شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات0%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 255
مشاہدے: 208402
ڈاؤنلوڈ: 5942

تبصرے:

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208402 / ڈاؤنلوڈ: 5942
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کیا آیۃ میں قرینے موجود ہیں جو ازدواج موقت "متعہ" پر دلالت کرتے ہیں ؟

جواب: استمتعتم کلمہ متعہ سے مشتق ہے اسلام میں اس کا معنی ازدواج موقت ہے اور یہ اصطلاح اس بارے میں حقیقت شرعیہ بن چکی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) اور اصحاب کی روایات میں بھی اسی معنی میں لیاہے.(1)

الف:اگر یہ کلمہ اس معنی میں استعمال نہ ہو تو اس کی لغوی معنی (لذت اٹھانا)میں ضرور استعمال کرنا چاہئے ایسی صورت میں اس کی تفسیر یہ ہوگی : اگر نکاح دائم والی عورت سے لذت حاصل کرے تو اس کا مہریہ اسے ادا کرو. جبکہ معلوم ہے کہ ان کا مہریہ ادا کرنا ،لذت اٹھانے ہر موقوف نہیں ہے بلکہ مشہور یہ ہے کہ اس کاسارا مہریہ یا حد اقل آدھا مہریہ نکاح پڑھتے ہی دینا واجب ہوجاتا ہے

ب: اصحاب اور تابعین میں سے ابن عباس جیسے دانشور اور مفسّر ، ابی بن کعب ، جابر بن عبداللہ، عمران بن حسین و سعید بن جبیر ، و مجاھد و قتادہ و سدی اور اہل سنت اور اہل تشیع کے بڑے بڑے مفسّرین نے درج بالا آیت کی تفسیر متعہ کو لیا ہے یہاں تک کہ فخر رازی جو ہر وقت شیعوں سے مربوط مسائل پر اشکالات کرتے رہتے ہیں ، کہتے ہیں کہ اوپر والی آیۃ متعہ کے جواز پر دلالت کرتی ہے.

ج: آئمہ اطھار (ع)جو سب سے بہتر اسرار وحی سے باخبر ہیں تمام کا اتفاق ہے کہ آیہ کی اسی طرح تفسیر کی ہیں امام صادق (ع)فرماتے ہیں : المتعة نزل بها القرآن و جرت بها السنة من رسول الله‏(ص) .یعنی متعہ کا حکم قرآن نے دیا ہے اور اس کے مطابق رسول اللہ(ص) نے عمل بھی کیا ہے(2)

--------------

(1):- تفسیر نمونہ، ج3، ص: 336.

(2):- نور الثقلین جلد اول صفحہ 467 و تفسیر برہان صفحہ 360 جلد اول.

۱۶۱

عَنْ أَبِی بَصِیرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع عَنِ الْمُتْعَةِ فَقَالَ نَزَلَتْ فِی الْقُرْآنِ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً وَ لا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِیما تَراضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیضَةِ (1)

ابی بصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام باقر (ع)سے متعہ کے بارے میں سوال کیاتو فرمایا: اس بارے میں قرآن کا حکم ہے ؛ اور اوپر والی آیۃ کی تلاوت فرمائی یعنی قرآن نے حکم دیا اور رسول اکرم (ص) نے اس پر عمل کیا.(2) امام باقر(ع) نے عبداللہ بن عمیر لیثی کے سوال کے جواب میں فرمایا:احلها الله فی کتابه و علی لسان نبیه فهی حلال الی یوم القیامة. خدا تعالیٰ نھے اسے قرآن میں اور پیغمبر (ص)کی زبانی حلال قرار دیا ہے جو قیامت تک کیلئے حلال ہوگا(3)

کیا یہ آیة منسوخ نہیں ہوئی ہے؟

کیا متعہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں تھا ، ایسی صور ت میں کیا بعد میں نسخ نہیں ہوا ہے؟

جواب:علماے اسلام کا اتفاق ہے کہ متعہ آغاز اسلام میں مشروع تھا ، چنانچہ آیت سے ثابت ہوا کہ یہ مسلمات میں سے ہے رسول اللہ(ص) بھی متعہ کیا کرتے تھے اور آپ کے اصحاب بھی ؛حتی حضرت عمر کے اس جملے سے تو اور بھی واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں موجود تھا؛ متعتان کانتا علی عہد رسول اللہ و انا محرمہما و معاقب علیہما متعة النساء و متعة الحج.(4)

أَحَلَّ الله الْمُتْعَةَ مِنَ النِّسَاءِ فِی كِتَابِهِ وَ الْمُتْعَةَ فِی الْحَجِّ أَحَلَّهُمَا ثُمَّ لَمْ يُحَرِّمْهُمَا فَإِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ أَنْ يَتَمَتَّعَ مِنَمد الْمَرْأَةِ فَعَلَی كِتَابِ الله وَ سُنَنِهِ نِكَاحٍ غَيْرِ سِفَاحٍ تَرَاضَيَا عَلَی مَا أَحَبَّا مِنَ الْأَجْرِ وَ الْأَجَلِ كَمَا قَالَ الله فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً وَ لا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِیما تَراضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیضَةِ إِنْ هُمَا أَحَبَّا أَنْ يَمُدَّا فِی الْأَجَلِ عَلَی ذَلِكَ الْأَجْرِ فَآخِرَ يَوْمٍ مِن(5)

--------------

(1):- الکافی، ج5، ابواب المتعة، ص : 448.

(2):- از ہمان مدرک، تفسیر نمونہ، ج3، ص: 337.

(3):- تفسیر برہان ذیل آیہ .

(4):- کنز العرفان ،ج۲، ص158- تفسیر قرطبی و طبری، سنن کبرای بیہقی،ج ۷ ، کتاب نکاح.

(5):- بحار الانوار ,ج46 مناظراتہ ع مع المخالفین ,ص : 347.

۱۶۲

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حج تمتع اور متعة النساء کوحلال اور جائز قرار دیا ہے اور اسے حرام قرار نہیں دیا ہے اگر کوئی مسلمان عورت کے ساتھ متعہ کرنے تو اس نے کتاب الٰہی  اور سنت نبی پر عمل کیا  ہے اگر مرد اورعورت جتنی اجرت اور مدت پر راضی ہوجائے تو یہ زنا نہیں ہے بلکہ یہ نکاح ہے ، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے پس جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے اور فریضہ کے بعد آپس میں رضا مندی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے بیشک اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے، اگر یہ دونوں راضی ہوجائے تو اس مدت میں اضافہ کرسکتے ہیں...

أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فِی مُسْنَدِهِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ فِی مُتْعَةِ النِّسَاءِ وَ اللَّفْظُ لَهُ قَالَ أُنْزِلَتِ الْمُتْعَةُ فِی كِتَابِ الله وَ عَلِمْنَاهَا وَ فَعَلْنَاهَا مَعَ النَّبِيِّ ص وَ لَمْ يَنْزِلْ قُرْآنٌ بِتَحْرِیمِهَا وَ لَمْ يُنْهَ عَنْهَا حَتَّی مَاتَ رَسُولُ الله (ص)‏ (1)

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب میں عمران بن حصین سے متعۃ النساء اور اس کے الفاظ کے بارے میں روایت کرتے ہوئے  کہا: متعہ کا حکم قرآن میں آیا ہے اور ہم اسے جانتے بھی ہیں اس پررسول اللہ(ص) کی موجودگی میں عمل بھی کئے ہیں. اور قرآن میں کوئی آیۃ بھی نہیں اتری ہے جو اسے حرام قرار دیتی ہو اور اس سےمنع بھی نہیں کیا گیا ؛ یہاں تک کہ رسول خدا (ص) اس دار فانی سے رخصت کرگئے.اسی روایت کے ذیل میں نقل کیاہے:عبد المحمود بن داود نے کہا دیکھئے کہ صحاح ستہ کی واضح احادیث جو نکاح متعہ کے مباح ہونے پر دلالت کرتی ہیں کہ ان سب کا یہاں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں اس لئے فقط یہ دیکھیں کہ ان کے خلیفہ عمر نے نبی کی شریعت میں تبدیلی لائی ہے پھر یہ دیکھیں کہ ان کے ماننے والے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اسے ممنوع سمجھتے ہیں پس کیا یہ جائز ہے کہ انبیاء کی شریعت میں ان کے اصحاب اور نمائندے تبدیلی لائیں یااپنے لئے ایک جدید حکم منتخب کرے جو سنت رسول کے خلاف ہو؛ توکیا یہ لوگ اس آیہ شریفہ کا مصداق نہیں ہونگے؟!!

--------------

(1):-  الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف،ج2459،نہی عمر عن المتعة، ص 457.

۱۶۳

وَ مَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ الل ه فَأُولئِكَ هُمُ الْکافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ هُمُ الْفاسِقُونَ. اور اس سے بھی بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ اکثر مسلمان بھی عمر کی اب تک پیروی کرتے ہوئے اسے حرام سمجھتےہیں :         

اور جونسخ کے قائل ہوئے ہیں اور روایا ت لے کر آئے ہیں خود سرگردان اور پریشان ہیں بعض روایتیں کہتی ہیں کہ خود پیغمبر(ص) کے زمانے میں منسوخ ہوچکی ہے بعض روایتیں کہتی ہیں اس آیت کا نسخ کرنے والی طلاق کی آیت ہے :یا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذا طَلَّقْتُمُ النِّساءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ أَحْصُوا الْعِدَّةَ وَ اتَّقُوا الل ه رَبَّكُم‏ (1) اے پیغمبر ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں عدت کے حساب سے طلاق دو اور پھر عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ تمہارا پروردگار ہے جبکہ یہ آیۃ مورد بحث سے کوئی ربط نہیں ہے .کیونکہ یہ آیہ طلاق کے بارے میں بحث کرتی ہے جب کہ متعہ میں کوئی طلاق موجود نہیں ہے .مختصر اب تک کوئی ایسی ٹھوس دلیل جو قابل اعتماد ہو اس آیہ اور حکم کے نسخ پر موجود نہیں ہے

اور یہ بھی روشن ہے کہ رسول اللہ(ص) کے بعد کسی کو بھی حق نہیں کہ وہ کسی بھی حکم شریعت کو نسخ کرے یعنی باب نسخ آپ (ص) پر مسدود ہوجاتا ہے .ورنہ ہر کوئی اپنی ذاتی اجتھاد کے ذریعے احکامات میں ردو بدل کر سکتےتھے پھر تو کوئی شریعت جاودانی باقی نہیں رہ سکتی .اور جو بھی اجتہاد قول پیغمبر (ص)  کے مقابلے میں ہو وہ اجتھاد بالرای ہے جس کی شریعت میں کوئی اہمیت نہیں ہے .

مزے کی بات یہ ہے کہ صحیح ترمذی جو اہل سنت کے معروف صحاح ستہ میں سے ہے اور اسی طرح   دارقطنی میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ کسی شامی نے عبداللہ بن عمر سے اس بارے میں سوال کیا تو اس نے صراحت کے ساتھ بتا دیا کہ متعہ حلال اور نیک کام ہے .  قصہ یوں ہے :

--------------

(1):-  طلاق ۱.

۱۶۴

 ایک مرد شامی نے عبداللہ بن عمر سے متعہ حج کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا حلال ہے. تو مرد شامی نے کہا : آپ کے والد نے تو اسے حرام قرار دیا ہے عبداللہ نےے کہا : میرے بابا نے مع کیا ہے اور رسول خدا (ص) نے اس پر عمل کیا ہے. اب تو خود بتا کہ میں کیا کروں ؟ میرے بابا کے روکنے کو عملی کروں یا سنت پیغمبر (ص) کو اپناؤں ؟! اور میں پیغمبر (ص) کی سنت کو اپناؤں گا دور ہوجا یہاں سے(1) راغب اصفہانی اپنی کتاب "محاضرات" میں لکھتا ہے : ایک مسلمان نے متعہ کرنا چاہا تو اس سے لوگوں نے سوال کیا کہ اس کا جائز اور حلال ہونے کو کہاں سے ثابت کیا ؟ تو اس نے جواب دیا : حضرت عمر سے لوگوں نے تعجب کے ساتھ کہا : یہ کیسے ممکن ہے انہوں نے تو اس سے منع کرتے ہوئے اس کے مرتکب ہونے والوں کو مجازات اور سزا کی دھمکی بھی دی ہے اس نے کہا : بہت اچھا ؛ میں بھی اسی لئے کہتا ہوں کیونکہ عمر نے کہا: پیغمبر(ص)نے اسے حلال کیا تھا  میں اسے حرام قرار دیتا ہوں تو میں اس کی مشروعیت کو پیغمبر (ص)قبول کرتا ہوں اور اس کی تحریم کو کسی سے بھی قبول نہیں کروں گا .(2) ایک اور اہم مطلب کہ جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں یہ ہے کہ سب سے پہلے اہل سنت کے منابع میں متعدد روایات میں تصریح کی ہے کہ یہ حکم پیغمبر کے زمانے  میں موستخ نہیں ہوا ہے بلکہ عمر کے زمانے میں اس سے روکا گیا ہے لہذا جو حضرات نسخ کے قائل ہیں ، ان کو چاہئے کہ ان روایات کا جواب تلاش کریں ،جن کی تعداد علامہ امینی نے الغدیر،ج۶ میں ۲۴ روایات ذکر کئے ہیں ، ان میں سے  ایک دو روایات کو بطور نمونہ بیان کریں گے :

۱.صحیح مسلم: رسول اللہ(ص)، ابوبکر اور عمر کی حکومت کے ابتدائی دور میں متعہ حج اور متعہ نساء کیا کرتے تھے ، جسے عمر نے منع کیا:جابر بن عبد الله یقول کنا نستمتع بالقبضة من التمر والدقیق الایام علی عهد رسول الله وابی بکر حتی نهی عنه عمر فی شآن عمر و بن حریث . عمر نے کہا: نکاح موقت سے اجتناب کریں میرے پاس کوئی ایسا شخص نہیں لایا جائے گا جو نکاح موقت کرے مگر اسے میں سنگسار کروں گا.(3)

--------------

(1):- سنن ترمزی،ح ۴۲۸.

