شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات0%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 255
مشاہدے: 208413
ڈاؤنلوڈ: 5942

تبصرے:

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208413 / ڈاؤنلوڈ: 5942
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سنی: نہیں، لیکن مٹی میں اس تاثیر کو قبول کرنا ممکن نہیں.

شیعہ: اس میں کیا اشکال ہے کہ خدا نے شہدکی مکھی میں شفا قرار دیکر فرمایا:

ثمُ‏َّ کلُِی مِن کلُ‏ِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِی سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا  یخَْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مختَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِیهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ  إِنَّ فىِ ذَالِكَ لاََيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون‏. (1)

"اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نرمی کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے جس کے بعد اس کے شکم سے مختلف قسم کے مشروب برآمد ہوں گے جس میں پورے عالم انسانیت کے لئے شفا کا سامان ہے اور اس میں بھی فکر کرنے والی قوم کے لئے ایک نشانی ہے ".

 اسی خدا نے حضرت یوسف(ع) کی قمیص میں وہ اثر پیدا کیا جس کے ذریعے حضرت یعقوب(ع) کی آنکھوں کی بینائی پلٹ آئی:

فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِیرُ أَلْقَئهُ عَلىَ‏ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا  قَالَ أَ لَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنىّ‏ِ أَعْلَمُ مِنَ الل ه مَا لَا تَعْلَمُون‏. (2)

"اس کے بعد جب بشیر نے آکر کرتہ یعقوب(ع) کے چہرہ پر ڈال دیا تو دوبارہ بینا ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں خدا کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو".

جس خدا نے عصائے موسیٰ(ع) میں وہ اعجاز پیدا کرکے سب ساحروں کو مغلوب کیا ؛اسی خدا نے خاک کربلا میں بیماروں کیلئے شفا قرار دیا ہے.

--------------

(1):- نحل،69.

(2):-  یوسف96.

۶۱

وضو کے طریقے میں اختلاف

سوال:شیعہ وضو کے دوران ہاتھ کو کہنیوں سے انگلیوں کی طرف دھوتے ہیں لیکن اہل سنت برعکس، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب : شیعوں کے ہا ں صریح روایت موجود ہیں کہ آئمہ طاہرین(ع) نے انہیں یہی طریقہ سکھایا ہے. انہوں نے یہ طریقہ اپنے آئمہ طاہرین(ع) سے اخذ کیا ہے اور آئمہ طاہرین (ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے اخذ کیا ہے، اور اہل بیتؑ اپنے جد گرامی کی باتوں کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں کہ آپ کام کیسے کرتے تھے، جیسا کہ رسول اللہ(ص) بھی اسی طرح انجام دیتے تھے.

نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم

اشکال: شیعہ ہاتھ کھول کر نماز کیوں پڑھتے ہیں؟

 جواب: اہل سنت کے کسی بھی فرقے کے نزدیک ہاتھ باندھ کر پڑھنا واجب نہیں ہے.بلکہ سارے صحابہ ،عمر کے زمانے تک  ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے اور جب ان کا دور آیا تو انھوں نے ہاتھ باندھ کر پڑھنے کو واجب قرار دیا: قرطبی کہتا ہے :«اختلف العلماء فی وضع الیدین احدهما علی الاخری فی الصلاة فَكَرِهَ ذلک مالک فی‏الفرض واجازه فی النفل و رای قوم انّ هذا من سنن‏الصلاة و هم الجمهور». (1)

  عبداللّہ بن زبیر، حسن بصری ، ابن سیرین ، لیث بن سعد و ابراہیم نخعی وغیرہ ہاتھ کھول کر پڑھنے کے قائل تھے. پیغمبراکرم(ص) نماز میں ہاتھ نہیں باندھتے تھے اور جب علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تو مالک نے   واجب نماز میں ہاتھ باندھنا مکروہ اور مستحب نماز میں سنت قرار دیا اور یہی  جمہور اہل سنت کا نظریہ ہے...

--------------

(1):- بدایة المجتہد، ج 1، ص 136..

(2):- صحیح بخاری، ج 1، ص 135.

۶۲

عن ابی حازم عن سهل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعه الیسری فی الصلاة قال ابوحازم لا اعلمه الّا ان ینمی ذلک الی النَّبی» (1)

اور اس اختلاف کا سبب یہ تھا کہ کچھ صحیح روایات ہم تک پہنچی ہیں جن میں رسول خدا (ص)کی نماز پڑھنے کا طریقہ نقل ہوا ہے لیکن ان روایات میں     ہاتھ باندھنے کا طریقہ ذکر نہیں ہوا ہے جبکہ علماء حکم دے رہے ہیں کہ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کریں.  علمائے جمہور کی دلیل بحاری کی حدیث ہے  جس کے ذیل میں ابو حازم کہتا ہے مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس کاحکم کرنے والا رسول خدا(ص) ہے  یا کوئی اور ہے.اور ہاتھ باندھنے کا حکم جن روایات میں آیا ہے وہ سب مرسلہ ہیں.(2)

تراویح کیا ہے؟

جواب: ماہ رمضان کی نوافل میں ۲۰ رکعت نماز ہے جسے تراویح کہا جاتا ہے جسےباجماعت پڑھنے  یا نہ پڑھنے میں اختلاف ہے ۔بخاری لکھتے ہیں کہ اس بدعت کو حضرت عمر نے جاری کرتے ہوئے کہا:

 انّی اری لو جمعتُ هولاء عَلی قاری‏ءغ واحد، لکان امثل، ثمّ عزم فجمعهم عَلی ابیّ‏بن کعب، ثمّ خرجت معه لیلة اخری والناس یصلّون بصلاة قارئهم. فقال عمر: نعم البدعة هذه (3)

--------------

(1):- عمدة القاری 27/5، سیوطی. التوشیح علی الجامع الصحیح، 1/463 و نیل الاوطار، ج 2، ص 187.

