شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات0%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 255
مشاہدے: 208407
ڈاؤنلوڈ: 5942

تبصرے:

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208407 / ڈاؤنلوڈ: 5942
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 آگاہ ہوجاؤ کہ خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے اور جن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے - اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کردے گا کہ اللہ کسی بھی جھوٹے اور ناشکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے.

وَ جَعَلُواْ لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْانسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِینٌ (1)

اور ان لوگوں نے پروردگار کے لئے اس کے بندوں میں سے بھی ایک جزؤ (اولاد) قرار دیدیا کہ انسان یقیناً بڑا کھلا ہوا ناشکرا ہے.

أَ فَأَصْفَئکمْ رَبُّكُم بِالْبَنِینَ وَ اتخَذَ مِنَ الْمَلَئكَةِ إِنَاثًا إِنَّکمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِیمًا (2)

کیا تمہارے پروردگار نے تم لوگوں کے لئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں؟ یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو.

وَ إِذَا مَسَّ الْانسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِیبًا إِلَيْهِ ثمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسىَ مَا کانَ يَدْعُواْ إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِیلِهِ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِیلًا إِنَّكَ مِنْ أَصحَابِ النَّارِ. (3)

اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پوری توجہ کے ساتھ پروردگار کو آواز دیتا ہے پھر جب وہ اسے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس بات کے لئے اس کو پکار رہا تھا اسے یکسر نظرانداز کردیتا ہے اور خدا کے لئے مثل قرار دیتا ہے تاکہ اس کے راستے سے بہکا سکے تو آپ کہہ دیجئے کہ تھوڑے دنوں اپنے کفر میں عیش کرلو اس کے بعد تو تم یقیناً جہّنم والوں میں ہو.

--------------

(1):- زخرف (15).

(2):- اسراء (40).

(3):- زمر (8)۔

۸۱

ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فىِ مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِیهِ سَوَاءٌ تخَافُونَهُمْ كَخِیفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ كَذَالِكَ نُفَصِّلُ الاْيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (1)

اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی مثال بیان کی ہے کہ جو رزق ہم نے تم کو عطا کیا ہے کیا اس میں تمہارے مملوک غلام و کنیز میں کوئی تمہارا شریک ہے کہ تم سب برابر ہوجاؤ اور تمہیں ان کا خوف اسی طرح ہو جس طرح اپنے نفوس کے بارے میں خوف ہوتا ہے بیشک ہم اپنی نشانیوں کو صاحب عقل قوم کے لئے اسی طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں.

ان بیانات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ:

1.  شیعہ  اور بت پرستوں میں کوئی شباہت نہیں  پائی جاتی، کیونکہ بت پرستوں نے اپنے لئے شفاعت کنندہ چن لئے ہیں لیکن ہمارے شفاعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے چن  لیا ہے.

2.  وہ لوگ اپنے شفاعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے مستقل مانتے ہیں جبکہ ہم اپنے آئمہ طاہرین (ع)کو کبھی اللہ تعالیٰٰ سے مستقل نہیں مانتے ہیں.

3.  وہ لوگ بتوں کی عبادت کرتے ہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے پس کیسے آپ شیعوں کو بت پرستوں کی مانند جانتے ہو؟!(2)

--------------

(1):- روم (28)۔

(2):- پاسخ بہ شبہات(1)، ص: 7

۸۲

مُردوں سے کسی چیز کا مانگنا ؟

یہ لوگ سورہ نمل 80، فاطر 22، نحل 20 و 21 اور کئی آیات سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردہ لوگوں سے ارتباط پیدا کرنا شرک ہے

«انَّكَ لا تُسمِعُ المَوتی وَ لا تُسمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ اذا وَ لَّوا مُدبِرینَ» (1)

آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھر کر جا رہے ہوں.

«وَ ما یستَوِی الاحیاءُ وَلَا الامواتُ انَّ اللهَ يُسمِعُ مَن يَشاءُ وَ ما انتَ بِمُسمِعٍ مَن فِی القُبُورِ» (2)

اور نہ ہی زندے اور نہ ہی مردے یکساں ہوسکتے ہیں، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے.

 «وَ الَّذینَ يَدعوُنَ مِن دوُنِ اللهِ لا يَخلُقوُنَ شَیئًا وَهُم يُخلَقوُنَ  امواتٌ غَیرٌ احیاءٍ وَ ما يَشعُرُونَ ایّانَ يُبعَثُونَ» (3)

اور اللہ کو چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں.وہ زندہ نہیں مردہ ہیں اورانہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے.

