اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 54187
ڈاؤنلوڈ: 4475

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54187 / ڈاؤنلوڈ: 4475
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

موقت شادی(متعہ) کے فائدے

موقت شادی بندگان خدا یعنی مردوں اور عورتوں کے لیے رحمت ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی ہم نے عرض کیا ہے کہ مرد مطلق آزادی کے مالک ہیں اور عمومی مراکز( جس کی قانونی طور پر حمایت بھی ہوتی ہے) میں اپنی خواہش کی تکمیل بھی کرسکتے  ہیں حتی کہ چار عورتوں کو اپنے دائمی عقد میں لاسکتے ہیں اور پھر ان کے لیے موقت شادی کا مکان ہر جگہ اور ہر وقت ہے۔ لہذا میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ موقت شادی جس کی خدا نے اجازت فرمائی ہے اسلیے ہی کہ عورتوں کے حقوق مردوں کے برابر ہوجائیں۔ اس لیے کہ یہ شادی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ عورت بھی ایک یا دو اس سے زیادہ شوہر اختیار کرے البتہ عدت اور دیگر شرطیں جو کہ فقہاے مراجع کے توضیح المسائل میں موجود ہیں ان کو  پورا کرنے  کے بعد۔ اس جگہ پر عورت و مرد کے درمیان فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ مرد ایک وقت میں چار عورتیں رکھ سکتا ہے لیکن عورت ایک سے زیادہ شوہر نہیں کرسکتی۔ اس لیے کہ رحم میں دو مردوں کے مادہ منویہ کے مخلوط ہونے کا امکان ہے اور اس صورت میں اگر حمل قرار پائے تو بچہ کے باپ کی تعیین نہیں ہوسکتی لیکن مرد کے لیے یہ مشکل نہیں ہے چاہے اس کے پاس بیس عورتیں ہوں۔

اور یہ بندوں کے درمیان خدا کی سنت ہے کہ اس کو ہم حیوانات کے درمیان بھی مشاہدہ کرتےہیں،

خداوند عالم فرماتا ہے:

کوئی زمین پر چلنے پھرنے والا(حیوان) یا اپنے دنوں پروں سے

۲۴۱

اڑنے والا پرندہ نہیں ہے مگر یہ کہ ان کی تمہاری طرح جماعتیں ہیں۔ (انعام/ ۳۸)

ایک روز ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے اگر ایسا ہے تو یائسہ عورت(جسے حیض آنا بند ہو چکا ہو) جو قطعا حاملہ ہیں ہوتی، ایک وقت میں دو شوہر سے شادی کرسکتی ہے کیونکہ جو علت مانع تھی وہ ختم ہوچکی ہے۔

ہم نے کہا: ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسلامی احکام علت پر موقوف نہیں ہیں جو علت ساقط ہونے سے ختم ہوجائیں! اگر ہم کہیں کہ شراب اس وجہ سے حرام ہے کہ وہ مست کردیتی ہے چنانچہ خداوند عالم فرماتا ہے:

مستی کی حالت میں نماز کے نزدیک نہ ہو تا کہ جو کچھ کہتے ہو اس پر متوجہ ہوجاؤ۔(نساء/ ۴۳)

تو اگر کوئی ایک یا دو کلاس شراب پیئے اور اس کی عقل پر اثر نہ ہوتو کیا شراب کی حرمت کا حکم ختم ہوگیا: نہیں! میرے عزیز دوست! زیادہ ہو یا کم نشہ آور تو نشہ آور ہے جب یہ زیادہ حرام ہے تو کم بھی حرام ہے۔

یا  مثلا ہم کہیں کہ سور کا گوشت اس لیے حرام ہے کہ وہ نجاست و کثافت ہے۔ تو کیا وہ اسٹرلایئز کرنے سے حلال ہوجائے گا؟ اور پھر خداوند عالم کے احکام صرف ایک علت میں مختصر نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ممکن ہے ہر چیز کےلیے متعدد علتیں ہوں اور انھیں سوائے خدا کے اور کوئی نہ جانتا ہو۔

لہذا احکام الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردینا چاہیے اور ان کی پوری پوری اطاعت کرنا چاہئے اس لیے کہ اس نے جو بھی حکم دیا ہے اس میں سوائے بندوں کی بھلائی اور کامیابی کے کچھ نہیں ہے:

کیا یہ لوگ تم سے بھی زمانہ جاہلیت کے سے حکم کی تمنا رکھتے ہیں حالاںکہ یقین رکھنے والوں کے لیے حکم خدا سے بہتر کون ہوگا۔(مائدہ/ ۵۰)

۲۴۲

یہ حکم خدا ہے جو وہ تمہارے درمیان صادر کرتا ہے اور خدا بڑا واقف کار و حکیم ہے۔(ممتحنہ/ ۱۰)

اس بنا پر مومنین کو چاہئے کہ آنکھ کان بند کر کے خدا کے حکم کی اطاعت کریں اور اسے دل وجان سے قبول کریں۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اور نہ کسی ایماندار مرد کو یہ مناسب ہے اور نہ کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدا اور اس کے رسول(ص) کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام (کے کرنے نہ کرنے) کا اختیار ہو اور ( یاد رہے کہ) جس شخص نے خدا اور اس کے رسول(ص) کی نافرمانی کی وہ یقینا کھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہوچکا ہے۔(احزاب/ ۳ 6 )

مومنین ومومنات کے اوپر فرض ہے کہ متعہ کے متعلق حکم خدا کو قبول کریں اور خدا کی اس بڑی رحمت پر شکر کریں خصوصا عورت کہ اس وقتی شادی میں خدا نے تمام حقوق اس کے ہاتھ میں قرار دیئے ہیں اور مرد کو سوائے قبول یا انکار کے کوئی حق نہیں دیا ہے۔

دائمی شادی میں ہم بستری کا حق مرد کے ہاتھ میں ہے اور اگر شوہر نے عورت سے ہم بستر ہونا چاہا تو عورت کو انکار کرنے کا حق نہیں ہے حتی کہ وہ شرعا مستحبی روزہ بھی اس کی اجازت کے بغیر نہیں رکھ سکتی۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس جس وقت تم چاہو ان سے مباشرت کرسکتے ہو۔(بقرہ/ ۲۲۳)

اسی طرح طلاق کا حق مرد کو دیا ہے۔

اے رسول، مسلمانوں سے کہہ دیجئے) کہ جب تم اپنی بیویاں کو طلاق دو تو ان کی عدت (پاکی) کے وقت طلاق دو۔( طلاق / ۱)

۲۴۳

اسی طرح عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرنے کا حق مرد کو دیا ہے اور فرمایا ہے:

اوراگر ان کے شوہر میل جول کرنا چاہیں تو وہ مدت (مذکورہ) میں ان کے واپس بلا لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔(بقرہ/ ۲۲۸)

طلاق (رجعی جس کے بعد رجوع کیا جاسکتا ہے) دو ہی مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو شریعت کے موافق روک ہی لینا چاہئے یا حسن سلوک سے (تیسری دفعہ) بالکل رخصت۔ ( بقرہ/ ۲۲۹)

دوسری جگہ فرمایا :

اور عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دو  دو اور تین تین اور چار چار نکاح کرو۔ (نساء/۳)

لیکن وقتی شادی (متعہ) میں ساری چیزیں عورت کے ہاتھ میں ہیں، اس میں وہ طے کرتی ہے حتی خطبہ نکاح وہی پڑھتی ہے اور کہتی ہے: میں اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں قرار دیتی ہوں، معین مہر اور معین وقت کے لیے۔ ( نیز وہ دیگر شرطوں کو اضافہ بھی کرسکتی ہے اور اس کے جواب میں مرد کو کہنا ہے ک میں قبول کرتا ہوں یا رد کرتا ہوں۔ پس عورت ہی اس شادی کی تاریخ معین کرتی ہے اور وہی طلاق کی مدت کو بغیر کسی قید و شرط کے بیان کرتی ہے۔

اور اس وقت عورت جو شرط چاہے کرسکتی ہے مثلا یہ شرط کرے کہ اس شادی کی تمام مدت میں تم مجھ سے الگ نہیں رہ سکتے یا یہ کہ ہنی مون مکہ مکرمہ میں منائیں گے۔

اہم یہ ہے کہ اس شادی میں عورت جو چاہے شرط کرسکتی ہے خداوند عالم فرماتا ہے:

جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو تو انھیں جو مہر معین کیا ہے دے دو اور

۲۴۴

مہر کے مقرر ہونے کے بعد اگر کم و بیش پر راضی ہوجاؤ تو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں ہے اور جان لو کہ خدا ہر چیز سے واقف اور حکیم ہے۔ (نساء/ ۲۴)

عورت کی شرافت کے لیے یہی بس ہے کہ نکاح متعہ خود اس کی جانب سے ہے اور اس کے ولی امر سے اس کا کوئی ربط نہیں ، با الفاظ دیگر عورت خود مرد سے عقد کرتی ہے اور اس سے شادی کرتی ہے۔

لیکن افسوس مسلمان اس ازدواج کو صرف تنقید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے بہت تھوڑے سے منفی پہلو پر تو نگاہ رکھتے ہیں لیکن اس کے بہت سے مثبت پہلو کو نہیں دیکھتے ۔

حقیقت یہ ہےکہ ہر کام کے مثبت اور منفی پہلو ہیں اور چونکہ یہ ازدواج حضرت عمر بن خطاب کے زمانہ سے کھل کر سامنے نہ آسکا اس لیے عمل کی منزل مٰیں نہ آیا یہی وجہ ہے کہ بعض اسے زنا سمجھتے ہیں اور اسے تعجب و نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہےکہ متعہ در اصل ایک برا کام ہے ہرگز نہیں ! افسوسف کہ لوگ اسے نہیں سمجھتے اورعمل نہیں کرتے۔

بطور مثال دو نمازوں کے یکے بعد دیگرے پڑھنا یا خمس دینا پیر کا مسح، جبکہ یہ تینوں چیزیں قرآن میں ہیں اور رسول(ص) نے ان پر عمل کیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اس سے بے خبر ہیں اور تعجب کرتے ہیں اس لیے کہوہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس سے آشنا نہ تھے اور انھیں پہلے سے اس کی واقفیت بھی نہ تھی۔

تعجب تو اس بات پر ہے۔ کہ زنا پر اس درجہ حیرت نہیں کرتے جتنا متعہ پر کرتے ہیں حتی کہ ایک برے کردار والی لڑکی نے ایک جوان سے زنا کرنے کو کہا تو اس جوان نے زنا سے گریز کرتے ہوئے کہا آؤ اس کےبجائے متعہ کرلیں تو عورت نے قبول نہ کیا اس لیے کہ وہ اس قسم کی شادی سے واقف نہ تھی۔

۲۴۵

۲۴۶

۲۴۷

تحصیل صرف ساتھ بیٹھنے، دوستی، یا پھرہم بستر ہوئے بغیر لذت اٹھانے کی غرض سے وقتی شادی کرلیں تو پھر اس کے بعد اگر چاہیں تو دائمی نکاح بھی کرسکتے ہیں اس صورت میں وقتی  شادی (متعہ) ان دونوں کو ایک دوسرے سے آشنا ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ اور راستے کی تمام رکاوٹوں کو ختم کردے گی۔

اس طرح یہ عقد ان کے لیے راحت و آسائش کے اسباب فراہم کردے گا، وہ آسانی کے ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔ اور اس صورت میں ان کا ضمیر بھی مطمئن ہوگاا نیز انھیں خدا کی رضایت بھی حاصل رہے گی اور وہ دیگر طالب علموں کے اعتراض سے بھی محفوظ ہوجائیں گے۔

لیکن افسوس یونیورسٹی کی طالبہ ایک ہاتھ سے دوسرے کے ہاتھ منتقل ہوتی رہے۔ اور اس کے پرس میں دسیوں عشقیہ خط موجود ہوں یا دیگر رسوائی کی چیزیں۔ یا پھر جوان لڑکے، لڑکیوں کے مقدر سے کھیلتے رہیں اور سب کو آلودہ کرتے رہیں اور ان کے مستقبل کو کھلونا بنالیں اور ان کے جذبات کے ساتھ ان کے گھر والوں کے جذبات کا بھی مذاق اڑائیں۔ وہ بس اتنا سوچتے ہیں کہ یہ لڑکی دوران تحصیل علم ان کی دوست تھی اور اس کا زمانہ ختم ہوتے ہی وہ اپنی راہ جائے گی اور یہ اپنی راہ۔ خواہ اس کی طرف دسیوں انگلیاں اٹھیں یا اسے دسیوں حل نہ ہونے والی نفسیاتی مشکلات کے ساتھ گھر روانہ کردیں اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں !!