(2):- بخاری، ج 1، ص 342.

(3):- ارشاد الساری، ج 4، ص 656. عمدة القاری، ج 11، ص 126.

۶۳

جب عمر نے لوگوں کو مسجد میں الگ الگ اس نماز میں مصروف دیکھا تو کہنے لگا : کتنا اچھا ہوتا اگر یہ سب باجماعت ادا کرتے.راوی کہتا ہے دوسری رات جب آئے اور لوگوں کو باجماعت  اسے پڑھتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا:یہ  کتنی اچھی بدعت ہے؟

عینی کہتا  ہے: حضرت عمر نے اس لئے بدعت کہا کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے کبھی اس تراویح کی نماز کو باجماعت ادا نہیں کی اور نہ ابوبکر  کے زمانے میں ادا  کی  گئی.(1)

راوی لکھای ہے: عمر سب سے پہلا شخص ہے جس نے۱۴ ہجری میں  رمضان کے نوافل کو باجماعت ادا کیا.(2)

الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم

اذان میں الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم تشریع اذان کے وقت تھا  یا بعد میں اضافہ کیا  ہے؟

جواب : یہ تشریع اذان کے وقت شامل نہیں تھا بلکہ بعد میں حضرت عمر نے اسے اضافہ کیا ہے. جس پر دلیل یہ ہیں:

الف: محمد بن اسحاق روایت کرتا ہے :یہ جملہالصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم، اس وقت موجود نہ تھا.

ب: سعید بن مسیب صریحاً لکھتا ہے: یہ جملہ(ادخلت هذه الکلمة فی صلاة الفجر) یعنی نماز صبح میں اضافہ کیا گیا ہے.(3)

ج:عن مالک: انّه بَلَغَهُ انّ الْمُؤَذِّنُ جاءَ الی عُمَرَ بنَ الْخَطّابَ يُؤْذنه لِصَلاة الصّبح، فَوَجَدَهُ نائِماً فَقالَ: الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ فَامَرَهُ عُمَرُ ان یجعَلَها فی نِداء الصّبح». (4)

--------------

(1):- ماثر الانافة فی معالم الخلافة، ج 2، ص 337.

(2):- نیل الاوطار، ج 2، ص 37.

(3):- الموطا ج 1، ص 72.

(4):- نیل الاوطار، ج 2، ص 38.

۶۴

 امام مالک نے لکھا ہے مؤذن حضرت عمر کے پاس آیا تاکہ اسے بتادے کہ  صبح کا وقت داخل ہوگیا تو حضرت عمر سورہا تھا اس نے اونچی آواز میں کہا:«الصلاة خیر من النوم؛» عمر نے حکم  دیا آج کے بعد سے نماز صبح کے اذا ن میں اس جملے کو ضمیمہ کیا جائے.

د: شافعی نے اس جملے کو ایک جگہ مکروہ اور دوسری جگہ بدعت قرار دیا ہے. اور شوکانی کہتا ہے :«لَو کانَ لما انکره عَلِیّ وابنُ عُمَر وَطاوس» (1)

 اگر یہ اذان کا جزء ہوتا تو کبھی بھی حضرت علی(ع) اور عبداللہ بن عمر اور طاؤس اس پر اعتراض نہ کرتے .ٍ

ہ: ابن حزم کہتا ہے:«لا نقول بهذا الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ لانَّهُ لم یات عن رسول اللّه (ص)». (2)

ہم یہ جملہ اذان میں نہیں کہتے کیونکہ یہ جملہ رسول خدا (ص) سے نقل نہیں ہوا ہے.

تشہد ثلاثہ  کی حقیقت کیا ہے ؟

تشہد میں علی ابن ابیطالب ؑ کی ولایت کا اقرار کرنا  ہے ، یہ بحث تقریباً ۱۵ یا ۲۰ سال سے چل رہی ہے ۔ اس کی ابتداء پاکستان کا صوبہ پنجاب سے ہوئی ہے ۔ جن کا کہنا ہے کہ اگرکوئی تشہد میں ولایت علیؑ کا اقرار نہ کرے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر گندھی زبان استعمال کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ کی نسل نہیں ہے ۔  اسی بہانے مجتہدین کرام پر  بھی لعن طعن کرتے ہیں اور جنہوں نے اپنی پوری زندگی احکام خدا و  رسول اور آئمہ طاہرین  ؑ کو حاصل کرنے اور ملت تشیع تک پہنچانے  میں صرف کی اور نصف صدیاں  اس اہم وظیفہ کے انجام دینے میں گزاری ، انہیں مقصر  کہتے ہیں اور خود جو تمام احکامات سے بے خبر ہوکر صرف اس بات پرکہ نماز میں اشہدان علیاً ولی اللہ پڑھتا ہوں، مؤمن کہلاتے ہیں۔

--------------

(1):-  المحلی، ج 3، ص 0 16.

