اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 54204
ڈاؤنلوڈ: 4475

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54204 / ڈاؤنلوڈ: 4475
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

لایا گیا آپ(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا، اچانک انگلیوں کے درمیان سے پانی ابلنے لگا پوری قوم نے اس پانی سے وضو کیا، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس سے پوچھا ، تم لوگ کتنے آدمی تھے انھوں نے جواب دیا: تقریبا ۳۰۰ آدمی تھے۔

جابر بن عبداللہ کہتے ہیں:

روز حدیبیہ لوگ پیاسے ہوئے پانی کا ایک برتن آںحضرت(ص) کی بغل میں تھا۔ آںحضرت(ص) نے وضو کیا لوگ گھبرائی ہوئی حالت میں آںحضرت(ص) کے پاس آئے، آںحضرت(ص) نے فرمایا: تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ بولے: وضو کرنے یا پینے کے لیے بس یہی پانی ہے۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ پانی میں رکھا اچانک آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی ایسے ابلنے لگا جیسے چشمہ ابلتا ہے۔ پس ہم نے اس  میں سے پیا اور وضو کیا۔ہم نے پوچھا کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ڈیڑھ ہزار لوگ تھے لیکن ایک لاکھ لوگ بھی ہوتے تو بھی پانی کافی تھا۔

علقمہ عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ :

ہم رسول خدا(ص) کے ساتھ ہم سفر تھے۔ پانی کم ہوگیا، آںحضرت(ص) نے فرمایا : تھوڑا سا پانی لاؤ، ایک برتن میں پیش کیا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیا، اور فرمایا پاک و مبارک پانی کی طرف دوڑ پڑو یہ خدا کی برکت ہے، ہم نے پانی کو دیکھا جو انگلیوں کے درمیان سے ابل رہا تھا۔

۲۰۱

وہابیت کی تاریخی حیثیت

اگر ہم اپنی تاریخ کی طرف نگاہ اٹھائیں اور اس کے درد ناک اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو ان میں سے بعض واقعات ہمیں ٹھہرنے پر مجبور کردیں گے۔ تاکہ ہمیں سمجھا سکیں کہ یہ وہابیت جسے ہم نے اس قرآن میں پہچانا ہے۔ اسکی بھی تاریخی حیثیت ہے جو کبھی ظاہر تو کبھی پوشیدہ رہی ہے۔ کبھی جرات کر کے ظاہر ہوئی اور کبھی تقیہ و خوف سےپوشیدہ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اسلام پر ایسے دن آپڑے اور استعمار نے اس نئی فکر کو تقویت بخشی، اس کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ وہ ہالہ یا دائرہ جو آںحضرت(ص) کے گرد ہے اور آپ کا وہ احترام و اکرام جو مسلمان کرتے ہیں ختم اور بے اثر ہوجائے۔ استعمار کو پتہ ہےکہ مسلمان دو چیزوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ قرآن اور سنت پیغمبر(ص) اور یہ دونوں شریعت اسلام کے بنیادی مصدر ہیں جو ان کے حملہ کا نشانہ قرار پائے ہیں۔

اور یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ کتاب خدا میں کسی باطل کے نفوذ کی گنجائش نہیں اور خداوند عالم اس کی حفاظت کا خود ضامن ہے لیکن سنت رسول(ص) میں جعل و تحریف کی جاسکتی ہے اور آںحضرت(ص) کی وفات کے پہلے روز سے ہی سنت میں اختلاف پید ہوگیا۔

لیکن انھیں معلوم ہے کہ علمائے امت نےسنت کی حفاظت کی غرض سے جس کی صحت ثابت ہوچکی ہے اسے اکھٹا کرلیا ہے اور اس کے لیے قوانین بنائے ہیں۔ جو اس کو زیادتی  و کمی سے روکتے ہیں۔

