اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 54202
ڈاؤنلوڈ: 4475

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54202 / ڈاؤنلوڈ: 4475
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲۲۱

اگر یہ اہل بیت(ع) کے دستور پر عمل کرے تو اسے ۲۰۰۰ ہزار دینار ادا کرنا ہوں گے۔لہذا اگر مذہب اہل سنت کے مطابق ادا کرے تو اس کے پاس ۹۷۵۰ دینار بچتے ہیں اور اگر مذہب اہل بیت(ع) کے مطابق ادا کرے تو اس کے پاس صرف آٹھ ہزار(۸۰۰۰) دینار بچتے ہیں۔

اس مفروضہ کی بنیاد پر اہل سنت فقیر مسلمان کو پورے سال میں صرف ۲۵۰ دینار حاصل ہوتاہے اور اہل بیت (ع) کے پیرو فقیر مسلمان کوایک سال ۲۰۰۰ دینار حاصل ہوگا۔ اور ان  دونو ں رقوم کے درمیان کافی فرق ہے۔

نیز اہل سنت فقیر اور دولت مند مسلمان، کا باہم موازنہ کریں تو اس طرح ہوگا ۹۷۵۰ کے مقابلے میں ۲۵۰ دینار اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔ یعنی چالیسواں حصہ۔ با الفاظ دیگر اگر دولت مند کے پاس چالیس روٹی ہوگی تو فقیر کے پاس صرف ایک رٹی ہوگی۔ لیکن اگر اہل بیت(ع) کے پیرو فقیر و ثروت مند میں موازنہ کریں تو اس طرح ہوگا۔

۸۰۰۰ کے مقابل ۲۰۰۰ دینار اور یہ نسبت معقول ہے یعنی چار کے مقابل ایک ہے یعنی اگر دولت مند کے پاس چار روٹی ہوگی تو فقیر کے پاس ایک روٹی۔

دوسرے لفظوں میں اہل سنت فقیر کا ایک حصہ ہے اور اہل سنت  دولت مند کے ۳۹ حصے اور یہ فرق بہت زیادہ ہے خداوند عالم نے اس سے ہوشیار کرتے ہوئے فرمایا ہے:

یہاں تک کہ تمام غنائم امیروں کے ہاتھ میں نہ آجائیں اور صرف انھیں کے ہاتھوں میں رد و بدل ہوتے رہیں۔(حشر/۷)

اور اسی طرح ہے بھی اس لیے کہ قوم کے غنی اور دولت مند افراد جو صرف ۲۰ فیصد ہیں ۹۵ فیصد دولت اور سرمایہ پر قابض ہیں۔ جب کہ  باقی قوم صرف ۵ فیصد کی مالک ہے۔ لیکن اہل بیت(ع) کا پیرو ہر چار حصہ کے مقابل ایک حصہ کا

۲۲۲

مالک ہے یہ فرق گرچہ زیادہ ہے لیکن اس قدر واضح نہیں ے اور اس صورت میں دولت مند افراد ۷۵ فیصد پر قابض ہوں گے اور باقی ۲۵ فیصد دولت دوسرے تمام لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی۔

ان تمام حساب وکتاب کے باوجود اسلام نے لوگوں کو مستحبی صدقہ دینے کی بھی کافی ترغیب فرمائی ہے بلکہ دوسری زکات کے بھی صرف دولت مندوں پر واجب قرار دیا ہے۔ مثلا زکات فطرہ ، قربانیاں ، کفارے، نذریں ، اسی طرح اسلام نے حاکم شرع کو حق دیا ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے مال میں تصرف کرے اور اگر ضروری ہو تو ان  سے لے اور فقراء کے درمیان تقسیم کرے یا بیت المال کے حوالہ کردے۔

جو واقعیت سامنے ہے وہ کچھ اور ہے۔ اور خدا نے جس چیز کا قرآن میں حکم دیا ہے اور رسول خدا(ص) نیز آپ کے اہل بیت(ع) نے جس پر عمل کیا ہے وہ کچھ اور ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی ملتوں میں طاقت، دولت مندوں کے ہاتھ میں ہے اور طاقت والوں اور دولت مندوں کی تعدداد بھی کم ہے جب کہ وہ ہر چیز کے مالک ہیں۔ لیکن فقراء کی تعداد بہت زیادہ ہے جب کہ ان ے پاس کچھ نہیں ہے۔

کمیونسٹوں نے بھی عالم اسلام میں رائج اسی کمزوری کو پکڑ لیا اور آسانی کے ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں روشن فکر طلباء کو اپنی طرف جذب کر لیا اور انھیں قوم کے ہر فرد کے درمیان دولت کی مساوی تقسیم کا نظریہ بطور تحفہ پیش کردیا۔

اسی طرح بہت سے مسلمان نوجوان کمیونسٹ ہوگئے اور اس تھیوری کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور دین کو خیر باد کہہ دیا۔ عقائد ترک کردئے اور اپنے آباؤ و اجداد سے نفرت کرنے لگے۔ اسلام نے کمیونزم سے بدتر خطرہ نہیں دیکھا اس لیے کہ وہ

