شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات15%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218488 / ڈاؤنلوڈ: 6978
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

جن میں سے آٹھہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ اونٹ کو سوئی کے سوراخ سے گذارا نہیں جائیگا.مقصد یہ کہ ناممکنات میں سے ہے:«فی اصحابی اثناعشر منافقاً، فیهم ثمانیة لا یدخلون الجنة حتی یلج الجمل فی سمِّ الخیاط .(۱)

عثمان کے قاتل بھی صحابہ تھے

سؤال:کیا یہ درست ہے کہ عثمان کے قاتل اصحاب رسول اکرم (ص)میں سے تھے؟

۱.فروة بن عمرو انصاری اصحاب بیعت عقبہ میں سے تھا(۲)

۲.محمد بن عمرو بن حزم انصاری پیغمبر اکرم(ص) نے نام رکھا تھا.ولد قبل وفاة رسول اللّه بسنتین. فکتب الیه ـ ای الی والده ـ رسول الله سمّه محمد ا. و کان اشدَّ الناس علی عثمان: المحمدون: محمدبن ابی بکر، محمدبن حذیفة، و محمد بن عمرو بن حزم. (۳)

۳.جبلہ بن عمرو ساعدی انصاری بدری کہ جس نے عثمان کے جنازے کو بقیع میں دفن کرنے سےروکا :هو اوّل من اجترا علی عثمان. لمّا رادوا دفن عثمان، فانتهوا الی البقیع، فمنعهم من دفنه جبلة بن عمرو فانطلقوا الی حش کوکب فدفنوه فیه. (۴)

 ۴.عبداللہ بن بدیل بن ورقاء خزاعی کہ جس نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا تھا، امام بخاری کے کہنے کے مطابق اس نے عثمان کو ذبح کیااسلم مع ابیه قبل الفتح، و شهد الفتح و ما بعدها انه ممن دخل علی عثمان فطعن عثمان فی ودجه. (۵)

---------------

(۱):- صحیح مسلم ۸: ۱۲۲ ـ کتاب صفات المنافقین ـ مسند احمد ۴: ۳۲۰ البدایة والنہایة ۵: ۲۰.

(۲):- الاستیعاب ۳: ۳۲۵ ـ اسد الغابة ۴: ۳۵۷.

(۳):- الاستیعاب۳:۴۳۲.

(۴):- الانساب ۶: ۱۶۰ ـ تاریخ المدینة ۱۱۲.

(۵):- تاریخ الاسلام (الخلفاء) ۵۶۷

۴۱

۵. محمد بن ابی بکر جو حجة الوداع کے سال میں پیدا ہوا، ولدتہ اسماء بنت عمیس فی حجة الوداع و کان احد الرؤوس الذین ساروا الی حصار. امام ذہبی کے کہنے کے مطابق عثمان کےگھر کا محاصرہ کرنے والوں میں سے تھا.(۱) .عثمان کی داڑھی کھینچتے ہوئے کہا: اے یہودی!اللہ تمہیں رسوا کرے.

۶.عمرو بن الحمق جو اصحاب رسول میں سے تھا  راوی کے کہنے کے مطابق حجة الوداع کے موقع پر رسول خدا کی بیعت کی ہے.قال الذهبی:وثب علیه عمرو بن الحمق و به ـ عثمان ـ رَمَق و طعنه تسع طعنات، و قال: ثلاث للّه و ستّ لما فی نفسی علیه.  راوی کہتا ہے:بایع النبی فی حجة الوداع و صحبه. کان احد من الَّب علی عثمان بن عفان .(۲) و قال الذهبی: انّ المصریین اقبلوا یریدون عثمان. و کان رؤساؤهم اربعة. و عمرو بن الحمق الخزاعی .(۳)

امام ذہبی کے کہنے کے مطابق نو دفعہ خنجر کا ضربہ وارد کیا اور کہا تین ضربہ اللہ کی خاطر اور چھ اپنی خاطر تجھ پر لگاؤں گا.

قرطبی: عبدالرحمن بن عُدیس، مصری شهد الحدیبیة و کان ممن بایع تحت الشجرة رسول الله و کان الامیر علی الجیش القادمین من مصر الی المدینة الذین حصروا عثمان و قتلوه (۴) عبدالرحمن بن عدیس جو اصحاب بیت الشجرہ میں سے تھا ،قرطبی کے کہنے کے مطابق مصری شورش برپاکرنے والے افراد کا لیڈر اور رہبرتھا کہ آخر کار انہی لوگوں نے عثمان کو قتل کیا.

اب یہ بتائیں کہ یہ اصحاب کیسے ہمارے لئے نمونہ عمل بن سکتے ہیں؟

--------------

(۱):- تاریخ الاسلام(الخلفاء) ۶۰۱

(۲):- صحیح بخاری ۸: ۲۶ ـ کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی.

(۳):- تہذیب الکمال۱۴: ۲۰۴ ـ تہذیب التہذیب ۸: تاریخ الاسلام (الخلفاء) ۶۰۱

(۴):- فتح الباری ۲: ۱۸۹ ـ الثقات لابن حبان ۲: ۲۶۵ ـ الطبقات الکبری۳: ۷۱.

۴۲

بعض اصحاب پرا ہل سنت بھی لعن کرتے ہیں

سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ ہم اہل سنت بھی بعض صحابہ کرام  پر لعن کرتے ہیں. عثمان کے قاتلوں پر لعن کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ اصحاب رسول میں سے ہیں.اس کے علاوہ وہ لوگ اصحاب شجرہ  اور بیعت عقبہ میں سے ہیں ، اس کے علاوہ رسول خدا (ص)کے رکاب میں جنگ بدر ، احد اور حنین اور فتح مکہ میں بھی شریک تھے !

جواب: امام ذہبی ان پر نفرین کرتے ہوئے کہتاہے:«کل هولاء نبرا منهم و نبغضهم فی الله.نرجوله النار» یعنی ہم ان سے اظہار برائت کرتےہں  اور اللہ کی رضایت کی خاطر ان سے دشمنی کرتے ہںخ اور ان کےلئے عذاب جہنم کا طلب گار ہںں .

امام بن حزم کہتا ہے«لعن اللّه من قتله و الراضین بقتله .(۱) بل هم فساق حاربون سافکون دماً حراماً عمداً بلا تاویل علی سبیل الظلم و العدوان فهم فسّاق ملعونون». اور سارےامام جمعہ بھی عثمان کے قاتلوں پر لعن کرتے ہوئے کہتے ہیں:مصر اور کوفہ کے باغی لوگوں نے حضرت عثمان پر ہجوم لائے اور شورش برپا کئے اور یہ باغی، فاجر،ظالم، بے دین ، بے مروت اور جہنمی لوگوں نے تلوار کے ذریعے عثمان کی انگلیاں کاٹ دیں.

بعض صحابہ پر حد جاری کرنا

بعض صحابہ پر رسول خدا کے زمانے میں حد جاری کی گئی. جن میں سے ایک دو مورد کو بطور مثال بیان کریں گے:

ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ برادران اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں نقل کئے گئے ہیں کہ بعض اصحاب گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے اور ان پر رسول خدا نے حد جاری کی تو کیا ہم ان اصحاب کو بھی عادل اورمعیار حق مانیں ؟! جیسا کہ اہل سنت کہتے ہیں کہ  سارے اصحاب رسول ستاروں کی مانند ہیں جو بھی ان میں سے کسی ایک کی بھی پیروی کرے نجات پائے گا. جبکہ یہ لوگ خود گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں.

--------------

(۱):-  ہمان

۴۳

عقبہ بن الحرث کہتا ہے کہ«جی‏ء بالنعیمان او بابن النعیمان شارباً فامر النبی من کان بالبیت ان یضربوه. قال: فضربوه فکنت انا فیمن ضربه بالنعال» (۱) ابن نعیمان کو شراب کے نشے کی حالت میں رسول اللہ کے سامنے لایا گیا تو آپ نے گھر میں موجود افراد کو حکم دیا کہ اس کی پٹائی کریں ، تو سب نے جوتوں سے اس کی مرمت کی ،جن میں سے ایک میں بھی تھا.

عن جابر انّ رجلًا من اسلم جاء النبیفاعترف بالزنا، فاعرض عنه النبی حتی شهد علی نفسه اربع مرات، فقال له النبی«ابک جنون؟ قال: لا، قال: احصنت؟ قال: نعم، فامر به فرجم بالمسجد». جابر سے روایت ہےکہ ایک مسلمان پیغمبر اکرمکی خدمت میں آیا اور زنا کے مرتکب ہونے کا اعتراف کیا ، آپ  نے اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی ، یہاں تک کہ اس نے چار مرتبہ اقرار کیا تو اس وقت آپ نے اس سے کہا : کیا تو پاگل ہوگیا ہے؟اس نے کہا نہیں. فرمایاکیا تو شادی شدہ ہے ؟ اس نے کہا : ہاں اس وقت آپ نے سنگسار کرنے کا حکم دیا اور لوگوں نے بھی سنگسار کیا

قصة الولید بن عقبة المعروفة «الذی صلّی صلاة الصبح وهو سکران اربع رکعات، حیث تم احضاره الی المدینة واقیم علیه حدّ شارب الخمر» (۲) ولید بن عقبہ کا قصہ توبہت مشہور ہے کہ جس نے نشے کی حالت میں نماز صبح، چار رکعت پڑھائی درحالیکہ وہ مست تھا ، تو اسے مدینہ میں بلایا گیا تاکہ  شراب خوری کی حد جاری کرے ان کے علاوہ اور بھی موارد ہیں لیکن ہم انہیں بیان نہیں کرتے تاکہ بحث طولانی نہ ہو.اور ان موارد کا ذکر کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ہم کیسے آنکھ اور کان بند کرکے ان اصحاب کو عادل،معیار حق اور اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں گے؟(۳)

--------------

(۱):- صحیح البخاری، ج ۸، ص ۱۳، ح ۶۷۷۵ کتاب الحدّ.

 (۲):- صحیح بخاری،ج۸، ص ۲۲، ح ۶۸۲۰.

(۳):- الشیعة شبہات و ردود        ۶۳. 

۴۴

 رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَ لِإِخْوانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونا بِالْإِیمانِ وَ لا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِیمٌ (۱)

اور (یہ فئے ان لوگوں کے لیے بھی ہے) جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔

عدالت صحابہ‏

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اسلام (ص)کے صحابی عظیم المرتبہ  تھے ، وحی الٰہی کو رسول خدا (ص)کی زبانی سنتے تھے ، آپ کے معجزوں کو دیکھتے  تھے، گوہر بار باتوں سے عملی نمونہ تلاش کرتے تھے اور اسوہ حسنہ سے خوب استفادہ کرتے تھے.یہی وجہ تھی  کہ ان کے درمیان بہت ساری ممتاز شخصیات  کی پرورش ہوئی، کہ جن پر عالم اسلام افتخار کرتے ہیں. لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ سارے صحابی بغیر کسی استثناء کے قابل تقلید ، قابل احترام ،مؤمن ،فداکار اور عادل تھے یا ان کے درمیان فاسق اور فاجر  بھی موجود تھے ؟!اس سلسلے میں دو متضاد عقیدے مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں:

پہلا نظریہ: سارے صحابی باتقویٰ اور عادل تھے

اہل سنت کے اکثر لوگ اس نظریے کے قائل ہیں اس لئے جو بھی صحابہ کہیں اسے قبول کرتے ہیں.اور اگر کوئی برا کام ان سے سرزد ہوجائے تو ان کی توجیہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں. تند رو وہابی اور اکثر اہل سنت  کا یہ نظریہ ہے اسی لئے صحابہ کے بارے  میں تنقید کاایک لفظ بھی نہیں سن سکتے اگر کوئی تنقید کرے تو اسے وہ زندیق ،ملحد اور ان کا خون مباح قرار دیتے ہیں.(۲)

--------------

(۱):-  سورہ حشر ،۱۰.

