اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 54205
ڈاؤنلوڈ: 4475

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54205 / ڈاؤنلوڈ: 4475
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

گے۔ (نہج البلاغہ/خبطہ۹۷)

وہ علم کے لیے باعث حیات اورجہالت کے لیے سبب مرگ ہیں۔ ان کا حلم ان کے علمکا، ان کا ظاہر ان کے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کے کلام کی حکمتوں کو پتہ دیتی ہے۔ وہ نہ حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں وہ اسلام کے ستون اور بچاؤ کا ٹھکانہ ہیں۔ ان کی وجہ سے حق اپنے اصلی مقام پر پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا او اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی۔ انہوں نے دین کو سمجھ کر اور حاصلکر کے اس پر عمل کیا ہے نہ یہ کہ صرف سنا اور لوگوں سے بیان کردیا ہو۔ یوں تو علمکے راوی بہت ہیں مگر اس پر عمل پیرا ہوکر اس کی نگہبانی کرنے والے کم ہیں۔(نہج البلاغہ/خطبہ۲۳۹)

ہاں! یہ نہج البلاغہ کے کچھ گوشے ہیں جنہیں میں نے امام علی(ع) کی زبان سے نقل کیاہے یہ کلام پیغمبر(ص) اور آل پیغمبر(ص)  کے درمیان حقیقی رابطہ کی شکل کو بیان کرتاہے نیز اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ صرف اہل بیت(ع) ہی مختلف زمانوں اور صدیوںمیں پوری بشریت کے اختلافِ فکر و ذوق کے باوجود، آںحضرت(ص) کی راہ پر چلانے والےاور ان کے دین کی تبلیغ کرنے والے ہیں۔

امام(ع)، مسلمانوں کے نزدیک عترت طاہرہ(ع) کی منزلت کی وضاحت پر ہی بس نہیں کرتےبلکہ فرماتے ہیںکہیہ خود عترت طاہرہ(ع) کے محور و سردار ہیں اور پھر اپنی اس اہم ذمہ­داری کی طرف اشارہ کرتے ہیںجسے خدا و رسول(ص)  نے آپ کے سپرد کیا ہے کہ آپ اسے لگوں کےدرمیان نبھائیں اور اسے ترک نہ کریں۔

آپ فرماتے ہیں :

تو تم کہاں جارہے ہو اورتمہیں کدھر موڑا جارہا ہے حالانکہ ہدایت کے جھنڈے اور بلند نشانات ظاہر و روشن ہیں اور حق کے مینار نصب ہیں

۲۱

 اور تمہیں کہاں بہکایا جارہا ہے اور کیوںاِدھر اُدھر بھٹک رہے ہو جبکہ تمہارے نبی(ص) کی عترت تمہارے درمیان موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں۔ ذکر خیر اور صدق گفتار سے ہم آہنگ ہیں لہذا انہیں بھی قرآن کے مانند محترم جانو! اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کےسرچشمہ ہدایت پر اترو۔

اے لوگو! خاتم النبیین کے اس ارشاد کو سنو کہ ( انہوں نے فرمایا) ہم میں سے جو مرجاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے۔ اور ہم میں سے ( جو بظاہر مرکر) بوسیدہ ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں بوسیدہ نہیں ہے۔ جو باتیں تم نہیں جانتے ان کے متعلق زبان سے کچھ نہ نکالو اس لیے کہ حق کا بیشتر حصہ انہیں چیزوں میں ہوتا ہے جن سے تم بیگانہ اور نا آشنا ہو۔ ( جس شخص کی تم پر حجت تمام ہو)  اور تمہاری کوئی حجت اس پر تمام نہ ہو۔ وہ میں ہوں۔ کیا میں نے تمہارے سامنے ثقل اکبر(قرآن) پر عمل نہیں کیا اور ثقل اصغر ( اہل بیت(ع)) کو تم میں نہیں رکھا ( چھوڑا) ۔ میں نے تمہارے درمیان ایمان کا جھنڈا گاڑا۔ حلال و حرام کی حدیں بتائیں اور اپنے عدل سے تمہیں عافیت کے جامے پہنائے۔ اور قول و عمل سے حسن سلوک کا فرش تمہارے لیے بچھا دیا اور تم سے ہمیشہ پاکیزہ اخلاق کے ساتھ پیش آیا۔جس چیز کی گہرائیوں تک نگاہ نہ پہنچ سکے اور فکر کی جولانیاں عاجز رہیں۔ اس میں اپنی رائے کو دخل نہ دو۔ ( نہج البلاغہ/۸۷)

