شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات0%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 255
مشاہدے: 208175
ڈاؤنلوڈ: 5936

تبصرے:

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208175 / ڈاؤنلوڈ: 5936
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شیخ طوسی کا جواب

تقیہ جھوٹ نہیں ہے  کیونکہ  ، الکذب ضد الصدق و ہو الاخبار عن الشیء لا علی ما ہو بہ. یعنی جھوٹ  سچائی کی ضد ہے اور جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی خبر دے، جس کی کوئی حقیقت  نہ ہو .

پس جھوٹ کا دو رکن ہے :

الف: کسی واقعے کے بارے میں خبر دینا .

ب: اس خبر کا واقعیت کے مطابق نہ ہونا.

جبکہ تقیہ کے تین رکن ہیں :

الف:حق بات کا چھپانا.

 ب: مخالفین کے ساتھ موافقت کا اظہار کرنا .

 ج: اور یہ دونوں رکن اس لئے ہو کہ دشمن کے شر سے اپنی جان یا مال کو حفاظت کرے .

 لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ  اخباری ہے اور تقیہ دشمن کو برحق ظاہر کرنا ہے .دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھا ہے وہ بھی حق ہو، جبکہ تقیہ میں یہ شرط ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھا ہے وہ حق ہو .

اگر کسی نے اشکال کیا  کہ جھوٹ تقیہ سے اعم ہے .تو ہم جواب دیں گے کہ بالفرض تقیہ کرنے والا خبر دینے کی نیت کرے     بلکہ تعریض کی نیت کرے(1)

--------------

(1):- .   ہمان ،  ص  ۲۸۰.  

۱۸۱

تقیہ یعنی منافقت!

ممکن ہے کوئی یہ  ادعا کرے کہ جو مکر اورفریب منافق لوگ کرتے ہیں ، تقیہ  بھی اسی کی ایک قسم ہے. کیونکہ منافق دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے زبان پر ایسی چیزکا اظہار کرتے ہیں جس کے برخلاف دل میں چھپا رکھا ہو .

شیخ طوسی اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتےہیں کہ مخادع  اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دل میں موجود بات کے برخلاف زبان پر اظہار کرے  تاکہ جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اس سے وہ محفوظ رہے .اسی لئے منافق کو مخادع کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زبان کے ذریعے اسلام  کاکلمہ پڑھ کر کفر کے حکم لگنے سے فرار کرکے اپنی جان بچاتا ہے اگر چہ منافق مؤمن کو ظاہراً زبان کے ذریعے دھوکہ دیتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے .

یہ  درست ہے کہ تقیہ میں بھی باطن کے خلاف بات کا اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جان بچاتا ہے ؛ لیکن یہ دونوں ( تقیہ اور نفاق) اصولاًباہم مختلف اور متفاوت ہے .اور دونوں قابل جمع بھی نہیں.

امام صادق(ع) اس مختصر حدیث میں  مؤمن ہونے کا دعوا کرنے اور ایسے موارد میں تقیہ کے دامن پکڑنے والوں کو شدید طور پر ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:و ایّم اﷲ لو دعیتم لتنصرونا لقلتم لا نفعل انّما نتقی و لکانت التقیه احبّ الیکم من آبائکم و امّهاتکم ، ولو قد قام القائم ما احتاج الی مسائلکم عن ذالک و لا قام فی کثیر منکم حدّ النفاق .(1)

یعنی خدا کی قسم ! اگر تمہیں ہماری مدد کیلئے بلائے جائیں تو  کہہ دینگے ہر گز انجام نہیں دیں گے،کیونکہ ہم تقیہ کی حالت میں ہیں  .تمہارے والدین کا تقیہ کرنا تمہارے نزدیک  زیادہ محبوب ہے ، اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور ہماری حکومت تشکیل دے گا ، تو خدا کی قسم بغیر سوال کئے ، منافقین کو سزا دینا شروع کریگا جنہوں نے تمہارا حق مارا ہے

--------------

(1):- .      وسائل الشیعہ، ج ۲ ، باب ۲۵.

۱۸۲

یہ حدیث بتا تی ہے کہ امام(ع)  اپنے بعض نادان دوست کے بے موقع تقیہ کرنے کی وجہ سے غم و غصہ کا اظہار فرما تے ہوئے نفاق اور تقیہ کے درمیان حد فاصل کو واضح فرمارہے ہیں .

اپنے مقدس اہداف کی ترقی کی خاطر پردہ پوشی کرنے اور چھپانے کا نام تقیہ ہے اور جائز ہے .اجتماعی اور الٰہی اہداف کی حفاظت کی خاطر اپنا ذاتی اہداف کو فدا کرنے کا نام تقیہ ہے .اس کے برخلاف اگر کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی اور قومی مفاد کو قربان کرے تو وہ منافق کہلائے گا.