(۲):- ابوزرعہ رازی؛ کتاب الاصابة.

۴۵

عبداللہ موصلی اپنی  کتاب«حتّی لا ننخدع» میں صحابہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ فضیلت عطا کی ہے کہ رسول اللہ(ص) کی ہم نشینی ان کو نصیب ہوئی ان کا ہر کلام ہمارے لئے قابل عمل ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے رسول کا وزیر بنایا ، ان کی محبت کو دین اور ایمان قرار دیا اور ان کے ساتھ دشمنی اور عداوت کو کفر و نفاق قرار دیا، لیکن جب ان کے درمیان اختلاف اور جنگ کا ذکر آتا ہے تو یہ لوگ بالکل خاموش ہوجاتے ہیں(۱) اور یہ کتاب اور سنت کے منافی ہں .

دوسرا نظریہ:اصحاب میں منافق اور ناصالح افراد بھی تھے

یعنی جس طرح ان میں پاک و تقویٰ  اور عادل افراد موجود تھے ، اسی طرح ناصالح اور منافق افراد بھی موجود تھے .جیسا کہ پہلے بیان کر چکا، شیعہ اور بعض اہل سنت دانشور اس عقیدے کےقائل ہیں.

دلیل

قرآن اور رسول نے ان سے بیزاری کا اظہا ر کیا ہے:

 یا نِساءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَ کانَ ذلِكَ عَلَی الل ه يَسِیراً. (۲)

خداوندنے قرآن مجید میں ہمسران پیغمبر (ص) کے بارے میں فرمایا:اے ہمسران پیغمبر (ص)!تم میں سے جو بھی آشکار طور پر گناہ کا مرتکب ہواتو اس کی سزا دوگنی ہوگی. اوریہ اللہ تعالیٰ کے لئے بہت آسان ہے

جبکہ ہمسران پیغمبر (ص) آشکارترین مصداق صحابی ہیں، قرآن تو ان کو دوگنی سزا  سنا رہا ہے لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ صحابہ کی باتوں کو بغیر کسی قید و شرط کے قبول کرنا چاہئے!

--------------

(۱):-  حتّی لا ننخدع، صفحہ ۲.

(۲):- سورہ احزاب، آیہ ۳۰.

۴۶

قرآن فرزند نوح شیخ الانبیاء ؑکے بارے میں ان کی خطا ءکی وجہ سے خطاب کر رہا ہے :

إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صالِحٍ؛ وہ ناصالح عمل ہے  اور حضرت نوحؑ کو انتباہ کیا کہ اس کے بارے میں شفاعت نہ کرے

سوال یہ ہے کہ کیافرزند پیغمبر زیادہ قریب ہے  یا اصحاب؟

اسی طرح  ہمسر نوح و لوط (دو پیغمبر بزرگ الہی)  کے بارے میں فرمایا :

فَخانَتاهُما فَلَمْ يُغْنِیا عَنْهُما مِنَ الل ه شَيْئاً وَ قِیلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ ضَرَبَ الل ه مَثَلًا لِّلَّذِینَ كَفَرُواْ امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ  كَانَتَا تَحتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَلِحَینْ‏ِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنهْمَا مِنَ الل ه شَیئًا وَ قِیلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِین (۱)

اللہ نے کفار کے لےَ نوح کی بوای اور لوط کی بولی کی مثال پش  کی ہے، یہ دونوں ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت مںا تھں مگر ان دونوں نے اپنے شوہروں سے خاَنت کی تو وہ اللہ کے مقابلے مںے ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہں  حکم دیا گا : تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم مںچ داخل ہو جاؤ قرآن مجید کہہ رہا ہے :

وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرابِ مُنافِقُونَ وَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ (۲)

اور تمہارے گرد و پش  کے بدوؤں مں  اور خود اہل مدینہ مںن بھی ایسے منافقنے ہںث جو منافقت پر اڑے ہوئے ہںَ، آپ انہں  نہں  جانتے (لکنے) ہم انہںّ جانتے ہںق، عنقریب ہم انہںم دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائںا گے۔ اس آیة شریفہ میں تو وضاحت کےساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اہل مدینہ میں بھی آپ کے ارد گرد منافقین  بیٹھے ہوئے ہیں جن کے بارے آپ کو اطلاع دی جارہی ہے.

--------------

(۱):-  سورہ تحریم، آیہ ۱۰.

(۲):- سورہ توبہ، آیہ ۱۰۱.

۴۷

طلحہ اورزبیر شروع میں لشکر اسلام کے افسر تھے اور ان کو سیف الاسلام کا لقب بھی ملا تھا لیکن بعد حکومت کے ہوا و ہوس نے علی (ع)کے ساتھ بیعت اور عہد وپیمان توڑنے پر مجبور کردیا اور ہمسر پیغمبر (عایشہ) کو اپنے ساتھ ملا کر جنگ جمل کی آگ بھڑکا دی اورتقریبا ۱۷  ہزار مسلمان اس آگ میں جل گئے. یہ لوگ قیامت کے دن جواب دہ  ہونگے .

 یا خود معاویہ کو دیکھ لیں جس نے صفین کی جنگ شروع کرکے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا خون بہایا. ان کے بارے میں کیا اس  سے سوال نہیں ہوگا؟!!

ان تمام حقائق کے باوجود کیسے آنکھ بند کرکے سارے صحابی کو معیار حق تسلیم کریں گے ؟

سارےصحابیوں کو عادل ماننے کی دلیل

اور یہ بھی یاد رہے کہ پہلےتو یہ عقیدہ نہ تھا بعد میں  قائم ہوا، اس کی کئی وجوہات  ہیں ، جن کو معلوم کرنا ضروری ہے ،وہ یہ ہیں :

الف:کیونکہ یہ لوگ  پیغمبر (ص) اورہمارے درمیان  حلقہ اتّصال ہیں  اور قرآن و سنت  پیغمبر (ص)انہی کے  وساطت سے ہم تک پہنچے ہیں اگر یہ لوگ ان صفات کے مالک نہ ہوں تو ہم کیسے ان پر اعتقاد کر سکتےہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سارے اصحاب ایک جیسے نہیں تھے ،بلکہ ان میں ثقہ اور مورد اعتماد افراد بھی موجود تھے جو ہمارے اور رسول کے درمیان حلقہ اتصال بن سکتے ہیں جیسا کہ اہلبیتؑ کے بارے میں ہمارا یہی عقیدہ ہے .

مزے کی بات تو یہ ہے کہ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس دور کے سارے صحابی ثقہ تھے اگر ایسا ہو تو ہمارا دین مکمل مٹ جاتا، بلکہ سب نے کہا کہ راویوں کے بارے میں تیق ا کرنی چاہئے کہ عادل ،موثق  اورمورد اطمنان ہیں یا نہیں اور اسی بنا پر علم الرجال، علم الحدیث اور علم الدرایہ  وجود میں آیا.

۴۸

ب:بعض اصحاب پر اشکال کرنے سے مقام پیغمبر اسلام(ص) میں نقص پیدا ہوتا ہے لہذا جائز نہیں ہے .

ان کیلئے جواب یہ ہے کہ کیا قرآن کریم نے منافقین کے اوپر سخت تنقید نہیں کی ؟تو کیا اس سے رسول اسلام (ص) کی شان اور عظمت میں کمی آئی ؟!(۱)

ج:اگر صحابہ کے اعمال کو مورد نقد قرار دیں گے تو پہلا دوسرا اور تیسرا خلیفہ کا منصب اور مقام مورد نقداور اشکال قرار پاتا ہے.

د:بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر صحابہ کو مورد اشکال اور نقد قرار دیں گے تو  گویا قرآن کے خلاف عمل کیا ہے کیونکہ قرآن کریم  اور احادیث نبی میں اصحاب کی شان و منزلت بیان ہوئی ہے

جواب : یہ توجیہ ٹھیک ہے لیکن قرآن نے بطور مطلق ان کے بارے میں تمجید نہیں کی ہے

بلکہ خاص صحابی تھے  جن کی مدح سرائی ہوئی ہے:وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُ ه اجِرِینَ وَ الْأَنْصارِ وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسانٍ رَضِيَ الل ه عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ وَ أَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَهَا الْأَنْ ه ارُ خالِدِینَ فِی ه ا أَبَداً ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ .(۲)

اس آیہ کی ذیل میں  بہت سے اہل اسنت  کےمفسّرین نے ایک حدیث صحابیوں کے ذریعے یوں نقل کی ہیں:جمیع اصحاب رسول الله فی الجنّة محسنهم و مسیئهم .(۳) سارے صحابی بہشتی ہیں خواہ وہ نیک کردار کے مالک ہوں یا بد کردار کے.مزے کی بات یہ ہے کہ درج بالا آیت بتاتی ہے تابعین اگر اصحاب کے اچھے کاموں میں اتباع یا پیروی کریں تو قیامت کے دن نجات پائیں گے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اصحاب  گناہوں سے پاک  نہیں ہیں بلکہ ممکن ہے وہ بھی گناہ کا مرتکب ہوں. اس کے علاوہ روایت میں تو صراحت کے ساتھ اس مطلب کو  بیان کیا گیا ہے.

--------------

(۱):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: ۵۸.

(۲):- سورہ احزاب، آیہ ۳۰.

(۳):- تفسیر کبیر فخر رازی و تفسیر المنار، ذیل آیہ فوق.