۲۲۳

اندر ہی  اندر اپنے ہی روشن خیال فرزندوں کے ہاتھوں ویران ہوگیا۔ کیوں کہ جب ایسے لوگ حکومت میں آئے تو انھوں نے اسلام سے جنگ کی اور اپنی قوم پر خاطر خواہ اثر ڈالا۔

اگر آج ہم کمیونزم کی لعنت میں گرفتار ہوگئے تو ہمیں چاہئے گذشتہ مسلمانوں کے سرزنش کریں کہ جنھوں نے احکام خدا میں تحریف کی یہاں تک کہ فقیر زیادہ ہوگیا اورجہل و پسماندگی تاریکی، تعصب، اور نادانی کا ان پر راج ہو گیا۔

                (لا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم۔)

۲۲۴

موقت شادی (متعہ) کی اہمیت

سب سے خطرناک سماجی مشکل جو انسانی سماج کو تباہ کررہی ہے وہ جنسی مشکل ہے۔ جنسی شہوت، جیسا کہ سبھی جانتے ہیں بشری زندگی کی بقاء کے لیے اساس ہے اور خداوند عالم نے انسان، حیوان اور نبات سب کو نرو مادہ کی صورت میں پیدا کیا ہے:

خداوند عالم فرماتا ہے:

ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم متوجہ ہوجاؤ۔ ( ذارایات/ ۴۹)

اور خداوند عالم نے تمہارے لیے بیویاں قرار دیں اور تمہاری بیویوں سے بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں پیداکئے۔(نحل/ ۷۲)

زندگی کی بقاء کے لیے ضروری ہے نرو مادہ باہم ملاپ کریں اور یہ خلق خدا کے درمیان اس کی سنت ہے۔

شادی اور نسل کو آگے بڑھانے کےلیے اللہ نے مرد و عورت میں جنسی خواہش پیدا کی ہے تاکہ ان میں سے ہر ایک مد مقابل سے جنسی رابط پیدا کرنے کے لیے میلان رکھے۔ اور ہر ایک کی جنسی خواہش پوری ہو اور اس کےنتیجہ میں اسپرم اور اوم بار آور ہوں۔ اور ایک بچہ وجود میں آئے۔ وہ بھی رشد نمو کرے، بڑا ہو اور اسی طرح وہ بھی حیات بشری کو آگے بڑھائے۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے:

وہی ہے جس نے آب(نطفہ) سے آدمی کو خلق کیا اور ان کے درمیان

۲۲۵

رشتہ ناطہ برقرار کیا اور تمہارا پروردگار ہر چیز پر قادر ہے۔(فرقان/ ۵۴)

اسلامی شریعت نے اس جنسی غریزہ کےلیے قید و شرط اور ایک خاص حد معین کی ے جس کی  ہر شخص پابندی نہیں کرتا۔ لہذا اگر خاندان و نسل اور انسانی شرف کی حفاظت کی غرض سے شرعی شادی کے بغیر جنسی رابطہ برقرار کیا جائے تو حرام ہے۔

لیکن مغربی سماج میں جوان ونوجوان بغیر کسی قید وشرط کے نہایت آسانی کے ساتھ جنسی عمل انجام دیتے ہیں اور نہ صرف اس کو برا نہیں سمجھتے بلکہ ایک طبیعی امر سمجھتے ہیں اور اس پر ان کی خوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ وہ اس عمل میں اس درجہ آگے بڑھ چکے ہیں کہ حیوانات کی طرح بلکہ حیوانات سے بھی برے اور قبیح ڈھنگ سے زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اگر کوئی مرد شادی کرے اور بیوی کو باکرہ پائے تو اسے تعجب ہوتا ہے اور وہ اس کو ایک غیر معمولی بات سمجھتا ہے۔

لیکن مسلمانوں کے ہاں مطلب بالکل مختلف ہے زن و مرد کا ایک جگہ جمع ہونا منعہے۔ مگر خاص خاص مواقع پر حجاب اسلامی کے ساتھ ممکن ہے یعنی عورت کو چہرہ اور کلائیوں تک ہاتھ کے سوا کوئی حصہ کھلا نہ ہو۔

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اولاد کی تربیت ہے خصوصالڑکیاں اس طرح پرورش کیجاتی ہیںکہ وہ پردہ اور حیا وشرم کی پابند ہوں۔ بکارت یا کنوارا پن عفت و شرافت کا معیار ہے۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی شوہر کے  گھر جاتی ہے۔ لیکن جنسی عمل کے متعلق کچھ نہیں جانتی اسی طرح مرد بھی نا واقف ہوتا ہے۔

البتہ یہ مطلب اس اسلامی سماج میں جہاں احکام شریعت پر عمل ہوتا ہے صادق آتا ہے۔ یا یوں کہوں تو بہتر ہوگا اسلامی آئیڈیل سماج میں ہوتا ہے جو آج کے زمانہ میں سوائے ایک خواب کے کچھ اور نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس پر عمل اگر