(2):- کنز العرفان، ج ۲، ص 159.

(3):- باب نکاح المتعہ،ح1405، ح121 7.

۱۶۵

۲. ابن رشد اندلسی کتاب بدایة المجتہد میں لکھتا ہے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری نے کہا: پیغمبر(ص)کے زمانےسے لیکر ابوبکر اور خود عمر کے دور خلافت کے نصف مدت تک ہم متعہ کیا کرتے تھے ، جسے عمر نے ممنوع قرار دیا(1)

۳. کتاب" موطا" مالک و" سنن کبرا" بیہقی نے عروة بن زبیرسے نقل کیا ہے کہ:خولہ بنت حکیم نامی عورت نے عمر کے پاس آکر خبر دی کہ ایک مسلمان خاتون بنام ربیعہ بنت امیہ نے متعہ کیا ہے ؛ تو اس نے کہا: اگر پہلے سے اس کام سے نہی کی گئی ہوتی تو  آج اسے سنگسار کرتا، لیکن اب کے بعد میں اس سے روکتا ہوں(2) ان کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ جوروایت پیغمبر (ص)کے زمانے میں نسخ ہونے پر حکایت کرتی ہیں ؛ خود ایک دوسرے کے نقیض ہیں. کچھ کہتی ہیں جنگ خیبر میں نسخ ہوئی ہے کچھ فتح مکہ کے دن ، کچھ جنگ تبوک میں ، کچھ کہتی ہیں جنگ اوطاس میں نسخ ہوئی ہے لہذا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری روایتیں جعلی ہیں. صاحب المنار لکھتا ہے کہ میں نے کہ میں نے اس کتاب کی تیسری اور چوتھی جلد میں تصریح کی ساتھ بیان کیا تھا کہ متعہ عمر کے زمانے میں ممنوع قرار دیا ہے ؛ لیکن بعد میں کچھ رواتیں ملی ہیں کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ یہ خود پیغمبر(ص) کے زمانے میں منسوخ ہوچکی تھی اس لئے میں استغفار کرتا ہوں(3) یہ بہت ہی تعصب آمیز والی بات ہے کیونکہ ان ضد و نقیض والی روایات کے مقابلے میں صریح روایتیں ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ عمر کے زمانے میں منسوخ ہوا ہے نہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانے میں ؛ پس نہ عذر خواہی کی ضرورت ہے اور نہ استغفار کی درج بالادلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پہلی بات حقیقت پر مبنی تھی نہ دوسری بات اور یہ بھی معلوم ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد نہ عمر کو اور نہ اہلبیت کو جوآپ کے حقیقی جانشین ہیں اختیار حاصل ہے کہ زمان پیغمبر کے احکامات کو منسوخ کرے کوقنکہ آپ کے بعد وحی کا دروازہ بند ہوچکا ہو. بعض نے عمر کے اس حکم کو اجتہاد پر حمل کیا ہے ؛ یہ خود قابل تعجب بات ہے کیونکہ نص کے مقابلے میں اجتہاد اسلام کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے

--------------

(1):- بدایة المجتہد کتاب النکاح.

(2):- الغدیر ، ج۶، ص 210.

(3):- تفسیر المنار جلد پنجم صفحہ 16.

۱۶۶

اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ فقھای اہل سنت کے ایک گروہ نے احکام ازدواج سےمربوط آیت  کو متعہ والی آیت کا ناسخ قرار دیا ہے،گویا انہوں نے ازدواج موقت کو اصلا ازدواج نہیں سمجھے ہیں جبکہ یہ مسلماً ازدواج کی دوسری قسم ہے .

اس قسم کی شادی ، اجتماعی ضرورت ہے ازدواج موقت ایک اجتماعی ضرورت ہے یہ ایک قانون کلی اور عمومی ہے کہ اگر انسانکے طبیعی غریزے کو صحیح اور جائز طریقے سے پورا نہ کرے تو وہ انحرافی اور ناجائز راہوں کی تلاش کرنے لگتا ہے ، کیوں کہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ طبیعی غریزے کو ختم نہیں کرسکتے اگر بالفرض کوئی اسے ختم کرے تو یہ عاقلانہ کام نہیں ہوگا، کیونکہ یہ طبیعی قانون کے ساتھ جنگ تصور کیا جائے گا. پس صحیح اور معقول زرائع  سے اس تشنگی کا سیراب کرنا اور زندگی کو دوام دینا ہی عاقلانہ کام ہوگا .

اور یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جنسی غریزہ انسان کے دیگر تمام غریزے سے قوی تر ہے یہاں تک کہ اسے بعض روان شناس اس جنسی غریزہ کو انسان کی اصلی ترین غریزہ جانتے ہیں

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان کیلئے خاص عمر میں دائمی شادی کرنے کے شرائط اور مواقع فراہم نہیں ہوتا، یا شادی شدہ افراد اہل وعیال سے دور و دراز علاقوں اور ملکوں میں نوکری یا تجارت کی خاطر سفر کرنا پڑتا ہے اور اس غریزے کی پیاس بجھانا بھی ضروری ہوتا ہے تو ایسی صورت میں کیا کرے ؟! کیا اس غریزہ کو سرکوب کرکے رہبانیت کی طرف ترغیب دلائے جائیں، یا ناجائز اور غیرشرعی راہوں کو اپنائیں ، یا تیسرا راستہ جو قرآن وسنت کے مطابق بھی ہے اور کم خرج بھی ہے اور آسانی سے کربھی سکتے ہیں ؛ اپنائیں؟! یقیناً یہ راستہ معقول ترین راستہ ہوگا(1)

--------------

(1):- تفسیر نمونہ، ج 3، ص: 343

۱۶۷

روایات

پہلی روایت:سَأَلَ أَبُو حَنِیفَةَ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ النُّعْمَانِ صَاحِبَ الطَّاقِ فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا جَعْفَرٍ مَا تَقُولُ فِی الْمُتْعَةِ أَ تَزْعُمُ أَنَّهَا حَلَالٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَأْمُرَ نِسَاءَكَ أَنْ يُسْتَمْتَعْنَ وَ يَكْتَسِبْنَ عَلَيْكَ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ لَيْسَ كُلُّ الصِّنَاعَاتِ يُرْغَبُ فِیهَا وَ إِنْ كَانَتْ حَلَالًا وَ لِلنَّاسِ أَقْدَارٌ وَ مَرَاتِبُ يَرْفَعُونَ أَقْدَارَهُمْ وَ لَكِنْ مَا تَقُولُ يَا أَبَا حَنِیفَةَ فِی النَّبِیذِ أَ تَزْعُمُ أَنَّهُ حَلَالٌ فَقَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُقْعِدَ نِسَاءَكَ فِی الْحَوَانِیتِ نَبَّاذَاتٍ فَيَكْتَسِبْنَ عَلَيْكَ.