۴۹

ان سے سوال یہ ہے کہ کیا وہ  نبی جو امّت کی اصلاح کیلئے مبعوث کیا گیا ہو ، اپنے اصحاب کے گناہوں  کو  استثناء کر سکتے ہیں، جبکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ  آپ(ص) کے نزدیک ترین افراد  یعنی امّہات المؤمنین کو بھی اگر گناہ کا مرتکب ہوجائیں  تو دو برابر سزا دی جائےگی؟(۱)

اس کے برعکس دوسری جگہ حقیقی مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

محَُّمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ  وَ الَّذِینَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلىَ الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنهَُمْ  تَرَئهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَ رِضْوَانًا سِیمَاهُمْ فىِ وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ  ذَالِكَ مَثَلُهُمْ فىِ التَّوْرَئةِ وَ مَثَلُهُمْ فىِ الْانجِیلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطَْهُ فََازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی‏ عَلىَ‏ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِیظَ بهِِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ مِنهُْم مَّغْفِرَةً وَ أَجْرًا عَظِیمَا. (۲)

" محمد (ص) اللہ کے رسول ہںِ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہں  وہ کفار پر سخت گر  اور آپس مں  مہربان ہںل، آپ انہںف رکوع، سجود مںل دیکھتے ہںگ، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہںں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہںہ، ان کے یی  اوصاف توریت مں  بیپ ہں  اور انجلا مںھ بھی ان کے ییق اوصاف ہںم، جسےر ایک کھیبی جس نے (زمنر سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کای اور وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سد ھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے، ان میںسے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظم  کا وعدہ کا  ہے"۔

--------------

(۱):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: ۶۳

(۲):- سورہ فتح،۲۹

۵۰

کیا جنہوں نے جنگ صفین اور جنگ جمل کی آگ کو بھڑکاکرلاکھوں مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلادیا ، ایک دوسرے کے ساتھ مہربان تھے؟!! اور ان کی جنگ کافروں کے ساتھ تھی یا مسلمانوں کے ساتھ؟!!

بنابراین مغفرت و اجر عظیم کا وعدہ  صرف ان افراد کیلئے ہے جو ایمان اور عمل صالح کے حامل ہوں.لیکن کیا جنگ جمل کے ذمہ دار افراد عمل صالح والے تھے؟!

اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو تو ایک ترک اولی کی وجہ سے بہشت سے نکال دیتا ہے ، حضرت یونس (ع)تو ایک ترک اولی کی وجہ سے ایک مدت تک مچھلی کے پیٹ میں رہا تھا ، حضرت نوح(ع) کو اپنے گناہگار بچے کی شفاعت کرنے پر مواخذہ کرتا ہے تو کیا یہ ماننے والی بات ہے کہ ہمارے نبی کے صحابی اس قانون سے مستثنی کئے گئے ہیں؟.(۱)

براداران اہل سنت اس کے قائل ہیں کہ سارے صحابی عادل ہیں لیکن یہ کون سی عدالت ہے جس کی قرآن نفی کرتا ہے:

إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطانُ بِبَعْضِ ما كَسَبُوا وَ لَقَدْ عَفَا الل ه عَنْهُمْ إِنَّ الل ه غَفُورٌ حَلِیمٌ (۲)

دونوں فریقوں کے مقابلے کے روز تم مںم سے جو لوگ پیٹھ پھرک گئے تھے بلاشبہ ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے شطاکن نے انہںّ پھسلا دیا تھا، تاہم اللہ نے انہںا معاف کردیا، یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، بردبار ہے۔

آیۃ شریفہ ان لوگوں کی طرف اشارہ کررہی ہےجو لوگ جنگ احد میں فرار ہوگئے تھے اور پیغمبر اکرم کو دشمنوں کے نرغے میں اکیلا چھوڑگئے.

 قرآن کہہ رہا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر فرار ہونے والوں کو اپنے بعض گناہوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں دھوکہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رسول اکرم کے وجود مبارک کے طفیل میں بخش دیا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا حلیم رب ہے

--------------

(۱):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: ۶۲

(۲):- سورہ آل عمران،۱۵۵

۵۱

اس آیة سے نتیجہ لے سکتے ہیں کہ بعض صحابہ نے جنگ سے فرار ہوتے ہوئے رسول اکرم کو دشمن کے درمیان چھوڑ کے بہت بڑا گناہ کیا ،شیطان ان پر غالب آگیا،اس کی وجہ بھی ان کے گناہ بتاتے ہیں. یہ کون سی عدالت ہے کہ جس کے بارے میں بعض اصحاب کو قرآن نے فاسق کہا ہے :

یا أَيُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جاءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْماً بِجَ ه الَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلی‏ ما فَعَلْتُمْ نادِمِینَ. (۱)

اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحققی کر لا  کرو، کہںا(ایسا نہ ہو کہ) نادانی مںئ تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر تمہںہ اپنے کےی پر نادم ہونا پڑے ۔

اور یہ مفسّرین کے درمیان مشہور ہے کہ یہ آیۃ ولید بن عُقبة کی مذمت میں نازل ہوئی.کہ پیغمبر اکرم نے انہیں بنی المصطلق میں زکات جمع کرنے بھیجا تھا واپس آیا اور کہا یہ لوگ اسلام کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں ، بعض مسلمانوں نے اس کی باتوں پر یقین کیااور اس طائفہ کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے نکلے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ اس کی باتوں پر یقین نہ کریں ورنہ پچھتاؤگے. اتفاقاً جب اس کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ طایفہ بنی المصطلق ایک با ایمان طایفہ ہے ولید کو ان سے ذاتی دشمنی تھی اس لئے ان پر یہ تہمت لگائی تھی سوال یہ ہے کہ کیا ولید صحابی نہیں تھا؟!

یہ کیسی عدالت ہے کہ اگر انہیں کچھ دیں تو رسول پر راضی ہوجاتے ہیں اور اگر نہ دیں تو رسول اکرم(ص)  پر اعتراض کرنے لگتے ہیں:

وَ مِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِی الصَّدَقاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْ ه ا رَضُوا وَ إِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْ ه ا إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ. (۲)

--------------

(۱):-  ۔    حجرات،۶.

(۲):- توبہ ۵۸.۱۲ و ۱۳ سورہ احزاب

۵۲

اور ان مں  کچھ لوگ ایسے بھی ہںن جو صدقات(کی تقسمو)مںخ آپ کو طعنہ دیتے ہں  پھر اگر اس مں  سے انہں  کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہں  اور اگر اس مںا سے کچھ نہ دیا جائے تو بگڑ جاتے ہں ۔

یہ کیسی عدالت ہے کہ جنگ احزاب میں شریک تھے اور رسول خدا پر فریبکاری کی تہمت لگاتے ہیں:

وَ إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الَّذِینَ فىِ قُلُوبهِِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (۱)

اور جب منافقنَ اور دلوں مںہ بماَری رکھنے والے کہ رہے تھے: اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کام تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔

خدا اور اس کے  پیغمبر نے ہمارے لئے جھوٹے وعدوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا. ان میں سے کچھ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اس جنگ میں شہید ہوجائیں گے اور اسلام پر فاتحہ پڑھا جائے گا.

 اسی طرح شیعہ سنی دونوں طرف سے روایت نقل ہوئی ہے کہ جب جنگ خندق میں خندق کھودا جا رہا تھا  اور پتھر توڑا جارہا تھا اور جنگ میں کامیابی اور جیت کی بشارت دی جا رہی تھی تو ایک گروہ ان باتوں کا مزاق اڑا رہا تا ؛ سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ صحابہ میں سے نہیں تھے ؟!!(۲)

 اس سے بڑھ کر پیغمبر اکرم (ص)پر خیانت کی تہمت لگانے والے بھی صحابی رسول تھے :وَ ما کانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَ مَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِیامَةِ ثُمَّ تُوَفَّی كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ وَ هُمْ لا يُظْلَمُونَ. (۳)

--------------

(۱):-  ۔  احزاب ۱۲

(۲):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: ۶۵.

(۳):- سورہ آل عمران،۱۶۱.

۵۳

اور کسی نبی سے یہ نہںا ہو سکتا کہ وہ خاھنت کرے اور جو کوئی خاونت کرتا ہے وہ قاتمت کے دن اپنی خاینت (اللہ کے سامنے)حاضر کرے گا، پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہںّ کاں جائے گا۔

 یعنی اگر ان کو کوئی  سزا دے تو یہ انہی کے اعمال کا نتیجہ ہے. کیا  رسول اللہ (ص) پران تمام نا روا تہمتوں کے لگانے والے عادل اور پاکیزہ  ہو سکتے ہیں؟!!     معروف دانشور بلاذری اپنی کتاب انساب الاشراف میں نقل کرتا ہے کہ مدینہ کےبیت المال میں جواہرات اور دیگر زیورات تھے، عثمان نے ان میں سے کچھ اپنے خاندان والوں کو دیا یہ دیکھ کر لوگ ان پر سخت تپ گئے اور شدید احتجاج کرنےلگے جس سےعثمان سخت خشمگین ہوا اور منبر پر جاکر ایک خطبہ میں کہا: ہم مال غنیمت میں سے اپنی ضروریات کے مطابق لے سکتے ہیں اگرچہ بعض لوگوں کو ناگوار گذرے.

علی(ع) نے ان سے فرمایا: مسلمان تمھارا راستہ روکیں گے

عمّار یاسر نے کہا: میں  وہ پہلا شخص ہوں گا کہ عثمان کو ناک رگڑاؤں گا اور ہمیشہ اس پر اعتراض کرتا رہوں گا.

عثمان غضبناک ہوا اور کہا: تم میرے سامنے جسارت کرتے ہو؟!اسے پکڑ کر اپنے گھر لے گیا اور اس قدر اس پر ظلم کیا کہ وہ بیہوش ہوگئے. اور اسی بیہوشی کی حالت میں ام سلمہ (ہمسر پیغمبر) کے گھر لائے گئے نماز ظہر و عصر و مغرب بھی نہ پڑھ سکے جب آخر وقت ہوش آیا تو وضو کرکے نمازیں پڑھ لی اور فرمایا : یہ اللہ کی خاطر ہم پر پہلی بار ظلم نہیں ہورہا.(۱)

یعنی آپ کی مراد دوران جاہلیت کے مظالم تھے .سوال یہ ہے کہ ان تمام تاریخی شواہد کےباوجود کیا ہم آنکھیں بند کرکے سارے صحابہ کا دفاع کریں اور سپاہ صحابہ تشکیل دیں تاکہ صحابہ کی ہر بات ، ہر فعل اور ہرکردار  کو بغیر کسی قید و شرط کے قبول کریں اور ان کا دفاع کریں ؟!!! کہ یہ عاقلانہ کام نہیں ہے.(۲)

--------------

(۱):-  انساب الاشراف، جلد ۶، صفحہ ۱۶۱

(۲):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: ۷۶

۵۴

علی (ع) کی مظلومیت

جو بھی تاریخ اسلام کا مطالعہ کرے نہایت افسوس کے ساتھ اس مطلب تک پہنچ جائے گا کہ امیر المؤمنین(ع) جو علم و تقویٰ کا پیکر اور پیغمبر اکرم کا سب سے قریبی دوست ، جانشین، وصی اور اسلام کا سب سے بڑا مدافع ہوتے ہوئے بھی  ان کی شان میں گستاخی اور لعنت  کرنے لگے اور آپ کے دوستوں  اور چاہنے والوں کو نام نہاد صحابویں نے ستانا شروع کیا .ان ظلم ستانی کی داستان کا کچھ  نمونہ درج ذیل ہیں:

الف: علی بن جہم خراسانی اپنے والد پر لعن طعن کرتا تھا جب ان سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: کیونکہ اس نے میرا نام علی رکھا ہے(۱)

ب:معاویہ نے سارے ملازمین کو حکم دیا کہ جو بھی فضائل ابوتراب علی (ع)اور ان کے اہلبیت کے فضائل بیان کرے اس کی جان  مال تم پر مباح ہو.اس کے بعد سارے منبروں سے علی پر لعن اور ان سے اظہار برائت کرنے لگے(۲)

 ج: سلمة بن شبیب ابوعبدالرحمان عقری سے نقل کرتا ہے :بنی امیّہ والوں کو جب بھی پتہ چلتا کہ کسی بچہ کا نام علی رکھا ہے تو اسے فوراً قتل کرتے تھے.(۳)

د: زمخشری و سیوطی نقل کرتے ہیں کہ بنیامیّہ  کے دور میں ۷۰ ہزار منبر سے علی پر سب و شتم ہوتا تھا اور یہ سنت، معاویہ نے جاری کی تھی(۴)

--------------

(۱):-  لسان المیزان، جلد ۴، صفحہ ۲۱۰

(۲):- النصایح الکافیہ، صفحہ ۷۲.

