اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 54189
ڈاؤنلوڈ: 4475

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54189 / ڈاؤنلوڈ: 4475
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسری جگہ فرماتا ہے:

کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) خدا ہی نے انہیں تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ( خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں جھگرتے ہیں ( حالاںکہ) نہ ان کے پاس علم ہے نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روشن کتاب ہے)۔(لقمان / ۲۰)

وہ مسلمان جو اپنے خدا کی کتاب میں یہ پڑھتا ہے کہ جو کچھ آسمان میں افلاک، چاند، سورج، برج، کہکشائیں، ستارے، ہوا، بادل، برف و باران کا وجود ہے اور زمین پر  دریا، نہریں، پہاڑ، بیابان،جنگلات، درندے، حیوانات خزانے، معادن ، پتھر، جمادات و نباتات وغیرہ ہیں سبھی کچھ اس کے لیے مسخر کر دیئے گئے ہیں تو پھر وہ کیسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے اہل مغرب کی ایجاد و پیشرفت کا منتظر رہتا ہے۔ اگر ایسا کرتا ہے تو اس نے اپنے فریضہ کو ترک کردیا ہے اور اپی وقعت کو گرا دیا ہے اور اسے زبردست گھاٹا ہوا ہے۔ اس لیے کہ جو قرآن خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے اس میں ساری چیزیں موجود ہیں اور کسی قسم کی کمی اور نقص اس میں نظر نہیں آتا ۔

قرآن فرماتا ہے:

ہم نے کتاب میں کوئی بات فرو گذاشت نہیں کی ہے۔(انعام/ ۳۸ )(۲۰)

رسول خدا(ص) نے بھی ( انسان) کو علم و دانش کے حاصل کے لیے تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے: ”گہوارہ سے قبر تک علم حاصل کرو۔“

صرف یہی نہیں بلکہ اسے سب سے بلند مقام کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

۴۱

” اگر انسان عرش سے آگے کا حوصلہ بھی رکھے تو وہاں بھی پہنچ سکتا ہے“

لہذا اسلام علم و دانش اور ترقی کے میدان میں بہت آگے گیا ہے اور اس میں کسی قسم کسیرکاوٹ کا قائل نہیں ہے۔ البتہ اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ کہیں بات طولانینہ ہو جائے اور کتاب کے اصل مقصد سے خارج نہ ہوجائیں تو اس موضوع پر ایک مفصل بحث کرتا۔ محققوں کی ذمہ داری ہےکہ اس موضوع پر دوسری تحقیقی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

یہ مطالب اس سوال کا جواب تھے جسے شروع میںی عرض کیا تھا۔ اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب ترقی سے مراد فقط علمی، فقہی، تکنیکی اور صنعتی ترقی ہو جس نے یورپیوں، امریکیوں اور خصوصا جاپانیوں کی عقلوں اور ان کے گھروں کو چکا چوند کر رکھا ہے۔ اور مسلمان اس  سے بے خبر ہیں ان کے خیال میں یہ ساری قابل توجہ ایجادات اور علمی ترقی غیر مسلموں کے ہاتھوں ہوئی ہے اور اسلام ان کی پسماندگی کا باعث ہے!!! خصوصا کمیونزم پرست جو دین کو قوم کے لیے افیون سمجھتے ہیں۔ اگر ان کے پاس انصاف ہوتا تو یہ سمجھ لیتے کہ دین اسلام نے ہی قوموں کو زندہ کیا ہے اور انسانی ترقی کو دائمی رفتار بخشی ہے۔ کیا یہی اسلام نہ تھا جس نے ایک باچیز قوم کو کہ جس کےپاس کچھ بھی نہ تھا اسے جزیرة العرب میں ہر چیز کا مالک بنا دیا۔ اور اس درجہ کہ یہی پسماندہ سرزمین ساری دنیا کے لیے علم، ترقی، پیشرفت اور مدنیت کا مقصد و مرکز  بن گئی۔ اور بعض یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ” اسلام و عرب کا سورج یورپ پر چمکنے لگا“ اور یہ اقرار کیا کہ ان بدیہ نشین عربوں نے اسلام سے متمسک ہونے کے بعد بھلائی کے ہر میدانمیں ترقی کر لی  اور ہر طرح کے ایجاد میں پیش قدم ہوگئے۔(۲۱)

اگر ترقی سے مراد وہ ترقی ہے جسے اہل مغرب و امریکہ نے اپنے یہاں کھلی آزادی کا لباس پہنا رکھا ہے اور نوبت یہاں تک  پہنچ گئی ہے کہ ہم جنس

۴۲

بازی اور برہنہ رہنے والوں کے لیے کلب کھول دیئے  گئے ہیں اور جانوروں اور کتوں کے لیے میراث معین کردی گئی ہے۔ ہر روز نئی چیز وجود یں آرہی ہے۔ اور وہ تمام ا اخلاقی برائیاں جس کی مغربی ٹیلی وژن سے تبلیغ ہوتی ہے تو بلاشبہ اسلام نے ایسی باتوں کو اپنے یہاں کوئی جگہ نہیں دی ہے اور نہ صرف یہی بلکہ پوری طاقت  کےساتھ اس پر حملہ آور ہوا ہے اور فساد و تباہی کے تمام مراکز کو ختم کرنے کے درپے ہے۔