(2):- عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة / ج1 / 198 ۔

۶۵

اگرچہ یہ نعرہ برحق ہے کہ علی کا ذکر عبادت ہے لیکن اس بابرکت نام  کو بہانہ بنا کریہ کہنا کہ  اس ہستی  کا نام لینے سے تیری نماز نماز نہیں ہوتی!! کیا علی اللہ کے ولی نہیں ہیں؟ تو اس کا اقرار کرنا کیا جرم ہے؟ وغیرہ وغیرہ ؛ صحیح نہیں  ہے۔ورنہ ہم بھی ولایت علی کا منکر کو شیعہ ہی نہیں سمجھتے۔ بلکہ ولایت علی کا انکار کرنے والے کو ناجی نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر نے کہا:

حب علی کا منکر دشمن ہے زندگی کا    یہ بھی اک طریقہ انسانی خودکشی کا

ایک اور شاعر کہتا ہے:

جائز نہیں شراب کوئی کائنات میں    اس بات میں گواہ خدا  کا  کلام ہے

لیکن جناب شیخ !یہ حب علی ؑکی مے     پینا نہیں حرام ،نہ پینا حرام ہے

اب آپ سے ایک سوال ہے کہ آپ کے پاس کونسی دلیل موجود ہے   جس کی بناء پر  یہ پاک ذکر نماز میں شامل کررہے ہیں؟ کیا رسول خدا (ص) نے یا کسی امام معصوم ؑنے ایسی تشہد کے ساتھ نماز پڑھی ہیں؟

کیا رسول گرامی نے ایسی نماز پڑھی ہے ؟ اگر پڑھی ہوتی تو سارے محدثین  نقل کرتے،جس طرح انہوں نے اس حدیث کو نقل کیا:

الاسوة به صلّی اللّه علیه و آله لقوله عزّ و جلّ‏«لَقَدْ کانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ الل ه أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کانَ يَرْجُوا الل ه وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ الل ه كَثِیرا

مِنَ السَّجْدَةِ الْأَخِیرَةِ فِی الرَّكْعَةِ الْأُولَی اسْتَوَی جَالِساً ثُمَّ قَامَ وَ اعْتَمَدَ عَلَی الْأَرْضِ وَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ص صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِی أُصَلِّی‏ (1)

--------------

(1):-

۶۶

اور جسے آپ دلیل کے طور پر لاتے ہیں وہ  فقہ الرضا میں مرقوم حدیث ہے جو پورا ایک صفحہ پر مشتمل ہے ، یا خود مجتہدین کی نقل کردہ روایات کو لاتے ہیں اور خود انہی  مجتہدین پر لعن کرتے ہو!!

خود انصاف سے بتائیں کہ شیعیت انہی مجتہدین کے ذریعے پھیلی ہے یا نعروں کے ذریعے ؟ بیسویں صدی میں ایک مجتہد  کی زحمتوں اور راہنمائی کا نتیجہ تھا کہ آج پوری دنیا میں شیعیت کا نام بلند ہوا  ، یہی وجہ ہے کہ آج ہر شیعہ فخر کے ساتھ اپنی شیعیت کا اظہار کرتا ہے اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی بت شکنؒ کے لئے دعائیں دیتا ہے۔ ان بزرگوں کا نام لینے کا مقصد یہ ہے کہ کبھی انہوں نے تشہد میں علی ابن ابیطالب ؑکی ولایت کا اقرار نہیں کیا۔ اگر یہ واجت تھا تو ان سینکڑوں مجتہدین حضرات کا کام ہی روایات  اور آیات کی روشنی میں احکامات کی جانچ پڑتال کرنا تھا، ان کی نگاہوں سے بھی وہ روایت گزرتی۔ 

دوسرا سوال آپ سے یہ ہے کہ صرف اس نعرہ کے علاوہ ولایت علی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ اگر ولایت علی  اور آل علی کی عظمت کو جاننا چاہتے ہوتو امام خمینی ؒ کی کتاب ۔۔۔ جو زیارت جامعہ کی شرح ہے اسے پڑھ لوورنہ آپ کا یہ نعرہ  بھی بالکل خوارج کا نعرہ (لاحکم الا للہ لاحکم الا للہ) کی طرح ہے جو علی کے خلاف بلند کر رہے تھے ۔ جبکہ علی بھی حکم خدا کو ہی رائج کرنا چاہتے تھے۔ اب آپ دیکھ لیجئے نعرہ کتنا اچھا ہے کہ اللہ کے حکم کے سوا کسی اور کا حکم ہمیں قبول نہیں ۔ اس سے سادہ لوح افراد بھٹک گئے۔اسی طرح علی کا نام تشہد میں لینے سے تیری نماز باطل ہوجاتی ہے ؟ ہم کہتے ہیں کہ جہاں نام لینے کا حکم ہے وہاں لینا چاہئے ، اور اپنی مرضی سے نہیں۔

تیسرا سوال آپ سے یہ ہے:اگر علی کا نام لینا واجب ہے تو باقی اماموں کا بھی نام لو۔ خصوصاً امام زمان ؑ کا جو ہمارے زمانے کے امام ہیں۔ اگر آپ باقی اماموں کے نام نماز میں نہیں لیتے تو کیا ان کی امامت اور ولایت کے منکر ہوگئے !!!

