شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات23%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218469 / ڈاؤنلوڈ: 6978
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ادراك: ادراك كے موانع ۵

دينى معاشرہ : دينى معاشرے كى تباہى كے عوامل ۲

فسادى لوگ: ۱

قلب: قلبى بيمارى كے اثرات و نتائج ۵

مجرمين : ۱ ،۲

منافقين : منافقين اور اصلاح پسندى ۳; منافقين كا فساد و تباہى پھيلانا ۱ ، ۲، ۳ ،۴ ، ۵ ، ۶ ، ۷; منافقين كى جہالت ۴; منافقين كى حركات كے مقابل ہوشيار رہنا ۷; منافقين كى صفات ۱،۶; منافقين كى قلبى بيمارى ۵;منافقين كے جرائم ۱ ،۲ ، ۷;منافقين كے دعوے ۳

مومنين : مومنين اور منافقين ۶; مومنين كا ہوشيار رہنا ۷

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاء وَلَكِن لاَّ يَعْلَمُونَ ( ۱۳ )

جب ان سے كہا جاتاہے كہ دوسرے مومنين كى طرح ايمان لے آؤ تو كہتے ہيں كہ ہم بيوقوفوں كى طرح ايمان اختيار كرليں حالانكہ اصل ميں يہى بيوقوف ہيں اور انھيں اس كى واقفيت بھى نہيں ہے _

۱ _ پيامبر اسلام(ص) نے منافقين سے چاہا كہ وہ باقى لوگوں كى طرح ايمان لے آئيں _و اذا قيل لهم ء امنوا كما ء امن الناس بعد والى آيت ميں ہے كہ منافقين لوگوں كے سامنے ايمان كا اظہار كرتے تھے لہذا احتمال يہ ہے كہ پيامبر اسلام (ص) اور منافقين كے مابين گفتگو ہوئي ہو جس ميں انہوں نے اپنى بے ايمانى كا اظہار كيا _

۲ _ عام لوگ پيامبر اسلام (ص) اور دين اسلام پر ايمان لانے ميں سچے تھے _آمنوا كما آمن الناس

۳ _ سچے مومنين منافقين كى نظر ميں بے وقوف اور احمق لوگ ہيں _قالوا ا نومن كما آمن السفهاء

۶۱

۴ _ اہل نفاق نے بيمار دل ہونے كے باعث اہل ايمان پر حماقت كى تہمت لگائي _فى قلوبهم مرض أنومن كما آمن السفهاء

۵ _ تكبر اور اپنى بڑائي بيان كرنا اور سچے مومنين كى تحقير كرنا منافقين كى صفات ميں سے ہے_أنومن كما آمن السفهاء

۶ _ منافقين نے مومنين پر حماقت كى تہمت لگاكر دعوت ايمان كو قبول نہ كيا _قالواأانومن كما آمن السفهاء

۷ _ منافقين خود كو بڑے عاقل اور روشن فكر سمجھتے ہيں _أنومن كما آمن السفهاء

۸ _ منافقين خود ہى بے عقل اور احمق ہيں _الاانهم هم السفهاء اس جملے ''الا انهم ...'' ميں خبر پر موجود ''ال'' اور ضمير فصل حصر پر دلالت كرتے ہيں اصطلاح ميں اسے حصر اضافى كہتے ہيں پس جملے كا معنى يہ بنتاہے _ منافقين ہى احمق ہيں نہ كہ سچے مومنين_

۹_ منافقين اپنى حماقت و كم عقلى سے بے خبر ہيں _الا انهم هم السفهاء و لكن لا يعلمون

۱۰_ نيكيوں كو برائي سمجھنا اور برائيوں كو نيكى تصور كرنا منافقين كى خصوصيات ميں سے ہے_اذا قيل و اذا قيل لهم آمنوا قالواانومن كما آمن السفهاء يہ مطلب اس سے اخذ ہوتاہے كہ منافقين فساد، خرابى اور تباہى كو اصلاح اور ايمان كو حماقت و بے عقلى تصور كرتے ہيں _

ايمان : ايمان كے متعلقات ۲;ايمان ميں صداقت ۲; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۱

قلب: بيمارى قلب كے نتائج و اثرات ۴

منافقين : منافقين اور روشن فكرى ۷; منافقين اور مومنين ۳، ۴،۵،۶; منافقين كا ايمان سے اجتناب ۶; منافقوں كا تكبر ۵; منافقوں كو ايمان كى دعوت ۱;منافقوں كى جہالت ۹; منافقين كى حماقت ۸،۹; منافقين كى صفات ۵، ۸ ، ۱۰;منافقين كے توہمات۷;منافقين كے قلب كى بيمارى ۴

منكر يا برائي : برائي كو نيكى ( معروف) تصور كرنا ۱

مومنين: صدر اسلام كى مومنين كى صداقت ۲; مومنين پر حماقت و بے عقلى كى تہمت ۳،۴; مومنين كے تحقير ۵

نيكياں يا معروف : نيكيوں كو منكر (برائي) تصور كرنا ۱۰

۶۲

وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِؤُونَ ( ۱۴ )

جب يہ صاحبان ايمان سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم ايمان لے آئے اور جب اپنے شياطين كى خلوتوں ميں جاتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم تمھارى ہى پارٹى ميں ہيں ہم تو صرف صاحبان ايمان كا مذا ق اڑاتے ہيں _

۱ _ منافقين جب مومنين كے درميان ہوتے ہيں تو ايمان كا اظہار كرتے اور اپنے آپ كو مسلمان ثابت كرنے كى كوشش كرتے _و اذالقوا الذين آمنوا قالوا آمنا

۲ _ بعثت النبى ( صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ) كے زمانے كے منافقين دو گروہوں پر مشتمل تھے _ ايك منافقوں كے سربراہ اور دوسرے ان كے پيروكار_و اذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا و اذا خلوا الى شياطينهم

''شياطينہم'' سے مراد منافقوں كے سردار ہيں ان كو شيطان قرار دينا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ سازشيں تيار كرنے اور لائحہ عمل دينے والے لوگ يہى تھے_ يہاں قابل ذكر نكتہ يہ ہے كہ منافقين كے سردار وں كا بھى منافق ہونا احتمال كى صورت ميں پيش كيا گيا ہے_

۳ _ صدر اسلام كے منافقين اپنے سرداروں ، رہبروں كے ساتھ مخفى ملاقاتيں كرتے تا كہ اسلام و مسلمين كے خلاف سازشيں تيار كريں _

و اذا خلوا الى شياطينهم

'' خلا بہ واليہ'' اسكا معنى يہ ہے كہ اس نے اس كے ساتھ خلوت ( ميں ملاقات) كى _ بعض كا كہناہے كہ ''خلا'' جب ''الي'' كے ساتھ متعدى ہوتاہے تو اس ميں ''جانے'' كا مفہوم بھى پايا جاتاہے بنابرايں '' و اذا خلوا ...'' كا معنى يہ ہوا ''و اذا ذہبوا الى شياطينہم خالين بھم'' يعنى جب وہ اپنے سرداروں كى طرف جاتے تو ان كے ساتھ خلوت نشين ہوتے_

۴ _ منافقين كے گرو يا سربراہ سازشيں تيار كرنے والے شرير اور شياطين كى طرح ہيں _و اذا خلوا الى شياطينهم

۶۳

۵ _ صدر اسلام كے منافقين جب اپنے سربراہوں كى محفل ميں ہوتے تواپنے ہم مذہب،ہم عقيدہ (يعنى اسلام كا انكار) ہونے پر تاكيد كرتے_و اذا خلوا الى شياطينهم قالوا انا معكم

۶_ منافقوں كے اظہار اسلام كا ہدف مسلمانوں اور ايمانى معاشرے كا مذاق اڑانا ہے_قالوا آمنا انما نحن مستهزء ون

۷_ بعثت النبى ( صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ) كے زمانے ميں منافقت كى تحريك كے سربراہ اپنے پيروكاروں كے اسلام كى طرف رغبت سے پريشان تھے_قالوا انا معكم انما نحن مستهزؤن '' انما ...'' ميں حصر اضافى ہے اور '' حصر قلب'' كى ايك قسم ہے ايسے حصر كا استعمال وہاں ہوتاہے جہاں متكلم مخاطب كيلئے پيش آنے والے وہم كو دور كرنا چاہتاہو_ اس جملے ''انما نحن ...'' ميں (سرداروں كا) تو ہم ( جو دور كيا جارہاہے) يہ ہے كہ وہ منافق جو پيروكار ہيں اسلام كى طرف راغب ہوگئے ہيں _

۸_ منافقوں كا ظاہرى طور پر مسلمانوں والے اعمال انجام دينا ہرگز اس ليئے نہيں ہوتا كہ منافقوں كو كچھ تھوڑى سى بھى دين سے رغبت ہے_قالوا انا معكم انما نحن مستهزؤن ''انما نحن ...'' ميں موجود حصر گويا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے يعنى ہم ايمان يا مومنين والے اعمال جو انجام ديتے ہيں انكا مقصد صرف مذاق اڑاناہے_

۹ _روى عن ابى جعفر عليه‌السلام '' فى قوله شياطينهم'' انهم كهانهم (۱) امام باقر عليہ السلام سے روايت ہے كہ آيہ مجيدہ ميں شياطينہم سے مراد يہودى كا ہن ہيں _

اسلام : اسلام كے خلاف سازشيں ۳ / حديث : ۹

دينى معاشرہ : دينى معاشرے كا مذاق اڑانا ۶

مسلمان: مسلمانوں كا مذاق اڑانا ۶; مسلمانوں كے خلاف سازشيں ۳

منافقين : پيروكار منافقين ۲; صدر اسلام كے منافقين ۲، ۳، ۵، ۷; منافقين اور مومنين ۱; منافقين كااسلام ظاہر كرنا ۱،۶،۸; منافقين كا كفر ۵; منافقوں كا مذاق ۶; منافقوں كى تنظيم ۳; منافقين كى سازشيں ۳; منافقين كى منافقت ۱; منافقين كے جرائم ۳; منافقين كے رہبروں كى پريشانى ۷;منافقين كے رہبروں كى شيطنت ۴; منافقين كے رہبروں كى شيطانى حركات ۴; منافقين كے سردار ۲; منافقين كے سرداروں كى سازشيں ۴; منافقين كے شياطين ۹;منافقين كے كاہن ۹

____________________

۱) تبيان شيخ طوسى ج/۱ ص ۷۹ ، مجمع البيان ج/۱ ص ۱۴۰_

۶۴

اللّهُ يَسْتَهْزِىءُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ( ۱۵ )

حالانكہ خدا خود ان كو مذاق بنائے ہوئے ہے اور انھيں سركشى ميں ڈھيل ديئے ہوئے ہے جو انھيں نظر بھى نہيں آرہى ہے_

۱_ اللہ تعالى نے منافقين كو ذليل و خوار كركے ان كا مذاق اڑايا _

الله يستهزيء بهم

''استهزائ ' 'كا معنى تمسخر اڑاناہے_ ہدف يہ ہے كہ جسكا تمسخر اڑايا گياہے اس كو ذليل و خوار كيا جائے_

۲ _ اللہ تعالى كى جانب سے منافقين كو ''استہزائ'' كرنا يہ اس عمل كى سزا تھى جو وہ اسلام اور ايمانى معاشرے كا مذاق اڑاتے تھے_

انما نحن مستهزء ون _ الله يستهزيء

اس آيہ مجيدہ ميں تمسخر كرنے والے منافقين كى سزا بيان كى گئي ہے_

۳ _ منافقين گمراہى و سركشى كى وادى ميں متحير و سرگرداں ہيں _

يمدهم فى طغيانهم يعمهون

'' يعمہون'' كا مصدر '' عَمَہ'' ہے جسكا معنى حيرت و سرگردانى ہے _ '' يمدھم'' ميں ''ہم''

كے لئے يعمہون حال واقع ہوا ہے اور '' فى طغيانہم'' يمدہم سے متعلق ہونے كے علاوہ يعمہون سے بھى متعلق ہوسكتاہے_ پس جملے كا معنى يوں ہوگا منافقين در آں حاليكہ گمراہى و سركشى ميں سرگرداں ہيں اللہ تعالى انكى سركشى ميں اضافہ كرتاہے_

۴ _ اہل نفاق كى سركشى و سرگردانى ميں مسلسل اضافہ ہورہاہے _

يمدهم فى طغيانهم يعمهون

''يمدّ'' كا مصدر ''مدّ'' ہے جسكا معنى اضافہ كرنا يا مہلت دينے كے ہيں _مذكورہ مطلب پہلے معنى سے ماخوذ ہے_

۵ _ اہل نفاق كى حيرت و سركشى ميں اضافہ اللہ تعالى كى جانب سے سزا كے طور پر ہے_

يمدهم فى طغيانهم يعمهون

۶_ اللہ تعالى كى جانب سے سزا گناہگاروں كے گناہ كے مطابق ہے_انما نحن مستهزؤن _ الله يستهزيء بهم

۶۵

۷ _ منافقين، گمراہوں اور سركشوں كو مہلت دينا اللہ تعالى كى سنتوں ( روشوں ) ميں سے ايك سنت ہے_

و يمدهم فى طغيانهم يعمهونيہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' مدّ'' كا معنى مہلت دينا مراد ليا جائے لسان العرب ميں آياہے ''مده فى غيه''يعنى _ امهله_ اسكو مہلت دى _

۸ _ منافقين كو انكى سركشى اور سرگردانى ميں مہلت دينا اللہ تعالى كى جانب سے انكا تمسخر ہے_الله يستهريء بهم و يمدهم فى طغيانهم يعمهون يہ مطلب اس بناپر ہے اگر جملہ '' يمدھم ...'' ، ''الله يستهزيء بهم'' كے لئے بيان اور تفسير ہو _

