اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 54215
ڈاؤنلوڈ: 4475

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54215 / ڈاؤنلوڈ: 4475
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 ہیں۔

اسی طرح بے شمار پریس اور پبلیکیشن تیار کئے گئے ہیں اور سینکڑوں اخبار، میگزین، ( ہفتہ وار اور ماہوار) جرائد کا پیسہ سے پیٹ بھرتے ہیں،اور ان سے اپنے مذہب کی خدمت لیتے ہیں۔ کروڑوں ڈالرزر خرید قلم کاروں پر خرچ کرتے ہیں تاکہ اپنے مذہب کی حسب منشا تائید اور مخالفین کی تکفیر پر تحریر و تالیف کرائیں۔

اسی طرح کروڑوں جلد قرآن و کتاب جو  ان کے مذہب کی تائید میں ہے۔ بطور ہدیہ تمام دنیا میں تقیسم کرتے ہیں: اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ خلیجی جنگ کے بعد ان کی نسبت لوگوں کی نفرت کے پیش نظر زایئرین خانہ خدا کے درمیان ماہ رمضان میں دودھ اور خرما اور واپسی کے وقت ایئر پورٹ  پر آب زمزم کی بوتلیں بطور ہدیہ دینے لگے ہیں۔ جس پر لکھا ہوتا ہے۔( خادم الحرمین کا ہدیہ) جب کہ پہلے حاجیوں کو جہاز میں آب زمزم لے جانے سے روکتے تھے۔

۴ـبین الاقوامی روابط جو وہابیت کو امریکا سے دوستی کی بنیاد پر حاصل ہیں اس نقطہ کے پیش نظر کہ امریکا تمام عرب ممالک بلکہ روسی بلاک کے ٹوٹنے کے بعد تمام دنیا پر بالواسطہ یا بلا واسطہ رابطہ رکھتا ہے۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مشرقی وسطی میں امریکی منافع خصوصا ایران میں شہنشاہیت کی تباہی اور اسلامی جمہوریہ کا قیام اور پھر اس منطقہ میں امریکی منافع کو لاحق خطرہ کی مخالفت وہابیت ہی کے ذریعہ ہوتی ہے۔

اہل فہم حضرات سے یہ بات چھپی نہیں ہے کہ وہابیت امریکا کی داہنی آنکھ ہے۔ جیسے اسرائیل بائیں آنکھ ہے۔ لیکن امریکا جو چاہتا ہے وہابیت سے لیتا ہے اور اسرائیل کے حوالہ کردیتا ہے۔ کیونکہ امریکا تخت شہنشاہی کی حفاظت میں بڑی محنت کرتا ہے اور وہابی حکومت کی بقا اور اس کے مخالفین کو کچلنے کے لیے

۱۶۱

سی آئی اے کی بڑی قوت صرف کرتا ہے اور اسرائیل کو جو چاہتا ہے دیتا ہے۔

اس لیے کہ اسرائیل امریکا کے صدر جمہوریہ کی کامیابی کا ضامن ہے اور امریکا حتی کہ یورپ میں بھی کامیابی کی ضمانت یہودی ووٹ ہیں۔

یہ ایک دوسری بحث ہے جس کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ لیکن جو چیز اس وقت ہمارے لیے اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہابیت کا امریکا سے براہ راست ربط ہے اسی لیے دنیا کے تمام عربی اور اسلامی ممالک میں وہابیت بڑی ہیبت کی مالک ہے، مثلا جن عربی و اسلامی ممالک میں نماز کے بعد مسجدوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں وہ اس لیے ہےکہ انھیں خوف ہوتا ہے کہ تخریب کار وہاں اپنے افکار کو پھیلائیں گے۔ لیکن وہیں وہابیت کی تبلیغ کے لیے مسجدوں کے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ جس درجہ چاہیں اپنے افکار کی ترویج و تبلیخ کریں۔

وہابیت کو مشروعیت اس وقت حاصل ہوئی جب اس نے اپنے زیر سایہ ممالک کی بڑی مقدار میں مدد کی اور ان کے اقتصادی پرجیکٹوں کو مکمل کیا۔ پھر یہ فقیر و نیاز مند ممالک وہابیت کی شرائط کو کیوں قبول نہ کریں کہ وہابیت خود تو اپنی نشرو اشاعت کرتی ہے لیکن جو کتابیں، میگزینیں وہابیت کی حقیقت بیانی کرتی ہیں ان کو بند کردیں۔

حتی کہ یہ بات خود فرانس میں جو کہ خود کو طاقتور حکومت سمجھتا ہے عمل میں آئی جب کہ فرانس خود انسانی حقوق و آزادی کا داعی ہے اور سلمان رشدی اور اس کی کتاب کا دفاع کرتا ہے لیکن کتاب ( تاریخ آل سعود) کو منع کرتا ہے۔ اور عمومی کتاب خانوں سے اٹھا لیتا ہے کیوں۔۔۔؟

اس لیے کہ اس کتاب نے وہابیت کو رسوا کر دیا اور جس وقت آپ علت تلاش کریں گے تو کہا جائے گا سعودیہ نے ۱۹۸۴ء میں فرانس کو ایک یقینی