(۳):- تہذیب الکمال، ج ۲۰، ص ۴۲۹ و سیر اعلام النبلاء، ج ۵، ص ۱۰۲.

(۴):- ربیع الابرار، ج ۲، ص ۱۸۶ و النصایح الکافیہ، ص ۷۹ عن السیوطی.

۵۵

جب عمربن عبدالعزیز نے دستور دیا کہ علی پر لعن کرنے والی اس بدعت کو ترک کردے تو مسجد میں موجود سب لوگ چیخ اٹھے:ترکتَ السنّة ترکتَ السنّة؛ تو نے سنت کو ترک کیا تو نے سنت کو ترک کیا ،یعنی تو نےکیوں اس سنت کو ترک کیا ؟(۱) جب کہ صحیح روایت ہےکہ پیغمبر اکرم  (ص)نے فرمایا تھا :مَن سبّ علیّاً فقد سبّنی و من سبّنی فقد سبَّ اللهَ ؛ جو بھی علی پر لعن کرے  گویا اس نے مجھ پر لعن کیا اور دشنام دیا  اور جو مجھ پر لعن کرے گا اس نے خدا پر لعن کیا ہے !!(۲)

صحابہ تین قسم کے ہیں

نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ عقیدے کے مطابق صحابہ تین قسم کے ہیں:

الف: جو شروع سے ہی پاک ، صالح اور صادق تھے  اور  کبھی بھی پیغمبر کے فرامین کی مخالفت نہیں کی .ان کیلئے کہاگیا: عاشوا سعداء و ماتوا السعداء.یعنی انہوں نے سعادتمند زندگی کی اور سعادتمندی کے ساتھ اس دنیا سے تشریف لے گئے.

ب: جو شروع میں تو اچھے اور صالح تھے لیکن بعد میں کسی بھی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) کے فرامین کی مخالفت کرنے لگے  اور عاقبت بخیر نہ ہوئے جیسے وہ لوگ جنہوں نے جنگ نہروان ، جنگ جمل اور جنگ صفین شروع کیں.اس گروہ میں طلحہ اور زبیر وغیرہ آتا ہے جن کو رسول کے زمانے میں سیف الاسلام کا لقب ملا تھا لیکن بعد میں امام وقت  یعنی علی ابن ابیطالب کے مقابلے میں جنگ کرنے آئے اور مارے گئے.

ج: جو شروع سے ہی پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ مخلص نہیں تھے ، بلکہ کسی بھی مجبوری کی وجہ سے مسلمانوں کے صف میں موجود تھے یعنی منافقین.جیسے ابوسفیان و غیرہ.

--------------

(۱):- النصایح الکافیہ، ص ۱۱۶ و تہنئة الصدیق المحبوب، نوشتہ سقاف، ص ۵۹.

(۲):-  اخرجہ الحاکم و صحّحہ و اقرّہ الذہبی( مستدرک الصحیحین، ج ۳، ص ۱۲۱

۵۶

شیعہ پہلاگروہ کے بارے میں یوں دعا کرتے ہیں اور اظہار مودّت  اور محبت کرتے ہیں: رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَ لِإِخْوانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونا بِالْإِیمانِ وَ لا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِیمٌ. (۱)

یعنی اے ہمارے پروردگار! ہمیں معاف فرما اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جنہوں نے ہم سے پہلے تجھ پر ایمان لائے ہیں ، اور ہمارے دلوں میں ان مؤمنوں کیلئے نفرت اور بغض پیدا نہ کرنا. اے ہمارے پروردگار ! تو بڑا رؤوف و مہربان اور رحم والا ہے.

باقی دو گروہ پر ہم لعن کرتے ہیں اب ان میں کوئی بھی آئے وہ مورد لعن  ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان دو گروہوں پر لعن کیا ہے

زہرا کی مظلومیت

فاطمہ زہرا(س) کے گھر پر صحابہ کا حملہ منابع اہل سنت میں

کیا ایسا واقعہ ممکن ہے کہ رسول کا صحابی ہو اور اس کی اکلوتی بیٹی پر گھر کا دروازہ گرایا ہو اور اسے شہید کردیا ہو؟!!

اس کا جواب آپ کو مثبت میں ملے گا. چنانچہ اہل سنت کی حدیث، تاریخ اور رجال کی کتابوںمیں اس واقعہ کو کسی نے شرمندگی کے ساتھ تو کسی نے احتیاط کے ساتھ تقطیع کرتے ہوئے  تو کسی نے خلیفہ ثانی کے توسط سے آگ لے کر آنے کو  تو کسی نے مسلمانوں کا   مسلحانہ محاصرہ اور حملہ آور ہونے کو بیان کیاہے:"و معه قبس من نار" (۲)

«ثم قام عمر، فمشی و معه جماعة حتی اتوا باب فاطمة و بقی عمر و معه قوم فاخرجوا علیاً » (۳)

--------------

(۱):-  سورہ حشر، آیہ ۱۰.

(۲):- معارف ابن قتیبہ میں  یہ عبارت حذف کیا گیا ہے:ان محسناً فسد من زخم قنفذ العدوی.

(۳):-  تحریف در مروج الذہب، در چاپ میمنیة ج ۳، ص ۸۶

۵۷

بعض نے لکھا ہے«ان عمر رفَسَ ‏فاطمة حتی اسقطت محسناً» (۱)

 کہ حضرت فاطمہ  پر عمر نے ٹھوکر مارا جس کی وجہ سےآپ نے محسن کو سقط کیا

«و قد دخل الذل بیتها و انتهکت حرمتها و غصب حقها و منعت ارثها، و کسر جنبها، و اسقطت جنینها» (۲)

بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے :یہ لوگ فاطمؑ کے گھر میں داخل ہوگئے  انہو ں نے حضرت فاطمہ کی حرمت کا لحاظ نہ کیا ،ان کا  حق   غصب کیا اور ان  کو ارث سے محروم کر دیا اور ان کی  پسلیاں توڑی اور پہلو  شہیدکیا اور جنین کو گرادیا.

بعض نے لکھا ہے  کہ  عمر نے ابوبکر سے کہا: ہم نے فاطمہ کو ناراض کیا ہے  ، آؤ چلیں فاطمؑ کے پاس ، ان سے عذر خواہی کریں .عمر اور ابوبکر دونوں علی کے گھرپر  آئے اور  فاطمہ ؑسے عذر خواہی کرنے لگے لیکن فاطمؑ نے ان  کی طرف سے چہرہ موڑ لیا  ان دونوں نے آپ کو سلام کیا  لیکن آپ نے اس کا جواب نہیں دیا.

«فقال عمر لابی بکر انطلق بنا الی فاطمة، فانا قد اغضبناها، فانطلقا جمیعاً، فاستاذنا علی فاطمة، فلم تاذن لهما، فاتیا علیاً فکلمّاه، فادخلهما علیها فلما قعدا عندها، حولت وجهها الی الحائط فسلَّما علیها فلم اجابت .

ذہبی کہتا ہے :«اتی ابوبکر فاستاذن، فقال علی: یا فاطمة، هذا ابوبکر، یستاذن علیک، فقالت: اتحب ان اذن له؟ قال: نعم، فاذنت له، فدخل علیها یترّضاها.»

 ابوبکر جب علی کی خدمت میں آئے اور حضرت فاطمہ کی زیارت اور ان  سے عذر خواہی کیلئے اجازت مانگی تو علی نے فاطمہ زہرا سے کہا : کیا آپ راضی ہیں کہ میں ان کو اجازت دوں؟ آپ نے اجازت دے دی اور وہ عذر خواہی کرنے لگا ذہبی نے یہاں تک تو ذکر کیا لیکن اجازت ملی اور معاف کیا یا نہیں کیا ، یہ حصہ چھپا کر وغیرہ وغیرہ لکھ دیا.

--------------

(۱):- تحریف در مروج الذہب، در چاپ میمنیة ج ۳، ص ۸۶

(۲):- جوینی شافعی، متوفی سال ۷۲۲، جو شمس الدین ذہبی کا استاد ہے.

۵۸

«وددت انی لم اکشف بیت فاطمة و ترکته و ان اغلق علی الحرب.» (۱) بعض نے لکھا ہے کہ خلیفہ ثانی نے اپنی وفات کے وقت بیت وحی پر حملہ آور ہونے پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اے کاش! میں فاطمہ کے گھر پر حملہ نہ کرتااور دروازے کو نہ کھولتا اگرچہ  اس کے بند رکھنے کو اپنے ساتھ اعلان جنگ تصور کرتا.

سوال: کیا یہ واقعہ بغیر کسی تحریف کے  بھی تاریخ میں بیان ہوا ہے ؟

جواب: اکثر مؤرخین نے  تحریف کیا ہے لیکن بعض نے  صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، جن میں سے ایک ابن عبد الرب اندلسی ہے ، وہ لکھتاہے:

«بعث الیهم ابوبکر عمر بن الخطاب لیخرجهم من بیت فاطمة و قال له: ان ابوا، فقاتلهم فاقبل بقبس من نار علی ان یضرم علیهم الدار، فلقیته فاطمة، فقالت: یابن الخطاب، اجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم او تدخلوا فیما دخلت فیه الامة.» (۲)

ابوبکر نے عمر کو فاطمہ زہرا کے گھر کی طرف بھیجا تاکہ علی کو اپنی بیعت کیلئے مسجد میں بلایا جاسکے اور وہ بھی اپنے ہاتھوں میں آگ لے کر وہاں پہنچے لیکن فاطمہ نے دروازہ نہیں کھولا اور فرمایا: اے خطاب کے بیٹے !کیا میرے گھرکو آگ لگانے کیلئے آگئے ہو؟! اس نے کہا: ہاں ، لیکن اگر آپ بھی دوسرےلوگوں کی طرح ابوبکر کی بیعت کریں تو  چھوڑ دیے جائیں گے. اس سلسلے میں مزید منابع درج ذیل ہیں:

اثبات الوصیة ص ۱۴۳- الوافی بالوفیات، ج ۶، ص ۱۷، الملل و النحل، ج ۱، ص ۵۷؛ الشافی، ج ۴، ص ۱۲۰؛ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۴، ص ۱۹۳ و ج ۲، ص ۶۰؛؛ تقریب المعارف، ص ۲۳؛ الطرائف، ص ۲۷۴- و ماساة الزہراء وغیرہ .

