شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات0%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 255
مشاہدے: 208168
ڈاؤنلوڈ: 5936

تبصرے:

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208168 / ڈاؤنلوڈ: 5936
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 إِنَّ الشَّيْطانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّما يَدْعُوا حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحابِ السَّعیرِ (1)

 "شیطان تمھارا دشمن ہے تم بھی اس سے دشمنی رکھو. شیطان کے ساتھ خوشیاں تو منا نہیں سکتا وگرنہ انسان بھی شیطان بن جائے گا".

پس اولیائے خدا سے دوستی رکھو اور دشمنان خدا سے دشمنی رکھنی چاہئے. اور یہ فطرت انسانی ہے اورتکامل اور سعادت انسانی کا عامل  ہے. اگر دشمنان خدا سے دشمنی نہ رکھے تو آہستہ آہستہ ان کی رفتار کو اپنا نے لگتا ہے اور دوستی پیدا ہوسکتی ہے اور آخر میں ایک شیطان دوسرے لوگ اس شیطان کی مانند ہوجائیں گے دیکھ لو قرآ ن کیا فرما رہا ہے:

واذرایت ْ إِنَّ الل ه جامِعُ الْمُنافِقینَ وَ الْکافِرینَ فی‏ جَهَنَّمَ جَمیعاً (2)

 یعنی جب بھی ایسے افراد سے جو ہمارے  دین کی اہانت ، استھزا اور مسخرہ کرتے ہیں ، نزدیک نہ ہو. ورنہ  آخرت میں انہیں کے ساتھ محشور ہونگے.

دوسرے  لفظوں میں ؛ دشمنوں کے ساتھ دشمنی کرنا  نقصانات کے مقابلے میں دفاعی سسٹم ہے جس طرح بدن انسان مفید مواد کو جذب کرتا ہے دفاعی سسٹم زہر اور جراثیم کو دفع کرتا ہے سفید گلوبل کا کام دفاع کرنا اور جراثیم کو مار دیاا ہے کوئی عاقل انسان یہ نہیں کہتا: اے جراثیمو ! خوش آمدید ، آؤ سر آنکھوں پر اھلاً وسہلاً ہمارے بدن میں وارد ہوجا ، تم ہمارے مامثن ہو، تو کیا ہمارا بدن اس صورت میں سالم رہے گا ؟

--------------

(1):-  فاطر6.

(2):-  انعام 68.

۱۴۱

پس ہر جگہ مسکرانا صحیح نہیں ہے بلکہ اسلام اور دین کے دشمنوں سےصراحتاً  بیزاری کااظہار کرنا قرآن کا حکم ہے چنانچہ ابراہیم  نے فرمایا:

انا بری‏ء منکم

اے بت پرستو ! میں تم سب سے بیزار ہوں اسی لئے امریکا مردہ باد اسرائیل مردہ باد کہنا عین عبادت ہے  کیونکہ تبریٰ فروع دین میں شامل ہے.

اور یہ امریکہ و اسرائیل ہماری موت کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے:

وَ لَنْ تَرْضی‏ عَنْكَ الْيَهُودُ وَ لاَ النَّصاری‏ حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَی الل ه هُوَ الْهُدی‏ وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ بَعْدَ الَّذی جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ما لَكَ مِنَ الل ه مِنْ وَلِيٍّ وَ لا نَصیرٍ (2)

"اور آپ سے یہود و نصاریٰ اس وقت تک خو ش نہںد ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پر و نہ بن جائںن، کہدیے ت: یقینا اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آ چکا ہے، اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پر وی کی تو آپ کے لےے اللہ کی طرف سے نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار"۔

پس پہلے دشمنوں پر لعن کرے بھر حسینؑ  پر سلام بھیجے.یہی دستورقرآن کا بھی ہے : پہلے دشمنوں سے اظہار بیزاری کریں پھر دوستوں سے اظہار محبت اول:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذینَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَی الْكُفَّارِ بعدفرمایا: رُحَماءُ بَيْنَهُمْ‏ (1)

اگرا یسا  ہو تو حسینی ہیں و رنہ حسینی ہونے کا صرف دعوا ہے.

--------------

(1):- بقرہ 120.

(2):-  فتح 29.

۱۴۲

سوال: داستان کربلا اسلام کی ترویج اور سعادت کا باعث ؟

جواب: اوپر کے چار سوالوں کے جواب کا ماحصل یہ تھا کہ اگر حادثہ عاشورا ، داستان کربلا تاریخ میں نقش متعین کنندہ ہوجائے تو اس کی نگہداری بھی ضروری ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیسے معلوم  ہو گا کہ داستان کربلا اسلامی ترقی اور ترویج کیلئے نقش متعین کنندہ  اور سعادت سازہے؟ !!

جواب: جس چیز پر دوست اور دشمن سب متفق ہیں یہ ہے کہ داستان کربلا اگر ایک بے مثال داستان نہ ہو تو کم نظیر داستان تو ہے یعنی نہ ایسی داستان کبھی واقع ہوئی ہے اورنہ بعد میں واقع ہوگی.  لیکن ہمارا عقیدہ ہے  کہ یہ داستان بے نظیر اور بے مثال داستان ہے کیونکہ معصوم  کا فرمان ہے اور اس کی کیفیت وقوع بھی مصیبت کے اعتبار سے قابل مقایسہ  نہیں ہے اس کی دلیل یہی ہے کہ ہر سال ہم بڑی شان و شوکت کے ساتھ عزاداری کرتے ہیں اور اوقات صرف کرتے ہیں ، پیسے خرچ کرتے ہیں اور یہ مراسم سرف اسلامی ممالک میں منعقد نہیں ہوتا

بلکہ نیویارک جیسے بڑے شہروں میں بھی عاشور کے دن تابوت اور شبیہ نکالتے ہیں  جہاں سازمان ملل (اقوام متحدہ ) کا دفتر موجود ہے .حتی اہل سنت بھی اس مراسم عزاداری میں شرکت کرتے ہیں حتی ہندوستان میں مسلمانان ایران کے دو برابر مسلمان موجود ہیں اور اسی طرح بنگلا دیش میں بعنوان ادای اجر رسالت اپنے اوپر واجب سمجھتے ہوئے عزاداری میں شرکت کرتے ہیں کیونکہ قرآن میں حکم آیا ہے :

 قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی. (1)

اور اجر رسالت کو ان کے آل کی خوشیوں اور غم میں شریک ہونے کی شکل میں ادا کرتے ہیں یہاں تک کہ بت پرست بھی عزاداری میں شرکت کرتے ہیں اور نذر ونیاز دیتے ہیں اگر آپ گذرزمان کے لحاظ سے دیکھے تو چودہ صدی گذرنے کے بعد بھی وہی طراوت اور شادابی پائی جاتی ہے اور وہی گریہ وعزاداری ہے

--------------

(1):-  الشوری  23.

