شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات30%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218458 / ڈاؤنلوڈ: 6978
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سنی: نہیں، لیکن مٹی میں اس تاثیر کو قبول کرنا ممکن نہیں.

شیعہ: اس میں کیا اشکال ہے کہ خدا نے شہدکی مکھی میں شفا قرار دیکر فرمایا:

ثمُ‏َّ کلُِی مِن کلُ‏ِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِی سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا  یخَْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مختَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِیهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ  إِنَّ فىِ ذَالِكَ لاََيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون‏. (۱)

"اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نرمی کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے جس کے بعد اس کے شکم سے مختلف قسم کے مشروب برآمد ہوں گے جس میں پورے عالم انسانیت کے لئے شفا کا سامان ہے اور اس میں بھی فکر کرنے والی قوم کے لئے ایک نشانی ہے ".

 اسی خدا نے حضرت یوسف(ع) کی قمیص میں وہ اثر پیدا کیا جس کے ذریعے حضرت یعقوب(ع) کی آنکھوں کی بینائی پلٹ آئی:

فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِیرُ أَلْقَئهُ عَلىَ‏ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا  قَالَ أَ لَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنىّ‏ِ أَعْلَمُ مِنَ الل ه مَا لَا تَعْلَمُون‏. (۲)

"اس کے بعد جب بشیر نے آکر کرتہ یعقوب(ع) کے چہرہ پر ڈال دیا تو دوبارہ بینا ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں خدا کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو".

جس خدا نے عصائے موسیٰ(ع) میں وہ اعجاز پیدا کرکے سب ساحروں کو مغلوب کیا ؛اسی خدا نے خاک کربلا میں بیماروں کیلئے شفا قرار دیا ہے.

--------------

(۱):- نحل،۶۹.

(۲):-  یوسف۹۶.

۶۱

وضو کے طریقے میں اختلاف

سوال:شیعہ وضو کے دوران ہاتھ کو کہنیوں سے انگلیوں کی طرف دھوتے ہیں لیکن اہل سنت برعکس، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب : شیعوں کے ہا ں صریح روایت موجود ہیں کہ آئمہ طاہرین(ع) نے انہیں یہی طریقہ سکھایا ہے. انہوں نے یہ طریقہ اپنے آئمہ طاہرین(ع) سے اخذ کیا ہے اور آئمہ طاہرین (ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے اخذ کیا ہے، اور اہل بیتؑ اپنے جد گرامی کی باتوں کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں کہ آپ کام کیسے کرتے تھے، جیسا کہ رسول اللہ(ص) بھی اسی طرح انجام دیتے تھے.

نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم

اشکال: شیعہ ہاتھ کھول کر نماز کیوں پڑھتے ہیں؟

 جواب: اہل سنت کے کسی بھی فرقے کے نزدیک ہاتھ باندھ کر پڑھنا واجب نہیں ہے.بلکہ سارے صحابہ ،عمر کے زمانے تک  ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے اور جب ان کا دور آیا تو انھوں نے ہاتھ باندھ کر پڑھنے کو واجب قرار دیا: قرطبی کہتا ہے :«اختلف العلماء فی وضع الیدین احدهما علی الاخری فی الصلاة فَكَرِهَ ذلک مالک فی‏الفرض واجازه فی النفل و رای قوم انّ هذا من سنن‏الصلاة و هم الجمهور». (۱)

  عبداللّہ بن زبیر، حسن بصری ، ابن سیرین ، لیث بن سعد و ابراہیم نخعی وغیرہ ہاتھ کھول کر پڑھنے کے قائل تھے. پیغمبراکرم(ص) نماز میں ہاتھ نہیں باندھتے تھے اور جب علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تو مالک نے   واجب نماز میں ہاتھ باندھنا مکروہ اور مستحب نماز میں سنت قرار دیا اور یہی  جمہور اہل سنت کا نظریہ ہے...

--------------

(۱):- بدایة المجتہد، ج ۱، ص ۱۳۶..

(۲):- صحیح بخاری، ج ۱، ص ۱۳۵.

۶۲

عن ابی حازم عن سهل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعه الیسری فی الصلاة قال ابوحازم لا اعلمه الّا ان ینمی ذلک الی النَّبی» (۱)

اور اس اختلاف کا سبب یہ تھا کہ کچھ صحیح روایات ہم تک پہنچی ہیں جن میں رسول خدا (ص)کی نماز پڑھنے کا طریقہ نقل ہوا ہے لیکن ان روایات میں     ہاتھ باندھنے کا طریقہ ذکر نہیں ہوا ہے جبکہ علماء حکم دے رہے ہیں کہ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کریں.  علمائے جمہور کی دلیل بحاری کی حدیث ہے  جس کے ذیل میں ابو حازم کہتا ہے مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس کاحکم کرنے والا رسول خدا(ص) ہے  یا کوئی اور ہے.اور ہاتھ باندھنے کا حکم جن روایات میں آیا ہے وہ سب مرسلہ ہیں.(۲)

تراویح کیا ہے؟

جواب: ماہ رمضان کی نوافل میں ۲۰ رکعت نماز ہے جسے تراویح کہا جاتا ہے جسےباجماعت پڑھنے  یا نہ پڑھنے میں اختلاف ہے ۔بخاری لکھتے ہیں کہ اس بدعت کو حضرت عمر نے جاری کرتے ہوئے کہا:

 انّی اری لو جمعتُ هولاء عَلی قاری‏ءغ واحد، لکان امثل، ثمّ عزم فجمعهم عَلی ابیّ‏بن کعب، ثمّ خرجت معه لیلة اخری والناس یصلّون بصلاة قارئهم. فقال عمر: نعم البدعة هذه (۳)

--------------

(۱):- عمدة القاری ۲۷/۵، سیوطی. التوشیح علی الجامع الصحیح، ۱/۴۶۳ و نیل الاوطار، ج ۲، ص ۱۸۷.

(۲):- بخاری، ج ۱، ص ۳۴۲.

(۳):- ارشاد الساری، ج ۴، ص ۶۵۶. عمدة القاری، ج ۱۱، ص ۱۲۶.

۶۳

جب عمر نے لوگوں کو مسجد میں الگ الگ اس نماز میں مصروف دیکھا تو کہنے لگا : کتنا اچھا ہوتا اگر یہ سب باجماعت ادا کرتے.راوی کہتا ہے دوسری رات جب آئے اور لوگوں کو باجماعت  اسے پڑھتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا:یہ  کتنی اچھی بدعت ہے؟

عینی کہتا  ہے: حضرت عمر نے اس لئے بدعت کہا کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے کبھی اس تراویح کی نماز کو باجماعت ادا نہیں کی اور نہ ابوبکر  کے زمانے میں ادا  کی  گئی.(۱)

راوی لکھای ہے: عمر سب سے پہلا شخص ہے جس نے۱۴ ہجری میں  رمضان کے نوافل کو باجماعت ادا کیا.(۲)

الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم

اذان میں الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم تشریع اذان کے وقت تھا  یا بعد میں اضافہ کیا  ہے؟

جواب : یہ تشریع اذان کے وقت شامل نہیں تھا بلکہ بعد میں حضرت عمر نے اسے اضافہ کیا ہے. جس پر دلیل یہ ہیں:

الف: محمد بن اسحاق روایت کرتا ہے :یہ جملہالصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم، اس وقت موجود نہ تھا.

ب: سعید بن مسیب صریحاً لکھتا ہے: یہ جملہ(ادخلت هذه الکلمة فی صلاة الفجر) یعنی نماز صبح میں اضافہ کیا گیا ہے.(۳)

ج:عن مالک: انّه بَلَغَهُ انّ الْمُؤَذِّنُ جاءَ الی عُمَرَ بنَ الْخَطّابَ يُؤْذنه لِصَلاة الصّبح، فَوَجَدَهُ نائِماً فَقالَ: الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ فَامَرَهُ عُمَرُ ان یجعَلَها فی نِداء الصّبح». (۴)

--------------

(۱):- ماثر الانافة فی معالم الخلافة، ج ۲، ص ۳۳۷.

(۲):- نیل الاوطار، ج ۲، ص ۳۷.

(۳):- الموطا ج ۱، ص ۷۲.

(۴):- نیل الاوطار، ج ۲، ص ۳۸.

۶۴

 امام مالک نے لکھا ہے مؤذن حضرت عمر کے پاس آیا تاکہ اسے بتادے کہ  صبح کا وقت داخل ہوگیا تو حضرت عمر سورہا تھا اس نے اونچی آواز میں کہا:«الصلاة خیر من النوم؛» عمر نے حکم  دیا آج کے بعد سے نماز صبح کے اذا ن میں اس جملے کو ضمیمہ کیا جائے.

د: شافعی نے اس جملے کو ایک جگہ مکروہ اور دوسری جگہ بدعت قرار دیا ہے. اور شوکانی کہتا ہے :«لَو کانَ لما انکره عَلِیّ وابنُ عُمَر وَطاوس» (۱)

 اگر یہ اذان کا جزء ہوتا تو کبھی بھی حضرت علی(ع) اور عبداللہ بن عمر اور طاؤس اس پر اعتراض نہ کرتے .ٍ

ہ: ابن حزم کہتا ہے:«لا نقول بهذا الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ لانَّهُ لم یات عن رسول اللّه (ص)». (۲)

ہم یہ جملہ اذان میں نہیں کہتے کیونکہ یہ جملہ رسول خدا (ص) سے نقل نہیں ہوا ہے.

