شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات15%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218503 / ڈاؤنلوڈ: 6979
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

کیا آیۃ میں قرینے موجود ہیں جو ازدواج موقت "متعہ" پر دلالت کرتے ہیں ؟

جواب: استمتعتم کلمہ متعہ سے مشتق ہے اسلام میں اس کا معنی ازدواج موقت ہے اور یہ اصطلاح اس بارے میں حقیقت شرعیہ بن چکی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) اور اصحاب کی روایات میں بھی اسی معنی میں لیاہے.(۱)

الف:اگر یہ کلمہ اس معنی میں استعمال نہ ہو تو اس کی لغوی معنی (لذت اٹھانا)میں ضرور استعمال کرنا چاہئے ایسی صورت میں اس کی تفسیر یہ ہوگی : اگر نکاح دائم والی عورت سے لذت حاصل کرے تو اس کا مہریہ اسے ادا کرو. جبکہ معلوم ہے کہ ان کا مہریہ ادا کرنا ،لذت اٹھانے ہر موقوف نہیں ہے بلکہ مشہور یہ ہے کہ اس کاسارا مہریہ یا حد اقل آدھا مہریہ نکاح پڑھتے ہی دینا واجب ہوجاتا ہے

ب: اصحاب اور تابعین میں سے ابن عباس جیسے دانشور اور مفسّر ، ابی بن کعب ، جابر بن عبداللہ، عمران بن حسین و سعید بن جبیر ، و مجاھد و قتادہ و سدی اور اہل سنت اور اہل تشیع کے بڑے بڑے مفسّرین نے درج بالا آیت کی تفسیر متعہ کو لیا ہے یہاں تک کہ فخر رازی جو ہر وقت شیعوں سے مربوط مسائل پر اشکالات کرتے رہتے ہیں ، کہتے ہیں کہ اوپر والی آیۃ متعہ کے جواز پر دلالت کرتی ہے.

ج: آئمہ اطھار (ع)جو سب سے بہتر اسرار وحی سے باخبر ہیں تمام کا اتفاق ہے کہ آیہ کی اسی طرح تفسیر کی ہیں امام صادق (ع)فرماتے ہیں : المتعة نزل بها القرآن و جرت بها السنة من رسول الله‏(ص) .یعنی متعہ کا حکم قرآن نے دیا ہے اور اس کے مطابق رسول اللہ(ص) نے عمل بھی کیا ہے(۲)

--------------

(۱):- تفسیر نمونہ، ج۳، ص: ۳۳۶.

(۲):- نور الثقلین جلد اول صفحہ ۴۶۷ و تفسیر برہان صفحہ ۳۶۰ جلد اول.

۱۶۱

عَنْ أَبِی بَصِیرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع عَنِ الْمُتْعَةِ فَقَالَ نَزَلَتْ فِی الْقُرْآنِ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً وَ لا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِیما تَراضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیضَةِ (۱)

ابی بصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام باقر (ع)سے متعہ کے بارے میں سوال کیاتو فرمایا: اس بارے میں قرآن کا حکم ہے ؛ اور اوپر والی آیۃ کی تلاوت فرمائی یعنی قرآن نے حکم دیا اور رسول اکرم (ص) نے اس پر عمل کیا.(۲) امام باقر(ع) نے عبداللہ بن عمیر لیثی کے سوال کے جواب میں فرمایا:احلها الله فی کتابه و علی لسان نبیه فهی حلال الی یوم القیامة. خدا تعالیٰ نھے اسے قرآن میں اور پیغمبر (ص)کی زبانی حلال قرار دیا ہے جو قیامت تک کیلئے حلال ہوگا(۳)

کیا یہ آیة منسوخ نہیں ہوئی ہے؟

کیا متعہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں تھا ، ایسی صور ت میں کیا بعد میں نسخ نہیں ہوا ہے؟

جواب:علماے اسلام کا اتفاق ہے کہ متعہ آغاز اسلام میں مشروع تھا ، چنانچہ آیت سے ثابت ہوا کہ یہ مسلمات میں سے ہے رسول اللہ(ص) بھی متعہ کیا کرتے تھے اور آپ کے اصحاب بھی ؛حتی حضرت عمر کے اس جملے سے تو اور بھی واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں موجود تھا؛ متعتان کانتا علی عہد رسول اللہ و انا محرمہما و معاقب علیہما متعة النساء و متعة الحج.(۴)

أَحَلَّ الله الْمُتْعَةَ مِنَ النِّسَاءِ فِی كِتَابِهِ وَ الْمُتْعَةَ فِی الْحَجِّ أَحَلَّهُمَا ثُمَّ لَمْ يُحَرِّمْهُمَا فَإِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ أَنْ يَتَمَتَّعَ مِنَمد الْمَرْأَةِ فَعَلَی كِتَابِ الله وَ سُنَنِهِ نِكَاحٍ غَيْرِ سِفَاحٍ تَرَاضَيَا عَلَی مَا أَحَبَّا مِنَ الْأَجْرِ وَ الْأَجَلِ كَمَا قَالَ الله فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً وَ لا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِیما تَراضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیضَةِ إِنْ هُمَا أَحَبَّا أَنْ يَمُدَّا فِی الْأَجَلِ عَلَی ذَلِكَ الْأَجْرِ فَآخِرَ يَوْمٍ مِن(۵)

--------------

(۱):- الکافی، ج۵، ابواب المتعة، ص : ۴۴۸.

(۲):- از ہمان مدرک، تفسیر نمونہ، ج۳، ص: ۳۳۷.

(۳):- تفسیر برہان ذیل آیہ .

(۴):- کنز العرفان ،ج۲، ص۱۵۸- تفسیر قرطبی و طبری، سنن کبرای بیہقی،ج ۷ ، کتاب نکاح.

(۵):- بحار الانوار ,ج۴۶ مناظراتہ ع مع المخالفین ,ص : ۳۴۷.

۱۶۲

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حج تمتع اور متعة النساء کوحلال اور جائز قرار دیا ہے اور اسے حرام قرار نہیں دیا ہے اگر کوئی مسلمان عورت کے ساتھ متعہ کرنے تو اس نے کتاب الٰہی  اور سنت نبی پر عمل کیا  ہے اگر مرد اورعورت جتنی اجرت اور مدت پر راضی ہوجائے تو یہ زنا نہیں ہے بلکہ یہ نکاح ہے ، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے پس جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے اور فریضہ کے بعد آپس میں رضا مندی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے بیشک اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے، اگر یہ دونوں راضی ہوجائے تو اس مدت میں اضافہ کرسکتے ہیں...

أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فِی مُسْنَدِهِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ فِی مُتْعَةِ النِّسَاءِ وَ اللَّفْظُ لَهُ قَالَ أُنْزِلَتِ الْمُتْعَةُ فِی كِتَابِ الله وَ عَلِمْنَاهَا وَ فَعَلْنَاهَا مَعَ النَّبِيِّ ص وَ لَمْ يَنْزِلْ قُرْآنٌ بِتَحْرِیمِهَا وَ لَمْ يُنْهَ عَنْهَا حَتَّی مَاتَ رَسُولُ الله (ص)‏ (۱)

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب میں عمران بن حصین سے متعۃ النساء اور اس کے الفاظ کے بارے میں روایت کرتے ہوئے  کہا: متعہ کا حکم قرآن میں آیا ہے اور ہم اسے جانتے بھی ہیں اس پررسول اللہ(ص) کی موجودگی میں عمل بھی کئے ہیں. اور قرآن میں کوئی آیۃ بھی نہیں اتری ہے جو اسے حرام قرار دیتی ہو اور اس سےمنع بھی نہیں کیا گیا ؛ یہاں تک کہ رسول خدا (ص) اس دار فانی سے رخصت کرگئے.اسی روایت کے ذیل میں نقل کیاہے:عبد المحمود بن داود نے کہا دیکھئے کہ صحاح ستہ کی واضح احادیث جو نکاح متعہ کے مباح ہونے پر دلالت کرتی ہیں کہ ان سب کا یہاں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں اس لئے فقط یہ دیکھیں کہ ان کے خلیفہ عمر نے نبی کی شریعت میں تبدیلی لائی ہے پھر یہ دیکھیں کہ ان کے ماننے والے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اسے ممنوع سمجھتے ہیں پس کیا یہ جائز ہے کہ انبیاء کی شریعت میں ان کے اصحاب اور نمائندے تبدیلی لائیں یااپنے لئے ایک جدید حکم منتخب کرے جو سنت رسول کے خلاف ہو؛ توکیا یہ لوگ اس آیہ شریفہ کا مصداق نہیں ہونگے؟!!

--------------

(۱):-  الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف،ج۲۴۵۹،نہی عمر عن المتعة، ص ۴۵۷.

۱۶۳

وَ مَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ الل ه فَأُولئِكَ هُمُ الْکافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ هُمُ الْفاسِقُونَ. اور اس سے بھی بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ اکثر مسلمان بھی عمر کی اب تک پیروی کرتے ہوئے اسے حرام سمجھتےہیں :         

اور جونسخ کے قائل ہوئے ہیں اور روایا ت لے کر آئے ہیں خود سرگردان اور پریشان ہیں بعض روایتیں کہتی ہیں کہ خود پیغمبر(ص) کے زمانے میں منسوخ ہوچکی ہے بعض روایتیں کہتی ہیں اس آیت کا نسخ کرنے والی طلاق کی آیت ہے :یا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذا طَلَّقْتُمُ النِّساءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ أَحْصُوا الْعِدَّةَ وَ اتَّقُوا الل ه رَبَّكُم‏ (۱) اے پیغمبر ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں عدت کے حساب سے طلاق دو اور پھر عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ تمہارا پروردگار ہے جبکہ یہ آیۃ مورد بحث سے کوئی ربط نہیں ہے .کیونکہ یہ آیہ طلاق کے بارے میں بحث کرتی ہے جب کہ متعہ میں کوئی طلاق موجود نہیں ہے .مختصر اب تک کوئی ایسی ٹھوس دلیل جو قابل اعتماد ہو اس آیہ اور حکم کے نسخ پر موجود نہیں ہے

اور یہ بھی روشن ہے کہ رسول اللہ(ص) کے بعد کسی کو بھی حق نہیں کہ وہ کسی بھی حکم شریعت کو نسخ کرے یعنی باب نسخ آپ (ص) پر مسدود ہوجاتا ہے .ورنہ ہر کوئی اپنی ذاتی اجتھاد کے ذریعے احکامات میں ردو بدل کر سکتےتھے پھر تو کوئی شریعت جاودانی باقی نہیں رہ سکتی .اور جو بھی اجتہاد قول پیغمبر (ص)  کے مقابلے میں ہو وہ اجتھاد بالرای ہے جس کی شریعت میں کوئی اہمیت نہیں ہے .

مزے کی بات یہ ہے کہ صحیح ترمذی جو اہل سنت کے معروف صحاح ستہ میں سے ہے اور اسی طرح   دارقطنی میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ کسی شامی نے عبداللہ بن عمر سے اس بارے میں سوال کیا تو اس نے صراحت کے ساتھ بتا دیا کہ متعہ حلال اور نیک کام ہے .  قصہ یوں ہے :

--------------

(۱):-  طلاق ۱.