۲۲۶

 محال نہ ہو تو دشوار ضرور ہے۔

بہر حال جوان چاہے لڑکا ہو یا لڑکی جسمانی اورجنسی رشد و کمال کے وقت اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ حتی کہ ممکن ہے گھر والوں کی شدید نگرانی کی صورت میں ہم جنس پرستی کا شکار ہوجائے  جو خطرناک امراض کا باعث ہونے کے علاوہ خاندان اور بالاخر سماج کی ویرانی کا اصلی عامل ہوگا۔

بہر حال مغربی معاشرہ میں جنسی عمل کو انجام دینے میں، افراط سے کام لیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس نے حیوانی شکل اختیار کرلی ہے۔ اور عورت و مرد کو حق حاصل ہے کہ وہ جس طرح اور جس کے ساتھ بھی آتش شہوت کو ٹھنڈا کرنا چاہیں کریں، حتی کہ شادی شدہ ہی کیوں نہ ہوں! اور دوسری طرف اسلامی اور عربی معاشرہ میں تفریط سے کام لیا گیا ہے۔یہاں تک کہ اسلامی معاشرہ نفسانی مشکلات کا شکار ہوگیا اور عورت مرد کے درمیان شرعی رابطہ بھی مشکل ہوگیا۔ اور اس سے بھی بالاتر اسلامی مذاہب کے فقہاء نے (سد باب الذرایع) کے عنوان کے تحت زنا کے مراکز کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ تاکہ خود ان کے خیال میں لا ابالی جوان پاکدامن مسلمان عورتوں اور با عفت لڑکیوں پر حملہ نہ کریں۔ لیکن اس نے نہ صرف مشکل کو حل نہیں کیا بلکہ سماج کھلی ہوئی بے راہ روی اور فساد کی طرف بڑھ گیا ہے۔

۲۲۷

اسلامی سماج میں عورت کی مظلومیت

عورت آج بھی اسلامی اور عربی سماج میں مظلوم ہے۔

شاید مسلمانوں کو ابھی تک نہ معلوم ہو کہ عورت بھی جسم، روح، فکر، قلب، شعور اور جذبات رکھتی ہے اور کسی ایسے شرف اور عزت کا مرو مدعی نہیں ہوسکتا جو عورت کے پاس نہ ہو۔

خداوند عالم نے قرآن میں عورت ومرد کے درمیان مساوات قرار دی ہے اور فرماتا ہے:

اے انسانوں! ہم نے تمہیں مرد و عورت کی شکل میں خلق کیا اور تمہیں قوم اور قبیلوں میں قرار دیا تاکہ پہچانے جاؤ(لیکن جان لو) کہ خدا کے نزدیک تم میں سب سے محترم پرہیز گار شخص ہے۔(حجرات/ ۱۳)

دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

پس ان کے خدا نے ان کی دعا کو مستجاب کیا ( اور فرمایا) میں تم سے مرد ہو یا زن کسی کے بھی عمل کو ضائع نہ کروں گا۔ لوگوں میں بعض، بعض، پر فضیلت رکھتے ہیں۔(آل عمران/ ۱۹۵)

ہاں ہم انکار نہیں کرتے کہ خداوند عالم نے مرد کو عورت پر ایک درجہ فوقیت دی ہے اور وہ بھی خاندان کی ذمہ داری اور دوام کی خاطر اور اس کا فضیلت سے کوئی ربط نہیں ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے:

عورت و مرد کے ایک دوسرے پر جائز حقوق ہیں لیکن مرد عورتوں پر

۲۲۸

ایک درجہ برتری رکھتے ہیں اور خداوند عالم حکیم و قادر ہے۔(بقرہ/ ۲۲۸)

خداوند عالم کی حکمت اس بات کی متقاضی ہے کہ عورت و مرد حقوق اور واجبات میں مساوی ہوں۔ چنانچہ یہ اس کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ ذمہ داری سنبھالنا مردوں کے حوالہ کرے اس لیے کہ اس نے مرد کے اندر اس کی قوت پیدا کی ہے کہ وہ اپنی بیوی کی تمام ضرورتوں کو پورا کرے ۔ خوف و وحشت کے حالات میں مرد، عورت کے لیے پناہ گاہ ہے۔ اور اسی مرتبہ نے مرد پر جہاد کو واجب قرار دیا ہے۔ جب کہ عورتوں پر جنگ وجہاد واجب نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ کبھی خدا نے عورت کی حفاظت اور نگہبانی  کے لیے بھی جہاد کر مرد پر لازم و واجب قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ راہ خدا میں، ناچار مردوں، عورتوں اور بچوں کے حق میں جہاد نہیں کرتے۔( نساء/ ۷۵)

یہ وہ چیز ہے جو ہمیں قرآن کریم سے حاصل ہوتی ہے اور اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ خداوندعالم نے مردوں کو عورتوں پر برتری دی ہو۔ چنانچہ ممکن ہے کہ ایک مرد لاکھوں، عورتوں سے بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے روز قیامت خدا کے نزدیک ایک عورت لاکھوں مردوں سے بہتر ہو۔

اور اس کے بعد ہمارے لیے رسول خدا(ص) کا اسوہ حسنہ ہے۔ جنھوں نے عورتوں کے ساتھ وہ نیک برتاؤ کیا کہ جس کی نظیر دنیا نے نہیں دیکھی ۔ آنحضرت(ص) نے اپنی تمام عمر میں کسی بھی زوجہ کی پٹائی نہ کی گرچہ ان میں بعض سے خوش نہ تھے۔ اور ہمیشہ عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کو احسان کرنے کی تاکید کرتے رہے۔