--------------

(۱):- المعجم الکبیر، ج ۱، ص ۶۲؛ شمارہ حدیث ۴۳، کتاب الاموال بن سلام ص ۱۷۴ متوفی ۲۲۴ ہ۔

(۲):- العقد الفرید، ج ۴، ص ۲۶۰

۵۹

چوتھی فصل: مٹی پر سجدہ

شیعوں کے ہاں مہر یا سجدہ گاہ کا استعمال کرنے کی فقہی دلیل کیا ہے؟

جواب: فقہی لحاظ سے شیعہ اور دوسرے مکاتب کے درمیان اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ کیا سجدہ ہر چیز پر ممکن ہے یا کچھ خاص چیزوں پر ؟

 سنی کہتےہیں ہر چیز پر ممکن ہے لیکن شیعہ کہتے ہیں صرف زمین اور  اس سےنکلنے  والی چیزوں پر جائز ہے سوائے کھانے پینے ،بہنے اور پہننے والی چیزوں پر. پیغمبر اکرم کے زمانے میں مسلمانوں کی یہی سیرت رہی ہے  کہ گرمیوں میں اپنی مٹھی میں کچھ ریت اٹھاتے تھے تاکہ سجدہ کرتے ہوئے پیشانی نہ جلے.

 جابر بن عبد اللہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول خدا (ص)کے ساتھ نماز ظہر پڑھنے میں مصروف تھا کہ ریت کو اپنی مٹھی میں اٹھایا اور اس پر سجدہ کیا .(۱)

ایک صحابی  کوسجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی  زمین پر رکھنے سے  اجتناب کرتے ہوئے دیکھا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اپنی پیشانی کو مٹی پر رکھا کرو.دوسرے صحابی کو دیکھا کہ اس کا عمامہ پیشانی او ر سجدہ گاہ کے درمیاں حائل ہور ہا تھا تو آپ نے اسے ہٹادئے. آپ حصیر اور ٹھیکری پر سجدہ کیا کرتے تھے.(۲)

مکالمہ

سنی: تم لوگ خاک  کربلا سے کیوںشفا طلب کرتے ہو؟ اور کیوں بیماروں کو کھلاتے ہو؟

شیعہ: کیا قدرت خدا پر شک کرتے ہو؟

--------------

(۱):-  مسند احمد، ج ۳، ص ۳۲۷ حدیث جابر و سنن بیہقی، ج ۱، ص ۴۳۹

(۲):- کنزالعمال، ج ۷، ص ۴۶۵ ح ۱۹۸۱۰ سنن بیہقی، ج ۲، ص ۱۰۵ مسند احمد، ج ۶، ص ۱۷۹، ۳۷۷، و ج ۲ ص ۱۹۲، ۱۹۸.

۶۰

سنی: نہیں، لیکن مٹی میں اس تاثیر کو قبول کرنا ممکن نہیں.

شیعہ: اس میں کیا اشکال ہے کہ خدا نے شہدکی مکھی میں شفا قرار دیکر فرمایا:

ثمُ‏َّ کلُِی مِن کلُ‏ِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِی سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا  یخَْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مختَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِیهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ  إِنَّ فىِ ذَالِكَ لاََيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون‏. (1)

"اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نرمی کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے جس کے بعد اس کے شکم سے مختلف قسم کے مشروب برآمد ہوں گے جس میں پورے عالم انسانیت کے لئے شفا کا سامان ہے اور اس میں بھی فکر کرنے والی قوم کے لئے ایک نشانی ہے ".

 اسی خدا نے حضرت یوسف(ع) کی قمیص میں وہ اثر پیدا کیا جس کے ذریعے حضرت یعقوب(ع) کی آنکھوں کی بینائی پلٹ آئی:

فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِیرُ أَلْقَئهُ عَلىَ‏ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا  قَالَ أَ لَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنىّ‏ِ أَعْلَمُ مِنَ الل ه مَا لَا تَعْلَمُون‏. (2)

"اس کے بعد جب بشیر نے آکر کرتہ یعقوب(ع) کے چہرہ پر ڈال دیا تو دوبارہ بینا ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں خدا کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو".

جس خدا نے عصائے موسیٰ(ع) میں وہ اعجاز پیدا کرکے سب ساحروں کو مغلوب کیا ؛اسی خدا نے خاک کربلا میں بیماروں کیلئے شفا قرار دیا ہے.

--------------

(1):- نحل،69.

(2):-  یوسف96.

۶۱

وضو کے طریقے میں اختلاف

سوال:شیعہ وضو کے دوران ہاتھ کو کہنیوں سے انگلیوں کی طرف دھوتے ہیں لیکن اہل سنت برعکس، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب : شیعوں کے ہا ں صریح روایت موجود ہیں کہ آئمہ طاہرین(ع) نے انہیں یہی طریقہ سکھایا ہے. انہوں نے یہ طریقہ اپنے آئمہ طاہرین(ع) سے اخذ کیا ہے اور آئمہ طاہرین (ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے اخذ کیا ہے، اور اہل بیتؑ اپنے جد گرامی کی باتوں کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں کہ آپ کام کیسے کرتے تھے، جیسا کہ رسول اللہ(ص) بھی اسی طرح انجام دیتے تھے.

نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم

اشکال: شیعہ ہاتھ کھول کر نماز کیوں پڑھتے ہیں؟

 جواب: اہل سنت کے کسی بھی فرقے کے نزدیک ہاتھ باندھ کر پڑھنا واجب نہیں ہے.بلکہ سارے صحابہ ،عمر کے زمانے تک  ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے اور جب ان کا دور آیا تو انھوں نے ہاتھ باندھ کر پڑھنے کو واجب قرار دیا: قرطبی کہتا ہے :«اختلف العلماء فی وضع الیدین احدهما علی الاخری فی الصلاة فَكَرِهَ ذلک مالک فی‏الفرض واجازه فی النفل و رای قوم انّ هذا من سنن‏الصلاة و هم الجمهور». (1)

  عبداللّہ بن زبیر، حسن بصری ، ابن سیرین ، لیث بن سعد و ابراہیم نخعی وغیرہ ہاتھ کھول کر پڑھنے کے قائل تھے. پیغمبراکرم(ص) نماز میں ہاتھ نہیں باندھتے تھے اور جب علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تو مالک نے   واجب نماز میں ہاتھ باندھنا مکروہ اور مستحب نماز میں سنت قرار دیا اور یہی  جمہور اہل سنت کا نظریہ ہے...

--------------

(1):- بدایة المجتہد، ج 1، ص 136..

(2):- صحیح بخاری، ج 1، ص 135.

۶۲

عن ابی حازم عن سهل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعه الیسری فی الصلاة قال ابوحازم لا اعلمه الّا ان ینمی ذلک الی النَّبی» (1)

اور اس اختلاف کا سبب یہ تھا کہ کچھ صحیح روایات ہم تک پہنچی ہیں جن میں رسول خدا (ص)کی نماز پڑھنے کا طریقہ نقل ہوا ہے لیکن ان روایات میں     ہاتھ باندھنے کا طریقہ ذکر نہیں ہوا ہے جبکہ علماء حکم دے رہے ہیں کہ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کریں.  علمائے جمہور کی دلیل بحاری کی حدیث ہے  جس کے ذیل میں ابو حازم کہتا ہے مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس کاحکم کرنے والا رسول خدا(ص) ہے  یا کوئی اور ہے.اور ہاتھ باندھنے کا حکم جن روایات میں آیا ہے وہ سب مرسلہ ہیں.(2)

تراویح کیا ہے؟

جواب: ماہ رمضان کی نوافل میں ۲۰ رکعت نماز ہے جسے تراویح کہا جاتا ہے جسےباجماعت پڑھنے  یا نہ پڑھنے میں اختلاف ہے ۔بخاری لکھتے ہیں کہ اس بدعت کو حضرت عمر نے جاری کرتے ہوئے کہا:

 انّی اری لو جمعتُ هولاء عَلی قاری‏ءغ واحد، لکان امثل، ثمّ عزم فجمعهم عَلی ابیّ‏بن کعب، ثمّ خرجت معه لیلة اخری والناس یصلّون بصلاة قارئهم. فقال عمر: نعم البدعة هذه (3)

--------------

(1):- عمدة القاری 27/5، سیوطی. التوشیح علی الجامع الصحیح، 1/463 و نیل الاوطار، ج 2، ص 187.

(2):- بخاری، ج 1، ص 342.

(3):- ارشاد الساری، ج 4، ص 656. عمدة القاری، ج 11، ص 126.

۶۳

جب عمر نے لوگوں کو مسجد میں الگ الگ اس نماز میں مصروف دیکھا تو کہنے لگا : کتنا اچھا ہوتا اگر یہ سب باجماعت ادا کرتے.راوی کہتا ہے دوسری رات جب آئے اور لوگوں کو باجماعت  اسے پڑھتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا:یہ  کتنی اچھی بدعت ہے؟

عینی کہتا  ہے: حضرت عمر نے اس لئے بدعت کہا کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے کبھی اس تراویح کی نماز کو باجماعت ادا نہیں کی اور نہ ابوبکر  کے زمانے میں ادا  کی  گئی.(1)

راوی لکھای ہے: عمر سب سے پہلا شخص ہے جس نے۱۴ ہجری میں  رمضان کے نوافل کو باجماعت ادا کیا.(2)

الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم

اذان میں الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم تشریع اذان کے وقت تھا  یا بعد میں اضافہ کیا  ہے؟

جواب : یہ تشریع اذان کے وقت شامل نہیں تھا بلکہ بعد میں حضرت عمر نے اسے اضافہ کیا ہے. جس پر دلیل یہ ہیں:

الف: محمد بن اسحاق روایت کرتا ہے :یہ جملہالصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم، اس وقت موجود نہ تھا.

ب: سعید بن مسیب صریحاً لکھتا ہے: یہ جملہ(ادخلت هذه الکلمة فی صلاة الفجر) یعنی نماز صبح میں اضافہ کیا گیا ہے.(3)

ج:عن مالک: انّه بَلَغَهُ انّ الْمُؤَذِّنُ جاءَ الی عُمَرَ بنَ الْخَطّابَ يُؤْذنه لِصَلاة الصّبح، فَوَجَدَهُ نائِماً فَقالَ: الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ فَامَرَهُ عُمَرُ ان یجعَلَها فی نِداء الصّبح». (4)

--------------

(1):- ماثر الانافة فی معالم الخلافة، ج 2، ص 337.

(2):- نیل الاوطار، ج 2، ص 37.

(3):- الموطا ج 1، ص 72.

(4):- نیل الاوطار، ج 2، ص 38.

۶۴

 امام مالک نے لکھا ہے مؤذن حضرت عمر کے پاس آیا تاکہ اسے بتادے کہ  صبح کا وقت داخل ہوگیا تو حضرت عمر سورہا تھا اس نے اونچی آواز میں کہا:«الصلاة خیر من النوم؛» عمر نے حکم  دیا آج کے بعد سے نماز صبح کے اذا ن میں اس جملے کو ضمیمہ کیا جائے.