۱۶۴

 ایک مرد شامی نے عبداللہ بن عمر سے متعہ حج کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا حلال ہے. تو مرد شامی نے کہا : آپ کے والد نے تو اسے حرام قرار دیا ہے عبداللہ نےے کہا : میرے بابا نے مع کیا ہے اور رسول خدا (ص) نے اس پر عمل کیا ہے. اب تو خود بتا کہ میں کیا کروں ؟ میرے بابا کے روکنے کو عملی کروں یا سنت پیغمبر (ص) کو اپناؤں ؟! اور میں پیغمبر (ص) کی سنت کو اپناؤں گا دور ہوجا یہاں سے(۱) راغب اصفہانی اپنی کتاب "محاضرات" میں لکھتا ہے : ایک مسلمان نے متعہ کرنا چاہا تو اس سے لوگوں نے سوال کیا کہ اس کا جائز اور حلال ہونے کو کہاں سے ثابت کیا ؟ تو اس نے جواب دیا : حضرت عمر سے لوگوں نے تعجب کے ساتھ کہا : یہ کیسے ممکن ہے انہوں نے تو اس سے منع کرتے ہوئے اس کے مرتکب ہونے والوں کو مجازات اور سزا کی دھمکی بھی دی ہے اس نے کہا : بہت اچھا ؛ میں بھی اسی لئے کہتا ہوں کیونکہ عمر نے کہا: پیغمبر(ص)نے اسے حلال کیا تھا  میں اسے حرام قرار دیتا ہوں تو میں اس کی مشروعیت کو پیغمبر (ص)قبول کرتا ہوں اور اس کی تحریم کو کسی سے بھی قبول نہیں کروں گا .(۲) ایک اور اہم مطلب کہ جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں یہ ہے کہ سب سے پہلے اہل سنت کے منابع میں متعدد روایات میں تصریح کی ہے کہ یہ حکم پیغمبر کے زمانے  میں موستخ نہیں ہوا ہے بلکہ عمر کے زمانے میں اس سے روکا گیا ہے لہذا جو حضرات نسخ کے قائل ہیں ، ان کو چاہئے کہ ان روایات کا جواب تلاش کریں ،جن کی تعداد علامہ امینی نے الغدیر،ج۶ میں ۲۴ روایات ذکر کئے ہیں ، ان میں سے  ایک دو روایات کو بطور نمونہ بیان کریں گے :

۱.صحیح مسلم: رسول اللہ(ص)، ابوبکر اور عمر کی حکومت کے ابتدائی دور میں متعہ حج اور متعہ نساء کیا کرتے تھے ، جسے عمر نے منع کیا:جابر بن عبد الله یقول کنا نستمتع بالقبضة من التمر والدقیق الایام علی عهد رسول الله وابی بکر حتی نهی عنه عمر فی شآن عمر و بن حریث . عمر نے کہا: نکاح موقت سے اجتناب کریں میرے پاس کوئی ایسا شخص نہیں لایا جائے گا جو نکاح موقت کرے مگر اسے میں سنگسار کروں گا.(۳)

--------------

(۱):- سنن ترمزی،ح ۴۲۸.

(۲):- کنز العرفان، ج ۲، ص ۱۵۹.

(۳):- باب نکاح المتعہ،ح۱۴۰۵، ح۱۲۱ ۷.

۱۶۵

۲. ابن رشد اندلسی کتاب بدایة المجتہد میں لکھتا ہے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری نے کہا: پیغمبر(ص)کے زمانےسے لیکر ابوبکر اور خود عمر کے دور خلافت کے نصف مدت تک ہم متعہ کیا کرتے تھے ، جسے عمر نے ممنوع قرار دیا(۱)

۳. کتاب" موطا" مالک و" سنن کبرا" بیہقی نے عروة بن زبیرسے نقل کیا ہے کہ:خولہ بنت حکیم نامی عورت نے عمر کے پاس آکر خبر دی کہ ایک مسلمان خاتون بنام ربیعہ بنت امیہ نے متعہ کیا ہے ؛ تو اس نے کہا: اگر پہلے سے اس کام سے نہی کی گئی ہوتی تو  آج اسے سنگسار کرتا، لیکن اب کے بعد میں اس سے روکتا ہوں(۲) ان کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ جوروایت پیغمبر (ص)کے زمانے میں نسخ ہونے پر حکایت کرتی ہیں ؛ خود ایک دوسرے کے نقیض ہیں. کچھ کہتی ہیں جنگ خیبر میں نسخ ہوئی ہے کچھ فتح مکہ کے دن ، کچھ جنگ تبوک میں ، کچھ کہتی ہیں جنگ اوطاس میں نسخ ہوئی ہے لہذا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری روایتیں جعلی ہیں. صاحب المنار لکھتا ہے کہ میں نے کہ میں نے اس کتاب کی تیسری اور چوتھی جلد میں تصریح کی ساتھ بیان کیا تھا کہ متعہ عمر کے زمانے میں ممنوع قرار دیا ہے ؛ لیکن بعد میں کچھ رواتیں ملی ہیں کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ یہ خود پیغمبر(ص) کے زمانے میں منسوخ ہوچکی تھی اس لئے میں استغفار کرتا ہوں(۳) یہ بہت ہی تعصب آمیز والی بات ہے کیونکہ ان ضد و نقیض والی روایات کے مقابلے میں صریح روایتیں ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ عمر کے زمانے میں منسوخ ہوا ہے نہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانے میں ؛ پس نہ عذر خواہی کی ضرورت ہے اور نہ استغفار کی درج بالادلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پہلی بات حقیقت پر مبنی تھی نہ دوسری بات اور یہ بھی معلوم ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد نہ عمر کو اور نہ اہلبیت کو جوآپ کے حقیقی جانشین ہیں اختیار حاصل ہے کہ زمان پیغمبر کے احکامات کو منسوخ کرے کوقنکہ آپ کے بعد وحی کا دروازہ بند ہوچکا ہو. بعض نے عمر کے اس حکم کو اجتہاد پر حمل کیا ہے ؛ یہ خود قابل تعجب بات ہے کیونکہ نص کے مقابلے میں اجتہاد اسلام کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے

--------------

(۱):- بدایة المجتہد کتاب النکاح.

(۲):- الغدیر ، ج۶، ص ۲۱۰.

(۳):- تفسیر المنار جلد پنجم صفحہ ۱۶.

۱۶۶

اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ فقھای اہل سنت کے ایک گروہ نے احکام ازدواج سےمربوط آیت  کو متعہ والی آیت کا ناسخ قرار دیا ہے،گویا انہوں نے ازدواج موقت کو اصلا ازدواج نہیں سمجھے ہیں جبکہ یہ مسلماً ازدواج کی دوسری قسم ہے .

اس قسم کی شادی ، اجتماعی ضرورت ہے ازدواج موقت ایک اجتماعی ضرورت ہے یہ ایک قانون کلی اور عمومی ہے کہ اگر انسانکے طبیعی غریزے کو صحیح اور جائز طریقے سے پورا نہ کرے تو وہ انحرافی اور ناجائز راہوں کی تلاش کرنے لگتا ہے ، کیوں کہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ طبیعی غریزے کو ختم نہیں کرسکتے اگر بالفرض کوئی اسے ختم کرے تو یہ عاقلانہ کام نہیں ہوگا، کیونکہ یہ طبیعی قانون کے ساتھ جنگ تصور کیا جائے گا. پس صحیح اور معقول زرائع  سے اس تشنگی کا سیراب کرنا اور زندگی کو دوام دینا ہی عاقلانہ کام ہوگا .

اور یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جنسی غریزہ انسان کے دیگر تمام غریزے سے قوی تر ہے یہاں تک کہ اسے بعض روان شناس اس جنسی غریزہ کو انسان کی اصلی ترین غریزہ جانتے ہیں

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان کیلئے خاص عمر میں دائمی شادی کرنے کے شرائط اور مواقع فراہم نہیں ہوتا، یا شادی شدہ افراد اہل وعیال سے دور و دراز علاقوں اور ملکوں میں نوکری یا تجارت کی خاطر سفر کرنا پڑتا ہے اور اس غریزے کی پیاس بجھانا بھی ضروری ہوتا ہے تو ایسی صورت میں کیا کرے ؟! کیا اس غریزہ کو سرکوب کرکے رہبانیت کی طرف ترغیب دلائے جائیں، یا ناجائز اور غیرشرعی راہوں کو اپنائیں ، یا تیسرا راستہ جو قرآن وسنت کے مطابق بھی ہے اور کم خرج بھی ہے اور آسانی سے کربھی سکتے ہیں ؛ اپنائیں؟! یقیناً یہ راستہ معقول ترین راستہ ہوگا(۱)

--------------

(۱):- تفسیر نمونہ، ج ۳، ص: ۳۴۳

۱۶۷

روایات

پہلی روایت:سَأَلَ أَبُو حَنِیفَةَ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ النُّعْمَانِ صَاحِبَ الطَّاقِ فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا جَعْفَرٍ مَا تَقُولُ فِی الْمُتْعَةِ أَ تَزْعُمُ أَنَّهَا حَلَالٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَأْمُرَ نِسَاءَكَ أَنْ يُسْتَمْتَعْنَ وَ يَكْتَسِبْنَ عَلَيْكَ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ لَيْسَ كُلُّ الصِّنَاعَاتِ يُرْغَبُ فِیهَا وَ إِنْ كَانَتْ حَلَالًا وَ لِلنَّاسِ أَقْدَارٌ وَ مَرَاتِبُ يَرْفَعُونَ أَقْدَارَهُمْ وَ لَكِنْ مَا تَقُولُ يَا أَبَا حَنِیفَةَ فِی النَّبِیذِ أَ تَزْعُمُ أَنَّهُ حَلَالٌ فَقَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُقْعِدَ نِسَاءَكَ فِی الْحَوَانِیتِ نَبَّاذَاتٍ فَيَكْتَسِبْنَ عَلَيْكَ.

  ابو حنیفہ نے محمد بن نعمان صاحب طاق ابو جعفر(ع) سے سوال کیا : اے اباجعفر متعہ کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟ تو اس نے کہا : حلال ہے تو ابو حنیفہ نے کہا: پھر کیوں اپنی خواتین کو متعہ کرنے نہیں دیتے تاکہ اس سے منفعت کسب کرسکیں؟! تو ابوجعفر (ع)نے کہا ہر جائز چیز کی طرف رغبت کرنا ضروری نہیں ہے اے ابوحنیفہ نبیذ کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا : حلال ہے تو ابو جعفر نےکہا : اپنی خواتین کو ہوٹلوں میں نبیذ پلانے کیلئے کیوں نہیں جانے دیتے تاکہ اس کے ذریعے پیسہ کمائے؟

دوسری روایت:فَقَالَ أَبُو حَنِیفَةَ وَاحِدَةٌ بِوَاحِدَةٍ ...ثُمَّ قَالَ لَهُ يَا أَبَا جَعْفَرٍ إِنَّ الْآيَةَ الَّتِی فِی سَأَلَ سَائِلٌ تَنْطِقُ بِتَحْرِیمِ الْمُتْعَةِ وَ الرِّوَايَةَ عَنِ النَّبِيِّ ص قَدْ جَاءَتْ بِنَسْخِهَا فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ يَا أَبَا حَنِیفَةَ إِنَّ سُورَةَ سَأَلَ سَائِلٌ مَكِّيَّةٌ وَ آيَةُ الْمُتْعَةِ مَدَنِيَّةٌ وَ رِوَايَتَكَ شَاذَّةٌ رَدِيَّةٌ فَقَالَ لَهُ أَبُو حَنِیفَةَ وَ آيَةُ الْمِیرَاثِ أَيْضاً تَنْطِقُ بِنَسْخِ الْمُتْعَةِ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ قَدْ ثَبَتَ النِّكَاحُ بِغَيْرِ مِیرَاثٍ قَالَ أَبُو حَنِیفَةَ مِنْ أَيْنَ قُلْتَ ذَاكَ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ لَوْ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِینَ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ ثُمَّ تُوُفِّيَ عَنْهَا مَا تَقُولُ فِیهَا قَالَ لَا تَرِثُ مِنْهُ قَالَ فَقَدْ ثَبَتَ النِّكَاحُ بِغَيْرِ مِیرَاثٍ ثُمَّ افْتَرَقَا (۱)

--------------

(۱):-  الکافی ، ج۵ ، ابواب المتعة ، ص : ۴۴۸.