--------------

(1):-  نمل (80)۔

(2):- فاطر (22)۔

(3):- نحل (20 و 21)۔

۸۳

جواب:

آیات:

پہلی بات تو  یہ ہے کہ مردوں سے ارتباط پیدا کرنا شرک تو نہیں بلکہ ممکن ہے کہ اسے بیہودہ کام کہہ سکتا ہو، کیونکہ رسول خدا (ص)کے زمانے میں جو کام رائج تھا وہ آپ کی زندگی کے بعد شرک میں کیوں کر بدل سکتا ہے؟ اور یہ آیت آپ سے مربوط تھی کہ  رسول خدا(ص) تو مردوں کی آواز سن سکتے تھے.(1)

دوسری بات یہ ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہو کہ سننے کی قدرت پیدا کرنا میرا کام ہے نہ تیرا.

تیسری بات یہ ہے کہ مؤمنون 99 و 100 ،نحل 28 کے مطابق مرنے کے بعد برزخ کی زندگی شروع ہوتی ہے تو ہمارا روح وہاں زندگی کر رہا ہوتاہے :

«الَّذینَ تَتَوَفّاهُمُ المَلائِكَهُ ظالِمی انفُسِهِم فَالقَوُا السَّلَمَ ما كُنّا نَعمَلُ مِن سُوءٍ بَلی انَّ اللهَ عَلیمٌ بِما كُنتُم تَعمَلُونَ» (2)

جنہیں ملائکہ اس عالم میں اٹھاتے ہیں کہ وہ اپنے نفس کے ظالم ہوتے ہیں تو اس وقت اطاعت کی پیشکش کرتے ہیں کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے. بیشک خدا خوب جانتا ہے کہ تم کیا کیا کرتے تھے.

 «حَتی اذا جاءَ احَدَهُمُ المَوتُ قالَ رَبِّ ارجِعُونِ  لَعَلّی اعمَلُ صالحًا فیما تَرَکتُ كَلّا انَّ ه ا كَلِمَهٌ هُوَ قائِلُ ه ا وَ مِن وَرائِهِم بَرزَخٌ الی يَومِ يُبعَثُونَ» (3)

--------------

(1):- صحیح مسلم  جلد 8 صفحہ  163.

(2):- نحل (28).

(3):- مؤمنون (99 و 100).

۸۴

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم ہ برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے. ان آیات سے بخوبی واضح ہے کہ مرنے والے بھی ہماری باتوں کو سمجھ جاتے ہیں لیکن ہم ان کو سننے سے قاصر  ہیں.

روایات :

صحیح مسلم اور صحیح بخاری:

صحیح بخاری اور مسلم میں بھی ہے کہ مردوں کے ساتھ  ارتباط پیدا کرنا ممنوع چیز نہیں ہے کیونکہ وہ  بھی دنیوی حالات سے باخبر ہیں اور ہماری باتوں کو سنتے ہیں.چنانچہ بخاری روایت کرتے ہیں کہ : اگر مردہ نیک انسان ہو تو وہ اپنے تشییع کرنے والوں سے کہتا ہے کہ مجھے جلدی قبر تک پہنچادیں اور اگر برا انسان ہو تو وہ کہے گا : مجھے کہاں لے جارہے ہو؟ افسوس ہو مجھ پر مجھے قبر کی طرف نہ لے جائیں.(1)

مرنے والا اس کے لواحقین کے رونے سے عذاب میں مبتلا ہوجا تا ہے.(2)

احمد بن حنبل:

مرنے والا اسے غسل وکفن دینے والے اور دفنانے والے کو پہچان لیتا ہے(3)

نماز میں ہم پھر السلام علیک ایہا النبی و رحمہ اللہ و برکاتہ کیوں پڑھتے ہیں؟اور یہ سلام مذاہب اربعہ میں واجب ہے .

--------------

(1):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 87.

(2):- صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 41.

(3):- مسند احمد- الامام احمد حنبل- ج 3- ص 3.

۸۵

جلال الدین سیوطی:

پیغمبر اکرم(ص) سے روایت ہے کہ جو بھی حج بیت اللہ الحرام کرے اور میری زیارت نہ کرے تو اس نے میرے ساتھ ظلم کیا ہے.(1)

ابن ابی شیبہ (بخاری کا استاد)

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: جو میرے مرنے کے بعدمیری زیارت کرے گویا اس نے میری زندگی میں زیارت کی ہے.جیسا کہ ایک صحابی نے باران رحمت کی نزول کے لئے پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد مدد مانگی اور قبول ہوئی(2)

قبور کی  زیارت:

چار دلیلوں کے ساتھ قبور کی زیارت کرنا جائز ہے :

1. قرآن کریم:

وَ مَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ الل ه   وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ الل ه وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ الل ه تَوَّابًا رَّحِیمًا. (3)

--------------

(1):-  الدر المنشور- جلال الدین السیوطی- ج 1- ص 237.

