شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات15%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219356 / ڈاؤنلوڈ: 7098
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

دوسرامقدمہ: اپنے بندوں پر لطف کر نا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے ، کیونکہ وہ حکیم ہے اور حکمت الٰہی یہ ہے کہ بندوں کو کمال تک پہنچائے، اگر لطف نہ کرے تو نقض غرض لازم  آتا ہے

نتیجہ: اللہ تعالیٰ پر امام کا منتخب کرنا واجب ہے

اشکال: رسول خدا (ص) اپنا جانشین معین کر کے گئے ہیں، لیکن اہل سنت اس بات کو نہیں مانتے .

ابوبکر  اور عمر دونوں اپنا  اپنا جانشین معین کرکے گئے ہیں،اس بات کو اہل سنت قبول کرتے ہیں،

ہم کہیں گے کہ یہ دونوں رسول سے زیادہ عاقل اور ہوشیار تھے؟!!

اگر آپ کہیں گے : نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول سے یہ لوگ زیادہ ہوشیار اور عاقل ہوں. تو اس کا مطلب یہ ہے کہ  ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا.

اہل سنت علی ؑکو خلیفہ بلا فصل کیوں نہیں مانتے؟

اہل سنت کتہے ہیں کہ ہم علی کو خلیفہ بلا فصل نہیں مانتے کیونکہ ان کا نام قرآن میں نہیں آیا ہے .

شیعوں کا  جواب:

۱. کیا اللہ تعالیٰ کے سارے نبیوں کا نام قرآن  میں آیا ہے ؟!

۲.کیا خلیفہ اول اور دوم(ابوبکر اور عمر) کا نام قرآن میں آیا ہے؟

۳.غدیر خم میں رسول خدا(ص)نے اعلان کیا ہے :

 رُوِيَ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ ع قَالَ حَجَّ رَسُولُ الله ص مِنَ الْمَدِینَةِ وَ قَدْ بَلَّغَ جَمِیعَ الشَّرَائِعِ قَوْمَهُ مَا خَلَا الْحَجَّ وَ الْوَلَايَةَ فَأَتَاهُ جَبْرَئِیلُ ع فَقَالَ لَهُ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ الله عَزَّ وَ جَلَّ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ إِنِّی لَمْ أَقْبِضْ نَبِیّاً مِنْ أَنْبِيَائِی وَ رُسُلِی إِلَّا بَعْدَ إِكْمَالِ دِینِی وَ تَكْثِیرِ حُجَّتِی

۱۰۱

وَ قَدْ بَقِيَ عَلَيْكَ مِنْ ذَلِكَ فَرِیضَتَانِ مِمَّا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ أَنْ تُبَلِّغَهُمَا قَوْمَكَ فَرِیضَةُ الْحَجِّ وَ فَرِیضَةُ الْوَلَايَة...وَ أَوْحَی إِلَيَّ بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ یا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْآيَةَ مَعَاشِرَ النَّاسِ مَا قَصَّرْتُ عَنْ تَبْلِیغِ مَا أَنْزَلَهُ وَ أَنَا مُبَيِّنٌ سَبَبَ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّ جَبْرَئِیلَ ع هَبَطَ إِلَيَّ مِرَاراً ثَلَاثاً يَأْمُرُنِی عَنِ السَّلَامِ رَبِّی وَ هُوَ السَّلَامُ أَنْ أَقُومَ فِی هَذَا الْمَشْهَدِ وَ أُعْلِمَ كُلَّ أَبْيَضَ وَ أَحْمَرَ وَ أَسْوَدَ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ أَخِی وَ وَصِيِّی وَ خَلِیفَتِی وَ الْإِمَامُ مِنْ بَعْدِی الَّذِی مَحَلُّهُ مِنِّی مَحَلُّ هَارُونَ مِنْ مُوسَی إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِی وَلِيُّكُمْ بَعْدَ الله وَ رَسُولِهِ وَ قَدْ أَنْزَلَ الله تَبَارَكَ وَ تَعَالَی عَلَیّ بِذَلِكَ آيَةَ إِنَّما وَلِيُّكُمُ الله وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ يُقِیمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ وَ عَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ الَّذِی أَقَامَ الصَّلَاةَ وَ آتَی الزَّكَاةَ وَ هُوَ رَاكِعٌ يُرِیدُ الله عَزَّ وَ جَلَّ فِی كُلِّ حَالٍ ...

مَعَاشِرَ النَّاسِ فَضِّلُوا عَلِیّاً فَإِنَّهُ أَفْضَلُ النَّاسِ بَعْدِی مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثَی بِنَا أَنْزَلَ الله‏... وَ بَقِيَ الْخَلْقُ مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَغْضُوبٌ مَغْضُوبٌ مَنْ رَدَّ قَوْلِی هَذَا عَنْ جَبْرَئِیلَ ع عَنِ الله تَعَالَی فَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ ما قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَ اتَّقُوا الله أَنْ تُخَالِفُوا إِنَّ الله خَبِیرٌ بِما تَعْمَلُونَ معَاشِرَ النَّاسِ تَدَبَّرُوا الْقُرْآنَ وَ افْهَمُوا آيَاتِهِ وَ مُحْكَمَاتِهِ وَ لَا تَتَّبِعُوا مُتَشَابِهَهُ فَوَ الله لَهُوَ مُبَيِّنٌ لَكُمْ نُوراً وَاحِداً وَ لَا يُوَضِّحُ لَكُمْ تَفْسِیرَهُ إِلَّا الَّذِی أَنَا آخِذٌ بِيَدِهِ وَ مُصْعِدُهُ إِلَيَّ وَ شَائِلٌ بِعَضُدِهِ وَ مُعْلِمُكُمْ أَنَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَ هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَخِی وَ وَصِيِّی وَ مُوَالاتُهُ مِنَ الله تَعَالَی ‏.(۱)

--------------

(۱):-  روضة الواعظین و بصیرة المتعظین،  ج۱،ص۸۹.   

۱۰۲

امام باقر(ع) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) مدینہ سے حج پر تشریف لے گئے اور حج اور ولایت کے حکم کے علاوہ اسلام کے سارے احکام لوگوں تک پہنچائے .جبرئیل امین(ع)  آئے اور فرمایا: اے محمد (ص) اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام کہا ہے  اور فرمایا ہے کہ میں نے اپنے کسی بھی نبی یا رسول کو (لوگوں کے درمیان سے)نہیں اٹھایا ہے جب تک اپنے دین کو کامل نہ کرےاور ان کی  حجت تمام نہ ہوجائے اور تجھ پر دو فریضے باقی ہے جن کا اپنی قوم تک پہنچانا تم پر فرض ہے وہ فریضہ حج اور فریضہ ولایت ہے ...اور مجھ پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی ہے کہ جو کچھ مجھ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچادوں.اس کے بعد فرمایا: اے لوگو!میں نے جو کچھ انہوں نے نازل کیا تھا ان کے پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور میں اس آیة شریفہ کی شان نزول بتاتا ہوں کہ جبرئیل میرے پاس تین دفعہ تشریف لائے  اور اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچایا جس کا مقصد یہ تھا کہ میں تمہارے سامنے آؤں اور سارے لوگوں (گورے ،کالے اور سرخ) کو یہ اعلان کروں کہ علی ابن ابیطالب میرا بھائی ،وصی، خلیفہ اور میرے بعد امام ہوگاجس کا مقام میری نسبت ایسا ہوگاجوہارون کی نسبت موسیٰ سے ہےمگر میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.وہ تمہارے ولی ہیں اللہ اور اس کےرسول کےبعداور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی شان میں آیة ولایت نازل کی ، جس کا مصدس علی ابن ابیطالب ہیں جنھوں نے نماز قائم کی اور حالت رکوع میں زکات دی اور ہر حال میں اللہ کی رضایت کے طالب رہے... اے لوگو! علی (ع)کی فضیلت کا اقرار کرو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق میرے بعدسارے مرد اور عورت میں افضل ترین انسان ہیں اور وہ لوگ لعنتی ہیں لعنتی ہیں اور مغضوب ہیں مغضوب ہیں جنہوں نے میری باتوں کو رد کیا جو جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے وحی نازل کی ہے .پس  ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیج دیا ہے اور اللہ کے فرامین کی مخالفت  سے ڈرتے رہو کہ وہ یقیناً تمہارے اعمال سے باخبر ہے.

اے لوگو!قرآن کریم میں غور وفکر کرو اور اس کی آیتوں کو سمجھو محکمات پر عمل کریں اور متشابہات کی پیروی نہ کریں ،خدا کی قسم وہ تمہارے لئے ایک نور کواجالا کرنے والا ہے جس کی تفسیر تمہارے لئے واضح نہیں ہوگی  سواے اس انسان   کے ذریعےجس

۱۰۳

کے ہاتھ کو میں نے پکڑ  کر بلند کیا اور تم لوگوں کے سامنے  اعلان کیا :جس جس کا میں مولا ہوں اس اس  کایہ علی مولا ہے جو علی ابن ابیطالب ہیں ،میرے بھائی  اور جانشین ہیں ،ان کی ولایت  کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے  لوگوں پر فرض کیا گیا ہے یہ خطبہ غدیر کا اقتباس ہے جس سے قرائن حالیہ ، مقامیہ اور قرائن مقالیہ  کے ذریعے ولایت علی پر استدلال کر سکتے ہیں.کہ پہلے الست اولی بکم من انفسکم کہہ کر اقرار لینا بعد میں من کنت مولاہ... کہنا اور اکمال دین اتمام حجت کے موقع پر رسول خدا(ص) کا تکبیر کہنا ، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ولایت علی  سے مراد اولی بالتصرف ہے نہ دوست .

جانشین پیغمبر (ص)کو صحابہ نے کیوں منصب خلافت سے دور رکھا؟

اہل سنت اشکال کرتے ہیں کہ اگر  لوگوں کے سامنے علیؑ کا نام لیکر جانشین بنایا ہی تھا توپیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد صحابہ نے کیوں علی ؑکو منصب  خلافت پر نہیں بٹھایا؟

شیعہ جواب دیتے ہیں:

 الف: سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نبی کی باتوں کو ٹھکرایا گیا.

 ب:یا نبی کی باتوں کو فراموش کیا گیا، کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ دومہینے سے زیادہ عرصہ بھی نہیں گذرا تھا.

ج: یا انہوں نے قول نبی کے مقابلے میں اجتہاد کیا ہے .ان تینوں جواب میں سے جو بھی  جواب انتخاب کرے ، وہ لوگ  لاجواب ہوجائیں گے .

۱.دعوت ذوالعشیرہ میں علی(ع) کا نام لے کر لوگوں کے سامنے اپنا جانشینی کا اعلان کیا گیا.

۲.نام لینے سے زیادہ اوصاف اور خصوصیات کا بیان کرنا  بہتر ہے ، کیونکہ دوسرے لوگ اس سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکے .جیسا کہ تاریخ میں بہت سے لوگوں نے امام مھدی ہونے کا جھوٹا دعوا کیا.

۱۰۴

۳.جہاں لوگوں کو علی(ع) ہی کی دشمنی میں پیغمبر (ص) کی آواز کو حسبنا کتاب اللہ کہہ کر خاموش کرنا آسان ہوا تو ایک کاغذ کو جس پر علی (ع)کا نام لکھ دے، پھاڑ دینا تو اور بھی آسان تھا.

