اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 54188
ڈاؤنلوڈ: 4475

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54188 / ڈاؤنلوڈ: 4475
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہی(کعبہ) ہے جو کہ مکہ میں بڑی خیر وبرکت والا ہے اور سارے جہاں کے لوگوںکے لیے رہنما ہے۔( آل عمران/ ۹ 6 )

پس یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ تمدن آسمانی ادیان کا نچوڑ ہے اور اس اصل کی رو سے  جو اسلام محمد  بن عبداللہ(ص) پ رنزال ہوا نہایت ہی ترقی یافتہ تمدن ہے جس پر انسانیت سبقت حاصل نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس سے آگے بڑھ سکتی ہے بلکہ ہمیشہ اس سے ایک زینہ نیچے ہی رہے گی۔ اور اس سے وابستہ رہے گی۔

بیشک ی قرآن متمدن انسان میں حیرت انگیز تبدلیکل کا باعث ہوا ہے جو مدتوں جبے دینی اور اعلی معنوی قدروں کے نہ ہنے کی وجہ سے کفر والحاد کی مصیبت کو تحمل کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان اپنی شخصیت ڈھونڈتا رہا اور یہ  چیز اسے عقیدہ کی آگو۳ش میں تدریجا نظر آگئی۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

تو ( اے رسول(ص)!) تم باطل سے کترا کر اپنا رخ دین کی طرف کئے رہو وہی دین جو فطرت الہی ہے اور لوگ اسی پر خلق کئے گئے ہیں اور خلقت خدا کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہی مضبوط اور سب سے استوار دین ہے لیکن بہت سے لوگ اسے نہیں جانتے ( آل عمران/ ۳۰)

ہاں! آج ہم چاہےروشن فکروں کے درمیان ہوں یا ان کے عالوہ کسی بھی گروہ میں ہر میدان میں عظیم اسلامی بیداری کے شاہد ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ رنگ و نسل میں اختلاف کے باوجود قوموں میں مکمل تغیر اور تبدیلی آرہی ہے۔

ملحد بے دین اقوام جو انسانی حقوق کی تھیوری کے قائل ہیں ان میں ہم مطلق آزادی کا اعلان سن رہے ہیں اور ان میں عجیب تضاد دیکھتے ہیں۔ مثلا وہ ڈرائیونگ کے وقت شراب نوشی کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔ جب کہ ان کے دین میں

۶۱

شراب حرام نہیں ہے خود ان کے بقول حضرت مسیح( نعوذ باللہ من ذالک) نے ان کے لیے شراب بنائی ہے۔ اور اس ممنوعیت کی وجہ وہ ایکسیڈنٹ ہیںجو شراب نوشی کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ صرف فرانس میں ڈرائیونگ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے بیس ہزار لوگ اپنی جان گنوادیتے ہیں۔

اگر ہم ان ترقی یافتہ ممالک کے ترقی یافتہ تمدنوں کا مطالعہ کریں اور ان کا اسلامی تمدن کے ساتھ موازنہ کریں تو ایک بہت بڑے فاصلہ اور اختلاف کا مشاہدہ کریں گے۔ ایسا فاصلہ جو زمین و آسمان کے برابر ہے۔ تو کافی ہے کہ امیر المومنین(ع) کے اس خط پر ایک نگاہ ڈالیں جسے آپ نے مالک اشتر نخعی کو بصرہ کا گورنر بنانے کے بعد انھیں تحریر فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی ہر میدان میں ترقی کا اندازہ کرسکیں۔

ایک محقق جب اس عہد نامہ کو دیکھتا ہے تو ان تحریروں کو درمیان بشری تمدن کے اس اعلی مفہوم کو پالیتا ہے جہاں تک ابھی بیسویں صدی کا تمدن نہیں پہچ سکا ہے۔

اس عہد نامہ میں تمام طرح کے اجتماعی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے ساتھ معنوی، عبادی، اخلاقی مسائل اور بشری روح و طبائع کی ترتیب کو بھی فرو گذاشت نہیں کیا گیا ہے۔

مجھے افسوس ہوتا ہے کہ بیشتر مسلمانوں نے نہج البلاغہ کو فراموش کردیا ہے جب کہ یہ کتاب بہت ہی گرانقدر اور عرفانی خزانوں اور علمی حقائق سے پر ہے۔ لیکن مسلمان مغربی کتابوں اور ھیوری کی طرف تیزی سے بھاگتے ہیںاس امید پر کہ اس جھوٹے مغربی تمدن پر گامزن ہوسکیں۔ وہی تمدن جس نےسوائے نکبت، بد بختی اور مصیبت کےکچھ اور غریب سماجوں اور قوموں کے حوالہ نہ کیا۔

اگر ان میں سے کسی ایک سے کہیں کہ : اسلام اور اسلامی شخصیات میں

۶۲

 انسان و انسانیت کے لیے ہر طرح کےبہتر نمونے موجود ہیں تو آپ کو جواب دیں گے۔ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو مسلمان پسماندہ نہ ہوتے؟ وہ پیچھے رہ گئے اور دوسرے آگے بڑھ گئے اور متمدن ہوگئے!؟