(2):- السنن الکبری- البیہقی- ج 5- ص 246، ابن ابی شیبہ (استاد بخاری) مصنف جلد 7 ص 482، کنز العمال متقی ہندی جلد 7 ص 431

(3):- نساء 64.

۸۶

اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ خدا کی اجازت سےاس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے.

2. روایات:

خود پیغمبراکرم(ص) فرماتے ہیں :

«حَیاتی خَیرٌ لَكُمْ تحدثون و نحدث لکم و وفاتی خیر لکم تعرض علیّ اعمالکم ..» (1)

میری زندگی تمھارے لئے بہتر ہے کہ تم مجھ سے سوال کریں اور میں تم کو جواب دوں ، اسی طرح میری وفات بھی تمھارے لئے بہتر ہے کہ تم اپنے اعمال کو عارضہ کرو. اسی طرح اپنی زیارت کرنے کی بھی لوگوں کو تشویق دلائی:

«مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِی». (2)

جو بھی میری قبر کی زیارت  کرے گا اس کیلئے میری شفاعت اور بہشت واجب ہوگی.

جو بھی میری قبر کی زیارت کرے اس کی شفاعت کرنا میرے اوپر فرض ہے .(3)

3. صحابہ کی سیرت:

حضرت عمر نے فتوحات شام کے بعد جب مدینہ پہنچےتو سب سےپہلے مسجد نبوی میں آکر آپ پر سلام بھیجا ہے.

--------------

(1):-  طرح التثریب، ص 297.

(2):- السنن الکبری، ج 5، ص 5 24.

(3):- 40 منبع از کتاب ہای اہل سنت.

۸۷

 احمد بن حنبل، رملی شافعی، محبالدین طبری، زرقانی مالکی اور عزامی شافعی وغیرہ نےنقل کئے ہیں:جب احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا کہ منبر  اورقبر رسول کو ثواب کی نیت سے  چومنا،مس کرناکیسا ہے؟ اس نے جواب دیا: کوئی اشکال نہیں ہے.کہتا ہے کہ قبر رسول یا کسی اور ولی اللہ کی قبر کا تبرک کے طور پر بوسہ لینا جائز ہے .رملی شافعی اورمحب الدین طبری شافعی کا بھی یہی عقیدہ ہے(1) اسی طرح تاریخ میں ثابت ہے کہ لوگ قبر پیغمبر اکرم اور حضرت حمزہ سے مٹی جذام اور صداع جیسے امراض کیلئے شفایابی کیلئے لے جاتے تھے ، ابو سلمہ پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں :غُبارُ الْمَدِینَةِ يُطْفِی

4. عقل:

 عقل انسان کہتی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے عزت اور عظمت دی ہے ان کی تعظیم کرنا واجب ہے اور زیارت بھی ایک قسم کی تعظیم ہے .

 ابن اثیر جزری نے پیغمبر اکرم (ص)سے نقل کیا ہے :

وَالَّذی نَفْسِی بِيَدِهِ انَّ فی غُبارِها شِفاءٌ مِنْ كُلِّ داءٍ (2)

اہل سنت بھی قبر سے تبرک  

ذہبی جو صحابی رسول ہیں کہتے ہیں: ایک آدمی نے سعد بن معاذ  کی قبر سے مٹی اٹھائی  پھر دیکھا کہ وہ مٹی اچانک مشک میں بدل گئی.(3)

-------------

(1):- کنز المطالب،ص219.اسنی المطالب،ج1،ص331.لجامع فی العلل ومعرفة الرجال،ج 2،ص 32؛وفاءالوفا،ج 4،ص 1414.

(2):- وفاء الوفا، ج 1، ص 69، ص 544.

(3):- بقات الکبری، 3، 10- سیر اعلام النبلاء، 1، 289.

۸۸

ابونعیم اصفہانی و ابن حجر عسقلانی کہتے کہ عبداللّہ حدانی ۸ذی الحجة سال 183  کو مارا گیا تو لوگوں نے اس کی قبر کی مٹی تبرک کے طور پر اٹھا کر لے گئے(1)

قسطلانی کہتا ہے:وَهُوَ مِن ابشع المسائل المنقولة عنه».

ابن تیمیّہ کا زیارت قبر رسول اللہ (ص)(ص)سے روکنا ان بدترین مسائل میں سے ہے جو ان سے نقل ہوئی ہے .غزالی کہتا ہے:

«کلّ من‏یتبرک بمشاهدته (ص) فی‏حیاته، یتبرک بزیارته بعد وفاته ویجوز شدّالرحال لهذا الغرض».