ان باتوں کے باوجود مسلمانوں میں آج بھی جاہلیت کا وہ جذبہ باقی ہے۔

آپ آج کل سنتے ہوں گے کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو صرف اس لیے

۲۲۹

طلاق دے دی کہ اس نے لڑکا نہیں پیدا کیا۔ اور آج قرآن  کے صرف اس نعرہ کر مرد زیادہ بلند کرتے ہیں (واضربوہن) ان کی پٹائی کرو۔ یا یہ کہ عورت فتنہ ہے! یہ شیطان ہے! ذلت و رسوائی کا سبب ہے!

عورت کو ہم مسلمانوں کےدرمیان آج بھی پسماندہ رکھاگیا ہے۔ اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور بعض اجازت نہیں دیتے کہ باپ کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے یہاں تک کہ شوہر کے گھر یا پھرقبر کی طرف جائے۔ اور بعض جھوٹی یا ضعیف حدیثیں جوانوں اور روشن خیال افراد کے سامنے بیان کرتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا: عورت کے لیے بہترین چیز یہ ہےنہ کوئی مرد اسے دیکھے اور نہ وہکسی مرد کو دیکھے۔

یہ کون سی آئیڈیالوجی ہے جو قرآن کی سراسر مخالف ہے۔ اس لیے کہ قرآن نے عورت کو آزادی دی ہے اور اسے بھی مردوں کی طرح حقوق بخشے ہیں وگرنہ کیا معنی تھا کہ خداوند عالم فرماتاہے:

اے رسول(ص) مومنین سے کہہ دیجئے کہ اپنی آنکھوں کو نامحرموں سے بچائیں اور اپنے دامن کو (حرام) سے محفوظ رکھیں اور یہ ان کے لیے بہتر اور زیادہ پسندیدہ ہے۔

اور جو کچھ وہ کرتے ہیں خداوند عالم اس سے آگاہ اور واقف ہے اور مومنہ عورتوں کے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نامحرموں سے بچائیں اور اپنے دامن کو محفوظ رکھیں اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود بخود ظاہر ہو جاتا ہو۔(نور/ ۳۰ـ۳۱)

اور یہ عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے کی آزادی پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ ( اس سے مراد عورت کا اصل باہر نکلنا ہے نہ کہ شوہر کی اجازت کے بغیر کہ یہ ناجائز ہے) اور اگر ان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ گھر سے باہر اپنی نگاہوں کو نامحرموں سے بچائیں اور دامن عفت کو محفوظ رکھیں تو مردوں کا بھی یہی فریضہ ہے۔

۲۳۰

لیکن افسوس اسلامی سماجمیں آج بھی جاہل عربی فکر نظر آتی ہے۔ اور قرآن نے مسلمانوں کے لیے جس مرتبہ کا اقرار کیا تھا انھوں  نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور سارے حقوق اپنے لیے مخصوص کر لیے۔ عورتوں کو حتی کہ ان کے شرعی حقوق سے بھی محروم کردیا۔ اور ان کےلیے کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔

میں مبالغہ سے کام نہیں لیتا اگر کہوں کہ ہماری پسماندگی کا سبب وہ ظلم ہے جسے ہم نے اپنی عورتوں پر روا رکھا ہے اور ان پر تمام دروازے بند کردئے ہیں یعنی نہ ثقافت ، نہ تعلیم، نہ ارتباط۔ نہ باہر جانا، نہ آزادی، نہ انھیں اختیار ہے کہ وہ اپنا شریک زندگی کا خود انتخاب کریں۔ زیادہ دور کی بات نہیں ہماری عورتیں شادی تو کرتی تھیں لیکن انھیں انتخاب و اختیار کا حق حاصل نہ تھا اور پھر اختیار ہوتا بھی تو کس طرح وہ کسی کو پہچانتی ہی نہ تھیں۔

اسی طرح عورت کو شب زفاف یہ پتہ چلتا کہ اسے ایسا شوہر نصیب ہوا ہے جو اس کے باپ کا ہم عمر ہے اور وہ مجبورا اس کے آگے سر تسلیم خم کردیتی ہے۔ ساتھ ہی اپنی بدقسمتی پر گریہ و غصہ کرتی اور اس کے جواب میں اس سے کہا جاتا ہے کہ خدا نے تمہارے لیے چاہا ہے۔ لہذا سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں ہے! اور وہ بھی دودھ دینے والی  گائے کی طرح بچہ دینے، دودھ پلانے اور ان کی تربیت کرنے میں مشغول ہوجاتی ہے۔کیوںکہ اس کے شوہر کو زیادہ بچے اچھے لگتے ہیں۔