یہ اور ان کی طرح کے لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ افسوس ! اسلام صرف ایک تھیوری کی صورت میں باقی بچا ہے جس پر عمل نہیں کیا جاتا اور بیشتر شخصیات جو اس پر عمل کرانا چاہتی تھیں ان جپر حملہ کیا گای، شہر بدر کیا گیا، قتل کردیا گیا ی اپھر منبروں سے ان پر لعنت و سب وشتم کیا گیا، شہر بدر کیا گیا ، قتل کردیا گیا، ان کی کتابیں ، ان کے آثار بوسیدہ و ناشاختہ رہ گئے ان پر تہمتیں لگائی گئیں، ان کے خلاف پروپگنڈہ کیا گیا۔

حالانکہ امریکہ، جرمنی اور انگلینڈ میں مغربی دانشوروں نے سب سے زیاہ اسلام سے فائدہ اٹھایا ہے اور مسلمان اس بات سے بے خبر ہیں۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

ان کے بعد کچھ ناخلف ان کے جانشین بن بیٹھے۔ جنہوں نے نمازیں کھوئیں اور نفسانی خواہش کے اسیر بن گئے۔ عنقریب یہ لوگ (اپنی) گمراہی ( کے خمیازے) بھگتیں گے۔ ( مریم/ ۵۹)

ایک روز ان میں سے ایک مجھ سے کہنے لگا۔ اگر اسلام شخصیات سے تمہاری مراد اہل بیت(ع) کے بارہ امام(ع) ہیں جیسا کہ کتب میں آیا ہے۔ اور شیعوں نے ان کی امامت کو قبول کیا ہے ان کی پیروی کرتے ہیں اور امور دنیا میں بھی ان ہی کی تقلید کرتے ہیں تو پھر کیوں شیعوں نے بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح ترقی نہ کی اور کسی ایجاد اختراع میں آگے نہ رہے۔

میں نے اسے جواب دیا: شیعہ اثناعشری جو ، ان بارہ اماموں پر ایمان لائے وہ اس درجہ کم تھے کہ جیسے پورے سیاہ لباس میں ایک نقطہ کے برابر سفیدی ہو اور انھیں ہمیشہ قتل کا خوف لاحق رہتا اس لیے کہ صدیوں تک ان کا خون مباح

۶۳

رہا ہے اور ان کی ناموس کی بے حرمتی کیجاتی رہی ہے۔ اور وہ بدترین روحانی اور جسمانی شکنجوں اور سخت تکالیف میں مبتلا رہے ہیں۔

بلاشبہ اگر کوئی اس طرح کی زندگی گزارے تو ہرگز ترقی نہیں کر سکتا ۔ اس لیے کہ وہ تو ہمہ وقت پریشانی اور تکالیف سے دوچار رہے اور ہر آن قتل کردیے جانے کے منتظر رہے۔

اور یہ بھی کسی سے پوشدیدہ نہیں کہ انسان بھوکا اور فقیر ہوتو ہر چیز سے پہلے اس کی فکر روزی، روٹی حاصل کرنے میں مشغول ہوگی۔ جس سے وہ اپنی حیات کو برقرار! رکھ سکے۔ لہذا اس صورت میں کیا ہوگا جب اس کی روزی منقطع ہوجائے  اور خود وہ اور اس کا کنبہ ایک لقمہ روٹی کے لیے محتاج ہوجائیں؟

لیکن اگر انسان کے لیے سہولتیں فراہم ہوں اور مناسب آسائش زندگی مہیا ہوتو اس کی فکر پرواز کرے گی لہذا آپ دیکھیں گے کہ حکومتیں علماء اور دانشوروں کے لیے ایک خاص اہمیت کی قائل ہیں، ان کے لیے مکمل آسائش کے وسائل مہیا کرتی ہیں۔ اور اس راہ میں کافی پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ نیز اس کے لیے جفٹ مخصوص کر دیتی ہیں۔ ان کے لیے آزمائش گاہیں، لیباریڑیاں اور مشینری فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ با آسانی تجربہ و تحقیق کرسکیں اس کے علاوہ ان کے لیے مختلف کتب خانے فراہم کیے جاتے ہیں اور انکشافات اور جدید مقالوں کا ترجمہ کر کے حوالہ کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کیوں کر ایجاد نہ کریں؟

لیکن شیعہ اس فقر ، تنگ دستی اور قتل و اذیت کے باوجود علم و دانش کے ہر  میدا ن مین پیش قدم رہے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ یہ مکتب اہل بیت(ع) کے پروردہ ہیں۔ اس مکتب کے جس میں مختلف علوم کے ماہرین فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ امام  جعفر صادق(ع) نے فقہ و تفسیر کی تدریس کے ساتھ ساتھ میتھ میٹکس، فیزکس، کیمسڑی، علم ہیئت کے علاوہ اور بہت سے دیگر علوم

۶۴

 اپنے شاگردوں کو تعلیم فرمائے۔ جب کی اہمیت کا اندازہ جدید دور اور صعنتی انقلاب کے بعد ہوا۔