جو بھی پیغمبر اکرم (ص)کی زندگی میں ان کی زیارت کرتے تھے ان کی وفات کے بعد بھی ان کی زیارت کیلئے جانا جائز ہے(2)

«إِنَّ فاطِمَةَ کانَتْ تَزُورُ قَبْرَ عَمِّها حَمْزَةَ كُلّ جُمُعَةٍ فَتُصَلّی وَتَبْكِی عِنْدَهُ. » (3)

حضرت فاطمہ زہرا  ہر جمعہ کو اپنے چچا حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتی اور گریہ کرتی تھیں.

قبور کی تعمیر اور ان پر گنبد بنانا

نَهی رَسُول اللّه (ص) ان یجصّص القبر وان یعقد علیه وان یبنی علیه (4)   پیغمبر اکرم (ص) نے قبر کو گچ کاری اور اس پر قبہ وغیرہ بنانے سے منع فرمایا ہے. اس حدیث کو دلیل بنا کر یہ لوگ مسلمانوں کے قبور کو مسمار کرنا واجب سمجھتے ہیں.

--------------

(1):-  حلیة الاولیاء، ج 2، ص 258- تہذیب التہذیب ج 5، ص 310.

(2):- مصنف عبدالرزاق، ج 3، ص 570- معجم البلدان 2، 214.

(3):-  سنن الکبری، ج 4، ص 132؛ مصنف عبدالرزاق، ج 3، ص 572.

(4):- صحیح مسلم، ج 3، ص 63.

۸۹

جواب: بہت ساری حدیثیں ایسی ہیں جن میں امر کیا ہوا ہے لیکن وہ کراہت پر حمل کئے جاتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ امر وجوب پر ہی دلالت کرتا ہو.چنانچہ حضرت فاطمہ اپنے چچا حضرت حمزہ کی قبر پر پتھروں سےعلامت بنا کر وہاں فاتحہ پڑھا کرتی تھیں.اور رسول خدا (ص)نے عثمان  بن مغطون کی قبر پر پتھر سے نشان بنایا. اور یہ کیسے ممکن ہے کہ عام انسانوں جیسے بخاری کی قبر پر گنبد بنانا جائز  لیکن آئمہ طاہرین کی قبروں پر گنبد بنانا شرک ہو جائے؟!

 ان کی صرف ایک دلیل ہے جو ابی الہیاج سے نقل ہوئی ہے  جو سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ وکیع اور حبیب بن ابی ثابت اہل سنت کے نزدیک مورد اعتماد نہیں  ہیں.دلالت حدیث بھی کامل نہیں ہے کیونکہ«وَ لا قَبراً الّا سوّیته» کا مطلب یہ تو نہیں  ہے کہ قبرکو مسمار کردے بلکہ اس  کا مطلب یہ ہے کہ قبر کو مسطح کیا جائے .نہ یہ کہ کوہان شترکی طرح بلند کردے.

قسطلانی کہتا ہے:«السنة فی القبر تسطیحه و انَّه لا یجوز ترک هذه السنّة لمجرّد انّها صارت شعاراً للروافض وانّه لا منافات بین التسطیح و حدیث ابی هیاج: لانّه لم يُرَد تسویته بالارض و انّما اراد تسطیحه جمعاً بین الاخبار ...» (1)

سنت پیغمبر(ص) تو یہ ہے کہ قبر کو مسطح کرتے تھے اور یہ شیعہ مذہب کا شعاربننے کی وجہ سے  ترک کرنا جائز نہیں ہے اور ابی الہیاج کی روایت سے بھی کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ روایت کا مقصد یہ نہیں کہ زمین سے ہم سطح کر دیا جائے بلکہ صاف رکھنا مراد ہے اور قبروں کے کنارے مکان اور مسجد بنانا  مسلمانوں کی سنت رہی ہے تاکہ جن میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں.

1.  جس طرح  قبر پیغمبر کے کنارے مسجد تعمیر کی گئی.

2.  قبور آئمہ بقیع کو ۱۳۴۵؁ کو وہابیوں نے خراب کیا.

--------------

(1):-  ارشاد الساری، ج 2، ص 468.

۹۰

3.  رسول خدا کے بیٹے ابراہیم کی قبر کو جو محمد بن زید بن علی کے گھر میں تھی وہابیوں نے خراب کیا.

4.  حضرت حمزہ ؓ کی قبر پر مسجد بنی ہوئی تھی جسے دوم ہجری میں وہابیوں نے خراب کیا.

