اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 54193
ڈاؤنلوڈ: 4475

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54193 / ڈاؤنلوڈ: 4475
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اہل بیت حلاّل مشکلات

اردو ترجمہ

کل الحلول عند آل الرسول

ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی

ترجمہ

سید امتیاز حیدر

ترتیب و تدوین

اے ایچ رضوی

۱

عرض مترجم

ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی دور حاضر میں دنیاے تشیع کی ایک جانی پہچانی شحصیت کا نام ہے۔ دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے آراستہ اس شخصیت نے خود سے راہ حق و حقیقت کی جستجو کی خاردار وادی میں قدم رکھا اور منزل حق تک پہنچ کر دم لیا۔ آج یہ عظیم شیعہ مبلغ اور بے مثل صاحب قلم اپنی بے دریغ کاوش اور بے مثال جہاد لسان و قلم کے ذریعہ پوری دنیا کو مکتب اہل بیت(ع) کی حقانیت سے روشناس کرانے میں ہمہ تن سرگرم عمل ہے۔

تیونس نام کے ایک اسلامی افریقی ملک کے باشندہ ڈاکٹر تیجانی نے اب تک دنیا کے بہت سے ملکوں کا دورہ کیا اور ہزاروں بھٹکےہوئے افراد کو صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے۔ ان کی کئی کتابیں ” پھر میں ہدایت پاگیا “، ” میں بھی سچوں کے ساتھ ہوجاؤں “، ” شیعہ ہی اہل سنت ہیں“، دنیا کی بہت سی اہم زبانوں میں عربی سے ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہیں بلکہ ایک ایک کتاب کے دس دس اور بیس بیس  ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

قارئین کرام، اس وقت جو کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے اس کا اصل نام” کل الحلول عند آل الرسول“ ہے، اس کافارسی ترجمہ بنیاد معارف اسلامی قم کی جانب سے ” اہل بیت(ع) کلید مشکلات“ کے نام سے شائع ہوا۔ جس میں فارسی مترجم نے بعض حاشیہ بھی لکھے ہیں ۔ اسی کا اردو ترجمہ ” اہل بیت(ع) حلال مشکلات“ کے عنوان سے پیش خدمت ہے۔ یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے بقیہ کتابوں سے جدا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں اغیار کے معائب پر

۲

 روشنی ڈالتے ہوئے اپنے مسلک میں پیش آنے والی بعض چیزوں پر بھی اس طرح قلم چلایا ہے جیسے جراح کسی پھوڑے کا آپریشن  کرتا ہے اور اس کا علاج کرتا ہےسطحی نقطہ نظر سے ان کی بعض تحریریں سخت ہیں اور مترجم ان میں اپنی رائے محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن اس میں وہ مفید مطالب بھی ہیں جن کا گہری نظر سے مطالعہ پوری ملت اسلامیہ کو راہ ثواب سے ہمکنار کرسکتا ہے ۔ حقائق کتنے ہی تلخ ہوں ہمیں ان کا اعتراف کرنا ہی چاہئے ۔ بہر حال مجموعی طور سے یہ کتاب مصنف کی جرات و ہمت کی  پوری عکاسی کرتی ہے۔

خداوند عالم ہم کو راہ حق کی معرفت اور اس پر مضبوطی سے گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

                                                                                سید امتیاز حیدر

۳

مقدمہ

حمد و ثناء خدا  کے لیے سزاوار ہے اور وہی سارے عالم کا پروردگار ہے۔ اور اعلی ترین درود و سلام پروردگار عالم کی جانب سے منتخب حضرت ابوالقاسم محمد بن عبداللہ(ص) پر ہو جو عالمین کےلیے رحمت، ہمارے سید و سردار، آخری پیغمبر اور اللہ کے رسول(ص) ہیں اور آںحضرت کی عترت طاہرہ(ع) جو ہدایت کی نشانی، گمراہی سے نجات کی مشعل، امت کا سہارا اور ملت کے نجات دہندہ ہیں۔

خدا وند عالم نے محمد(ص) و آل محمد(ص) کی برکت سے ہم پر احسان کیا اور حق کی  شناخت کے لیے ہدایت فرمائی۔ ایسا حق کہ جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں ہے اور مجھے ان میووں کا مزہ چکھایا جو میری چھ کتابوں کا ثمرہ تھے۔

حق کو بیان کرنے کی وجہ سے میری کتابوں پر پردہ ڈال دیا گیا تھا لیکن خدا کے فضل و کرم سے شائع ہوئیں اور ان کی وجہ سے بہت سے سچے اور حق کے جو پاکیزہ طینت مومنین عترت طاہرہ(ع) کے گردیدہ ہوگئے اور ایمان کا جز بن گئے جن کی تعداد سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔

                     ” وَ ما يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُو“( مدثر،۳ 1 )