د: شافعی نے اس جملے کو ایک جگہ مکروہ اور دوسری جگہ بدعت قرار دیا ہے. اور شوکانی کہتا ہے :«لَو کانَ لما انکره عَلِیّ وابنُ عُمَر وَطاوس» (1)

 اگر یہ اذان کا جزء ہوتا تو کبھی بھی حضرت علی(ع) اور عبداللہ بن عمر اور طاؤس اس پر اعتراض نہ کرتے .ٍ

ہ: ابن حزم کہتا ہے:«لا نقول بهذا الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ لانَّهُ لم یات عن رسول اللّه (ص)». (2)

ہم یہ جملہ اذان میں نہیں کہتے کیونکہ یہ جملہ رسول خدا (ص) سے نقل نہیں ہوا ہے.

تشہد ثلاثہ  کی حقیقت کیا ہے ؟

تشہد میں علی ابن ابیطالب ؑ کی ولایت کا اقرار کرنا  ہے ، یہ بحث تقریباً ۱۵ یا ۲۰ سال سے چل رہی ہے ۔ اس کی ابتداء پاکستان کا صوبہ پنجاب سے ہوئی ہے ۔ جن کا کہنا ہے کہ اگرکوئی تشہد میں ولایت علیؑ کا اقرار نہ کرے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر گندھی زبان استعمال کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ کی نسل نہیں ہے ۔  اسی بہانے مجتہدین کرام پر  بھی لعن طعن کرتے ہیں اور جنہوں نے اپنی پوری زندگی احکام خدا و  رسول اور آئمہ طاہرین  ؑ کو حاصل کرنے اور ملت تشیع تک پہنچانے  میں صرف کی اور نصف صدیاں  اس اہم وظیفہ کے انجام دینے میں گزاری ، انہیں مقصر  کہتے ہیں اور خود جو تمام احکامات سے بے خبر ہوکر صرف اس بات پرکہ نماز میں اشہدان علیاً ولی اللہ پڑھتا ہوں، مؤمن کہلاتے ہیں۔

--------------

(1):-  المحلی، ج 3، ص 0 16.

(2):- عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة / ج1 / 198 ۔

۶۵

اگرچہ یہ نعرہ برحق ہے کہ علی کا ذکر عبادت ہے لیکن اس بابرکت نام  کو بہانہ بنا کریہ کہنا کہ  اس ہستی  کا نام لینے سے تیری نماز نماز نہیں ہوتی!! کیا علی اللہ کے ولی نہیں ہیں؟ تو اس کا اقرار کرنا کیا جرم ہے؟ وغیرہ وغیرہ ؛ صحیح نہیں  ہے۔ورنہ ہم بھی ولایت علی کا منکر کو شیعہ ہی نہیں سمجھتے۔ بلکہ ولایت علی کا انکار کرنے والے کو ناجی نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر نے کہا:

حب علی کا منکر دشمن ہے زندگی کا    یہ بھی اک طریقہ انسانی خودکشی کا

ایک اور شاعر کہتا ہے:

جائز نہیں شراب کوئی کائنات میں    اس بات میں گواہ خدا  کا  کلام ہے

لیکن جناب شیخ !یہ حب علی ؑکی مے     پینا نہیں حرام ،نہ پینا حرام ہے

اب آپ سے ایک سوال ہے کہ آپ کے پاس کونسی دلیل موجود ہے   جس کی بناء پر  یہ پاک ذکر نماز میں شامل کررہے ہیں؟ کیا رسول خدا (ص) نے یا کسی امام معصوم ؑنے ایسی تشہد کے ساتھ نماز پڑھی ہیں؟

کیا رسول گرامی نے ایسی نماز پڑھی ہے ؟ اگر پڑھی ہوتی تو سارے محدثین  نقل کرتے،جس طرح انہوں نے اس حدیث کو نقل کیا:

الاسوة به صلّی اللّه علیه و آله لقوله عزّ و جلّ‏«لَقَدْ کانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ الل ه أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کانَ يَرْجُوا الل ه وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ الل ه كَثِیرا

مِنَ السَّجْدَةِ الْأَخِیرَةِ فِی الرَّكْعَةِ الْأُولَی اسْتَوَی جَالِساً ثُمَّ قَامَ وَ اعْتَمَدَ عَلَی الْأَرْضِ وَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ص صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِی أُصَلِّی‏ (1)

--------------

(1):-

۶۶

اور جسے آپ دلیل کے طور پر لاتے ہیں وہ  فقہ الرضا میں مرقوم حدیث ہے جو پورا ایک صفحہ پر مشتمل ہے ، یا خود مجتہدین کی نقل کردہ روایات کو لاتے ہیں اور خود انہی  مجتہدین پر لعن کرتے ہو!!

خود انصاف سے بتائیں کہ شیعیت انہی مجتہدین کے ذریعے پھیلی ہے یا نعروں کے ذریعے ؟ بیسویں صدی میں ایک مجتہد  کی زحمتوں اور راہنمائی کا نتیجہ تھا کہ آج پوری دنیا میں شیعیت کا نام بلند ہوا  ، یہی وجہ ہے کہ آج ہر شیعہ فخر کے ساتھ اپنی شیعیت کا اظہار کرتا ہے اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی بت شکنؒ کے لئے دعائیں دیتا ہے۔ ان بزرگوں کا نام لینے کا مقصد یہ ہے کہ کبھی انہوں نے تشہد میں علی ابن ابیطالب ؑکی ولایت کا اقرار نہیں کیا۔ اگر یہ واجت تھا تو ان سینکڑوں مجتہدین حضرات کا کام ہی روایات  اور آیات کی روشنی میں احکامات کی جانچ پڑتال کرنا تھا، ان کی نگاہوں سے بھی وہ روایت گزرتی۔ 

دوسرا سوال آپ سے یہ ہے کہ صرف اس نعرہ کے علاوہ ولایت علی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ اگر ولایت علی  اور آل علی کی عظمت کو جاننا چاہتے ہوتو امام خمینی ؒ کی کتاب ۔۔۔ جو زیارت جامعہ کی شرح ہے اسے پڑھ لوورنہ آپ کا یہ نعرہ  بھی بالکل خوارج کا نعرہ (لاحکم الا للہ لاحکم الا للہ) کی طرح ہے جو علی کے خلاف بلند کر رہے تھے ۔ جبکہ علی بھی حکم خدا کو ہی رائج کرنا چاہتے تھے۔ اب آپ دیکھ لیجئے نعرہ کتنا اچھا ہے کہ اللہ کے حکم کے سوا کسی اور کا حکم ہمیں قبول نہیں ۔ اس سے سادہ لوح افراد بھٹک گئے۔اسی طرح علی کا نام تشہد میں لینے سے تیری نماز باطل ہوجاتی ہے ؟ ہم کہتے ہیں کہ جہاں نام لینے کا حکم ہے وہاں لینا چاہئے ، اور اپنی مرضی سے نہیں۔

تیسرا سوال آپ سے یہ ہے:اگر علی کا نام لینا واجب ہے تو باقی اماموں کا بھی نام لو۔ خصوصاً امام زمان ؑ کا جو ہمارے زمانے کے امام ہیں۔ اگر آپ باقی اماموں کے نام نماز میں نہیں لیتے تو کیا ان کی امامت اور ولایت کے منکر ہوگئے !!!

۶۷

ذرا عقل سے کام لو  کہ اس میں یقیناً دشمن کا ہاتھ ہے کہ ایسے لطیف نعروں کے ذریعے شیعیان حیدر کرار ؑ کے درمیان تفرقہ ڈال کر اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔اصلی دشمن کو پہچان لو  ۔ علماء اور مجتہدین آپ کے دشمن نہیں بلکہ خیر خواہ ہیں ۔

چوتھا سوال آپ سے یہ ہے :کیا دین کے محافظ  وہ لوگ ہیں  جو اسٹیج پر آکر علی ولی اللہ کا نعرہ لگاکے مؤمنین کو علماء اور مجتہدین کے خلاف  اکسا کر اپنی جیب بھر کر چلے جاتے ہیں؟ اگر  یہ لوگ اتنے دین کے مخلص ہیں تو بغیر فیس کے بھی کوئی مجلس پڑھ کر دکھائیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جب تک ان کے اکاونٹ میں فیس نہیں آتی ، مجلس حسین میں جانے کی زحمت نہیں کرتے ۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس میں مؤمنین کابھی قصور ہے کہ انہی لوگوں کو سننا پسند کرتے ہیں۔اور بانی مجلس کا قصور یہ ہے کہ نام و نمود کی خاطر کہ اتنے لوگ شریک ہوئے  یعنی لوگوں کا زیادہ جمع ہونا مجلس کا معیار سمجھتا ہے ۔

۶۸

پانچویں فصل

 شفاعت اور  توسل

سوال: کیا شفاعت کے جائز ہونے پر کوئی قرآنی دلائل موجود ہیں اور عقیدہ توحید کے ساتھ کس طرح سازگار ہے؟

جواب:اصل میں وہابیوں  کو جو غلط فہمی  ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اولیاء الٰہی (کہ جن کا اللہ تعالیٰٰ کے نزدیک بڑا مقام اور منزلت ہے( اور بے جان بتوں  کو ایک جیسا سمجھا ہے  جن میں نہ جان ہے اور نہ عقل و شعور.

 قرآن مجید میں مختلف آیتوں میں شفاعت کے جائز ہونے پر دلائل موجود ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

قالُوا یا أَبانَا اسْتَغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا إِنَّا كُنَّا خاطِئِینَ قالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّی إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ. (1)

 بٹواں نے کہا: اے ہمارے ابا! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لےا دعا کےیک ، ہم ہی خطاکار تھے۔(یعقوب نے) کہا: عنقریب مںذ تمہارے لےا اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا،وہ یقینا بڑا بخشنے والا،مہربان ہے۔

فہل کان النبی یعقوب (ع)مشرکاً؟

جب برادرن یوسف  نے اپنے بھائی کا مقام اور منزلت کا نظارہ کیا اور اپنا مکروہ کردار  اور اس کا نتیجہ دیکھ لیا تو اپنے باپ کے پاس جاکر طلب شفاعت کی تو  ان کے باپ نے بھی ان کی خواہش پر  لبیک کہا : انہوں نے کہا : بابا جان ہمارے لئے استغفار کرنا کہ ہم خطا کار ہیں تو بابا نے کہا: عنقریب تمہارے لئے دعا کروں گا میرا پروردگار غفور و رحیم ہے".

--------------

(1):- یوسف ۹۷-۹۸.

۶۹

 اب سوال یہ ہے کیا حضرت یعقوب پیغمبر(ع) مشرک تھے؟!