یہاں ضروری ہے کہ ہم کچھ مسلمانوں کی بعض عجیب و غریب روش کی طرف بھی اشارہ کریں جو رسول خدا(ص) کی سنت سے تمسک کے مدعی ہیں اور خود کو (سلفی) کہتے ہیں مثلا ہم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ ایک لمبا کرتا یا اٹنگا عربی پیرہن پہنے ہوئے ہیں۔ داڑھی سینے تک لہرا رہی ہے۔ ہاتھ میں ایک عصا ہے، مسجد کے کنارے کھڑے ہیں، (اراک) لکڑی سے مسواک کررہے ہیں اور کبھی دائیں طرف کے دانت اور کبھی بائیں سمت کے دانت رگڑے جارہے ہیں۔ کبھی اس سے بکلتی رطوبت کو تھوک دیتے  ہیں تو کبھی نگل جاتے ہیں! اپنے سر کو باندھ رکھا ہے اور اگر کبھی انھیں اپنے گھر کھانے کی میز پر دعوت دیں تو مخالفت کریں گے۔ حتی کیہ چمچہ اور کانٹے سے کھانا کھانے کو تیار نہیں ہوں گے بلکہ ہاتھ سے نوش فرمائیں گے۔ انگلیوں کو برابر چاٹتے رہیں گے اور فرمائیں گے: میں رسول خدا(ص) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں!!!

اور بعض تو دو چار قدم اور آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے لاؤڈ اسپیکر سے اذان ممنوع کردی ہے۔ اس لیے کہ یہ رسول(ص) کے زمانہ میں نہ تھا اور یہ بدعت ہے!!

اور بعض نے تو پسماندگی کو اس کے اوج پر پہنچا دیا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ لوگوں کو ان باتوں کی جانب واپس لائیں لہذا جو بھی تیز آواز میں ہنستا ہے منع

۴۳

کرتے ہیں، فورا اس پر بگڑ پڑتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں اور ہنسنے سےمنع کرتے ہیںاس لیے کہ آنحضرت(ص) فقط مسکراتے تھے۔ اور اگر انہوں نے سکی کو پیٹ کے بل لیٹا ہوا دیکھ لیا تو زور سے لات مارتے اور نیند سے اٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے شیطان سوتا ہے۔

میں نے ا میں سے ایک شخص کو دیھا کہ اپنی چھوٹی بچی کی پٹائی کررہا ہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اس کم سن بچی نے مہمانوں کو داہنے ہاتھ کے بجائے بائیں ہاتھ سے شربت پیش کردیا تھا۔ اتنے مہمانوں کےسامنے اس بچی کی اہانت اور پٹائی کر کے ان کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ سنت کی حفاظت کرنی چاہئے!!!

آخر یہ کیسی سنت ہے جس سے لوگ متنفر اور بد دل ہوجائیں خصوصا اس وقت جب اسلام اس شکل میں دشمنوں اورغریبوں کے سامنے پیش کیا جائے۔

بلاشبہ یہ لوگوںکو اسلام کی طرف راغب کرنے اور اسلام کا منور چہرہ پیش کرے اور اپنی طرف جذب کرنے کے بجائے ایسی ہی بری اور نازیبا حرکتوں سے متنفر کر دیتے ہیں کہ جن پر پھر کسی تبلیغ کا اثر نہیں ہوسکتا۔

ان کو یہ نہیں معلوم کہ رسول خدا(ص) نے اگر ان دنوں اراک کی شاخ کو مسواک کے بطور استعمال کیا اور اسے دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی کے لہیے کام میں لائے تو یہ اس لیے تھا کہ اس زمانہ مین آج کی طرح مختلف قسم کے برش اور ٹوتھ پیسٹ نہیں تھے اور یہ آنحضرت(ص) کی ترقی پسندی کی دلیل ہے کہ آںحضرت(ص) نے اس زمانہ میں دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی پر اس درجہ توجہ دی۔ اور لوگوں کو اس کی ترٰغیب دلائی۔ لیکن یہ ان باتوں سے قانع نہیں ہوتے اور استدلال پیش  کرتے ہیں کہ اراک کی شاخ سارے برش اور ٹوتھ پیسٹ سے  بہتر ہے اس میں محصوص نمک ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اگر آپ ان سے اس ترقی ے متعلق بتائیں کہ یہ ٹوتھ پیسٹ دانت اور منہ کو اسٹرلائیز(sterilize) کردیتا ہے، صاف کرنے

۴۴

 والا اور بہت ہی مفید ہے تو بھی وہ اس لکڑی کو بہتر سمجھیںگے۔ اور اس کو غیر طبعی ڈھنگ سے جیب میں رکھیں گے بلک کبھی کبھی تو آپ دیکھیں گے منہ کے خون کی وجہ سے اس کا رنگ لال ہوگیا ہے! مگر پھر بھی وہ رسول خدا(ص) کا قول دہراتے ملیں گے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا ہے:

اگر مجھے اپنی امت کےلیے سختی کا خیال نہ ہوتا تو میں اپنی امت پر ہر واجب نماز سے پہلے مسواک کرنا واجب قررار دے دیتا۔

افسوس کہ یہ لوگ سنت پیغمبر(ص) کے متعلق سوائے سطحی اور ظاہری مسائل کے اور کچھ نہیں جانتے اور آنحضرت(ص) کے قول کے روحانی اور علمی گوشوں سے بالکل بے خبر ہیں۔

بہر حال یہ اندھی تقلید کی طرح ان باتوں اور حرکتوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ نہ ہی فہم  و ادراک کی  بنیاد پر ہے اور نہ ہی غور و تحقیق سے اس کا کوئی ربط ہے۔ فقط جو باتیں اپنے پیشواؤوں اور اماموں سے سن لی ہیں اسی کی تکرار کرتے رہتے ہیں۔ اس میں بہت سے تو سطحی معلومات رکھتے ہیں اور شاید صدفی صد جاہل ہوں۔ لیکن اگر ان پر اعتراض کیجئے تو کہیں گے کہ رسول(ص) نے بھی علم حاصل نہ کیا تھا۔!!!

پس ایسے افراد پر تو اس زمانہ میںفخر و مباہات کرنی چاہئے جو قول میں بھی اور شکل و انداز میں بھیآنحضرت(ص) کے پیرو ہیں!!!

ایک مرتبہ مسجد عمر بن خطاب(پیرس) میں نے ان سے بحث کی اور کہا: کیا آپ واقعا سنتپیغمبر(ص) سے متمسک ہیں اور جو بھی نیا ہے  اسے بدعت سمجھتے ہیں اور معتقد ہیں کہ جو چیز نئی ہیں وہی سب سے بدتر ہیں۔ اس لیے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت و گمراہی کا انجام دوزخ ہے؟

انہوں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔ تو میں نے کہا پھر آپ کارپٹ پر کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ جبکہ یہ مصنوعی اور جدید طرز پر بنا ہوا فرش یہ مغربی ممالک

۴۵

 میں بنا ہے معلوم نہیں اسے کس مواد سے بنایا گیا ہے؟ جو چیز قطعی ہے وہ یہ کہ آنحضرت(ص) نے ہرگز کارپٹ کے اوپر نماز ادا نہیں فرمائی۔ اور اصلا اسے انہوں نے دیکھا تک نہیں۔

ان میں سے بعض کہنے لگے ہم مغربی ملکوں میں رہتے ہیں ہمارا حکم مضطر ( مجبور) کا ہے لہذا فقہ میں یہ بات آئی ہے کہ ضرورت حرام چیزوں کو جائز کردیتی ہے۔

میں نے کہا یہ کون سی ضرورت ہے آپ اس فرش کو اٹھا دیں اور زمین پر نماز پڑھیں کیوںکہ آںحضرت(ص) نے زمین پر نماز ادا کی ہے یا پھر کم از کم سجدہ کی جگہ پر پتھر رکھ لیں؟

امام جماعت نے مذاق اڑانے کے انداز میں ہماری طرف رخ کیا اور کہا:

تم جیسے ہی مسجد میں داخل ہوئے میں سمجھ گیا کہ تم شیعہ ہو۔ کیوںکہ تم نے سجدہ کی جگہ پر کاغذ رکھا تھا ہم نے کہا : اس میں کوئی حرج ہے؟ کیا آپ جس صحیح سنت کا نعرہ لگاتے ہیں اس سے ہمیں مطمئن کرسکتے ہیں؟

اس نے کہا : مجھے بحث کرنے کو وہ بھی خاص کر شیعوں سے منع کیا گیا ہے۔ اور ہم تمہاری ایک بھی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمارے لیے ہمارا دین اور تمہارے لیے تمارا دین کافی ہے۔

یہ وہ سرگزشت تھی جس کا تذکرہ مناسب معلوم ہوا اور اس سے مسلمان اور روشن فکر حضرات کو اندازہ ہوگا کہ سنت پیغمبر کبھی بھی علمی ترقی اور ٹیکنالوجی کی مخالف نہیں رہی ہے اور اسے ہرگز حرام قرار نہیں دیا گیا ہے۔

مرد ہو یا عورت اس پر ہرگز مناسب لباس پہننا حرام قرار نہیں دیا گیا، بس یہ ضروری ہے کہ بدن ڈھکنا چاہئے اور توہین کا باعث نہ ہونا چاہئے۔ اور عورتوں

۴۶

کو پردہ کی رعایت کرنی چاہئے۔ چونکہ آنحضرت(ص) نے فرمایا ہے:

پروردگار عالم تمہارے لباس، حالت، شکل و صورت اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ صرف تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ ( صحیح مسلم ج۴، ص۱۹۸۷ / ح۲۵ 6 ۴)

چنانچہ سنت پیغمبر(ص) ہرگز ڈائننگ ٹیبل اور چمچہ، کانٹے کی مخالف نہیں ہے۔ بلکہ اہم یہ ہے کہانسان کھانے پینے میں ادب کا پاس رکھے اس طرح کہ ساتھ بیٹھنے والے یہ خیال نہ کریں کہ حیوانوں کی طرح شکار پر ٹوٹا پڑ رہا ہے اور کھانے پینے میں اس کے داڑھی اور بال شریک نہ ہوں۔

