شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات0%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 255
مشاہدے: 208204
ڈاؤنلوڈ: 5936

تبصرے:

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208204 / ڈاؤنلوڈ: 5936
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تتمہ

وہ لوگ خود قابل مذمت ہیں

پہلے عرض کر چکا کہ تقیہ کہاں واجب ہے؟ کہاں مستحب ہے ؟ اور کہاں حرام ہے؟اور کہاں مکروہ و مباح ؟یہاں ہم بطور خلاصہ ان موارد کو بیان کریں گے تا کہ مکمل طور پر واضح ہو سکے :

تقیہ کا واجب  ہونا :تقیہ کرنا اس وقت واجب ہوجاتا ہے کہ بغیر کسی فائدے کے ، اپنی جان خطرے میں پڑجائے .

تقیہ کا مباح ہونا:تقیہ اس صورت میں مباح ہوجاتا ہے کہ اس کا ترک کرنا ایک قسم کا دفاع اور حق کی تقویت کا باعث ہو. ایسے مواقع پر انسان فداکاری کرکے اپنی جان بھی دے سکتا ہے ،اسی طرح اسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حق سے دست بردار ہوکر اپنی جان بچائے .

تقیہ کا حرام ہونا: اس صورت میں تقیہ کرنا حرام ہوجاتا ہے کہ اگر تقیہ کرنا، باطل کی ترویج، گمراہی کا سبب، اور ظلم وستم کی تقویت کا باعث بنتا ہو.ایسے موقعوں پر جان کی پروا نہیں کرنا چاہئے اور تقیہ کو ترک کرنا چاہئے .اور ہر قسم کی خطرات اور مشکلات کو تحمل کرنا چاہئے .

ان بیانات سے واضح ہوا کہ تقیہ کی حقیقت کیا ہے اور شیعوں کا عقلی اور منطقی نظریہ سے بھی واقف ہوجاتا ہے ، اس ضمن میں اگر کوئی تقیہ کی وجہ سے ملامت اور مذمت کرنے کے لائق ہے تو وہ تقیہ کرنے پر مجبور کرنے والے ہیں ، کہ کیوں آخر اپنی کم علمی کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کے جان و مال کے درپے ہوگئے ہو؟ او ر تقیہ کرنے پر ان کو مجبور کرتے ہو؟!!پس وہ  لوگ خود قابل مذمت ہیں ، نہ یہ لوگ.کیونکہ تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ معاویہ نے جب  حکومت اسلامی کی باگ  دوڑ مسلمانوں کی رضایت کے بغیر سنبھال لی تو اس کی خودخواہی اس قدر بڑھ گئی کہ جسطرح چاہے اور جو چاہے ، اسلامی احکام کے ساتھ کھیلتا تھا ، اور کسی سے بھی خوف نہیں کھاتے ، حتی خدا سے بھی !! خصوصاً شیعیان علی ابن ابیطالب  کا پیچھا کرتے تھے ، ان کو جہاں بھی ملے ، قتل کیا کرتے تھے  ، یہاں تک کہ اگر کسی پر یہ شبہہ پیدا ہوجائے کہ یہ شیعہ ہے تو اسے بھی نہیں

۲۲۱

 چھوڑتا تھا بنی امیہ اور بنی مروان  نے بھی اسی راہ  کو انتخاب کیا اور ادامہ رکھا .بنی عباس کی نوبت آئی  تو انہوں نے بھی بنی امیہ کے مظالم اور جنایات کو نہ صرف تکرار کیا بلکہ ظلم وستم کا ایک اور باب کھولا ، جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.

ایسے میں شیعہ تقیہ کرنے کے سوا کیا  کچھ کر سکتے تھے؟یہی وجہ تھی کہ کبھی اپنا عقیدہ چھپاتے اور کبھی اپنے  عقیدے کو ظاہر کرتے تھے.جس طریقے سے حق اور حقیقت کا دفاع ہوسکتا تھا اور ضلالت اور گمراہی کو دور کرسکتا تھا ایسے موارد میں شیعہ اپنا عقیدہ  نہیں چھپاتے تھے ، تاکہ لوگوں پراتمام حجت ہوجائے .اورحقانیت لوگوں پر مخفی نہ رہ جائے .اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ  ہماری بہت ساری ہستیاں اپنے دور میں تقیہ کو کلی طور پر پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی جانوں کو راہ خدا میں قربان کئے، اور ظالموں کے قربان گاہوں اور پھانسی کے پھندوں تک جانے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھنے لگے  تاریخ  کبھی بھی مجعذراء (شام کی ایک دیھات کانام ہے) کے شہداء کو فراموش نہیں کرے گی.یہ لوگ چودہ  افرادتھے جو بزرگان شیعہ میں سے تھے ، جن کا سربراہ وہی صحابی رسول تھے جو زہد و تقوی  اور عبادت کی وجہ سےجسم نحیف ہوچکے تھے.اور وہ کون تھا ؟ وہ عظیم نامور حجر بن عدی کندی تھا ، شام کو فتح کرنے والی فوج کے سپہ سالاروں میں سے تھے لیکن معاویہ نے ان چودہ افراد کو سخت  اذیتیں دے کر شہید کیا اور اس کے بعد کہا: میں نےجس جس کو بھی قتل کیا ، اس کی وجہ جانتا ہوں ؛سوائے حجر بن عدی کے ، کہ اس کا کیا جرم تھا ؟!ابن زیاد بن ابیہ جو بدکارعورت سمیہ کا بیٹا تھا ؛ شراب فروش ابی مریم کی گواہی کی بناپر معاویہ نے اسے اپنا بھائی  کہہ کر اپنے باپ کی طرف منسوب کیا ؛ اسی  زیادنے حکم دیا کہ رشید حجری کو علی(ع) کی محبت اور دوستی کے جرم میں ، ان کے ہاتھ پیر اور زبان کاٹ دئے جائیں .اور ایک درخت کے ٹہنی کے سولی پر چڑھائے گئے.ابن زیاد جو اسی زنازادہ کا بیٹا تھا ، نے علی کے دوستدار میثم تمار کو مار پیٹ کے بعد اسے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں اور زبان کو کاٹ کر تین دن تک کچھور کے اس سوکھے ٹہنی پر لٹکائے رکھا، جس کی جب سے مولا نے پیشن گوئی کی تھی اس وقت سے اس تنے کو پانی دیتا رہا تھا ، اور تین دن بعد اسے بے دردی سے شہیدکیا گیا .