تشہد ثلاثہ  کی حقیقت کیا ہے ؟

تشہد میں علی ابن ابیطالب ؑ کی ولایت کا اقرار کرنا  ہے ، یہ بحث تقریباً ۱۵ یا ۲۰ سال سے چل رہی ہے ۔ اس کی ابتداء پاکستان کا صوبہ پنجاب سے ہوئی ہے ۔ جن کا کہنا ہے کہ اگرکوئی تشہد میں ولایت علیؑ کا اقرار نہ کرے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر گندھی زبان استعمال کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ کی نسل نہیں ہے ۔  اسی بہانے مجتہدین کرام پر  بھی لعن طعن کرتے ہیں اور جنہوں نے اپنی پوری زندگی احکام خدا و  رسول اور آئمہ طاہرین  ؑ کو حاصل کرنے اور ملت تشیع تک پہنچانے  میں صرف کی اور نصف صدیاں  اس اہم وظیفہ کے انجام دینے میں گزاری ، انہیں مقصر  کہتے ہیں اور خود جو تمام احکامات سے بے خبر ہوکر صرف اس بات پرکہ نماز میں اشہدان علیاً ولی اللہ پڑھتا ہوں، مؤمن کہلاتے ہیں۔

--------------

(۱):-  المحلی، ج ۳، ص ۰ ۱۶.

(۲):- عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة / ج۱ / ۱۹۸ ۔

۶۵

اگرچہ یہ نعرہ برحق ہے کہ علی کا ذکر عبادت ہے لیکن اس بابرکت نام  کو بہانہ بنا کریہ کہنا کہ  اس ہستی  کا نام لینے سے تیری نماز نماز نہیں ہوتی!! کیا علی اللہ کے ولی نہیں ہیں؟ تو اس کا اقرار کرنا کیا جرم ہے؟ وغیرہ وغیرہ ؛ صحیح نہیں  ہے۔ورنہ ہم بھی ولایت علی کا منکر کو شیعہ ہی نہیں سمجھتے۔ بلکہ ولایت علی کا انکار کرنے والے کو ناجی نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر نے کہا:

حب علی کا منکر دشمن ہے زندگی کا    یہ بھی اک طریقہ انسانی خودکشی کا

ایک اور شاعر کہتا ہے:

جائز نہیں شراب کوئی کائنات میں    اس بات میں گواہ خدا  کا  کلام ہے

لیکن جناب شیخ !یہ حب علی ؑکی مے     پینا نہیں حرام ،نہ پینا حرام ہے

اب آپ سے ایک سوال ہے کہ آپ کے پاس کونسی دلیل موجود ہے   جس کی بناء پر  یہ پاک ذکر نماز میں شامل کررہے ہیں؟ کیا رسول خدا (ص) نے یا کسی امام معصوم ؑنے ایسی تشہد کے ساتھ نماز پڑھی ہیں؟

کیا رسول گرامی نے ایسی نماز پڑھی ہے ؟ اگر پڑھی ہوتی تو سارے محدثین  نقل کرتے،جس طرح انہوں نے اس حدیث کو نقل کیا:

الاسوة به صلّی اللّه علیه و آله لقوله عزّ و جلّ‏«لَقَدْ کانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ الل ه أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کانَ يَرْجُوا الل ه وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ الل ه كَثِیرا

مِنَ السَّجْدَةِ الْأَخِیرَةِ فِی الرَّكْعَةِ الْأُولَی اسْتَوَی جَالِساً ثُمَّ قَامَ وَ اعْتَمَدَ عَلَی الْأَرْضِ وَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ص صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِی أُصَلِّی‏ (۱)

--------------

(۱):-

۶۶

اور جسے آپ دلیل کے طور پر لاتے ہیں وہ  فقہ الرضا میں مرقوم حدیث ہے جو پورا ایک صفحہ پر مشتمل ہے ، یا خود مجتہدین کی نقل کردہ روایات کو لاتے ہیں اور خود انہی  مجتہدین پر لعن کرتے ہو!!

خود انصاف سے بتائیں کہ شیعیت انہی مجتہدین کے ذریعے پھیلی ہے یا نعروں کے ذریعے ؟ بیسویں صدی میں ایک مجتہد  کی زحمتوں اور راہنمائی کا نتیجہ تھا کہ آج پوری دنیا میں شیعیت کا نام بلند ہوا  ، یہی وجہ ہے کہ آج ہر شیعہ فخر کے ساتھ اپنی شیعیت کا اظہار کرتا ہے اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی بت شکنؒ کے لئے دعائیں دیتا ہے۔ ان بزرگوں کا نام لینے کا مقصد یہ ہے کہ کبھی انہوں نے تشہد میں علی ابن ابیطالب ؑکی ولایت کا اقرار نہیں کیا۔ اگر یہ واجت تھا تو ان سینکڑوں مجتہدین حضرات کا کام ہی روایات  اور آیات کی روشنی میں احکامات کی جانچ پڑتال کرنا تھا، ان کی نگاہوں سے بھی وہ روایت گزرتی۔ 

دوسرا سوال آپ سے یہ ہے کہ صرف اس نعرہ کے علاوہ ولایت علی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ اگر ولایت علی  اور آل علی کی عظمت کو جاننا چاہتے ہوتو امام خمینی ؒ کی کتاب ۔۔۔ جو زیارت جامعہ کی شرح ہے اسے پڑھ لوورنہ آپ کا یہ نعرہ  بھی بالکل خوارج کا نعرہ (لاحکم الا للہ لاحکم الا للہ) کی طرح ہے جو علی کے خلاف بلند کر رہے تھے ۔ جبکہ علی بھی حکم خدا کو ہی رائج کرنا چاہتے تھے۔ اب آپ دیکھ لیجئے نعرہ کتنا اچھا ہے کہ اللہ کے حکم کے سوا کسی اور کا حکم ہمیں قبول نہیں ۔ اس سے سادہ لوح افراد بھٹک گئے۔اسی طرح علی کا نام تشہد میں لینے سے تیری نماز باطل ہوجاتی ہے ؟ ہم کہتے ہیں کہ جہاں نام لینے کا حکم ہے وہاں لینا چاہئے ، اور اپنی مرضی سے نہیں۔

تیسرا سوال آپ سے یہ ہے:اگر علی کا نام لینا واجب ہے تو باقی اماموں کا بھی نام لو۔ خصوصاً امام زمان ؑ کا جو ہمارے زمانے کے امام ہیں۔ اگر آپ باقی اماموں کے نام نماز میں نہیں لیتے تو کیا ان کی امامت اور ولایت کے منکر ہوگئے !!!

۶۷

ذرا عقل سے کام لو  کہ اس میں یقیناً دشمن کا ہاتھ ہے کہ ایسے لطیف نعروں کے ذریعے شیعیان حیدر کرار ؑ کے درمیان تفرقہ ڈال کر اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔اصلی دشمن کو پہچان لو  ۔ علماء اور مجتہدین آپ کے دشمن نہیں بلکہ خیر خواہ ہیں ۔

چوتھا سوال آپ سے یہ ہے :کیا دین کے محافظ  وہ لوگ ہیں  جو اسٹیج پر آکر علی ولی اللہ کا نعرہ لگاکے مؤمنین کو علماء اور مجتہدین کے خلاف  اکسا کر اپنی جیب بھر کر چلے جاتے ہیں؟ اگر  یہ لوگ اتنے دین کے مخلص ہیں تو بغیر فیس کے بھی کوئی مجلس پڑھ کر دکھائیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جب تک ان کے اکاونٹ میں فیس نہیں آتی ، مجلس حسین میں جانے کی زحمت نہیں کرتے ۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس میں مؤمنین کابھی قصور ہے کہ انہی لوگوں کو سننا پسند کرتے ہیں۔اور بانی مجلس کا قصور یہ ہے کہ نام و نمود کی خاطر کہ اتنے لوگ شریک ہوئے  یعنی لوگوں کا زیادہ جمع ہونا مجلس کا معیار سمجھتا ہے ۔

۶۸

پانچویں فصل

 شفاعت اور  توسل

سوال: کیا شفاعت کے جائز ہونے پر کوئی قرآنی دلائل موجود ہیں اور عقیدہ توحید کے ساتھ کس طرح سازگار ہے؟

جواب:اصل میں وہابیوں  کو جو غلط فہمی  ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اولیاء الٰہی (کہ جن کا اللہ تعالیٰٰ کے نزدیک بڑا مقام اور منزلت ہے( اور بے جان بتوں  کو ایک جیسا سمجھا ہے  جن میں نہ جان ہے اور نہ عقل و شعور.

 قرآن مجید میں مختلف آیتوں میں شفاعت کے جائز ہونے پر دلائل موجود ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

قالُوا یا أَبانَا اسْتَغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا إِنَّا كُنَّا خاطِئِینَ قالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّی إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ. (۱)

 بٹواں نے کہا: اے ہمارے ابا! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لےا دعا کےیک ، ہم ہی خطاکار تھے۔(یعقوب نے) کہا: عنقریب مںذ تمہارے لےا اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا،وہ یقینا بڑا بخشنے والا،مہربان ہے۔

فہل کان النبی یعقوب (ع)مشرکاً؟

جب برادرن یوسف  نے اپنے بھائی کا مقام اور منزلت کا نظارہ کیا اور اپنا مکروہ کردار  اور اس کا نتیجہ دیکھ لیا تو اپنے باپ کے پاس جاکر طلب شفاعت کی تو  ان کے باپ نے بھی ان کی خواہش پر  لبیک کہا : انہوں نے کہا : بابا جان ہمارے لئے استغفار کرنا کہ ہم خطا کار ہیں تو بابا نے کہا: عنقریب تمہارے لئے دعا کروں گا میرا پروردگار غفور و رحیم ہے".

--------------

(۱):- یوسف ۹۷-۹۸.

۶۹

 اب سوال یہ ہے کیا حضرت یعقوب پیغمبر(ع) مشرک تھے؟!

