شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات23%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218507 / ڈاؤنلوڈ: 6979
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

دوسرامقدمہ: اپنے بندوں پر لطف کر نا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے ، کیونکہ وہ حکیم ہے اور حکمت الٰہی یہ ہے کہ بندوں کو کمال تک پہنچائے، اگر لطف نہ کرے تو نقض غرض لازم  آتا ہے

نتیجہ: اللہ تعالیٰ پر امام کا منتخب کرنا واجب ہے

اشکال: رسول خدا (ص) اپنا جانشین معین کر کے گئے ہیں، لیکن اہل سنت اس بات کو نہیں مانتے .

ابوبکر  اور عمر دونوں اپنا  اپنا جانشین معین کرکے گئے ہیں،اس بات کو اہل سنت قبول کرتے ہیں،

ہم کہیں گے کہ یہ دونوں رسول سے زیادہ عاقل اور ہوشیار تھے؟!!

اگر آپ کہیں گے : نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول سے یہ لوگ زیادہ ہوشیار اور عاقل ہوں. تو اس کا مطلب یہ ہے کہ  ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا.

اہل سنت علی ؑکو خلیفہ بلا فصل کیوں نہیں مانتے؟

اہل سنت کتہے ہیں کہ ہم علی کو خلیفہ بلا فصل نہیں مانتے کیونکہ ان کا نام قرآن میں نہیں آیا ہے .

شیعوں کا  جواب:

۱. کیا اللہ تعالیٰ کے سارے نبیوں کا نام قرآن  میں آیا ہے ؟!

۲.کیا خلیفہ اول اور دوم(ابوبکر اور عمر) کا نام قرآن میں آیا ہے؟

۳.غدیر خم میں رسول خدا(ص)نے اعلان کیا ہے :

 رُوِيَ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ ع قَالَ حَجَّ رَسُولُ الله ص مِنَ الْمَدِینَةِ وَ قَدْ بَلَّغَ جَمِیعَ الشَّرَائِعِ قَوْمَهُ مَا خَلَا الْحَجَّ وَ الْوَلَايَةَ فَأَتَاهُ جَبْرَئِیلُ ع فَقَالَ لَهُ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ الله عَزَّ وَ جَلَّ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ إِنِّی لَمْ أَقْبِضْ نَبِیّاً مِنْ أَنْبِيَائِی وَ رُسُلِی إِلَّا بَعْدَ إِكْمَالِ دِینِی وَ تَكْثِیرِ حُجَّتِی

۱۰۱

وَ قَدْ بَقِيَ عَلَيْكَ مِنْ ذَلِكَ فَرِیضَتَانِ مِمَّا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ أَنْ تُبَلِّغَهُمَا قَوْمَكَ فَرِیضَةُ الْحَجِّ وَ فَرِیضَةُ الْوَلَايَة...وَ أَوْحَی إِلَيَّ بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ یا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْآيَةَ مَعَاشِرَ النَّاسِ مَا قَصَّرْتُ عَنْ تَبْلِیغِ مَا أَنْزَلَهُ وَ أَنَا مُبَيِّنٌ سَبَبَ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّ جَبْرَئِیلَ ع هَبَطَ إِلَيَّ مِرَاراً ثَلَاثاً يَأْمُرُنِی عَنِ السَّلَامِ رَبِّی وَ هُوَ السَّلَامُ أَنْ أَقُومَ فِی هَذَا الْمَشْهَدِ وَ أُعْلِمَ كُلَّ أَبْيَضَ وَ أَحْمَرَ وَ أَسْوَدَ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ أَخِی وَ وَصِيِّی وَ خَلِیفَتِی وَ الْإِمَامُ مِنْ بَعْدِی الَّذِی مَحَلُّهُ مِنِّی مَحَلُّ هَارُونَ مِنْ مُوسَی إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِی وَلِيُّكُمْ بَعْدَ الله وَ رَسُولِهِ وَ قَدْ أَنْزَلَ الله تَبَارَكَ وَ تَعَالَی عَلَیّ بِذَلِكَ آيَةَ إِنَّما وَلِيُّكُمُ الله وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ يُقِیمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ وَ عَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ الَّذِی أَقَامَ الصَّلَاةَ وَ آتَی الزَّكَاةَ وَ هُوَ رَاكِعٌ يُرِیدُ الله عَزَّ وَ جَلَّ فِی كُلِّ حَالٍ ...

مَعَاشِرَ النَّاسِ فَضِّلُوا عَلِیّاً فَإِنَّهُ أَفْضَلُ النَّاسِ بَعْدِی مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثَی بِنَا أَنْزَلَ الله‏... وَ بَقِيَ الْخَلْقُ مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَغْضُوبٌ مَغْضُوبٌ مَنْ رَدَّ قَوْلِی هَذَا عَنْ جَبْرَئِیلَ ع عَنِ الله تَعَالَی فَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ ما قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَ اتَّقُوا الله أَنْ تُخَالِفُوا إِنَّ الله خَبِیرٌ بِما تَعْمَلُونَ معَاشِرَ النَّاسِ تَدَبَّرُوا الْقُرْآنَ وَ افْهَمُوا آيَاتِهِ وَ مُحْكَمَاتِهِ وَ لَا تَتَّبِعُوا مُتَشَابِهَهُ فَوَ الله لَهُوَ مُبَيِّنٌ لَكُمْ نُوراً وَاحِداً وَ لَا يُوَضِّحُ لَكُمْ تَفْسِیرَهُ إِلَّا الَّذِی أَنَا آخِذٌ بِيَدِهِ وَ مُصْعِدُهُ إِلَيَّ وَ شَائِلٌ بِعَضُدِهِ وَ مُعْلِمُكُمْ أَنَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَ هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَخِی وَ وَصِيِّی وَ مُوَالاتُهُ مِنَ الله تَعَالَی ‏.(1)

--------------

(1):-  روضة الواعظین و بصیرة المتعظین،  ج1،ص89.   

۱۰۲

امام باقر(ع) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) مدینہ سے حج پر تشریف لے گئے اور حج اور ولایت کے حکم کے علاوہ اسلام کے سارے احکام لوگوں تک پہنچائے .جبرئیل امین(ع)  آئے اور فرمایا: اے محمد (ص) اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام کہا ہے  اور فرمایا ہے کہ میں نے اپنے کسی بھی نبی یا رسول کو (لوگوں کے درمیان سے)نہیں اٹھایا ہے جب تک اپنے دین کو کامل نہ کرےاور ان کی  حجت تمام نہ ہوجائے اور تجھ پر دو فریضے باقی ہے جن کا اپنی قوم تک پہنچانا تم پر فرض ہے وہ فریضہ حج اور فریضہ ولایت ہے ...اور مجھ پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی ہے کہ جو کچھ مجھ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچادوں.اس کے بعد فرمایا: اے لوگو!میں نے جو کچھ انہوں نے نازل کیا تھا ان کے پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور میں اس آیة شریفہ کی شان نزول بتاتا ہوں کہ جبرئیل میرے پاس تین دفعہ تشریف لائے  اور اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچایا جس کا مقصد یہ تھا کہ میں تمہارے سامنے آؤں اور سارے لوگوں (گورے ،کالے اور سرخ) کو یہ اعلان کروں کہ علی ابن ابیطالب میرا بھائی ،وصی، خلیفہ اور میرے بعد امام ہوگاجس کا مقام میری نسبت ایسا ہوگاجوہارون کی نسبت موسیٰ سے ہےمگر میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.وہ تمہارے ولی ہیں اللہ اور اس کےرسول کےبعداور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی شان میں آیة ولایت نازل کی ، جس کا مصدس علی ابن ابیطالب ہیں جنھوں نے نماز قائم کی اور حالت رکوع میں زکات دی اور ہر حال میں اللہ کی رضایت کے طالب رہے... اے لوگو! علی (ع)کی فضیلت کا اقرار کرو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق میرے بعدسارے مرد اور عورت میں افضل ترین انسان ہیں اور وہ لوگ لعنتی ہیں لعنتی ہیں اور مغضوب ہیں مغضوب ہیں جنہوں نے میری باتوں کو رد کیا جو جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے وحی نازل کی ہے .پس  ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیج دیا ہے اور اللہ کے فرامین کی مخالفت  سے ڈرتے رہو کہ وہ یقیناً تمہارے اعمال سے باخبر ہے.

اے لوگو!قرآن کریم میں غور وفکر کرو اور اس کی آیتوں کو سمجھو محکمات پر عمل کریں اور متشابہات کی پیروی نہ کریں ،خدا کی قسم وہ تمہارے لئے ایک نور کواجالا کرنے والا ہے جس کی تفسیر تمہارے لئے واضح نہیں ہوگی  سواے اس انسان   کے ذریعےجس

۱۰۳

کے ہاتھ کو میں نے پکڑ  کر بلند کیا اور تم لوگوں کے سامنے  اعلان کیا :جس جس کا میں مولا ہوں اس اس  کایہ علی مولا ہے جو علی ابن ابیطالب ہیں ،میرے بھائی  اور جانشین ہیں ،ان کی ولایت  کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے  لوگوں پر فرض کیا گیا ہے یہ خطبہ غدیر کا اقتباس ہے جس سے قرائن حالیہ ، مقامیہ اور قرائن مقالیہ  کے ذریعے ولایت علی پر استدلال کر سکتے ہیں.کہ پہلے الست اولی بکم من انفسکم کہہ کر اقرار لینا بعد میں من کنت مولاہ... کہنا اور اکمال دین اتمام حجت کے موقع پر رسول خدا(ص) کا تکبیر کہنا ، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ولایت علی  سے مراد اولی بالتصرف ہے نہ دوست .

جانشین پیغمبر (ص)کو صحابہ نے کیوں منصب خلافت سے دور رکھا؟

اہل سنت اشکال کرتے ہیں کہ اگر  لوگوں کے سامنے علیؑ کا نام لیکر جانشین بنایا ہی تھا توپیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد صحابہ نے کیوں علی ؑکو منصب  خلافت پر نہیں بٹھایا؟

شیعہ جواب دیتے ہیں:

 الف: سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نبی کی باتوں کو ٹھکرایا گیا.

 ب:یا نبی کی باتوں کو فراموش کیا گیا، کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ دومہینے سے زیادہ عرصہ بھی نہیں گذرا تھا.

ج: یا انہوں نے قول نبی کے مقابلے میں اجتہاد کیا ہے .ان تینوں جواب میں سے جو بھی  جواب انتخاب کرے ، وہ لوگ  لاجواب ہوجائیں گے .

۱.دعوت ذوالعشیرہ میں علی(ع) کا نام لے کر لوگوں کے سامنے اپنا جانشینی کا اعلان کیا گیا.