۱۴۳

 اور اس کے ساتھ ساتھ شیعیان سید الشہدا ء کی قربانیوں کو نگاہ کریں ،کسی بھی قیمت پر ان کی قبر کی زیارت کیلئے حاضرہوتے ہیں متوکل عباسی کے زمانے میں بہت  ہی سخت گیری کرتے تھے یہی متوکل تھا جس نے سید الشہدا ء (ع)کے قبرپر ہل چلا یا اور پانی گرآثار کو ختم کرنا چاہا لیکن شیعوں نے دور یا نزدیک سے قبر امام   کی زیارت کرنے کی خاطر ہاتھ پیروں اور جان تک کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کئے. یہ سب کیوں ؟ کیا یہ اتفاقی ہے؟ حتی اہل سنت اور بت پرست بھی قربانی دیتے ہیں اور عاشور کے دن علی اصغر  کے نام پر دودہ کی شربت دیتے ہیں. یہ سب اس لئے کہ خود پیغمبر(ص) اور آئمہ طاہرینؑ  نے آپ کی زیارت کے فضائل زیادہ بیان کئے ہیں حتی معصوم سے سوال ہوا : زیارت پیغمبر اور بقیہ آئمہؑ  کا کس قدر ثواب ہے ؟ تو فرمایا : زیارت پیغمبراں الٰہی کی زیارت کا ثواب ہے لیکن زیارت سید الشہداءؑ  کا ثواب مانند زیارت خدا وند در عرش برین !!!

خود آئمہ طاہرین بھی ایام محرم میں ذاکرین اور شاعروں کو دعوت دیتے ہیں اور مراسم عزاداری منعقد کرتے تھے یہاں تک کہ مؤمنوں کے دلوں میں ایام محرم کیلئے ایک حرارت پیدا ہوتی ہے :انّ للحسین فی قلوب المؤمنین حرارة لم تبرد ابدا.

انسانی زندگی پرعزاداری کا اثر

ہمارا عقیدہ ہے پیغمبر اسلام (ص) سب سے افضل ہیں کیوں آپ کی وفات پر اس طرح عزاداری نہیں کرتے ؟ یا امیر المؤمنین  پر دس دن عزاداری کیوں نہیں کرتے ؟!

جواب : ہر معصومؑ میں ایک خاص خصوصیت پائی جاتی ہے اسی طرح امام حسین (ع) میں بھی فوق العادہ خصوصیات کی وجہ سے آپ کی عزاداری حضرت آدم  نے بھی کی ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا:حسین منیّ وانا من الحسین . اور فرمایا: وانہ لمکتوب علی ساق العرش ان الحسین مصباح الہدی وسفینة النجاة .اگرچہ ہمارے سارے امام چراغ ہدایت اورنجات کی کشتی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ امام حسین (ع) کی زندگی میں کچھ ایسی حالات واقع ہوئی کہ جو باعث بنی آپ کی شہادت کو اتنی عظمت

۱۴۴

ملی جو تقدیر الٰہی تھی وگرنہ ایسا نہیں کہ دوسرے آئمہ اور آپ میں فرق ہو اگر امام حسن  کو  سنبل صلح کا لقب ملا لیکن آپ امام حسین  (ع)کی جگہ پر ہوتے تو آپ بھی جنگ کرتے ایساہرگز نہیں کہ آپ خشونت آمیز ہو اور دوسرا صلح طلبانہ ، بلکہ ان کے کارناموں میں اختلاف  اجتماعی شرایط میں اختلاف کی وجہ سے ہے. وگرنہ یہ دونوں ایک سکہ کے دو رخ ہیں.

اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح یہ خصوصیات امام حسین  (ع)میں پیدا ہوئیں کہ ان کی عزاداری سے لوگوں کو شفا ملتی ہے. حضرت آیة اللہ بروجردی  مرجع شیعیان جہان درد چشم میں مبتلا تھے عزاداران سید الشہدا  کے پیروں کے نیچے سے مٹی لیکر اپنی آنکھوں میں ملتے ہیں تو اس طرح شفا ملتی ہے کہ آخری دم تک عینک کی ضرورت نہیں پڑی. اور لوگوں کی کتنی حاجتیں اسی عزاداری کے توسط سے پوری ہوتی ہیں ، تو کیا یہ مناسب نہیں کہ اس عزاداری کیلئے اہتمام کرے. 

دوسری بات  جو قابل توجہ ہے و ہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں انبیا ی الٰہی کی شخصیت اور اولیاء خدا کی شخصیات میں  بہت ہی ابہامات لوگوں نے پیدا کئے ہیں. حتی خود پیغمبر اسلام  کے بارے میں کہا کہ یہ مجنون ہے ،کسی نے کہا ساحر ہے حتی کانوں میں انگلیاں ڈال رکھے اسی طرح امام علی  کی ذات اور کردار کو اس طرح تحریف کیا کہ جب شام والوں نے سنا کہ علی  مسجد میں شہید ہوگئے ہیں تو تعجب کیا ، جبکہ علی  کی شخصیت عدالت اور عبادت سے پہچانی جاتی تھی ، لیکن یہ حسین کا کارنامہ ہے جس میں تحریف نہیں ملے گا ہر خاص وعام کہے گا : حسین حق کی حمایت اور اسلام  کی بقا کی خاطر شہید کئے گئے ، حتی شیر خوار بچے کی قربانی بھی دینے سے دریغ نہیں کیا اور ناموس اسیر کئے گئے. ممکن ہے جزئیات میں تحریف ہواہو، یہ تو ایک طبیعی چیز ہے کسی نے نہیں کہا کہ ایسا نہیں ہوا ہے .