                     خداوند کی فوج کو سواے اس کے کوئی نہیں جانتا۔

جو خطوط دنیا کے کونے کونے سے یہاں پیرس اور تیونس  مین ہمیں مل رہے ہیں وہ ہمارے حوصلہ افزائی  کرتے  ہیں۔ اور ہمیں اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ فرج الہی نزدیک ہے اور اس کا وعدہ سچا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں میں اس کی اس آیت کو ورد کرنے لگتا ہوں کہ ۔

۴

” أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْساءُ وَ الضَّرَّاءُ وَ زُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَ الَّذينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتى‏ نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَريبٌ ‏“(بقرہ۔ ۲ 1 ۴)

کیا تم خیال کرتے ہو کہ جن آزمائشوں سے بزرگوں کو گزرنا پڑا ان کے بغیر جنت مین داخل ہوجاؤ گے۔ وہ رنج و مصیبت میں گرفتار ہوئے، سختیاں برداشت کیں اور اس طرح ان میں لرزہ پیدا ہوا کہ انبیاء(ع) اور ان کی پیروی کرنے والے مومنین بارگاہ پروردگار میں گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگے کہ خدا کی جانب سے ںصرت کب پہنچے گی؟ بے شک ( مومنین کو بشارت دے دو) کہ خدا کی نصرت قریب ہے۔“

ان ڈھیر سارے خطوط کے پڑھنے کے بعد احساس کرتا ہوں کہ بھلائی کبھی بھی بند نہ ہوگی۔ اور حق ہمیشہ کامیاب ہے۔

”بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذا هُوَ زاهِقٌ وَ لَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُون‏“(الانبی اء ۔ 1 ۸ )

” ہمیشہ باطل پر حق کو غالب رکھیں گے تا کہ باطل کو سرنگوں کرکے نابود کرے۔“

اور جب خود خداوند عالم نے باطل کو مٹانے کا عہد کر لیا ہے تو میں جس چیز کو حق ہونے کا معتقد ہوں اس کے اظہار میں لیت و لعل نہ کروں گا یہاں تک کہ خداوند عالم میرے اور کج فکروں  کے درمیان فیصلہ کردے۔ یہ حق سے دور بھاگتے ہیں۔ اور جس چیز کے عادی بن گئے ہیں۔ چاہے وہ سو فیصد ہی غلط ہو۔ اس کے سوا کسی اور چیز کو قبول نہیں کرتے، باطل  سے پرہیز نہیں کرتے۔

میں پھر خداوند عالم سے ان کے لئے ہدایت کی آرزو رکھتا ہوں اس لیے کہ صرف وہی ہے کہ جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔

۵

اور چون کہ بہت سے قارئین اور حق کے جو یا افراد کے ساتھ خطوط کے ذریعہ یا ان سے ملاقات کے وقت، یا اپنی تقریروں میں مخلتف موقعوں پر تند و ترش ہو جاتا ہوں۔ لیکن مجھے اس بات کا احساس ہے کہ بعض افراد ہماری باتوں کو حق سمجھتے ہیں پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ اس وقت جب  کہ اسلام کی نابودی کی خاطر مشرقی و مغرب متحد ہوچکے ہیں ہم ایسی مشکلات کھڑی نہیں کرنا چاہتے ۔ جو مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان پہنچائیں۔

ہم نے ان کی اس بات کو ایک حد تک معقول سمجھا اور ان کے نظریہ کو پسند کیا۔ کیوں کہ ان کی کوشش یہ ے کہ اختلاف کم کیے جائیں۔ اور مسلمانوں کی صفوں کو منظم کیا جائے لہذا ان کے نظریوں کو ماننا چاہئے۔ اور ان کی نصیحتوں کو قبول کرنا چاہئے اور ان کا ممنون ہونا چاہئے۔ اس جگہ پر امیر المومنین(ع) کا ارشاد یاد آتا ہے، آپ(ع) فرماتے ہیں

        ” اور تم کو چاہئے کہ اپنے امور مین اس عمل کو زیادہ دوست رکھو کہ نہ حق سے غفلت ہو اور نہ اسے کنار چھوڑا جائے، عدالت کی ہمہ گیری رکھتا ہو اور رعیت کو پسند آئے۔ چونکہ  زیادہ افراد کی ناراضگی بعض کی خوشنودی کو بے اثر بنادیتی ہے اور اپنوں کی ناخوشی لوگوںکی خوشنودی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔“