ایک اور حدیث میں امام (ع)سے منقول ہے :جب بھی انسان ایمان کا اظہار کرے ،لیکن بعد میں عملی میدان میں اس کے برخلاف عمل کرے تو وہ مؤمن  کی صفات سے خارج ہے  اور اگراظہار خلاف ایسے موارد میں کیا جائے جہاں تقیہ جائز نہیں  ہے تو اس کا عذر قابل قبول نہیں ہے: لانّ للتقیه مواضع من ازالها  عن مواضعها لم تستقم له (1)

کیونکہ تقیہ کے بھی کچھ حدود ہیں جو بھی اس سے باہر قدم رکھے تو وہ معذور نہیں ہوگا .اور حدیث کے آکر میں فرمایا : تقیہ وہاں جایز ہے جہاں دین اور ایمان میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو .

کمیت شاعر کہ جو مجاہدوں کی صف میں شمار ہوتا ہے کہ اپنے ذوق شاعری سے استفادہ کرتے ہوئے بنی عباس کے دور خلافت میں اس طاغوتی نظام کے خلاف قیام کیا اور  مکتب اہل بیتکی حمایت کی ایک دن امام موسیٰ ابن جعفر(ع) کی خدمت میں پہنچا ، دیکھا کہ  امام کا چہرہ بگڑا ہواہے .

--------------

(1):- .      ہمان ، ج ۶ ، باب ۲۵.

۱۸۳

 جب وجہ پوچھی   توشدید اور اعتراض آمیز لہجے میں  فرمایا :کیا تونے بنی امیہ کے بارے میں یہ شعرپڑھا ہے ؟!

فالان صرت ا لی امّة    و الامم  لها الی مصائر

یعنی ابھی تو میں خاندان  بنی امیہ کی طرف  متوجہ ہوا ہوں اور ان کا کام میری طرف متوجہ ہورہا ہے

کمیت کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: مولا !اس شعر کو میں نے پڑھا ہے لیکن خدا کی قسم میں اپنے ایمان پر باقی ہوں اور آپ خاندان اہل بیت سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کے دوستداروں سے بھی محبت رکھتا ہوں اور اسی  لئےآپ کے دشمنوں سے بیزار ہوں؛ لیکن اسے میں نے تقیۃً  پڑھا ہے

امام(ع) نے فرمایا:اگر ایسا ہو تو تقیہ ہر خلاف  کاروں کیلئے قانونی اور شرعی مجوز ملے گا .اور شراب خوری بھی تقیہ کے تحت جائز ہوجائے گا .اور بنی عباس کی حکومت کا دفاع کرنا بھی جائز ہوجائے گا. اس قسم کے تقیہ سے تملّق ،چاپلوسی اور ظالموں کی ثنا خوانی کا بازار گرم اور پر رونق ہوجائے گا.اور نفاق ومنافقت بھی رائج ہوجائے گا(1)

تقیہ،  جہادکے متنافی

اشکال  یہ ہے : اگر تقیہ کے قائل ہوجائیں تو اسلام میں جہاد کا نظریہ ختم ہونا چاہئے جبکہ اس جہاد کی خاطر مسلمانوں کی جان و مال ضائع ہوجاتی ہیں(2)

--------------

(1):- مکارم شیرازی؛ تقیہ سپری عمیقتر، ص ۷۰.   

(2):- قفاری ؛ اصول مذہب الشیعہ، ج۲، ص ۸۰۷.

۱۸۴

جواب: اسلامی احکام جب بھی جانی یا مالی ضرر اور نقصان سے دوچار اور روبرو ہوجاتا ہے تو دو قسم میں تقسیم ہوجاتا ہے :

1.  وہ احکامات جن کا اجراء کرنا  کسی جانی ضرر یا نقصان  سے دوچار نہیں ہوتا ، جیسے نماز کا واجب ہونا ، جس میں نہ مالی ضرر ہے اور نہ جانی ضرر .

2.  وہ احکامات جن کا اجرا کرنا ، جانی یا مالی طورپر ضرر یا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جیسے زکوۃ  اور خمس  کا ادا  کرنا ، راہ خدا میں جہاد کرنا وغیرہ .

تقیہ کا حکم صرف پہلی قسم سے مربوط ہے کہ بعض موارد میں ان احکام کو بطور حکم ثانوی اٹھایا جاتا ہے .لیکن دوسری قسم سے تقیہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے .اور جہاد کا حکم بھی دوسری قسم میں سے ہے ، کہ جب بھی شرائط محقق ہوجائے تو جہاد  بھی واجب ہوجاتا ہے .اگرچہ بہت زیادہ جانی یامالی نقصان بھی کیوں نہ اٹھانی پڑے.

تقیہ اور آیات تبلیغ کے درمیان  تعارض

آلوسی کہتا ہے کہ تقیہ ان دو آیات کے ساتھ تعارض پیدا کرتا ہے کہ جن میں پیغمبر اکرم (ص) کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے(1)

۱. يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ (2)

--------------

(1):-   ابوالفضل آلوسی؛ روح المعانی،ج ۳، ص ۱۲۵.

(2):- مائدہ۶۷.

۱۸۵

 اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے.

اس آیہ مبارکہ  میں اپنے حبیب کو تبلیغ کا حکم دے رہا ہے اگر چہ خوف  اور ڈر ہی کیوں نہ ہو.

۲. الَّذِینَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ الل ه وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا الل ه وَكَفَی بِالل ه حَسِیبًا (1) یعنی وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ،اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے  .

اس آیہ شریفہ میں خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ایک بہترین صفت قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے .

اسی طرح اللہ  تعالیٰ کے احکامات کو چھپانے کی مذمت میں بھی آیات نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ فرمایا:إِنَّ الَّذِینَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ الل ه مِنَ الْكِتَابِ وَ يَشْترَُونَ بِهِ ثمََنًا قَلِیلاً  أُوْلَئكَ مَا يَأْکلُُونَ فىِ بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ الل ه يَوْمَ الْقِيَمَةِ وَ لَا يُزَكِّیهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ. (2)

جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے  .

--------------

(1):- احزاب ۳۹.

(2):- بقرہ ۱۷۴.

۱۸۶

اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے یہاں تقیہ بے مورد ہے .

 لیکن اگر تقیہ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے مثال کے طور پر ایک  کم اہمیت والا فقہی فتویٰ دے کر کسی فقیہ  یا عالم دین کی جان پچانا.

تقیہ اور ذ لّت مؤمن

اشکال :وہابی لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے خداتعالیٰ نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے.(1)

جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں کہ اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروی کار لایا جائے تو موجب ذلت نہیں ہوسکتا کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کی خاطر حق بات کرنے سے  سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ  ذلت کا سبب  ہے اور نہ مذمت کاباعث

چنانچہ عمار ابن یاسر نے ایسا کیا تو قرآن  کریم نے بھی اس کی مدح سرائی  شروع کی .

--------------

(1):- .      موسی موسوی؛ الشیعہ و التصحیح ، ص ۶۷.

۱۸۷

تقیہ ،ما نع امر بہ معروف

اشکال یہ ہے کہ تقیہ انسان کو امربہ معروف اور نہی از منکر کرنے سے روکتی ہے کبھی جان کا خوف دلا کر تو کبھی مال یا مقام کا .جب کہ یہ دونوں (امر اور نہی ) واجبات اسلام میں سے ہے .اس مطلب کی تائید میں فرمایا : افضل الجہاد کلمة حق عند سلطان جائر. ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا  بہترین جہاد  ہے .

اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

۱ـ امر بہ معروف و نہی از منکر بہ صورت مطلق جائز  نہیں بلکہ اس کیلئے بھی کچھ شرائط و معیارہے  کہ اگر یہ  شرائط اور معیار موجود ہوں تو  واجب ہے ..ورنہ  اس کا واجب ہونا ساقط ہوجائے گا .

من  جملہ شرائط امر بہ معروف و نہی از منکر  میں سے یہ ہیں :انکار کرنے میں کوئی ایسا مفسدہ موجود نہ ہو جو اس سے بھی کسی بڑے  جرم ،جیسے قتل و غارت میں مبتلا ہو جائے ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرنا جائز نہیں ہے

۲ـ  وہ روایات جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا اظہار کرنے کو ممدوح قرار دیتی ہیں ، وہ خبر واحد ہیں جو ادلہ عقلی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی یعنی تعارض کے موقع پر دلیل عقلی مقدم ہو گا ،اس سے  دفع ضرر اور حفظ جان مراد ہے(1)

تقیہ امام معصوم(ع)سےمربوط شبہات

اشکال کرنے والا اس مرحلے میں تقیہ کے شرعی جواز کو فی الجملہ قبول کرتا ہے ، کہ بعض موارد میں مؤمنین کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے لیکن دینی رہنماؤں جیسے امام معصوم(ع) کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اگر دین کے رہنما تقیہ کرے تو درج ذیل اشکالات وارد ہوسکتے ہیں :

--------------

(1):- .      دکتر محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی، ص ۲۸۹.

۱۸۸

 تقیہ اور امام(ع) کا بیان شریعت

شیعہ عقیدے کے مطابق امام معصوم کے وجود مبارک کوشریعت اسلام کے بیان کیلئے  خلق کیا گیا ہے لیکن اگر یہ حضرات تقیہ کرنے لگے تو بہت سارے احکام رہ جائیں گےاور مسلمانوں تک نہیں پہنچ پائیں گے. اور ان کی بعثت کا فلسفہ  بھی ناقص ہو گا. اسی سلسلے میں اہل سنت کے ایک عالم نے اشکال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے علی(ع) کو  اظہار حق کی خاطر منصوب کیا ہے تو تقیہ کیا معنی  رکھتا  ہے ؟!

اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ امامان معصوم نے بہترین انداز میں اپنے وظیفے پر عمل کئے ہیں لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں نے  ان کے فرامین کو قبول نہیں کیا .

. چنانچہ حضرت علی(ع) کے بارے میں منقول ہے آپ ۲۵ سال خانہ نشین ہوئے تو قرآں مجید کی جمع آوری ، آیات کی شان نزول ، معارف اسلامی کی توضیح اور تشریح کرنے میں مصروف ہوگئے اور ان مطالب کو اونٹوں پر لاد کر مسجد میں مسلمانوں کے درمیان لے گئے تاکہ ان معارف سے لوگ استفادہ کریں  ؛ لیکن خلیفہ وقت نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا .(1)

جب امام نے یہ حالت دیکھی تو خاص شاگردوں کی تربیت اور ان کو اسلامی احکامات اور دوسرے معارف کا تعلیم دیتے ہوئے اپنا شرعی وظیفہ انجام دینے لگے ؛ لیکن یہ ہماری کوتاہی تھی کہ ہم نے ان کے فرامین کو پس پشت ڈالا اور اس پر عمل نہیں کیا .