۲.نام لینے سے زیادہ اوصاف اور خصوصیات کا بیان کرنا  بہتر ہے ، کیونکہ دوسرے لوگ اس سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکے .جیسا کہ تاریخ میں بہت سے لوگوں نے امام مھدی ہونے کا جھوٹا دعوا کیا.

۱۰۴

۳.جہاں لوگوں کو علی(ع) ہی کی دشمنی میں پیغمبر (ص) کی آواز کو حسبنا کتاب اللہ کہہ کر خاموش کرنا آسان ہوا تو ایک کاغذ کو جس پر علی (ع)کا نام لکھ دے، پھاڑ دینا تو اور بھی آسان تھا.

اگر خلفاء برحق نہیں تھے تو علی ؑنے خاموشی کیوں اختیار کی؟

جواب: امیرالمؤمنین خود فرماتے ہیں کہ ۲۵ سال کی گوشہ نشینی میرے لئے ایسا تھا کہ جیسے حلق میں ہڈی اٹکی ہوئی ہو مگر علی نے صبر کی ، ورنہ علی ولی مطلق تھے اپنا حق چھین سکتے تھے ۔کیوں نہ ہو جو زندگی میں کبھی نہیں ہارے جو کبھی کسی کی طرف محتاج نہیں رہے؛ بلکہ لوگ خود علی پر محتاج ہوتے تھے.اور وہ لوگ محتاج ہوتے تھے جو خلہا  رسول ہونے کا تو دعوا کرتے تھے لیکن کار خلافت انجام نہیں دے سکتے تھے اورمولا ؑخود فرماتے ہیں کہ یہ بات تمھارے دلوں میں ہے کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں لیکن میری بازؤں میں وہی طاقت ہے جو جنگ بدر و حنین میں تھی. 

خاموشی کی اصل وجہ یہ تھی کہ اگر علی تلوار اٹھاتے تو حضور کی ۶۳ سالہ زندگی کی تمام زحمتیں ضائع ہوجاتیں۔ علی جیت بھی جاتے اور اقتدار بھی حاصل  ہوجاتے مگر حضور کی تبلیغ رایگان ہوجاتی اور لوگ کہتے کہ علی نے رسول کی ساری محنت پر  پانی پھیر دیا خود مولا فرماتے ہیں کہ اگر میں تلوار اٹھاتا تو ایک لاکھ سے زیادہ جو مسلمان ہوئے تھے پھر اپنی اصلیت کی طرف لوٹ جاتے ، اور میرا مقصد یہ نہیں بلکہ میرا مقصد تو لوگوں کو ظلمت کی تاریکی سے نکال کر ہدایت کے نور کی طرف دعوت دوں، ضرورت کے موقع پر ہدایت کرتا رہوں، یہ ہے ولی کا کام.نبی پہنچاتا ہے ولی بچاتا ہے یعنی تلوار نیام میں رکھ کر کار رسالت کی حفاظت کی ، گلے میں رسی ڈالنے کو قبول کیا کیونکہ آپ کو اپنی ولایت کی فکر نہیں تھی کار نبوت کی حفاظت کی فکر تھی.

باقی اصحاب اور امام علی میں فرق یہی تھا کہ علی، رسول کی رسالت اور کارنبوت کی حفاظت فرماتے تھے اور باقی اصحاب، نبی کے اصولوں کو مٹا کر خود اپنا اصول قائم کرتے ہیں جنگ نہروان میں آخر وقت تک لوگوں کو ہدایت کرتے رہے آخر کار تلوار اٹھانا پڑا۔

۱۰۵

 اس وقت ۱۳ افراد بھاگ کھڑے ہوئے جن میں سے ایک ابن ملجم مرادی بھی تھا اس وقت فرمایا: یہ میرا قاتل ہے اور دوسری مرتبہ جب آپ میثم تمّار کی دکان میں تشریف فرما تھے ، ابن ملجم مرادی سامنے سے گزرا تو فرمایا: یہ میرا قاتل ہے عرض کیا:مولا!پھر اس کو کیوں مہلت دیتے ہو؟ فرمایا: جرم سے پہلے سزانہیں دی جاسکتی.

جب  امیر المؤمنین  جنگ نہروان کے بعد ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو آپ سے پوچھاگیا کہ آپ نےجس طرح ناکثین اور قاسطین اور مارقین  اور طلحہ اور زبیرکے ساتھ جنگ کی اسی طرح ابوبکر اور عمر کے ساتھ جنگ کیوں نہیں کی؟ تو آپ نے فرمایا: میں اپنی زندگی کے پہلے دن  سے ہی مظلوم واقع ہوا اور میرے حقوق کو دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتا رہا تو اشعث بن قیس اٹھا اور کہا: یا امیر المؤمنین! کیوں آپ نے تلوار نہیں اٹھائی اور اپنا حق نہیں چھینا ؟ تو فرمایا : اے  اشعث! تو نے ایک ایسے مطلب کے بارے میں سوال کیا تو اس کا جواب اور دلیل کو بھی تفصیل سے سنو: میں نے چھ انبیاء الہی کی پیروی کی ہے.

1.  حضرت نوح ،  جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے:

فَدَعا رَبَّهُ أَنِّی مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ (1)

2.  حضررت لوط ، جس کے بارے میں فرمایا:

 لَوْ أَنَّ لِی بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِی إِلی‏ رُكْنٍ شَدِیدٍ (2) ان دونوں آیتوں میں اب اگر کوئی یہ کہہ دے کافروں سے خوف کی وجہ سے نہیں فریائے ہیں تو وہ کافر ہے تو انبیاء کے ولی اور جانشین تو خود انبیاء سے زیادہ معذور ہیں(3)

3.  حضرت ابراہیم خلیل  کہ جن کے بارے میں فرماتے ہیں :

وَ أَعْتَزِلُكُمْ وَ ما تَدْعُونَ مِنْ دُونِ الل ه (4)

--------------

(1):- بقرہ ۱۲۴.

(2):- النساء : 59.

(3):- علی عطائی، پرسش وپاسخ در مدینہ منورہ،ص 215.

(4):- احزاب 33.

۱۰۶

4.  حضرت موسیٰ :فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ .(1)

5.  حضرت ہارون کی میں نے پیروی کی  ، جس نے فرمایا:ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِی وَ کادُوا يَقْتُلُونَنِی. (2)

کیا ہارون نے اپنی قوم سے خوف کی وجہ ایسا نہیں کیا؟ اگر اس بات کا انکار کرے گا تو  قرآن کا انکار ہوگا.

6.  میں نے اپنے بھائی حضرت محمد (ص) کی پیروی کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی ، جس طرح انہوں نے احتیاط اور قریش والوں کے خوف سے مجھے اپنے بستر پر سلا کر خود غار  میں چھپ گئے. تو جو بھی یہ کہے کہ رسول خدا کفار قریش کے خوف سے نہیں چھپے تھے تو گویا وہ قرآن کا منکر ہوگا.

اس وقت سارے لوگ یک زبان ہوکر کہنے لگے : یا امیر المؤمنین ! آپ نے بالکل سچ کہا اور ہم اس بارے میں جاہل تھے(3)

دوسری روایت میں ہے کہ امام کوفہ میں خطبہ دے رہے تھے جس کے آخر میں فرمایا: میں لوگوں پر اولویت رکھتا ہوں جس دن مجھے رسول خدا (ص)نے اپنا جانشین بنایا لیکن جس دن رسول خدا رحلت فرماگئے تو اسی دن سے میں مظلوم واقع ہوا.تو اس وقت اشعث نے کہا: آپ ہر خطبہ میں یہی فرماتے ہو کہ میں لوگوں پر اولویت رکھتا ہوں اور میرا حق غصب ہوا اور ظلم ہوا تو کیوں ان دونوں کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی؟!

آپ نے فرمایا:اے شرابی کی اولاد! خدا کی قسم  ! میرا اپنا حق نہ لینا نہ کسی سےڈر اور خوف کی وجہ سے تھا اور نہ موت کے ڈر سے، بلکہ صرف رسول خدا (ص)کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اس  کا وفا کرنا تھا.کیونکہ انہوں نے مجھے خبر  دی تھی

--------------

(1):- 

(2):-

(3):-

۱۰۷

کہ یہ امّت میرے بعد تجھ پر جفا کریگی اور میری وصیت کو ٹھکرائے گی۔ جسے میں نے تیری خاطر کی ہے  اور کہا ہے : میری نسبت تیرے ساتھ موسیٰ اور ہارون کی نسبت ہے تو میں نے عرض کیا : اے رسول خدا ! اس وقت میرا وظیفہ کیا ہے  ؟ تو فرمایا: اگر تمھیں کوئی یار و مددگارمل جائیں تو غاصبوں کے ساتھ جنگ کرو اور اپنا حق لے لو لیکن اگر کوئی مدد کرنے والے نہ ملے تو سکوت اختیار کرلو.اور اپنا خون کی حفاظت کرنا اور مظلومانہ مجھ سے قیامت کےدن ملحق ہوجانا.پس میں نے بھی رسول خدا  کی رحلت کے بعد ان کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہوگیا اور اس کے بعد قسم کھائی کہ جب تک قرآن کو جمع نہ کروں گھر سے نہیں نکلوں گا.اس کےبعد میں فاطمہ زہرا ، حسن اور حسین کے ہاتھوں کو پکڑ ہر اصحاب اور اہل بدر و حنین کے دروازے پر گئے لیکن ہر ایک نے انکار کیا سوائے چار افراد(سلمان، عمار، ابوذر،اور مقداد) کے.اور اپنے عزیزوں میں سے سواے عقیل اور عباس کے کسی نے بھی مدد نہیں کی.

اشعث  نے کہا:عثمان نے بھی اسی طرح استدلال کیا تھا کہ ان کا بھی کوئی یاور نہیں تھا اس لئے مظلومانہ قتل ہونے کو تسلیم کیا!

امام نے فرمایا: اے شرابی کے بیٹے!جس طرح تو نے قیاس کیا  ایسا نہیں کیونکہ عثمان  ایسے مسند پر بیٹھا تھا جس کا وہ حقدار نہیں تھا  اور کسی کا لباس پہن رکھا تھا ...اگر مجھے صرف ۴۰ نفر مل جاتے تو میں ابوبکر کا مقابلہ کرتا(1)

اہل سنت: علی (ع) کو لوگوں نے نہیں مانا اور دین بھی منہدم نہیں ہوا۔ الحمد للہ!اسلام بڑے آب و تاب کے ساتھ باقی ہے. یہاں تک  کہ ایران اور روم بھی فتح ہوا اور سب مسلمان بھی ہوگئے.

-------------

(1):-

۱۰۸

    جواب شیعہ : اسلام پر شدید ضربہ وار ہوا ؛

     امام حق بھی دین اسلام کی حفاظت کی خاطر کبھی خاموش نہیں رہے.