محترم قارئین ! اگر امام علی(ع) کے کلام پر توجہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ وہ خود حدیث ثقلین کی تفسیر ہیں۔ وہی حدیث جسے اہل سنت حضرات نے رسول خدا(ص) سے نقل کیا کہ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، کتاب خدا اور اپنی عترت اگر ان دونوں سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

۲۲

۲۳

۲۴

پیغمبر(ص) نے تمہارے درمیان وہی چیزیںچھوڑی ہیںجو گزشتہ انبیاء اپنی امتوں کے درمیان چھوڑا کرتے تھے اس لیے کہ وہ لوگوں کو راہ روشن اور نشان محکم قائم کیے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔ پیغمبر(ص) نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے اس حالت میںکہ انہوں نے کتاب کے حلال و حرام واجبات و مستحبات، ناسخ و منسوخ، رخص و عزائم، خاص و عام، عبر و امثال، مطلق ومقید، محکم و متشابہ کو واضح طور پر بیان کردیا۔ مجمل آیتوں کی تفسیر کردی اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔ اس میںکچھ آیتیں وہ ہیں جن کا جاننا واجب قرار دیا گیا ہے۔ اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے واقف نہ رہیں تو مضائقہ نہیں ہے۔ کچھ احکام ایسے ہیں جن کا واجب ہونا ثابت ہے لیکن حدیث میں اس کو منسوخ کیا گیا ہے۔ کچھ مطالب ایسے ہیں جن کا وجوب سنت میں واجب ہے اور اس پرعمل نہ کرنے کی اجازت دی گئی  ہے۔اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہ آیندہ میں ان کا وجوب برطرف ہوجاتا ہے۔ قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہےکچھ کبیرہ ہیں اور کچھ صغیرہ ہیں جن کے لیے مغفرت کی توقعات پیدا کی گئی ہیںکچھ اعمال ایسے ہیں جن کاتھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ( نہج البلاغہ/خطبہ۱)

۲۵

دین سے لگاؤ ماضی و حال میں

ظاہر سی بات ہے کہ دین اسلام جسے پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لائے آخری دین و شریعت ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے:

            ”ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِكُمْ وَ لكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ “ ( احزاب/۴۰)

محمد(ص) تم میں سے کسی شخص کے  باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کےرسول اور آخری پیغمبر ہیں۔

جب حضرت محمد(ص) آخری پیغمبر اور آپ کی کتاب آخری کتاب ہے۔ تو پھر آپ کے بعد نہ کوئی پیغمبر ہے اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب الہی ہے۔ دین اسلام، دین خالص ہے جس میںتمام گزشتہ دین و آئین جذب ہوگئے ہیں۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

                وہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق پر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب

                کردے اور خدا شاہد و گواہ کے عنوان سے کافی ہے۔

لہذا رسول اکرم(ص) کی بعثت کےبعد سارے انسانوں پر واجب اور لازم ہے کہ گزشتہ ادیان جیسے یہودیت ، عیسائیت سے دست بردار ہوجائیں اور اسلام اختیار کر لیں۔ شریعت محمدی(ص) کی رو سے خدا کی عبادت کریں کیوںکہ خدا اس دین کے علاوہ کسی اور دین کو قبول نہیں کرے گا۔ قرآن میں ارشاد ہے۔

”جوخداکےدین کےعلاوہ کوئی اوردیناختیارکرےگااس کا دین ہرگزقبول نہیں کیاجائ ے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں

۲۶

میں سے ہوگا۔ ( آل عمران/ ۸۵ )

اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہود و نصاری لاکھ دعویٰ کریں کہ ہماری شریعتیں صحیح ہیں اور ہم حضرت عیسیٰ و موسی علیہما السلام کی پیروی کرتے ہیں۔ لیکن انہیں در اصل رسول اکرم(ص) کی پیروی کرنی ہوگی۔ کسی یہودی و عیسائی کا اپنے دین پر باقی رہنے کا دعوی صحیح نہیں ہوسکتا کیوںکہ حضرت محمد(ص) تمام عالم بشریت کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیںاور آپ(ص) سارے عالم کے لیے رحمت ہیں اس بات کا یہ مطلب نہینکہ گزشتہ آسامنی شریعتیں بالکل بے اہمیت ہیں۔ خدا کے علم میں یہ بات تھی کہ اس کے بندوں نے شریعتوں کو تحریف کیا۔ اور اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق اس کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرڈالا۔ وہ گمراہ ہوگئے اور اپنے ساتھ دوسروںکو بھی گمراہ کیا۔ ایسے میں رسول اکرم(ص) کی بعثت سارے عالم کے لیے رحمت ہے  تاکہ سب حق کو حاصل کریں اور جنت کے مستحق ہوجائیں۔

لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ حق سے کتراتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات وگمراہی میں گرفتار ہیں۔ خدا ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ہے:

اہل کتاب اور مشرکوں سے جو لوگ کافر تھے جب تک ان کے پاس کھلی ہوئی دلیل نہ پہنچے وہ اپنے کفر سے باز آنے والے نہ تھے۔ خدا کی طرف سے رسول(ص) بھیجے گئے تاکہ انہیں پاک آسمانی کتابیں پڑھ کر سنائیںاس کتاب میں پر زور اور درست باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ اہل کتاب جب کہ ان کے پاس کھلی ہوئی دلیل آچکی تھی۔ ( بینہ/۱۰۴)

کسی یہودی یا عیسائی کے لیے یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ محمد(ص) پر ایمان رکھتا ہوں لیکن اپنے دین پر باقی ہو ں جیسا کہ بہت سی عیسائی عرب راہبوں سے میں نے سنا ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ خدا کو یہ بات ہرگز قبول نہ ہوگی مگر یہ کہ وہ

۲۷

رسول اکرم(ص) کی کامل طور سے پیروی کریں۔ اس بارے میں ارشاد خداوندی ہے :

     جو لوگ ہمارے پیغمبر امی(ص) کے قدم بقدم چلتے ہیں جس کی بشارت کو اپنے یہاں توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ نبی جو اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور پاک چیزیں ان پر حلال اور ناپاک او گندی چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے۔ اور وہ سخت احکام او رنج و مشقت کا بوجھ  جو زنجیر کی  مانند ان کی گردن پر تھا ان سے ہٹا دیتا ہے۔ پس یاد رکھو جو لوگ اس نبی(ص) پر ایمان لائے، اس کی عزت کی اور اس کی مدد کی اور  اس نور ( قرآن) کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے تو یہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے۔( اعراف/۱۵۷)

خدا کی یہ دعوت نہ صرف یہود و نصاری، بلکہ ساری انسانیت کو شامل ہے اس میں کسی طرح کا کوئی استثناء نہیں ہے۔

خدا ارشاد فرماتا ہے:

اے رسول(ص) تم کہہ دو کہ لوگو! میں تم سب کے پاس اس خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں جس کے پاس سارے آسمان و زمین کی بادشاہت (حکومت) ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے وہی مار ڈالتا ہے پس لوگو! خدا اور اس کے رسول، نبی آدم پر ایمان لاؤ،جو خود بھی خدا اور اس کی باتوں پر( دل) سے ایمان رکھتا ہے اور اسی کے قدم بقدم چلو تا کہ ہدایت پاؤ۔

قرآن صراحت کےساتھ اعلان کررہا ہے کہ صرف رسول اکرم(ص) کی نبوت کا معتقد ہونا کافی نہیں ہے بلکہ آپ کی تعلیمات پر عمل بھی ضروری ہے۔ اور پیغمبروں کو بھیجنے کی حکمت و مصلحت بھی یہی ہے۔ لہذا تاریخ ہمیں کہیں بھی یہ نہیں دکھاتی کہ دنیا کے کسی پیغمبر نے اپنی امت سے  یہ کہا ہو کہ مجھ سے پہلے جو

۲۸

تمہارا دین تھا اس پر باقی رہو۔

ہاں اتنا ضرور ہے کہ پیغمبران(ع) خدا اپنے سے سابق پیغمبروں پر ایمان اور ان کی تصدیق کو لازم جانتے تھے تاکہ کوئی ان کی نبوت پر اعتراض اور خدشہ نہ کرسکے اور عوام جہالت کی بنا پر انہیں خدا نہ مان بیٹھیں۔ ارشاد خداوندی ہے:

                پیغمبر(محمد (ص)) اور مومنین جو کچھ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے، سب کے سب خدا ، اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں یا نبیوں پر ایمان لائے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم خدا کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور کہنے لگے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے تیرا ارشاد سنا اور مان لیا۔ پروردگار! ہمیں تیری ہی مغفرت کی خواہش ہے اور تیری ہی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ (بقرہ/۲۸۵)

ان آیات سے یہواضحہوتا ہےکہاسلام،مومنبندوںکےلیےخدا کا آخری تحفہ ہے۔اور اس کے احکام و قوانین اہم اور ہر زمان و مکان سے سازگار ہیں۔ یہ قیامت تک کے لیے ہیں کیوںکہ رسول اکرم(ص) کے بعد کوئی نبی نہیںآئے گا اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب آنے والی ہے۔ خدا اس سلسلہ میں ارشاد فرمارہا ہے:

        میں تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے دین کو اسلام کے عنوان سے پسند کر لیا۔ ( مائدہ/ ۳ )