امام کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں:

1.  معتزلہ والے کہتے ہیں کہ امام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ امام کا قول ، پیغمبر اسلام(ص) کے قول کی طرح حجت ہے .

2.  امامیہ  والے کہتے ہیں کہ اگر تقیہ کے واجب ہونے کے اسباب نہ ہو،کوئی اور مانع بھی موجود نہ ہو تو امام تقیہ کرسکتے ہیں شیخ طوسی کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام تقیہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ شرائط موجود ہو .

--------------

(1):- .      محمد باقر حجتی؛ تاریخ قرآن کریم، ص ۳۸۷.

۱۸۹

امام کیلئے تقیہ جائز ہونے کے  شرائط

     شرعی وظیفوں  پر عمل پیرا ہونا اور احکام کی معرفت حاصل کرنا اگر فقط امام پر منحصر نہ ہو جیسے امام کا منصوص ہونا فقط امام کے قول پر منحصر نہیں ہے بلکہ قول پیغمبر (ص) اور عقل سلیم کے ذریعے سے بھی مکلف جان سکتا ہے تو  ایسی صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں

      اس صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں کہ آپ کا تقیہ کرنا حق تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ بنے اورساتھ ہی شرائط بھی پوری ہو.

     جن موارد میں امام تقیہ کررہے ہیں وہاں ہمارے پاس واضح دلیل موجود ہوکہ معلوم ہوجائے کہ امام حالت تقیہ میں حکم دے رہے ہیں .

اس بنا پر اگر احکام کی معرفت امام میں منحصر نہ ہو ، یا امام کا تقیہ کرنا حق تک جانے میں رکاوٹ نہ ہو اور کوئی ایسی ٹھوس دلیل بھی نہ ہو جو امام کا تقیہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتی ہو اور ساتھ ہی اگر معلوم ہو کہ امام حالت تقیہ میں ہو تو کوئی حرج نہیں کہ  امام تقیہ کرسکتے ہیں(1)

 تقیہ، فرمان امام(ع) پر عدم اعتماد کاباعث

شیعہ مخالف لوگوں کا کہنا ہے  کہ اگر ہمارے آئمہ معصومینوسیع پیمانے پر تقیہ لگے تو یہ احتمال ساری روایات جو ان حضرات سے ہم تک پہنچی ہیں ،میں پائی جاتی ہے کہ ہر روایت تقیہ کرکے بیان کئے  ہوں .اس صورت میں کسی ایک روایت پر بھی ہم عمل نہیں کرسکتے .کیونکہ کوئی بھی روایت قابل اعتماد نہیں ہوسکتی. اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمارے آئمہ معصومین کا تقیہ کرنا کسی قواعد و ضوابط کےبغیر ہو تو یہ اشکال وارد ہے .

--------------

(1):- .      محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی، ص۳۳۳.

۱۹۰

لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرنے کیلئے خواہ وہ تقیہ کرنے والا امام ہو یا عوام ہو یا خواص ہو ، خاص شرائط ہیں اگر وہ شرائط نہ ہو تو تقیہ کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے .اور جب اماموں کے تقیہ کے علل و اسباب اگر ان کو معلوم ہوجائے تو یہ اشکال بھی باقی نہیں رہے گا .

تقیہ اور علم امام  (ع)

علم امام کے بارے میں شیعہ متکلمین کےدرمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں :اور یہ اختلاف بھی روایات میں  اختلاف  ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں .

پہلا نظریہ : قدیم شیعہ متکلمین جیسے ، سید مرتضی وغیرہ معتقد ہیں کہ امام تمام احکامات اور معارف اسلامی کا علم رکھتےہیں لیکن مختلف حادثات اور بعض واقعات جیسے اپنی رحلت  کب ہوگی؟ یا دوسروں کی موت کب واقع ہوگی ؟و...بصورت موجبہ جزئیہ ہے نہ موجبہ کلیہ .

دوسرا نظریہ : علم امام(ع) دونوں صورتوں میں یعنی تمام احکامات دین اور اتفاقی حادثات کے بارے میں بصورت موجبہ کلیہ علم رکھتے ہیں(1)

بہ ہر حال دونوں نظریہ کا اس بات پر اتفاق ہے  کہ علم امام(ع)احکام اور معارف اسلامی کے بارے میں  بصورت موجبہ ہے .  وہ شبہات جو تقیہ اور علم امام سے مربوط ہے وہ بعض کے نزدیک دونوں مبنا میں ممکن ہے  اور بعض کے نزدیک صرف دوسرے مبنی میں ممکن ہے

پہلا اشکال: تقیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ  آئمہ تمام فقہی احکام اور اسلامی معارف کا علم نہیں رکھتے ہیں اور اس کی توجیہ کرنےاور روایات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کیلئے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں.

--------------

(1):- .      کلینی ؛ اصول کافی، ج۱ ، ص ۳۷۶

۱۹۱

اس اشکال کو سلیمان ابن جریر زیدی نے مطرح کیا ہے ،جوعصر آئمہمیں زندگی کرتا تھا .وہ کہتا ہے کہ رافضیوں کے امام نے اپنے پیروکاروں کیلئے دو عقیدہ بیان کئے ہیں جس کی موجودگی میں کوئی بھی مخالف ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نہیں جیت سکتا.