۱۶۸

ابو حنیفہ نے کہا ایک کے بدلے ایک... پھر اس نے کہا اے ابوجعفر آیة سئل سائل بتاتی ہے کہ متعہ کرنا حرام ہے اور پیغمبر اکرم (ص)سے بھی روایت ہے کہ یہ آیہ ناسخ ہے. تو ابوجعفر نے کہا اے ابوحنیفہ سال سائل والی آیة مکی ہے اور آیة متعہ مدنی .پس تیری روایت شاذ اور ردی ہے ،  اس نے کہا آیة میراث بھی متعہ کو منسوخ کرتی ہے ، ابو جعفر نے کہا گاہے نکاح بغیر میراث کے بھی ممکن ہے. ابو حنیفہ نے کہا: تو یہ کہاں سے کہہ رہا ہے.؟ اگر کوئی مسلمان کسی اہل کتاب عورت سے شادی کرے پھر وہ مرجائے تو اس کے بارے میں تو کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا وہ عورت  اس شخص سے کوئی میراث نہیں پائے گی.

تیسری روایت:مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ قُلْتُ كَيْفَ يَتَزَوَّجُ الْمُتْعَةَ قَالَ تَقُولُ يَا أَمَةَ الله أَتَزَوَّجُكِ كَذَا وَ كَذَا يَوْماً بِكَذَا وَ كَذَا دِرْهَماً فَإِذَا مَضَتْ تِلْكَ الْأَيَّامُ كَانَ طَلَاقُهَا فِی شَرْطِهَا وَ لَا عِدَّةَ لَهَا عَلَيْكَ (۱)

ابن ابی عمیر نے ہشام بن سالم سے نقل کی ہے کہ :میں نے کہا متعہ والا نکاح کیسے پڑھا جائے گا تو انہوں نے کہا: تو کہے گا اے کنیز خدامیں تیرے ساتھ اتنے دنوں کیلئے اور اتنے مہرمیں نکاح کرنا چاہتا ہوں کیا تو راضی ہے ؟ اگر راضی ہوجائے تو جب وہ ایام گذر جائے تو اس کی طلاق ہوجائے گی اور اس کیلئے تم پرکوئی عدہ نہیں ہے البتہ یہ یائسہ عورت کیلئے ہے ورنہ غیر یائسہ کیلئے عدہ ہے .

چوتھی روایت:عَنْ زُرَارَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع مَا عِدَّةُ الْمُتْعَةِ إِذَا مَاتَ عَنْهَا الَّذِی تَمَتَّعَ بِهَا قَالَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْراً قَالَ ثُمَّ قَالَ يَا زُرَارَةُ كُلُّ نِكَاحٍ إِذَا مَاتَ عَنْهَا الزَّوْجُ فَعَلَی الْمَرْأَةِ حُرَّةً كَانَتْ أَوْ أَمَةً أَوْ عَلَی أَيِّ وَجْهٍ كَانَ النِّكَاحُ مِنْهُ مُتْعَةً أَوْ تَزْوِیجاً أَوْ مِلْكَ يَمِینٍ فَالْعِدَّةُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْراً وَ عِدَّةُ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَ الْأَمَةُ الْمُطَلَّقَةُ عَلَيْهَا نِصْفُ مَا عَلَی الْحُرَّةِ وَ كَذَلِكَ الْمُتْعَةُ عَلَيْهَا مِثْلُ مَا عَلَی الْأَمَةِ (۲)

--------------

(۱):-  الکافی، ج ۵، باب شروط المتعة  ،ص : ۴۵۵.

(۲):- من لایحضرہ الفقیہ،ج ۳ ،ص ۴۶۵.

۱۶۹

زرارہ سے روایت ہے کہ انہوں نے امام باقر (ع)سے سوال کیا کہ متعہ کی عدہ کیا ہےجب اس کا شوہر مر جائے .تو امام نے فرمایا ۴مہینہ ۱۰ دن پھر فرمایا: اے زرارہ سارا نکاح جب شوہر مرجائے تو اس کی بیوی پر خواہ وہ آزاد ہو یا کنیز ہو اور نکاح بھی جس قسم کا ہو خواہ متعہ ہو یا دائمی ہو یا ملک یمین ہو یعنی اپنی کنیزکواپنی زوجیت میں لائی گئی ہو ،ہر ایک پر ۴مہینہ ۱۰ دن عدہ پوری کرنا واجب ہے اور اگر طلاق ہوجائے تو ۳مہینہ عدہ پوری کرنا واجب ہے اور اگر طلاق شدہ کنیز ہو تو آزاد عورت کا نصف عدہ پوری کرنا واجب ہے اور متعہ میں بھی کنیز کے برابر عدہ پوری کرنا ضروری ہے.

پانچویں روایت:عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِی رِيَاحٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الله بْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ مَا كَانَتِ الْمُتْعَةُ إِلَّا رَحْمَةً رَحِمَ الله بِهَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ ص وَ لَوْ لَا نَهْيُهُ عَنْهَا مَا احْتَاجَ إِلَی الزِّنَاءِ إِلَّا شَقِی (۱) راوی کہتا ہے کہ میں نےابن عباس سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ متعہ بہت بڑی نعمت تھی جس کے ذریعے امّت محمدی پر اللہ تعالیٰ نے اپنا کرم کیا تھا اور اگر (عمر) اس سے منع نہ کرتا توشقی انسان کےسوا کوئی بھی زنا کا مرتکب نہ ہوتا. ساتویں روایت:فَإِنَّهُ ص رُوِيَ عَنْهُ مُتَوَاتِراً أَنَّهُ رَخَّصَ الصَّحَابَةَ فِی الْمُتْعَةِ وَ اسْتَمْتَعُوا فِی زَمَانِهِ. وَ أَيْضاً أَفْتَی بِإِبَاحَتِهَا أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ عَلِيٌّ (ع)(۲) رسول گرامی اسلام (ص)سے تواتر کے ساتھ روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے صحابہ کو متعہ کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی اورا نہوں نے نے بھی آپ ہی کے زمانے میں متعہ کئے. اسی طرح امیر المؤمنین(ع) نے بھی متعہ کے مباح ہونے پر فتویٰ دیا تھا.

خالد بن مہاجر بن خالد مخزمی  ایک شخص کے پاس بیٹھا تھا کوئی آکر متعہ کے بارے میں سوال کیا تو خالد نے کہا جائز اور مباح ہے ابن ابی عمر ہ انصاری نے کہا آہستہ بولو! اتنی آسانی سے فتویٰ دیتے ہو؟

خالد نے کہا : خدا کی قسم ، اس کام کو ہم نے پرہیزکار اور متقی پیشواؤں کے دور میں انجام دئے ہیں(۳)

--------------

(۱):- الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف،ج۲ ،نہی عمر عن المتعة ، ص ۴۵۷.

(۲):- نہج الحق و کشف الصدق،فی النکاح و فیہ مسائل،  ص : ۵۲۱.

(۳):- صحیح مسلم،ج۳،ص۱۹۸،باب نکاح المتعہ؛ السنن کبری،ج۷،ص۲۰۵.

۱۷۰

عموماً متعہ پر کئے جانے والے اشکالات

۱: کبھی کہتے ہیں کہ متعہ اور فحشاء میں کیا فرق ہے ؟ دونوں کچھ پیسےکے مقابلے میں جسم فروشی ہے. درحقیقت فحشا پر نکاح کا ایک نقاب ہے فرق صرف اتنا ہے کہ فقط ایک جملہ صیغہ اس میں اجرا ہوتا ہے.

جواب:یہ لوگ ازدواج کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ہے کیونکہ متعہ میں صرف ایک جملہ نکاح پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ ازدواج دائمی کی طرح اس میں بھی شرائط موجود ہیں جیسے یہ عورت اس مدت میں کسی اور شخص کے ساتھ  رابطہ پیدا نہیں کرسکتی اور جب مدت ختم ہوجائے تو کم از کم ۴۵ دن عدہ پوری کرنا واجب ہے اگرچہ مختلف وسائل کے ذریعے حاملہ ہونے سے روک تھام کیا ہوا. اگر اس نکاح سے بچہ ہوجائے تو اولاد کا سارا حکم اس پر لاگو ہوگا جبکہ فحشا کے ذریعے پیدا ہونے والابچہ ان حقوق سے محروم ہے ہاں صرف میاں اور بیوی متعہ میں ایک دوسرے سے ارث نہیں لے سکتے. اسی طرح اور بعض شرائط میں تھوڑی بہت فرق ہے اور یہ تھوڑی بہت فرق اس ازدواج کو فحشاء کی صف میں نہیں لاسکتا بعض کہتے ہیں:فحشاء کی طرح ازدواج موقت بھی سبب بنتا ہے کہ بے سرپرست بچوں کو معاشرے کے حوالہ کرے

جواب: نامشروع طریقے سے پیداشدہ بچے اور متعہ سے پیدا شدہ بچے میں فرق ہے متعہ سے پیداشدہ بچہ ماں باپ کا ہے  جبکہ نامشروع بچہ  والدین کا نہیں ہے.

راسل اور ازدواج موقت‏

انگلستان کے معروف دانشور بنام راسل اپنی کتاب زنا شویی اور اخلاق میں لکھتا ہے کہ جنسی مشکلات کے پیش نظر جوانوں کو ایک جدید طرز کے ازدواجی زندگی میں منسلک ہوجاناچاہئےجس میں شرائط آسان اور مناسب ہو: جیسے طرفین کی رضایت کے ساتھ بچہ دار ہونے نہ دے ، ایک دوسرے سے جدائی آسان طریقے سے ہوجائے ، اور طلاق کے بعد کوئی بھی ایک دوسرے سے حق نفقہ نہ

۱۷۱

رکھتا ہو.اگر قانونی طور پرایسا ممکن ہوجائے تو میری نظر میں جوانوں کی بڑی خدمت ہوگی کیونکہ اس طریقے سے بہت سے طالب علم جو اپنی کالج اور یونیورسٹی زندگی میں مناسب لڑکی سے متعہ کرے اور فحشاء اور منکرات سے محفوظ رہ سکیں گے(۱)

آپ نے ملاحظہ کیا کہ راسل کا یہ نظریہ کم وبیش ازدواج موقت کا نظریہ ہے جسے قرآن اور سنت نے پیش کیا ہے .کہ بچہ دار ہونے سے اگر روکنا چاہے تو کوئی مانع نہیں ، ایک دوسرے سے الگ ہونا بھی بہت آسان ہے اور نان ونفقہ بھی واجب نہیں ہے .

صحیح بخاری: ابن عباس سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو کہا: رسول اللہ (ص)نے متعہ کی اجازت دی ہے: کنا  فی جیش فاتانا رسول اللہفقال انه قد اذن لکم ان تستمتعوا فاستمتعوا .(۲) یعنی ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم لشکر رسول اللہ(ص) میں تھے کہ آپ تشریف لائے اور فرمایا : تمہیں متعہ  کرنے کی اجازت دیتا ہوں پس تم متعہ کریں.

ثانیاً صراحت کیساتھ روایات ناہیہ بھی موجود ہے جن میں سے ایک امیرالمؤمنین (ع) کا فرمان ہے: لولا انّ عمر نھا عن المتعة ما زنی الّا شقی اگر عمر متعہ سے لوگوں کو نہ روکتا تو سوائے شقی لوگوں کے کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا. (۳)

--------------

(۱):-  کتاب زناشویی و اخلاق ص۱۸۹ و ۱۹۰.

(۲):- صحیح بخاری باب نکاح المتعہ، ح ۱۴۰۵، تفسیر ابن کثیر ، ص ۲۸۵.

(۳):-  درالمنثور ، ج۲، ص ۱۴۰،سور ہ  نساء ۲۴.