۶۷

ذرا عقل سے کام لو  کہ اس میں یقیناً دشمن کا ہاتھ ہے کہ ایسے لطیف نعروں کے ذریعے شیعیان حیدر کرار ؑ کے درمیان تفرقہ ڈال کر اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔اصلی دشمن کو پہچان لو  ۔ علماء اور مجتہدین آپ کے دشمن نہیں بلکہ خیر خواہ ہیں ۔

چوتھا سوال آپ سے یہ ہے :کیا دین کے محافظ  وہ لوگ ہیں  جو اسٹیج پر آکر علی ولی اللہ کا نعرہ لگاکے مؤمنین کو علماء اور مجتہدین کے خلاف  اکسا کر اپنی جیب بھر کر چلے جاتے ہیں؟ اگر  یہ لوگ اتنے دین کے مخلص ہیں تو بغیر فیس کے بھی کوئی مجلس پڑھ کر دکھائیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جب تک ان کے اکاونٹ میں فیس نہیں آتی ، مجلس حسین میں جانے کی زحمت نہیں کرتے ۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس میں مؤمنین کابھی قصور ہے کہ انہی لوگوں کو سننا پسند کرتے ہیں۔اور بانی مجلس کا قصور یہ ہے کہ نام و نمود کی خاطر کہ اتنے لوگ شریک ہوئے  یعنی لوگوں کا زیادہ جمع ہونا مجلس کا معیار سمجھتا ہے ۔

۶۸

پانچویں فصل

 شفاعت اور  توسل

سوال: کیا شفاعت کے جائز ہونے پر کوئی قرآنی دلائل موجود ہیں اور عقیدہ توحید کے ساتھ کس طرح سازگار ہے؟

جواب:اصل میں وہابیوں  کو جو غلط فہمی  ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اولیاء الٰہی (کہ جن کا اللہ تعالیٰٰ کے نزدیک بڑا مقام اور منزلت ہے( اور بے جان بتوں  کو ایک جیسا سمجھا ہے  جن میں نہ جان ہے اور نہ عقل و شعور.

 قرآن مجید میں مختلف آیتوں میں شفاعت کے جائز ہونے پر دلائل موجود ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

قالُوا یا أَبانَا اسْتَغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا إِنَّا كُنَّا خاطِئِینَ قالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّی إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ. (1)

 بٹواں نے کہا: اے ہمارے ابا! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لےا دعا کےیک ، ہم ہی خطاکار تھے۔(یعقوب نے) کہا: عنقریب مںذ تمہارے لےا اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا،وہ یقینا بڑا بخشنے والا،مہربان ہے۔

فہل کان النبی یعقوب (ع)مشرکاً؟

جب برادرن یوسف  نے اپنے بھائی کا مقام اور منزلت کا نظارہ کیا اور اپنا مکروہ کردار  اور اس کا نتیجہ دیکھ لیا تو اپنے باپ کے پاس جاکر طلب شفاعت کی تو  ان کے باپ نے بھی ان کی خواہش پر  لبیک کہا : انہوں نے کہا : بابا جان ہمارے لئے استغفار کرنا کہ ہم خطا کار ہیں تو بابا نے کہا: عنقریب تمہارے لئے دعا کروں گا میرا پروردگار غفور و رحیم ہے".

--------------

(1):- یوسف ۹۷-۹۸.

۶۹

 اب سوال یہ ہے کیا حضرت یعقوب پیغمبر(ع) مشرک تھے؟!

 اگر کوئی یہ کہہ دے کہ برادران یوسف نے شفاعت مانگی تو وہ لوگ خطا کار تھے اور ان کا عمل ہمارے لئے حجت نہیں! اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ شریعت کے خلاف ہوتا تو اللہ کا نبی اس سے انکار کرتے ، لیکن انہوں نے بھی مفسّرین کے کہنے کے مطابق شب جمعہ کا انتطار کیا. قرآن کہہ رہا ہے کہ جب گناہگار لوگ پیغمبر اکرم (ص)کے پاس توبہ کرنے اور استغفارکرانے کیلئے آئے تو اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے آیہ نازل ہوئی:

وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا الل ه وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا الل ه تَوَّاباً رَحِیماً (1)

 " کہ اگر یہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے کے بعد تمہارے پاس آئیں اور استغفار کریں اور تو بھی ان کے ساتھ ان کیلئے استغفار کرے تو اللہ تعالیٰٰ کو بڑا بخشنے والا اور مہربان پاؤگے". اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترغیب دلانا شرک ہے؟!

قرآن کریم منافقین کی مذمت  میں ارشاد فرمارہاہے:

وَ إِذا قِیلَ لَهُمْ تَعالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ الل ه لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ وَ رَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَ هُمْ مُسْتَكْبِرُونَ. (2)

فہل یدعو القرآن الکریم الکفار والمنافقین للشرک؟

"اور جب ان سے کہا جائے: آؤ کہ اللہ کا رسول تمہارے لےی مغفرت مانگے تو وہ سر جھٹک دیتے ہںا اور آپ دیںھس  گے کہ وہ تکبر کے سبب آنے سے رک جاتے ہںں" کیا قرآن کریم کفار اور منافقین کو دعا مانگنے کا حکم دے رہا  ہے؟

--------------

(1):-  نساء۶۴.