اگر خلفاء برحق نہیں تھے تو علی ؑنے خاموشی کیوں اختیار کی؟

جواب: امیرالمؤمنین خود فرماتے ہیں کہ ۲۵ سال کی گوشہ نشینی میرے لئے ایسا تھا کہ جیسے حلق میں ہڈی اٹکی ہوئی ہو مگر علی نے صبر کی ، ورنہ علی ولی مطلق تھے اپنا حق چھین سکتے تھے ۔کیوں نہ ہو جو زندگی میں کبھی نہیں ہارے جو کبھی کسی کی طرف محتاج نہیں رہے؛ بلکہ لوگ خود علی پر محتاج ہوتے تھے.اور وہ لوگ محتاج ہوتے تھے جو خلہا  رسول ہونے کا تو دعوا کرتے تھے لیکن کار خلافت انجام نہیں دے سکتے تھے اورمولا ؑخود فرماتے ہیں کہ یہ بات تمھارے دلوں میں ہے کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں لیکن میری بازؤں میں وہی طاقت ہے جو جنگ بدر و حنین میں تھی. 

خاموشی کی اصل وجہ یہ تھی کہ اگر علی تلوار اٹھاتے تو حضور کی ۶۳ سالہ زندگی کی تمام زحمتیں ضائع ہوجاتیں۔ علی جیت بھی جاتے اور اقتدار بھی حاصل  ہوجاتے مگر حضور کی تبلیغ رایگان ہوجاتی اور لوگ کہتے کہ علی نے رسول کی ساری محنت پر  پانی پھیر دیا خود مولا فرماتے ہیں کہ اگر میں تلوار اٹھاتا تو ایک لاکھ سے زیادہ جو مسلمان ہوئے تھے پھر اپنی اصلیت کی طرف لوٹ جاتے ، اور میرا مقصد یہ نہیں بلکہ میرا مقصد تو لوگوں کو ظلمت کی تاریکی سے نکال کر ہدایت کے نور کی طرف دعوت دوں، ضرورت کے موقع پر ہدایت کرتا رہوں، یہ ہے ولی کا کام.نبی پہنچاتا ہے ولی بچاتا ہے یعنی تلوار نیام میں رکھ کر کار رسالت کی حفاظت کی ، گلے میں رسی ڈالنے کو قبول کیا کیونکہ آپ کو اپنی ولایت کی فکر نہیں تھی کار نبوت کی حفاظت کی فکر تھی.

باقی اصحاب اور امام علی میں فرق یہی تھا کہ علی، رسول کی رسالت اور کارنبوت کی حفاظت فرماتے تھے اور باقی اصحاب، نبی کے اصولوں کو مٹا کر خود اپنا اصول قائم کرتے ہیں جنگ نہروان میں آخر وقت تک لوگوں کو ہدایت کرتے رہے آخر کار تلوار اٹھانا پڑا۔

۱۰۵

 اس وقت ۱۳ افراد بھاگ کھڑے ہوئے جن میں سے ایک ابن ملجم مرادی بھی تھا اس وقت فرمایا: یہ میرا قاتل ہے اور دوسری مرتبہ جب آپ میثم تمّار کی دکان میں تشریف فرما تھے ، ابن ملجم مرادی سامنے سے گزرا تو فرمایا: یہ میرا قاتل ہے عرض کیا:مولا!پھر اس کو کیوں مہلت دیتے ہو؟ فرمایا: جرم سے پہلے سزانہیں دی جاسکتی.

جب  امیر المؤمنین  جنگ نہروان کے بعد ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو آپ سے پوچھاگیا کہ آپ نےجس طرح ناکثین اور قاسطین اور مارقین  اور طلحہ اور زبیرکے ساتھ جنگ کی اسی طرح ابوبکر اور عمر کے ساتھ جنگ کیوں نہیں کی؟ تو آپ نے فرمایا: میں اپنی زندگی کے پہلے دن  سے ہی مظلوم واقع ہوا اور میرے حقوق کو دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتا رہا تو اشعث بن قیس اٹھا اور کہا: یا امیر المؤمنین! کیوں آپ نے تلوار نہیں اٹھائی اور اپنا حق نہیں چھینا ؟ تو فرمایا : اے  اشعث! تو نے ایک ایسے مطلب کے بارے میں سوال کیا تو اس کا جواب اور دلیل کو بھی تفصیل سے سنو: میں نے چھ انبیاء الہی کی پیروی کی ہے.

۱.  حضرت نوح ،  جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے:

فَدَعا رَبَّهُ أَنِّی مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ (۱)

۲.  حضررت لوط ، جس کے بارے میں فرمایا:

 لَوْ أَنَّ لِی بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِی إِلی‏ رُكْنٍ شَدِیدٍ (۲) ان دونوں آیتوں میں اب اگر کوئی یہ کہہ دے کافروں سے خوف کی وجہ سے نہیں فریائے ہیں تو وہ کافر ہے تو انبیاء کے ولی اور جانشین تو خود انبیاء سے زیادہ معذور ہیں(۳)

۳.  حضرت ابراہیم خلیل  کہ جن کے بارے میں فرماتے ہیں :

وَ أَعْتَزِلُكُمْ وَ ما تَدْعُونَ مِنْ دُونِ الل ه (۴)

--------------

(۱):- بقرہ ۱۲۴.

(۲):- النساء : ۵۹.

(۳):- علی عطائی، پرسش وپاسخ در مدینہ منورہ،ص ۲۱۵.

(۴):- احزاب ۳۳.

۱۰۶

۴.  حضرت موسیٰ :فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ .(۱)

۵.  حضرت ہارون کی میں نے پیروی کی  ، جس نے فرمایا:ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِی وَ کادُوا يَقْتُلُونَنِی. (۲)

کیا ہارون نے اپنی قوم سے خوف کی وجہ ایسا نہیں کیا؟ اگر اس بات کا انکار کرے گا تو  قرآن کا انکار ہوگا.

۶.  میں نے اپنے بھائی حضرت محمد (ص) کی پیروی کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی ، جس طرح انہوں نے احتیاط اور قریش والوں کے خوف سے مجھے اپنے بستر پر سلا کر خود غار  میں چھپ گئے. تو جو بھی یہ کہے کہ رسول خدا کفار قریش کے خوف سے نہیں چھپے تھے تو گویا وہ قرآن کا منکر ہوگا.

اس وقت سارے لوگ یک زبان ہوکر کہنے لگے : یا امیر المؤمنین ! آپ نے بالکل سچ کہا اور ہم اس بارے میں جاہل تھے(۳)

دوسری روایت میں ہے کہ امام کوفہ میں خطبہ دے رہے تھے جس کے آخر میں فرمایا: میں لوگوں پر اولویت رکھتا ہوں جس دن مجھے رسول خدا (ص)نے اپنا جانشین بنایا لیکن جس دن رسول خدا رحلت فرماگئے تو اسی دن سے میں مظلوم واقع ہوا.تو اس وقت اشعث نے کہا: آپ ہر خطبہ میں یہی فرماتے ہو کہ میں لوگوں پر اولویت رکھتا ہوں اور میرا حق غصب ہوا اور ظلم ہوا تو کیوں ان دونوں کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی؟!

آپ نے فرمایا:اے شرابی کی اولاد! خدا کی قسم  ! میرا اپنا حق نہ لینا نہ کسی سےڈر اور خوف کی وجہ سے تھا اور نہ موت کے ڈر سے، بلکہ صرف رسول خدا (ص)کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اس  کا وفا کرنا تھا.کیونکہ انہوں نے مجھے خبر  دی تھی

--------------

(۱):- 

(۲):-

(۳):-

۱۰۷

کہ یہ امّت میرے بعد تجھ پر جفا کریگی اور میری وصیت کو ٹھکرائے گی۔ جسے میں نے تیری خاطر کی ہے  اور کہا ہے : میری نسبت تیرے ساتھ موسیٰ اور ہارون کی نسبت ہے تو میں نے عرض کیا : اے رسول خدا ! اس وقت میرا وظیفہ کیا ہے  ؟ تو فرمایا: اگر تمھیں کوئی یار و مددگارمل جائیں تو غاصبوں کے ساتھ جنگ کرو اور اپنا حق لے لو لیکن اگر کوئی مدد کرنے والے نہ ملے تو سکوت اختیار کرلو.اور اپنا خون کی حفاظت کرنا اور مظلومانہ مجھ سے قیامت کےدن ملحق ہوجانا.پس میں نے بھی رسول خدا  کی رحلت کے بعد ان کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہوگیا اور اس کے بعد قسم کھائی کہ جب تک قرآن کو جمع نہ کروں گھر سے نہیں نکلوں گا.اس کےبعد میں فاطمہ زہرا ، حسن اور حسین کے ہاتھوں کو پکڑ ہر اصحاب اور اہل بدر و حنین کے دروازے پر گئے لیکن ہر ایک نے انکار کیا سوائے چار افراد(سلمان، عمار، ابوذر،اور مقداد) کے.اور اپنے عزیزوں میں سے سواے عقیل اور عباس کے کسی نے بھی مدد نہیں کی.

اشعث  نے کہا:عثمان نے بھی اسی طرح استدلال کیا تھا کہ ان کا بھی کوئی یاور نہیں تھا اس لئے مظلومانہ قتل ہونے کو تسلیم کیا!

امام نے فرمایا: اے شرابی کے بیٹے!جس طرح تو نے قیاس کیا  ایسا نہیں کیونکہ عثمان  ایسے مسند پر بیٹھا تھا جس کا وہ حقدار نہیں تھا  اور کسی کا لباس پہن رکھا تھا ...اگر مجھے صرف ۴۰ نفر مل جاتے تو میں ابوبکر کا مقابلہ کرتا(۱)

اہل سنت: علی (ع) کو لوگوں نے نہیں مانا اور دین بھی منہدم نہیں ہوا۔ الحمد للہ!اسلام بڑے آب و تاب کے ساتھ باقی ہے. یہاں تک  کہ ایران اور روم بھی فتح ہوا اور سب مسلمان بھی ہوگئے.

-------------

(۱):-

۱۰۸

    جواب شیعہ : اسلام پر شدید ضربہ وار ہوا ؛

     امام حق بھی دین اسلام کی حفاظت کی خاطر کبھی خاموش نہیں رہے.

     دین میں بہت سارے انحرافات پیدا ہوگئے.

     اصل استاد کا جواب یہ کہ جو داخلی خطر تھا ، اس نے اپنا کام کردیا .ورنہ سارے منافقین کہاں چلے گئے ان تینوں کے دور میں ، یہاں تک کہ علی آئے تو دوبارہ سر اٹھانا شروع کیا.

: چگونہ ما منکر ولایت حضرت علی(رضی اللہ عنہ) می شویم و حال آنکہ علمای احناف ہمچو حاکم حسکانی می گوید: اولی الامر حضرت علی(رضی اللہ عنہ)است«اولی الامر هو علّی الذی ولاه اللّه بعد محمد ـ صلی الله علیه و سلّم ـ فی حیاته حین خلفه رسول اللّه بالمدینة».[ ۸۱]

الفصول المہمة: ۳۰ ـ مستدرک حاکم ۳: ۴۸۳.

[۷۹] .ازالة الخفاء دہلوی ۲: ۲۵۱ ـ کفایة الطالب: ۴۰۷، شرح عینیة

(آلوسی) ۱۵ ـ المجدی (ابن صوفی): ۱۱، ئد

تاریخ بناکتی: ۹۸ ـ نور الابصار: ۷۶.

[۸۰].الاستیعاب ۳: ۱۰۹۷.

[۸۱] .شواہد التنزیل ۲: ۱۹۰.

