہئے کہ دوسروں سے زیادہ علوم میں ترقی کریں سب پر سبقت لے جائیں۔

شیعوں اور اہل بیت(ع) کے پیروؤں کو چاہئے کہ اپنی صفوں کو مضبوط بنائیں۔ سیاسی پارٹیوں سسے دور ہوں اور ایک مرجعیت کے لیے کوشش کریں اور اس کی اطاعت کریں اور پھر تمام مسلمانوں کے اتحاد کی کوشش کریں۔

اگر شیعہ میری ان باتوں پر عمل کریں جنہیں میں نے کتاب خدا، سنت رسول(ص) اور مکتب اہل بیت(ع) سے نکال کر پیش کیا ہے تو بلا شبہ ان کے درمیان صلح و آشتی برقرار رہے گی۔ اگر اپنے درمیان سے جہل، باطل عقیدتوں اور نقائص کو دور کردیں تو یقینا خداوند عالم ہم پر احسان کرے گا اور ہماری تہی دستی اور ذلت و رسوائی کو بے نیازی اور عزت میں تبدیل کردے گا اور ہمارے امام زمانہ(عج) کو ظاہر کردے گا تاکہ وہ زمین کو عدل و اںصاف سے بھر دیں  جب کہ وہ ظلم وستم سے بھری ہوئی ہوگی۔

             «وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمين»

۱۱۱

شیعہ ہی اہل سنت ہیں لیکن ۔۔۔۔

اب جب کہ ہمیں یہ معلو م ہوگیا کہ امامیہ شیعہ ہی در حقیقت اہل سنت پیغمبر(ص) ہیں اور یہ حقیقت ہر ا س شخص پر واضح ہے جو عقیدہ اور عمل میں احکام اسلام کا خیال رکھتا ہے اس میں کسی شک کی گنجایش نہیں ہے لیکن اہلسنت والجماعت کے وہ مخلاف افرد ( جن کے وجود میںآنے کی علت سے ہم گزشتہ بحث میں باخبر ہوئے) شیعوں کے بعض عقائد واعمال پر تنقید کرتے ہیں اور شبہات پیش کرتے ہیں تاکہ ان کے دین میں شک پیدا کرسکیں۔اور کبھی خیالی داستانوں کو گڑھ کر ان کی آبرو ریزی کی کوشش کرتے ہیں اور شیعوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ سننے یا پڑھنے والا ان کی نسبت بدگمان ہوجائے اور ان سے نفرت کرنے لگے۔ اور پھر اس کی نظر میں ان کی کوئی قدر و قیمت نہ رہ جائے۔

وہ جن خرافات کو شیعوں کی طرف منسوب کرتے ہیں ان میں سے بطور مثال ایک یہ ہے۔

وہ شیعوں کو اس بات کا معتقد سمجھتے ہیں کہ جبرئیل نے امانت الہی میں خیانت کی اور نبوت علی(ع) کے بجائے محمد(ص) کے سپرد کردی! ( نعوذ باللہ)۔

یا پھر یہ بے ربط مطلب کہ عبداللہ بن سبا مذہب تشیع کا بانی ہے یا شیعوں کے پاس قرآن کے علاوہ ایک دوسرا قرآن ہے جو ” مصحف فاطمہ“ کے نام سے معروف ہے۔ یا ہر شب سامرا کے دروازے پر ایک گھوڑا تیار کر کے مہدی(عج) کے منتظر رہتےہیں کہیں کہ آپ آئیں اور اس گھوڑے پر سوار ہوں۔ یا کہتے ہیں کہ شیعہ قبر کی پرستش کرتے ہیں۔ اور ائمہ کو خدا کی طرح سمجھتے ہیں یا پتھر پر

۱۱۲

 سجدہ کرتے ہیں یا زنا کو جائز سمجھتے ہیں یا پھر ایسے ہی دوسرے جھوٹ کہ تھوڑی سی بحث و تحقیق کے بعد ان کی قلعی کھل جاتی ہے۔

لیکن موجودہ زمانہ میں اہل سنت کے بعض اعتراضات علمی بحث میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور حقیقت تک پہنچنے کے لیے ایک بند کی طرح رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔

ان لوگوں نے ان شبہات کو نہ کسی ( شیعہ) کتاب میں پڑھا ہے نہ ہی کسی حدیث بیانکرنے ولاے مقرر سے سنا ہے لیکن قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے خود انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

یہ مطلب بہت ہی اہم اور حساسیت پیدا کرنے والا ہے اور شاید محققین پر منفی اثر ڈالے اور انہیں حقیقت تک پہنچنے سے روک دے ۔ جیسا کہ مں نے قارئین سے وعدہ کیا ہے کہ غیر جانبداری سے کام کروں گا اور حق گوئی سے دریغ نہ کروں گا اور نفسانی خواہش کی وجہ سے کسی مذہب کی نسبت جذبات سے کام نہ لونگا اور رسول(ص) کے اس قول پر عمل کروں گا کہ : حق کہو چاہے وہ تمہارے خلاف ہی ہو۔( کنز العمال، ج۳، ص۳۵۹)

اور چونکہ خداوند عالم حق بات کہنے میں شرم محسوس نہیں کرتا لہذا اس موضوع پر ضروری ہے کہ میں صراحت کے ساتھ عرض کرنے کو اپنا وطیرہ بنالوں۔ جیسے ہم شیعوں میں نیک و صالح افراد پر درود بھیجتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں ویسے ہی ان شیعوں کی غلطیوں کو بیان کرتے ہیں اور ںصیحیت کرتے ہیں جو گمراہی کاشکار ہوئے اور غلط راستہ پر چلے اور اس مسئلہ میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے اور سوائے رضائے خدا کی کچھ نہیں چاہتے۔

ضروری ہے کہ ان چیزوں کے درمیان فرق قائم کریں جو دین اسلام کی طرف سے ہم تک پہنچی ہیں اور جو اندھی تقلید، عادت اور غلط اجتہاد کے ذریعہ ہم

۱۱۳

تک آئی ہیں۔ جیسا کہ میں نے بعض اصحاب کی بدعت گذاری پر صراحت کے ساتھ تنقید کی اسی طرح ضروریہے کہ بعض شیعوں پر بھی تنقید کروں اور ان کے اشتباہات پر سکوت اختیار نہ کروں۔ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اصحاب کی بدعت اور جدت دین کا جزو بن گئی اور اس احکام خدا اور رسول(ص) کو بدل ڈالا۔ لیکن بعض شیعوں کے اشتباہات کا کوئی اثر نہ ہوا نہ ہی کسی حکم خدا میں تغیر کا سبب بنا اور نہ ہی کوئی اس کے وجوب کا قائل ہوا لیکن بہر حال اس پر تنقید ضروری ہے۔

قارئین محترم! جن اہم مسائل کی وجہ سے شیعوں پر تنقید ہوتی ہے انہیں ہم بیان کریں گے۔ کیوں کہ شاید خود آپ بھی ان مسائل کی وجہ سے تکلیف میں ہوں اور ان کا آپ کے پاس ایسا جواب نہ ہو جس کو آپ مد مقابل سے بحث میں پیش کرسکیں اور خود بھی مطمئن ہوسکیں۔

یہ جدتیں بھی بدعتیں ہیں جو دین تشیع میں داخل ہوگئیں۔ اہل بیت(ع) تمام بدعتوں کے مخالف ہیں چاہے انھیں رنگین لباس ہی پہنا دیا جائے اور ( بدعت حسنہ) کہا جائے۔۔۔

یہ بزرگ ہستیاں ( ان پر خدا کی رحمت ہو) ہمیشہ اس بات کی تاکید کرتی تھیں کہ وہ کوئی بات کہتے اور کوئی عمل بجا نہیں لاتے مگر وہ قول و عمل رسول(ص) ہوتا ہے۔

لہذاائمہ(ع) کے بعد مذہب میں جو کچھ آیا بدعت ہے، فاسد دوا کا نقصان پہنچانا ہے نہ کہ خوشخبری و بشارت بلکہ کام بھی مشکل کردیتا ہے اس لیے کہ ان کی وجہ سے روشن فکر جوان مذہب امامیہ کو تنقید کی نظر سے دیکھتے  ہیں اور اس کی صحت و نقص میں مشکل سے دوچار ہوتے ہیں۔ بعض بدعتیں جن پر اہل سنت معترض ہیں بہ عنوان مثال یہ ہیں:

۱۱۴

روز عاشورا افراط سے کام لینا نیز زنجیر ار قمع کے ذریعہ خون بہانا۔اور جذبات کو بے مہار چھوڑ دینا۔

نماز کے وقت بے نظمی۔ نمازیوں کی نسبت بے احترامی کا اظہار کرنا۔

مسجد میں سگریٹ پینا۔

نماز جمعہ ترک کرنا اور ۔۔۔۔

۱۱۵

کل یوم عاشورا کل ارض کربلا

اے کاش ! لوگ اس کلام کی حقیقت کو سمجھ لیتے اور جس سرزمین پرپہنچتے اور جو دن بھی دیکھتے اس اسلامی حق کو ادا کرتے جس کے لیے امام حسین(ع) نے اپنی شہادت دی اور اگر ایسا کرتے تو بلاشبہ دنیا میں مسلمانوں کی حالت بالکل بدلی ہوئی ہوتی۔ اور غلام ہونے کے بجائے آقا ہوتے لکن افسوس کہ بہت سے لوگوں نے امام حسین(ع)  کی شہادت اور ان کے انقلاب کو صرف سال کے چند دنوں میں فقط رونے رلانے، زنجیر و قمع و شبیہ وغیرہ میں منحصر سمجھ لیا ہے کہ چند دن اس واقعہ کی یاد تازہ کی جائے اور باقی سال میں تمام  چیز فراموش کردی جائے۔

بہت سے اہل سنت شیعوں کے ان اعمال پر تنقید کرتے ہیں اور افسوس یہ کہ بعض عربی و مغربی پروپگنڈہ ایجنسیاں اس زمانہ میں ایام عاشورا میں ایران کے شیعوں کو اس طرح پیش کرتی ہیں گویا وہ ایسے درندے ہیں جو شدت و بربریت میں ایسے ہیں جو بس لوگوں کو خون بہانا جانتے ہیں۔ اگر چہ زنجیر و قمع ہندوستان و پاکستان میں شدت سے ہوتی لیکن اغیار کے ریڈیو ٹیلیویژن صرف ایرانی شیعوں پر اپنے کیمرہ کو مرکوز کئے ہوئے ہیں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق تحقیق کرنے والا ہر انسان اس کے اسباب سے بخوبی آگاہ ہے۔

یہ پروپگنڈہ ایجنسیاں آخر تہران کی نماز جمعہ کو منعکس کیوں نہیں کرتیں جس میں بیس لاکھ سے زیادہ نمازی شرکت کرتے ہیں؟ یہ ایجنسیاں ایران میں شب جمعہ منعقد ہونے والی دعائے کمیل کا منظر کیوں نہیں پیش کرتیں جن میں

۱۱۶

سڑکوں پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے اور عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے شب کی تاریکی اور سکوت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اپنے پروردگار سے رو رو کر گناہوں کی بخشش کے لیے دعائیں کرتے ہیں؟

کیوں صرف مراسم پر ہی توجہ دیتے ہیں اور چند قمع لگانے والوں پ رہی زیادہ نگاہ رکھتے ہی۔ حق یہ ہے کہ بعض شیعہ ان اعمال کو انجام دیتے ہیںجن کا اصل دین سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ بعض افراد کے جذبات کا اظہار تھا جو بلا تحقیق مرور ایام سے وراثت میں منتقل ہوگیا اور رائج ہوگیا یہاں تک کہ بعض عوام یہ خیال کرتے ہیں کہ قمع و زنجیر سے خون بہانا خدا سے قرب حاصل کرنےکا ذریعہ ہے اور بعض تو اس سے آگےبڑھکریہبھیکہتےہیں کہ جو شخص یہ اعمال انجام نہدے وہ امام حسین(ع) کو دوست نہیں رکھتا!!