     دین میں بہت سارے انحرافات پیدا ہوگئے.

     اصل استاد کا جواب یہ کہ جو داخلی خطر تھا ، اس نے اپنا کام کردیا .ورنہ سارے منافقین کہاں چلے گئے ان تینوں کے دور میں ، یہاں تک کہ علی آئے تو دوبارہ سر اٹھانا شروع کیا.

: چگونہ ما منکر ولایت حضرت علی(رضی اللہ عنہ) می شویم و حال آنکہ علمای احناف ہمچو حاکم حسکانی می گوید: اولی الامر حضرت علی(رضی اللہ عنہ)است«اولی الامر هو علّی الذی ولاه اللّه بعد محمد ـ صلی الله علیه و سلّم ـ فی حیاته حین خلفه رسول اللّه بالمدینة».[ 81]

الفصول المہمة: 30 ـ مستدرک حاکم 3: 483.

[79] .ازالة الخفاء دہلوی 2: 251 ـ کفایة الطالب: 407، شرح عینیة

(آلوسی) 15 ـ المجدی (ابن صوفی): 11، ئد

تاریخ بناکتی: 98 ـ نور الابصار: 76.

[80].الاستیعاب 3: 1097.

[81] .شواہد التنزیل 2: 190.

[82] .سیر اعلام النبلاء 19: 328. «ذکر ابوحامد فی کتابه سر العالمین و کشف ما فی الدارین، فقال: فی حدیث

من کنت مولاه فعلی مولاه: ان عمر قال لعلی: بخ بخ. اصبحت مولی کل مؤمن، قال ابوحامد:

 هذا تسلیم

۱۰۹

ورضی ثم بعد هذا غلب الهوی حباً للریاسة، وعقد البنود وامر الخلافة ونهیها، فحملهم علی الخلاف فنبذوه

وراء ظهورهم، واشتروا به ثمناً قلیلا فبئس ما یشترون.».

عصمت امام پر دلیل

1.  امام محافظ شریعت ہے  اور شریعت کی حفاظت وہی کر سکتا ہے جو خود پاک اور معصوم ہو.

2.  آیة شریفہ :وَ إِذِ ابْتَلی‏ إِبْراهِیمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّی جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِی قالَ لا يَنالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ‏. (1)

" اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم (ع)کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں. انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا".

 اس آیة شریفہ سے یوں عصمت پر استدلال کیا جاتا  ہے:ظالم ہونے کی تین حالتیں ہیں:

الف: یا انسان پوری زندگی ظلم کی حالت میں گذارتا ہے

ب: یا زندگی کے شروع میں عادل تھا بعد میں ظالم ہوا ہے حضرت ابراہیم(ع) کیلئے یہ تو تصور نہیں کرسکتا کہ آپ نے ان دو گروہ کیلئے امامت کا مطالبہ کیا ہو.

--------------

(1):- البقرة : 245

۱۱۰

ج: پہلے وہ ظالم تھا اب عادل  بن گیا ہے کہ اس کیلئے ابراہیم نے امامت کا مطالبہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے قبول نہیں کیا.

د: پس ایک چوتھا گروہ باقی رہتا ہے کہ امامت کے وہی لائق ہوسکتا ہے ، جو پوری زندگی میں  کبھی ظالم واقع نہیں ہوا ہو.

3.  آیة شریفہ:یا أَيُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا الل ه وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی‏ شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَی الل ه وَ الرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِالل ه وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ تَأْویلاً .(1)

"ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے".

اس آیة شریفہ میں حکم اطاعت مطلق ہے کوئی قید نہیں  بلکہ جس طرح اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے.پس جس طرح اللہ اور رسول کی اطاعت واجب  ہے اسی طرح ان کے جانشین کا حکم بھی واجب ہے.کیسے؟

مقدمہ۱. اولی الامر نبی کے ساتھ ذکر ہوا ہے .پس اگر  یزید، ولید  اور معاویہ کو رسول کے ساتھ  رکھیں تو یہ رسالت کی اولین توہین ہے کیونکہ یہ لوگ اولی الامر کا مصداق نہیں بن سکتے.

--------------

(1):- مائدہ ۵۵.

۱۱۱

مقدمہ ۲. اولی الامر مطلق آیا ہے جو بتاتا ہے کہ وہ بھی اللہ اور رسول کی طرح معصوم ہو. کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو نقض غرض لازم آتا ہے.ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ صرف نیک کاموں میں رسول کی طرح ہونا چاہئے.تو اس کیلئے جواب یہی ہے کہ آیة مطلق ذکر ہوا ہے.

مقدمہ ۳. آیة اطیعوا اللہ... سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ خلیفہ معصوم تا قیامت موجود ہونا چاہئے کیونکہ اسلام دین خاتم ہے اور اس کا دستور پورے عالم بشریت کیلئے ہے.

کس بنیاد پر اہل بیت  (ع)معصوم؟ ایک مختصر مناظرہ

مسجد النبی(ص)میں ایک شخص نے کہا: تم شیعہ لوگ کس بنیاد پر اہل بیت کو معصوم مانتے ہو؟

شیعہ: تم یہ بتاؤ کہ زہرا نے کونسا گناہ کا ارتکاب ہوا ہے؟ علی (ع)نے کون سا جرم کیا ہے؟ حسنین نے کون سے برا کام انجام دیا ہے ؟جبکہ تم لوگ خود معترف ہیں کہ ابوبکر و عمر لمبی مدت تک شرک و کفر کی پلیدی میں رہے ہیں اور بت پرستی کرتے رہے ہیں. عائشہ اور معاویہ علی کے ساتھ جنگ کرکے کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب  ہوئے؟  آیہانّما یرید الل ه اور حدیث ثقلین کی تلاوت کی کیا اس سے بڑھ کر کوئی دلیل چاہئے؟پھر وہ ناراض ہو کر چلا گیا.(1)

--------------

(1):- باب فضائل علی بن ابیطالب، ص 1043،ح2408.

۱۱۲

شیعہ اہل بیتؑ کو معصوم مانتے ہیں

شیعہ اہل بیت کو معصوم کیوں مانتے ہیں جبکہ اہل سنت نہ اہلبیت کو اور نہ خلفاء ثلاثہ کو معصوم مانتے ؟!

جواب: ہمارے پاس عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں جن  سے اہل سنت بھی انکار نہیں کرسکتے۔ جن کی بناء پر ہم انہیں معصوم مانتے ہیں:

1. قرآن کریم:انّما یرید الل ه لیذ ه ب عنکم الرجس ا ه ل البیت و یط ه رکم تط ه یراً .(1)

2. صحیح مسلم میں عائشہ سے نقل ہوا ہے: ایک دن رسول خدا (ص)اپنے کمرے سے باہر نکلے اپنا اونی سیاہ عبا پہنا ہوا تھا حسن و حسین آئے اس عبا کے اندر داخل ہوگئے پرں فاطمہ آئی اس میں داخل ہوگئی پھر علی آئے اور اس  عبا میں داخل ہوئے. پھر فرمایا:انما یرید الل ه .. (2)

مسند احمد بن حنبل میں نقل ہوا ہے:

انّ النبی کان یمرّ بباب فاطمه ستة اشهر اذا خرج الی صلوة الفجر یقول : الصلوة یا اهل البیت انّما یرید الل ه لیذ ه ب عنکم الرجس ا ه ل البیت و یط ه رکم تط ه یراً .(3)

عصمت

خلاصہ: انسانی کہ گاہی گناہ میکند و گاہی نمیکند، مختاراست. اگر بہ درجہ اتقیا برسد انتخاب کار خوب و ترک فعل بد نیزتقریبا ضروری می شود. شہود گناہ برای معصوم، مانند شہود آتش است برای ما. این جبر نیست.

--------------

(1):-  احزاب33.

(2):- محمد طاہری ، الکردی، ج1، ص188.

(3):- الفصول المہمة: 30 ـ مستدرک حاکم 3: 483

۱۱۳

انسانی را فرض کنید کہ دارای ملکہ ی تقوا و عدالت نیست، گاہی گناہی را مرتکب می شود و گاہی مرتکب نمی شود. آیا این شخص را مختار می دانیم یا نہ؟ قطعاً می دانیم. اکنون فرض کنید کہ ہمین شخص در اثر مصاحبت با اتقیا و صلحا دارای ملکہ ی تقوا می شود، مانند ابوذر؛ یعنی، شان و مقام و روحیہ اش آن چنان بالا می رود کہ ہرگز دروغ نمی گوید یا مثلًا شرب خمر نمی کند، بہ مرحلہ ای می رسد کہ انتخاب کار خوب، تقریباً حکم ضرورت پیدا می کند و ترک فعل بد نیز ضروری می شود- چنین شخصی بہ مرحلہ ای می رسد کہ ہرگز مرتکب گناہ نمی شود، او مراتب معنوی را شہود می کند. شہود مراتب معنوی برای معصوم؛ مثلًا، مانند شہود آتش است برای ما. برای ما محال است کہ دست خود را وارد آتش کنیم- آیا این را جبر می گوییم؟ نہ، صفات روحی و شہود معنوی آن معصوم ہم طوری است کہ محال است مرتکب گناہ گردد؛ آیا این جبر است؟ نہ.(1)

ولایت علی پر دلیلیں

آیة شریفہ ولایت:إِنَّما وَلِيُّكُمُ الل ه وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ يُقِیمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ .(2)

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکواة   دیتے ہیں.اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں سارے اسلامی فرقے متفق ہیں کہ یہ علی(ع) کی شان  میں نازل ہوئی ہے چنانچہ انس بن مالک نقل کرتے ہیں کہ مسجد میں ایک سائل آیا اور اس نے خیرات مانگی، اس وقت علی(ع) رکوع کی حالت  میں  مشغول نماز  تھے انہوں نے اشارہ کیا اور اپنی انگوٹھی دیدی اس و قت کہ کوئی ایک بھی مسجد سے نہیں نکلا تھا ، جبرئیل امین یہ آیت لیکر نازل ہوا .

فخر رازی نے معنای ولایت پر کئی اشکالات کئے ہیں:

۱۱۴

۱.اس آیت سے پہلی والی آیات کا سیاق یہودیوں اور نصیریوں سے دوستی کرنے سے روک رہا ہے ،لہذا یہاں ولایت سے مراد بھی دوستی ہے .ورنہ اس آیت اور دوسری آیات کے درمیان تفکیک لازم آتا ہے.  جواب : جہاں تفکیک پر دلیل اگر موجود ہو تو کوئی بات نہیں.نیز دوسری آیات کے ساتھ اس کا خاص رابطہ  بھی نہیں ہے.