آج کا مسلمانوں کا ایک طبقہ اسلام اور دینی احکام کا پایند نہیں ہے۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ اسلام کو عملی طور پر لاگو نہیں کیا جاسکتا اور عوام کی کثرت اسلامی احکام کو عملی طور پر اپنانے سے قاصر ہے۔ حتی کے بعض روشن خیال دانشور یہ کہتے  ہیں کہ زمان و مکان کے تقاضے کے مطابق اسلام میں رد و بدل ہونا چاہیئے اور

۲۹

 تمام موارد میں اجتہاد ہونا چاہیئے۔

روشن خیال او تمدن ماب افرداممکن ہے بہت سے جوانوں کی گمراہیکا سبب بن جائیں کیوںکہ یہ افراد اسلامی دوستی کا بہت زیادہ دکھاوا کرتے ہیں اور یہ سمجھتے  ہیں کہ سب سے زیادہ انہیں اسلامی احکام کو لاگو کرنے کی فکر ہے۔ وہ مسلمانوں کی پسماندگی کی ویجہ یہی بتاتے ہیں کہ پندرہ صدیوں سے ان کےدین میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ آج زمانہ کتنا بدل چکا ہے جب دین آیا تھا تو آمد و رفت اور ٹرانسپورٹیشن کے ذرائع حیوانات ہوا کرتے  تھے اور آج کا زمانہ راٹوں کا زمانہ ہے جن کی رفتار آواز کی رفتاد سے سے بھی زیادہ ہے۔ آج کا زمانہ ٹیلی فون، فیکس اور کمپیوٹر کا زمانہ ہے آج چند سیکنڈ میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ لہذا ہم قرآن کو سی سطحی انداز سے نہیں لے سکتے۔ مثلا آج کل چور کا ہاتھ کاٹنا یا قاتل کا سر تلوار سے اڑانا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور اس سلسلہ میں یہ لوگ عجیب و غریب فلسفہ پیش کرتے  ہیں۔

میں بھول نہیں سکتا کہ ایک روز یونیورسٹی کے ایک استاد جو روشن خیال بھی تھے سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے درمیان ہم نے ان سے کہا: آنحضرت(ص) فرماتے ہیں :

        علی(ع) کے جیسا جوان مرد اور ذوالفقار کے جیسی تلوار نہیں ہے۔

                                                                        ( مناقب خوارزمی/۱۰۱)

وہ مجھ پر بہت انسے اور کہنے لگے ڈاکٹر! س طرح کی باتیں پھر نہ کہنا! یہ کلام رسول(ص) کےزمانہ میں معنی تھا۔ جب دشمن پر غالب آنے میں تلوار کا اہم کردار ہوا کرتا تھا اور یہ واحد ہتھیار تھا کہ جس پر بہادر رجز، شعر اور قصیدہ کہتے تھے۔ لیکن آج مشین گن کے زمانہ میں ہیں جس کے ایک سیکنڈ مین ۷۰ گولیاں نکلتی ہیں۔ آج جیٹ لڑاکا جہازوں کا زمانہ ہے جو چند سیکنڈوں میں ایک     بڑے شہر کو نابود کر دیتے ہیں۔ بلکہ ہم ایٹم بم اور جدید ہتھیاروں کے زمانہ میں

۳۰

ہیں جو چند لمحوں میں ایک براعظم کو پوری طرح نابود کرسکتے ہیں۔ اور آپ ان سب سے بے خبر ہیں اور ابھی علی بن ابی طالب(ع) کی شجاعت و بہادری کی تعریف کررہے ہیں۔

ہم نے کہا: ہاں! البتہ جو باتیں آپ نے کہی ہیں یہ ان کی مخالف بھی نہیں ہے اور ہر  جگہ کے لیے ایک بات موجود ہے۔ کیا آپ نے خداواند عالم کا وہ کلام نہیں دیکھا جہاں پر اس نے مقابلہ کرنے والے اسلحوں کا جدا جدا تذکرہ کرنے کے بجائے سبھی کو ایک کلمہ میں بیان فرمایا ہے:

                     ” وَ أَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ“(انفال/6۰)

اور ان سے (مقابلہ) کے لیے جس قدر قوت اکٹھا کر سکتے ہو کرو۔

ہر شخص اپنے زمانہ کی زبان میں مصدر قوت کی تعریف کرتا ہے۔ چاہیئے سب کے لیے ایک ہی معنی ہاتھ آئے یعنی اسلحہ۔ چنانچہ پروردگار عالم فرماتا ہے:

”وَ أَنزَلْنَا الحَْدِيدَفِيهِبَأْسٌشَدِيدٌ“ (حدید/۲۵)