5.  سعد بن معاذ کی قبر پر عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں گنبد تعمیر کی گئی.(1)

6.  حضرت علیبن ابی طالب کی قبر پر دوسری صدی میں گنبد بنائی گئی.(2)

7.  حضرت سلمان فارسی کی قبر پر بھی گنبد بنائی گئی تھی.(3)

 خلاصہ یہ ہے کہ سارے مسلمانوں  میں یہ سیرت عام رہی ہے کہ اپنی اہم شخصیات  کی قبور  کے کنارے بارگاہیں بنایا جائے  ، مسجد تعمیر کی جائے ،تاکہ ان کو بھی یاد کریں اور ان کے توسط سے اللہ کی بارگاہ میں بھی متوسل ہوجائیں. سارے اہل سنت بھی اس کے قائل ہیں صرف وہابیوں کو ان سے اختلاف ہے.

 سند حدیث میں ابوالزبیر محمد بن مسلم آمدی- موجود  ہے جسے علمائے اہل سنت ، جیسے احمد بن حنبل اور ابن عینیہ  اور  ابو حاتم نے ضعیف قرار دیا ہے.(4) اسی طرح سند میں ربیعہ ہے جسے ازدی اور ابن ابی شیبہ اور ساجی نے مشکوک قرار دیا ہے(5)

--------------

(1):-  وفاء الوفا، ج 2، ص 545.

(2):- موسوعة العتبات 6، 97.

(3):- تاریخ بغداد، ج 1، ص 163.

(4):- تہذیب الکمال 407: 26.

(5):- تہذیبالتہذیب 2، 360- تاریخ بغداد 8، 199- سیر اعلام النبلاء 9، 31.

۹۱

مناظرہ:

 شیعہ: کیوں تم قبور کی بے احترامی کرتے ہو اور گنبد کو گرا دیتے ہو؟

وہابی: کیا تو علی کو مانتے ہو؟ اس نے کہا: وہ تو میرا پہلا امام ہے اور رسول کا خلیفہ بلافصل ہیں.

وہابی: ہماری معتبر کتابوں میں تین علماء نے لکھا ہے کہ جن کا نام یحیٰ ، ابوبکر اور زہیر ہیں، وکیع سے ، اس نے سفیان سے ، انہوں نے حبیب سے ، اس نے ابی وائل سے اور اس نے ابی الہیاج اسدی سے نقل کیا ہے کہ علی ابن ابیطالب نے ابی الہیاج سے فرمایا:کیا میں تمہیں کسی ایسے کام کا حکم دوں  جس کا مجھے رسول خدا (ص)نے حکم دیا تھا؟اس نے کہا: ہاں .

 تو آپ  نے فرمایا : کسی بھی تصویر کو مٹائے بغیر نہ رکھو اور کسی بھی قبر کو باقی نہ رکھو مگر وہ زمین کے برابر کردو(1)

شیعہ : یہ حدیث سند اور دلالت دونوں لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کے سلسلہ سند میں درج ذیل افراد موجود ہیں 1. وَکیع. 2. سُفیان. 3. حبیب بن ابی ثابت. 4. ابی وائل ، جن کی سند کو  احمد بن حنبل نے اس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے:وکیع نے پانچ سو حدیثوں میں خطا کیا ہے.(2) ، سفیان ثور ی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ ابن مبارک نے جب سفیان کو حدیث میں تدلیس(ناحق کو حق کا جلوہ دکھاتے  ہوئے ) کرتے ہوئے دیکھا تو وہ شرمسار ہوگیا.اسی طرح حبیب بن ابی ثابت بھی.(3) اور ابی وائل کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ ناصبی تھا اور امیر المؤمنین کے دشمنوں میں شمار ہوتا تھا.(4)

-------------

(1):- صحیح مسلم، ج 3، ص 61، سنن ترمذی، ج 2، ص 256، سنن نسائی، ج 4، ص 88.

(2):- تہذیب التّہذیب، ج 11، ص 125.

(3):- ہمان، ج 4، ص 115. ج 3، ص 179.

(4):- شرح نہجالبلاغہ حدیدی، ج 9، ص 99

۹۲

اور قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ سارے صحاح ستہ میں یہی ایک حدیث  ہے جسے دلیل بنا کر یہ لوگ قبور آئمہ کو مسمار کرتے ہیں.

وہابی:قبور کے اطراف میں عمارت تعمیر کرنا عرف میں تو یہ پسندیدہ عمل ہے لیکن قرآن  میں اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے.

جواب: کیوں نہیں ؟ ایک آیة مؤدت ہے :

قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی‏.