 اگر کوئی یہ کہہ دے کہ برادران یوسف نے شفاعت مانگی تو وہ لوگ خطا کار تھے اور ان کا عمل ہمارے لئے حجت نہیں! اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ شریعت کے خلاف ہوتا تو اللہ کا نبی اس سے انکار کرتے ، لیکن انہوں نے بھی مفسّرین کے کہنے کے مطابق شب جمعہ کا انتطار کیا. قرآن کہہ رہا ہے کہ جب گناہگار لوگ پیغمبر اکرم (ص)کے پاس توبہ کرنے اور استغفارکرانے کیلئے آئے تو اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے آیہ نازل ہوئی:

وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا الل ه وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا الل ه تَوَّاباً رَحِیماً (1)

 " کہ اگر یہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے کے بعد تمہارے پاس آئیں اور استغفار کریں اور تو بھی ان کے ساتھ ان کیلئے استغفار کرے تو اللہ تعالیٰٰ کو بڑا بخشنے والا اور مہربان پاؤگے". اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترغیب دلانا شرک ہے؟!

قرآن کریم منافقین کی مذمت  میں ارشاد فرمارہاہے:

وَ إِذا قِیلَ لَهُمْ تَعالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ الل ه لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ وَ رَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَ هُمْ مُسْتَكْبِرُونَ. (2)

فہل یدعو القرآن الکریم الکفار والمنافقین للشرک؟

"اور جب ان سے کہا جائے: آؤ کہ اللہ کا رسول تمہارے لےی مغفرت مانگے تو وہ سر جھٹک دیتے ہںا اور آپ دیںھس  گے کہ وہ تکبر کے سبب آنے سے رک جاتے ہںں" کیا قرآن کریم کفار اور منافقین کو دعا مانگنے کا حکم دے رہا  ہے؟

--------------

(1):-  نساء۶۴.

(2):- منافقون ۵.

۷۰

ہم جانتے ہیں کہ قوم لوط بدترین قوموں میں سے تھی اور جب شیخ الانبیاء ابراہیم (ع) نے ان کیلئے شفاعت کی کہ انہیں مہلت دی جائے تاکہ یہ لوگ توبہ کریں ؛ لیکن یہ لوگ پلیدگی اور برائی میں حد سے بڑھ گئے اور شفاعت کے قابل نہیں رہے تو ان کیلئے خطاب ہوا:

اے ابراہیم ان کیلئے اب طلب شفاعت کرنا چھوڑدو:

فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْراهِیمَ الرَّوْعُ وَ جاءَتْهُ الْبُشْری‏ يُجادِلُنا فِی قَوْمِ لُوطٍ إِنَّ إِبْراهِیمَ‏ لَحَلِیمٌ أَوَّاهٌ مُنِیبٌ یا إِبْراهِیمُ أَعْرِضْ عَنْ ه ذا إِنَّهُ قَدْ جاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَ إِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ. (1)

"پھرجب ابراہیم کے دل سے خوف نکل گیا اور انہیں خوشخبری بھی مل گئی تو وہ قوم لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے.بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے. (فرشتوں نے ان سے کہا) اے ابراہیم! اس بات کو چھوڑ دیں، بیشک آپ کے رب کا فیصلہ آچکا ہے اور ان پر ایک ایسا عذاب آنے والا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا".

آئمہ (ع)سےخارق العادہ افعال کی درخواست کرنا شرک

 آئمہ (ع)سے غیر عادی کاموں کی درخواست کرنا  کیا(جیسے ان سے شفا طلب کرنا) شرک  نہیں ہے ؟

جواب:

سب سے پہلے تو انبیاء اور آئمہ (ع)کے توسط سے خارق العادہ کام انجام پانے میں کوئی مشکل نہیں ہے.

--------------

(1):-  ہود ۷۴-۷۶.

۷۱

جب بھی کسی مخلوق سے کوئی مدد مانگتے ہیں تو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ان کی اصل قدرت اور طاقت قدرت الہی ہے. اللہ نے انہیں وہ قدرت عطا کی ہے جس کے ذریعے سے وہ یہ کام انجام دے سکتے ہیں تو اگر ہم ان اولیاء اللہ سے کوئی مدد طلب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے ہم ان کو اللہ کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دیتے ہیں جیساکہ قرآن کا حکم ہے :يَأَيُّهَا الَّذِینَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ الل ه وَ ابْتَغُواْ إِلَيْهِ الْوَسِیلَةَ وَ جَاهِدُواْ فىِ سَبِیلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. (1) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو.

ان کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اپنی علاج کیلئے  تو اسے ہم شرک کیوں نہیں  جانتے؟

اللہ  مستقیماً سنتا ہے توکسی مردے کو درمیاں میں لانے کی ضرورت؟!

ہم اہل بیت (ع)سے کیوں مدد طلب کرتے ہیں جبکہ اللہ مستقیماً  سننے والا ہے؟!

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکمُ‏ْ يُوحَی إِلىَ‏َّ أَنَّمَا إِلَاهُکمُ‏ْ إِلَاهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِیمُواْ إِلَيْهِ وَ اسْتَغْفِرُوهُ  وَ وَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِین‏ (2)

کہدیجئے: میں بھی تم جیسا آدمی ہوں، میری طرف وحی ہوتی ہے کہ ایک اللہ ہی تمہارا معبود ہے لھٰذا تم اس کی طرف سیدھے رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور تباہی ہے ان مشرکین کے لیے.

يَأَيُّهَا الَّذِینَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ الل ه وَ ابْتَغُواْ إِلَيْهِ الْوَسِیلَةَ وَ جَاهِدُواْ فىِ سَبِیلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون. (3)

--------------

(1):-  مائدہ 35.

(2):- فصلت 6.

(3):- مائدہ  35.

۷۲

ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ .

«اوُلئِكَ الّذینَ يَدعُونَ يَبتَغُونَ الی رَبِّهِمُ الوَسیلَهَ ايُّهُم اقرَبُ وَ يَرجوُنَ رَحمَتَ ه وَ يَخافُونَ عَذابَ ه انَّ عَذابَ رَبِّكَ کانَ مَحذُوراً». (1)

یہ جن کو خدا سمجھ کر پکارتے ہیں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسیلہ تلاش کررہے ہیں کہ کون زیادہ قربت رکھنے والا ہے اور سب اسی کی رحمت کے امیدوار اور اسی کے عذاب سے خوفزدہ ہیں یقیناً آپ کے پروردگار کا عذاب ڈرنے کے لائق ہے.

سیّد شرف الدین کی حاضرجوابی!

مرحوم آیت اللہ سیّد شرف الدین (صاحب کتاب المراجعات) ملک عبد العزیز کے دور حکومت میں حج پر تشریف لےگئے اور عید قربان کے دن سارے علماء بادشاہ  کو عید مبارک کہنے کیلئے شاہی محل میں جمع ہوگئے جب  سید کی نوبت آگئی تو آپ  نے ایک چمرے کی جلد  شدہ  قرآن مجید بطور تحفہ ان کو پیش کیا  تو بادشاہ نے اسے احتراماً چوما اور پیشانی پر رکھا تو سید شرف الدین ؓ نے ایک دم کہا : اےبادشاہ کیوں اس جلد کا بوسہ لیتے ہو جو بکری کی کھال  کا بنا ہوا ہے؟

اس نے کہا : میں اس کھال میں پوشیدہ قرآن کریم کی تکریم کررہا ہوں نہ کہ  اس کھال کی اس وقت آیة اللہ سید شرف الدین ؓ نے  بےدرنگ فرمایا: احسنت اے بادشاہ! ہم شیعیان بھی اس پنجرے اور کمرے کی تعظیم کیلئے نہیں چومتے بلکہ اس میں موجود رسول گرامی اسلام (ص) کے احترام اور تعظیم کی خاطر پنجرے کو چومتے ہیں .اس وقت سارے علماء نے تکبیر کےنعرے بلند کئے اور تصدیق کرنے لگے تو شاہ عبدالعزیز نےبھی مجبور ہوکر سارے حاجیوں کو رسول خدا(ص) کے آثار کو چومنے  کی اجازت دے دی لیکن جب ان کا ولیعہد آیا تو اس نے پھر اس قانون  پر پابندی لگا دی(2)

--------------

(1):- اسراء 57.

(2):- ماہنامہ موعود شمارہ 89 وپاسخ بہ شبہات(1)، ص: 4

۷۳

آئمہ(ع) کے توسط سے الہی افعال کا انجام پانا

اشکال : وہابی کہتے ہیں کہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ آئمہ خدائی کام کرتے ہیں تو یہ ان کے مشرک ہونے پر دلیل ہے.

 جواب:الف: ہمارا عقیدہ ہے کہ آئمہ(ع)        جو بھی انجام دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰٰٰ  ہی کے حکم اور اس کی اجازت سے انجام دیتے ہیں: لا حول و لا قوة الا باللہ ، بحول اللہ و قوتہ اقوم و اقعد. اللہ تعالیٰٰ اگر چاہے تو اپنے اولیاء میں سے کسی کو خارق العادہ کام انجام دینے کی قدرت عطا کرسکتا ہے اور اگر خدا کی طرح کوئی کام انجام دینے لگے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بھی خدا کی طرح ہوگئے.بلکہ انسان ایک برقی وسیلہ کی مانند ہے جب تک اس میں برق موجود ہے وہ کام کرتا رہے گا  اور جب بجلی کا کرنٹ اس سے الگ ہوجائے تو وہ بھی ناکارہ ہوگیا ،لیکن  یہ فعل انسان کا  ہے نہ اللہ کا عمل.

ب: اللہ کے نبیوں نے بھی ایسے خارق العادہ کام انجام دئے ہیں: جیسے:«وَ رَسُولًا إِلىَ بَنىِ إِسْرَ ءِیلَ أَنىِ قَدْ جِئْتُكُم بَايَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنىِ أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّینِ كَهَيَةِ الطَّیرِ فَأَنفُخُ فِیهِ فَيَكُونُ طَیرَا بِإِذْنِ الل ه وَ أُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ وَ أُحْىِ الْمَوْتىَ بِإِذْنِ الل ه وَ أُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْکلُونَ وَ مَا تَدَّخِرُونَ فىِ بُيُوتِكُمْ إِنَّ فىِ ذَالِكَ لَايَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ» (1) اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ میں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکہم خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور مبروص کا علاج کروں گا اور حکہم خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو- ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو.

--------------

(1):-  آل عمران 49.

۷۴

إِذْ قَالَ الل ه يَاعِیسىَ ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتىِ عَلَيْكَ وَ عَلىَ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُکلِ‏مُ النَّاسَ فىِ الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَ إِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَ الحِكْمَةَ وَ التَّوْرَئةَ وَ الْانجِیلَ وَ إِذْ تخْلُقُ مِنَ الطِّینِ كَهَيَةِ الطَّیرِ بِإِذْنىِ فَتَنفُخُ فِیهَا فَتَكُونُ طَیرَا بِإِذْنىِ وَ تُبرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ بِإِذْنىِ وَ إِذْ تخْرِجُ الْمَوْتىَ بِإِذْنىِ وَ إِذْ كَفَفْتُ بَنىِ إِسْرَ ءِیلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُواْ مِنهُمْ إِنْ هَاذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِینٌ (1)

 جب عیسیٰ بن مریم سے اللہ نے فرمایا: یاد کیجئے میری اس نعمت کو جو میں نے آپ اور آپ کی والدہ کو عطا کی ہے جب میں میں نے روح القدس کے ذریعے آپ کی تائید کی، آپ گہوارے میں اور بڑے ہو کر لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے آپ کو کتاب، حکمت، توریت اور انجیل کی تعلیم دی اور جب آپ میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے پھر آپ اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور آپ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے صحت یاب کرتے تھے اور آپ میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کر کے) نکال کھڑا کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو اس وقت آپ سے روک رکھا جب آپ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں نے کہا: یہ تو ایک کھلا جادو ہے.