۹ _ صادق و سچے مومنين اللہ تعالى كى بارگاہ ميں نہايت عزيز و محترم ہيں _

انما نحن مستهزؤن _ الله يستهزيء بهماللہ تعالى نے اپنے مومنين كا منافقين كى طرف سے تمسخر كا جواب دياہے اور اسكا دفاع فرماياہے جملے كا آغاز اپنے باعظمت و جلال اسم '' اللہ'' سے فرماياہے اور خود كو انكا تمسخر كرنے كا جواب دياہے_ اس طرح كا برتاؤ كرنا اس ميں بہت سارے نكات ہيں ان ميں سے ايك يہ ہے كہ مومن كى اللہ تعالى كے ہاں بہت عزت و منزلت ہے_

۱۰_ تمسخر كى سزا اگر تمسخر ہو تو ناپسنديدہ نہيں ہے _انما نحن مستهزء ون_الله يستهزيء بهم

۱۱ _ امام رضا (عليہ السلام) سے روايت ہے _

''ان الله تبارك و تعالى لا يسخر و لايستهزي ...ولكنه عزوجل يجازيهم جزاء السخريةوجزاء الاستهزائ ...''(۱) اللہ تعالى كسى كا بھى تمسخر اور استہزاء نہيں كرتا بلكہ اسكى صاحب عزت و جلال ذات منافقين كو ان كے تمسخر اور استہزاء كى سزا ديتى ہے_

استہزاء : جائز استہزاء ۱۰; استہزاء كى سزا ۱۰

اسلام: اسلام كے تمسخر اڑانے كى سزا ۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا تمسخر كرنا ۱، ۲ ، ۸، ۱۱; اللہ تعالى كا سزا دينا ۵ ، ۶; سنن الہى ۷

پاداش: پاداش دينے كا نظام ۶;گناہ كا پاداش سے تناسب۶

حديث : ۱۱

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۱۶۳ ح /۱ باب ۲۱ ، نورالثقلين ج/۱ص ۳۵ ح ۲۳_

۶۶

دينى معاشرہ : دينى معاشرے كے تمسخر اڑانے كى سزا ۲

سركش: سركشوں كو مہلت دينا ۷

سنن الہي: مہلت دينے كى الہى سنت ۷

گمراہ: گمراہوں كو مہلت دينا ۷

منافقين : منافقين كا تمسخر ۱، ۲، ۸; منافقين كو مہلت دينا ۷،۸;منافقين كى تحقير ۱; منافقين كى سركشى ۳ ، ۸; منافقين كى سركشى ميں اضافہ ۴،۵ ; منافقين كى سرگردانى ۳،۸; منافقين كى سرگردانى ميں اضافہ ۴،۵; منافقين كى سزا ۵; منافقين كى گمراہى ۳;منافقين كے تمسخر كى سزا ۲،۱۱

مومنين: مومنين كى عزت ۹; مومنين كى منزلت و درجات ۹

أُوْلَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ ( ۱۶ )

يہى وہ لوگ ہيں جنھوں نے ہدايت كو دے كر گمراہى خريدلى ہے جس تجارت سے نہ كوئي فائدہ ہے اور نہ اس ميں كسى طرح كى ہدايت ہے _

۱_ منافقين ہدايت كے كھوجانے اور ضائع كردينے كے مقابل گمراہى كے خريدار ہيں _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدي

۲ _ بعثت النبى (ص) كے زمانے ميں منافقين كے ہدايت حاصل كرنے كے تمام امكانات موجود تھے_اشترو الضلالة بالهدي آيہ مجيدہ ميں ہدايت كو انكا سرمايہ شمار كيا گيا ہے_ در آں حاليكہ منافقين نے ہدايت نہ پائي پس آيہ مباركہ اس حقيقت كى طرف اشارہ كرتى ہے كہ ہدايت كے تمام تر امكانات اور خارجى اسباب گويا ان كے اختيار ميں تھے_

۳_ منافقين كى تجارت ( ہدايت كے مقابلے ميں گمراہى خريدنا) ايسى تجارت ہے جس ميں كوئي سود و منفعت نہيں ہے_

فما ربحت تجارتهم

۶۷

۴ _ منافقين اپنے حقيقى سود و زياں سے آگاہى نہيں ركھتے _و ما كانوا مهتدين

ما قبل جملوں كى روشنى ميں '' مہتدين'' سے مراد حقيقى سود و زياں ہے گويا آيت كا مفہوم يہ ہے:و ما كانوا مهتدين الى منافعهم و مضارهم

۵_ اہل نفاق كا گمراہى اختيار كرنے اور ہدايت كو كھودينے كا سبب اپنے حقيقى سود و زياں سے عدم آگاہى ہے_اولئك الذين اشتروا الضلالة و ما كانوا مهتدين

''ما كانوا مهتدين'' كا جملہ''اشتروا الضلالة بالهدى '' پر عطف ہے گويا اسكى دليل كے طور پرہے_ يعنى يوں ہے: چونكہ اپنے حقيقى سود و زياں سے آگاہ نہيں ہيں اس لئے انہوں نے ايسى تجارت كى ہے_

۶ _ انسان كا حقيقى نقصان و زياں اس ميں ہے كہ وہ گمراہى اختيار كرے اور ہدايت كو كھودے_اشتروا الضلالة بالهدى فما ربحت تجارتهم

۷ _ منافقين اسلام كے فقط اظہار سے اپنے مقاصد (مفادات كا حصول اور اسلام كو نقصان پہنچانا) ميں كاميابى حاصل نہيں كرسكتے _و ما كانوا مهتدين

يہ مطلب اس صورت ميں ہے كہ '' مھتدين'' كامتعلق منافقوں كے مقاصد ہوں يعنى مراد يہ ہو :و ما كانوا مهتدين الى مقاصدهم _ بعد والى آيات اس مطلب كى تائيد بھى كرتى ہيں _

گمراہي: گمراہى كا زياں ۶

منافقين: صدر اسلام كے منافقين ۲; منافقوں كا اظہار اسلام ۷; منافقوں كا نقصان۴;منافقوں كى تجارت ۳; منافقين كى جہالت ۴;منافقين كى جہالت كے اثرات و نتائج ۵; منافقوں كى سازشيں ۷; منافقوں كى شكست ۷; منافقين كى گمراہى ۱،۳; منافقين كى گمراہى كے عوامل ۵; منافقين كى ہدايت ۲; منافقين كى ہدايت فروشى ۱، ۳، ۵

نقصان و زيان: نقصان كے عو امل ۶

۶۸

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَ ( ۱۷ )

ان كى مثال اس شخص كى ہے جس نے روشنى كے لئے آگ بھڑكائي اور جب ہر طرف روشنى پھيل گئي تو خدا نے اس نور كو سلب كرليا اور اب اسے اندھيرے ميں كچھ سوجھتا بھى نہيں ہے _

۱ _ منافقين كا اظہار ايمان كرنا ايسے شخص كى مانند ہے جو تاريكى سے نجات كے لئے بہت جلد بجھنے والى آگ روشن كرے_

مثلهم كمثل الذى استوقد ناراً فلما اضاء ت ما حوله ذهب الله بنورهم

''استوقد '' كا مصدر استيقاد ہے جسكا معنى آتش روشن كرنا ہے ''لما'' حرف شرط ہے جبكہ اسكا جواب محذوف ہے اور يہ جملہ ''ذہب اللہ ...'' اس كے جواب كى طرف اشارہ ہے گويا مطلب يوں ہوا : جيسے ہى آگ نے اس كے اطراف ميں روشنى پھيلائي تو بجھ گئي اور وہ تاريكى ميں رہ گيا_

۲_ منافقين ايمان كا مظاہرہ كركے اپنے مفادات كا حصول اور معاشرتى مشكلات سے چھٹكار اچاہتے ہيں _

مثلهم كمثل الذى استوقد ناراً ذهب الله بنورهم

منافقين كو ايسے آدمى سے تشبيہ دى گئي ہے جو تاريكى ميں بہت جلد بجھنے والى آگ جلاتاہے_

اس سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ كافر ايمانى معاشرے ميں سماجى مشكلات سے دوچار ہے لہذا مجبوراً ايمان كا اظہار كرتاہے تا كہ ان مشكلات سے نجات حاصل كرسكے ليكن اللہ تعالى بہت جلد ہى اسكو ذليل و رسوا كرديتاہے_

۳ _ منافقين كو ايمان كا مظاہرہ كرنے سے بہت ہى كم اور ناپائيدار مفادات حاصل ہوتے ہيں _فلما اضاء ت ما حوله ذهب الله بنورهم

۴ _ منافقين اپنے ايمان كے مظاہرے سے سوء استفادہ كرپائيں اللہ تعالى اس فرصت كو بہت محدود فرماديتاہے_ذهب الله بنورهم

۵ _ ايمان كے مظاہرے سے كچھ فائدے حاصل ہوتے ہيں اگرچہ يہ فوائدناپائيدار اورزودگذرہوتے ہيں _فلما اضائت ما حوله ذهب الله بنورهم

۶_ كچھ لوگ اگر چہ ان كا ايمان صادق ہوتاہے ليكن

۶۹

اس كے باوجود منافقت كى طرف مائل اور منافقين ميں سے ہوجاتے ہيں _ذهب الله بنورهم اس جملے ''ذہب اللہ بنورہم'' ميں ان كى تعريف كى گئي ہے كہ جو نور ركھتے تھے اس اعتبار سے مذكورہ بالا مفہوم اخذ كيا جاسكتاہے گويا آيہ مباركہ بيان فرمارہى ہے كہ منافقين كا ايك گروہ ايسا ہے جو شروع ميں حقيقى ايمان لے آيا ليكن بعض عوامل و اسباب كى بناپر منافق ہوگيا_ اس بات كى تائيد بعد والى آيت كا يہ جملہ ہے'' فهم لا يرجعون''

۷_ اللہ تعالى منافقوں كو نور ايمان سے محروم كركے انتہائي سخت تاريكيوں ميں مبتلا كرتاہے_ذهب الله بنورهم و تركهم فى ظلمات لا يبصرون ''ظلمات'' نكرہ استعمال ہوا ہے اس سے تاريكى كى شدت و سختى مراد ہے_

۸_گمراہى كے مختلف شعبے اور اسكے مختلف چہرے ہيں _و تركهم فى ظلمات لا يبصرون يہ مطلب '' ظلمات _ تا ريكياں اور گمراہياں '' كے جمع استعمال ہونے سے ماخوذ ہے_

۹_ منافقين سے نور ايمان سلب ہونے كے بعد ہدايت كى كوئي راہ باقى نہيں رہي_و تركهم فى ظلمات لا يبصرون جملہ'' تركهم فى ظلمات'' يہ بيان كرتاہے كہ منافقين كو تاريكيوں نے مكمل طور پر گھير ركھاہے لہذا نجات كى كوئي راہ نہيں ہے جملہ''لا يبصرون_ وہ نہيں ديكھتے'' حكايت كرتاہے كہ ديكھنے اور ہدايت ہونے كے وسائل و امكانات نابود ہوچكے ہيں بالفاظ ديگر نہ صرف يہ كہ ہدايت كى راہ ميں ركاوٹيں ايجاد ہوچكى ہيں بلكہ ان ميں ہدايت قبول كرنے كى صلاحيت ہى ختم ہوچكى ہے_

۱۰_ منافقين كو بہت كم مدت روشنى كے بعد تاريكى و گمراہى ميں رہنے دينا اللہ تعالى كى جانب سے ان كا استہزاء ( تمسخر) تھا_الله يستهزيء بهم فلما اضاء ت ما حوله ذهب الله بنورهم ممكن ہے اس جملے ''الله يستهزي بهم و يمدهم'' كے لئے توضيحى جملہ مثال كى صورت ميں يہ جملہ ہو'' فلما اضا ء ت ما حوله ...''