پہلا عقیدہ  بداء ہے .

دوسرا عقیدہ تقیہ ہے.

شیعیان اپنے  اماموں سے  مختلف مواقع پر سوال کرتے تھے اور وہ جواب دیاکرتے تھے اور شیعہ لوگ ان روایات اور احادیث کو یاد رکھتے  اور لکھتے تھے ،لیکن ان کے امام ، چونکہ کئی کئی مہینے  یا سال گذرجاتے لیکن ان سے مسئلہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ؛ جس کی وجہ سے وہ پہلے دئے ہوئے جوابات بھی بھول جاتے تھے کیونکہ اپنے دئے گئے جوابات کو یاد نہیں رکھتے تھے اس لئے ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جوابات دئے جاتے تھے .اورشیعہ جب اپنے اماموں پر ان اختلافات کے بارے میں اشکال کرتےتھے تو توجیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے جوابات تقیۃً بیان ہوئے ہیں .اور ہم جو چاہیں اور جب چاہیں جواب دے سکتے ہیں  .کیونکہ یہ ہمارا حق ہے. اور ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز تمہارے مفاد میں ہے اور تمہاری بقا اور سالمیت کس چیز میں ہے .اور تمھارے دشمن کب تم سے دست بردار ہونگے .

سلیمان آگے بیان کرتا ہے : پس جب ایسا عقیدہ ایجاد ہوجائے تو کوئی بھی ان کے اماموں پر  جھوٹے ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا اور کبھی بھی ان کے حق اور باطل میں شناخت نہیں کرسکتا. اور انہی تناقض گوئی کی وجہ سے بعض شیعیان ابو جعفر امام باقر(ع) کی امامت کا انکار کرنے لگے(1)

--------------

(1):- ۱.    نوبختی؛  فرق الشیعہ ،  ص  ۸۵ ـ۸۷.

۱۹۲

پس معلوم ہوا کہ دونوں مبنی کے مطابق شیعوں کے اماموں کے علم پر یہ اشکال وارد ہے  .

جواب :

 امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے امامان معصوم تمام  احکام اور معارف الٰہی کے بارے میں کلی علم رکھتےہیں اس بات پر متقن دلیل بھی بیان کیا گیا ہے لیکن ممکن ہے وہ دلائل برادران اہل سنت کیلئے قابل قبول نہ ہو.

چنانچہ شیخ طوسی نے اپنی روایت کی کتاب تہذیب الاحکام  کو انہی اختلافات کی وضاحت اور جواب کے طور پر لکھی ہے

علامہ شعرانی اور علامہ قزوینی یہ دو شیعہ دانشورکا بھی یہی عقیدہ ہے کہ  شیعوں کے امام تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ تقیہ کرنے کا اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے تھے

علامہ شعرانی کہتے ہیں : آئمہ  تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ صرف  امر بہ معروف کیا کرتے تھے کیونکہ امامان تمام واقعیات سے باخبر تھے :  اذا شائوا  ان یعلموا علموا.کے مالک تھے  ہمارے لئے تو تقیہ کرنا صدق آتا ہے لیکن آئمہ کیلئے صدق نہیں آتا کیونکہ وہ لوگ تمام عالم اسرار سے واقف ہیں

علامہ قزوینی فرماتے ہیں :آئمہ تقیہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ عالم تھے اور تمام اوقات اور وفات کی کیفیت اور نوعیت سے باخبرتھے اس لئے ٖٖٖصرف ہمیں تقیہ کا حکم دیتے تھے(1)

اس  شبہ کا جواب

اولا: علم امام کے دوسرے مبنا پر یہ اشکال  ہے  نہ پہلے مبنا پر ، کیونکہ ممکن ہے جو پہلےمبنا  کا قائل ہے  وہ کہے  امام اپنی موت اور مرنے کے وقت اور کیفیت سے آگاہ نہیں تھے ، اس لئے جان کے خوف سے تقیہ کرتے تھے

--------------

(1):- .  مجلہ نور علم، ش ۵۰ ـ ۵۱، ص ۲۴ ـ ۲۵.

۱۹۳

ثانیاً : امام کا تقیہ کرنا اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ ممکن ہے اپنے اصحاب اور چاہنے والوں کی جان کے خوف سے ہوں ؛ یا اہل سنت کے ساتھ مدارات اور اتحاد کی خاطر تقیہ کئے ہوں. دوسرے لفظوں میں اگر کہیں کہ تقیہ کبھی بھی جان یا مال کے خوف کے ساتھ مختص نہیں ہے

ثالثاً: جو لوگ دوسرے مبنا کے قائل ہیں ممکن ہے کہہ دیں کہ امام اپنی موت کے وقت اور کیفیت کا علم رکھتے تھے اور ساتھ ہی جان کا خوف بھی کھاتے اور تقیہ کے ذریعے اپنی جان بچانا چاہتے تھے

ان دو شیعہ عالم دین پر جو اشکال وارد ہے یہ ہے ، کہ اگر آپ آئمہ کے تقیہ کا انکار کرتے ہیں تو ان تمام روایتوں کا کیا جواب دیں گے کہ جن میں خود آئمہ طاہرین  تقیہ کے بہت سے فضائل بیان فرماتے ہیں  اور ان روایتوں کا کیا کروگے جو امام کے تقیہ کرنے کو ثابت کرتی ہیں؟!