سنت پیغمبر(ص) ٹوتھ پیسٹ اور برش سے دانت منہ کی صفائی کی مخالف نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس بات کی مخالف ہے کہ انسان اپنے بدن کو پاک صاف رکھے، بدن کے زائد بالوں کو دور کرے، خوشبو لگائے اور خود کو معطر کرے تاکہ لوگ اس سے متنفر نہ ہوں نیز جیب میں ایک صاف رومال رکھے۔ لیکن وہ لوگ جو سنت کی پیروی کا جھوٹا دعوی کرتے ہیںاور ان کےبدن کی بدبو خصوصا گرمی میں حمام نہ جانے کی حکایت کرتی ہے راہ چلتے ہوئے ہاتھ کو آب دہن سے لودہ کرتے ہیں۔ناک کی کثافت لوگوں کا خیال کئے بغیر جہاں چاہتے ہیں چھینک دیتے ہیں ہاتھ کو دامن سے صاف کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ خدا کی قسم سنت پیغمبر(ص) سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔

سنت پیغمبر(ص) ہرگز ممانعت نہیں کرتی کہ مسلمانوں تک اذان کی آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر، مائیکرو فون، ٹیپ ریکارڈر کا استعمال نہ کیا جائے حتی کہ اس بات کی بھی ممانعت نہیںکرتی کہ مسجد میں ویڈیو کا استعمال کیا جائے۔ اور اوقات نماز کے علاوہ اس پر اسلامی فلم یا دینی سبق دیکھا اور سنا جائے۔

سنت پیغمبر(ص) مسلمان عورتوں کے سینٹری نیپکن(Sanitary Napkin) کے استعمال کی ممانعت نہیں کرتی اور اگر وہ مباح کاموں کے لیے ڈرائیونگ کرتی

۴۷

 ہیں اور بازار جاکر دکانوں سے اپنی ضرورت کا سامان خریدتی ہیں تو سنت پیغمبر(ص) اسے حرام نہیں سمجھتی۔ صرف شرعی پردہ کا  خیال رکھیں۔ اپنے دامن کو حرام سے بچائیں، نامحرم کو نہ دیکھیں جیسا کہ خود پروردگار عالم کا حکم ہے۔ مختصر یہ کہ سنت نبوی(ص) ترقی کی مخالف نہیں ہے لیکن اس وقت تک جب کہ یہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہوا سے بیماریوں سے محفوظ رکھے اور سعادت بخشے۔

اے رسول(ص) ان سے پوچھو تو کہ جو زینت کے سازو سامان اور کھانے پینے کی صاف ستھیر چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں کس نے حرام کردیں؟ ( اعراف/ ۳۲)

ہاں ! اسلام نے ان تمام چیزوں کو حرام کیا ہے جو گندگی ، کثافت و نجاست میں شمار ہوتی ہیں اور ان تمام چیزوں کا مخالف ہے جن سے آدمی فطرتا نفرت کرتا ہوجیسے بدبو، گندے ناخن و بال، نجاست وکثافت کے عالم میں رہنا۔ چونکہ خداوند عالم جمیل ہے اور جمال کو دوست رکھتا ہے۔ لہذا آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ ہر بندہ مومن حتی کہ کافر بھی جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو صورت ولباس کو مرتب کرتا ہے، خوشبو لگاتا ہے۔ حتی کہ آپ کو کوئی گھر ایسا نہ ملے گا کہ اس میں آئینہ نہ ہو۔ توجب مرد حضرات زینت و آرائش کی فکر میں ہیں تو پھر عورتوں کو کیوں اس سے منع کیا جائے۔ اس شرط کے ساتھ کہ وہ اسلام کے معین حدود سے خارج نہ ہوجائیں اور نا محرم مردوں کے سامنے بن سنور کر نکلنے نہ لگیں۔

” الناس اعداء ما جهلوا“ (۲۲)

جس چیز کو لوگ نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں۔

مجھے یاد ہے ایام جوانی میں مجھے روز چہار شنبہ سرمہ لگانا بہت پسند تھا اور بہت سی احادیث کی کتابیں موجود ہیں جو روایت کرتی ہیں کہ آںحضرت(ص) آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے اور اس کی تشویق فرماتے تھے لیکن اس کے برخلاف جب بھی میں سرمہ لگاتا تو عورت و مرد مجھے عجیب نظر سے دیکھتے اور ایک دوسرے کو

۴۸

۴۹

۵۰

سیاسی مشکلات، تمدن کا نتیجہ

جس وقت رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا اور ان سے فرمایا : حبشہ کی سمت روانہ ہوجاؤ اس لیے کہ وہاں کا بادشاہ ایسا ہے کہ اس کے یہاں کسی پر بھی ظلم و ستم نہیں ہوتا۔ ( الکامل فی التاریخ/ج۲/ص۷۴)

کیا آںحضرت(ص) نے ان اصحاب کو پاسپورٹ دیا؟ یا حبشہ سے ان لوگوں کے لیے ویزے کی درخواست کی؟ یا پیسہ تبدیل کروایا؟ نہیں!