[۸۲] .سیر اعلام النبلاء ۱۹: ۳۲۸. «ذکر ابوحامد فی کتابه سر العالمین و کشف ما فی الدارین، فقال: فی حدیث

من کنت مولاه فعلی مولاه: ان عمر قال لعلی: بخ بخ. اصبحت مولی کل مؤمن، قال ابوحامد:

 هذا تسلیم

۱۰۹

ورضی ثم بعد هذا غلب الهوی حباً للریاسة، وعقد البنود وامر الخلافة ونهیها، فحملهم علی الخلاف فنبذوه

وراء ظهورهم، واشتروا به ثمناً قلیلا فبئس ما یشترون.».

عصمت امام پر دلیل

۱.  امام محافظ شریعت ہے  اور شریعت کی حفاظت وہی کر سکتا ہے جو خود پاک اور معصوم ہو.

۲.  آیة شریفہ :وَ إِذِ ابْتَلی‏ إِبْراهِیمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّی جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِی قالَ لا يَنالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ‏. (۱)

" اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم (ع)کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں. انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا".

 اس آیة شریفہ سے یوں عصمت پر استدلال کیا جاتا  ہے:ظالم ہونے کی تین حالتیں ہیں:

الف: یا انسان پوری زندگی ظلم کی حالت میں گذارتا ہے

ب: یا زندگی کے شروع میں عادل تھا بعد میں ظالم ہوا ہے حضرت ابراہیم(ع) کیلئے یہ تو تصور نہیں کرسکتا کہ آپ نے ان دو گروہ کیلئے امامت کا مطالبہ کیا ہو.

--------------

(۱):- البقرة : ۲۴۵

۱۱۰

ج: پہلے وہ ظالم تھا اب عادل  بن گیا ہے کہ اس کیلئے ابراہیم نے امامت کا مطالبہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے قبول نہیں کیا.

د: پس ایک چوتھا گروہ باقی رہتا ہے کہ امامت کے وہی لائق ہوسکتا ہے ، جو پوری زندگی میں  کبھی ظالم واقع نہیں ہوا ہو.

۳.  آیة شریفہ:یا أَيُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا الل ه وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی‏ شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَی الل ه وَ الرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِالل ه وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ تَأْویلاً .(۱)

"ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے".

اس آیة شریفہ میں حکم اطاعت مطلق ہے کوئی قید نہیں  بلکہ جس طرح اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے.پس جس طرح اللہ اور رسول کی اطاعت واجب  ہے اسی طرح ان کے جانشین کا حکم بھی واجب ہے.کیسے؟

مقدمہ۱. اولی الامر نبی کے ساتھ ذکر ہوا ہے .پس اگر  یزید، ولید  اور معاویہ کو رسول کے ساتھ  رکھیں تو یہ رسالت کی اولین توہین ہے کیونکہ یہ لوگ اولی الامر کا مصداق نہیں بن سکتے.

--------------

(۱):- مائدہ ۵۵.

۱۱۱

مقدمہ ۲. اولی الامر مطلق آیا ہے جو بتاتا ہے کہ وہ بھی اللہ اور رسول کی طرح معصوم ہو. کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو نقض غرض لازم آتا ہے.ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ صرف نیک کاموں میں رسول کی طرح ہونا چاہئے.تو اس کیلئے جواب یہی ہے کہ آیة مطلق ذکر ہوا ہے.

مقدمہ ۳. آیة اطیعوا اللہ... سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ خلیفہ معصوم تا قیامت موجود ہونا چاہئے کیونکہ اسلام دین خاتم ہے اور اس کا دستور پورے عالم بشریت کیلئے ہے.

کس بنیاد پر اہل بیت  (ع)معصوم؟ ایک مختصر مناظرہ

مسجد النبی(ص)میں ایک شخص نے کہا: تم شیعہ لوگ کس بنیاد پر اہل بیت کو معصوم مانتے ہو؟

شیعہ: تم یہ بتاؤ کہ زہرا نے کونسا گناہ کا ارتکاب ہوا ہے؟ علی (ع)نے کون سا جرم کیا ہے؟ حسنین نے کون سے برا کام انجام دیا ہے ؟جبکہ تم لوگ خود معترف ہیں کہ ابوبکر و عمر لمبی مدت تک شرک و کفر کی پلیدی میں رہے ہیں اور بت پرستی کرتے رہے ہیں. عائشہ اور معاویہ علی کے ساتھ جنگ کرکے کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب  ہوئے؟  آیہانّما یرید الل ه اور حدیث ثقلین کی تلاوت کی کیا اس سے بڑھ کر کوئی دلیل چاہئے؟پھر وہ ناراض ہو کر چلا گیا.(۱)

--------------

(۱):- باب فضائل علی بن ابیطالب، ص ۱۰۴۳،ح۲۴۰۸.

۱۱۲

شیعہ اہل بیتؑ کو معصوم مانتے ہیں

شیعہ اہل بیت کو معصوم کیوں مانتے ہیں جبکہ اہل سنت نہ اہلبیت کو اور نہ خلفاء ثلاثہ کو معصوم مانتے ؟!

جواب: ہمارے پاس عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں جن  سے اہل سنت بھی انکار نہیں کرسکتے۔ جن کی بناء پر ہم انہیں معصوم مانتے ہیں:

۱. قرآن کریم:انّما یرید الل ه لیذ ه ب عنکم الرجس ا ه ل البیت و یط ه رکم تط ه یراً .(۱)

۲. صحیح مسلم میں عائشہ سے نقل ہوا ہے: ایک دن رسول خدا (ص)اپنے کمرے سے باہر نکلے اپنا اونی سیاہ عبا پہنا ہوا تھا حسن و حسین آئے اس عبا کے اندر داخل ہوگئے پرں فاطمہ آئی اس میں داخل ہوگئی پھر علی آئے اور اس  عبا میں داخل ہوئے. پھر فرمایا:انما یرید الل ه .. (۲)

مسند احمد بن حنبل میں نقل ہوا ہے:

انّ النبی کان یمرّ بباب فاطمه ستة اشهر اذا خرج الی صلوة الفجر یقول : الصلوة یا اهل البیت انّما یرید الل ه لیذ ه ب عنکم الرجس ا ه ل البیت و یط ه رکم تط ه یراً .(۳)

عصمت

خلاصہ: انسانی کہ گاہی گناہ میکند و گاہی نمیکند، مختاراست. اگر بہ درجہ اتقیا برسد انتخاب کار خوب و ترک فعل بد نیزتقریبا ضروری می شود. شہود گناہ برای معصوم، مانند شہود آتش است برای ما. این جبر نیست.

--------------

(۱):-  احزاب۳۳.

(۲):- محمد طاہری ، الکردی، ج۱، ص۱۸۸.

(۳):- الفصول المہمة: ۳۰ ـ مستدرک حاکم ۳: ۴۸۳

۱۱۳

انسانی را فرض کنید کہ دارای ملکہ ی تقوا و عدالت نیست، گاہی گناہی را مرتکب می شود و گاہی مرتکب نمی شود. آیا این شخص را مختار می دانیم یا نہ؟ قطعاً می دانیم. اکنون فرض کنید کہ ہمین شخص در اثر مصاحبت با اتقیا و صلحا دارای ملکہ ی تقوا می شود، مانند ابوذر؛ یعنی، شان و مقام و روحیہ اش آن چنان بالا می رود کہ ہرگز دروغ نمی گوید یا مثلًا شرب خمر نمی کند، بہ مرحلہ ای می رسد کہ انتخاب کار خوب، تقریباً حکم ضرورت پیدا می کند و ترک فعل بد نیز ضروری می شود- چنین شخصی بہ مرحلہ ای می رسد کہ ہرگز مرتکب گناہ نمی شود، او مراتب معنوی را شہود می کند. شہود مراتب معنوی برای معصوم؛ مثلًا، مانند شہود آتش است برای ما. برای ما محال است کہ دست خود را وارد آتش کنیم- آیا این را جبر می گوییم؟ نہ، صفات روحی و شہود معنوی آن معصوم ہم طوری است کہ محال است مرتکب گناہ گردد؛ آیا این جبر است؟ نہ.(۱)

ولایت علی پر دلیلیں

آیة شریفہ ولایت:إِنَّما وَلِيُّكُمُ الل ه وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ يُقِیمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ .(۲)

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکواة   دیتے ہیں.اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں سارے اسلامی فرقے متفق ہیں کہ یہ علی(ع) کی شان  میں نازل ہوئی ہے چنانچہ انس بن مالک نقل کرتے ہیں کہ مسجد میں ایک سائل آیا اور اس نے خیرات مانگی، اس وقت علی(ع) رکوع کی حالت  میں  مشغول نماز  تھے انہوں نے اشارہ کیا اور اپنی انگوٹھی دیدی اس و قت کہ کوئی ایک بھی مسجد سے نہیں نکلا تھا ، جبرئیل امین یہ آیت لیکر نازل ہوا .

فخر رازی نے معنای ولایت پر کئی اشکالات کئے ہیں:

۱۱۴

۱.اس آیت سے پہلی والی آیات کا سیاق یہودیوں اور نصیریوں سے دوستی کرنے سے روک رہا ہے ،لہذا یہاں ولایت سے مراد بھی دوستی ہے .ورنہ اس آیت اور دوسری آیات کے درمیان تفکیک لازم آتا ہے.  جواب : جہاں تفکیک پر دلیل اگر موجود ہو تو کوئی بات نہیں.نیز دوسری آیات کے ساتھ اس کا خاص رابطہ  بھی نہیں ہے.

۲.آیة شریفہ میں ہم راکعون کہہ کر جمع کا صیغہ لایا ہے اور اللہ اور رسول کے علاوہ کسی فرد واحد (علی) پر حمل کرنا درست نہیں ہے .بلکہ یہ خلاف ظاہر ہے ۔

جواب : اس آیة کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات جیسے ندعوا ابنائنا ...آئی ہیں جبکہ رسول ایک فرد کے علاوہ کوئی اور تو نہیں تھا .

ثانیاً تعظیم کی خاطر بھی صیغہ جمع استعمال ہوتا ہے

ثالثاً تشویق کیلئے بھی جمع کا صیغہ استعمال ہوتا ہے .

۳.یہ نماز میں  حضور قلب  نہ رکھنے پر دلالت کرتی ہے جو علی کی شان کے خلاف ہے .

جواب : یہ عمل خود بھی عبادت تھی اور اللہ ہی کی خاطر تھا. فقیروں کا خیال رکھنا اور ان کو خیرات دینا اللہ تعالیٰ کو صدقہ و خیرات دینے کے مترادف ہے. چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے :

 مَنْ ذَا الَّذی يُقْرِضُ الل ه قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ أَضْعافاً كَثیرَةً وَ الل ه يَقْبِضُ وَ يَبْصُطُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ .(۱)

"کون ہے جو خدا کو قرض حسن دے اور پھر خدا اسے کئی گنا کرکے واپس کردے خدا کم بھی کرسکتاہے اور زیادہ بھی اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹائے جاؤگے".

۱۱۵

۴.زکواۃ کاادا کرنا واجب تھا ، علی نے زکواة کی ادائیگی میں تاخیر کی ہے یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا.

جواب یہاں زکواة سے مراد اصطلاحی ہے نہ لغوی،ثانیاً  زکواة مستحبی  تھا.

۵.یہ آیت ابوبکر کی شان میں نازل ہوئی ہے نہ علی کی شان میں

جواب : کوئی ایک دلیل تو لے آؤ.

پس یہاں ولایت سے مراد دوستی ، محبت، نصرت، ...نہیں بلکہ اولی بالتصرف مراد ہے دلیل: انما اداة حصر ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تمھارا ولی فقط اور فقط یہی تین ہیں ، یعنی اللہ ، رسول اور ان صفات  مذکورہ کے حامل شخص اس صورت میں اگر ہم محبت یا دوستی مراد لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی اور مؤمن سے دوستی یا محبت نہ کرے.