تقیہ اور عصمت

احکام اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں ایک عام دین دارشخص سے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی بات کو خدا اور رسول کی طرف نسبت دے دے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام تقیہ کرتے ہوئے ایک ناحق بات کو خدا کی طرف نسبت دے ؟!یہ حقیقت میں امام کے دین اور عصمت پر لعن کرنے کے مترادف ہے !(1)

جواب یہ ہے کہ اگر ہم تقیہ کی مشروعیت کو آیات کے ذریعے ثابت مانتے ہیں چنانچہ اہل سنت بھی اسے مانتے ہیں ، کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تقیہ کو حکم کلی قرار دیا ہے.

--------------

(1):- محسن امین، عاملی؛  نقض الوشیعہ ، ص ۱۷۹.

۱۹۴

ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ امام (ع) نے بہ عنوان حکم اولی اس بات کو خدا کی طرف نسبت دی ہے ؛ لیکن بعنوان حکم ثانوی کسی بات کو خدا کی طرف نسبت دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے .جیسے خود اللہ تعالیٰٰ نے قرآن مجید میں مجبور شخص کیلئے  مردار کھانے کوبحکم ثانوی ، جائز قرار دیا ہے

ثانیاً: شیعہ اپنے اماموں کوصرف راوی کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے بلکہ  انہیں خودشارعین میں سے مانتے ہیں .جو اپنے صلاح دید کے مطابق حکم جاری کرتےہیں .

 بجائےتقیہ؛ خاموشی کیوں اختیار نہیں کرتے؟

اشکال: تقیہ کے موقع پر امام بطور تقیہ جواب دینے کی بجائے خاموشی کیوں اختیار نہیں کرتے ؟!

جواب :

اولا: امام معصوم(ع) نےبعض موارد میں سکوت بھی اختیار کئے ہیں اور کبھی طفرہ بھی کئے ہیں اورکبھی  سوال اور جواب  کو جابجا بھی کئے ہیں .

ثانیا:سکوت خود تعریف تقیہ کے مطابق ایک قسم کاتقیہ ہے کہ جسے تقیہ کتمانیہ کہا گیاہے .

ثالثا: کبھی ممکن ہے کہ خاموش رہنا ، زیادہ  مسئلہ کو خراب کرے جیسے اگر سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس ہو تو اس کو گمراہ کرنے کیلئے تقیةً جواب دینا ہی  زیادہ فائدہ مند ہے(1)

رابعا: کبھی امام کے تقیہ کرنے کے علل اور اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے واقعیت کے خلاف اظہار کرنا ضروری ہوجاتا ہے جیسے اپنے چاہنے والوں کی جان بچانے کی خاطر اپنے عزیز کو دشمنوں کے درمیان چھوڑنا اور یہ صرف اور صرف واقعیت کے خلاف اظہار کرکے ہی ممکن ہے

--------------

(1):- فخر رازی؛ محصل افکار المتقدمین من الفلاسفہ والمتکلمین،ص ۱۸۲.

۱۹۵

.اور کبھی دوستوں کی جان بچانے کیلئے اہل سنت کے فتوی کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے چنانچہ امام موسیٰ کاظم(ع)نے علی ابن یقطین  کو اہل سنت کے طریقے سے وضو کرنے کا حکم دیا  گیا(1)

تقیہ کی بجائے توریہ کیوں نہیں کرتے ؟!

شبہ: امام(ع)موارد تقیہ  میں توریہ کرسکتے ہیں، تو توریہ کیوں نہیں کرتے ؟ تاکہ جھوٹ بولنے میں مرتکب نہ ہو(2)

اس شبہہ کا جواب:

اولاً:تقیہ کے  موارد میں توریہ کرنا خود ایک قسم کا تقیہ ہے

ثانیاً: ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر امام کیلئے ہر جگہ توریہ کرنے کا امکان ہوتا تو ایسا ضرور کرتے .

ثالثاً:بعض جگہوں پر امام کیلئے توریہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اظہار خلاف پر ناچار ہوجاتےہیں.

تقیہ اور دین کا  دفاع

شبہہ:اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ، اللہ تعالیٰٰ کے دین کی حفاظت کرنا ہے .اگر چہ اس راہ میں قسم قسم کی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑے .اور اہل بیت پیغمبر بالخصوص ان ذمہ داری کو نبھانے کیلئے زیادہ حقدار ہیں(3)

جواب:آئمہ طاہرین نے جب بھی اصل دین کیلئے کوئی خطر محسوس کیا اور اپنے تقیہ کرنے کو اسلام پر کوئی مشکل وقت آنے کا سبب پایا تو تقیہ کو ترک کرتے ہوئے دین کی حفاظت کرنے میں مصروف ہوگئے

--------------

(1):- ہمان ،  ص  ۱۹۳.

(2):- وسائل شیعہ، ج۱، ص  ۲۱۳.