  ابو حنیفہ نے محمد بن نعمان صاحب طاق ابو جعفر(ع) سے سوال کیا : اے اباجعفر متعہ کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟ تو اس نے کہا : حلال ہے تو ابو حنیفہ نے کہا: پھر کیوں اپنی خواتین کو متعہ کرنے نہیں دیتے تاکہ اس سے منفعت کسب کرسکیں؟! تو ابوجعفر (ع)نے کہا ہر جائز چیز کی طرف رغبت کرنا ضروری نہیں ہے اے ابوحنیفہ نبیذ کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا : حلال ہے تو ابو جعفر نےکہا : اپنی خواتین کو ہوٹلوں میں نبیذ پلانے کیلئے کیوں نہیں جانے دیتے تاکہ اس کے ذریعے پیسہ کمائے؟

دوسری روایت:فَقَالَ أَبُو حَنِیفَةَ وَاحِدَةٌ بِوَاحِدَةٍ ...ثُمَّ قَالَ لَهُ يَا أَبَا جَعْفَرٍ إِنَّ الْآيَةَ الَّتِی فِی سَأَلَ سَائِلٌ تَنْطِقُ بِتَحْرِیمِ الْمُتْعَةِ وَ الرِّوَايَةَ عَنِ النَّبِيِّ ص قَدْ جَاءَتْ بِنَسْخِهَا فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ يَا أَبَا حَنِیفَةَ إِنَّ سُورَةَ سَأَلَ سَائِلٌ مَكِّيَّةٌ وَ آيَةُ الْمُتْعَةِ مَدَنِيَّةٌ وَ رِوَايَتَكَ شَاذَّةٌ رَدِيَّةٌ فَقَالَ لَهُ أَبُو حَنِیفَةَ وَ آيَةُ الْمِیرَاثِ أَيْضاً تَنْطِقُ بِنَسْخِ الْمُتْعَةِ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ قَدْ ثَبَتَ النِّكَاحُ بِغَيْرِ مِیرَاثٍ قَالَ أَبُو حَنِیفَةَ مِنْ أَيْنَ قُلْتَ ذَاكَ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ لَوْ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِینَ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ ثُمَّ تُوُفِّيَ عَنْهَا مَا تَقُولُ فِیهَا قَالَ لَا تَرِثُ مِنْهُ قَالَ فَقَدْ ثَبَتَ النِّكَاحُ بِغَيْرِ مِیرَاثٍ ثُمَّ افْتَرَقَا (1)

--------------

(1):-  الکافی ، ج5 ، ابواب المتعة ، ص : 448.

۱۶۸

ابو حنیفہ نے کہا ایک کے بدلے ایک... پھر اس نے کہا اے ابوجعفر آیة سئل سائل بتاتی ہے کہ متعہ کرنا حرام ہے اور پیغمبر اکرم (ص)سے بھی روایت ہے کہ یہ آیہ ناسخ ہے. تو ابوجعفر نے کہا اے ابوحنیفہ سال سائل والی آیة مکی ہے اور آیة متعہ مدنی .پس تیری روایت شاذ اور ردی ہے ،  اس نے کہا آیة میراث بھی متعہ کو منسوخ کرتی ہے ، ابو جعفر نے کہا گاہے نکاح بغیر میراث کے بھی ممکن ہے. ابو حنیفہ نے کہا: تو یہ کہاں سے کہہ رہا ہے.؟ اگر کوئی مسلمان کسی اہل کتاب عورت سے شادی کرے پھر وہ مرجائے تو اس کے بارے میں تو کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا وہ عورت  اس شخص سے کوئی میراث نہیں پائے گی.

تیسری روایت:مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ قُلْتُ كَيْفَ يَتَزَوَّجُ الْمُتْعَةَ قَالَ تَقُولُ يَا أَمَةَ الله أَتَزَوَّجُكِ كَذَا وَ كَذَا يَوْماً بِكَذَا وَ كَذَا دِرْهَماً فَإِذَا مَضَتْ تِلْكَ الْأَيَّامُ كَانَ طَلَاقُهَا فِی شَرْطِهَا وَ لَا عِدَّةَ لَهَا عَلَيْكَ (1)

ابن ابی عمیر نے ہشام بن سالم سے نقل کی ہے کہ :میں نے کہا متعہ والا نکاح کیسے پڑھا جائے گا تو انہوں نے کہا: تو کہے گا اے کنیز خدامیں تیرے ساتھ اتنے دنوں کیلئے اور اتنے مہرمیں نکاح کرنا چاہتا ہوں کیا تو راضی ہے ؟ اگر راضی ہوجائے تو جب وہ ایام گذر جائے تو اس کی طلاق ہوجائے گی اور اس کیلئے تم پرکوئی عدہ نہیں ہے البتہ یہ یائسہ عورت کیلئے ہے ورنہ غیر یائسہ کیلئے عدہ ہے .

چوتھی روایت:عَنْ زُرَارَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع مَا عِدَّةُ الْمُتْعَةِ إِذَا مَاتَ عَنْهَا الَّذِی تَمَتَّعَ بِهَا قَالَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْراً قَالَ ثُمَّ قَالَ يَا زُرَارَةُ كُلُّ نِكَاحٍ إِذَا مَاتَ عَنْهَا الزَّوْجُ فَعَلَی الْمَرْأَةِ حُرَّةً كَانَتْ أَوْ أَمَةً أَوْ عَلَی أَيِّ وَجْهٍ كَانَ النِّكَاحُ مِنْهُ مُتْعَةً أَوْ تَزْوِیجاً أَوْ مِلْكَ يَمِینٍ فَالْعِدَّةُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْراً وَ عِدَّةُ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَ الْأَمَةُ الْمُطَلَّقَةُ عَلَيْهَا نِصْفُ مَا عَلَی الْحُرَّةِ وَ كَذَلِكَ الْمُتْعَةُ عَلَيْهَا مِثْلُ مَا عَلَی الْأَمَةِ (2)

--------------

(1):-  الکافی، ج 5، باب شروط المتعة  ،ص : 455.

(2):- من لایحضرہ الفقیہ،ج 3 ،ص 465.