ہم نے لوہے کو پیدا کیا جس میں سختی، جنگ ( میں کام آنے کی صلاحیت) اور لوگوں کے لیے فوائد ہیں۔

لہذا تمام اسلحے چاہے وہ ابتدائی ہوں جیسے تلوار و نیزہ یا جدید ہوں جیسے بم، مشین گن، ٹینک۔۔۔۔ ان سبھی کو کلمہ ( باس شدید) اپنے اندر شامل کر لیتا ہے اور دوسری طرف تمام راحت و آرام کے وسائل مثلا گاڑیاں، ہوائی جہاز، کشتی، ٹیلی ویژن وغیرہ کلو ” منافع للنالس“ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ کتنا پاکیزہ ہے وہ پروردگار جس نے لوہے کو خلق کیا اور اسے لوگوں کے حوالہ کیا اور جو باتیں وہ نہیں جانتے تھے تعلیم فرمائیں۔

اس طرح قرآن تک سبھی کی دسترس ہے اور ہر نسل اپنی زبان میں اسے سمجھتی اور محسوس کرتی ہے اور آپ کا یہ کہنا کہ قرآن کو سطحی ادر ظاہری طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔ اور چور کے ہاتھ کاٹنا یا قاتل کا سر قلم کرنا۔ ان سے اگر آپ کی

۳۱

مراد یہ ہے کہ احکام الہی میں بشری تقاضوں کے تحت تبدیلی ہونی چاہیئے اور آپ کے خیال میں یہ احکام بندگان خدا کے لیے مناسب نہیں ہیں اور مہربانی و نرمی سے دور ہیں تو اس کلامکو قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ یہ سو فیصدی ہی کفر ہے۔

لیکن اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہمین ترقی کرنی چاہیے اور مجرموں کو سزا دینے اور پھانسی دینے کے وسائل کو جدید بنانا چاہئے تو یہ بحث کا مقام ہے کیوںکہ یہ چیزیں امور ثانوی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور اسلامی شریعت نے اس پر سختی نہیں کی ہے گرچہ قصاص میں حدود الہی کے اجرا کےسلسلہ میں سختی کی ہے۔ اور خداوند عالم نے فرمایا ہے:

             اے مومنین ! تم پر قصاص واجب کیا گیا ہے۔اے عقل رکھنے والو! قصاص میں زندگی ہے

              تاکہ تم تقوی کو اپنا شعار بنالو۔ ( بقرہ/۱۷۹۔۱۷۸)

اب یہ کہ چور کا ہاتھ تلوار سے یا چاپڑ سے یا پھر کسی جدید وسیلہ سے کاٹنا چاہئے اس کی بازگشت حاکم شرع یا مرجع تقلید کی طرف ہے کہ وہ اجتہاد کرے اور اپنا نظریہ دے۔

استاد محترم! اہم یہ ہے کہ الہی احکام کو یورپی حکومتوں کے ہاتھوں وضع کیے گئے احکام کے ساتھ تبدیلی نہ کریں۔ اور کیا خود پورپیوں نے مجرم کے لیے پھانسی کیسزاکو ختم نہیں کردیا ہے چاہے اس کا جرم کتنا بڑا کیوں  نہ ہو؟ اس طرح اس کام کے ذریعہ حکم خدا کو ترک کرتے ہوئے قصاص کو ختم کردیا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو امن و امان کا زندگی سے خاتمہ ہوجائے گا۔ مجرم فساد و تباہی پھیلائیں گے  اور انسانوں کو نابود کرڈالیں گے اور زندگی ایک ایسے جہنم میں تبدیل ہوجائے گی کہ اس میں کوئی خیر نہ ہوگا۔

استاد کہنے لگے : شرکا علاج شر سے نہیں جاسکتا اور اعداد وشمار سے پتہ

۳۲

چلتا ہے کہ بہت سے موت کی سزا پانے والے بے گناہ تھے۔

میں نے کہا : معذرت چاہتا ہوں آپ کی باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ خود کو پروردگار عالم سے زیادہ عقل و فہم رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات غلط ہے۔ اور یہ کہ اکثر چاہیئے کہ اسلام صرف تہمت یا الزام کی بنیاد پر سزا نہیں دیتا بلکہ سزا کے لیے اقرار، اعتراف، گواہ و شاہد وغیرہ ضروری ہے۔ بہر حال ہماری گفتگو کسی نتیجہ پر نہ پہنچی اس لیے کہ ہر ایک اپنی بات پر جما ہوا تھا۔

کتنا بہتر ہوگا کہ ہم اپنی گفتگو آںحضرت(ص) کے متعلق حضرت امیرالمومنین(ع)  کے کلام سے تمام کردیں آپ فرماتے ہیں:

     اللہ نے اپنے رسول کو چمکتے ہوئے نور روشن دلیل کھلی ہوئی راہ شریعت اور ہدایت دینے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ۔ ان کا قوم و قبیلہ بہترین قوم و قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے۔ جس کی شاخیں سیدھی اور پھل جھکے ہوئے ہیں۔ ان کا مولد مکہ اور ہجرت کا مقام مدینہ ہےجہاں سے آپ کے نام کا بول بالا ہوا او آپ کا آوازہ ( چار سو) پھیلا۔ اللہ نے آپ کو مکمل دلیل شفا بخش نصیحت اور ( پہلی جہالتوں کی)  تلافی کرنے والا پیاغام دے کر بھیجا اور ان کے ذریعہ سے ( شریعت کی ) نامعلوم راہیں آشاکر کیں۔ اور غلط سلط بدعتوں کا قلع قمع کیا( قرآن و سنت میں) بیان کیے ہوئے احکام واضح کیے تو اب جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے تو اس کی بدبختی مسلم، اس کا شیرازہ درہم برہم اور اس کا منہ کے بک گرنا سخت و ( باگزیر) اور انجام طویل حزن اور مہلک عذاب ہے۔ ( نہج البلاغہ/عربی۱6۱۔اردو۱6۰)

ٹھیک یہی قرآن کریم کی عبارت ہے جو فرماتا ہے:

جو بھی اپنے لیے اسلام کے علاوہ اور کوئی دین اختیار کرے تو اس سے

۳۳

ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوگا۔۔۔(آل عمران/۸۵)

میرے خیال میں اس بیان کے بعد اب اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ چاپلوسی کرتے ہوئے اپنے یہودی و مسیحی دوستوں سے کہیں کہ چونکہ ہم سبھی ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے ہم بھی حق پر ہیں اس لیے کہ جس خدا نے موسی(ع) و عیسی(ع) کو مبعوث فرمایا اسی خدا نے محمد(ص) کو بھی مبعوث فرمایا اور اگر ہم پیغمبروں کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں تو کیا ہوا، جس خدا نے ان کو مبعوث فرمایا اس میں تو اختلاف نہیں رکھتے ! جبکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

     ( اے رسول(ص)) تم ان سے پوچھو کہ کیا تم ہم سے خدا کےبارے میں جھگڑتے ہو حالانکہ ( وہی ) ہمارا بھی پروردگار ہے اور (وہی) تمہارا بھی پروردگار ہے۔ ہم اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں اور تم اپنے عمل کے ذمہ دار ہو۔ اور ہم تو نرے کھرے اسی کے ہیں۔ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم(ع)، اسماعیل(ع)، اسخق(ع) اور یعقوب(ع) سب کےسب یہودی یا نصرانی تھے( اے رسول(ص)) ان سے پوچھو تو کہ تم زیادہ واقف ہو یا خدا اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کے پاس خدا کی طرف سے گواہی موجود ہو( کہ وہ یہودی نہ تھے) اور پھر وہ چھپائے اور جو کچھ تمکرتے ہو خدا اس سے بے خبر نہیں ہے۔( بقرہ/۱۴۰۔۱۳۹)

۳۴

کیا اسلام پر عمل مشکل ہے؟

یہ وہ دعوی ہے کہ جس کی کوئی بنیاد نہیں اور جو بھی اس طرح کا دعوی کرے وہ یا تو جاہل اور بے وقوف ہے  یا اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا ہے یا پھر اسلام کا دشمن ہے۔ اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا چاہتا ہے۔ اور اس کوشش میں ہےکہ لوگ اپنے دینی احکام سے دست بردار ہوجائیں۔

یا آخری صورت یہ ہے کہ وہ غلو کرنے والا دقیانوس ہے۔ جو ضدی فقہا کے علاوہ اور کسی کے نظریہ کو قبول نہیں کرتا جنہوں نے لوگوں پر خدا کی پرستش کو حرام کر ڈالا اور خود کو لوگوں کے لیے خدا کا جانشین مقرر کردیا ہے۔ لہذا یہ اپنی عقل یا اپنی مخصوص روایتوں کے تحت حلال وحرام کرتے ہیں اور فتوی دیتے ہیں!