(3):- ابوالقاسم، آلوسی؛ روح المعانی،ج۳، ص۱۴۴.

۱۹۶

.اور اس راہ میں اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا .جس کا بہترین نمونہ سالار شہیدان اباعبداللہ (ع) کا دین مبین اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کے علاوہ اپنے عزیزوں کی جانوں کا بھی نذرانہ دینے سے دریغ نہیں کیا لیکن کبھی ان کا تقیہ نہ کرنا اسلام پر ضرر پہنچنے ، مسلمانوں کا گروہوں میں بٹنے ، اسلام دشمن طاقتوں کے کامیاب ہونے  کا سبب بنتا تو ؛ وہ لوگ ضرور تقیہ کرتے تھے ..چنانچہ اگر علی(ع) رحلت پیغمبر (ص) کے بعد تقیہ نہ کرتے اور مسلحانہ جنگ کرنے پر اترآتے تو  اصل اسلام  خطرے میں پڑ جاتا اور جو ابھی ابھی مسلمان ہو چکے تھے ، دوبارہ کفر کی طرف پلٹ جاتے .کیونکہ امام کو اگرچہ ظاہری فتح حاصل ہوجاتی ؛ لیکن لوگ کہتے کہ انہوں نے پیغمبر کے جانے کے بعد ان کی امّت پر مسلحانہ حملہ کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا .

پس معلوم ہوا کہ آئمہ طاہرین  کا تقیہ کرنا ضرور بہ ضرور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر تھا.

تقیہ« سلونی قبل ان تفقدونی» کے منافی

امام علی(ع) فرماتے ہیں : مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان سے اٹھ جاؤں ، اور تم مجھے پانہ سکو

 اس روایت میں سوال کرنے کا حکم فرمارہے ہیں ، جس کا لازمہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ بطور  جواب فرمائیں گے  ، اسے قبول کرنا ہم پر واجب ہوگا؛ اور امام کا تقیہ کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ بعض سوال کا امام جواب نہیں دیں گے. 

جواب : یہ کلام امیر المومنین (ع) نے اس وقت فرمایا ، کہ جب آپ برسر حکومت تھے  ؛ جس وقت تقیہ کے  سارے علل و اسباب مفقود تھے .یعنی تقیہ کرنے کی ضرورت نہ تھی.اور جو بھی سوال آپ سے کیا جاتا  ،اس کا جواب تقیہ کے بغیر  کاملاً دئے جاسکتے تھے البتہ اس سنہرے موقع سے لوگوں نے استفادہ نہیں کیا .لیکن ہمارے دیگر آئمہ طاہرین کو اتنی کم مدت  کابھی موقع نہیں ملا. یہی وجہ ہے کہ بقیہ اماموں سے ایسا جملہ صادر نہیں ہوا اگرچہ شیعہ اور سنی سوال کرنے والوں  کو احکام بیان کرنے میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی .امام سجاد(ع)سے روایت  ہے کہ ہم پر لازم نہیں ہے کہ ہمارے شیعوں کے ہر سوال کا جواب دیدیں .اگر ہم چاہیں تو جواب دیں گے ، اور اگر نہ چاہیں تو گریز کریں گے(1)

--------------

(1):- وسائل الشیعہ، ج ۱۸، ص۴۳.

۱۹۷

تقیہ  اور  شجاعت

اس  شبہہ کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے سارے امام انسانیت کے اعلاترین کمال اور فضائل کے مرتبے پر فائز ہیں یعنی ہر کمال اور صفات بطور اتم ان میں پائے جاتے ہیں اور شجاعت بھی کمالات  انسانی میں سے ایک ہے . 

لیکن تقیہ اور واقعیت کے خلاف اظہار کرنا بہت سارے مواقع پر جانی خوف کی وجہ سے ہے

اس کے علاوہ اس سخن کا مضمون یہ ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰٰ نے ایسے رہنما اور امام بھیجے ہیں، جو اپنی جان کی خوف کی وجہ سے پوری زندگی حالت تقیہ میں گذاری(1)

جواب: اولاً شجاعت اور تہور میں فرق ہے شجاعت حد اعتدال اور درمیانی راہ  ہے لیکن تہور افراط  اور بزدلی ، تفریط ہے .اور شجاعت کا یہ معنی نہیں کہ بغیر کسی حساب کتاب کے اپنے کو خطرے میں ڈالدے بلکہ جب بھی کوئی زیادہ اہم مصلحت خطرے میں ہو تو اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں .

ثانیاً: ہمارے لئے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ تقیہ کے سارے موارد میں خوف اور ترس ہی علت تامہ ہو ، بلکہ اور بھی علل و اسباب پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے تقیہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں .جیسے اپنے ماننے والوں کی جان بچانے کی خاطر ، کبھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ محبت اور مودت ایجاد کرنے کی  خاطر تقیہ کرتے ہیں جن کا ترس اور خوف سےکوئی رابطہ نہیں ہے .

ثالثا ً: امام کا خوف اپنی جان کی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ دین مقدس اسلام کے مصالح اور مفاد کے مد نظرامام خائف ہیں ، کہ ایسا نہ ہو ، دین کی مصلحتوں کو کوئی ٹھیس پہنچے .جیسا کہ امام حسین (ع) نے ایسا ہی کیا .