۱۶۹

زرارہ سے روایت ہے کہ انہوں نے امام باقر (ع)سے سوال کیا کہ متعہ کی عدہ کیا ہےجب اس کا شوہر مر جائے .تو امام نے فرمایا ۴مہینہ ۱۰ دن پھر فرمایا: اے زرارہ سارا نکاح جب شوہر مرجائے تو اس کی بیوی پر خواہ وہ آزاد ہو یا کنیز ہو اور نکاح بھی جس قسم کا ہو خواہ متعہ ہو یا دائمی ہو یا ملک یمین ہو یعنی اپنی کنیزکواپنی زوجیت میں لائی گئی ہو ،ہر ایک پر ۴مہینہ ۱۰ دن عدہ پوری کرنا واجب ہے اور اگر طلاق ہوجائے تو ۳مہینہ عدہ پوری کرنا واجب ہے اور اگر طلاق شدہ کنیز ہو تو آزاد عورت کا نصف عدہ پوری کرنا واجب ہے اور متعہ میں بھی کنیز کے برابر عدہ پوری کرنا ضروری ہے.

پانچویں روایت:عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِی رِيَاحٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الله بْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ مَا كَانَتِ الْمُتْعَةُ إِلَّا رَحْمَةً رَحِمَ الله بِهَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ ص وَ لَوْ لَا نَهْيُهُ عَنْهَا مَا احْتَاجَ إِلَی الزِّنَاءِ إِلَّا شَقِی (1) راوی کہتا ہے کہ میں نےابن عباس سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ متعہ بہت بڑی نعمت تھی جس کے ذریعے امّت محمدی پر اللہ تعالیٰ نے اپنا کرم کیا تھا اور اگر (عمر) اس سے منع نہ کرتا توشقی انسان کےسوا کوئی بھی زنا کا مرتکب نہ ہوتا. ساتویں روایت:فَإِنَّهُ ص رُوِيَ عَنْهُ مُتَوَاتِراً أَنَّهُ رَخَّصَ الصَّحَابَةَ فِی الْمُتْعَةِ وَ اسْتَمْتَعُوا فِی زَمَانِهِ. وَ أَيْضاً أَفْتَی بِإِبَاحَتِهَا أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ عَلِيٌّ (ع)(2) رسول گرامی اسلام (ص)سے تواتر کے ساتھ روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے صحابہ کو متعہ کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی اورا نہوں نے نے بھی آپ ہی کے زمانے میں متعہ کئے. اسی طرح امیر المؤمنین(ع) نے بھی متعہ کے مباح ہونے پر فتویٰ دیا تھا.

خالد بن مہاجر بن خالد مخزمی  ایک شخص کے پاس بیٹھا تھا کوئی آکر متعہ کے بارے میں سوال کیا تو خالد نے کہا جائز اور مباح ہے ابن ابی عمر ہ انصاری نے کہا آہستہ بولو! اتنی آسانی سے فتویٰ دیتے ہو؟

خالد نے کہا : خدا کی قسم ، اس کام کو ہم نے پرہیزکار اور متقی پیشواؤں کے دور میں انجام دئے ہیں(3)

--------------

(1):- الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف،ج2 ،نہی عمر عن المتعة ، ص 457.

(2):- نہج الحق و کشف الصدق،فی النکاح و فیہ مسائل،  ص : 521.

(3):- صحیح مسلم،ج۳،ص۱۹۸،باب نکاح المتعہ؛ السنن کبری،ج۷،ص۲۰۵.

۱۷۰

عموماً متعہ پر کئے جانے والے اشکالات

1: کبھی کہتے ہیں کہ متعہ اور فحشاء میں کیا فرق ہے ؟ دونوں کچھ پیسےکے مقابلے میں جسم فروشی ہے. درحقیقت فحشا پر نکاح کا ایک نقاب ہے فرق صرف اتنا ہے کہ فقط ایک جملہ صیغہ اس میں اجرا ہوتا ہے.

جواب:یہ لوگ ازدواج کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ہے کیونکہ متعہ میں صرف ایک جملہ نکاح پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ ازدواج دائمی کی طرح اس میں بھی شرائط موجود ہیں جیسے یہ عورت اس مدت میں کسی اور شخص کے ساتھ  رابطہ پیدا نہیں کرسکتی اور جب مدت ختم ہوجائے تو کم از کم ۴۵ دن عدہ پوری کرنا واجب ہے اگرچہ مختلف وسائل کے ذریعے حاملہ ہونے سے روک تھام کیا ہوا. اگر اس نکاح سے بچہ ہوجائے تو اولاد کا سارا حکم اس پر لاگو ہوگا جبکہ فحشا کے ذریعے پیدا ہونے والابچہ ان حقوق سے محروم ہے ہاں صرف میاں اور بیوی متعہ میں ایک دوسرے سے ارث نہیں لے سکتے. اسی طرح اور بعض شرائط میں تھوڑی بہت فرق ہے اور یہ تھوڑی بہت فرق اس ازدواج کو فحشاء کی صف میں نہیں لاسکتا بعض کہتے ہیں:فحشاء کی طرح ازدواج موقت بھی سبب بنتا ہے کہ بے سرپرست بچوں کو معاشرے کے حوالہ کرے

جواب: نامشروع طریقے سے پیداشدہ بچے اور متعہ سے پیدا شدہ بچے میں فرق ہے متعہ سے پیداشدہ بچہ ماں باپ کا ہے  جبکہ نامشروع بچہ  والدین کا نہیں ہے.

راسل اور ازدواج موقت‏

انگلستان کے معروف دانشور بنام راسل اپنی کتاب زنا شویی اور اخلاق میں لکھتا ہے کہ جنسی مشکلات کے پیش نظر جوانوں کو ایک جدید طرز کے ازدواجی زندگی میں منسلک ہوجاناچاہئےجس میں شرائط آسان اور مناسب ہو: جیسے طرفین کی رضایت کے ساتھ بچہ دار ہونے نہ دے ، ایک دوسرے سے جدائی آسان طریقے سے ہوجائے ، اور طلاق کے بعد کوئی بھی ایک دوسرے سے حق نفقہ نہ

۱۷۱

رکھتا ہو.اگر قانونی طور پرایسا ممکن ہوجائے تو میری نظر میں جوانوں کی بڑی خدمت ہوگی کیونکہ اس طریقے سے بہت سے طالب علم جو اپنی کالج اور یونیورسٹی زندگی میں مناسب لڑکی سے متعہ کرے اور فحشاء اور منکرات سے محفوظ رہ سکیں گے(1)

آپ نے ملاحظہ کیا کہ راسل کا یہ نظریہ کم وبیش ازدواج موقت کا نظریہ ہے جسے قرآن اور سنت نے پیش کیا ہے .کہ بچہ دار ہونے سے اگر روکنا چاہے تو کوئی مانع نہیں ، ایک دوسرے سے الگ ہونا بھی بہت آسان ہے اور نان ونفقہ بھی واجب نہیں ہے .