زیادہ عرصہ نہیں گذرتا کہ میاں بیوی کے درمیان شدید نفرت پیدا ہوجاتی ہے ۔ کیوںکہ شوہر اس سے عمر میں کافی بڑا ہوتا ہے اور اس کی شرعی ضرورت کو پورا کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ غالبا شوہر بھی اسے ترک کردیتا ہے۔ اور خواہشات کے طوفان کے مقابل اسے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ اور اس اندیشہ کے پیش نظر کہ اس کی خوبصورت اور جوان بیوی پر کسی کی نظر نہ پڑے اس کے گھر سے باہر نکلنے پر مکمل

۲۳۱

پابندی لگا دیتا ہے تاکہ نہ وہ کسی کو دیکھے اور نہ ہی اسے کوئی دیکھے۔

لیکن بہر حال ہمیشہ یہ صورت باقی نہیں رہتی اور جنسی خواہش اس عورت پر غالب آتی ہے اور پہلی فرصت جو اس کے ہاتھ لگتی ہے( خواہ رد عمل کے عنوان سے ہی کیوں نہ ہو) غیر مرد کے ساتھ ناجائز عمل کی مرتکب ہوتی ہے۔ بلکہ ممکن ہے شادی شدہ عورتیں عاشق و محبوب رکھتی ہوں۔ اسی طرح شادی شدہ مرد بھی غیر عورتوں کے ساتھ ناجائز روابط رکھتے ہوں اور حرام راہ سے بے گناہ بچے پیدا ہوں۔ اور سماج کو مشکلات اور فساد و تباہی میں مبتلا کردیں اور اس طرح عظیم انسانی اقدار پامال ہوجاتے ہیں اور اسلامی سماج کی فضیلت فنا ہو جاتی ہے۔ خیانت بڑھنے لگتی ہے، زنا، فحاشی، رذیلت، بدبختی، بربادی، فضیلت و اعلی اقدار کی جگہ لے لیتی ہیں۔

افسوس  یہ وہی چیز ہے جو ہمارے سماج میں پیدا ہوگئی ہے ہمیں اس دردناک حقیقت پر توجہ دینی چاہئے اور شتر مرغ کی طرح اپنی گردن کو ریت میں چھپانے اور آنکھوں کو بند رکھنے سے گریز کرنا چاہئے۔

میں جس روز سے اسلام کو پہچانا ہے اور سمجھا کہ بہترین شریعت یہی ہے، اسی روز سے عورتوں کی آزادی کے لیے فریاد کررہا ہوں۔اورتمام کانفرنسوں، نشستوں اور تحریروں میں عورتوں کی ترقی کا خواہاں رہا ہوں اور وہ اس لیے کہ انسانی سماج کا آدھے سے زیادہ حصہ عورتوں پر مشتمل ہے۔ لہذا اگر آدھا سماج مفلوج ہوجائے گا اور معاشرہ کا آدھا حصہ اپنے فریضہ کو انجام دینے سے قاصر ہوگا تو نابود ہوجائےگا۔ کیوںکہ جس بدن کا ہاتھ اور پیر مفلوج اور ناکارہ ہوجائے وہ تباہ ہوجاتا ہے۔

عورتوں پر معاشرہ کا ظلم یہ ہے کہ ہم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ ہم کس طرح مردوں کی جنسی خواہش کو پورا کرسکتے ہیں۔ اور (سد باب الذرائع) کے

۲۳۲

عنوان سے فحاشی  کے عمومی مراکز مروں کی شہوت رانی کےلیےکھول دیئے گئے ہیں۔ اور بجائے اسکے اس کو قیبح اور برا سمجھیں، ایسی جگہوں پر جانے کو ایک مردانگی کی دلیل قرار دیتے ہیں۔

 بعض ایسے بھی ہیں جو اپنے دوستوں کے درمیان ایسی جگہ پر آمد و رفت پر فخر ومباحات کرتے ہیں۔ ان بیچاری عورتوں سے ہم بستر ہوتے ہیں اور جس وقت گھر پلٹتے ہیں اور اپنی بہنوں کو کھڑکی سے لوگوں پر نگاہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے سروں پر قیامت مچادیتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے مردانہ لات و بکے سے ان کی ہڈی پسلی برابر کردیتے ہیں۔

یہ کیسے فقیہ ہیں جن کو ان مردوں کی جنسی خواہش کی تکمیل کی تو فکر ہوتی ہے لیکن انہوں نے ان عورتوں کی خواہش کی تکمیل کو نظر انداز کردیا؟ یہ کیوں اںصاف نہیں کرتے۔

میں عورتوں کے لیے ہرگز مغربی طرز کی آزادی کا خواہاں نہیں ہوں۔ مغرب تو فاسد و ملحد ہے اور کسی بھی انسانی و اخلاقی اقدار کا قائل نہیں بلکہ مطلق آزادی کا معتقد ہے!