۲.آیة شریفہ میں ہم راکعون کہہ کر جمع کا صیغہ لایا ہے اور اللہ اور رسول کے علاوہ کسی فرد واحد (علی) پر حمل کرنا درست نہیں ہے .بلکہ یہ خلاف ظاہر ہے ۔

جواب : اس آیة کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات جیسے ندعوا ابنائنا ...آئی ہیں جبکہ رسول ایک فرد کے علاوہ کوئی اور تو نہیں تھا .

ثانیاً تعظیم کی خاطر بھی صیغہ جمع استعمال ہوتا ہے

ثالثاً تشویق کیلئے بھی جمع کا صیغہ استعمال ہوتا ہے .

۳.یہ نماز میں  حضور قلب  نہ رکھنے پر دلالت کرتی ہے جو علی کی شان کے خلاف ہے .

جواب : یہ عمل خود بھی عبادت تھی اور اللہ ہی کی خاطر تھا. فقیروں کا خیال رکھنا اور ان کو خیرات دینا اللہ تعالیٰ کو صدقہ و خیرات دینے کے مترادف ہے. چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے :

 مَنْ ذَا الَّذی يُقْرِضُ الل ه قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ أَضْعافاً كَثیرَةً وَ الل ه يَقْبِضُ وَ يَبْصُطُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ .(1)

"کون ہے جو خدا کو قرض حسن دے اور پھر خدا اسے کئی گنا کرکے واپس کردے خدا کم بھی کرسکتاہے اور زیادہ بھی اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹائے جاؤگے".

۱۱۵

۴.زکواۃ کاادا کرنا واجب تھا ، علی نے زکواة کی ادائیگی میں تاخیر کی ہے یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا.

جواب یہاں زکواة سے مراد اصطلاحی ہے نہ لغوی،ثانیاً  زکواة مستحبی  تھا.

۵.یہ آیت ابوبکر کی شان میں نازل ہوئی ہے نہ علی کی شان میں

جواب : کوئی ایک دلیل تو لے آؤ.

پس یہاں ولایت سے مراد دوستی ، محبت، نصرت، ...نہیں بلکہ اولی بالتصرف مراد ہے دلیل: انما اداة حصر ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تمھارا ولی فقط اور فقط یہی تین ہیں ، یعنی اللہ ، رسول اور ان صفات  مذکورہ کے حامل شخص اس صورت میں اگر ہم محبت یا دوستی مراد لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی اور مؤمن سے دوستی یا محبت نہ کرے.

ثانیاً: اللہ اور ان کے رسول سے فقط محبت کرنا کافی ہے یا اولی بالتصرف کا بھی قائل ہونا بھی ضروری ہے؟  پس  اولی الامر کو بھی ہم اسی معنی میں لیتے ہیں .

ثالثاً:کلمہ اطیعوا مطلق ہے اولی الامر کیلئے کوئی الگ اطیعوا کا ذکر نہیں ہوا ہے پس جس معنی میں رسول کی اطاعت واجب ہے اسی معنی میں علی کی اطاعت بھی واجب ہے

رابعاً عربی گرائمر میں جب بغیر کسی قید کے کوئی لفظ استعمال ہو تو اسے مختلف معنی میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے.

اہل بیت (ع)کون؟

صحیح مسلم میں ایک مفصّل روایت ذکر ہوا ہے: زید بن ارقم کہتا ہے کہ رسول خدا (ص)نے مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مفصل خطبہ دیا اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد کہا: اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں خدا کی طرف سے مامور ہوں میں تمھارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں. ایک کتاب خدا دوسرے میری اہل بیت. راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ(ص)نے اس جملے کو تین بار دہرایا. زید بن ارقم سے سوال کیا اہل بیت سے کون لوگ مراد ہے؟

۱۱۶

کیا آپ کی بیویاں بھی شامل ہیں؟ زید نے کہا: نہیں خدا کی قسم جب بیوی کو طلاق دی جاتی ہئے تو وہ اپنے والدین کے پاس چلی جاتی ہے اہل بیت کی بنیاد اور اصل مرد ہے. ایل بیت وہ لوگ ہیں جن پر رسول اللہ (ص)کے بعد صدقہ حرام ہو. زید سے سوال ہوا کہ جن پر صدقہ حرام ہے اور عدل قرآن ہے اور جن کے بارے میں رسول خدا نے سفارش کی ہے ، کون لوگ ہیں؟

زید نے کہا: آل علی ابن ابیطالب(ع) ہیں جن پر صدقہ حرام ہے.(1)

اور سب مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ علی(ع) نے کبھی گناہ نہیں کیا، کبھی بت پرستی نہیں کی.جبکہ سب معتقد ہیں کہ ابوبکر و عمر کی زندگی کا بیشتر حصہ بت پرستی میں گذرا ہے۔اس کے بعد مسلمان ہوگئے.

حضرت عائشہ جس نے حکم خدا کی مخالفت کرکے گناہ کا مرتکب ہوئی. خدا نے کہاتھا :وقرن فی بیوتکن .(2)

لیکن وہ نکلی اور خلیفہ رسول علی(ع) سے جنگ کرنے آئی. اور جنگ جمل کا فتنہ برپا کرکے ہزاروں مسلمانوں کہ مروا دیا. اور مسلمانوں کے درمیان پہلی بار جنگ داخلی کی بنیاد ڈالی. طلحہ وزبیر خصوصاً معاویہ نے بھی یہی رویہ اختیار کیا. یہ ہر سنی ، شیعہ کیلئے روز روشن کی طرح عیاں ہے.

 خلیفہ کا تعیّن

سنی:مسلمانوں نے رسول اللہ (ص)کی رحلت کے بعد ابوبکر کی خلافت پر اتفاق کیا اور اسے خلیفہ رسول میں   کیا لیکن تم لوگ مسلمانوں کی مخالفت کرکے ابوبکر کی خلافت کو قبول نہیں کرتے ہو.!

شیعہ: عمر کو کس نے خلافت کیلئے انتخاب کیا؟

۱۱۷

سنی: ابوبکر نے انتخاب کیا تاکہ  مسلمانوں کو بغیر رہبر  کےنہ چھوڑا جائے۔اور ان کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہ ہو.

شیعہ: تعجب والی بات ہے کہ ابوبکر پیغمبر(ص) سے زیادہ عقل مند اور زیادہ سمجھ دار تھا؟!

سنی: کس طرح ؟

شیعہ:بقول تیرے ، رسول اللہ(ص) نے اپنے لئے کوئی خلیفہ متعین نہیں کیا اور لوگوں کیلئے کوئی رہبر معین نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو اپنے حال پر چھوڑدیا اور لوگوں کو اختلافات میں ڈال دیا یہاں تک کہ آپ کا جنازہ تین دن تک زمین پر پڑا رہا، تاکہ آپ کو خلیفہ مقرر کرنے کے بعد دفن کیا جائے. لیکن ابوبکر زیادہ عاقل تھا لذتا انھوں نے اپنا جانشین مقرر کیا.

کتاب التاریخ میں لکھا ہے: رسول اللہ (ص)کے جنازے کو چھوڑ کر سقیفۂ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے تین دن بعد ابوبکر کو بعنوان خلیفہ چن لیا اور اس کی بیعت کی گئی. اور چوتھے روز رسول اللہ (ص)کی تجہیز و تدفین کی طرف متوجہ ہوگئے. شیطان نے بھی اس موقع پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن خدا کی رحمت مسلمانوں کیلئے شامل حال ہوگئی. اس کی مکر و فریب سے بچ گئے. اور ابوبکر کی بیعت پر متفق ہوگئے.(1)

ہاں ! لوگ متعین خلافت کی اہمیت کو خوب جانتے تھے اگر خلیفہ متعین نہ ہوتا تو شیطان کو فرصت ملتی اور مسلمانوں کے درمیان  اختلاف ڈال دیتا. ابوبکر و عمر بھی جانتے تھے کہ لوگوں کو بغیر کسی رہبر و امام کے چھوڑا نہیں جاسکتا. کیا  خدا نے رسول کو اس مہم کی خبر نہیں دی تھی اور رسول بھی عام لوگوں، ابوبکر  اور عمر کی طرح اس کی اہمیت سے بے خبر تھے.العیاذبالله. انّ هذا لشیئ عجاب.!

سنی: میں ان سب کو تو نہیں جانتا لیکن صرف اتنا جانتاہوں  کہ شیعیان خلیفۂ رسول کو نہیں مانتے.

--------------

(1):-  باب فضائل اھل البیت، ح 2425.  ج4،ص 568، ح14042.

۱۱۸

شیعہ: جس خلیفہ کو تم اہل سنت والے مانتے ہو اور مسلمانوں کا حاکم مانتے ہو اس کو قبول کرنا اور نہ کرنا کسی بھی مشکل کو حل نہیں کرتا. اور اول شب قبر اس کے بارے میں سوال نہیں ہوگا کہ تمھارا حاکم کون تھا. رسول کے بعد کیا رسول کے گھر پررجوع کرینگے یا بیگانوں کے گھر؟

سنی:اصحاب پیغمبر ابوبکر اور عمر کی طرف رجوع کریں گے.

شیعہ: رسول نے فرمایا :انّی تارک فیکم الثقلین : کتاب الله و عترتی اهل بیتی و ان تمسکتم بهمالن تظلّوا بعدی.

قرآن اور عترت کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے نہ اصحاب کی طرف. اور کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ابوبکر اور عمر کی طرف رجوع کرو. علاوہ بر این علم و دانش علی کے پاس تھا اور ابوبکر و عمر بھی علمی مسائل پیش آنے کی صورت میں علی کی طرف رجوع کرتے تھے اور ستّر بار عمر نے کہا: لولا علی لھلک عمر.

 یعنی اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا. اور تم کہتے ہو ابوبکر اور عمر کی طرف رجوع کریں ؟! 

مولود کعبہ ہوتے ہوئے بھی فضائل علی چھپاتے کیوں؟

سؤال: کیا یہ صحیح ہے کہ کہا جاتا ہے کہ  علی(رضی اللہ عنہ) کے سوا کوئی اور کعبہ  میں متولد نہیں ہوا ہے ؟

جواب:

1قال ابن صباغ المالکی: ولم یولد فی البیت الحرام قبله احد سواه وهی فضیلة خصّه الله بها اجلالا له واعلاء لمرتبته واظهاراً لتکرمته (1)

--------------

(1):-  ۔  الہیات شفا، ج 1، ص 98.

۱۱۹

یعنی علی(رضی اللہ عنہ)سے پہلے کوئی خانہ کعبہ میں پیدا نہیں ہوااور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے  ایسی فضیلت ہے جسے علی کیساتھ  مخصوص کیا ہے.جس کے ذریعے علی کی عظمت کو بلند کرنا مقصود پروردگار ہے.لیکن تعجب والی بات یہ ہے کہ کیوں بزرگان اہل سنت اپنی زبان پر یہ فضائل نہیں لاتے ؟!جواب یہ ہے کہ اگر علی کی افضلیت پر شیعوں کے دلائل عوام تک پہنچے تو ان کو یہ خدشہ ضرور ہے کہ مکتب تشیع کی طرف بڑھنے لگیں گے.