قَالَ الَّذِی عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا ءَاتِیكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَءَاهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَاذَا مِن فَضْلِ رَبىِ لِيَبْلُوَنىِ ءَ أَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَ مَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَ مَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبىِ غَنىٌّ كَرِیمٌ (2)

--------------

(1):-  مائدہ 110.

(2):- نمل 40.

۷۵

جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں، جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر نعمت کرتا ہوں یا کفران اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار یقیناً بے نیاز اور صاحب کرم ہے.

ان قرآنی دلائل کی روشنی میں کیسے آپ شیعہ کو اس کے اعتقاد رکھنے پر کافر کہتے ہو؟!!!

قبور آئمہؑ کی زیارت شرک لیکن ابن تیمیہ کی زیارت؟

اگر شیعیان اپنے پیغمبر اکرم (ص)کی اولاد کی زیارت کرتے ہیں یا ان کا احترام کرتے ہیں تو  وہابی لوگ ان پر کفر اور شرک کا فتویٰ لگاتے ہیں جبکہ یہی لوگ ابن تیمیہ کے جنازے پر رومال پھینکتے اور تبرک کے طور پر اسے اپنے چہرے پر ملتے تھے تعجب اس بات پر ہے کہ ان کی عشق میں ان کے غسل میت کا بچا ہوا پانی تبرک کے طور پر پینے لگے اور آب سدر کو  آپس میں تقسیم کرکے لے گئے .ان کے جنازے میں خواتین بھی تھیں جو ان کے قبر پر آجایا کرتی تھیں یہاں تک کہ صبح ہوئی.(1)

سوال یہ ہے کہ اگر شیعہ قبور آئمہ طاہرین(ع) کی زیارت کرتے ہیں تو مشرک لیکن ابن تیمیہ کی قبر کی زیارت کرنے والے مؤمن ہونگے؟!!

--------------

(1):-  البدایہ و النہایہ (تاریخ ابن کثیر)، جلد 14، صفحہ 156، ناشر: داراحیاءالتراث العربی، بیروت.

۷۶

شیعہ آن لائن گزارش کے مطابق " محمد عبدالعظیم خلیف" اپنی داستان یوں بیان کرتا ہے کہ میں اپنے دوست کے ساتھ رسول خدا(ص)کے حرم میں داخل ہوا تو ایک مامور ہمارے پیچھے آنے لگا اور کہا : یہاں سے آگے جانا ممنوع ہے اور ہمیں  دوسرے دروازے کی طرف  بھیجا  ، اور  ہمارے پیچھے تین وہابی جوان آنے لگے اور پیچھے سے اتنے زور سے ٹھوکر مارے کہ ہم زمین پر گر پڑے  ہمارے چہرے پر بھی ٹھوکر مارنے لگے جس سے ناک سے خون بہنا شروع ہوگیا  پھر ہمیں پولیس کے حوالے کردئے کچھ دیر کے بعد میرے دوستوں کو رہا کردئے مجھے اکیلا وہاں روکے رکھا. اس کے بعد ہیئت امر بہ معروف و نہی ازمنکر کے کمرے میں لے گئے مغرب کا وقت گزرگیا سات افراد آئے اور کہنے لگے : یا اس بات کا اعتراف کرلو کہ شیعوں کے ساتھ یہاں ہنگامہ آرائی کرنے کیلئے آیا ہے یا کہہ دو کہ" شیخ جواد الحضری" کو چاقو مارا ہے. اور شیخ جواد الحضری شہر الاحساء کے ایک شیعہ مسجد کا پیش نماز تھا جسے پچھلے ہفتے میں ہیئت امر بہ معروف و نہی از منکرسے وابستہ افراد نے پیچھے سے چاقو مارے تھے محمد عبدالعظیم خلیف کہتا ہے کہ میں نے انکار کیا اور کہا میں جھوٹ نہیں بولوں گا  کہ میں مدینہ آیا ہوں فساد کرنےکیلئے یا میں نے شیخ جواد کو چاقو مارا ہو. پھر انہوں نے ایک جیل میں مجھے منتقل کیا جہاں ۲۰ شیعہ جوان پہلے سے  نظربند کئے ہوئے تھے ، ان پر بھی ایسی ہی تہمتیں لگائی ہوئی تھی ، ان میں سے کچھ جوانوں کو جانتا بھی تھا کہ اپنے گاؤں سے ان کا تعلق تھا اس کے بعد ہم سے تعہد لیا کہ آج کے بعد کبھی حرم رسول خدا (ص) میں داخل  نہیں ہونگے(1)

--------------

(1):-  1387/ 12/ 47: 12 11- MP شیعہ آنلاین. مطالب خواندنی، ص: 3.

۷۷

  زیارت پیغمبر(ص)کیلئےسفر کرنا گناہ

وافتی ابن تیمیه ان انشاء السفر لزیاره النبی غیر جائز، ویعد معصیه. وقد وصف زیارته بانها غیر واجبه باتفاق المسلمین، بل ولم یشرع السفر الیها، بل هو منهی عنه .(1)

ابن تیمیّہ نے اپنے ایک فتویٰ میں کہاہے کہ قبر رسول کی زیارت کے غرض سے سفر کرنا حرام ہے  کیونکہ یہ گناہ ہے اس کے بعد کہتا ہے کہ آپ کی زیارت واجب نہیں ہےجس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے بلکہ زیارت کیلئے سفر کرنا جائز نہیں ہے اور ممنوع ہے :

جبکہ ابن عمر اور دیگر صحابی شام کو فتح کرنے کے بعد رسول خدا(ص)کے مزار پر آکر سلام کئے  اور کہا:السلام علیک یا رسول الله (ص) .(2)

بت پرستوں اور شیعوں میں شباہت

وہابی کہتے ہیں کہ شیعہ اور بت پرستوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں  مخلوقات کو اللہ کی بارگاہ میں شفیع قرار دیتے ہیں اس وجہ سے دونوں مشرک ہیں.

جواب:بت پرست لوگ کہتے ہیں :لبیک لا شریک لک الا شریكٌ هو لک تملکه و ما ملک .(3) یعنی نہیں ہے تیرا کوئی شریک مگر وہ شریک کہ جس کی ہر چیز کا تو ہی مالک ہے.جبکہ شیعہ کسی کو بھی خدا کا شریک نہیں ٹھہراتا بلکہ شفیع قرار دیتا ہے جس کا جواز  قرآن کی رو سے ثابت کرچکے.

--------------

(1):- قاعدہ جلیلہ فی التوسل والوسیلہ، ص 73، اقتضاء الصراط المستقیم، ص 430

(2):- سُبکی، شفاء السقام: 44). وفاء الوفاء: 4/ 1340)

(3):- کافی/ 4/ 542، مستدرک الوسایل 9/ 195، بحار النوار 3/ 253:

۷۸

وَ لَئِن سَأَلْتَهُم مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ و سَخَّرَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللهُ فَانّی يُوفَکوُنَ .(1)

اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو کس نےمَسخّر کیا ہے تو فورا کہیں گے کہ اللہ,تو یہ کدھر بہکے چلے جارہے ہیں.

وَ لَئنِ سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ الل ه قُلِ الحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ. (2)

اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ، تو پھر کہئے کہ ساری حمد اللہ کے لئے ہے اور ان کی اکثریت بالکل جاہل ہے.

وَ لَئنِ سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ الل ه   قُلْ أَ فَرَءَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ الل ه إِنْ أَرَادَنىِ‏َ الل ه بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنىِ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبىِ‏َ الل ه عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَکلُِّون‏ (3) اور اگر آپ ان سے سوال کریں گے کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ اللہ  تو کہہ دیجئے کہ کیا تم نے ان سب کا حال دیکھا ہے جن کی عبادت کرتے ہو کہ اگر خدا نقصان پہنچانے کا ارادہ کرلے تو کیا یہ اس نقصان کو روک سکتے ہیں یا اگر وہ رحمت کا ارادہ کرلے تو کیا یہ اس رحمت کو منع کرسکتے ہیں - آپ کہہ دیجئے کہ میرے لئے میرا خدا کافی ہے اور بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں.

--------------

(1):-  عنکبوت 61.

(2):- لقمان 25.

(3):- زمر 38۔

۷۹

1- آسمان و زمین کے خالق اور بارش کانازل کرنے والا اور سبزے اگانے والا صرف خدا ہے (61 عنکبوت، 25 لقمان، 38 زمر)

: وَ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ الل ه مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَ لَا يَنفَعُهُمْ وَ يَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ الل ه   قُلْ أَ تُنَبُِّونَ الل ه بِمَا لَا يَعْلَمُ فىِ السَّمَاوَاتِ وَ لَا فىِ الْأَرْضِ  سُبْحَانَهُ وَ تَعَالىَ‏ عَمَّا يُشْرِكُون. (1)

اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم تو خدا کو اس بات کی اطلاع دےرہے ہو جس کا علم اسے آسمان و زمین میں کہیں نہیں ہے وہ پاک و پاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے.

 2.بت پرست لوگ اپنے بتوں کو خدا کے نزدیک شفاعت کرنے والے مانتے ہیں. (یونس ۱۸)

اولًا:  تو یہ ہے کہ انہوں نے بتوں کو اپنے ہاتھوں سےہی  بنا کر اپنا شفیع قرار دئے ہیں اور ان کی باتوں کا کوئی مبنا نہیں ہے

ثانیاً : سورہ یونس ۱۸ کی رو سے یہ لوگ غیر خد اکی عبادت کرتے ہیں کہ بڑے بت کو مستقل طور پر طاقت اور قدرت کے قابل  سمجھتے ہیں .اور بت کے سامنے خضوع اور خشوع کرنے لگتے ہیں.اور ان کا خدا بھی تو ایسا خدا نہیں جس کو مسلمان خدا مانتے ہیں،بلکہ ان کا خدا جز رکھتا ہے( 15 زخرف)،ملائک کو اللہ تعالیٰٰ کی بیٹیاں  مانتے ہیں( 40 اسراء)، اور اللہ تعالیٰٰ کیلئے ہمتا کے قائل ہوتے ہیں. (8 زمر).

الا لِلّهِ الدّینُ الخالِصُ وَ الَّذینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ ه اولیاءَ ما نَعبُدُهُم الّا لِيُقَرِّبوُنا الَی اللهِ زُلفی انَّ اللهَ يَحكُمُ بَینَهُم فی ما هُم فیهِ يَختَلِفُونَ انَّ اللهَ لا يَ ه دی مَن هُوَ کاذِبٌ كَفّارٌ (2)

--------------

(1):-  یونس (18)

(2):-  زمر (3).

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255