اس جگہ میں ان مغربی دانشوروں اور مستشرقین کے اس سیمنار کا ذکر کروں گا جو ۱۹6۸ءمیں فرانس کی ( اسٹراسبرگ) یونیورسٹی میں امام جعفر صادق(ع) اور ان کے علمی دور کی تحقیق میں شیعہ اثناعشری کی علمی اور تمدنی تاریخ کے موضوع سے منایا گیا۔ جس مین امریگا، انگلیکنڈ ، جرمنی ، فرانس ، بیلجیم، سوئیزر لینڈ اور اٹلی کے بیس سے زیادہ اہم دانشوروں اور سیائینسدانوں نے شرکت کی تھی۔

انھوں نے امام جعفر صادق(ع) اور ان کے شاگرد جابر بن حیان کے متعلق سے گفتگو کی اور بتایا کہ جابر بن حیان نے اپنے استاد کے درس علم فلسفہ، طب اور کیمسٹری پر ایک ہزار پانچ سو سے زائد رسالے تحریر کئے۔ اور ابن الندیم نے اپنی فہرست میں اور ابن خلکان نے اپنی کتاب ( احوال الامام الصادق(ع)) میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان دانشوروں نے اس پر اجماع کیا کہ جابر بن حیان نے مختلف علمی نظریات پیش کئے ہیں۔ اور کیمکل مواد کے علاوہ دیگر ترکیبات جو بم بنانے اور دوسرے امور میں کام آتی ہیں ایجاد کئے اسی طرح اس  پر بھی اجماع کیا کہ کیمسٹری کے اسرار و رموز کو جابر بن حیان نے کشف کیا ہے اور وہ اس بات پر بھی قادر تھے کہ معمولی دھانوں کی کانوں کو سونے، چاندی کی کانوں میں بدل دیں اور اس کےمتعلق خود کہتے تھے: میرے استاد جعفر بن محمد(ع) نے مجھے علم و دانش کا ایسا باب تعلیم فرمایا ہے کہ میں چاہوں تو پوری زمین کو خالص سونے میں تبدیل کردوں۔

ڈاکٹر محمد یحی ہاشمی جو ہمارے زمانے کے دانشور ہیں انھوں نے بھی ایک کتاب بنام ( الامام صادق ملہم الکیمیاء) تحریر کی وہ اس میں کہتے ہیں: جس چیز سے ہمیں سب سے زیادہ تعجب ہوتا ہے وہ جابر بن حیان کا وہ دعوی

۶۵

ہے یعنی یہ راز کہ دھاتوں کو تبدیل کرنااور اجسام کے بدلنا ی ہر کام میں دخیل ہے اور اگر آج ہم غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ریڈیو ایکٹیو(Radio Active) کے مادہ کی کھوج جس سے ایٹم کا تجزیہ ہوتا ہے اور جو مادہ کی ماہیت میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے اور اس کا نتیجہ فقط ایٹمی بم کی ایجاد نہیں ہے بلکہ وہ ایسی جدید توانائیوں کی ایجاد کا منبع بھی ہے جن کا ابھی تک انسانی فکر نے احاطہ نہیں کیا ہے۔

ان سب سے قطع نظر شیعہ تمام علوم میں پیش قدم ہیں۔ جبکہ دیگر تمام مسلمانوں نے صرف فقہ، تفسیر اور اخلاق پر تکیہ کر رکھا تھا۔ اگر چہ ان موضوعات میں بھی شیعوں نے اہم مقام حاصل کیا ہے اور ان کا اولین موجد شیعوں میں سے ہی تھا اور تاریخ نے بھی اس کی گواہی دی ہے۔ اور جو اس موضوع پر مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں وہ ( شیعہ و فنون الاسلام) اور مقدمہ ( اصل الشیعہ و اصولہا) کا مطالعہ کریں۔ انھیں یقین ہوجائے گا کہ شیعہ ان ائمہ(ع) کے زیر قیادت تمام علوم معارف میں دیگر جماعتوں کی بہ نسبت پیش قدم رہے ہیں ان ہی اماموں نے اسرار علوم کا شگافتہ کیا ہے اور صحیح معنی میں علم و دانش کی طرف دعوت دینے والے یہی تھے۔

حضرت امیرالمومین(ع)  فرماتے ہیں :

” بلکہ میں اس علم میں ڈوب گیا جو تم پر پوشیدہ اور پنہاں ہے اور اگر چاہوں تو اسے ظاہر و آشکار کردوں( لیکن) تم اس سے اس درجہ مضطرب اور لرزہ بر اندام ہوجاؤگے جیسے کسی گہرے کنویں میں رس۔“ ( نہجالبلاغہ / خطبہ۵)

۶۶

شیعہ ! چند سطروں میں

اواخر کے چند برسوں میں خصوصا ایران کے اسلامی انقلاب کی  کامیابی کےبعد شیعوں کے متعلق کافی بحث چھڑ گئی ہے اور اس وقت مغربی پروپیگنڈہ اور عالمی ذرائع ابلاغ نے خصوصا ایرانی شیعوں کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے، ان کو کبھی خدا نے دیوانے اور کبھی قاتل و دہشت گرد کہتے ہیں اور یہی صفات لبنانی شیعوں کے لیے بھی بیان کرتے ہیں اس لیے کہ انھوں نے بیروت میں امریکی اور غربی منابع پر حملہ کر کے اسے ختم کر ڈالا تھا۔ اسی طرح ان صفات سے دنیا کےتمام شیعوں کو نواز دیا گیا اور اسے سے بھی بالاتر دنیا میں جتنی اسلامی تحریکیں تھیں انھیں بھی یہ القاب دیدیئے گئے، گرچہ ان میں اکثریت سنیوں کی ہے اور شیعوں سے ان کا کوئی ربط نہیں ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ اوع اسلام دشمنوں کے ان جھوٹے خیالی پروپگنڈوں کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لیے کہ ممکن ہے ہر دشمن، دوست بن جائے لیکن زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب بعض مسلمان شیعوں کے متعلق اس طرح کی بات کرتے ہیں اور بلا دلیل و برہان ، بغیر کسی تحقیق و جستجو کےدوسروں کی کہی ہوئی باتیں دہراتے ہیں۔