حدیث منزلت محکم ترین اثر

سؤال: کیا یہ صحیح ہے کہ حدیث منزلت علی(رضی اللہ عنہ):"انت منی بمنزلة هارون من موسی" صحیح ترین و محکم ترین آثار میں سے ہے؟ جواب : چنانچہ قرطبی  کہتا ہے:و هو من اثبت الآثار و اصحّها.. (1)

کیا ولایت علیؑ سے انکارممکن؟!

سؤال: ہم کیسے ولایت حضرت علی(رضی اللہ عنہ) سے منکر ہونگے جب کہ حنفی علماء جءسے حاکم حسکانی لکھتاہے:«اولی الامر هو علّی الذی ولاه اللّه بعد محمد ـ صلی الله علیه و سلّم ـ فی حیاته حین خلفه رسول اللّه بالمدینة». (2) اولی الامر حضرت علی(رضی اللہ عنہ)ہے جسے حضرت محمد کے بعد ان کی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ نے نا کا ولی قرار دیا ہے.

خلیفہ دوم نے غدیرکے دن بیعت کی لیکن...

سؤال : کیا یہ صحیح ہے کہ عمر بن خطاب نے روز غدیر بیعت کی لیکن رحلت پیغمبر اکرم کے بعد بیعت شکنی کی؟

جواب: درست ہے انہوں نے ایسا ہی کیا ہے چنانچہ اس بارے میں ذہبی امام غزالی سے عمر بن خطاب کے بارے میں نقل کیا ہے کہ

--------------

(1):-  الاستیعاب 3: 1097.

(2):- شواہد التنزیل 2: 190

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

شیخ طوسی کا جواب

تقیہ جھوٹ نہیں ہے  کیونکہ  ، الکذب ضد الصدق و ہو الاخبار عن الشیء لا علی ما ہو بہ. یعنی جھوٹ  سچائی کی ضد ہے اور جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی خبر دے، جس کی کوئی حقیقت  نہ ہو .

پس جھوٹ کا دو رکن ہے :

الف: کسی واقعے کے بارے میں خبر دینا .

ب: اس خبر کا واقعیت کے مطابق نہ ہونا.

جبکہ تقیہ کے تین رکن ہیں :

الف:حق بات کا چھپانا.

 ب: مخالفین کے ساتھ موافقت کا اظہار کرنا .

 ج: اور یہ دونوں رکن اس لئے ہو کہ دشمن کے شر سے اپنی جان یا مال کو حفاظت کرے .

 لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ  اخباری ہے اور تقیہ دشمن کو برحق ظاہر کرنا ہے .دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھا ہے وہ بھی حق ہو، جبکہ تقیہ میں یہ شرط ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھا ہے وہ حق ہو .

اگر کسی نے اشکال کیا  کہ جھوٹ تقیہ سے اعم ہے .تو ہم جواب دیں گے کہ بالفرض تقیہ کرنے والا خبر دینے کی نیت کرے     بلکہ تعریض کی نیت کرے(۱)

--------------

(۱):- .   ہمان ،  ص  ۲۸۰.  

۱۸۱

تقیہ یعنی منافقت!

ممکن ہے کوئی یہ  ادعا کرے کہ جو مکر اورفریب منافق لوگ کرتے ہیں ، تقیہ  بھی اسی کی ایک قسم ہے. کیونکہ منافق دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے زبان پر ایسی چیزکا اظہار کرتے ہیں جس کے برخلاف دل میں چھپا رکھا ہو .

شیخ طوسی اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتےہیں کہ مخادع  اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دل میں موجود بات کے برخلاف زبان پر اظہار کرے  تاکہ جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اس سے وہ محفوظ رہے .اسی لئے منافق کو مخادع کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زبان کے ذریعے اسلام  کاکلمہ پڑھ کر کفر کے حکم لگنے سے فرار کرکے اپنی جان بچاتا ہے اگر چہ منافق مؤمن کو ظاہراً زبان کے ذریعے دھوکہ دیتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے .

یہ  درست ہے کہ تقیہ میں بھی باطن کے خلاف بات کا اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جان بچاتا ہے ؛ لیکن یہ دونوں ( تقیہ اور نفاق) اصولاًباہم مختلف اور متفاوت ہے .اور دونوں قابل جمع بھی نہیں.

امام صادق(ع) اس مختصر حدیث میں  مؤمن ہونے کا دعوا کرنے اور ایسے موارد میں تقیہ کے دامن پکڑنے والوں کو شدید طور پر ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:و ایّم اﷲ لو دعیتم لتنصرونا لقلتم لا نفعل انّما نتقی و لکانت التقیه احبّ الیکم من آبائکم و امّهاتکم ، ولو قد قام القائم ما احتاج الی مسائلکم عن ذالک و لا قام فی کثیر منکم حدّ النفاق .(۱)

یعنی خدا کی قسم ! اگر تمہیں ہماری مدد کیلئے بلائے جائیں تو  کہہ دینگے ہر گز انجام نہیں دیں گے،کیونکہ ہم تقیہ کی حالت میں ہیں  .تمہارے والدین کا تقیہ کرنا تمہارے نزدیک  زیادہ محبوب ہے ، اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور ہماری حکومت تشکیل دے گا ، تو خدا کی قسم بغیر سوال کئے ، منافقین کو سزا دینا شروع کریگا جنہوں نے تمہارا حق مارا ہے

--------------

(۱):- .      وسائل الشیعہ، ج ۲ ، باب ۲۵.

۱۸۲

یہ حدیث بتا تی ہے کہ امام(ع)  اپنے بعض نادان دوست کے بے موقع تقیہ کرنے کی وجہ سے غم و غصہ کا اظہار فرما تے ہوئے نفاق اور تقیہ کے درمیان حد فاصل کو واضح فرمارہے ہیں .

اپنے مقدس اہداف کی ترقی کی خاطر پردہ پوشی کرنے اور چھپانے کا نام تقیہ ہے اور جائز ہے .اجتماعی اور الٰہی اہداف کی حفاظت کی خاطر اپنا ذاتی اہداف کو فدا کرنے کا نام تقیہ ہے .اس کے برخلاف اگر کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی اور قومی مفاد کو قربان کرے تو وہ منافق کہلائے گا.

ایک اور حدیث میں امام (ع)سے منقول ہے :جب بھی انسان ایمان کا اظہار کرے ،لیکن بعد میں عملی میدان میں اس کے برخلاف عمل کرے تو وہ مؤمن  کی صفات سے خارج ہے  اور اگراظہار خلاف ایسے موارد میں کیا جائے جہاں تقیہ جائز نہیں  ہے تو اس کا عذر قابل قبول نہیں ہے: لانّ للتقیه مواضع من ازالها  عن مواضعها لم تستقم له (۱)

کیونکہ تقیہ کے بھی کچھ حدود ہیں جو بھی اس سے باہر قدم رکھے تو وہ معذور نہیں ہوگا .اور حدیث کے آکر میں فرمایا : تقیہ وہاں جایز ہے جہاں دین اور ایمان میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو .

کمیت شاعر کہ جو مجاہدوں کی صف میں شمار ہوتا ہے کہ اپنے ذوق شاعری سے استفادہ کرتے ہوئے بنی عباس کے دور خلافت میں اس طاغوتی نظام کے خلاف قیام کیا اور  مکتب اہل بیتکی حمایت کی ایک دن امام موسیٰ ابن جعفر(ع) کی خدمت میں پہنچا ، دیکھا کہ  امام کا چہرہ بگڑا ہواہے .

--------------

(۱):- .      ہمان ، ج ۶ ، باب ۲۵.

۱۸۳

 جب وجہ پوچھی   توشدید اور اعتراض آمیز لہجے میں  فرمایا :کیا تونے بنی امیہ کے بارے میں یہ شعرپڑھا ہے ؟!

فالان صرت ا لی امّة    و الامم  لها الی مصائر

یعنی ابھی تو میں خاندان  بنی امیہ کی طرف  متوجہ ہوا ہوں اور ان کا کام میری طرف متوجہ ہورہا ہے

کمیت کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: مولا !اس شعر کو میں نے پڑھا ہے لیکن خدا کی قسم میں اپنے ایمان پر باقی ہوں اور آپ خاندان اہل بیت سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کے دوستداروں سے بھی محبت رکھتا ہوں اور اسی  لئےآپ کے دشمنوں سے بیزار ہوں؛ لیکن اسے میں نے تقیۃً  پڑھا ہے

امام(ع) نے فرمایا:اگر ایسا ہو تو تقیہ ہر خلاف  کاروں کیلئے قانونی اور شرعی مجوز ملے گا .اور شراب خوری بھی تقیہ کے تحت جائز ہوجائے گا .اور بنی عباس کی حکومت کا دفاع کرنا بھی جائز ہوجائے گا. اس قسم کے تقیہ سے تملّق ،چاپلوسی اور ظالموں کی ثنا خوانی کا بازار گرم اور پر رونق ہوجائے گا.اور نفاق ومنافقت بھی رائج ہوجائے گا(۱)

تقیہ،  جہادکے متنافی

اشکال  یہ ہے : اگر تقیہ کے قائل ہوجائیں تو اسلام میں جہاد کا نظریہ ختم ہونا چاہئے جبکہ اس جہاد کی خاطر مسلمانوں کی جان و مال ضائع ہوجاتی ہیں(۲)

--------------

(۱):- مکارم شیرازی؛ تقیہ سپری عمیقتر، ص ۷۰.   

(۲):- قفاری ؛ اصول مذہب الشیعہ، ج۲، ص ۸۰۷.

۱۸۴

جواب: اسلامی احکام جب بھی جانی یا مالی ضرر اور نقصان سے دوچار اور روبرو ہوجاتا ہے تو دو قسم میں تقسیم ہوجاتا ہے :

۱.  وہ احکامات جن کا اجراء کرنا  کسی جانی ضرر یا نقصان  سے دوچار نہیں ہوتا ، جیسے نماز کا واجب ہونا ، جس میں نہ مالی ضرر ہے اور نہ جانی ضرر .

۲.  وہ احکامات جن کا اجرا کرنا ، جانی یا مالی طورپر ضرر یا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جیسے زکوۃ  اور خمس  کا ادا  کرنا ، راہ خدا میں جہاد کرنا وغیرہ .