اس کے متعلق جو جملہ سب سے پہلے کہنا چاہیئے آںحضرت(ص)  کا کلام ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

آسانی پیدا کرو اور لوگوں پر سختی نہ کرو۔ بشارت دو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔(۱۴)

خود پر بھی سختی بہ کرو تاکہ خداوند عالم تم پر سختی نہ کرے۔ جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔(۱۵)

اور اکثر اپنے اصحاب کے درمیان فرماتے تھے:

میں نہ تمھارے لیے بدبختی اور بیچارگی چاہتا ہوں اور نہ ہی ذلت و رسوائی۔ بلکہ مجھے تو خدا نے آسانی چاہنے والے معلم کی صورت مبعوث فرمایا ہے۔(۱6)

۳۵

اور یہ مشہور ہے کہ آںحضرت(ص) جب وہ باتوںکے درمیان کوئی چیز اختیار کرنا چاہتے تو سب سے آسان کو اختیار فرماتے تھے۔

اور اسی طرح جیسا کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) شارع نہیں تھے۔(۱۷) آنحضرت(ص) کی امر و نہی سوائے پروردگار عالم کی تبلیغ کے اور کچھ نہیں تھی۔ آںحضرت(ص) جو کچھ پروردگار عالم کا حکم ہوتا اسے بغیر کسی کمی یا زیادتی کے لوگوں تک پہنچا دیتے تھے۔ اور جو کچھ کہتے سوائے وحی الہی کے کچھ اور نہ ہوتا۔ اس لیے کہ وہ اپنی خواہش نفس کی بنیاد پر گفتگو نہ کرتے تھے بلکہ سب وحی ہوتی تھی۔

” وَ مَا يَنطِقُ عَنِ الهَْوَىإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَى“(نجم/۴-۳)

اب ہم قرآن سے استفتا کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام مشکل و دشوار ہے؟ قرآن کے شروع کے مطالعہ میں ہی ہم اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ مشقت و تکلیف کو اپنے بندوں سے ختم کرتا ہے اور ان کے لیے ہرگز حرج مرج نہیں چاہتا۔ وہ فرماتا ہے:

             خدا نے تم کو منتخب کیا اور تمہارے لیے دین میں کسی قسم کی مشقت و تکلیف کو قرار نہیں دیا۔ ( حج/۷۸)

اور دوسری جگہ فرماتا ہے:

     خدا تمہارے لیے ہرگز سختی و مشکل نہیں چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے ہے تمہیں ( آلودگیوں سے) پاک رکھے اور تم پر اپنی نعمت (دین اسلام) کو تمام کرے تاکہ تم شکر گزار رہو۔(مائدہ/6)

اور ایک مقام پر فرماتا ہے:

خداوند عالم تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ مشکل وسختی۔ (بقرہ/۸۵)

یہ آیات امت اسلامی سے مربوط ہیں جنہوں نے دین اسلام کو قبول کیا

۳۶

ہے اور عبادات و معاملات میں اس کے احکام قوانین کو اختیار کیا ہے لیکن پروردگار رحمت سبھی کے شامل حال ہے چاہے وہ کسی بھی دین و آئین کا پیرو ہو۔ وہ سب ہی پر مہربان ہے اور اس نے کبھی بھی کسی کو مشقت میں نہیں رکھا۔

             خداوند عالم انسان کی خلقت کے متعلق فرماتا ہے:

اس نے  اسے نطفہ کیا پھر راہ کو اس پر آسان کردیا۔ ( عبس/۱۹)

لہذا الہی راہ جسے انسان اپنی زندگی میں کوشش کے ساتھ طے کرتا ہے تاکہ اس کی طرف پلٹ سکے بہت ہی آسان راہ ہے اس میں ذرا بھی مشقت اور دشواری نہیں ہے۔

خداوند عالم نے اپنی کتاب میں چار جگہ انسان کو آسان باتوں کے لیے مکلف کیا ہے اور فرمایا ہے:

۱۔ خداوند عالم نے کسی کو بھی اس کی توانائی سے زیادہ حکم نہیں دیا ہے ( بقرہ/۲۸6)

۲۔ کسی کو بھی اس کی قوت  سے زیادہ مکلف نہیں کیا ہے۔( انعام/۱۵۲)

۳۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور اپنی توانائی کے مطابق نیک عمل انجام دیا۔ بے شک ہم کسی کو بھی اس کی قدرت سے زیادہ مکلف نہیں کرتے۔(اعراف/۴۲)

۴۔ اور ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف دیتے ہی نہیں اور ہمارے پاس تو لوگوں کے (اعمال کی) کتاب موجود ہے جو بالکل ٹھیک (حال) بتاتی ہے اور لوگوںکی ذرہ برابر حق تلفی نہیںکی جائے گی۔ ( مومنون/6۲)

ان آیات شریفہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ خداوند عالم نے کسی بھی شخص کو اس کی توانائی سے بڑھ کر تکلیف نہیں دی ہے اور یہ حضرت آدم(ع) کے زمانہ سے لے کر ابھی تک رہا ہے۔