اگر چہ ہم نے اپنی کتاب ( الشیعہ ہم اہل السنہ) ( شیعہ ہی اہل سنت ہیں) میں شیعوں کی حقیقی تعریف پیش کی ہے۔ لیکن  یہاں بھی شیعوں کے متعلق خدا اور رسول(ص) کے ارشادات کا ایک گوشہ پیش کررہے ہیں۔ پھر ہم موافق و مخالف علماء اور دانشوروں کی باتوں کو سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوں گے۔

۶۷

شیعہ ! قرآن کریم کی روشنی میں

خداوند عالم فرماتا ہے :

”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“

( سورہ البینہ/ ۷)

جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے وہی سب سے بہتر ہیں۔

جلال الدین سیوطی ( عظیم اہل سنت عالم) اپنی معروف تفسیر ( الدر المنثور فی تفسیر الماثور) می اس آیت کی تفسیر یوں تحریر کرتے ہیں:

ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ کیا خدا کے نزدیک فرشتوں کے مقام منزلت پر تعجب کرتے ہو؟ اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، بہ تحقیق روز قیامت خدا کے نزدیک بندہ مومن کا مقام فرشتوں سے کہیں بالاتر ہوگا اور اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو:

             ”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“

حضرت عائشہ کہتی ہیں :

میں نے حضرت رسول خدا(ص) سے سوال کیا: خدا کےنزدیک سب سے با منزلت کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا : اے عائشہ کیا تم اس آیت کو نہیں پڑھتیں :

”إِنَّ الَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِ أُوْلَئكَ هُمْ خَيرُْالْبرَِيَّة“

۶۸

جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں :

ہم رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں علی(ع) وارد ہوئے تو رسول خدا(ص)  نے فرمایا : جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس کی قسم یہ اور اس کےشیعہ روز قیامت کامیاب ہیں۔ اور اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی

”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَ هُمْ خَيرُْالْبرَِيَّة“

اس کے بعد جب بھی اصحاب رسول(ص)، علی(ع) کو آتے دیکھتے تو کہتےخير البرية آئے۔

ابو سعید کہتے ہیں :

علی(ع) (خير البرية ) اور لوگوں میں سب سے بہتر ہیں۔

ابن عباس کہتے ہیں :

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا : بے شک روز قیامت تم اور تمہارے شیعہ خداسے راضی اور خدا تم سے  خوشنود ہے۔

حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:

رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا : کیا تم نے خدا کے اس کلام کو نہیں سنا کہ وہ فرماتا ہے :

”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“

( اس سے مراد) تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔۔۔ ہمارا وعدہ حوض کوثر ہے اس جگہ ساری امتیں حساب وکتاب کے لیے آئیں گی اور تم اور تمہارے شیعہ خوبصورت اور عزت کے ساتھ وارد ہوں گے۔

جن اہل سنت علماء نے اس تفسیر کو بیان کیا ہے وہ بکثرت ہیں بطور مثال

۶۹

 جلاالدین سیوطی کے عالوہ طبری نےاپنی تفسیر میں حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، شوکانی نے فتحالقدیر میں، آلوسی نے روح المعانی میں، مناوی نے کنوز الحقائق میں اسے بیان کیا ہے اس طرح خوارزمی نے مناقب میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، شبلنجی نے نور الابصار میں، ابن الجوزی نے تذکرة الخواص میں، قندوزی حنفی نے ینابیع المودة میں، ہیثمی نے  مجمع الزوائد میں، متقی ہندی نے کنز العمال میں اور ابن حجر مکی نے صواعق المحرقہ میں بھی یہی تفسیر بیان کی ہے۔

اس محکم اور معقول دلیل کے بعد کوئی سبب نہیں کہ تحقیق کرنے والے ان بعض تاریخ نگاروں کی بات پر قانع اور مبمئن ہوجائیں جو معتقد ہیں کہ تشیع کی پیدائش امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد ہوئی ہے۔

۷۰

شیعہ آنحضرت(ص) کے اقوال میں

رسول خدا(ص) نے شیعوں کے متعلق بارہا گفتگو کی ہے اور ہر مرتبہ ثابت کیا ہے کہ حضرت علی(ع) اور ان کی پیروی کرنے والے ہی کامیاب ہیں چون کہ انھوں نے حق کی پیروی کی ہے اور حق کی مدد کی ہے، باطل سے دور رہے ہیں اور اسے ذلیل کیا ہے۔