اور دوسری دلیل اصحاب کہف  کا  قصّہ ہے کہ جب یہ لوگ تین سو سال کے بعد بیدار ہوئے تو  اس غار کے کنارے کسی نے کوئی شاندار  عمارت بنانے کا مشورہ دیا تو کسی نے  وہاں مسجد تعمیر کرنے کا مشورہ دیا اور مسجد بنانے پر اتفاق ہوا : ابْنوا علی ه م بُنیاناً: لنتَّخِذَنَّ علی ه م مسجداً. (1) اور یہ اولیاے خدا  کے قبور کا احترام کرنے کا ایک انداز ہے ، تیسری دلیل لوگوں کا  قبور کے اطراف میں مساجد بنانا ،صاحب قبر کی عزت اور ان کا احترم کرنے کا انداز ہے.

قبور پر چراٖغ جلانا

سوال : کیا قبور پر چراغ جلانے کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟

جواب:

درج ذیل دلائل کی روشنی میں قبور پر چراغ جلا نا کوئی ممنوع نہیں ہے :

اہل سنت کی روایات کی روشنی میں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے قبرستان میں جاتے وقت حکم دیا کہ وہاں چراغ جلائے جائیں(2)

--------------

(1):- کہف، 21 .

(2):- الجامع الصحیح، ج 3، ص 372

۹۳

مسلما نوں کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ ایوب انصار ی اور زبیر بن عوام  کی قبر پر  چراغ جلایا کرتے تھے.(1) اسی طرح مقبروں میں نماز پڑھنےکو جائز قرار دیتے تھے:

 قال مالک لا باس بالصلاة فی المقابر و قال بلغنی ان بعض اصحاب النبی کانوا یصلّون فی المقبرة» (2)

--------------

(1):-  تاریخ بغداد، ج 1، ص 154  المنتظم، ج 14، ص 383.

(2):- المدونة الکبری، ج 1، ص 90.

۹۴

چھٹی فصل:

 بحث امامت اور خلافت

امامت یا  خلافت پہ بحث کرنے کا کیا فائدہ  جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوجائے ؟ جو ہوا سو ہوا  ہم کیوں آپس میں الجھیں؟!

اس کا جواب دو حصوں پر مشتمل ہے :

الف: تاریخی ہے جو گذر گئی  کہ کھبی واپس نہیں آئے گی. 

ب: دینی ہے جو ابھی تک باقی ہے اور  قیامت تک باقی رہے گا.اب کوئی موجود ہو جو ان آنے والی مشکلات کو حل کرے  اور لوگ اس کی طرف رجوع کرے یہی وجہ ہے کہ شیعہ اس بات کا معتقد ہے کہ علی اور اولاد علی  کو رسول اللہ (ص)نے بعنوان خلیفہ مقرر کیا اس سے شیعہ نظریہ تثبیت ہوجاتا ہے.جس پر حدیث ثقلین صد در صد دلالت کرتی ہے اور اس کی سند فریقین کے نزدیک صد درصد صحیح بھی ہے اور متواتر بھی یہ منصب ایک الہی منصب ہے جس کی معرفت اور پہچان بھی الہی فریضہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا اور زندگی کرنے کا طریقہ بھی بتایا اور اپنے رسول کے ذریعے ان رہنماؤں کی معرفی بھی کرائی  اور خبردار بھی کیا کہ ان سے جدا نہ ہونا. یہی وجہ ہے کہ اس بحث کو نظرانداز نہیں کرسکتا.

اگر ہم بغیر کسی تعصب  اور ٹھنڈے دماغ  کے ساتھ امامت یا خلافت سے بحث کریں تو یہ مسلمانوں کے صفوں میں اتحاد اور اتفاق کا باعث ہے.ایک دوسرے کے عقائد سے بھی آگاہ ہوجائیں گے جس کے باعث  ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گے.

۹۵

امامت کی حقیقت شیعہ اور اہل سنت کی نظر میں

لغت میں امامت اسے کہا جاتا ہے جس کی اتباع اور پیروی کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا کتاب ہو ،  حق ہو یا باطل ہو .یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن انہی کے ساتھ انسان کو محشور کیا جائے گا :

يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ بِيَمینِهِ فَأُولئِكَ يَقْرَؤُنَ كِتابَهُمْ وَ لا يُظْلَمُونَ فَتیلاً . (1)

 قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر رائ برابر ظلم نہیں ہوگا.

لیکن اصطلاح میں امامت سے مراد رسول خدا (ص)کا جانشین ہے جو دین کی خاطر رسول کی جانب سے منتخب ہو جن کا اتباع کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہو.

امامت کو اصول دین میں کیوں شمار کیا جاتا ہے ؟

جواب شیعہ : ہم چونکہ امامت کو سلسلہ نبوت کی  ایک کڑی  سمجھتے ہیں  جس کے ساتھ اسے  بھی ذکر کرنا ضروری ہے

امامت کی خصوصیات 

شیعہ : وہی صفات کے حامل ہونا چاہئے کہ جس کا نبی یا رسول حامل ہوسواے  وحی کے .