اس کے پیش نظر انھوں نے ایک شیطانی چال چلی تاکہ اس کے ذریعہ جو

۲۰۲

چیزیں مسلمانوں کےدرمیان خوشحالی و نشاط کا باعظ ہیں نابود کر ڈالیں۔ چنانچہ جب مسلمان روحانی اور معنوی امور سے جدا ہوں گے تو الحادی مادیت سےنزدیک ہو جائیں گے۔ اور دھیرے دھیرے سیلاب کے اوپر پیدا ہونے والے جھاگ کی طرح ختم ہوجائیں گے۔ اس دوران انھیں ایک ایسے مسلمان شخص کی تلاش ہوئی جو ریاست طلب اور دنیا پرست ہو۔ انہوں نے محمد بن عبدالوھاب کو اس  کےلیے سب سے موزوں پایا۔ اس کے اندر اپنی روح پھونک  دی اور اس کو قانع کردیا کہ وہ اپنے زمانہ کا واحد دانشور ہے۔ اور ایسی ذہانت و ہوش کا مالک ہے کہ جو خلفائے راشدین کے پاس بھی نہ تھی۔ اور خلفائ کے اجتہاد کو کتاب و سنت جیسے صریح نصوص کا مخالف بتایا، خصوصا آںحضرت(ص) کی زندگی میں حضرت عمر کا آپ(ص) کی مخالفت کرنا۔اور محمد بن عبدالوہاب کو مطمئن کردیا  کہ محمد(ص) بشر ہیں، معصوم نہیں ہیں، مختلف مقامات پر ان سے بھول چوک ہوئی ہے۔ اورلوگوں نے ان کے اشتباہ کی اصلاح کی ہے اور یہ شخصیت کی کمزوری کی دلیل ہے۔

پھر اس میں جزیرة العرب پر تسلط اور اس پر حکومت کی طمع پیدا کی اس کے بعد اس میں تمام عرب دنیا اور اس کےبعد پورے عالم اسلام پر حکومت کی امید بندھائی۔

وہابیت انھیں مفاہیم پر استوار ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ رسول(ص) کو بی حقیقت اور ان کی اہمیت کو کم کردے۔ جیسا کہ ان کے علماء صراحت کے ساتھ کہتے ہیں وہ شخص مرگیا۔ ـنعوذ باللہ) اور ان کے بزرگ ( محمد بن عبدالوہاب نے کہا) محمد (ص) بوسیدہ مردار ہیں۔ (نعوذ باللہ) جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، یہ میرا عصا ان سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ فائدہ بھی پہنچاتا ہے اور نقصان بھی!

اسی سے ملتی جلتی عبارت حجاج بن یوسف کے زمانہ میں بھی کہی جاتی تھی۔

۲۰۳

اسی نے کہا:

ان کے سروں پر خاک! یہ لوگ ایک بوسیدہ مردار کے گرد طواف کرتے ہیں، اگر یہ عبدالملک بن مروان کے محل کےگرد طواف کرتے تو ان کےلیے بہتر ہوتا!

در حقیقت جس چیز نے حجاج او بنی امیہ جیسے ظالموں کو آںحضرت(ص) کے عظیم مقام کی اہانت کی جرات بخشی تھی وہ عمر بن خطاب کا قول تھا جسے اس نے آںحضرت(ص) کے حضور میں کہا تھا:

یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ہمارے لیے صرف کتاب خدا کافی ہے!

اس باب میں وہابیت جو کچھ چاہتی ہے زور و زبردستی لوگوں کے اذہان میں داخل کرتی ہے اس لیے کہ اس کا کہنا ہے کہ محمد(ص) کا کردار ختم ہوا اور ان سے سوائے تاریخ کے کچھ نہیں بچا ہے اور جو بھی ان سے توسل اختیار کرے گویا اس نے ان کی پرستش کی ہے اور خدا کی خدائی میں انہیں شریک بنایا ہے۔

اور یہ کوئی تازہ فکر نہیں ہے بلکہ یہ تاریخی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ خود حضرت ابوبکر نے اعتراف کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ اعلان کیا۔ اور چیلنج کر کے کہا:

اے لوگو! جو بھی محمد(ص) کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے محمد(ص) مرچکے ہیں اور جو بھی خدا کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے اور ہرگز نہ مرے گا۔