--------------

(1):- شیعہ می پرسد، ص ۲۹۰.

۲۲۲

اے اہل انصاف! اب خودبتائیں کہ ظلم و ستم کے ان تمام واقعات  میں کون زیادہ قابل مذمت ہے ؟! کیاوہ گروہ جسے تقیہ کرنے اور اپناعقیدہ چھپانے پر مجبور کیا گیا ہو یا وہ گروہ جو اپنے دوسرے مسلمانوں کو تقیہ کرنے اور عقیدہ چھپانے پر مجبور کرتے ہوں؟!دوسرے لفظوں میں مظلوموں کا گروہ قابل مذمت ہے یا ظالوں کا گروہ ؟!

ہر عاقل اور باانصاف انسان کہے گا : یقیناً دوسرا گروہ ہی قابل مذمت ہے.

آقای کاشف الغطاء دوسروں کو تقیہ کرنے پر مجبور کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں اور جواب دیتے ہیں : کیا رسول خدا  کے صحابی عمر بن حمق خزاعی اور عبد الرحمن ابن حسانبی ، زیاد کے ہاتھوں قس الناطف  میں زندہ  درگورکئے جانے کو فراموش کرسکتے ہیں؟!!

کیا میثم تمار ، رشید ہجری اور عبداللہ بن یقطرجیسی ہستیوں کو ابن زیادہ نے جس طرح بے دردی سے سولی پر چڑا کر شہید کیا  ؛ قابل فراموش ہے؟!

ان جیسے اور سینکڑوں علی (ع)کے ماننے والے تاریخ میں  ملیں گے جنہوں نے اپنی پیاری جانوں کو اللہ کی راہ میں فنا کرنے سے دریغ نہیں کیا .کیونکہ یہ لوگ جانتے تھے کہ تقیہ کہاں استعمال کرنا ہے اور کہاں ترک کرنا ہے .یہ لوگ بعض مواقع میں تقیہ کو اپنے آپ پر حرام سمجھتے  تھے.کیونکہ اگر یہ لوگ ان موارد میں تقیہ کرتے تو حق اور حقیقت بالکل ختم ہوجاتا .

آقای کاشف الغطاء فرماتے ہیں:میں معاویہ سے یہی پوچھوں گا کہ حجر بن عدی کا کیا قصور تھا اور اس کا کیا جرم تھا ؟ سوای علی کی محبت اور مودت کے ، جس سے  اس کا دل  لبریز تھا .اس نے تقیہ کو کنار رکھتے ہوئے بنی امیہ کا اسلام سے کوئی رابطہ نہ ہونے کو لوگوں پر آشکار کردیا تھا. ہاں اس کا اگر کوئی گناہ تھا تو وہ حق بات کا اظہار کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتا تھا اور یہی اس کا مقدس  اور اہم ہدف تھا ،  جس کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ دینے سے دریغ نہیں  کیا(1)

---------------

(1):- این است آئین ما، ص ۳۶۸.

۲۲۳

ابن اثیر لکھتا ہے کہ حجر بن عدی کے دو دوست کو پکڑ کرشام میں معاویہ کے پاس روانہ  کیا گیا ؛ معاویہ نے ایک سے سوال کیا : علی کے بارے میں کیا کہتے ہو؟!

اس نے کہا: وہی ، جو تو کہتا ہے .

معاویہ نے کہا: میں ان سے اور ان کے دین سے کہ جس کی وہ پیروی کرتا ہے، اور اس خدا سے کہ جس کی وہ پرستش کرتا ہے ،   بیزار ہوں .

وہ شخص خاموش رہا.اس مجلس میں موجود بعض لوگوں نے ان کی سفارش کی، اور معاویہ نے بھی ان کی سفارش قبول کرلی .اور اسے آزاد کردیا لیکن اسے شہر بدر کرکے موصل میں بھیجا گیا .