۱۴۵

اگر کوئی اہل مقام ہو اور جب جان کو خطر میں دیکھتا ہے تو کسی صلح یابچنے کا راستہ ڈہونڈتا ہے ، لیکن امام  نے شب عاشور بھی اور روز عاشور بھی اسے بیعت یزید کا پیشنہاد کرتے رہے لیکن قبول نہیں کئے فرمایا: أَلَا وَ إِنَّ الدَّعِيَّ ابْنَ الدَّعِيِّ قَدْ تَرَكَنِی بَيْنَ السَّلَّةِ وَ الذِّلَّةِ وَ هَيْهَاتَ لَهُ ذَلِكَ مِنِّی هَيْهَاتَ مِنَّا الذِّلَّة . (1) کسی مقام یا دولت حاصل کرنے کے لئے کیا ناموس اور چھوٹے بچے ساتھ لے جاتے ہیں ؟!!

پس کسی بھی صورت میں تحریف نہیں کرسکتا کہ یہ قیام جہاں ن طلبی کیلئے کیا ہے اب کیا کوئی کہہ سکتا  ہے کہ حسین نے اشتباہ کیا ہے ؟!

البتہ بعض ناصبی نے کہا  کہ امام کو یہ نہیں کرنا چاہئے تھا.لیکن اس کے باوجود ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس عزاداری کی حفاظت کرے. ایک طرف امام حسین(ع) کی یاد میں گریہ کرنے ، جان نثاری ، اور نام حسین کے ساتھ عشق لگانا اور ایک زرہ خاک کربلا کو شفا یابی کی خاطر تناول کرنا دوسری طرف اس قدر نام امام حسین(ع) کو مٹانے کی کوشش کرنا کہ قبر پر پانی  ڈالا جائے اور زائرین امام کو شہید کرنا کیوں ؟ آخر انہیں اس دشمنی سے کیا حاصل ہوا؟ اب بھی لوگ جدید اصطلاحات اور مختلف صورتوں  میں عزاداری کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں ، یہ لوگ اپنے آپ کو روشن فکر کا نام دیتے ہیں جبکہ یہ کہنا مناسب ہوگا :بیدین اور تاریک فکر لوگ. یہ لوگ کہتے ہیں امام حسین (ع) نے خشونت سے کام لیا ، ہم  کہیں گے پیغمبر اسلام (ص)نے بھی جنگ بدر و حنین جیسی جنگوں میں خشونت سے کام لیا ہے اسی طرح بنی امیہ کے ساتھ ، ہم کہیں گے جنگ میں حلوا چپاتی تو تقسیم نہیں ہوتا بلکہ قتل یا زخمی ہوتا ہے یا دوسروں کو زخمی یا قتل کرتے ہیں وہ لوگ کہتے ہیں حادثہ عاشورا خشونت پیغمبر ہی کا نتیجہ تھا پس اگر کربلا سے درس حاصل کرنا ہے تو اس طرح حاصل کرے کہ ہم کسی سے خشونت نہ کرے تا ہمارے بچوں کے ساتھ کوئی دوسرا خشونت نہ کرے!!!

-------------

(1):-  الاحتجاج علی اہل اللجاج،ج2 ،احتجاجہ ع علی اہل الکوفة بکربلاء ،  ص 300.

۱۴۶

ان لوگوں کی نظر میں جہاد ، دفاع ، امر بہ معروف ، نہی از منکر  سب معطل ہونا چاہئے .تاکہ کوئی ہمارے ساتھ واسطہ نہ رکھے جبکہ خداوند امر کرتا ہے:قاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ الل ه بِأَيْدیكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنین‏ (1)

قرآن کی صریح آیت ہے کہ ان مشرکوں کے ساتھ جنگ کرو تاکہ تمھارے ہاتھوں کو لوگ عذاب میں پڑ جائی اور انہیں رسوا کرے اور تمہیں پیروز کرے اور قلوب مؤمنین کو ٹھنڈا کرے اب معلوم ہوجائے گا کہ یہ لوگ حسین(ع) سے کیوں دشمنی کرتے ہیں؟!

اپنے  رسول کے نواسے کو بے دردی سے شہید کیا گیا؟!!

کیوں ایسی وضعیت پیدا ہوئی کہ رحلت پیغمبر کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا ان کے عزیز نواسے کو اس قدر بے دردی کیساتھ شہید کیا گیا ؟!!

اشکال: قرآن میں خشک و تر موجود ہے تو واقعہ کربلا  اس میں کیوں درج نہیں ؟

جواب: قرآن میں ایک آیت ہے :إِنَّ الل ه يُحِبُّ الَّذینَ يُقاتِلُونَ فی‏ سَبیلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْیانٌ مَرْصُوصٌ (2) ایسا لشکر ہے جو دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہے اس کی پیشانی پر شکن نہیں پڑتی اور ان لشکروں کا ذکر کروں گا جن کا تذکرہ قرآن میں ہےجو اس لشکر کا ایک ایک سپاہی میدان سے منہ نہیں موڑتا، تو وہ لشکر کہاں ہے ؟

کیا پہلا لشکر جو حضرت موسیٰ کا ہے بنی اسرائیل بہت بڑی تعداد میں ہے اور جناب موسیٰ ان کو بچانے کیلئے لیکر راتوں رات مصر کو چھوڑ رہے ہیں اور صبح ہونے کے بعد فرعون کو خبر ہوتی ہے بنی اسرائیل نے مجھے چھوڑ دیا ہے:فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدائِنِ حاشِرینَ إِنَّ ه ؤُلاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلیلُونَ وَ إِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ وَ إِنَّا لَجَمیعٌ حاذِرُونَ. شعرا۵۳..۵۶

--------------

(1):-  توبہ14.