اسی طرح آںحضرت(ص)  نےتصدیق کی ہے کہ علی(ع)  کے شیعہ ہمارے شیعہ ہیں ہم اس جگہ اس حدیث پر تکیہ کرتے ہیں جسے ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں نقل کیا ہے۔ اور دیگر علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا:

” کیا تم خوش نہیں ہو کہ حسن(ع) و حسین(ع) کے ہمراہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوگے۔اورہماری ذریت ہمارے پیچھے اور ہماری عورتیں ہماری ذریت کے پیچھے اور ہمارے شیعہ ہمارے داہنے اور بائیں ہوں گے۔“

آںحضرت(ص) نے کئی مرتبہ علی(ع) اور ان کےشیعوں کو یاد کیا اور فرمایا :

اس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ (علی(ع)) اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب ہیں۔

اور یہ فبری بات ہے کہ آںحضرت(ص)  حق کی پیروی کرنے والوں کو یاد کریں اور ان کی صفات بیان کریں کہ وہ ہر زمانہ میں پہچانے جاسکیں تا کہ مسلمان پوشیدہ حقیقت سے پردہ اٹھاسکیںاور نزدیک ترین راستے سے ہدایت پاسکیں۔

آںحضرت(ص) کے ہی پیہم تذکرہ کے پیش نظر بزرگ اصحاب کے ایک گروہ

۷۱

نے وفات رسول(ص) کے بعد علی(ع) کی پیروی کی اور بنام شیعہ مشہور ہوگئے ۔ ان میں حضرت سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، حذیفہ بن یمان، مقداد بن اسود سہر فہرست ہیں حتی کی فقط شیعہ ان کا لقب بن گیا۔ جیسا کہ ڈاکٹر مصطفی شیمی اپنی کتاب( الصلة بين التصوف و التشيع) اور ابو حاتم اپنی کتاب( الزينة) میں رقم طراز ہیں۔

ابوحاتم کہتے ہیں :

اسلام میں جس مذہب کا سب سے کم نام ہوا وہ شیعہ ہے اور یہ اصحاب کے ایک گروہ کا لقب بھی تھا جیسے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، مقداد بن اسود وغیرہ۔۔۔

اس طرح مستشرقین کا یہ شبہ غلط ثابت ہوجاتا ہے  جس کی پیروی بعض مسلمان محقیقن نے بھی کی کہ تشیع کا وجود  میں آنا ایک سیاسی مسئلہ تھا جسے امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد کے سیاسی حالات نے پیدا کیا تھا۔

اسی طرح ان دشمنوں کی نادانی بھی کھل جاتی ہے جو تشیع کو ایرانیوں سے وابستہ کرتے ہیں۔

اس لیے کہ اس سے ان کا جہل و تعصب ظاہر ہو جاتا ہے۔

پھر یہ محققین امام علی(ع) کی زندگی میں ان کے اصحاب کے تشیع کی کس طرح تفسیر کرتے ہیں؟ اور یہ کس طرح بیان کرتے ہیں کہ آغاز اسلام اور جنگ جمل و صفین میں کوفہ شیعوں کا مرکز تھا؟

یہ خود غرض دشمن کس طرح بیان کرتے ہیں کہ عربی اور افریقی ممالک میں شیعہ حکومتیں موجود تھیں۔ جیسے شمالی افریقہ میں مراکش، تیونس، مشرق میں مصر و حلب جب کہ اس وقت ایران تشیع سے آشنا تھی نہ تھا۔ اس لیے مراکش میں اوریسیوں کی حکومت دوسری ہجری میں تھی اور تیونس میں فاطمیوں کی حکومت تیسری ہجری کے خاتمہ پر تھی اسی طرح تیسری ہجری کے اواسط میں فاطمیوں کی

۷۲

 مصر پر حکومت تھی ۔ اور حلب(شام) اور عراق میں شیعہ حمدانیوں کی حکومت ؟؟؟؟ہجری میں تھی جب کہ ایران میں صفویوں کی حکومت دسویں ہجری میں قائم ہوئی؟؟؟؟؟ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ تشیع کے آغاز کو ایرانیوں سے وابستہ سمجھیں۔

ہم نے اپنی کتاب ( پھر میں ہدایت پاگیا) میں ذکر کیا ہے کہ اکثریت اہل سنت علماء اور ائمہ ایرانی تھے۔ اور یہ کہ شیعہ نہ تھے بلکہ شیعوں اور تشیع کی نسبت شدید تعصب کا اظہار کرتے تھے بس یہی جان لینا کافی ہے کہ اہل سنت کے سب سے بڑے مفسر زمخشری ہیں اور وہ ایرانی ہیں اور ان کے سب سے بڑے محدث بخاری و مسلم بھی ایرانی ہیں اور ابوحنیفہ جنھیں اہل سنت امام اعظم کہتے ہیں یہ بھی ایرانی ہیں ان کا نحوی امام سیبویہ ایرانی ہے۔ امام المتکلمین واصل بن ؟؟ ایرانی ہے۔ امام لغت، فیروز آبادی ( صاحب قاموس المحیط) ایرانی ہے۔ فخر رازی ، ابن سینا، ابن رشد سبھی تو ایرانی ہیں اور یہ سب کے سب اہل سنت کے علماء اور پیشوا سمجھتے جاتے ہیں۔

۷۳

اے کاش ! اس روز، تمام مسلمان شیعہ ہوجاتے !