اور یہ بھی ممکن ہے کہ جھوٹے وعدے بھی ہوں، خیانتیں بھی ہوں جس کا نتیجہ سماج کے اندر سوائے کینہ، کدورت اور انتقام کی راہ کھلنے  کے اور کچھ نہ ہوگا۔ لہذا اس طرح کا رابطہ معقول نہیں ہے!

۲ـ وہ مسافر جو بیوی کے بغیر طویل مدت تک سفر میں رہتا ہے، اگر صبر کرسکتا ہے تو کرنا چاہئے وگرنہ اسے وقتی شادی(متعہ) کرنا چاہئے جو کہ اس کے لیے

۲۴۸

صبر و قرار کا باعث ہوگا۔ اور بلا شبہ بیوی اس بات کی اجازت دے گی اس لیے کہ وہ اپنے شوہر کو اچھی طرح پہچانتی ہے اس کا شوہر ہر روز طوائف اور بازاری عورتوں کے پیچھے جائے جو اس سے پیسہ بھی لیں اور خطرناک امراض بھی اسے منتقل کریں اس سے اس کے لیے کہیں بہتر ہوگا کہ اس کا شوہر شریف و پاکدامن عورت  سے عقد کر لے جو اس کی شرافت کو محفوظ بھی رکھے گی۔ وقتی شادی کے شرائط میں یہ بھی ہے کہ عورت عدت کےمکمل ہونے سے پہلے دوسری شادی نہیں کرسکتی یعنی( دو حیض یا دو ماہ تک اسے دوسرا شوہر اختیار کرنے کا حق نہیں ہے) لہذا یہ عقد سوائے طہارت، پاکدامنی اور شرافت کے اور کچھ نہیں ہے۔

۳ـ یہ عقد ان لڑکیوں کی مشکل کو بھی حل کرتا ہے جو شادی کے سن کو تو پہنچ چکی ہیں لیکن انھوں نے شادی نہیں کی ہے انھیں اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حلال راستے سے اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کریں۔

۴ـ  یہ عقد بیوہ عورتوں کی بھی مشکل کو حل کردیتا ہے کہ جو اپنے بچوں یا پھر دیگر اسباب کی بنیاد پر دائمی عقد نہیں کرسکتیں۔

۵ـ ہمارے عربی اسلامی سماج میں اکثر یہ اتفاق ہوا ہے کہ ایک خوبصورت بیوہ عورت ایسے جوان پر عاشق ہوتی ہے جو اس کے لڑکے کی عمر کا ہے اور افسوس! یہ جوان بھی اس کے ذریعہ جنسی مسائل سے واقف ہوتا ہے۔ ممکن ہے وہ حرام صورت میں ایک ساتھ رہتے اور ہم بستر ہوتے ہوں، وقتی شادی (متعہ) ان کی اس معاشرت و مباشرت کو حلال کردیتی ہے اور ان کی آبرو کو محفوظ رکھتی ہے۔

6ـ وہ عورت جو سفر کرنے سے ڈرتی ہے یا بعض ممالک صرف اس صورت میں اپنے یہاں آنے کی اجازت دیتے ہیں جب ساتھ میں کوئی محرم ہو۔ تو یہ عورتیں صرف سفر کی غرض سے وقتی عقد(متعہ) کرسکتی ہے اور یہ عقد بغیر کسی جنسی اختلاط کے ایک مصلحت کےلیے ہوسکتا ہے۔

۲۴۹

۷ـ وہ شخص جس  نےکسی عورت کو گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کرنے کے لیے رکھا ہے اسلام اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اسے ہاتھ لگائے یا بے پردہ اس کے روبرو ہو۔ اس لیے کہ شاید بے پردگی اسے کام سے  روک دے لیکن یہ شخص اپنے چھوٹے بچہ سے اس کو وقتی عقد کر کے اسے اپنے لیے محرم بنا سکتا ہے اور پھر بے پردگی کی مشکل نہ ہوگی۔