اس بیان کی وجہ اور علت کیا تھی؟ جب کہ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی بھی آںحضرت(ص) کی پرستش نہیں کرتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت ابوبکر یہ سمجھتے تھے کہ واقعا بعض مسلمان آںحضرت(ص) کی پرستش کرتے ہیں۔ اگر ایسا تھا پھر آںحضرت(ص) کیوں خاموش رہے اور ان کو منع نہیں کیا؟ بلکہ ان کو کیوں قتل نہ کر ڈالا؟

۲۰۴

بہر حال میں ذاتی طور پر یہی عقیدہ رکھتا ہوں کہ ہو بھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو آج وہابیت کے یہاں وجود میں آیا ہے۔ یعنی وہ آںحضرت(ص) کا احترام و اکرام ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اور بلاشبہ اس پر جل بھن جاتے تھے۔ اور جس وقت دیکھتے لوگ پیغمبر(ص) کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے اوپر ملنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہیں۔ اور اس سے متبرک ہوتے ہیں اور آںحضرت(ص) واہل بیت(ص) کی محبت مودت کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کرتے ہیں اور خدا سے نزدیک ہوتے ہیں تو لوگوں کے اس عمل سے قریش میں برعکس اثر ہوتا۔ لہذا وہ آںحضرت(ص) کی ذات سے دشمنی رکھتے تھے۔ گرچہ وہ کسی اشتباہ کے مرتکب نہ ہوتے تھے۔

آخر کار قریش کے لیڈر، معاویہ بن ابو سفیان  نے اپنے اس باطنی کینہ سے پردہ اٹھا دیا اور جس وقت مغیرہ نے اس سےکہا:

اے امیرالمؤمنین کتنا اچھا ہوتا کہ تم ہاشم میں اپنے عزیزوں پر لطف و کرم کرتے۔ خدا کی قسم ان کے پاس کوئی چیز نہیں بچی ہے جس سے آپ ڈریں آپ کا یہ عمل آپ کے حق میں نفع بخش ہوگا۔

معاویہ نے کہا:

برادر بنی تمیم(ابوبکر) نے حکومت کی لیکن جیسے ہی اس دنیا سے گئے نام ختم ہوگیا۔ البتہ کوئی کبھی یاد کرلیتا ہے۔ برادر عدی(عمر) نے حکومت کی اور دس سال خود خواہی اور قدرت کی بنیاد پر لوگوں پر سلط رہے۔ لیکن جس وقت دنیا سے گئے ان کا نام بھی ان کےساتھ ختم ہوگیا، مگر یہ کوئٰ کہے حضرت عمر! اور حضرت عثمان نے بھی حکومت کی اور جو کچھ چاہا کیا لیکن جیسے ہی دنیا سے سدھارے ان کا نام بھی دینا سے رخصت ہوگیا۔ کسی کا نام بھی نہیں بچا سوائے ابن ابی بکر کشبہ(مراد رسول خدا(ص) ہیں) کے ، کسی اور کا نام نہیں بچا ہے اور ہر روز دن پانچ مرتبہ یاد کیا جاتا

۲۰۵

ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں۔(اشہد ان محمد رسول اللہ) یہ کون سی یاد ہے جو باقی رہ جانا چاہتی ہے۔ تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، خدا کی قسم اس کے نام کو دفن کردوں گا اور مٹی میں ملا دوں گا۔

یہ وہی وہابیت ہے جس کا کل بہترین شکلی اور فصیح ترین عبارتوں میں نقشہ تیار کیا گیا اور آج کل اس کو عملی شکل دے رہے ہیں۔

(وہ چاہتے ہیں اپنے منہ سے نور خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا اسے پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو اچھا نہ لگے۔(صف / ۸)

۲۰۶

وہابیت اور زیارت قبور کی تحریم

اس وقت کی رائج بدعتوں میں ایک بدعت عورتوں پر قبر کی زیارت کو حرام قرار دینا ہے۔ مسلمان عورت جب خانہ خدا کی زیارت اور حج کے لیے جاتی ہے تو اسے بقیع اور شہداء احد اور دیگر قبور کی زیارت کی اجازت نہیں ملتی۔