 اگر کوئی یہ کہہ دے کہ برادران یوسف نے شفاعت مانگی تو وہ لوگ خطا کار تھے اور ان کا عمل ہمارے لئے حجت نہیں! اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ شریعت کے خلاف ہوتا تو اللہ کا نبی اس سے انکار کرتے ، لیکن انہوں نے بھی مفسّرین کے کہنے کے مطابق شب جمعہ کا انتطار کیا. قرآن کہہ رہا ہے کہ جب گناہگار لوگ پیغمبر اکرم (ص)کے پاس توبہ کرنے اور استغفارکرانے کیلئے آئے تو اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے آیہ نازل ہوئی:

وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا الل ه وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا الل ه تَوَّاباً رَحِیماً (۱)

 " کہ اگر یہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے کے بعد تمہارے پاس آئیں اور استغفار کریں اور تو بھی ان کے ساتھ ان کیلئے استغفار کرے تو اللہ تعالیٰٰ کو بڑا بخشنے والا اور مہربان پاؤگے". اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترغیب دلانا شرک ہے؟!

قرآن کریم منافقین کی مذمت  میں ارشاد فرمارہاہے:

وَ إِذا قِیلَ لَهُمْ تَعالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ الل ه لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ وَ رَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَ هُمْ مُسْتَكْبِرُونَ. (۲)

فہل یدعو القرآن الکریم الکفار والمنافقین للشرک؟

"اور جب ان سے کہا جائے: آؤ کہ اللہ کا رسول تمہارے لےی مغفرت مانگے تو وہ سر جھٹک دیتے ہںا اور آپ دیںھس  گے کہ وہ تکبر کے سبب آنے سے رک جاتے ہںں" کیا قرآن کریم کفار اور منافقین کو دعا مانگنے کا حکم دے رہا  ہے؟

--------------

(۱):-  نساء۶۴.

(۲):- منافقون ۵.

۷۰

ہم جانتے ہیں کہ قوم لوط بدترین قوموں میں سے تھی اور جب شیخ الانبیاء ابراہیم (ع) نے ان کیلئے شفاعت کی کہ انہیں مہلت دی جائے تاکہ یہ لوگ توبہ کریں ؛ لیکن یہ لوگ پلیدگی اور برائی میں حد سے بڑھ گئے اور شفاعت کے قابل نہیں رہے تو ان کیلئے خطاب ہوا:

اے ابراہیم ان کیلئے اب طلب شفاعت کرنا چھوڑدو:

فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْراهِیمَ الرَّوْعُ وَ جاءَتْهُ الْبُشْری‏ يُجادِلُنا فِی قَوْمِ لُوطٍ إِنَّ إِبْراهِیمَ‏ لَحَلِیمٌ أَوَّاهٌ مُنِیبٌ یا إِبْراهِیمُ أَعْرِضْ عَنْ ه ذا إِنَّهُ قَدْ جاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَ إِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ. (۱)

"پھرجب ابراہیم کے دل سے خوف نکل گیا اور انہیں خوشخبری بھی مل گئی تو وہ قوم لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے.بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے. (فرشتوں نے ان سے کہا) اے ابراہیم! اس بات کو چھوڑ دیں، بیشک آپ کے رب کا فیصلہ آچکا ہے اور ان پر ایک ایسا عذاب آنے والا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا".

آئمہ (ع)سےخارق العادہ افعال کی درخواست کرنا شرک

 آئمہ (ع)سے غیر عادی کاموں کی درخواست کرنا  کیا(جیسے ان سے شفا طلب کرنا) شرک  نہیں ہے ؟

جواب:

سب سے پہلے تو انبیاء اور آئمہ (ع)کے توسط سے خارق العادہ کام انجام پانے میں کوئی مشکل نہیں ہے.

--------------

(۱):-  ہود ۷۴-۷۶.

۷۱

جب بھی کسی مخلوق سے کوئی مدد مانگتے ہیں تو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ان کی اصل قدرت اور طاقت قدرت الہی ہے. اللہ نے انہیں وہ قدرت عطا کی ہے جس کے ذریعے سے وہ یہ کام انجام دے سکتے ہیں تو اگر ہم ان اولیاء اللہ سے کوئی مدد طلب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے ہم ان کو اللہ کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دیتے ہیں جیساکہ قرآن کا حکم ہے :يَأَيُّهَا الَّذِینَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ الل ه وَ ابْتَغُواْ إِلَيْهِ الْوَسِیلَةَ وَ جَاهِدُواْ فىِ سَبِیلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. (۱) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو.

ان کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اپنی علاج کیلئے  تو اسے ہم شرک کیوں نہیں  جانتے؟

اللہ  مستقیماً سنتا ہے توکسی مردے کو درمیاں میں لانے کی ضرورت؟!

ہم اہل بیت (ع)سے کیوں مدد طلب کرتے ہیں جبکہ اللہ مستقیماً  سننے والا ہے؟!

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکمُ‏ْ يُوحَی إِلىَ‏َّ أَنَّمَا إِلَاهُکمُ‏ْ إِلَاهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِیمُواْ إِلَيْهِ وَ اسْتَغْفِرُوهُ  وَ وَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِین‏ (۲)

کہدیجئے: میں بھی تم جیسا آدمی ہوں، میری طرف وحی ہوتی ہے کہ ایک اللہ ہی تمہارا معبود ہے لھٰذا تم اس کی طرف سیدھے رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور تباہی ہے ان مشرکین کے لیے.

يَأَيُّهَا الَّذِینَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ الل ه وَ ابْتَغُواْ إِلَيْهِ الْوَسِیلَةَ وَ جَاهِدُواْ فىِ سَبِیلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون. (۳)

--------------

(۱):-  مائدہ ۳۵.

(۲):- فصلت ۶.

(۳):- مائدہ  ۳۵.

۷۲

ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ .

«اوُلئِكَ الّذینَ يَدعُونَ يَبتَغُونَ الی رَبِّهِمُ الوَسیلَهَ ايُّهُم اقرَبُ وَ يَرجوُنَ رَحمَتَ ه وَ يَخافُونَ عَذابَ ه انَّ عَذابَ رَبِّكَ کانَ مَحذُوراً». (۱)

یہ جن کو خدا سمجھ کر پکارتے ہیں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسیلہ تلاش کررہے ہیں کہ کون زیادہ قربت رکھنے والا ہے اور سب اسی کی رحمت کے امیدوار اور اسی کے عذاب سے خوفزدہ ہیں یقیناً آپ کے پروردگار کا عذاب ڈرنے کے لائق ہے.

سیّد شرف الدین کی حاضرجوابی!

مرحوم آیت اللہ سیّد شرف الدین (صاحب کتاب المراجعات) ملک عبد العزیز کے دور حکومت میں حج پر تشریف لےگئے اور عید قربان کے دن سارے علماء بادشاہ  کو عید مبارک کہنے کیلئے شاہی محل میں جمع ہوگئے جب  سید کی نوبت آگئی تو آپ  نے ایک چمرے کی جلد  شدہ  قرآن مجید بطور تحفہ ان کو پیش کیا  تو بادشاہ نے اسے احتراماً چوما اور پیشانی پر رکھا تو سید شرف الدین ؓ نے ایک دم کہا : اےبادشاہ کیوں اس جلد کا بوسہ لیتے ہو جو بکری کی کھال  کا بنا ہوا ہے؟

اس نے کہا : میں اس کھال میں پوشیدہ قرآن کریم کی تکریم کررہا ہوں نہ کہ  اس کھال کی اس وقت آیة اللہ سید شرف الدین ؓ نے  بےدرنگ فرمایا: احسنت اے بادشاہ! ہم شیعیان بھی اس پنجرے اور کمرے کی تعظیم کیلئے نہیں چومتے بلکہ اس میں موجود رسول گرامی اسلام (ص) کے احترام اور تعظیم کی خاطر پنجرے کو چومتے ہیں .اس وقت سارے علماء نے تکبیر کےنعرے بلند کئے اور تصدیق کرنے لگے تو شاہ عبدالعزیز نےبھی مجبور ہوکر سارے حاجیوں کو رسول خدا(ص) کے آثار کو چومنے  کی اجازت دے دی لیکن جب ان کا ولیعہد آیا تو اس نے پھر اس قانون  پر پابندی لگا دی(۲)

--------------

(۱):- اسراء ۵۷.

(۲):- ماہنامہ موعود شمارہ ۸۹ وپاسخ بہ شبہات(۱)، ص: ۴

۷۳

آئمہ(ع) کے توسط سے الہی افعال کا انجام پانا

اشکال : وہابی کہتے ہیں کہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ آئمہ خدائی کام کرتے ہیں تو یہ ان کے مشرک ہونے پر دلیل ہے.

 جواب:الف: ہمارا عقیدہ ہے کہ آئمہ(ع)        جو بھی انجام دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰٰٰ  ہی کے حکم اور اس کی اجازت سے انجام دیتے ہیں: لا حول و لا قوة الا باللہ ، بحول اللہ و قوتہ اقوم و اقعد. اللہ تعالیٰٰ اگر چاہے تو اپنے اولیاء میں سے کسی کو خارق العادہ کام انجام دینے کی قدرت عطا کرسکتا ہے اور اگر خدا کی طرح کوئی کام انجام دینے لگے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بھی خدا کی طرح ہوگئے.بلکہ انسان ایک برقی وسیلہ کی مانند ہے جب تک اس میں برق موجود ہے وہ کام کرتا رہے گا  اور جب بجلی کا کرنٹ اس سے الگ ہوجائے تو وہ بھی ناکارہ ہوگیا ،لیکن  یہ فعل انسان کا  ہے نہ اللہ کا عمل.

ب: اللہ کے نبیوں نے بھی ایسے خارق العادہ کام انجام دئے ہیں: جیسے:«وَ رَسُولًا إِلىَ بَنىِ إِسْرَ ءِیلَ أَنىِ قَدْ جِئْتُكُم بَايَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنىِ أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّینِ كَهَيَةِ الطَّیرِ فَأَنفُخُ فِیهِ فَيَكُونُ طَیرَا بِإِذْنِ الل ه وَ أُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ وَ أُحْىِ الْمَوْتىَ بِإِذْنِ الل ه وَ أُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْکلُونَ وَ مَا تَدَّخِرُونَ فىِ بُيُوتِكُمْ إِنَّ فىِ ذَالِكَ لَايَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ» (۱) اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ میں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکہم خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور مبروص کا علاج کروں گا اور حکہم خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو- ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو.