(2):- منافقون ۵.

۷۰

ہم جانتے ہیں کہ قوم لوط بدترین قوموں میں سے تھی اور جب شیخ الانبیاء ابراہیم (ع) نے ان کیلئے شفاعت کی کہ انہیں مہلت دی جائے تاکہ یہ لوگ توبہ کریں ؛ لیکن یہ لوگ پلیدگی اور برائی میں حد سے بڑھ گئے اور شفاعت کے قابل نہیں رہے تو ان کیلئے خطاب ہوا:

اے ابراہیم ان کیلئے اب طلب شفاعت کرنا چھوڑدو:

فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْراهِیمَ الرَّوْعُ وَ جاءَتْهُ الْبُشْری‏ يُجادِلُنا فِی قَوْمِ لُوطٍ إِنَّ إِبْراهِیمَ‏ لَحَلِیمٌ أَوَّاهٌ مُنِیبٌ یا إِبْراهِیمُ أَعْرِضْ عَنْ ه ذا إِنَّهُ قَدْ جاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَ إِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ. (1)

"پھرجب ابراہیم کے دل سے خوف نکل گیا اور انہیں خوشخبری بھی مل گئی تو وہ قوم لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے.بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے. (فرشتوں نے ان سے کہا) اے ابراہیم! اس بات کو چھوڑ دیں، بیشک آپ کے رب کا فیصلہ آچکا ہے اور ان پر ایک ایسا عذاب آنے والا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا".

آئمہ (ع)سےخارق العادہ افعال کی درخواست کرنا شرک

 آئمہ (ع)سے غیر عادی کاموں کی درخواست کرنا  کیا(جیسے ان سے شفا طلب کرنا) شرک  نہیں ہے ؟

جواب:

سب سے پہلے تو انبیاء اور آئمہ (ع)کے توسط سے خارق العادہ کام انجام پانے میں کوئی مشکل نہیں ہے.

--------------

(1):-  ہود ۷۴-۷۶.

۷۱

جب بھی کسی مخلوق سے کوئی مدد مانگتے ہیں تو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ان کی اصل قدرت اور طاقت قدرت الہی ہے. اللہ نے انہیں وہ قدرت عطا کی ہے جس کے ذریعے سے وہ یہ کام انجام دے سکتے ہیں تو اگر ہم ان اولیاء اللہ سے کوئی مدد طلب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے ہم ان کو اللہ کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دیتے ہیں جیساکہ قرآن کا حکم ہے :يَأَيُّهَا الَّذِینَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ الل ه وَ ابْتَغُواْ إِلَيْهِ الْوَسِیلَةَ وَ جَاهِدُواْ فىِ سَبِیلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. (1) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو.

ان کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اپنی علاج کیلئے  تو اسے ہم شرک کیوں نہیں  جانتے؟

اللہ  مستقیماً سنتا ہے توکسی مردے کو درمیاں میں لانے کی ضرورت؟!

ہم اہل بیت (ع)سے کیوں مدد طلب کرتے ہیں جبکہ اللہ مستقیماً  سننے والا ہے؟!

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکمُ‏ْ يُوحَی إِلىَ‏َّ أَنَّمَا إِلَاهُکمُ‏ْ إِلَاهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِیمُواْ إِلَيْهِ وَ اسْتَغْفِرُوهُ  وَ وَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِین‏ (2)

کہدیجئے: میں بھی تم جیسا آدمی ہوں، میری طرف وحی ہوتی ہے کہ ایک اللہ ہی تمہارا معبود ہے لھٰذا تم اس کی طرف سیدھے رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور تباہی ہے ان مشرکین کے لیے.

يَأَيُّهَا الَّذِینَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ الل ه وَ ابْتَغُواْ إِلَيْهِ الْوَسِیلَةَ وَ جَاهِدُواْ فىِ سَبِیلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون. (3)

--------------

(1):-  مائدہ 35.

(2):- فصلت 6.

(3):- مائدہ  35.

۷۲

ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ .

«اوُلئِكَ الّذینَ يَدعُونَ يَبتَغُونَ الی رَبِّهِمُ الوَسیلَهَ ايُّهُم اقرَبُ وَ يَرجوُنَ رَحمَتَ ه وَ يَخافُونَ عَذابَ ه انَّ عَذابَ رَبِّكَ کانَ مَحذُوراً». (1)

یہ جن کو خدا سمجھ کر پکارتے ہیں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسیلہ تلاش کررہے ہیں کہ کون زیادہ قربت رکھنے والا ہے اور سب اسی کی رحمت کے امیدوار اور اسی کے عذاب سے خوفزدہ ہیں یقیناً آپ کے پروردگار کا عذاب ڈرنے کے لائق ہے.

سیّد شرف الدین کی حاضرجوابی!