(2):-  الصف :4 

۱۴۷

فرعون نے قرب و جوار میں پیام رسان بھیجے جلدی جلدی لشکر بھیجو اگر لشرزمة قلیلون کیلئے اپنی فوج ہی کافی تھا تو کیوں ادھر ادھر سے مدد مانگتے ہو؟ دشمن کبھی اکیلے حملہ نہیں کرتا یہ باطل کی تاریخ ہے کیونکہ جتنا بھی قوی ہو وہ دل کے کمزور ہوتا ہے.اب اتنا لشکر جمع ہوگیا کہ بنی اسرائیل آگے سمندر پیچھے سے لشکروں کا سمندر یہ لوگ گھوڑوں پر سوار موسیٰ کو حکم ہوا عصا کو دریا پر مارو  تو حکم الہی کی اطاعت ہوئی تو دریا پھٹ گیا پہاڑیوں میں تبدیل ہوگیا وسط میں راستہ پالنے والے تو اگر کہہ دیتے دریا سے کہ میرے نبی کو راستہ دیدے تو کیا وہ تیری اطاعت نہ کرتا ؟ موسیٰ نے کہا ہو تاکہ تو آگے بڑھو اور کہو اس سےکہ راستہ دیدے کہ کلیم خدا تھے تو کیا راستہ نہ دیتا؟یہ ڈنڈا مارنے کا حکم کیوں ہوا؟ تاکہ دنیا کو یہ بتا دے کہ ڈنڈے میں بذات خود کوئی قدرت تو نہیں ہے لیکن جب کسی معصوم سے منصوب ہوتی ہے تو صاحب کرامت بن جایا کرتا ہے ، اب بنی اسرائیل سے موسیٰ  نے کہا : اب چلو وہ سب نکل گئے اور پانی کی موجیں اسی طرح کھڑی رہی تو فرعون نے کہا : یہ تو میرا معجزہ ہے ،بڑھو آگے. فرعون آگے آگے اور لشکر اس

کے پیچھے پیچھے جب درمیان میں آگیا تو موجیں مل گئیں اب بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے خدا کی طاقت دیکھ لیا اور یہ دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کر رہا ہے یہاں سے بڑھ کر شام کے باڈر پر پہنچے تو موسیٰ نے اشارہ کیا :یا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتی‏ كَتَبَ الل ه لَكُمْ وَ لا تَرْتَدُّوا عَلی‏ أَدْبارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خاسِرینَ المائدة :  21 یہ سامنے جو زمین دکھائی دے رہی ہے تمھارے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے ، چلو اس کے اندر دیکھ نبی خدا اور اس کے اعجاز ، اللہ کی تائید ، فرعون کا ڈھوبنا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے مگر ایمان اتنا کمزور ہے کہ جب موسیٰ نے کہا: اللہ نے اس زمین کو تمھارے لئے لکھ دیا ہے چلو اس کو اپنے قبضے میں لے لو تو قرآن کہتا ہے کہ بنی اسرائیل نے جواب دیا:

۱۴۸

 قالُوا یا مُوسی‏ إِنَّ فی ه ا قَوْماً جَبَّارینَ وَ إِنَّا لَنْ نَدْخُلَ ه ا حَتَّی يَخْرُجُوا مِنْ ه ا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْ ه ا فَإِنَّا داخِلُونَ قالَ رَجُلانِ مِنَ الَّذینَ يَخافُونَ أَنْعَمَ الل ه عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبابَ فَإِذا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غالِبُونَ وَ عَلَی الل ه فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنینَ قالُوا یا مُوسی‏ إِنَّا لَنْ نَدْخُلَ ه ا أَبَداً ما دامُوا فی ه ا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقاتِلا إِنَّا ه اهُنا قاعِدُونَ قالَ رَبِّ إِنِّی لا أَمْلِكُ إِلاَّ نَفْسی‏ وَ أَخی‏ فَافْرُقْ بَيْنَنا وَ بَيْنَ الْقَوْمِ الْفاسِقینَ (1) اے موسیٰ ہم نے سنا ہے اس سرزمین پر بسنے والی قوم بڑی مضبوط ہے ہم تو اس کے قریب نہیں جائیں گے آپ نے کہا کیا فرعون کے لشکر سے زیادہ مضبوط ہے ان کا غرق ہونا ابھی دیکھا ہے مگر ایمانی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ کہنے لگے : ہم تو اس میں نہیں جائیں گےاور جسارت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ تو اور تیرے پروردگار جائیں ہم  یہیں سے تماشا دیکھتے رہیں گے. اگر اس سرزمین پر قبضہ کرنے کا شوق ہے تو اپنے پروردگار کے ساتھ خود جائیں

امام سجاد کا گریہ کیا صبر کے خلاف نہیں؟

جواب:رونا اور گریہ کرنا صبر کے خلاف نہیں  اور امام کے شان کے خلاف بھی نہیں۔اگرچہ امام زین العابدین نے بین بھی کئے ہیں ، بے تابی بھی کی ہیں۔ در اصل جو اثر مصائب ہے ہوتے ہیں سب ہوئے ہیں۔لیکن یہ بین ،مرثیہ اور رونا نہیں تھےبلکہ یہ اس قربانی کی قیمت کا اظہار تھا اور اس مقصد کی اہمیت کا احساس پیدا کرنا تھا کہ دیکھو!میرا کیسا بھائی تھا کہ جسے میں نے کس مقصد کے لئے دے دیا۔

سؤال 148: آیا صحیح است اولین کسی کہ در عزاداری، مراسم سینہ زنی بہ راہ انداخت عایشہ ـ رضی اللہ عنہا ـ بود. آنجا کہ ایشان می گوید: کہ چون احساس کردم پیغمبرـ صلی اللہ علیہ و سلّم ـ رحلت کرد: زنان را جمع کردہ و بر سینہ و صورت می زدم.

«عن عبّاد: سمعت عائشة تقول: مات رسول الله ـ صلی الله علیه و سلّم ـ ثم وضعتُ راسه علی و سادة و قمت أَلتدم ـ ای اضرب صدری ـ مع النساء و اضرب وجهی».[ 356]

--------------

(1):-  مائدہ ۲۲- ۲۵.