اہل سنت: چار ہیں : عالم ہو، عادل ہو،  سیاسی امور سے آگاہ ہو ، اور حسن تدبیر کا مالک ہو.بعض نے کچھ اور اضافہ کیاہے جیسے : قریشی ہو، جسم کے سارے اعضاء و جوارح سالم ہو، شجاع اور دلیر ہو، بالغ ہو، مرد ہو،

--------------

(1):-  الاسراء : 71. 

۹۶

اشکال : کیوں ان خصوصیات کی تعداد میں اختلاف  ہے؟

 آیة اللہ جعفر سبحانی فرماتے  ہیں:کیونکہ انہوں نے نصوص میں دقت نہیں کی ہے:

الف:امامت کے متعلق نصوص دینی  کا مطالعہ ہی  نہیں کیا ہے .ان کے پاس جو نصوص موجود ہیں ان میں امامت کے متعلق ان مذکورہ شرائط کا تعین ہی نہیں کیا گیا ہے ان کے مذکورہ شرائط کا منبع استحسان اور اعتبارات عقلی ہیں عجیب بات تو یہ ہے کہ کیسے ممکن تھا کہ رسول خدا (ص)نے شرائط اور خصوصیات امام جیسی اہم  چیز کو بیان نہیں کیاہو اور امّت پر چھوڑ  گئے  ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے مکروہات اور مستحبات کو بھی مفصل بیان کیا ہے.

ب:ان کی بیان کردہ صفات ، عدالت والی صفت کے ساتھ تضاد  رکھتی ہیں.باقلانی  نے کہا : فاسق اور فاجر ہونے کی وجہ سے منصب امامت سے نہیں ہٹایا جاسکتا بلکہ اسے نصیحت اور  ہدایت کی جائے گی..(1)

ج:امیر المؤمنین(ع) کے بعد اکثر خلفاء ان صفات کے حامل نہیں تھے یعنی یہ لوگ امام حاضر کیلئے شرائط ڈھونڈتے ہیں لیکن شیعہ امامت کو نبوت کا سلسلہ مانتے ہیں لہذا وحی اور نبوت  کے سوا نبی کی تمام صفات کو امام کیلئے لازم سمجھتے ہیں .

د:مزید اشکالات: امام ہونے کے لئےقریشی ہونا شرط  رکھی گئی ، اس صورت میں غیر قریشی خلفاء کا کیا کروگے؟ اسی طرح عدالت کی صفت در حدوث یا در بقاء؟ اسی طرح عالم ہونے کی قید ذکر کی گئی تو جو جاہل خلفاء گذرے ہیں ان کا کیا گروگے؟جیسا کہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مروان کے پاس نہ علم تھا اور نہ دین تھا .

ان مباحث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  نے اپنے رسول کے  انتخاب کرنے میں کسی  سے رائے نہیں لی .یہ باتیں شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف کی وجہ تھیں، لیکن درج ذیل  چیز یں امامت کے بارے میں مورد اتفاق ہیں:

 الف: پیغمبر(ص) کے بعد کسی امام کا ہونا ضروری ہے

ب: پیغمبر(ص) کی جانب سے جو لوگوں پر حکومت کرے.

--------------

(1):-  الٰہیات،ص۵۰۸.

۹۷

اثبات امامت کی راہیں اور رکاوٹیں

شیعوں کے نزدیک تین راہیں  ہیں :

1.  اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب ہو۔

2.  رسول خدا(ص) کی طرف سے منتخب ہو.

3.  پہلا امام کی طرف سے منتخب ہو.

اہل سنت کے نزدیک  بھی تین راہیں ہیں:

1.  وہی تین راہیں جن کے شیعہ معتقد ہیں. لیکن ان میں سے صرف تیسری صورت وقوع پذیر ہوئی.

2.  حل و عقد ( قوم کا سردار، ریش سفید اور زمینداروں) امام کو منتخب کریں گے.لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سردار یا وڈیروں  اور قوم کے بزرگوں کی تعداد کتنی ہونے چاہئے؟ ایک یا دو یا تین یا چھ یا دس یا سو ؟!!

اہل سنت کے ہاں چار قول ہیں:

     کم از کم پانچ افراد ہونے چاہئے کیونکہ ابوبکر کو پانچ افراد نے  انتخاب کیا تھا.. شیعہ اشکال کرتےہیں :یہ تو نقض لازم آتا ہے ، کیونکہ عمر کو چھ افراد نے انتخاب کیا ہے .

     کم از کم دو  افراد ہونےچاہئے ، کیونکہ نکاح میں دو گواہ لازم ہے

     حد اقل ایک نفر ہونا چاہئے ، کیونکہ قاضی کا حکم نافذ ہے جب کہ وہ ایک سے زیادہ نہیں ہے .