میں جب بھی ان امور پر غور کرتا ہوں اگر چہ حقیقی شیعہ ہوں تو اس منظر سے مطمئن نہیں ہو پاتا جو ایک عام انسان کو متنفر اور بد دل کردیتاہے۔ آخر اس کے کیا معنی ہیں کہ ایک نیم برہنہ انسان تلوار لے کر حسین(ع) حسین(ع) کرتا ہوا اپنے ہاتھ سے خود کو مارےاور اپنے خون میں نہائے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان اعمال اور مراسم عزاداری کے تھوڑی دیر بعد بجائے  اس کے کہ غمزدہ نظر آئیں ہنستے کھیلتے مٹھائیاں اور پھل کھانے نظر آتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر بعض افراد ( بلکہ زیادہ تر افراد) کو دین سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ لہذا میں نے خود کئی موقعوں پر براہ راست ان پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ تمہارا عمل اندھی تقلید سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔

ہاں! یہ کچھ سمجھ شیعوں کا عمل ہے لیکن بہر حال امام حسین(ع) سے محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے جیسا کہ یہ لوگ سوچتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک شخص نے ایک عالم دین سے کہا تھا: میں نے حضرت عباس(ع) کی عزاداری کے

۱۱۷

لیے کھانا تیار کیا اور اس دوران ایک منٹ کے لیے بھی جوتو نہیں اتارا تو اس عالم نے اس سے پوچھا کہ اس دوران تم نے وضو کیسے کیا اور نماز کیسے پڑھی؟ اس نے سرے سے عالم کی بات پر توجہ نہیں دی کیوں کہ وہ معتقد تھا کہ مجھے حضرت عباس(ع) سے اس کی جزا مل جائے گی۔

بہر حال میں یاد دہانی کراتا ہوں کہ یہ تمام امور وہ ہیں جن کو استعمار ہی نے رائج کیا اور ان کا پروپگنڈہ کرتا رہتا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ بات ہم شیعوں کے یہاں کم ہوتی جارہی ہے۔ خدا بخشے حضرت آیة اللہ شہید سید باقر الصدر(رح) کو کہ جب میں نے ان سے (شیعہ ہونے سے پہلے) ان اعمال کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا تھا۔

”یہ عوام کے اعمال ہیں تم ہم میں سے کسی بھی عالم کو انھیں انجام دیتے نہ دیکھو گے بلکہ علماء ہمیشہ اس سے لوگوں کو روکتے ہیں۔“

سب سے بڑھ کر رسول(ص) خدا کا کردار ہمارے لیے نمونہ عمل ہے۔ کیوں کہ جب ان کے حامی و مددگار چچا حضرت ابوطالب(ع) دنیا سے اٹھے تو آپ بہت غمزدہ ہوئے۔ آپ کی عزیز زوجہ وفات پائی، آپ کے چچا حضرت حمزہ شہید ہوئے اور آپ نے شہادت کے بعد ان کا پارہ پارہ جگر دیکھا۔ حضرت اپنے بیٹے ابراہیم کی موت پر روئے اور جب جبرئیل(ع) نے حضرت امام حسین(ع) کی شہادت کی خبر آپ کو دی تو بہت روئے اسی طرح اپنے بھائی علی(ع) پر آیندہ آنے ہونے والی مصیبت پر روئے۔

حضرت رسول خدا(ص) بہت روتے تھے بلکہ مسلمانوں کو حکم دیتےتھے کہ اگر رو نہ سکو تو خود کو غمزدہ بناؤ اور ان آنکھوں سے پناہ مانگتے تھے جن سے آنسو نہ جاری ہوں، لیکن اس بات سے روکتے تھے کہ غم میں کوئی بے قابو ہو جائے چہ جائے کہ قمع اور تیغ سے خود کو زخمی کرے اور بدن سے خون جاری کرے۔

ہمارے پہلے امام حضرت علی(ع) نے حضرت رسول خدا(ص) کی  وفات کا داغ اٹھایا

۱۱۸

اور اس عظیم مصیبت کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنی مہربان زوجہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کے غم میں مبتلا ہوئے اگرچہ آپ کے جسم نحیف میں ان دونوں عظیم مصیبتوں کو برداشت کرنے کی توانائی نہ تھی۔ لیکن آپ نے ہرگز ایسے کام نہ کئے جسے آج عوام الناس عزاداری میں کرتے ہیں۔

اسی طرح امام حسن(ع) نے اپنے نانا حضرت رسول خدا(ص) اور اپنی مادر گرامی کی وفات کے بعد حضرت علی(ع) جیسے مہربان باپ کو جو پیغمبر اسلام(ص) کے بعد بہترین شخص تھے محراب عبادت میں ابن ملجم ملعون کی ضربت کھاتے دیکھا لیکن ایسے اعمال انجام نہ دیئے۔