۱۴۹

و ہمچنین زنان بنی سفیان در شام در عزای حضرت حسین(رضی اللہ عنہ)سینہ می زدند ابن عبد ربہ اندلسی می گوید:«قالت فاطمة: فدخلت الیهن فما وجدت فیهن سفیانیة الاّ ملتدمة تبکی». [357]

سؤال 149: آیا صحیح است کہ شامیان برای حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ)یکسال عزاداری کردہ و برای رحلت او گریستند...اگر ما می گوئیم گریہ و نوحہ برای میت مشروع نیست. چرا در حضور معاویہ در این مدت عزاداری کردہ ولی او نہ تنہا اینکہ مانع نشد بلکہ آنان را حمایت و پشتیبانی می کرد.

ذہبی می گوید:«نصب معاویة القمیص علی منبر دمشق و الاصابع معلقة فیه و آلی رجال من اهل الشام لا یاتون النساء، و لا یمسّون الغُسل الامن حلُم، و لا ینامون علی فراش، حتی یقتلوا قتلة عثمان او تفنی ارواحهم، و بکوه سنة».[ 358]

معاویہ پیراہن عثمان و بعضی از انگشتان قطع شدہ او را بر فراز منبر آویزان کرد، و عدہ ای از شامیان سوگند یاد کردند کہ بہ بستر استراحت و خواب نروند، و با ہمسران خود مقاربت نکنند. تا اینکہ قاتلان عثمان را بہ قتل برسانند یا اینکہ کشتہ شوند، و یکسال برای او گریستند.

[356] .السیرة النبویة 4: 305.

[357] .العقد الفرید 4: 383.

[358] .تاریخ الاسلام (الخلفاء)، 452.

سؤال 150: آیا ارزش و کرامت زن نزد ما در این حد است کہ او را در کنار و ردیف سگ و خوک و خر و شتر قرار دہیم. چنانچہ در کتابہای ما آمدہ: بہ ہنگام نماز حائلی را قرار دہد تا اگر زن یا خر و یا شتر رد شود بہ صحت نماز ضرری نزند.

«قال: و الظُعن یمرُّون بین یدیه: المراة و الحمار و البعیر».[ 359]

یعنی نمازگذار با گذاشتن مانع در مقابل خود، زن، خر و شتر از برابر او را می گذرند و ضرری بہ نماز نمی زند.

۱۵۰

ابوہریرہ می گوید:«یقطع الصلاة المراة و الحمار و الکلب».[ 360]

عبور زن و الاغ و سگ از مقابل نمازگذار نماز را باطل می کند و احمد بن حنبل فرمود:«یقطع الصلاة الکلب الاسود و الحمار و المراة»، یعنی عبور سگ سیاہ و الاغ و زن نماز را باطل می کند .[361]

البتہ این گونہ تعبیرہا بقدری سنگین و با کرامت زن تنافی دارد کہ مورد اعتراض شدید آنان قرار گرفتہ.

جناب عائشہ(رضی اللہ عنہ) می گوید:«جعلتمونا بمنزلة الکلب و الحمار...».[ 362]

یعنی ما زنان را ردیف سگ و الاغ قرار دادید!!

[359] .السنن الکبری 3: 166 و 3554 ـ مصنف ابن ابی شیبہ 1: 315.

[360] .صحیح مسلم 1: 145 ـ المحلی 4: 8.

[361] .المحلی 4: 11.

[362] .ہمان. عن عکرمة یقطع الصلاة الکلب و المراة و الخنزیر و الحمار و الیہودی و النصرانی و المجوسی.

مصنف ابن ابی شیبہ 1: 315.

۱۵۱

آٹھویں فصل:

 امام زمان (ع) سے مربوط اشکالات

عقیدہ مہدویت کے بارے میں شیعہ اور سنی  مکتب میں کچھ مشترکات اور کچھ اختلافات پائی جاتی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

مشترکات : وجود میں آنا، قریشی ہونا، رسول ، علی ، فاطمہ اور امام حسین(ع) کی اولاد میں سے ہونا،اسی طرح کنیت اور نام بھی اہل سنت اور شیعہ دونوں کے نزدیک  ایک جیسے ہیں. آپ کے ظہور کے بارے میں  ۶۵۷ احادیث  موجود ہیں صحیح بخاری اورصحیح مسلم  نے بھی ان احادیث کو صحیح السند مانے ہیں.

افتراقات: معصوم ہونا اور نہ ہونا، علم غیب  رکھنا اور نہ رکھنا، گیارہ اماموں کے بعد امام عسکری کی اولاد میں سے ہونا اور نہ ہونا، ولادت ہوچکی ہے اور بعد میں ہوگی، جبکہ شیعہ کے ہاں صحیح احادیث موجود ہیں ، جن میں سے ایک حدیث کو نمونے کے طور پر یہاں بیان کریں گے :

أَنَّ رَسُولَ الله ص أَوْصَی بِأَمْرِ الله تَعَالَی إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ع وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ إِلَی الْحَسَنِ وَ أَوْصَی الْحَسَنُ إِلَی الْحُسَيْنِ وَ أَوْصَی الْحُسَيْنُ إِلَی عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ إِلَی مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاقِرِ وَ أَوْصَی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُ إِلَی جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ وَ أَوْصَی جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّادِقُ إِلَی مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ وَ أَوْصَی مُوسَی بْنُ جَعْفَرٍ إِلَی ابْنِهِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَی الرِّضَا وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ مُوسَی الرِّضَا إِلَی ابْنِهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ أَوْصَی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَی ابْنِهِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ أَوْصَی عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ إِلَی ابْنِهِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَ أَوْصَی الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَی ابْنِهِ حُجَّةِ الله الْقَائِمِ بِالْحَقِّ الَّذِی لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوَّلَ الله ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّی يَخْرُجَ فَيَمْلَأَهَا عَدْلًا وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْما .(1)

--------------

(1):-  الکافی    ج1،   باب السعادة و الشقاء ص 152.

۱۵۲

اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اکرم (ص) نے اپنے بھائی علی کو اپنا نانشین بنایا اور علی نے اپنے بیٹے حسن کو انہوں نے حسین کو یہاں تک کہ امام حسن العسکری نےامام  زمان  کو اپنا جانشین بنایا جو اس دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریگا اگرچہ اس دنیا کی زندگی ایک دن سے زیادہ نہ بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس دن کو اتنا طول دیگا  یہاں تک کہ مھدی ظہور فرمائے گا  اور  اس دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح پر کریگا جس طرح ظلم و جور سے پر ہوچکی ہے.