۱۱ _ ابراہيم بن ابى محمود كہتے ہيں :'' سألت ابا الحسن الرضا عليه‌السلام عن قول الله تعالى ''و تركهم فى ظلمات لا يبصرون''فقال ...منعهم المعاونة و اللطف وخلى بينهم و بين اختيارهم (۱) ميں نے امام رضاعليه‌السلام سے سوال كيا اللہ تعالى كے اس قول''وتركہم فى ظلمات لا يبصرون'' كا كيا مطلب ہے؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا يعنى ان كو اپنى مدد اور لطف و كرم سے محروم كرتاہے اور ان كو ان كے حال پر چھوڑ ديتاہے_ اللہ تعالى : اللہ تعالى كا استہزاء ( تمسخر) كرنا ۱۰; اللہ تعالى كے افعال۷; امداد الہى سے محروم ہونا ۱۱

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج/۱ ص ۱۲۳ ح ۱۵ باب۱۱، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۳۶ ح ۲۶_

۷۰

ايمان: اظہار ايمان كے اثرات و نتائج ۵; ايمان سے محروم لوگ ۷; نور ايمان ۷ ، ۹

تاريكي: تاريكى كے درجات ۷

تشبيہات: آگ جلانے والے سے تشبيہ ۱

حديث: ۱۱

قرآن كريم : قرآن كريم كى مثاليں ۱

گمراہي: گمراہى كى اقسام ۸

منافقت: منافقت كى طرف مائل ہونے والے ۶

منافقين : ۶ منافقين تاريكى ميں ۷ ، ۱۰; منافقين كا استہزاء كرنا ۱۰; منافقين كا اظہار اسلام ۱،۲،۳،۴; منافقين كو مہلت دينا ۴; منافقين كى گمراہى ۹،۱۰; منافقين كى محروميت ۷; منافقين كى مفادپرستى ۲; منافقين كى ہدايت ۹

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ ( ۱۸ )

يہ سب بہرے ، گونگے اور اندھے ہوگئے ہيں اور اب پلٹ كر آنے والے نہيں ہيں _

۱_ ظلمت و گمراہى ميں رہنے والے منافقين بہرے، گونگے اور نابينا افراد كى طرح ہيں _

تركهم فى ظلمات لا يبصرون_صم بكم عمي صم بكم، عمى بالترتيب اصم ( بہرہ)ابكم ( گونگا) اوراعمى ( اندھا) كى جمع ہے _ يہ كلمات مبتدائے محذوف كى خبر ہيں جو ''ہم'' ہے اور ماقبل آيت ميں ان لوگوں ( ظلمتوں ميں گھرے ہوئے منافقين ) كا ذكر ہوا ہے_

۲_ منافقين حق سننے ، حق ديكھنے اور حق بولنے كى توانائي نہيں ركھتے_صم بكم عمي

۳ _ منافقين معارف الہى اور دينى حقائق كے ادراك و تشخيص سے ناتواں ہيں _صم بكم عمي

۴ _ حقائق كے سننے، ديكھنے اور كہنے سے عاجزى و ناتوانى وہ ظلمتيں ہيں جن سے منافقين دوچار ہيں _و تركهم فى ظلمات لا يبصرون _ صم بكم عمي يہ آيہ مباركہ ممكن ہے ''ظلمات '' اور''لا يبصرون'' كے لئے تفسير ہو_

۵ _ گمراہيوں كى ظلمت ميں گھرے ہوئے منافقين كے پاس راہ نجات نہيں ہے اور يہ لوگ حقيقى ايمان كى طرف نہيں لوٹ سكتے_صمٌ بكمٌ عميٌ فهم لا يرجعون

تشبيہات: اندھے سے تشبيہ ۱;بہرے سے تشبيہ ۱; گونگے سے تشبيہ ۱

۷۱

ظلمت: ظلمت كے موارد ۴،۵

قرآن كريم: قرآن كريم كى تشبيہات ۱

گمراہي: گمراہى كى ظلمت ۵

منافقين : منافقين اور حق بينى ۲; منافقين اور حق گوئي ۲; منافقين كا اندھاپن ۱; منافقين كا برا ادراك ۳،۴; منافقين كا بہرہ پن ۱;منافقين كا حق نہ سننا۲، ۴; منافقين كا عجز ۳،۴; منافقين كا گونگا پن ۱; منافقين كا ہدايت قبول نہ كرنا ۵;منافقين ظلمت ميں ۱، ۴ ، ۵; منافقين كى گمراہى ۱، ۵;منافقين كے پاس ادراك كى صلاحيت نہ ہونا ۳، ۴

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاء فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصْابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ واللّهُ مُحِيطٌ بِالْكافِرِينَ ( ۱۹ )

ان كى دوسرى مثال آسمان كى اس بارش كى ہے جس ميں تاريكى اور گرج چمك سب كچھ ہو كہ موت كے خوف سے كڑك ديكھ كر كانوں ميں انگلياں ركھ ليں حالانكہ خدا كافروں كا احاطہ كئے ہوئے ہے اور يہ بچ كر نہيں جاسكتے ہيں _

۱ _ اسلام اور قرآن انسانى حيات كا سرمايہ اوررشد و تكامل كاباعث ہيں _او كصيب

۲ _ قرآن كريم منافقين كے لئے ايسى بارش كى مانندہے جو تاريك و خوفناك رات ميں بجلى اور گرج چمك كے ساتھ ہو _او كصيب من السماء فيه ظلمات و رعد و برق

۳ _ قرآن كريم اہل نفاق كے لئے ظلمت و وحشت آفرين ہے اور بعض اوقات روشنى بخش ( بعض زودگذر مفادات كا ذريعہ) بھى ہے _فيه ظلمات و رعد و برق

۴ _ منافقين قرآنى معاشرے ميں اور اسلام كے مقابل خود كو نابودى و زوال ميں تصور كرتے تھے_يجعلون اصابعهم فى آذانهم من الصواعق حذر الموت

۵ _ كفار ہر طرف سے اللہ تعالى كى قدر ت و سلطنت ميں گھرے ہوئے ہيں _والله محيط بالكافرين

۶_ منافقين كفار كے زمرے ميں ہيں _والله محيط بالكافرين

۷_ شكست، ناكامى اور زوال منافقين كا انجام ہے_والله محيط بالكافرين

۸ _ منافقين قرآن كريم كى عظمت و شہرت اور اسلام كے پھيلاؤ كے مقابل اس كے سوا كوئي چارہ نہيں ركھتے مگر يہ كہ يہ اظہار كريں انہيں تو سنائي ہى نہيں دے رہا_يجعلون اصابعهم فى آذانهم من الصواعق حذر الموت

اسلام: اسلام كى اہميت و كردار ۱; اسلام كى خصوصيات ۱

۷۲

اسماء و صفات: محيط ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا احاطہ ۵

تشبيہات: تاريكى ميں بارش سے تشبيہ ۲; تاريكى ميں بجلى سے تشبيہ ۲; تاريكى ميں بجلى كڑكنے سے تشبيہ۲

حيات: حيات كے عوامل ۱

رشد و تكامل: رشدو تكامل كے عوامل ۱

قرآن كريم : قرآن كريم اور منافقين ۲،۳; قرآن كريم كى اہميت و كردار ۱;قرآن كريم كى تشبيہات ۲; قرآن كريم كى خصوصيات ۱

كفار: ۶ كفار اللہ تعالى كے گھيرے ميں ۵

منافقين : منافقين اور اسلام ۸; منافقين اور قرآن ۸ ; منافقين دينى معاشرے ميں ۴;منافقين كا انجام ۷;منافقين كا حق نہ سننا ۸; منافقين كا كفر ۶;منافقين كى شكست ۷; منافقين كى ہلاكت ۷

يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاء لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۲۰ )

قريب ہے كہ بجلى ان كى آنكھوں كو چكا چوند كردے كہ جب وہ چمك جائے تو چل پڑيں اور جب اندھيرا ہوجائے تو ٹھہر جائيں خدا چاہے تو ان كى سماعت و بصارت كو بھى ختم كرسكتاہے كہ وہ ہر شے پر قدرت و اختيار ركھنے والا ہے _

۱ _ منافقين اسلام كى سربلندى اور پيشرفت كے مقابلے ميں خو د كو درماندہ اور بندگلى ميں ديكھتے ہيں _يكاد البرق يخطف ابصارهم ان آيات ميں اسلام كے مقابلے ميں منافقين كى حالت كو چند تشبيہات سے بيان كيا گياہے_ مفسرين كا كہناہے اس جملے'' يكاد البرق ...'' ميں اسلام اور اس كى بركت سے ملنے والے وسائل و امكانات كو '' برق _ بجلي'' سے تشبيہ دى گئي ہے اسكے ساتھ ہى ان نعمتوں سے مفادپرست اور موقع پرست منافقين كے فائدہ اٹھانے كو ايك اور تشبيہ سے بيان كيا گيا ہے_

۲ _ منافقين باوجود اس كے كہ اسلام كے مقابلے ميں درماندہ و زبوں حال ہيں پھر بھى اپنى موقع پرستى كے ذريعے اسلام كى نعمتوں سے استفادہ كرنے كے در پے ہيں _كلما اضاء لهم مشوا فيه

۷۳

۳ _ اسلامى معاشرے كى سہولتوں اور فوائد سے استفادہ كرنا ليكن مشكلات اور سختيوں كے وقت عليحدہ رہنا منافقين كى خصوصيات ميں سے ہے_و اذا اظلم عليهم قاموا

۴ _ اللہ تعالى نے بعض منافقين كے ادراك و فہم كى صلاحيت سلب فرماكر انہيں ايسا بنادياہے كہ وہ حق قبول نہيں كرسكتے اور بعض كو ہدايت قبول كرنے كى مہلت عنايت فرمائي ہے_و لو شاء الله لذهب بسمعهم و ابصارهم

۵_ منافقين اس بات كے سزاوار ہيں كہ انہيں معارف الہى كى شناخت سے محروم كرديا جائے_و لو شاء الله لذهب بسمعهم و ابصارهم

۶ _ اللہ تعالى ہر كام انجام دينے پر قادر ہے _ان الله على كل شيء قدير

۷ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ''قيل لامير المومنين عليه‌السلام هل يقدر ربك ان يدخل الدنيا فى بيضة من غير ان تصغر الدنيا و تكبر البيضه؟ قال ان الله تبارك و تعالى لا ينسب الى العجز والذى سألتنى لا يكون (۱)

امير المومنينعليه‌السلام سے سوال كيا گيا : كيا اللہ تعالى دنيا كو مرغى كے انڈے ميں قرار دے سكتاہے بغير اس كے كہ دنيا چھوٹى ہوجائے اور انڈا بڑا ہوجائے؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا اللہ تبارك و تعالى كى ذات اقدس كو عاجزى كى نسبت نہيں دى جاسكتى ليكن جو تو نے پوچھا ہے وہ ہوہى نہيں سكتا_

اسلامى معاشرہ : اسلامى معاشرے سے استفادہ كرنا ۳

اسماء و صفات: قدير ۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى قدرت ۶; اللہ تعالى كى قدرت كا دائرہ۷

حديث : ۷

دين: دين فہمى سے محروم لوگ ۵

منافقين : منافقين اور اسلام۱، ۲;منافقين اور دينى تعليمات ۵;منافقين كا حق قبول نہ كرنا ۴;منافقين كا عجز ۲، ۵; منافقين كا مشكلات سے فرار ۳;منافقين كى جہالت ۵; منافقين كى خصوصيات۳;منافقين كى شكست ۱; منافقين كى محروميت ۵;منافقين كى موقع پرستى ۲،۳; منافقين كے ادراك كى صلاحيت سلب ہونا ۴،۵; منافقين كے لئے مہلت ۴;

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۱۳۰ ح ۹ باب ۹ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۳۹ ح ۳۶_

۷۴

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ( ۲۱ )

اے انسانو پروردگار كى عبادت كرو جس نے تمھيں بھى پيدا كيا ہے اور تم سے پہلے والوں كو بھى خلق كيا ہے _ شايد كہ تم اسى طرح متقى اور پرہيزگا بن جاؤ _

۱_ لوگوں كے لئے اللہ كى عبادت و پرستش ايك لازم و ضرورى فريضہ ہے_يا ايها الناس اعبدوا ربكم

۲_ اللہ تعالى سب انسانوں كا پروردگار ہے_يا ايها الناس اعبدوا ربكم

۳ _ اللہ تعالى تمام موجودہ اور گذرے ہوئے انسانوں كا خالق ہے _اعبدوا ربكم الذى خلقكم و الذين من قبلكم

۴ _ انسانوں كا خالق ہونا وہ واحد حقيقت ہے جو اس بات كى شائستگى ركھتى ہے كہ اللہ تعالى كى پرستش كى جائے_اعبدو ربكم الذى خلقكم و الذين من قبلكم عبادت و بندگى كے ضرورى ہونے كے بعد اللہ تعالى كا ''خالقيت'' سے موصوف ہونا گويا عبادت كے ضرورى ہونے كى دليل بيان فرمارہاہے_

۵_ اللہ تعالى كى انسانوں پر ربوبيت اسكى پرستش و عبادت كى شائستگى كى دليل ہے_اعبدوا ربكم ''اعبدوا ربكم'' ميں اللہ كى بجائے رب كا استعمال عبادت كے ضرورى ہونے كى دليل كى طرف اشارہ ہے يعنى چونكہ ذات اقدس الہ العالمين ''رب '' ہے اس لئے پرستش كے لائق ہے پس اسكى عبادت ہونى چاہيئے_

۶ _ اللہ تعالى كى خالقيت و ربوبيت پر يقين انسان كيلئے اسكى بندگى كى طرف تمايل كا سبب ہے_اعبدوا ربكم الذى خلقكم

۷ _ انسانى اعمال و كردار كى بنياد انسان كا نظريہ كائنات يا جہاں بينى ہے_اعبدوا ربكم الذى خلقكم

۸ _ اللہ تعالى كى بندگى تقوى اختيار كرنے كى زمين ہموار كرتى ہے _

۷۵

اعبدوا ربكم لعلكم تتقون

۹ _ تقوى كا حصول تمام انسانوں كے لئے ايك نہايت لازم فريضہ ہے _لعلكم تتقون چونكہ عبادت كے ضرورى ہونے كا ہدف تقوى تك پہنچنا ہے پس تقوى كا حصول بھى لازم ہے _

۱۰ _ انسانوں كى خلقت كا ہدف تقوى كے مراتب كا حصول ہے_خلقكم لعلكم تتقون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ اگر ''لعلكم ...'' ، ''اعبدوا' ' كے علاوہ ''خلقكم'' سے بھى متعلق ہو_

۱۱ _ اللہ تعالى كى بندگى انسان كو كفر و نفاق كے گرداب ميں گھر نے اور انكے نتائج سے محفوظ ركھتى ہے_ اعبدوا ربكم لعلكم تتقون كفر و نفاق كے شوم نتائج كا بيان كرنے كے بعد اللہ تعالى كى بندگى كى طرف دعوت ايك راہنمائي ہے تا كہ انسان خود كو كفر و نفاق كى طرف تمايل سے بچائے_ اس بناپر ''تتقون'' اپنے لغوى معنى ميں ہوگا اور اسكا متعلق كفر و نفاق ہوگا يعنى مفہوم آيت يوں ہوگا''اعبدوا ربكم لعلكم تتقون الكفر و النفاق''