۱۷۲

حج تمتع عثمان کے دور میں

عن مروان بن الحکم قال شهدت عثمان و علیا وعثمان ینهی عن المتعة و ان یجمع بینهما فلما رای علیا اهلّ بهما اهلّ بهما لبیک بعمرة و حجة قال ما کنت لادع سنة النبی لقول احد. (۱) بخاری اور مسلم نے مروان بن حکم سے یوں نقل کئے ہیں : عثمان بن عفان کو دیکھا کہ حج تمتع سے لوگوں کو روک رہا تھا. لیکن علی ابن ابیطالب نے جب اسے روکتے ہوئے دیکھا تو عمرہ اور حج کیلئے احرام باندھ لئے اور کہا:میں  کبھی بھی قانون الہی اور سنت پیغمبر(ص)کو ایک آدمی کے منع کرنے پر نہیں چھوڑسکتا

قال عمر ثلاث کن علی عهد رسول الله(ص)  وانا محرمهن و معاقب علیهن : متعة الحج، متعة النساء وحیّ علی خیر العمل فی الاذان .(۲)

عمرنے کہا رسول اللہ(ص) کے زمانے میں تین چیزیں رائج تھیں لیکن میں انہیں ممنوع قرار دیتا ہوں اور انجام دینے والوں کو سزا دوں گا، وہ متعہ حج ، متعہ نساء اور اذان میں حی علی خیر العمل کا جملہ.

سنن ابن ماجہ : حضرت عمر نے کہا : مجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص)اور ان کے اصحاب نے حج تمتع انجام دئے ہیں لیکن مجھے وہ اچھا نہیں لگتا کہ حاجی اس دوران اپنی بیوی سے ہمبستری کرکے سر سے پانی ٹپکتے ہوئے عبادت میں شامل ہوجائے(۳)

 اس حدیث پر آپ غور کریں کہ حلال محمد(ص) کوحرام میں تبدیل کر رہا ہے .

سنن نسائی: ابن عباس کہتے ہیں : میں نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنا: خدا کی قسم میں ضرور متعہ حج انجام دینے کی لوگوں کو اجازت نہیں دونگا اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ متعہ حج  قران میں وارد ہوا ہے اور پیغمبر اکرم(ص) نے بھی اسے انجام دئے ہیں(۴)

--------------

(۱):- صحیح بخاری ، باب التمتع والقران والافراد، ح ۱۵۶۳، صحیح مسلم، باب جواز التمتع، ح۱۲۲۳.

(۲):- موطا امام مالک بن انس.ج ۶۰، ص۲۲۳، سنن نسائی ، اور شرح سیوطی،ص۱۵۳.

(۳):- سنن ابن ماجہ ،ج۲، ص ۹۹۲، ح ۲۹۷۹. سنن نسائی،ج۶۵، ص ۲۵۱.

(۴):- سنن نسائی، ج۶۵، ص ۳۵۱.

۱۷۳

مسلسل متعہ کرنے والی عورت کیلئے عدہ

سوال:کیا اس عورت کیلئے عدہ ہے جو مسلسل مختلف مردوں کے ساتھ متعہ کرتی ہے؟

جواب: تمام مجتہدین کا اتفاق ہے کہ اگر وہ عورت یائسہ ( بھانج) نہ  ہو تو اسے عدت پوری کرنی چاہئے. (امام. صافی،فاضل، نوری، سیستانی، مکارم،...)

سوال: اگر معلوم ہوجائے کہ متعہ والی عورت دیگر اجنبی مردوں کے ساتھ بھی رابطہ رکھی ہوئی ہے تو کیا حکم ہے؟

جواب : وہ عورت گناہگار ہے اور مرد کو چاہئے کہ اس سے جدا ہو اور بقیہ مدت اسے بخش دے .

متعہ  کرنامعیوب کیوں؟

سوال:اگر متعہ جائز ہے تو کیوں ہمارے اسلامی معاشرے میں اسے معیوب سمجھے جاتے ہیں ؟

جواب: ہمارے متدین اسلامی معاشرے میں اسے کوئی معیوب نہیں سمجھے جاتے ہیں .کیونکہ دین مبین اسلام نے اس کاحکم دیا ہے آیات بھی اور روایات بھی اسے جائز اور حلال قرار دیتے ہیں تو ہم اسے معیوب کیوں کر سمجھ سکتے ہیں ؟ ہاں اگر اسے قانونی اور رسمی طور پر اجرا کرنا چاہے تو اس کیلئے پہلے زمینہ سازی کرنا ضروری ہے ورنہ شہوت پرست لوگ اپنی ہوس رانی کی خاطر آداب ورسوم ، شرعی اور عرفی حدود سے تجاوز کریں گے اس طرح معاشرے میں ایک غلط پروپیگنڈا شروع ہوگا اور سوء استفادہ کرنے والوں کو موقع ملے گا. لذا اگر کوئی اسے معیو ب سمجھے جاتے ہیں تو ان فرصت طلب افراد کی غلط رویوں کی وجہ سے ہے نہ خود متعہ کی وجہ سے مثال: اگر کوئی سفر حج پر جاتے وقت مواد مخدر کی سمگلینگ کرے اور پکڑے جائے تو اسے اس کی سزا دی جائے گی نہ لوگوں کو سفر حج سے روکے جائیں گے.کلی طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ متعہ کا مسئلہ کئی لحاظ سے مشکلات سے دوچار ہے :

     ہمارا معاشرہ فرہنگی اعتبار سے ابھی تک اس حکم الہی کو قبول اور اجراء کرنے سے قاصر ہے.

۱۷۴

     بہداشت اور قانونی طور پر کوئی خاص سسٹم ابھی تک وجود میں نہیں آیا ہے.

     حقوقی لحاظ سے سوء استفادہ کرنے والوں کی روک تھام کرنے کا مناسب بندوبست نہیں ہوا ہے .

اس مشکل کے حل کیلئے فرہنگی اور اجتماعی طور پر کوشش کرنا چاہئے تاکہ ہمارے جوانوں کو شیطانی چال اور ناجائز وغیرشرعی تعلقات اور ہوس رانی سے روکا جاسکے.

متعہ الحج اور متعہ  النساء کو عمر نے حرام قرار دیا ہے

سوال : متعۃ الحج اور متعۃ النسا ء کہ جنہیں حضرت عمر نے حرام قرار دیا،سے کیا مراد ہے ؟

     متعۃ الحج سے مراد یہ ہے: جو بھی حاجی مکہ سے دور  و دراز علاقے اور ممالک سے حج کے غرض سے آتے ہیں تو ان کا وظیفہ یہ ہے کہ بعض اعمال حج انجام دینے کے بعد آزاد ہوجاتا ہے اور جب ۸ ذالحجہ کا دن آتا ہے تو دوبارہ اعمال حج انجام دینے لگتا ہے اور ان دو اعمال کے درمیانی وقفے میں دور و دراز ممالک سے آئے ہوئے حجاج کو یہ اجازت ہے کہ دنیوی نعمتوں سے لذت اور فائدہ اٹھائیں اس عمرہ اور حج کے درمیانی وقفے میں جو لذت اٹھاتے ہیں اسے متعۃ الحج کہا جاتا ہے .اور حج تمتع کے اعمال یہ ہیں:

     کسی بھی میقات سے احرام باندھنا   طواف کعبہ انجام دینا .     دورکعت نماز طواف پڑھنا.  صفا اور مروا کے درمیان سعی کرنا .  تقصیر کرنا یعنی بال چھوٹا کرنا(۱)

ان اعمال کو ایک دو گھنٹے میں  انجام دینے کے بعد احرام سے خارج ہوجاتے ہیں اور ہر وہ چیز جو احرام کی وجہ سے اس پر حرام ہوچکی تھیں اب وہ سب چیزیں اس پر حلال ہوجاتی ہیں اور وہ ہر قسم کی مشروع لذات بھی اٹھا سکتے ہیں. اگر چاہے تو اس دوران کسی عورت سے عقد کرلے یا اگر اپنی بیوی اپنے ساتھ ہو تو اس کے ساتھ ہمبستری کرسکتے ہیں

---------------

(۱):-  صحیح مسلم، کتاب الحج باب جواز التمتع، ح۱۲۲۵

۱۷۵

 یہاں تک کہ ۸ ذالحجہ کا دن آجائے اس دن دوبارہ احرام باندھ لیں گے اور حج تمتع کے اعمال شروع کریں گے حضرت عمر نے اس درمیانی وقفے کو ختم کرتے ہوئے حکم لگایا کہ کسی کو بھی اس دوران حالت احرام سے نکلنے کی اجازت نہیں .

     متعۃ النساء یا متعہ نکاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی بیوہ عورت موقتا  ً کسی مرد کے ساتھ شادی کرنا چاہے یا مرد کسی عورت کو کچھ مدت کے لئے اپنے عقد میں لینا چاہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اسے بھی حضرت عمر نے حرام قرار دیا.

معاویہ کے دور میں حج تمتع

 سعد بن ابی وقاص کہتا ہے کی ہم حج تمتع اس وقت انجام دیتے تھے جبکہ معاویہ ابھی تک خدای عرش کے بارے میں کافر تھا.(۱)

بالآخرہ خلیفہ دوم کا یہ دستور ختم ہوا: امیر المؤمنین  اور بعض دیگر مسلمانوں کی کوششوں سے حج تمتع اسی طرح انجام دینے لگے جس طرح زمان پیغمبر  میں انجام دئے جاتے تھے.اور بالآخر فقہائی اھل تسنن بھی عمر کے فتویٰ کے خلاف فتویٰی دینے لگے:

شافعی والے کہتے ہیں : شخص مخیر ہے حج افراد یا تمتع یا قران انجام دے افضل افراد ہے اس کے بعد تمعت افضل ہے(۲)

مالکی والے کہتے ہیں: افضل افراد ہے اس کے بعد قران ہے.(ہمان)

حنبلی کہتے ہیں: افضل تمتع ہے اسے بعد افراد.(ہمان)

حنفی والے کہتے ہیں: قران افضل ہے اس کے بعد تمتع.(ہمان)

--------------

(۱):-  الفقہ علی المذاہب الاربعہ،ج۱، کتاب الحج.

(۲):- نوبختی، فرق الشیعہ ، ص۸۵.

۱۷۶

نتیجہ بحث:

تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسلام ایک کامل اور جاویدانہ دین ہے. جو انسان کی ضروریات کو پورا کرتا ہے. اور ہر ایک احکام مصالح اور مفاسد کے تابع ہیں. یہ عقد موقت بھی انہی ضروریات  بشری میں سے ایک اہم ضرورت ہے. چنانچہ دوآدمی اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہم سفر بن جاتے ہیں اور خواہ و نا خواہ ایک دوسرے کی ناموس پر نظر پڑتی ہے ایسے مواقع پر اپنے نابالغ بچیوں کے ساتھ نکاح کرلے تاکہ محرمیت پیدا ہوجائے. اور  یہ معصیت اور گناہ سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے.

اسی طرح بعض موقع پر زنا اور لواط یا حتیٰ بیماری سے بچنے کیلئے عقد موقت بھی ضروری ہے. مثلاً کالج یونیورسٹیوں میں جوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی جنسی غریزہ کو پورا کرنے کیلئے مشروع اور جائز طریقہ عقد موقت ہے کیونکہ عقد دائم کیلئے ذمینہ فراہم نہیں اسی طرح اگر کوئی اکیلا کسی دوسرے ملک میں ملازمت یا مزدوری کے غرض سے جاتا ہء وہاں عقد دائم کیلئے مناسے نہیں تو اس ضرورت کو پورا کرنے کا واحد راستہ عقد موقت ہے.

ثانیاً اگر بیامبر (ص)کے زمانے میں عقد موقت کی ضرورت پڑتی تھی تو کیا اس دور میں اس کی ضرورت نہیں پڑے گی؟ اگر کوئی عورت بیوہ ہوجائے اور دوبارہ عقد دائم بھی ممکن نہ ہو مثلاً کوئی مرد تیار نہ ہو تو کیا عقد موقت ہی اس کا حل نہیں؟

۱۷۷

دسویں فصل:

 تقیہ کے بارے میں شکوک اور شبہات

آئمہ طاہرین (ع)کے زمانے میں دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کی طرف سے شیعوں پر مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے؛ ان میں سے ایک تقیہ ہے .