معاویہ نے دوسرے سے سوال  کیا :تو  علی کے بارے میں کیا کہتے ہو؟

اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو ، نہ پوچھے توتمھارے لئےبہتر ہے .

معاویہ نے کہا: خدا کی قسم تمہیں  جواب دئے بغیر نہیں چھوڑوں گا .

اس مرد مجاہد نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں علی بن ابیطالب(ع) ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرتے تھے اور حق بات کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے تھے ، عدل اور عدالت  کے قیام کے لئے کوشان تھے،علی(ع) ان میں سے تھے جو لوگوں کی دادو فریاد سنتے تھے ،... اس طرح وہ فضائل علی بیان کرتے گئے اور لوگ انہیں داد دیتے گئے .یہاں تک کہ معاویہ نے کہا : تو نے اپنےآپ کو ہلاکت میں ڈالا

اس محب علی (ع)نے کہا:بلکہ میں نے تجھے بھی ہلاک کیا، یعنی لوگوں کے سامنے تجھے بھی ذلیل و خوارکیا.

معاویہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو زیاد بن ابیہ کے پاس واپس بھیج دو، تاکہ وہ اسے بدترین حالت میں قتل کرے !

زیاد بن ابیہ ملعون نے بھی اس محب علی کو زندہ درگور کیا .

۲۲۴

اگر یہ لوگ تقیہ کرتےتو لوگوں تک علی(ع) کے فضائل بیان نہ ہوتے ، اور دین اسلام معاویہ ، یزیداور ابن زیاد والا دین بن کر  رہ جاتا.یعنی ایسا دین ؛ جو ہر قسم کے رزائل ، جیسے مکرو فریب ، خیانت ومنافقت،ظلم و بربریت ،... کا منبع ہو .اور یہ دین کہاں اور وہ دین جو تمام فضلیتوں کامنبع ہو، کہ جسے رسول اسلام (ص)نے لایا اور علی اور اولاد علی نے بچایا اور ان کے دوستداروں نے قیامت  تک  کیلئے حفاظت کی ؛ کہاں؟!!!

ہاں یہ لوگ راہ حق اور فضیلت میں شہید ہونے والے ہیں جن میں سے ایک گروہ شہدائے طف ہیں ، جن کا سپہ سالار حسین ہیں ، جنہوں نے کبھی بھی ظلم وستم کو برداشت نہیں کیا ، بلکہ ظالموں کے مقابلے  میں بڑی شجاعت اور شہامت کے ساتھ جنگ کیں ، اور تقیہ کو اپنے اوپر حرام قرار دیا ہوا تھا.

اب ان کے مقابلے میں بعض علی(ع) کے ماننے والے تقیہ کرنے پر مجبور تھے ، کیونکہ شرائط،اوضاع واحوال اور محیط  فرق کرتا تھا.بعض جگہوں پرمباح ، یا جائز سمجھتے تھے اور بعض جگہوں پر واجب یا حرام یا مکروہ.

اب ہم مسلمانوں سےیہی کہیں گے کہ آپ لوگ دوسرے مسلمانوں کو تقیہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ شیعہ تقیہ کیوں کرتے ہیں ؟آپ کوئی ایسا کام نہ کریں ، کہ دوسرے مسلمان تقیہ کرنے پر مجبور ہوجائیں .

ان لوگوں کو کیا غم ؟!

چالیس ہجری سے لیکر اب تک شیعہ اور ان کے اماموں نے رنج و الم، اذیت اورآزارمیں زندگی کیں.کسی نے  زندگی کا بیشتر حصہ قید خانوں میں گذاری ، کسی کو تیر اور تلوار سے شہید کیا گیا، تو کسی کو زہر دیکر شہید کیا گیا .ان مظالم کی وجہ سے تقیہ کرنے پر بھی مجبور ہوجاتےتھے.

لیکن دوسرے لوگ معاویہ کی برکت سے سلسلہ بنی امیہ کے طویل و عریض دسترخوان پر  لطف اندوز ہوتے رہے ، اس کے علاوہ مسلمانوں کے بیت المال میں سے جوائز اور انعامات سے بھی مالامال ہوتے رہے ،اور بنی عباس کے دور میں بھی یہ برکتوں والا دسترخوان ان کیلئے بچھے رہے .یہی وجہ تھی کہ ان نام نہاد اور ظالم وجابر لوگوں کو بھی اولی الامر اور واجب الاطاعة سمجھتے رہے

۲۲۵

 .اس طرح  یزید پلید ، ولید ملعون اور حجاج خونخوار کو بھی خلفائے راشدین میں شامل کرتے رہے .