۱۲_ اللہ تعالى كے احكام و ہ پروگرام ہيں جو انسان كو اس كے معين اہداف تك پہنچاتے ہيں _'' لعلكم تتقون'' سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ انسانوں كا متعين شدہ ہدف تقوى كا حصول ہے _ اس مقصد كے حصول كى خاطر اللہ تعالى نے عبادت كو واجب فرماياہے_ پس احكام الہى انسان كو اس كے اہداف تك پہنچانے كے لئے بيان ہوئے ہيں _

۱۳ _ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ'' فان قال ( قائل ) فلم تعبّدهم ؟ قيل لئلا يكونوا ناسين لذكره و لا تاركين لادبه و لا لاهين عن امره و نهيه (۱)

اگر كوئي يہ كہے كہ اللہ نے انسانوں كے لئے عبادت كيوں ضرورى قرار دى ہے ؟ تو كہا جائے گا اس لئے كہ اس كى ياد سے غافل نہ ہوں ؟ اس كے ادب كو ترك نہ كريں اور اس كے امر و نہى سے بى اعتنائي نہ برتيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور۴; اللہ تعالى كى خالقيت ۳; اوامر الہى پر عمل ۱۳;ربوبيت الہى ۲،۵

انسان: انسان كا خالق ۳ ، ۴; انسان كى خلقت كا فلسفہ ۱۰; انسانوں كى ذمہ دارى ۱ ، ۹

ايمان: اللہ تعالى كى خالقيت پر ايمان ۶; اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۶;ايمان كے نتائج ۶; ايمان كے متعلقات ۶

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج ۲ ص ۱۰۳ ح ۱ باب ۳۴ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۳۹ ح ۳۹_

۷۶

بندگى و عبوديت: عبوديت كى بنياد يا جڑ ۶

تقوى : تقوى كى اہميت ۹،۱۰; تقوى كى بنياد ۸

جہاں بيني: جہاں بينى اور آئيڈيالوجى ۶،۷; جہاں بينى كى اہميت ۷

حديث : ۱۳

حقيقى معبود: حقيقى معبود كى خالقيت ۴

دين: فلسفہ دين ۱۲

ذكر: اللہ تعالى كے ذكر كى اہميت ۱۳

ذمہ دارى : ذمہ دارى كا عمومى ہونا ۱ ، ۹

عبادت: اللہ كى عبادت ۱; عبادت كا فلسفہ ۱۳; عبادت كى اہميت ۱; عبادت كى دليل ۵;عبادت كے اثرات و نتائج ۸، ۱۱

كردار: كردار كى بنياديں ۷

كفر : كفر كے موانع ۱۱

معبوديت: معبوديت كے معيارات ۴،۵

نفاق: منافقت كے موانع ۱۱

۷۷

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأَرْضَ فِرَاشاً وَالسَّمَاء بِنَاء وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّكُمْ فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ( ۲۲ )

اس پروردگار نے تمھارے لئے زمين كا فرش اور آسمان كا شاميانہ بناياہے اور پھر آسمان سے پانى برساكر تمھارى روزى كے لئے زمين سے پھل نكالے ہيں لہذا اس كے لئے جان بوجھ كر كسى كو ہمسر اور مثل نہ بناؤ _

۱ _ انسانوں كى زندگى كے لئے زمين بہت ہى موزوں اور وسيع بسترہے _جعل لكم الارض فراشا ''جعل '' كا معنى ''صير'' _ تبديل كيا ہوسكتاہے اور '' خلق''_ خلق كيا بھى ہوسكتاہے_ ''فراشاً'' كا معنى وسيع بستر ہے اسكا زمين پر اطلاق تشبيہ كے طور پر ہے يعنى مراد يہ ہے''جعل الارض كالفراش''

۲ _ زمين كو انسانى زندگى كے لئے نہايت موزوں و مناسب خلق كرنا اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہے_اعبدوا ربكم ...الذى جعل لكم الارض فراشا ''الذى جعل ...'' ما قبل آيت ميں ''ربكم '' كے لئے دوسرى صفت ہے_

۳ _ زمين اپنى خلقت كے ابتدائي دور ميں انسان كى سكونت و رہائش كے قابل نہ تھي_الذى جعل لكم الارض فراشا

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''جعل '' كا معنى ''صير' ' ہو يعنى اللہ تعالى نے زمين كو اس قابل بنايا كہ سكونت اور زندگى كرنے كے قابل ہوسكے_ اس سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ زمين اپنى خلقت كے ابتدائي زمانے ميں ايسى نہ تھى _

۴ _ اللہ تعالى كى نعمتوں اور فطرى نعمات سے استفادہ كرنا تمام انسانوں كا حق ہے _فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۵ _ زمين كى وسعتوں ميں تمام انسانوں كو حق تصرف حاصل ہے_الذى جعل لكم الارض فراشا

۶ _ اللہ تعالى نے آسمان كو انسانوں كے منافع اور فوائد كے لئے بلند فرمايا _الذى جعل لكم السماء بناء

'' بنائ'' كا لفظ عرب لغت ميں عمارت، خيمہ و غيرہ كا معنى ركھتاہے_ آسمان كو بناء كہنا تشبيہ كے طور پر ہے يعنى مفہوم يہ ہوگا _جعل لكم السماء كالبناء _

۷۸

۷_ اللہ تعالى ہے جو بادلوں سے بارش نازل فرماتاہے_و انزل من السماء ماء ہر چيز جو اوپر ہو اسكو '' سمائ'' كہتے ہيں _ ''السمائ'' كا تكرار اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ہر جگہ اس سے خاص مصداق مراد ہے _ پہلے جملے ميں چونكہ ''ارض'' كے مقابل استعمال ہوا ہے اس لئے آسمان كے معنى ميں ہے جبكہ دوسرے جملے ميں '' مائ'' كے قرينے سے اس سے بادل مراد ہوسكتا ہے_

۸ _ اللہ تعالى ہے جو رزق كا پيدا كرنے والا اور انسانوں كى زندگى كے اسباب مہيا فرمانے والا ہے_فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۹_ بادلوں سے نازل ہونے والا پانى انسانوں كے لئے رزق كے مہيا ہونے كا بنيادى سبب ہے_فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۱۰_ آسمان سے نازل ہونے والے پانى كے ذريعے اللہ تعالى درختوں كو پرثمر بناتاہے_وانزل من السماء ماء فاخرج به من الثمرات رزقالكم ثمرات كا مفرد ''ثمرة'' ہے جو درختوں كے پھلوں كےلئے استعمال ہوتاہے_''من الثمرات'' ميں '' منْ'' كا معنى بعض ہوسكتاہے_ اس صورت ميں ''من الثمرات' ، ''اخرج'' كے لئے مفعول ہوگا يعنى''فاخرج به بعض الثمرات ليكون رزقالكم'' ،''من'' بيانيہ بھى ہوسكتاہے پس اس صورت ميں ''اخرج ''كامفعول ''رزقاً '' ہوگا يعني:اخرج به رزقاً لكم وهى الثمرات

۱۱ _ درختوں كے پھل اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ہيں اور انسانوں كے لئے رزق و روزى بھى ہے_فاخرج به من الثمرات رزقا لكم

۱۲_ آسمان كى خلقت ، بارش كا نزول، پھلوں كا پكنا اور انسانوں كے لئے رزق كا تيار ہونا يہ سب اللہ تعالى كى ربوبيت كے جلوے ہيں _اعبدوا ربكم ...الذى جعل لكم ...رزقا لكم

۱۳ _ نعمتوں كا اللہ كى جانب سے ہونے كا يقين انسان كيلئے پروردگار كى بندگى كا محرّك بنتاہے_اعبدوا ربكم الذى انزل من السماء ماء فاخرج به من الثمرات يہ مطلب يوں استفادہ ہوتاہے كہ اللہ تعالى نے انسانوں ميں بندگى و عبادت كى روح زندہ كرنے كے لئے اپنى نعمتوں كى طرف لوگوں كى توجہ دلائي ہے_

۱۴ _ عالم طبيعات ميں اللہ تعالى كے افعال طبيعى اسباب اور عوامل كے ماتحت انجام پاتے ہيں _فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۱۵_ طبيعى عوامل و اسباب پر خداوند متعال كى مطلق حاكميت قائم ہے_انزل من السماء ماء فاخرج به

۷۹

۱۶_ خداوند قدوس كا كوئي مثل و ہمسر نہيں _فلا تجعلوا للّه انداداً ''انداد'' كا مفرد ''ند'' ہے جسكا معنى مثل و ہمسر ہے_

۱۷_ پروردگار عالم كے مثل و نظير كے بارے ميں توّہم سے اجتناب كى ضرورت ہے_فلا تجعلوا لله انداداً

۱۸_ اللہ تعالى كے خلق كرنے كے اور عالم طبيعات كى نعمات كى خلقت ميں غور و فكر انسان كو عقيدہ توحيد كى طرف لے جاتاہے_الذى خلقكم الذى جعل لكم الارض فلاتجعلوا لله انداداً جمله'' لا تجعلوا ...'' كو ''فائ '' كے ساتھ بيان كرنا اس آيت اور ماقبل آيت كے حقائق كى طرف اشارہ ہے يعنى يہ كہ ان امور كى طرف توجہ انسان كو توحيد ربوبى كى طرف لے جاتى ہے گويا يہ كہ جب يہ علم ہوگيا كہ خداوند متعال ہى تمہارا خالق ہے وہى زمين كا پيدا كرنے والا ہے اور تو اب يہ معقول نہيں كہ تم اس كے لئے مثل و نظير فرض كرو_

۱۹_ كائنات كى خلقت ميں باقاعدہ ہدف اور منصوبہ بندى موجود ہے_الذى جعل فاخرج به من الثمرات رزقالكم

اس آيہ مجيدہ ميں زمين، بارش اور ديگر عوامل كو ايك خاص ہدف كے پورا كرنے كے لئے بيان كيا گيا ہے_ جب بعض امور كو كسى خاص ہدف كى تكميل كے لئے بيان كيا جائے تو اصطلاح ميں اسے منصوبہ بندى كہا جاتاہے يعنى ان امور ميں ہدف كا ہونا ضرورى ہوتاہے_

۲۰_ لوگوں كو عالم طبيعات اور خلقت كے مطالعے اور مشاہدے كى طرف ترغيب دلانا ايك راہ ہے جس سے انہيں توحيد كى طرف راغب كيا جائے_الذى جعل لكم الارض فراشاً فلا تجعلوا لله انداداً

۲۱_ اللہ تعالى كے لئے مثل و ہمسر تصور كرنا درست علم و تفكر سے سازگار نہيں ہے_فلا تجعلوا لله انداداً و انتم تعلمون

۲۲_ اللہ تعالى كے لئے مثل و ہمسر تصور كرنا جہالت و نادانى كى بناپر ہے_فلا تجعلوا لله انداداً و انتم تعلمون

آسمان: آسمان كى خلقت ۶ ، ۱۲; آسمان كے فوائد ۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى حاكميت ۱۵; اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۲،۱۲; اللہ تعالى كى عنايات ۴،۱۱;اللہ تعالى كى وحدانيت ۱۶; اللہ تعالى كے افعال ۶،۷،۸،۱۰،۱۴;خداشناسى كى روشيں ۲۰

انسان : انسانوں كا رزق ۹، ۱۱، ۱۲;انسانوں كے حقوق ۴،۵

ايمان: توحيد پر ايمان كى بنياد ۱۸

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

 یعنی انبیا کیلئے نہ عمل قبیح جائز ہے اور نہ اپنی احادیث بیان کرنے میں تقیہ جائز ہے.کیونکہ تقیہ آپ کے فرامین میں شکوک و شبہات پیدا ہونے کا باعث بنتا ہے. اور جب کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم پیغمبر (ص) کی ہربات کی تصدیق کریں .اور اگر پیغمبر (ص) کے اعمال ، شرعی وظیفے کو ہمارے لئے بیان نہ کرے اور ہمیں حالت شک میں ڈال دے ؛ تو یہ ارسال رسل کی حکمت کے خلاف ہے پس پیغمبر (ص) کے لئے جائز نہیں کہ تقیہ کی وجہ سے ہماری تکالیف کو بیان نہ کرے .

شیخ طوسیپر اشکال : اگر ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کہ پیغمبر(ص) کیلئے تقیہ جائز نہیں ہے تو حضرت ابراہیم  (ع)کا نمرود کے سامنے بتائی گئی ساری باتوں کیلئے کیا تاویل کریں گے  کہ بتوں کو آنحضرت ہی نے توڑ کر بڑے بت کی طرف نسبت دی ؟!اگر اس نسبت دینے کو تقیہ نہ مانے تو کیا توجیہ  ہوسکتی ہے ؟!

شیخ طوسی کاجواب:

آپ نے دو توجیہ کئے ہیں :

۱. بل فعلہ کو«ان کانوا ینطقون» کے ساتھ مقید کئے ہیں یعنی اگریہ بت بات کرتاہے تو  ان بتوں کوتوڑنے والا سب سے بڑا بت ہے .جب کہ معلوم ہے کہ بت بات نہیں کرسکتا.

۲. حضرت ابراہیم(ع) چاہتے تھے کہ نمرود کے چیلوں کو یہ بتا دے کہ اگر تم لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہو تو یہ حالت ہوگی پس آپ کا یہ فرمانا:« بل فعله کبیرهم» الزام کے سوا کچھ نہیں اور« انی سقیم» سے مراد یہ کہ تمھارے گمراہ ہونے کی وجہ سے روحی طور  سخت پریشانی میں مبتلا ہوں.