لیکن میں معتقد ہوں کہ خدا اور رسول(ص) نے عورت کے لیے جو حدود معین کی ہیں یعنی حجاب، عفت، حرام سے نگاہوںکو بچانا اور دامن کو محفوظ رکھنا، باپ کے گھر میں جو حقوق بھائی کو حاصل ہیں، وہی بہن کو حاصل ہیں، اسی طرح گھر میں جو حقوق شوہر کو حاصل ہیں وہی بیوی کو بھی حاصل ہیں، اور اگر ہم اسکے قائل ہوگئے تو گویا ہم نے خود کو اور سماج کو پسماندگی سے نجات دیدی۔

لیکن (اہل سنت فقہاء) اگر صرف مردوں کا خیال کریں اور انھیں عورتوں کے انتخاب میں تو آزاد رکھیں اور عورتوں کا  کوئی خیال  نہ رکھیں تو یہ کھلی ہوئی بے انصافی ہے۔

۲۳۳

اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ کیا اسلام نے بھی یہی رویہ برتا ہے؟ کیا اسلام نےجن چیزوں کو مردوں کے لیے مباح جانا ہے اسے عورتوں کے لیے حرام قرار دیا ہے؟

جنسی مسائل کے متعلق رسول اسلام(ص) کے کثرت سے ارشادات موجود ہیں اس مشکل کے حل بھی بیان فرمائے ہیں جس  کے ذریعہ اسلامی سماج کو فساد فحاشی سے محفوظ کی اجاسکتا ہے آںحضرت(ص) نے فرمایا:

اے جوانوں ! جو بھی شادی کرسکتا ہے اسے شادی کر لینی چاہئے اس لیے کہ حرام سے دامن اور نگاہوں کو بچانے کے لیے (یہی) بہتر ہے  اور جو شادی نہیں کرسکتا اسے روزہ رکھنا چاہئے۔ (صحیح بخاری،ج۷، ص۳، کتاب النکاح۔)

یہ ان جوانوں کے لیے راہ حل ہے جو شادی کرسکتے ہیں۔ پس جو بھی شادی کرے چاہئے وہ مرد ہو یا عورت اس نے اپنے جنسی غریزہ کو محفوظ کر لیا اور شادی دونوں کے لیے راہ حل ہے۔ لیکن جو جوان شادی نہیں کرسکتے ان کی مشکل ویسے ہی اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ اور جب آںحضرت(ص) کے زمانہ میں ایسے جوان موجود تھے جو شادی کے لیے مالی امکان نہ رکھتے تھے جب کہ اس زمانہ میں شادی خرچ کے بغیر اور سادہ ہوا کرتی تھی، تو پھر آج کے جوان کے لیے کیا کہیں؟

آج شادی بہت مشکل ہے اس لیے کہ :

جوان چاہے لڑکا ہو یا لڑکی کم از کم ۲۵ سال تک تحصیل علم میں مشغول رہتا ہے اس کے بعد اسے کسی کام کی تلاش ہوتی ہے جس کےذریعہ وہ اپنی زندگی کے اخراجات پورے کرسکے۔ پھر اس کے بعد ایک گھر کو آمادہ اور تیار کرنا ہوتا ہے جس میں زمانہ کے لحاظ سے پورے وسائل موجود ہوں، پس کم از کم پانچ سال مسلسل تلاش و کوشش کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ شادی کرسکیں اس صورت میں شادی کے لیے جو سن ہوگا وہ ۳۰ سال ہے۔ پس وہ جوان مرد یا عورت جو ۱۵ اور بارہ

۲۳۴

سال سے ہی شادی کے لحاظ سے جنسی غریزہ کی قدرت رکھتے ہیں لیکن ۳۰ سال تک شادی نہیں کرسکتے اس طولانی مدت میں کیا کریں؟ اگر یہ کہیں کہ وہ اس مدت میں راہب ہوگئے اور زہد سے کام لیا اور اصلا جنسی غریزہ کی فکر میں نہ تھے تو ہم نے اپنے آپ سے جھوٹ بولا۔ اس لیے کہ وہ بشر ہیں فرشتے نہیں ہیں۔ اور خاص کر اس زمانہ میں کہ جب زن و مرد کا ملنا جلنا بشری زندگی کی ضرورت بن چکا ہے۔ اس لیے کہ یونیورسٹیوں میں دونوں ہی ایک جگہ پڑھتے ہیں۔ کم سنی سے قطع نظر کہ وہاں بھی خلط ملط ہیں پھر کیا ہوگا؟

اس کا نتیجہ طالب علم بھی جانتا ہے، استاد بھی جانتا ہے اور اہل خانہ بھی!

۲۳۵

راہ حل، موقت شادی(متعہ)

جیسا کہ ہم نے دو نمازوں کے یکے بعد دیگرے پڑھنے کے بیان میں عرض کیا تھا کہ خداوند عالم بشر کا خالق ہے اور وہی  انسان کا پالنے والا ہے، اور مہربانی و عطوفت کے تقاضے کی بنیاد پر چاہتا ہے کہ اس کےبندے آسانی اور آسائش کے ساتھ زندگی گزاریں اور انھیں مصلحتوں اور فائدہ کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے:

«أَ لَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الخَْبِير»

کیا اس جہاں کا خالق نہیں جانتا جب کہ وہ خلقت کے تمام اسرار سے آگاہ ہے۔ ( ملک/۱۴)

لہذا عقل کیسے تصور کرسکتی ہے کہ خدا انسان کو مجبور بنائے اس میں شدید جنسی خواہش پیداکرے اور اس کے بعد اسے خواہش کی تکمیل کے جرم میںسنگسار کرے  یا کوڑے لگائے جانے کاحکم دے۔