خدایا !ان کی عقل کو کیا ہوگیا ہے ؟ یہ لوگ دوست کوبھی رضی اللہ اور دشمن کو بھی رضی اللہ. علی (ع)کوبھی خلیفہ اور معاویہ کوبھی خلیفہ مانتے ہیں، جب کہ ان دونوں میں سے ایک برحق ہوسکتا ہے اگر کہے کہ ان کے درمیان سیاسی اختلاف تھا ؛ تو سب سے زیادہ طولانی جنگ مسلمانوں کے درمیان ہوئی ، جنگ صفین ہے ، جس میں سینکڑون مسلمان مارے گئے. اور جہاں مسلمانوں کاقتل عام ہورہاہو؛ اسے معمولی یا سیاسی اختلاف سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا.اسی طرح یزید کو بھی رضی اللہ اور حسین کو بھی رضی اللہ ، عمر بن عبدالعزیز کو بھی رضی اللہ اور متوکل عباسی اور معتصم کو بھی رضی اللہ؟!!یعنی دونوں طرف کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں. یہ کہاں کا انصاف اور قانون ہے ؟ اور کون سا عاقلانہ کام ہے ؟ 

جای سؤال یہاں ہے کہ کیا یہ لوگ بھی کوئی رنج و الم دیکھیں گے ؟!

لیکن اس بارے میں امامیہ کا کیا عقیدہ ہے؟ ذرا سن لیں : شیعہ اسے اپنا امام اور خلیفہ رسول مانتے ہیں جواللہ اور رسول کی جانب سے معین ہوا ہو ، نہ لوگوں کے ووٹ سے.اس سلسلے میں بہت لمبی بحث ہے ، جس کیلئے ایک نئی کتاب کی ضرورت ہے .

خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیعہ ہر کس وناکس کو خلیفہ رسول نہیں مانتے؛ بلکہ ایسے شخص کو خلیفہ رسول مانتے ہیں ، جو خود رسول (ص) کی طرح معصوم ہو. ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے ہم تقیہ کے قائل ہیں ،لیکن ہم پر اعتراض کرنے والے ہمیشہ حاکم وقت  کی چاپلوسی کرنے میں مصروف ہیں.اور آپ کوئی ایک مورد  دکھائیں ، کہ جس میں اپنے کوئی رہبر یا عالم ،ظالم و جابر خلیفے یا حاکم کو نہی از منکر کرتے ہوئے اسے ناراض کیا ہو؟!

اس کے باوجود کہ آپ کے بہت سے علما جو درباری اور تنخواہ دار تھے ، جب بنی امیہ کا حاکم ولید ، بقول آپ کے،امیرالمؤمنین مستی اور نشے  کی حالت میں مسجد میں نماز جماعت کراتا ہے اور محراب عبادت کو شراب کی بدبو سے آلودہ کرتا ہے اور صبح کی نمازچار رکعت پڑھ  لیتا ہے ، جب لوگ کانافوسی کرنے لگتے ہیں تو وہ پیچھے مڑ کر کہتا ہے : اگر کم ہوا تو اور چار رکعت پڑھا دوں؟!کوئی بھی حالت تقیہ سے نکل کر اسے روکنے یا نہی از منکر کرنے والا نہیں ہوتا

۲۲۶

اگرعلی(ع)کے ہزاروں شیعوں کا حجاج بن یوسف خونخوارتمہاری نگاہوں میں اولوالامر ہے ، کے ساتھ گفتگو سننا چاہتے ہو  تومعلوم ہوجائے گا کہ کن کن ہستیوں نے اس ظالم و جابر کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ؟!

بڑے بڑے دانشوروں جیسے شہید اول محمد بن مکی عاملیؓ ، کو پہلے تلوار سے شہید کیا گیا ،پھر لاش کو  سولی پر لٹکا رکھا ، پھر اسے دمشق کے قلعے میں لے جاکرجلایا گیا.

اسی طرح شہید ثانی زین الدین بن علی عاملیؓ کوشہیدکیا گیا.

قاضی نوراللہ شوستری جوشہید ثالث کے نام سے معروف ہے ، اسے  ہندوستان میں شہید کیا گیا.

سید نصر اللہ حائری جو نادرباد شاہ  کا سفیر تھا ،  جوصرف اور صرف شیعہ ہونے کی وجہ سے شہید کیا گیا(1)   اور صدام نے دس لاکھ سے زیادہ شیعوں کا قتل عام کیا  اور بہت  سے لوگوں  کا پورا گھرانہ تباہ کیا .

ان تمام مظالم ، جرم ، قتل وغارت گری کے باوجود یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ شیعہ تقیہ کیوں کرتے ہیں ؟!جب کہ اس سے پہلے اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ شیعوں کو تقیہ کرنے پر مجبورکیوں کرتے ہیں.

تقلید کی حقیقت کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں علامہ عقیل غروی  مدظلہ فرماتے ہیں: تقلید  ایک فطری اور عقلی مسئلہ ہے  اور یہ نظام ولایت کی بنیاد  اور اس کا حصہ ہے۔ جس طرح اپنے نفس کو بچانے کے لئے علم و عمل کی ضرورت ہے۔ اور یہ علم دو قسم کے ہیں: یا خود  اپنے  پاس مکمل  موجود ہو  یعنی خود مجتہد ہو یا کسی علم والے کی رہنمائی  اور علم سے استفادہ کرے۔ ایک مثال کے ذریعے سمجھارہے ہیں : ایک شخص کے پاس روشنی ہےلیکن اپنے پاس کوئی روشنی نہیں اب راستہ بھی طے کرنا ضروری ہے  اگر  یہ ضد ہے کہ اس کی روشنی میں نیں جانا  ہے تو نجات مشکل ہے ۔

---------------

(1):- .  محب الاسلام؛ شیعہ می پرسد، ج۲، ص ۲۹۳.