لہذا میں اپنی کتاب ” اہل بیت (ع) حلال مشکلات“ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ وہ مسائل جو لوگوں کو مشتعل اور برانگیختہ کرتے ہیں ان سے پرہیز کروں تاکہ وہ حق سے دور نہ ہوں اور ان میں ہدایت کی تلاش کا جذبہ ختم نہ ہو۔ اگر چہ میں اس بات کا معتقد ہوں کہ جذبات کو برانگیختہ کرنے کی روش آزاد افراد کی نفسیات میں جوش و ولولہ پیدا کرتی ہے اسی اپنی گزشتہ کتابوں میں، میں نے اس روش کا استعمال کیا ہے جس کا قیمتی و تعجب انگیز نتیجہ حاصل ہوا ہے۔

۶

البتہ نرم اور مصلحت آمیز روش اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چونکہ اس سے بہت سے لوگ مطمئن اور راضی ہوں گے۔ اور بلاشبہ اس کا نتیجہ شیریں و لذت بخش ہوگا۔ چنانچہ ہم نے دونوں روشوں کا استعمال کیا اور قرآن کریم کی پیروی کی ہے اور یہ دونوں روشوں آرزو اور خوف، بہشت کی آرزو رکھنے والوں کو روانہ بہشت کرتی ہے اور خوف کھانے والوں کو جہنم سے نجات دیتی ہے۔ اور مجھے قطعی طمع نہیں ہے کہ پرہیز گاروں کے پیشوا، امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے اس عظیم مقام کو حاصل کرلوں  جو نہ جنت کی لالچ میں عبادت کرتے تھے اور نہ ہی جہنم کے خوف سے عبادت کرتے تھے اور اگر پردے اٹھ جاتے تو ان کے یقین میں اضافہ نہ ہوتا، لہذا میں پروردگار سے صمیم قلب کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنی رحمت کو ہمارے شامل حال کرے اور مجھے سچوں کے ساتھ ملحق کردے۔

                                                                        محمد تیجانی سماوی

۷

پیش لفظ

میں نے اپنی گزشتہ کتابوں میں کوشش کی کہ مسلمانوں کو ثقلین( قرآن و عترت(ع)) کی طرف واپس لاؤں اور ان سے چاہا کہ گمراہی سے نجات اور ہدایت کی ضمانت کے لیے ان دونوں ( قرآن و اہل بیت(ع)) کو مضبوطی سے پکڑ لیں۔ جیسا کہ رسول خدا(ص) کی زبانی بیان ہوا ہے اور معتبر و مورد اعتماد راویوں نے اپنی صحاح و مسانید میں سنی و شیعہ دونوں ہی سے نقل کیا ہے۔

میں نے اس مطلب پر کافی بحث کی، حتیٰ کے بعض افراد یہ خیال کرنے لگے کہ ہماری اساس اصحاب کی تحقیر اور ان کی بے عدالتی کو ثابت کرنے میں منحصر ہے۔ لیکن خداوند عالم گواہ ہے کہ میری غرض صرف یہ تھی کہ پیغمبر اکرم(ص) کی حرمت کا دفاع کروں اس لیے کہ آنحضرت(ص) کے وجود ہی سے پورا اسلام سامنے آتا ہے۔ اسی طرح منزلت اہل بیت(ع) کا بھی دفاع کرنا چاہتا تھا اس لیے کہ وہ بھی قرآن کےہم پلہ و ہم رتبہ ہیں جس نے بھی ان کی پہچانا قرآن کو پہچانا اور جس نے بھی ان کو نظر انداز کیا اس نے قرآن کو نظر انداز کیا ہے۔ پیغمبر(ص) نے برابر اس کی  گواہی دی اور اسی پر زور دیا ہے۔

ان شاءاللہ اس کتاب میں، میں ان مسلمانوں پر ثابت کروں گا۔ جو بیسویں صدی جی رہے ہیں، مختلف ناموں میں بٹے ہوئے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ واقعی اسلام تک رسائی پیدا کریں اور اس پر عمل کریں ، ان کے لیے اہل بیت(ع)  کی پیروی واجب ہے۔ وہ حقیقت جس سے یہ گریزاں ہیں، یہ ہے کہ قرآن و سنت دونوں ہی میں تاویل و تحریف کی گئی ہے۔ قرآن کو مختلف معنی میں

۸

تاویل کیا گیا تاکہ اس کو شریعت کے حقیقی مقاصد سے دور کردیں اور سنت میں جعلی احادیث داخل کر کے تحریف کردی گئی۔ لہذا آج قرآن کی جو تفسیریں ہمارے پاس ہیں وہ اسرائیلیت یا بعض مفسروں کی ذاتی اجتہاد سے خالی نہیں ہیں جو اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن کی بعض آیتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔ اسی طرح کتب احادیث اس درجہ جھوٹ اور تحریف کا شکار ہوئی ہیں کہ کسی پر بھی سو فیصد اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

یہی وہ مقام ہے. جہاں معصوم ائمہ(ع) اور رہبروں کی طرف رجوع کرنا واجب ہوجاتا ہے. اس لیے کہ صرف وہ ہیں جو کتاب خدا کی تفسیر اور احکام خدا کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور صرف وہی احادیث پیغمبر اکرم(ص) کو تمام  تبدیلیوں، تحریفوں اور شبہات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں.