کیا اس بات کا امکان ہے کہ ہم اس طرح کے احکام کو بیان کرنے کے بعد لوگوں کو اسلام کی طرف بلا سکیں؟ اور لوگوں سے کہہ سکیں  کہ خدا لطف کرنے والا اور مہربان ہے؟ یا خدا اپنے بندوں کے لیے آسانی چاہتا ہے؟ یا خدا ہر شخص کو اس کی قوت کے مطابق فرائض سپرد کرتا ہے؟ یا دین میں ہمارے لیے مشکل و مشقت قرار نہیں دی گئی؟ جب کہ ایسی بڑی مشکل کے لیے کوئی راہ حل پیش نہ کی گئی ہو؟

قبل اس کے کہ ہم دوسروں کو اس حقیقت کا قائل کریں کہ کیا ہم خود قائل

۲۳۶

ہوگئے ہیں؟ نہیں ! اور ہزار بار نہیں! اس لیے کہ ممکن ہے جنسی عمل زور و زبردستی کے  ساتھ نہ ہو بلکہ زن و مرد کے مابین عشق و محبت بھی ہو اور ان میں مکمل موافقت اور رضامندی بھی پائی جاتی ہو چنانچہ اس صوررت میں کسی کو نقصان بھی ہوگا اس  لیے کہ وہ احتیاط سے کام لیں گے کہ حمل و ولادت کا مسئلہ پیش نہ آئے۔ پس ایسا شخص کیوں قتل کیا جائے جبکہ اس نے ایک عورت کی جنسی خواہش کو پورا کیا ہے جو شادی نہیں کرسکتی ہے اور اس کی حیاء عفت کو زنا و فحاشی گری سے باز رکھا ہے۔ اور خصوصا اس وقت جب کہ ہم عورتوں پر اپنے سماج کے ظلم و ستم کا اعتراف کرتے ہیں۔

لہذا اس میں شک نہیں کہ جس خدا نے مسافر اور مریض کو ماہ رمضان روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے یا مسافر کو اس بات کی اجازت ہے کہ نماز کو قصر یا بعض اوقات بیٹھ کر یا لیٹ کر یا مسلمان کو اس کی اجازت ہے کہ پانی نہ ملنے پر نماز کے لیے تیمم کرے اور زمین مطہر سجدہ گاہ قرار دیا ہے۔ یا اسی خدا نے اجازت دی ہے کہ مسلمان جان، مال، ناموس کی حفاظت کے لیے کفر کا اظہار بھی کر سکتا ہے یا اسی نے اجزت فرمائی ہے کہ ماہ رمضان کی شبوں میں مسلمان اپنی زوجہ سے ہم بستر ہو۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ عورت و مرد دونوں کے لیے مشکل ہے کہ ایک ماہ تک صحبت نہ کریں۔

لہذا اس نے فرمایا:

تمہارے لیے جائز اور حلال ہے کہ ماہ رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے مباشرت کرو۔ وہ تمہارا لباس اور تم ان کے لباس ہو۔خداوند عالم کو علم ہے کہ تم (اس کام میں ) نافرمانی کر کے اپنے نفس کو گناہوں میں ڈھکیل دیتے ہو۔ لہذا اس نے (ماہ رمضان کی شبوں) میں حرمت کے حکم سے درگزر کی اور تمہارے گناہ بخش دیئے پس اب تم اپنی زوجہ کے ساتھ ماہ رمضان کی شبوں میں ( حلال طور پر) مباشرت

۲۳۷

کرسکتے ہو۔ 

      (بقرہ/۱۸۷)

پس جب ایسا ہے تو جس خدا نے اس جنسی خواہش کو خود خلق فرمایا اور اس کے ہیجان و انقلاب سے اچھی طرح واقف ہونے کے ساتھ سماج کی ویرانی میں اس کے خطرناک نتائج کے متعلق دوسروں سے زیادہ واقف ہے تو کیا خود اس نے سکوت اختیار کر رکھا ہے؟

اگر خدا نے عورت کے مرد کے لیے اور مرد کو عورت کے لیے خلق کیا ہے تاکہ ذہنی اطمینان اور روحی سکون حاصل ہو!

اگر خدا نے عورت و مرد کو مٹی سے خلق کیا اور اان کی ایک دوسرے کا ہمسر بنایاہے تاکہ قلبی سکون حاصل ہو!