وہابیت نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے پاس اس کو حرام قرار دینے میں سوائے تعصب کے کوئی اور دلیل نہیں ہے۔

مسلم اپنی صحیح میں باب جنائز کے اندر نقل کرتے ہیں کہ:

حضرت عائشہ نے رسول خدا(ص) سے  پوچھا۔ عورت اگر قبروں کی زیارت کے لیے نکلے تو کیا کہے۔

حضرت نے ان سے فرمایا:

کہے: اے قوم جو آرام سے اپنے گھروں میں سوئی ہے تم پر سلام ہو تم ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم بھی جب خدا نے چاہا تم سے ملحق ہو جائیں گے۔ خداواند عالم گذرے ہوئے اور جو بعد میں؟؟؟ ہیں ان کی مغفرت فرمائے۔

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ: آںحضرت(ص) ایک عورت کے قریب سے گذرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ(ص) نے فرمایا: تقواے الہی اختیار کر اور صابر رہ۔ اس عورت نے کہا: مجھ سے دور ہوجاؤ۔ تم میری مصیبت میں نہ گرفتار ہو اور نہ ہی اسے جانتے ہو۔ اس عورت سے کہا گیا کہ یہ رسول(ص)

۲۰۷

تھے۔ وہ عورت رسول(ص) کے گھر آئی اور عرض کیا: میں نے آپ کو نہ پہچانا مجھے معاف فرمائیے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا: اولین صدمہ اور مصیبت کے لیے صبر ہے۔

اس سلسلے میں حدیثیں بکثرت موجود ہیں اہل سنت کی کتب صحاح اور شیعوں کی کتابیں اس سے مالامال ہیں لیکن وہابیت اس کا انکار کرتی ہے اور اس کے لیے کس قدر قیمت ی قائل نہیں اور جس وقت ان میں سے بعض لوگوں پر میں نے اعتراض کیا اور احادیث کے ذریعہ استدلال کیا تو وہ کہنے لگے یہ روایتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔

میں نے کہا بلکہ اس کے برعکس ! تحریم منسوخ ہےاس لیے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

میں پہلے تم کو قبروں کو زیارت سے روکتا تھا لیکن اس وقت کہتا ہوں کہ زیارت کرو کیوںکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔

جواب ملا: یہ حدیث مردوں کے لیے مخصوص ہے عورتیں اس سے خارج ہیں،

میں نے کہا : تاریخ میں ثابت ہوا ہے اور محققین اہلسنت نے بھی اسے بیان کیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا ہر روز اپنے بابا کی قبر کی زیارت کو جایا کرتی تھیں، اور فرماتی تھی:

میرے بابا! مجھ پر وہ مصیبتیں نازل ہوئیں جو اگر دنوں پر پڑتیں تو شب تاریک میں بدل جاتے۔

یہ بھی مشہور ہےکہ حضرت علی(ع) نے ان کے لیے ایک گھر بنایا تھا جس کا نام بیت الحزن تھا اور وہ اپنا زیادہ تر وقت بقیع میں گزارتی تھی۔

اس نے کہا: اگر فرض کر لیں کہ یہ حدیث درست ہے تو یہ فاطمہ(س) سے مخصوص ہے۔

۲۰۸

اسے کہتے ہیں ( اندھا تعصب!) ورنہ مسلمان کیوں کر قصور کر سکتا ہے کہ خدا اور اس کا رسول(ص) عورت کو اس بات سے روکیں کہ وہ اپنے والدین، بھائی، اولاد اور شوہر کی قبروں پر جائے اور ان کے لیے طلب رحمت و مغفرت کرے اور ان کی قبروں پر اشک رحمت چھڑکے اور خود بھی موت کو یاد کرے جس طرح مرد یاد کرتا ہے۔

عورت کی نسبت اس کھلے ہوئے ظلم پر خدا اور اس کا رسول(ص) راضی نہ ہوں گے اور کوئی بھی عقل مند اسے قبول نہ کرے گا