--------------

(۱):-  آل عمران ۴۹.

۷۴

إِذْ قَالَ الل ه يَاعِیسىَ ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتىِ عَلَيْكَ وَ عَلىَ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُکلِ‏مُ النَّاسَ فىِ الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَ إِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَ الحِكْمَةَ وَ التَّوْرَئةَ وَ الْانجِیلَ وَ إِذْ تخْلُقُ مِنَ الطِّینِ كَهَيَةِ الطَّیرِ بِإِذْنىِ فَتَنفُخُ فِیهَا فَتَكُونُ طَیرَا بِإِذْنىِ وَ تُبرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ بِإِذْنىِ وَ إِذْ تخْرِجُ الْمَوْتىَ بِإِذْنىِ وَ إِذْ كَفَفْتُ بَنىِ إِسْرَ ءِیلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُواْ مِنهُمْ إِنْ هَاذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِینٌ (۱)

 جب عیسیٰ بن مریم سے اللہ نے فرمایا: یاد کیجئے میری اس نعمت کو جو میں نے آپ اور آپ کی والدہ کو عطا کی ہے جب میں میں نے روح القدس کے ذریعے آپ کی تائید کی، آپ گہوارے میں اور بڑے ہو کر لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے آپ کو کتاب، حکمت، توریت اور انجیل کی تعلیم دی اور جب آپ میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے پھر آپ اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور آپ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے صحت یاب کرتے تھے اور آپ میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کر کے) نکال کھڑا کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو اس وقت آپ سے روک رکھا جب آپ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں نے کہا: یہ تو ایک کھلا جادو ہے.

قَالَ الَّذِی عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا ءَاتِیكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَءَاهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَاذَا مِن فَضْلِ رَبىِ لِيَبْلُوَنىِ ءَ أَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَ مَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَ مَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبىِ غَنىٌّ كَرِیمٌ (۲)

--------------

(۱):-  مائدہ ۱۱۰.

(۲):- نمل ۴۰.

۷۵

جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں، جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر نعمت کرتا ہوں یا کفران اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار یقیناً بے نیاز اور صاحب کرم ہے.

ان قرآنی دلائل کی روشنی میں کیسے آپ شیعہ کو اس کے اعتقاد رکھنے پر کافر کہتے ہو؟!!!

قبور آئمہؑ کی زیارت شرک لیکن ابن تیمیہ کی زیارت؟

اگر شیعیان اپنے پیغمبر اکرم (ص)کی اولاد کی زیارت کرتے ہیں یا ان کا احترام کرتے ہیں تو  وہابی لوگ ان پر کفر اور شرک کا فتویٰ لگاتے ہیں جبکہ یہی لوگ ابن تیمیہ کے جنازے پر رومال پھینکتے اور تبرک کے طور پر اسے اپنے چہرے پر ملتے تھے تعجب اس بات پر ہے کہ ان کی عشق میں ان کے غسل میت کا بچا ہوا پانی تبرک کے طور پر پینے لگے اور آب سدر کو  آپس میں تقسیم کرکے لے گئے .ان کے جنازے میں خواتین بھی تھیں جو ان کے قبر پر آجایا کرتی تھیں یہاں تک کہ صبح ہوئی.(۱)

سوال یہ ہے کہ اگر شیعہ قبور آئمہ طاہرین(ع) کی زیارت کرتے ہیں تو مشرک لیکن ابن تیمیہ کی قبر کی زیارت کرنے والے مؤمن ہونگے؟!!

--------------

(۱):-  البدایہ و النہایہ (تاریخ ابن کثیر)، جلد ۱۴، صفحہ ۱۵۶، ناشر: داراحیاءالتراث العربی، بیروت.

۷۶

شیعہ آن لائن گزارش کے مطابق " محمد عبدالعظیم خلیف" اپنی داستان یوں بیان کرتا ہے کہ میں اپنے دوست کے ساتھ رسول خدا(ص)کے حرم میں داخل ہوا تو ایک مامور ہمارے پیچھے آنے لگا اور کہا : یہاں سے آگے جانا ممنوع ہے اور ہمیں  دوسرے دروازے کی طرف  بھیجا  ، اور  ہمارے پیچھے تین وہابی جوان آنے لگے اور پیچھے سے اتنے زور سے ٹھوکر مارے کہ ہم زمین پر گر پڑے  ہمارے چہرے پر بھی ٹھوکر مارنے لگے جس سے ناک سے خون بہنا شروع ہوگیا  پھر ہمیں پولیس کے حوالے کردئے کچھ دیر کے بعد میرے دوستوں کو رہا کردئے مجھے اکیلا وہاں روکے رکھا. اس کے بعد ہیئت امر بہ معروف و نہی ازمنکر کے کمرے میں لے گئے مغرب کا وقت گزرگیا سات افراد آئے اور کہنے لگے : یا اس بات کا اعتراف کرلو کہ شیعوں کے ساتھ یہاں ہنگامہ آرائی کرنے کیلئے آیا ہے یا کہہ دو کہ" شیخ جواد الحضری" کو چاقو مارا ہے. اور شیخ جواد الحضری شہر الاحساء کے ایک شیعہ مسجد کا پیش نماز تھا جسے پچھلے ہفتے میں ہیئت امر بہ معروف و نہی از منکرسے وابستہ افراد نے پیچھے سے چاقو مارے تھے محمد عبدالعظیم خلیف کہتا ہے کہ میں نے انکار کیا اور کہا میں جھوٹ نہیں بولوں گا  کہ میں مدینہ آیا ہوں فساد کرنےکیلئے یا میں نے شیخ جواد کو چاقو مارا ہو. پھر انہوں نے ایک جیل میں مجھے منتقل کیا جہاں ۲۰ شیعہ جوان پہلے سے  نظربند کئے ہوئے تھے ، ان پر بھی ایسی ہی تہمتیں لگائی ہوئی تھی ، ان میں سے کچھ جوانوں کو جانتا بھی تھا کہ اپنے گاؤں سے ان کا تعلق تھا اس کے بعد ہم سے تعہد لیا کہ آج کے بعد کبھی حرم رسول خدا (ص) میں داخل  نہیں ہونگے(۱)

--------------

(۱):-  ۱۳۸۷/ ۱۲/ ۴۷: ۱۲ ۱۱- MP شیعہ آنلاین. مطالب خواندنی، ص: ۳.

۷۷

  زیارت پیغمبر(ص)کیلئےسفر کرنا گناہ

وافتی ابن تیمیه ان انشاء السفر لزیاره النبی غیر جائز، ویعد معصیه. وقد وصف زیارته بانها غیر واجبه باتفاق المسلمین، بل ولم یشرع السفر الیها، بل هو منهی عنه .(۱)

ابن تیمیّہ نے اپنے ایک فتویٰ میں کہاہے کہ قبر رسول کی زیارت کے غرض سے سفر کرنا حرام ہے  کیونکہ یہ گناہ ہے اس کے بعد کہتا ہے کہ آپ کی زیارت واجب نہیں ہےجس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے بلکہ زیارت کیلئے سفر کرنا جائز نہیں ہے اور ممنوع ہے :

جبکہ ابن عمر اور دیگر صحابی شام کو فتح کرنے کے بعد رسول خدا(ص)کے مزار پر آکر سلام کئے  اور کہا:السلام علیک یا رسول الله (ص) .(۲)

بت پرستوں اور شیعوں میں شباہت

وہابی کہتے ہیں کہ شیعہ اور بت پرستوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں  مخلوقات کو اللہ کی بارگاہ میں شفیع قرار دیتے ہیں اس وجہ سے دونوں مشرک ہیں.

جواب:بت پرست لوگ کہتے ہیں :لبیک لا شریک لک الا شریكٌ هو لک تملکه و ما ملک .(۳) یعنی نہیں ہے تیرا کوئی شریک مگر وہ شریک کہ جس کی ہر چیز کا تو ہی مالک ہے.جبکہ شیعہ کسی کو بھی خدا کا شریک نہیں ٹھہراتا بلکہ شفیع قرار دیتا ہے جس کا جواز  قرآن کی رو سے ثابت کرچکے.

--------------

(۱):- قاعدہ جلیلہ فی التوسل والوسیلہ، ص ۷۳، اقتضاء الصراط المستقیم، ص ۴۳۰

(۲):- سُبکی، شفاء السقام: ۴۴). وفاء الوفاء: ۴/ ۱۳۴۰)

(۳):- کافی/ ۴/ ۵۴۲، مستدرک الوسایل ۹/ ۱۹۵، بحار النوار ۳/ ۲۵۳:

۷۸

وَ لَئِن سَأَلْتَهُم مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ و سَخَّرَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللهُ فَانّی يُوفَکوُنَ .(۱)

اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو کس نےمَسخّر کیا ہے تو فورا کہیں گے کہ اللہ,تو یہ کدھر بہکے چلے جارہے ہیں.

وَ لَئنِ سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ الل ه قُلِ الحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ. (۲)

اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ، تو پھر کہئے کہ ساری حمد اللہ کے لئے ہے اور ان کی اکثریت بالکل جاہل ہے.

وَ لَئنِ سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ الل ه   قُلْ أَ فَرَءَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ الل ه إِنْ أَرَادَنىِ‏َ الل ه بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنىِ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبىِ‏َ الل ه عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَکلُِّون‏ (۳) اور اگر آپ ان سے سوال کریں گے کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ اللہ  تو کہہ دیجئے کہ کیا تم نے ان سب کا حال دیکھا ہے جن کی عبادت کرتے ہو کہ اگر خدا نقصان پہنچانے کا ارادہ کرلے تو کیا یہ اس نقصان کو روک سکتے ہیں یا اگر وہ رحمت کا ارادہ کرلے تو کیا یہ اس رحمت کو منع کرسکتے ہیں - آپ کہہ دیجئے کہ میرے لئے میرا خدا کافی ہے اور بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں.