۸ـ اگر کوئی لڑکی جو درس و بحث یا زبان وغیرہ سیکھنے کی غرض سے کسی نامحرم جوان کے ساتھ تنہائی کے لیے مجبور ہے تو اسلام اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ دو نامحرم ایسی جگہ  ہوں جہاں کوئی اور نہ ہو۔

روایت میں ہے کہ کوئی بھی مرد عورت ایسے نہیں جو ایک ساتھ تنہائی میں ہوں اور ان میں شیطان تیسرا نہ بنا ہو۔

وقتی عقد(متعہ) اس مشکل کو حل کردیتا ہے حتی کہ اسے اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ حجاب کو اتار دے۔اہم یہ ہے کہ عورت جو چاہے شرط کرسکتی ہے۔

دیگر مختلف موارد موجود ہیں کہ ان میں متعہ واقعا لوگوں کے لیے ایک رحمت ہے جس کی وجہ سے لوگ حرام سے محفوظ رہتے ہیں اور اسلامی سماج بھی ہر جہت  سے پاک و پاکیزہ رہتا ہے نیز جسمانی ونفسیاتی امراض بھی دور رہتے ہیں۔ اور اس کے ذریعہ نسلوں کی عزت و آبرو محفوظ رہتی ہے۔

اے رسول(ص) کہہ دیجئے خداوند عالم برے اور فحش کاموں کا حکم نہیں دیتا تو کیا جس کے بارے میں تم نہیں جانتے خدا پر (جھوٹ) باندھتے ہو۔ (اعراف/ ۲۸)

خدا نیکی، عدل اور اپنوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے اور فحاشی، ظلم اور سرکشی سے روکتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پاؤ۔ (نحل/۹۰)

۲۵۰

حضرت مہدی(عج)

عام طور پر مسلمان ماضی و حال دونوں میں ایک نجات دینے  والے کے آنے کے معتقد ہیں جو انھیں ان کی عزت و شوکت اور ان کی عظمت کو پلٹا دے اور جب چیزوں کو ظالموں نے تباہ کردیا ہے ان کی اصلاح کردے۔ وہ دین کی نشانیوں کو امت کے لیے پھر سے ظاہر کرے گا۔ اور یہ نجات دینے والا مصلح، حضرت مہدی منتظر(سلام اللہ علیہ) ہیں کن کےمتعلق ان کے جد رسول اکرم(ص) نے بشارت دی ہے اور فرمایا ہے:

اور دنیا کا وجود صرف ایک روزہ کے لیے رہ جائے تو بھی خدا اسے اس درجہ طولانی کردے گا کہ اس میں حضرت مہدی(عج) جو میری اولاد میں سے ہیں انھیں ظاہر کرے۔ ان کا نام میرے نام پر ہے وہ زمین کو عدل و اںصاف سے بھر دیں گے جبکہ وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہوگی۔

بشریت کا یہ نجات دہندہ جو انبیاء کی راہ کو آگے بڑھائے گا اور اسے کمال کی منزل پر پہنچائے گا تاکہ نور خدا اس کے ہاتھوں پوری طرح پھیل جائے،اس کا انتظار تینوں مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کررہے ہیں اور بہت سی روایات جو مورد تائید ہیں اس کے متعلق بیان کرتی ہیں۔ اور یہ جو ہم معتقد ہیں کہ شریعت محمدی(ص) آخری شریعت اور آخری آئین ہے آںحضرت(ص) کی ہی نسل سے اور بارہ اماموں کی آخری فرد ہیں اور حضرت عیسی(ع) ان کی عظمت کی خاطر ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔

۲۵۱

یہاں ہمارا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم حضرت مہدی(عج) کے متعلق تاریخی اور احادیث نبوی کی روشنی میں بحث کریں اس لیے کہ اس کے متعلق ہم نے اپنی کتاب (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) میں بحث کی ہے۔ اسی طرح آپ کے متعلق دیگر بہت  سے کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔

ہم یہاں صرف عقائد اور احکام میں اہل بیت(ع) کے نظریات بیان کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے نظریات جو موجودہ زمانہ کی ترقی اور حالات کے ساتھ سازگار ہیں۔