اسی طرح حضرت یوسف(ع) کا:« انّکم لسارقون» کہنا بھی تقیہ ہی تھا ، ورنہ جھوٹ قاموس نبوت سے دور ہے(۱)

تمام انبیاءالہی کے فرامین میں توریہ شامل ہے اور توریہ ہونا کوئی مشکل کا سبب نہیں بنتا .اور توریہ بھی ایک قسم کا تقیہ ہے .ثانیا ً  انبیاء الہی کے فرامین احکام شرعی بیان کرنے کے مقام میں نہیں ہے .

--------------

(۱):- .   ہمان ، ص ۲۶۰.

۲۰۱

کیوں کسی نے تقیہ کیا  اور کسی نے نہیں کیا ؟!

یہ سوال ہمیشہ سے لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتا رہتا ہے کہ کیوں بعض آئمہ اور ان کے چاہنے والوں نے تقیہ کیا اور خاموش رہے ؟! لیکن بعض آئمہ نے تقیہ کو سرے سے مٹادئے اور اپنی جان تک کی بازی لگائی ؟!

اور وہ لوگ جو مجاہدین اسلام کی تاریخ ، خصوصا ً معاویہ کی ذلت بار حکومت کے دور کا مطالعہ کرتے تو ان کو معلوم ہوتا ،کہ تاریخ بشریت کا سب سے بڑا شجاع انسان یعنی امیر المؤمنین(ع) کا چہرہ مبارک نقاب پوش  ہوکر رہ گیا جب یہ ساری باتیں سامنے آتی ہیں تو یہ سوال ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ کیوں پیغمبر (ص) اور علی(ع)  کے باوفا دوستوں کے دو چہرے کاملاً ایک دوسرے سے مختلف نظر آتا ہے :

 ایک گروہ : جو اپنے زمانے کے ظالم و جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابلہ کرنے پر اتر آتے ہیں ؛ جیسے میثم تمار ، حجر بن عدی، عبداللہ و... اسی طرح باقی آئمہ کے بعض  چاہنے والوں نے دشمن اور حاکم وقت کے قید خانوں میں اپنی زندگیاں رنج و آالام میں گذارتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کئے .اور وحشتناک جلادوں  کا خوف نہیں کھائے ، اور عوام کو فریب دینے والے مکار اور جبار حاکموں کا نقاب اتار کر ان کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے واضح کردئے .

اور دوسرا گروہ : باقی آئمہ طاہرین کے ماننے والوں اور دوستوں میں بہت سارے ، جیسے علی ابن یقطین بڑی  احتیاط کے ساتھ ہارون الرشید کے وزیراور مشیر بن کر رہے !

جواب : اس اشکال کا جواب امامیہ مجتھدین اور فقہا  دے چکے ہیں : کہ کبھی تقیہ کو ترک کرتے ہوئے واضح طور پر ما فی الضمیر کو بیان کرنا اور  اپنی جان کا نذرانہ دینا واجب عینی ہوجاتا ہے ؛ اور کبھی تقیہ کو ترک کرنا مستحب ہوجاتا ہے اور اس دوسری صورت میں  تقیہ کرنے والے نے نہ کوئی خلاف کام کیا ہے ، نہ ان کے مد مقابل والے نے تقیہ کو پس پشت ڈال کر فداکاری اور جان نثاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، جام شہادت نوش کرکے کوئی خلاف کام کیاہے

۲۰۲

اسی دلیل کی بنا پر  میثم تمار ،  حجر بن عدی اوررشید ہجری  جیسے عظیم اور شجاع لوگوں  کو ہمارے اماموں نے بہت سراہا ہے ، اور اسلام میں ان کا بہت بڑا مقام ہے . 

ان  کی مثال ان لوگوں کی سی ہے ، جنہوں نے اپنے حقوق سے ہاتھ اٹھائے ہیں اور معاشرے میں موجود غریب اور نادار اور محروم لوگوں کی حمایت کرتے ہوئے ان پر خرچ کیا ہو ، اور خود کو محروم کیا ہو.اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی یہ فداکاری اور محروفیت کو قبول کرنا ؛ سوائے بعض موارد میں ،واجب تو نہیں تھا کیونکہ جو چیز واجب ہے وہ عدالت  ہے نہ ایثار .لیکن ان کا یہ کام اسلام اور اہل اسلام کی نگاہ میں بہت قیمتی اور محترم کام  شمار ہوتا ہے .اور یہ احسان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ احسان کرنے والا عواطف انسانی کی آخرین منزل  کو طے کرچکا ہے .جو دوسروں کو آرام و راحت میں دیکھنے کیلئے اپنے کو محروم کرنے کو اختیار کرے

پس تقیہ کو ترک کرتے ہوئے اپنی جانوں کو دوسرے مسلمانوں اور مؤمنوں کا آرام اور راحت کی خاطر فدا کرنا بھی ایسا ہی ہے .اور یہ اس وقت تک ممکن ہے ، جب تک تقیہ کرنا وجوب کی حد تک نہ پہنچا ہو اور یہ پہلاراستہ ہے .

دوسرا راستہ یہ ہے کہ لوگ موقعیت اور محیط کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں اگر پست محیط میں زندگی کر رہے ہوں ، جیسے معاویہ کی حکومت کا دور ہے ؛اس کی سوء تبلیغ اور اس کے ریزہ خواروں اور مزدوروں اور بعض دین فروشوں کی جھوٹی تبلیغات کی وجہ سے اسلام کے حقائق اور معارف  معاشرے میں سے بالکل محو ہوچکا تھا .اور لوگ اسلامی اصولوں سے بالکل بے خبر تھے .اور امیر المؤمنین (ع)کا انسان ساز مکتب بھی اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود ، سنسر کر دئے گئے ، اور پردہ سکوت کے پیچھے چلا گیا .اور اس ظلمانی پردے کو چاک کرکے اسلامی معاشرے کو تشکیل دینے  کیلئے عظیم قربانی کی ضرورت تھی .ایسے مواقع پر افشاگری ضروری تھا ، اگرچہ جان بھی دینا کیوں نہ پڑے .

حجر بن عدی  اور ان کے دوستوں کے بارے میں کہ جنہوں نے معاویہ کےدور میں مہر سکوت کو توڑ کر علی (ع)کی محبت کا اظہار کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمائی ؛اور ان کی  طوفانی شہادت اور شہامت اس قدر مؤثر تھا کہ  پورے مکہ اور مدینہ کے علاوہ عراق میں بھی لوگوں میں انقلاب برپا کیا ؛ جسے معاویہ نے کبھی سوچا بھی نہ تھا

۲۰۳

امام حسین(ع) نے ایک پروگرام میں ، معاویہ کے غیراسلامی کردار کو لوگوں پر واضح کرتے ہوئے  یوں بیان فرمایا :الست قاتل حجر بن عدی اخا کنده ؛ والمصلین العابدین الذین کانوا ینکرون الظلم و یستعظمون البدع و لا یخافون فی الله لومة لائم !

اے معاویہ ! کیا تو وہی شخص نہیں ، جس نے قبیلہ کندہ کےعظیم انسان (حجر بن عدی) کو نماز گزاروں کے ایک گروہ کے ساتھ بے دردی سے شہید کیا ؟ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ظلم اور ستم کے خلاف مبارزہ کرتے اور بدعتوں اور خلاف شرع کاموں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے، اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی کوئی پروا نہیں  کرتے تھے   ؟!.(۱)

شیعوں کے تقیہ سے مربوط شبہات ، تہمتیں:

تقیہ شیعوں کی  بدعت

شبہہ پیدا کرنے والے کا کہنا ہے کہ :تقیہ شیعوں کی بدعت ہے جو اپنے فاسد عقیدے کو چھپانے کی خاطر  کرتے ہیں(۲)

اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ اس نے بدعت کے معنی میں اشتباہ کیا ہے جب کہ مفردات راغب نے بدعت کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے :البدعة هی ادخال ما لیس من الدین فی الدین (۳) بدعت سے مراد یہ ہے کہ جوچیز دین میں نہیں، اسے دین میں داخل  کرے .اور گذشتہ مباحث سے معلوم ہوا کہ تقیہ دین کی ضروریات میں سے ہے کیونکہ قرآن  اور احادیث آئمہمیں واضح طور پر بیان ہوا ہے  کہ تقیہ کو اہل تشیع اور اہل سنت دونوں مانتے ہیں اور اس کے شرعی ہونے کو بھی مانتے ہیں لذا ، تقیہ نہ بدعت ہے اور نہ شیعوں کا اختراع  ،کہ جس کے ذریعے اپنا عقیدہ چھپائے ،

--------------

(۱):-  مکارم شیرازی؛ تقیہ مبارزہ عمیقتر، ص ۱۰۷.

(۲):- فہرست ایرادات و شبہات علیہ شیعیان در ہند و پاکستان، ص ۳۶.

(۳):- راغب اصفہانی ؛ مفردات، بدع.

۲۰۴

بلکہ یہ اللہ اور رسول کا  حکم ہے گذشتہ مباحث سے معلوم ہوا کہ تقیہ  دین کاحصہ ہے کیونکہ وہ آیات  جن کو شیعہ حضرات  اسلام کا بپاکنندہ  جانتے ہیں،ان کی مشروعیت  کو ثابت کرچکے ہیں اور  اہل سنت نے بھی ان کی مشروع ہونے کا فی الجملہ اعتراف کیا ہے. اس بنا پر ، نہ تقیہ بدعت  ہے اور نہ شیعوں کا اپنا عقیدہ چھپانے کیلئے اختراع  ہے

 تقیہ، مکتب تشیع کا  اصول دین ؟!

بعض لوگوں کا اپنے مخالفین کے خلاف  مہم چلانے اور ان کو ہرانے کیلئے جو خطرناک اور وحشنتاک راستہ اختیار کرتے ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کو متہم کرنا ہے اور ایسی تہمتیں  لگاتے ہیں ، جن سے وہ لوگ مبریٰ ہیں اگرچہ عیوب کا ذکر کرنا معیوب  نہیں  ہے .ان لوگوں میں سے ایک ابن تیمیہ ہے ؛ جو کہتا ہے کہ شیعہ تقیہ کو اصول دین میں سے شمار کرتے ہیں جبکہ کسی ایک شیعہ بچے سے بھی پوچھ لے تو وہ بتائے گا : اصول دین پانچ ہیں :

اول : توحید. دوم :عدل سوم: نبوت چہارم:امامت پنجم : معاد.لیکن وہ اپنی  کتاب منہاج السنہ  میں لکھتا ہے : رافضی لوگ اسے اپنا اصول دین میں  شمار کرتے ہیں .ایسی باتیں یا تہمتیں لگانے کی  دو ہی وجہ ہوسکتی ہیں: 

۱. یا وہ شیعہ عقائد سے بالکل بے خبر ہے ؛ کہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ مذہب تشیع کا اتنا آسان مسئلہ ؛ جسے سات سالہ بچہ بھی جانتا  ہو ، ابن تیمیہ اس سے بے خبر ہو .کیونکہ ہمارے ہاں کوئی چھٹا اصل بنام تقیہ موجود نہیں ہے .

۲. یا ابن تیمیہ اپنی ہوا وہوس کا اسیر ہوکر شیعوں کو متہم کرنے پر تلا ہوا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس طریقے سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرےاوراسلام اور مسلمین کی قوت اور شان و شکوکت کو متزلزل کرے .اس قسم کی بیہودہ باتیں ایسے لوگوں کی دل خوشی کا سبب بن سکتے ہیں ، جو کسی بھی راستے سے شیعیان علی ابن ابی طالب  کی شان شوکت کو دنیا والوں کے سامنے گھٹائے اور لوگون کو مکتب حقہ سے دور رکھے(۱)

--------------

(۱):- .  عباس موسوی؛ پاسخ و شبہاتی پیرامون مکتب تشیع، ص۱۰۲. 

۲۰۵

جب کہ خود اہل سنت بھی تقیہ کے قائل ہیں اور ان کے علماء کا اتفاق اور اجماع بھی ہے ، کہ تقیہ ضرورت کے وقت جائز ہے .چنانچہ ابن منذر لکھتا ہے:اجمعوا علی من اکره علی الکفر حتی خشی علی نفسه القتل فکفر و قلبه مطمئن بالایمان انه لا یحکم علیه بالکفر (۲)

اس بات پر اجماع  ہے کہ اگر کوئی کفر کے اظہار کرنے پر مجبور ہو جائے  ، اور جان کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں ضرور اظہار کفرکرے .جبکہ اس کا دل ایمان سے پر ہو ، تو اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگ سکتا .یا وہ کفر کے زمرے میں داخل نہیں ہوسکتا .

ابن بطال کہتا ہے : واجمعوا علی من اکره علی الکفر واختار القتل انه اعظم اجرا عنداﷲ !یعنی علماء کا  اجماع  ہے کہ اگر کوئی مسلمان کفر پر مجبور ہوجائے ، لیکن  جان دینے کو ترجیح دے دے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰٰ کے نزدیک بہت بڑا اجر اور ثواب ہے

خوداہل سنت تقیہ کے جائز ہونے کو قبول کرتے ہیں لیکن جس معنی ٰ میں شیعہ قائل ہیں ، اسے نہیں مانتے .یعنی ان کے نزدیک تقیہ ، رخصت یا اجازت ہے ، لیکن شیعوں کے نزدیک ، ارکان دین میں سے ایک رکن ہے جیسے نماز. اور بعد میں امام صادق(ع)کی روایت کو نقل کرتے ہیں، جو پیغمبر اسلام سے منسوب ہے قال الصادق(ع): لو قلت لہ تارک التقیہ کتارک الصلوة اس کے بعد کہتےہیں کہ شیعہ صرف اس بات پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں :لا دین لمن لا تقیة له (۱)

--------------

(۱):- دکترناصر بن عبداللہ؛ اصول مذہب شیعہ،ج ۲، ص ۸۰۷.