ثانیاً: اللہ اور ان کے رسول سے فقط محبت کرنا کافی ہے یا اولی بالتصرف کا بھی قائل ہونا بھی ضروری ہے؟  پس  اولی الامر کو بھی ہم اسی معنی میں لیتے ہیں .

ثالثاً:کلمہ اطیعوا مطلق ہے اولی الامر کیلئے کوئی الگ اطیعوا کا ذکر نہیں ہوا ہے پس جس معنی میں رسول کی اطاعت واجب ہے اسی معنی میں علی کی اطاعت بھی واجب ہے

رابعاً عربی گرائمر میں جب بغیر کسی قید کے کوئی لفظ استعمال ہو تو اسے مختلف معنی میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے.

اہل بیت (ع)کون؟

صحیح مسلم میں ایک مفصّل روایت ذکر ہوا ہے: زید بن ارقم کہتا ہے کہ رسول خدا (ص)نے مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مفصل خطبہ دیا اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد کہا: اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں خدا کی طرف سے مامور ہوں میں تمھارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں. ایک کتاب خدا دوسرے میری اہل بیت. راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ(ص)نے اس جملے کو تین بار دہرایا. زید بن ارقم سے سوال کیا اہل بیت سے کون لوگ مراد ہے؟

۱۱۶

کیا آپ کی بیویاں بھی شامل ہیں؟ زید نے کہا: نہیں خدا کی قسم جب بیوی کو طلاق دی جاتی ہئے تو وہ اپنے والدین کے پاس چلی جاتی ہے اہل بیت کی بنیاد اور اصل مرد ہے. ایل بیت وہ لوگ ہیں جن پر رسول اللہ (ص)کے بعد صدقہ حرام ہو. زید سے سوال ہوا کہ جن پر صدقہ حرام ہے اور عدل قرآن ہے اور جن کے بارے میں رسول خدا نے سفارش کی ہے ، کون لوگ ہیں؟

زید نے کہا: آل علی ابن ابیطالب(ع) ہیں جن پر صدقہ حرام ہے.(۱)

اور سب مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ علی(ع) نے کبھی گناہ نہیں کیا، کبھی بت پرستی نہیں کی.جبکہ سب معتقد ہیں کہ ابوبکر و عمر کی زندگی کا بیشتر حصہ بت پرستی میں گذرا ہے۔اس کے بعد مسلمان ہوگئے.

حضرت عائشہ جس نے حکم خدا کی مخالفت کرکے گناہ کا مرتکب ہوئی. خدا نے کہاتھا :وقرن فی بیوتکن .(۲)

لیکن وہ نکلی اور خلیفہ رسول علی(ع) سے جنگ کرنے آئی. اور جنگ جمل کا فتنہ برپا کرکے ہزاروں مسلمانوں کہ مروا دیا. اور مسلمانوں کے درمیان پہلی بار جنگ داخلی کی بنیاد ڈالی. طلحہ وزبیر خصوصاً معاویہ نے بھی یہی رویہ اختیار کیا. یہ ہر سنی ، شیعہ کیلئے روز روشن کی طرح عیاں ہے.

 خلیفہ کا تعیّن

سنی:مسلمانوں نے رسول اللہ (ص)کی رحلت کے بعد ابوبکر کی خلافت پر اتفاق کیا اور اسے خلیفہ رسول میں   کیا لیکن تم لوگ مسلمانوں کی مخالفت کرکے ابوبکر کی خلافت کو قبول نہیں کرتے ہو.!

شیعہ: عمر کو کس نے خلافت کیلئے انتخاب کیا؟

۱۱۷

سنی: ابوبکر نے انتخاب کیا تاکہ  مسلمانوں کو بغیر رہبر  کےنہ چھوڑا جائے۔اور ان کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہ ہو.

شیعہ: تعجب والی بات ہے کہ ابوبکر پیغمبر(ص) سے زیادہ عقل مند اور زیادہ سمجھ دار تھا؟!

سنی: کس طرح ؟

شیعہ:بقول تیرے ، رسول اللہ(ص) نے اپنے لئے کوئی خلیفہ متعین نہیں کیا اور لوگوں کیلئے کوئی رہبر معین نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو اپنے حال پر چھوڑدیا اور لوگوں کو اختلافات میں ڈال دیا یہاں تک کہ آپ کا جنازہ تین دن تک زمین پر پڑا رہا، تاکہ آپ کو خلیفہ مقرر کرنے کے بعد دفن کیا جائے. لیکن ابوبکر زیادہ عاقل تھا لذتا انھوں نے اپنا جانشین مقرر کیا.

کتاب التاریخ میں لکھا ہے: رسول اللہ (ص)کے جنازے کو چھوڑ کر سقیفۂ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے تین دن بعد ابوبکر کو بعنوان خلیفہ چن لیا اور اس کی بیعت کی گئی. اور چوتھے روز رسول اللہ (ص)کی تجہیز و تدفین کی طرف متوجہ ہوگئے. شیطان نے بھی اس موقع پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن خدا کی رحمت مسلمانوں کیلئے شامل حال ہوگئی. اس کی مکر و فریب سے بچ گئے. اور ابوبکر کی بیعت پر متفق ہوگئے.(۱)

ہاں ! لوگ متعین خلافت کی اہمیت کو خوب جانتے تھے اگر خلیفہ متعین نہ ہوتا تو شیطان کو فرصت ملتی اور مسلمانوں کے درمیان  اختلاف ڈال دیتا. ابوبکر و عمر بھی جانتے تھے کہ لوگوں کو بغیر کسی رہبر و امام کے چھوڑا نہیں جاسکتا. کیا  خدا نے رسول کو اس مہم کی خبر نہیں دی تھی اور رسول بھی عام لوگوں، ابوبکر  اور عمر کی طرح اس کی اہمیت سے بے خبر تھے.العیاذبالله. انّ هذا لشیئ عجاب.!

سنی: میں ان سب کو تو نہیں جانتا لیکن صرف اتنا جانتاہوں  کہ شیعیان خلیفۂ رسول کو نہیں مانتے.

--------------

(۱):-  باب فضائل اھل البیت، ح ۲۴۲۵.  ج۴،ص ۵۶۸، ح۱۴۰۴۲.

۱۱۸

شیعہ: جس خلیفہ کو تم اہل سنت والے مانتے ہو اور مسلمانوں کا حاکم مانتے ہو اس کو قبول کرنا اور نہ کرنا کسی بھی مشکل کو حل نہیں کرتا. اور اول شب قبر اس کے بارے میں سوال نہیں ہوگا کہ تمھارا حاکم کون تھا. رسول کے بعد کیا رسول کے گھر پررجوع کرینگے یا بیگانوں کے گھر؟

سنی:اصحاب پیغمبر ابوبکر اور عمر کی طرف رجوع کریں گے.

شیعہ: رسول نے فرمایا :انّی تارک فیکم الثقلین : کتاب الله و عترتی اهل بیتی و ان تمسکتم بهمالن تظلّوا بعدی.

قرآن اور عترت کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے نہ اصحاب کی طرف. اور کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ابوبکر اور عمر کی طرف رجوع کرو. علاوہ بر این علم و دانش علی کے پاس تھا اور ابوبکر و عمر بھی علمی مسائل پیش آنے کی صورت میں علی کی طرف رجوع کرتے تھے اور ستّر بار عمر نے کہا: لولا علی لھلک عمر.

 یعنی اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا. اور تم کہتے ہو ابوبکر اور عمر کی طرف رجوع کریں ؟! 

مولود کعبہ ہوتے ہوئے بھی فضائل علی چھپاتے کیوں؟

سؤال: کیا یہ صحیح ہے کہ کہا جاتا ہے کہ  علی(رضی اللہ عنہ) کے سوا کوئی اور کعبہ  میں متولد نہیں ہوا ہے ؟

جواب:

۱قال ابن صباغ المالکی: ولم یولد فی البیت الحرام قبله احد سواه وهی فضیلة خصّه الله بها اجلالا له واعلاء لمرتبته واظهاراً لتکرمته (۱)

--------------

(۱):-  ۔  الہیات شفا، ج ۱، ص ۹۸.

۱۱۹

یعنی علی(رضی اللہ عنہ)سے پہلے کوئی خانہ کعبہ میں پیدا نہیں ہوااور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے  ایسی فضیلت ہے جسے علی کیساتھ  مخصوص کیا ہے.جس کے ذریعے علی کی عظمت کو بلند کرنا مقصود پروردگار ہے.لیکن تعجب والی بات یہ ہے کہ کیوں بزرگان اہل سنت اپنی زبان پر یہ فضائل نہیں لاتے ؟!جواب یہ ہے کہ اگر علی کی افضلیت پر شیعوں کے دلائل عوام تک پہنچے تو ان کو یہ خدشہ ضرور ہے کہ مکتب تشیع کی طرف بڑھنے لگیں گے.

حدیث منزلت محکم ترین اثر

سؤال: کیا یہ صحیح ہے کہ حدیث منزلت علی(رضی اللہ عنہ):"انت منی بمنزلة هارون من موسی" صحیح ترین و محکم ترین آثار میں سے ہے؟ جواب : چنانچہ قرطبی  کہتا ہے:و هو من اثبت الآثار و اصحّها.. (۱)

کیا ولایت علیؑ سے انکارممکن؟!

سؤال: ہم کیسے ولایت حضرت علی(رضی اللہ عنہ) سے منکر ہونگے جب کہ حنفی علماء جءسے حاکم حسکانی لکھتاہے:«اولی الامر هو علّی الذی ولاه اللّه بعد محمد ـ صلی الله علیه و سلّم ـ فی حیاته حین خلفه رسول اللّه بالمدینة». (۲) اولی الامر حضرت علی(رضی اللہ عنہ)ہے جسے حضرت محمد کے بعد ان کی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ نے نا کا ولی قرار دیا ہے.

خلیفہ دوم نے غدیرکے دن بیعت کی لیکن...

سؤال : کیا یہ صحیح ہے کہ عمر بن خطاب نے روز غدیر بیعت کی لیکن رحلت پیغمبر اکرم کے بعد بیعت شکنی کی؟

جواب: درست ہے انہوں نے ایسا ہی کیا ہے چنانچہ اس بارے میں ذہبی امام غزالی سے عمر بن خطاب کے بارے میں نقل کیا ہے کہ

--------------

(۱):-  الاستیعاب ۳: ۱۰۹۷.

(۲):- شواہد التنزیل ۲: ۱۹۰

۱۲۰

شروع میں انہوں نے علی کے ہاتھوں پرغدیر کے دن بیعت کی لیکن رحلت پیغمبر (ص)کے بعد ہوای نفس و حبّ ریاست و جاہ طلبی کا شکار ہوا اور بیعت شکنی کی (1) هذا تسلیم و رضی ثم بعد هذا غلب الهوی حبّاً للریاسة.

ابوبکر کو صدیق ، عمر کو فاروق کا لقب کس نے دیا؟

کوئی ایک حدیث صحیح پیغمبر اکرم (ص)کی طرف سے نقل نہیں ہوئی ہے جس میں ابوبکر کو صدیق اور عمر کو فاروق کا لقب دیا ہو.اگر یہ القاب ملا ہے تو وہ علی ابن ابیطالب کیلئے ملا ہے  چنانچہ طبری نے عباد بن عبدللہ سے نقل کیا ہے :«سمعت علیاً یقول: انا عبدالله واخو رسوله وانا الصدّیق الاکبر. لا یقولها بعدی الا کاذب مفتر، صلیت مع رسول الله (ص)قبل الناس بسبع سنین» (2)

راوی کہتا ہے کہ میں نے علی(ع) کو سنا ہے کہ آپ فرمارہے تھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں ،اس کے نبی کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد کسی اور کو یہ لقب نہیں ملا اگر کوئی یہ لقب رکھنا چاہے تو وہ جھوٹا ہے میں نے رسول خدا (ص)کے پیچھے سات سال کی عمر میں سب سے پہلے نماز پڑھی ہے.