۲۰۹

۲۱۰

۲۱۱

بڑی غلطی پر ان کا سختی سے محاسبہ کرتے ہیں۔

اور کبھی ایک بھول یا معمولی غلطی پر پٹائی کرتے ہیں اور ان پر درجہ سختی کرتے ہیں کہ وہ تھک جاتے اور دین سے متنفر ہوجاتے ہیں جبکہ وہ ابھی سن بلوغ تک بھی نہیں پہنچے ہوتے، یہ وہ چیز ہے جسے ہم نے خود دیکھا ہے۔ شایدخود آپ نے بھی اپنے عزیزوں میں ایسے بچوں کو دیکھا ہو جو سختی کی بنیاد پر نماز پڑھتے ہیں۔

اور جس وقت ماں باپ کی پکڑ کمزور پڑتی ہے تو اس زنجیر کو توڑ کر نکل جاتے ہیں اور نماز کو بالکل ترک کر دیتے ہیں۔

میں نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپنے عزیزوں میں کچھ والدین کو اس بات پر راضی کروں کہ نماز نہ  پڑھنے پر بچوں کی پٹائی نہ کیا کریں اور ان کو زبردستی نماز پڑھنے پر مجبور نہ کیا کریں بلکہ محبت و مہربانی اور نرمی کے ساتھ پیش آئیں تاکہ نماز ان کی نظر میں محبوب بنے نہ کہ ڈراؤنا خواب۔

لیکن  میں جب اس بات کو کہتا تو وہ کہتے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا:

سات یا دس سال (روایت میں اختلاف ہے) کے بعد نماز کے لیے بچوں کی پٹائی کرو۔ اس طرح خواہ جوانوں نے عیسائی مبلغوں کی پیروی نہ کی ہو لیکن نماز کو ضائع کردیا اور اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ جب کہ انھیں کھیلوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کو چھوڑنا چاہیے تھا جو ذکر خدا سے روک دیتے ہیں۔

۲۱۲

مکتب اہل بیت(ع) میں مشکل کا حل

جو ابھی اسلامی تربیت کے لیے مکتب اہل بیت(ع) کی پیروی کرتا ہے اسے ایسی راہ حل ملتی ہے جس کو خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لیے قرار دیا ہے جو  ان کے لیے دین کو آسان کردے اور احکام کو ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا سکے۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

خدا نے تمہارے لیے دین میں مشقت قرار نہیں دی ہے۔(حج/ ۷۸)

خدا تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ زحمت ومشکل۔ ( بقرہ / ۱۸۵)

خدا ہر شخص پر اس کی قوت کے مطابق فرائض معین کرتا ہے۔(بقرہ / ۲۸ 6 )

رفع حرج

رفع حرج یعنی سختی اور دباؤ کو ختم کرنا اور یہ اسلام کا ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ ہرج و مرج کو ختم کردیا گیا اور ہر زحمت ممنوع ہے لیکن اگر واقعیت یہی ہے تو پھر یہ ساری سختیاں جو فقہی کتابوں میں موجود ہیں وہ کس لیے ہیں؟

اگر مسلمان (اہل سنت حضرات) کے بعض ابواب وضو اور غسل کر پڑھے تو اسے احساس ہوگا کہ آسانی کس حد تک مشکل میں تبدیل ہوچکی  ہے اور انسان پر اسکی طاقت سے زیادہ فرائض عائد کئے گئے ہیں مثلا تحریر ہے کہ اگر غسل کے بعد غسل کرنے والے ہاتھ اس کے عضو تناسل سے لگ جائے تو اسکا غسل باطل ہے اور اسے بھر سے غسل کرنا پڑیگا۔

مکتب اہل بیت(ع) میں، اہل بیت(ع)  نے اپنے جد حضرت رسول خدا(ص) سے روایت نقل کی ہے کہ وضو و غسل (یعنی دوبارہ دھونا) اور دو مسح ہے( یعنی چہرہ اور ہاتھ کو دھونا اور سرو پا کا مسح ہے۔)

۲۱۳

یہ ہے وضو

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ نماز سے پہلے وضو کریں خداوند عالم فرماتا ہے:

اے رسول(ص) ! اگر نماز کے لیے اٹھو تو چہرہ کے بعد ہاتھوں کو کہنی تک دھوؤ۔ اور اپنے سرو پیرکا ابھرے ہوئے حصہ تک مسح کرو۔(مائدہ/6 )