(۲):-    ہمان

۲۰۶

تقیہ، زوال دین کا موجب ؟!

کہا جاتا ہے کہ تقیہ زوال دین اور احکام کی نابودی کا موجب بنتا ہے لہذا تقیہ پر عمل نہیں کرنا چاہئے .اور اس  کو جائز نہیں سمجھنا چاہئے

جواب: تقیہ ، احکام پنجگانہ میں  تقسیم کیا گیا ہے :یعنی:واجب ،     حرام ،      مستحب ،      مکروہ ،        مباح.

حرام تقیہ، دین میں فساد اور ارکان اسلام کے متزلزل ہونے کا سبب بنتا ہے .

  بہ الفاظ دیگر جوبھی اسلام کی نگاہ میں جان، مال  ، عزت، ناموس وغیرہ کی حفاظت سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرنا جائز نہیں ہے ، بلکہ حرام ہے .اور  شارع اقدس نے بھی یہی حکم دیا ہے .کیونکہ عقل حکم لگاتی ہے کہ جب بھی کوئی اہم اور مہم کے درمیان تعارض ہوجائے تو اہم کو مقدم رکھاجائے ، اور اگر تقیہ بھی موجب فساد یا ارکان اسلام میں متزلزل ہونے کا سبب بنتا ہے تو وہاں تقیہ کرنا جائز نہیں ہے

 آئمہ طاہرین  سے کئی روایات ہم تک پہنچی ہے کہ جو اس بات کی تائید کرتی ہیں ؛ اور بتاتی ہیں کہ بعض اوقات تقیہ کرنا حرام ہے

 امام صادق (ع)فرمود:فکل شیئ  یعمل المؤمن بینهم لمکان التقیة مما لا یؤدی الی الفساد فی الدین فانّه جائز. (۱) امام نے فرمایا: ہر وہ کام جو مؤمن تقیہ کے طور پر انجام دیتے ہیں ؛اور دین کیلئے کوئی ضرر یا نقصان بھی نہ ہو ،اور کوئی فساد کا باعث  بھی نہ ہو ؛ تو جائز ہے .

--------------

(۱):- وسائل الشیعہ ، ج۶، باب۲۵، ص۴۶۹.

۲۰۷

امام صادق (ع)کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ بطور مطلق حرام نہیں ہے بلکہ وہ تقیہ حرام ہے جو زوال دین کا سبب بنتا ہو

لیکن وہ تقیہ واجب  یا مباح یا مستحب ہے جو زوال دین کا سبب نہیں بنتا .  اس کا مکتب تشیع قائل ہے

امام کی پیروی  اور تقیہ کے درمیان تناقض

اس شبہہ کو یوں بیان کیا ہے کہ شیعہ  آئمہ کی پیروی کرنے کا ادعا کرتے ہیں جبکہ آئمہ طاہرین نے تقیہ کرنا چھوڑ دئے ہیں ؛ جس کا نمونہ علی (ع)نے  ابوبکر کی بیعت کی ، اور امام حسین (ع)نے یزید کے خلاف جہاد  کیا(۲)

اس شبہہ کا جواب :

اولاً :شیعہ نظریے کے مطابق تقیہ ایسے احکام میں سے نہیں کہ ہر حالت میں جائز ہو ، بلکہ اسے انجام دینے  کیلئے تقیہ اور حق کا اظہار کرنے  کے درمیان مصلحت سنجی کرناضروری ہے کہ تقیہ کرنے میں زیادہ مصلحت ہے یا تقیہ کو ترک کرنے میں زیادہ مصلحت ہے ؟ آئمہ طاہرین  بھی مصلحت سنجی کرتے اور عمل کرتے تھے. جیسا کہ اوپر کی دونوں مثالوں میں تقیہ کو ترک کرنے میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے لہذا دونوں اماموں نے تقیہ کو ترک کیا اگر امام حسین (ع)تقیہ کرتے تو اپنے جد امجد (ص) کا دین نہیں بچتا

ثانیا: شیعہ سارے اماموں کی پیروی کرنےکو واجب سمجھتے ہیں اور ہمارے سارے آئمہ نے بعض جگہوں پر تقیہ کئے  ہیں اور بعض جگہوں پر تقیہ کو ترک کئے ہیں بلکہ اس سے بھی بالا تر کہ بعض مقامات پر تقیہ کرنے کا حکم دئے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی زندگی میں کتنی سخت دشواریاں پیش آتی تھیں.

-------------

(۲):- موسی موسوی؛ الشیعہ والتصحیح، ص۶۹.

۲۰۸

ثالثاً: تقیہ کے  بہت سے موارد ، جہاں خود آئمہ نے تقیہ کرنے کو مشروع قرار دئے ہیں ، جن کا  تذکرہ گذرچکا .

رابعاً: شبہہ پیدا کرنے والا خود اعتراف کررہا ہے کہ حضرت علی(ع)نے فقط چھ ماہ  بیعت کرنے سے انکار کیا پھر بعد میں بیعت  کرلی .یہ خود دلیل ہے سیرہ حضرت علی(ع) میں بھی تقیہ ہے

تقیہ اورفتوائے امام(ع)کی تشخیص

اس کے بعد کہ قائل ہوگئے کہ آئمہ بھی تقیہ کرتے تھے ؛ درج ذیل سوالات ، اس مطلب کی ضمن میں کہ اگر امام حالت تقیہ میں کوئی فتویٰ دیدے، تو کیسے پہچانیں گے کہ تقیہ کی حالت میں فتویٰ دے رہے ہیں یا عام حالت میں ؟!

جواب:

اس کی پہچان تین طریقوں سے ممکن ہے :

۱.  امام کا فتوی ایسے دلیل کے ساتھ بیان ہوجو حالت تقیہ پر دلالت کرتی ہو

۲.  فتوی دینے سے پہلے کوئی قرینہ موجود ہو ، جو اس بات پر دلالت کرے کہ حالت تقیہ میں امام نےفتوی دیا ہے .

۳.  امام(ع) قرینہ اور دلیل کو فتوی صادر کرنے کے بعد ،بیان کرے کہ حالت تقیہ میں مجھ سے یہ فتوی صادر ہوا ہے

 تقیہ اورشیعوں کا اضطراب!

تقیہ  یعنی جبن و اضطراب کادوسرا  نام ہے ،اور شجاعت اور بہادری کے خلاف ہے جس کی وجہ سے اپنےقول و فعل میں، اورظاہر و باطن میں اختلاف کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے .اور یہ صفت ، رزائل اخلاقی کے آثار میں سے ہے اور اس  کی سخت مذمت ہوئی  ہے؛ لہذا خود امام حسین(ع)نے  کلمہ حق کی راہ میں تقیہ کے حدود کو توڑ کر شہادت کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا(۱)

--------------

(۱):- .   دکتر علی سالوس؛ جامعہ قطربین الشیعہ و السنہ،ص۹۲.

۲۰۹

جواب: اگرشیعوں میں  نفسیاتی طور پر جبن، اضطراب اور خوف پایا جاتا توظالم بادشاہوں کے ساتھ ساز باز کرتے ، اور کوئی جنگ یا جہاد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی یہ لوگ بھی درباری ملاؤں کی طرح اپنے اپنے دور کے خلیفوں کے ہاں عزیز ہوتے .اور تقیہ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی.

اس سے بڑھ کر کیا کوئی شجاعت اور بہادری ہے کہ جس دن اسلام کی رہبری اور امامت کا انتخاب ہونے والاتھا ؛ اس دن لوگوں نے انحرافی راستہ اپناتے ہوئے نااہل افراد کو مسندخلافت پر بٹھادئے اس دن سے لیکر اب تک شیعوں کا اور شیعوں کے رہنماؤں کا یہی نعرہ اور شعار رہا ہے کہ ہر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ ٹکرانا ہے اور مظلوموں کی حمایت کرنا ہے اور اسلام سے بےگانہ افراد کی سازشوں کو فاش کرنا ہے .

اگرچہ شیعہ مبنای تقیہ پر حرکت کرتے ہیں ؛ لیکن جہاں بھی اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ ظالم اور جابر کے خلاف آواز اٹھانا ہے ؛ وہاں شیعوں نے ثابت کردیا ہے کہ اسلام اور مسلمین اور مظلوموں کی حمایت میں اپنا خون اور اپنے عزیزوں کی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا.

شیعوں کا آئیڈیل یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ عظمت اور جلالت کے مسند پرقائم رہے اور امّت اسلامی کے دل اور جان میں اسلام ی عظمت اور عزت باقی رہے .

اور یہ بھی مسلمان یاد رکھے ! کہ تاریخ بشریت کا بہترین انقلاب ؛ شیعہ انقلاب  رہا ہے اور دنیا کے پاک اور شفاف ترین انقلابات ، جو منافقت ،  دھوکہ بازی ، مکر و فریب  اور طمع و لالچ سے پاک رہے ؛ وہ شیعہ انقلابات ہیں

ہاں ان انقلابات میں مسلمان عوام اور حکومتوں کی عظمت اور عزت مجسم ہوچکی تھی .اور طاغوتی قوتوں کےمقابلے میں اس مکتب کے ماننے والوں کو عزت  ملی اور شیعہ، طاغوتی طاقوتوں اور حکومتوں  کو برکات اور خیرات  کا مظہر  ماننا تو درکنار ، بلکہ ان کے ساتھ ساز باز کرنے  سے پر ہیز کرتے تھے .ہم کچھ انقلابات کا ذکر کریں گے ، جن کو آئمہ طاہرین  نے سراہتے ہوئے ان کی کامیابی کے لئے دعا کی ہیں .کیونکہ کسی بھی قوم کی زندگی اور رمز بقا  انہی انقلابات میں ہے جن میں سے بعض  یہ ہیں:

۲۱۰

o   زید ابن علی کا انقلاب

o   محمد بن عبداللہ  کا  حجازمیں انقلاب

o   ابراہیم بن عبداللہ کا  بصرہ میں انقلاب

o   محمد بن ابراہیم و ابو السرایاکا انقلاب

o   محمد دیباج فرزند امام جعفر صادق(ع)کا انقلاب

o   علی ابن محمد فرزند امام جعفر صادق(ع)کا انقلاب

اسی طرح دسیوں اور انقلابات ہیں ، کہ جن کی وجہ سے عوام میں انقلاب اورشعور پید اہوگئی ہے اور پوری قوم کی ضمیر اور وجدان کو جگایا ہے(۱)

امامان معصوم ان انقلابات کو مبارک اور خیر وبرکت کا باعث سمجھتے تھے .اور ان سپہ سالاروں کی تشویق کرتے تھے  .راوی کہتا ہے :فَدَخَلْنَا عَلَی الصَّادِقِ ع وَ دَفَعْنَا إِلَيْهِ الْكِتَابَ فَقَرَأَ وَ بَكَی ثُمَّ قَالَ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ عِنْدَ الله أَحْتَسِبُ عَمِّی إِنَّهُ كَانَ نِعْمَ الْعَمُّ إِنَّ عَمِّی كَانَ رَجُلًا لِدُنْيَانَا وَ آخِرَتِنَا مَضَی وَ الله عَمِّی شَهِیداً كَشُهَدَاءَ اسْتُشْهِدُوا مَعَ رَسُولِ الله وَ عَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِمْ (۲) جب امام صادق(ع)  کو زیدابن علی کی  شہادت  کی خبر ملی تو کلمہ استرجاع کے بعد فرمایا :میرے چچا واقعاً بہترین اور عزیز ترین چچا ہیں اور ہمارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں چاہنے  والے ہیں خدا کی قسم ! میرے چچا ایسے شہید ہوئے ہیں ، جیسے رسول خدا (ص) ، علی اور حسین   کےرکاب میں شہید ہوچکے ہوں .خدا کی قسم ! وہ شہید کی موت مرے ہیں .

--------------

(۱):- علی عباس موسوی؛ پاسخ شبہاتی پیرامون مکتب تشیع ، ص۹۷.

(۲):- بحارالانوار   ، ج ۴۶،ص ۱۷۵   باب ۱۱- احوال اولادہ و ازواجہ

۲۱۱

ایسے کلمات آئمہ معصومین (ع)سے صادر ہوئے ہیں ، اور یہ بہت دقیق تعبیر یں ہیں کہ جو شیعہ تفکر کی عکاسی کرتی ہیں  کہ ہر ظالم و جابر حکمران  کو غاصب مانتے تھے .اور ہر حاکم ، شیعہ کو اپنے لئے سب سے بڑا  خطر ہ جانتا تھا  .