خلفاء اور علیؑ کے درمیان اچھے روابط

سؤال: کیا یہ صحیح ہمارے خلیفون کے درمیان اچھے روابط موجود تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ علی نے اپنے بیٹوں کے نام بھی ابوبکر، عمر اور عثمان رکھا؟

جواب: لیکن کیا ابوبرو ، عمر اور عثمان سے کسی نے اپنے بچوں کا نام حسن ، حسین یا علی رکھا ؟! نہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے اور اہل بیت کے درمیان اچھے روابط نہیں تھے .

--------------

(1):-  سیر اعلام النبلاء 19: 328.

(2):-  تاریخ طبری 1: 537. مسند زید ح 973. ـ سنن ابن ماجہ 1: 4 - مستدرک حاکم 3: 44.

۱۲۱

عمر اور ام کلثوم کی شادی کی داستان

سؤال : عمربن خطاب اور ام کلثوم دختر حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کی شادی ایک جھوٹی داستان ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں دلیل:

اولا: سب سی پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کسی بھی  صحاح ستة میں تفصیل کے ساتھ نہیں آئی ہے.

ثانیاً: بعض اسلامی محققین کے مطابق حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کی کوئی بیٹی ام کلثوم کے نام سے نہیں تھی(1) بلکہ حضرت زینب  کی کنیت تھی.جس نے  عبداللہ بن جعفر کے ساتھ ازدواج کیا ہے. 

ثالثاً: تشابہ اسمی ہوا کہ عمر نے ابوبکر کی بیٹی ام کلثوم کیلئے خواستگاری   بھیجالیکن عائشہ کی مخالفت کی وجہ سے وہ شادی نہ ہوسکی(2)

رابعاً: عمر کی شادی ایک عورت بنام ام کلثوم ـ ہوئی لیکن وہ جرول کی بیٹی اور عبیداللہ بن عمر کی ماں تھی(3) اورحضرت علی(رضی اللہ عنہ)کی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں.

خامساً: تاریخی حقایق اس قول کو جھٹلاتی ہے کہ اور کہتی ہے کہ  حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)کی رحلت کے بعد  محمد بن جعفر  اور اس کی موت کے بعد اس کا بھائی عون بن جعفر نے اس کے ساتھ شادی کی جبکہ تاریخ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہ دونوں بھائی جنگ تستر(4) کہ جو  زمان عمر(رضی اللہ عنہ) میں واقع ہوئی تھی شہید ہوگئے تھے.

--------------

(1):-  حیاة فاطمة الزہراء: 219 (باقر شریف قرشی ـ و در بعضی از کتابہای رافضہ مانند علل الشرائع.

(2):- الاغانی 16: 103.

(3):- سیر اعلام النبلاء (تاریخ خلفاء) 87.

(4):- استیعاب 3: 423 و 315، تاریخ طبری 4: 213 ـ الکامل فی التاریخ 2: 546.

۱۲۲

سادساً:یہ لوگ مدعی ہیں کہ ان دو بھائیوں کی شہادت کے بعد تیسرے بھائی نے ان کے ساتھ شادی کی ہےجب کہ زینب بنت علی کیساتھ پہلے شادی کرچکا تھا .اور جمع بین الاختین جائز نہیں ہے .(1)

فضائل علیؑ ممنوع لیکن ان کی شان میں گستاخی آزاد

سؤال: کیا حکومت کی طرف سے  فضائل علی(رضی اللہ عنہ)کا بیان کرنا  ممنوع اور علی پر سب و شتم کرنے میں لوگ آزاد تھے؟

جواب : ہاں نہ صرف آزاد تھے بلکہ حکومت کی طرف سے تشویق بھی کیا جاتا تھا اور علی کے فضائل بیان کرنے والوں کو سولی پر چڑائے جاتے تھے جس کی مثال تاریخ میں ملتی ہے جیسا کہ معاویہ خود کہتا کہ میں نہیں جانتا کہ میں نے بن عدی کو کس جرم میں قتل کیا!

صحابی رسول عبداللّہ بن شداد کہتا ہے کہ میری یہ آرزو تھی کہ مجھے اجازت مل جاتی کہ صبح سے لیکر ظہر تک علی کے فضائل بیان کرتا اور اس کے بعد مجھے سولی پر چڑھایا جاتا.

امام ذہبی کہتا ہے:

«... عبداللّه بن شداد: وددت أَنی قمتُ علی المنبر من غدوة الی الظهر، فاذکر فضائل علی بن ابیطالب رضی اللّه عنه ثم انزل، فیضرب عنقی» (2)

کیوں کہ رسول گرامی کا چچا زاد بھائی اور فاطمہ زہرا کا شوہر نامدار پر معاویہ کے دور حکومت میں لعن طعن کرنا شروع کیا اور ان کے فضائل بیان کرنے پر پابندی لگائی گئی؟ اس بارے میں  حموی بغدادی دربارہ سجستانی می گوید:

--------------

(1):-  الطبقات الکبری 8: 462

(2):- سیر اعلام النبلاء 3: 489.

۱۲۳

«و اجلَّ من هذا کله انه لعن علی بن ابیطالب ـ رضی اللّه عنه ـ علی منابر الشرق والغرب ولم یلعن علی منبرها الاّ مرة وامتنعوا علی بنی امیة حتی زادوا فی عهدهم ان لا یلعن علی منبرهم احد... وای شرف اعظم من امتناعهم من لعن اخی رسول اللّه. علی منبرهم وهو يُلعن علی منابر الحرمین مکة والمدینة؟». (1)

یعنی حضرت علی(رضی اللہ عنہ) پر بنی امیہ کے دور حکومت میں تمام اسلامی ممالک میں منبروں سے لعن و طعن کرنے کا رواج دیا گیا اور صرف ایک منطقہ میں اس بدعت کی مخالفت کی گئی وہ سیستان تھا  ـ ابوالفرح اصفہانی کہتا ہے کہ المغیرة نے علی اور ان کے شیعوں پر لعن وطعن کیا جبکہ امام احمد بن حنبل لکھتا ہے (2) کہ پیغمبر (ص) کو  حضرت علی(رضی اللہ عنہ)سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :«من سبّک فقد سبنی». (3) یعنی جو بھی تجھے سب کرے اس نے مجھے سب کیا ہے .

 سؤال: امام ذہی  اور امام مالک نے کیوں فضائل علی کو چھپانے کی کوشش کی ؟

جواب کیونکہ وہ دونوں حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کے دشمنوں  اور بنی امیہ کے طرفداروں میں سے تھے اس لئے علی کے فضائل کو چھپاتے تھے یہاں تک کہ فضیلت والی ایک روایت بھی ان لوگوں نے نقل نہیں کی ہیں. 1«ولستُ احفظ لمالک ولا للزهری فیما رویا من الحدیث شیئاً من مناقب علی(رضی الله عنه)». (4)

--------------

(1):- معجم البلدان 3. 191.

(2):- سیر اعلام النبلاء 3: 31. الاغانی 17: 138.

(3):- مسند احمد 10: 228 ح 26810.

(4):- المجروحین 1: 258 ـ

۱۲۴

 ذہبی اور فضائل علی(ع)

ذہبی سے فضائل حضرت علی(رضی اللہ عنہ) برداشت نہیں ہوتا تھااگر کوئی حدیث ایسی ہوتی کہ جس میں علی کے فضائل بیان ہو ئے ہوں تو اسے کسی نہ کسی طرح رد کرتا تھا چنانچہ غماری سنی کہتا ہے :«الذهبی اذا رای حدیثا فی فضل علی(رضی الله عنه)بادر الی انکاره بحق و بباطل، کان لایدری ما یخرج من راسه» .(1)

کیا یہ صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم سے جتنےعلی کے فضائل صحیح السند کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں کسی اور صحابہ کے بارے میں بیا ن نہیں ہوئے ہیں.

جواب : ہاں اس میں کوئی شک نہیں ہے.جسکے بارے میں احمد بن حنبل،نسائی،نیشابوری اور دوسروں نے تصریح کے ساتھ بیان کئے ہیں :لم یرد فی حق احد من الصحابة بالاسانید الجیاد اکثر مما جاء فی علی(رضی الله عنه). (2)

حسکانی حنفی کہتا ہے: علی ایک سو بیس فضیلت کے مالک ہیں جن میں ایک بھی صحابی رسول شریک نہیں ہے لیکن جو فضائل دوسرے اصحاب میں موجود ہیں ان میں علی بھی شریک ہیں:

کان لعلی بن ابی طالب عشرون و مائة منقبة لم یشترک معه فیها احد من اصحاب محمد(ص) و قد اشترک فی مناقب الناس» (3)

پس ہماری تکلیف ایسے افراد کے بارے میں ہے جو علی کے فضائل چھپانا چاہتے ہیں یا دوسرے اصحاب کو ان کے برابر جانتے ہیں یادوسرے خلفاء کو ان سے مقدم جانتے ہیں جیسے بخاری؟ اس کا جواب آپ خود بیان فرمائیں .

 سؤال کیا یہ صحیح ہے کہ بہت ساری روایات اور احادیث ابوبکر اور عمر کے فضائل میں جعل کئے گئے ہیں اور یہ سب جھوٹی روایتیں ہیں جنہیں اہل سنت نے جعل کیا ہے؟

--------------

(1):- فتح الملک العلی: 20.

(2):- فتح الباری 7: 89. الاصابة 2: 508

(3):- شواہد التنزیل: 24، ح 5.

۱۲۵

میں نے اس اعتراف کو امام عسقلانی کے کلام میں دیکھا جس سے بہت تعجب ہوا کہ ہم اپنے مذہب کی جھوٹ اور بہتان کے ساتھ تبلیغ کر رہے تھے:ینبغی ان یضاف الیها الفضائل، فهذه اودیة الاحادیث الضعیفة و الموضوعة. اما الفضائل، فلا تحصی کم وضع الرافضة فی فضل اهل البیت و عارضهم جهلة اهل السنة بفضائل معاویه، بدوا بفضائل الشیخین (1)

یعنی یہ سزاوار ہے کہ ان فضائل والی کتابوں کو جن کی کوئی سند نہیں ہےاور جعلی اور جھوٹی احادیث سے پُر ہیں ۔فضائل والی کتابوں کو تو اہل سنت نے رافضیوں (شیعوں) کے مقابلے میں لکھی  ہیں انہوں نے اہل بیت کے فضائل میں لکھی تو ہم نے ابوبکر ، عمراور معاویہ  کے فضائل میں لکھی ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا امام عسکلانی کا یہ اعتراف کرنا شیخین کے جھوٹی فضائل پر دلیل نہیں ہے؟!