۱۶۲

اقتصادی زوال سے نجات دی تھی اور ستر کروڑ یا شاید اس سے زیادہ کی رقم بخش دی تھی۔

اس کے بعد سے صرف پیرس میں سینکروں مسجدیں وجود میں آگئیں۔ جن میں وہابیت کی ترویج ہوتی ہے۔ جبکہ مرکز اہل بیت(ع) کو بند کر دیا گیا اس لیے کہ یہ دہشت گردی اور تخریب کاری کا مرکز ہے! چنانچہ جو بھی مکتب اہل بیت(ع) کی طرف میلان رکھتا ہو فرانسیسی پولیس اس کا تعاقب کرتی ہے۔ لیکن وہابیت اور اس کے پیرو پوری  آزادی کی ساتھ پرورش پارہے ہیں۔

ان کے متعلق یہ مختصر وضاحت بھی لیکن پس پردہ کیا کیا پوشیدہ ہے؟ اس کے خطرات سے تو بس خدا آگاہ ہے۔لہذا میں پھر تکرار کرتا ہوں کہ مسلمان اب تک وہابیت سے بدتر کسی اور مصیبت سے دو چار نہیں ہوئے۔

۱۶۳

خوارج اور وہابیت میں اتحاد

خوارج ( حاکمیت صرف کے لیے ہے) کے ذریعہ شبہ پیدا کرتے تھے اور اس وقت وہابیت ( عبادت صرف خدا کے لیے ہے) کے ذریعہ شبہ پیدا کر رہی ہے۔البتہ یہ دونوں دعوتیں اگر بدوں قرینہ اور بغیر کسی تعلق کے ہوں تو اس میں کسی اعتراض کی گنجائش نہیں ہےلیکن اس کو ایک سیاسی شبہ یا دوسروں کے عقائد کی مخالفت کے لیے استعمال کرتے ہیں لہذا یہ ایک جعلی اور باطل دعوت ہو جاتی ہے چاہے اس نے حق کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو۔

خوارج کی دعوت روز اول ہی دفن کردی گئی اس لیے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) نے اس کو رسوا کردیا اور ان کے جھوٹ کی حقیقت کو عیاں کر دیا۔

اور پھر امام(ع) اپنی پوری قوت کے ساتھ تیار ہوئے اور ان سے ایسی جنگ کی جس کی مثال پہلے نظر نہیں آتی، اپنے بھائی اور چچا کے بیٹے حضرت رسول خدا(ص) کی وصیت پر عمل کیا اور خوارج کو ان کی دعوت کے ساتھ قیامت تک کے لیے واصل جہنم کر دیا۔

لیکن افسوس کہ وہابیت کی دعوت کو قوت حاصل ہوگئی اور اس نے ہر جگہ پھیل کر جڑ پکڑلی۔ اس لیے کہ شروع میں اسے انگلینڈ، امریکا، اور یورپ کی حمایت حاصل تھی اور اس کی وجہ ملت کے سیاسی تجزیہ نگار اور روشن خیال افراد جانتےہیں۔ خاص کر اس وقت جب یورپ عموما اور امریکا خصوصا اسلام سے جنگ میں مصروف ہے اور اسلام کو اپنے مصالح اور منافع کے لیے واحد خطرہ محسوس کرتا ہے۔

۱۶۴

ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے رکھا ہے اور متحد ہوگئے ہیں تاکہ اسی طرح وہ بے وقفہ اس کوشش میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ جنگ کریں اور اس کو پوری قوت اور ہر طرح کے پروپگنڈہ کے وسائل کے ذریعہ نیست ونابود کر ڈالیں۔

حتیٰ کہ ان کے بعض سربراہوں نے تاکید کی ہے کہ تمام خطرناک ہتھیارو اسلحے قوت کے مظہر صدام کے ہاتھوں میں دے دیں کہ اسلامی ایران کو نابود کر ڈالے، لیکن جس وقت ان کا نقشہ ناکام ہوگیا اور خود عراقی مجاہدین عراق کے اندر اور باہر قوی ہوگئے، انہیں فکر ہوئی کہ عراقی (جس میں دو تہائی سے زیادہ شیعہ ہیں) میں بھی امام خمینی(رح) کا تجربہ کہیں دہرانہ جائے اور ایرانی انقلاب کے ساتھ عراقی انقلاب متحد نہ ہوجائے اور یہی وہ مقام تھا جہاں انھوں نے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا۔ چنانچہ کویت کے قبضہ اور جنگ خلیج فارس کا ڈرامہ رچایا گیا اور اس کا مقصد صدام کی نابودی نہ تھا جیسا کہ وہ مدعی ہیں بلکہ ان کا مقصد عراقی عوام کی نابودی تھا جو کہ ستر(۷۰) فی صد شیعہ ہیں اور ہوا بھی یہی کیوں کہ کویت کی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی اور صدامی حکومت پہلے کی بہ نسبت اور قوی ہوگئی۔ لیکن عراقی مظلوم عوام کی زندگی ایسی تباہ ہوئی کہ وہ ایک ٹکڑے روٹی کےلیے اثاثہ زندگی حتی کہ اپنا لباس تک بیچنے کے لیے تیار ہیں۔

اور یہی وہ مقام تھا جہاں وہابیت نے شیعوں پر غلبہ حاصل کیا خصوصا اس وقت جب سعودی کیمپوں میں شیعوں کو نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ جگہ دی گئی۔ تاکہ مسلسل ٹارچر، اذیت ، آزار اور اہانت کر مزہ چکھتے رہیں۔

پرورگار عالم کا قول ملاحظہ ہو:

تم سے یہود و نصاری راضی نہ ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کی پیروی کرو اور ان کے تابع بن جاؤ۔(بقرہ/ ۱۲۰)

اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہودی و عیسائی جن کی اکثریت امریکا اور