سب سے پہلا اشکال اور شبہہ پیدا کرنے والا سلیمان بن جریر ابدی ہے جو فرقہ جریرہ کا رہبر ہے وہ  امام صادق(ع)کا ہم عصر ہے .اس کا کہنا ہے کہ شیعوں کے امام جب کسی خطا کے مرتکب ہوتے تھے تو تقیہ کو راہ فرار کے طور پر مطرح کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تقیہ کے طور پر انجام دیا گیا ہے(۱) یہ اشکال اس کے بعد مختلف کلامی اور تفسیری کتابوں میں اہل سنت کی جانب سے کرنے لگے بعد میں شیعہ بڑے عالم دین سید شریف مرتضی معروف بہ علم الہدی (۳۵۵ ـ۴۳۶)ق نے ان شبہات اور اشکالات کا جواب  دیا ہے(۲) فخر رازی(۵۴۴ ـ ۶۰۶ ہ ) صاحب تفسیر کبیرنے « مفاتیح الغیب» میں  سلیمان ابن جریر کے  تقیہ کے بارے میں اس شبہہ کوتکرار کیا ہے، جس کا جواب  خواجہ نصیر الدین طوسی۵۷۹ـ ۶۵۲ق) نےدیا ہے(۳)

شبہات کی تقسیم بندی

وہ شبہات جوتقیہ سے  مربوط ہے وہ تین بخش میں تقسیم کرسکتے ہیں :

وہ شبہات جو مربوط ہے  تشریع تقیہ سے

وہ شبہات جو امام معصوم(ع) کے تقیہ سے مربوط ہے 

وہ شبہات او ر تہمتیں جوشیعوں کے  تقیہ سے مربوط ہیں:

--------------

(۱):-  شیخ انصاری، رسائل ، ج۱،ص ۲۹۰، ۳۱۰.

(۲):- المحصل ، ص ۱۸۲. 

(۳):- محمود، یزدی؛ اندیشہ کلامی شیخ طوسی، ص ۲۷۹.

۱۷۸

تشریع تقیہ سے مربوط شبہات کی تفصیل:

تقیہ اور جھوٹ :

ابن تیمیہ اس شبہہ کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تقیہ ایک قسم کی جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا ایک قبیح اور بری چیز ہے اور خدا تعالیٰ بری چیز کو حرام قرار دیا ہے ، پس تقیہ بھی خدا کے نزدیک قبیح اور بری چیز ہے .اور جائز نہیں ہے .اس اشکال کیلئے دو جواب دئے جاتے ہیں:

۱. اگر تقیہ جھوٹ ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہوں پر کیوں تقیہ کرنے والوں کی مدح سرائی کی ہے ؟!:جیسے آلعمران کی آیہ نمبر ۲۸ میں فرمایا :الّا ان تتقوا من ه م، اورسورہ نحل کی  آیہ۱۰۶ میں فرمایا :الا من اکر ه و قلب ه مطمئن بالایمان.

اللہ تعالیٰ نے صرف تقیہ کرنے کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ مجبوری کے وقت تقیہ کرنے کا باقاعدہ حکم دیا ہے اور تقیہ کرنے کا شوق دلایا ہے .

دوسرا جواب یہ ہے کہ کیا جب کافروں کی طرف سے مجبور کیا جائے اور تقیہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ  بھی نہ ہو تو وہاں کیا جھوٹ بولنا صحیح نہیں ہے ؟ کیونکہ ہر جگہ جھوٹ بولنا برا نہیں ہے جیسے اگر کسی دو مسلمان بھائیوں کے درمیان الفت اور محبت پیدا کرنے اور خون و خرابہ سے بچنے کیلئے جھوٹ بولنا جائز ہے ، کیونکہ اگر سچ بولے تو جھگڑا فساد میں اضافہ ہوسکتا ہے

لیکن اس اشکال کا جواب یوں  دیا جاسکتا ہے کہ : یہ اشکال دومقدمہ (صغری اور کبری) سے تشکیل پایا ہے صغری میں کہا کہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے یہ صغری ہر مصداق اور مورد میں صحیح نہیں ہے کیونکہ تقیہ اخفائی یعنی واقعیت کے بیان کرنے سے سکوت اختیار کرنے کو کوئی جھوٹ نہیں کہتا بلکہ یہ صرف تقیہ اظہاری میں صدق آسکتا ہے وہ بھی توریہ نہ کرنے کی صورت میں .

پس تقیہ کے کچھ خاص مورد ہے جہاں تقیہ کا مصداق کذب اور جھوٹ ہے.

۱۷۹

لیکن کبری ٰ یعنی جھوٹ بولنا قبیح اور برا ہے ؛ یہاں کہیں گے کہ جھوٹ ہر جگہ برا نہیں ہے .کیونکہ مختلف عناوین کو حسن و قبح کی کسوٹی پر ناپا جاتا ہے تو ممکن ہے درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے :

۱.یا وہ عنوان حسن و قبح کیلئے  علت تامہ ہے .جیسے حسن عدالت اور قبح ظلم.انہیں حسن و قبح ذاتی کہا جاتا ہے .

۲.یا وہ عنوان جو خود بخود حسن و قبح کا تقاضا کرتا ہو ، بشرطیکہ کوئی اور عنوان جو اس تقاضے کو تبدیل نہ کرے ،اس پر صدق نہ آئے .جیسے کسی یتیم پر مارنا خود بخود قبیح ہے لیکن اگر ادب سکھانے کا عنوان اس پر صدق آجائے تو یہ قباحت  کی حالت سے نکل آتی ہے .ایسے حسن و قبح کو عرضی کہتے ہیں.

۳.یا وہ عنوان جو حسن و قبح کے لحاظ سے متساوی الطرفین ہو .اور حسن و قبح سے متصف ہونے کیلئے مختلف شرائط کی ضرورت ہے جیسے کسی پر مارنا اگر ادب سکھانے کیلئے ہو تو حسن ہے اور اگر اپنا غم و غصہ اتارنے کیلئے مارے تو قبیح ہےلیکن اگر کسی بےجان چیز پر مارے تو  نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے .

اور یہاں ہم اس وقت جھوٹ بولنے کو قبیح مانیں گے کہ پہلا عنوان اس پر صدق آتا ہو جب کہ ایسا نہیں ہے .اور عقلا نے بھی اسے  دوسری قسم میں شمار کئے ہیں کہ جب بھی کوئی زیادہ مہمتر مصلحت  کے ساتھ تزاحم  ہو تو اس کی قباحت دور ہوجاتی ہے ، جیسے : ایک گروہ کا خون خرابہ ہونے سے بچانے کیلئے جھوٹ بولنے کو ہر عاقل شخص جائز سمجھتا ہے.

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں  کہ قرآن او ر   پیغمبر اسلام نے عماربن یاسر کے تقیہ کرتے ہوئے جھوٹ بولنے اور کفار کے شر سے اپنی جان بچانے کومورد تائید قرار دیا ہے . 

۱۸۰

شیخ طوسی کا جواب

تقیہ جھوٹ نہیں ہے  کیونکہ  ، الکذب ضد الصدق و ہو الاخبار عن الشیء لا علی ما ہو بہ. یعنی جھوٹ  سچائی کی ضد ہے اور جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی خبر دے، جس کی کوئی حقیقت  نہ ہو .

پس جھوٹ کا دو رکن ہے :

الف: کسی واقعے کے بارے میں خبر دینا .

ب: اس خبر کا واقعیت کے مطابق نہ ہونا.

جبکہ تقیہ کے تین رکن ہیں :

الف:حق بات کا چھپانا.

 ب: مخالفین کے ساتھ موافقت کا اظہار کرنا .

 ج: اور یہ دونوں رکن اس لئے ہو کہ دشمن کے شر سے اپنی جان یا مال کو حفاظت کرے .

 لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ  اخباری ہے اور تقیہ دشمن کو برحق ظاہر کرنا ہے .دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھا ہے وہ بھی حق ہو، جبکہ تقیہ میں یہ شرط ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھا ہے وہ حق ہو .

اگر کسی نے اشکال کیا  کہ جھوٹ تقیہ سے اعم ہے .تو ہم جواب دیں گے کہ بالفرض تقیہ کرنے والا خبر دینے کی نیت کرے     بلکہ تعریض کی نیت کرے(1)

--------------

(1):- .   ہمان ،  ص  ۲۸۰.  

۱۸۱

تقیہ یعنی منافقت!

ممکن ہے کوئی یہ  ادعا کرے کہ جو مکر اورفریب منافق لوگ کرتے ہیں ، تقیہ  بھی اسی کی ایک قسم ہے. کیونکہ منافق دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے زبان پر ایسی چیزکا اظہار کرتے ہیں جس کے برخلاف دل میں چھپا رکھا ہو .

شیخ طوسی اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتےہیں کہ مخادع  اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دل میں موجود بات کے برخلاف زبان پر اظہار کرے  تاکہ جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اس سے وہ محفوظ رہے .اسی لئے منافق کو مخادع کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زبان کے ذریعے اسلام  کاکلمہ پڑھ کر کفر کے حکم لگنے سے فرار کرکے اپنی جان بچاتا ہے اگر چہ منافق مؤمن کو ظاہراً زبان کے ذریعے دھوکہ دیتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے .

یہ  درست ہے کہ تقیہ میں بھی باطن کے خلاف بات کا اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جان بچاتا ہے ؛ لیکن یہ دونوں ( تقیہ اور نفاق) اصولاًباہم مختلف اور متفاوت ہے .اور دونوں قابل جمع بھی نہیں.

امام صادق(ع) اس مختصر حدیث میں  مؤمن ہونے کا دعوا کرنے اور ایسے موارد میں تقیہ کے دامن پکڑنے والوں کو شدید طور پر ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:و ایّم اﷲ لو دعیتم لتنصرونا لقلتم لا نفعل انّما نتقی و لکانت التقیه احبّ الیکم من آبائکم و امّهاتکم ، ولو قد قام القائم ما احتاج الی مسائلکم عن ذالک و لا قام فی کثیر منکم حدّ النفاق .(1)

یعنی خدا کی قسم ! اگر تمہیں ہماری مدد کیلئے بلائے جائیں تو  کہہ دینگے ہر گز انجام نہیں دیں گے،کیونکہ ہم تقیہ کی حالت میں ہیں  .تمہارے والدین کا تقیہ کرنا تمہارے نزدیک  زیادہ محبوب ہے ، اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور ہماری حکومت تشکیل دے گا ، تو خدا کی قسم بغیر سوال کئے ، منافقین کو سزا دینا شروع کریگا جنہوں نے تمہارا حق مارا ہے

--------------

(1):- .      وسائل الشیعہ، ج ۲ ، باب ۲۵.

۱۸۲

یہ حدیث بتا تی ہے کہ امام(ع)  اپنے بعض نادان دوست کے بے موقع تقیہ کرنے کی وجہ سے غم و غصہ کا اظہار فرما تے ہوئے نفاق اور تقیہ کے درمیان حد فاصل کو واضح فرمارہے ہیں .

اپنے مقدس اہداف کی ترقی کی خاطر پردہ پوشی کرنے اور چھپانے کا نام تقیہ ہے اور جائز ہے .اجتماعی اور الٰہی اہداف کی حفاظت کی خاطر اپنا ذاتی اہداف کو فدا کرنے کا نام تقیہ ہے .اس کے برخلاف اگر کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی اور قومی مفاد کو قربان کرے تو وہ منافق کہلائے گا.

ایک اور حدیث میں امام (ع)سے منقول ہے :جب بھی انسان ایمان کا اظہار کرے ،لیکن بعد میں عملی میدان میں اس کے برخلاف عمل کرے تو وہ مؤمن  کی صفات سے خارج ہے  اور اگراظہار خلاف ایسے موارد میں کیا جائے جہاں تقیہ جائز نہیں  ہے تو اس کا عذر قابل قبول نہیں ہے: لانّ للتقیه مواضع من ازالها  عن مواضعها لم تستقم له (1)

کیونکہ تقیہ کے بھی کچھ حدود ہیں جو بھی اس سے باہر قدم رکھے تو وہ معذور نہیں ہوگا .اور حدیث کے آکر میں فرمایا : تقیہ وہاں جایز ہے جہاں دین اور ایمان میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو .

کمیت شاعر کہ جو مجاہدوں کی صف میں شمار ہوتا ہے کہ اپنے ذوق شاعری سے استفادہ کرتے ہوئے بنی عباس کے دور خلافت میں اس طاغوتی نظام کے خلاف قیام کیا اور  مکتب اہل بیتکی حمایت کی ایک دن امام موسیٰ ابن جعفر(ع) کی خدمت میں پہنچا ، دیکھا کہ  امام کا چہرہ بگڑا ہواہے .

--------------

(1):- .      ہمان ، ج ۶ ، باب ۲۵.

۱۸۳

 جب وجہ پوچھی   توشدید اور اعتراض آمیز لہجے میں  فرمایا :کیا تونے بنی امیہ کے بارے میں یہ شعرپڑھا ہے ؟!

فالان صرت ا لی امّة    و الامم  لها الی مصائر

یعنی ابھی تو میں خاندان  بنی امیہ کی طرف  متوجہ ہوا ہوں اور ان کا کام میری طرف متوجہ ہورہا ہے

کمیت کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: مولا !اس شعر کو میں نے پڑھا ہے لیکن خدا کی قسم میں اپنے ایمان پر باقی ہوں اور آپ خاندان اہل بیت سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کے دوستداروں سے بھی محبت رکھتا ہوں اور اسی  لئےآپ کے دشمنوں سے بیزار ہوں؛ لیکن اسے میں نے تقیۃً  پڑھا ہے

امام(ع) نے فرمایا:اگر ایسا ہو تو تقیہ ہر خلاف  کاروں کیلئے قانونی اور شرعی مجوز ملے گا .اور شراب خوری بھی تقیہ کے تحت جائز ہوجائے گا .اور بنی عباس کی حکومت کا دفاع کرنا بھی جائز ہوجائے گا. اس قسم کے تقیہ سے تملّق ،چاپلوسی اور ظالموں کی ثنا خوانی کا بازار گرم اور پر رونق ہوجائے گا.اور نفاق ومنافقت بھی رائج ہوجائے گا(1)

تقیہ،  جہادکے متنافی

اشکال  یہ ہے : اگر تقیہ کے قائل ہوجائیں تو اسلام میں جہاد کا نظریہ ختم ہونا چاہئے جبکہ اس جہاد کی خاطر مسلمانوں کی جان و مال ضائع ہوجاتی ہیں(2)

--------------

(1):- مکارم شیرازی؛ تقیہ سپری عمیقتر، ص ۷۰.   

(2):- قفاری ؛ اصول مذہب الشیعہ، ج۲، ص ۸۰۷.

۱۸۴

جواب: اسلامی احکام جب بھی جانی یا مالی ضرر اور نقصان سے دوچار اور روبرو ہوجاتا ہے تو دو قسم میں تقسیم ہوجاتا ہے :

1.  وہ احکامات جن کا اجراء کرنا  کسی جانی ضرر یا نقصان  سے دوچار نہیں ہوتا ، جیسے نماز کا واجب ہونا ، جس میں نہ مالی ضرر ہے اور نہ جانی ضرر .

2.  وہ احکامات جن کا اجرا کرنا ، جانی یا مالی طورپر ضرر یا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جیسے زکوۃ  اور خمس  کا ادا  کرنا ، راہ خدا میں جہاد کرنا وغیرہ .

تقیہ کا حکم صرف پہلی قسم سے مربوط ہے کہ بعض موارد میں ان احکام کو بطور حکم ثانوی اٹھایا جاتا ہے .لیکن دوسری قسم سے تقیہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے .اور جہاد کا حکم بھی دوسری قسم میں سے ہے ، کہ جب بھی شرائط محقق ہوجائے تو جہاد  بھی واجب ہوجاتا ہے .اگرچہ بہت زیادہ جانی یامالی نقصان بھی کیوں نہ اٹھانی پڑے.

تقیہ اور آیات تبلیغ کے درمیان  تعارض

آلوسی کہتا ہے کہ تقیہ ان دو آیات کے ساتھ تعارض پیدا کرتا ہے کہ جن میں پیغمبر اکرم (ص) کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے(1)

۱. يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ (2)

--------------

(1):-   ابوالفضل آلوسی؛ روح المعانی،ج ۳، ص ۱۲۵.

(2):- مائدہ۶۷.

۱۸۵

 اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے.

اس آیہ مبارکہ  میں اپنے حبیب کو تبلیغ کا حکم دے رہا ہے اگر چہ خوف  اور ڈر ہی کیوں نہ ہو.

۲. الَّذِینَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ الل ه وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا الل ه وَكَفَی بِالل ه حَسِیبًا (1) یعنی وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ،اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے  .

اس آیہ شریفہ میں خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ایک بہترین صفت قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے .

اسی طرح اللہ  تعالیٰ کے احکامات کو چھپانے کی مذمت میں بھی آیات نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ فرمایا:إِنَّ الَّذِینَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ الل ه مِنَ الْكِتَابِ وَ يَشْترَُونَ بِهِ ثمََنًا قَلِیلاً  أُوْلَئكَ مَا يَأْکلُُونَ فىِ بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ الل ه يَوْمَ الْقِيَمَةِ وَ لَا يُزَكِّیهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ. (2)

جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے  .

--------------

(1):- احزاب ۳۹.

(2):- بقرہ ۱۷۴.

۱۸۶

اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے یہاں تقیہ بے مورد ہے .

 لیکن اگر تقیہ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے مثال کے طور پر ایک  کم اہمیت والا فقہی فتویٰ دے کر کسی فقیہ  یا عالم دین کی جان پچانا.

تقیہ اور ذ لّت مؤمن

اشکال :وہابی لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے خداتعالیٰ نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے.(1)

جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں کہ اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروی کار لایا جائے تو موجب ذلت نہیں ہوسکتا کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کی خاطر حق بات کرنے سے  سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ  ذلت کا سبب  ہے اور نہ مذمت کاباعث

چنانچہ عمار ابن یاسر نے ایسا کیا تو قرآن  کریم نے بھی اس کی مدح سرائی  شروع کی .

--------------

(1):- .      موسی موسوی؛ الشیعہ و التصحیح ، ص ۶۷.

۱۸۷

تقیہ ،ما نع امر بہ معروف

اشکال یہ ہے کہ تقیہ انسان کو امربہ معروف اور نہی از منکر کرنے سے روکتی ہے کبھی جان کا خوف دلا کر تو کبھی مال یا مقام کا .جب کہ یہ دونوں (امر اور نہی ) واجبات اسلام میں سے ہے .اس مطلب کی تائید میں فرمایا : افضل الجہاد کلمة حق عند سلطان جائر. ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا  بہترین جہاد  ہے .

اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

۱ـ امر بہ معروف و نہی از منکر بہ صورت مطلق جائز  نہیں بلکہ اس کیلئے بھی کچھ شرائط و معیارہے  کہ اگر یہ  شرائط اور معیار موجود ہوں تو  واجب ہے ..ورنہ  اس کا واجب ہونا ساقط ہوجائے گا .

من  جملہ شرائط امر بہ معروف و نہی از منکر  میں سے یہ ہیں :انکار کرنے میں کوئی ایسا مفسدہ موجود نہ ہو جو اس سے بھی کسی بڑے  جرم ،جیسے قتل و غارت میں مبتلا ہو جائے ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرنا جائز نہیں ہے

۲ـ  وہ روایات جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا اظہار کرنے کو ممدوح قرار دیتی ہیں ، وہ خبر واحد ہیں جو ادلہ عقلی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی یعنی تعارض کے موقع پر دلیل عقلی مقدم ہو گا ،اس سے  دفع ضرر اور حفظ جان مراد ہے(1)

تقیہ امام معصوم(ع)سےمربوط شبہات

اشکال کرنے والا اس مرحلے میں تقیہ کے شرعی جواز کو فی الجملہ قبول کرتا ہے ، کہ بعض موارد میں مؤمنین کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے لیکن دینی رہنماؤں جیسے امام معصوم(ع) کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اگر دین کے رہنما تقیہ کرے تو درج ذیل اشکالات وارد ہوسکتے ہیں :

--------------

(1):- .      دکتر محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی، ص ۲۸۹.

۱۸۸

 تقیہ اور امام(ع) کا بیان شریعت

شیعہ عقیدے کے مطابق امام معصوم کے وجود مبارک کوشریعت اسلام کے بیان کیلئے  خلق کیا گیا ہے لیکن اگر یہ حضرات تقیہ کرنے لگے تو بہت سارے احکام رہ جائیں گےاور مسلمانوں تک نہیں پہنچ پائیں گے. اور ان کی بعثت کا فلسفہ  بھی ناقص ہو گا. اسی سلسلے میں اہل سنت کے ایک عالم نے اشکال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے علی(ع) کو  اظہار حق کی خاطر منصوب کیا ہے تو تقیہ کیا معنی  رکھتا  ہے ؟!

اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ امامان معصوم نے بہترین انداز میں اپنے وظیفے پر عمل کئے ہیں لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں نے  ان کے فرامین کو قبول نہیں کیا .

. چنانچہ حضرت علی(ع) کے بارے میں منقول ہے آپ ۲۵ سال خانہ نشین ہوئے تو قرآں مجید کی جمع آوری ، آیات کی شان نزول ، معارف اسلامی کی توضیح اور تشریح کرنے میں مصروف ہوگئے اور ان مطالب کو اونٹوں پر لاد کر مسجد میں مسلمانوں کے درمیان لے گئے تاکہ ان معارف سے لوگ استفادہ کریں  ؛ لیکن خلیفہ وقت نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا .(1)

جب امام نے یہ حالت دیکھی تو خاص شاگردوں کی تربیت اور ان کو اسلامی احکامات اور دوسرے معارف کا تعلیم دیتے ہوئے اپنا شرعی وظیفہ انجام دینے لگے ؛ لیکن یہ ہماری کوتاہی تھی کہ ہم نے ان کے فرامین کو پس پشت ڈالا اور اس پر عمل نہیں کیا .

امام کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں:

1.  معتزلہ والے کہتے ہیں کہ امام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ امام کا قول ، پیغمبر اسلام(ص) کے قول کی طرح حجت ہے .

2.  امامیہ  والے کہتے ہیں کہ اگر تقیہ کے واجب ہونے کے اسباب نہ ہو،کوئی اور مانع بھی موجود نہ ہو تو امام تقیہ کرسکتے ہیں شیخ طوسی کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام تقیہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ شرائط موجود ہو .

--------------

(1):- .      محمد باقر حجتی؛ تاریخ قرآن کریم، ص ۳۸۷.

۱۸۹

امام کیلئے تقیہ جائز ہونے کے  شرائط

     شرعی وظیفوں  پر عمل پیرا ہونا اور احکام کی معرفت حاصل کرنا اگر فقط امام پر منحصر نہ ہو جیسے امام کا منصوص ہونا فقط امام کے قول پر منحصر نہیں ہے بلکہ قول پیغمبر (ص) اور عقل سلیم کے ذریعے سے بھی مکلف جان سکتا ہے تو  ایسی صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں

      اس صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں کہ آپ کا تقیہ کرنا حق تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ بنے اورساتھ ہی شرائط بھی پوری ہو.

     جن موارد میں امام تقیہ کررہے ہیں وہاں ہمارے پاس واضح دلیل موجود ہوکہ معلوم ہوجائے کہ امام حالت تقیہ میں حکم دے رہے ہیں .