سؤال: کیا یہ صحیح ہے کہ ابوہریرہ نے کئی روایات کو  مقام انبیاء کو کم کرنے کیلئے بیان کی ہے جسے بخاری نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے ؟ جن میں سے کئی نمونہ یہ ہیں:

1. حضرت ابراہیم نے تین بار جھوٹ بولاہے (نعوذ باللہ(لم یکذب ابراهیم الاّ ثلاث کذبات». (2)

فخر رازی کہتا ہے :«لا یحکم بنسبة الکذب الیهم الاّ الزندیق». (3) جس نے بھی انبیاء الٰہی پر جھوٹ باندھا وہ زندیق ہے. دوسری جگہ لکھتا ہے کہ خلیل الرحمن کی طرف جھوٹی نسبت دینے سے راوی حدیث (ابوہریرہ) کی طرف جھوٹی نسبت دینا ہے. ابوہریرہ کہتا ہے: حضرت موسی ٰغسل کرنے کے بعد بالکل عریان بنی اسرائیل کے درمیان حاضر ہوئے اور آپ کا سارا بدن حتی کہ شرمگاہ بھی دکھائی دے رہی تھی نعوذ باللہ:فراوه عریانا احسن ما خلق الله، وابراهُ مما یقولون (4)

--------------

(1):- لسان المیزان 1: 106، دارالکتب العلمیة، بیروت.

(2):- صحیح بخاری 4: 112.

(3):- التفسیر الکبیر 22: 186 ـ و 26: 148.

(4):- صحیح بخاری 4: 129 / بدء الخلق 2: 247 دار المعرفة.

۱۲۶

کیوں  اماموں کے نام قرآن میں نہیں آئے ؟

یہ اشکال کرنے والا یہ سوچ رہا ہے کہ اگر اماموں کا نام قرآن میں آتا تو مسلمانوں کے درمیان اختلافات بھی ختم ہوجاتے درحالیکہ یہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا، بلکہ کام اس کے برعکس ہوتا کہ دشمن اور حاکم وقت ان کی نسل کشی میں لگ جاتی تاکہ کوئی نسل نہ بچے، جیسا کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ یہی ہوا .

قرآن کریم کی روش یہ ہے کہ کلیات اور عمومی اصول کو بیان کرے اور اس کی تشریح اور مصادیق اور جزئیات کو پیغمبر اکرم(ص) بیان کرے.چنانچہ آیة شریفہ میں تبیّن آیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ آشکار اور وضاحت کرنا پیغمبر اکرم (ص) کا کام ہے

و انزلنا الیک الذکر لتبیّن للنّاس ما نزّل الی ه م و لعلّ ه م یتفكّرون (1)

ہاں ، کبھی نام لیکر معرفی کرنا بھی پڑتا ہے جیسے حضرت عیسی نے فرمایا: میں تمھیں  بشارت دیتا ہوں ایسے نبی کی جس کا نام احمد ہے  جو میرے بعد آنے والا ہے:و مبشّراً برسولٍ یاتی من بعدی اسم ه احمد (2)

اور کبھی تعداد بیان کرکے معرفی کی گئی ہے جیسے:اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائلب کی اولادوں میں سے بارہ  سربراہ چن لئے:

و لقد اخذ الل ه میثاق بنی‏اسرائیل و بعثنا من ه م اثنی عشر نقیباً . (3)

اور کبھی صفات بیان کرکے معرفی کی گئی ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی معرفی تورات اور انجیل میں  کی گئی :

الذین یتّبعون الرسول النّبىّ الامّىّ الذی یجدون ه مکتوباً عند ه م فی التوراة و الانجیل یامر ه م بالمعروف و ین ه ا ه م عن المنکر و یحلّ ل ه م الطیّبات و یحرّم علی ه م الخبائث و یضع عن ه م اصر ه م و الاغلال التی کانت علی ه م .(4)

--------------

(1):- سورة نحل (16)، آیة 44.

(2):- سورة صف (61)، آیة 6.

(3):- سورة مائدہ (5)، آیة 11.

(4):- سورة اعراف (7)، آیة 157.

۱۲۷

ان مطالب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بارہ اماموں کا نام  یا ان کے والدین کا نام قرآن میں ڈھونڈنا بے جا ہے کیونکہ کبھی مصلحت نام کے بیان کرنے میں ہے تو کبھی نام کے چھپانے اور صفات بیان کرنے  میں ہے پس نام ذکر کرنا اختلافات کو ختم کرنے کا  سبب نہیں بنتابلکہ معاشر میں  افراد میں قبول کرنے کی صلاحیت اور ظرفیت ہونی چاہئے. بلکہ کبھی تو پیشواؤں کا نام لینا حکومت اور ریاست میں نسل کشی کا بھی سبب  بنتا ہے .جیسا کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا. چنانچہ معروف ہے کہ لاکھوں بچوں کا سر قلم کیا  گیا تاکہ ایک کلیم اللہ موسیٰ زندہ رہے.

اسی طرح امام  مھدی  ؑکے بارے میں بھی لوگ زیادہ حساس  ہو گئے تھے اور امام عسکری ؑکو قید میں رکھا گیا تاکہ مھدی ؑدنیا میں ہی نہ آئے ، اور اگر آئے تو اسے  فوری طور پر ختم کیا جائے .

اسی طرح یہ بھی  جان لیں کہ قرآن مجید قانون اساسی ہونے کے باوجود ساری  ضروریات دین کو وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کیا : جیسے روزہ ، نماز اور زکات وغیرہ کو کلی طور پر بیان کیا ہے لیکن ان کی جزئیات کو رسول خدا (ص) نے بیان فرمایا ہے(1)

حدیث عشرہ مبشرہ کی حقیقت

سؤال:کیا یہ صحیح ہے کہ  حدیث عشرہ مبشرہ اموی و عباسی حکومتوں کی طرف سے جھوٹی اور جعلی حدیثیں ہیں ؟ اگر یہ صحیح تھا تو بخاری اور مسلم اسے نقل کرتے اور اگر یہ صحیح تھا تو کیوں  ابوبکر اور عمر ـ رضی اللہ عنہما  سقیفہ کے دن اس سے اپنی حقانیت پر  استدلال نہیں کیا جبکہ ہر ضعیف اور غیر ضعیف حدیثوں پر  استناد کئےہیں. اگر ایسی کوئی حدیث معتبر ہوتی تو اپنی موقعیت کو مضبوط اور محکم کرنے کیلئے بہت مہم اور ضروری تھا.لیکن اس حدیث کی سند یہ ہے کہ ایک سند میں   : حمید بن عبد الرحمن بن عوف ہے جس نے اپنے باپ.عبدالرحمن سے نقل کیا ہے جبکہ حمید اپنے باپ کی وفات کے وقت ایک سالہ تھا(2)

--------------

(1):- ماہنامہ موعود شمارہ 80، افق حوزہ، 3/ 5/ 1386.

(2):- تہذیب التہذیب 3 40.

۱۲۸

صحابہ کا ایک دوسرے پر لعن کرنا

سؤال : کیایہ صحیح ہے کہ  صحابہ پیغمبر (ص) ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے تھے  چنانچہ خالدبن ولید اور عبدالرحمن بن عوف کے درمیان واقع ہوا کہ خالد اسے نفرین کرتا تھا اسی طرح  عمار اور عثمان کے درمیان واقع ہوا ان کے علاوہ عثمان ، عائشہ اور حفصہ نے بھی ایک دوسرے کو لعن کیا .(1) ایسی صورت میں کیا اگر کسی صحابہ کو سب کرنے سے کافر اور مرتد ہوگا؟

سؤال: کیا یہ صحیح ہے  کہ حضرت معاویہ(رضی اللہ عنہ)نے  محمد بن ابی بکر کو خط لکھا جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ خلافت کا اصل حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ تھا لیکن  ابوبکر و عمر ـ رضی اللہ عنہما نے ان سے  غصب کرکے خود اس مسند پر بیٹھ گئے ہیں  جس کی کوئی مشروعیت نہیں ہے(2)

سؤال : کیا یہ کہنا صحیح کہ   حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے چار باپ تھے اور اس کی ماں بدکارہ اور پرچم دار عورتوں میں سےتھی ؟

جواب :زمخشری و ابوالفرج اصفہانی و ابن عبدر بہ و ابن الکلبی اس تلخ  حقیقت کو  نقل کرتے ہیں:ابن ُلبی کہتا ہے :«کان معاویة لعمارة بن ولید بن المغیرة المخزومی و لمسافر بن ابی عمرو، و لابی سفیان و لرجل آخر سمّاه و کانت هند امّه من المغیلمات، و کان احبّ الرجال الیها السودان...» (3)

یعنی معاویہ کو چار باپ کی طرف نسبت دی گئی ہے جن کے نام یہ ہیں :عمارة بن ولید, مسافربن ابی عمرو، ابوسفیان اور صباح ، اور اس کی ماں ہند بدکار ،پرچم دار اور فاحشہ عورتوں میں سے تھی اور کالے مردوں کو زیادہ پسند کرتی تھی .امام زمخشری نے بھی اس مطلب کو بیان کیا ہے(4)

--------------

(1):-  اعلام النبلاء 1: 425.ـ در مصنف عبد الرزاق 11: 355، ح 20732

(2):- شرح نہج البلاغہ 3: 188.

(3):- مثالب العرب: 72

(4):- ربیع الابرار 3: 549 ـ الاغانی 9: 49 ـ العقد الفرید 6: 86 - 88

۱۲۹

  پرچم دار سے مراد یہ ہے کہ عرب جاہلیت کے دوران جو بھی عورت  جسم فروشی کرتی تھی  وہ اپنے گھر  کے دروازے پر جھنڈا کھڑی کرتی تھی یہ اس بات کی دلیل تھی کوئی بھی شخص آنا چاہے تو یہ عورت حاضر ہے.

سؤال: کیایہ صحیح ہے کہ حضرت معاویہ(رضی اللہ عنہ) اپنے دور خلافت اور امّت اسلامی کی رہبری میں شراب پیتے اور پلاتے تھے ؟

جواب : امام احمد بن حنبل ابن بریدہ سے نقل کرتا ہے:

عبداللّه بن بریده قال: دخلت انا و ابی علی معاویه، فاجلسنا علی الفرش، ثم أُتینا بالطعام فاکلنا ثم اتینا بالشراب، فشرب معاویة، ثم ناول ابی، ثم قال: ما شربته منذ حرّمه رسول الله (ص)ـ صلی الله علیه و سلّم ـ » (1)

عبداللہ بن بریدہ کہتا ہے کہ ایک دن اپنے باپ  بریدہ کے ساتھ معاویہ کے دربار میں وارد ہوا اس نے ہماری خاطرر خواہ عزت کی  اور  کھانا لایا اس کے بعد مشروب لایا گیا اس نے پیا پھر میرے باپ  کو پیش کی  تو میرے باپ نے کہا : جب سے میں نے  پیغمبر اکرم (ص)سے سنا ہے کہ یہ حرام ہے اس وقت سے اب تک منہ نہیں لگایا ہے

اشکال : وعدہ قرآن کے برخلاف دشمنان اہل بیت یعنی بنی امیہ ہزاروں موجود ہیں!!

جواب: اہداف کی بقا انسان کی بقا ہے اور اہداف  اصل ہے نہ وجود انسان اور یہ دیکھنا کس گروہ کا ہدف باقی ہےاور کس گروہ کا پرچم آج سربلند ہے؟

--------------

(1):-  مسند احمد 5: 347.

۱۳۰

سؤال 74: آیا صحیح است کہ می گویند بسیاری از روایات و احادیث در فضائل حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ) و حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)، دروغ کذب و ساختہ و پرداختہ جاہلان ما از اہل سنّت است؟

من این اعتراف را در سخنان امام عسقلانی دیدم بسیار تعجب کردم، کہ ما با دروغ و اکاذیب از مذہب خودمان تبلیغ و دفاع می کنیم:

ینبغی ان یضاف الیها الفضائل، فهذه اودیة الاحادیث الضعیفة و الموضوعة... اما الفضائل، فلا تحصی کم وضع الرافضة فی فضل اهل البیت و عارضهم جهلة اهل السنة بفضائل معاویه، بدوا بفضائل الشیخین...». [175]یعنی سزاوار است بر کتابہائی کہ ریشہ ندارد کتابہای فضائل را افزود چون اینہا پر از احادیث ضعیف و ساختہ شدہ است اما فضائل ـ ساختگی از حد شمارش خارج است چون رافضة در فضل اہل بیت حدیث وضع کردند و جّال و افراد نادان از اہل سنت برای مقابلہ با آنان احادیث دروغ و جعلی در فضائل عمر و ابوبکر و معاویہ ساختند.