تقیہ کا حکم صرف پہلی قسم سے مربوط ہے کہ بعض موارد میں ان احکام کو بطور حکم ثانوی اٹھایا جاتا ہے .لیکن دوسری قسم سے تقیہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے .اور جہاد کا حکم بھی دوسری قسم میں سے ہے ، کہ جب بھی شرائط محقق ہوجائے تو جہاد  بھی واجب ہوجاتا ہے .اگرچہ بہت زیادہ جانی یامالی نقصان بھی کیوں نہ اٹھانی پڑے.

تقیہ اور آیات تبلیغ کے درمیان  تعارض

آلوسی کہتا ہے کہ تقیہ ان دو آیات کے ساتھ تعارض پیدا کرتا ہے کہ جن میں پیغمبر اکرم (ص) کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے(۱)

۱. يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ (۲)

--------------

(۱):-   ابوالفضل آلوسی؛ روح المعانی،ج ۳، ص ۱۲۵.

(۲):- مائدہ۶۷.

۱۸۵

 اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے.

اس آیہ مبارکہ  میں اپنے حبیب کو تبلیغ کا حکم دے رہا ہے اگر چہ خوف  اور ڈر ہی کیوں نہ ہو.

۲. الَّذِینَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ الل ه وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا الل ه وَكَفَی بِالل ه حَسِیبًا (۱) یعنی وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ،اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے  .

اس آیہ شریفہ میں خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ایک بہترین صفت قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے .

اسی طرح اللہ  تعالیٰ کے احکامات کو چھپانے کی مذمت میں بھی آیات نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ فرمایا:إِنَّ الَّذِینَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ الل ه مِنَ الْكِتَابِ وَ يَشْترَُونَ بِهِ ثمََنًا قَلِیلاً  أُوْلَئكَ مَا يَأْکلُُونَ فىِ بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ الل ه يَوْمَ الْقِيَمَةِ وَ لَا يُزَكِّیهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ. (۲)

جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے  .

--------------

(۱):- احزاب ۳۹.

(۲):- بقرہ ۱۷۴.

۱۸۶

اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے یہاں تقیہ بے مورد ہے .

 لیکن اگر تقیہ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے مثال کے طور پر ایک  کم اہمیت والا فقہی فتویٰ دے کر کسی فقیہ  یا عالم دین کی جان پچانا.

تقیہ اور ذ لّت مؤمن

اشکال :وہابی لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے خداتعالیٰ نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے.(۱)

جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں کہ اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروی کار لایا جائے تو موجب ذلت نہیں ہوسکتا کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کی خاطر حق بات کرنے سے  سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ  ذلت کا سبب  ہے اور نہ مذمت کاباعث

چنانچہ عمار ابن یاسر نے ایسا کیا تو قرآن  کریم نے بھی اس کی مدح سرائی  شروع کی .

--------------

(۱):- .      موسی موسوی؛ الشیعہ و التصحیح ، ص ۶۷.

۱۸۷

تقیہ ،ما نع امر بہ معروف

اشکال یہ ہے کہ تقیہ انسان کو امربہ معروف اور نہی از منکر کرنے سے روکتی ہے کبھی جان کا خوف دلا کر تو کبھی مال یا مقام کا .جب کہ یہ دونوں (امر اور نہی ) واجبات اسلام میں سے ہے .اس مطلب کی تائید میں فرمایا : افضل الجہاد کلمة حق عند سلطان جائر. ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا  بہترین جہاد  ہے .

اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

۱ـ امر بہ معروف و نہی از منکر بہ صورت مطلق جائز  نہیں بلکہ اس کیلئے بھی کچھ شرائط و معیارہے  کہ اگر یہ  شرائط اور معیار موجود ہوں تو  واجب ہے ..ورنہ  اس کا واجب ہونا ساقط ہوجائے گا .

من  جملہ شرائط امر بہ معروف و نہی از منکر  میں سے یہ ہیں :انکار کرنے میں کوئی ایسا مفسدہ موجود نہ ہو جو اس سے بھی کسی بڑے  جرم ،جیسے قتل و غارت میں مبتلا ہو جائے ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرنا جائز نہیں ہے

۲ـ  وہ روایات جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا اظہار کرنے کو ممدوح قرار دیتی ہیں ، وہ خبر واحد ہیں جو ادلہ عقلی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی یعنی تعارض کے موقع پر دلیل عقلی مقدم ہو گا ،اس سے  دفع ضرر اور حفظ جان مراد ہے(۱)

تقیہ امام معصوم(ع)سےمربوط شبہات

اشکال کرنے والا اس مرحلے میں تقیہ کے شرعی جواز کو فی الجملہ قبول کرتا ہے ، کہ بعض موارد میں مؤمنین کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے لیکن دینی رہنماؤں جیسے امام معصوم(ع) کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اگر دین کے رہنما تقیہ کرے تو درج ذیل اشکالات وارد ہوسکتے ہیں :

--------------

(۱):- .      دکتر محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی، ص ۲۸۹.

۱۸۸

 تقیہ اور امام(ع) کا بیان شریعت

شیعہ عقیدے کے مطابق امام معصوم کے وجود مبارک کوشریعت اسلام کے بیان کیلئے  خلق کیا گیا ہے لیکن اگر یہ حضرات تقیہ کرنے لگے تو بہت سارے احکام رہ جائیں گےاور مسلمانوں تک نہیں پہنچ پائیں گے. اور ان کی بعثت کا فلسفہ  بھی ناقص ہو گا. اسی سلسلے میں اہل سنت کے ایک عالم نے اشکال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے علی(ع) کو  اظہار حق کی خاطر منصوب کیا ہے تو تقیہ کیا معنی  رکھتا  ہے ؟!

اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ امامان معصوم نے بہترین انداز میں اپنے وظیفے پر عمل کئے ہیں لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں نے  ان کے فرامین کو قبول نہیں کیا .

. چنانچہ حضرت علی(ع) کے بارے میں منقول ہے آپ ۲۵ سال خانہ نشین ہوئے تو قرآں مجید کی جمع آوری ، آیات کی شان نزول ، معارف اسلامی کی توضیح اور تشریح کرنے میں مصروف ہوگئے اور ان مطالب کو اونٹوں پر لاد کر مسجد میں مسلمانوں کے درمیان لے گئے تاکہ ان معارف سے لوگ استفادہ کریں  ؛ لیکن خلیفہ وقت نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا .(۱)

جب امام نے یہ حالت دیکھی تو خاص شاگردوں کی تربیت اور ان کو اسلامی احکامات اور دوسرے معارف کا تعلیم دیتے ہوئے اپنا شرعی وظیفہ انجام دینے لگے ؛ لیکن یہ ہماری کوتاہی تھی کہ ہم نے ان کے فرامین کو پس پشت ڈالا اور اس پر عمل نہیں کیا .

امام کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں:

۱.  معتزلہ والے کہتے ہیں کہ امام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ امام کا قول ، پیغمبر اسلام(ص) کے قول کی طرح حجت ہے .

۲.  امامیہ  والے کہتے ہیں کہ اگر تقیہ کے واجب ہونے کے اسباب نہ ہو،کوئی اور مانع بھی موجود نہ ہو تو امام تقیہ کرسکتے ہیں شیخ طوسی کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام تقیہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ شرائط موجود ہو .

--------------

(۱):- .      محمد باقر حجتی؛ تاریخ قرآن کریم، ص ۳۸۷.

۱۸۹

امام کیلئے تقیہ جائز ہونے کے  شرائط

     شرعی وظیفوں  پر عمل پیرا ہونا اور احکام کی معرفت حاصل کرنا اگر فقط امام پر منحصر نہ ہو جیسے امام کا منصوص ہونا فقط امام کے قول پر منحصر نہیں ہے بلکہ قول پیغمبر (ص) اور عقل سلیم کے ذریعے سے بھی مکلف جان سکتا ہے تو  ایسی صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں

      اس صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں کہ آپ کا تقیہ کرنا حق تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ بنے اورساتھ ہی شرائط بھی پوری ہو.

     جن موارد میں امام تقیہ کررہے ہیں وہاں ہمارے پاس واضح دلیل موجود ہوکہ معلوم ہوجائے کہ امام حالت تقیہ میں حکم دے رہے ہیں .

اس بنا پر اگر احکام کی معرفت امام میں منحصر نہ ہو ، یا امام کا تقیہ کرنا حق تک جانے میں رکاوٹ نہ ہو اور کوئی ایسی ٹھوس دلیل بھی نہ ہو جو امام کا تقیہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتی ہو اور ساتھ ہی اگر معلوم ہو کہ امام حالت تقیہ میں ہو تو کوئی حرج نہیں کہ  امام تقیہ کرسکتے ہیں(۱)

 تقیہ، فرمان امام(ع) پر عدم اعتماد کاباعث

شیعہ مخالف لوگوں کا کہنا ہے  کہ اگر ہمارے آئمہ معصومینوسیع پیمانے پر تقیہ لگے تو یہ احتمال ساری روایات جو ان حضرات سے ہم تک پہنچی ہیں ،میں پائی جاتی ہے کہ ہر روایت تقیہ کرکے بیان کئے  ہوں .اس صورت میں کسی ایک روایت پر بھی ہم عمل نہیں کرسکتے .کیونکہ کوئی بھی روایت قابل اعتماد نہیں ہوسکتی. اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمارے آئمہ معصومین کا تقیہ کرنا کسی قواعد و ضوابط کےبغیر ہو تو یہ اشکال وارد ہے .

--------------

(۱):- .      محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی، ص۳۳۳.

۱۹۰

لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرنے کیلئے خواہ وہ تقیہ کرنے والا امام ہو یا عوام ہو یا خواص ہو ، خاص شرائط ہیں اگر وہ شرائط نہ ہو تو تقیہ کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے .اور جب اماموں کے تقیہ کے علل و اسباب اگر ان کو معلوم ہوجائے تو یہ اشکال بھی باقی نہیں رہے گا .

تقیہ اور علم امام  (ع)

علم امام کے بارے میں شیعہ متکلمین کےدرمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں :اور یہ اختلاف بھی روایات میں  اختلاف  ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں .

پہلا نظریہ : قدیم شیعہ متکلمین جیسے ، سید مرتضی وغیرہ معتقد ہیں کہ امام تمام احکامات اور معارف اسلامی کا علم رکھتےہیں لیکن مختلف حادثات اور بعض واقعات جیسے اپنی رحلت  کب ہوگی؟ یا دوسروں کی موت کب واقع ہوگی ؟و...بصورت موجبہ جزئیہ ہے نہ موجبہ کلیہ .