اس بنا پر اگر احکام کی معرفت امام میں منحصر نہ ہو ، یا امام کا تقیہ کرنا حق تک جانے میں رکاوٹ نہ ہو اور کوئی ایسی ٹھوس دلیل بھی نہ ہو جو امام کا تقیہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتی ہو اور ساتھ ہی اگر معلوم ہو کہ امام حالت تقیہ میں ہو تو کوئی حرج نہیں کہ  امام تقیہ کرسکتے ہیں(1)

 تقیہ، فرمان امام(ع) پر عدم اعتماد کاباعث

شیعہ مخالف لوگوں کا کہنا ہے  کہ اگر ہمارے آئمہ معصومینوسیع پیمانے پر تقیہ لگے تو یہ احتمال ساری روایات جو ان حضرات سے ہم تک پہنچی ہیں ،میں پائی جاتی ہے کہ ہر روایت تقیہ کرکے بیان کئے  ہوں .اس صورت میں کسی ایک روایت پر بھی ہم عمل نہیں کرسکتے .کیونکہ کوئی بھی روایت قابل اعتماد نہیں ہوسکتی. اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمارے آئمہ معصومین کا تقیہ کرنا کسی قواعد و ضوابط کےبغیر ہو تو یہ اشکال وارد ہے .

--------------

(1):- .      محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی، ص۳۳۳.

۱۹۰

لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرنے کیلئے خواہ وہ تقیہ کرنے والا امام ہو یا عوام ہو یا خواص ہو ، خاص شرائط ہیں اگر وہ شرائط نہ ہو تو تقیہ کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے .اور جب اماموں کے تقیہ کے علل و اسباب اگر ان کو معلوم ہوجائے تو یہ اشکال بھی باقی نہیں رہے گا .

تقیہ اور علم امام  (ع)

علم امام کے بارے میں شیعہ متکلمین کےدرمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں :اور یہ اختلاف بھی روایات میں  اختلاف  ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں .

پہلا نظریہ : قدیم شیعہ متکلمین جیسے ، سید مرتضی وغیرہ معتقد ہیں کہ امام تمام احکامات اور معارف اسلامی کا علم رکھتےہیں لیکن مختلف حادثات اور بعض واقعات جیسے اپنی رحلت  کب ہوگی؟ یا دوسروں کی موت کب واقع ہوگی ؟و...بصورت موجبہ جزئیہ ہے نہ موجبہ کلیہ .

دوسرا نظریہ : علم امام(ع) دونوں صورتوں میں یعنی تمام احکامات دین اور اتفاقی حادثات کے بارے میں بصورت موجبہ کلیہ علم رکھتے ہیں(1)

بہ ہر حال دونوں نظریہ کا اس بات پر اتفاق ہے  کہ علم امام(ع)احکام اور معارف اسلامی کے بارے میں  بصورت موجبہ ہے .  وہ شبہات جو تقیہ اور علم امام سے مربوط ہے وہ بعض کے نزدیک دونوں مبنا میں ممکن ہے  اور بعض کے نزدیک صرف دوسرے مبنی میں ممکن ہے

پہلا اشکال: تقیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ  آئمہ تمام فقہی احکام اور اسلامی معارف کا علم نہیں رکھتے ہیں اور اس کی توجیہ کرنےاور روایات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کیلئے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں.

--------------

(1):- .      کلینی ؛ اصول کافی، ج۱ ، ص ۳۷۶

۱۹۱

اس اشکال کو سلیمان ابن جریر زیدی نے مطرح کیا ہے ،جوعصر آئمہمیں زندگی کرتا تھا .وہ کہتا ہے کہ رافضیوں کے امام نے اپنے پیروکاروں کیلئے دو عقیدہ بیان کئے ہیں جس کی موجودگی میں کوئی بھی مخالف ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نہیں جیت سکتا.

پہلا عقیدہ  بداء ہے .

دوسرا عقیدہ تقیہ ہے.

شیعیان اپنے  اماموں سے  مختلف مواقع پر سوال کرتے تھے اور وہ جواب دیاکرتے تھے اور شیعہ لوگ ان روایات اور احادیث کو یاد رکھتے  اور لکھتے تھے ،لیکن ان کے امام ، چونکہ کئی کئی مہینے  یا سال گذرجاتے لیکن ان سے مسئلہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ؛ جس کی وجہ سے وہ پہلے دئے ہوئے جوابات بھی بھول جاتے تھے کیونکہ اپنے دئے گئے جوابات کو یاد نہیں رکھتے تھے اس لئے ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جوابات دئے جاتے تھے .اورشیعہ جب اپنے اماموں پر ان اختلافات کے بارے میں اشکال کرتےتھے تو توجیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے جوابات تقیۃً بیان ہوئے ہیں .اور ہم جو چاہیں اور جب چاہیں جواب دے سکتے ہیں  .کیونکہ یہ ہمارا حق ہے. اور ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز تمہارے مفاد میں ہے اور تمہاری بقا اور سالمیت کس چیز میں ہے .اور تمھارے دشمن کب تم سے دست بردار ہونگے .

سلیمان آگے بیان کرتا ہے : پس جب ایسا عقیدہ ایجاد ہوجائے تو کوئی بھی ان کے اماموں پر  جھوٹے ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا اور کبھی بھی ان کے حق اور باطل میں شناخت نہیں کرسکتا. اور انہی تناقض گوئی کی وجہ سے بعض شیعیان ابو جعفر امام باقر(ع) کی امامت کا انکار کرنے لگے(1)

--------------

(1):- ۱.    نوبختی؛  فرق الشیعہ ،  ص  ۸۵ ـ۸۷.

۱۹۲

پس معلوم ہوا کہ دونوں مبنی کے مطابق شیعوں کے اماموں کے علم پر یہ اشکال وارد ہے  .

جواب :

 امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے امامان معصوم تمام  احکام اور معارف الٰہی کے بارے میں کلی علم رکھتےہیں اس بات پر متقن دلیل بھی بیان کیا گیا ہے لیکن ممکن ہے وہ دلائل برادران اہل سنت کیلئے قابل قبول نہ ہو.

چنانچہ شیخ طوسی نے اپنی روایت کی کتاب تہذیب الاحکام  کو انہی اختلافات کی وضاحت اور جواب کے طور پر لکھی ہے

علامہ شعرانی اور علامہ قزوینی یہ دو شیعہ دانشورکا بھی یہی عقیدہ ہے کہ  شیعوں کے امام تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ تقیہ کرنے کا اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے تھے

علامہ شعرانی کہتے ہیں : آئمہ  تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ صرف  امر بہ معروف کیا کرتے تھے کیونکہ امامان تمام واقعیات سے باخبر تھے :  اذا شائوا  ان یعلموا علموا.کے مالک تھے  ہمارے لئے تو تقیہ کرنا صدق آتا ہے لیکن آئمہ کیلئے صدق نہیں آتا کیونکہ وہ لوگ تمام عالم اسرار سے واقف ہیں

علامہ قزوینی فرماتے ہیں :آئمہ تقیہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ عالم تھے اور تمام اوقات اور وفات کی کیفیت اور نوعیت سے باخبرتھے اس لئے ٖٖٖصرف ہمیں تقیہ کا حکم دیتے تھے(1)

اس  شبہ کا جواب

اولا: علم امام کے دوسرے مبنا پر یہ اشکال  ہے  نہ پہلے مبنا پر ، کیونکہ ممکن ہے جو پہلےمبنا  کا قائل ہے  وہ کہے  امام اپنی موت اور مرنے کے وقت اور کیفیت سے آگاہ نہیں تھے ، اس لئے جان کے خوف سے تقیہ کرتے تھے

--------------

(1):- .  مجلہ نور علم، ش ۵۰ ـ ۵۱، ص ۲۴ ـ ۲۵.

۱۹۳

ثانیاً : امام کا تقیہ کرنا اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ ممکن ہے اپنے اصحاب اور چاہنے والوں کی جان کے خوف سے ہوں ؛ یا اہل سنت کے ساتھ مدارات اور اتحاد کی خاطر تقیہ کئے ہوں. دوسرے لفظوں میں اگر کہیں کہ تقیہ کبھی بھی جان یا مال کے خوف کے ساتھ مختص نہیں ہے

ثالثاً: جو لوگ دوسرے مبنا کے قائل ہیں ممکن ہے کہہ دیں کہ امام اپنی موت کے وقت اور کیفیت کا علم رکھتے تھے اور ساتھ ہی جان کا خوف بھی کھاتے اور تقیہ کے ذریعے اپنی جان بچانا چاہتے تھے

ان دو شیعہ عالم دین پر جو اشکال وارد ہے یہ ہے ، کہ اگر آپ آئمہ کے تقیہ کا انکار کرتے ہیں تو ان تمام روایتوں کا کیا جواب دیں گے کہ جن میں خود آئمہ طاہرین  تقیہ کے بہت سے فضائل بیان فرماتے ہیں  اور ان روایتوں کا کیا کروگے جو امام کے تقیہ کرنے کو ثابت کرتی ہیں؟!

تقیہ اور عصمت

احکام اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں ایک عام دین دارشخص سے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی بات کو خدا اور رسول کی طرف نسبت دے دے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام تقیہ کرتے ہوئے ایک ناحق بات کو خدا کی طرف نسبت دے ؟!یہ حقیقت میں امام کے دین اور عصمت پر لعن کرنے کے مترادف ہے !(1)

جواب یہ ہے کہ اگر ہم تقیہ کی مشروعیت کو آیات کے ذریعے ثابت مانتے ہیں چنانچہ اہل سنت بھی اسے مانتے ہیں ، کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تقیہ کو حکم کلی قرار دیا ہے.

--------------

(1):- محسن امین، عاملی؛  نقض الوشیعہ ، ص ۱۷۹.

۱۹۴

ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ امام (ع) نے بہ عنوان حکم اولی اس بات کو خدا کی طرف نسبت دی ہے ؛ لیکن بعنوان حکم ثانوی کسی بات کو خدا کی طرف نسبت دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے .جیسے خود اللہ تعالیٰٰ نے قرآن مجید میں مجبور شخص کیلئے  مردار کھانے کوبحکم ثانوی ، جائز قرار دیا ہے

ثانیاً: شیعہ اپنے اماموں کوصرف راوی کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے بلکہ  انہیں خودشارعین میں سے مانتے ہیں .جو اپنے صلاح دید کے مطابق حکم جاری کرتےہیں .

 بجائےتقیہ؛ خاموشی کیوں اختیار نہیں کرتے؟

اشکال: تقیہ کے موقع پر امام بطور تقیہ جواب دینے کی بجائے خاموشی کیوں اختیار نہیں کرتے ؟!

جواب :

اولا: امام معصوم(ع) نےبعض موارد میں سکوت بھی اختیار کئے ہیں اور کبھی طفرہ بھی کئے ہیں اورکبھی  سوال اور جواب  کو جابجا بھی کئے ہیں .

ثانیا:سکوت خود تعریف تقیہ کے مطابق ایک قسم کاتقیہ ہے کہ جسے تقیہ کتمانیہ کہا گیاہے .

ثالثا: کبھی ممکن ہے کہ خاموش رہنا ، زیادہ  مسئلہ کو خراب کرے جیسے اگر سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس ہو تو اس کو گمراہ کرنے کیلئے تقیةً جواب دینا ہی  زیادہ فائدہ مند ہے(1)

رابعا: کبھی امام کے تقیہ کرنے کے علل اور اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے واقعیت کے خلاف اظہار کرنا ضروری ہوجاتا ہے جیسے اپنے چاہنے والوں کی جان بچانے کی خاطر اپنے عزیز کو دشمنوں کے درمیان چھوڑنا اور یہ صرف اور صرف واقعیت کے خلاف اظہار کرکے ہی ممکن ہے

--------------

(1):- فخر رازی؛ محصل افکار المتقدمین من الفلاسفہ والمتکلمین،ص ۱۸۲.

۱۹۵

.اور کبھی دوستوں کی جان بچانے کیلئے اہل سنت کے فتوی کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے چنانچہ امام موسیٰ کاظم(ع)نے علی ابن یقطین  کو اہل سنت کے طریقے سے وضو کرنے کا حکم دیا  گیا(1)

تقیہ کی بجائے توریہ کیوں نہیں کرتے ؟!