۱۶۵

 یورپی ممالک میں ہے، وہ وہابیت سے محبت اور اظہار دوستی کرتے ہیں اور وہابیت سے راضی ہیں کیوں کہ وہابیت نے بھی ان سے اپنی دوستی ثابت کردی ہے۔ لیکن یہ یہودی و عیسائی عراق، لبنان، ایران حتی کہ ایران کے شیعوں پر برافروختہ ہیں اور انہوں نے تمام پروپگنڈہ کرنے والے اداروں کو شیعوں کو برا دکھانے، ان کی توہین کرنے اور ان پر قدامت پرستی، شدت پسندی اور تعصب۔۔۔۔۔و ۔۔۔۔ و۔۔۔ جیسی تہمتیں لگانے کے لیے خرید رکھا ہے۔

اور یہ سارے تبلیغاتی وسائل جو وہابیت کی جانب سے خوراک پاتے ہیں مسلمانوں سے شیعوں کو متنفر کرنے، ان کے درمیان عقائد میں شکوک و اختلاف پیدا کرنے اور بعض منفی رفتار جو کچھ جاہل و نادان عوام کے ذریعہ خاص مراسم میں سامنے آتی ہیں ان کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی طرح بزرگ مراجع پر کھلم کھلا طعن کرنے اور ان کی عدالت میں شبہ پیدا کرنے کے ساتھ یہ تہمت کہ ” مراجع اموال مسلمین کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں تاکہ ان کی اولادیں احمقوں کی طرح اڑائیں“ لگانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح بعض شیعہ تنظیموں کو خریدنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ جو گمراہی اور راستہ بھٹک جانے کا علم بلند کریں۔

خدا کی قسم ایسا زمانہ نہیں گزرا جو شیعوں کے لیے اس سے زیادہ خطرناک ہو اور مخلص و دل سوز شیعوں کو چاہئے کہ امور کو گہری نگاہ سے دیکھیں اس لیے کہ یقینی خطرہ در پیش ہے البتہ ان کا صبر و اخلاص، خیر و نیکی کا سبب ہے۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

خدا اور اس کے رسول(ص) کی اطاعت کرو اور اختلاف و تنازع نہ کرو کہ ( اختلاف کی وجہ سے ) کمزور ہوجاؤ گے اور تمہاری ہمت اکھڑ جائے گی اور اسی طرح صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(انفال/ ۴ 6 )

۱۶۶

جیسا کہ گزر چکا ہے کہ خوارج نے ” حاکمیت صرف خدا کے لیے ہے“ کی بنیاد پر شبہ پیدا کیا تھا اور وہابیت مقولہ ” بندگی صرف خدا کے لیے ہے“ پر قائم ہے۔ گرچہ یہ دونوں مقولے ایک دوسرے سے کافی مشابہ ہیں لیکن مقولہ وہابیت، مقولہ خوارج سے کہیں زیادہ قوی ہے۔

حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے پہلے حضرات عمر و ابوبکر نے حکومت کی تھی اور ان قوانین کے ساتھ حکومت کی جو مجموعا نصوص قرآن و سنت کے مخالف تھے لیکن کسی نے ان کی مخالفت نہ کی یا کم از کم تاریخ نے کسی قابل ذکر مخالفت کا ذکر نہیں کیا لوگوں نے بھی خلفاء کے قوانین کو قبول کرلیا اور ان کی عادت ڈالی اور اس کو خداوند عالم کا حکم سمجھنے لگے اور ان سے جس درجہ ممکن ہو اس کی عجیب و غریب تاویل بھی کر ڈالی اس لحاظ سے خوارج نے مسلمانوں کے دلوں پر کوئی خاص اثر ںہیں ڈالا کیوں کہ وہ سقیفہ بنی ساعدہ کی تھیوری کے قائل تھے۔ جو عوام کو حاکم کے انتخاب میں آزاد قرار دیتی ہے اور خدا کے انتخاب پر کوئی ایمان نہیں رکھتی۔

اور پھر سقیفہ بنی ساعدہ کی تائید میں آیتیں بھی بیان کرتے جن کو آیات شوری کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ آیت ملاحظہ ہو

(ْ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلىِ الْأَمْرِ مِنكمُ‏ْ)(نساء / ۵۹)

سے خدا، رسول اور اولی الامر بشر کے ہاتھوں منتخب حاکم کی اطاعت کو واجب سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعہ استدلال پیش کرتے ہیں ۔ اور بھی بہت  سی حدیثیں نبی(ص) کی  زبانی نقل کرتے ہیں جو حاکم کی اطاعت کے وجوب کو ثابت کرتی ہیں۔

لہذا مقولہ خوارج اور ان کی جانب سے پیدا کیا جانےوالا شبہ اگر خود حضرت امیر(ع) اسے رسوا نہ کرتے تو بھی مسلمانوں کے نظریہ کے لحاظ سے فنا ہو جاتا

۱۶۷

 چونکہ یہ مقولہ ان کے لیے نیا تھا اور ان کی حکومت کےمفہوم کےساتھ سازگار نہ تھا لہذا اس کی تائید نہ ہوئی خصوصا حکومت کی ہوس رکھنے والے امویوں اور عباسیوں کی طرف سے بھی جن کی تعداد اچھی خاصی ہے۔

لیکن وہابیت کا شبہ جو مقولہ ” بندگی صرف خدا کے لیے“ ہے کون مسلمان ہے جو اس کو قبول نہیں کرتا یا اس کے وجوب کا معتقد نہ ہو گویا وہابیت ہمیشہ اس آیت کو ورد کرتی ہے۔