راستی این یک اقرار و اعتراف بہ دروغ بودن بسیاری از فضائل شیخین نیست؟ و آیا نسبت بہ انکار فضائل اہل بیت پیغمبرـ صلی اللہ علیہ و سلّم ـ یک ادعای بیجا و گزافی نکردہ است؟!

سؤال 75: آیا درست است آنچہ می گویند کہ ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ)، دزد بودہ و از اموال بیت المال مبالغ کلانی را اختلاس کردہ بود و عمربن الخطاب بہ او می گفت: «یا عدوالله وعدو کتابه سرقت مال الله» .[176] یعنی ای دشمن خدا و قرآن. اموال خدا را بہ سرقت بردی. آیا کسی کہ دشمن خدا و قران بودہ و بر اموال خدا امین نباشد می توان او را بر سنت و احادیث پیغمبر ـ صلی اللہ علیہ و سلّم ـ امین قرار داد.

سؤال 76: آیا درست است کہ می گویند: ابوہریرہ کہ راوی پنج ہزار حدیث است، و فقط امام بخاری از او بیش از چہارصد حدیث آوردہ، این شخص، مورد وثوق حضرت علی، و عمر و عائشہ(رضی اللہ عنہ) نبودہ.[177]

ابوحنیفہ می گوید: تمامی صحابہ عادل ہستند مگر: ابوہریرہ و انس بن مالک و...[178]

و عمربن الخطاب پس از تادیب او بہ او گفت:«یا عدوّالله و عدوّ کتابه» .[179]

۱۳۱

و عائشہ در مقام اعتراض بہ او گفت: اکثرت عن رسول اللہ (ص)[180] و در جای دیگر گفتہ:«ما هذه الاحادیث التی تبلغنا انّک تحدّث بها عن النبی هل سمعت اِلاّ ما سمعنا؟ وهل رایت الاّ ما راینا؟» .[181]

و مروان حکم، در مقام اعتراض می گوید: مردم ترا متہم می کنند کہ این حجم زیاد از احادیث با مدت زمانی ـ کوتاہ ـ کہ با پیغمبر بودی تناسب ندارد.«انّ الناس قد قالوا: اکثر الحدیث عن رسول الله وانما قدم قبل وفاته بیسیر» .[182]

و گاہی کہ می گفت:«حدثنی خلیلی ابوالقاسم، حضرت علی(رضی الله عنه)او را منع کرده و گفت: متی کان خلیلا لک؟» [183] می گفت دوستم پیغمبر، برایم حدیث کرد. حضرت علی در مقام رد او می گفت: چہ زمان پیغمبر دوست تو بود!!

و فخر رازی می گوید: بسیاری از صحابہ، ابوہریرہ را مورد طعن و رد قراردادہ اند:

«انّ کثیراً من الصحابة طعنوا فی ابی هریرة وبیّناه من وجوه: احدها: انّ ابا هریرة روی انَّ النبی ـ صلی الله علیه و سلّم ـ قال: من اصبح جنباً فلاصوم له، فرجعوا الی عائشة وام سلمة فقالتا: کان النبیّ یصبح ثم یصوم. فقال: هما اعلم بذلک. انبانی بهذا الخبر الفضل بن عبّاس، واتفق انّه کان میتاً فی ذلک الوقت» .[184]

و ابراہیم نخعی دربارہ احادیث او می گوید:«کان اصحابنا يَدَعون من حدیث ابی هریرة» .[185]

و می گوید:«ما کانوا یاخذون من حدیث ابی هریرة الاّ ما کان من حدیث جنّة او نار».

سؤال 77: آیا صحیح است کہ ابوہریرہ روایاتی را در قدح و تنقیص و کوچک کردن مقام انبیاء نقل کردہ و بخاری آنرا در صحیح خود نقل می کند؟ برای نمونہ:

1 ـ حضرت ابراہیم سہ بار دروغ گفتہ (نعوذ باللہ).

«لم یکذب ابراهیم الاّ ثلاث کذبات».[ 186]

۱۳۲

فخر رازی می گوید: کسی بہ انبیاء خدا دروغ را نسبت نمی دہد مگر زندیق باشد.«لا یحکم بنسبة الکذب الیهم الاّ الزندیق».[ 187]

و در جای دیگر می گوید: نسبت دروغ بہ راوی حدیث ـ ابوہریرہ ـ آسانتر از نسبت آن بہ خلیل الرحمن است.

2 ـ ابوہریرہ می گوید: حضرت موسی پس از غسل کردن در آب لخت و عریان در جمع بنی اسرائیل حاضر شد، و تمامی بدن او مکشوف بود، بہ گونہ ای کہ عورت او ہم ـ نعوذ باللہ ـ دیدہ شد و اتہام بہ بیماری ادرہ ـ قُر بودن ـ او نیز دفع شد.

«فراوه عریانا احسن ما خلق الله، وابراهُ مما یقولون».[ 188]

سؤال 78: آیا درست است آنچہ می گویند: حدیث عشرہ مبشرہ از موضوعات و دروغ پردازیہای حکومتہای اموی و عباسی بودہ و اگر صحیح بودہ بخاری و یا مسلم آنرا نقل می کردند.

و اگر صحیح بود: چرا ابوبکر و عمر ـ رضی اللہ عنہما ـ ، در روز سقیفہ بہ آن استدلال نکردہ، و حال آنکہ بہ ہر ضعیف و غیر ضعیفی استناد کردند. و استناد آنان بہ چنین حدیثی برای محکم کردن موقعیت خود بسیار مہم و لازم بود.

و می گویند: دو سند دارد، در سند اول: حمید بن عبد الرحمن بن عوف است. کہ حمید از پدرش عبدالرحمن نقل می کند، در حالیکہ حمید ہنگام رحلت پدر یک سالہ بودہ [189] و در سند دیگر آن عبداللہ بن ظالم است کہ بخاری، و ابن عدی، و عقیلی و دیگران او را تضعیف کردہ اند. [190]

سؤال 79: چگونہ حدیث عشرہ مبشرہ صحیح است و حال آنکہ متضمن اضداد می باشد، و این بہ معنای تضاد در دین و بطلان دین است چون جمع بین الاضداد از محالات عقلی است.[191] چون خط مشی حضرت ابوبکر با حضرت عمر فرق می کرد. و گاہی یکدیگر را نفی می کردند خط مشی حضرت عثمان با ہر دو فرق می کرد. و خط مشی حضرت علی(رضی اللہ عنہ)با ہر سہ فرق داشت. و اصلا ارزشی برای سیرہ شیخین قائل نبود. و بہ ہمین جہت در روز شوری شرط پیروی از سیرہ شیخین را نپذیرفت.[192]

۱۳۳

خط مشی و روش عبدالرحمن بن عوف با عثمان کاملا متناقض و متضاد بود، و تا آخر عمر با او قہر کردہ [193] و در این حال فوت شد. خط مشی و روش حضرت علی(رضی اللہ عنہ)با طلحہ و زبیر فرق می کرد و لذا ریختن خونشان را مباح می دانست و آنہا نیز جنگ با حضرت علی(رضی اللہ عنہ) را جایز و قتل او را مباح می دانستند حال آیا ہمہ اینان جزو عشرہ مبشّرہ ہستند. یعنی ہمہ این روشہای متناقض امضا شدہ و، اسلام و آیین پیغمبر آنہا را می پذیرد؟

(([175] لسان المیزان 1: 106، دارالکتب العلمیة، بیروت.

[176] الطبقات الکبری 4: 335 ـ سیر اعلام النبلاء 2: 612.

[177] شرح ابن ابی الحدید 20: 31. «ذکر الجاحظ فی کتابه المعروف بکتاب التوحید: ان ابا هریرة لیس بثقة فی

الروایة عن رسول اللّه ـ صلی الله علیه و سلّم ـ قال: ولم یکن علی(رضی الله عنه)یوثقه فی الروایة بل

یتهمه ویقدح فیه وکذلک عمر وعائشة».

[178] شرح ابن ابی الحدید 4: 69:الصحابة کلهم عدول ما عدا رجالا منهم ابوهریرة وانس بن مالک .

[179] سیر اعلام النبلاء 2: 612،الطبقات الکبری 4: 335.

[180] سیر اعلام النبلاء 2: 604.

[181] سیر اعلام النبلاء 2: 605 ـ 604.

[182] ہمان.

[183] المطالب العالیہ 9: 205.

[184] ہمان.

[185] سیر اعلام النبلاء 2: 609 ـ تاریخ ابن عساکر 19: 122.

۱۳۴

[186] صحیح بخاری 4: 112.

[187] التفسیر الکبیر 22: 186 ـ و 26: 148.

[188] صحیح بخاری 4: 129 / بدء الخلق 2: 247 دار المعرفة.

[189] تہذیب التہذیب 3: 40.

[190] تہذیب التہذیب 5: 236 ـ الضعفاء الکبیر، 2: 267 ـ الکامل فی الضعفاء 4:223.

[191] القاموس 5: 24.

[192] اسدالغابة 4: 32 ـ تاریخ الیعقوبی 2: 162 ـ تاریخ الطبری 3: 297 ـ تاریخ المدینة 3: 930 ـ تاریخ ابن خلدون

2: 126 ـ الفصول للجصاص 4: 55.

[193] ابن عبد ربہ می گوید: قال عبدالرحمن: للہ علیّ ان لا اکلمک ابدا، فلم یکلّمہ ابداً حتی مات و دخل علیہ

عثمان عائداً لہ فی مرضہ فتحوّل عنہ الی الحائط و لم یکلمہ. العقد الفرید 4: 280.)

۱۳۵

ساتویں فصل

عزاداری سید الشہداء سے مربوط اشکالات

بسم الله الرحمن الرحیم. السلام علیک یا ابا عبدالله وعلی الارواح التی حلت بفنائک .

ایام محرم اور صفر بہترین موقع ہے کہ ہم مکتب عاشورا کی نسبت زیادہ معرفت حاصل کرکے اس فرہنگ اور مکتب سے زیادہ قریب ہوجائیں. کچھ سوالات قیام ابی عبداللہ  کے متعلق تمام لوگوں خصوصاً  نوجوانوں اور جوانوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتےہیں انہی سوالات کو مورد بحث قرار دیں گے ، تاکہ ہماری معرفت اور شناخت اباعبداللہ کی نسبت زیادہ ہوسکے.

جب ایام عزا شروع ہوتا ہے تو لوگ سیاہ کپڑے اور کالے پرچم نصب کرتے ہیں اور ماتمی دستے نوحہ خوانی اور زنجیر زنی کرتے ہیں اور لوگ آنسو بہاتے ہیں تو خودبخود یہ سوالات پیدا ہوتے  ہیں کہ:

یہ مراسم عزاداری کیوں؟

لوگ کالے کپڑے کیوں پہنتے ہیں؟

لوگ کیوں آدھی رات تک سینہ زنی اور ماتم کرتے ہیں ؟

کیوں اس قدر آنسو بہاتے ہیں؟

ان سوالات کا جواب دوطرح سے دیا جا سکتا ہے :

سادہ جواب : کیونکہ سید الشہدا کو بے دردی سے شہید کیا گیا اسلئے رونا ثواب ہے اور قیامت کے دن ہماری شفاعت کریں گے لیکن یہ جواب قانع کنندہ نہیں ہے. اس سلسلے میں چار سوال پیدا ہوتے ہیں اور یہ چاروں سوال ایک سوال میں بھی سمیٹ سکتے ہیں: کیوں یہ مراسم عزاداری اتنے اہتمام کے ساتھ منائی جائے؟!!!