لہذا وضو چہرہ اور ہاتھوں کے دھونے اور سر وپا کا مسح کرنے کا نام ہےجیسا کہ ہم دیکھتے ہیں یہ بہت ہی آسان ہے اس میں کوئی زحمت بھی نہیں ہے۔ مسلمان مقیم ہو یا مسافر ائرپورٹ پر ہو یا ٹرین میں یا پھر گھر میں اس وضو سے اس کے لیے کوئی مشکل نہ ہوگی۔ پائپ کھولے چہرہ اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دھولے اور تل کو بند کردے۔ اورپھر سرو پا کا ہاتھ کی بچی ہوئی رطوبت سے مسح کرے۔ حتی اگر وہ چاہے تو نماز ادا کرنے کی جگہ تک جوتے کو نہ اتارے(اگر نماز ادا کرنے کی جگہ نزدیک ہو) تو وہاں جوتا اتارے اور پھر پاؤں پر مسح کرے۔

لیکن اہل سنت فقہ کے مطابق وضو بہت ہی سخت ہے کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھونا۔ تین مرتبہ کلی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا، تین مرتبہ چہرہ دھونا، تین مرتبہ داہنے ہاتھ کو دھونا ، تین مرتبہ بائیں ہاتھ کو دھونا، پورے سر، اور کان کا مسح، تین مرتبہ داہنے پیر کا دھونا اور تین مرتبہ بائیں پیر کا دھونا۔

ایسا وضو اور خصوصا جوانوں کے لیے سفر کی حالت میں اور خاص کر ٹھنڈک میں جب کہ پیروں کو دھونا ہو اور پھر موزہ پہننے کےلیے پیروں کو خشک کرنا اس میں ان کےلیے کس درجہ زحمت  ہے۔

۲۱۴

لیکن مکتب اہل بیت(ع) میں نص کے مقابل اجتہاد اور ذاتی رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قرآن و سنت رسول(ص) کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ جو وضو اس مکتب میں ہے اسی کو قرآن نے بھی مسلمانوں پر واجب کیا ہے۔ اور رسول خدا(ص) و ائمہ اطہار(ع) اسی طرح وضو کرتے تھے۔

خدا رحمت کرے عبداللہ بن عباس پر آپ ہمیشہ تکرار کرتے  رہتے کہ :

کتاب خدا میں سوائے دو دھونے  اور دو مسح کے ہمیں اور کچھ نہیں ملتا لیکن تم لوگ تو صرف سنت حجاج کی پیروی کرنا چاہتے ہو۔ ( مصنف عبدالرزاق،ج ۱، ص۳۸)

لہذا آج مسلمانوں پر اور خاص کر سمجھدار جوانوں پر واجب ہے کہ آسانی اور سہولت کی طرف پلٹ آئیں اور لوگوں کو دین کی طرف رغبت اور شوق دلائیں، جناب رسول خدا(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کس قدر تاکید فرمائی ہےکہ اس قاعدہ پر عمل کریں۔

لوگوں سہولت سے کام لو، مشکل پیدا نہ کرو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔

خود اپنے آپ پر سختی نہ کرو تا کہ خدا بھی تم سے سختی سے کام نہ کے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔

یہ تجربہ معمولا کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے۔ کتنے ایسے جوان تھے جو وضو کی وجہ سے نماز سے گریز کرتے تھے۔ یا نماز کو تیمم سے پڑھتے تھے ۔ اس ڈر سے کہ کہیں پانی ان کے پاؤں کے لیے مضر نہ ہو۔

لیکن اہل بیت(ع) کی روش کے مطابق وضو انھیں سکون حاصل ہوا اور وہ مطمئن ہوگئے۔

۲۱۵

یہ ہے نماز

مکتب اہل بیت(ع) میں نماز پانچ وقت پڑھنے کے بجائے تین وقت پڑھتے ہیں۔ یعنی نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب عشاء یکے بعد دیگری  پڑھتے ہیں۔ اور ایک وقت نماز صبح کے لیے نماز و عصر کےلیے اور ایک وقت نماز مغرب و عشاء کے لیے معین کر رکھا ہے۔