--------------

(۱):-  عنکبوت ۶۱.

(۲):- لقمان ۲۵.

(۳):- زمر ۳۸۔

۷۹

۱- آسمان و زمین کے خالق اور بارش کانازل کرنے والا اور سبزے اگانے والا صرف خدا ہے (۶۱ عنکبوت، ۲۵ لقمان، ۳۸ زمر)

: وَ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ الل ه مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَ لَا يَنفَعُهُمْ وَ يَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ الل ه   قُلْ أَ تُنَبُِّونَ الل ه بِمَا لَا يَعْلَمُ فىِ السَّمَاوَاتِ وَ لَا فىِ الْأَرْضِ  سُبْحَانَهُ وَ تَعَالىَ‏ عَمَّا يُشْرِكُون. (۱)

اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم تو خدا کو اس بات کی اطلاع دےرہے ہو جس کا علم اسے آسمان و زمین میں کہیں نہیں ہے وہ پاک و پاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے.

 ۲.بت پرست لوگ اپنے بتوں کو خدا کے نزدیک شفاعت کرنے والے مانتے ہیں. (یونس ۱۸)

اولًا:  تو یہ ہے کہ انہوں نے بتوں کو اپنے ہاتھوں سےہی  بنا کر اپنا شفیع قرار دئے ہیں اور ان کی باتوں کا کوئی مبنا نہیں ہے

ثانیاً : سورہ یونس ۱۸ کی رو سے یہ لوگ غیر خد اکی عبادت کرتے ہیں کہ بڑے بت کو مستقل طور پر طاقت اور قدرت کے قابل  سمجھتے ہیں .اور بت کے سامنے خضوع اور خشوع کرنے لگتے ہیں.اور ان کا خدا بھی تو ایسا خدا نہیں جس کو مسلمان خدا مانتے ہیں،بلکہ ان کا خدا جز رکھتا ہے( ۱۵ زخرف)،ملائک کو اللہ تعالیٰٰ کی بیٹیاں  مانتے ہیں( ۴۰ اسراء)، اور اللہ تعالیٰٰ کیلئے ہمتا کے قائل ہوتے ہیں. (۸ زمر).

الا لِلّهِ الدّینُ الخالِصُ وَ الَّذینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ ه اولیاءَ ما نَعبُدُهُم الّا لِيُقَرِّبوُنا الَی اللهِ زُلفی انَّ اللهَ يَحكُمُ بَینَهُم فی ما هُم فیهِ يَختَلِفُونَ انَّ اللهَ لا يَ ه دی مَن هُوَ کاذِبٌ كَفّارٌ (۲)

--------------

(۱):-  یونس (۱۸)

(۲):-  زمر (۳).

۸۰

 آگاہ ہوجاؤ کہ خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے اور جن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے - اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کردے گا کہ اللہ کسی بھی جھوٹے اور ناشکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے.

وَ جَعَلُواْ لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْانسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِینٌ (1)

اور ان لوگوں نے پروردگار کے لئے اس کے بندوں میں سے بھی ایک جزؤ (اولاد) قرار دیدیا کہ انسان یقیناً بڑا کھلا ہوا ناشکرا ہے.

أَ فَأَصْفَئکمْ رَبُّكُم بِالْبَنِینَ وَ اتخَذَ مِنَ الْمَلَئكَةِ إِنَاثًا إِنَّکمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِیمًا (2)

کیا تمہارے پروردگار نے تم لوگوں کے لئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں؟ یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو.

وَ إِذَا مَسَّ الْانسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِیبًا إِلَيْهِ ثمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسىَ مَا کانَ يَدْعُواْ إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِیلِهِ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِیلًا إِنَّكَ مِنْ أَصحَابِ النَّارِ. (3)

اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پوری توجہ کے ساتھ پروردگار کو آواز دیتا ہے پھر جب وہ اسے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس بات کے لئے اس کو پکار رہا تھا اسے یکسر نظرانداز کردیتا ہے اور خدا کے لئے مثل قرار دیتا ہے تاکہ اس کے راستے سے بہکا سکے تو آپ کہہ دیجئے کہ تھوڑے دنوں اپنے کفر میں عیش کرلو اس کے بعد تو تم یقیناً جہّنم والوں میں ہو.

--------------

(1):- زخرف (15).

(2):- اسراء (40).

(3):- زمر (8)۔

۸۱

ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فىِ مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِیهِ سَوَاءٌ تخَافُونَهُمْ كَخِیفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ كَذَالِكَ نُفَصِّلُ الاْيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (1)

اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی مثال بیان کی ہے کہ جو رزق ہم نے تم کو عطا کیا ہے کیا اس میں تمہارے مملوک غلام و کنیز میں کوئی تمہارا شریک ہے کہ تم سب برابر ہوجاؤ اور تمہیں ان کا خوف اسی طرح ہو جس طرح اپنے نفوس کے بارے میں خوف ہوتا ہے بیشک ہم اپنی نشانیوں کو صاحب عقل قوم کے لئے اسی طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں.

ان بیانات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ:

1.  شیعہ  اور بت پرستوں میں کوئی شباہت نہیں  پائی جاتی، کیونکہ بت پرستوں نے اپنے لئے شفاعت کنندہ چن لئے ہیں لیکن ہمارے شفاعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے چن  لیا ہے.

2.  وہ لوگ اپنے شفاعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے مستقل مانتے ہیں جبکہ ہم اپنے آئمہ طاہرین (ع)کو کبھی اللہ تعالیٰٰ سے مستقل نہیں مانتے ہیں.

3.  وہ لوگ بتوں کی عبادت کرتے ہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے پس کیسے آپ شیعوں کو بت پرستوں کی مانند جانتے ہو؟!(2)

--------------

(1):- روم (28)۔

(2):- پاسخ بہ شبہات(1)، ص: 7

۸۲

مُردوں سے کسی چیز کا مانگنا ؟

یہ لوگ سورہ نمل 80، فاطر 22، نحل 20 و 21 اور کئی آیات سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردہ لوگوں سے ارتباط پیدا کرنا شرک ہے

«انَّكَ لا تُسمِعُ المَوتی وَ لا تُسمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ اذا وَ لَّوا مُدبِرینَ» (1)

آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھر کر جا رہے ہوں.

«وَ ما یستَوِی الاحیاءُ وَلَا الامواتُ انَّ اللهَ يُسمِعُ مَن يَشاءُ وَ ما انتَ بِمُسمِعٍ مَن فِی القُبُورِ» (2)

اور نہ ہی زندے اور نہ ہی مردے یکساں ہوسکتے ہیں، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے.

 «وَ الَّذینَ يَدعوُنَ مِن دوُنِ اللهِ لا يَخلُقوُنَ شَیئًا وَهُم يُخلَقوُنَ  امواتٌ غَیرٌ احیاءٍ وَ ما يَشعُرُونَ ایّانَ يُبعَثُونَ» (3)

اور اللہ کو چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں.وہ زندہ نہیں مردہ ہیں اورانہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے.

--------------

(1):-  نمل (80)۔

(2):- فاطر (22)۔

(3):- نحل (20 و 21)۔

۸۳

جواب:

آیات:

پہلی بات تو  یہ ہے کہ مردوں سے ارتباط پیدا کرنا شرک تو نہیں بلکہ ممکن ہے کہ اسے بیہودہ کام کہہ سکتا ہو، کیونکہ رسول خدا (ص)کے زمانے میں جو کام رائج تھا وہ آپ کی زندگی کے بعد شرک میں کیوں کر بدل سکتا ہے؟ اور یہ آیت آپ سے مربوط تھی کہ  رسول خدا(ص) تو مردوں کی آواز سن سکتے تھے.(1)

دوسری بات یہ ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہو کہ سننے کی قدرت پیدا کرنا میرا کام ہے نہ تیرا.

تیسری بات یہ ہے کہ مؤمنون 99 و 100 ،نحل 28 کے مطابق مرنے کے بعد برزخ کی زندگی شروع ہوتی ہے تو ہمارا روح وہاں زندگی کر رہا ہوتاہے :

«الَّذینَ تَتَوَفّاهُمُ المَلائِكَهُ ظالِمی انفُسِهِم فَالقَوُا السَّلَمَ ما كُنّا نَعمَلُ مِن سُوءٍ بَلی انَّ اللهَ عَلیمٌ بِما كُنتُم تَعمَلُونَ» (2)

جنہیں ملائکہ اس عالم میں اٹھاتے ہیں کہ وہ اپنے نفس کے ظالم ہوتے ہیں تو اس وقت اطاعت کی پیشکش کرتے ہیں کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے. بیشک خدا خوب جانتا ہے کہ تم کیا کیا کرتے تھے.

 «حَتی اذا جاءَ احَدَهُمُ المَوتُ قالَ رَبِّ ارجِعُونِ  لَعَلّی اعمَلُ صالحًا فیما تَرَکتُ كَلّا انَّ ه ا كَلِمَهٌ هُوَ قائِلُ ه ا وَ مِن وَرائِهِم بَرزَخٌ الی يَومِ يُبعَثُونَ» (3)

--------------

(1):- صحیح مسلم  جلد 8 صفحہ  163.

(2):- نحل (28).

(3):- مؤمنون (99 و 100).

۸۴

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم ہ برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے. ان آیات سے بخوبی واضح ہے کہ مرنے والے بھی ہماری باتوں کو سمجھ جاتے ہیں لیکن ہم ان کو سننے سے قاصر  ہیں.