۱۳۶

پہلا سوال: ہم نے 1361 سالہ حادثہ کربلا کو کیوں زندہ رکھا؟

ہم نے 1361 سالہ حادثہ کربلا کو کیوں زندہ رکھا اور مراسم عزاداری قائم کئے؟ عاشورا ایک تاریخی واقعہ تھا جس کا زمانہ گذرگیا خواہ وہ تلخ تھا یا شیریں ، اس کے آثار ختم ہوگئے؟!!

جواب: یہ سوال بہت مشکل نہیں ہے .اسے ہر جوان اور نوجوان سمجھ سکتے ہیں کہ گذشتہ تاریخی حادثات ایک جامعہ یا انسان کیلئے آئندہ ساز ہوتا ہے اگر حادثہ مفید تھا تو یہ نشانی برکات ہوتی ہے تمام انسانی معاشرے میں یہ رسم ہے کہ کسی نہ کسی طرح گذشتہ حوادث کو زندہ رکھا جائے اور ان کا احترام کیا جائے جیسے قوم کے دانشوروں ، پہلوانوں ، علماء کی یاد منائی جاتی ہے.اسی طرح قومی دنوں کو منایا جاتا ہے اور یہ حس حق شناسی ہے جسے حق گذاری ،شکر گذاری ، قدر دانی وغیرہ سے یاد کیا جاتاہے.چونکہ ہمارا عقیدہ ہے حادثہ عاشورا بھی تاریخ اسلام کا بڑا حادثہ ہے اور یہ مسلمانوں کی سعادت مندی کا تعین کنندہ ہے اور راہ ہدایت کا چراغ ہے جس کی یاد تازہ کرنا عاقلانہ کام ہے .

دوسرا سوال :حادثہ عاشورا صرف سینہ زنی، کالے کپڑےاور...

حادثہ عاشورا کا زندہ رکھنا صرف سینہ زنی کرنا ، رونا اور شہر کو سیاہ پوش بنانا اور لوگوں کا آدھی رات تک  کاروبار کو معطل کرکے جاگے رہنا نہیں ، کیونکہ یہ سارے اقتصادی نقصان کا باعث بنتے ہیں .وہ نوجوان جس کا ذہن ابھی تک دینی تربیت حاصل نہ کرچکا ہو کہے گا کہ مباحثہ جلسے ، سیمینار ، کانفرنس اور کنونشن ،... برپا کرناچاہئے ہوسکے تو ٹی وی پر دس  مجالس جو بہترین ہو رکھی جائیں جو معاشرے کیلئے زیادہ مفید ہوگا.

جواب: ٹھیک ہے شحصیت امام حسین  کے بارے میں بحث کرنا کانفرنس ، تقاریر ، مقالات کے ذریعے بہت ہی مفید ہے اور ضروری بھی ہے اور جامعہ میں یہ چیزیں بھی پائی جاتی ہیں لیکن حادثہ عاشورا سے بہرہ برداری کیلئے یہ کافی نیںا ہے ، بلکہ احساسات و عواطف و... عوامل درونی میں سے ہے جئو خود بہ خود انسان کو تحریک میں لاتے ہیں. پس انسانی رفتار اور حرکات کیلئے دو عوامل ضروری ہیں: الف شناخت ب عواطف واحساسات .

۱۳۷

جب ہم نے پہچان لیا کہ سید الشہدا  (ع)کے اس کارنامے  کی کس قدر اہمیت ہے اور سعادت ساز ہے لیکن فقط یہ شناخت ہمیں حرکت میں نہیں لاتی ، بلکہ ضروری ہے کہ انسان کے عواطف و احساسات بیدار ہوجائے کیونکہ ہم بھی اپنی زندگی میں محسوس کر چکے ہیں کہ اگر کسی یتیم کو یا مریض کو رقت آور حالت میں دیکھتے ہیں تو کسی شہید کے بیٹے کو دیکھتے ہیں تو جو اثر ہمارے اندر پیدا ہوجاتے ہے وہ صرف سننے سے یا جاننے سے کہ کوئی یتیم یا مریض ہے پیدا نہیں ہوتا.

پس جس قدر عواطف اور احساسات پائیدار ہوں گے اسی قدر حادثہ عاشورا ہماری زندگی میں مؤثر تر ہوگا. دیکھنے اور سننے میں فرق ہے چنانچہ حضرت موسیٰ  کوہ طور پر گئے تیس دن کے وعدے پر لیکن خدا نے دس دن اضافہ کیا اس طرح چالیس دن ہوگئے :

 وَ واعَدْنا مُوسی‏ ثَلاثینَ لَيْلَةً وَ أَتْمَمْنا ه ا بِعَشْرٍ فَتَمَّ میقاتُ رَبِّهِ أَرْبَعینَ لَيْلَةً وَ قالَ مُوسی‏ لِأَخیهِ ه ارُونَ اخْلُفْنی‏ فی‏ قَوْمی‏ وَ أَصْلِحْ وَ لا تَتَّبِعْ سَبیلَ الْمُفْسِدینَ .(1)

"جب تیس دن ہوگئے تو قوم ہارون  کے پاس آئی اور کہنے لگی : شاید موسیٰ  ہمیں چھوڑ  گئے ہیں ، سامری کو موقع ملا ، گوسالہ بنایا اور کہا:

 هذه آلهتکم و اله موسیٰ

بہت سے بنی اسرائیل والے گوسالہ کی پرستش کرنا شروع کردی. موسیٰ کو وحی آئی کہ قوم نے گوسالہ کی پرستش شروع کردی ہے اتنا زیادہ اثر نہیں ہوا

وَلَمَّا رَجَعَ مُوسی‏ إِلی‏ قَوْمِهِ غَضْبانَ أَسِفاً قالَ بِئْسَما خَلَفْتُمُونی‏ مِنْ بَعْدی أَ عَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَ أَلْقَی الْأَلْواحَ وَ أَخَذَ بِرَأْسِ أَخیهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونی‏ وَ کادُوا يَقْتُلُونَنی‏ فَلا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْداءَ وَ لا تَجْعَلْنی‏ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمینَ (2)

--------------

(1):- اعراف،۱۴۲

(2):- اعراف۱۵۰.

۱۳۸

لیکن جب واپس آیا اور دیکھا تو اس قدر احساسات اور عاطفہ ابھر آیا کہ اپنے بھائی ہارون کے سر اور داڑھی پکڑکر ڈانٹنے لگے ..

ہمارا مقصد پوری داستان سنانا نہیں بلکہ صرف ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ دیکھنے اور سننے میں فرق ہے حضرت موسیٰ کو یقین تھا خدا کے فرمان پر لیکن آثار غضب ظاہر نہیں ہوا لیکن جب دیکھا تو بھائی کی تلاش میں نکلے خدا نے انسان کو کچھ اس طرح خلق کیا ہے کہ سننے کی بجائے دیکھنے سے زیادہ متاثر ہوتا ہے

دوسرا جواب ہم امام صادق  (ع)سے زیادہ اور بہتر تو نہیں جانتے امام خود بھی عزاداری کیا کرتے تھے اور دیکھتے تھے کہ کس طرح لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دین کی طرف جلب کر سکتا ہے ؟ مباحث علمی کے ذریعے یا عزاداری کے ذریعے؟

اور فرمایا:ما نودی لشیء مثل مانودی للولایة . کیونکہ ولایت انسان کو نمازی بنا سکتی ہے لیکن نماز انسان کو مولائی نہیں بنا سکتی.

تیسرا سوال: لوگ کیوں آدھی رات تک سینہ زنی اور ماتم کرتے ہیں ؟

ان احساسات اور عواطف کو اجاگر کرنے کا ذریعہ  عزاداری ، گریہ ،سینہ زنی ، زنجیر زنی تو نہیں بلکہ ممکن ہے مراسم جشن منائیں.

جواب: احساسات اور عواطف مختلف قسم کے ہیں تحریک بھی ان عواطف و احساسات سے متناسب اور سنخیت ہونا چاہئے صرف جشن اور خوشی منانا اور ہنسنا کبھی انسان کو شہادت طلب نہیں بنا سکتا ، بلکہ شہادت کیلئے تیار کرنے کیلئے آنسوؤں کی ضرورت ہے.

۱۳۹

چوتھا سوال:امام کے مخالفین پر لعن کیوں؟

منافقین کہتے ہیں : ٹھیک ہے یہاں تک ہم نے مان لیا لیکن تم لوگ دشمنان امام پر لعن طعن کیوں کرتے ہو ؟ یہ تو ایک قسم کی خشونت اور بدبختی ہے اور ایک منفی احساس ہے کیوں کہتے ہو: اتقرب الی اللہ بالبرائة من اعدائک ؟ کیوں زیارت عاشورا میں سو مرتبہ لعن کرکے دوسروں کو بد ظن کرتے ہو ؟ آ ئیں سو مرتبہ سلام بیںں س. یہ زمانہ ایسا آیا ہے کہ سارے لوگوں کے ساتھ خوشی  اور صلح و صفائی کے ساتھ زندگی کرے کیا اسلام دین محبت نہیں ہے ؟ اسلام دین رحمت و رافت نہیں ہے ؟

فرض کریں ایک نوجوان ہم سے سوال کرے کہ کیوں قاتلان حسین  پر لعن کرتے ہیں ؟ زیارت عاشورا میں سو مرتبہ لعن کی بجائے سو مرتبہ پھر سلا م بھیجے کیا فرق پڑے گا اور یہ لعن و طعن اور اظہار برائت کی کیا ضرورت ہے؟!!

جواب: سرشت انسان جس طرح فقط شناخت سے تشکیل نہیں پایا ہے اسی طرح فقط مثبت احساسات سے بھی نہیں بلکہ شناخت اور  مثبت احساسات  کے ساتھ منفی احساسات بھی رکھتا ہے جس طرح خوشی کے ساتھ ساتھ غم بھی پایا جایا ہے پس جہاں رونا ہو وہاں رونا ضروری ہے ، جہاں ہنسنا ہو وہاں ہنسنا ضروری ہے. پس ہو مقام اور مناسبات کی تلاش کرنا چاہیئے کہ جہاں رونا ہوگا یا برعکس والا رونے اور ہنسنے کی استعداد وجود انسان میں لغو ہوجائے گا. کیونکہ رونا وجود انسان میں بہترین احساس ہے اگر گریہ خدا کے خوف  میں  یا  خدا  سے ملاقات کے شوق میں ہو تو یہ کمال انسانی کا موجب بنتا ہے خدا وند تعالیٰ ہم میں محبت کو خلق کیا ہے کہ جب اپنے دوستوں ،بہن بھائیوں سے بچھڑ جائے یا ان  پر کوئی مصیبت پڑے تو رونا کمال عقلائی و عاطفی ہے. کیونکہ  خود دنیا مؤمن کی نگاہ میں اہمیت نہیں رکھتی. اگر کسی مؤمن پر دنیوی نقصان آئے تو زیادہ مغموم نہیں ہوتا  کیونکہ خود دنیا مؤمن کی نگاہ میں اہمیت نہیں رکھتی لیکن اگر اخروی نقصان ہو اور دشمن اس کا دین چھین لے اور سعادت ابدی کو انسان سے چھین لے تو اسے برداشت نہیں کرسکتا. چنانچہ قرآن کریم بتا رہا ہے :

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255