ہم نے اپنی کتاب ( سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) میں ایک باب قرآن کریم اور سنت پاک کی روشنی میں ان تین وقتوں کی شرعی حیثیت سے مخصوص کیا ہے۔ہم طالب کو طول دینا نہیں چاہتے اور جس بات کا تذکرہ پہلے کیا ہے اس کی تکرار نہیں کرنا چاہتے ہمارے محقق احباب اس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

لیکن اس جگہ ان تین وقتوں میں نمازوں کو قرار دینے کی الہی حکمت سے متعلق توضیح دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی تذکرہ کیا ہے۔ سماج کا ین چوتھائی حصہ نوکری پیشہ ہے۔ یہ یا تو نماز نہیں پڑھتا ہے یا اگر پڑھتا ہے تو کسالت اور سستی کے ساتھ پڑھتا ہے اور پھر پڑھنے میں مشقت اور سختی محسوس کرتا ہے۔

اس لیے کہ انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ شرعا کام میں کمی نہیں کرسکتے۔ اور جس وقت میں کام کی تنخواہ لیتے ہیں اس میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ البتہ ہم ان لوگوں سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتے جو مسجد میں پکار پکار کر کہتے ہیں نماز کے وقت کام چھوڑ دو چاہے اس کی وجہ سے تمہیں کام سے نکال دیا جائے اس لے کہ روزی کا دینے والا خدا ہے نہ کہ کارخانہ کا مالک اور منیجر!!!

۲۱۶

تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب یہی نظریہ رکھنے والے افراد خود اسی موضوع میں متضاد نظر آتے ہیں۔ ہم نے انھیں میں سے ایک شخص کو دیکھا وہ حضرت عمر بن خطاب کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا حضرت عمر مسجد میں وارد ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو لوگوں کے آنے سے پہلے نماز پڑھ رہا تھا۔ دوسری مرتبہ آئے دیکھا وہی شخص نماز پڑھ رہا ہے۔ اور جب تیسری مرتبہ دیکھا تو کہا کون تمہاری روزانہ کی زندگی کا خرچ دیتا ہے۔ اس نےکہا میرا بھائی مجھے کھانا کھلا تا ہے اور لباس پہناتا ہے جناب عمر نے اس سے کہا مسجد سے باہر نکل جاؤ اس لیے تیرا بھائی تجھ سے بہتر ہے۔ آسمان سے تو سیم و زر نہیں برستا۔

میں اس کو کنارے لے گیا اور اس سےکہا کہ کیا تم نے ایک ماہ پہلے یہ نہ کہا تھا کہ خدا اپنے بندوں کو روزی دیتا ہے۔ تمہارے اوپر ضروری ہے کہ نماز کے وقت کام چھوڑ دو۔ اس نے بزرگانہ مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ( ہر سخن جائی دارد) میری پہلی بات قرآن سے تھی اور دوسری بات حضرت عمر فاروق کے حوالہ سے تھی اور یہ دونوں باتیں حق ہیں میں نے اس سے کہا خدا تجھے جزائے خیر دے میں نے بڑا استفادہ کیا۔

ہم پھر دو نمازوں کو ایک وقت میں انجام دینے میں الہی حکمت کی طرف پلٹتے ہیں۔ کہ خداوند عالم زمین و زمان کا خالق ہے اور ماضی ، حال اور مستقبل سے آگاہ ہے۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہے۔

خدا کو علم تھا کہ ایک زمانہ میں لوگوں کی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی اور ان کی آزادی کم اور وقت محدود ہوگا۔ اور چونکہ حضرت محمد (ص)خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کی شریعت قیامت تک باقی ہے اور حکمت الہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔ کہ بندوں کےلیے آسانی پیدا کی جائے اور عسر وحرج کو ختم کیا جائے لہذا اپنے

۲۱۷

رسول(ص) سے فرمایا: نماز ظہر و عصر، مغرب و وعشاء کو ایک ساتھ ادا کریں اور یہی روش امت کو تعلیم فرمائیں۔ تاکہ ان پر سے حرج اور سختی ختم ہوجائے۔