تو اس کا مطلب ہے خداوند عالم نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے جائز راہ حل بھی معین کی ہے تاکہ دونوں (مرد وعورت) محبت وعشق کے ساتھ ایک پر سکون زندگی گذاریں۔

مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ خدائے رحم نے اپنے بندوں (عورت ومرد) کو اپنے لطف، رحم اور کرم کا مورد قرار دیا ہے اور انھیں موقت شادی(متعہ) کی اجازت فرمائی ہے۔ اور یہ الہی رحمت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اس لیے کہ اصحاب اپنی ان تمام پارسائی و تقوی کے باوجود جنسی غریزہ کے شدید ہیجان پر صبر و تحمل نہ کرسکے اور آںحضرت(ص) سے شکایت کی اور آںحضرت(ص) سے خود کو نامرد بنانے کے اجازت طلب کی۔

بخاری نے اپنی صحیح میں قیس بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ہم ایک غزوہ میں آںحضرت(ص)  کے ہمراہ تھے لیکن ہماری بیویاں ساتھ نہ تھیں۔ ہم نے آںحضرت(ص) سے عرض کیا،کیا آپ ہمیں اجازت دیتے

۲۳۸

ہیں کہ ہم خود کو خصی بنالیں اور اپنی مردانگی ختم کر ڈالیں؟

تو آںحضرت(ص) نے ہم کو سختی سے منع کیا اور پھر عورتوں سے موقت شادی (متعہ) کی ہمیں اجازت عطا فرمائی اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

اے ایمان والوں جن پاک و پاکیزہ چیزوں کو خدا نے تمہارے لیے حلال کیا ہے اسے اپنے پر حرام نہ کرو۔(مائدہ/ ۸۷)

اللہ اکبر! خدا کا شکر ! خداوند عالم نے اپنے بندوں پر کس درجہ لطف و کرم کیا ہے اور ان  پر کس قدر مہربان ہے۔ جو بند وں کو خود کو نامرد بنانے سے منع کرتا ہے اور اجازت دیتا ہے کہ عورتوں سے متعہ کریں۔ اور انھیں متعہ کر حرام کرنے سے منع کرتا ہے اس لیے کہ یہ ان طیبات میں سے جس کو خدا نےان پر حلال کیا ہے۔

یہ بندوں پر خداوند عالم کی مہربانی کی دلیل ہے کہ وہ خود کو نقصان نہ پہنچائیں اور خود کو نامرد نہ بنائیں کہ یہ حرام فعل ہے۔

اس بنا پر جنسی عمل آدمی کی فطرت کا حصہ ہے اور اس کو باقی رکھنا چاہئے اور بہتر طریقہ سے انجام دینا چاہئے۔ نہ یہ کہ اپنے آپ پر زبردستی کر کے اسے گھونٹ دیا جائے جو کہ جسمانی اور نفسانی امراض کے وجود میں آنے کا باعث ہوگا۔

البتہ یہ سارے مسائل انھیں حدود کے اندر انجام پانے چاہئیں جن کو خدا نے متعین کیا ہے اور پیغمبر(ص) نے اس کے متعلق بیان کیا ہے۔

اور اب ہم ان سے کہتے ہیں کہ اس دعوے کو کوئی بھی عقل سلیم قبول نہ کرے گی۔ اس لیے یہ اجازت خداوند عالم کی جانب سے عطا ہوئی ہے جو مسلمان مرد و عورت کی جنسی خواہش کی مشکل کو حل کرتی ہے۔ کیا یہ مشکل حل ہوگئی ہے کہ اس اجازت کا خاتمہ ہوجائے؟ یا پھر رسول(ص) کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ خدا نے جس چیز کو حلال کیا ہے اسے حرام کردیں؟ یا پھر ممکن ہے اسلامی شریعت

۲۳۹

میں اجازت دی گئی ہو اور ایک حلال کا حکم دیا گیا ہو پھر خدا اسے حرام کردے؟

نہیں ! خدا کی قسم ایسا نہیں ہے! خدا کی رحمت ہو امیرالمومین حضرت علی علیہ السلام پر کہ آپ نے فرمایا:

متعہ ایک رحمت ہے جس کے ذریعہ خداوند عالم نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا: اور اگر حضرت عمر اسےمنع نہ کرتے تو سوائے بدبخت و روسیاہ انسانوں کے کوئی زنا نہ کرتا۔

فی الحال ہمارا مقصد اس کی حلیت کو ثابت کرنا نہیں ہے اس لیے کہ ہم نے اپنی کتاب (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) میں اسے ثابت کیا ہے۔ ہم تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اہل بیت(ع) نے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں شایان تحسین، خدمات پیش کی ہیں۔ اور دین کو اس کے  قیمتی مفہوم کے ساتھ محفوظ رکھاہے تا کہ ہر زمانہ میں وہ اپنا سر اونچا رکھے اور ترقی کے ساتھ ہم آہنگ رہے۔

بہر حال مسلمانوں کو ایسی روش نہیں مل سکتی جو انھیں ہدایت و روشنی کی طرف لے جائے اور اہل بیت(ع) کے طرز و روش سے بہتر ہو۔ وہ مکتب کہ جو زمانہ کےساتھ چل رہا ہو اور ہر تمدن و ترقی سے متمدن ہو سوائے مکتب اہل بیت(ع) کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ مکتب ہے جس کی بنیاد قرآن اور پیغمبر(ص) کی پاک سنت پر رکھی گئی ہے۔

آیا جو شخص دین حق کی راہ دکھاتا ہے زیادہ حقدار ہے کہ اس کے (حکم کی) پیروی کی جائے یا وہ شخص جو ( دوسروں کی ہدایت تو درکنار) خود ہی جب تک دوسرا اسے راہ نہ دکھائے، راہ نہیں دیکھ پاتا۔ تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کیسے حکم لگاتے ہو۔(یونس/ ۳۵)

۲۴۰