عید غدیر نہایتہیباعظمتاورعظیم عیدوں میں شمار ہوتی ہے۔

دنیا کے مشرق و مغرب میں مسلمان دو عیدوں میں خوشیاں مناتے ہیں۔ پہلی عید، عید  فطر جہے جو ماہ مبارک رمضان کے بعد آتی ہے اور دوسری عید، عید الاضحیٰ ہے جو اعمال  حج کے بعد آتی ہے۔

بسلمانوں نے شروع سے لیکر اب تک ان دونوں عیدون کو محفوظ رکھا ہے اور اس موقع پر تمام عالم میں جشن مناتے ہیں تیسری بڑی عید، جسے عید ” غدیر“ کہتے ہیں یہ وہی دن ہے جب دین کامل ہوا اور خدا کی نعمت مسلمانوں پر تمام ہوئی  لیکن افسوس کہ اس میں انھوں نے اختلاف کیا۔

محققین تاریخ کو اس کا اندازہ ہوگا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی علت وفات رسول(ص) کے بعد سقیفہ بنانے والوں کی سیاسی سرگرمیاں تھیں ، انھوں نے خدا اور رسول (ص) کی جانب ںصوص کے مقابل اجتہاد کیا اور اپنی ذاتی رائے پر مسلمانوں سے زبردستی عمل کرایا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں امیر المومنین علی(ع) کو ایک طرف کر دیا گیا، گرچہ ںصوص کے مطابق وہ واقعی خلیفہ تھے اور ان کی جگہ پر وہ خلیفہ بنا جسے قریش نے نفسانی خواہشات کی بنیاد پر چنا تھا۔ وفات حضرت رسول(ص)  کے بعد یہ سب

۷۴

 سے تلخ واقعہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان پیش آیا اور جس نے انھیں مصیبت سے دوچار کیا اور حق و باطل، جاہلیت و اسلام  کے درمیان پیکار کی ابتدا کا باعث بنا۔

بے شک یہ آیت کریمہ جس میں خدا فرماتا ہے:

محمد(ص) سوائے رسول کے کچھ نہیں ہیں ان سے پہلے بھی رسول بھیجے گئے پس اگر (محمد(ص)) اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں ( اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے۔ ( آل عمران/ ۱۴۴)

اس کا عید غدیر سے براہ راست رابطہ ہے۔

رسول خدا(ص) نے عید غدیر کا جشن منایا جس وقت پروردگار عالم نے آنحضرت(ص) کو حکم دیا کہ اپنے بعد علی(ع) کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنادیں اور امت پر اچھی طرح واضح کردیں۔ چنانچہ حاضریں غدیر کی جب علی(ع) کے ہاتھوں پر بیعت ہوچکی اور آںحضرت(ص) نے بھی مبارک باد دے دی اور جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔

”الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتمَْمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتىِ وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْاسْلَامَ دِينًا“ ( مائدہ/ ۳)

آج ہم نے تمہارے دین کو کمال کی منزل پر پہنچادیا تم پر اپنی نعمتیں تما کردیں اور دین اسلام کو تمہارے لیے بہترین دین و آئین قرار دیا تو پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :

اللہ اکبر ! اس خدا کا شکر جس نے میرے دین کو کامل کیا اور مجھ پر نعمتیں تمام کیں اور میرے بھائی اور چچا کے بیٹے کی ولایت سے راضی ہوا۔

چنانچہ مبارک باد کے لیے اسی روز ایک خیمہ ںصب کیا گیا اور حاضرین میں عورتوں اور مردوں میں کوئی نہ بچا جس نے علی(ع) کو ان کی ولایت پر مبارکباد نہ دی ہو۔

۷۵

لیکن ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے اس الہی عید کے عظیم جشن کے ٹھیک دو ماہ بعد امت اپنی بیعت سے پلٹ گئی۔ اور اس عید اور صاحب عید کو بھلا بیٹھی اور ایسے کو اپنے لیے منتخب کر لیا جو خدا کو منظور نہ تھا۔ اور بہانہ کے لیے کبھی بزرگی اور کم سنی کو پیش کرتے  تو کبھی کہتے بنی ہاشم کو نبوت جیسا عظیم شرف حاصل ہے لہذا یہ مناسب نہیں ہے کہ خلافت بھی انہیں کے درمیان رہے۔ اور کبھی یہ بہانہ کرتے کہ قریش ہرگز اس شخص کو اپنا امیر نہیں بناسکتے جس نے ان کے بہادروں کو قتل کیا ہے اور ان کے باحیثیت افراد کو موت گھاٹ اتارا ہے اور ان کی ناک مٹی میں رگڑ دی ہے۔

ہاں! فرزند ابوطالب(ع) کا کوئی گناہ نہیں، اگر ہے تو بس یہی کہ اس نے خدا کی رضا وخوشنودی کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادی، اور نصرت دین کی خاطر ہر چیز کو قربان کردیا وہ دین جو اس کے بھائی اور چچا کے بیٹے کا لایا ہوا تھا لہذا اسے کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں، وہ اپنے ارادہ وعزم کا مال دنیا سے معاملہ نہیں کر سکتا۔