روایات :

صحیح مسلم اور صحیح بخاری:

صحیح بخاری اور مسلم میں بھی ہے کہ مردوں کے ساتھ  ارتباط پیدا کرنا ممنوع چیز نہیں ہے کیونکہ وہ  بھی دنیوی حالات سے باخبر ہیں اور ہماری باتوں کو سنتے ہیں.چنانچہ بخاری روایت کرتے ہیں کہ : اگر مردہ نیک انسان ہو تو وہ اپنے تشییع کرنے والوں سے کہتا ہے کہ مجھے جلدی قبر تک پہنچادیں اور اگر برا انسان ہو تو وہ کہے گا : مجھے کہاں لے جارہے ہو؟ افسوس ہو مجھ پر مجھے قبر کی طرف نہ لے جائیں.(1)

مرنے والا اس کے لواحقین کے رونے سے عذاب میں مبتلا ہوجا تا ہے.(2)

احمد بن حنبل:

مرنے والا اسے غسل وکفن دینے والے اور دفنانے والے کو پہچان لیتا ہے(3)

نماز میں ہم پھر السلام علیک ایہا النبی و رحمہ اللہ و برکاتہ کیوں پڑھتے ہیں؟اور یہ سلام مذاہب اربعہ میں واجب ہے .

--------------

(1):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 87.

(2):- صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 41.

(3):- مسند احمد- الامام احمد حنبل- ج 3- ص 3.

۸۵

جلال الدین سیوطی:

پیغمبر اکرم(ص) سے روایت ہے کہ جو بھی حج بیت اللہ الحرام کرے اور میری زیارت نہ کرے تو اس نے میرے ساتھ ظلم کیا ہے.(1)

ابن ابی شیبہ (بخاری کا استاد)

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: جو میرے مرنے کے بعدمیری زیارت کرے گویا اس نے میری زندگی میں زیارت کی ہے.جیسا کہ ایک صحابی نے باران رحمت کی نزول کے لئے پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد مدد مانگی اور قبول ہوئی(2)

قبور کی  زیارت:

چار دلیلوں کے ساتھ قبور کی زیارت کرنا جائز ہے :

1. قرآن کریم:

وَ مَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ الل ه   وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ الل ه وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ الل ه تَوَّابًا رَّحِیمًا. (3)

--------------

(1):-  الدر المنشور- جلال الدین السیوطی- ج 1- ص 237.

(2):- السنن الکبری- البیہقی- ج 5- ص 246، ابن ابی شیبہ (استاد بخاری) مصنف جلد 7 ص 482، کنز العمال متقی ہندی جلد 7 ص 431

(3):- نساء 64.

۸۶

اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ خدا کی اجازت سےاس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے.

2. روایات:

خود پیغمبراکرم(ص) فرماتے ہیں :

«حَیاتی خَیرٌ لَكُمْ تحدثون و نحدث لکم و وفاتی خیر لکم تعرض علیّ اعمالکم ..» (1)

میری زندگی تمھارے لئے بہتر ہے کہ تم مجھ سے سوال کریں اور میں تم کو جواب دوں ، اسی طرح میری وفات بھی تمھارے لئے بہتر ہے کہ تم اپنے اعمال کو عارضہ کرو. اسی طرح اپنی زیارت کرنے کی بھی لوگوں کو تشویق دلائی:

«مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِی». (2)

جو بھی میری قبر کی زیارت  کرے گا اس کیلئے میری شفاعت اور بہشت واجب ہوگی.

جو بھی میری قبر کی زیارت کرے اس کی شفاعت کرنا میرے اوپر فرض ہے .(3)

3. صحابہ کی سیرت:

حضرت عمر نے فتوحات شام کے بعد جب مدینہ پہنچےتو سب سےپہلے مسجد نبوی میں آکر آپ پر سلام بھیجا ہے.

--------------

(1):-  طرح التثریب، ص 297.

(2):- السنن الکبری، ج 5، ص 5 24.

(3):- 40 منبع از کتاب ہای اہل سنت.

۸۷

 احمد بن حنبل، رملی شافعی، محبالدین طبری، زرقانی مالکی اور عزامی شافعی وغیرہ نےنقل کئے ہیں:جب احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا کہ منبر  اورقبر رسول کو ثواب کی نیت سے  چومنا،مس کرناکیسا ہے؟ اس نے جواب دیا: کوئی اشکال نہیں ہے.کہتا ہے کہ قبر رسول یا کسی اور ولی اللہ کی قبر کا تبرک کے طور پر بوسہ لینا جائز ہے .رملی شافعی اورمحب الدین طبری شافعی کا بھی یہی عقیدہ ہے(1) اسی طرح تاریخ میں ثابت ہے کہ لوگ قبر پیغمبر اکرم اور حضرت حمزہ سے مٹی جذام اور صداع جیسے امراض کیلئے شفایابی کیلئے لے جاتے تھے ، ابو سلمہ پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں :غُبارُ الْمَدِینَةِ يُطْفِی

4. عقل:

 عقل انسان کہتی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے عزت اور عظمت دی ہے ان کی تعظیم کرنا واجب ہے اور زیارت بھی ایک قسم کی تعظیم ہے .

 ابن اثیر جزری نے پیغمبر اکرم (ص)سے نقل کیا ہے :

وَالَّذی نَفْسِی بِيَدِهِ انَّ فی غُبارِها شِفاءٌ مِنْ كُلِّ داءٍ (2)

اہل سنت بھی قبر سے تبرک  

ذہبی جو صحابی رسول ہیں کہتے ہیں: ایک آدمی نے سعد بن معاذ  کی قبر سے مٹی اٹھائی  پھر دیکھا کہ وہ مٹی اچانک مشک میں بدل گئی.(3)

-------------

(1):- کنز المطالب،ص219.اسنی المطالب،ج1،ص331.لجامع فی العلل ومعرفة الرجال،ج 2،ص 32؛وفاءالوفا،ج 4،ص 1414.

(2):- وفاء الوفا، ج 1، ص 69، ص 544.

(3):- بقات الکبری، 3، 10- سیر اعلام النبلاء، 1، 289.

۸۸

ابونعیم اصفہانی و ابن حجر عسقلانی کہتے کہ عبداللّہ حدانی ۸ذی الحجة سال 183  کو مارا گیا تو لوگوں نے اس کی قبر کی مٹی تبرک کے طور پر اٹھا کر لے گئے(1)

قسطلانی کہتا ہے:وَهُوَ مِن ابشع المسائل المنقولة عنه».

ابن تیمیّہ کا زیارت قبر رسول اللہ (ص)(ص)سے روکنا ان بدترین مسائل میں سے ہے جو ان سے نقل ہوئی ہے .غزالی کہتا ہے:

«کلّ من‏یتبرک بمشاهدته (ص) فی‏حیاته، یتبرک بزیارته بعد وفاته ویجوز شدّالرحال لهذا الغرض».

جو بھی پیغمبر اکرم (ص)کی زندگی میں ان کی زیارت کرتے تھے ان کی وفات کے بعد بھی ان کی زیارت کیلئے جانا جائز ہے(2)

«إِنَّ فاطِمَةَ کانَتْ تَزُورُ قَبْرَ عَمِّها حَمْزَةَ كُلّ جُمُعَةٍ فَتُصَلّی وَتَبْكِی عِنْدَهُ. » (3)

حضرت فاطمہ زہرا  ہر جمعہ کو اپنے چچا حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتی اور گریہ کرتی تھیں.

قبور کی تعمیر اور ان پر گنبد بنانا

نَهی رَسُول اللّه (ص) ان یجصّص القبر وان یعقد علیه وان یبنی علیه (4)   پیغمبر اکرم (ص) نے قبر کو گچ کاری اور اس پر قبہ وغیرہ بنانے سے منع فرمایا ہے. اس حدیث کو دلیل بنا کر یہ لوگ مسلمانوں کے قبور کو مسمار کرنا واجب سمجھتے ہیں.

--------------

(1):-  حلیة الاولیاء، ج 2، ص 258- تہذیب التہذیب ج 5، ص 310.

(2):- مصنف عبدالرزاق، ج 3، ص 570- معجم البلدان 2، 214.

(3):-  سنن الکبری، ج 4، ص 132؛ مصنف عبدالرزاق، ج 3، ص 572.

(4):- صحیح مسلم، ج 3، ص 63.

۸۹

جواب: بہت ساری حدیثیں ایسی ہیں جن میں امر کیا ہوا ہے لیکن وہ کراہت پر حمل کئے جاتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ امر وجوب پر ہی دلالت کرتا ہو.چنانچہ حضرت فاطمہ اپنے چچا حضرت حمزہ کی قبر پر پتھروں سےعلامت بنا کر وہاں فاتحہ پڑھا کرتی تھیں.اور رسول خدا (ص)نے عثمان  بن مغطون کی قبر پر پتھر سے نشان بنایا. اور یہ کیسے ممکن ہے کہ عام انسانوں جیسے بخاری کی قبر پر گنبد بنانا جائز  لیکن آئمہ طاہرین کی قبروں پر گنبد بنانا شرک ہو جائے؟!

 ان کی صرف ایک دلیل ہے جو ابی الہیاج سے نقل ہوئی ہے  جو سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ وکیع اور حبیب بن ابی ثابت اہل سنت کے نزدیک مورد اعتماد نہیں  ہیں.دلالت حدیث بھی کامل نہیں ہے کیونکہ«وَ لا قَبراً الّا سوّیته» کا مطلب یہ تو نہیں  ہے کہ قبرکو مسمار کردے بلکہ اس  کا مطلب یہ ہے کہ قبر کو مسطح کیا جائے .نہ یہ کہ کوہان شترکی طرح بلند کردے.