امام زین العابدین(ع) نے بھی عزا میں ایسے اعمال انجام نہ دیئے جب کہ انھوں نے کربلا کا درد ناک واقعہ اپنی نگاہوں سے دیکھا کہ کس طرح ان کے پدر بزرگوار اور ان کےچچا اور بھائی قتل کر ڈالے گئے اور اس کے بعد ان پر ایسے مصائب پڑے کہ اگر پہاڑوں پر پڑتے تو لرزجاتے۔ اور سرے سے یہ تاریخ نے لکھا ہی نہیں ہے کہ کسی بھی امام نے ایسے اعمال انجام دیئے ہوں یا اپنے اصحاب کو ان کا حکم دیا ہو۔ ہاں جو باتیں ملتی ہیں وہ یہ ہیں کہ نوحہ و مرثیہ پڑھنے والے اشعار پڑھیں اور اس پر ائمہ(ع) خود بھی روتے تھے اور لوگوں کو بھی اہل بیت(ع) کے غم میں رونے کا حکم دیتے تھے اور یہ ایک مستحب عمل ہے اگر چہ واجب نہ ہو۔

میں نے خود مختلف موقعوں پر دنیا کے مختلف علاقوں میں عاشورا اور عزاداری کے مراسم میں شرکت کی ہے اور کبھی یہ نہیں دیکھا کہ شیعہ علما اس طرح سے عزاداری کرتے ہوں۔ گویا اہل علم ان کاموں کو پسند نہیں کرتے اور انھیں ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔

پس ہمیں اہل بیت(ع) کے کردار اور ان کی معرفت سے آگاہی کےبعد عوام الناس کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں ہر سال عاشورائے حسینی(ع) کی یاد منانا

۱۱۹

چاہئے اور ان کے مصائب بیان کر کے گریہ و بکا اور فریاد کرنی چاہئے۔ حق تو یہ ہے کہ دل بھی زبان سے ہم آہنگ ہو اور آنکھوں کے ساتھ گریہ کرے۔ تمام اعضاء و جوارح روئیں اور خدا کی بارگاہ میں خضوع و خشوع کے ساتھ یہ عہد کریں کہ ہم بھی امام حسین(ع) کی راہ پر جو در حقیقت رسول خدا(ص) اور اہل بیت(ع) کی راہ ہے، گامزن ہوںگے۔

اسی طرح عاشورا اپنی عزا، غم واندوہ، گریہ و زاری، اپنی یاد عظیم اقدار کی شکل میں نمونہ عمل بن کر اپنی پاکیزہ شکل میں مخلص شیعوں اور پیغمبر(ص) نیز ائمہ معصومین(ع) کی پیروی کرنے والوں کےلیے باقی رہے گا۔ لیکن افسوس عوام الناس کے اعمال کو ان لوگوں کی طرف سے ہوا دی جاتی ہے جو شیعوں کے عقائد کو برا ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور انھیں اہل بیت(ع) سے دور کر کے ان کی تکفیر کرنا چاہتے ہیں۔

بارالہا! تیری بے شمار حمد اور شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے ہمیں شیعوں اور آگاہ انسانوں میں قرار دیا کہ جو بحث و تحقیق کے ذریعہ راہ حق کی طرف آئے اور عوام اور ناواقف شیعوں میں قرار نہ پائے۔ قارئین کرام پر لازمی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کی سنت جو ائمہ اہلبیت(ع) کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے اسے اپنے نمونہ عمل قرار دیں۔

اس کا ذکر بھی ضروری ہےکہ بہت سے علماء مثلا آیت اللہ امینی مرحوم اور آج کل رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ علی خامنہ­ای اور حضرت آیت اللہ سید محمد حسین فضل اللہ نے قمع لگانے کو ناجائز قرار دیا ہے اور جنھوں نے جائز بھی جانا ہے اس پر دو شرطیں لگائی ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے انسان کو ضرر اور نقصان نہ ہو اور دوسرے اس سے مذہب کی توہین نہ ہوتی ہو۔

گذشتہ علماء میں سے بزرگ فرماتے تھے کہ جو تلوار شیعہ ماضی میں

۱۲۰