نہ یہ مسائل اس زمانہ میں تھے اور نہ ہی اس طرح کی بات سامنے آئی۔ اللہ کی زمین وسیع تھی جب بھی انسان پر اس کا وطن دشوار ہوجاتا، مرکب پر سوار ہوتا اور خدا کی طویل و عریض زمین پر کہیں کے لیے بھی نکل پڑتا۔ اور مناسب جگہ ٹھہرجاتا۔ نہ کسی قسم کا محاسبہ ہوتا نہ سیکیورٹی چیکنگ ہوتی نہ کسٹم کا مسئلہ پیش آتا نہ ٹیکس اور میڈیکل سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی اور نہ گدھے اور خچر کے لیے شہنشاہی گواہی کی ضرورت پیش آتی تھی کہ کہیں چرایا ہوا نہ ہو یا کوئی ٹیکس ادا کئے بغیر چل دیا ہو۔

کیا یہ تمدن یا کثرت جمعیت بہتر ہوگا، جس نے زمین کو مختلف ملکوں اور حکومتوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ہر حکومت اپنے ملک کی زبان میں بولتی ہے اور ہر ملک کا الگ پرچمہے۔ زمینی اور دریائی حدیں ہیں۔ جن پر چوکس نگہبان تعینات ہیں تاکہ ہر کس و ناکس گھس نہ آئے۔ جب قوموں کی تعداد بڑھی طمع میں شدت آئی اس طرح کہ ہر ایک دوسرے کا استحصال کرنے اور دہانے کی فکر میں پڑ گیا۔ انقلاب، بغاوتیں، جرائم بکثرت ہوگئے۔ تو ترقی یافتہ سماج قومیتوں کو الگ

۵۱

کرنے لگے ، ولادت و وفات کی گواہی اور شناختی کارڈ بنائے گئے، پاسپورٹ بھی بن گیا، سرحدیں بن گئیں، اب ہر شخص میں طاقت نہ تھی کہ بغیر اجازت اور ویزا دوسرے کی سرحد میں داخل ہو سکے خلاصہ یہ کہ ہر جگہ اور ہر حکومت کا ایک جدا گانہ قانون بن گیا۔

میں بھی بہت سے جوان مسلمانوں کی طرح اپنے ملک کی اذیت و آزار اور سیاسی مشکلات کے بعد دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگیا لیکن میرے لیے سارے دروازے بند نظر آئے خصوصا عربی اور اسلامی ممالک میں۔

میں کتاب خدا کی اس آیت کو پڑھنے کے بعد کسی درجہ حیران ہوجاتا ہوں، فرماتا ہے:

بے شک جن لوگوں کی قبض روح فرشتوں نے اس وقت قبض کی ہے کہ ( دارالحرب میں پڑے) اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے تو فرشتے قبض روح کے بعد حیرت سے کہتے ہیں تم کس ( حالت غفلت میں تھے) تو وہ ( معذرت کے لہجے میں ) کہتے ہیں ہم تو روئے زمین پر بے کس تھے تو فرشتے کہتے ہیں کہ خدا کی لمبی، چوڑی زمین میں اتنی بھی گنجائش نہ تھی کہ تم( کہیں) ہجرت کرکے چلے جاتے !! پس ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور  وہ بڑا، برا ٹھکانا ہے۔(نساء/ ۹۷)

میں اپنے آپ سے کہتا ہوں سچ ہے پوری دنیا کی زمین سب کی سب خدا کی ملکیت ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں لیکن بعض خدا کے بندوں نے اس پر قبضہ کیا اور آپس میں تقسیم کر لیا اور دوسروں کا فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ اگر غیر مسلم مثلا فرانسیسی، جرمن، انگریز، امریکن عذر کریں تو ٹھیک۔ لیکن مسلمان ملکوں کے پاس کیا بہانہ اور عذر ہے اور اگر عرب و اسلامی ممالک کے پاس کوئی بہانہ ہے بھی تو حاکم مکہ و مدینہ کے پاس کیا بہانہ رہ جاتا ہے جو مسلمانوں کو

۵۲

اجازت نہیں دیتے کہ وہ آسانی سے آسکیں۔ ان سے حج و عمرہ کے لیے ٹیکس لیتے ہیں اور کس مشکل سے ویزا دیتے ہیں۔

سچ مچ حیرت ہوتی ہے جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں بے شک جو لوگ کافر ہو بیٹھے اور خدا  کی راہ سے اور مسجد الحرام ( خانہ کعبہ) سے جسے ہم نے سب لوگوں کےلیے عبادت گاہ بنایا ہے( اور) اس میں شہری اور دیہاتی سب کا حق برابر ہے لوگوں کو روکتے ہٰں۔ (حج / ۲۵)

پس اگر خدا نے مسجد الحرام کو سبھی کے لیے مرکز امن قرار دیا ہے چاہے وہ وہاں ساکن ہوں یا باہر سے آئیں پھر اس ملک کی حکومت کس طرح بعض کو آنے کی اجازت دیتی ہے اور بعض کو نہیں دیتی۔ اب تو ہمیں اپنے اسلام و قرآن کی طرف پلٹنا چاہیئے اور اپنے امور میں تبدیلی لانا چاہئیے۔