مادی مسائل و مشکلات نے کسی حد تک یہودیوں، عیسائیوں، اور مسلمانوں کے آنکھ کان بند کردیئے ہیں اور ان کو دین سے دور کردیا ہے گویا وہ اپنی زندگی میں الحادی، مادی اور غیر جانبدار نظریات میں گرفتار ہیں۔ ان کا معنوی اور روحی عقیدہ کمزور پڑگیا ہے لہذا ایسی راہ حل کی تلاش میں تھے اور انھیں یہ راہ صرف آسمانی بشارتوں میں نظر آئی۔

اسے کے علاوہ وہ خونی جنگیں جنھوں نے بشریت کو ناتواں اور کمزور بنادیا ہے خصوصا وہ افراد جو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں بھوک  سے موت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں لیکن ظالم ذرا بھی باز نہیں آتے بلکہ ان کی حرکتوں میں مزید تیزی آجاتی ہے وہ اور زیادہ تباہی اور ویرانی پھیلانے والے جدید ہتھیار تیار کرتے ہیں اور قوموں کو ثقافتی ، معاشی اور تکنیکی مراحل میں اپنا غلام بناتے جارہے ہیں۔

اگر آرزو نہ ہوتی اور مستقبل کے بہتر ہونے کی امید نہ ہوتی کہ جس میں کہ جس میں اسے عدالت و امن و امان و شرف حاصل ہوگا تو نہ اس دنیا اور نہ اس کی زندگی میں کوئی لذت ہوتی اور نہ ہی کوئی مفہوم ہوتا۔

اور اگر مسلمانوں کا خداوند عالم پر ایمان نہ ہوتا کہ اس نے اپنے دین کی

۲۵۲

مدد کا وعدہ کیا ہے تاکہ اسے دیگر ادیان پ رفوقیت حاصل ہوتا  نا امیدی اور مایوسی لوگوں پر چھاجاتی اور وہ گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوتے۔ لیکن یہ ایمان ہے جو نشاط، زندہ دلی، اچھے کل کی آرزو اور زندگی سے محبت کو انسان میں باقی رکھتا ہے ۔ اور ان کو مشکلات و پریشانی میں شدت کے بعد اس کے خاتمہ کے لیے  ظہور کے انتطار پر آمادہ رکھتا ہے۔

یہی حضرت مہدی(عج) ہیں جو مسلماںوں اور انسانیت کی آرزو ہیں۔

ان کے اوپر ایمان رکھنے پر دوسروں کو ہرگز مذاق نہیں اڑانا چاہیے خداوند عالم فرماتا ہے:

اے پیغمبر(ص)! میرے ایمان دار بندوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے ( گناہ کر کے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں) تم لوگ خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہونا، بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور اپنے اسی پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اسی کے فرمانبردار بن جاؤ اس وقت سے قبل کہ تم پر عذاب آ نازل ہو اور پھر تمہاری مدد نہ کی جاسکے اور جو اچھی باتیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہیں ان پر چلو اس کے قبل کہ تم پر یکبارگی عذاب نازل ہو اور تم کو اس کی کوئی خبر بھی نہ ہو ( کہیں ایسا نہ ہو) کہ ( تم میں سے) کوئی شخص کہنے لگے کہ:

ہائے! افسوس میری اس کوتاہی پرجو میں نے خدا ( کی بارگاہ) کا تقرب حاصل کرنے میں کی اور میں تو بس ان باتوں پر ہنستا ہی رہتا تھا۔(زمر/ ۵۳ـ۵ 6 )

۲۵۳

اہل بیت (ع) کی کتاب

(پھر میں ہدایت پاگیا)