صحیح بخاری: ابن عباس سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو کہا: رسول اللہ (ص)نے متعہ کی اجازت دی ہے: کنا  فی جیش فاتانا رسول اللہفقال انه قد اذن لکم ان تستمتعوا فاستمتعوا .(2) یعنی ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم لشکر رسول اللہ(ص) میں تھے کہ آپ تشریف لائے اور فرمایا : تمہیں متعہ  کرنے کی اجازت دیتا ہوں پس تم متعہ کریں.

ثانیاً صراحت کیساتھ روایات ناہیہ بھی موجود ہے جن میں سے ایک امیرالمؤمنین (ع) کا فرمان ہے: لولا انّ عمر نھا عن المتعة ما زنی الّا شقی اگر عمر متعہ سے لوگوں کو نہ روکتا تو سوائے شقی لوگوں کے کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا. (3)

--------------

(1):-  کتاب زناشویی و اخلاق ص189 و 190.

(2):- صحیح بخاری باب نکاح المتعہ، ح 1405، تفسیر ابن کثیر ، ص 285.

(3):-  درالمنثور ، ج2، ص 140،سور ہ  نساء 24.

۱۷۲

حج تمتع عثمان کے دور میں

عن مروان بن الحکم قال شهدت عثمان و علیا وعثمان ینهی عن المتعة و ان یجمع بینهما فلما رای علیا اهلّ بهما اهلّ بهما لبیک بعمرة و حجة قال ما کنت لادع سنة النبی لقول احد. (1) بخاری اور مسلم نے مروان بن حکم سے یوں نقل کئے ہیں : عثمان بن عفان کو دیکھا کہ حج تمتع سے لوگوں کو روک رہا تھا. لیکن علی ابن ابیطالب نے جب اسے روکتے ہوئے دیکھا تو عمرہ اور حج کیلئے احرام باندھ لئے اور کہا:میں  کبھی بھی قانون الہی اور سنت پیغمبر(ص)کو ایک آدمی کے منع کرنے پر نہیں چھوڑسکتا

قال عمر ثلاث کن علی عهد رسول الله(ص)  وانا محرمهن و معاقب علیهن : متعة الحج، متعة النساء وحیّ علی خیر العمل فی الاذان .(2)

عمرنے کہا رسول اللہ(ص) کے زمانے میں تین چیزیں رائج تھیں لیکن میں انہیں ممنوع قرار دیتا ہوں اور انجام دینے والوں کو سزا دوں گا، وہ متعہ حج ، متعہ نساء اور اذان میں حی علی خیر العمل کا جملہ.

سنن ابن ماجہ : حضرت عمر نے کہا : مجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص)اور ان کے اصحاب نے حج تمتع انجام دئے ہیں لیکن مجھے وہ اچھا نہیں لگتا کہ حاجی اس دوران اپنی بیوی سے ہمبستری کرکے سر سے پانی ٹپکتے ہوئے عبادت میں شامل ہوجائے(3)

 اس حدیث پر آپ غور کریں کہ حلال محمد(ص) کوحرام میں تبدیل کر رہا ہے .

سنن نسائی: ابن عباس کہتے ہیں : میں نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنا: خدا کی قسم میں ضرور متعہ حج انجام دینے کی لوگوں کو اجازت نہیں دونگا اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ متعہ حج  قران میں وارد ہوا ہے اور پیغمبر اکرم(ص) نے بھی اسے انجام دئے ہیں(4)

--------------

(1):- صحیح بخاری ، باب التمتع والقران والافراد، ح 1563، صحیح مسلم، باب جواز التمتع، ح1223.

(2):- موطا امام مالک بن انس.ج ۶۰، ص۲۲۳، سنن نسائی ، اور شرح سیوطی،ص۱۵۳.

(3):- سنن ابن ماجہ ،ج۲، ص ۹۹۲، ح ۲۹۷۹. سنن نسائی،ج۶۵، ص ۲۵۱.

(4):- سنن نسائی، ج۶۵، ص ۳۵۱.

۱۷۳

مسلسل متعہ کرنے والی عورت کیلئے عدہ

سوال:کیا اس عورت کیلئے عدہ ہے جو مسلسل مختلف مردوں کے ساتھ متعہ کرتی ہے؟

جواب: تمام مجتہدین کا اتفاق ہے کہ اگر وہ عورت یائسہ ( بھانج) نہ  ہو تو اسے عدت پوری کرنی چاہئے. (امام. صافی،فاضل، نوری، سیستانی، مکارم،...)

سوال: اگر معلوم ہوجائے کہ متعہ والی عورت دیگر اجنبی مردوں کے ساتھ بھی رابطہ رکھی ہوئی ہے تو کیا حکم ہے؟

جواب : وہ عورت گناہگار ہے اور مرد کو چاہئے کہ اس سے جدا ہو اور بقیہ مدت اسے بخش دے .

متعہ  کرنامعیوب کیوں؟

سوال:اگر متعہ جائز ہے تو کیوں ہمارے اسلامی معاشرے میں اسے معیوب سمجھے جاتے ہیں ؟

جواب: ہمارے متدین اسلامی معاشرے میں اسے کوئی معیوب نہیں سمجھے جاتے ہیں .کیونکہ دین مبین اسلام نے اس کاحکم دیا ہے آیات بھی اور روایات بھی اسے جائز اور حلال قرار دیتے ہیں تو ہم اسے معیوب کیوں کر سمجھ سکتے ہیں ؟ ہاں اگر اسے قانونی اور رسمی طور پر اجرا کرنا چاہے تو اس کیلئے پہلے زمینہ سازی کرنا ضروری ہے ورنہ شہوت پرست لوگ اپنی ہوس رانی کی خاطر آداب ورسوم ، شرعی اور عرفی حدود سے تجاوز کریں گے اس طرح معاشرے میں ایک غلط پروپیگنڈا شروع ہوگا اور سوء استفادہ کرنے والوں کو موقع ملے گا. لذا اگر کوئی اسے معیو ب سمجھے جاتے ہیں تو ان فرصت طلب افراد کی غلط رویوں کی وجہ سے ہے نہ خود متعہ کی وجہ سے مثال: اگر کوئی سفر حج پر جاتے وقت مواد مخدر کی سمگلینگ کرے اور پکڑے جائے تو اسے اس کی سزا دی جائے گی نہ لوگوں کو سفر حج سے روکے جائیں گے.کلی طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ متعہ کا مسئلہ کئی لحاظ سے مشکلات سے دوچار ہے :

     ہمارا معاشرہ فرہنگی اعتبار سے ابھی تک اس حکم الہی کو قبول اور اجراء کرنے سے قاصر ہے.

۱۷۴

     بہداشت اور قانونی طور پر کوئی خاص سسٹم ابھی تک وجود میں نہیں آیا ہے.