۲۲۷

تقلید بھی عقلوں پر پابندی لگانے کا نام نہیں ہے  بلکہ ماہر کار(مجتہد) کی رائے پر عمل کرنے کا نام ہے  اس سے معلوم ہوا تقلید علم  کی ہے جہل کی نہیں ۔اور اگر علم کو چھوڑ کر جہالت کی تقلید کرنے کی وجہ سے امّت  اسلامی ۷۳ فرقے میں بٹ گئی۔ اگر علی ؑ کی تقلید کرتے تو  یہ نوبت نہیں آتی۔تقلید ختم نبوت  کی برکات میں سے ہے کہ اجتہاد کا دروازہ کھول رکھاہے خدا کی حکومت لیکن  خود سامنے نہیں آسکتا اس لئے انبیاءبھیجے اور یہ بھی حکمت الہی میں نہیں تھا کہ نبی ہمیشہ رہے اس لئے امامت کا سلسلہ جاری کیا اور یہ بھی مصلحت میں نہیں تھا کہ امامت بھی ہمیشہ حاضر رہے  لہذا مجتہدین کی طرف ہماری راہنمائی  کرتے ہوئے امام  حسن العسکری ؑ نے فرمایا:

مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ، حَافِظاً لِدِینِهِ، مُخَالِفاً لِهَوَاهُ، مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُوهُ (1)

یعنی مجتہدین میں سے جو بھی اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو، اپنے دین کی حفاظت کرتا ہو، ہوائے نفس کی مخالفت کرتا ہواور اپنے مولا کی پیروی کرتا ہوتو عوام پر فرض ہے ہے ایسےفقیہ اور مجتہد کی تقیلد کرے۔اگر کوئی یہ کہہ دے کہ میں امام زمانہ ؑ کی تقلید یا بیعت کرتا ہوں تو  اس میں یہ صلاحیت اور تیاری  موجود ہونی چاہئے جو فقہاء اور صاحب علم ہی کی تقلید کے ذریعے پیدا ہوتی ہے

ہمارے دشمنوں کو ہماری قیادت اور مرجعیت سے  حسد ہے ۔ ہماری قیادتوں کی مثال دنیا کو نصیب نہیں ہے ۔ اس قیادت پر ہمیں ناز کرنا چاہئے جو آفاقی قیادت ہے ۔ جس طرح اللہ کی حکومت سرحدوں میں محدود نہیں اسی طرح مرجعیت بھی سرحدوں میں محدود نہیں ۔ ایک متدین اور متعہد شیعہ  دنیا کے جس کونے میں بھی ہو وہ سب  ایک رہبر کی تقلید کرتے ہیں۔

--------------

(1):-  ۔  التفسیر المنسوب الی الامام الحسن العسکری علیہ السلام ؛ ؛ ص300

۲۲۸

ایسا نظام  دنیا میں کسی بھی فرقے کے لئے نصیب نہیں ہے۔ اسی طرح ہمارا پرچم یعنی علم ِحضرت عباس بھی سرحدوں میں قید نہیں ہے دنیا کے ہر ملک میں مؤمن کے گھروں اور امام بارگاہوں پر لہرا یا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں کوئی پاکستان کا جھنڈا ہندوستان میں یا ہندوستان کا جھنڈا چین میں لہرا نہیں سکتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے غازی شہنشاہ کی حکومت پوری دنیا پر قائم ہے  اور حسین کی حکومت  انسانیت کے دلوں پر قائم  ہے ۔

 آخر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ اللہ پاک ہم سب کو راہ مستقیم پرثابت قدم رکھے اور جو بھی ہدایت کے طلب گار ہیں انہیں ہدایت کے راستے پر گامزن فرما آمین .                             (   تمت بالخیر)

۲۲۹

فہرست منابع

1.  القرآن الکریم

2.  ابن ابی الحدید؛ شرح  نہج البلاغہ

3.  ابن الاثیر؛ اسد الغابة

4.  ابن تیمیہ؛   منہاج السنہ النبویہ فی نقض الشیعہ و القدریہ  ، مکتبہ الخیاط، بیروت.

5.  ابن حزم ؛ المُحَلَّی بِالآثَارِ، مکتبة الشاملہ نرم افزار.

6.  ابن شبة؛ تاریخ مدینہ دمشق،

7.  ابن عبد ربہ الاندلسی؛ العقد الفرید

8.  ابن عربی،   تحقیق : محمد عبد القادر عطا؛ احکام القرآن؛ ناشر : دار الفکر للطباعة والنشر.

9.  ابن کثیر، اسماعیل بن عمرو؛ تفسیر القرآن العظیم،تحقیق: محمد حسین شمس الدین، دار الکتب العلمیة، منشورات: بیروت، 1419.  

10. ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی الدمشقی ؛ تفسیر القرآن العظیم،دار طیبة للنشر والتوزیع الطبعة : الثانیة 1420ہـ - 1999 م مجمع الملک فہد لطباعة المصحف الشریف.

11. ابو القاسم ،راغب الاصفہانی،؛ مفردات غریب القرآن

12. ابو بکر احمد بن الحسین بن علی البیہقی السنن الکبری وفی ذیلہ الجوہر النقی ، ،الناشر : مجلس دائرة المعارف النظامیة الکائنة فی الہند ببلدة حیدر آباد.

13. ابو بکر محمد بن الطیب بن جعفر بن القاسم ابو بکر الباقلانی؛کتاب تمہید الاوائل وتلخیص الدلائل، مؤسسة الکتب الثقافیة  بیروت الطبعة الاولی ، 1987

۲۳۰

14. ابو حاتم محمد بن حبان البستی؛ اکمجروحین، تحقیق : محمود ابراہیم زاید،دار الوعی حلب.

15. ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی ؛سنن النَسائی؛ موقع وزارة الاوقاف المصریة.

16. ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبہانی ؛ حیلة الاولیاءوطبقات الاصفیاء دار الکتاب العربی  بیروت،1405.

17. ابوالقاسم، آلوسی؛ روح المعانی،

18. ابوعبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، سنن ابن ماجہ، موقع وزارة الاوقاف المصریة.

19. ابوعبداللہ الحاکم نیشاپوری، معرفة علوم الحدیث ،

20. ابی جعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ ، الصدوقالقمی ،جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیةنقم المقدسةالمتوفی 381 ہصححہ وعلق علیہ علی اکبر الغفاری.

21. احسان الٰہی ، ظہیر ؛  السنہ و الشیعہ. پاکستان.

22. احمد بن حنبل ابو عبداللہ الشیبانی؛مسند الامام احمد بن حنبل الناشر مؤسسة قرطبة  القاہرة.

23. احمد بن علی بن حجر ابو الفضل العسقلانی الشافعی ؛فتح الباری شرح صحیح البخاری،دار المعرفة - بیروت ، 1379.

24. احمد بن علی بن حجر ابو الفضل العسقلانی الشافعی، تہذیب التہذیب،دار الفکر  بیروت، الطبعة الاولی ، 1404  1984.

25. احمد بن علی بن حجر ابو الفضل العسقلانی الشافعی؛ لسان المیزان مؤسسة الاعلمی للمطبوعات - بیروت الطبعة الثالثة ، 1406 - 1986 دائرة المعرف النظامیة  الہند.

26. الاسلام کلینی، الکافی، 8 جلد، دار الکتب الاسلامیة تہران، 1365 ہجری شمسی

27. الاصابة

28. اعلام النبلاء 1: 425.ـ در مصنف عبد الرزاق

۲۳۱

29. آلوسی سید محمود، ابوالفضل؛ روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، دارالکتب العلمیہ - بیروت، چاپ اول، 1415 ق.

30. الامام الشہید زید بن علی بن الحسین ابن علی بن ابی طالب علیہم السلام ؛ مسند الامام زید منشورات دار مکتبة الحیاة بیروت لبنان.

31. امینی، عبد الحسین؛   الغدیر  ، چ۲، تہران، ۱۳۳۶.

32. بدایة المجتہد کتاب النکاح.

33. البدایہ و النہایہ ،

34. بیہقی؛نیشاپوری؛ مناقب الشافعی ؛

35. پیشوائی، مہدی؛ سیرہ پیشوایان، مؤسسہ امام صادق، قم، ۱۳۷۶.

36. تالتقیہ فی رحاب العلمین(شیخ انصاری و امام خمینی) ، الامانةالعامہ للمؤتمر، ۱۳۷۳.

37. تدوین السنة الشریفہ،

38. ثامر ہاشم العمیدی ؛   تقیہ از دیدگاہ مذاہب وفرقہ ہای اسلامی غیر شیعی، مترجم سید محمد صادق عارف، آستان رضوی، مشھد، ۱۳۷۷.

39. جعفر سبحانی ، تنقیح المقال فی علم الرجال، قم

40. جعفر سبحانی؛ مع الشیعہ الامامیہ فی عقائدہم، حوزہ علمیہ قم.

41. الحاکم ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن محمد الحافظ ؛المستدرک علی الصحیحین ،۷محرم۳۷۳ہ

42. حجتی، محمد باقر؛ تاریخ قرآن کریم، نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۶۰.

43. حر عاملی، محمد بن الحسن؛ وسائل الشیعہ، اسلامیہ،تہران،۱۳۸۷ہ

۲۳۲

44. حسن بن علی علیہ السلام، امام یازدہم، التفسیر المنسوب الی الامام الحسن العسکری علیہ السلام، 1جلد، مدرسة الامام المہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف - ایران ؛ قم، چاپ: اول، 1409 ق.

45. حیاة فاطمة الزہراء؛ باقر شریف قرشی:

46. خطیب بغدادی، تقیید العلم

47. داوود؛ ترجمہ الطرائف،چ۲، نوید اسلام، قم ، ۱۳۷۴ش.