شبہ: امام(ع)موارد تقیہ  میں توریہ کرسکتے ہیں، تو توریہ کیوں نہیں کرتے ؟ تاکہ جھوٹ بولنے میں مرتکب نہ ہو(2)

اس شبہہ کا جواب:

اولاً:تقیہ کے  موارد میں توریہ کرنا خود ایک قسم کا تقیہ ہے

ثانیاً: ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر امام کیلئے ہر جگہ توریہ کرنے کا امکان ہوتا تو ایسا ضرور کرتے .

ثالثاً:بعض جگہوں پر امام کیلئے توریہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اظہار خلاف پر ناچار ہوجاتےہیں.

تقیہ اور دین کا  دفاع

شبہہ:اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ، اللہ تعالیٰٰ کے دین کی حفاظت کرنا ہے .اگر چہ اس راہ میں قسم قسم کی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑے .اور اہل بیت پیغمبر بالخصوص ان ذمہ داری کو نبھانے کیلئے زیادہ حقدار ہیں(3)

جواب:آئمہ طاہرین نے جب بھی اصل دین کیلئے کوئی خطر محسوس کیا اور اپنے تقیہ کرنے کو اسلام پر کوئی مشکل وقت آنے کا سبب پایا تو تقیہ کو ترک کرتے ہوئے دین کی حفاظت کرنے میں مصروف ہوگئے

--------------

(1):- ہمان ،  ص  ۱۹۳.

(2):- وسائل شیعہ، ج۱، ص  ۲۱۳.

(3):- ابوالقاسم، آلوسی؛ روح المعانی،ج۳، ص۱۴۴.

۱۹۶

.اور اس راہ میں اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا .جس کا بہترین نمونہ سالار شہیدان اباعبداللہ (ع) کا دین مبین اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کے علاوہ اپنے عزیزوں کی جانوں کا بھی نذرانہ دینے سے دریغ نہیں کیا لیکن کبھی ان کا تقیہ نہ کرنا اسلام پر ضرر پہنچنے ، مسلمانوں کا گروہوں میں بٹنے ، اسلام دشمن طاقتوں کے کامیاب ہونے  کا سبب بنتا تو ؛ وہ لوگ ضرور تقیہ کرتے تھے ..چنانچہ اگر علی(ع) رحلت پیغمبر (ص) کے بعد تقیہ نہ کرتے اور مسلحانہ جنگ کرنے پر اترآتے تو  اصل اسلام  خطرے میں پڑ جاتا اور جو ابھی ابھی مسلمان ہو چکے تھے ، دوبارہ کفر کی طرف پلٹ جاتے .کیونکہ امام کو اگرچہ ظاہری فتح حاصل ہوجاتی ؛ لیکن لوگ کہتے کہ انہوں نے پیغمبر کے جانے کے بعد ان کی امّت پر مسلحانہ حملہ کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا .

پس معلوم ہوا کہ آئمہ طاہرین  کا تقیہ کرنا ضرور بہ ضرور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر تھا.

تقیہ« سلونی قبل ان تفقدونی» کے منافی

امام علی(ع) فرماتے ہیں : مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان سے اٹھ جاؤں ، اور تم مجھے پانہ سکو

 اس روایت میں سوال کرنے کا حکم فرمارہے ہیں ، جس کا لازمہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ بطور  جواب فرمائیں گے  ، اسے قبول کرنا ہم پر واجب ہوگا؛ اور امام کا تقیہ کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ بعض سوال کا امام جواب نہیں دیں گے. 

جواب : یہ کلام امیر المومنین (ع) نے اس وقت فرمایا ، کہ جب آپ برسر حکومت تھے  ؛ جس وقت تقیہ کے  سارے علل و اسباب مفقود تھے .یعنی تقیہ کرنے کی ضرورت نہ تھی.اور جو بھی سوال آپ سے کیا جاتا  ،اس کا جواب تقیہ کے بغیر  کاملاً دئے جاسکتے تھے البتہ اس سنہرے موقع سے لوگوں نے استفادہ نہیں کیا .لیکن ہمارے دیگر آئمہ طاہرین کو اتنی کم مدت  کابھی موقع نہیں ملا. یہی وجہ ہے کہ بقیہ اماموں سے ایسا جملہ صادر نہیں ہوا اگرچہ شیعہ اور سنی سوال کرنے والوں  کو احکام بیان کرنے میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی .امام سجاد(ع)سے روایت  ہے کہ ہم پر لازم نہیں ہے کہ ہمارے شیعوں کے ہر سوال کا جواب دیدیں .اگر ہم چاہیں تو جواب دیں گے ، اور اگر نہ چاہیں تو گریز کریں گے(1)

--------------

(1):- وسائل الشیعہ، ج ۱۸، ص۴۳.

۱۹۷

تقیہ  اور  شجاعت

اس  شبہہ کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے سارے امام انسانیت کے اعلاترین کمال اور فضائل کے مرتبے پر فائز ہیں یعنی ہر کمال اور صفات بطور اتم ان میں پائے جاتے ہیں اور شجاعت بھی کمالات  انسانی میں سے ایک ہے . 

لیکن تقیہ اور واقعیت کے خلاف اظہار کرنا بہت سارے مواقع پر جانی خوف کی وجہ سے ہے

اس کے علاوہ اس سخن کا مضمون یہ ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰٰ نے ایسے رہنما اور امام بھیجے ہیں، جو اپنی جان کی خوف کی وجہ سے پوری زندگی حالت تقیہ میں گذاری(1)

جواب: اولاً شجاعت اور تہور میں فرق ہے شجاعت حد اعتدال اور درمیانی راہ  ہے لیکن تہور افراط  اور بزدلی ، تفریط ہے .اور شجاعت کا یہ معنی نہیں کہ بغیر کسی حساب کتاب کے اپنے کو خطرے میں ڈالدے بلکہ جب بھی کوئی زیادہ اہم مصلحت خطرے میں ہو تو اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں .

ثانیاً: ہمارے لئے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ تقیہ کے سارے موارد میں خوف اور ترس ہی علت تامہ ہو ، بلکہ اور بھی علل و اسباب پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے تقیہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں .جیسے اپنے ماننے والوں کی جان بچانے کی خاطر ، کبھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ محبت اور مودت ایجاد کرنے کی  خاطر تقیہ کرتے ہیں جن کا ترس اور خوف سےکوئی رابطہ نہیں ہے .

ثالثا ً: امام کا خوف اپنی جان کی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ دین مقدس اسلام کے مصالح اور مفاد کے مد نظرامام خائف ہیں ، کہ ایسا نہ ہو ، دین کی مصلحتوں کو کوئی ٹھیس پہنچے .جیسا کہ امام حسین (ع) نے ایسا ہی کیا .

اب اس اشکال یا بہتان کا جواب کہ  آئمہ طاہرین نے اپنی آخری عمر تک تقیہ کیا ہے ؛ یہ ہے:

--------------

(1):- کمال جوادی؛ ایرادات و شبہات علیہ شیعیان در ہند و پاکستان.

۱۹۸

اولا ً : یہ بالکل بیہودہ بات   ہے اور تاریخ کے حقائق سے بہت دور ہے .کیونکہ ہم آئمہ طاہرین کی زندگی میں دیکھتےہیں کہ بہت سارے موارد میں انہوں نے  ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بہادرانہ طور پر جنگ و جہاد کئے ہیں چنانچہ امام موسیٰ کاظم (ع)نے اس وقت ، کہ جب ہارون نے چاہا کہ باغ فدک آپ کو واپس کریں ،  ہارون الرشید کے کارندوں کے سامنے برملا عباسی حکومت کے نامشروع اور ناجائز ہونے کا اعلان فرمایا ، اور مملکت اسلامی کے حدود کو مشخص کیا .

ثانیا ً : ہدایت بشر ی صرف معارف اسلامی کا برملا بیان کرنے پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ بعض اہم اور مؤثر افراد تک اپنی بات کو منتقل کرنا بھی کافی اور باعث بنتا تھا کہ سارے لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ جائیں.

تقیہ اور تحلیل حرام و تحریم حلال

شبہہ یہ ہے کہ اگر اس بات کو قبول کرلے کہ امام بعض فقہی مسائل کا جواب بطو رتقیہ دیں گے تو  مسلماً ایسے موارد میں حکم واقعی  (حرمت) کی بجائے (حلیت ) کا حکم لگے گا اور یہ سبب بنے گا شریعت میں تحلیل حرام  اور تحریم حلال کا، یعنی حرام حلال میں بدل جائے گا اورحلال حرام میں(1)

اس شبہہ کا جواب  یہ ہے کہ شیعوں کے نزدیک تقیہ سے مراد ؛اضطراری حالات میں بعنوان حکم ثانوی ،آیات اور روایات معصوم کی پیروی کرنا ہے .

تقیہ کا حکم بھی دوسرے احکام جیسے  اضطرار، اکراہ ، رفع  ضرر اور  حرج کی طرح ہے ، کہ ایک معین وقت کیلئے حکم اولی کو تعطیل  کرکے اس کی جگہ   تقیہ والا حکم لگایا جاتا ہے .اور ان جیسے احکام ثانوی فقہ اہلسنت  میں بھی ہر جگہ موجود ہے .

تقیہ ا یک حکم اختصاصی  ہے  یا عمومی؟

--------------

(1):- احسان الہی ظہیر؛ السنّہ والشیعہ، ص ۱۳۶.

۱۹۹

اس حصے میں درج ذیل مسائل کی بررسی کرنے کی ضرورت ہے :

1.  قانون تقیہ پر اعتقاد رکھنا کیا صرف شیعہ امامیہ کے ساتھ مختص ہے یا دوسرے مکاتب فکر بھی اس کے قائل ہیں ؟اور اسے ایک الہی قانون کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں ؟!

2.  کیا تقیہ کوئی ایسا حکم ہے جو ہرجگہ اور ہرحال میں جائز ہے یا اس کے لئے بھی خاص زمان یا مکان اور دیگر اسباب کا خیال رکھنا واجب ہے ؟

3.  کیا حکم تقیہ ،متعلّق کے اعتبار سے  عام ہے یا نہیں ؟ بطوری کہ سارےلوگ  ایک خاص شرائط میں اس پر عمل کرسکتے ہیں ؟  یا بعض لوگ بطور استثنا ہر عام و خاص شرائط کے بغیر  بھی تقیہ کرسکتے ہیں ؟جیسے : پیغمبر و امام(ع)؟

جواب: دو احتمال ہیں :

۱ـ تقیہ یک حکم ثانوی عام  ہے کہ سارے لوگ جس سے استفادہ کرسکتے ہیں .

۲ـ پیغمبران تقیہ سے مستثنی ہیں کیونکہ عقلی طور پر مانع موجود  ہے شیخ طوسی اور اکثر مسلمانوں نے دوسرے  احتمال  کو قبول کئے ہیں کہ پیغمبر کیلئے  تقیہ جائز نہیں ہے .کیونکہ اس کی شناخت اور علم اور رسائی صرف اور صرف  پیغمبر  کے پاس ہے 

اور صرف  پیغمبر  اور ان کے فرامین کے ذریعے شریعت کی شناخت اور علم ممکن ہے .پس جب پیغمبر  کیلئے تقیہ جائز ہو جائے تو ہمیں کوئی اور راستہ باقی نہیں رہتا جس کے ذریعے اپنی تکلیف اور شرعی وظیفہ کو پہچان لیں اور اس پر عمل کریں(1) اسی لئے فرماتے ہیں :فلا یجوز علی الانبیاء قبائح و لا التقیة فی اخبارهم لا نّه یؤدی الی التشکیک (2)

--------------

(1):- محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی،ص ۳۲۸.

(2):- التبیان ، ج۷ ، ص  ۲۵۹. 

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255