ہم زیادہ دور نہیں جاتے ، بلکہ اسی بیسویں صدی کا انقلاب اسلامی ایران  پر نظر کریں ؛ کیسا عظیم انقلاب تھا ؟! کہ ساری دنیا کے ظالم وجابر ؛ کافر ہو یا مسلمان ؛طاغوتی قوتیں  سب مل کر اسلامی جمہوری ایران پر حملہ آور ہوئے ؛ اگرچہ  ظاہراً ایران اور عراق کے درمیان جنگ تھی ، لیکن حقیقت میں اسلام اور کفر کے درمیان جنگ تھی کیونکہ عالم کفر نے دیکھا کہ  اگر کوئی  آئین  یا مکتب  ، ان کیلئے خطرناک ہے  ، تو وہ اسلام ناب محمدی (ص) اور اس کے پیروی کرنے والے ہیں

 اسی لئے باطل طاقتیں اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ ، اسلام ناب محمدی(ص) کے علمبردار یعنی خمینی بت شکن اور ان کے انقلاب کو سرکوب کرنے پر اتر آئے ، لیکن اللہ تعالیٰٰ نے ان  کو ذلیل و خوار کیا اور جمہوری اسلامی ایران کی  ایک فٹ زمین بھی  چھین نہ سکے، جبکہ صدام نے مغرورانہ انداز میں کہا تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر تہران  میں وارد ہونگے اور ظہرانہ تہران میں جشن مناتے ہوئے کھائیں گے .

 آج پوری دنیا میں اگر اسلام کا کوئی وقار اور عزت نظر آتا  ہے تو انقلاب اسلامی کی وجہ سے  ہے

آئیں اس انقلاب سے بھی نزدیکتر دیکھتے ہیں کہ مکتب اہل بیت  کے پیروکاروں نے کس طرح حقیقی اسلام کے دشمنوں کے ساتھ بہادرانہ طور پر مقابلہ کیا اور دشمن کے سارے غرور کو خاک میں ملاتے ہوئے ، شکست فاش دیا ؟! میرا مقصد ؛ شیعیان لبنان (حزب اللہ اور ان کے عظیم لیڈر ، سید حسن نصراللہ ) ہیں جو کردار خمینی بت شکن  نے امریکا اور اسرائیل کے مقابلے میں دنیا کے مستضعفوں کی حاکمیت قائم کرنے میں ادا کیا ، وہی کردار سید حسن نصراللہ نے جنایت کار اور خون خوار اسرائیل کے ساتھ  ادا کیا .

۲۱۲

مناسب ہے کہ اس بارے میں کچھ تفصیل بیان کروں ،تاکہ دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو یہ معلوم ہو سکے کہ تقیہ کے دائرے کو توڑ کر دشمن کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنے والا کون تھا ؟!

رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے ایک تحقیر آمیز انداز میں  اسرائیل کی حیثیت کو دنیا کے سامنے واضح کرتے ہوئے فرمایا تھا : کہ اگر دنیا کے سارے مسلمان متحد ہوکر ایک  ایک گلاس پانی پھینک دیں تو اسرائیل اس صفحی ہستی سے محو ہوجائے گا دنیا کے بہت سارے دانشوروں اور روشن فکروں نے اس بات کا مزاق اڑایا تھا ،  لیکن حزب اللہ لبنان کی تجربات اور مہارت نے یہ بات دنیا کے اوپر واضح کردیا کہ اسرائیل کی حکومت ہزارون ایٹمی میزائیلوں اور بموں اور جدید ترین ہتھیاروں کے رکھنے کے باوجود بھی ایک باایمان اور مختصر گروہ کے سامنے بے بس ہوکر  اپنے گٹھنے ٹیک دینے پر مجبور ہوگئے .اور شیشے کے درودیوار والے محل اور بنگلوں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچوں کے غلیل کی زد میں آکر پریشان اور بیچین نظر آتےہیں.

آج پوری دنیا میں خمینی بت شکن  کے افکار اور نظریات پھیل چکے ہیں ؛ جس کا مصداق اور نمونہ اتم ، سید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ لبنان کی شکل میں نظرآتا ہے .اور آپ کے اس فرمان کی ترجمانی کرتے ہوئے سید حسن نصراللہ نے کہا:والله انّ هی( اسرائیل) اوهن من بیت العنکبوت؛ خدا کی قسم یہ اسرائیل مکڑی کی جال سے بھی زیادہ نازک اور کمزور ہے یہ کہہ کر امام خمینی  کے اس جملے( اسرائیل کو اس صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہئے )  کی صحیح ترجمانی کی .

ہاں ! سید حسن نصر اللہ کیلئے یہی باعث فخر تھی کہ رہبر  معظم  و مرجع عالی قدر حضرت آیة اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بازؤں کا بوسہ لیتے ہوئے ، دنیا پر واضح کررہے تھے کہ میں امام زمان (عج) کے نائب برحق کےشاگردوں میں سے ایک ادنی شاگرد  ہوں. اس مرد مجاہد نے لبنان کے سارے بسنے والوں کو ؛ خواہ وہ مسلمان  ہویا غیر مسلمان ، شہادت طلبی کا ایسا درس دیا کہ سارے مرد ،عورت ، چھوٹے بڑے نے ان  کی باتوں پر لبیک کہہ کرکلمہ لاالٰہ الا اللہ کی سربلندی کے لئے شہادت  کی موت کو خوشی سے گلے لگائے یہی حزب اللہ کی جیت کی اصل وجہ تھی .اور  یہ  ثابت کردیا کہ مکتب اہل بیت(ع) کے ماننے والا ہی رہبری کے لائق ہے

۲۱۳

آج پورے دنیا والوں  نے یہ محسوس کرلیا ہے ، خصوصاً جوانوں  نے ، کہ حزب اللہ ، شیعہ ہے ، اور ان کی مکتب حقہ کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے لگے  ہیں ، جس کا نتیجہ یہ  نکلا ہے کہ حقیقی اسلام  کی شناخت کیلئے دروازہ کھل گیا ہے  .

نیو یورک ٹائمز نے لکھا ہے کہ : سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کرکے اپنی اور اپنی ٹیم کی شخصیت اور وقار کو حد سے زیادہ بلند و بالا کیا ہے اور جو چیز صفحہ تاریخ سے مٹادینے کے قابل ہیں،  وہ  مصر کا صدر جمال عبد الناصر کا یہودیوں کو سمندر میں پھینک دینے کا خالی اور کھوکھلا دعوا  اور صدام کا آدھا اسرائیل کو جلانے کا  جھوٹا ادعی تھا ؛ ان دنوں صدام کے بڑے بڑے پوسٹرز پاکستان کے مختلف شہرو ں  میں روڈوں پر بکنے لگے اور صدام کو صلاح الدین ایوبی کا لقب دینے لگے .لیکن اس نے اسرائیل کے اوپر حملہ کرنے کی بجائے کویت پر حملہ کر کے مسلمانوں کا مال اور خزانہ لوٹ کر سب سے بڑا  ڈاکو بن گیا .

لیکن ان کے مقابلے میں دیکھ لو  کہ  سید حسن نصر اللہ،۴۶ سالہ ایک روحانیت کے لباس میں محاذ جنگ پر ایک فوجی جرنیل کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ٹیم کا کمانڈ کرتے ہوئے نظر آتا ہے .

یہ اخبار مزید لکھتا ہے کہ : وہ مشرق وسطی کا قدرتمند ترین  انسان ہے .یہ بات عرب ممالک کے کسی ایک وزیر اعظم کے مشیر  نے اس وقت کہی  کہ جب سید حسن نصراللہ ٹی وی پر خطاب کررہے تھے .پھر وہ ایک سرد آہ بھر کر کہتا ہے : حسن نصراللہ ہی تمام عرب ممالک کے رہبر ہیں .کیونکہ وہ جو جو وعدہ کرتا ہے اسے ضرور پورا کرتے ہیں .

خود اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کردیا تھا کہ ۳۳ روزہ جنگ میں ۱۲۰ اسرائیلی فوج  کو قتل اور ۴۰۰ کوشدید  زخمی  کردئے ، جن میں سے بھی اکثر مرنے کے قریب تھے .اسی طرح ۵۰ یہودی دیھاتی  بھی حزب اللہ کے میزائلوں کی زد میں آکر مرے ، اور ۲۵۰۰ افراد زخمی تھے .حز ب اللہ نے یہ کر دکھایا کہ اس مختصر مدت میں ۱۲۰ میر کاوا ٹینک ، ۳۰ زرہی ، ۲  آپاچی ہیلی کوپٹر  کو منہدم کردیا .

غربی سیاستمداروں ، وایٹ ہاوس کے حکمران لوگ ، شروع میں حزب اللہ کی اس مقاومت اور مقابلے کو بہت ہی ناچیز اور کم سمجھ رہے تھے ،اور ان کا یہ تصور تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر حزب اللہ پسپا ہوجائے گا ، اور اسرائیل کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر

۲۱۴

مجبور ہوجائے گا .یہی وجہ تھی کہ پہلے دو ہفتے تک تو نہ اقوام متحدہ کی جانب سے اور نہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے ،اور نہ   کوئی سازمان کنفرانس اسلامی  عرب لیگ کی جانب سے اعتراض ہوا ، نہ اس جنگ کو روکنے کی بات ہوئی ؛ صرف یہ لوگ تماشا دیکھتے رہے ، اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ تھی کہ ایک دفعہ بھی اسرائیل کی ان جنایات اور غانا میں بچوں اور عورتوں کے قتل عام کرنے پر ، ایک احتجاجی جلسہ بھی عرب لیگ میں منعقد نہیں ہوا  !!.

جب امریکہ کی وزیر خارجہ مس کونڈولارائس  سے جنگ بندی کیلئے تلاش کرنے کی اپیل کی؛ تاکہ لبنان  خون خرابہ میں تبدیل نہ ہو ؛ تو اس نے بڑی نزاکت کے ساتھ کہا تھا :کوئی بات نہیں ، بچہ جننے کیلئے اس کی ماں کو درد زہ برداشت کرنا پڑتا ہے ، اسی

طرح ہم اس کرہ زمین پر  ایک جدید مشرق وسطی کے وجود میں لانے کیلئے کوشان ہے ، جس کا وجود میں آنے کیلئے کوئی ایک ملک(لبنان) خون خرابہ میں تبدیل ہوجائے ، اور یہ ایک طبیعی چیز ہے !!

اس بیان کے جواب میں سید حسن نصراللہ نے مناسب اور منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا : ہم بھی اس ناجائز طریقے سے وجود میں آنے والے بچے کو دنیا میں قدم رکھتے ہی گلا  دبا کر ماردیں گے .

تیسرے ہفتے میں دہیمی دہیمی الفاظ میں بعض ممالک کے رہنماؤں اور سیاسی لیڈروں کے منہ کھلنے لگیں .اقوام متحدہ کے اٹارنی جنریل  ، جیسے طولانی خواب سے بیدار ہوا ہو، سمجھنے لگے کہ لبنان میں کوئی  معمولی حادثہ رونما ہوا ہے ،

تیسرے ہفتے کے آخر میں جب حزب اللہ ، اسرائیل کے چار بحری کشتیوں کو منہدم کرنے میں کامیاب ہوئے ، اور اسرائیل اپنے کسی بھی ایک ہدف کو پہنچ نہیں پایا ؛ تو امریکہ ؛ جو کسی بھی صورت میں شورای امنیت کا جلسہ تشکیل دینے کیلئے حاضر نہ تھا ، ایک دم وہ جنگ بندی کرنے کی خاطر اتفاق رای کے ساتھ شق نمبر ۱۷۰۱ کے مطابق ، میدان میں اتر آیا ؛ کیونکہ اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے ممالک کی طرف سے دئے ہوئے تمام تر جدید میزائل ، بمب اور دوسرے سنگین اسلحے سے لیس  ہونے کے باوجود ؛ حزب اللہ کے سامنے اپنے گٹھنے ٹیک دیا تھا، اور مزید سیاسی امداد کیلئے ہاتھ پھیلا رہا تھا اس ضرورت کو امریکہ ، قطعنامہ کے ذریعے جبران کرنا چاہتا تھا . 

۲۱۵

مکتب اہل بیت (ع)کے ماننے والوں کے یہ سارے انقلابات ، شیعوں کی شجاعت ، دلیری اور بہادری کو ثابت کرتی ہیں .اور یہ سارے انقلابات ، اپنی ذاتی مفاد کی خاطر نہیں تھیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کو حاکم بنانا اور ظلم و ستم کو ختم کرنا مقصود تھا

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ بعض مسلم ممالک کے مفتی حضرات ؛ جیسے سعودی عرب کے مفتی بن  جبرین ، اور مصر کے درباری ملا ، طنطاوی ، نے فتویٰ دئے تھے  کہ حزب اللہ کا مدد کرنا، حتی ان کے لئےدعا کرنا بھی جائز نہیں ہے ، بلکہ حرام ہے ؛ کیونکہ وہ لوگ شیعہ ہیں اسی طرح سعودی حکومت ن بھی اسرائیل کے جنگی طیاروں کولبنان پر حملہ کرنے کیلئے  پیٹرول (فیول)  دیتی رہی.