ٍ الاحتجاج علی اهل اللجاج ج‏1 69 ذکر تعیین الائمة الطاهرة بعد النبی ص و احتجاج الله تعالی بمکانهم علی کافة الخلق ص : 67

دَعَوْتُهُ وَ إِنْ رَجَعَ إِلَيَّ قَبِلْتُهُ وَ إِنْ قَرَعَ بَابِی فَتَحْتُهُ وَ مَنْ لَمْ يَشْهَدْ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَحْدِی أَوْ شَهِدَ بِذَلِكَ وَ لَمْ يَشْهَدْ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدِی وَ رَسُولِی أَوْ شَهِدَ بِذَلِكَ وَ لَمْ يَشْهَدْ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ خَلِیفَتِی أَوْ شَهِدَ بِذَلِكَ وَ لَمْ يَشْهَدْ أَنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِهِ حُجَجِی فَقَدْ جَحَدَ نِعْمَتِی وَ صَغَّرَ عَظَمَتِی وَ كَفَرَ بِآيَاتِی وَ كُتُبِی إِنْ قَصَدَنِی حَجَبْتُهُ وَ إِنْ سَأَلَنِی حَرَمْتُهُ وَ إِنْ نَادَانِی لَمْ أَسْمَعْ نِدَاءَهُ وَ إِنْ دَعَانِی لَمْ أَسْتَجِبْ دُعَاءَهُ وَ إِنْ رَجَانِی خَيَّبْتُهُ وَ ذَلِكَ جَزَاؤُهُ مِنِّی وَ ما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِ فَقَامَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ الله الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ الله وَ مَنِ الْأَئِمَّةُ مِنْ وُلْدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ؟ فَقَالَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ زَيْنُ الْعَابِدِینَ فِی زَمَانِهِ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ثُمَّ الْبَاقِرُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَ سَتُدْرِكُهُ يَا جَابِرُ فَإِذَا أَدْرَكْتَهُ فَأَقْرِئْهُ مِنِّی السَّلَامَ ثُمَّ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ الْكَاظِمُ مُوسَی بْنُ جَعْفَرٍ ثُمَّ الرِّضَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَی ثُمَّ التَّقِيُّ الْجَوَادُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ النَّقِيُّ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ الزَّكِيُّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ ابْنُهُ الْقَائِمُ

بِالْحَقِّ مَهْدِيُ‏ أُمَّتِی مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ صَاحِبُ الزَّمَانِ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِمْ أَجْمَعِینَ الَّذِی يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً هَؤُلَاءِ يَا جَابِرُ خُلَفَائِی وَ أَوْصِيَائِی وَ أَوْلَادِی وَ عِتْرَتِی مَنْ أَطَاعَهُمْ فَقَدْ أَطَاعَنِی وَ مَنْ عَصَاهُمْ فَقَدْ عَصَانِی وَ مَنْ أَنْكَرَهُمْ أَوْ أَنْكَرَ وَاحِداً مِنْهُمْ فَقَدْ أَنْكَرَنِی بِهِمْ يُمْسِكُ الله عَزَّ وَ جَلَّ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَیالْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ وَ بِهِمْ يَحْفَظُ الل ه الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا

۱۵۳

ای یودی از ذریت من در آخر الزمان مدی علی السّلام بیرون آید و بعد از خروج آن حضرت عیسی بن مریم از آسمان بحکم قادر سبحان بواسط نصرت و دریافت صحبت لازم المسرت آن خلاص خاندان طیبین و طارین بزمین آید و بجت تصدیق آن امام زمان در وقت ادای فرایض ایزد علام اقتدا بآن امام خاص و عام نماید و نماز دوگان در عقب آن یگان گور ولایت و نبوت بجای آرد و مزید درج ثواب و عزت آن حضرت علی السّلام گردد.

بدانید کہ جمیع ائمة الہدی از من و از علیاند و بدانید کہ این جماعتاند کہ تا قیام قیامت امامت و ولایت آنہا مستقر و ثابت است و مہدی از این طایفہ در آخر زمان خلیفہ ایزد منان است کہ حکم و عدل نماید و نہی از جور و ستم فرماید.

 احتجاج-ترجمہ غفاری مازندرانی ج1 245 ذکر بیان معنی قاسطین و مارقین و ناکثین ص : 229

احتجاج-ترجمہ غفاری مازندرانی ج1 169 فضیلت حضرت پیغمبر بر حضرت موسی بن عمران ص : 167

صد و شصت و پنجم: و نیز در ہمان کتاب از سعید بن مسیّب از سعد بن مالک حدیث کند کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ بہ علی علیہ السّلام فرمود: یا علی! مقام و منزلت تو نسبت بہ من منزلت ہارون از موسی است جز اینکہ بعد از من پیغمبری نیست، قرض مرا ادا میکنی؛ و بہ وعدہہای من وفا کنی؛ و پس از من بر تاویل (قرآن) جنگ کنی چنانچہ من بر تنزیل آن جنگ کردم، یا علی دوستی تو (نشانہ) ایمان و دشمنیات (علامت) نفاق است، و خداوند لطیف و خبیر مرا آگاہ فرمودہ کہ از صلب حسین نہ تن امامان معصوم و پاکیزہ بیرون آورد، و از ایشان است مہدی این امّت کہ در

الانصاف فی النص علی الائمة ع با ترجمہ رسولی محلاتی ترجمہفارسی 241 حرف سین ص : 231

از آن جملہ خبری است کہ در احتجاج نقل شدہ از کافری کہ مدعی تناقض قرآن بود امیر المؤمنین ذکر دلائل و کنایاتی کہ در بارہ آنہا در قرآن نازل شدہ مینماید میفرماید: ہم بَقِیَّتُ اللہ یعنی مہدی کہ میآید پس از انقضاء مہلت زمین را پر از عدل و داد میکند چنانچہ پر از جور شدہ و از آن جملہ خبری است کہ