شیعہ اشکال کرتے ہیں : اگر ایک شخص سو آدمی کو منتخب کرےتو کیا انہیں بھی قبول کریں گے؟ اس صورت میں علی (ع)کو بھی   اباذر، سلمان اور مقداد  نے اپنا امام منتخب کیا تھا ، تو انہیں کیوں نہیں بنائے گئے؟ شاید آپ جواب دیں گے:

 بائُکَ تجُر و بائی لا تَجُر.

 یعنی تیرا (با) زیر دیتا ہے لیکن میرا (با ) زیر نہیں دیتا.

۹۸

     شوری کے ذریعے امام کا انتخاب  کیا جا تا ہے اہل سنت کے دانشور حضرات کہتے ہیں کہ خلیفہ یا امام شوری کے ذریعے انتخاب کیا جاتا ہے جس پر دلیل قرآنی پیش کرتے ہیں:

 فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ الل ه لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَی الل ه إِنَّ الل ه يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِینَ. (1)

"پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کردو- ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے امر جنگ میں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے".

آیة شریفہ میں حکم ہوا ہے کہ اپنے مہم کاموں میں ایک دوسرے  کے ساتھ مشورہ کرو. اور امامت یا خلافت بھی ایک اہم کام ہے  اسی لئے ہم نے بھی باہمی مشورے سے اپنا خلیفہ انتخاب کیا ہے .

شیعہ اشکال کرتے ہیں : آیة شریفہ میں ہمارے اپنے کاموں میں  مشورہ کرنے کا حکم ہے لیکن امامت کا انتخاب کرنا ہمارا کام تو نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  کا کام ہے کہ وہ جس کا انتخاب کریں ، ان کی مرضی ہے  اس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے .دوسری دلیل یہ ہے کہ ہمارے  مشورے کے مطابق عمل کرنا رسول پر واجب نہیں ہے کیونکہ فرمایا : فتوکل علی اللہ. ثالثاً بنی عامر جب مسلمان ہوئے تو رسول خدا (ص)پر منت چڑھاتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ چونکہ آپ  ہماری وجہ سے قوی ہو گئے ہیں تو اپنے بعد آپ کا جانشین ہماری قوم سے ہونا چاہئے.تو اس وقت فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں  ہے جو جس کو چاہے منتخب کرے

--------------

(1):-  آلعمران ۱۵۹.

۹۹

لزوم امامت پر دلائل

سوال یہ ہےکہ امام کا ہونا کیوں ضروری ہے ؟

 جواب یہ کہ تین وجوہات کی بنا پر امام کا ہونا ضروری ہے :

۱.نبی کریم (ص)کے بعد مختلف علمی میدانوں جیسے تفسیر قرآن ، تبیین احکام، یہود و نصاری ٰکی طرف سے کئے جانے والے شکوک و شبہات  کا جواب دینے والا نیز دین مبین اسلام کو تحریفات سے بچانے والا موجود ہو.

۲.امّت اسلامی کیلئے اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق تھے .بیرونی خطرات جیسے  روم  کی حکومت کہ جن کے ساتھ بہت سی جنگیں لڑی  گئیں .اور ایران کے اس بادشاہ نے ایک دفعہ بہت ہی اہانت کے ساتھ یمن کے والی کو لکھا : تو دو نفر کو بھیج کر  ان ( رسول خدا (ص)) کو میرے پاس  لے آؤ.اندرونی خطرات جیسے منافقین کی جانب سے تھے جو ستون پنجم کے نام سے مشہور تھے جن کی مذمت میں مکمل سورہ  منافقون نازل ہوا .

حیران کن بات یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں کبھی ان منافقین نے سر نہیں اٹھایا جو رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہر وقت اسلام کے خلاف جنگ کرتے رہےل تھے ، لیکن جب علی کی خلافت کا دور آیا تو پھر انہوں نے سر اٹھایا جس کی وجہ سے علی کو خلافت کے پورے چار سال جنگ اور جہاد میں مصروف رہنا پڑا .

سوال: یہ کس بات کی دلیل ہے ؟!! کیا ایسا نہیں کہ ان کے دور خلافت میں منافقین کو آسائشی زندگی میسر ہوئی؟

۳.قاعدہ لطف  ، کہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو گمراہی اور ضلالت سے بچنے کیلئے نبی کے بعد کسی ہادی یا رہبر یا امام بھیجا جائے .

اس کا منطقی قاعدہ  یہ ہے :

پہلامقدمہ : امامت کا منتخب کرنا بندوں پر ایک لطف ہے.

۱۰۰