اگر آج مسلمانوں کی آخری خواہش سلف صالح کی جانب واپسی ہے تاکہ ان دونوں تشریعی ماخذ کو ان سے حاصل کریں اور چونکہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ (اہل بیت(ع))  سب سے افضل ہیں، لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان سے پوچھیں کہ آپ کے پاس کیا دلیل ہے. ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم ان سے بین و واضح دلیل و برہان طلب کریں جو انسان کے لیے بہانہ کی راہ کو بند کر دیتی ہے، اسے قانع کردیتی ہے اور قلب مطمئن ہوجاتا ہے. اس لیے کہ صرف حسن ظن کافی نہیں ہے حتی کہ استقامت اور نیک رویہ بھی فہم کے صحیح ہونے اور غلطی سے محفوظ رہنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا.

نبی(ص) کے شہر علم کا در، جناب امیرالمومنین(ع) اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.

                ” لوگوں  کے ہاتھ میں حق و باطل ہے. سچ و جھوٹ، ناسخ و منسوخ، عام  اور خاص، محکم

اور متشابہ ہے. جو چیز لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہے،جس پر حدیث بیان کرنے والے نے گمان

 کیا ہے. اور رسول خدا(ص)

۹

کے زمانے میں ہی جھوٹ باندھا، یہاں تک کہ آںحضرت(ص) خطبہ دینےکے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ” جس نے بھی عمدا میری طرف جھوٹی باتین        منسوب کیں اس نے اپنے لیے جہنم میں جگہ تیار کر لی .

اور تمہارے لیے جو حدیث بیان کرتے ہیں وہ صرف اور صرف چار ہیں.

( ۱ ) دو چہرے رکھنے والا جو کہ اظہار ایمان کرے لیکن بظاہر مسلمان ہو، گناہ سے نہ ڈرے اور دل میں خوف نہ رکھتا ہو، عمدا رسول خدا(ص) پر جھوٹ باندھے اور خوف نہ کرے اور اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ وہ منافق اور جھوٹا ہے تو اس کی ( بیان کی ہوئی) حدیث کو قبول نہ کریں. اور اس باتوں کو سچ نہ سمجھیں. لیکن اگر رسول خدا(ص) کے دوستوں میں سے ہو تو اس کو دیکھنا اور سننا چاہئے. اور اس کی باتوں کو محفوظ کرنا چاہئے. اس کے کہے ہوئے کو قبول کرنا چاہیے. خدا نے تم کو منافقوں کے متعلق بتایا ہے اور جس طرح ان کی قلعی کھلنی چاہیے خدا نے بیان فرما دیا ہے.

یہ رسول خدا(ص) اور اہل بیت(ع)  جب پر خدا کی رحمت ہو اپنی جگہ رہ گئے اور لوگ جھوٹ و تہمت کے ذریعہ گمراہوں کے سرغنہ اور جہنم کی طرف دعوت دینے سے نزدیک ہوگئے۔ انہوں نے ان منافقوں کو عہدوں پر مامور کیا اور لوگوں کے امور کو ان کے حوالہ کردیا۔ اور انہیں کے ہاتھوں دنیا کو ہتھیایا۔ اور لوگ تو وہاں جاتے ہیں جہاں بادشاہ اور دنیا رخ کرتی ہے۔ مگر یہ کہ خدا محفوظ رکھے۔ ان چار میں سے یہ ایک ہے۔

( ۲ ) کچھ حدیث نقل کرنے والے ایسے ہیں جو حدیث کو رسول خدا(ص) سے سنتے ہیں لیکن جس توجہ سے سننا چاہیئے نہیں سنتے اور غلط بیان کرتے ہیں لیکن ان کا یہ عمل عمدا نہیں ہوتا۔ جو حدیث اس کے پاس ہے اس کو بیان کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اور کہتا ہے ہم نے اسے

۱۰

رسول خدا(ص) سے سنا ہے۔ اگر مسلمانوں کو پتہ ہوتا کہ اس نے حدیث سننے میں غلطی کی ہے تو ہرگز اس کو قبول نہ کرتے اور اگر خود اسے معلوم ہوتا کہ یہ حدیث غلط ہے تو اس کو بیان کرنے سے گریز کرتا۔