مرحوم آیت اللہ سیّد شرف الدین (صاحب کتاب المراجعات) ملک عبد العزیز کے دور حکومت میں حج پر تشریف لےگئے اور عید قربان کے دن سارے علماء بادشاہ  کو عید مبارک کہنے کیلئے شاہی محل میں جمع ہوگئے جب  سید کی نوبت آگئی تو آپ  نے ایک چمرے کی جلد  شدہ  قرآن مجید بطور تحفہ ان کو پیش کیا  تو بادشاہ نے اسے احتراماً چوما اور پیشانی پر رکھا تو سید شرف الدین ؓ نے ایک دم کہا : اےبادشاہ کیوں اس جلد کا بوسہ لیتے ہو جو بکری کی کھال  کا بنا ہوا ہے؟

اس نے کہا : میں اس کھال میں پوشیدہ قرآن کریم کی تکریم کررہا ہوں نہ کہ  اس کھال کی اس وقت آیة اللہ سید شرف الدین ؓ نے  بےدرنگ فرمایا: احسنت اے بادشاہ! ہم شیعیان بھی اس پنجرے اور کمرے کی تعظیم کیلئے نہیں چومتے بلکہ اس میں موجود رسول گرامی اسلام (ص) کے احترام اور تعظیم کی خاطر پنجرے کو چومتے ہیں .اس وقت سارے علماء نے تکبیر کےنعرے بلند کئے اور تصدیق کرنے لگے تو شاہ عبدالعزیز نےبھی مجبور ہوکر سارے حاجیوں کو رسول خدا(ص) کے آثار کو چومنے  کی اجازت دے دی لیکن جب ان کا ولیعہد آیا تو اس نے پھر اس قانون  پر پابندی لگا دی(2)

--------------

(1):- اسراء 57.

(2):- ماہنامہ موعود شمارہ 89 وپاسخ بہ شبہات(1)، ص: 4

۷۳

آئمہ(ع) کے توسط سے الہی افعال کا انجام پانا

اشکال : وہابی کہتے ہیں کہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ آئمہ خدائی کام کرتے ہیں تو یہ ان کے مشرک ہونے پر دلیل ہے.

 جواب:الف: ہمارا عقیدہ ہے کہ آئمہ(ع)        جو بھی انجام دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰٰٰ  ہی کے حکم اور اس کی اجازت سے انجام دیتے ہیں: لا حول و لا قوة الا باللہ ، بحول اللہ و قوتہ اقوم و اقعد. اللہ تعالیٰٰ اگر چاہے تو اپنے اولیاء میں سے کسی کو خارق العادہ کام انجام دینے کی قدرت عطا کرسکتا ہے اور اگر خدا کی طرح کوئی کام انجام دینے لگے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بھی خدا کی طرح ہوگئے.بلکہ انسان ایک برقی وسیلہ کی مانند ہے جب تک اس میں برق موجود ہے وہ کام کرتا رہے گا  اور جب بجلی کا کرنٹ اس سے الگ ہوجائے تو وہ بھی ناکارہ ہوگیا ،لیکن  یہ فعل انسان کا  ہے نہ اللہ کا عمل.

ب: اللہ کے نبیوں نے بھی ایسے خارق العادہ کام انجام دئے ہیں: جیسے:«وَ رَسُولًا إِلىَ بَنىِ إِسْرَ ءِیلَ أَنىِ قَدْ جِئْتُكُم بَايَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنىِ أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّینِ كَهَيَةِ الطَّیرِ فَأَنفُخُ فِیهِ فَيَكُونُ طَیرَا بِإِذْنِ الل ه وَ أُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ وَ أُحْىِ الْمَوْتىَ بِإِذْنِ الل ه وَ أُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْکلُونَ وَ مَا تَدَّخِرُونَ فىِ بُيُوتِكُمْ إِنَّ فىِ ذَالِكَ لَايَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ» (1) اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ میں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکہم خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور مبروص کا علاج کروں گا اور حکہم خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو- ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو.

--------------

(1):-  آل عمران 49.

۷۴

إِذْ قَالَ الل ه يَاعِیسىَ ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتىِ عَلَيْكَ وَ عَلىَ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُکلِ‏مُ النَّاسَ فىِ الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَ إِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَ الحِكْمَةَ وَ التَّوْرَئةَ وَ الْانجِیلَ وَ إِذْ تخْلُقُ مِنَ الطِّینِ كَهَيَةِ الطَّیرِ بِإِذْنىِ فَتَنفُخُ فِیهَا فَتَكُونُ طَیرَا بِإِذْنىِ وَ تُبرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ بِإِذْنىِ وَ إِذْ تخْرِجُ الْمَوْتىَ بِإِذْنىِ وَ إِذْ كَفَفْتُ بَنىِ إِسْرَ ءِیلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُواْ مِنهُمْ إِنْ هَاذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِینٌ (1)

 جب عیسیٰ بن مریم سے اللہ نے فرمایا: یاد کیجئے میری اس نعمت کو جو میں نے آپ اور آپ کی والدہ کو عطا کی ہے جب میں میں نے روح القدس کے ذریعے آپ کی تائید کی، آپ گہوارے میں اور بڑے ہو کر لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے آپ کو کتاب، حکمت، توریت اور انجیل کی تعلیم دی اور جب آپ میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے پھر آپ اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور آپ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے صحت یاب کرتے تھے اور آپ میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کر کے) نکال کھڑا کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو اس وقت آپ سے روک رکھا جب آپ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں نے کہا: یہ تو ایک کھلا جادو ہے.