دوسرا نظریہ : علم امام(ع) دونوں صورتوں میں یعنی تمام احکامات دین اور اتفاقی حادثات کے بارے میں بصورت موجبہ کلیہ علم رکھتے ہیں(۱)

بہ ہر حال دونوں نظریہ کا اس بات پر اتفاق ہے  کہ علم امام(ع)احکام اور معارف اسلامی کے بارے میں  بصورت موجبہ ہے .  وہ شبہات جو تقیہ اور علم امام سے مربوط ہے وہ بعض کے نزدیک دونوں مبنا میں ممکن ہے  اور بعض کے نزدیک صرف دوسرے مبنی میں ممکن ہے

پہلا اشکال: تقیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ  آئمہ تمام فقہی احکام اور اسلامی معارف کا علم نہیں رکھتے ہیں اور اس کی توجیہ کرنےاور روایات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کیلئے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں.

--------------

(۱):- .      کلینی ؛ اصول کافی، ج۱ ، ص ۳۷۶

۱۹۱

اس اشکال کو سلیمان ابن جریر زیدی نے مطرح کیا ہے ،جوعصر آئمہمیں زندگی کرتا تھا .وہ کہتا ہے کہ رافضیوں کے امام نے اپنے پیروکاروں کیلئے دو عقیدہ بیان کئے ہیں جس کی موجودگی میں کوئی بھی مخالف ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نہیں جیت سکتا.

پہلا عقیدہ  بداء ہے .

دوسرا عقیدہ تقیہ ہے.

شیعیان اپنے  اماموں سے  مختلف مواقع پر سوال کرتے تھے اور وہ جواب دیاکرتے تھے اور شیعہ لوگ ان روایات اور احادیث کو یاد رکھتے  اور لکھتے تھے ،لیکن ان کے امام ، چونکہ کئی کئی مہینے  یا سال گذرجاتے لیکن ان سے مسئلہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ؛ جس کی وجہ سے وہ پہلے دئے ہوئے جوابات بھی بھول جاتے تھے کیونکہ اپنے دئے گئے جوابات کو یاد نہیں رکھتے تھے اس لئے ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جوابات دئے جاتے تھے .اورشیعہ جب اپنے اماموں پر ان اختلافات کے بارے میں اشکال کرتےتھے تو توجیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے جوابات تقیۃً بیان ہوئے ہیں .اور ہم جو چاہیں اور جب چاہیں جواب دے سکتے ہیں  .کیونکہ یہ ہمارا حق ہے. اور ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز تمہارے مفاد میں ہے اور تمہاری بقا اور سالمیت کس چیز میں ہے .اور تمھارے دشمن کب تم سے دست بردار ہونگے .

سلیمان آگے بیان کرتا ہے : پس جب ایسا عقیدہ ایجاد ہوجائے تو کوئی بھی ان کے اماموں پر  جھوٹے ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا اور کبھی بھی ان کے حق اور باطل میں شناخت نہیں کرسکتا. اور انہی تناقض گوئی کی وجہ سے بعض شیعیان ابو جعفر امام باقر(ع) کی امامت کا انکار کرنے لگے(۱)

--------------

(۱):- ۱.    نوبختی؛  فرق الشیعہ ،  ص  ۸۵ ـ۸۷.

۱۹۲

پس معلوم ہوا کہ دونوں مبنی کے مطابق شیعوں کے اماموں کے علم پر یہ اشکال وارد ہے  .

جواب :

 امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے امامان معصوم تمام  احکام اور معارف الٰہی کے بارے میں کلی علم رکھتےہیں اس بات پر متقن دلیل بھی بیان کیا گیا ہے لیکن ممکن ہے وہ دلائل برادران اہل سنت کیلئے قابل قبول نہ ہو.

چنانچہ شیخ طوسی نے اپنی روایت کی کتاب تہذیب الاحکام  کو انہی اختلافات کی وضاحت اور جواب کے طور پر لکھی ہے

علامہ شعرانی اور علامہ قزوینی یہ دو شیعہ دانشورکا بھی یہی عقیدہ ہے کہ  شیعوں کے امام تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ تقیہ کرنے کا اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے تھے

علامہ شعرانی کہتے ہیں : آئمہ  تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ صرف  امر بہ معروف کیا کرتے تھے کیونکہ امامان تمام واقعیات سے باخبر تھے :  اذا شائوا  ان یعلموا علموا.کے مالک تھے  ہمارے لئے تو تقیہ کرنا صدق آتا ہے لیکن آئمہ کیلئے صدق نہیں آتا کیونکہ وہ لوگ تمام عالم اسرار سے واقف ہیں

علامہ قزوینی فرماتے ہیں :آئمہ تقیہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ عالم تھے اور تمام اوقات اور وفات کی کیفیت اور نوعیت سے باخبرتھے اس لئے ٖٖٖصرف ہمیں تقیہ کا حکم دیتے تھے(۱)

اس  شبہ کا جواب

اولا: علم امام کے دوسرے مبنا پر یہ اشکال  ہے  نہ پہلے مبنا پر ، کیونکہ ممکن ہے جو پہلےمبنا  کا قائل ہے  وہ کہے  امام اپنی موت اور مرنے کے وقت اور کیفیت سے آگاہ نہیں تھے ، اس لئے جان کے خوف سے تقیہ کرتے تھے

--------------

(۱):- .  مجلہ نور علم، ش ۵۰ ـ ۵۱، ص ۲۴ ـ ۲۵.

۱۹۳

ثانیاً : امام کا تقیہ کرنا اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ ممکن ہے اپنے اصحاب اور چاہنے والوں کی جان کے خوف سے ہوں ؛ یا اہل سنت کے ساتھ مدارات اور اتحاد کی خاطر تقیہ کئے ہوں. دوسرے لفظوں میں اگر کہیں کہ تقیہ کبھی بھی جان یا مال کے خوف کے ساتھ مختص نہیں ہے

ثالثاً: جو لوگ دوسرے مبنا کے قائل ہیں ممکن ہے کہہ دیں کہ امام اپنی موت کے وقت اور کیفیت کا علم رکھتے تھے اور ساتھ ہی جان کا خوف بھی کھاتے اور تقیہ کے ذریعے اپنی جان بچانا چاہتے تھے

ان دو شیعہ عالم دین پر جو اشکال وارد ہے یہ ہے ، کہ اگر آپ آئمہ کے تقیہ کا انکار کرتے ہیں تو ان تمام روایتوں کا کیا جواب دیں گے کہ جن میں خود آئمہ طاہرین  تقیہ کے بہت سے فضائل بیان فرماتے ہیں  اور ان روایتوں کا کیا کروگے جو امام کے تقیہ کرنے کو ثابت کرتی ہیں؟!

تقیہ اور عصمت

احکام اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں ایک عام دین دارشخص سے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی بات کو خدا اور رسول کی طرف نسبت دے دے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام تقیہ کرتے ہوئے ایک ناحق بات کو خدا کی طرف نسبت دے ؟!یہ حقیقت میں امام کے دین اور عصمت پر لعن کرنے کے مترادف ہے !(۱)

جواب یہ ہے کہ اگر ہم تقیہ کی مشروعیت کو آیات کے ذریعے ثابت مانتے ہیں چنانچہ اہل سنت بھی اسے مانتے ہیں ، کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تقیہ کو حکم کلی قرار دیا ہے.

--------------

(۱):- محسن امین، عاملی؛  نقض الوشیعہ ، ص ۱۷۹.

۱۹۴

ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ امام (ع) نے بہ عنوان حکم اولی اس بات کو خدا کی طرف نسبت دی ہے ؛ لیکن بعنوان حکم ثانوی کسی بات کو خدا کی طرف نسبت دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے .جیسے خود اللہ تعالیٰٰ نے قرآن مجید میں مجبور شخص کیلئے  مردار کھانے کوبحکم ثانوی ، جائز قرار دیا ہے

ثانیاً: شیعہ اپنے اماموں کوصرف راوی کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے بلکہ  انہیں خودشارعین میں سے مانتے ہیں .جو اپنے صلاح دید کے مطابق حکم جاری کرتےہیں .

 بجائےتقیہ؛ خاموشی کیوں اختیار نہیں کرتے؟

اشکال: تقیہ کے موقع پر امام بطور تقیہ جواب دینے کی بجائے خاموشی کیوں اختیار نہیں کرتے ؟!

جواب :

اولا: امام معصوم(ع) نےبعض موارد میں سکوت بھی اختیار کئے ہیں اور کبھی طفرہ بھی کئے ہیں اورکبھی  سوال اور جواب  کو جابجا بھی کئے ہیں .

ثانیا:سکوت خود تعریف تقیہ کے مطابق ایک قسم کاتقیہ ہے کہ جسے تقیہ کتمانیہ کہا گیاہے .

ثالثا: کبھی ممکن ہے کہ خاموش رہنا ، زیادہ  مسئلہ کو خراب کرے جیسے اگر سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس ہو تو اس کو گمراہ کرنے کیلئے تقیةً جواب دینا ہی  زیادہ فائدہ مند ہے(۱)

رابعا: کبھی امام کے تقیہ کرنے کے علل اور اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے واقعیت کے خلاف اظہار کرنا ضروری ہوجاتا ہے جیسے اپنے چاہنے والوں کی جان بچانے کی خاطر اپنے عزیز کو دشمنوں کے درمیان چھوڑنا اور یہ صرف اور صرف واقعیت کے خلاف اظہار کرکے ہی ممکن ہے

--------------

(۱):- فخر رازی؛ محصل افکار المتقدمین من الفلاسفہ والمتکلمین،ص ۱۸۲.

۱۹۵

.اور کبھی دوستوں کی جان بچانے کیلئے اہل سنت کے فتوی کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے چنانچہ امام موسیٰ کاظم(ع)نے علی ابن یقطین  کو اہل سنت کے طریقے سے وضو کرنے کا حکم دیا  گیا(۱)

تقیہ کی بجائے توریہ کیوں نہیں کرتے ؟!

شبہ: امام(ع)موارد تقیہ  میں توریہ کرسکتے ہیں، تو توریہ کیوں نہیں کرتے ؟ تاکہ جھوٹ بولنے میں مرتکب نہ ہو(۲)

اس شبہہ کا جواب:

اولاً:تقیہ کے  موارد میں توریہ کرنا خود ایک قسم کا تقیہ ہے

ثانیاً: ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر امام کیلئے ہر جگہ توریہ کرنے کا امکان ہوتا تو ایسا ضرور کرتے .

ثالثاً:بعض جگہوں پر امام کیلئے توریہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اظہار خلاف پر ناچار ہوجاتےہیں.

تقیہ اور دین کا  دفاع

شبہہ:اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ، اللہ تعالیٰٰ کے دین کی حفاظت کرنا ہے .اگر چہ اس راہ میں قسم قسم کی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑے .اور اہل بیت پیغمبر بالخصوص ان ذمہ داری کو نبھانے کیلئے زیادہ حقدار ہیں(۳)

جواب:آئمہ طاہرین نے جب بھی اصل دین کیلئے کوئی خطر محسوس کیا اور اپنے تقیہ کرنے کو اسلام پر کوئی مشکل وقت آنے کا سبب پایا تو تقیہ کو ترک کرتے ہوئے دین کی حفاظت کرنے میں مصروف ہوگئے

--------------

(۱):- ہمان ،  ص  ۱۹۳.