میں ہرگز امام علی(ع) کے فضائل و مناقب کو شمار نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کی خصوصیات اور امتیازات اکی وضاحت کرسکتا ہوں۔ کیونکہ مجھے اس بات کا پہلے ہی سے علم ہے کہ اگر سمندر میرے پروردگار کے کلمات کے لیے روشنائی ہوں اور اشجار قلم ہوں تو سمندر سوکھ جائیگا لیکن میرے پروردگار کے کلمات تمام نہ ہوں گے۔

اس عظیم شخصیت کی شرافت اور فخر و مباہات کےلیے یہی کافی ہے کیہ خدا نے اپنے دین کو ان کی ولایت و امامت سے کامل کیا ہے اور اپنی نعمت کو ان کی خلافت پر تمام کیا اورجن مسلمانوں نے ان کی خلافت کو دل و جان سے قبول کیا ان سے خدا خوشنود ہوا۔

۷۶

آپ ک عزت و فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ رسول خدا(ص) نے آپ(ع) کو امام المتقین، مسلمانوں کا سید و سردار، مومنین کے لیے امیر اور دین و ایمان کا محور و مرکز قرار دیا ہے۔

میں ہرگز اس بات کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ عید غدیر کی صحت اور اس کی سچائی پر برہان و دلیل پیش کروں۔ اس لیے کہ پوری امت اسلامیہ اس واقعہ کی صحت و سچائی پر ایمان رکھتی ہے اور اسے نقل کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ صرف شیعہ اس روز جشن مناتے ہیں اور اہل سنت اپنی خواہش کے مطابق اس کی تاویل کرتے ہیں۔

ہم جشن منانے والوں کی گفتگو سے بھی آگاہ ہوئے ، اور تاویل کرنے والوں کی باتوں سے بھی اور ولایت قبول کرنے والوں کے عقیدہ کا بھی مطالعہ کیا۔ انھوں نے واضح نص  کے ذریعہ یہ سمجھا کہ امامت اصول دین کی ایک اصل ہے۔ اور ان کے مخالف گروہ کے عقیدہ پر بھی ہم نے بحث کی اور معلوم ہوا کہ انھوں نے نصوص کی تاویل یوں کی ہے : یہ محمد(ص) کی اپنے داماد اور چچا زاد بھائی کے متعلق سوائے ایک رائے اور نظر کے کچھ اور نہ تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ اس طرح علی(ع) کی نسبت ان کے دشمنوں کے دل نرم ہوجائیں۔

ہم ان کے پیروؤں کے مطمح نظر سے واقف ہوئے کہ جو فقیر اور نادار افراد تھے۔ چنانچہ مخالفین اور دشمنوں کی حالت کا بھی اندازہ ہوا جو کہ ثروت مندوں اور مستکبروں کا ایک بڑا گروہ تھا اور ان کی مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ انھوں نے اہل بیت رسول(ص) کی حرمت کے ساتھ بھی ہتک کی اور صرف سیدة الاوصیاء حضرت علی(ع) پر حملہ کرنے پر اکتفا نہ کی بلکہ سیدة النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا(س) کی بھی اہانت کی اور خاندان نبوت کے خلاف شدید جنگ کا آغاز کردیا جو ناکثین، قاسطین اور مارقین کی جنگ کی صورت میں تمام ہوئی۔

۷۷

آخر کار امام کو محراب نماز میں شہید کیا اور شکر کا سجدہ بجا لائے۔ان مخالفین نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ آپ کےدونوں فرزند جو جوانان جنت کےسردار ہیں ان کو بھی شہید کردیا۔ امام حسن(ع) کو زہر کے ذریعہ امام حسین(ع) کو ان کے روشن ستاروں کےساتھ کربلا میں قتل کرڈالا۔

اس مقام پر سمجھ میں آجاتا ہے کہ عید غدیر اس امت کےلیے امتحان تھی لیکن افسوس یہ متفرق ہوگئی اور اختلاف سے دوچار ہوئی اور اس طرح ٹکڑوں میں بٹ گئی جیسے یہود نصاری نے اختلاف کیا تھا، رسول اسلام(ص) نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

یہ بھی ہم پر واضح ہو گیا کہ امامت جو اصول دین  کی ایک اصل کنارے چھوڑ دی گئی اور اس سے نفرت کی جانے لگی۔ اور اس کے اہل افراد سوائے صبر وشکیبائی کے کچھ نہیں کرسکتے تھے اور اس کی جگہ بغیر سوچے سمجھنے اسی جھوٹی امارت کھڑی کردی کہ جس کے شر کو مسلمانوں کے سر سے سوائے خدا کے کوئی اور ختم نہیں کرسکتا ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آزاد کئے جانے والے ( طلقاء) اور مفسدوں نے بھی اس کی ہوس کر لی۔ اور جس کشتی نجات کو آںحضرت(ص) نے درست کیا تھا اور چلنےکے یے تیار کردیا تھا اس پر کچھ مخلص بندوں کے سوا کوئی سوار نہ ہوا اور تمام مسلمان دنیا کی محبت و ریاست کی خواہش میں ڈوب گئے اور جو ائمہ ہدایت اور راہنما تھے ان کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔ اس طرح وہ ایسے خود پسدند راہ و مذہب کے پیرو بن گئے  جس پر کتاب خدا اور سنت رسول(ص) سے قیامت تک کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔

یہ تھا عید غدیر اور صاحب غدیر کی سر گذشت کا خلاصہ اور غدیر کے بعد جو سازش کی گئی اسے بھی وضاحت سے بیان کرنے کی  ضرورت نہیں ہے۔ جو لوگ مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں وہ میری دوسری کتاب (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) کا

۷۸

مطالعہ فرمائیں۔

فی الحال چاہے ہم سنی ہوں یا شیعہ یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم بھی تاریخ کی قربانی ہیں بلکہ ایک ایسی سازش کی قربانی جس کا نقشہ دوسروں نے تیار کیا اور اس کی داغ بیل ڈالی بلا شبہ ہم بھی طبیعت کے مطابق پیدا ہوئے، ہمارے شیعہ یا سنی ہونے کا سبب اور ہدایت و گمراہی کا باعث ہمارے والدین ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جس گمراہی و اںحراف کو چودہ(۱۴) صدیاں بیت چکی ہوں اس کا کچھ برسوں میں ختم ہونا ممکن نہیں ہے اور جو بھی یہ خیال کرتا ہے اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ معصوم ائمہ(ع) نے امام علی(ع) سے لیکر امام حسن عسکری(ع) تک اپنی پوری توانائی کے ذریعہ امت میں اتحاد پیدا کرنے اور سیدھے راستہ کی ہدایت کی کوشش کی اور اس راہ میں اپنی جان قربان کی اور اپنے نونہالوں کو بھی فدا کردیا تاکہدین محمد(ص) قائم رہے لیکن زیادہ تر لوگوں نے کفران نعمت کیا اور ان سے منہ موڑ کر حق کو پامال کردیا۔

اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ اصلاح کرنے والوں اور سچے مومنین سبھی کی کوششیں ناکام ہوئیں اور مسلمانوں کے اتحاد کی تمنا، جہل و نادانی اور اندھے تعصب کے پتھر سے ٹکرا کر رہ گئی۔ قومیتوں کے پہاڑ ، گوناگون نسلیں، اور مختلف حخومتیں، ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے پس پشت ہمارے دشمن بھی ہیں جن کی محبت و دوستی کو ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔ وہ رسول(ص) کی رسالت کے زمانہ سے لے محبت تک پوری قوت کے ساتھ ہمیشہ اس کی کوشش میں رہے ہیں کہ نور خدا کو خاموش کردیں۔

اور ان کے پیچھے بھی کچھ اورموقع پرست لوگ ہیں جو سوائے اپنے فائدہ کے اور کچھ نہیں سوچتے بلاشبہ مسلمانوں کا اتحادان کے منافع کے لیے بڑا خطرہ

۷۹

 ہے لہذا ان کی ہمیشہ یہی کشش رہتی ہے کہ لوگوں میں تفرقہ ڈال کر انھیں ہانٹ دیں۔

ان کے علاوہ ابلیس ملعون بھی تو بیکار نہیں بیٹھا ہے وہی تو ہے جس نے خداوند عالم سے کہا تھا:

میں یقینا تیرے بندوں کے راہ راست اور صراط مستقیم سے گمراہ اور منحرف کردوں گا۔ ( اعراف/۱6)

یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وقت کافی گذر چکا ہے چودہ صدیاں بیت گئیں اور ہم سوئے ہوئے ہیں۔ حیران و پریشان ہیں۔ ہماری عقلوں پر دنیا کی زینت و ہوس نے غلبہ کررکھا ہے اور ہماری فکروں کو لاعلاج بیماریوں نے گھیر رکھا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہمارے دشمن علم اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مسلسل ترقی کررہے ہیں اور ہم سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، ہمارا خون بہا رہے ہیں ، ہماری دولت لوٹ رہے ہیں اور ہمیں ذلت و رسوائی کی طرف کھینچ رہے ہیں ۔ ان کا دعوا یہ ہے کہ ہم ( مسلمان) پسماندہ ہیں۔ ہمیں متمدن بنانا چاہئے۔ ہم وحشی جانور ہیں جسے رام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لیے سارے راستے بند کر ڈالے گئے اور ہماری سانسوں کو بھی مقید کر دیا گیا، حتی کہ اگر ہم میں سے کسی کو چھینک بھی آجائے تو اس کا بھی ہزار طرح سے حساب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا مصدر جو کہ زکام یا نزلہ ہے اسے مشخص کرو ایسا نہ ہوکہ انھیں بھی لگ جائے اور وہ بیمار ہوجائیں اور علاج مشکل ہوجائے۔

یہ سب اس لیے ہے کہ جب باتوں کا اسلام نے حکم دیا تھا انھوں نے اس پر عمل کیا اور اسے سیکھ لیا لیکن ہم نے خدا کے بہت سے احکام کو چھوڑ دیا اور ان پر توجہ نہ دی۔ اس سے زیادہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔

ہاں آج ہم نیند سے اٹھ بیٹھے ہیں لیکن کیسا جاگنا ! ہم نے اتحاد کے نغمہ پر

۸۰