قَالَ الَّذِی عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا ءَاتِیكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَءَاهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَاذَا مِن فَضْلِ رَبىِ لِيَبْلُوَنىِ ءَ أَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَ مَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَ مَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبىِ غَنىٌّ كَرِیمٌ (2)

--------------

(1):-  مائدہ 110.

(2):- نمل 40.

۷۵

جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں، جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر نعمت کرتا ہوں یا کفران اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار یقیناً بے نیاز اور صاحب کرم ہے.

ان قرآنی دلائل کی روشنی میں کیسے آپ شیعہ کو اس کے اعتقاد رکھنے پر کافر کہتے ہو؟!!!

قبور آئمہؑ کی زیارت شرک لیکن ابن تیمیہ کی زیارت؟

اگر شیعیان اپنے پیغمبر اکرم (ص)کی اولاد کی زیارت کرتے ہیں یا ان کا احترام کرتے ہیں تو  وہابی لوگ ان پر کفر اور شرک کا فتویٰ لگاتے ہیں جبکہ یہی لوگ ابن تیمیہ کے جنازے پر رومال پھینکتے اور تبرک کے طور پر اسے اپنے چہرے پر ملتے تھے تعجب اس بات پر ہے کہ ان کی عشق میں ان کے غسل میت کا بچا ہوا پانی تبرک کے طور پر پینے لگے اور آب سدر کو  آپس میں تقسیم کرکے لے گئے .ان کے جنازے میں خواتین بھی تھیں جو ان کے قبر پر آجایا کرتی تھیں یہاں تک کہ صبح ہوئی.(1)

سوال یہ ہے کہ اگر شیعہ قبور آئمہ طاہرین(ع) کی زیارت کرتے ہیں تو مشرک لیکن ابن تیمیہ کی قبر کی زیارت کرنے والے مؤمن ہونگے؟!!

--------------

(1):-  البدایہ و النہایہ (تاریخ ابن کثیر)، جلد 14، صفحہ 156، ناشر: داراحیاءالتراث العربی، بیروت.

۷۶

شیعہ آن لائن گزارش کے مطابق " محمد عبدالعظیم خلیف" اپنی داستان یوں بیان کرتا ہے کہ میں اپنے دوست کے ساتھ رسول خدا(ص)کے حرم میں داخل ہوا تو ایک مامور ہمارے پیچھے آنے لگا اور کہا : یہاں سے آگے جانا ممنوع ہے اور ہمیں  دوسرے دروازے کی طرف  بھیجا  ، اور  ہمارے پیچھے تین وہابی جوان آنے لگے اور پیچھے سے اتنے زور سے ٹھوکر مارے کہ ہم زمین پر گر پڑے  ہمارے چہرے پر بھی ٹھوکر مارنے لگے جس سے ناک سے خون بہنا شروع ہوگیا  پھر ہمیں پولیس کے حوالے کردئے کچھ دیر کے بعد میرے دوستوں کو رہا کردئے مجھے اکیلا وہاں روکے رکھا. اس کے بعد ہیئت امر بہ معروف و نہی ازمنکر کے کمرے میں لے گئے مغرب کا وقت گزرگیا سات افراد آئے اور کہنے لگے : یا اس بات کا اعتراف کرلو کہ شیعوں کے ساتھ یہاں ہنگامہ آرائی کرنے کیلئے آیا ہے یا کہہ دو کہ" شیخ جواد الحضری" کو چاقو مارا ہے. اور شیخ جواد الحضری شہر الاحساء کے ایک شیعہ مسجد کا پیش نماز تھا جسے پچھلے ہفتے میں ہیئت امر بہ معروف و نہی از منکرسے وابستہ افراد نے پیچھے سے چاقو مارے تھے محمد عبدالعظیم خلیف کہتا ہے کہ میں نے انکار کیا اور کہا میں جھوٹ نہیں بولوں گا  کہ میں مدینہ آیا ہوں فساد کرنےکیلئے یا میں نے شیخ جواد کو چاقو مارا ہو. پھر انہوں نے ایک جیل میں مجھے منتقل کیا جہاں ۲۰ شیعہ جوان پہلے سے  نظربند کئے ہوئے تھے ، ان پر بھی ایسی ہی تہمتیں لگائی ہوئی تھی ، ان میں سے کچھ جوانوں کو جانتا بھی تھا کہ اپنے گاؤں سے ان کا تعلق تھا اس کے بعد ہم سے تعہد لیا کہ آج کے بعد کبھی حرم رسول خدا (ص) میں داخل  نہیں ہونگے(1)

--------------

(1):-  1387/ 12/ 47: 12 11- MP شیعہ آنلاین. مطالب خواندنی، ص: 3.

۷۷

  زیارت پیغمبر(ص)کیلئےسفر کرنا گناہ

وافتی ابن تیمیه ان انشاء السفر لزیاره النبی غیر جائز، ویعد معصیه. وقد وصف زیارته بانها غیر واجبه باتفاق المسلمین، بل ولم یشرع السفر الیها، بل هو منهی عنه .(1)

ابن تیمیّہ نے اپنے ایک فتویٰ میں کہاہے کہ قبر رسول کی زیارت کے غرض سے سفر کرنا حرام ہے  کیونکہ یہ گناہ ہے اس کے بعد کہتا ہے کہ آپ کی زیارت واجب نہیں ہےجس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے بلکہ زیارت کیلئے سفر کرنا جائز نہیں ہے اور ممنوع ہے :

جبکہ ابن عمر اور دیگر صحابی شام کو فتح کرنے کے بعد رسول خدا(ص)کے مزار پر آکر سلام کئے  اور کہا:السلام علیک یا رسول الله (ص) .(2)

بت پرستوں اور شیعوں میں شباہت

وہابی کہتے ہیں کہ شیعہ اور بت پرستوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں  مخلوقات کو اللہ کی بارگاہ میں شفیع قرار دیتے ہیں اس وجہ سے دونوں مشرک ہیں.