ایک طویل مدت گذر گئی اور میںاس فکر و خیال میں سرگرداں تھا حتی کہ اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے عرض کیا کرتا تھا کہ پروردگار تو کہتا ہے اور تیرا قول حق ہے:

کیا خدا کی زمین وسیع نہیں کہ تم اس میں ہجرت کرو۔(نساء/ ۹۷)

اور تیرا ہی قول ہے کہ :( لوگوں کو مناسک حج ادا کرنے کے لیے بلاؤ تاکہ لوگ سوار اور پیادہ ہر طرف سے اکھٹا ہوجائیں)۔ ( حج/۲۷)

بےشک تیری زمین جو وسیع و عریض ہے لیکن اس پر دوسروں کا قبضہ ہے اور یہ گھر تو تیرا ہے لیکن دوسرے اس کے مالک بن بیٹھے ہیں اور وہاں آنے سے روکتے ہیں خدایا کیا کیا جائے؟

ایک روز قرآن کے متعلق نہج البلاغہ میں امیر المومنین(ع) کے کلام کا مطالعہ کررہا تھا کہ مجھے ایک ایسا جملہ نظر آیا جسے میں نے کئی مرتبہ پڑھا اور جس چیز کی تلاش تھی وہ مل گئی اس نے یہ معما حل کردیا اور میری حیران فکر کو سکون بخشا۔

۵۳

حضرت امیرالمومنین(ع) قرآن مجید کے متعلق نہج البلاغہ کے سب سے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں:

” کچھ آیات و احکام ہیں جو اپنے وقت  پر واجب ہیں لیکن مستقبل میں ان کا وجوب نہیں رہتا۔“

حضرت(ع) کے اس کلام سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ وہ آیات ہیں جن پرعمل آںحضرت(ع) کے زمانہ میں ممکن تھا۔ لیکن مستقبل میں ستمگروں اور کافروں کے قبضہ کی وجہ سے غیر ممکن ہوجائے گا۔

لہذا اگر کوئی روز قیامت اپنے خدا سے کہے :

پروردگار ! میں تیری زمین پر کمزور و لاچار تھا تو وہ خداوند عالم جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے اسے پتہ ہے کہ وہ ایسے ہی زمانہ میں تھا تو وہ اس سے یہ نہ فرمائے گا کہ تیری جگہ دوزخ ہے اور نہ بہت ہی بری جگہ ہے۔

اور اگر کوئی اس وقت اپنے رب سے کہے کہ :

پروردگارا ! مجھے تیرے گھر آنے سے روک دیا گیا۔ میں تیرا حج نہ کرسکا۔ تو اسے یہ جواب ملے گا : میں نے بھی تجھ سے کہا تھا اگر تم میں حج کرنے کی استطاعت و قدرت ہوتو کرنا پس تمہارا عذر معقول ہے اور جس شخص نے تم کو آنے سے روکا وہ ذمہ دار ہے اور اسی کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔

اے امیر المومنین(ع) ! آپ پر سلام ہو۔ جس روز آپ نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں اور جس روز آپ نے اس دنیا سے وفات پائی اور جس روز بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوں گے۔(28)

۵۴

نیکی کی طرف دعوت اور برائی سے روکنا

اس نئے تمدن نے سامراج کےدرمیان جن سیاسی مشکلات کوجنم دیا ان  میں سے ایک خود بینی بھی ہے۔ یعنی ہر آدمی صرف اپنی فکر میں ہو اور دوسرون کا ذرا بھی خیال نہ کرے۔ خود سلامت رہے، دوسرے جہنم میں جائیں! یہ بدترین صورت حال ہے جس مٰںآج کا انسانی سماج گرفتار ہے وہ بھی اس طرح کہ امت کے مفادات تو خطرہ میں وہں اور انجام نا معلوم ہو لیکن نہ کوئی آواز اٹھائے اور نہ آگے قدم بڑھائے۔ ایسی صورت میں بہادری، مردانگی، ایثار، جہاد، ظالموں کے مقابلہ میں استقامت جیسے عظیم اقدار نابود ہوجائیں گے۔ دین کا رنگ پھیکا اور ضمیر کی موت واقع ہوجائے گی۔

جیسا کہ ہم نے پہلے قرآن سے استدالال پیش کیا، بعض احادیث کے ذریعہ بھ اسی طرح استدالال پیش کرںگے۔ رسول خدا(ص) کا قول جس پر سبھی کا اتفاق ہے سے ساتھ ملکر پڑھتے ہیں۔ آںحضرت(ص) فرماتے ہیں:

”تم کو چاہئے کہ لوگوں کو بیکی کی طرف دعوت دو اور برائی سے روکو نہیں تو خدا تم میں سب سے برے کو تم پر مسلط کردے گا پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے لیکن ان کی دعا مستجاب نہ ہوگی۔“

نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا امت کی زندگی کے لیے ایک لازمی امر ہے اسی لئے ائمہ(ع) نے اسے دین کے ارکان میں شمار کیا ہے۔ یہی وہ ہے کہ معاصر اسلامی گروہ جو نعرہ سب سے پہلے بلند کرتے ہیں وہ امربالمعروف اورنہی ازمنکرکا نعرہ ہے۔ لیکن ترقی یافتہ سماج شدت سے اس نعرہ کے مخالف ہیں اور