پیغمبر(ص) نے اس حکم پر عمل کیا اور کئی مرتبہ مدینہ منورہ میں اسی روش پر نماز ادا کی اور جس وقت آپ سے سوال کیا گیا تو آپ(ص) نے فرمایا:

میں اپنی امت پر سختی نہیں چاہتا۔

صحیح بخاری میں آیا ہے کہ ابن عباس نے کہا:

رسول خدا (ص) نے مدینہ میں سات رکعتی اور آٹھ رکعتی نماز پڑھی، یعنی ظہر و عصر اور اسی طرح مغرب و عشاء۔

یہ ہے حکمت الہی اور یہ ہے رسول خدا (ص) کی نماز، جسے آںحضرت(ص) نے پروردگار کے حکم کی بنیاد پر انجام دیا۔ تاکہ امت کے لیے فشار و سختی کا باعث نہ ہوں۔

ہم کیوں اس روش کو چھوڑ دیتے ہیں جبکہ یہ سہل اور آسان ہے اور ملازم، کاریگر، طالب علم اور فوجی سبھی کے لیے سازگار اور ممکن ہے اور کوئی کام ایسا نہیں جو ان وقتوں سے بڑھ کر ہو۔ اس طرح اب کسی مسلمان کےلیے کوئی بہانہ نہیں۔

یہ بات دنیا میں معروف ہے کہ ڈیوٹی کا وقت  آٹھ گھنٹے ہوتا ہے ۔ اور دو حصوں میں کام ہوتا ہے صبح ۸ بجے سے لے کر ۱۲ بجے تک اور بیچ میں دو گھنٹہ استراحت پھر ۲ بجے سے لےکر شام کے 6بجے تک۔ اس صورت میں مسلمان نماز ظہر و عصر کو آرام کے وقت میں کام پر دوبارہ جانے سے پہلے انجام دے سکتا ہے۔ اس طرح اس نے نماز ظہر و عصر کو اس کے صحیح وقت پر انجام دیا ہے چنانچہ نہایت آرام سے کام پر آسکتا ہے۔

لیکن اگر کام سارے دن کا ہو جیسے معدنیات یا اس سے مشابہ جگہوں پر کام تو (قانون کار) ۷ گھنٹے مسلسل کام کو تجویز کرتا ہے۔ اور آدھا گھنٹہ آرام کے

۲۱۸

لیے دیتا ہے اس قسم کی کمپنیاں کام کو تین شفٹوں میں معین کرتی ہیں۔

۱ـایک گروہ صبح ۷ بجے سے ۲ بجے تک کام کرتا ہے۔

۲ـدوسرا گروہ ۲ بجے (بعد از ظہر) سے رات کے ۹ بجے تک کام کرتا ہے۔

۳ـ اور تیسرا گروہ ۹بجے رات سے ۴بجے صبح تک کام کرتا ہے۔

نماز کے لیے اس حکمت الہی کے تحت یہ سارے گروہ بغیر کسی زحمت کے اپنے وقت پر نماز ادا کرسکتے ہیں۔

اور کوئی بھی عذر نہیں کرسکتا کہ اس کے پاس نماز ادا کرنےکا وقت نہیں ہےیا یہ کہ نماز وقت جارہا ہے اور وہ نماز ادا نہیں کرسکتا۔

اس طرح ہم نماز ادا کرنے میں قرآن و سنت کی پیروی کریں گے۔

اس لیے کہ حکم یہی ہےکہ مومنین نماز کو اس کے وقت پر انجام دیں۔ اسی کے ساتھ ہم اپنی اور دوسروں کی سختی و مشقت کو بھی دور کرسکتے ہیں۔

شاید بہت سے جوان جنہوں نے اپنی نماز کو ترک کردیا ہے پھر سے نماز کی آغوش میں پلٹ آئیں۔ اگر انھیں یہ پتہ چل جائے کہ خدا نے اسی امر کی تشریح کی  ہے اور رسول خدا(ص) اور آپ کے اہل بیت(ع) نے ایسے ہی انجام دیا ہے

۲۱۹

۲۲۰