(۲):- وسائل شیعہ، ج۱، ص  ۲۱۳.

(۳):- ابوالقاسم، آلوسی؛ روح المعانی،ج۳، ص۱۴۴.

۱۹۶

.اور اس راہ میں اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا .جس کا بہترین نمونہ سالار شہیدان اباعبداللہ (ع) کا دین مبین اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کے علاوہ اپنے عزیزوں کی جانوں کا بھی نذرانہ دینے سے دریغ نہیں کیا لیکن کبھی ان کا تقیہ نہ کرنا اسلام پر ضرر پہنچنے ، مسلمانوں کا گروہوں میں بٹنے ، اسلام دشمن طاقتوں کے کامیاب ہونے  کا سبب بنتا تو ؛ وہ لوگ ضرور تقیہ کرتے تھے ..چنانچہ اگر علی(ع) رحلت پیغمبر (ص) کے بعد تقیہ نہ کرتے اور مسلحانہ جنگ کرنے پر اترآتے تو  اصل اسلام  خطرے میں پڑ جاتا اور جو ابھی ابھی مسلمان ہو چکے تھے ، دوبارہ کفر کی طرف پلٹ جاتے .کیونکہ امام کو اگرچہ ظاہری فتح حاصل ہوجاتی ؛ لیکن لوگ کہتے کہ انہوں نے پیغمبر کے جانے کے بعد ان کی امّت پر مسلحانہ حملہ کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا .

پس معلوم ہوا کہ آئمہ طاہرین  کا تقیہ کرنا ضرور بہ ضرور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر تھا.

تقیہ« سلونی قبل ان تفقدونی» کے منافی

امام علی(ع) فرماتے ہیں : مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان سے اٹھ جاؤں ، اور تم مجھے پانہ سکو

 اس روایت میں سوال کرنے کا حکم فرمارہے ہیں ، جس کا لازمہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ بطور  جواب فرمائیں گے  ، اسے قبول کرنا ہم پر واجب ہوگا؛ اور امام کا تقیہ کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ بعض سوال کا امام جواب نہیں دیں گے. 

جواب : یہ کلام امیر المومنین (ع) نے اس وقت فرمایا ، کہ جب آپ برسر حکومت تھے  ؛ جس وقت تقیہ کے  سارے علل و اسباب مفقود تھے .یعنی تقیہ کرنے کی ضرورت نہ تھی.اور جو بھی سوال آپ سے کیا جاتا  ،اس کا جواب تقیہ کے بغیر  کاملاً دئے جاسکتے تھے البتہ اس سنہرے موقع سے لوگوں نے استفادہ نہیں کیا .لیکن ہمارے دیگر آئمہ طاہرین کو اتنی کم مدت  کابھی موقع نہیں ملا. یہی وجہ ہے کہ بقیہ اماموں سے ایسا جملہ صادر نہیں ہوا اگرچہ شیعہ اور سنی سوال کرنے والوں  کو احکام بیان کرنے میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی .امام سجاد(ع)سے روایت  ہے کہ ہم پر لازم نہیں ہے کہ ہمارے شیعوں کے ہر سوال کا جواب دیدیں .اگر ہم چاہیں تو جواب دیں گے ، اور اگر نہ چاہیں تو گریز کریں گے(۱)

--------------

(۱):- وسائل الشیعہ، ج ۱۸، ص۴۳.

۱۹۷

تقیہ  اور  شجاعت

اس  شبہہ کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے سارے امام انسانیت کے اعلاترین کمال اور فضائل کے مرتبے پر فائز ہیں یعنی ہر کمال اور صفات بطور اتم ان میں پائے جاتے ہیں اور شجاعت بھی کمالات  انسانی میں سے ایک ہے . 

لیکن تقیہ اور واقعیت کے خلاف اظہار کرنا بہت سارے مواقع پر جانی خوف کی وجہ سے ہے

اس کے علاوہ اس سخن کا مضمون یہ ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰٰ نے ایسے رہنما اور امام بھیجے ہیں، جو اپنی جان کی خوف کی وجہ سے پوری زندگی حالت تقیہ میں گذاری(۱)

جواب: اولاً شجاعت اور تہور میں فرق ہے شجاعت حد اعتدال اور درمیانی راہ  ہے لیکن تہور افراط  اور بزدلی ، تفریط ہے .اور شجاعت کا یہ معنی نہیں کہ بغیر کسی حساب کتاب کے اپنے کو خطرے میں ڈالدے بلکہ جب بھی کوئی زیادہ اہم مصلحت خطرے میں ہو تو اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں .

ثانیاً: ہمارے لئے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ تقیہ کے سارے موارد میں خوف اور ترس ہی علت تامہ ہو ، بلکہ اور بھی علل و اسباب پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے تقیہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں .جیسے اپنے ماننے والوں کی جان بچانے کی خاطر ، کبھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ محبت اور مودت ایجاد کرنے کی  خاطر تقیہ کرتے ہیں جن کا ترس اور خوف سےکوئی رابطہ نہیں ہے .

ثالثا ً: امام کا خوف اپنی جان کی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ دین مقدس اسلام کے مصالح اور مفاد کے مد نظرامام خائف ہیں ، کہ ایسا نہ ہو ، دین کی مصلحتوں کو کوئی ٹھیس پہنچے .جیسا کہ امام حسین (ع) نے ایسا ہی کیا .

اب اس اشکال یا بہتان کا جواب کہ  آئمہ طاہرین نے اپنی آخری عمر تک تقیہ کیا ہے ؛ یہ ہے:

--------------

(۱):- کمال جوادی؛ ایرادات و شبہات علیہ شیعیان در ہند و پاکستان.

۱۹۸

اولا ً : یہ بالکل بیہودہ بات   ہے اور تاریخ کے حقائق سے بہت دور ہے .کیونکہ ہم آئمہ طاہرین کی زندگی میں دیکھتےہیں کہ بہت سارے موارد میں انہوں نے  ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بہادرانہ طور پر جنگ و جہاد کئے ہیں چنانچہ امام موسیٰ کاظم (ع)نے اس وقت ، کہ جب ہارون نے چاہا کہ باغ فدک آپ کو واپس کریں ،  ہارون الرشید کے کارندوں کے سامنے برملا عباسی حکومت کے نامشروع اور ناجائز ہونے کا اعلان فرمایا ، اور مملکت اسلامی کے حدود کو مشخص کیا .

ثانیا ً : ہدایت بشر ی صرف معارف اسلامی کا برملا بیان کرنے پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ بعض اہم اور مؤثر افراد تک اپنی بات کو منتقل کرنا بھی کافی اور باعث بنتا تھا کہ سارے لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ جائیں.

تقیہ اور تحلیل حرام و تحریم حلال

شبہہ یہ ہے کہ اگر اس بات کو قبول کرلے کہ امام بعض فقہی مسائل کا جواب بطو رتقیہ دیں گے تو  مسلماً ایسے موارد میں حکم واقعی  (حرمت) کی بجائے (حلیت ) کا حکم لگے گا اور یہ سبب بنے گا شریعت میں تحلیل حرام  اور تحریم حلال کا، یعنی حرام حلال میں بدل جائے گا اورحلال حرام میں(۱)

اس شبہہ کا جواب  یہ ہے کہ شیعوں کے نزدیک تقیہ سے مراد ؛اضطراری حالات میں بعنوان حکم ثانوی ،آیات اور روایات معصوم کی پیروی کرنا ہے .

تقیہ کا حکم بھی دوسرے احکام جیسے  اضطرار، اکراہ ، رفع  ضرر اور  حرج کی طرح ہے ، کہ ایک معین وقت کیلئے حکم اولی کو تعطیل  کرکے اس کی جگہ   تقیہ والا حکم لگایا جاتا ہے .اور ان جیسے احکام ثانوی فقہ اہلسنت  میں بھی ہر جگہ موجود ہے .

تقیہ ا یک حکم اختصاصی  ہے  یا عمومی؟

--------------

(۱):- احسان الہی ظہیر؛ السنّہ والشیعہ، ص ۱۳۶.

۱۹۹

اس حصے میں درج ذیل مسائل کی بررسی کرنے کی ضرورت ہے :

۱.  قانون تقیہ پر اعتقاد رکھنا کیا صرف شیعہ امامیہ کے ساتھ مختص ہے یا دوسرے مکاتب فکر بھی اس کے قائل ہیں ؟اور اسے ایک الہی قانون کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں ؟!

۲.  کیا تقیہ کوئی ایسا حکم ہے جو ہرجگہ اور ہرحال میں جائز ہے یا اس کے لئے بھی خاص زمان یا مکان اور دیگر اسباب کا خیال رکھنا واجب ہے ؟

۳.  کیا حکم تقیہ ،متعلّق کے اعتبار سے  عام ہے یا نہیں ؟ بطوری کہ سارےلوگ  ایک خاص شرائط میں اس پر عمل کرسکتے ہیں ؟  یا بعض لوگ بطور استثنا ہر عام و خاص شرائط کے بغیر  بھی تقیہ کرسکتے ہیں ؟جیسے : پیغمبر و امام(ع)؟

جواب: دو احتمال ہیں :

۱ـ تقیہ یک حکم ثانوی عام  ہے کہ سارے لوگ جس سے استفادہ کرسکتے ہیں .

۲ـ پیغمبران تقیہ سے مستثنی ہیں کیونکہ عقلی طور پر مانع موجود  ہے شیخ طوسی اور اکثر مسلمانوں نے دوسرے  احتمال  کو قبول کئے ہیں کہ پیغمبر کیلئے  تقیہ جائز نہیں ہے .کیونکہ اس کی شناخت اور علم اور رسائی صرف اور صرف  پیغمبر  کے پاس ہے 

اور صرف  پیغمبر  اور ان کے فرامین کے ذریعے شریعت کی شناخت اور علم ممکن ہے .پس جب پیغمبر  کیلئے تقیہ جائز ہو جائے تو ہمیں کوئی اور راستہ باقی نہیں رہتا جس کے ذریعے اپنی تکلیف اور شرعی وظیفہ کو پہچان لیں اور اس پر عمل کریں(۱) اسی لئے فرماتے ہیں :فلا یجوز علی الانبیاء قبائح و لا التقیة فی اخبارهم لا نّه یؤدی الی التشکیک (۲)

--------------

(۱):- محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی،ص ۳۲۸.

(۲):- التبیان ، ج۷ ، ص  ۲۵۹. 

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255