اور جب مسلمانوں کی طرف سے یہ لوگ  پریشر میں آئے تو اپنی  غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی ملت اور قوم کے سامنے معافی مانگنے پر مجبور ہو گئے اور مفتی بن جبرین نے اپنے ویب سایٹ پر غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگا ، اور کہا: جو کچھ مجھ سے پہلے نقل ہوئی ہے وہ میرا قدیم اور پرانا نظریہ تھا ؛ ابھی میرا جدید نظریہ یہ ہے کہ یہ حزب اللہ ، وہی حزب اللہ ہیں  جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے .اور ہم انہیں دوست رکھتے ہیں اور ان کیلئے دعا بھی کرتے ہیں .اور  طنطاوی نے بھی جب  جامعة الازہر کے اساتذہ نے ان کے اوپر اعتراض کئے تو ان  کے سامنےکہا: جو کچھ میں نے پہلے بتایا تھا وہ میرا اپنا ذاتی نظریہ نہیں تھا بلکہ حکومت کی طرف سے کہلوایا گیا تھا اور میرا  ذاتی نظریہ ان کے بارے میں یہ ہے کہ  حزب اللہ کے مجاہدین، اس وقت اسلام ، مسلمین اور عرب امّت  کی عزت اور کرامت کے لئے اسرائیل کے ساتھ لڑ رہے ہیں  ،لہذا ان کی حمایت کرنا ضروری ہے آج کے دور میں سارے عرب ممالک میں محبوب ترین اسلامی شخصیت ، سید حسن نصراللہ  کو ٹہھرایا جاتا ہے اور ہر بچہ ، جو پیداہوتا ہے ؛ اس کا نام حسن نصراللہ رکھ رہے ہیں یہ بہت دلچسپ بات تھی کہ اس سال جب ماہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا اور لوگ روزہ رکھنے لگے ؛ مصر میں بہترین اور اعلی درجے کے خرما یا کھجور کا نام حسن نصراللہ رکھا گیا ؛تا کہ روزہ دار ، افطاری کے وقت حسن نصراللہ کو دعائیں دیں  اور خراب کھجور کا نام بش اور بلر رکھا گیا.

۲۱۶

یہ وہ تاریخی حقائق ہیں ، جن سے کوئی بھی اہل انصاف انکار نہیں کرسکتا اور ان حقیقتوں سے لوگ جب آشنا ہوجاتے ہیں تو خود بخود مذہب حقہ کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ، بشرطیکہ درباری ملاؤں کی طرف سے مسلمانوں کوکوئی رکاوٹ   درپیش   نہ ہو.

اب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کوئی ایک نمونہ پیش کریں جو آپ کے کسی سیاسی یا مذہبی رہنما نے ایسا کوئی انقلاب برپا کیا ہو ، اور اپنی شجاعت کا ثبوت دیا ہو، تاکہ ہم بھی ان کی پیروی کریں ؟!اور ہمیں یقین ہے کہ وہ لوگ نہ اسلام سے پہلے اور نہ اسلام  کے بعد ، کوئی ایسی جوانمردی نہیں دکھا سکتے کیونکہ انہیں اپنی جوان مردی دکھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ؛ جو ہمیشہ  ظالم و جابر حکمرانوں کے کوڑوں اور تلواروں سے ہمیشہ محفوظ رہے ہیں .کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ حاکموں کے ہم پیالہ بنتے رہے ہیں اوران کی ہرقسم کے ظلم وستم کی تائید کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے تقیہ کا موضوع  ہی منتفی ہوجاتا ہے

اگر شیعہ علما بھی ان کی طرح حکومت وقت کی حمایت کرتے اور ان کے ہاں میں ہاں ملاتے رہتے تو ان کو بھی کبھی  تقیہ کی ضرورت پیش نہ آتی .بلکہ ان کیلئے تقیہ جائز بھی نہ ہوتا ، کیونکہ تقیہ جان اور مکتب کی حفاظت کی خاطر کیا جاتا ہے ، اور جب ان کی طرف سے جان اور مال کی حفاظت کی گارنٹی مل جاتی تو ، تقیہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی

تقیہ کافروں سے کیا جاتا ہے نہ مسلمانوں سے

اشکال کرتے ہیں کہ تقیہ کافروں سے کیا جاتا ہے نہ مسلمانوں سے کیونکہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم کافروں سے کرنے کا ہے نہ مسلمانوں سے چنانچہ فرمایا:لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِینَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّهِ فِی شَيْءٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللّهُ نَفْسَهُ وَإِلَی اللّهِ الْمَصِیرُ. (۱)

خبردار صاحبانِ ایمان !مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے. اور یہ تقیہ ابتدای اسلام میں تھا ، لیکن شیعہ حضرات ، اہل حدیث سے تقیہ کرتے ہیں .

--------------

(۱):- سورہ مبارکہ آلعمران/۲۸.

۲۱۷

پہلاجواب:یہ شیعیان حیدر کرار(ع) کی  مظلومیت تھی کہ جو مسلمانوں سے بھی تقیہ کرنے اور اپنا عقیدہ چھپانے  پر مجبور ہوگئے اور یہ نام نہاد مسلمانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے اعمال اور کردار اور عقیدے پر نظر ثانی کرے  ؛ کہ جو کافروں والا کام اوربرتاؤ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتا ہو ، کیونکہ اگر تقیہ کرنے کی وجہ اور علت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ نتیجہ ایک نکلتا ہے ، اور وہ دشمن کی شر سے دین، جان اور مال کی حفاظت کرنا ہے

دوسرا  جواب: ظاہر آیہ اس بات پر لالت  کرتی ہے کہ تقیہ ان کافروں سے کرنا جائز ہے جو تعداد یا طاقت کے لحاظ سے مسلمان سے زیادہ قوی ہو

لیکن شافعی مذہب کے مطابق اسلامی مختلف مکاتب فکر سے تقیہ کرنا جائز ہے کیونکہ شافعی کے نزدیک مجوز تقیہ ، خطر ہے ، خواہ یہ خطر کافروں سے ہو یا مسلمانوں سے ہو ؛ کہ شیعہ ،مسلمانوں کے ہاتھوں بہت سی سختیوں اور مشکلات  کو تحمل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور یہ مظلومیت ،شہادت علی ابن ابی طالب(ع)کے بعد سے شروع ہوئی .ان دوران میں بنی امیہ کے کارندوں نے شیعہ مرد عورت ، چھوٹے بڑے ، حتی شیعوں کے کھیتوں اور حیوانات پر بھی رحم نہیں کیا .آخر کار انہیں بھی آگ لگادی   گئی.

جب معاویہ  اریکہ قدرت پر بیٹھا تو شیعیان علی(ع)کو سخت  سے سخت قسم کی اذیتیں پہنچانا شروع کیا اور ان کے اوپر زندگی  تنگ کردی .اور اس نے اپنےایک کارندے کو خط لکھا : میں علی اور اولاد  علی کے فضائل بیان کرنے والوں سے اپنی ذمہ بری کرتا ہوں ، یعنی انہیں  نابود کروں گا .

یہی خط تھا کہ جس کی وجہ سے ان کے نماز جماعت اور جمعے کے خطیبوں نے علی پر ممبروں سے  لعن  طعن کرتے ہوئے ان سے اظہار برائت کرنے لگے ، یہ  دور،کوفہ والوں پر بہت سخت گذری ، کیونکہ  اکثر کوفہ والے  علی کے ماننے والے تھے معاویہ نے زیاد بن سمیہ کو کوفہ اور بصرہ کی حکومت سپرد کی ، یہ ملعون شیعوں کو خوب جانتا تھا ، ایک ایک کرکے انہیں شہیدکرنا ، ہاتھ پیر ، کان اور زبان کاٹنا  ،  آنکھیں نکالنا اور شہر بدر کرنا شروع کیا .

۲۱۸

اس کے بعد ایک اور خط مختلف علاقوں میں باٹنا شروع کیا ؛ جس میں اپنے کارندوں اور حکومت والوں کو حکم دیا گیاکہ شیعوں کی کوئی گواہی قبول نہ کریں .سب سے زیادہ دشواری اور سختی عراق ، خصوصاً کوفہ والوں پر کی جاتی تھی ؛ کیونکہ وہ لوگ اکثر شیعیان علی ابن ابی طالب  تھے .اگر یہ لوگ کسی معتبر شخص کے گھر چلا جائے تو  ان کے غلاموں اور کنیزوں سے بھی احتیاط سے کام لینا پڑتا تھا ؛ کیونکہ ان کے اوپر اعتماد نہیں کرسکتے تھے  .اور انہیں قسم دلاتے تھے کہ ان  اسرار کو فاش نہیں  کریں گے اور  یہ حالت امام حسن مجتبی (ع) کے دور تک باقی رہی ، امام مجتبی (ع)کی شہادت کے بعد امام حسین (ع)پر زندگی اور تنگ کردی.

عبدالملک مروان کی حکومت شروع ہوتے اور حجاج بن یوسف کے بر سر اقتدار آتے ہی ، دشمنان امیر المؤمنین(ع) ہر جگہ پھیل گئے اور علی(ع) کے دشمنوں کی شان میں احادیث جعل کرنے  ، اور علی (ع)کی شان میں گستاخی کرنے لگے.اور یہ جسارت اس قدر عروج پر تھا کہ  عبدالملک بن قریب  جو  اصمعی کا دادا تھا  ؛ عبدالملک سے مخاطب ہوکر کہنے لگا : اے امیر ! میرے والدین نے مجھے عاق کردیا ہے اور سزا کے طور پر میرا نام علی رکھا ہے میرا کوئی مددگار  نہیں  ، سواے امیر کے اس وقت حجاج بن یوسف ہنسنے لگا اور کہا: جس سے تو متوسل ہوا ہے ؛ اس کی وجہ سے تمھیں فلان جگہ کی حکومت دونگا(۱)

امام باقر(ع)شیعوں کی مظلومیت اور بنی امیہ کے مظالم کے بارے میں فرماتے ہیں : یہ  سختی اور شدت معاویہ کے زمانے اور  امام مجتبی(ع)  کی شہادت کے بعد اس قدر تھی کہ  ہمارے شیعوں کو کسی بھی بہانے شہید کئے جاتے ، ہاتھ پیر کاٹتے اور جو بھی ہماری محبت کا اظہار کرتے تھے ، سب کو قید کرلیتے تھے اور ان کے اموال کو غارت کرتے تھے .  اور گھروں کو آگ لگائے جاتے تھے ،یہ دشواری اور سختی اس وقت تک باقی رہی کہ عبید اللہ جو امام حسین(ع) کا قاتل ہے  کے زمانے میں حجاج بن یوسف اقتدار پر آیا تو سب کو  گرفتار کرکے مختلف تہمتیں لگا کر شہید کئے گئے .اور اگر کسی پر یہ گمان پیدا ہوجائے ، کہ شیعہ ہے ، تو اسے قتل کیا جاتا تھا(۲)

--------------

(۱):- عباس موسوی؛ پاسخ و شبہاتی پیرامون مکتب تشیع،ص۸۶.  

(۲):- ابن ابی الحدید؛ شرح او، ج ۱۱ ص۴۴.

۲۱۹

یہ تو بنی امیہ کا دور تھا اور بنی عباس کا دور تو اس سے بھی زیادہ سخت  دور، اہل بیت کے ماننے والوں پر آیا چنانچہ شاعر نے علی(ع)کے ماننے والوں کی زبانی یہ آرزو کی ہے  ، کہ اے کاش ، بنی امیہ کا دور واپس پلٹ آتا !: 

فیالیت جور بنی مروان دام لنا    و کان عدل بنی العباس فی النار

اےکاش ! بنی امیہ کا ظلم و ستم ابھی تک باقی رہتا اور بنی عباس کا عدل و انصاف جہنم کی آگ میں .

جب منصور سن  ۱۵۸ھ  میں عازم حج ہوا کہ وہ  اس کی زندگی کا آخری سال  تھا ؛ ریطہ جو اپنے بھائی سفاح کی بیٹی اور اپنے بیٹے کی بیوی (بہو) تھی ، اسے  اپنے  پاس  بلا کر سارے خزانے کی چابی اس کا حوالہ کیا ، اور اسے قسم دلائی کہ اس کے خزانے کو کسی کیلئے بھی نہیں کھولے گی.اور کوئی ایک بھی اس کے راز سے باخبر نہ ہو،حتی اس کا بیٹا محمد بھی ، لیکن جب اس کی موت کی خبر ملی تو محمد اور اس کی بیوی جا کر خزانے کا دروازہ کھولا ، بہت ہی وسیع اور عریض کمروں میں پہنچے ، جن میں علی(ع) کے ماننے والوں کے کھوپڑیاں  اور جسم کے ٹکڑے اور لاشیں ملیں .اور ہر ایک کے کانوں میں کوئی چیز لٹکی ہوئی تھی کہ جس پر اس کا نام اور نسب مرقوم تھا ان میں جوان ، نوجوان اوربوڑھے سب شامل تھےالا لعنة الله علی القوم الظالمین!. محمد نے جب یہ منظر دیکھا تو  وہ مضطرب ہو ا اور اس نے حکم دیا کہ ان تمام لاشوں کو گودال کھود کر اس  میں دفن کئے جائیں(۱)

بنی عباس کے بادشاہوں نے علی (ع)کے فضائل بیان کرنےوالے شاعروں کی زبان کاٹی ، اور ان کو زندہ درگور کئے اور جو پہلے مر چکے تھے ان کو قبروں سے نکال کرجسموں کو جلادئے گئے ان سب کا صرف ایک ہی  جرم  تھا ؛ اوروہ محبت علی(ع) کے سوا کچھ اورنہ تھا شیعیان آفریقا ،معاذ ابن بادیس کے دور میں سنہ ۴۰۷ ھ میں سب کو شہید کئےگئے ، اور حلب کے شیعوں کو بھی اسی طرح بے دردی سے شہید کئے گئے .ای اہل انصاف!خود بتائیں کہ ان تمام سختیوں ، قید وبند کی صعوبتوں اور قتل و غارت ، کے مقابلے میں اس  مظلوم گروہ نے اگر تقیہ کر کے اپنی جان بچانے کی کوشش کی ،  تو کیا انہوں نے کوئی جرم کیا؟!!

اور یہ بتائیں کہ کون سا گروہ یا فرقہ ہے ؛ جس نے شیعوں کی طرح اتنی سختیوں کو برداشت کیا ہو ؟!!

--------------

(۱):- عباس موسوی؛ پاسخ و شبہاتی پیرامون مکتب تشیع،ص۸۷.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255