     حقوقی لحاظ سے سوء استفادہ کرنے والوں کی روک تھام کرنے کا مناسب بندوبست نہیں ہوا ہے .

اس مشکل کے حل کیلئے فرہنگی اور اجتماعی طور پر کوشش کرنا چاہئے تاکہ ہمارے جوانوں کو شیطانی چال اور ناجائز وغیرشرعی تعلقات اور ہوس رانی سے روکا جاسکے.

متعہ الحج اور متعہ  النساء کو عمر نے حرام قرار دیا ہے

سوال : متعۃ الحج اور متعۃ النسا ء کہ جنہیں حضرت عمر نے حرام قرار دیا،سے کیا مراد ہے ؟

     متعۃ الحج سے مراد یہ ہے: جو بھی حاجی مکہ سے دور  و دراز علاقے اور ممالک سے حج کے غرض سے آتے ہیں تو ان کا وظیفہ یہ ہے کہ بعض اعمال حج انجام دینے کے بعد آزاد ہوجاتا ہے اور جب ۸ ذالحجہ کا دن آتا ہے تو دوبارہ اعمال حج انجام دینے لگتا ہے اور ان دو اعمال کے درمیانی وقفے میں دور و دراز ممالک سے آئے ہوئے حجاج کو یہ اجازت ہے کہ دنیوی نعمتوں سے لذت اور فائدہ اٹھائیں اس عمرہ اور حج کے درمیانی وقفے میں جو لذت اٹھاتے ہیں اسے متعۃ الحج کہا جاتا ہے .اور حج تمتع کے اعمال یہ ہیں:

     کسی بھی میقات سے احرام باندھنا   طواف کعبہ انجام دینا .     دورکعت نماز طواف پڑھنا.  صفا اور مروا کے درمیان سعی کرنا .  تقصیر کرنا یعنی بال چھوٹا کرنا(1)

ان اعمال کو ایک دو گھنٹے میں  انجام دینے کے بعد احرام سے خارج ہوجاتے ہیں اور ہر وہ چیز جو احرام کی وجہ سے اس پر حرام ہوچکی تھیں اب وہ سب چیزیں اس پر حلال ہوجاتی ہیں اور وہ ہر قسم کی مشروع لذات بھی اٹھا سکتے ہیں. اگر چاہے تو اس دوران کسی عورت سے عقد کرلے یا اگر اپنی بیوی اپنے ساتھ ہو تو اس کے ساتھ ہمبستری کرسکتے ہیں

---------------

(1):-  صحیح مسلم، کتاب الحج باب جواز التمتع، ح1225

۱۷۵

 یہاں تک کہ ۸ ذالحجہ کا دن آجائے اس دن دوبارہ احرام باندھ لیں گے اور حج تمتع کے اعمال شروع کریں گے حضرت عمر نے اس درمیانی وقفے کو ختم کرتے ہوئے حکم لگایا کہ کسی کو بھی اس دوران حالت احرام سے نکلنے کی اجازت نہیں .

     متعۃ النساء یا متعہ نکاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی بیوہ عورت موقتا  ً کسی مرد کے ساتھ شادی کرنا چاہے یا مرد کسی عورت کو کچھ مدت کے لئے اپنے عقد میں لینا چاہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اسے بھی حضرت عمر نے حرام قرار دیا.

معاویہ کے دور میں حج تمتع

 سعد بن ابی وقاص کہتا ہے کی ہم حج تمتع اس وقت انجام دیتے تھے جبکہ معاویہ ابھی تک خدای عرش کے بارے میں کافر تھا.(1)

بالآخرہ خلیفہ دوم کا یہ دستور ختم ہوا: امیر المؤمنین  اور بعض دیگر مسلمانوں کی کوششوں سے حج تمتع اسی طرح انجام دینے لگے جس طرح زمان پیغمبر  میں انجام دئے جاتے تھے.اور بالآخر فقہائی اھل تسنن بھی عمر کے فتویٰ کے خلاف فتویٰی دینے لگے:

شافعی والے کہتے ہیں : شخص مخیر ہے حج افراد یا تمتع یا قران انجام دے افضل افراد ہے اس کے بعد تمعت افضل ہے(2)

مالکی والے کہتے ہیں: افضل افراد ہے اس کے بعد قران ہے.(ہمان)

حنبلی کہتے ہیں: افضل تمتع ہے اسے بعد افراد.(ہمان)

حنفی والے کہتے ہیں: قران افضل ہے اس کے بعد تمتع.(ہمان)

--------------

(1):-  الفقہ علی المذاہب الاربعہ،ج1، کتاب الحج.

(2):- نوبختی، فرق الشیعہ ، ص۸۵.

۱۷۶

نتیجہ بحث:

تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسلام ایک کامل اور جاویدانہ دین ہے. جو انسان کی ضروریات کو پورا کرتا ہے. اور ہر ایک احکام مصالح اور مفاسد کے تابع ہیں. یہ عقد موقت بھی انہی ضروریات  بشری میں سے ایک اہم ضرورت ہے. چنانچہ دوآدمی اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہم سفر بن جاتے ہیں اور خواہ و نا خواہ ایک دوسرے کی ناموس پر نظر پڑتی ہے ایسے مواقع پر اپنے نابالغ بچیوں کے ساتھ نکاح کرلے تاکہ محرمیت پیدا ہوجائے. اور  یہ معصیت اور گناہ سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے.

اسی طرح بعض موقع پر زنا اور لواط یا حتیٰ بیماری سے بچنے کیلئے عقد موقت بھی ضروری ہے. مثلاً کالج یونیورسٹیوں میں جوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی جنسی غریزہ کو پورا کرنے کیلئے مشروع اور جائز طریقہ عقد موقت ہے کیونکہ عقد دائم کیلئے ذمینہ فراہم نہیں اسی طرح اگر کوئی اکیلا کسی دوسرے ملک میں ملازمت یا مزدوری کے غرض سے جاتا ہء وہاں عقد دائم کیلئے مناسے نہیں تو اس ضرورت کو پورا کرنے کا واحد راستہ عقد موقت ہے.

ثانیاً اگر بیامبر (ص)کے زمانے میں عقد موقت کی ضرورت پڑتی تھی تو کیا اس دور میں اس کی ضرورت نہیں پڑے گی؟ اگر کوئی عورت بیوہ ہوجائے اور دوبارہ عقد دائم بھی ممکن نہ ہو مثلاً کوئی مرد تیار نہ ہو تو کیا عقد موقت ہی اس کا حل نہیں؟

۱۷۷

دسویں فصل:

 تقیہ کے بارے میں شکوک اور شبہات

آئمہ طاہرین (ع)کے زمانے میں دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کی طرف سے شیعوں پر مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے؛ ان میں سے ایک تقیہ ہے .