( ۳ ) اور تیسرا وہ ہے جس نے سنا کہ رسول خدا(ص) نے کسی چیز کو حکم فرمایا اور پھر اس کی نفی کردی لیکن اس نفی کرنے کا علم اسے نہ ہوسکایا حضرت(ص) نے کسی چیز کی نفی کی اور بعد میں اسکا حکم فرمایا۔ لیکن وہ اس حکم سے بے خبر ہے۔ لہذا جو حکم ہوا اس کی تو اسے خبر ہے۔ لیکن اس کے منسوخ ہونے کی اسے خبر نہیں ہے چوںکہ اگر اسے پتہ ہوتا کہ وہ روایت منسوخہوچکی ہے۔ تو وہ اسے ترک کردیتا اور جس وقت مسلمانوں نے اس سے حدیث سنی اگر جانتے کہ منسوخ ہوچکی ہے اسے ترک کردیتے۔

( ۴ ) اور چاتھا شخص وہ ہے جو خدا اور رسول(ص) کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیتا، خدا سے ڈرتا ہے اور رسول خدا(ص) کی حرمت کا خیال رکھتا ہے غلطی کا بھی مرتکب نہیں ہوتا۔ جو کچھ اسے یاد ہے وہی ہے جسے اس نے سنا ہے۔ اور جو کچھ سنا ہے بغیر کسی کمی اور اضافہ کے وہی روایت کرت ہے پس ناسخ کو ذہن میں محفوظ کیا اور اس پر عمل کیا اور منسوخ بھی جو ذہن میں تھا اس سے پرہیز کیا۔ خاص و عام کو سمجھا، محکم و متشابہ کو پہچانا اور ہر ایک کو اسی جگہ پر قرار دیا۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث رسول(ص) کے دو طرح کے معنی ہوتے ہیں۔ ایک خاص گفتگو ہوتی ہے اور ایک عام گفتگو ہوتی ہے۔ ممکن ہے کوئی سننے کے بعد نہ سمجھ پائے کہ خدا اور رسول(ص) اس سے کیا چاہتے ہیں؟ پس سننے والا تاویل کرتا ہے بغیر اس کے کہ کلام کو سمجھے یا اس کے مقصود کو جانے یا یہ نہ جانے کہ یہ کیوں بیان ہوئی ہے؟ رسول خدا(ص)  کے تمام اصحاب تو اس طرح کے نہ تھے کہ آن حضرت(ص) سے پوچھیں اور اس کے معنی کو معلوم کریں۔ بلکہ وہ تو منتظر رہتے تھے کہ کوئی صحرائی عرب پہنچے اور رسول(ص) سے سوال کرے، اس

۱۱

۱۲

یہ ہے سچا دین

دو سال قبل سان فرانسکو میں برادران اہلسنت کی مسجد میں، میری تقریر کا یہی عنوان تھا۔ اس روز جلسہ میں افریقہ کے متعدد ممالک نیز ترکی، افغانستان اور مصر کے باشندے شریک تھے۔ اس تقریر اور پھر آزاد بحث کے نتیجہ میں بہت سے حاضرین نے اپنی رضائیت کا اظہار کیا۔

ایک مصری طالب علم جس حال ہی میں اپنی ڈاکڑیٹ حاصل کی تھی مجھ پر یہ اعتراض کیا کہ آپ کس بنا پر شیعوں کے دین کو حقیقی اسلام سمجتھے جبکہ شہرت اس کے برعکس ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل سنت والجماعت ہی فرقہ ناجیہ ہے۔ کیوں یہ لوگ قرآن و سنت سے متمسک ہیں اور دیگر فرقے گمراہ ہیں؟

میں نے بہت ضبط و حوصلہ اور نرمی سے حاضرین کو مخاطب کر کے اس کا جواب دیا:

میرے بھائیو! میں حق کو حاضر و ناظر جان کر قسم کھا کر کہتا ہوں اگر مجھے کوئی ایسا اہل سنت فرقہ مل جائے جو حضرت ابوبکر کی طرف منسوب مذہب کا پیرو ہوتو میں انہیں مبارک باد دوں گا۔ کیوں کہ حضرت ابوبکر کا شمار پیغمبر خدا(ص) کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی فرقہ ملے جو حضرت عمر اور حضرت عثمان کی طرف منسوب مذہب کی پیروی کرتا ہے تو میں انہیں مبارک باد پیش کروں گا۔ کیوں کہ یہ دونوں اصحاب رسول(ص) میں شمار ہوتے ہیں لیکن مجھے آج تک اہل سنت یا دیگر فرقوں میں کوئی ایسا گروہ نہیں ملا جو ان خلفاء یا کسی اور صحابی سے منسوب مذہب کی

۱۳

 پیروی کرتا ہو۔ صرف ایک شیعہ فرقہ ہے جو علی بن ابی طالب(ع) سے منسوب مذہب کی پیروی کرتا ہے۔ یہ لوگ شیعہ امامیہ ہیں ان کے مقابل کوئی ابوحنفیہ کی تقلید کرتا ہے تو کوئی شافعی اور احمد بن حنبل کی یہ حضرات عظیم دانشور ہونے کے باجود صحابی نہیں ہیں۔ انہوں نے رسول اکرم(ص) کو ایک دن کے لیے بھی درک نہیں کیا اور نہ ان کے ہمنشین رہے ہیں۔ یہ حضرات تاریخ کے ایک عظیم فتنہ کے بعد معرض وجود میں آئے ہیں اور بلاشک و شبہ اس فتنہ سے متاثر ہوئے ہیں۔(۱)