قسطلانی کہتا ہے:«السنة فی القبر تسطیحه و انَّه لا یجوز ترک هذه السنّة لمجرّد انّها صارت شعاراً للروافض وانّه لا منافات بین التسطیح و حدیث ابی هیاج: لانّه لم يُرَد تسویته بالارض و انّما اراد تسطیحه جمعاً بین الاخبار ...» (1)

سنت پیغمبر(ص) تو یہ ہے کہ قبر کو مسطح کرتے تھے اور یہ شیعہ مذہب کا شعاربننے کی وجہ سے  ترک کرنا جائز نہیں ہے اور ابی الہیاج کی روایت سے بھی کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ روایت کا مقصد یہ نہیں کہ زمین سے ہم سطح کر دیا جائے بلکہ صاف رکھنا مراد ہے اور قبروں کے کنارے مکان اور مسجد بنانا  مسلمانوں کی سنت رہی ہے تاکہ جن میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں.

1.  جس طرح  قبر پیغمبر کے کنارے مسجد تعمیر کی گئی.

2.  قبور آئمہ بقیع کو ۱۳۴۵؁ کو وہابیوں نے خراب کیا.

--------------

(1):-  ارشاد الساری، ج 2، ص 468.

۹۰

3.  رسول خدا کے بیٹے ابراہیم کی قبر کو جو محمد بن زید بن علی کے گھر میں تھی وہابیوں نے خراب کیا.

4.  حضرت حمزہ ؓ کی قبر پر مسجد بنی ہوئی تھی جسے دوم ہجری میں وہابیوں نے خراب کیا.

5.  سعد بن معاذ کی قبر پر عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں گنبد تعمیر کی گئی.(1)

6.  حضرت علیبن ابی طالب کی قبر پر دوسری صدی میں گنبد بنائی گئی.(2)

7.  حضرت سلمان فارسی کی قبر پر بھی گنبد بنائی گئی تھی.(3)

 خلاصہ یہ ہے کہ سارے مسلمانوں  میں یہ سیرت عام رہی ہے کہ اپنی اہم شخصیات  کی قبور  کے کنارے بارگاہیں بنایا جائے  ، مسجد تعمیر کی جائے ،تاکہ ان کو بھی یاد کریں اور ان کے توسط سے اللہ کی بارگاہ میں بھی متوسل ہوجائیں. سارے اہل سنت بھی اس کے قائل ہیں صرف وہابیوں کو ان سے اختلاف ہے.

 سند حدیث میں ابوالزبیر محمد بن مسلم آمدی- موجود  ہے جسے علمائے اہل سنت ، جیسے احمد بن حنبل اور ابن عینیہ  اور  ابو حاتم نے ضعیف قرار دیا ہے.(4) اسی طرح سند میں ربیعہ ہے جسے ازدی اور ابن ابی شیبہ اور ساجی نے مشکوک قرار دیا ہے(5)

--------------

(1):-  وفاء الوفا، ج 2، ص 545.

(2):- موسوعة العتبات 6، 97.

(3):- تاریخ بغداد، ج 1، ص 163.

(4):- تہذیب الکمال 407: 26.

(5):- تہذیبالتہذیب 2، 360- تاریخ بغداد 8، 199- سیر اعلام النبلاء 9، 31.

۹۱

مناظرہ:

 شیعہ: کیوں تم قبور کی بے احترامی کرتے ہو اور گنبد کو گرا دیتے ہو؟

وہابی: کیا تو علی کو مانتے ہو؟ اس نے کہا: وہ تو میرا پہلا امام ہے اور رسول کا خلیفہ بلافصل ہیں.

وہابی: ہماری معتبر کتابوں میں تین علماء نے لکھا ہے کہ جن کا نام یحیٰ ، ابوبکر اور زہیر ہیں، وکیع سے ، اس نے سفیان سے ، انہوں نے حبیب سے ، اس نے ابی وائل سے اور اس نے ابی الہیاج اسدی سے نقل کیا ہے کہ علی ابن ابیطالب نے ابی الہیاج سے فرمایا:کیا میں تمہیں کسی ایسے کام کا حکم دوں  جس کا مجھے رسول خدا (ص)نے حکم دیا تھا؟اس نے کہا: ہاں .

 تو آپ  نے فرمایا : کسی بھی تصویر کو مٹائے بغیر نہ رکھو اور کسی بھی قبر کو باقی نہ رکھو مگر وہ زمین کے برابر کردو(1)

شیعہ : یہ حدیث سند اور دلالت دونوں لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کے سلسلہ سند میں درج ذیل افراد موجود ہیں 1. وَکیع. 2. سُفیان. 3. حبیب بن ابی ثابت. 4. ابی وائل ، جن کی سند کو  احمد بن حنبل نے اس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے:وکیع نے پانچ سو حدیثوں میں خطا کیا ہے.(2) ، سفیان ثور ی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ ابن مبارک نے جب سفیان کو حدیث میں تدلیس(ناحق کو حق کا جلوہ دکھاتے  ہوئے ) کرتے ہوئے دیکھا تو وہ شرمسار ہوگیا.اسی طرح حبیب بن ابی ثابت بھی.(3) اور ابی وائل کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ ناصبی تھا اور امیر المؤمنین کے دشمنوں میں شمار ہوتا تھا.(4)

-------------

(1):- صحیح مسلم، ج 3، ص 61، سنن ترمذی، ج 2، ص 256، سنن نسائی، ج 4، ص 88.

(2):- تہذیب التّہذیب، ج 11، ص 125.

(3):- ہمان، ج 4، ص 115. ج 3، ص 179.

(4):- شرح نہجالبلاغہ حدیدی، ج 9، ص 99

۹۲

اور قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ سارے صحاح ستہ میں یہی ایک حدیث  ہے جسے دلیل بنا کر یہ لوگ قبور آئمہ کو مسمار کرتے ہیں.

وہابی:قبور کے اطراف میں عمارت تعمیر کرنا عرف میں تو یہ پسندیدہ عمل ہے لیکن قرآن  میں اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے.

جواب: کیوں نہیں ؟ ایک آیة مؤدت ہے :

قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی‏.

اور دوسری دلیل اصحاب کہف  کا  قصّہ ہے کہ جب یہ لوگ تین سو سال کے بعد بیدار ہوئے تو  اس غار کے کنارے کسی نے کوئی شاندار  عمارت بنانے کا مشورہ دیا تو کسی نے  وہاں مسجد تعمیر کرنے کا مشورہ دیا اور مسجد بنانے پر اتفاق ہوا : ابْنوا علی ه م بُنیاناً: لنتَّخِذَنَّ علی ه م مسجداً. (1) اور یہ اولیاے خدا  کے قبور کا احترام کرنے کا ایک انداز ہے ، تیسری دلیل لوگوں کا  قبور کے اطراف میں مساجد بنانا ،صاحب قبر کی عزت اور ان کا احترم کرنے کا انداز ہے.

قبور پر چراٖغ جلانا

سوال : کیا قبور پر چراغ جلانے کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟

جواب:

درج ذیل دلائل کی روشنی میں قبور پر چراغ جلا نا کوئی ممنوع نہیں ہے :

اہل سنت کی روایات کی روشنی میں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے قبرستان میں جاتے وقت حکم دیا کہ وہاں چراغ جلائے جائیں(2)

--------------

(1):- کہف، 21 .

(2):- الجامع الصحیح، ج 3، ص 372

۹۳

مسلما نوں کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ ایوب انصار ی اور زبیر بن عوام  کی قبر پر  چراغ جلایا کرتے تھے.(1) اسی طرح مقبروں میں نماز پڑھنےکو جائز قرار دیتے تھے:

 قال مالک لا باس بالصلاة فی المقابر و قال بلغنی ان بعض اصحاب النبی کانوا یصلّون فی المقبرة» (2)

--------------

(1):-  تاریخ بغداد، ج 1، ص 154  المنتظم، ج 14، ص 383.

(2):- المدونة الکبری، ج 1، ص 90.

۹۴

چھٹی فصل:

 بحث امامت اور خلافت

امامت یا  خلافت پہ بحث کرنے کا کیا فائدہ  جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوجائے ؟ جو ہوا سو ہوا  ہم کیوں آپس میں الجھیں؟!

اس کا جواب دو حصوں پر مشتمل ہے :

الف: تاریخی ہے جو گذر گئی  کہ کھبی واپس نہیں آئے گی. 

ب: دینی ہے جو ابھی تک باقی ہے اور  قیامت تک باقی رہے گا.اب کوئی موجود ہو جو ان آنے والی مشکلات کو حل کرے  اور لوگ اس کی طرف رجوع کرے یہی وجہ ہے کہ شیعہ اس بات کا معتقد ہے کہ علی اور اولاد علی  کو رسول اللہ (ص)نے بعنوان خلیفہ مقرر کیا اس سے شیعہ نظریہ تثبیت ہوجاتا ہے.جس پر حدیث ثقلین صد در صد دلالت کرتی ہے اور اس کی سند فریقین کے نزدیک صد درصد صحیح بھی ہے اور متواتر بھی یہ منصب ایک الہی منصب ہے جس کی معرفت اور پہچان بھی الہی فریضہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا اور زندگی کرنے کا طریقہ بھی بتایا اور اپنے رسول کے ذریعے ان رہنماؤں کی معرفی بھی کرائی  اور خبردار بھی کیا کہ ان سے جدا نہ ہونا. یہی وجہ ہے کہ اس بحث کو نظرانداز نہیں کرسکتا.

اگر ہم بغیر کسی تعصب  اور ٹھنڈے دماغ  کے ساتھ امامت یا خلافت سے بحث کریں تو یہ مسلمانوں کے صفوں میں اتحاد اور اتفاق کا باعث ہے.ایک دوسرے کے عقائد سے بھی آگاہ ہوجائیں گے جس کے باعث  ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گے.

۹۵

امامت کی حقیقت شیعہ اور اہل سنت کی نظر میں

لغت میں امامت اسے کہا جاتا ہے جس کی اتباع اور پیروی کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا کتاب ہو ،  حق ہو یا باطل ہو .یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن انہی کے ساتھ انسان کو محشور کیا جائے گا :

يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ بِيَمینِهِ فَأُولئِكَ يَقْرَؤُنَ كِتابَهُمْ وَ لا يُظْلَمُونَ فَتیلاً . (1)

 قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر رائ برابر ظلم نہیں ہوگا.