سب سے پہلا اشکال اور شبہہ پیدا کرنے والا سلیمان بن جریر ابدی ہے جو فرقہ جریرہ کا رہبر ہے وہ  امام صادق(ع)کا ہم عصر ہے .اس کا کہنا ہے کہ شیعوں کے امام جب کسی خطا کے مرتکب ہوتے تھے تو تقیہ کو راہ فرار کے طور پر مطرح کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تقیہ کے طور پر انجام دیا گیا ہے(1) یہ اشکال اس کے بعد مختلف کلامی اور تفسیری کتابوں میں اہل سنت کی جانب سے کرنے لگے بعد میں شیعہ بڑے عالم دین سید شریف مرتضی معروف بہ علم الہدی (۳۵۵ ـ۴۳۶)ق نے ان شبہات اور اشکالات کا جواب  دیا ہے(2) فخر رازی(۵۴۴ ـ ۶۰۶ ہ ) صاحب تفسیر کبیرنے « مفاتیح الغیب» میں  سلیمان ابن جریر کے  تقیہ کے بارے میں اس شبہہ کوتکرار کیا ہے، جس کا جواب  خواجہ نصیر الدین طوسی۵۷۹ـ ۶۵۲ق) نےدیا ہے(3)

شبہات کی تقسیم بندی

وہ شبہات جوتقیہ سے  مربوط ہے وہ تین بخش میں تقسیم کرسکتے ہیں :

وہ شبہات جو مربوط ہے  تشریع تقیہ سے

وہ شبہات جو امام معصوم(ع) کے تقیہ سے مربوط ہے 

وہ شبہات او ر تہمتیں جوشیعوں کے  تقیہ سے مربوط ہیں:

--------------

(1):-  شیخ انصاری، رسائل ، ج۱،ص ۲۹۰، ۳۱۰.

(2):- المحصل ، ص ۱۸۲. 

(3):- محمود، یزدی؛ اندیشہ کلامی شیخ طوسی، ص ۲۷۹.

۱۷۸

تشریع تقیہ سے مربوط شبہات کی تفصیل:

تقیہ اور جھوٹ :

ابن تیمیہ اس شبہہ کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تقیہ ایک قسم کی جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا ایک قبیح اور بری چیز ہے اور خدا تعالیٰ بری چیز کو حرام قرار دیا ہے ، پس تقیہ بھی خدا کے نزدیک قبیح اور بری چیز ہے .اور جائز نہیں ہے .اس اشکال کیلئے دو جواب دئے جاتے ہیں:

۱. اگر تقیہ جھوٹ ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہوں پر کیوں تقیہ کرنے والوں کی مدح سرائی کی ہے ؟!:جیسے آلعمران کی آیہ نمبر ۲۸ میں فرمایا :الّا ان تتقوا من ه م، اورسورہ نحل کی  آیہ۱۰۶ میں فرمایا :الا من اکر ه و قلب ه مطمئن بالایمان.

اللہ تعالیٰ نے صرف تقیہ کرنے کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ مجبوری کے وقت تقیہ کرنے کا باقاعدہ حکم دیا ہے اور تقیہ کرنے کا شوق دلایا ہے .

دوسرا جواب یہ ہے کہ کیا جب کافروں کی طرف سے مجبور کیا جائے اور تقیہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ  بھی نہ ہو تو وہاں کیا جھوٹ بولنا صحیح نہیں ہے ؟ کیونکہ ہر جگہ جھوٹ بولنا برا نہیں ہے جیسے اگر کسی دو مسلمان بھائیوں کے درمیان الفت اور محبت پیدا کرنے اور خون و خرابہ سے بچنے کیلئے جھوٹ بولنا جائز ہے ، کیونکہ اگر سچ بولے تو جھگڑا فساد میں اضافہ ہوسکتا ہے

لیکن اس اشکال کا جواب یوں  دیا جاسکتا ہے کہ : یہ اشکال دومقدمہ (صغری اور کبری) سے تشکیل پایا ہے صغری میں کہا کہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے یہ صغری ہر مصداق اور مورد میں صحیح نہیں ہے کیونکہ تقیہ اخفائی یعنی واقعیت کے بیان کرنے سے سکوت اختیار کرنے کو کوئی جھوٹ نہیں کہتا بلکہ یہ صرف تقیہ اظہاری میں صدق آسکتا ہے وہ بھی توریہ نہ کرنے کی صورت میں .

پس تقیہ کے کچھ خاص مورد ہے جہاں تقیہ کا مصداق کذب اور جھوٹ ہے.

۱۷۹

لیکن کبری ٰ یعنی جھوٹ بولنا قبیح اور برا ہے ؛ یہاں کہیں گے کہ جھوٹ ہر جگہ برا نہیں ہے .کیونکہ مختلف عناوین کو حسن و قبح کی کسوٹی پر ناپا جاتا ہے تو ممکن ہے درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے :

۱.یا وہ عنوان حسن و قبح کیلئے  علت تامہ ہے .جیسے حسن عدالت اور قبح ظلم.انہیں حسن و قبح ذاتی کہا جاتا ہے .

۲.یا وہ عنوان جو خود بخود حسن و قبح کا تقاضا کرتا ہو ، بشرطیکہ کوئی اور عنوان جو اس تقاضے کو تبدیل نہ کرے ،اس پر صدق نہ آئے .جیسے کسی یتیم پر مارنا خود بخود قبیح ہے لیکن اگر ادب سکھانے کا عنوان اس پر صدق آجائے تو یہ قباحت  کی حالت سے نکل آتی ہے .ایسے حسن و قبح کو عرضی کہتے ہیں.

۳.یا وہ عنوان جو حسن و قبح کے لحاظ سے متساوی الطرفین ہو .اور حسن و قبح سے متصف ہونے کیلئے مختلف شرائط کی ضرورت ہے جیسے کسی پر مارنا اگر ادب سکھانے کیلئے ہو تو حسن ہے اور اگر اپنا غم و غصہ اتارنے کیلئے مارے تو قبیح ہےلیکن اگر کسی بےجان چیز پر مارے تو  نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے .

اور یہاں ہم اس وقت جھوٹ بولنے کو قبیح مانیں گے کہ پہلا عنوان اس پر صدق آتا ہو جب کہ ایسا نہیں ہے .اور عقلا نے بھی اسے  دوسری قسم میں شمار کئے ہیں کہ جب بھی کوئی زیادہ مہمتر مصلحت  کے ساتھ تزاحم  ہو تو اس کی قباحت دور ہوجاتی ہے ، جیسے : ایک گروہ کا خون خرابہ ہونے سے بچانے کیلئے جھوٹ بولنے کو ہر عاقل شخص جائز سمجھتا ہے.

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں  کہ قرآن او ر   پیغمبر اسلام نے عماربن یاسر کے تقیہ کرتے ہوئے جھوٹ بولنے اور کفار کے شر سے اپنی جان بچانے کومورد تائید قرار دیا ہے . 

۱۸۰