ہم اگر علی بن ابی طالب(ع) کو تمام فضیلتوں سے الگ کر دیں تو ان کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ آپ سب سے پہلے مسلمان اور مومن تھے اور آپ نے اپنی ساری زندگی رسول خدا(ص) کی رقابت اور ان کے دین کی  خدمت میں گزار دی۔ میں آپ سے خدا کاواسطہ دے کر کہتا ہوں تعصب اور جذبات سے کنارہ کرتے ہوئے صرف اور صرف اپنی عقل کو حاکم بتائیں اور فقط خدا کی مرضی کو مدنظر رکھیں اس کے بعد اپنے ضمیر سے پوچھیں اور مجھے بتائیں کہ پیروی اور اتباع کا کون مستحق ہے؟ حاضرین میں سے سنکڑوں آواز بلند ہوئیں کہ علی(ع) پیروی اور اخباع کے زیادہ مستحق ہیں۔

اس کے بعد میں نے حاضرین کو رسول اکرم(ص) کی وہ حدیثیں سنائیں جو اہل سنت والجماعت کی معتبر ترین کتب ( صحاح و مسانید حدیث) میں منقول ہیں۔ یہ حدیثیں مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔(۲)

۲۔ علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے۔ جہاں علی(ع) ہوں گے، حق بھی ان کے ساتھ ہوگا۔(۳)

۳۔ جس کا میں مولا ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔(۴)

۱۴

۴۔ میری نسبت علی(ع) سے ایسی ہے جیسے ہارون کو موسی(ع) سے تھی۔(۵)

۵۔ میرے بعد علی(ع) میری امت کے اختلافات کو حل کرنے والے ہوں گے۔

6۔ علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے اور یہ دونوں  ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کے میرے پاس حوض کوثر پر آجائیں۔(6)

اگر مسلمان ان حقائق کو سجھ لیں اور ان کی عقلیں صرف اور صرف حضرت علی(ع) کے صحابی پیغمبر(ص) ہونے کی وجہ سے ان کی پیروی کی دعوت دیں تو اس میں کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا کہ حقیقی اسلام وہی ہے جو شیعہ امامیہ کا دین ہے۔ انہی رافضیوں کا اسلام جنہوں نے علی(ع) کے علاوہ کسی اور کی پیروی کو رفض ( ناپسند) کیا ہے۔

آخر کار جلسہ میں بہت گفتگو اور بحث کے بعد جو کہ بڑے صبر و حوصلہ و آرام سے انجام پائی، حاضرین میں سے بہت سے لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے مبارکباد دی اور خدا کا شکر ادا کیا۔ مجھ سے درخواست کی کہ اپنی کتابیں انہیں پیش کروں اور شیعوں کی کتابوں کے بارے میں انہیں معلومات فراہم کروں۔

اس گروہ میں ایک فرد اسی مسجد کے امام جماعت بھی تھے جب میں مصائب اہل بیت(ع) پڑھ رہا تھا تو وہ گریہ کررہے تھے۔ انہوں نے مصر سے ph .D کی ہے۔ وہ  محب اہل بیت(ع) ہیں انہوں نے مجھ سے کہا: مبارک ہو اے بھائی! مجھے یقین نہیں تھا کہ تم اتنی آسانی سے ہمیں مطمئن اور قانع کر لوگے مجھے بعض متعصبین سے جو تم سے جلتے ہیں خوف محسوس ہورہا تھا، لیکن خدا کی قسم تم نے اپنی سچی باتوں سے ان کے دل جیت لیے۔

۱۵

راہ پیغمبر(ص) کو جاری رکھنے والے

اہل بیت(ع) سے ہماری مراد پیغمبر(ص) کی عترت میں بارہ امام علیہم السلام ہیں۔ ہم نے گزشتہ کتابوں میں اس سلسلے  میں جو گفتگو کی ہے۔ شیعوں اور اہل سنت کا اتفاق ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

     میرے بعد ائمہ بارہ افراد ہوں گے اور یہ سب کےسب قریش سے ہوں گے۔(۷)

     آپ(ص) نے مزید فرمایا۔ یہ امر ( امامت) قریش ہی میں رہے گا خواہ قریش میں صرف دو ہی آدمی کیوں نہ بچے ہوں۔