۳۷

اب اگر دین میں سختی پیدا ہوگئی ہے تو یہ لوگوں کے اجتہاد کا نتیجہ ہے جنہوں نےشریعت کے اعلی مقاصد کو اپنی فہم کے مطابق تاویل کیا ہے یا پھر بعض بڑے گناہوں کے مرتکب ہوئے تھے۔ پھر اپنے کو مشقتوں میں مبتلا کرتے تھے اور تکلیف دیتے تھے تاکہ شاید خداوند عالم انہیں بخش دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ لہذا انہوں نے کچھ باتیں ایجاد کیں اور اپنے نفس پر سختی کی۔ خداوند عالم نے بھی ان کے لیے ان امور کو لازم و ضروری قرار دیا گرچہ آخر کار انہوں نے اسے پورا نہ کیا۔

اس کے متعلق خداوند عالم فرماتا ہے:

اور رہبانیت ( لذات سے کنارہ کشی) کی ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکالی تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ مگر ( ان لوگوں نے) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ( خود ایجاد کر لیا) تو اس کو بھی جیسا بناہنا چاہیئے تھا نہ بناہ سکے۔( حدید/۲۷)

یہی وہ مقام ہے جہاں رسول خدا(ص) کا کلام نظر آتا ہے کہ :

اپنے آپ پر سختی نہ کرو تاکہ خدا بھی تم پ رسختی نہ کرے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔(۱۸)

اس منطق کو پیش نظر رکھنے کے بعد خداوند عالم کا کلام بھی سمجھ میں آتا ہے کہ جسے اس نے رسول اکرم(ص) کے متعلق فرمایا ہے:

( وہ نبی(ص)) جو انہیں اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور جو پاک او پاکیزہ چیزیں ان پر حلال اور ناپاک اور گندی چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے اور وہ ( سخت احکام کا) بوجھ جو ان کی گردنوں پر تھا اور وہ پھندے جو ان پر (پڑے ہوئے) تھے اسے ہٹا دیتا ہے۔ (اعراف/۱۵۷)

لہذا انہوں نے خود یہ قید و بند اپنے لیے تیار کر رکھی تھی۔ خدا نے ایسا نہ کیا

۳۸

تھا۔

اس بحث سے ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ دین اسلام میں کسی قسم کی مشقت، سختی، مشکل اور قید وبند نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سہل اور آسان دین ہے جو بندوں کے لیے سوائے رحمت و مہربانی کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہےجس نے ہمیشہ انسانوں کی جسمانی اور روحانی کمزوری کا پاس رکھا ہے جیسا کہ خود فرماتا ہے:

             خداوند عالم تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے بے شک انسان کمزور خلق ہوا ہے( نساء/۲۸)

             اور تم پر یہ تمہارے پروردگار کی رحمت تخفیف کی وجہ سے ہے (بقرہ/۱۷۸)

             اس طرح آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اہل بیت(ع) کی شناخت کے مطابق اور عام مجتہدوں کے اجتہاد اور مشکل پرستوں کی مشقت سے قطع نظر اسلام کیسا سہل و آسان دین ہے کہ آج کا انسان بھی دیگر زمانوں کے انسانوں کی طرح بغیر کسی سختی اور مشکل کے اسلام کو اپنی دنیا وآخرت کےلیے منتخب کرسکتا ہے۔

۳۹

کیا اسلام ترقی کو قبول کرتا ہے؟

بے شک! اسلام نہ صرف ترقی کا مخالف نہیں ہے بلکہ خود عین ترقی و تمدن ہے۔

اسلام وہ بلند معنی ومفہوم ہے جسے انسان نے بشریت کے آغاز سے ہی پالیا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں جو علم اور حصول علم کا شوق دلاتی ہیں اور انسان سے چاہتی ہیں کہ زندگی کے اعلی مراحل تک پہنچنے کے لیے عقل و خرد سے کام لے چاہے اسے خلاء میں کیوں نہ پہنچنا ہو۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اے گروہ جن و انسان اگر تم آسمان و زمین کی حدود سے آگے جاسکتے ہو تو جاؤ۔( رحمن/ ۳۳)(۱۹)

خداوند عالم نے ایک دوسری آیت میں انسان کو تمام مخلوقات پر برتر قرار دیا ہے اور اسے بتایا ہے کہ تمام کائنات اور مخلوقات اس کی خدمت پر کمر بستہ ہیں۔

فرماتا ہے:

خدا تو  وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے قابو میں کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور اس کے فضل (وکرم ) سے ( معاش کی) تلاش کرو اور شکر کرو اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے تماہرے کام میں لگا دیا ہے  جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں ( قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔( جاثیہ/ ۱۲۔۱۳)

۴۰