اور انھیں کوئی حکم نہیں دیا گیا سوائے پروردگار کی عبادت کے خلوص کے ساتھ اس کو پکاریں اور اس کے دین پر ایمان لائیں نماز پابندی سے ادا کریں، زکواة نکالیں اور سچ اور پائیدار دین یہی ہے۔( بینہ/ ۵)

وہابیت نے کوتاہ فکری کے زمانہ میں بعض جاہلوں کی عادات واطوار کو اپنا نشانہ بنایا اس زمانہ میں شعبدہ بازی وحیلہ گری زیادہ ہوگئی اور یہ دھوکہ باز استعمار سے خوراک پاتے تھے لہذا وہابیوں نے اس کو مسلمانوں کی تکفیر اور ان کو مشرک قرار دینے کے لیے قطعی دلیل قرار دیا اور ان کے قتل کو مباح جانا اور مسلسل خونریز جنگوں کے ذریعہ مقامات امن ( مکہ و مدینہ) پر مسلط ہوگئے۔

جن دلیلوں پر وہابیت تکیہ کرتی ہے اگر ہم ان پر ایک نظر ڈالیں مثلا خدا کا یہ قول جس میں فرماتا ہے:

مسجدیں خدا کے لیے ہیں لہذا خدا کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ ( سورہ جن/ ۱۸)

تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ان کی اس گفتار میں خوارج سے شباہت موجود ہے جو کہتے تھے کہ حاکمیت صرف خدا کے لیے ہے اور خدا فرماتاہے۔

ان کا سوائے خدا کے کوئی یارو مددگار نہیں اور کوئی بھی اس کے حکم میں شریک نہیں۔ (کہف/ ۲ 6 )

مذکورہ آیت حکم میں کسی اور کی شرکت کی نفی کرتی ہے لیکن اس کے

۱۶۸

بر خلاف بے شمار دوسری آیتیں موجود ہیں جن میں انسان کو حاکمیت کا حق بخش دیا ہے۔ ان میں سے بعض کا تذکرہ اور پھر ان کی تفسیر ہم نے پیش کی کہ ان آیات کے درمیان کوئی تناقض نہیں ہے اس لیے تشریعی حاکمیت خدا کے لیے ہے اور کوئی بھی اس میں شریک نہیں ہوسکتا۔ چاہے پیغمبر ہی  کیوں نہ ہو۔

خداوند عالم اس کے متعلق فرماتا ہے:

اور اگر وہ (پیغمبر) ہماری بہ نسبت کوئی جھوٹ بات کہتے تو ہم ان کی گردن اڑا دیتے اور تم میں سے ہمیں کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ (حاقہ/ ۴۴،۴۷)

لیکن اجرائے حاکمیت کو خداوند عالم نے ان انبیاء وائمہ کے لیے قرار دیا ہے۔جب کو خود اس نے منتخبکیا ہے اور اس تفسیر کے بعد آیتوں کے معنی میں اختلاف نہیں رہتا اسی طرح وہ آیت

”جو خدا کے ہمراہ کسی اور سے متوسل ہونے و روکتی ہے“

کے مقابل ایسی آیتیں موجود ہیں جو انسان کو بارگاہ الہی میں اس کے انبیاء و اولیاء سے توسل کا حق دیتی ہیں۔

لیکن ان دونوں آیتوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ پہلی آیت میں موجود بندگی و عبادت ہے جو خدا کےسوا اور کسی کے لیے جائز نہیں ہے لیکن دوسری آیتیں بیان کرتی ہیں کہ خداوند عالم نے اپنے انبیاء واولیاء کو وسیلہ قرار دیاہے۔

وہابیت اور وہابیت سے متاثر تمام مسلمانوں کے لیے اس مشکل مسئلہ کی وضاحت کی خاطر بہتر ہوگا اس گفتگو کو ملاحظہ فرمائیں جو میرے اور ایک وہابی کے درمیان ہوئی یقینا آپ سب کے لیے مفید ہوگی جسے میں بغیر کسی کمی زیادتی کے پیش کر رہا ہوں۔

۱۹۷۳ء کی بات ہے  میں اسلام میں عورتوں کے حقوق کے عنوان سے

۱۶۹

 ایک مقالہ لکھنے میں مصروف تھا۔ اسی دوران بعض رسالوں کے مطالعہ کے درمیان مجھے پتہ چلا کہ جزائز (کومور) میں مسلمان عورت مرد پر برتری رکھتی ہے۔ (یعنی عورت راج، شاہی ہے) عورت ہی گھر بناتی ہے اس کے تمام وسائل مہیا کرتی ہے اور شادی کے بعد مرد کو رخصت کر کے اپنے گھر لاتی ہے اور اگر چاہے تو خود مرد کو طلاق دیتی ہے اور اپنے گھر سے باہر نکال دیتی ہے۔ یہاں تک کہ بازار میں بھی عورت کام کرتی ہے لیکن شوہر کا کام صرف دریاسے مچھلی شکار کرنا، کھیتوں میں کام کرنا، یا پھر اشیاء لا کے عورت کے حوالہ کرنے تک ہے تاکہ عورت اسے درست کر کے خرید و فروخت انجام دے۔ خلاصہ مرد راج، شاہی کے بجائے عورت راج، شاہی ہے۔