اور چونکہ سبھی جانتے ہیںکہ خدا  نے آدم(ع) و نوح(ع) و ابراہیم(ع) و خاندان عمران کو دنیا کے تمام لوگوں میان منتخب کیا ہے۔ پس پیغمبر اکرم(ص) نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا نے ان تماملوگوںپر بنی ہاشم کو منتخب کیا ہے اور یہ لوگ تمام برگزیدہ افراد پر فضیلت رکھتے ہیں۔(۸)

صحیح مسلم کے باب فضائل میں (دیگر لوگوں پر فضیلت پیغمبر اکرم(ص)) کے باب میں آن حضرت(ص)  سے منقول ہے کہ

             خدا نے کنانہ کو فرزندان اسماعیل(ع) سے منتخب کیا اور قریش کو کنانہ سے۔ اور بنی ہاشم کو قریش سے اور مجھے بنی ہاشم سے۔(۹)

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے بنی ہاشم کو تمام مخلوق پر فوقیت اور فضیلت دی ہے اور بنی ہاشم پر رسول اکرم(ص) کو فوقیت و فضیلت دی ہے۔ لہذا بنی ہاشم کا رتبہ آپ کے بعد ہے۔ اور رسول اکرم(ص) نے تمام بنی ہاشم میں علی(ع) اور ان کی

۱۶

اولاد کو منتخب کیا اور خدا کے حکم سے انہیں اپنا جانشین بنایا ہے۔ جس طرح سے خود آپ(ص) پر درود و سلام بھیجنا واجب تھا، اسی طرح آپ نے علی(ع) اور اولاد علی(ع) پر درود و سلام بھیجنا واجب قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے اکثر مفسرین نے علی(ع) و آل علی(ع) کو آیہ تطہیر کا مصداق بتایا ہے۔ صرف آیہ تطہیر ہی نہیں بلکہ آیت مودت، آیت ولایت اور آیت اصطفاء کا مصداق بھی اہل بیت(ع) ہی ہیں۔کتاب کے وارث، اہل ذکر، راسخون فی العلم اور سورہ ہل اتی سے مراد اہل بیت علیہم السلام ہی ہیں۔

رسول اکرم(ص) کی وہ حدیثیں جن کی صحت پر تمام علماء فریقین کو اتفاق ہے، بہت زیادہ ہیں ان حدیثوں میں رسول اکرم(ص) نے اہل بیت علیہم السلام کی فضیلتوں کو بیان کیا ہے اور انہیں ہدایت دینے والے رہبر بتایا ہے۔ چونکہ یہ حدیثیں بہت زیادہ ہیں لہذا ہم صرف دو حدیثوں کا ذکر کرتے ہیں۔

۱۔ مسلم نے اپنی صحیح میں باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع) میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

        اے لوگو! میں بھی ایک بشر ہوں، ممکن ہے جلد ہی خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ آجائے اور میں اس کی

دعوت پر لبیک کہہ دوں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں تمہارے درمیان دور گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں

ایک کتاب خدا ہے  جس میں ہدایت اور نور ہے۔ کتاب خدا کو مضبوطی سے تھام لو۔ دوسرے میرے

اہل بیت(ع) ہیں تمہیں خدا کا واسطہ میرے اہل بیت(ع) کو بھلا نہ دینا۔ تمہیں خدا کا واسطہ میرے

اہل بیت(ع) کو بھلا نہ دینا۔ تمہیں خدا کا واسطہ میرے اہل بیت(ع) کو یاد رکھنا۔(۱۰)( صحیح مسلم ج۴،

ص۱۸۷۳، ح۲۴۰۸)

۲۔ مسلم نے اپنی صحیح میں سعد بن ابی وقاص سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی کہ رسول خدا(ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :

۱۷

                ” اے علی(ع) تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہےجو ہارون(ع) کو موسی(ع) سے تھی۔

                مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔“(۱۱)

ہم اختصار کی بنا پر ان ہی دو حدیثوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان حدیثوں سے واضح اور ثابت ہوجاتا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) عترت پیغمبر(ص) کے بزرگ تھے اور آپ ہی نے رسول خدا کی حفاظت کی اور ان کے راستہ کو جاری رکھا۔ رسول اکرم(ص) نے اسی بات پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے:

                میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔

کیا یہی حدیث کافی نہیں ہے اس بات پر کہ امت علی(ع) کے بغیر ” شہر پیغمبر“ میں داخل ںہیں ہوسکتی۔ ان دو بزرگوں پر خدا کا درود و سلام ہو خدا نے گھر میں صرف دروازہ سے داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت علی(ع) نے صرف رسول خدا(ص) سے علم حاصل کیا ہے آپ بچپن ہی سے رسول خدا(ص) کی تربیت میں رہے اور ہمیشہ رسول اکرم(ص) کے ساتھ رہتے تھے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے گزشتہ اور آیندہ کا علم آپ(ع) کو عطا کیا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:

        ” جبرئیل نے مجھے کوئی ایسی چیز نہیں دی جو میں نے علی ابن ابی طالب(ع) کو نہ سکھائی ہو“۔

        اس بارے میں خود حضرت علی(ع) ارشاد فرماتے ہیں:

        ” اگر مسند قضاوت بچھا دی جائے تو میں اہل توریت کے لیے توریت سے اور اہل انجیل کے لیے

        ان کی انجیل سے اور اہل قرآن کے لیے قرآن سے فیصلہ کروں گا۔“(۱۲)

آپ(ع) مزید فرماتے ہیں :” سلونی قبل ان تفقدونی“

” مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان سے اٹھ جاؤں۔“(۱۳)

۱۸

تاریخ اسلام میں تمام مسلمان اور اصحاب اس بات پر متفق ہیں کہ دین و دنیا کے سب سے بڑے عالم علی(ع) ہیں۔ آپ(ع) دنیا کے پارساترین اور زاہد ترین فرد تھے آپ(ع)  نے ہر طرح کی مصیبت اور سختیوں میں صبر کے اعلی ترین مدارج کا مظاہرہ کیا اور جنگوں میںآپ(ع) کی شجاعت کی برابری کون کرسکتا ہے؟

اسی طرح خطا کاروں کو معاف کرنے اور عفو و بخشش کا مظاہر کرنے میں بھی آپ(ع) کا ثانی نہیں ہے۔

ان مطالب کو کامل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) اور اہل بیت(ع) کے درمیان رشتہ اور ربط کے بارے میں آپ کے ارشادات پر توجہ کی جائے۔

اسرار پیغمبران (اہل بیت(ع)) کے حوالہ کیا گیا ہے جو بھی ان کی پناہ میں آئے اس نے راہ حق اختیار کی ہے، ( وہ علم رسول(ص) کے مخزن ہیں اور ان کی شریعت کے احکام کو بیان کرتے ہیں۔ قرآن و سنت ان کے یہاں محفوظ ہیں، وہ پھیلے ہوئے پہاڑ کی طرحدین کے پاسبان ہیں۔ انہیں کے ذریعہ اس کی پشت مضبوط ہے اور اس کے پہلو کی کپکپی دور ہوئی ہے۔ ( نہیج البلاغہ/خطبہ۲)

خدا کی قسم ہمیں پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کو پورا کرنے، امر و نہی کو بیانکرنے کا پورا علم ہے اور ہم اہل بیت(ع) پر ہی علم و حکمت الہی کے دروازےکھلے ہیں۔ ( نہیج البلاغہ/خبطہ۱۲۰)

کہاں ہیں وہ لوگ جو جھوٹ بولتے ہوئے اور ہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ دعوی کرتےہیں کہ ہو”راسخون فی العلم“ ہیں نہ کہ ہم۔خدانےاسکےعوض ہمیں بلندی دی اور انہیں پستی میں ڈال دیا۔ ہمیں عطا کیا اور انہیں محروم کیا۔ ہمیں اپنی عنایت کے دائرہمیں رکھا اور انہیں باہر کردیا۔ ہم ہی سے طلب ہدایت اور گمراہی کی تاریکیوں کو

۱۹

 چھانٹنے کی خواہش کی جاسکتی ہے۔ بلا شبہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخبنی ہاشم کے کشت زار سے ابھرے ہیں۔ نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ بنی ہاشمکے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا۔ ( نہج البلاغہ/خطبہ۱۴۴)

بلا شبہ، آل محمد(ص) کی مثال آسمان کے ستاروں کے مانند ہے۔ اس لیے اگر ایک ستارہ غروب ہوتا ہے تو دوسرا ظاہر ہوجاتا ہے گویا تمہارے حق میں خدا نے خیرو وبرکت کو کمال کی حد تک پہنچایا ہے اور جو کچھ تم آزرو کرتے ہو( خدا نے ) تمہیں بخشا ہے۔ ( نہج البلاغہ/خبطہ۱۰۰)

اس امت میں کسی کو بھی آل محمد(ص) پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں۔آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے۔ حق ولایت کی خصوصیات انہی کے لیے ہیں انہی کے بارے میں پیغمبر(ص) کی وصیت اور انہی کے لیے نبی(ص) کی وراثت ہے۔ اب حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہوگیا۔ ( نہج البلاغہ/خطبہ۲)

اور ( میں اپنے نبی(ص) کے طریقے اور) شاہراہ حق پر گامزن ہوں اور اسے باطل کے راستوں سے جدا کرتا رہتا ہوں۔ اپنے نبی(ص) کے اہل بیت(ع) کو دیکھو! ان کی سیرت پر چلوں ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ وہ تمہیں ہدایت فلاح سے باہر نہیں و فلاح سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے اور نہ( انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہوجاؤ

۲۰