۱۵۴

بخش امامت-ترجمہ جلد ہفتم بحار الانوار ج2 180 بخش پنجاہ و ششم آئمہ علیہم السلام حزب اللہ و بقیة اللہ و کعبہ و قبلہ و افشاندن علم ہمان علم اوصیاء است ص : 180

از آن جملہ خبری است کہ در احتجاج نقل شدہ از کافری کہ مدعی تناقض قرآن بود امیر المؤمنین ذکر دلائل و کنایاتی کہ در بارہ آنہا در قرآن نازل شدہ مینماید میفرماید: ہم بَقِیَّتُ اللہ یعنی مہدی کہ میآید پس از انقضاء مہلت زمین را پر از عدل و داد میکند چنانچہ پر از جور شدہ و از آن جملہ خبری است کہ

مامون گفت: یا ابا الحسن نظر شما در بارہ رجعت چیست فرمود: رجعت یک واقعیت است در امتہای قبل نیز بودہ و قرآن شاہد آن است با اینکہ پیغمبر اکرم نیز فرمودہ ہر چہ در امتہای پیشین اتفاق افتادہ در این امّت نیز ہست کاملا برابر و بدون ذرہای پس و پیش و فرمودہ است وقتی مہدی از فرزندانم ظہور کند عیسی بن مریم فرود میآید و پشت سر او نماز میخواند و فرمودہ است اسلام غریب آغاز شد و در آیندہ نیز بحالت غربت خواہد رسید ای خوشا بحال

مامون گفت: یا ابا الحسن نظر شما در بارہ رجعت چیست فرمود: رجعت یک واقعیت است در امتہای قبل نیز بودہ و قرآن شاہد آن است با اینکہ پیغمبر اکرم نیز فرمودہ ہر چہ در امتہای پیشین اتفاق افتادہ در این امت نیز ہست کاملا برابر و بدون ذرہای پس و پیش و فرمودہ است وقتی مہدی از فرزندانم ظہور کند عیسی بن مریم فرود میآید و پشت سر او نماز میخواند و فرمودہ است اسلام غریب آغاز شد و در آیندہ نیز بحالت غربت خواہد رسید ای خوشا بحال

۱۵۵

اشکال : امام غائب کا کیا فائدہ ؟

 امام کو منصوب کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو دین اور آخرت کی تعلیمات دیں اور  رہنمائی کریں ، اوریہ اس وقت ممکن ہے کہ امام لوگوں کے درمیان موجود ہو.اگر ظاہر ہی نہ ہو تو اسے کیسے قائد مانا جائے ؟!!

جواب:

1.  دوران غیبت میں اگر ہم فائدہ امام کو درک نہیں کرسکتے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام غائب بے فائدہ ہے

2.  غیبت کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ  ہمارے امور میں کو ئی بھی تصرف نہیں کرسکتا، بلکہ یہ ممکن ہے کہ غائب رہ کر بھی امّت کے امور میں تصرف کرے.

3.  یہ بھی معلوم ہے کہ سارے لوگوں کا امام تک رسائی ممکن نہیں ہے،لیکن بعض خاص افراد کو اپنا جانشین بنا کر لوگوں کے مسائل ان کے ذریعے حل کراتے ہیں ، انہی افراد کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے مجتہدین تک  آتا ہے

4.  امام غائب کی حکومت  بھی انہی نائبین کے ذریعے  ممکن ہے ، اور خود امام کے حاظر ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے .

فلسفہ غیبت امام زمان کیا ہے ؟

1.  جانی حفاظت کی خاطر غیبت کو چلے گئے ، کیونکہ اگر طبیعی طور پر زندگی کرتے تو مختصر سال زندگی کرنے کے بعد اس دنیا سے رحلت کرجاتے جبکہ رسول خدا(ص) نے فرمایا تھا کہ میرے بعد بارہ خلیفہ ہونگے اور وہ بھی سب قریشی دوسری طرف قیامت تک کیلئے یہ بارہ  جانشین سے  ہی  کو زندہ رکھنا تھا.

2.  لوگوں کا امتحان لینا مقصود تھا .

3.  اسرار الٰہی میں سے  ایک سرّ الٰہی تھا.

4.  یارا ن اوردوستوں کی کمی تھی.

5.  انبیاء الٰہی کی سنت  کا اجراء کرنا تھا.

۱۵۶

اشکال: اتنی طولانی عمر کیسے ممکن ہے؟

جواب: اس کیلئے عقلی اور نقلی توجیہات موجود ہیں:

عقلی توجیہ: عقلاً  عمرطولانی ناممکن نہیں ہے .اگر ناممکن ہوتا تو شروع سے ہی نہ ہوتا

نقلی توجیہ:جبکہ قرآن کریم میں ایسے کئی نمونے بیان  ہوئے ہیں: جیسے حضرت نوح (ع)نے دو ہزار سال عمر کی ، اصحاب کہف نے تین سو دس سال زندگی کی ، حضرت عزیر (ع)نے ایک سوپچاس سال زندگی کی، حضرت یونس(ع):وَ ذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغاضِباً فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنادی‏ فِی الظُّلُماتِ أَنْ لا إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَكَ إِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ (1) کہ یہ حضرات غیر طبیعی طور پر زندگی کرچکے ہیں. یہ جواب نقضی ہے  لیکن جواب حلّی یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے یا نہیں: بالکل ہے ان اللہ علی کل شیئ قدیر. پس اللہ  تعالیٰ اپنے اہداف کے  حصول کی خاطر کسی کو زیادہ عرصے تک زندہ رکھتا ہے .اور اس میں کوئی اشکال بھی نہیں ہے .

بیالوجی اور تجرباتی توجیہ:  بھی ثابت کرچکا ہے کہ موت کسی نہ کسی بیماری  یا  حادثہ کے عارض ہونے پر واقع ہوتی ہے ، اگر یہ چیزیں نہ ہوتو عمر طولانی ہوسکتی ہے اسی لئے اگر کسی کی موت پر اسرار طریقے سے واقع ہوئی ہو تو اس ڈیڈ باڈی کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہےتاکہ معلوم ہوجا ئے کہ موت کیسے واقع ہوئی ہے ؟

اشکال : غیبت امام قاعدہ لطف کے منافی

یعنی قاعدہ لطف یہ بتاتا کہ اللہ تعالیٰ پر فرض تھا کہ انسان کی ہدایت کیلئے نبی کے بعد بھی رہبر اور امام کا بندوبست کرے ؛ لیکن آخری امام کو پردہ غیبت میں رکھ کر اپنے لطف و کرم سے لوگوں کو محروم کردیا.