چنانچہ میں ایک پر مشقت سفر کر کے اس دیار میں پہنچا مجھے پتہ تھا کہ فرانس نے تین جزیروں کے خود مختار ہونے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ لیکن ایک جزیرہ کو روک رکھا ہے جزائر(کومور) عرب ممالک تنظیم کے رکن ہیں اور اس تنظیم کے تعاون سے بہرہ مند ہیں جس نے تیونس اور دوسرے ملکوں کے اساتذہ کی ایک تعلیمی کمیٹی بھیجی ہے۔ جو ان بچوں کو عربی سکھائے جو زیادہ تر عرب اور یمنی الاصل ہیں اور انھیں حضارمہ کہتے ہیں ان کے درمیان پیغمبر کی نسل سے سادات موجود ہیں۔ جو فرانسیسی  اور مقامی زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں بھی گفتگو کرتے ہیں اور سوائے شافعی مذہب کے اور کسی مذہب کو نہیں جانتے۔

ایئرپورٹ پر میری ملاقات ایک تیونسی استاد سے ہوئی جس سے میں بیس سال پہلے جوانوں کے ایک مرکز میں آشنا ہوا تھا۔ اسے میں پہچان گیا اور اس نے بھی مجھے پہچان لیا۔ اس نے اپنے گھر آنے کے لیے مجھے دعوت دی۔ اس کی بیوی بچے تیونس گئے ہوئے تھے اور وہ خود تنہا تھا میں نے بھی قبول کرلیا اور اس کے گھر چلا گیا۔

۱۷۰

اس قیام کے درمیان میں قاضی القضات اور جناب مفتی صاحب سے آشنا ہوا اور ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کی ان لوگوں نے بھی مجھ جپر اعتماد کیا چونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ میں اہل بیت(ع) کا پیرو ہوں اس لیے میرے دوست بن گئے۔ اور وہابی علماء کی شکایت  کرنےلگے جو بڑی کثرت سے پیسہ اورکتاب لے کر آتے ہیں اور بہت سے جوانوں کو اپنی صف میں شامل کر لیا ہے اور کہنے لگے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جو اولادیں کل تک والدین کا احترام کرتی تھیں اور ان کے ہاتھ اور پیشانی کا بوسہ دیتی تھیں اب وہ ان پر برافروختہ ہوگئی ہیں اور یہادب جو کئی نسلوں سے انھیں ورثہ میں ملا تھا ترک کر بیٹھے ہیں۔ جب کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے:

جو بچوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے اور علماء کے حق کو نہ پہچانے وہ مجھ سے نہیں ہے۔

                                                (مسند احمد، ج ۲، ص۲۰۷، المجم الکبیر، ج۱۱، ص۴۴۹)

اور عرب شاعر نے کہا ہے:

معلم کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور اسکے احترام کا خیال رکھو اس لیے کہ معلم کا مقام پیغمبر کے مرتبہ سے قریب ہے۔

لیکن وہابی علماء علماے شر ہیں جس وقت ( وہابی) ہمارے پاس آئے تو ان کا ہدف یہ تھا کہ تمام اچھی عادتوں اور نیک آداب ( کہ جن کی ہم نے تربیت  پائی ہے) سے جنگ کریں گذشتہ وقتوں میں جب کوئی شخص شادی کرتا تھا اور صاحب فرزند ہوتا تھا تو اپنے باپ کے سرو صورت کا بوسہ دیتا تھا اور اس سے اپنے فرزند کے یے دعا کی درخواست کرتا تھا اور اس کی رضایت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا تھا۔

لیکن آج ہماری اولادیں ہم سے لڑتی ہیں اور ہم پر شرک کی تہمت لگاتی ہیںاس لیے کہ کسی کا بھی ہاتھ چومنا اور خم ہوکر احترام کرنے کا مطلب غیر خدا

۱۷۱

کے سامنے سجدہ کرنا ہے اور یہ شرک محض اور حرام ہے۔ خلاصہ جب سے یہ آئے ہیں باپ بیٹے کے درمیان نفرت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

             (لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم)

اس ملک کے ایک مفتی نے کہا کہ میں جزیرہ ( مورونی) میں ایک جدید مسجد کا افتتاح  کرنے جارہا ہوں آپ بھی چلیے۔ میں اور قاضی القضات جن کا نام عبدالقادر گیلانی تھا مفتی صاحب کے وہاں گئے۔ جس وقت مہمانوں سے بھری مسجد میں پہنچے تو مفتی نے ہمارا لوگوں سے تعارف کرایا اور کہا کہ اس مناسبت سے کوئی گفتگو کیجیے میں نے قبول کیا اور عزت افزائی کا شکریہ ادا کیا۔

اپنی تقریر میں اہل بیت(ع) سے محبت مودت خدا کے نزدیک ان کا عظیم مقامج، ان کے متعلق رسول(ص) کی گفتار کہ ان کی دوستی ایمان ہے اور ان سے دشمنی نفاق ہے پر تکیہ کرتے ہوئے ان کے دیگر فضائل و مناقب لوگوں کے لیے بیان کئے ان ذوات نے اسلام و مسلمین کے لیے جو عظیم خدمت کی ہے کے متعلق گفتگو کی اور اپنی تقریر کے اختتام پر اہل بیت(ع) کے علم و دانش کے متعلق گفتگو کی کہ اس کائنات میں مشرق و مغرب کے تمام علماے اسلام نے ان ( اہل بیت(ع)) سے استفادہ کیا ہے اور اگر یہ اہل بیت(ع) نہ ہوتے تو ہرگز عوام اپنے دینی مسائل کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔

جناب مفتی صاحب نے علماء میں سے ایک صاحب کو اپنے پاس بلایا جو میری باتوں کو ان کے لیے ترجمہ کررہے تھے پروگرام کے اختتام پر لوگ میرے پاس آئے اور مجھے چومنے لگے وہ میرے لیے سلامتی اور میرے والدین کے لیے رحمت کی دعا کررہے تھے۔

علمائے وہابیت میں سے ایک جو اپنی سلفی داڑھی اور سعودی لباس سے

۱۷۲

نمایاں تھا۔ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اے شیخ خدا سے خوف کھا ہم بھی اہل بیت(ع) کو دوست رکھتے ہیں لیکن تو نےان کی محبت اور بزرگی بیان کرنے میں غلو کیا ہے اور افراط سے کام لیا ہے۔

میں نے کہا : میں خدا سے چاہتا ہوں کہ مجھے اسی محبت پر دنیا سے اٹھائے۔

 اس نے کہا: آپ ہمارے مہمان ہیں۔

اس سے نجات پانے کے لیے میں نے کہا: میں مفتی صاحب کا مہمان ہوں۔

اس نے کہا: کل ملاقات ہوگی۔

میں نے کہا : کل تونسی اساتذہ کے یہاں مہمان ہوں۔

اس نے کہا : وہ سب ہمارے دوست ہیں اور وہیں ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔

۱۷۳

وہابی عالم سے گفتگو

میرے تونسی دوست نےمجھے بتایا کہ اس کا سعودی دوست (یعنی وہی وہابی) کل آئے گا اور آپ سے علمی بحث و گفتگو کرے گا۔ اسی لیے میں نے اساتذہ کے ایک گروہ کو دعوت دی ہے کہ اس بحث میں شرکت کریں اور سبھی مستفید ہوں۔ ما حضر کا بھی انتظام کیاہے چونکہ یہ چھٹی کا دن ہے اور ایسی مجلس کے ہم بہت زیادہ مشتاق ہیں۔

اس نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں آپاسپرغلبہ پائیں اور ہمیں سر بلند کریں اس لیے کہ وہ کسی کو مجال سخن نہیں دیتا مقررہ وقت پر سارے اساتذہ اس وہابی عالم کے ساتھ گھر پر تشریف لائے وہ سات آدمی تھے اور صاحب خانہ اور مجھے ملا کر نو(۹) آدمی ہوگئے تھے۔

کھا کھانے کے بعد بحث شروع ہوئی۔ موضوع بحث خدا اور بندہ کے بیچ وساطت اور توسل تھا۔ میں قائل تھا کہ خدا تک رسائی میں اس کے انبیاء اولیاء اور اس کے صالح بندوں کی وساطت و وسیلہ صحیح ہے اور ممکن ہےکہ بہت سے گناہ اور دنیاوی مشغولیتیں انسان کی دعا کو اوپر نہ جانے دیں۔ پس ان کو جو اولیاء خدا اور اس کے دوست ہیں شفیع اور وسیلہ بنانے سے انسان کی دعا مستجاب ہوجائے گی۔

اس نے کہا : یہ شرک ہے اور خدا ہرگز اس کو نہیں بخشے گا جو اس کے لیے شریک قرار دے۔

میں نے کہا: یہ بات شرک ہے تو اس پر آپ کی دلیل کیا ہے؟

۱۷۴

اس نے کہا : خداوندعالم فرماتا ہے:

بے شک مسجدیں خدا کے لیے ہیں پس کسی اور کو اس کے ساتھ دعا میں شامل نہ کرو۔(جن/ ۱۸)

یہ آیت غیر خدا سے دعا کرنے پر صراحت رکھتی ہے۔ اور جو بھی غیر خدا سے دعا کرے اس نے اسے خدا کا شریک بنایا کہ وہ نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جب کہ نفع یا نقصان پہنچانے والا صرف پروردگار ہے۔

حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کی بات کی تعریف کی اور اس کی تائید کرنا چاہی۔ لیکن صاحب خانہ نے اس کہا چپ رہو! میں نے تم لوگوں کو جدال و مقابلہ کےلیے دعوت نہیں دی ہے۔ بلکہ اس لیے بلایا ہے کہ ان دو دانشوروں کی باتوں کو سنو۔ اسی تیونسی (مجھ) کو ایک مدت سے پہچانتا ہوں۔ لیکن مجھے بھی اچانک پتہ چلا کہ وہ شیعہ اور اہل بیت(ع) کا پیرو ہے اور اس سعودی دوست کو بھی سب پہچانتے ہیں اور اس کا عقیدہ بھی سب پر واضح ہے۔ لہذا بہتر ہے ان دونوں کی باتوں کو غور سے سنیں اور جب ان کے استدلال تمام ہوجائیں تو دوسروں کےلیے بحث کا میدان کھلا ہوگا۔

اس پیاری روش کا ہم نے شکریہ ادا کیا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: میں آپ سے اس مسئلہ میں متفق ہوں کہ خدا ہی نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی نقصان یا نفع پہنچانے والا نہیں ہے۔ اور مسلمانوں میں اس بابت آپ کا کوئی مخالف نہیں ہے۔ لیکن ہمارا اختلاف توسل سے متعلق ہے۔ مثلا اگر کوئی رسول خدا(ص) کو وسیلہ بناتا ہے تو اسے اچھی طرح علم ہے کہ محمد(ص) خدا سے ہٹ کر، نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، ہاں خدا کے نزدیک ان کی دعا مستجاب ہے۔ پس اگر خدا سے پیغمبر(ص)  عرض کریں کہ پروردگار اپنے اس بندہ پر رحم کر، اس سے در گذر فرما۔ اور بےنیاز کردے۔ تو خدا بھی ان کی دعا کو مستجاب کرتا ہے اور اس باب میں بہت سی صحیح روایتیں موجود ہیں۔ مثلا یہ کہ آپ کا ایک صحابی نابینا