اب اس اشکال یا بہتان کا جواب کہ  آئمہ طاہرین نے اپنی آخری عمر تک تقیہ کیا ہے ؛ یہ ہے:

--------------

(1):- کمال جوادی؛ ایرادات و شبہات علیہ شیعیان در ہند و پاکستان.

۱۹۸

اولا ً : یہ بالکل بیہودہ بات   ہے اور تاریخ کے حقائق سے بہت دور ہے .کیونکہ ہم آئمہ طاہرین کی زندگی میں دیکھتےہیں کہ بہت سارے موارد میں انہوں نے  ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بہادرانہ طور پر جنگ و جہاد کئے ہیں چنانچہ امام موسیٰ کاظم (ع)نے اس وقت ، کہ جب ہارون نے چاہا کہ باغ فدک آپ کو واپس کریں ،  ہارون الرشید کے کارندوں کے سامنے برملا عباسی حکومت کے نامشروع اور ناجائز ہونے کا اعلان فرمایا ، اور مملکت اسلامی کے حدود کو مشخص کیا .

ثانیا ً : ہدایت بشر ی صرف معارف اسلامی کا برملا بیان کرنے پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ بعض اہم اور مؤثر افراد تک اپنی بات کو منتقل کرنا بھی کافی اور باعث بنتا تھا کہ سارے لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ جائیں.

تقیہ اور تحلیل حرام و تحریم حلال

شبہہ یہ ہے کہ اگر اس بات کو قبول کرلے کہ امام بعض فقہی مسائل کا جواب بطو رتقیہ دیں گے تو  مسلماً ایسے موارد میں حکم واقعی  (حرمت) کی بجائے (حلیت ) کا حکم لگے گا اور یہ سبب بنے گا شریعت میں تحلیل حرام  اور تحریم حلال کا، یعنی حرام حلال میں بدل جائے گا اورحلال حرام میں(1)

اس شبہہ کا جواب  یہ ہے کہ شیعوں کے نزدیک تقیہ سے مراد ؛اضطراری حالات میں بعنوان حکم ثانوی ،آیات اور روایات معصوم کی پیروی کرنا ہے .

تقیہ کا حکم بھی دوسرے احکام جیسے  اضطرار، اکراہ ، رفع  ضرر اور  حرج کی طرح ہے ، کہ ایک معین وقت کیلئے حکم اولی کو تعطیل  کرکے اس کی جگہ   تقیہ والا حکم لگایا جاتا ہے .اور ان جیسے احکام ثانوی فقہ اہلسنت  میں بھی ہر جگہ موجود ہے .

تقیہ ا یک حکم اختصاصی  ہے  یا عمومی؟

--------------

(1):- احسان الہی ظہیر؛ السنّہ والشیعہ، ص ۱۳۶.

۱۹۹

اس حصے میں درج ذیل مسائل کی بررسی کرنے کی ضرورت ہے :

1.  قانون تقیہ پر اعتقاد رکھنا کیا صرف شیعہ امامیہ کے ساتھ مختص ہے یا دوسرے مکاتب فکر بھی اس کے قائل ہیں ؟اور اسے ایک الہی قانون کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں ؟!

2.  کیا تقیہ کوئی ایسا حکم ہے جو ہرجگہ اور ہرحال میں جائز ہے یا اس کے لئے بھی خاص زمان یا مکان اور دیگر اسباب کا خیال رکھنا واجب ہے ؟

3.  کیا حکم تقیہ ،متعلّق کے اعتبار سے  عام ہے یا نہیں ؟ بطوری کہ سارےلوگ  ایک خاص شرائط میں اس پر عمل کرسکتے ہیں ؟  یا بعض لوگ بطور استثنا ہر عام و خاص شرائط کے بغیر  بھی تقیہ کرسکتے ہیں ؟جیسے : پیغمبر و امام(ع)؟

جواب: دو احتمال ہیں :

۱ـ تقیہ یک حکم ثانوی عام  ہے کہ سارے لوگ جس سے استفادہ کرسکتے ہیں .

۲ـ پیغمبران تقیہ سے مستثنی ہیں کیونکہ عقلی طور پر مانع موجود  ہے شیخ طوسی اور اکثر مسلمانوں نے دوسرے  احتمال  کو قبول کئے ہیں کہ پیغمبر کیلئے  تقیہ جائز نہیں ہے .کیونکہ اس کی شناخت اور علم اور رسائی صرف اور صرف  پیغمبر  کے پاس ہے 

اور صرف  پیغمبر  اور ان کے فرامین کے ذریعے شریعت کی شناخت اور علم ممکن ہے .پس جب پیغمبر  کیلئے تقیہ جائز ہو جائے تو ہمیں کوئی اور راستہ باقی نہیں رہتا جس کے ذریعے اپنی تکلیف اور شرعی وظیفہ کو پہچان لیں اور اس پر عمل کریں(1) اسی لئے فرماتے ہیں :فلا یجوز علی الانبیاء قبائح و لا التقیة فی اخبارهم لا نّه یؤدی الی التشکیک (2)

--------------

(1):- محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی،ص ۳۲۸.

(2):- التبیان ، ج۷ ، ص  ۲۵۹. 

۲۰۰