اہل بیت(ع)، صاحب کرامت ہیں اور اس وقت بھی ان کی کرامات جاری و ساری ہیں اور مختلف جگہوں پر ہم شیعوں کو اہل بیت(ع) کی کرامات بیان کرتے ہوئے سنتے ہیں، ایسی کرامات جن کے وہ خود شاہد و ناظر رہے ہیں۔ اور پھر ایسا کیوں نہ ہو یہ ہدایت کرنے والے ائمہ(ع) ، خدا کے علامتیں اور تاریکی کے چراغ ہیں۔ اگرچہ حضرت عمر بن خطاب نے اپنے زمانہ میں ان کی قدر و منزلت کو نہ پہچانا لیکن ہمیں یہ بتایا کہ یہ خدا کے نزدیک عظیم شان و مرتبہ کے حامل ہیں۔ اس لیے کہ خود  اںھوں نے رسول(ص) کے چچا جناب عباس(رض) سے توسل کیا۔ جب کہ عباس ان میں سے نہیں ہیں جن سے اللہ نے ہر نجاست و پلیدی کو دور کیاہو۔ اور پاک و طاہر قرار دیا ہو اور نہ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر درود بھیجنا خدا نے اسی طرح واجب کیا ہے جیسے رسول(ص) پر واجب کیا ہے۔ نہ ہی ان میں سے ہیں جن کی محبت و مودت کو خدا نے مسلمانوں پر واجب اور فرض قرار دیا ہے۔ وہ ان میں سے بھی نہیں ہیں کہ خدا نے انھیں علم کتاب عطا کیا ہے۔ اور قرآن میں ان پر سلام کیا ہے۔ اور فرمایا ہو ( سلام علی ال یسین) وہ ان ائمہ میں بھی نہیں جن کی پیروی رسول(ص) نے اپنی امت پر واجب قرار دی ہے۔ اور نہ ہی علم رسول(ص) کے وارث ہیں۔

لیکن اس کے باوجود خدا نے حضرت عمر بن خطاب کی دعا کو مستجاب کیا

۲۵۴

کیونکہ انھوں نے رسول(ص) کے چچا کو وسیلہ بنایا تھا۔ اور اگر انھوں نے علی، فاطمہ، حسن، حسین،علیہم السلام سے توسل کیا ہوتا تو خدا آسمان و زمین سے اپنی نعمت ان پر نازل کرتا۔ اور وہ اپنے قدموں کے نیچے اور سر کے اوپر کثرت سے خدا کی نعمتیں دیکھتے اور استفادہ کرتے۔

اہم یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ہمارے لیے ایک اہم چیز کشف کی اور وہ یہ کہ رسول(ص) کے اقرباء ، کرامات کے مالک ہیں جو صاحبان عقل سے پوشیدہ نہیں ہے اور اگر یہ خدا سے کوئی چیز طلب کریں تو یقینا خدا ان کی دعا مستجاب کرے گا، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب نے دیکھا کہ مسلمانوں  کو قحط اور بھوک جیسے خطرات لاحق ہیں تو انہوں نے رسول خدا(ص)  کے اقرباء کی پناہ لی۔ اور اس وقت پروردگار عالم کی اجازت سے رسول(ص) کے اقرباء کے احترام میں بارش ہوگئی۔

ان روشن حقائق کے بعد، وہابیت بھلا کیسے انکار کرسکتی ہے اور وہ مسلمان جو خود کو حق کی شناخت سے دور کر لیتے ہیں کہاں ہیں؟

ان باتوں کے اوپر مجھے ایک قصہ یا د آتا ہے کہ مرحمو شیخ جلول جزائری جو، تیونس میں زیتونہ کے علماء میں شمار کئے جاتے تھے، خداوند عالم نے ان پر احسان کی اور میرے ذریعہ راہ ہدایت دکھائی۔ انھوں میں اپنی آخری کتاب تحریر فرمائی اور اس میں غدیر کا واقعہ،  امیرالمومنین(ع) کی بیعت اور اہل بیت(ع) کے فضائل تحریر میں لائے ہیں۔

انھوں نے مجھے ایک واقعہ بتایا :

گذشتہ زمانہ میں، تیونس کا ( دار الحکومت) سخت قحط میں گرفتار ہوا اور نزدیک تھا کہ لوگ ہلاک ہو جائیں، گرچہ کئی مرتبہ نماز استسقاء پڑھی گئی لیکن زمین ویسے ہی خشک پڑی رہی اور آسمان سے کوئی قطرہ نہ ٹپکا۔ لوگ اپنی فریاد لے کر ایک خدا پرست شخص بنام شیخ ابراہیم ریاحی کے

۲۵۵

پاس آئے اور ان سے دعا کرنے کو کہا، کہ شاید ان کی دعا مستجاب ہو جائے۔

انھوں نے ان سے کہا :