48. درالمنثور

49. دکتر علی سالوس؛ جامعہ قطربین الشیعہ و السنہ

50. دکتر محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی

51. دکترناصر بن عبداللہ؛ اصول مذہب شیعہ

52. روضة الواعظین و بصیرة المتعظین، 

53. زناشویی و اخلاق

54. سالوس، علی؛ بین الشیعہ و السنہ  ، دار الاعتصام،قاہرہ.موسسہ الہادی؛

55. السید الخمینی؛تحریر الوسیلہ،

56. السید عبدالحسین شرف الدین ( قدس سرہ )؛ الفصول المہمة فی تالیف الامة،تحقیق وتعلیق : العلامة الشیخ حسین الراضی

57. سید علی بن موسی بن طاوس ؛  الطرائف،  چاپخانہ خیام قم، 1400 ہجری قمری

58. السید محمد صادق الروحانی; فقہ الصادق (ع)،ناشر مؤسسة دار الکتاب قم،1412.

59. سیوطی ؛  الاشباہ و النظایر فی قواعد و فروع الفقہ الشافعی؛

60. السیوطی؛سیر اعلام النبلاء (تاریخ خلفاء)

۲۳۳

61. شیخ الطائفة ابی جعفر محمد بن الحسن الطوسی ؛التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد حبیب قصیر العاملی،موقع الجامعة الاسلامیة.

62. شیخ انصاری، مرتضی؛ رسائل و مکاسب،جامع المدرسین، ۱۳۷۵.

63. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 4 جلد، انتشارات جامعہ مدرسین قم، 1413 ہجری قمری

64. الشیخ عبد علی بن جمعة العروسی الحویزی قدس سرہ المتوفی سنة 1112 ؛تفسیر نور الثقلین.

65. شیخ مفید;تصحیح اعتقادات الامامیة  (413(تحقیق : حسین درگاہی چ۲  ناشر : دار المفید، بیروت ، لبنان 1414.

66. شیعہ می پرسد،

67. صحیح مسلم، باب من فضائل علی ابن ابیطالب،

68. الصدوق ابی جعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی المتوفی سنة 381؛منلایحضرہالفقیہ،

69. طبری ابو جعفر محمد بن جریر ؛جامع البیان فی تفسیر القرآن، دار المعرفہ: بیروت: 1412 ق.

70. عبد الرحمن الجزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعة

71. عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ؛جموع فتاوی بن باز، کتاب الحج والعمرہ،الرئاسة العامة للبحوث العلمیة والافتاء.

72. عبد اللہ بن قدامہ; المغنی، م620، چ، جدید,ناشر دار الکتاب العربی ، بیروت ، لبنان.

73. عبدالحمید الصائب ، تاریخ الاسلام الثقافی، والسیاسی،

74. عروسی ،حویزی عبد علی بن جمعہ ؛ تفسیر نور الثقلین، انتشارات اسماعیلیان، قم ، 1415 ق.

75. العلامة الحسن بن یوسف المطہر الحلی ؛ نہج الحق و کشف الصدق، سلسلة الکتب المؤلفة فی رد الشبہات (119)،مرکز الابحاث العقائدیة.

76. علامہ عسکری ، معالم المدرستین ،

77. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 110 جلد، مؤسسة الوفاء بیروت - لبنان، 1404 ہجری قمری

۲۳۴

78. علوی، عادل؛ التقیہ بین الاعلام، مؤسسہ اسلامیہ  ، قم، ۱۴۱۵.

79. علی تہرانی؛ تقیہ در اسلام ، انتشارات طباطبائی، ۱۳۵۲.

80. علی عباس موسوی؛ پاسخ شبہاتی پیرامون مکتب تشیع

81. علی عطائی، پرسش وپاسخ در مدینہ منورہ،

82. عیدروس بن احمد السقاف العلوی المعروف بابن رویش الاندونیسی؛ شواہد التنزیل لمن خص بالتفضیل.

83. غزالی ؛ احیاء علوم الدین ،

84. غفاری ؛  اصول مذہب الشیعہ الامامیہ،   ۱۴۱۵.

85. فخر رازی ؛ المحصول ،تحقیق : دکتور طہ جابر فیاض ,الثانیة, مؤسسة الرسالة ، بیروت، 1412, 

86. فخر رازی؛ محصل افکار المتقدمین من الفلاسفہ والمتکلمین،

87. کاشف الغطاء، محمد حسین؛  این است آئین ما ، انتشارات سعدی، تبریز، ۱۳۴۷.

88. کمال جوادی؛  فہرست ایرادات و شبہات علیہ شیعیان در ہند و پاکستان،

89. مالک بن انس الموطا،المحقق : محمد مصطفی الاعظمی،الناشر : مؤسسة زاید بن سلطان آل نہیان،الطبعة : الاولی 1425ہـ - 2004م

90. مالک بن انس ؛ المدونة  الکبری،مطبعة  السعادة،دار احیاء التراث، بیروت ، لبنان.

91. مجلہ نور علم، ش ۵۰ ـ ۵۱، ص ۲۴ ـ ۲۵.