۵۵

 اس کے مقابلہ کے لیے انہوں نے مختلف تنظیمیں بنا رکھی رہیں۔ جیسے  انسانی حقوق کی تنظیم، خواتین کے حقوق کی تنظیم اور جمعیت تحفظ حیوانات و غیرہ۔۔۔ لہذا اگر خودحکومت اس اہم امر ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کو اپنے ذمہ نہ لے تو یہ محال ہے کہ لوگوں کی جماعت اسے انجام دے سکے متفرق افراد کا تو شمار ہی نہیں۔

آج آپ خود بہت سی برائیوں کےشاہد ہیں لیکن انکی مخالفت کرنےکی قوت نہیں رکھتے یہاں تک کہ اگر نہی از منکر کریں تو ممکن ہے مد مقابل چاہے لڑکی ہو یا لڑکا آپ کے خلاف کورٹ میں مقدمہ درج کرسکتا ہے پھر بڑے اچھے انداز آپ سے کہا جائے گا اس سے تمہیں کیا سروکار ! بے جا مداخلت نہ کرو! اور اگر آپ نے کہا میں امر بالمعروف اور نہی از منکر کررہا ہوں تو آپ کو جواب ملے گا یہ حق تم کو کس نے دیا اور کس طرح تمہیں حاصل ہے؟

خود مجھے اس کا تلخ تجربہ ہے جیسا کہ بعض دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہ صورتحال پیش آئی ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں تلخی، ناچاری اور افسردگی کا مزا مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے اور دو باتوں کے درمیان اب بھی سرگرداں ہوں۔

اولاً ۔ میرا عقیدہ مجھے اپنے شرعی فرائض کی ادائیگی کےلئے آگے بڑھاتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کروں تو جواب دہ ہونا پڑےگا۔

ثانیاً ۔ جس فضا میں زندگ گزار رہا ہوں اس نےمجھ سے اس حق کو زبردستی چھین رکھا ہے اور مجھے خائف کررہی ہے کہمیں پھر اس فریضہ کو انجام نہ دوں میں گورنر کی گفتگو نہیں بھول سکتاایک روز اس نے کہا تھا کیا تم خدا کے رسول(ص) ہو؟ اور خدا نے تمہیں نئے دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کرو؟ میں نے اسے جواب دیا  ہرگز نہیں !

اس نے کہا : اچھا پھر جاؤ خود کو اور اپنے گھر والوں کو دیکھو اور ہمیں اپنے

۵۶

شر سے نجات دو! ہم لوگوں کی سلامتی اور ان کےامن و امان کے ذمہ دار ہیں اور اگر ہر برے غیرے کو امر و نہی کی اجازت دے دیں تو ملک ہرج ومرج کا شکار ہوجائے گا۔

میں بھی اپنی جگہ چپ بیٹھ رہا اگر چہ اندر سے اپنے فریضہ کا احساس کرتا تھا اور کرنے نہ کرنے کے درمیان سالوں کذر گئے یہاں تک کہ رسول گرامی(ص) کی حدیث نظروں سے گذری جس میں آپ(ص)  فرماتے ہیں۔

” تم میں سے جو بھی کسی برائی کو دیکھے تو اسے خود اپنے ہاتھ سے ختم کرے اور اگر قادر نہ ہو تو زبان سے اور اگر اس کا بھی امکان نہ ہوتو اپنے قلب سے اور یہ ایمان کا نہایت ہی ضعیف مرحلہ ہے۔“

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

” خدا نے ہم سے پہلے کسی ایسے نبی کو مبعوث نہیں فرمایا جس کے حواری و اصحاب نہ رہے ہوں وہ اس کی سنت پر عمل رتے تھے اور اس کے حکم کی اطاعت کرتے تھے۔ ان کے بعد دوسرا گروہ ان کا جانشین بنتا گیا لیکن یہ جو کہتے اس پر عمل نہ کرتے تھے اور جو کرتے اس کا انہیں حکم نہ ہوتا تھا لہذا جو بھی ایسوں سے اپنے ہاتھ اور اپنی قوت سے ان سے مقابلہ اور جہاد کرے مومن ہے اور جو اپنی زبان سے ان کا مقابلہ کرے مومن ہے۔ اسی طرح جو اپنے قلب سے ان کا مقابلہ کرے وہ بھی مومن ہے اور اس کےبعد تو پھر رائی کے ایک دانہ ے برابر بھی ایمان باقی نہیں بچتا۔“

میں نے پروردگار عالم کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری قوت سے زیادہ ہمیں تکلیف نہیں دی ہے۔ بے شک آںحضرت(ص) کی یہ حدیث کتاب خدا کی تفسیر کرتی ہے۔ چون کہ ماضی، حال اور مستقبل کا علم خدا کے پاس ہے لہذا اسے معلوم تھا کہ ایک زمانہ مسلمان پر ایسا آئے گا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کی قوت