جواب:بت پرست لوگ کہتے ہیں :لبیک لا شریک لک الا شریكٌ هو لک تملکه و ما ملک .(3) یعنی نہیں ہے تیرا کوئی شریک مگر وہ شریک کہ جس کی ہر چیز کا تو ہی مالک ہے.جبکہ شیعہ کسی کو بھی خدا کا شریک نہیں ٹھہراتا بلکہ شفیع قرار دیتا ہے جس کا جواز  قرآن کی رو سے ثابت کرچکے.

--------------

(1):- قاعدہ جلیلہ فی التوسل والوسیلہ، ص 73، اقتضاء الصراط المستقیم، ص 430

(2):- سُبکی، شفاء السقام: 44). وفاء الوفاء: 4/ 1340)

(3):- کافی/ 4/ 542، مستدرک الوسایل 9/ 195، بحار النوار 3/ 253:

۷۸

وَ لَئِن سَأَلْتَهُم مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ و سَخَّرَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللهُ فَانّی يُوفَکوُنَ .(1)

اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو کس نےمَسخّر کیا ہے تو فورا کہیں گے کہ اللہ,تو یہ کدھر بہکے چلے جارہے ہیں.

وَ لَئنِ سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ الل ه قُلِ الحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ. (2)

اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ، تو پھر کہئے کہ ساری حمد اللہ کے لئے ہے اور ان کی اکثریت بالکل جاہل ہے.

وَ لَئنِ سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ الل ه   قُلْ أَ فَرَءَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ الل ه إِنْ أَرَادَنىِ‏َ الل ه بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنىِ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبىِ‏َ الل ه عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَکلُِّون‏ (3) اور اگر آپ ان سے سوال کریں گے کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ اللہ  تو کہہ دیجئے کہ کیا تم نے ان سب کا حال دیکھا ہے جن کی عبادت کرتے ہو کہ اگر خدا نقصان پہنچانے کا ارادہ کرلے تو کیا یہ اس نقصان کو روک سکتے ہیں یا اگر وہ رحمت کا ارادہ کرلے تو کیا یہ اس رحمت کو منع کرسکتے ہیں - آپ کہہ دیجئے کہ میرے لئے میرا خدا کافی ہے اور بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں.

--------------

(1):-  عنکبوت 61.

(2):- لقمان 25.

(3):- زمر 38۔

۷۹

1- آسمان و زمین کے خالق اور بارش کانازل کرنے والا اور سبزے اگانے والا صرف خدا ہے (61 عنکبوت، 25 لقمان، 38 زمر)

: وَ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ الل ه مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَ لَا يَنفَعُهُمْ وَ يَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ الل ه   قُلْ أَ تُنَبُِّونَ الل ه بِمَا لَا يَعْلَمُ فىِ السَّمَاوَاتِ وَ لَا فىِ الْأَرْضِ  سُبْحَانَهُ وَ تَعَالىَ‏ عَمَّا يُشْرِكُون. (1)

اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم تو خدا کو اس بات کی اطلاع دےرہے ہو جس کا علم اسے آسمان و زمین میں کہیں نہیں ہے وہ پاک و پاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے.

 2.بت پرست لوگ اپنے بتوں کو خدا کے نزدیک شفاعت کرنے والے مانتے ہیں. (یونس ۱۸)

اولًا:  تو یہ ہے کہ انہوں نے بتوں کو اپنے ہاتھوں سےہی  بنا کر اپنا شفیع قرار دئے ہیں اور ان کی باتوں کا کوئی مبنا نہیں ہے

ثانیاً : سورہ یونس ۱۸ کی رو سے یہ لوگ غیر خد اکی عبادت کرتے ہیں کہ بڑے بت کو مستقل طور پر طاقت اور قدرت کے قابل  سمجھتے ہیں .اور بت کے سامنے خضوع اور خشوع کرنے لگتے ہیں.اور ان کا خدا بھی تو ایسا خدا نہیں جس کو مسلمان خدا مانتے ہیں،بلکہ ان کا خدا جز رکھتا ہے( 15 زخرف)،ملائک کو اللہ تعالیٰٰ کی بیٹیاں  مانتے ہیں( 40 اسراء)، اور اللہ تعالیٰٰ کیلئے ہمتا کے قائل ہوتے ہیں. (8 زمر).

الا لِلّهِ الدّینُ الخالِصُ وَ الَّذینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ ه اولیاءَ ما نَعبُدُهُم الّا لِيُقَرِّبوُنا الَی اللهِ زُلفی انَّ اللهَ يَحكُمُ بَینَهُم فی ما هُم فیهِ يَختَلِفُونَ انَّ اللهَ لا يَ ه دی مَن هُوَ کاذِبٌ كَفّارٌ (2)

--------------

(1):-  یونس (18)

(2):-  زمر (3).

۸۰