92. محب السلام؛   شیعہ می پرسد  ، بی نا ، تہران، ۱۳۹۸.

93. محسن امین، عاملی؛  نقض الوشیعہ ،

94. محمد باقر حجتی؛ تاریخ قرآن کریم،

۲۳۵

95. محمد بن احمد بن ابی بکر بن فرح القرطبی ابو عبد اللہ تفسیر القرطبی الجامع لاحکام القرآن.

96. محمد بن احمد بن عثمان بن قایماز الذہبی ابو عبد اللہ،تذکرة الحفاظ،

97. محمد بن اسماعیل، بخاری؛ صحیح بخاری، دارالطباعة العامرہ استانبول، دارالفکر ، ۱۴۰۱ہ

98. محمد بن جریر الطبری ابو جعفر؛ تاریخ الطبری تاریخ الامم والملوک، دار الکتب العلمیة، بیروت الطبعة الاولی ، 1407

99. محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، ابو جعفر الطبری، تفسیر جامع البیان فی تاویل القرآن المحقق : احمد محمد شاکر، مؤسسة الرسالة.

100.       محمد بن حبان بن احمد ابو حاتم التمیمی البستی؛ ثقات ابن حبان

101.       محمد بن سعد بن منیع ابو عبداللہ البصری الزہریالناشر : دار صادر  بیروت؛الطبقات الکبری،

102.       محمد بن عیسی بن سَورة بن موسی بن الضحاک، الترمذی، ابو عیسی، سنن الترمذی؛  موقع وزارة الاوقاف المصریة.

103.       محمد خلیل ہراس؛شرح العقیدة الواسطیة لشیخ الاسلام ابن تیمیة،الطبعة : الاولی،الرئاسة العامة لادارات البحوث العلمیة والافتاء والدعوة والارشاد،تاریخ النشر : 1413ہـ - 1992م

104.       محمود ابوریة ؛ اضواء علی السنة المحمدیہ ،

105.       مکارم شیرازی ؛ الشّیَعةُ شبہات و ردود،آثار اعتقادی ،عربی

106.       مکارم شیرازی،ناصر؛  تقیہ سپری برای مبارزہ عمیقتر ، مطبوعاتی صدف، قم،

107.       مکارم شیرازی و دوستان؛تفسیر نمونہ، تقیید العلم

108.       موسوی، موسیٰ؛  الشیعہ و التصحیح  ، طبع لوس انجلوس ، ۱۹۸۷.

109.       نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی؛ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،الناشر : دار الفکر، بیروت - 1412 ہـ

110.       یاقوت بن عبد اللہ الحموی ابو عبد اللہ ؛معجم البلدان ،الناشر : دار الفکر ، بیروت.

۲۳۶

111.       یزدی،محمود ؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی،دانشگاہ رضویہ،۱۳۷۸.

112.       یعقوبی، ابن الواضح؛ تاریخ یعقوبی ، مکتبہ المرتضویہ، عراق، النجف.

113.       یوسف بن الزکی عبدالرحمن ابو الحجاج المزی ؛ تہذیب الکمال مؤسسة الرسالة ، بیروت، الطبعة الاولی ، 1400  1980.

۲۳۷

فہرست

مقدمہ 2

انسان اگر کسی جو جلائے تو شقی لیکن خدا کسی کو جلائے تو 3

پہلی فصل: عدم تحریف قرآن. 5

قرآن  ہرقسم کی  تحریف سے پاک اورمنزّہ 5

عدم تحریف پرعقلی و نقلی دلیلیں. 8

قرآن : 8

عقل: 8

روایات: 9

تحریف معنوی کا  امکان. 10

عبدالحسین یا عبداللہ؟!! 12

۲۳۸

دوسری فصل:منع  حدیث. 15

حدیث ،پیغمبر اسلام (ص)کے دور میں. 15

ممنوعیت، غیر شرعی ہونے پر دلیل: 15

۱. اسلامی ثقافت میں تعلیم و تعلّم  کی اہمیت 15

۲.پیغمبر(ص)کاحدیث کی نشرو اشاعت کا اہتمام کرنا 16

روایت: 16

حدیث  ،صحابہ اور تابعین کے دور  میں. 18

پہلا خلیفہ اور منع حدیث. 18

دوسرا خلیفہ اور منع حدیث. 19

حضرت عمر کی تقریر 20

قرطاس وقلم لانے سے انکار 21

تیسرا خلیفہ  اور حدیث کی ممانعت. 21

۲۳۹

معاویہ  اور حدیث کی ممانعت. 22

معاویہ کی توجیہات: 23

امّت میں  اختلافات کا روک تھام 23

حدیث ، قرآن کے ساتھ مخلوط ہوجاتی 25

جمع آوری احادیث کےمراحل. 25

صحاح اور سنن میں فرق. 27

حدیث کی کچھ اصطلاحات. 27

تیسری فصل:مسلمانوں میں اختلافات کے اسباب. 28

مسلمانوں کی گمراہی کا سبب  کون؟ 28

مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے  والے کون؟ 29

یامحمد یا علی کہنا شرک؟!! 33

اشکال: 35

۲۴۰