۵۷

 نہ رکھتے ہوںگے۔ اسی کے پیش نظر اس نے حکم کو آسان رکھا۔ اور ان کی قوت سے زیادہ ان سے طلب نہ کیا آحضرت(ص) نے نہی از منکر کے مراحل کو تدریجا بیان فرمایا ہے اور یہ اسلامی سماج میں تبدیلی اور قوت کے ضعف میں بدلجانے کے اوپر دلیل ہے اسی طرح حالات کے بدلنے کی صورت میں حکم شرعی میں تبدیلی کے اوپر بھی دلیل ہے۔

تو جس کے پاس قوت ہے اسے طاقت سے برائیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے لیکن جس کے پاس قوت نہیں ہے لیکن زبان سے منکرات کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے چاہئے کہ زبان سے ان کا مقابلہ کرے۔لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ اس کے کہنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا یا اس کی وجہ سے دردسر اور مشکلات پیدا ہوجائیں گی تو اس صورت میں منہ سے کوئی بات کہے بغیر صرف قلبی مخالفت کافی ہے۔پس کس درجہ بے نیاز ہے وہ رب جس نے لوگوں کو ان کی قوت سے زیادہ تکلیف نہیں دی ہے۔ اور بے شمار درود ہو اس نبی(ص)  رحمت پر جو مومنین پر خود ان سے زیادہ مہربان تھا اسی طرح ان کی پاک و طاہر آل(ع) پر بھی درود و سلام ہو۔(32)

۵۸

مہذب انسان، آسان شریعت

بلاشبہ جو آسمانی ادیان خداوند عالم کی جانب سے نازل ہوئے ہیں ان کا مقصد سب سے پہلے: انسان میں پروردگار عالم کی معرفت پیدا کرنا تھااور اس کو بت پرستی،شرک اور مختلف طرح کی گمراہی سے نجات دینا تھا۔

دوسرے : اس کی سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنا تھا اور یہ مقاصد دو بنیادی چیزوں سے عبارت ہیں:

۱۔ ایمان

۲۔ عمل

اورجب کبھی ایمان و عمل کہا جائے تو اس سے مراد صحیح ایمان اور عمل صالح ہے۔ لہذا ہر ایمان و عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے اس لیے کہ ممکن ہے انسان مختلف عقائد پر ایمان رکھے لیکن اسلام سے اس کا ذرہ برابر بھی ربط نہ ہو اور ممکن ہےکہعقائد اسے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ہاتھ لگے ہوں اور بالفرض صحیح ہوں تو بھی ممکن ہے اس میں تغیر و تبدیلی پیدا ہوگئی ہو۔

خداوند عالم فرماتا ہے۔

اور جب ان سے کہا گیا کہ جو قرآن خدا نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ تو کہنے لگے ہم تو اس کتاب توریت پر ایمان لائے ہوئے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی گے اور اس کے بعد آئی ہے نہیں مانتے حالاںکہ وہ ( قرآن) حق ہے اور اس کتاب (توریت) کی جو ان کے پاس ہےتصدیق بھی کرتا ہے۔( بقرہ/۹۱)

۵۹

بعض اوقات انسان کسی کام کو یہ سمجھ کر انجام دیتا ہے کہ اس میں بشریت کے لیے فائدہ ہے جب کہ اس کے کاموں سے سوائے نقصان و ضرر کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

خداوند عالم فرماتا ہے۔

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ کرتے پھرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرتے ہیں خبردار ہوجاؤ ! بیشک یہ لوگ فسادی ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ (بقرہ / ۱۱ / ۱۲)

یا ممکن ہے انسان نیک کام کرے جو بشریت کے لیے بہت مفید اور فائدہ مند ہو لیکن اس نے اسے خدا کے لیے انجام نہ دیا ہو بلکہ اس کا مقصد صرف دکھاوا او ریاکاری ہو تو اس طرح کا عمل سراب اور دھوکہ ہے کہ دور سے پیاسے اس کی طرف پانی سمجھ کر آئیں لیکن جب نزدیک پہنچیں تو کچھ نہ پائیں۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اور ان لوگوں نے دنیا میں جو کچھ نیک کام کئےہیںہمانکیطرفتوجہکریںگے (کہوہفاسداورغیرخالصاعمالہیں ) گویا اڑتی ہوئی خاک بنا ( کر برباد کر) دیں گے۔(فرقان / ۲۳)

اگر دین انسان کے لیے راہنمائی ہے جس کے ذریعہ وہ ہدایت پائے اور ترقی کرے اس لیے کہ ابتدائے خلقت سے انسان جہاں بھی تھا  وہاں دین موجود تھا اور یہ بات موجودہ تحقیقات اور آثار قدیمہ کی شناخت کرنے والوں کے ذریعہ بھی مسلم ہوچکی ہے کہ ابتدا میں رہنے والے انسان بہت سی چیزوں سے ناواقف تھے اور بہت عرصے کے بعد انھیںاس کا علم ہوا لیکن انکے یہاں پہلے سے ہیہ عبادت گاہ نظر آتی ہے اور اسی مطلب کی طرف پروردگار عالم کا قول اشارہ کرتا ہے۔

لوگوں کی عبادت کے واسطے جو گھر سب سے پہلے بنایا گیا وہ یقینا

۶۰