جواب: امام کے غیبت میں جانے کا اصل عامل خدا نہیں بلکہ ہم انسان ہیں کہ لوگوں پر اس امام کی تبعیت اور پیروی واجب تھی لیکن نہیں کی.

--------------

(1):- .  الانبیاء ۸۷.

۱۵۷

دوسری بات یہ ہے کہ غیبت میں جانا کالعدم تو نہیں ہے بلکہ غیبت میں رہنے امام کے بعض فیوضات سے ہم محروم ہوجاتے ہیں ، جیسے امام کی بدون واسطہ حکومت،اور مستقیم احکام الہی کا بیان  اور معارف دین کو خود امام کی زبانی سننے سے محروم ہوگئے ہیں لیکن دیگر فوائد ، جیسے باطنی اور روحانی فوائد سے مستفید ہوسکتے ہیں اسی طرح مسلمانوں  کی امداد اور واسطہ فیض الہی حالت غیبت میں بھی ممکن ہے ناممکن نہیں.علامہ حلی کلام خواجہ نصیر الدین کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : لطف الہی کی تکمیل اور اتمام کیلئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے:

1.  اللہ تعالیٰ انجام دے دے کہ ۲۵۵ ؁ میں اللہ تعالیٰ نے امام حسن عسکری کو یہ نور مھدی موعود کی شکل میں عطا کیا.

2.  امام قبول کرے کہ امام نے بھی قبول کیا

3.  امّت ان کی تبعیت کرے ، کہ انہوں نے ان کی تبعیت کرنے سے روگردانی کئے.

مہدویت کے موضوع پر اہم کتابیں:

مجلہ انتظار، درسنامہ مھدویت خدامرادی، نگین آفرینش، امامت و فلسفہ خلقت جمکران، آخرین امید، داود الہامی، مھدی موجود جوادی آملی، مکارم شیرازی،

رجعت سے کیا مراد ہے اور کیا یہ ممکن ہے؟

جواب: رجعت سے مراد امام زمان ع کے دور میں مؤمنین اور کفار کے ایک ایک گروہ کا دوبارہ زندہ ہونا ہے اور یہ ناممکن نہیں ہے ، کیونکہ اس کی بہت ساری مثال تاریخ میں ملتی ہے جن میں سے بعض کا ذکر کروں گا:

۱۵۸

1.  قوم موسیٰ میں سے ۷۰ افراد کا رجعت کرنا.

2.  مرنے کے بعد ہزاروں لوگوں کی رجعت :(أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ (1) .). ترجمہ

3. او کالذی مر علی قریة .(2) جو سو سال کے بعد زندہ ہوا تھا ، یہ واقعہ حضرت عزیز اور عزیر کا واقعہ ہے.

4.  سام بن نوح کی دنیا میں رجعت.

5.  فرزندان حضرت ایوب کی رجعت(3)

اسلام میں بھی رجعت کے کئی نمونے موجود ہیں : جیسا کہ اہل سنت کے علماء میں سے  ابن ابی الدنیا (متوفی۲۰۸) نے اس سلسلے میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام:من عاش بعد الموت رکھا ہے جسے عربستان میں چھاپی گئی .جس میں کئی نمونے پیش کئے ہیں، جیسے:

1 رجعت زیدبن خارجہ.

2- رجعت جوانی از انصار.

3- رجعت مردی از مقتولین مسیلمہ.

4- رجعت ابن خراش.

5- رجعت یکی از بستگان- دایی- ابن ضحاک.

6- رجعت رؤبہ دختر بیجان.

7- رجعت شخصی از بنیجُہینہ(4)

--------------

(1):-  بقرہ: 243.

(2):- بقرہ: 259.

(3):- الدرّ المنثور، ج 5، ص 316؛ جامع البیان، ج 16، ص 42؛ تفسیر نیشابوری، ص 44؛ الشیعہ و الرجعہ، ج 2، ص 154 .

(4):- ترمذی، ج 5، ص 26.

۱۵۹

نویں فصل : مشروعیت متعہ

قرآن میں متعہ  کا حکم

وَ الْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ  كِتَابَ الل ه عَلَيْكُمْ  وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم محُّْصِنِینَ غَیرَْ مُسَافِحِینَ  فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنهُْنَّ فََاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً  وَ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِیمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِیضَةِ  إِنَّ الل ه کاَنَ عَلِیمًا حَكِیمًا. (1)

 اورتم پر حرام ہیں شادی شدہ عورتیں- علاوہ ان کے جو تمہاری کنیزیں بن جائیں- یہ خدا کا کھلا ہوا قانون ہے اور ان سب عورتوں کے علاوہ تمہارے لئے حلال ہے کہ اپنے اموال کے ذریعہ عورتوں سے رشتہ پیدا کرو عفت و پاک دامنی کے ساتھ سفاح و زنا کے ساتھ نہیں پس جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے اور فریضہ کے بعد آپس میں رضا مندی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے بیشک اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے.

اس آیہ شریفہ  کی توضیح:

میں درمیانی جملہ(فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً) ازدواج موقت کی طرف اشارہ  ہے جسے اصطلاح میں "متعہ" کہتے ہیں. فرماتے ہیں کہ جن عورتوں سے متعہ کرتے ہو ان کا مہریہ واجب الادا کی نیت سے دیا کرو .اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ازدواج موقت کی اصل تشریع اس آیہ شریفہ کی نزول سے پہلے لوگوں کوپتہ تھا اسی لئے ان کو ان کا مہریہ دینے کا حکم دیا جا رہا ہے .اور چونکہ یہ بحث ایک فقہی اور اجتماعی بحث ہے لذا اس پردرج ذیل جہات سے  تفصیلی بحث کرنا ضروری ہے :

--------------

(1):-  النساء ۲۴.

۱۶۰