اشراف (۹۰) میں سے (یعنی سادات بنی فاطمہ(س)) ۱۰۰ افراد کو اکٹھا کرو اور میرے پاس لاؤ تاکہ ان کے ساتھ نماز استسقاء پڑھیں۔ اشراف میں سے ۱۰۰ آدمی آئے اور انہوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ ابھی ان کی نماز تمام بھی نہ ہوئٰ تھی اور شدید گرمی پڑ رہی تھی لیکن ایسی تیز بارش آئی کہ گویا بادل پھٹ پڑا ہو۔ اور تین روز تک مسلسل بارش ہوتی رہی اور تمام درے پانی سے بھر گئے۔ یہ بھی اہل بیت(ع) کی کرامت ہے جو زماں و مکاں کی پابند نہیں ہے۔

بحمد اللہ میں نے اہل بیت(ع) کے مذہب کی ہدایت پانے کے بعد جو سب سے پہلی کتاب تحریر کی وہ (پھر میں ہدایت پاگیا) ہے مجھے اندازہ نہ تھا کہ وہ اس درجہ مشہور ہوگی اور لوگوں میں مقبول ہوگی۔

لہذا اس مناسبت سے بہتر ہوگا کہ ایک بہترین نکتہ کا تذکرہ کروں جسے میرے گرانقدر دانشور عزیز تھائی ڈاکٹر اسعد علی صاحب نے بیان کیا اور ہمیں متوجہ فرمایا :

جب میں ان سے ملاقات کی غرض سے (مزہ) (شام) گیا تو ان سے مختلف باتیں ہوئیں۔ ان کے کچھ دوست اور مرید بھی اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے انھوں نے ایک ایسی بات کہی جس سے میرا دل شاد ہوگیا۔ کہنے لگے ہم نے تمہاری کتاب (پھر میں ہدایت پاگیا) کو پڑھا اور اس کتاب کے راز کو سمجھ گیا۔

میں نے تعجب سے کہا :

کیسا راز؟

انھوں نے کہا: جس وقت پہلی مرتبہ تم امام موسی کاظم(ع) کی زیارت کو گئے

۲۵۶

اور ان کے یہاں وارد ہوئے اور کہا:

خدایا اگر یہ صالح لوگوں میں سے ہیں تو ان پر رحم کر۔ انھوں نے بھی خدا کے حکم پر عمل کیا کہ وہ فرماتا ہے : پس اگر کسی نے تم پر درود بھیجا اور تمہیں سلام کیا تو تم بھی اس کے سلام کا جواب دو  یا پھر اس کے سلام سے بہتر جواب دو۔(نساء/ ۸ 6 )

جب تم نے کہا خدایا ان پر رحم کر تو انھوں نے تمہیں اس سے بہتر جواب دیا اور خدا سے تمہاری ہدایت چاہی۔ اور کہا: (اللہم اہدہ) خداوند عالم نے بھی ان کی دعا کو مستجاب کیا اور تمہاری ہدایت فرمائی اور پھر تم نے یہ کتاب لکھی تمہاری کتاب کی کامیابی کا یہی راز ہے۔

یہ حقیقت ہے جس پر مجھے یقین ہے اور میرے دل میں راسخ ہوچکی ہے مجھے اس بات پر یقین ہے کہ اہل بیت علیہم السلام میری کتاب کی کامیابی کا راز ہیں جس میں کسی شک کی گنجایش نہیں ہے اور اس لیے کہ جس کو بھی  دیکھا وہ اس کتاب کے متعلق خوشی اور تعجب کا اظہار کرتا نظر آیا۔ یہ کتاب بیس بار سے بھی زیادہ چھپ چکی ہے۔ اور ستر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہے اور اس روئے زمین پر ہزاروں مسلمان، خصوصا افریقا جہاں پہلے شیعہ نہ تھا اور وہ مسلمان جو کوئی مذہب نہیں رکھتے اور اپنی فطرت کے مطابق عقیدہ رکھتے ہیں انھوں نے بھی اس کتاب کے ذریعہ ہدایت پائی ہے۔ اور اہل بیت(ع) سے متمسک ہوئے ہیں۔

۲۵۷

۲۵۸

۲۵۹

۲۶۰