۱۷۵

 تھا آپ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کی کہ : خدا سے دعا کریں کہ وہ اس کی بینائی واپس کردے۔

رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا:

وضو کرو اور دو رکعت نماز پرھو اور خدا سے دعا کرو،” پروردگار! میں تجھے تیرے حبیب محمد(ص) کا واسطہ دیتا ہوں اور انھیں وسیلہ بنا کر تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری بینائی واپس کردے۔“ (تاریخ کبیر، ج6 ،ص۲۰۹،ح۲۱۹۲)

پس اس کو بینائی واپس مل گئی۔

اسی طرح ثعلبہ، فقیر و نادار صحابی آںحضرت(ص) کے پاس آیا اور آپ سے درخواست کی کہ خدا سے دعا کریں کہ وہ مجھے بے نیزا کردے اس لیے کہ میں صدقہ اور خیرات دینا اور صالح بننا پسند کرتا ہوں۔ آنحضرت(ص) نے بھی خدا سے دعا کی اور خدا نے دعا مستجاب فرمائی۔ ثعلبہ ثروت مند ہوگیا اور اس کی ثروت اتنی زیادہ ہوگئی کہ اس کے پاس مسجد آنے کےلیے بھی وقت نہ تھا۔اور وہ زکواة بھی  ادا نہیں کرتا تھا۔

(الاصابہ، ج۱، ص۱۹۸)۔

 اس کا قصہ مشہور ہے اور سبھی جانتے ہیں۔

ایک روز آںحضرت(ص) اپنے اصحاب کے درمیان بہشت کی تعریف و توصیف فرمارہےتھے۔ عکاشہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور عرض کی۔

”اے رسول خدا(ص) دعا کیجئے ، خدا ہمیں ساکنان بہشت میں قرار دے۔“

رسول خدا(ص) نے فرمایا :

” پروردگار! اسے ان میں سے قرار دے۔“

ایک دوسرے صاحب اٹھے اور انھوں نے بھی یہی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا :

عکاشہ نے تم پر سبقت لی (مسند احمد، ج ۱، ص۴۵۴)

۱۷۶

ان تینوں روایتوں میں واضح دلیل موجود ہے کہ آںحضرت(ص) نے خود کو خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ قرار دیا۔

میں قرآن سے استدلال کررہا ہوں، اور یہ ہمارے لیے حدیث پڑھ رہے ہیں! ضعیف حدیثیں جن کی کوئی اہمیت نہیں!

میں نے کہا : قرآن کریم فرماتا ہے:

اے مومنو! تقوی الہی اختیار کرو۔ اور خدا سے تقرب کےلیے وسیلہ تلاش کرو۔(مائدہ/ ۳۵)

اس نے کہا: وسیلہ وہی عمل صالح ہے۔

میں نے کہا : عمل صالح سے متعلق محکم آیتیں زیادہ ہیں اور ان میں خداوند عالم فرماتاہے:

« الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ »

وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح بجا لائے۔( بقرہ، ۲۵)

لیکن اس آیت  میں فرماتا ہے:

« وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ» اس کے  تقرب کے لیے وسیلہ ڈھونڈ لو۔

اور دوسری آیت میں فرماتا ہے:

« يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلى‏ رَبِّهِمُ الْوَسيلَةَ » وہ خود اپنے پروردگار تک رسائی کے لیے وسیلہ کی تلاش میں ہیں۔(بنی اسرائیل / ۵۷)

ان آیات سے پتی چلتا ہے ک خدا تک رسائی کے لیے وسیلہ پر بحث تقوی اور عمل صالح کے ہمراہ ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ وہ فرماتا ہے:

«   يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ » پس ایمان و تقوی کو وسیلہ پر تقدم حاصل ہے۔ ( مائدہ / ۳۵)

اس نے کہا : اکثر علماء نے وسیلہ کو عمل صالح سے تفسیر کیا ہے۔

۱۷۷

میں نے کہا : علماء کے سخن اور ان کی تفسیر سے دست بردار ہوجائیے اور یہ بتائیے کہ اگر قرآن کے ذریعہ وسیلہ کو آپ کے لیے ثابت کردیا تو کیا قبول کریں گے؟

اس نے کہا: محال ہے مگر کوئی دوسرا قرآن ہوکہ جس سے ہم بے خبر ہیں۔

میں نے کہا: میں آپ کے اشارہ کو پوری طرح سمجھ رہا ہوں۔ خدا آپ کو  معاف کرے۔ اور میں آپ کے لیے اسی قرآن سے ثابت کروں گا کہ جسے ہم سبھی جانتے ہیں۔ پھر میں نے آیت کی تلاوت کی :

(یعقوب کے فرزندوں نے ) کہا: اے ہمارے بابا جان ! آپ اپنے رب سے ہمارے گناہوں کے لیے مغفرت کی دعا کیجئیے ہم غلطی پر تھے۔

(حضرت یعقوب نے) کہا: میں اپنے پروردگار سے تمہارے لیے مغفرت طلب کروں گا وہ تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ (یوسف/ ۹۷ـ۹۸)

حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے یہ کیوں نہیں کہا کہ تم لوگ خود خدا سے طلب مغفرت کرو اور مجھے اپنے اور اپنے خالق کے درمیان واسطہ نہ بناؤ۔ بلکہ اس کے برعکس اس واسطہ کی تائید کی اور فرمایا : میں اپنے پروردگار سے تمہارے لیے مغفرت طلب کروں گا اور خود کو اپنے بیٹوں اور خدا کے درمیان وسیلہ قرار دیا۔

وہابی عالم بری طرح گھبرا گیا چونکہ اسے معلوم تھا کہ ان آیات میں ذرا بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اور وہ اس کی تاویل نہیں کرسکتا۔ تو کہنے لگا ہمیں یعقوب(ع) سے کیا واسطہ وہ بنی اسرائیل کے نبی تھےاور ان کی شریعت اسلام کے آنے کے بعد تمام ہوگئی۔

میں نے کہا: کیا میں شریعت اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمد بن عبداللہ

۱۷۸

صلی اللہ علیہ و آلہ سے دلیل لاؤں؟

اس نے کہا: ہم سننے کو تیار ہیں۔ میں قرآن کی تلاوت کی :

« وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللَّهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا» (نساء/6۴)

اور (اے رسول(ص) ) جب لوگوں نے نافرمانی کر کے اپنی جانوں پر ظلم (گناہ ) کیا اور اس کےعد انہوں نے توبہ کی اور خدا سے معافی مانگی اور اے رسول(ص) تم سے بھی درخواست کی کہ ان کے گناہوں کی بخشش کےلیے خدا سے دعا کرو تو بلاشبہ وہ لوگ خدا کو بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔

خداوند عالم انھیں یہ حکم کیوں دے رہا ہے کہ رسول خدا(ص) کے پاس آئیں اور آںحضرت(ص)  کے حضور میں استغفار کریں۔ اور پھر آںحضرت(ص)  ان کے لیے طلب مغفرت کریں؟ یہ واضح دلیل ہے کہ آںحضرت(ص)  ان کے اور خدا کے درمیان وسیلہ ہیں اور خداوند عالم انھیں معاف نہ کریگا مگر صرف آنحضرت(ص) کے وسیلہ سے۔

حاضرین نے کہا اس سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں ہے۔

وہابی جو کہ بری طرح گھبرایا ہوا تھا اور اپنی شکست کو قطعی سمجھ رہا تھا کہنے لگا: یہ بات صحیح ہے لیکن اس وقت آںحضرت(ص)  زندہ تھے مگر اب تو ان کو مرے ہوئے چودہ صدیاں بیت چکی ہیں!!

میں نے حیرت سے کہا: آپ کیسے کہتے ہیں وہ مردہ ہیں؟ رسول خدا(ص) زندہ ہیں اور ہرگز نہیں مرسکتے۔

میری بات پر وہ ہنسا اور مذاق اڑانے کے انداز میں کہنے لگا۔ قرآن نے یہی کہا ہے:

تم مرجاؤ گے اور وہ بھی مرجائیں گے۔( زمر/ ۳۰ )

میں نے کہا : قرآن یہ بھی تو کہتاہے:

۱۷۹

جو راہ خدا میں قتل ہوتے ہیں انھیں مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس سے رزق پاتے ہیں۔( آل عمران/ ۱6 ۹ )

اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے:

جو راہ خدا میں قتل ہوتے ہیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے۔ ( بقرہ/ ۱۵۴)

کہنے لگا : یہ آیات ان شہدا کے بارے میں ہے جو راہ خدا میں قتل ہوتے ہیں اس کا محمد(ص) سے کیا ربط؟!

میں نےکہا:«سبحانالله ولا حول ولاقوة الا بالله »

آپ پیغمبر(ص) جو کہ حبیب خدا ہیں ان کے مرتبہ کو شہدا سے بھی کم سجمھتے ہیں؟ اور ان کی منزلت کو اس طرح کم کرتے ہیں؟ شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ احمد بن حنبل تو شہید مرے اور زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس روزی پارہے ہیں لیکن محمد(ص)  دوسرے مردوں کی طرح ہیں؟!

اس نےکہا: یہ وہی چیز ہے جسے قرآن بیان فرماتاہے۔

میں نے کہا: خدا کا شکر کہ اس نے آپ لوگوں کی اصلیت ہم پر واضح کردی اور خود آپ کی زبان سے آپ کی حقیقت سے ہم آشنا ہوئے۔ ہاں آپ لوگوں نے پوری کوشش کی کہ رسول خدا(ص) کے آثار کو مٹا ڈالیں یہاں تک کہ ان کی قبر کو بھی مٹانا چاہتے تھے اور جس گھر میں آںحضرت(ص) پیدا ہوئے تھے اسے بھی مسمار کردیا۔

اتنے میں صاحب خانہ نے مداخلت کی اور مجھ سے کہا: مہربانی کر کے قرآن و سنت کے دائرہ سے باہر نہ ہوئیے اور ہمارے درمیان طے بھی یہی تھا۔

میں نے معذرت چاہی اور کہا: اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے حیات پیغمبر(ص) کے وقت ان کے وسیلہ کا اقرار کرلیا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد منکر ہیں۔ حاضرین نے کہا تو آپ حیات پیغمبر(ص) کے وقت وسیلہ کے جواز کےمعترف ہیں؟

۱۸۰