لیکن اصطلاح میں امامت سے مراد رسول خدا (ص)کا جانشین ہے جو دین کی خاطر رسول کی جانب سے منتخب ہو جن کا اتباع کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہو.

امامت کو اصول دین میں کیوں شمار کیا جاتا ہے ؟

جواب شیعہ : ہم چونکہ امامت کو سلسلہ نبوت کی  ایک کڑی  سمجھتے ہیں  جس کے ساتھ اسے  بھی ذکر کرنا ضروری ہے

امامت کی خصوصیات 

شیعہ : وہی صفات کے حامل ہونا چاہئے کہ جس کا نبی یا رسول حامل ہوسواے  وحی کے .

اہل سنت: چار ہیں : عالم ہو، عادل ہو،  سیاسی امور سے آگاہ ہو ، اور حسن تدبیر کا مالک ہو.بعض نے کچھ اور اضافہ کیاہے جیسے : قریشی ہو، جسم کے سارے اعضاء و جوارح سالم ہو، شجاع اور دلیر ہو، بالغ ہو، مرد ہو،

--------------

(1):-  الاسراء : 71. 

۹۶

اشکال : کیوں ان خصوصیات کی تعداد میں اختلاف  ہے؟

 آیة اللہ جعفر سبحانی فرماتے  ہیں:کیونکہ انہوں نے نصوص میں دقت نہیں کی ہے:

الف:امامت کے متعلق نصوص دینی  کا مطالعہ ہی  نہیں کیا ہے .ان کے پاس جو نصوص موجود ہیں ان میں امامت کے متعلق ان مذکورہ شرائط کا تعین ہی نہیں کیا گیا ہے ان کے مذکورہ شرائط کا منبع استحسان اور اعتبارات عقلی ہیں عجیب بات تو یہ ہے کہ کیسے ممکن تھا کہ رسول خدا (ص)نے شرائط اور خصوصیات امام جیسی اہم  چیز کو بیان نہیں کیاہو اور امّت پر چھوڑ  گئے  ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے مکروہات اور مستحبات کو بھی مفصل بیان کیا ہے.

ب:ان کی بیان کردہ صفات ، عدالت والی صفت کے ساتھ تضاد  رکھتی ہیں.باقلانی  نے کہا : فاسق اور فاجر ہونے کی وجہ سے منصب امامت سے نہیں ہٹایا جاسکتا بلکہ اسے نصیحت اور  ہدایت کی جائے گی..(1)

ج:امیر المؤمنین(ع) کے بعد اکثر خلفاء ان صفات کے حامل نہیں تھے یعنی یہ لوگ امام حاضر کیلئے شرائط ڈھونڈتے ہیں لیکن شیعہ امامت کو نبوت کا سلسلہ مانتے ہیں لہذا وحی اور نبوت  کے سوا نبی کی تمام صفات کو امام کیلئے لازم سمجھتے ہیں .

د:مزید اشکالات: امام ہونے کے لئےقریشی ہونا شرط  رکھی گئی ، اس صورت میں غیر قریشی خلفاء کا کیا کروگے؟ اسی طرح عدالت کی صفت در حدوث یا در بقاء؟ اسی طرح عالم ہونے کی قید ذکر کی گئی تو جو جاہل خلفاء گذرے ہیں ان کا کیا گروگے؟جیسا کہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مروان کے پاس نہ علم تھا اور نہ دین تھا .

ان مباحث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  نے اپنے رسول کے  انتخاب کرنے میں کسی  سے رائے نہیں لی .یہ باتیں شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف کی وجہ تھیں، لیکن درج ذیل  چیز یں امامت کے بارے میں مورد اتفاق ہیں:

 الف: پیغمبر(ص) کے بعد کسی امام کا ہونا ضروری ہے

ب: پیغمبر(ص) کی جانب سے جو لوگوں پر حکومت کرے.

--------------

(1):-  الٰہیات،ص۵۰۸.

۹۷

اثبات امامت کی راہیں اور رکاوٹیں

شیعوں کے نزدیک تین راہیں  ہیں :

1.  اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب ہو۔

2.  رسول خدا(ص) کی طرف سے منتخب ہو.

3.  پہلا امام کی طرف سے منتخب ہو.

اہل سنت کے نزدیک  بھی تین راہیں ہیں:

1.  وہی تین راہیں جن کے شیعہ معتقد ہیں. لیکن ان میں سے صرف تیسری صورت وقوع پذیر ہوئی.

2.  حل و عقد ( قوم کا سردار، ریش سفید اور زمینداروں) امام کو منتخب کریں گے.لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سردار یا وڈیروں  اور قوم کے بزرگوں کی تعداد کتنی ہونے چاہئے؟ ایک یا دو یا تین یا چھ یا دس یا سو ؟!!

اہل سنت کے ہاں چار قول ہیں:

     کم از کم پانچ افراد ہونے چاہئے کیونکہ ابوبکر کو پانچ افراد نے  انتخاب کیا تھا.. شیعہ اشکال کرتےہیں :یہ تو نقض لازم آتا ہے ، کیونکہ عمر کو چھ افراد نے انتخاب کیا ہے .

     کم از کم دو  افراد ہونےچاہئے ، کیونکہ نکاح میں دو گواہ لازم ہے

     حد اقل ایک نفر ہونا چاہئے ، کیونکہ قاضی کا حکم نافذ ہے جب کہ وہ ایک سے زیادہ نہیں ہے .

شیعہ اشکال کرتے ہیں : اگر ایک شخص سو آدمی کو منتخب کرےتو کیا انہیں بھی قبول کریں گے؟ اس صورت میں علی (ع)کو بھی   اباذر، سلمان اور مقداد  نے اپنا امام منتخب کیا تھا ، تو انہیں کیوں نہیں بنائے گئے؟ شاید آپ جواب دیں گے:

 بائُکَ تجُر و بائی لا تَجُر.

 یعنی تیرا (با) زیر دیتا ہے لیکن میرا (با ) زیر نہیں دیتا.

۹۸

     شوری کے ذریعے امام کا انتخاب  کیا جا تا ہے اہل سنت کے دانشور حضرات کہتے ہیں کہ خلیفہ یا امام شوری کے ذریعے انتخاب کیا جاتا ہے جس پر دلیل قرآنی پیش کرتے ہیں:

 فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ الل ه لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَی الل ه إِنَّ الل ه يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِینَ. (1)

"پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کردو- ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے امر جنگ میں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے".

آیة شریفہ میں حکم ہوا ہے کہ اپنے مہم کاموں میں ایک دوسرے  کے ساتھ مشورہ کرو. اور امامت یا خلافت بھی ایک اہم کام ہے  اسی لئے ہم نے بھی باہمی مشورے سے اپنا خلیفہ انتخاب کیا ہے .

شیعہ اشکال کرتے ہیں : آیة شریفہ میں ہمارے اپنے کاموں میں  مشورہ کرنے کا حکم ہے لیکن امامت کا انتخاب کرنا ہمارا کام تو نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  کا کام ہے کہ وہ جس کا انتخاب کریں ، ان کی مرضی ہے  اس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے .دوسری دلیل یہ ہے کہ ہمارے  مشورے کے مطابق عمل کرنا رسول پر واجب نہیں ہے کیونکہ فرمایا : فتوکل علی اللہ. ثالثاً بنی عامر جب مسلمان ہوئے تو رسول خدا (ص)پر منت چڑھاتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ چونکہ آپ  ہماری وجہ سے قوی ہو گئے ہیں تو اپنے بعد آپ کا جانشین ہماری قوم سے ہونا چاہئے.تو اس وقت فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں  ہے جو جس کو چاہے منتخب کرے

--------------

(1):-  آلعمران ۱۵۹.

۹۹

لزوم امامت پر دلائل

سوال یہ ہےکہ امام کا ہونا کیوں ضروری ہے ؟

 جواب یہ کہ تین وجوہات کی بنا پر امام کا ہونا ضروری ہے :

۱.نبی کریم (ص)کے بعد مختلف علمی میدانوں جیسے تفسیر قرآن ، تبیین احکام، یہود و نصاری ٰکی طرف سے کئے جانے والے شکوک و شبہات  کا جواب دینے والا نیز دین مبین اسلام کو تحریفات سے بچانے والا موجود ہو.

۲.امّت اسلامی کیلئے اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق تھے .بیرونی خطرات جیسے  روم  کی حکومت کہ جن کے ساتھ بہت سی جنگیں لڑی  گئیں .اور ایران کے اس بادشاہ نے ایک دفعہ بہت ہی اہانت کے ساتھ یمن کے والی کو لکھا : تو دو نفر کو بھیج کر  ان ( رسول خدا (ص)) کو میرے پاس  لے آؤ.اندرونی خطرات جیسے منافقین کی جانب سے تھے جو ستون پنجم کے نام سے مشہور تھے جن کی مذمت میں مکمل سورہ  منافقون نازل ہوا .

حیران کن بات یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں کبھی ان منافقین نے سر نہیں اٹھایا جو رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہر وقت اسلام کے خلاف جنگ کرتے رہےل تھے ، لیکن جب علی کی خلافت کا دور آیا تو پھر انہوں نے سر اٹھایا جس کی وجہ سے علی کو خلافت کے پورے چار سال جنگ اور جہاد میں مصروف رہنا پڑا .

سوال: یہ کس بات کی دلیل ہے ؟!! کیا ایسا نہیں کہ ان کے دور خلافت میں منافقین کو آسائشی زندگی میسر ہوئی؟

۳.قاعدہ لطف  ، کہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو گمراہی اور ضلالت سے بچنے کیلئے نبی کے بعد کسی ہادی یا رہبر یا امام بھیجا جائے .

اس کا منطقی قاعدہ  یہ ہے :

پہلامقدمہ : امامت کا منتخب کرنا بندوں پر ایک لطف ہے.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255